پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 325734 / ڈاؤنلوڈ: 8673
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

جبرئیل امین تھے ( جو اس صورت میں ظاہر ہوئے) اور انہوں نے اس کی تاکید کرنا اہی جو میں نے علی کے بارے میں کہا تھا۔

اب میں آپ حضرات سے انصاف چاہتا ہوں کہ آیا یہ مناسب تھا کہ دو ہی مہینے کی مدت میں ایسے مضبوط عہد و پیمان کو توڑ دیا جائے جو رسول اللہ(ص) نے بحکم خدا ان لوگوں کے ساتھ باندھا تھا، بیعت سے انحراف کریں ہوا و ہوس میں پھنس کے حق کو پس پشت ڈال دیں اور وہ کچھ کریں جو نہ کرنا چاہیئے تھا ان کے دروازے پر آگ لے جائیں ان کے اوپر تلوار اٹھائیں۔ اہانتیں کریں اور بجبر و اکراہ ایک ہنگامہ اور فساد برپا کر کے توہین و تذلیل کے ساتح ڈرا دھمکا کر بیعت کے لیے مسجد میں لے جائیں؟

حافظ : مجھ کو آپ کے ایسے جلیل القدر مہذب سید سے یہ توقع نہیں تھی کہ اصحاب رسول(ص) کی طرف ہوا پرستی کی نسبت دیں گے حالانکہ آنحضرت(ص) نے اصحاب کو قوم کی ہدایت کا ذریعہ قرار دیا تھا جیسا کہ ارشاد ہے : "اصحابی کالنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم" ( یعنی میرے اصحاب ستاروں کے مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کرو گے ہدایت پائو گے۔

اقتدائے اصحاب کی حدیث غیر معتبر ہے

خیر طلب : پہلی درخواست تو میری یہ ہے کہ بار بار ایک ہی بات نہ دہرائیے ۔ ابھی بھی آپ اس حدیث سے استدلال کرچکے ہیں اور میں جواب عرض کرچکا ہوں کہ اصحاب بھی دوسرے لوگوں کی طرح جائز الخطا تھے، پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ معصوم نہیں تھے تو اگر دلیل کے ساتھ ان میں سے کسی کی طرف ہوا پرستی کی نسبت دی جائے تو کونسی حیرت کی بات ہے؟ دوسرے آپ کے خیالات کو صاف کرنے اور یاد دہانی کے لیے چاہتا ہوں کہ پھر جواب عرض کردوں تاکہ اس کے بعد آپ ایسی کمزور حدیثوں کا سہارا نہ لیں۔ چونکہ آپ نے تجدید کلام فرمائی ہے لہذا میں بھی تکرار جواب کررہا ہوں۔ خود آپ کے اکابر علماء کی بحث و تحقیق کی بنا پر یہ حدیث قابل اعتبار نہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں۔ قاضی عیاض مالکی نے آپ کے اجلہ علماء سے نقل کیا ہے کہ اس کے سلسلے روایات میں چونکہ مجہول الحال راوی حارث بن قضین اور حمزہ نصیبی کا نام بھی شامل ہے جس پر کذب و دروغ گوئی کا الزام ہے لہذا یہ قابل نقل نہیں ہے۔ نیز قاضی عیاض نے شرح شفاء میں اور تعدیل احادیث کے نقاد بیہقی نے اپنی کتاب میں خود حدیث کو موضوع بنایا ہے اور اس کی سند کو ضعیف و مردود شمار کیا ہے۔

بعض صحابہ ہوائے نفس کے تابع اور حق سے منحرف ہوگئے

تیسرے میں تہذیب و ادب سے ہٹ کے ہرگز کوئی بات نہیں کہتا میں تو وہی کہتا ہوں جو خود آپ کے علماء لکھ چکے ہیں بہتر ہوگا آپ حضرات فاضل تفتازانی کی شرح مقاصد ملاحظہ فرمائیے جس میں وہ جیسا میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں

۴۱

صاف صاف لکھتے ہیں کہ صحابہ کے درمیان چونکہ کثرت سے اختلافات ، عداوتیں اور لڑائیاں رونما ہوئیں۔لہذا پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ راہ حق سے منحرف ہو کر ہوائے نفس کے تابع ہوگئے تھے بلکہ ظالم اور فاسق تھے۔

پس ہر فرد یا جماعتقابل احترام نہیں سمجھی جاسکتی۔ جس نے رسول اکرم (ص) کی مصاحبت پالی بلکہ احترام انکے اعمال و کردار کا ہے اگر وہ اہل نفاق نہیں تھے بلکہ رسول اللہ(ص) کے مطیع و فرمانبردار تھے اور آں حضرت(ص) کے احکام و ہدایات کے برخلاف عمل نہیں کرتے تھے تو یقینا بزرگ و محترم ہوں گے اور ان کی خاک قدم ہمارے لیے سرمہ چشم ہوگی۔

صاحبان انصاف یا تو آپ کو یہ کہنا چاہئیے کہ آپ کی معتبر کتابوں میں کثرت کے ساتھ جو اخبار و واحادیث امیرالمومنین علی علیہ السلام سے جنگ کرنے کے بارے میں وارد ہوئے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا علی(ع) جنگ کرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے یہ سب بے بنیاد ہیں۔ یا اگر تصدیق کیجئے گا کہ اس طرح کی حدیثیں اور روایتیں انتہائی معتبر ہیں اس لیے سلسلہ اسناد صحیحہ کے ساتھ آپ اکابر علماء کی کتابوں میں منقول ہیں( علاوہ اس تواتر کے جو علماء شیعہ کی معتبر کتابوں میں موجود ہے) تو آپ کو یہ ماننے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ متعدد اصحاب فاسد، کھوٹے اور باطل پرست تھے۔ مثلا معاویہ، عمرو عاص، ابوہریرہ ،ثمرہ بن جندب، طلحہ اور زبیروغیرہ جو علی(ع) سے جنگ کرنے اٹھے ، کیونکہ علی(ع) سے جنگ کرنا رسول خدا(ص) سے جنگ کرنا تھا۔

اور چونکہ انہوں نے رسول اللہ(ص) سے جنگ کی لہذا قطعا حق سے برگشتہ تھے۔ پس اگر ہم نے کہہ دیا کہ بعض صحابہ ہوا و ہوس کے تابع ہوگئے تو غلط نہیں کہا بلکہ دلیل و برہان کے ساتھ کہا ہے۔ علاوہ اس کے ہم اس دعوے میں تنہا نہیں ہیں کہ بعض صحابہ فاسق و ظالم تھے اور حق سے منحرف ہوکر منافقین میں شامل تھے، بلکہ آپکے اکابر علماء سے اس کی سند لیتے ہیں۔

صحابہ کی عہد شکنی پر امام غزالی کا قول

آپ اگر کتاب سر العالمین مولفہ حجتہ الاسلام ابو حامد محمد بن حمد غزالی ؟؟؟؟ کا مطالعہ کریں تو ہرگز ہم پ؛ر ایراد نہ کریں۔ مجبورا میں اس کے چوتھے مقالے کا ایک حصہ اثبات حق کے لیے پیش کرتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں:

"أسفرت‏ الحجّةوجهه اوأجمعالجماهيرعلى متن الحديث من خطبته- صلى اللّه عليه وآله وسلم- في يوم غديرخمّ باتّفاق الجميع وهويقول: «من كنت مولاه فعليّ مولاه»فقالعمر: «بخ بخ لك ياأباالحسن لقدأصبحتم ولايوم ولى كلّ مؤمن ومؤمنة»فهذاتسليم ورضىوتحكيم؛ثمّ بعدهذاغلب الهوى بحبّ الرّئاسةوحمل عمودالخلافةوعقودالبنودوخفقانالهواءفيقع قعةالرايات واشتباك ازدحامالخيول وفتح الأمصارسقاهم كأسالهوى،فعادواإلى الخلاف الأوّل،فنبذواالحقّ وراءظهورهم واشتروابه ثمناقليلافبئس مايشترون و لما مات رسول الله قال قبل وفاته ايتونی بدوات و بياض

۴۲

روبيضا نسخة) لا زيل عنکم اشکال الامر و اذکر لکم من الستحق لو ابعدی قال عمرو عوا الرجل فانه لبهجر. و قيل بهذا فاذا بطل تعلقکم بتاويل النصوص فعدتم الی الاجماع و هذا منقوص ايفا فان العباس و اولاده و عليا و زوجته و اولاده لم يحضروا حلقة البية و خالقکم اصحاب السفية فی مبايعة الخزرجی ثم خالفهم الانصار"

یعنی جہت و برہان کا چہرہ روشن ہوگیا اور خطبہ روز غدیر کے متن حدیث پر متفقہ حیثیت سے جمہور مسلمین کا اجماع ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا جس کا مولا و آقا میں ہوں علی(ع) بھی اس کے مولا و آقا ہیں، پس فورا عمر نے کہا مبارک ہو مبارک ہو تم کو اے ابو الحسن( علی) کو تم میرے مولا و آقا اور سردار اور ہر مومن و مومنہ کے مولا و آقا ہوگئے اس قسم کی مبارک باد کا کھلا ہوا مطلب فرمان رسول(ص) کا مان لینا اور حکومت و خلافت علی(ع) کو بہ رضا و رغبت قبول کرنا ہے) لیکن اس کے بعد ان پر نفس امارہ غالب آگیا، مسند ریاست خلافت کی عمارت بلند کرنے، حکومت کا سہارا باندھنے، پھڑپھڑاتے پھریروں میں، ہوا کی سنناہٹ، کی طرف پلٹ گئے، خدا و رسول(ص) کے کم کو پس پشت ڈال دیا اور دین کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالا اور ان لوگوں نے خدا کے ساتھ کیا برا معاملہ کیا جب رسول(ص) کی موت کا وقت قریب آیا تو آں حضرت(ص) نے اپنی وفات سے قبل فرمایا کہ کاغذ و قلم دوات لائو تاکہ میں تمہاری مشکل رفع کردوں اور اپنے امر خلافت کا مستحق بتا جائوں ؟ لیکن عمر نے کہا کہ اس شخص کو چھوڑو یہ ( معاذ اللہ) ہذیان بک رہا ہے۔ پس جب قرآن و حدیث کی تاویل سے تمہارا کام نہیں چلا تو تم نے اجماع کا سہارا لیا حالانکہ اسی طرح سقیفہ والوں نے بھی خزرجی کی بیعت سے اختلاف کیا پھر انصار نے بھی مخالفت کی۔

پس حضرات یاد رکھئے کہ جو کچھ آپ کے بڑے بڑے انصاف پسند علماء کہتے ہیں وہی بات شیعہ بھی کہتے ہیں لیکن چونکہ آپ ہم لوگوں سے بدگمانی رکھتے ہیں لہذا ہماری باقاعدہ باتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اپنے علماء پر کوئی گرفت نہیں کرتے کہ انہوں نےلکھا کیوں، بلکہ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے از روئے علم و انصاف حق کو ظاہر کیا اور واقعات کی حقیقت کو صفحات تاریخ کے حوالے کرگئے۔

شیخ : کتاب سرالعالمین امام غزالی کی تصنیف نہیں ہے اور ان کی منزل اس سے بلند ہے کہ ایسی کتاب لکھیں۔ چنانچہ خاص خاص علماء بھی اس کے قائل ہیں کہ یہ کتاب ان بزرگوار عالی مقام کی نہیں ہے۔

۴۳

سرّ العالمین امام غزالی کی کتاب ہے

خیر طلب : آپ کے متعدد علماء نے تصدیق کی ہے کہ یہ کتاب امام غزالی کی لکھی ہوئی ہے۔ اس وقت جو کچھ میرے پیش نظر ہے عرض کرتا ہوں کہ یوسف سبط ابن جوزی نے جو بہت نکتہ رس تھے اور نقل مطالب میں بہت احتیاط سےقلم اٹھاتے تھے اس کے علاوہ نیت میں بھی متعصب تھے تذکرۃ خواص الامہ میں اسی موضوع پر بحوالہ سر العالمین امام غزالی کے قول سے استدلال کیا ہے اور یہی عبارتیں نقل کی ہیں جو میں نے پیش کیں اور چونکہ ان باتوں پر کوئی تنقید نہیں کی ہے لہذا ثابت ہوتا ہے کہ اول تو وہ اس چیز کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ کتاب امام غزالی ہی کی ہے، دوسرے موصوف کے ان اقوال سےبھی موافقت کرتے ہیں جو میں نے وقت کے لحاظ سے مختصر طور پر عرض کئے ہیں لیکن انہوں نے تفصیل اور زیادتی کے ساتھ نقل کئے ہیں ورنہ ان پر نقد و تبصرہ ضرور کرتے البتہ آپ کے متعصب علماء جب اس قسم کے حقائق اور کابر علماء کے بیانات سے دوچار ہوتے ہیں اور کوئی منطقی جواب دینے سے عاجز ہوتے ہیں تو یا یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ کتاب اس عالم کی تالیف ہی نہیں ہے یا ان کی طرف تشیع کی نسبت دینے لگتے ہیں۔ بلکہ اگر ممکن ہو تو ان صاحبان انصاف کو فاسق اور کافر کہہ کر بالکل جڑ ہی کاٹ دیتے ہیں کہ انہوں نے انصاف کی بات کیوں کہی اور حق و حقیقت کا انکشاف کیوں کیا؟ اس لیے کہ

مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتدرازورنہ مجلس رنداں خبرے نیست کہ نیست

ابن عقدہ کی حالت

چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ آپ کے بہت سے اکابر علماء حق گوئی اور حق نگاری کی وجہ سے اپنی زندگی ہی میں حیران و پریشان اور حقیر بے بس ہوگئے اور ان کی کتابوں کا پڑھنا متعصب علماء اور بے خبر عوام نے حرام سمجھ لیا۔ یہاں تک کہ اس خطا میں ان کو قتل کر دیا گیا۔

مثلا حافظ ابن عقدہ ابوالعباس احمد بن محمد بن سعید ہمدانی متوفی سنہ333ہجری جو آپ کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں۔ اور آپ کے علماء رجال جیسے ذہبی اور یافعی وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے اور ان کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کو مع اسناد تین لاکھ حدیثیں یاد تھیں اور بہت ثقہ اور سچے تھے۔ لیکن چونکہ تیسری صدی ہجری میں کوفہ اور بغداد کے اندر عام مجمعوں میں شیخیں ( ابوبکر و عمر) کے عیوب اور برائیاں بیان کر دیتے تھے لہذا لوگ ان کو رافضی کہتے تھے اور ان کی روایتیں نقل کرنے

۴۴

سے پرہیز کرتے تھے۔ چنانچہ ابن کثیر ، ذہبی اور یافعی نے ان کے بارے میں لکھا ہے۔

"ان هذا الشيخ کان يجلس فی جامع براثا و يحدث الناس بمثالب الشيخين و لذا ترکت روايته فلا کلام لاحد فی صدقه و ثقته"

یعنی شیخ ابن عقدہ جامع براثا میں(مسجد براثا بغداد اور کاظمین کے درمیان مشہور جگہ ہے) بیٹھ کر لوگوں کے سامنے شیخین ( ابوبکر و عمر) کے معائب نقل کرتے تھے اسی وجہ سے ان کی روایتیں ترک کردی گئیں ورنہ ان کےسچے اور معتبر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے)

اور خطیب بغداد نے بھی اپنی تاریخ میں ان کی تعریف کی ہے لیکن آخر میں کہتے ہیں کہ "انه کان خرج مثالب الشيخين "( یعنی یہ شیخین کے معائب و مثالب بیان کرتے تھے لہذا رافضی تھے) پس آپ حضرات اس خیال میں نہ رہیں کہ صرف شیعہ ہی ان حقائق کو بیان کرتے ہیں بلکہ خود آپ کے اکابر علماء جیسے امام غزالی اور ابن عقدہ وغیرہ بھی کبار صحابہ کے عیوب و نقائص نقل کرتے تھے۔

طبری کی موت

تاریخ کے ہر دور میں کثرت سے اس قسم کے علماء و دانشمندان گزرے ہیں جو حق کہنے اور حق لکھنے کے جرم میں متروک و مردود قرار دئے گئے یا قتل ہوئے جیسے تیسری صدی ہجری کے مشہور معروف مفسر و مورخ محمد بن جریر طبری جو آپ کے اکابر علماء کے اندر مایہ ناز تھے جب سنہ310 ہجری میں چھیاسی سال کی عمر میں بغداد کے اندر فوت ہوئے تو لوگوں نے دن کو ان کا جنازہ ہی نہیں اٹھنے دیا اور فساد پر آمادہ ہوئے لہذا مجبورا ان کی میت رات کے وقت انہیں کے گھر میں دفن کی گئی۔

امام نسائی کا قتل

تمام واقعات سے عجیب تر امام ابو عبدالرحمن احمد بن علی نسائی کے قتل کا واقعہ ہے جو بہت جلیل القدر اور ائمہ صحابہ ستہ میں سے تھے اور جو تیسری صدی ہجری کے اواخر میں آپ کے سرمایہ افتخار اکابر علماء میں سے تھے۔ اس واقعہ کی مختصر کیفیت کے بعد حتی کہ ہر نماز جمعہ کے خطبے میں امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر علانیہ سب و شتم اور لعنت کرتے ہیں، ان کو بہت صدمہ ہوا اور انہوں نے طے کر لیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل میں رسول خدا(ص) کی جو معتبر حدیثیں اپنے سلسلہ اسناد کے ساتھ ان کو یاد ہیں ان کو جمع کریں گے۔

چنانچہ حضرت کے مراتب عالیہ اور فضائل کاملہ کے اثبات میں کتاب خصائص العلوی لکھی اور برسر منبر اس کتاب کو

۴۵

اور اس کی حدیثوں کو پڑھ کے آپ کے فضائل و مناقب نشر کرتے تھے۔

ایک روز منبر پر یہ فضیلتیں بیان کر رہے تھے کہ جاہل اور متعصب لوگوں نے ہجوم کر کے ان کو منبر سے نیچے کھینچ لیا، سخت زد و کوب کی، ان کے انیثیں کو کوٹا اور آلہ تناسل کو پکڑ کے کھینچتے ہوئے مسجد کے باہر لے جاکر ڈال دیا۔ چنانچہ انہیں سخت ضربات اور لاتوں گھونسوں کی چوٹ سے چند روز کے بعد وفات پائی اور حسب وصیتان کی میت مکہ معظمہ لے جا کر دفن کر دی گئی۔

اسی طرح کے حرکات اس قوم کے بغض و عناد ،جہل مرکب اور احمقانہ تعصبات کے نتائج ہیں جو اپنے بزرگان ملت کو اس جرم ذلیل و رسوا اور تفس کرتے ہیں کہ انہوں نے سچی بات کیوں کہی اور حقائق کو بے نقاب کیوں کیا؟ حالانکہ اتنا نہیں سمجھتے کہ حق کو جس قدر چھپایا جائے گا اسی قدر آفتاب کی طرح چمکے گا اور باطل کے پردے چاک ہوں گے۔

خلاصہ یہ کہ میں معذرت چاہتا ہوں کہ مطلب سے دور ہوگیا ورنہ مقصد یہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے مقام ولایت کو صرف علمائے شیعہ ہی نے تحریر نہیں کیا ہے بلکہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے ستر ہزار یا ایک لاکھ بیس ہزار کے سامنے علی(ع) کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے امت کی امامت کے لیے نامزد فرمایا۔

لفظ مولیٰ میں اشکال

حافظ : اس قضیئے کے محل وقوع اور اصل حدیث میں کوئی حدیث میں کوئی شک و شبہ اور اشکال نہیں ہے لیکن اس اہمیت اور آب و تاب کے ساتھ نہیں جس طرح آپ نے بیان فرمایا۔

اس کے علاوہ متن حدیث بعض ایسے اشکال موجود ہیں جو آپ کے نقطہ نظر اور مقصد سے مطابقت نہیں کرتے۔ من جملہ ان کے لفظ مولا کے اندر بھی یہی بات ہے جس کے لیے اپنی تقریر کےسلسلے میں آپ نے ثابت کرنا چاہا ہے کہ مولی اولی بتصرف کے معنی میں ہے حالانکہ یہ طے ہوچکا ہے کہ اس حدیث میں مولی کے معنی محب و ناصر اور دوست کے ہیں، کیونکہ پیغمبر جانتے تھے کہ علی کرم اللہ وجہہ کے دشمن بہت میں لہذا آپ نے چاہا کہ وصیت کر کے امت کو بتادیں کہ جس کا محب و دوست اور ناصر میں ہوں، علی(ع) بھی اس کے محب و دوست اور ناصر ہیں اور اگر لوگوں سے کوئی بیعت لی ہے تو محض اس لیے کہ آں حضرت(ص) کے بعد علی کرم اللہ وجہہ کو اذیت نہ پہنچائیں۔

خیر طلب : میرا خیال ہے کہ کبھی کبھی آپ زبردستی اور خواہ مخواہ اپنے اسلاف و عادات کی پیروی کرنے لگتے ہیں، ورنہ اگر تھوڑا سا غور کریں، اپنے علم و اںصاف سے کام لیں اور قرائن پر توجہ کریں تو حق و حقیقت پوری طرح ظاہر و آشکار ہوجائے۔

حافظ : کون سے قرائن کے ساتھ آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ مہربانی کر کے بیان فرمائیے۔

۴۶

اولی بہ تصرف کے معنی اور آیہ بلغ

خیر طلب : سب سے پہلا قرینہ قرآن مجید اور آیہ نمبر17 سورہ نمبر5( مائدہ) ہے:

"ياأَيُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ماأُنْزِلَ‏إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمابَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ"

یعنی اے رسول(ص) جو کچھ تم پر خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو امت تک پہنچا دو! کیونکہ ایسا نہ کروگے تو گویا تم نے تبلیغ رسالت کا فرض ہی انجام نہیں دیا۔ اور اللہ تم کو لوگوں کے شر سے محفوط رکھے گا۔

حافظ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ یہ آیت اس روز اور اس مقصد کے لیے نازل ہوئی؟

خیر طلب : آپ کے فحول علماء جیسے جلال الدین سیوطی نے در منثور جلد دوم ص298 میں، حافظ ابن ابی حاتم رازی نے تفسیر غدیر میں، حافظ ابو جعفر طبری نے کتاب الولایہ میں، حافظ ابو عبداللہ محاملی نے امالی میں، حافظ ابوبکر شیرازی نے مانزل من القرآن فی امیرالمومنین میں، حافظ ابوسعید سجستانی نے کتاب الولایہ میں، حافظ ابن مردویہ نے آیت کی تفسیر میں، حافظ ابوقاسم حسکانی نے شواہد التنزیل میں، ابو الفتح نطتری نے خصائص العلوی میں، معین الدین میبدینے شرح دیوان میں، قاضی شوکانی نے فتح القدیر جلد سوم ص57 میں، سید جمال الدین شیرازی نے اربعین میں، بدالدین حنفی نے عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری جلد ہشتم ص584 میں، امام اصحاب حدیث احمد ثعلبی نے تفسیر کشف البیان میں، امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر جلد سیم ص636 میں،حافظ ابو نعیم اصفہانی نے ما نزل من القرآن فی علی میں، ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد السمطین میں، نظام الدین نیشاوپوری نے اپنی تفسیر جلد ششم ص170 میں، سید شہاب الدین آلوسی بغدادی نے روح المعانی جلد دوم ص348 میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص37 میں، علی بن احمد واحدی نے اسباب النزول ص150 میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص16 میں، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب39 میں، خلاصہ یہ کہ جہاں تک میں نے دیکھا ہے خود آپ کے تقریبا تیس علماء اعلام نے اپنی معتبر ترین کتب و تفاسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیہ شریفہ روز غدیر خم امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی یہاں تک کہ قاضی روز بہان بھی باوجود اپنے انتہائی عناد و ضد اور تعصب کے لکھتے ہیں کہ "فقد ثبت هذا فی الصحاح " یعنی بتحققی کی یہ قضیہ ہماری صحاح معتبر میں ثابت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کا بازو تھام کر فرمایا:"منكنتمولاهفعليّمولاه " اور تعجب یہ ہے کہ انہیں متعصب قاضی صاحب نے کشف الغمہ میں رزین بن عبداللہ سے ایک عجیب روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا ہم لوگ رسول خدا(ص) کے زمانہ میں اس آیت کو یوں پڑھتے تھے:

"ياأَيُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ماأُنْزِلَ‏ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ انَّ عَلياََ مُولَی المُومِنِينَ فانَ لَمْ تَفْعَلْ فَمابَلَّغْتَ رِسالَتَهُ "

یعنی اے پیغمبر(ص) جو کچھ خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے یعنی یہ کہ علی علیہ السلام مومنین کے امور میں اولی بتصرف ہیں اس کو

۴۷

لوگوں تک پہنچا دو۔ پس اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تبلیغ رسالت کا فریضہ ہی پورا نہیں کیا۔

نیز سیوطی نے درالمنثور میں ابن مردویہ سے، ابن عساکر اور ابن ابی حاتم نے ابوسعید خدری اور عبداللہ ابن مسعود (کاتب وحی) سے اور قاضی شوکانی نے تفسیر فتح القدیر میں نقل کیا ہے کہ زمانہ رسول(ص) میںہم بھی اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے۔

غرضیکہ آیہ مبارکہ میں اس تاکید بلکہ تہدید سے کہ اگر اس امر کی تبلیغ نہ کرو گے تو گویا رسالت کا کوئی کام ہی انجام نہیں دیا صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ آں حضرت جس اہم اور عظیم امر کی تبلیغ پر مامور ہوئے تھے وہ مقام رسالت ہی کے قدم بہ قدم تھا اور قطعا وہ امامت و وصایت اور اولی بتصرف ہونے کا معاملہ تھا جو رسول خدا(ص) کے بعد دین و احکام الہی کا محافظ اور نگہبان ہے۔

غدیر خم میں

آیہ اکملت لکم دینکم

دوسرا قرینہ آیت نمبر5 سورہ نمبر5(مائدہ) کا نزول ہے جس میںتکمیل دین کے لیے ارشاد ہے :

"الْيَوْمَ‏ أَكْمَلْتُ‏ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً"

یعنی آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا، تم اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو ایک پاکیزہ دین قرار دیا۔

حافظ: مسلم تو یہ ہے کہ آیت روز عرفہ نازل ہوئی ہے اور کسی عالم نے اس کا نزول روز غدیر میں نہیں بتایا ہے۔

خیر طلب : میری درخواست ہے کہتقریر کے وقت انکار میں جلدی نہ فرمایا کیجئے کیونکہ شاید اثبات کا کوئی راستہ موجود ہی ہو۔ بلکہ مطالب کے بیان میں احتیاط کو مد نظر رکھا کیجئے تاکہ جواب ملنے پر ندامت کی زحمت نہ ہو۔

میں مانتا ہوں کہ آپ بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ آیت عرفہ میں نازل ہوئی لیکن آپ ہی کے اکابر علماء کی ایک بڑی جماعت نے روز غدیر میں اس کا نازل ہونا نقل کیا ہے۔ نیز کے چند علماء کا قول ہے کہ غالبا یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی، ایک مرتبہ غروب عرفہ کے وقت اور ایک مرتبہ غدیر میں۔ چنانچہ سبط ابن جوزی، تذکرہ خواص الامہ آخر ص18 میں کہتے ہیں کہ:

"احتمل ان الآية نزلت مرتين مرة بعرفة و مرة يوم الغدير کما نزلت بسم الله الرحمن الرحيم مرتين مرة بمکة و مرة بالمدينة"

یعنی احتمال ہے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ایک مرتبہ عرفہ میں، اور ایک مرتبہ روز غدیر، جیسے بسم اللہ الرحمن الرحیم دو مرتبہ نازل ہوئی ایک مرتبہ مکہ میں اور ایک مرتبہ مدینہ میں۔

ورنہ آپ کے موثق اکابر علماء جیسے جلال الدین سیوطی نے در المنثور جلد دوم ص256 اور اتقان جلد اول ص31 میں، العلوی میںامام المفسرین ثعلبی نے کشف البیان میں ، حافظ ابو نعیم اصفہانی نے ما نزل من القرآن فی علی میں ، ابوالفتح نطززی نے خصائص العلوی میں ابن کثیر شامی نے اپنی تفسیر جلد دوم ص14 میں، حافظ ابن مردویہ کے طریق سے، تیسری صدی ہجری کے مفسر اور مورخ عالم

۴۸

محمد بن جریر طبری نے تفسیر کتاب الولایہ میں، حافظ ابوالقاسم حسکانی نے شواہد التنزیل میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامۃ ص18 میں، ابو اسحاق حموینی نے فرائد السمطین باب دوازدہم میں، ابوسعید سجستانی نے کتاب الولایہ میں، خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد جلد ہشتم ص290 میں، ابن مغازلی فقییہ شافعی نے مناقب میں، ابوالموئد موفق بن احمد خورزمی نے مناقب فصل چہاردہم اور مقتل الحسین فصل چہارم میں نیز آپ کے دوسرے علماء نے لکھا ہے کہ غدیر خم کے روز جب رسول اللہ(ص) بحکم الہی علی علیہ السلام کو لوگوں کے سامنے نمایاں کر کے منصب ولایت پر معین فرمایا۔

علی(ع) کے بارے میں جس امر پر مامور تھے اس کی تبلیغ فرمائی اور آپ کو اپنے ہاتھوں پر اس قدر بلند فرمایا کہ دونوں بغلوں کی سفیدی نمودار ہوگئی تو اس وقت امت سے ارشاد فرمایا کہسلموا علی علیّ بامرة المومنین " یعنی امارت مومنین کے ساتھ علی(ع) پر سلام کرو اور ساری امت نے اس کی تعمیل کی۔ ابھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوئے تھے کہ مذکورہ آیہ شریفہ نازل ہوئی۔

خاتم الانبیاء اس آیت کے نازل ہونے سے بہت خوش ہوئے لہذا حاضرین کی طرف متوجہ ہو کر :

" الله اکبر علی اکمال الدين و اتمام النعمة و رضا الرب برسالتی والولايه لعلی ابن ابی طالب بعدی "

یعنی اللہ بزرگ ہے جس نے دین کا کامل اور نعمت کو تمام کیا اور میری رسالت اورمیرے بعد علی(ع) کی ولایت پر راضی ہوا۔

امام حسکانی اور امام احمد ابن حنبل نے تو اس قضیے کو پوری تفصیل سے نقل کیا ہے اگر آپ حضرات تھوڑی دیر کے لیے اپنی عادت سے الگ ہو کر چشم انصاف اور حقیقت بین نگاہوں سے دیکھیں تو آیات کریمہ کے نزول اور حدیث شریف سے آپ پر بخوبی واضح ہوجائے گا کہ لفظ مولی، امامت و ولایت اور اولی بہ تصرف کے معنی میں ہے۔

اگر مولی اور ولی اولی بہ تصرف کے معنی میں نہ ہوتا تو بعدی کا فقرہ بے معنی ہو جاتا۔ یہ جملہ جو بار بار رسول خدا(ص) کی زبان مبارک پر جاری ہوا ہے ثابت کرتا ہے کہ مولی اور ولی اولی بہ تصرف کے معنی میں ہے کیونکہ فرماتے ہیں میرے بعد یہ منصب علی علیہ السلام کے لیے مخصوص ہے۔

تیسرے ذرا گہری نظر سے جائزہ لیجئے اور اںصاف کیجئے کہ اس گرم ہوا اور بے گیاہ میدان میں جہاں پہلے سے مسافروں کی کوئی منزل نہیں تھی پیغمبر تمام امت کو جمع کریں۔ آگے جانے والوں کو پلٹانے کا حکم دیں، اس دیکتی ہوئی دھوپ میں جب لوگ اپنے پائوں کو دامنوں سے لپیٹے ہوئے اونٹوں کے سائے میں بیٹھے تھے منبر پر تشریف لے جائیں اور فضائل و مقامات امیرالمومنین کے اثبات میں وہ طولانی خطبہ ارشاد فرمائیں جس کو خوارزمی و ابن مردویہ نے مناقب میں طبری نے کتاب الولایتہ میں نیز دوسروں نے نقل کیا ہے، تین روز تک لوگوں کا وقت لے کر اسی گرم وخشک صحرا میں ٹھہرائے رکھیں اور حکم دیں کہ تمام اعلی اونی اشخاص کر فردا فردا علی علیہ السلام کی بیعت کرنا چاہیئے اور نتیجہ صرف اتنا ہی ہو کہ علی (ع) کو دوست رکھو یا یہ کہ علی(ع) تمہارے دوست اور ناصر ہیں؟ ایسی صورت میں کہ افراد امت میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو علی(ع) کے ساتھ آنحضرت(ص) کے انتہائی ربط کو نہ جانتا

۴۹

ہو اور بار بار آپ کی وصیت اور سفارش کو نہ سن چکا ہو( جیسا کہ ان میں سے بعض کی طرف میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں) دوبارہ خاص طور پر ایسے سخت گرم مقام پر نزول آیات اور اس قدر شدید تاکید کی کیا ضرورت تھی کہ اگر زحمت اور تعطل میں پڑ جائیں اور نتیجہ فقط یہ ہو کہ علی کودوست رکھو؟ بلکہ اگر آپ اچھی طرح سے غور کریں تو یہ عمل جب کہ اس کا کوئی اہم مقصد اور خاص پہلو نہ ہو۔ صاحبان عقل کی نظر میں لغو ٹھہرے گا۔ اور رسول اکرم(ص) سے کوئی لغو کام ہرگز صادر نہیں ہوتا۔

پس عند العقلاء ثابت ہے کہ یہ سارا ارضی و سماوی اہتمام و انتظام محض محبت و دوستی کے لیے نہ تھا بلکہ منصب رسالت کے قدم بہ قدم کوئی اہم کام تھا اور وہ وہی امر ولایت و امامت تھا اور مسلمانوں کے امور اولی بہ تصرف ہونا تھا۔

مولی کے معنی میں سبط ابن جوزی کا عقیدہ

چنانچہ آپ کے اکابر علماء کے ایک گروہ نے از روئے غور و اںصاف اس بات کی تصدیق کی ہے۔ من جملہ ان کے سبط ابن جوزی تذکرۃ خواص الامہ باب دوم میں کلمہ مولیٰ کے دس مطلب ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان معانی میں سے کوئی بھی رسول اللہ(ص) کے کلام سے مطابقت نہیں کرتا :

"و المراد من‏ الحديث‏، الطاعة المحضة المخصوصة، فتعيّن الوجه العاشر و هوالأولى، و معناه: من كنت أولى به من نفسه، فعليّ أولى به."

یعنی حدیث سے خالص اور مخصوص اطاعت مراد ہے پس دسواں مطلب صحیح ٹھہرتا ہے اور وہ اولی بہ تصرف ہونا ہے لہذا معنی یہ ہوئے کہ جس شخص کے لیے میں اس کے نفس سے زیادہ اولی بہ تصرف ہوں علی(ع) بھی اس کے لیے اولی بہ تصرف ہیں۔

اور کتاب مرج البحرین میں حافظ ابوالفرج یحیی بن سعید ثقفی اصفہانی کا قول بھی اس معنی کی صراحت کرتا ہے جنہوں نے اس حدیث کی اپنے اسناد کے ساتھ اپنے مشایخ سے روایت کی ہے اور کہا ہے کہ پیغمبر(ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کے فرمایا "من كنت وليه وأولى به من نفسه فعلي‏ وليه‏." یعنی جس کا میں ولی اور اس کے نفس سے اولی بہ تصرف ہوں۔ پس علی(ع) بھی اس کے ولی یعنی اولیٰ بہ تصرف ہیں۔

پھر سبط ابن جوزی کہتے ہیں:

"ودل‏ عليه‏ أيضاقوله‏عليهالسلام«الست أولى بالمؤمنين منأنفسهم»وهذانص صريح في إثباتامامته وقبول طاعته"

یعنی آں حضرت (ص) کا قول الست اولی بالمومنین من انفسہم بھی اس پر دلالت کرتا ہے اور یہ علی علیہ السلام کی امامت اور ان کی اطاعت قبول کرنے کے اثبات میں ایک کھلی ہوئی نص ہے۔ انتہی کلامہ۔

۵۰

مولیٰ کے معنی میں

ابن طلحہ شافعی کا نظریّہ

نیز محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول باب اول اواسط پنجم ص16 میں کہتے ہیں کہ لفظ مولی کے متعدد معنی ہیں مثلا اولیٰ بہ تصرف، ناصر، وارث، صدیق اور سید، اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ حدیث اسرار آیہ مباہلہ میں سے ہے اس لیے کہ خدائے تعالی نے علی علیہ السلام بمنزلہ نفس پیغمبر(ص) فرمایا ہے اور نفس علی(ع) کے درمیان کوئی جدائی نہیں تھی کیونکہ ان دونوں کو رسول اللہ(ص) کی طرف ضمیر مضاف کے ذریعے باہم جمع فرمایا ہے۔

"أثبت‏ رسول‏ اللّه‏ لنفس‏ علي‏ بهذاالحديث ماهوثابت لنفسه على المؤمنين عموما،فإنه أولى بالمؤمنين،وفاءالمؤمنين،وسيدالمؤمنين،وكل معنى أمكن إثباتهم مايدل عليه لفظ المولى لرسول اللّه فقدجعله لعلي (ع)،وهي مرتبةسامية،ومنزلةسامقة،ودرجةعلية،ومكانةرفيعة،خصصه بهادونغيره،فلهذاصارذلكاليوميومعيده وموسمسرورلأوليائه."

یعنی رسول اللہ(ص) اس حدیث کے ذریعے نفس علی(ع) کے لیے بالعموم ہر وہ چیز ثابت فرمادی جو مومنین پر ان کے نفس کے لیے ثابت ہے، پس آں حضرت یقینا مومنین کے امور میں اولی بہ تصرف ، مومنین کے مددگار اور مومنین کے سید و آقا ہیں اور ہر وہ معنی جس پر رسول خدا(ص) کے لیے لفظ مولا دلالت کرتا ہے اور اس کا اثبات ممکن ہے علی(ع) کے لیے بھی قرار دیا، اور یہ ایک مرتبہ عالیہ، منزلت بزرگ ، درجہ بلند اور مقام رفیع ہے۔ جس سے بلاشرکت غیرے صرف آپ کو مخصوص فرمایا چنانچہ اسی وجہ سے روز غدیر آپ کے دوستوں کے لیے عید اور موسم سرور بن گیا۔

حافظ : آپ کے ارشاد کے پیش نظر لفظ مولی چونکہ متعدد معانی میں استعمال ہوا ہے لہذا اس کو تمام معانی کے درمیان سے بغیر کسی مختص کے صرف اولی بہ تصرف کے معنی سے مخصوص کردینا باطل ہوگا۔

خیر طلب : آپ محققین علم اصول کے اس قول سے تو یقینا بخوبی واقف ہیں کہ حیثیت سے جس لفظ کے متعدد معانی آئے ہیں ان میں سے ایک حقیقی ہے اور باقی مجازی، اور یہبدیہی چیز ہے کہ ہر جگہ حقیقت مجاز پر مقدم ہوتی ہے۔ پس اس اصول کی بنا پر لفظ مولی و ولی ہیں حقیقی معنی مولی بہ تصرف کے ہوتے ہیں۔ جیسے ولی نکاح یعنی امر نکاح کا متولی، عورت کا دل اس کا شوہر اور بچے کا ولی اس کا باپ یعنی اس پر اولی بہ تصرف اور بادشاہ کا ولی عہد یعنی بادشاہ کے بعد اس کے امور سلطنت میں متصرف اسی قبیل سے دوسرے تمام معنی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اعتراض تو خود آپ ہی پر وارد ہوتا ہے کہ لفظ ولی و مولی کو جس کے متعدد معنی ہیں صرف محب و ناصر کے معنی سے مخصوص کرتے ہیں لہذا یہ تخصیص بلا مخصص قطعا باطل ہے۔ اور یہ ایراد زیادہ تر آپ ہی پر وارد ہے نہ کہ ہم پر اس لیے کہ ہم نے اگر تخصیص کی ہے تو بلا مخصص نہیں ہےبلکہ آیات و اخبار اور بزرگان قوم

۵۱

کے اقوال کے ان کثیر قرائن و دلائل کے روسے ہے جو اس مفہوم پر قائم ہیں۔

من جملہ ان کے وہ دلیلیں بھی ہیں جو آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے سبط ابن جوزی اور محمد بن ابی طلحہ شافعی نے بیان کی ہیں۔ اور سب سے بڑی دلیل وہ ظاہیر و باطنی قرینے ہیں جو اس کے معنی کی تخصیص کرتے ہیں۔ اور جن میں سے بعض کی طرف میں اشارہ بھی کرچکا ہوں کہ ہمارے اور آپ کے طرق سے بکثرت احادیث میں سے ایک یہ ہے کہ اس آیہ مبارکہ کو اس طرح نقل کیا ہے:

"ياأَيُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ماأُنْزِلَ‏ إِلَيْكَ فی و لاية علی و امامةاميرالمومنين"

چنانچہ جلال الدین سیوطی نے جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں در المنثور میں ان حدیثوں کو جمع کیا ہے۔

رحبہ میں حدیث غدیر سے علی(ع) کا احتجاج

الرحبہ حدیث اور لفظ مولی امامت اور خلافت اولی پر نص نہ ہوتی تو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اس سے بار بار احتجاج نہ فرماتے اور بالخصوص شوری کے جلسوں میں اس سے استدلال نہ کرتے۔ جیسا کہ خطیب خوارزمی نے مناقب میں، ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد باب58 میں، حافظ ابن عقدہ نے کتاب الولایہ میں، ابن حاتم دمشقی نے وراء النظم میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص61 میں تفصیل سے نقل کیا ہے اور خالص طور پر یہ کہ رحبہ میں تیس عدد اصحاب نے اس کی گواہی دی۔

چنانچہ امام احمد بن حنبل نے مسند جز اول ص119 وجزء چہارم ص370 میں، ابن اثیر جزری نے اسد الغابہ جلد سوم ص307 و جلد پنجم ص205، ص276 میں، ابن قتیبہ نے معارف ص194 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص362 میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاء جلد پنجم ص26 میں، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد دوم ص408 میں، محب الدین طبری نے ذخائر العقبی ص67 میں، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی ص26 میں، علامہ سمہودی نے جواہر العقدین میں، شمس الدین جزری نے اسنی المطالب ص3 میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب4 میں، حافظ ابن عقدہ نے کتاب الولایہ میں اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے رحبہ کوفہ (یعنی مسجد کوفہ کے صحن) میں مسلمانوں سے علی علیہ السلام کا احتجاج نقل کیا ہے کہ حضرت نے لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ جس شخص نے غدیر خم میں اپنے کانوں سے میرے بارے میں رسول اللہ(ص) سے کچھ سنا ہو وہ اٹھ کر گواہی دے! اصحاب میں سے تیس نفر اٹھے جن میں بارہ عدد بدری صحابی تھے اور کہا کہ ہم نے غدیر خم کے روز دیکھا کہ رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کے لوگوں سے فرمایا:

"اتعلمون‏ اني‏ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ‏؟قالوا: نعم،قال من كنت مولاه فهذامولاه- الخ"

یعنی آیا تم جانتے ہو کہ میں مومنین کے جانوں سے زیادہ ان پر حق رکھتا ہوں؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں ، تو فرمایا جس شخص کا میں مولا ہوں پس یہ علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں۔

اس مجمعمیں سے تین افراد نے شہادت نہیں دی جن میں ایک انس بن مالک بھی تھے جنہوں نے کہا مجھ پر بڑھاپا غالب

۵۲

آگیا ہے اس وجہ سے بھول گیا ہوں۔ حضرت نے ان لوگوں پر نفرین اور بد دعا فرمائی اور خصوصیت سے انس کے لیے فرمایا کہ اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو خدا تم کو جذام اور برص میں مبتلا کرے جس کو عمامہ چھپا نہ سکے! پس انس ابھی اپنی جگہ سے اٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ ان کے جسم میں کوڑھ اور سفید داغ پیدا ہوگئے( بعض روایتوں میں ہے کہ اندھے اور کوڑھی ہوگئے)

بدیہی چیز ہے کہ اس حدیث کو حجت قرار دینا اور اس سے استشہاد کرنا اس کی مکمل دلیل ہے کہ آپ نے سب سے بڑھے حق یعنی امارت و خلافت مںصوصہ کو ثابت فرمایا۔

( اس موقع پر مئوذن کی آواز بلند ہوئی اور مولوی صاحبان نماز عشاء پڑھنے کے لیے اٹھ گئے ۔ ادائے فریضہ تھوڑی استراحت اور چائے نوشی کے بعد پھر گفتگو شروع ہوئی۔)

چوتھا قرینہ

الست اولی بکم من انفسکم

خیر طلب : چوتھے حدیث کا قرینہ کلام خود اس مقصد کو ثابت کررہا ہے کہ مولی سے مراد اولی بہ تصرف ہے کیونکہ خطبہ غدیر اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ(ص) نے اظہار مطلب سے قبل فرمایا "الست اولی بکم من انفسکم " یعنی آیا میں تمہارے نفوس سے زیادہ تم پر اولی بہ تصرف نہیں ہوں؟( اشارہ سورہ نمبر33 ( احزاب) کے آیہ نمبر6 کی طرف جس میں ارشاد ہے "النبی أنّي أولى بالمؤمنين من أنفسهم" ( یعنی پیغمبر(ص) مومنین کی جانوں سے زیادہ ان کے لیے اولی بہ تصرف اور حقدار ہیں)

اور کتب فریقین میں یہ حدیث صحیح بھی وارد ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا " ما من مومن الا انا اولی به فی الدنيا والآخرة " یعنی کوئی مومن ایسا نہیں ہے جس پر میں دنیا و آخرت میں اولی بہ تصرف ہوں۔

سب نے کہا ہاں، آپ ہمارے نفوس سے زیادہ ہم پر اولی بہ تصرف ہیں، تب آں حضرت(ص) نے فرمایا"من كنت مولاه فهذا عليّ مولاه" پس سباق کلام بتاتا ہے کہ مولی سے وہی اولیت مراد ہے جو رسول خدا(ص) کو امت پر حاصل تھی۔

حافظ : بہت سی کتابوں میں اس قرینے کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ فرمایا ہو" الست اولی بکم من انفسکم "

خیر طلب : حدیث غدیر کے سلسلہ میں عبارات و الفاظ اور نقل کرنے والوں کے اقوال مختلف ہیں۔ اخبار امامیہ میں تو عمومیت ہے اور جمہور علماء شیعہ نے اپنی معتبر کتابوں میں اسی قرینے کے ساتھ نقل کیا ہے۔ لیکن آپ کی معتبر کتابوں میں بھی کثرت سے موجود ہے۔ چنانچہ اس وقت جہاں تک میرے پیش نظر ہے، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص18 میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے امام احمد وزہری اور حافظ ابوبکر بیہقی سے نقل کرتے ہوئے فصول المہمہ میں، ابوالفتوح اسعد بن ابی الفضائل بن خلف العجلی نے اپنی کتاب الموجز فی الفضائل الخلفاء الاربعہ میں، خطیب خوارزمی نے مناقب فصل چہاردہم

۵۳

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب اول میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب4 میں، مسند احمد حنبل مشکوۃ ال؟؟؟؟ سنن ابن ماجہ، حلیتہ الاولیاء حافظ ابو نعیم اصفہانی، مناقب ابن مغازلی شافعی اور کتاب الموالات ابن عقدہ کے حوالوں سے اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے الفاظ اور انداز بیان کے معمولی فرق کے ساتھ حدیث غدیر کو نقل کیا ہے اور ہر ایک کے یہاں جملہ "الست اولی بکم من انفسکم " موجود ہے۔ تیمنا و تبرکا میں اس حدیث کا ترجمہ عرض کرتا ہوں جو اصحاب حدیث کے امام احمد بن حنبل نے مسند جلد چہارم ص481 میں، براء بن عازب کی سند سے نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا میں ایک سفر میں رسول خدا(ص) کے ساتھ تھا، یہاں تک کہ ہم لوگ غدیر میں پہنچے۔ آں حضرت(ص) نے منادی کرائی " الصلوۃ جامعۃ " ( عادت اور رسم یہی تھی کہ جب کوئی اہم مسئلہ در پیش ہوتا تھا تو آں حضرت(ص) حکم دیتے تھے کہ " الصلوۃ جامعۃ " کی ندا دی جائے جب امت جمع ہوجاتی تھی تو ادائے نماز کے بعد اس امر خاص کی تبلیغ فرماتے تھے) اس کے بعد دو درختوں کے درمیان پیغمبر(ص) کی قیام گاہ بنائی گئی اور ادائے نماز کے بعد آں حضرت(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر مجمع کے سامنے ارشاد فرمایا :

"ألستم تعلمون أنّي أولى بالمؤمنين من أنفسهم قالوا: بلى.قال: ألستم‏ تعلمون‏ أنّي‏ أولى‏ بكلّ مؤمن من نفسه؟!قالوا: بلى.قال: من كنت مولاه فعليّ مولاه، اللّهمّ وال من والاه، و عاد من عاداه. فلقيه عمر بن الخطاب بعد ذلك، فقال له: هنيئا يا بن أبي طالب! أصبحت و أمسيت مولى كلّ مؤمن و مؤمنة"

یعنی آیا تم لوگ نہیں جانتے ہو کہ میں مومنین کے نفسوں سے زیادہ ان پر تصرف کا حق رکھتا ہوں؟ لوگوں نے کہا ہاں ہم واقف ہیں۔ پھر فرمایا آیا تم لوگ نہیں جانتے ہو کہ میں ہر مومن پر اس کی جان سے بڑھ کے اولی بتصرف ہوں؟ پھر دعا فرمائی کہ خداوند دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے۔ اس کے بعد فورا عمر ابن خطاب نے علی علیہ السلام سے ملاقات کی اور کہا مبارک ہو تم کو اے ابوطالب کے فرزند کہ تم ہر مومن ومومنہ کے مولا ہوگئے۔

نیز میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں ، سلیمان بلخی حنفی نے یبابیع میں اور حافظ ابو نعیم نے حلیہ میں مختصر لفظی تفاوت کے ساتھ اسی حدیث کو درج کیا ہے۔

بالخصوص حافظ ابو الفتح نے جن سے ابن صباغ نے بھی فصول المہمہ میں نقل کیا ہے اس عبارت کے ساتھ لکھا ہے، کہ خاتم الانبیاء(ص) نے فرمایا :

"ايهاالناس ان الله تبارک و تعالی مولای و انا اولی بکم من انفسکم الا ومن کنت مولاه فعلی مولاه"

یعنی اے لوگو خدائے تبارک و تعالی میرا مولا ہے اور میں تمہارے نفوس سے زیادہ تم پر اولی بہ تصرف ہوں۔ آگاہ ہو کہ جس کے لیے میں اولی بہ تصرف ہوں پس علی(ع) بھی اس کے لیے اسی طرح اولویت رکھتے ہیں۔

ابن ماجہ قزوینی نے سنن میں اور امام ابو عبدالرحمن نسائی نے احادیث ص81،83، و ص92، 94، میں بھی اسی قرینے کو نقل کیا ہے اور حدیث نمبر84 میں

۵۴

زید بن ارقم سے اس عبارت کے ساتھ روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے خطبے کے ضمن میں فرمایا :

"ألستم‏ تعلمون‏ أنّي‏ أولى‏ بكلّ مؤمن من نفسه؟!قالوا: بلى. نشهد لانت اولی بکل مومن من نفسه قال: فانی من كنت مولاه فعليّ مولاه و اخذ بيد علی عليه السلام"

یعنی آیاتم نہیں جانتے ہو کہ میں ہر مومن و مومنہ پر اس کے نفس سے زیادہ تصرف کا حق رکھتا ہوں؟ سب نے کہا ہاں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہر مومن کے نفس سے زیادہ اس پر اولی بہ تصرف ہیں اس وقت فرمایا کہ جس پر میں اولی بہ تصرف ہوں یہ بھی اس پر اولی بہ تصرف ہیں۔ اور علی(ع) کا ہاتھ پکڑ لیا اس کے علاوہ ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی متوفی سنہ463 ہجری نے تاریخ بغداد جلد ہشتم ص290 میں ابوہریرہ سے ایک مفصل حدیث نقل کی ہے کہ جو شخص اٹھارہویں ذی حجہ ( روز غدیر) کو روزہ رکھے تو اس کو ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب حاصل ہوگا۔ پھر مذکورہ حدیث غدیر کو اسی قرینے کے ساتھ نقل کیا ہے۔

میرے خیال میں نمونے کے لیے اسی قدر روایتوں کا نقل کردینا کافی ہوگا تاکہ آپ دوبارہ یہ نہ فرمائیں کہ اخبار و احادیث میں قرینہ "الست اولی بکم من انفسکم " کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

رسول اللہ(ص) کے سامنے حسان کے اشعار

پانچوان قرینہ حسان بن ثابت اںصاری کے وہ اشعار ہیں جو انہوں نے رسول اللہ(ص) کے سامنے خود آنحضرت(ص) کی اجازت سے اسی جلسے میں پڑھے جس میں علی(ع) کے منصب ولایت کا اعلان فرمایا گیا تھا۔ سبط ابن جوزی وغیرہ لکھتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے جس وقت یہ اشعار سنے تو فرمایا :

"ياحسان‏ لاتزال‏ مؤيدابروح القدس مانصرتناأونافحت عنابلسانك."

یعنی اے حسان جب تک تم ہماری نصرت یا اپنی زبان سے ہماری تعریف و توصیف کرتے رہے ہوگے روح القدس برابر تمہاری تائید کرتا رہے گا۔ یعنی تمہارے یہ اشعاد روح القدس کی تائید میں سے ہیں٫

چنانچہ چوتھی صدی ہجری کے مشہور مفسر و محدث حافظ ابن مردویہ احمد بن موسی متوفی سنہ352 ہجری مناقب میں، صدر الائمہ موفق بن احمد خوارزمی مناقب اور مقتل الحسین فصل چہارم میں، جلال الددن سیوطی رسالہ الازہار فیما عقدہ الشعراء میں، حافظ ابوسعید خرگوشی شرف المصطفی میں، حافظ ابوالفتح نطتری خصائص العلویہ میں، حافظ جمال الدین زرندی نظم دار السمطین میں، حافظ ابونعیم اصفہانی مانزل من القرآن فی علی میں، ابراہیم بن محمد حمیونی فرائد السمطین باب 12 میں، حافظ ابوسعید سجستانی کتاب الولایہ میں، یوسف ابن جوزی ت تذکرۃ خواص الامہ ص20 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب اول میں، اور آپ کے دوسرے علماء و محدثین و مورخین ابو سعید خدزی سے نقل کرتے ہیں کہ روز غدیر خم خطبہ رسول(ص) اور نصب امیرالمومنین نیز گر تشریحات کے بعد جن کا مختصر ذکر ہوچکا ہے حسان بن ثابت نے عرض کیا:

"أَتَأْذَنُ لِي أَنْ‏ أَقُولَ‏ أَبْيَاتاً فَقَالَ صلی الله عليه ،سلم

۵۵

قُلْ بىبَرَكَةِاللَّهِ"

یعنی کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں اس بارے میں کچھ اشعار کہوں؟آنحضرت(ص) نے فرمایا کہو یہ برکتِ خداوندی یعنی لطف و عنایت پروردگار۔ پس وہ ایک بلند قدم پر کھڑے ہوئے اور فی البدیہ یہ اشعار شروع کئے۔

يُنَادِيهِمْ يَوْمَ الْغَدِيرِنَبِيُّهُمْ‏بِخُمٍّ وَأَسْمِعْ بِالنَّبِيِّ مُنَادِياً

أَلَسْتُ أَنَامَوْلَاكُمْ وَوَلِيَّكُمْ‏فَقَالُواوَلَمْ يَبْدُواهُنَاكَ التَّعَامِيَا

إِلَهُكَ مَوْلَانَاوَأَنْتَ وَلِيُّنَاوَلَاتَجِدَنْ فِي الْخَلْقِ لِلْأَمْرِعَاصِياً

فَقَالَ لَه ُقُمْ يَاعَلِيُّ فَإِنَّنِي‏رَضِيتُكَ مِنْ بَعْدِي إِمَاماًوَهَادِياً

فمن کنت مولاه فهذا وليهفکونوا لهانصار صدق مواليا

هناک دعا اللخم وال وليهو کن الذی عادی عليا معاديا

یعنی غدیر خم کے روز نبی اکرم(ص) نے امت کو آواز دی اور میں نے آں حضرت(ص) کے منادی کی ندا سنی۔ آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ تمہارا مولا اور ولی ( یعنی اولی بہ تصرف ) کون ہے ؟ تو لوگوں نے صاف صاف کہا کہ خدا ہمارا مولی اور آپ ہمارے ولی ہیں اور کسی کو اس حقیقت سے انکار نہیں ہے۔ پس آں حضرت (ص) نے علی(ع) سے فرمایا کہ اٹھو میں اپنے بعد تمہارے امام اور ہادی ہونے پر راضی ہوں پس میں جس کے امور میں ولی اور اولی بہ تصرف ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے امور میں ولی اور اولی بہ تصرف ہیں، لہذا اے امت والو سچائی اور وفادار کے ساتھ ان کے یار و مددگار بنو پھر دعا فرمائی کہ خداوندا جو علی(ع) کا دوست ہو اس کو دوست رکھ اور جو ان کا دشمن ہو اس کو دشمن رکھ۔

یہ اشعار بہت واضح دلیل ہیں اس بات کی کہ اس روز اور اس موقع پر اصحاب نے لفظ مولی سے علی علیہ السلام کی امامت و خلافت کے سوا اور کوئی مطلب نہیں نکلا۔ اگر مولا امام ہادی اور اولی بہ تصرف کے معنی میں نہ ہوتا تو قطعا جس وقت حضرت نے حسان کے اشعار میں مصرع "رَضِيتُ كَمِنْ بَعْدِيإ ِمَام اًوَهَادِياً " سنا تھا فوراارشاد فرماتے کہ حسان تم نے دھوکا کھایا اور میرا مقصد نہیں سمجھے اس لیے کہ اس بیان سے میرا مقصود امام و ہادی اور اولی بہ تصرف قائم مقام منصب نبوت نہیں بلکہ دوست و ناصر کا مفہوم مراد تھا۔ لیکن قطع نظر اس سے کہ ان کی تکذیب نہیں کی، الفاظ "لاتزال‏ مؤيدابروح القدس " سے ان کی تصدیق بھی فرما دی ۔ اس کے علاوہ خطبے کی ضمن میں بھی پوری وضاحت کے ساتھ آپ کی امامت و خلافت کا اعلان فرمایا آپ حضرات کو لازم ہے کہ خطبہ ولایت کا مطالعہ کیجئے جو رسول خدا(ص) نے غدیر کے روز بیان فرمایا تھا اور جس کو ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی سنہ310 ہجری نے کتاب الولایہ میں تمام و کمال نقل کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

"اسمعواوأطيعوافإن‏ الله‏ مولاكم‏وعلي إمامكم ثم الإمامةفي ولدي من صلبه إلى يوم القيامة. معاشر الناس هذا اخی و وصيی و داعی علمی و خليفتی علی من آمن بی و علی تفسير کتاب ربی"

یعنی سنو اور اطاعت کرو پس یقینا اللہ تمہارا مولا اور علی(ع) تمہارے امام ہیں۔ پھر قیامت تک امامت علی(ع) کی نسل سے میری اولاد ہی میں رہے گی۔ اے گروہ ناس یہ(علی(ع)) میرے بھائی،

۵۶

میرے وصی میرے علم کے محافظ اور میرے خلیفہ ہیں ہر اس شخص پر جو مجھ پر اور کتاب الہی کی تفسیر پر ایمان لایا ہے۔

حضرات ! اگر انصاف سے دیکھئے تو خود آں حضرت(ص) کے بیانات کے علاوہ یہ اشعار سننے کےبعد آپ کی خاموشی دلیل قاطع ہے اس چیز پر کہ آں حضرت(ص) کی مراد محب و ناصر نہیں تھی بلکہ وہی تھی جس کو حسان نے نظم کیا ہے یعنی امام و ہادی امور مسلمین میں اولی بہ تصرف۔ چنانچہ فرمایا کہ حسان ! یہ حقیقت تمہاری زبان پر روح القدس کی تائید سے جاری ہوئی ہے۔

صحابہ کی وعدہ شکنی

بہر حال آں حضرت(ص) کے حسب الارشاد و لایت مطلقہ کے حقیقی معنی لیے جائیں یا آپ کے عقیدے کے مطابق محب و ناصر کے معنی، یہ مسلم ہے کہ اس روز اصحاب نے حکم رسول(ص) سے کچھ وعدہ کیا تھا، ایک بیعت کی تھی اور کوئی عہد و پیمان کیا تھا۔ جس پر علمائے فریقین ( شیعہ و سنی) کا اتفاق ہے، پس آخر اس عہد و پیمان کو کیوں توڑا؟ اگر آپ ہی کا فرمانا صحیح فرض کر لیا جائے کہ آنحضرت(ص) کا مقصود دوستی اور یاوری تھا تو خدا کے لیے انصاف سے بتائیے کہ جس دوستی کا اور نصرت و یاری کا عہد باندھا تھا کیا اس کا مطلب اور نتیجہ یہی ہونا چاہئیے تھا کہ ان کے دروازے پر آگ لے جائیں، ان کی بیوی بچوں کو جو اولاد رسول(ص) تھے آزار پہنچائیں اور خوف زدہ کریں ان کو جبرا کھینچتے ہوئے مسجد میں لے جائیں، اور ننگی تلواریں لیے ہوئے ان کو قتل کردینے کی دھمکی دیں، رسول خدا(ص) کا پارہ جگر جناب فاطمہ(ع) کو خوفزدہ اور اذیت میں مبتلا کریں اور حمل ساقط کریں؟

آیا اس خاص تاریخ میں اس قدر عظیم الشان انتظامات اور اتنے سخت تاکیدات کے ساتھ رسول(ص) کی سفارشوں کا یہی مقصد تھا؟ آیا آں حضرت(ص) کی وفات کے بعد اس قسم کے حرکات خدا و رسول(ص) سے عہد شکنی نہیں تھی؟ آیا جن لوگوں نے یہ عہد توڑٰا یا ( آپ کے خیال سے ) دوستی کا پیمان آخر تک نہیں نبھایا۔ انہوں نے سورہ نمبر13 ( رعد) کی آیت نمبر25 نہیں پڑھی تھی؟ اگر ہم جاہلانہ محبت اور بغض کو الگ رکھیں تو حق و حقیقت بالکل ظاہر ہے۔

گرپردہ زروئے کار ہا بردارندمعلوم شود کہ درجہ کار ہمہ

احد حنین اور حدیبہ میں صحابہ کی عہد شکنی

غزوہ احد اور حنین میں جب رسول اللہ(ص) نے تمام اصحاب سے عہد لیا تھا کہ آج کے روز فرار نہ کرنا تو کیا ان لوگوں نے فرار نہیں کیا؟ آیا یہ میدان جنگ سے بھاگنا اور دشمنوں کے مقابلہ میں پیغمبر(ص) کو تنہا چھوڑ کر چل دینا، جس کو خود آپ کے مورخین طبری، ابن ابی الحدید اور ابن عثم کوفی وغیرہ نے بھی لکھا ہے، عہد شکنی نہیں تھی؟

۵۷

قسم خدا کی آپ لوگ بلا وجہ ہم پر اعتراض کرتے ہیں۔ شیعہ بھی وہی کہتے ہیں جو آپ کے بڑے بڑے علماء نے کہا ہے اور کتابوں میں وہی لکھتے ہیں جو خود آپ کے علماء ومورخین لکھ چکے ہیں۔

اگر علماء شیعہ نے صحابہ پر کچھ تنقیدیں کی ہیں تو وہ وہی ہیں جو آپ کے علماء نے لکھی ہیں۔

اںصاف سے فیصلہ کرنا چاہئیے

پس آخر آپ لوگ نسلا بعد نسل ہم پر کس لیے حملے کرتے چلے آرہے ہیں؟ آپ لوگ لکھیں تو کوئی عیب نہیں اور نہ قابل گرفت ہے۔ لیکن جو کچھ سنی اکابر علماء نے لکھا ہے اگر وہی ہم کہہ دیں تو کافر ہوجاتے ہیں، ہمارا قتل واجب ہوجاتا ہے محض اس جر م میں کہ بعض صحابہ کے افعال زشت اور اعمال قبیحہ پر تبصرہ اور نکتہ چینی کرتے ہیں۔

حالانکہ اگر صحابہ پر طعن و تشنیع مذموم اور موجب رفض ہے تو قطعا تمام صحابہ بھی رافضی تھے کیونکہ عام طور پر سب نے ایک دوسرے کو لعنت ملامت کی ہے اور اعمال کی مذمت کی ہے یہاں تک کہ ابوبکر و عمر نے بھی۔

اگر تنگی وقت کا خیال نہ ہوتا تو تفصیل سے ان کے اقوال بیان کرتا۔ اگر آپ بخوبی اس کی جانچ کرنا چاہتےہوں کہ اصحاب رسول(ص) بھی دوسرے لوگوں کی طرح جائز الخطا تھے۔ ان میں سے جنہوں نے پرہیزگاری اختیار کی وہ مومنین یا پاکباز اور قابل احترام ٹھہرے اور جو لوگ ہوا و ہوس کے بندے بنے اور ان سے بری حرکتیں سر زد ہوئیں وہ مطعون مذموم قرار پائے تو شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد چہارم کے ص454 سے ص462 تک صحابہ کے بارے میں ابوالمعانی جوینی کے اعتراض پر زیدی کا مفصل جواب ملاحظہ فرمائیے۔ جس کو ابوجعفر نقیب نے نقل کیا ہے تاکہ آپ کومعلوم ہو کہ صحابہ کس قدر اختلاف و افتراق تھا اور کس طرح ایک دوسرے کی تفسیق و تکفیر اور لعنت و ملامت کرتے تھے۔

شیعوں اور آپ کے منصف علماء اور عام حضرات اہل سنت وجماعت کے درمیان جو خاص فرق ہے وہ محبت اور بغض کے مسئلے میں ہے، آپ لوگ چونکہ بعض صحابہ سے اندھادھند عقیدت اور خلوص و محبت رکھتے ہیں لہذابمصداق حب الشی يعمی و يعصم ( یعنی کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرا بنادیتی ہے 12مترجم ) ان کے اندر برائی نظر ہی نہیں آتی بلکہ اگر نگاہ محبت سے دیکھنے کے باوجود بھی ان کے دامن داغدار نظر آتے ہیں تو ان کو تمام مطاعن سے مبرا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور کھلے ہوئے معائب کے مقابلہ میں ایسے پھسپھسے جوابات دیتے ہیں کہ ان پر ہنسی آجاتی ہے۔

لیکن ہم خدا کو گواہ کر کے کہتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول(ص) کو بغض و عناد اور عداوت کی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ متفقہ حالات و واقعات کا عقل وبرہان کی نگاہ سے جائزہ لیتے ہیں، اچھائیوں کو اچھا اور برائیوں کو برا دیکھتے ہیں اور حق فیصلہ کرتے ہیں٫

محترم حضرات! ہم اور آپ قیامت اور روز جزا پر ایمان رکھتے ہیں، دنیا کی اس چند روز زندگی میں کیا رکھا ہے جو عنقریب

۵۸

ختم ہوجائے گی۔ فکر تو اس روز کی کرنا چاہئے۔

قسم خدا کی ہم شیعہ مظلوم ہیں، بے خبر عوام کو بلاوجہ دھوکا نہ دیجئے اور موحد شیعوں کو کافر اور رافضی نہ کہئے۔ آیا یہ مناسب ہے کہ محمد(ص) و آل محمد صلوۃ اللہ علیہم اجمعین کے پیرئوں کو خواہ مخواہ بہانہ بنا کے رافضی اور خطا وار قرار دیجئے؟ در آنحالیکہ اگر اس تنقید اور اظہار حقیقت کی وجہ سے آپ شیعوں کر برا کہتے اور کافر سمجھتے ہیں تو ان سے پہلے اپنے بڑے بڑے علماء کو برا کہئے جن کے قلم سے اس قسم کی تنقیدیں نکلی ہیں اور آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں۔

حدیبیہ میں صحابہ کا فرار

مثلا قضیہ حدیبیہ کے سلسلے میں ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور آپ کے دوسرے مورخین لکھتے ہیں کہ قرار داد صلح کے بعد عمر ابن خطاب کے ساتھ اکثر صحابہ بگڑے ہوئے تھے اور رسول اللہ(ص) کو تائو دکھا رہے تھے کہ ہم صلح پر راضی نہیں تھے جنگ کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے کیوں صلح کر لی؟ آنحضرت(ص) نے فرمایا اگر تم لڑائی کا شوق ہے تو جائو میں منع نہیں کرتا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے حملہ کیا، لیکن قریش بھی تیار تھے انہوں نےمنہ توڑ جواب دیا اور ان کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ اب جو بھاگے تو پیغمبر(ص) کے پاس بھی نہیں ٹھہر سکے بلکہ صحرا کی طرف نکل گئے۔ آں حضرت(ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ تلوار اٹھائو اور قریش کی روک تھام کرو۔ قریش نے جونہی علی(ع) کو مقابلے پر دیکھا پیچھے ہٹ گئے۔ اس کے بعدبھاگے ہوئے اصحاب تھوڑے تھوڑے کر کے واپس آئے اور اپنی حرکت سے شرمندہ ہوکر معذرت کرنے لگے۔ رسول اللہ(ص) نے فرمایا کہ میں تم کو پہنچانتا نہیں ہوں ؟ کیا تم لوگ وہی نہیں ہو جو غزوہ بدر کبری میں دشمنوں کے سامنے کانپ رہے تھے یہاں تک کہ خدا نے ہماری مدد کے لیے فرشتے بھیجے؟ آیا تمہیں لوگ میرے وہ اصحاب نہیں ہو جو احد کے روز بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھ گئے تھے اور مجھ کو اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ میں ہر چند پکارتا رہا لیکن تم لوگ نہیں پلٹے؟ خلاصہ یہ کہ آںحضرت(ص) ان کی تمام کمزوریان اور بے ثباتیاں گنواتے رہے اور وہ لوگ برابر عذار خواہی کرتے رہے بالآخر ابن ابی الحدید اس مقام پر لکھتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے یہ ساری زجرو توبیخ عمر کے اوپر کی جب وہ آں حضرت(ص) کے وعدوں کو جھٹلا چکے تھے۔ پھر لکھتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ احد میں ضرور بھاگے ہوں گے کیونکہ آں حضرت(ص) نے عتاب فرماتے ہوئے اس کا بھی ذکر فرمایا ہے آپ حضرات ملاحظہ فرمائیے کہ یہی قضیہ جس کو ابن ابی الحدید وغیرہ کے ایسے بزرگ علماء لکھ چکے ہیں اگر ہم بیاں کریں تو آپ فورا دھر پکڑ کرنے اور ہم کو رافضی و کافر کہنے لگتے ہیں کہ ایسا کیوں کہتے ہو اور خلیفہ کی توہین کیوں کرتے ہو، لیکن ابن ابی الحدید اور انہیں جیسے دوسرے علماء پر کوئی اعتراض نہیں، یاد رکھئیے ہم جو کچھ کہتے ہیں توہین کی غرض سے نہیں کہتے بلکہ تاریخی واقعات کو نقل کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ آپ ہماری طرف سے بد گمانی رکھتے ہیں لہذا اس کا کوئی اثر نہیں لیتے۔

۵۹

اس موقع کے لحاظ سے عرب کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

وعين‏ الرضاعنك لعيبك ليلةكماأن عين السخط تبديالمساويا

یعنی عقیدت مند کی آںکھ ہر عیب سے چشم پوشی کرتی ہے لیکن چشم غضب خطائوں کو ڈھونڈ نکالتی ہے۔

قیامت کے روز آپ کے علماء پر ہمارے بہت سے استغاثے ہیں ضیا تو گزر جائے گی لیکن اللہ کے دربار عدالت میں آپ کو ہماری مظلومانہ فریاد کی جواب دہی کے لیے حاضری دینا ہوگی۔

حافظ : آپ پر کون سا ظلم ہوا ہے کہ قیامت کے روز داد خواہی کیجئے گا؟

خیر طلب: مظالم بہت اور ہتک حرمت کے واقعات کثرت سے ہیں۔ لیکن اگر سب سے چشم پوشی کر لی جائے تب بھی چونکہ میں صدیقہ مظلومہ جناب فاطمہ صلوات اللہ علیہا کی اولاد میں ہونے کا فخر رکھتا ہوں لہذا اپنے حق سے ہرگز دست بردار نہ ہوں گا اور جس روز محکمہ عدل الہی قائم ہوگا جس پر ہمارا اعتقاد ہے تو میں بہت سے ظلموں و زیادتیوں کو داد خواہی کروں گا اور یقین رکھتا ہوں کہ انصاف کیا جائے گا۔

حافظ : گذارش ہے کہ جذبات کو نہ ابھاریئے آپ کا کون سا حق مارا گیا ہے اور آپ پر کیا ظلم ہوا ہے یہ بیان کیجئے؟

خیر طلب : ظلم و تعدی اور ہماری حق تلفی کوئی آج ہی کے دن سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہمارے جد بزرگوار حضرت خاتم الانبیاء(ص) کی وفات کے بعد ہی سے اس کی بنا قائم کی گئی کیونکہ خدا ورسول(ص) نے ہماری جدہ مظلومہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ان کے بچوں کی پرورش کے لیے جو واجبی حق عطا کیا تھا اس کو غصب کر لیا گیا اور ان معصومہ(ع) کے نالہ وفریاد کا کوئی اثر نہیں لیا گیا، یہاں تک کہ وہ پیغمبر(ص) کی یادگار عفوان شباب ہی میں درد بھرے دل کے ساتھ دنیا سے اٹھ گئی۔

حافظ : میں عرض کرتا ہوں کہ جناب عالی بہت تیزی دکھا رہے ہیں اور جوشیلے جملے استعمال کر کے لوگوں میں بلاوجہ ہیجان پیدا کرتے ہیں۔ آخر فاطمہ رضی اللہ عنہا کا واجبی حق کیا تھا جو زبردستی چھین لیا گیا؟ اگر آپ اپنے برادران مومن کے سامنے اپنا دعوی ثابت نہ کرسکے تو محکمہ عدل الہی میں درجہ اولی ہرگز کامیاب نہ ہوسکتیں گے آپ سمجھئے کہ آجہی محکمہ عدل الہی قائم ہے لہذا اپنا دعوی ثابت کیجئے۔

خیر طلب: وہاں خدائی عدالت ہے ذاتی اغراض اور تعصب وغیرہ کی گنجائش نہیں لہذا سچا اور بے لوث فیصلہ ہوگا۔ اگر آپ حضرات بھی نگاہ انصاف سے رکھتے ہوں تو قاضی عادل کی طرح غیر جانبداری کے ساتھ میرے معروضات سنیئے یقین ہے کہ ہماری حقانیت کی تصدیق کیجئے گا۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

حکم رسول(ص) کی اطاعت واجب ہے

شیخ : میں سوچتا ہوں کہ آپ کا یہ بیان حقیقت نہ رکھتا ہوگا اس لیے کہ عقل اس کو نہیں مانتی کہ کوئی شخص رسول خدا(ص) کو روکنے کی طاعت رکھتا ہو جب کہ قرآن کریم صاف صاف کہہ رہا ہے"وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوه ومانهاكم عنه فانتهوا" ( یعنی رسول خدا(ص) تم کو جس چیز کی ہدایت کریں اس کو قبول کرو اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہو) نیز اور متعدد آیتوں میں آںحضرت(ص) کے احکام کی اطاعت لازمی قرار دی گئی ہے جیسے"أَطِيعُوااللَّهَ‏ وَأَطِيعُواالرَّسُولَ" ( یعنی اللہ اور رسول(ص) کی اطاعت کرو) بدیہی چیز ہے کہ رسول اللہ(ص) کی اطاعت سے انکار کرنا کفر ہے لہذا صحابہ اور آںحضرت(ص) کے ماننے والے ایسا عمل نہیں کرسکتے تھے کہ آپ کو وصیت سے منع کریں۔ ممکن ہے کہ یہ گڑھی ہوئی روایت ہو جس کو امت کی بے اعتنائی ثابت کرنے کے لیے ملحدین کی طرف سے مشہور کردیا گیا ہو۔

پیغمبر(ص) کو وصیت سے روکنا

خیر طلب: میں التماس کرتا ہوں کہ انجان بننے کی کوشش نہ کیجئے! یہ گڑھی ہوئی روایتوں میں سے نہیں ہے بلکہ مسلم الثبوت اخبار صحیح میں سے ہے جس کی صحت پر جملہ اسلامی فرقوں کو اتفاق ہے یہاں تک کہ شیخین بخاری و مسلم نے بھی نقل روایت میں اس قدر سخت احتیاط کے باوجود کہ کوئی ایسی روایت درج نہ ہونے پائے جس سے مخالفین کو گرفت اور استدلال کا موقع ملنے اپنی صحیحین میں اس دردناک واقعے کو نقل کیا ہےکہ رسول اللہ(ص) نے موت کے وقت فرمایا کہ دوات اور کاغذ لائو تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔ حاضرین مجلس میں سے کچھ لوگ ایک (سیاسی ) آدمی کے بہکانے میں آکر مانع ہوئے اور اس قدر ہنگامہ برپا کیا کہ آں حضرت بہت دل شکستہ ہوئے اور ناراض ہو کر ان کو اپنے پاس سے نکال دیا۔

شیخ : میں ہرگز اس بات کا یقین نہیں کرسکتا۔ بھلاکون شخص ایسی جرات کرسکتا تھا کہ رسول خدا(ص) کا مد مقابل بنے؟ اگرا یک معمولی انسان بھی وصیت کرنا چاہتا ہے تو کوئی اس کو منع نہیں کرسکتا نہ کہ خدا کے رسول(ص) کو جس کی اطاعت واجب اور جس سے مخالفت و سرکشی باعث کفر ہے۔

چونکہ بزرگحوں کی وصیت ذریعہ ہدایت ہوتی ہے لہذا کوئی اس کی ممانعت نہیں کرتا، چنانچہ خلیفہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے وصیت کی اور کسی نے روک ٹوک نہیں کی۔

میں پھر عرض کرتا ہوں کہ ایسی روایت کو تسلیم نہیں کرسکتا۔

۸۱

خیر طلب: آپ حق رکھتے ہیںکہ یقین نہ کریں۔ اس پر آپ ہی نہیں ہرمسلمان تعجب کرتا ہے بلکہ اس سے بالاتر میں کہتا ہوں کہ ہر قوم وملت کا سننے والا اس قضیہ سے حیرت میں ہے کہ اگر ایک واجب الاطاعت پیغمبر(ص) آخری وقت میں ایسی وصیت کرنا چاہے جس کا مقصد امت کو گمراہی سے بچانا اور راہ سعادت پر لگانا ہو تو کیونکر اس کو منع کریں گے لیکن کیا کیا جائے کہ ایسی حرکت کی گئی ہے اور اس نے مسلمانوںکے غم و مصیبت کو بڑھا دیا ہے۔

پیغمبر(ص) کو وصیت سے باز رکھنے پر ابن عباس(رض) کا گریہ

یہ صدمہ صرف ہمارے ہی اور آپ کے لیے نہیں ہے بلکہ اصحاب رسول(ص) بھی اس غم انگیز حادثے پر گریہ کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری و مسلم اور آپکے دوسرے اکابر علماء نے روایت کی ہے کہ عبداللہ ابن عباس ( حبر امت) اکثر روتے تھے اور کہتے تھے" يوم الخميس ما يو الخميس" (۱) اس کے بعد اس قدر گریہ کرتے تھے کہ زمین آںسوئوں سےبھیگ جاتی تھی۔

جب لوگ پوچھتے تھے کہ پنچ شنبے کے روز کیا واقعہ ہوا ہے جس پر آپ اس قدر روتے ہیں؟ تو کہتے تھے کہ جب رسول اللہ(ص) پر مرض الموت طاری ہوا تو آپنے حکم دیا کہ دوات اور کاغذ لے آئو تاکہ تمہارے لیے ایسا نوشتہ لکھ دوں جس سے تم لوگ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔ بعض حاضرین بزم مانع ہوئے اور مزید بر آں یہ کہا کہ محمد(ص) ہذہانبکتے ہیں( معاذ اللہ) وہ جمعرات کا دن تھا جو فراموش نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ قطع نظر اس سے کہ

آں حضرت(ص) کو وصیت نہیں کرنے دی زبان سے بھی تکلیف پہنچائی۔

شیخ : رسول خدا(ص) کو وصیت کرنے سے کس نے منع کیا؟

خیر طلب: یہ خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب تھے جنہوں نے آں حضرت(ص)کو وصیت سے روکا۔

شیخ : میں بہت ممنون ہوں کہ آپ نے جلد ہی میری الجھن رفع کردی۔ چونکہ ان بیانات سے میں بہت پریشان تھا اور یہ کہنا چاہتا تھا کہ اس قسم کی روایتیں شیعہ عوام کی گڑھی ہوئی ہیں لیکن آپ کے لحاظ سے خاموش تھا، اب دل کی بات ظاہر کرتا ہوں اور آپ کو سمجھاتا ہوں کہ اس طرح کے جعلی روایات سے کام نہ لیجئے۔

خیر طلب : میں بھی آپ کو سمجھاتا ہوں کہ بغیر سوچے سمجھے انکار یا اقرار نہ کیا کیجئے کہ حقیقت کھلنے کے بعد (پچھتانا پڑے۔ چنانچہ اس موضوع میں بھی آپ جلدی کر گئے اور اپنی پرانی عادت اور بدگمانی کی بنا پر بغیر سمجھے بوجھے پاکدامن شیعوں پر جعلسازی کی تہمت لگادی۔ حالانکہ میں بار بار عرض کرچکا ہوں کہ ہم شیعوں کو گڑھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیونکہ خود آپ ہی کی کتابوں میں ہمارے موافق اور ہمارے عقیدے کے ثبوت میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ یعنی جمعرات کا دن، کیسا تھا جمعرات کا دن۔

۸۲

حدیث منع وصیت کے ماخذ

اس زیر بحث موضوع میں اگر آپ اپنے علماء کی معتبر کتابیں دیکھئیے تو معلوم ہوگا کہ آپ ہی کےاکابر علماء نے اس قضیہ کو نقل کیا ہے مثلا بخاری نے صحیح بخاری جلد دوم ص۱۱۸ میں، مسلم نے اپنی صحیح مسلم آخر کتاب وصیت میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، امام احمد بن حنبل نے مسند جلد اول ص۲۲۲ میں، ابن ابی الحدید نہج البلاغہ جلد دوم ص۵۶۳ میں، کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں، نودی نے شرح صحیح مسلم میں، ابن حجر نے صواعق میں نیز قاضی ابو علی قاضی روز بہان، قاضی عیاض، امام غزالی، قطب الدین شافعی، محمد ابن عبدالکریم شہرستانی، ابن اثیر، حافظ ابونعیم اصفہانی، سبط ابن جوزی، غرض کہ بالعموم آپ کے علماء نے اس المناک وقوعے کی تصدیق کی ہے۔ کہ حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد رسول اللہ(ص) بیمار ہوئے اور اصحاب کی ایک جماعت عیادت کے لیے حاضر ہوئی تو آں حضرت(ص) نے فرمایا"ايتونى‏ بدوات‏ وبياض لاكتب لكم كتابالن تضلوابعدي" ( یعنی میرے پاس دوات اور سادہ کاغذ لےآئو میں تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد تم لوگ ہرگز گمراہ نہ ہو۔)

امام غزالی نے سر العالمین مقالہ چہارم میں لکھا ہے۔ جس سے سبط ابن جوزی نے بھی تذکرہ ص۳۶ میں نقل کیا ہے نیز آپ کے بعض دوسرے بزرگ علماء نے اس طرح روایت کی ہے کہ فرمایا دوات اور ایک سادہ کاغذ لے آئو" لازيل عنکم اشکال الامر واذکر لکم من المستحق لها بعدی "( اور بعض روایتوں میں ہے کہ فرمایا:)

"لأكتب‏ لكم‏ كتابالاتختلفون فيهبعدي)فقالعمر: عوا الرجل فإنهليهجر،حسبناكتاباللّه"

یعنی تاکہ تم سے (امر خلافت) کا اشکال دفع کردوں، یہ بتادوں کہ میرے بعد اس خلافت کا مستحق کون ہے یا یہ کہ تمہارے لیے ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ جس سے تم لوگ میرے بعد اس معاملہ میں اختلاف پیدا نہ کرو۔ پس عمر نے کہا کہ اس شخص ( یعنی رسول اللہ(ص)، کو چھوڑو کیونکہ در حقیقت یہ ہذیان بک رہا ہے( معاذاللہ) کتاب خدا ہمارے لیے کافی ہے۔

اصحاب کا مجمع دو گروہوں میں بٹ گیا، کچھ عمر کے طرفدار ہوگئے ادر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور کچھ لوگ رسول اللہ(ص) کے حامی رہے یہاں تک کہ آپس میں اس قدر تھکا فضیحتی شور و غوغا ہوا کہ آںحضرت(ص) نے ( جو خلق عظیم کے مجسمہ تھے) غصے میں بھر کر فرمایا "قوموا عنی ولا ينبغی عندی التنازع" ( یعنی میرے پاس سے اٹھ جائو کیونکہ میرے پاس لڑنا جھگڑنا ٹھیک نہیں ہے) یہ وہ پہلا فتنہ و فساد تھا جو پیغمبر(ص) کی تیس سال کیجانگاہ محنتوں کے بعد مسلمانوں کے درمیان خود آنحضرت(ص) کے سامنے رونما ہوا اور اس فتنے اور گروہ بندی کے باعث خلیفہ عمر تھے جنہوں نے اپنی باتوں سے نفاق و اختلاف کا بیج بویا اور در پارٹیاں قائم کر دیں، یہاں تک کہ آجکی رات بھی ہماور آپ دونوں اسلامی بھائیوں کو دو گروہوں میں بانٹ کے ایک دوسرے کے مقابلے پر لا کھڑا کیا۔

شیخ : آپ جیسے مہذب اور با اخلاق آدمی سے ایسی جرات اور جسارت کی امید نہیں تھی کہ خلیفہ کی ایسی بزرگ ہستی پر ایسا الزام لگائیے گا۔

۸۳

خیر طلب : آپ کو خدا کا واسطہ کہ محبت و عداوت کو الگ رکھ کے اور بدگمانی سے ہٹ کے ذرا اںصاف سے بتائیے کہ آپکے انکار کے جواب میں آپ ہی کی کتابوں سے تاریخی واقعات نقلکر کے میں نے جرات و جسارت کی یا خلیفہ عمر نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت با عظمت میں انتہائی درجے کی گستاخی کی کہ علاوہ وصیت سے روکنے، فتنہ و فساد پیدا کرنے اور بیماری کی حالت میں رسول اللہ(ص) کی ایسی بلند شخصیت کے سرہانے شور و ہنگامہ برپا کرنے کے منہ کے اوپر گالی بھی دی اور کہا کہ یہ شخص ہذیان یعنی پاگل پن کی باتیں بک رہا ہے( معاذ اللہ)؟

اس موقع کی مناسبت سے عرب کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے

وتبصرفيالعينمني‏ القذى‏وفيعينكالجذعلاتبصره‏

یعنی میری آنکھ کا تنکا تو ڈھونڈتے ہو اور اپنی آںکھ کا شہتیر تم کو نظر نہیں آتا ( مطلب یہ کہ آپ میرے چھوٹے چھوٹے عیوب کی تاک میں تو رہتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں لیکن اپنے بڑے بڑے عیب نہیں دیکھتے) آیا خدائے تعالی آیت نمبر۴۰ سورہ نمبر۳۳( احزاب) میں ارشاد نہیں فرماتا ہے کہ :

"ماكانَ‏ مُحَمَّدٌأَباأَحَدٍمِنْرِجالِكُمْوَلكِنْرَسُولَاللَّهِوَخاتَمَالنَّبِيِّينَ‏"

یعنی محمد(ص) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول(ص) اور خاتم النبیین ہیں۔

اشارہ یہ ہے کہ آں حضرت(ص) کا ذکر ہمیشہ ادب اور احترام کے ساتھ کرنا چاہئیے اور رسول اللہ(ص) یا خاتم النبیین کہنا چاہئیے۔ یعنی آن حضرت(ص) کو نام لے کر نہ پکارو بلکہ رسول اللہ(ص) کہو۔

لیکن اس موقع پر عمر نے بغیر ادب اور فرمان الہی کا لحاظ کئے ہوئے نام کے ساتھ بھی نہیں بلکہ یہ شخص کہہ کے آں حضرت(ص) کی طرف اشارہ کیا۔

خدا کے لیے انصاف سے کہئے کہ گستاخی میں نے کی یا خلیفہ نے؟

شیخ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ ہجر کے معنی ہذیان کے ہیں جس سے بے ادبی اور جسارت کا شبہ کیا جائے؟

تعصب آدمی کو اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے

خیر طلب : تمام اہل لغت و تفسیر اور بالخصوص آپ کے اکابرعلماء جیسے ابن اثیر جامع الاصول میں ابن حجر شرح صحیح بخاری میں اور صاحبان صحاح وغیرہ کہتے ہیں کہ ہجر ہذیان کے معنی میں ہے۔ محترم ! انسان کو تعصب وعناد کا لباس اتار دینا چاہئیے تاکہ حقائق بے نقاب ہو کر سامنے آئیں۔جس پیغمبر(ص) کے حق قرآن مجید ہدایتدے رہا ہے کہ ان کو رسول اللہ(ص) اور خاتم النبیین کہو اگر کوئی شخص ان الرجل لیہجرکہہ کے عمدا ان بزرگوار کی شان اس قدر گھٹائے کہ کہے یہ شخص ہذیان بک رہا ہے( معاذ اللہ) تو کیا اس نے ادب اور حکم قرآن کے خلاف بات نہیں کہی؟

اور جس رسول(ص)کی نبوت و عصمت تا دم مرگ زائل نہ ہوئی ہو بالخصوص اس موقع پر جب کہ قوم کی ہدایت اور تبلیغ کی منزل میں ہو

۸۴

اگر کوئی شخص اس کی طرف ہذیان گوئی کی نسبت دے تو کیا یہ اس کی عدم معرفت اور آں حضرت پر ایمان نہ لانے کی دلیل نہیں ہے؟

شیخ : آیا مقام خلافت کے مقابلہ میں ایسا الزام مناسب ہے کہ وہ معرفت اور مرتبہ رسالت پر ایمان نہرکھتے تھے؟

خیر طلب: اول جناب عالی نے جس وقت یہ سنا کہ رسول اللہ(ص) کی طرف ہذیان کی نسبت دی گئی تو کیوں متاثر نہیں ہوئے؟ حالانکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ آںحضرت کو رو دررو دشنام دینے اور ہذیان سے منسوب کرنے والے سے بیزازی اختیار کرے۔ لیکن جس وقت ایک معمولی آدمی کے لیے جس کا زیادہ سے زیادہ درجہ یہ ہے کہ اصحاب رسول کی ایک فرد ہو افور بعد کو چند اشخاص کے بل پر مسند خلافت تک پہنچ گیا ہو، اس قسم کا اشارہ کیا گیا تو آپ کو نا گوار ہوا۔ در آنحالیکہ یہ خیالات صرف میرے ہی نہیں تھے بلکہ ہر صاحب علم اور معقول انسان ان واقعات کے سننے کے بعد فطری طور پر یہی سوچتا ہے کہ ایک مومن شخص کیا رسول اللہ(ص) کی طرف ایسی نسبت دے گا؟ لہذا ظاہر ہے کہ ایک خوش عقیدہ اور پاک نفس مسلمان کے جذبات کیا ہوں گے۔

علمائے عامہ کا اعتراف کہ لفظ ہذیان کہنے والے کو معرفتِ رسول(ص) نہ تھی

چنانچہ آپ کے منصف اور با فہم علماء جیسے قاضی عیاض شافعی نے کتاب شفاء میں، کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں اور نودی نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ ایسی بات کہنے والا چاہے جو بھی تھا وہ قطعا رسول اللہ(ص) پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور آں حضرت(ص) کی منزل اور مرتبے کو پہچاننے سے عاجز تھا، اس لیے کہ ارباب مذاہب کے نزدیک ثابت ہے کہ انبیاء عظام ارشاد و ہدایت خلق کی منزل میں عالم غیب سے اتصال رکھتے ہیں اور تندرستی کا زمانہ ہو یا بیماری کی حالت بہر حال ان کے احکام کی تعمیل واجب ہے پس آں حضرت(ص) کی مخالفت بالخصوص جسارت و دشنام اور کلمہ ہذیان کے ساتھ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو رسول(ص) کی معرفت حاصل نہ تھی۔ انتہی کلامہم۔

پیغمبر(ص) کے روبرو اسلام کے اندر پہلا فتنہ

دوسرے آپ نے جو یہ فرمایا تھا کہ میں نے فتنہ اور نفاق پیدا کرنے کا الزام کیوں لگایا تو یہ بات بھی میری تنہا میری ہی جانب سے نہیں ہے بلکہ آپ کے انصاف پسند علماء نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

عالم جلیل حسین میبذی شرح دیوان میں کہتے ہیں کہ پہلا فتنہ جو اسلام کے اندر برپا ہوا وہ مرض الموت میں خود رسول اللہ(ص) کے روبرو ہوا جب کہ آں حضرت(ص) نے وصیت کرنا چاہا اور عمر مانع ہوئے۔ نتیجہ کے طور پر مسلمانوں میں فتنہ، فساد فرقہ بندی اور مذہبی اختلاف پیدا ہوگیا۔

شہرستانی اپنی کتاب ملل و نحل کے مقدمہ چہارم میں کہتے ہیں کہ پہلی مخالفت جو اسلام کے اندر واقع ہوئی وہ رسول اللہ(ص) کے حکم سے وصیت لکھنے کے لیے دوات اور کاغذ لانے سے عمر کا منع کرنا تھا۔

۸۵

اورع ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۵۶۳ میں اسی مقصد کی طرف اشارہ کیا ہے۔

شیخ : اگر خلیفہ عمر رضی اللہ نے یہ الفاظ کہے ہوں تو میں اس میں کوئی بے ادبی نہیں سمجھتا بلکہ ایسے امور انسان کے جسمانی عوارض میں سے ہیں۔ جس وقت کسی شخص پر مرض کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ بے تک جملہ بولنے لگتا ہے جن کو ہذیان سے تعبیر کرتے ہیں اور جسم کے ان فطری کیفیات میں پیغمبر(ص) اور دوسرے لوگوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہو گا۔

خیر طلب : آپ بخوبیجانتے ہیں کہ نبوت کی ایک خاص صفت عصمت بھی ہے جو نبی سے مرتے دمتک سلب نہیں ہوتی، خصوصا جب کہ ارشاد اور ہدایت خلق کی منزل میں ہو اور فرمائے کہ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھنا چاہتا ہوں تاکہ تم گمراہ نہ ہو۔

پس چونکہ آں حضرت(ص) مقام ارشاد و ہدایت میں تھے لہذا قطعا با عصمت اور حق سے متصل تھے۔ اگر آپ آیہ شریفہ "وَمايَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْهُوَإِلَّاوَحْيٌيُوحى‏" و آیہ مبارکہ" وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوهومانهاكمعنهفانتهوا" اور آیت " أَطِيعُوااللَّهَ‏ وَأَطِيعُواالرَّسُولَوَأُولِيالْأَمْرِمِنْكُمْ‏" پیغمبر(ص) اپنی خواہش نفس سے نہیںبولتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف خدا کی وحی ہوتی ہے۔ اور تم کو رسول جس چیز کی ہدایت کریں اس کو اختیار کرو۔ اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول(ص) کی۔ کی طرف توجہ کریں تو خود ہی حقیقت آپ کے اوپر ظاہر ہوجائے گی اور معلوم ہوجائے گا کہ دوات اور کاغذ لانے سے روکنا اور آںحضرت(ص) کو امت کی ہدایت کے لیے وصیت نامہ لکھنے سے مانع ہونا در حقیقت خدا کی مخالفت تھی۔ طے شدہ چیز ہے کہ لفظ ہذیان کھلی ہوئی گالی تھی، پھر اس کے ساتھ رجل کہہ کے اشارہ کرنا اور بھی سخت توہین ہے۔

حضرات ! اںصاف سے بتائیے گا کہ اگر اس جلسہ میں سے کوئی شخص آپ کی طرف اشارہ کر کے کہے کہ یہ شخص ہذیان بکتا ہے تو آپ کو کیسا معلوم ہوگا؟ حالانکہ ہم اور آپ معصوم نہیں ہیں۔ ہذیان بھی بک سکتے ہیں۔ آیا آپ اس کلام کو ادب و احترام کی کوئی قسم سمجھیں گے یا بے ادبی توہین اور گستاخی؟

اگر یہ گفتگو ادب و احترام کے خلاف ہے تو ماننا پڑے گا کہ حضرت خاتم النبییین (ص) کی شان میں یہ اور زیادہ اہانت و جسارت ہے۔

اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ رسول خدا(ص) کی خدمت میں ایسی توہین آمیز بات کہنے والے سے بیزاری اختیار کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ جب کہ خدائے تعالی نے قرآن مجید میں آں حضرت کو صاف طور سے رسول(ص) اور خاتم النبیین(ص) کہا ہے۔ اگر جانبداری اور تعصب کو الگ رکھئیے تو آپ کی عقل و حق شناسی ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتی ہے جو آں حضرت(ص) کو رسول اللہ(ص) اور خاتم النبیین(ص) کہنے کے عوض کہے یہ شخص ہذیان بک رہا ہے۔

شیخ : فرض کیجئے کہ ہم غلطی کے قابل بھی ہوجائیں تو چونکہ یہ خلیفہ رسول(ص) تھے اور دین و شریعت کی حفاظت کے لیے اجتہاد کیا تھا لہذا قطعا بری الذمہ اور قابل درگزر ہیں۔

خیر طلب : اول تو آپ نے یہی بے محل بات کہی کہ چونکہ خلیفہ رسول(ص) تھے لہذا اجتہاد کیا، کیونکہ جس روز عمر نے یہ الفاظ کہے اس روز وہ

۸۶

خلیفہ تھے ہی نہیں بلکہ شاید خلافت کا خواب بھی نہ دیکھا ہوگا۔ وفات رسول(ص) کے بعد جیسا کہ آپ خود بہتر جانتے ہیں۔ ہنگامی طور پر چند لوگوں نے جلد بازی کر کے ابوبکر کو خلیفہ بنادیا اور بعد کو بھی جبر و تشدد، قتل و اہانت اور دروازےمیں آگ لگانے کے ذرائع سے دوسروں کو قابو میںلائے۔ پھر دو سال تین ماہ کے بعد اپنے مرنے کے وقت ابوبکر نے عمر کو خلافت کی گدی سونپ دی۔

دوسرے آپ کا فرمانا بھی بہت تعجب خیز ہے کہ اجتہاد کیا، کیا آپ نے اتنا بھی غور نہیں کیا کہ ںص اور صریحی حکم کے مقابلہ میں اجتہاد کی کوئی حقیقت ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی خطا ہے جو معافی اور درگذر کے قابل نہیں۔

تیسرے آپ نے فرمایا ہے کہ دین و شریعت کی حفاظت کے لیے ایسا کیا آپ جیسے علماء سے ایسی غلط بات سن کر سخت حیرت ہوتی ہے کہ آپ کے عدل و اںصاف پر تعصب کس طرح سے غالب آگیا ہے۔

جناب محترم ! دین و شریعت کی حفااظت رسول خدا(ص) کے ذمے تھی یا عمر ابن خطاب کے ؟ آیا آپ کی عقل قبول کرتی ہے کہ رسول اللہ(ص) کو تو اس قید کے باوجود کہ اس تحریر کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ، یہ پتہ نہ ہو کہ امت کے لیے وصیت نامہ لکھنا دین و شریعت کے خلاف ہے لیکن عمر ابن خطاب کو معلوم ہو اور وہ حفاظت دین و شریعت کے لیے آںحضرت(ص) کو وصیت سے روک دیں؟"فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏ الْأَبْصارِ"

آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ضروریات دین میں خطا کرنا بہت بڑا جرم ہے اور ہرگز اس سے عفو و چشم پوشی نہیں ہوسکتی۔

شیخ : اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے دینکے حالات و کیفیات سے اندازہ لگایا تھا کہ اگر رسول خدا(ص) کوئی چیز لکھیں گے تو اختلاف پیدا ہوجائے گا اور فتنہ بر پا ہوگا لہذا از روئے خیر خواہی خود پیغمبر(ص) کے فائدے کے لیے دوات اور کاغذ نہیں لانے دیا۔

عذر گناہ بدتر از گناہ

خیر طلب: جو کچھ آپ نے فرمایا ہے، عذر گناہ بدتر از گناہ اسی کو کہتے ہیں مجھ کو یاد ہے کہ طالب العلمی کے زمانہ میں میرے ایک استاد جامع منقول و معقول فاضل قزوینی الحاج شیخ محمد علی تھے جو فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایک غلطی کو نبھانے کی کوشش کی جائے تو ہوسکتا ہے کہ ایک کے بجائے سو غلطیان ہوجائیں۔ بعینہ مین اسی طرح دیکھ رہا ہوں کہ آپ خلیفہ کی طرف سے خواہ مخواہ جو دفاع کررہے ہیں وہ ایک خطا اور فاحش غلطی کو بہت سی غلطیوں کا مجموعہ بنا رہا ہے۔

آپ کی اس تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ(ص) درجہ عصمت ( یعنی خطا سے محفوظ ہونے) اور عالم غیت سے اتصال کے باوجود امت کے ارشاد و ہدایت کے موقع پر خیر و اصلاح اور فتنہ و فساد کیطرف کوئی توجہ نہیں رکھتے تھے لہذا خلیفہ عمر نے آںحضرت(ص) کی خیر خواہی اور رہنمائی کی۔

۸۷

اگر آپ آیت نمبر۳۶ سور نمبر۳۳( احزاب) پر تھوڑا غور کیجئے جس میں ارشاد ہے:

"وَماكانَلِمُؤْمِنٍوَلامُؤْمِنَةٍإِذاقَضَىاللَّهُوَرَسُولُهُأَمْراًأَنْيَكُونَلَهُمُالْخِيَرَةُمِنْأَمْرِهِمْوَمَنْ‏ يَعْصِ‏ اللَّهَ‏وَرَسُولَهُفَقَدْضَلَّضَلالًامُبِيناً"

یعنی جب خدا و رسول(ص) کسی کام کا حکم دیں تو کسی مرد یا عورت کو اس میں اپنے ارادے اور اختیار سے کوئی دخل حاصل نہیں ( یعنی اپنے قول و فعل سے آں حضرت(ص) کو روکنے یا اختلاف رائے کا حق نہیں رکھتے) اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانیکرے تو یقینا کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوا۔

تو یقینا اپنے الفاظ واپس لیجئے گا اور خلیفہ عمر کے اس عمل کی حقیقت سمجھ میں آجائے گی کہ آں حضرت کے حکم سے سرتابی، وصیت سے روکنا اور لفظ ہذیان کے ذریعہ گستاخی کرنا انتہائی شنیع فعل تھا اور اس نے پیغمبر(ص) کو اتنا متاثر کیا کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔

شیخ : خلیفہ کی نیک نیتی تو ان کے آخری جملے سے ظاہر ہے کہا "حسبنا کتاب اللہ" یعنی خداکی کتاب قرآن کریم ہمارے لیے کافی ہے ہم کو رسول خدا(ص) کے نوشتہ کی ضرورت نہیں ہے۔

خیر طلب: اتفاق سے خود یہی جملے ان کے عدم معرفت اور قرآن مجید پر توجہ نہ ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے یا پھر عمدا رسول اللہ(ص) کو رنج پہنچانا اور اس عمل سے روکنا مقصود تھا جو ان لوگوں کے جذبات کےخلاف تھا کیوںکہ اگر قرآن مجید کی پوری معرفت ہوتی تو یہ بھی معلوم ہوتا کہ جملہ امور میں قرآن تنہا کفایت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ یہ وہ یکتا کتاب محکم ہے جو مجمل اور مختصر ہے۔ اس نے کلیات احکام تو بیان کر دیے ہیں لیکن ان کے جزئیات کو شارح اور مفسر کی توضیح پر چھوڑ دیا ہے۔کیونکہ ممکن ہے کہ ایک معمولی انسان بغیر فیضان الہی اور بیان عالم ربانی کے اس جمل اور جامع قرآن سے پورا فائدہ اٹھا سکے؟ علاوہ ان باتوں کے اگر تنہا قرآن امت کے امور میں کافی ہوتا تو یہ آیت کیوں نازل ہوتی کہ

"وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوهومانهاكمعنهفانتهوا"

(یعنی رسول اللہ(ص) جس چیز کی ہدایت کریں اس کو اختیار کرو اور جس سے منع کریں اس سےباز رہو) نیز کیا آیت نمبر۸۵ سورہ نمبر۴(نساء) میں یہ ارشاد نہیں ہے:

"وَلَوْرَدُّوهُ‏ إِلَى‏ الرَّسُولِ وَإِلى‏ أُولِي الْأَمْرِمِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ‏"

یعنی اگر رسول(ص) اور صاحبان حکم و رسول کے بعد پیشوایان اسلام کی طرف رجوع کرتے تو یقینا جو اہل معرفت ہیں وہ صحیح تدبیر معلوم کر لیتے۔

پر ثابت ہوا کہ قرآن مجید تنہا مفید طلب نہیں ہے جب تک شارحین قرآن یعنی محمد و آل محمد صلواۃ اللہ علیہم اجمعین کی تفسیر بھی ساتھ ساتھ نہ ہو۔

چنانچہ فریقین کی متواتر حدیث میں ( جس کے چنداسناد گذشتہ شبوں میں پیش کرچکا ہوں)(۱) وارد ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء نے بار بار یہاں تک کہ وفات کے وقت بھی فرمایا :

"إني‏ تارك‏ فيکم الثقلين كتاباللّهوعترتياهلبيتي لنيتفرّقاحتىيرداعليّالحوض أنتمسكتمبهما فقد نجوتملنتضلواابدا"

یعنی میں ( رسول خدا(ص)) تمہارے درمیان یقینا دو گرانقدر چیزیں چھوڑتا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت و اہل بیت، یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص----

۸۸

کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں۔ اگر تم لوگ ان دوںوں سے تمسک رکھو گے تو ضرور نجات پائو گے اور کبھی ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

صاحبان عقل کی فہم و فراست سے تعجب ہے کہ وہ اس پرغور کیوں نہیں کرتے کہ رسول اللہ(ص) تو ( جن کا ہر قول بحکم آیہ"وَمايَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْهُ وَإِلَّاوَحْيٌ يُوحى‏" خدا کی طرفسے ہوتا ہے، ہدایت و نجات امت کے لیے تنہا قرآن کافی نہ سمجھیں اور اس کو اپنی عترت طاہرہ سے وابستہکرتے ہوئے صاف صاف فرمائیں کہ اگر دونوں ( یعنی قرآن و عترت) سے تمسک رکھو گے تب نجات پائو گے اور ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ لیکن خلیفہ عمر یہ کہیں کہ نہیں اکیلا قرآن ہی کافی ہے؟

اب ذرا آپ حضرات اںصاف سے کام لیں اور سچا فیصلہ کریں کہ ایک طرف تو خدا کے بھیجے ہوئے بر حق پیغمبر(ص) کا یہ ارشاد ہے کہ قرآن و اہل بیت(ع) دونوں سے تمسک کرو کیونکہ یہ دونوں تا قیامت ایک دوسرے سے وابستہ ایک دوسرے کی ںظیر اور ایک ساتھ ذریعہ ہدایت ہیں اورکا یہ قول کہ ہم کو صرف قرآن کافی ہے جس کا مطلب یہ کہ انہوں نے فقط عترت ہی کو نہیں ٹھکرایا بلکہ رسول اللہ(ص) کے حکم اور وصیت کو بھی قبول نہیں کیا۔

ایسی صورت میں ہم پر ان دونوں میں سے کس کی اطاعت واجب ہے؟ ہرگز کوئی عقلمند انسان یہ نہیں کہے گا کہ بارگاہ خداوندی سے الحاق رکھنے والے اللہ کے رسول(ص) کا فرمان چھوڑ کے عمر کی بات ماننا چاہئیے۔ تو پھر آپ نے کیوں عمر کا قول لے لیا اور آںحضرت(ص) کا قول پس پشت ڈال دیا؟ اگر فقط کتاب خدا کافی تھی تو آیت نمبر۳۵ سورہ نمبر۱۶ (نحل):"فَسْئَلُواأَهْلَ‏ الذِّكْرِإِنْكُنْتُمْ لاتَعْلَمُونَ‏" (یعنی اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر( یعنی اہل بیت رسول(ص) ہیں) سے دریافت کرو۔) میں ہم کو کیوں حکم دیا گیا ہے کہ اہل ذکر سے سوال کرو؟ ظاہر ہے کہ ذکر سے مراد قرآن یا رسول خدا(ص) ہیں اور اہل ذکر آںحضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت ہیں۔

چنانچہ پچھلی راتون میں دلائل اور اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں کہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے سیوطی وغیرہ نے درج کیا ہے کہ اہل ذکر سے رسول اللہ(ص) کے اہل بیت پاک (ع) مراد ہیں جو عدیل قرآن ہیں۔

آپ ہماری باتوں کو بدگمانی کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور یہ نہ سمجھیں کہ صرف ہمیں ان چیزوں کی گرفت کرتے ہیں کیوں کہ آپ کے اکابر علماء بھی محل انصاف میں خلیفہ عمر کے اس قول پر مضحکہ کرتے ہیں۔

عمر کے قول پر قطب الدین شیرازی کا اعتراض

آپ کے اکابر علماء میں سے قطب الدین شافعی شیرازی کشف الغیوب میں کہتے ہیں یہ امر مسلم ہے کہ بغیر راہنما کے راستہ طے نہیں کیا جاسکتا ہم کو خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول پر تعجب ہے کہ چونکہ ہمارے درمیان قرآن موجود ہے لہذا ہم کو کسی رہنما کی احتیاج نہیں ہے یہ بات تو ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کہے چونکہ ہمارے پاس طب کی کتابیں موجود ہیں لہذا ہم کو کسی طبیب کی ضرورت نہیں ---- کہ یہ بات ناقابل قبول اور بالکل غلط ہے اس لیے کہ جو شخص طبی کتابوں سے مطلب حل نہ کرسکے اس گو قطعی طور پر کسی ہوشیار طبیب کی طرف

۸۹

رجوع کرنا چاہئیے۔ یہی صورت قرآن کریم کی ہے کہ جو شخص اپنی عقل کے ذریعے اس سے پورا فائدہ نہ اٹھا سکے اس کو مجبورا ان ہستیوں کی طرف جھکنا پڑے گا جو عالم قرآن ہیں۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے :

"وَلَوْرَدُّوهُ‏ إِلَىالرَّسُولِوَإِلى‏ أُولِيالْأَمْرِمِنْهُمْلَعَلِمَهُالَّذِينَيَسْتَنْبِطُونَهُمِنْهُمْ‏"

یعنی اگر یہ لوگ رسول(ص) اور صاحبان امر( پیشوایان اسلام) کی طرف رجوع کرتے تو جو لوگ اہل معرفت ہیں وہ صحیح نتیجے تک پہنچ جاتے۔

آیت نمبر۸۳ سورہ نمبر۴(نساء) حقیقی کتاب تو اہل علم کے سینے ہیں جیسا کہ آیت نمبر۴۸ سورہ نمبر۲۹( عنکبوب) میں ارشاد ہے:"هُوَآياتٌ‏ بَيِّناتٌ‏ فِيصُدُورِالَّذِينَأُوتُواالْعِلْمَ‏" ( یعنی بلکہ یہ قرآن و روشن آیتیں ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جن کو( من جانب خدا) علم خدا دیا گیا ہے) اسی وجہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے:"أَنَاكِتَابُ‏ اللَّهِ النَّاطِقُ هوالصَّامِتُ." ( یعنی میں خدا کی بولتی ہوئی کتاب ہوں اور یہ قرآن خاموش کتاب ہے۔ انتہی۔

پس خلیفہ کے کلام کے اول و آخر دونوں حصے نا قابل اعتبار اور علم و عمل اور اںصاف رکھنے والے کے نزدیک لائق نفرت ہیں لہذا آپ بھی تصدیق کیجئے کہ انہوں نے رسول اللہ(ص) پر بہت بڑا ظلم کیا جو وصیت نہیں لکھنے دی۔

ابوبکر کو مرتے دم وصیت لکھنے سے نہ روکنا

رہا آپ کا بار بار یہ فرمانا کہ لوگوں نے ابوبکر و عمر کو صیت کرنے سے نہیں روکا تو یہ درست ہے اور یہی چیز انتہائی حیرت اور تعجب کا باعث ہے جس کو آپ کے تمام مورخین و محدثین نے اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے کہ خلیفہ ابوبکر نے اپنے مرنے کے وقت عثمان ابن عفان سےکہا کہ جو کچھ میں کہتا ہوں اس کو لکھ کیوں کہ یہ لوگوں کی طرف میرا وصیت نامہ ہے۔ چنانچہ جو کچھ ابوبکر نے کہا انہوں نے لکھ لیا۔ خلیفہ عمر وغیرہ بھی موجود تھے لیکن کسی نے اس سے انکار نہیں کیا۔

بالخصوص عمر نے اس وقت یہ نہیں کہا " حسبنا کتاب اللہ" ہم کو ابوبکر کے وصیت نامے کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے کہ قرآن ہمارے لیے کافی ہے۔ لیکن خاتم الانبیاء کو اسی بہانے سے کہ ہمارے لیے خدا کافی ہے وصیت نہ لکھنے دی۔"فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏ الْأَبْصارِ"

اگر اس سازش کے آگےسرنیا زخم کرنے سے ہم کو اور کوئی دلیل مانع نہ ہو تو صرف یہی توہین و جسارت، رسول اکرم(ص) کو دشنام دینا اور اس وصیت سے منع کرنا جو امت کے لیے ہدایت اور ضلالت و گمراہی سے حفاظت کا ذریعہ بنتی، ہر عالم و عاقل اور نکتہ رس منصف کو یہ سمجھا دینے کےلیے کافی ہے کہ اس روز کی یہ کار روائی کسی دلیل و برہان کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ محض دھاندلی، ہنگامہ سازی اور سیاسی چالا کی تھی۔

۹۰

مصیبت عظیم وقت آخر اہانت رسول(ص) اور ممانعت ہدایت

ابن عباس گریہ کرنے میں حق بجانب تھے بلکہ میں تو کہتا ہوں سارے مسلمانوں کو خون کے آنسوئوں سے رونا چاہئیے کو خاتم المرسلین کو اتنی مہلت بھی دی کہ وصیت کر کے امت کے لیے دستور العمل معین کر جائیں، اور زندگی کے آخری لمحون میں آںحضرت(ص) کو توہین و دشنام کے ذریعے تبلیغ رسالت کو عوض دیا۔ اگر وصیت کا موقع دے دیا ہوتا تو یقینا امر خلافت بالکل واضح ہوجاتا اور آں حضرت کے پچھلے ارشادات کی تائید ہوجاتی۔ لیکن سیاسی دائو پیچ جاننے والے بغاوت کر کے سد راہ بن گئے۔

شیخ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ آں حضرت(ص) خلافت کے بارے میں کچھ فرمانا چاہتے تھے؟

خیر طلب: اولا مطلب بالکل ظاہر ہے کہ وقت وفات تک دین کے احکام و قواعد میں سے کوئی چیز باقی ہی رہ گئی تھی کہ امت کی ہدایت کے لیے اس کی یاد دہانی ضروری ہوتی، کیونکہ آیت اکمال دین نازل ہوچکی تھی، البتہ خلافت کا معاملہ ایسا تھا آں حضرت(ص) نے تئیس سال کی مدت میں اس کے لیے جو کچھ فرمایا تھا چاہتے تھے کہ اس کی تائید میں مزید وضاحت فرمادیں، چنانچہ میں عرض کرچکا ہوں کہ امام غزالی نے سرالعالمین کے مقالہ چہارم میں نقل کیا ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا :

"ايتونى‏ بدوات‏ وبياضلاكتبلكمكتابالنتضلوابعدي لازيل عنکم اشکال الامر واذکر لکم من المستحق لها بعدی"

یعنی دوات و کاغذ لے آئو تاکہ تم سے امر خلافت کا اشکال دور کر دوں اور اپنے بعدکے لیے اس کے مستحق کی یاد دہانی کر جائو۔

پھر جملہ"لنتضلوابعدی" بھیثابت کرتا ہے کہ وصیت کا موضوع ہدایت امت تھا۔ اور طرق ہدایت میں سوا امر خلافت و امامت کے اور کسی چیز کی تاکید باقی نہ تھی۔ اس کے علاوہ ہم کو اصرار بھی نہیں ہے کہ آں حضرت(ص) خلافت و امامت کے لیے کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن اتنا تو قطعا چاہتے تھے کہ امت کی ہدایت و رہنمئی کے لیے کوئی تحریر دے دیں۔ تاکہ ضلالت و گمراہی نہ پھیلے تو پھر کیوں ممانعت کی؟ فرض کر لیا جائے کہ ممانعت ہی مناسب تھی تو کیا اس کے لیے فحش و دشنام اور اہانت بھی ضروری تھی؟

چشم باز و گوش باز وایں عمی حیرتم از چشم بندی خدا

فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏الْأَبْصارِ

صاف فرمائیے گا سلسلہ کلام ذرا طولانی ہوگیا لیکن یہ میرے اختیار سے نہیں تھا بلکہ درد و دل کا ایک مختصر سا نمونہ تھا جو آپ کی توجہ کے لیے بے ساختہ زبان پر آگیا۔

پس ان مقدمات سے معلوم ہوگیا کہ علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے وصی تھے اور باوجودیکہ آن حضرت(ص) بارہا ہدایات جاری فرماچکے تھےلیکن آخری منزل پر تکمیل وصیت کے لیے چاہا کہ یہ حقائق تحریر کر کے امت کی ذمہ داری کو پختہ فرمادیں سیاسی بازیگر سمجھ رہے تھے لہ کیا لکھنا چاہتے ہیں لہذا شور و غوغا اور اہانت کر کے روک دیا۔

۹۱

اںحضرت(ص) نے اتمام حجت اور رفع شبہات کے لیے بعض احادیث میں خصوصیت کے ساتھ فرمایا ہے کہ جس خدا نے دیگر انبیائے کرام آدم(ع)، نوح(ع)، موسی(ع)، اور عیسی(ع) وغیرہ کے لیے وصی معین فرمائے اس نے میرے لیے بھی علی(ع) کو وصی قرار دیا۔

نیز فرمایا ہے کہ علی میرے اہل بیت اور میری امت میں میرے بعد میرے وصی ہیں۔ اور یہ خود ایک مضبوط دلیل ہے اس بات کی کہ وصایت اس مقام پر خلافت کے معنی میں ہے۔ لہذا علی وصی و خلیفہ رسول(ص) ہیں۔

شیخ : یہ اخبار اگر صحیح بھی ہوں تو متواتر نہیں ہیں لہذا آپ کیونکر ان سے سند لے رہے ہیں؟

خیر طلب : تواتر وصیت کا مسئلہ ہمارے نزدیک تو اہل بیت عترت و طہارت کے طریق سے جو عدیل قرآن ہیں ثابت و مسلم ہے۔ لیکن آپ کو یاد ہوگا میں نے پچھلی راتوں میں عرض کیا ہے کہ آپ کے علماء اپنے علمی بیانات میں خبر واحد کو بحث سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان اخبار میں اگر تواتر لفظی نہ ہو تو تواتر معنوی قطعا موجود ہے۔

ان بے شمار روایتوں سے ( جن کی پوری تفصیل سے اس وقت معذور ہوں کیونکہ اتنا وقت ہے نہ سب حافظے میں محفوظ ہیں لہذا موقع کے لحاظ سے ان میں سے بعض کو جو اس وقت یاد تھیں پیش کر دیا) معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے لیے ایسی وصایت پر نص فرمائی ہے جس سے صاف صاف خلافت کے معنی نکلتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ جو تواتر کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں اور جس وقت ہمارے مقابل کوئی حربہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں یا جس مقام پر لا جواب ہوجاتے ہیں تواتر کی آڑ لینے لگتے ہیں۔ ذرا یہ فرمائیے کہ حدیث لا نورث کا تواتر کہاں سے ثابت کیجئے گا؟ در آنحالیکہ اس حدیث کے راوی بقول آپ کے ابوبکر یا اوس بن حدثانتھے اور چند معلوم الحال مطلبی اشخاص نے ہاں میں ہاں ملادی لیکن ہر زمانے میں کروڑوں موحد اور پاک نفس مسلمان اس حدیث کے منکر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کے باب علم رسول علی علیہ السلام اور تمام عترت و اہل بیت پیغمبر(ص) کا انکار جو عدیل قرآن ہیں اس کے باطل ہونے پر ایک بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ ان حضرات نے منطقی دلائل کے ساتھ اس کے غلط اور مصنوعی ہونے کو ثابت کیا ہے، جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا چکا۔ اور ان ساری دلیلوں سے اہم خود ابوبکر کے سامنے صدیق و صدیقہ علی و فاطمہ علیہما السلام کی مخالفت اور انکار تھا۔ اس لیے کہ جس وقت رسول اللہ(ص) کا باب علم اور آں حضرت(ص) کے ارشاد کے مطابق اہل تقوی کا امام کسی حدیث کو جھٹلا دے تو قطعا یہ اس کے مصنوعی او جھوٹ ہونے پر کامل حجت ہوگی۔

اگر تمام انبیاء بالعموم اور خاتم الانبیء بالخصوص اپنا کوئی وارث نہیںرکھتے تھے تو وصی اور وارث کیونکر بنایا؟ جیساکہ عرض کر چکا ہوں کہ آں حضرت نے فرمایا " لکل نبی وصیووارث و ان علیا وصیی ووارثی" ( یعنی ہر پیغمبر کے لیے ایک وصی و وارث ہے اور یقینا علی میرے وصی اور وارث ہیں۔)اور ظاہر ہے کہ بغیر مال و جائداد کی میراث کے وصی اور وارث کے کوئی معنی نہیں۔ اگر آپ کہئے کہ مالی نہیں بلکہ علمی وراثت مراد ہے( حالانکہ عقلی و نقلی اور علمی دلائل و براہین سے ثابت ہے کہ مالی وراثت مراد تھی) تو میرا مطلب اور زیادہ ثابت ہوجاتا ہے کہ سب سے پہلے تو پیغمبر(ص) کے وارث منصب خلافت کے لیے اولی اور حقدار ہوگا تب کہیں ان لوگوں کا نام لیا جاسکتا ہے جو آں حضرت(ص) کے علم سے کورے تھے۔

۹۲

دوسرے یہ کہ یہ ثابت ہوجانے کے بعد کہ رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو اپنا وصی اور وارث قرار دیا ہے بلکہ ان احادیث کے حکم سے جو آپ کے علماء نے نقل کئے ہیں( جن میں سے بعض کی طرف اشارہ بھی ہوچکا ہے) خدا ہی نے آپ کو اس درجے پر معین فرمایا ہے یہ کیونکر ممکن ہے ہے اس حدیث کو اپنے وصی اور وارث ( یا بقول آپ کے وارث علمی) سے تو نہ فرمایا ہوتا کہ بعد کو اختلاف نہ پیدا ہو لیکن اس شخص سے فرما دیا جو نہ وصی تھا نہوارث؟

شخت تعجبہے کہ جب دینی احکام میں علی علیہ السلام کوئی فیصلہ فرماتے تھے تو ابوبکر و عمر چونکہ خود ناواقف تھے لہذا آپ کے قول کو حجت سمجھ کے فورا تصدیق کرتے تھے کہ آپ کا فرمانا صیحی ہے اور اسی کے مطابق عمل کرتے تھے چنانچہ آپ کے علماء و مورخین نے ابوبکر عمر او عثمان کے زمانہ خلافت میں حضرت کے فیصلے نقل کئے ہیں۔ لیکن خاص طور سے اس موقع پر حضرت(ع) کے قول کو قبول نہیں کیا بلکہ ایسی رکیک مثالوں کےساتھ اہانت بھی کی کہ ہر عقلمند انسان ان کو نقل کرتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے۔

حافظ : سخت تعجب ہے کہ آپ فرماتے ہیں خلفاء رضی اللہ عنہم دینی احکام نہیں جانتے تھے اور علی کرم اللہ وجہہ ان کو یاد دلاتے تھے۔

خیر طلب : اس میںتعجب کی کوئی بات نہیں ہے اس لیے کہ سارے احکام و قواعد کا جاننا بہت مشکل کام ہے اور سوا اس کے جو پیغمبر(ص) یا باب علم ہو کسی معمولیانسان کے لیے اتنا مکمل علم ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ تنہا میں ہی اس عقیدے کا قائل نہیں ہوں بلکہ آپ کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں اس کو نقل کیا ہے۔ مطلب واضح کرنے کے لیے ایسے اتفاقات میں سے ایک نمونہ پیس کئے دیتا ہوں تاکہ نا واقف لوگوں کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم توہیں کے مقصد سے ایسا کہتے ہیں۔

چھ مہینے کا بچہ جننے والی عورت کے حق میں علی(ع) کا حکم

امام احمد بن حنبل مسند میں، امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی ذخائر العقبی می، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور شیخ سلیمان حنفی ینابیع المودۃ باب۵۶ میں احمد بن عبداللہ ، اور احمد بن حنبل، قلعی اور ابن سمان سے روایت کرتے ہیں:

"أنعمرأرادرجمامرأةالتی ولدت لستةأشهرفقاللهعليعليه السلام فیكتاباللهوَحَمْلُهُوَفِصالُهُثَلاثُونَشَهْراً ثمقالو فصاله فی عامين فالحمل ستةأشهرفترکها وقاللولاعلي‏ لهلك‏ عمر"

یعنی عمر نے ایک ایسی عورت کو سنگسار کرنا چاہا جس کے یہاں چھ مہینے کا بچہ پیدا ہوا تھا، تو علی علیہ السلام نے فرمایا خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ حمل و رضاعت سے دودھ بڑھائی تک تیس (۳۰) مہینوں کی مدت ہے اور چونکہ دودھ چھڑا نے تک رضاعت کا زمانہ دو سال ہے لہذا حمل کا زمانہ چھ ماہ رہ جاتا ہے ( خلاصہ یہ کہ چھ ماہ میں ولادت

۹۳

ممکن ہے کیونکہ حمل کی کم سےکم مدت چھ ہی مہینے ہے) پس عمر نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور کہا کہ علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا نیز اسی باب میں مناقب احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں۔

"ان عمر بن الخطاب اذا اشکل عليه شئی اخذ من علی رضی الله عنه."

یعنی جس وقت عمر کو کوئی مشکل مرحلہ پیش آتا تھا( اور بات سمجھ میں نہیں آتی تھی) تو علی علیہ السلام سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔

اس قسم کے قضیے ابوبکر، عمر اور عثمان کے دور خلافت میں کثرت سے پیش آئے کہ جب یہ لوگ مشکل میں پھنس جاتے تھے تو علی علیہ السلام اصلی حکم بتاتے تھے اور یہ بھی اس کو تسلیم کر کے عمل کرتے تھے۔

ابآپ حضرات غور کیجئے کہ آخر اس مقام پر علی علیہ السلام کی بات کیوں نہیں مانی بلکہ جسارت و اہانت شور و غل اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے جناب فاطمہ مظلومہ صلوات اللہ علیہا کا بنیادی حق بھی چھینلیا؟ بات در اصل یہ ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں دکھانے کے اور

تیسری دلیل اس حدیث کے بطلان پر خود خلیفہ ابوبکر کا قول و فعل ہے کیونکہ اگر حدیث صحیح ہے تو جو کچھ رسول اللہ(ص) نے چھوڑا تھا، سب ضبط کر لینا چاہئیے تھا۔ وارثوں کو آں حضرت کی کسی چیز پر تصرف کا حق نہیں تھا لیکن ابوبکر نے حجرہ فاطمہ ان کو دے دیا، اور ازواج رسول عائشہ و حفصہ وغیرہ کے حجرے بھی میراث کے طور پر ان سب کے عطا کئے۔ یک بامو دو ہوا کی مثل اسی موقع کے لیے ہے ۔يومن ببعض و يکفر ببعض ۔

علاوہ ان چیزوں کے اگر یہ حدیث صحیح تھی اور اس پر ان کا ایمانتھا کہ یہ آل رسول(ص) ہے تو فدک کو ضبط کرنے کےبعد جو ( ان کے خیال میں) صدقہ مسلمین تھا، ابوبکر نے یہتحریر کیوں دی کہ میں نے فدک فاطمہ(ع) کو واپس دیا جس کے بعد عمر مانع ہوئے اور وہ سند لے کر چاک کر ڈالی؟

حافظ ؟ آپ کا یہ بیان انوکھا ہے میں نے تو نہیں سنا کہ خلیفہ نے فدک واپس کیا ہو۔ آخر اس مضمون کی سند کہاں سے ہے؟

ابوبکر کا فاطمہ(ع) کو فدک واپس کرنا اور عمر کا مانع ہونا

خیر طلب : غالبا آپ میرے اس اصول سے واقف ہوں گے کہ بغیر سند کے میں کوئی بات عرض نہیں کرتا۔ نیز میرا اندازہ ہے کہ آپ کے پاس مطالعہ کتب کا وقت بہت کم ہے۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور علی بن برہان الدین شافعی ، تاریخ سیرۃ اطلبیہ جلد سوم ص۳۹۱ میں لکھتے ہیں کہ ابوبکر فاطمہ(ع) کی گفتگو سے متاثر ہو کر رونے لگے ( در اصل یہ واقعہ چند روز کے بعد ابوبکر کے مکان پر پیش آیا۔)

"فاستعيرو بکی و کتب لها برد فدک"

۹۴

یعنی حال فاطمہ(ع) پر گریہ کیا اور لکھ دیا کہ میںنے فدک فاطمہ(ع) کو واپس کیا، لیکن عمر نے وہ پروانہ لے کر پھاڑ ٰڈالا۔

تعجب یہ ہے کہ انہیں عمر نے جنہوں نے اس روز تحریر چاک کر ڈالی تھی اور فدک واپس کر نے پر اعتراض کیا تھا خود انے زمانہ خلافت میں اس کو واپس دیا اور اسی طرح بعد کے ( اموی اور عباسی) خلفا نے بھی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے وارثوں کو فدک لوٹایا۔

حافظ : آپ کی اس تقریر تو بہت ہی تعجب ہے یہ کیونکر ممکن ہے کہ خلیفہ عمر جو بقول آپ کے فاطمہ(ع) کو فدک واپس دینے میں سختی سے مانع ہوئے تھے کیونکہ یہ صدقہ مسلمین تھا، یہاں تک کہ تحریر کو بھی پھاڑ کے پھینک دیا تھا خود ہی فاطمہ(ع) کے وارثوں کو اسے واپس کردیں؟

خیر طلب : تعجب ہونا بھی چاہئیے۔ ممکن ہے آپ نے نہ دیکھا ہو لہذا اب میں آپ کی اجازت سے ذکر اسناد کے ساتھ آپ کے اکابر علماء سے ان خلفاء کے حوالے نقل کرتا ہوں جنہوں نے واپس دیا اور واپس لیا، تاکہ تعجب نہ کریں اور سمجھ لیں کہ حق ہمارے ساتھ ہے۔

خلفاءکا اولاد فاطمہ(ع) کو فدک لوٹانا

مدینہ منورہ کے مشہور محدث و مورخ علامہ سمہودی متوفی سنہ۹۱۱ھ تاریخ المدینہ میں اور یاقوت بن عبداللہ رومی حسمومی معجم البلدان میں نقل کرتے ہیں کہ ابوبکر نے اپنے زمانہ خلافت میں فدک پر تصرف کیا اور عمر نے اپنے دور خلافت میں علی علیہ السلام اور عباس کے حق میں واگزار کردیا۔ اگر ابوبکر نے رسول اللہ(ص) کے حکم سے مسلمانوں کا حق سمجھ کے فدک پر قبضہ کیا تھا تو عمر نے کس دلیل سے سارے مسلمانوں کی جائداد کسی ایک فرد کے سپرد کردی؟

شیخ : شاید اس نیت سے ایک مسلمان فرد کے حق میں واگزار کیا ہو کہ مسلمانوں ہی کے تصرف میں رہے۔

خیر طلب : آپ کی توضیح پر تو مدعی سست گواہ چست کی مثل صادق آتی ہے کیونکہ خود خلیفہ کا یہ مقصد نہیں تھا۔ اگر مسلمانوں کے خرچ کے لیے واپس کیا ہوتا توتاریخ میں اس کا تذکرہ ہونا چاہئیے تھا، حالانکہ آپ کے بڑے بڑے مورخین لکھتے ہیں کہ عمر نے علی علیہ السلام اور عباس کے حق میں واگزار کیا۔ اور علی علیہ السلام نے بھی میراث کے طور پر فدک کو قبول کیا تھا نہ کہ ایک مسلمان فرد کی حیثیت سے، ورنہ ایک مسلمان تمام مسلمانوں کے حق پر قابض و متصرف نہیں ہوسکتا ۔

شیخ : شاید عمر ابن عبدالعزیز مراد ہوں۔

عمر ابن عبدالعزیز کا فدک واپس کرنا

خیر طلب : ( مسکراتے ہوئے) علی علیہ السلام اور عباس عمر ابن عبدالعزیز اموی کے زمانے میں نہیں تھے۔ عمر ابن عبدالعزیز کا حکم اس کے علاوہ ہے،چنانچہ علامہ سمہودی تاریخ المدینہ میں اور ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۱۸ میں ابوبکر جوہری سے نقل کرتے ہیں کہ

۹۵

عوام عمر ابن عبدالعزیز کو خلافت حاصل ہوئی تو مدینے میں اپنے عامل کو لکھا کہ فدک اولاد فاطمہ کو واپس کر دو لہذا اس نے حسن ابن حسن مجتبی اوربعض کا قول ہے کہ حضرت کا قول ہے کہ حضرت علی بن الحسین علیہما السلام کو بلا کر ان کے پسرد کردیا۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم مطبوعہ مصر کے ص۸۱ سطر اول میں یہ عبارت لکھی ہے کہ کانت اول ظلامہ ردہا ( یعنی یہ وہ پہلی بجز وظلم چھنی ہوئی جائداد تھی جو عمر ابن عبدالعزیز نے اولاد فاطمہ(ع) کو دی، اور یہ ایک مدت تک ان حضرات کے تصرف میں رہی، یہاں تک کہ خلیفہ یزید ابن عبدالملک نے پھر اس کو غصب کر لیا اور اس پر بنی امیہ کا قبضہرہا۔ جب خلافت بنی عباس کا زمانہآیا تو پہلے عباسی خلیفہ عبداللہ سفاح نے اولاد امام حسن علیہ السلام کے سپرد کیا اور وہ حقوق وارثت کی صورت میں آمدنی کو بنی فاطمہ کے درمیان تقسیم کردیتے تھے۔

عبداللہ مہدی، اور مامون عباسی کا نسل فاطمہ(ع) کو فدک واپس دینا

جب اولاد امام حسن(ع) پر مںصور نے خروج کیا تو فدک ان سے چھین لیا، جب اس کا بیٹا مہدی خلیفہہوا تو ان کو لوٹا دیا، موسی بن ہادی خلیفہ ہوا تو اس نے پھر ضبط کر لیا، یہاں تک کہ مامون الرشید عباسی نے اپنی خلافت کے دور میں حکم دیا کہ اس کو اولاد علی اور بنی فاطمہ(ع) کے حق واگزار کر دیا جائے۔

یاقوت حمومی نے معجم البلدان طبع اول ذیل حرف" ف، و" میں مامون کے پروانے کی عبارت درج ہے کہ اس نے اپنے عامل قثم بن جعفر کو لکھا:

انه کان رسول الله صلی اللهعليه وسلم اعطی ابنته فاطمه رضی الله عنها فدک و تصدق عليها بها و ان ذالک کا امرا ظاهرا معروفا عند آلهعليه الصلوة والسلام"

یعنی بتحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک اپنی بیٹی فاطمہ(ع) کو عطا فرما دیا تھا اور یہ امر آں حضرت کی اولاد کے نزدیک ظاہر اور معروف تھا۔

مشہور شاعر دعبل خزاعی بھی موجود تھے انہوں نے اٹھ کر کچھ اشعار پڑھے جن کا مطلع یہ تھا

اصبح وجه الزمان قد ضحکا برد مامون هاشم فدکا

یعنی آج زمانہ شاد و خنداں ہے کہ مامون نے بنی ہاشم کو فدک لوٹا دیا۔

۹۶

فدک کے عطیہ ہونے کا ثبوت

یہ قطعی دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے پاس رسول(ص) کا عطیہ تھا جس کو روز اول ہی بغیر کسی شرعی جواز کے غصب کر لیا گیا، لہذا بعض خلفاء نے انصاف یا سیاست کی بنا پر اس کو ان مظلوم بی بی کی اولاد کی طرف پلٹا دیا۔

حافظ : اگرفدک فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بخش دیا گیا تھا تو انہوں نے وراثت کا دعوی کیوں کیا اور ہبہ کے بارے میں کوئی لفظ کیوں نہیں کیا؟

خیر طلب: پہلی مرتبہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ہبہ ہی کا دعوی کیا لیکن جب شارع مقدس اسلام کی ہدایت کے خلاف قابض و متصرف سے گواہ طلب کئے گئے اور انہوں نے گواہ پیش کردئے تو شرع انور کے برخلاف ان شہادتوں کو رد کردیا گیا، لہذا آپ نے مجبورا وراثت کا راستہ اختیار کیا تاکہ احقاق حق ہوجائے۔

حافظ : میراخیال ہے کہ آپ کو دھوکا ہو رہا ہے اس لیے کہ کسی مقام پر یہ نہیں دیکھا گیا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ہبہ کے سلسلے میں ایک حرف بھی کہا ہو۔

خیر طلب: مجھ کو دھوکا نہیں ہوا بلکہ یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ فقط شیعہ میں نہیں بلکہ خود آپ کےاکابر علماء کی کتابوں میں بھی درج ہے چنانچہ سیرۃ الحلبیہ مولفہ علی بن برہان الدین حلبی شافعی متوفی سنہ۱۰۴۴ھ کے ص۳۹ پر لکھا ہوا ہے کہ پہلے فاطمہ(ع) نے ابوبکر سے اس عنوان پر مناظرہ کیا کہ فدک پر ان کا مالکانہ قبضہ ہے اور رسول خدا(ص) نے ان کو عطا کردیا تھا، لیکن چونکہ شرعی گواہ نہیں مل سکے لہذا مجبورا وراثت کے قاعدے سے دعوی کیا پس وراثت کا دعوی ہبہ کےبعد تھا۔

نیز امام فخر الدین تفسیر کبیر ضمن ادعائے فاطمہ(ع) میں ، یاقوب حموی، معجم البلدان میں، ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۸۰ میں ابوبکر جوہری سے اور ابن حجر متعصب صواعق محرقہ میں آخر صہ۲۱ میں شہبہ ہفتم از شبہات رفضہ کے ضمن میں کلام کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا پہلا دعوی ہبہ کے متعلق تھا لیکن جب ان کی گواہیاں مسترد کردی گئیں تو رنجیدہ اور ناراض ہو کر فرمایا کہ اب میں آئیندہ تم سے بات نہیں کروں گی۔(۱)

اور ہوا بھی یہی کہ پھر نہ ان لوگوں سے ملاقات کی نہ ان سے ہمکلام ہوئیں، یہاں تک کہ آپ کی وفات کا زمانہ آیا تو وصیت کردی کہ ان میں سے کوئی بھی میرے جنازے پر نماز نہ پڑھے۔ آپ کے چچا عباس نے نماز پڑھی اور رات کے وقت دفن کی گئیں۔

(لیکن پر بنائے روایات شیعہ و بیانات ائمہ عترت طاہر حضرت علی علیہ السلام نے جناب معصومہ پر نماز پڑھی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ یہاں تک ابن تیمیہ اور ابن قیم وغیرہ اکابر علمائے اہل سنت نے بھی اقرار کیا ہے کہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے دعوی کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک مجھ کو بخش دیا ہے۔

۹۷

مخالفین کا قول کہ ابوبکر نے آیہ شہادت پر عمل کیا اور اس کا جواب

حافظ : اس میں کوئی شک نہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت دل تنگ اور رنجیدہ خاطر ہوئیں لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی زیادہ قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ بھی شرع کی ظاہری صورت پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے۔ چونکہ آیت شہادت کا عام حکم ہے کہ مدعی کو اپنے ثبوت میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں یا چار عورتیں جو دو مردوں کے برابر ہیں گواہی میں پیش کرنا چاہئیے اور یہاں گواہوں کی تعداد مکمل نہیں ہوسکی لہذا وہ بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے موافق کوئی قطعی فیصلہ نہیں دے سکے۔

خیر طلب: ممکن ہے اس مقام پر سلسلہ کلام طولانی ہوجائے اور حضرات حاضرین جلسہ کے لیے باعث زحمت ہو لہذا آگر آپ بھی مناسب سمجھیں تو بہتر ہوگا کہ بقیہ گفتگو کل شب کے لیے اٹھا رکھی جائے؟

نواب : قبلہ صاحب! ہمارے درمیان ایک اہم موضوع یہ بھی زیر بحث تھا اور ہم اس کی حقیقت معلوم کرنے کے از حد مشتاق ہیں، حسن اتفاق سے آج یہ مسئلہ معرض تحقیق میں آگیا ہے لہذا التجا ہے کہ اگر آپ خستگی اور تکان محسوس نہ کر رہے ہوں تو مطلب ادھورا نہ چھوڑئیے کیونکہ بات کٹ جانے سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔یہ گفتگو اگر صبح تک طول کھینچے تب بھی ہم سامعین کی جانب سے کوئی عذر نہیں بلکہ سب اتنہائی شوق و ذوق سے سننے کے لیے تیار ہیں، اور جب تک یہ قضیہ حل نہ ہوجائے یہاں سے واپس نہ جائیں گے۔ آپ پوری وضاحت کےساتھ تقریر فرمائیں۔ البتہ اگر آپ ہی تھک گئے ہوں تو ایسی صورت میں ہم تکلیف نہ دیں گے۔

خیر طلب: مجھ کو علمی اور دینی مباحث میں کبھی زحمت یا خستگی نہیں ہوتی، میں تو صرف آپ حضرات کا خیال کررہا ہوں کیونکہ سبھی کی رعایت ملحوظ رکھنا چاہئیے۔

( سارے اہل جلسہ نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کے بیانات باعثِ زحمت نہیں ہیں، خصوصا فدک کے موضوع پر جو بہت اہم اور قابل سماعت ہے اور ہم سب اس کے لیے بے چین ہیں۔)

خیر طلب: حافظ صاحب نے فرمایا ہے کہ خلیفہ شرعی قانون پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے۔ چونکہ گواہ پورے نہیں تھے اس لیے حکم صادر نہیں ہوا۔ اس مقام پر چند جملے عرض کرنا ضروری ہیں۔ آپ حضرات انصاف سے فیصلہ کریں۔

قابض و متصرف سے گواہ مانگنا خلافِ شرع تھا

اولا بقول آپ کے حضرات ابوبکر قانون شرع سے مجبور تھے تو یہ فرمائیے کہ شرع میں یہ حکم کہاں پر ہے کہ قبضہ وار سے گواہ طلب کئے جائیں؟ بالاتفاق ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا قابض و متصرف تھیں لہذا ابوبکر کا یہ عمل جس کو آپ کے

۹۸

تمام علماء نے لکھا ہے کہ ان مظومہ بی بی سے گواہ طلب کئے آخر دین و شریعت کے کس قانون کے مطابق تھا؟ کیا شریعت کا دستور یہ نہیں ہے کہ گواہ مدعی کو پیش کرنا چاہئیے متصرف کو نہیں؟ آیا یہ طریقہ انور کے خلاف تھا یا نہیں؟ ذرا انصاف سے فیصلہ کیجئے۔

ثانیا آیہ شہادت کی عمومیت سے کسی کا انکار نہیں ہے، اس کی عمومیت اپنی جگہ پر باقی ہے لیکن بمقتضائے قاعدہ مسلمہ ما من عام الا و قد خص ، یعنی ہر عام کا ایک خاص ہوتا ہے ۱۲ مترجم) قابل استثناء اور تخصیص کی حامل ضرور ہے۔

حافظ : آپ کس دلیل سے کہتے ہیں کہ آیہ شہادت تخصیص کی حامل ہے؟

خزیمہ ذوالشہادتین

خیر طلب : اس مقصد کی دلیل وہ روایت ہے جو آپ کی معتبر صحاح کے اندر بھی نقل ہوئی ہے کہ جس وقت خزیمہ ابن ثابت نے گھوڑے کی فروخت کے معاملے میں ایک عرب کے مقابل جس نے رسول اللہ(ص) کے خلاف دعوی کیا تھا آں حضرت(ص) کے موافق شہادت دی تو تنہا انہیں کی گواہی کافی سمجھی گئی اور پیغمبر(ص) نے ان کا لقب ذوالشہادتین مقرر فرمایا کیونکہ ان کی ایک شہادت دو عادل گواہوں کے برابر قرار دی گئی پس معلوم ہوا کہ آیہ شہادت کی تخصیص موجود ہے۔ جہاں پر امت کی ایک مومن اور صحابی ذوخزیمہ آیت کے مخصص بن جائیں وہاں علی(ع) و فاطمہ علیہما السلامجو نبض آیہ تطہیر درجہ عصمت پر فائز ہیں بدرجہ اولی مستثنی ہوں گے۔ معصوم و معصومہ اور صدیق و صدیقہ قطعا کذب و دروغ سے مبرا ہیں اور ان کی تردید یقینا خدا کی تردید ہے۔

فاطمہ(ع) کے گواہوں کی تردید

صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ(ع) نے دعوی کیا کہ فدک میرا نحلہ ہے اور میرے باپ نے مجھ کو بخش دیا تھا اور میں خود آں حضرت(ص) کی حیات ہی میں اس پر متصرف تھی۔ اس دستور شرع کے خلاف جناب معصومہ سےگواہ مانگے گئے۔ آپ نے امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، ام ایمن اور حسنین علیہا السلام کو شہادت میں پیش کیا لیکن ان کو رد کردیا گیا۔ آیا یہ عمل حقیقت اور قواعد شرع کے بر خلاف نہیں تھا اگر فاطمہ کے پاس سوا قبضے کے اور کوئی گواہ نہ ہوتا تب بھی قانون شریعت کے مطابق آپ کی حقانیت کے لیے کافی تھا۔ علاوہ اس کے کہ خدائے تعالی نے آیہ تطہیر میں ان معظمہ کی پاکیزگی کی شہادت دی ہے کہ آپ ہر رجس اور گندگی سے مبرا ہیں جس میں جھوٹ بولنا اور غلط ادعا کرنا بھی شامل ہے۔ بالخصوص ایسی صورت میں کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام جیسے کامل گواہ نے ان طاہرہ بی بی کی صداقت پر شہادت دی، جن کی گواہی کو جھٹلانا قطعا خدا کو جھٹلانا ہے، کیونکہ خدائے اعلی نے علی علیہ السلام کو آیات قرآنی میں صادق و صدیق فرمایا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس کی تصدیق خدا کرے اس کی بات کو رد کرنے کی جرائت کیونکہ ہوئی؟ حالانکہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ

۹۹

علی کے ساتھ رہو یعنی ان کی پیروی کرو، اور جیسے زید" عدل" اپنی اتنہائی سچائی کی وجہ سے مجسمہ صدق بن گئے تھے آپ کو بھی صادق فرمایا چنانچہ آیت نمبر۱۲۰ سورہ نمبر۹(توبہ) میں ارشاد ہے۔

"ياأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوااتَّقُوااللَّهَوَكُونُوامَعَ‏ الصَّادِقِينَ‏"

یعنی اے مومنین خدا سے ڈرو اور سچوں کے( جن سے محمدج(ص) و علی(ع) اور اہل رسولی مراد ہیں، ساتھ رہو۔

جیسا کہ اسی کتاب کے ص؟؟؟؟ میں اشارہ ہوچکا ہے۔

حافظ : یہ آیت آپ کے مقصد پر کیونکر دلالت کرتی ہے جس سے علی کرم اللہ وجہہ کی پیروی فرض ہوجائے؟

صادقین سے محمد(ص) و علی(ع) مراد ہیں

خیر طلب : آپ کے اکابر علماء اپنی کتابوں اور تفسیروں میں کہتے ہیں کہ یہ آیت محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام کی شان میں نازل ہوئی ہے کہ صادقین سے یہی دونوں بزرگوار اور بعض اخبار کی بنا پر علی علیہ السلام مراد ہیں، نیز دوسری بعض روایتوں میں ہے کہ عترت رسول(ص) مراد ہے۔

امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی درالمنثور میں ابن عباس سے، حافظ ابوسعید عبدالملک بن محمد خرگوشی کتاب شرف المصطفے میں اصمعی سے اور حافظ ابو نعیم اصفہانی حلیتہ الاولیاء میں روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا " ہو محمد و علی علیہا السلام " ( یعنی یہ صادق محمد و علی علیہما السلام ہیں ۱۲ مترجم)

شیخ سلمان حنفی ینابیع المودۃ باب ۲۹ ص۱۱۹ مطبوعہ اسلام بول میں موفق بن احمد خوارزمی۔ حافظ ابونعیم اصفہانی اور حموینی سے بروایت ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ

" الصادقون فی هذه الايةمحمد صلی الله عليه و سلم و اهلبيته"

یعنی اس آیت میں صادقین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور ان کے اہل بیت طاہرین ہیں۔

اور شیخ الاسلام ابراہیم بن محمد حموینی جو آپ کے اجلہ علماء میں سے ہیں فرائد السمطین میں، محمد بن یوسف گنجی کفایت الطالب باب ۶۲ میں، نیز محدث شام اپنی تاریخ میں سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ:

"مع الصادقين ای مع علی ابن ابی طالب " (یعنی صادقین کے ساتھ یعنی علی ابن ابی طالب کے ساتھ۱۲ مترجم)

(۲) آیت نمبر۳۴ سورہ نمبر۳۹ ( زمر) میں فرماتا ہے۔

"وَالَّذِيجاءَبِالصِّدْقِ‏وَصَدَّقَبِهِأُولئِكَهُمُالْمُتَّقُونَ."

یعنی جو شخص سچی بات لے کر آیا ( پیغمبر(ص)) اور جس نے اس کی تصدیق کی( علی ابن ابی طالب)

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394