فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 125690
ڈاؤنلوڈ: 6308


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125690 / ڈاؤنلوڈ: 6308
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

6۔حافظ ابوالحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان ہیثمی(1) 7۔ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابوبکر شیبہ کوفی(2)

8۔حافظ ضیاءالدین ابوعبداللہ محمد بن عبدالواحد بن احمد حنبلی مقدسی(3) 9۔حافظ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم ضبی نیشاپوری(4)

10۔حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب طبرانی و غیرہ(6)

بہت سے گوں نے((اللھم و آل من والاہ))کی دعا کے ساتھ((وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ))(مالک تو اس کی مدد کرنا جو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کرے)اس دعائیہ جملہ کی بھی روایت کی گئی ہے کہ سرکار نے حدیث من کنت میں یہ بھی فرمایا تھا بعض طرق حدیث سے اس کی روایت کی گئی ہے اور ایک جماعت نے اس کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے:

1۔ابوالمحاسن یوسف بن موسیٰ حنفی(7) 2۔حنبلی فرقہ کے امام ابوعبداللہ احمد بن حنبلی شیبانی(8)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع الزوائدج:9ص:108،107،106،105،104،کتاب مناقب،باب مناقب علیؑ

(2)مصنف ابن ابی شیبہ ج:6ص:368۔369۔372،کتاب فضائل،فضائل علیؑ

(3)الاحادیث المختارہ ج:2ص:106،105،فیما رواہ سعید بن وھب الھمدانی عن علیؑ

(4)مستدرک علی صحیحین ج:3ص:118،کتاب معرفت صحابہ،مناقب علیؑ،ص:126،کتاب معرفت صحابہ ص:419،کتاب معرفت صحابہ،فی ذکر مناقب طلحۃ بن عبیداللہ التیمی

(5)مسند ابی عیلی ج:1ص:429،مسند علی بن ابی طالبؑ ج:11ص:308

(6)معجم الصغیرج:1ص:119،باب من اسمہ احمد،معجم الکبیرج:4ص:16،ص:173،ج:5ص:170،ص:171،ص:175،ص:192،ص:193،ص:194ص:195،عطیہ عوفی نے زید بن ارقم سے روایت کی ہے

(7)معتصر المختصرج:1ص:307،کتاب النکاح:کراھۃ التزویج علی فاطمہ

(8)مسند احمدج:1ص:119،مسند علی بن ابی طالب علیہما السلام میں

۲۴۱

3۔حافظ ابوالحسن علی بن ابوبکر سلیمانی ہیثمی(1)

4۔علی بن برہان الدین شافعی حلبی(2)

ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ہیں،یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ سرکارؐ نے جس خطبہ غدیر میں مولائے کائناتؑ کی ولایت پر نص فرمائی تھی اس خطبہ میں عترت و کتاب والی حدیث ثقلین بھی شامل ہے یا یہ کہ اسی خطبہ میں اعلان ولایت کے بعد حدیث ثقلین عنایت فرمائی۔

ممکن ہے کہ اختلافات نقل کی جہت سے بھی ہوسکتے ہیں یعنی نقل بالمعنی یا بہت زمانہ گذر جانے کی وجہ سے بھی ہوسکتے ہیں کہ راوی نظم کلام یا تسلسل بھول گیا یا یہ کہ خطبہ کے کچھ فقرے بھول گیا۔

بہرحال جو بھی وجہ ہو لیکن حدیث ثقلین بھی اس خطبہ میں ہے اس کی بعض طرق حدیث سے روایت کی گئی ہے اور ایک جماعت نے ذکر بھی کیا ہے ملاحظہ ہو..

1۔حافظ ابوعبدالرحمٰن شعیب نسائی(3) 2۔حافظ ابوالحسن علی بن ابوبکر بن سلیمان ہیثمی(4) 3۔حافظ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم ضبی نیشاپوری(5) 4۔حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب طبرانی(6) 5۔ابوالحسن علی بن عمر بن حمددار قطنی(7)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع الزوائدج:9ص:105،کتاب المناقب:باب مناقب علی بن ابی طالبؑ فی باب قولہ((من کنت مولا فعلی مولاہ))

(2)السیرۃ الحلبیۃج:3ص:308،حجۃ الوداع

(3)سنن کبریٰ نسائی ج:5ص:308،کتاب المناقب:فضائل علیؑ مین

(4)مجمع الزوائدج:9ص:164،کتاب المناقب:باب فضائل اہل بیت علیہم السلام میں

(5)مستدرک علی صحیحین ج:3ص:118،کتاب معرفۃ الصحابۃ:مناقب امیرالمومنینؑ میں

(6)معجم الکبیرج:5ص:171

(7)جزءابی طاہر،ص:50

۲۴۲

6۔حافظ عمادالدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر شافعی دمشقی(1)

7۔علی بن برہان الدین شافعی حلبی و غیرہ(2)

خطبہ غدیر میں اور بھی بہت سے فقرے ہین جن کے بارے میں فی الحال ہم گفتگو کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔

واقعہ غدیر میں اکمال کا نزول

6۔غدیر خم میں جب سرکار دو عالمؐ نے علیؑ کی ولایت کی تبلیغ فرمائی تو یہ آیت نازل ہوئی:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا) (3)

ترجمہ:آج کے دن ہم نے تمہارے دین کو کامل کیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کیں اور تمہارے لئے دین اسلام پر راضی ہوا۔

شیعہ امامیہ کا یہی مسلک ہے اور انھوں نےاس سلسلے میں آئمہ اہل بیت علیہ السلام کو اپنا مرجع بنایا ہے اور انھیں حضرات علیہم السلام سے روایتیں لی ہیں۔

اہل سنت میں ابوسعید خدری،ابوہریرہ،زید بن ارقم اور مجاہد نے مانا ہے کہ یہ آیت غدیرخم میں اعلان ولایت کے بعد نازل ہوئی اور شیخ نے اس آیت کے ذیل میں اہل سنت کے علما کے بہت سے نام پیش کئے ہیں۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)البدایۃ و النہایۃ ج:5ص:209،فصل فی ایراد الحدیث...من حجۃ الوداع،اسی طرح،ج:7ص:348،(سنۃ اربعین من الہجرۃ النبویہ)باب ذکر شئی من فضائل امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ میں

(2)السیرہ الحلبیۃج:3ص:308،حجۃ الوداع میں

(3)سورہ مائدہ آیت:3

(4)الغدیر فی کتاب و السنۃ و الادب ج:1ص:238،230،

۲۴۳

جو اس بات کے قائل ہیں کہ اس آیت کی شان نزول غدیر ہے ان علما میں ابونعیم اصفہانی ہیں آپ نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام((مانزل من القران فی علی))(یعنی قرآن میں جو علی کے بارے میں نازل ہوا)وہ اپنی اسناد سے ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالمؐ نے غدیرخم میں لوگوں کو علیؑ کی طرف بلایا ببول کے درختوں کے نیچے جو کانٹے و غیرہ تھے ڈال کر اٹھایا اور اتنا بلند کیا کہ لوگ پیغمبر کے بغل کی سفیدی دیکھنے لگے پھر لوگ ابھی متفرق نہیں ہوئے تھے کہ یہ آیہ((اکملت))نازل ہوئی پس سرکار نے فرمایا کہ:دین کے کامل ہونے،نعمت کے تمام ہونے،پروردگار کی میری رسالت کے پسند کرنے،اور علی کی ولایت پر راضی ہونے پر خدا کی تکبیر کرتا ہوں،پھر فرمایا:جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں،پالنےوالے تو اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے،اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کرے،پھر حسان بن ثابت کھڑے ہوئے اور پوچھا،کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ علیؑ کے سلسلہ میں چند شعر پڑھوں آپ سنیں گے آپ نے فرمایا:خدا کی برکت ہو،بسم اللہ،پڑھو،حسان کھڑے ہوئے اور بولے:

اے قریش کے سردارو!میں شہادت پیغمبرؐ کے ساتھ اس ولایت کا بھی قائل ہوں جو ابھی پیش کی گئی یعنی((اشھد ان محمداً رسول کے ساتھ علی ولی اللہ))بھی کہوں گا پھر آپ نے کچھ اشعار پڑھے جو پیش کئے جائیں گے۔(1)

یوم غدیر کے بارے میں ابوہریرہ کی حدیث بھی پیش کی جائےگی۔

لیکن ابن کثیر کہتے ہیں کہ ابن مردویہ نے ہاروں عبدی سے اور انہوں نے ابوسعید خدری سے روایت کی ہے کہ آیہ((اکمال دین))غدیرخم میں نازل ہوئی جب حضورؐ نے علیؑ کے لئے فرمایا کہ میں جس کا مولا ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں پھر وہ ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ زی الحجہ کی18تاریخ

-----------------

(1)الغدیر فی الکتاب و النسۃ و الادب،ج:1ص:232

۲۴۴

تھی ابوہریرہ کی مراد یہ ہے کہ جب حضور حجۃ الوداع سے واپس ہورہے تھے اس وقت کا یہ واقعہ ہے لیکن صحیح تر جو ہے وہ یہ ہے کہ یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی اس کی روایت عمر بن خطاب اور علی ابن ابی طالبؑ نے کی ہے اور اسلام کے پہلے بادشاہ معاویہ اور ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس اور ثمرہ بن جندب نے بھی یہی روایت کی ہے۔(1)

سیوطی کہتے ہیں کہ ضعف سندوں کے ساتھ ابن مرودویہ اور عساکر نے ابوسعید خدری سے نقل کیا ہے کہ:جب پیغمبرؐ نے علیؑ کو غدیرخم میں کھڑا کیا پس آپ نے علیؑ کی ولایت کا اعلان کیا تو جبرئیل یہ آیت لےکر نازل ہوئے۔

اور ابن مردویہ،خطیب اور ابن عساکر نے ضعیف اسناد کے ساتھ ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ جب غدیرخم کا دن آیا(وہ اٹھارہ ذی الحجہ تھی)تو آپ نے فرمایا:جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں،پس خداوند کریم نے آیہ اکمال دین نازل فرمائی۔( 2 )

شیخ امینی نے ان دونوں راویوں کو بعد میں ذکر کر کے جواب بھی دیا ہے اور اہل سنت کے معیار جرح و تنقید پر اس حدیث کو صحیح ثابت کیا ہے۔(3)

انشااللہ یہ گفتگو اس وقت پیش کی جائےگی جب یوم غدیر کے بارے میں خطیب بغدادی سے حدیث میں قوت کا رجحان حدیث ابوہریرہ میں پایا جاتا ہے۔

یہ باتیں پیش بھی نہیں کرنا چاہتا اس لئے کہ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ اہل سنت کے یہاں واقعہ غدیر کا تذکرہ شدت کیا گیا ہے اس بات کو میں آپ کے سامنے پیش کروں احادیث سے احتجاج میرا ہدف نہیں ہے۔

---------------

(1)تفسیر ابن کثیر،ج:2ص:15،آیت کی تفسیر میں

(2)الدر المنثورج:2ص:259،آیت کی تفسیر میں

(3)الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب،ج:1ص:402

۲۴۵

ہادی اعظم نے علیؑ کے سر پر عمامہ باندھا

7۔اس موقع پر حضور کائناتؐ نے علیؑ کے سر پر عمامہ باندھا۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ سرور کائناتؐ نے غدیر کے دن میرے سر پر عمامہ باندھ کر پیچھے کی طرف شملہ چھوڑ دیا پھر فرمایا:اللہ نے بدر و حنین کے دن جب فرشتوں سے میری مدد کی تھی وہ یہی عمامہ باندھے ہوئے تھے فرمایا عمامہ کفر اور ایمان کے درمیان حد فاصل ہے۔(1)

حاضرین نے غدیرخم میں علیؑ کو مبارک باد دی

8۔حدیث،تاریخ اور تفسیر کے بہت سے علما نے لکھا ہے کہ سرکار دو عالمؐ نے ولایت علیؑ کی نص فرمائی تو حاضرین نے مولائے کائناتؑ کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کیا اس بات کو لکھنےوالوں میں۔

1۔ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی بکر شیبہ کوفی ہیں وہ براء بن عازب سے نقل کرتے ہیں کہ ہم سفر میں پیغمبرؐ کے ساتھ تو تھے پس جب ہم غدیرخم میں اترے تو حضورؐ نے نماز جماعت کا اعلان کرایا سرکار دو عالمؐ کے لئے درختوں کے نیچے صفائی کردی گئی آپ نے وہاں ظہر کی نماز پڑھائی اور علی کا ہاتھ تھام کر لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم لوگ نہیں مانتے کہ میں مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں انھوں نے کہا ہاں پھر پوچھا کہ کیا تم نہیں مانتے کہ میں ہر مومن پر اس کے نفس سے زیادہ حق رکھتا ہوں لوگوں نے کہا ہاں،آپ نے علی کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا جس کا میں مولا ہوں علی اس کے مولا ہیں،پالنےوالے تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سنن کبریٰ بیہقی ج:10ص:14،کتاب السبق و الرمایۃ:باب التحریض علی الرمی اور اسی طرح مسند الطیالسی ج:2ص:23،احادیث علی بن ابی طالبؑ میں،الکامل فی الضعفاءج:4ص:173،حالات عبدالبشر بن الشامی میں،الاصابۃج:4ص:25،حالات عبدالبشر بن الشامی میں،تحفۃ الاحوذی،ج:5ص:336،ابواب اللباس:باب فی سدل العمامۃ بین الکتفین

۲۴۶

براء نے کہا اس وقت عمر اٹھے اور علی کے پاس گئے اور کہنے لگے علی آپ کو مبارک ہو آپ ہر مومن و مومنہ کے مولا ہوگئے۔(1) 2۔امام حنابلہ،ابوعبداللہ احمد بن حنبل شیبانی ہیں،امام صاحب نے اس حدیث کو اسناد کے ساتھ براء بن عاذب سے لیا اور انہوں نے ابن شیبہ سے لیا ہے۔لیکن ان کی حدیث میں((اللھم و آل..))والا دعائیہ جملہ نہیں ہے۔(2)

3۔ابوبکر احمد بن خطیب بغدادی متوفی463؁ہیں انہوں نے ابوہریرہ کے حوالہ سے روایت کی ہے(3) اور اس کا بیان یوم غدیر کے بارے میں گفتگو تو لکھا جائےگا۔

4۔حافظ شہاب الدین احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیثمی سعدی انصاری متوفی974؁ہیں کہتے ہیں کہ:یہ وہ معنی ہے جس کو ابوبکر اور عمر نے سمجھا اور آپ کو مبارک باد دی۔اور میں ان حدیث تمہارے سامنے رکھتا ہوں جب ان لوگوں نے پیغمبر سے((من کنت مولاہ))کا جملہ سنا تو دونوں نے مولائے کائنات سے کہا اے علی آپ ہر مومن اور مومنہ کے مولا ہوگئے اس حدیث کو دارقطنی نے بھی روایت کیا ہے۔(4) 5۔حافظ عمادالدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر شافعی دمشقی(5)

6۔ابوعبداللہ محمد بن عمر بن حسن فخر الدین رازی شافعی متوفی606؁نے لکھا ہے کہ اس آیتیا ایها الرسول بلغ کے نزول کے ذیل میں جو اقوال آئے ہیں انھیں اقوال میں سے دسواں قول یہ ہے۔(6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مصنف ابن ابی شیبہ ج:6ص:372،کتاب فضائل،فضائل علی بن ابی طالبؑ

(2)مسند احمدج:4ص:281،حدیث براء بن عاذب میں

(3)تاریخ بغدادج:8ص:290،حبثون بن موسیٰ بن ایوب کے حالات میں

(4)الصواعق محرقہ ص:42،گیارہویں شبہ کے جواب میں تیسری وجہ میں

(5)البدایۃ و النھایۃج:5ص:229،ایسی حدیث کی فصل میں جو دلالت کرتی ہے کہ آنحضرتؐ نے مکہ اور مدینہ کے درمیان خطاب فرمایا حجۃ الوداع کے وقت ہے اور وادی جحفہ سے قریب ہے جیسے غدیرخم کہا جاتا ہے

(6)سورہ مائدہ آیت:67

۲۴۷

آیہ اکمال علی ابن ابی طالبؑ کی فضیلت میں نازل ہوئی کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سرکارؐ نے علی بن ابی طالبؑ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:میں جس کا مولا ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں پالنےوالے جو ان سے دوستی رکھے تو بھی اس سے دوستی رکھ اور جو ان سے دشمنی کرےتو بھی اس سے دشمنی رکھ،پس عمر نے حضرت علیؑ سے ملاقات کی اور کہا اے ابوطالب کے بیٹے آپ کو مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومنین و مومنات کے مولا ہوگئے اور یہی قول ابن عباس اور براء بن عازب اور محمد بن علی کا بھی ہے۔(1)

شیخ امینی نے ساٹھ راویوں تک کا شمار کیا ہے لیکن مجھے اختصار اجازت نہیں دیتا کہ تفصیل میں جاؤں۔

واقعہ غدیر کے دن حسان بن ثابت کا معرکۃ الآراء قصیدہ

9۔حسان بن ثابت اس تاریخی واقعہ کے پس منظر میں مندرجہ ذیل اشعار پڑھے۔

غدیرخم میں ان کا نبی انہیں آواز دے رہا تھا اور میں نبی کا اعلان سن رہا تھا میں نے بھی جواب دینے میں چشم پوشی نہیں کی اور کہا آپ کا خدا ہمارا مولا ہے اور آپ ہمارے ولی ہیں اور مقام ولا میں آپ ہمیں نافرمان نہیں پائیں گے۔

پس آپ نے فرمایا علی اٹھو،بیشک میں اپنے بعد تمہاری امامت اور رہبری پر راضی ہوں۔

پس جس کا میں مولا ہوں یہ بھی اس کا مولا ہے تم لوگ اس ک سچے ناصر اور چاہنےوالے بن جاؤ یہیں پہ سرکار دو عالمؐ نے دعا کی پالنےوالے تو اس محبت کر جو علی کا دوست ہے اور اسے دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔

تمام اہل حدیث اور دوسروں نے اس قصیدے کو نقل کیا ہے اگر چہ اشعار کی تعداد میں اختلاف ہے،جب کہ بعض الفاظ میں اختلاف ہے لیکن یہ اختلاف کچھ اہم نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تفسیر کبیرج:12،ص:50،49

۲۴۸

1۔حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی متوفی430؁ہجری،اپنی کتاب مانزل من القرآن فی علی میں اس حدیث کے تتمہ میں لکھا ہے کہ اکمال دین کی آیت غدیر میں نازل ہوئی۔

2۔موفق بن احمد بن محمد مکی خواررمی متوفی568؁غدیر کا واقعہ لکھنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ حسان بن ثابت نے کہا کہ سرکار مجھے اجازت ہے کہ میں اشعار پڑھوں آپ نے فرمایا:خدا کی برکت ہے پڑھو،حسان کھڑے ہوئے اور کہا:اے قریش کے بزرگو!شہادت رسالت کے کلمہ کو سنو!پھر حسان نے مندرجہ بالا اشعار پڑھے۔(1) 3۔جمال الدین بن یوسف بن حسن زرندی،حنفی مدنی متوفی750؁(2) 4۔حافظ عبداللہ المرزبانی محمد بن عمران خراسانی اپنی کتاب مرقاۃ الشعر میں حسان کے یہ اشعار غدیر کے دن کے حوالے سے شیخ امینی کے بیان کے مطابق لکھے ہیں۔(3)

5۔حافظ جلال الدین ابوالفضل عبدالرحمٰن بن ابوبکر سیوطی نے پنے رسالہ((الازدھار فیما عقد الشعراء من الاشعار))میں یہ اشعار تحریر کرتے ہیں اور غدیرخم ان اشعار کا تذکرہ کیا ہے جیسا کہ شیخ امینی نے لکھا ہے۔(4) تو جناب عالی یہ ہے غدیر کے اہم واقعات اب کچھ اور باتیں رہ گئیں ہیں جن کا لگاؤ غدیر سے ہے۔

غدیر کا روزہ

1۔شیعوں کے یہاں غدیر کا روزہ آئمہ اہل بیتؑ کی ہدایتوں کی بنیاد پر مستحب ہے(5)

اہل سنت کے یہاں بھی ابوہریرہ کے حوالہ سے غدیر کے روزے کے بارے میں روایت ملتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مناقب خوارزمی ص:136،حدیث152(2)نظم دررالسمطین ص:113،112(3)الغدیرج:2ص:34

(4)الغدیرج:2ص:36

(5)وسائل الشیعہ:ج:7ص:322،کتاب الصوم،باب 14،مستحب روزوں کے ابواب میں سے اور بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ یہ روزہ ساٹھ ماہ کے روزوں کے برابر ہے،حدیث10،2

۲۴۹

ابوہریرہ نے آیۂ اکمال کا تذکرہ کرتے ہوئے غدیر کے روزے کی صراحت کی ہے ابوہریرہ سے جن لوگوں نے صوم غدیر والی روایت نقل کی ہے ان میں خطیب بغدادی ہیں وہ اپنی سند کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ابوہریرہ نے کہا کہ اٹھارہ ذی الحجہ کا روزہ ساٹھ مہینوں کے روزوں کے برابر ہے جو غدیر کا روزہ رکھے اس کو ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب ملےگا۔

غدیر کا دن وہی دن ہے جب حضورؐ نے علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر مسلمانوں سے پوچھا تھا کہ کیا میں مومنین کا ولی نہیں ہوں لوگوں نے کہا ہاں اے خدا کے رسول آپ نے فرمایا:جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں پس عمر نے کہا اے ابوطالب کے بیٹے آپ کو مبارک ہو مبارک ہو آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ہوگئے پس یہ آیت نازل ہوئی: (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا) (1)

اور جو27/رجب کا روز رکھےگا اس کو ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب ملےگا۔

27/رجب وہ پہلا دن ہے جب محمدؐ پر جبرئیل رسالت کا پہلا پیغام لائے تھے۔

پھر خطیب لکھتے ہیں کہ یہ حدیث جبثون کی روایتوں میں مشہور ہے اور وہ اس کا تنہا راوی ہے اس حدیث میں احمد بن عبداللہ بن نیری نے اس کی متابعت کی ہے اس روایت کو اس نے علی بن سعید سے بیان کیا ہے اس کی خبر مجھے ازہری نے دی ہے،مجھ سے محمد بن عبداللہ بن اخی میمی نے اس کو لکھوایا یا احمد بن عبداللہ بن احمد بن عباس بن سالم نے اس کو مہران سے جو ابن نیری کے نام سے مشہور ہیں اس سے علی ابن سعید شامی نے س سے ضمرہ بن ربیعہ نے اس سے ابن شوذم نے،اس سے مطرنے،اس سے شہر ابن شامی نے،اس سے ابوہریرہ نے کہ جو اٹھارہ ذی الحجہ کا روزہ رکھے اس کو ساٹھ مہینوں روزے کا ثواب ملےگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ مائدہ آیت:3

۲۵۰

اکمال دین والی آیت پر جب گفتگو ہورہی تھی تو میں نے اشارتاً عرض کیا تھا کہ اس صوم غدیروالی حدیث کی صحت میں اختلاف ہے۔

حارث بن نعمان فہری کا واقعہ ((سئل سائل بعذاب واقع))

2-(سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ-لِّلْكَافِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ-مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ)(1)

ترجمہ:ایک سائل نے کافروں پر واقع ہونےوالے عذاب کا سوال کیا جو بلندیوں والے خدا کی طرف سے آتا ہے اور اس کو روکنےوالا کوئی نہیں۔اس آیت کی شان نزول ملاحظہ ہو جب غدیرخم کا واقعہ اور اس دن مولا علی کے سلسلہ میں سرکار نے جو کچھ فرمایا تھا وہ بات شہروں میں پھیل گئی تو یہ بات حارث بن نعمان فہری تک بھی پہونچی پس وہ حضور کی خدمت میں ایک ناقہ پر سوار ہو کر آیا اور ایک نالے میں اپنے ناقہ سے اترا اور اسے بٹھادیا،پھر حضور سے کہنے لگا،محمدؐ آپ نے ہمیں کلمہ شہادتیں کا حکم دیا تو ہم نے گواہی دی آپ نے ہمیں نماز پنجگانہ کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا پھر آپ نے ہمیں زکات نکالنے کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا آپ نے ہمیں ایک مہینہ روزہ رکھنے کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا آپ نے ہمیں حج کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا پھر آپ نے اتنے ہی پر اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے چچازاد بھائی کو بلند کرکے ہم سب پر اس کو افضل قرار دیا اور کہا:((میں جس کا مولا ہوں علیؑ اس کا مولا ہے))سچ بتایئےگا کہ یہ آپ نے اپنی طرف سے ہا ہے یا خدا کی طرف سے۔

سرکارؐ نے فرمایا:اس کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں یہ میں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے کہا ہے یہ سن کر حارث بن نعمان اپنی سواری کی طرف یہ کہتا ہوا مڑا:پالنےوالے اگر محمدؐ حق کہہ رہے ہیں تو مجھ پر آسمان سے پتھر برسادے یا ہمیں دردناک عذاب دیدے ابھی وہ اپنی سواری تک پہونچا نہیں تھا کہ اللہ نے اس پر ایک پتھر مارا جو اس کے سر پر لگا اور سر کو پھاڑتا ہوا نیچے سے نکل گیا اور خدا نےیہ آیت نازل فرمائی((سأل سائل..)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ معارج:آیت:3،2،1

۲۵۱

مذکورہ بالا حدیث کی علماء اہل سنت کی ایک بڑی جماعت نے روایت کی ہے کچھ کے نام ذیل میں دیئے جارہے ہیں۔

1۔جمال الدین محمد بن یوسف بن حسن بن محمد زرندی حنفی مدنی(1) 2۔سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی متوفی1294؁(2)

3۔محمد بن عبدالرؤف مناوی متوفی1331؁(3) 4۔علی بن برہان الدین شافعی حلبی۔(4)

5۔حافظ کبیر عبیداللہ بن عبداللہ بن احمد جو حاکم حسکانی کے نام سے مشہور ہیں۔(5) 6۔خطیب شربینی(6)

7۔ابوعبداللہ محمد بن ابوبکر قرطبی متوفی681؁(7) لیکن انہوں نے آیت کی وجہ بیان کرتے وقت کہا ہے کہ ایک قول یہ ہے کہ یہاں پر سائل نے کہا..8۔قاضی القضاۃ امام ابوسعود محمد بن محمد عمادی متوفی591؁(8) انہوں نے اس روایت کے ذکر کے ساتھ اس کی تضعیف کی ہے جیسا قرطبی و غیرہ کا قول گذرچکا ہے۔

حدیث غدیر مقام احتجاج میں

3۔حدیث غدیر کو دلیل بنا کر امیرالمومنینء،اہل بیت اطہارؑ اور شیعوں نے خلافت بلافصل پر احتجاج کیا ہے اس سلسلہ میں بہت سی باتیں ہیں اس لئے حدیث غدیر بذات خود بہت سے واقعات کی جامع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نظم دررالسمطین ص:93

(2)ینابیع المودۃج:2ص:369،398

(3)فیض القدیر شرح جامع الصغیرج:6ص:282،من کنت مولا...کی شرح میں

(4)سیرہ حلبیہ ج:3ص:309،308،حجۃ الوداع میں

(5)شواہد التنزیل ج:2ص:289،286،آیت سال سائل کے ذیل میں

(6)سراج المنیرج:4ص:364،آیت کی تفسیر میں

(7)تفسیر قرطبی ج:18ص:279،278آیت سال سائل کے ذیل میں

(8)تفسیر ابی مسعود ج:9ص:29،آیت کی تفسیر میں

۲۵۲

ہے،شیخ امینی نےاس پر بھرپور اور مکمل بحث کی ہے،میں تو صرف اس واقعہ کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو کوفہ میں مقام رحبہ میں پیش آیا۔

رحبہ(کوفہ)میں امیرالمومنینؑ کا حدیث غدیر کےحوالہ سے مناظرہ اور مناشدہ

احمد بن حنبل نے حسین بن محمد اور ابونعیم معنی سے روایت کی ہے کہ ان دونوں نے کہا:ہم سے فطر نے کہا ہے اس نے ابوطفیل سے روایت کی ہے کہ وہ کہتا ہے امیرالمومنینؑ نے رحبہ میں ہم لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا:میں ہر اس مسلمان کو خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے پیغمبر کو غدیرخم میں سنا تھا وہ بتائے کہ کیا سنا تھا؟پس تیس آدمی کھڑے ہوگئے۔

ابونعیم کہتا ہے کہ بہت سے آدمی کھڑےہوئے اور انہوں نے گواہی دی کہ جب پیغمبر نے علی کا ہاتھ پکڑ کر تمام لوگوں سے کہ تھا((کیا میں مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ حق نہیں رکھتا انہوں نے کہا تھا:ہاں اے خدا کے رسولؐ،آپ نے فرمایا:جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے پالنےوالے جو علی کو دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور جو علی کو دشمن رکھے تو بھی اس کو دشمن رکھ،وہ کہتا ہے کہ پس میں اس مجلس سے اٹھا اس حال میں کہ یری دل میں پھانسی تھی کہ زید بن ارقم صحابی نل گئے میں نے علی سے جو کھ سنا تھا انہیں بتایا اور کہا علی ایسے ایسے کہہ رہے تھے زید نے کہا پھر تمہیں انکار کی جرات کیسے ہوئی؟میں نے خود پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو علی کے لئے یہ باتیں کہتے سنا تھا۔(1)

ہیثمی اس حدیث کے تذکرہ کے بعد کہتے ہیں کہ اس حدیث کے رجال صحیح ہیں سوائے فطر بن خلیفہ کے حالانکہ وہ ثقہ ہے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسند احمدج:4ص:30،حدیث زید بن ارقم میں

(2)مجمع الزوائدج:9ص:104،کتاب المناقب،مناقب علی بن ابی طالبؑ کے باب میں،من کنت مولا کے ضمن میں

۲۵۳

مولائے کائنات کا یہ منا شدہ مشہور ہے اور متعدد طریقوں سے اس کی روایت کی گئی ہے اگر چہ اس کی خصوصیات میں اختلاف ہے جس طرح ہر تفصیلی واقعہ میں ہوتا ہے۔اہل سنت و الجماعت کی ایک کثیر تعداد نے اس کا ذکر کیا ہے ان میں سے بعض کے نام حاضر ہیں۔

1۔حافظ ابوعبدالرحمٰن بن احمد بن شعیب نسائی۔(1) 2۔حافظ ابوالحسن علی بن ابی بکر سلیمان ہیثمی۔(2)

3۔ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ کوفی۔(3) 4۔ابوالمحاسن یوسف یوسف بن موسیٰ حنفی۔(4)

5۔حافظ ضیاءالدین ابوعبداللہ محمد بن عبدالواحد بن احمد حنبلی مقدسی(5) 6۔حافظ ابوبکر احمد بن عمر بن ابی عاصم ضحاک مخلد شیبانی(6)

7۔حافظ ابویعلی احمد بن علی بن مثنیٰ موصلی تمیمی(7)

8۔امام حنابلہ ابوعبداللہ احمد بن حنبل شیبانی(8)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سنن کبریٰ ج:5ص:131،کتاب الخصائص نبیؐ کے قول،من کنت مولاہ،ص:134،کتاب الخصائص ترغیب محبت علی بن ابی طالبؑ اور عداوت سے پرہیز،اور کتاب خصائص ص:96،95،قول نبیؐ کی روایت ہوئی ہےص:100،اور دعائے نبیؐ ص:104،103،پر جس میں علیؑ کے اور چاہنے والوں کے دعا کی ہے،اور دشمنوں کے لئے بددعا کی ہے

(2)مجمع الزوائدج:9ص:108،107،106،105،104،کتاب،مناقب،مناقب علی بن ابی طالب،قول من کنت مولاہ کے ضمن میں

(3)مصنف ابن ابی شیبہ ج:6ص:368،کتاب الفضائل،فضائل علی بن ابی طالب میں

(4)معتصر المختصرج:2ص:301،کتاب جامع مما لیس فی الموطا،مناقب علیؑ

(5)الاحادیث المختارۃج:2ص:106،105،سعید بن وھب ہمدانی کے علی سے اس کی روایت کی ہے

(6)السنۃ ابن ابی عاصم ج:2ص:607،من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے باب میں

(7)مسند ابی یعلی ج:1ص:429،علی بن ابی طالب کے مسند میں

(8)مسند احمدج:1ص:118،84،علی بن ابی طالبؑ کے مسند میں

۲۵۴

9۔حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب طبرانی(1)

10۔علی ابن محمد حمیری متوفی323؁(2)

11۔حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی متوفی430؁(3)

12۔علی بن برہان الدین شافعی حلبی(4)

یہاں ایک دوسرا واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے جسے ایک جماعت نے دوسری ہی شکل میں پیش کیا ہے اور شاید یہ مذکورہ بالا مناشدہ کی مدافعت بھی کررہا ہے،یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل ہی الگ ہو۔

زیر نظر واقعہ کی جو صورتیں کی گئی ہیں ان میں ایک صورت واقعہ یہ ہے کہ احمد اپنی سند سے ریاح بن حارث سے روایت کرتے ہیں کہ مولائے کائناتؑ کے پاس ایک گروہ مقام رحبہ میں آیا اور بولا آپ پر سلام ہو میرے مولا،علیؑ نے فرمایا:میں تمہارا مولا کیسے ہوگیا؟

تم تو عرب ہو،انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے غدیرخم میں سرکار دو عالمؐ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا تھا:میں جس کا مولا ہوں یہ(علی)اس کا مولا ہے۔

ریاح کہتے ہیں کہ:جب وہ لوگ جانے لگے تو میں بھی ان کے پیچھے چلا اور میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟مجھے بتایا گیا کہ انصار کا ایک گروہ ہے ان میں ابوایوب انصاری بھی ہیں۔(5)

ایک اور واقعہ اس طرح ہے کہ ابن کثیر نے ابن عقدہ کی کتاب((الموالات))کے حوالہ سے

-------------------------

(1)معجم الصغیرج:1ص:119،باب الا نومن اسمہ احمد،معجم کبیرج:5ص:171جس میں زید بن وھب نے ارقم سے روایت کی ہے

(2)جزءالحمیری ص:33(3)حلیۃ الاولیاءج:5ص:26،طلحہ بن مصرف کے حالات میں(4)سیرۃ الحلبیہ،ج:3ص:308،حجۃ الوداع میں

(5)مسند احمدج:5ص:419،ابوایوب انصاری کی حدیث میں،مجمع الزوائدج:9ص:104،103،کتاب مناقب،باب مناقب علیؑ من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے قول کے ضمن میں،معجم کبیرج:4ص:173،ریاح بن حادث نے ابوایوب سے جو روایت کی ہے

۲۵۵

لکھا ہے کہ ابن عقدہ نے اپنی اسناد سے روایت کی ہے ابومریم زربن حبیش سے کہ وہ کہتے ہیں کہ مولائے کائناتؑ قصر سے باہر نکلے تو تلواروں کو آویزان کئے ہوئے کچھ سواروں نے آپ کا استقبال کیا اور کہا اے امیرالمومنین آپ پر سلام ہو،آپ پر سلام ہو اے ہمارے مولا،مولائے کائناتؑ نے فرمایا:یہاں پر نبی کے اصحاب کون لوگ ہیں؟وہاں بارہ آدمی کھڑے ہوئے ان میں قیس بن ثابت بن مشاس ہاشم بن عتبہ،حبیت بن بدیل بن ورقاء تھے انہوں نے شہادت دی کہ انہوں نے نبی کو یہ کہتے سنا ہے کہ:میں جس کا مولا ہوں علی اس کے مولا ہیں۔(1)

جس نے غدیر کی گواہی دینے سے منع کیا اس لئے امیرالمومنین حضرت علیؑ کی بددعا

ان مناشدوں یا دونوں مناشدوں کے ذیل عرض ہے کہ بعض صحابہ نے جو غدیر میں حاضر تھے لیکن نبی سے حدیث((من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ))سننے کے باوجود غدیر کی گواہی دینے سے انکار کیا۔

مولائے کائنات نے انکار کرنےوالوں پر بددعا کی اور اس کا اثر بھی ظاہر ہوا،ملاحظہ ہو..

احمد بن حنبل نے احمد بن عمرو کیعی سے،انہوں نے ابن حباب سے،انہوں نے ولید بن عقبہ بن نزاد عبسی سے،انہوں نے سماک بن عبید بن ولید عبسی سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے مقام درحبہ میں علی کے بارے میں شہادت دی تھی،علی نے اس دن فرمایا میں ہر اس آدمی کو خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے غدیرخم میں رسول اکرمؐ سے حدیث سنی تھی کھڑا ہوجائے اور وہ کھڑا نہ ہو جس نے پیغمبر کو نہیں دیکھا تھا،یہ سنتے ہی بارہ آدمی کھڑے ہوگئے اور انہوں نے گواہی دی کہ ہم نے غدیرخم میں سنا بھی تھا اور دیکھا بھی تھا کہ سرکار نےعلی کا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا((پالنےوالے اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرے،اس سے محبت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)اسدالغابۃج:1ص:369،368،حبیب بن بدیل بن ورقاء کے حالات میں

۲۵۶

کر جو علی سے محبت کرے اور اسے دشمن رکھ جو علی سے دشمنی رکھے اور اس کو رسوا کردے جو علی کو رسوا کرے،پس سب لوگ گواہی دینے کو کھڑے ہوگئے سوائے تین آدمیوں کے تو مولائے کائناتؑ نے انہیں بددعا دی اور آپ کی بددعا فوراً قبول ہوگئی۔(1)

احمد بن حنبل کے علاوہ سنی علماء کی ایک بڑی جماعت نے لکھا ہے۔

کہ مولائے کائنات نے ان پر بددعا کی تھی جنہوں نے گواہی نہیں دی تھی اور آپ کی بددعا کا اثر بھی ہوا تھا،ان لوگوں میں:

1۔حافظ ابوالحسن علی بن ابی بکر سلیمان ہیثمی ہیں۔(2) 2۔حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب طبرانی ہیں۔(3)

3۔حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی ہیں۔(4) 4۔علی بن برہان الدین شافعی حلبی ہیں۔(5)

حدیث غدیر کی شہرت اور اشاعت پر اس مناشدہ کا اثر

ظاہر ہے کہ مناشدہ کا یا اس طرح کے مناشدوں کا خصوصاً مولائے کائنات کی دعا کے قبول ہونے کی شہرت کا حدیث غدیر کے ظہور اور اس کی شیاع نیز اس کو باقی رکھنے پر اچھا خاصا اثر پڑا اس لئے کہ عام مسلمان اس حدیث کو بلکہ فضائل اہل بیتؑ میں وارد بہت سی حدیثوں سے ناواقف تھے اس لئے کہ حکومت وقت کی طرف سے ایسی سنت نبوی پر جمود طاری کردیا تھا اور حکومت کو اپنے مطابق گھمارہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسنداحمدج:1ص:119،مسند علی بن ابی طالبؑ

(2)مجمع الزوائدج:9ص:106،کتاب مناقب،مناقب علیؑ من کنت مولا کے قول کے ضمن میں

(3)معجم کبیرج:5ص:171،زید بن وجب نے زید بن ارقم سے روایت کی ہے

(4)حلیۃ الاولیاءج:5ص:27،طلحہ بن مصرف کے حالات میں

(5)سیرۃ الحلبیہ ج:3ص:308،حجۃ الوداع میں

۲۵۷

سنت نبوی کو جامد کرنے اور اس کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کے شواہد

کتابوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیرت نبوی کا اخفا اور اس کو ضائع کرنے کی کوشش حیات پیغمبرؐ میں ہی شروع ہوگئی تھی جب کہ طوعاً یا کرہاً بہت سے لوگ مسلمان ہونےوالوں نے دیکھا کہ نبی ان کی ذاتی مصلحتوں اور ان کی انانیت کی طرف متوجہ نہیں ہیں تو خاص طور سے علیؑ اور ان کے اہل بیتؑ اور اصحاب خاص کے لئے ان کے دلوں میں کینہ اور دشمنی بھری ہوئی تھیں جو اہل بیت کی اطاعت کو معیار حب و بغض نبوی کو قرار دیتے تھے۔

نمونہ کے طور پر ایک حدیث ملاحظہ ہو،عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں سرکار دو عالم سے جو کچھ سنا کرتا تھا اسے لکھ لیا کرتا تھا تا کہ حفظ کرسکوں تو قریش نے اس کام سے منع کیا انہوں نے کہا تم تو ہر چیز جو نبی سے سنتے ہو لکھے جارہے ہو پیغمبر تو ایک بشر ہیں کبھی غصہ میں بولتے ہیں کبھی خوش ہو کر بولتے ہیں عبداللہ بن عمر نے کہا پھر میں نے لکھنا چھوڑ دیا لیکن نبی سے اس کا تذکرہ کردیا حضورؐ نے فرمایا:تم لکھا کرو اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھ سے حق کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔(1)

(تاریخ کہتی ہے کہ سرکار کائناتؐ نے اس بات کا احساس کرلیا تھا آپ کی سنت اور حدیثوں کے خلاف سازشیں شروع ہوگئی ہیں)(مترجم)اس لئے حضورؐ نے ان کوشش پر اعتراض کیا تھا،حضرت فرماتے ہیں کہ میں نہیں چاہتا ایسا آدمی جو اپنے بستر پر مسند علم سے تکیہ لگائے بیٹھا رہے اور اس کے سامنے اوامر و نواہی آئیں تو یہ کہہ کر ٹال دے کہ میں نہیں جانتا کہ اس کا کیا حکم ہے اس لئے کہ کتاب خدا میں اس کے بارے میں کچھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسنداحمدج:2ص:162،مسندعبداللہ بن عمرو بن العاص،اور اسی طرح ص:192،مسند عبداللہ بن عمر بن العاص،سنن ابی داؤودج:3ص:318،اول کاتب العلم:باب کتاب العلم،سنن درامی ج:1ص:136،باب من رخص فی کتابہ العلم،مستدرک علی صحیحین ج:1ص:187،کتاب العلم،تحفۃ الاحوذی ج:7ص:357،فی شرح احادیث باب ماجاء فی الرخصۃ،المدخل السنن الکبریٰ ج:2ص:415،باب من رخص فی کتابہ العلم،الجامع الاخلاق الراوی و آداب السامع ج:2ص:36،الکتابۃ عن المحدث فی المذاکرۃ

۲۵۸

نہیں پاتا کہ اس کی پیروی کرسکوں۔(1)

آثار پیغمبرگو نقصان پہونچانے کی کوششیں اس وقت اور تیز ہوگئی جب سرکار دو عالمؐ پر مرض کی حالت طاری ہوئی اور قریش کے لوگوں کی حرکتوں میں تیزی آگئی انہوں نے حضور سرور کائنات کو وہ تحریر دینے سے روک دیا جس میں وہ اپنی امت کو گمراہی سے بچانا چاہتے تھے اس سلسلے میں آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عمر کا قول گذرچکا ہے کہ انہوں نے یہ کہہ کہ پیغمبرؐ کی بات رد کردی کہ ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب قریش کے لوگ حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو آثار نبوی کو مٹانے کی کوشش کو کھل کر عملی شکل دیدی اس لئے کہ حضور سرور کائناتؑ اب اس دنیا میں موجود نہٰں تھے چنانچہ ابوبکر نے پانچ سو حدیثوں میں جنہیں انہوں نے خود لکھا تھا آگ لگادی(2) اور خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ کوئی نبیؐ سے حدیث کو بیان نہ کرے،کہتے ہیں:تم لوگ نبی سے مختلف حدیثیں بیان کرتے ہو جس کی وجہ سے تمہارے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے اور تمہارے بعد آنےوالوں میں زیادہ اختلاف ہوگا،اس لئے تم نبی سے حدیثیں بیان مت کرو تم سے اگر کوئی پوچھے بھی تو کہہ دو کہ ہمارے درمیان کتاب خدا موجود ہے کتاب خدا میں جو حلال ہے اسے حلال سمجھو اور جو حرام ہے اسے حرام سمجھو۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)السنن الکبریٰ للبیہقی ج:7ص:76،کتاب النکاح:جماع ابواب ماخص بہ رسول اللہؐ،سنن ابی داؤودج:4ص:200،کتاب السنۃ:باب فی لزوم السنۃ،سنن ابن ماجہ ج:1ص:6،سنن ترمذی ج:5ص:37،کتاب العلم عن رسول اللہؐ باب ما نہی عنہ ان یقال عند حدیث النبیؐ مستدرک علی صحیحین ج:1ص:190،کتاب العلم،صحیح ابن حبان ج:1ص:191،ذکر الخبر المصر ح..اور اسی طرح تذکرۃ الحفاظ ج:3ص:1190،حالات ابی اسماعیل عبداللہ بن محمد الانصاری

(2)تذکرۃ الحفاظ ج:1ص:5،حالات ابی بکر میں،الریاض النضرۃج:2ص:144،ابوبکر کے ذکر میں،کنزالعمال ج:10ص:285،باب فی اداب العلم و العلماء:فصل فی روایۃ الحدیث

(3)تذکرۃ الحفاظ ج:1ص:2۔3،طبقہ اولی،حالات ابی بکر میں

۲۵۹

عمر نے اصحاب کو حکم دیا کہ جنہوں نے سرکار دو عالم کی حدیثیں لکھی ہیں وہ ان کے پاس لائیں بےچارے اصحاب سمجھے کہ عمر حدیث نبی کو جمع کرکے کتابی شکل دینا چاہتے ہیں ایک مہینہ تک عمر کے پاس لوگ وہ مکتوبات جمع کرتے رہے اس کے بعد عمر نے اس میں آگ لگادی(1) قرظہ اور ان کے ساتھی جب عراق کے لئے جارہے تھےتو عمران کی مشایعت میں نکلے اور ان سے کہنے لگے تمہیں معلوم ہے میں تمہارے ساتھ کیوں چل رہا ہوں ان لوگوں نے کہا ہاں اس لئے کہ ہم اصحاب پیغمبر ہیں اس لئے تم ہماری مشایعت کررہے ہو،عمر نے کہا(نہیں بلکہ میں اس لئے چل رہاہوں کہ راستے میں میں تم سے کچھ وصیتیں کرسکوں)(مترجم)

تم اپنے شہر میں جارہے ہو جہاں قرآن مجید کی تلاوت کی آواز گونج رہی ہے(اس لئے کہ وہاں قرآن کے لئے ماحول سازگار ہے)اب تم وہاں حدیثیں مت پیش کرنا کہ وہ قرآن کو چھوڑ کر حدیثوں میں مشغول ہوجائیں قرآن کو حدیثوں سے الگ رکھو اور پیغمبر سے حدیثیں کم سے کم بیان کرو اس کام کو جاری رکھو میں تمہارا شریک ہوں اب جو قرظہ عراق میں پہونچے(تو مجمع سمجھا یہ اصحاب پیغمبر ہیں ہم سے کچھ محبوب و دیار محبوب کی باتیں کریں گے)تو لوگوں نے کہا پیغمبر کی حدیثیں سنایئے انہوں نے کہا کہ عمر نے ہمیں سختی سے منع کیا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ قرظہ نے کہا ہم پیغمبر کی کوئی حدیث نہیں سناسکتے۔(2)

کچھ اصحاب کو تو صرف اس لئے قید کردیا گیا کہ وہ کثرت سے احادیث پیغمبرؐ بیان کرتے تھے جیسے عبداللہ بن مسعود،ابوذر و غیرہ۔(3)

عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ عمر اس وقت تک زندہ رہے کہ انھوں نے چاروں طرف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الطبقات الکبریٰ ج:5ص:188،سیرہ اعلام النبلاءج:5ص:59،حالات ابوالقاسم بن محمد بن ابی بکر میں

(2)معتصر المختصرج:2ص:381،کتاب جامع ممالیس فی الموطا..،تذکرۃ الحفاظ ج:1ص:7،عمر بن خطاب کے حالات میں،مستدرک علی صحیحن ج:1ص:183،کتاب العلم

(3)تذکرۃ الحفاظ ج:1ص:7،عمر بن خطاب کے حالات میں،معتصر المختصر،ج:2ص:380،کتاب جامع ممالیس فی الموطا

۲۶۰