پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 325015 / ڈاؤنلوڈ: 8622
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔

جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں، حافظ ابن مردوویہ نے مناقب میں، حافظ ابونعیم نےحلیتہ الاولیاء میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۶۲ میں اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اہل تفسیر کی ایک جماعت سے ابن عباس اور مجاہد کی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ:

" الّذيجاءبالصدق‏رسولاللّهصلّىاللّهعليهوآلهوالّذيصدّقبه علی ابن ابی طالب"

یعنی جو شخص سچائی کے ساتھ آیا وہ محمد صلعم ہیں اور جس نے ان کی تصدیق کی وہ علی ابنابی طالب ہیں۔

(۳) آیت نمبر۱۸ سورہ نمبر۷۵( حدید) میں ہے۔

"الَّذِينَآمَنُوابِاللَّهِوَرُسُلِهِأُولئِكَهُمُ‏ الصِّدِّيقُونَ‏ وَالشُّهَداءُعِنْدَرَبِّهِمْ،لَهُمْأَجْرُهُمْوَنُورُهُمْ"

یعنی جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے اور حقیقت میں ہی سب سے سچے اور خدا کے نزدیک شہید ہیں جن کے واسطے ان کے؟؟؟؟؟؟؟؟

احمد ابن حنبل نے مسند میں اور حافظ ابونعیم اصفہانی نے مانزل من القرآن فی علی میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیہ شریفہ علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے کہ آپ صدیقین میں سے ہیں۔

(۴) اور آیت نمبر۷۱ سورہ نمبر۴( نساء) میں ارشاد ہوتا ہے

"وَمَنْ‏ يُطِعِ‏ اللَّهَ‏وَالرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَأَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ- وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِوَالصَّالِحِينَ- وَحَسُنَأُولئِكَ رَفِيقاً"

یعنی جو لوگ اللہ و رسول(ص) کی اطاعت کریں پس وہ انبیاء و صدیقین، شہداء اور صالحین میں سے جن پر خدا نے پوری عنایت و مرحمت فرمائی ہے ان کے ہمراہ محشور ہوں گے، اور یہ لوگ( جنت میں) اچھے رفیق ہوں گے۔

اس آیہ مبارکہ میں بھی صدیقین ہے مراد علی علیہ السلام ہیں جیسا کہ ہمارے اور آپ کے طریقوں سے بکثرت روایتیں وارد ہیں کہ علی علیہ السلام اس امت کے صدیق اور سچےبلکہ صدیقین میں سب سے افضل ہیں۔

علی(ع) افضل صدیقین ہیں

چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں امام ثعلبی نے کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، ابن شیرویہ نے فردوس میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۳۵۱ میں،

۱۰۱

ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں اور ابن حجر مکی نے ان چالیس حدیثوں میں سے جو انہوں نے صواعق محرقہ کے اندر فضائل علی علیہ السلام میں نقل کی ہیں تیسویں حدیث میں بخاری سے اور انہوں نے ابن عباس سے باستثنائے جملہ آخر روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"الصِّدِّيقُونَ‏ ثَلَاثَةٌحِزْقِيلُمُؤْمِنُآلِفِرْعَوْنَوَحَبِيبٌالنَّجَّارُمُؤْمِنُآلِيسوَعَلِيُّبْنُأَبِيطَالِبٍوَهُوَأَفْضَلُهُمْ."

یعنی بہت بڑے سچے تین شخص ہیں حزقیل مومن آل فرعون، حبیب نجار صاحب یس اور علی ابن ابی طالب جو ان سب میں سے افضل ہیں۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ شروع باب۴۲ میں مسند امام احمد بن حنبل، ابونعیم اور مغازلی شافعی سے، اخطب خوارزمی نے مناقب میں، ابو لیلی اور ابو ایوب انصاری سے ، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ کی چالیس حدیثوں میں اکتیسویں حدیث میں، ابو نعیم و ابن عساکر سے اور انہوں نے ابو لیلی سے ، اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۲۴ میں ابو لیلی کی سند سے نقل کیا ہے اور آخر خبر میں کہتے ہیں کہ محدث شام نے اپنی تاریخ میں اور حافظ ابونعیم نے حلیتہ الاولیاء میں علی علیہ السلام کے حالات بیان کرتے ہوئے رسول خدا(ص) سے روایت کی ہے کہ فرمایا:

"الصِّدِّيقُونَ‏ ثَلَاثَةٌحَبِيبٌ النَّجَّارُمُؤْمِنُ آلِيس الَّذِي ‏قالَ ياقَوْمِ اتَّبِعُواالْمُرْسَلِينَ‏ وَحِزْقِيلُ مُؤْمِنُ آلِ فِرْعَوْنَ الَّذِي قَالَ ‏أَتَقْتُلُونَرَجُلًاأَنْيَقُولَرَبِّيَاللَّهُ ‏ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِيطَالِبٍ [ع‏] الثَّالِثُ وَهُوَأَفْضَلُهُمْ."

یعنی سچے تین شخص ہیں، حبیب نجار مومن آل یاسین جنہوں نے کہا" اے قوم پیغمبروں کی پیروی کرو" حزقیل مومن آل فرعون جنہوںنے کہا۔ آیا تم ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو خدا پرست ہے۔ اور علی ابن ابی طالب جو ان سب سے افضل ہیں۔

واقعی ہر عقلمند انسان حیران رہ جاتا ہے کہ آپ حضرات کے علم و انصاف پر عادت اور تعصب کیونکر غالب آگیا ہے باوجودیکہ خود آپ ہی آیات قرآنی کے مطابق متعدد روایتوں سے ثابت کرتے ہیں کہ علی علیہ السلام افضل الصدیقین تھے پھر بھی دوسروں کو صدیق کہتے ہیں در آںحالیکہ انکے صدیق ہونے پر ایک آیت بھی نقل نہیں کی گئی ہے۔

حضرات! خدا کے لیے اپنی عادت سے ہٹ کر ذرا انصاف سے کام لیجئے کہ خدائے تعالی نے جسبزرگوار کو قرآن مجید صدیق فرمایا ہو کہ وہ ہرگز جھوٹ نہیں بول سکتا، نیز قرآن میں حکم دیا ہو کہ اس کی پیروی کرو( جیسا کہ خود آپ کے علماء کا اقرار ہے)اس کی گواہی مسترد کردیں بلکہ اہانت بھی کریں؟ آیا عقل باور کرتی ہے کہ جس کو رسول خدا(ص) نے اس امت کا صدیق فرمایا ہو بلکہ صدیقین سے افضل بنایا ہو اور آیات قرآنی اس کی صداقت رپ شہادت دے رہی ہوں وہ ہوائے نفسانی کی بنا پر جھوٹ بولے گا یہاں تک کہ جھوٹی گواہی بھی دے گا؟

۱۰۲

علی(ع) حق اور قرآن کے ساتھ ہیں

آیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ علی(ع) حق کے ساتھ اور حق علی(ع) کے ساتھ گردش کرتا ہے؟ چنانچہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ جلد چہارم ص۳۲۱ میں، حافظ ابن مردویہ نے مناقب میں، دیلمی نے فردوس میں، حافظ میثمی نے مجمع الزوائد جلد ہفتم ص۲۳۶ میں، ابن قتیبہ نے الامامہ والسیاسہ جلد اول ص۶۸ میں، حاکم ابو عبداللہ نیشاپوری نے مستدرک جلد سوم ص۱۲۴ میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، طبرانی نے اوسط میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر جلد اول ص۱۱۱ میں، ابن حجر مکی نے جامع الصغیر جلد دوم ص۷۴، ۷۵، ۱۴۰ میں، اور صواعق محرقہ باب۹ فصل دوم حدیث بیست ویکم درفضائل مولانا امیرالمومنین علیہ السلام میں بروایت ام سلمہ اوسط سے نقل کرتے ہوئے شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب۲۰ میں جمع الفوائد و اوسط صغیر طبرانی ، فرائد حموینی، مناقب خوارزمی اور ربیع الاول الابرار زمخشری سے بروایت ام سلمہ و ابن عباس نیز ینابیع المودت مطبوعہ اسلامبول باب ۶۵ ص۱۸۵ میں جامع الصغیر جلال الدین سیوطی سے، ان کے علاوہ تاریخ الخلفاء ص۱۱۶ میں، فیض القدیر جلد ۴ ص۳۵۸ میں ابن عباس سے مناقبالسبعین ص۲۳۷حدیث نمبر۴۴ صاحب فردوس سے، صواعق محرقہ باب ۵۹ فصل دوم ص۲۸۳ میں ام سلمہ سے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، بعض نے ام سلمہ سے بعض نے عائشہ سے اور بعض نے محمد بن ابوبکر سے اور انہوں نے رسول خدا(ص) سے روایت کیہے کہ فرمایا:

"عليّ‏ مع‏ القرآن‏ والقرآنمععليلايفترقانحتّىيرداعليالحوض"

یعنی علی(ع) قرآن کے ساتھ اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں۔

چند حضرات نے اس عبارت کےساتھ نقل کیا ہے کہ:

"الحقّ‏ لن‏ يزال‏مععلىّوعلىّمعالحقّلنيختلفاولنيفترقا"

یعنی حق ہمیشہ کے لیے علی(ع) کے ساتھ اور علی(ع) حق کے ساتھ ہیں، ان دونوں میں ہرگز کبھی کوئی اختلاف نہ ہوگا اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔

ابن حجر صواعق محرقہ باب۹ اواخر فصل دوم ص۷۷ میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے مرض الموت میں فرمایا:

"انی مخلف فيکم کتاب الله و عترتی اهل بيتی ثم اخذ بيد علی فرفعها فقال الحقمععليوعلي‏مع‏الحق‏لايفترقانحتىيرداعليّالحوض فاسئلهما ما خلفت فيهما."

یعنی میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑ رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت اور میرے اہل بیت، پھر علی(ع)

۱۰۳

کا ہاتھ پکڑ کے بلند کیا اور فرمایا یہ علی(ع) قرآن کے ساتھ اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کبارے میرے پاس پہنچ جائیں، میں ان دونوں سے اپنی قائم مقامی کے بارے میں سوال کروں گا۔

نیز بالعموم نقل کرتے ہیں کہ فرمایا:

"علىّ‏ مع‏ الحقّ‏ والحقّمععلىّيدورمعهحيثمادار"

یعنی علی(ع) حق کےساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے جدھر وہ گردش کرتے ہیں ادھر یہ بھی گردش کرتا ہے۔

سبط ابن جوزی تذکرۃ خواص الامہ ص۲۰ ضمن حدیث غدیر میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"وأدرالحقمعهحيثماداروكيف‏ مادار"

یعنی حق کو علی(ع) کےساتھ گردش دے جہاں اور جس طرح یہ گردش کریں۔

اس کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

"فيهدليلعلىأنهماجرىخلافبينعليعليهالسلاموبينأحدمنالصحابةإلاوالحقمععلي"

یعنی اس حدیث میں دلیل ہے اس بات پرکہ اگر علی(ع) اور کسی صحابی کے درمیان کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو حق یقینا علی(ع) کےساتھ ہوگا۔

علی(ع) کی اطاعت خدا و رسول(ص) کی اطاعت ہے

جن کتابوں کا ذکر کیا گیا ان میں آپ کی دوسری معتبر کتابوں میں منقول ہے کہ خاتم الانبیاء اکثر مقامات اور مختلف عبارتوں کے ساتھ فرماتے رہے۔

"من اطاع عليا فقد اطاعنی ومن اطاعنی فقد اطاع الله و من انکر عليا فقد انکرنی و من انکرنی فقد انکر الله"

یعنی جو شخص علی(ع) کی اطاعت کرے اس نے یقینا میری اطاعت کی اور جو شخص میری اطاعت کرے اس نے در حقیقت خدا کی اطاعت کی، او جو شخص علی(ع) سے انکار کرے اس نے در اصل مجھ سے انکار کیا اور جو شخص مجھ سے انکار کرے قطعی طور پر اس نے خدا سے انکار کیا۔

ابوالفتح محمد بن عبدالکریم شہرستانی ملل و نحل میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم}ص) نے فرمایا:

"لقد کان علی علی الحق فی جميع احواله يدور الحق معه حيث دار"

۱۰۴

یعنی حق یہ ہے کہ علی(ع) ہر حال میں حق پر ہیں اور جس طرف یہ گردش کرتے ہیں حق بھی ان کے ساتھ گردش کرتا ہے۔

آیا باوجود اتنے اخبار صریحہ کے جو خود آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں علی علیہ السلام کی تردید، آپ سے انکار کے اوپر اعتراض کرنا خدا و رسول(ص) کی شان میں تردید و انکار اور اعتراض کرنا نہیں تھا؟ اور کیا یہ حق و حقیقت سے روگردانی نہیں تھی؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ابوالموید موفق بن احمد خوارزمی نے مناقب میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں اور ابن الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے صاف صاف فرمایا ہے:

"من اکرم عليا فقد اکرمنی و من اکرمنی فقد اکرم الله و من اهان عليا فقد اهاننی و من اهاننی فقد اهان الله؟

یعنی جس نے علی(ع) کی عزت کی اس نے میری عزت کی اور جس نے میری عزت کی اس نے خدا کی عزت کی، اور جس شخص نے علی(ع) کی توہین کی اس نے میری توہین کی اور جس نےمیری توہین کی اس نے خدا کی توہین کی۔

عدل و اںصاف سے فیصلہ کیجئے

صاحبان اںصاف! مذکورہ واقعات کو ان اخبار احادیث سے جو آپ کی معتبر کتابوں میں بھی منقول ہیں مطابق کر کے ذرا عادلانہ فیصلہ کیجئے اور بے خطا شیعوں سے اس قدر بدظنی اختیار نہ کیجئے!

اور دوسری بات آپ نے یہ فرمائی ہے کہ خلیفہ شریعت کے ظاہری دستور پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے اس لیے کہ آیت شہادت اپنی عمومیت پر باقی تھی اور شرعی معیار پر گواہ پیش نہ ہونے کی وجہ سے صرف دعوی کی بنیاد پر مسلمانوں کا مال فاطمہ سلام اللہ علیہا کو نہیں دے سکتے تھے ( بلکہ اتنے محتاط تھے کہ خلافِ شرع آپ نے متصرف اور قابض سے گواہ مانگے)

اولا میں پہلے ہی عرض کرچکا کہ یہ مسلمانوں کا مال نہیں بلکہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نحلہ اور زیر تصرف ملکیت تھی۔

دوسرے اگر خلیفہ واقعی قانون شرع کا نفاذ کرنے والے تھے تو ان کا فرض تھا کہ سرمواس کے خلاف نہ کریں۔

پس آخر دو رنگی سے کس لیے کام لیتے تھے کہ دوسرے اشخاص کو تو بغیر اکسی گواہ کے صرف زبانی دعوے پر مسلمانوں کا مال دے دیتے تھے لیکن خاص طور سے امانت رسول(ص) جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا کے بارے میں اس قدر شدید اور سخت گیری کے ساتھ حکم دینا ضروری سمجھتے تھے؟

چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۲۵ میں درج کیا ہے کہ میں نے علی ابن ابی الفارقی مدرس مدرسہ عربیبغداد سے سوال کیا کہ" اکانت فاطمہ صادقہ قال نعم" ( آیا فاطمہ صادقہ اور راست گو تھیں ( اپنے دعوی میں)انہوں نے کہا میں نے کہا کہ جب وہ صادقہ اور سچی تھیں تو خلیفہ نے ان کو فدک کیوں واگزار نہیں کیا؟ وہ مسکرائے( حالانکہ کوئی شوخ طبیعت آدمی نہیں تھے اور ایک

۱۰۵

لطیف و دلچسپ بات کہی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر اس روز فاطمہ(ع) کے دعوے پر فدک واگزار کردیتے تو وہ دوسرے روز آکر اپنے شوہر کے لیے خلافت کا دعوی کرتیں اور اس وقت خلیفہ مجبور ہوتے کہ یہ حق بھی واپس کریں کیونکہ اس سے قبل ان کی صداقت تسلیم کرچکے ہوتے۔ انتہی کلامہ

معلوم ہوا کہ آپ کے بڑے بڑے علماء کے نزدیک اصلیت واضح و آشکار تھی اور انہوں نے از روئے اںصاف و حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے کہ روز اول ہی سے حق جناب فاطمہ مظلومہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ تھا لیکن در اصل اپنا منصب بچانے کے لیے سیاست کا تقاضا یہی تھا کہ جان بوجھ کر جناب معصومہ کو ان کے یقینی حق سے محروم کردیں۔

حافظ : کس شخص کو خلیفہ نے بغیر گواہ کے مسلمانوں کا مال دے دیا؟

جابر(رض) کا واقعہ اور ان کو مال عطا کرنا باعث عبرت ہے

خیر طلب : جس وقت جابر نے دعوی کیا کہ پیغمبر(ص) نے نجرین کے مال سے مجھ کو عطا کرنے کا وعدہ کیا تھا تو بغیر کسی تردید اور گواہ طلب کرنے کے ان کو مسلمانوں کے مال میں سے یعنی بیت المال سے پندرہ سو دینار دے دیئے۔

حافظ : اول تو میں نے یہ روایت دیکھی ہی نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ آپ کی کتابوں میں ہو۔ دوسرے یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ گواہ نہیں مانگے تھے؟

خیر طلب: بہت تعجب ہے کہ آپ نے نہیں دیکھا کیونکہ آپ کے علماء ن اس بات کے ثبوت میں کہ عادل صحابی کو خبر واحد قابل قبول ہے جو دلائل قائم کئے ہیں ان میں سے جابر ابن عبداللہ انصاری کی یہ روایت بھی ہے۔

چنانچہ شیخ الاسلام حافظ ابوالفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی فتح الباری فی شرح صحیح البخاری"باب يکفل عن ميت دينا " میں کہتے ہیں:

"ان هذا الخير فيه دلالة علی قبول خير العدل من الصحابة و لو حر ذالک نفعا نفسه لان ابابکر لم يلتمس من جابر شاهد اعلی صحة دعواه"

یعنی یہ خبر عادل صحابی کی روایت قابل قبول ہونے پر دلالت کرتی ہے چاہے اسی کی ذات کو نفع پہنچاتی ہو، اس لیے کہ ابوبکر نے جابر سے ان کے دعوے کی صحت پر گواہ نہیں مانگے۔

اسی روایت کو بخاری نے اپنی صحیح میں مزید تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ باب من یکفل عن میت دینا اور کتاب الخمس فی باب ما قطع النبی من البحرین میں لکھا ہے کہ جس وقت بحرین کا مال مدینہ لایا گیا تو ابوبکر کے منادی نے اعلان کیا کہ جس شخص سے رسول اللہ(ص) نے وعدہ کیا ہو یا آں حضرت(ص) پر کسی کا مطالبہ ہو تو وہ آکر لے جائے۔ جابر آئے اور کہا کہ رسول اکرم(ص) نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب بحرین فتح ہو کر مسلمانوں کے تصرف میں آجائے گا تو وہاں کے مال سے تمہیں دوں گا۔ پس فورا بغیر کسی شاہد کے محض ادعا پر ان کو پندرہ سو دینار دے دیئے۔

۱۰۶

نیز جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء کی فصل خلافت ابوبکر اور اس کے واقعات میں جابر کے اسی قضیے کو نقل کیا ہے۔ صاحبان انصاف !خدا کے لیے بتائیے کیا یہ دو رنگی کا برتائو نہیں تھا؟

اگر کوئی خاص جذبہ کار فرما نہیں تھا تو ابوبکر کے لیے جس طرح یہ جائز ہوگیا تھا کہ آیہ شہادت کے خلاف عمل کر کے بغیر کسی گواہ کے محض ادعا پر جابر کو مسلمانوں کے مال میں سے عطا کردیں اسی طرح ( بقول ان کے ) اگر فرض کر لیا جائے کہ فدک مسلمانوں ہی کا مال تھا( حالانکہ یہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی مقبوضہ ملکیت تھی) تب بھی لازم تھاکہ رسالت کی رعایت کرتے ہوئے ودیعہ رسول خدا(ص) جناب فاطمہ صدیقہ(ع) کا دل نہ توڑیں اور ان کا دعوی تسلیم کر کے فدک واپس دے دیں۔

علاوہ اس کے بخاری اپنی صحیح میں اور آپ کے دوسرے علماء وفقہاء عادل صحابی کیخبر واحد کو قبول کرتے ہیں چاہے اس سے ذاتی فائدہ ہی مقصود رہا ہو لیکن علی علیہ السلام کے ادعا اور آپ کے بیان کو اس عذر کے ساتھ نا قابل قبول جانتے ہیں کہ حر النفع الی نفسہ ( یعنی وہ اپنا ذاتی نفع چاہتے تھے ۱۲ مترجم) تو کیا علی علیہ السلام اصحاب کی ایک کامل فرد نہیں تھے؟ اگر آپ اںصاف کے ساتھ غور کیجئے تو تصدیق کیجئے گا کہ یہ حق اور حقیقت کا نفاذ نہیں بلکہ محض دھاندلی تھی۔

حافظ : میرا خیال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جابر سے گواہ اس لیے نہیں مانگے کہ یہ رسول اللہ(ص) کے مقرب اور تربیت یافتہ اصحاب میں سے تھے اور قطعا آں حضرت(ص) سے سن چکے تھے کہ:

"من کذب علی متعمدا فليتبئو مقعده من النار"

جو شخص عمدا مجھ پر جھوٹ باندھے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

لہذا اتنی شدید وعید کے بعد ظاہر ہے کہ ایک مقرب وتربیت یافتہ مومن صحابی ہرگز ایسا غلط اقدام نہیں کرے گا اور اس پست وحقیر دینائے فانی کے لیے رسول اللہ(ص) ی طرفجھوٹا قول منسوب کر کے اپنی عاقبت برباد نہیں کرےگا۔

خیر طلب : آیا جابر رسول اللہ(ص) سے زیادہ قریب تھے یا علی وفاطمہ علیہا السلام، جن کی آں حضرت(ص) نے خاص طورپر تربیت فرمائی تھی۔

حافظ : ظاہر ہے کہ علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما ہر شخص سے زیادہ رسول اللہ(ص) سے قریب تھے کیونکہ بچپن ہی سے آں حضرت (ص) کے زیر تربیت رہے۔

خیر طلب : پس آپ کو ماننا پڑے گا کہ علی و فاطمہ علیہما السلام سب سے بڑھ کے اس کے پابند تھے کہ اس وعید کے بعد قول رسول(ص) کی بنیاد پر کوئی جھوٹا دعوی نہ کریں، اور ان لوگوں پر فرض تھا کہ جناب فاطمہ صدیقہ(ع) کا دعوی تسلیم کریں اس لیے کہ قطعا اور یقینا ان دونوں بزرگواروں کی منزل جابر سے بالاتر تھی( جیسا کہ خود آپ ہی کو بھی اعتراف ہے) بلکہ سارےاصحاب سے بلند۔ کیونکہ آیہ تطہیر کے مصداق اور معصوم تھے۔ اور ان پانچ افراد یعنی محمد(ص)، علی(ع)، فاطمہ(ع)، حسن(ع) اور حسین علیہم الصلوۃ والسلام کے لیے جو آیت تطہیر میں داخل ہے، یہ آیت عصمت و پاکیزگی کی صراحت کر رہی ہے۔

۱۰۷

اس کے علاوہ آپ کے اکابر علماء نے بھی ان حضرات کی صداقت درست گوئی کی تصدیق کی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع) کے متعلق تومیں پہلے ہی عرض کرچکا کہ رسول اکرم(ص) نے آپ کو اس امت کا صدیق اور راست گو فرمایا ہے اور خدا نے بھی قرآن مجید میں آپ کو صادق بتایا ہے۔ لیکن صدیقہ کبری جناب فاطمہ زہر صلوات اللہ علیہا کے بارے میں بھی ایسی روایتیں کثرت سے ہیں۔ من جملہ ان کے حافظ ابونعیم اصفہانی حلیتہ الالیاء، جلد دوم ص۴۲ میں عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

"ما رائيت احدا قط اصدق من فاطمة غير ابيها"

یعنی میں نے ہرگز کسی کو فاطمہ(ع) سے زیادہ سچا نہیں دیکھا سوا ان کے باپ کے۔

آیہتطہیر کی شانِ نزول میں اشکال

حافظ : ان پانچ بزرگوارون کی شان میں آیہ تطہیر نازل ہونے کے بارے میں آپ کا دعوی مسلم نہیں ہے۔ چونکہ ان جلسوں میں ہم لوگوں پر واضح ہوچکا ہے کہ آپ ہماری کتابوں سے پوری واقفیت رکھتے ہیں لہذا تصدیق فرمائیے کہ اس موضوع میں آپ کو دھوکا ہوا۔ اس لیے کہ قاضی بیضاوی اور زمخشری جیسے مفسرین کا عقیدہ ہے کہ یہ آیہ شریفہ ازواج رسول(ص) میں نازل ہوئی ہے اور اگر کوئی قول ان پانچوں حضرات کے حق میں نازل ہونے کے لیے ہو بھی تو وہقطعا ضعیف ہوگا سبب یہ ہے کہ آیت خود ہی اس مفہوم کے خلاف دلالت کررہی ہے کیونکہ آیہ تطہیر کا سیاق و سباق ازواج سے مربوط ہے اور درمیان حصے کو الگ کر کے دوسرون سے ملحق نہیں کیا جاسکتا۔

جواب اشکال اور اس کا ثبوت کہ آیت ازواج کے حق میں نہیں ہے

خیر طلب: جناب عالی کا یہ ادعا کئی پہلوئوں سے باطل ہے۔ اول یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ سیاق و سباق آیت ازواج سے مربوط ہے لہذا علی(ع) و فاطمہ علیہما السلام شمول آیہ شریفہ سے خارج ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ عرف عام اکثر ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ اثنائے کلام میں روئے سخن کسی دوسرے کی طرف کر کے خطاب کرتے ہیں اس کے بعد پھر پہلی گفتگو پر آجاتے ہیں عرب کے فصحاء و بلغاء اور ادیبوں کے اشعار میں تو اس کی کافی مثالیں ملتی ہی ہیں۔ خود قرآن کریم میں بھی ایسی نظیر یں بہت ہیں۔ خصوصا اسی سورہ احزاب میں غور فرمائیے کہ ازواج سے خطاب کرتےہوئے روئے سخن مومنین کی طرف موڑ دیا گیا اس کے بعد پھر ان کو مخاطب کیا گیا ہے ، لیکن وقت کے اندر اتنی گنجائش نہیں کہ مزید وضاحت کے لیے مفصل شواہد پیش کئے جائیں۔

دوسرے اگر یہ آیت ازواج رسول کے بارے میں ہوتی تو ان کے لیے ضمیر تانیت استعمال ہوتی۔ اور ارشاد ہوتا ہے " لیذہب

۱۰۸

عنکن الرجس و یطہرکن تطہیرا" لیکن چونکہ ضمیر مذکور ہے لہذا معلوم ہوا کہ ازواج کے لیے نہیں بلکہ عترت و اہل بیت پیغمبر(ص) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

نواب : جب بقول آپ کے فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی اس جماعت میں داخل ہیں تو ان کا لحاظ کیوں نہیں کیا گیا اور تانیث کے ساتھ ان کا ذکر کیوں نہیں ہوا؟

خیر طلب : ( علماء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آپ حضرات جانتے ہیں اس آیہ شریفہ میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کے باوجود صیغہ تذکیر باعتبار تغلب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس جماعت میں مذکور ومونث دونوں صنفوں کے افراد شامل ہوں وہاں مذکر کو مونث پر غالب قرار دیتے ہیں، اور اس آیت میں صیغہ تذکیر خود دلیل قاطعی ہے کہ یہ قول ضعیف نہیں ہے بلکہ مکمل قوت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ غلبہ تعداد کے لحاظ سے بھی ضمیر مذکر ہونا چاہئیےکیونکہ پنچ تن میں ایک عورت اور چار مرد ہیں۔

اگر یہ آیت ازواج رسول(ص) کے حق میں نازل ہوتی تو جمع مونث میں مذکر کا لفظ بالکل ہی غلط ہوتال۔ علاوہ اس کے خود آپ کی معتبر کتابوں میں روایات صحیحہ کا یہی فیصلہ ہے کہ یہ آیہ مبارکہ آں حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت کے بارے میں ازواج کے واسطے نہیں۔

چنانچہ ابن حجر مکی اپنے انتہائی تعصب کے باوجود صواعق محرقہ میں لکھتے ہیں کہ زیادہ تر مفسرین کا عقیدہ یہی ہے کہ یہ آیت علی(ع) وفاطمہ(ع) اور حسن و حسین ( علیہم السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہےلتذکر منمير عنکم ويطهرکم اس لحاظ سے کہعنکم اوريطهرکم میں جمع مذکر کی ضمیریں ہیں۔

ازواج رسول اہل بیت(ع) میں داخل نہیں

ان روشن دلیلوں سے قطع نظر ازواج رسول(ص) تو اہل بیت میں داخل بھی نہیں ہیں۔

چنانچہ صحیح مسلم اور جامع الاصول میں روایت ہے کہ حصین بن سمرہ نے زید ابن ارقم سے پوچھا کہ آیا رسول اللہ(ص) کی بیویاں اہل بیت میں سے ہیں؟ زید نے کہا کہ خدا کی قسم نہیں، اس لیے کہ عورت ایک مدت تک اپنے شوہر کے گھر رہتی ہے لیکن جب وہ طلاق دے دیتا ہے تو یہ اپنے باپ کے گھر جا کر اپنے میکے والوں سے ملحق ہوجاتی ہے اور شوہر سے بالکل الگ ہوجاتی ہے۔

اہلبیت (ع) تو در اصل آں حضرت(ص) کے وہگھر والے ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور چاہے جہاں چلے جائیں اہل بیت(ع) سے جدا نہیں ہوتے ۔

تیسرے عترت و اہل بیت طہارت کی روایتوں پر مذہب شیعہ امامیہ کا جو اجماع ہے اس سے ہٹ کے خود آپ کے طریقوں سے بکثرت روایتیں اس نظریے کے خلاف وارد ہیں۔

۱۰۹

اخبار عامہ اس بارے میں کہ آیت تطہیر پنجتن کی شان میں آئی ہے

چنانچہ امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد ششم ص۷۸۳ میں، جلال الدین سیوطی در المنثور جلد پنجم ص۱۹۹ اور خصائص الکبری جلد دوم ص۲۶۴ میں نیشاپوری اپنی تفسیر جلد سوم میں، امام عبدالرزاق الرسعنی تفسیر رموز الکنوز میں، ابن حجر عسقلانی اصابہ جلد چہارم ص۲۰۷ میں، ابن عساکر اپنی تاریخ جلد چہارم ص۲۰۴ و ص۲۰۶ میں، امام احمد بن حنبل مسند جلد اول ص۳۲ میں، محب الدین البری ریاض النفرہ جلد دوم ص۱۸۸ میں، مسلم بن حجاج اپنی صحیح جلد دوم ص۱۳۳۱ اور جلد ہفتم ص۱۴۰ میں، پنہائی شرف المئوید مطبوعہ بیروت ص۱۰ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب ۱۰ میں چھ مسند اخبارکے ساتھ اور شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب۳۳ میں صحیح مسلم اور شواہد حاکم سے بسند ام المومنین عائشہ اور دس (۱۰) روایتیں ترمذی، حاکم علاء الدولہ سمہانی، بیہقی، طبرانی، محمد بن جریر، احمد بن حنبل، ابن ابی شیبہ، ابن منذر، ابن ؟؟؟؟ ، حافظ زرندی اور حافظ ابن مردویہ سے ام المومنین ام سلمہ، عمر بن ابی سلمہ ( ربیب رسول(ص))انس بن مالک، سعد بن ابی وقاص، واثلہ بن اسقع اور ابو سعید خدری کی سندوں کےساتھنقل کرتے ہیں کہ آیت تطہیر پنجتن پاک و آل عبا کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ ابن حجر مکی جیسے سخت و متعصب عالم نے بھی صواعق محرقہ ص۸۵، ص۸۶ سات طریقوں سے ان کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے اس اہم حقیقت کو نقل کیا ہے کہ یہ آیت محمد(ص)، علی(ع)، فاطمہ(ع)، حسن(ع) اور حسین(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے اور صرف یہی پانچ مقدس ہستیاں اس آیہ شریفہ کی طہارت سے مخصوص کی گئی ہیں۔

سید ابوبکر بن شہاب الدین علوی نے کتاب رشفتہ الصادی من بحر فضائل بنی النبی الہادی مطبوعہ اعلامیہ مصرسنہ۱۳۰۳ھ کے باب ص؟؟؟ ص۱۴تا ص۱۹ میں ترمذی ، ابن جریر، ابن منذر، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی ابن ابی حاتم، طبرانی، احمد بن حنبل، ابن کثیر، مسلم بن حجاج، ابن ابی شیبہ اور سہودی سے آپ کے اکابر علماء کی گہری تحقیقات کے ساتھروایت کی ہے کہ یہ آیہ شریفہ مقدس آل عبا اور پنجتن پاک کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ استدلال کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ تمام اولاد اہل بیت رسول(ص) جن پر صدقہ حرام ہے۔ قیام قیامت تک اس آیہ شریفہ کے مصداق رہیں گے۔

جمع بین الصحاح الستہ موطا امام مالک بن انس الاصبحی و صحاح بخاری ومسلم و سنن ابی دائود رسجستانی و ترمذی، اور جامع الاصول میں، یہاں تک کہ بالعموم آپ کے علماء و فقہاء اور مورخین و محدثین اقرار کرتے ہیں کہ یہ آیت انہیں پنج تن آل عبا(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور یہ آپ کے یہاں تقریبا تواتر کی حد میں ہے۔ اگر بعض اشخاص نے حق کشی اور بعض وعناد کے جذبے میں اس روایت کو ضعیف کہہ دیا ہے تو اس سے اتنی کثیر التعداد اور معتبر روایات پر جو آپ ہی کے اکابر علماء کی معتبر کتب میں درج ہیں کوئی اثر نہیں پڑسکتا ۔

نیست خفاشک عدرے آفتاب او عدوے خویش آمد ور حجاب

۱۱۰

حریرہ فاطمہ(ع) کے بارے میں ام سلمہ (رض) اور نزول آیہ تطہیر

مختصر یہ کہ بعض نے حریرہ والی روایت کےساتھ ذرا تفصیل سے اور بعض نے اختیار کےساتھ نقل کیا ہے۔ من جملہ ان کے انام ثطبی نے اپنی تفسیر میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، اور ابن اثیر نے جامع الاصول میں ترمذی و مسلم سے الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ زوجہ رسول ام المومنین ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ(ص) میرے یہاں صفے میں بیٹھے ہوئے تھے جو آں حضرت(ص) کی خوابگاہ تھی اور پائے مبارک کے نیچے خیبری عبا بچھی ہوئی تھی، میں حجرے میں نماز پڑھ رہی تھی کہ اتنے میں فاطمہ سلام اللہ علیہا آں حضرت(ص)کے لیے ایک ظرف میں حریر لائیں، پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ جائو اپنے شوہر اور اپنے فرزندوں کو بلا لائو! ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ علی اور حسنین علیہم السلام آئے اور حریرہ کھانے میں مشغول ہوئے، اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور آں حضرت(ص) کے سامنے یہ آیت پڑھی۔

"إِنَّمايُرِيدُاللَّهُلِيُذْهِبَعَنْكُمُالرِّجْسَأَهْلَالْبَيْتِوَيُطَهِّرَكُمْتَطْهِيراً"

یعنی سوئے اس کے نہیں ہے کہ خدا یہ ارادہ رکھتا ہے کہ اہل بیت رسول(ص) تم سے ہر گندگی کو دور رکھے اور تم کو اس طرح پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

( آیت نمبر۳۳ سورہ نمبر۳۳ ( احزاب)

ام سلمہ کہتی ہیں میں نے عبا کے اندر اپنا سر بڑھا کر عرض کیا:

"أَنَامَعَكُمْ‏ يَارَسُولَ‏اللَّهِقَالَ: إِنَّكِإِلَىخَيْرٍ،إِنَّكِإِلَىخَيْرٍ."

یا رسول اللہ(ص) میں بھی آپ حضرات کے ساتھ ہوں تو آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ تم نیکی پر ہو( مطلب یہ ہے کہ تم کو میرے اہل بیت(ع) کا درجہ حاصل نہیں ہے اور تم ان میں شامل نہیں ہو البتہ تمہارا انجام بخیر ہے)

پس یہ آیہ مبارکہ اس بات پر پوری دلالت کرتی ہے کہ یہ پانچوں بزرگوار کفر و شقاق، شرک و نفاق، شک و شبہہکذب و ریا اور ہر گناہ صغیرہ و کبیرہ سے معصوم اور پاک ہیں۔

چنانچہ امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں "لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ " یعنی تم سے تمام گناہوں کو زائل کردیا۔ "وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً " یعنی تم کو اپنی کرامت کی خلعتیں پہنائیں۔

واقعی ان بے انصاف علماء پر سخت تعجب ہوتا ہے جو اپنی معتبر کتابوں میں یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ علی(ع) و فاطمہ علیہا السلام آیہ تطہیر میں شامل اور ہر رجس و پلیدی سے معرا و مبرا تھے اور سب سے بڑا رجس جھوٹ بولنا ہے، اور پھر حضرت کے دعوی الامت کی تکذیب بھی کرتے ہیں، جناب فاطمہ(ع) کے حق میں آپ کی شہادت کو غلط قرار دیتے ہیں اور فدک کے بارے میں طاہرہ اور معصومہ بی بی کے بیان کو جھٹلاتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ مدعیان انصاف اس مقام پر کس قاعدے سے فیصلہ کرتے ہیں؟

اب میں اصل مقصد کی طرف آتا ہوں، ذرا اںصاف سے فیصلہ کیجئے کہ آیا یہ مناسب تھا کہ علی(ع) و فاطمہ(ع) کے بیانات کو تو مسترد

۱۱۱

کردیں جن کے لیے خدا گواہی دے رہا ہے کہ تمام ظاہری وباطنی رجس وگندگی سے پاک و منزہ یعنی جملہ صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں، اور اس جلیل القدر خاندان کا مقررہ حقسرے سے غائب ہی کردیں، لیکن جابر کا دعوی بے چون وچرا تسلیم کر لیں جو صرف ایک مرد مسلمان اور معمولی مومن تھے؟

حافظ : یہ ہرگز با ور نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفہ رسول(ص) اور مومن صحابی جن کو پیغمبر(ص) سے انتہائی قربت حاصل ہو جان بوجھ کر فدک کو غصب کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ انسان جو کام کرتا ہے قطعا اس کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہے، جس خلیفہ کے تصرف میں مسلمانوں کا سارا بیت المال تھا اس کو فدک کے ایک باغ یا گائوں کی کیا ضرورت تھی جو اس کو غصب کرتا ؟

خیر طلب : کھلی ہوئی بات ہے کہ کسی احتیاج کا سوال نہیں تھا بلکہ اس وقت کے سیاسی طبقے کی نظر میں خاندان رسول اور آں حضرت کی عترت طاہرہ کو تباہ کرنا ضروری تھا۔ مقصد یہ تھا کہ یہ حضرات چونکہ منصب خلافت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں لہذا ان کو اس قدر پریشانی اور فقر و تہی دستی میں مبتلا کر دیا جائے کہ خلافت کا خیال ہی دل میں نہ لائیں اس لیے کہ دنیا طلب لوگ اسی کی طرف جاتے ہیں جس سے ان کی دنیا سنورتی ہو۔

یہ لوگ سمجھتے تھے کہ جو خاندان جلیل علم و فضل اور ادب و تقوی کے زیور سے مکمل طور پر آراستہ ہے اگر اس کا ہاتھمال دنیا سے بھی پر ہوگا تو یقینا لوگ اس کی طرف رجوع کریں گے۔ لہذا بر بنائے سیاست تنہا فدک ہی غصب نہیں کیا بلکہ ان حضرات پر تمام وہ راستے مسدود کر دیے جن کے ذریعے کوئی مالی منفعت پہنچ سکتی تھی۔

عترتِ رسول(ص) پر خمس کی بندش

من جملہ ان کے ایک مستقل حق خمس کا تھا جس کی قرآن مجید میں بھی تاکید کی گئی تھی۔ چونکہ خدا نے صدقات کو رسول(ص) اور آل علیہم الصلوۃ و السلام پر حرام قرار دیا تھا لہذا باجماع جمہور امت ان کے لیے خمس کا دروازہ کھول دیا۔

چنانچہ آیت نمبر۴۲ سورہ نمبر۸ (ا نفال) میں صریحا فرمایا:

"وَاعْلَمُواأَنَّماغَنِمْتُمْ‏مِنْشَيْ‏ءٍفَأَنَّلِلَّهِخُمُسَهُوَلِلرَّسُولِوَلِذِيالْقُرْبى‏ وَالْيَتامى‏ وَالْمَساكِينِ‏"

یعنی جان لو کہ تم کو جو کچھ غنیمت اور فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ و رسول(ص) ، آنحضرت(ص) کے اقرباء یتیموں مسکینوں اور مجبور مسافروں کے لیے مخصوص ہے( تاکہ پیغمبر(ص) کی عترت قیامت تک خوش حالی اور آسائش میں رہے، اور اپنی رعایا کی محتاج نہ ہو۔

لیکن آں حضرت(ص) کی آنکھ بند ہوتے ہی اس رخ سے بھی عترت و اہل بیت(ع) رسول(ص) کو فشار کیا گیا۔ خلیفہ ابوبکر نے اپنے جتھے

۱۱۲

والوں کے اتفاق رائے سے یہ واجبی حق ان حضرات سے سلب کر لیا اور کہا کہ خمس جنگی ساز وسامان ، خریداری اسلحہ اور دیگر ضروریات حرب میں صرف ہونا چاہئیے غرضیکہ ان کو ہر صورت سے بے دست و پا کر دیا گیا ، کیونکہ صدقات تو ان پر حرام تھے ہی خمس کا کھلا ہوا حق بھی روک دیا گیا۔

چنانچہ امام شافعی محمد بن ادریس کتاب الام کے اس بات میں ص۶۹ پر کہتے ہیں۔

"و اما آل محمد الذين جعل لهم الخمس عوضا من الصدقة فلا يعطون من الصدقات المفروضات شيئا قل او کثر لا يحل لهم ان ياخذوها ولا يجزی عمن يعطيهم ؟؟؟ اذا عرفهم "یہاں تک کہ کہتے ہیں"وليس منهم حقهم فی الخمس يحل لهم ماحرم عليهم من الصدقة "

یعنی آلمحمد(ص)کو جن کے لیے خدا نے صدقے کے عوض خمس متعین کیا ہے صدقات واجبہ میں سے کم یا زیادہ کچھ بھی نہیں دیا جاسکتا اور ان کے لیے اس کا لینا جائز نہیں ہے اور جو لوگ جان بوجھ کر ان کو دیں وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوں گے اور ان کے اوپر ان کا حق خمس بند کردینے سے صدقہ جو ان پر حرام ہوچکا ہے حلال نہیں ہوگا۔

عمر ابن خطاب کے دور خلافت میں بھی اس بہانے سے کہ خمس زیادہ ہوچکا ہے لہذا یہ سب ذوی القربی کو نہیں دیا جاسکتا بلکہ سامان جنگ کی تیاری میں صرف ہونا چاہئیے ان کو اپنے اس مسلم اور خدا داد حق سے محروم کیا گیا اور آج تک محروم کئے جاتے ہیں۔

حافظ : امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ خمس پانچ حصوں پر تقسیم ہونا چاہئیے سہم پیغمبر(ص) جو مسلمانوں کے مصارف اور ضروریات میں خرچ ہو، دوسرا حصہ ذوی القربی کے لیے ہو اوربقیہ تین حصے یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے صرف میں آئیں۔

خیر طلب : جمہور مفسرین کا اتفاق ہے کہ زمانہ رسول(ص) میں یہ آیت آں حضرت(ص) کی اولاد و اقارب کی اعانت کے لیے نازل ہوئی تھی اور خمس انہیں حضرات کے صرف میں دیا جاتا تھا پس فقہائے امامیہ کے نزدیک عترت اور ائمہ اطہار کی پیروی میں نیز صراحت آیہ شریفہ کے مطابق خمس چھ حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ سہم خدا، سہم رسول اور سہم ذوی القربی امام کو پہنچتا ہے اور غیبت امام میں نائب امام یعنی مجتہد فقیہ و عادل کو دیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے مناسب ضروریات میں جہاں مصلحت ہوتی ہے صرف کرتا ہے اور بقیہ تین حصے بنی ہاشم اور اولاد رسول(ص) میں سے یتیموں ، محتاجوں اور مسافروں کے لیے مخصوص ہو، لیکن وفات پیغمبر(ص) کے بعد اس حق کو سادات سے سلب کر لیا گیا، چنانچہ آپ کے اکابر علماءجیسے جلال الدین سیوطی درالمنثور جلد سوم میں طبری ، امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، جار اللہ زمخشری کشاف میں، قوشجی شرح تجرید میں، نسائی کتاب الفے میں اور دوسرے حضرات بالاتفاق اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ بدعت رسول خدا(ص) کے بعد چالاک سیاسی لوگوں نے اپنے مقاصد پر قابو پانے کے لیے قائم کی۔

حافظ : آیا آپ کے نزدیک مجتہد کو رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے؟ خلیفہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے قطعا مسلمانوں کی امداد کے لیے اجتہاد کر کے یہ فیصلہ کیا۔

۱۱۳

خیر طلب : ہاں مجتہد کو اپنی رائے قائم کرنے کا حق حاصل ہے لیکن نص کے مقابلے میں نہیں۔ کیا آپ خلیفہ ابوبکر و عمر کی رائے اور فیصلے کو آیت اور عمل رسول(ص) کے مقابلے لاتے ہیں؟ آیا انصافا یہ جائز ہے کہ خدا و رسول(ص) تو کوئی حکم نافذ کریں لیکن خلیفہ پیغمبر(ص) امت کی مصلحت کو ان سے بہتر سمجھتا ہو اور نص کے مقابلے میں اپنے اجتہاد سے کام لے ؟ خدا کے لیے حق و اںصاف سے کہئیے کہ ان کاموں کا کوئی خاص مقصد تھا یا نہیں؟ اگر کوئی عقل مند انسان غیر جانبدار انسان گہری توجہ کے ساتھ نتیجہ نکالے گا تو اس کو اس ترکیب عمل سے قطعی طور سخت سوء ظن پیدا ہوگا اور وہ سمجھ لے گا کہ یہ معاملات معمولی نہیں تھے بلکہ خاندان رسول(ص) کو بے بس بنانا تھا۔

خدا نے علی(ع) کو پیغمبر(ص) کا شاہد قرار دیا ہے

ان چیزوں کے علاوہ خدا نے علی علیہ السلام کو پیغمبر(ص) کا شاہد و گواہ قرار دیا ہےاور آیت نمبر۲۰ سورہ نمبر۱۱ ( ہود) میں صاف طور سے فرماتا ہے :

"أفمن‏ كان‏ على‏بيّنةمنربّهويتلوهشاهدمنه"

یعنی آیا وہ پیغمبر(ص) جو اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل (قرآن ) رکھتا ہے اور اس کے ہمراہ اس کا سچا گواہ ہے۔ (یعنی علیعلیہ السلام جو ہمہ تن صداقت رسالت کے گواہ ہیں۔)

حافظ: جہاں تک مجھ کو علم ہے صاحب بینہ سے مراد رسول خدا(ص) ہیں اور ان کا شاہد قرآن کریم ہے آپ نے کس دلیل و برہان سے شاہد کو علی کرم اللہ وجہہ سے تعبیر کیا ہے۔

خیر طلب : مجھ میں اتنی طاقت و جرات نہیں کہ آیات قرآنی میں تصرف یا تفسیر بالائے کرسکوں۔ ہم کو عترت و اہل بیت(ع) رسول(ص) سے جو عدیل قرآن ہیں یہی تعلیم پہنچی ہے ک شاہد سے مراد علی علیہ السلام ہیں، اور علماء و مفسرین نے اسی طرح نقل کیا ہے۔ چنانچہ تقریبا تیس حدیثیں آپ کے اکابر علماء میں سے امام ابو اسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں تین حدیثین جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں ابن مردویہ ، ابن ابی حاتم اور ابونعیم سے ، ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد السمطین میں تین سندوں کے ساتھ، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۲۲ میں ثعلبی ، حموینی ، خوارزمی ، ابونعیم، واقدی اور ابن مغازلی سے ابن عباس اور جابر ابن عبداللہ اںصاری وغیرہ کی سندوں کے ساتھ ، حافظ ابونعیم اصفہانی نے تین طریقوں سے ، طبری نے ابن مغازلی فقیہ شافعی نے، ابن ابی الحدید معتزلی نے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۶۲ میں نقل کی ہیں۔ اور آپ کے دوسرے بہت سے علماء یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور الفاظ و عبارت کے مختصر سے فرق کے ساتھ لکھتے ہیں کہ اس آیت میں شاہد سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

خطیب خوارزمی مناقب میں کہتے ہیں کہ لوگوں نے ابن عباس سے پوچھا شاہد سے کون مراد ہے؟ انہوں نے کہا : "هو علی يشهد للنبی وهو منه " وہ علی(ع) ہیں جنہوں نے پیغمبر(ص) کی گواہی دی اور وہ پیغمبر(ص) سے ہیں پس ان دلائل و اخبار معتبرہ کی بنا پر جن کی خود آپ کے اکابر علماءتصدیق کرتے ہیں امت پر حضرت کی شہادت قبول کرنا واجب تھا۔ کیونکہ خدا نے آپ کو پیغمبر(ص) پر گواہ قرار دیا ہے۔

۱۱۴

اس طرح سے رسول اکرم(ص) ن خزیمہ بن ثابت کی خصوصیت کا اقرار فرمایا تھا کہ ان کی شہادت دو مسلمانوں کے برابر قرار دی ، اور ذوالشہادتین کا لقب عطا فرمایا، اسی طرح خدائے تعالی نے بھی اس آیت میں مسلمانوں کے درمیان حضرت علی(ع) کی فضیلت کا اظہار فرمایا کہ آپ کو پیغمبر(ص) پر شاہد اورگواہ قرار دیا قطع نظر اس سے کہ بحکم آیہ تطہیر آپ معصوم اور ہر خطا سے مبرا تھے اور اپنی نفع اندوزی کے لیے ہرگز جھوٹی گواہی نہیں دے سکتے تھے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں نے کیونکہ نے اتنی جرات کی اور شرع کے کس اصول سے آپ کی شہادت رد کی بلکہ توہین بھی کی اور گواہی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ علی شہادت قابل قبول نہیں ہے " لانہ یجر النفع الی نفسہ" یعنی چونکہ علی(ع) اس قضیے میں خود کسب منفعت کررہے ہیں لہذا ان کی گواہی مردویہ ہے، علاوہ ان اہانتوں اور بہت سے اشارات و کنایات کے جو مجمع کے اندر آپ کے منہ پر اور پیٹھ پیچھے زبان پرلائے ، اور جن میں سے بعض کی طرف میں بھی اشارہ کرچکا ہوں۔ اب اس سے زیادہ میںاس مطلب کے خزئیات میں نہیں پڑنا چاہتا، البتہ اتنا عرض کروں کہ آیا آپ سننے کے لیے رضامند ہیں کہ مولائے متقیان امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسی بزرگ شخصیت کو جس نے دینا کو تین طلاقین دی ہوں ، جو تمام انسانوں سے زیادہ دولت دنیا کی طرف سے بے پروا ہو اور جس کی رفتار و کردار کو دوست و دشمن بھی مانتے ہوں، دنیا طلب بلکہ اس سے بھیزیادہ سخت الفاظ کہے جائیں جن کو ادا کرنے کی میری زبان میں طاقت نہیں اور جو خود آپ کی کتابوں میں درج ہیں؟

خلاصہ یہ کہ جملہ یجر النفع الی نفسہ استعمال کر کے لوگوں کو یہ فریب دیں کہ علی(ع) چونکہ اس معاملے صاحب نفع ہیں لہذا ممکن ہے کہ اپنے اہل وعیال کے فائدے کے لیے(معاذ اللہ) جھوٹی شہادت دے دیں، اس وجہ سے ان کی گواہی قابل قبول نہیں ہے خدائے تعالی تو آپ کو معتبر قرار دے لیکن چند ترکیبی لوگ اس کو رد کردیں؟

علی علیہ السلام کا دردِ دل

آیا علی(ع) کے بارے میں نزول آیات قرآنی ، منصب ولایت کی توثیق اور رسول اللہ(ص) کی وصیت و سفارش کا یہی نتیجہ تھا کہ آپ کو اس قدر آزاد و آذیت پہنچائیں کہ آپ خطبہ شقشقیہ میں اپنے درد دل کا اس طرح اظہار فرمائیں "صبرت وفی العین قذی و فی الحق شجی "( یعنی میں صبر کیا اس حال میں کہ ؟؟؟؟ میری آنکھ میں خس و خاشاک اور حلق میں ہڈی پھنسی ہوئی ہو۔) حضرت کے یہ جملے شدیدغم وغصہ اندوہ والم اور تلخی صبر کی ترجمانی کررہے ہیں۔

آپ یہ بے خودی میں نہیں فرماتے تھے کہ:

"وَاللَّهِلَابْنُأَبِيطَالِبٍآنَسُبِالْمَوْتِمِنَالطِّفْلِبِثَدْيِ‏ أُمِّهِ‏"

یعنی قسم خدا کی ایک شیر خوار بچے کو جس قدر اپنی اپنی ماں کے پستان سے انس ہوتا ہے اس سے زیادہ فرزند ابوطالب کو موت کا شوق ہے۔

آپ کا قلب اس قدر مجروح اور زندگانی دنیا سے سیر تھا کہ جس وقت اولین و آخرین کے شقی ترین آدمی عبدالرحمان ابن ملجم مرادی

۱۱۵

نے زہر میں بجھائی ہوئی تلوار فرق مبارک پر لگا تو محراب عبادت کے اندر آپ فرماتے تھے فزت و رب الکعبۃ یعنی رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا۔

حضرات تاریخ کی شہادت اور آپ کے بزرگ مورخین کے قول کے مطابق ہوا جو نہ ہونا چاہئیے تھا، کیا گیا جو نہ کرنا چاہئیے تھا اور کہا گیا جو نہ کہنا چاہئیے تھا۔ لیکن اب آج کے روز مناسب نہیں ہے کہ آپ جیسے دانشمند علماء خدا و رسول(ص) کے عزیز و محبوب کو مزید اذیت پہنچائیں اور بے خبر لوگوں میں غلط فہمی پھیلائیں در آنحالیکہ خوب واقف ہیں کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ایذا دنیا در حقیقت رسول خدا(ص) کو ایذا دینا ہے۔

علی(ع) کو اذیت دینے والوں کی مذمت میں احادیث

جیسا کہ آپ کے اکابر علماء مثلا امام احمد بن حبنل نے اپنی مسند میں کسی و طریقوں سے امام ثعلبی نے تفسیر میں اور شیخ الاسلام حموینی نے فرائد میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) فرمایا:

"من‏ آذى‏ عليافقدآذاني! ياأيهاالناسمن‏ آذى‏ عليابعثيومالقيامةيهوديّاًأونصرانياً."

یعنی جس نے علی(ع) کو ایذا دی اس نے یقینا مجھ کو ایذا دی۔ ایہا الناس! جو شخص علی کو اذیت دے وہ قیامت کے دن یہودی یا نصرانی اٹھے گا۔

ابن حجر مکی باب۹ فصل دوم ص۷۶ حدیث نمبر۱۶ میں سعد ابن ابی وقاص سے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۶۸ میں سند کے ساتھ رسول اللہ(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا:

"من‏ آذى‏ عليافقدآذاني"

یعنی جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے در حقیقت محمد(ص) کو اذیت دی۔

مجھ کو اس وقت ایک اور حدیث یاد آگئی، اجازت ہو تو عرض کروں اس لیے کہ حدیث رسول(ص) کا بیان کرنا اور سننا عبادت ہے۔ اس حدیث کا بخاری نے اپنی صحیح میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے کتاب ما نزل من القرآن فی علی میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں اور حاکم ابوالقاسم حسکانی نے حاکم ابو عبداللہ حافظ سے انہوں نے احمد بن محمد بن ابی دائود حافظ سے انہوں نے علی بن احمد عجلی سے انہوں نے ؟؟؟؟ یعقوبسے انہوں نے ارطاۃ بن حبیب سے انہوں نے ابوخالد واسطی سے انہوں نے زید بن علی علیہ السلام سے ، انہوں نے اپنے باپ علی ابن الحسین علیہما السلام سے آپ نے اپنے باپ حسین بن علی علیہما السلام سے اور آپ نے اپنے پدر بزرگوار علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک راوینے اپنی داڑھی کا بال پکڑ کے کہا کہ رسول اللہ(ص) نے اس

۱۱۶

طرح سے اپنا موئے مبارک ہاتھ میں لے کر فرمایا:

"ياعلي‏ من‏ آذى‏شعرةمنكفقدآذانيومنآذانيفقدآذىاللهومنآذىاللهفعليه لعنة الله"

یعنی اے علی(ع) جو شخص تمہارے ایک بال کو بھی تکلیف پہنچائے اس نے در حقیقت مجھ کو تکلیف پہنچائی۔ اور جو شخص مجھ کو تکلیف پہنچائے اس نے حقیقتا خدا کو تکلیف پہنچائی اور جو خدا کو تکلیف پہنچائے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔

سید ابوبکر بن شہاب الدین علوی نے کتاب رشفتہ الصاری من بحر فضائل بنی النبی الہادی مطبوعہ مطبع اعلامیہ مصر سنہ۱۳۰۳ باب۴ ص۶۰ میں کبیر طبرانی، صحیح ابن حبان اور حاکم سے صحت حدیث کی تصدیق کے ساتھ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ :

"مَنْ‏ آذَانِي‏ فِي‏ عِتْرَتِي‏فَعَلَيْهِلَعْنَةُاللَّهِ."

یعنی جو شخص مجھ کو میری عترت کے بارے میں اذیت پہنچائے پس اس پر خدا کی لعنت ہو۔

امید ہے کہ میرے سچے معروضات بے اثر نہ ثابت ہوں گےے اور آپ حضرات اب اس سے زیادہ آں حضرت(ص) کی مقدس روح کو آزردہ کرنے پر رضا مند نہ ہوں گے ، کیوںکہ محکمہ عدل الہی میں جواب دہی بہت مشکل ہے۔

( جیسے ک اس ساری مدت میں میں خود بھی رو رو کر بیان کرتا رہا اور اکثر حاضرین کی آںکھوں میں بھی آنسو بھرے رہے بلکہ بعض کے رخساروں پر جاری ہوگئے تھے، یہاں تک کہ جناب حافظ صاحب بھی کبھی کبھی اشکبار ہوجاتے تھے۔)

حضرات! ذرا غائر نظر ڈالئے اور اپنے معرض عمل میں قرار دیجئے تو معلوم ہو کہ جماعت امت کے درمیان ( وہی امت جو دو مہینے قبل حضرت علی علیہ السلام کے پائیں پا بیٹھی ہوتی تھی اور آپ کو پیغمبر(ص) اپنے ہاتھوں پر بلند کئے ہوئے، سب نے آپ کی بیعت کی تھی اور خدا و رسول (ص) کے حکم سے آپ کے سامنےسر تسلیم خم کیا تھا) جس وقت امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت رد کی گئی اور قطعی حکم دے دیا گیا کہ صدیقہ مظلومہ جناب فاطمہ (ع) کی زیر تصرف جائداد اور آپ کے بچوں کی پرورش کا ذریعہ ضبط کر لیا جائے تو اتنی سخت اہانتوں سے پیغمبر(ص) کی ان دوںوں امانتوں پر کیا گزری ہوگی؟ یہاں تک کہ دشمن مسجد رسول سے خوش ہو کر اٹھے۔

یہ غیظ و غضب جناب معصومہ پر ایسا موثر اور مستول ہوا کہ عین عالم شباب میں انتہائی غصے اور درد و الم کے ساتھ دنیا سے اٹھ گئیں۔

حافظ : بدہی چیز ہے کہ بی بی فاطمہ(ع) شروع شروع میں ضرور دل تنگ اور غضب ناک ہوئیں لیکن آخر کار جب دیکھا کہ خلیفہ نے حکم صحیح دیا ہے تو ناراضگی جاتی رہی اور ان لوگوں سے خوش ہوگئیں۔ یہاں تک کہ انتہائی رضا و خوشنودی کے ساتھ دنیا سے گئیں۔

۱۱۷

فاطمہ (ع) مرتے دم تک ابوبکر و عمر سے خوش نہیں تھیں

خیر طلب: اگر یہی بات ہے تو آپ کے بڑے بڑے علماء اس کے برعکس کیوں لکھتے ہیں؟ مثلا دو موثق عالم بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحین میں لکھا ہے۔

"فوجدت(۱) ای فغضبت‏ فاطمةعلى أبى بكرفهجرته فلم تكلمه حتّى توفيت فلماتوفيت دفنهازوجهاعليّ بن أبي طالب ليلاولم يؤذنبهاأبابكريصلى عليها"

یعنی فاطمہ(ع) نے غیظ و غضب کے عالم میں ابوبکر کو ترک کر دیا اور ناراضگی کی وجہ سے مرتے دم تک ان سے بات نہیں کی یہاں تک کہ جب وفات پائی تو ان کے شوہر علی(ع) نے رات کے وقت دفن کیا اور ابوبکر کو اس کی اجازت نہیں دی کی جنازے میں شریک ہوں اور ان پر نماز پڑھیں۔

چنانچہ بخاری نے اپنی صحیح جلد پنجم باب غزوۃ خیبر ص۹ نیز جلد ہفتم باب قول النبی ، لا نورث ما ترکناہ صدقہ ، ص۸۷ میں نقل کیا ہے کہ :

"فهجرته‏ فاطمةفلم تكلمه حتى ماتت."

یعنی فاطمہ(ع) نے ابوبکر کو چھوڑ دیا اور ان سے کلام نہیں کیا یہاں تک کہ وفات پائی۔(۱۲ مترجم)

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۹۹ میں بھی اسی روایت کو نقل کیا ہے۔ ابومحمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری نے الامامۃ والسیاستہ ص۱۴ میں روایت کی ہے کہفاطمہ سلام اللہ علیہا نے بستر بیماری پر ابوبکر و عمر سے فرمایا:

"انّي اشهداللَّه وملائكته انّكمااسخطانى‏وماارضيتمانى لئن لقيت النّبىّ لأشكون كما"

یعنی میں خدا اور فرشتون کو گواہ کر کے کہتی ہوں کہ تم دونوں ( ابوبکر و عمر) نے مجھ کو غضبناک کیا ہے اور مجھ کو راضی نہیں کیا۔ اگر پیغمبر(ص) سے ملاقات کروں گی تو ضرور بالضرور تم دونوں کی شکایت کروں گی۔

نیز اسی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔

"غضبت‏ فاطمةمن ابی بکر وهجرتهالیماتت"

یعنی فاطمہ(ع) ابوبکر پر خشمناک ہوئیں اور ان کو ترک کردیا یہاں تک کہ اسی حالت میں وفات پائی۔

ان روایتوں کے مقابل آپ کی معتبر کتابوں میں اور بھی بہت سے اخبار و احادیث درج ہیں خیر ذرا آپ حضرات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ وجد لغت میں جیسا کہ فیروز آبادی نے قاموس میں لکھا ہے خشم و غضب کے معنی میں ہے۔ ۱۲

۱۱۸

غیر جانبداری اور عدل و اںصاف کی نظر ڈالیں اور مجھ س ان روایات کے درمیان جمع کرنے کا طریقہ بیان فرمائیں۔

فاطمہ(ع) کی اذیت خدا و رسول(ص) کی اذیت ہے

من جملہ ان کے وہ مشہور حدیث ہے جس کو بالعموم آپ کے علماء جیسے امام احمد بن حنبل مسند میں سلیمان قندوزی ینابیع المودۃ میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی اور بن حجر نے صواعق میں ترمذی اور حاکم وغیرہ سے نقل کرتے ہوئے الفاظ و عبارات کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ درجکیا ہے کہ رسول اللہ(ص) مکرر فرماتے تھے۔

" فاطمة بضعة منی وهی نور عينی و ثمرة فئوادی و روحی التی بين جنبی من آذاها فقد آذانیو من آذانی فقد اذی الله و من اغضبها فقد اغضبنی يوذينی ما اذاها"

یعنی فاطمہ(ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے، یہ میری آنکھوں کا نور، میرا میوہ دل اور میرے دونوں پہلوئون کے درمیان میری روح ہے، جس نے فاطمہ(ع) کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی جس نے فاطمہ(ع) کو غضب ناک کیا اس نے مجھ کو غضب ناک کیا، جس چیز سے فاطمہ(ع) کو تکلیف پہنچتیہے اس سے مجھ کو تکلیف پہنچتی ہے۔

ابن حجر عسقلانی نے اصابہ میں فاطمہ سلام اللہ علیہا ک حالات بیان کرتے ہوئے صحیحین بخاری و مسلم سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

"فاطمة بضعة منیيوذينیمن اذاهاو يريبنی ما ازا بها"

یعنی فاطمہ(ع) میرا پارہ تن ہے جو چیز اس کو اذیت پہنچائے وہ مجھ کو بھی اذیت پہنچاتی ہے اور جو چیز اس کی بزرگی قائم رکھے وہ میری بزرگی بھی قائم رکھتی ہے۔

محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص۶ میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاءجلد دوم ص۴۰ میں اور امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص)نے فرمایا:

"انما فاطمة ابنتی بضعة منی يريبنی ما ارا بها و يوذينی ما آذاها "

یعنیسوائے اس کے نہیں ہے کہ فاطمہ(ع)میری بیٹی میرے بدن کا ٹکڑا ہے، جو اس لیے باعث عزت ہے وہ میرے لیے بھی باعث عزت ہے اور جو اس کے لیے ایذا رساں رہے وہ میرے لیے بھی ایذا رساں ہے۔

ابوالقاسم حسین بن محمد ( راغب اصفہانی) محاضرات الادباء جلد دوم ص۲۰۴ میں نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

۱۱۹

"فاطمة بضعة منیفمن اغضبها فقد اغضبنی"

یعنی فاطمہ(ع) میرے جسم کا حصہ ہے پس جس نے اس کو غصہ دلایا اس نے مجھ کو غصہ دلایا۔

حافظ ابوموسی بن المثنی بصری متوفی س۲۵۲ہجری نے اپنی معجم میں، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد ۴ ص۳۷۵ میں، ابویعلی موصلی نے سنن میں، طبرانی نے معجم میں حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد سیم ص۱۵۴ میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے فضائل الصحابہ میں، حافظ ابن عساکر نے تاریخ شام میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص۱۷۵ میں، محب الدین طبری نے ذخائر ص۳۹ میں، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ ص۱۰۵ میں اور ابوالعرفان الصبان نے اسعاف الراغبین ص۱۷۱ میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے اپنی دختر سلام اللہ علیہا سے فرمایا:

" يا فاطمه ان اللهيغضب لغضبک و يرضی لرضاک"

یعنی اے فاطمہ(ع) یقینا تم ناراض ہو تو اللہ بھی ناراض ہوتا ہے اور تم راضی ہوتو خدا بھی راضی ہوتا ہے۔

اور محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح باب مناقب قرابہ رسول اللہ(ع) ص۷۱ میں مسور بنمخزومہ سے نیز ص۷۵ میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

"فاطمة بضعة منیفمن اغضبها فقد اغضبنی"

یعنی فاطمہ(ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے پس جو شخص فاطمہ(ع) کو غصہ میں لایا در حقیقت وہ مجھ کو غصہ میں لایا۔

اسی قسم کی حدیثیں صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابو دائود، ترمذی، مسند امام احمد بن حنبل، صواعق محرقہ ابن حجر اور ینابیع المودت شیخ سلیمان بلخی حنفی وغیرہ جیسی آپ کی معتبر کتابوں میں بکثرت سے مروی ہیں، پس ان اخبار کو ان روایات کےساتھ کیونکر جمع کیجئے گا کہ جناب فاطمہ(ع) ان لوگوں سے غضبناک اور ناراج دنیا سے نہ اٹھیں؟

شیخ : یہ روایتیں صحیح ہیں لیکن علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ جب انہوں نے ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ عقد کا پیغام دینا چاہا تو رسول خدا(ص) ان پر غضبناک ہوئے فرمایا کہ جو شخص فاطمہ(ع) کو آزار دے اس نے مجھ کو آزار دیا اور جو شخص مجھ کو آزار دے وہ مغضوب خدا ہے اور اس سے مراد علی(ع) تھے۔

دختر ابوجہل کے لیے پیغام دینے کا جواب

خیر طلب : انسان اور دوسرے حیوانات میں بہت فرق ہے۔ انسان کو جو امتیازی خصوصیات حاصل ہیں ان میں سب سے اہم عقل و غور و فکر کی قوت ہے جو اس کے دماغ میں ودیعت کی گئی ہے یعنی حیوان پر اسی آدمی کو برتری حاصل ہے جو زندگی کی تمام منزلوں میں عقل کیہدایت پر عمل کر لے۔ اس طریقے سے کہ جو کچھ سنے اس فورا آنکھ بند کر کے قبول نہ کر لے بلکہ اس کے ہر پہلو پر گہری نظر ڈالے ، اگر عقل اس کیو قبول کرے تو مان لے ورنہ رد کردے۔

۱۲۰

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

"فَبَشِّرْ عِبادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ‏ أَحْسَنَهُ‏ أُولئِكَ الَّذِينَ هَداهُمُ اللَّهُ وَ أُولئِكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبابِ‏."

یعنی(اے رسول(ص)) بشارت دے دو انبندوں کو جو بات سنتے ہیں پس اس کے بہترین حصے کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور یہی لوگ در حقیقت صاحبان عقل ہیں۔( آیت نمبر19 سورہ نمبر39 ( زمرا))

ایک روایت آپ کے اسلاف نے نقل کی اور آج آپ بھی اپنی عادت او گذشتہ لوگوں کی فریب کاری کا اتباع کرتے ہوئے بغیر عقل کی کسوٹی پر کسے اور جرح و تعدیل کئے ہوئے یہ غیر معقول جملے زبان پر جاری کر رہے ہیں لہذا میں بھی مجبور ہوں کہ مختصر جواب عرض کروں۔

اول تو خود آپ کے علماء نے تصدیق کی ہے ( جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا) کہ علی علیہ السلام آیہ تطہیر میں شامل اور طہارت ذاتی کے حامل ہیں یعنی ہر رجس و کثافت ، لہو ولعب اور اخلاق رذیلہ سے منزا و مبرا ہیں۔

دوسرے یہ کہ آیہ مباہلہ میں خدا نے ان کو بمنزلہ نفس پیغمبر(ص) فرمایا ہے جس کے متعلق ہم گذشتہراتوں میںتفصیل سے بحث کرچکے ہیں اس کے باب علم رسول(ص) تھے لہذا قرآن کے احکام و قوانین سے بخوبی واقف تھے اور جانتے تھے کہ خڈا نے آیت نمبر53 سورہ نمبر33( احزاب) میں فرمایا ہے:

"وَ ما كانَ لَكُمْ أَنْ‏ تُؤْذُوا رَسُولَ‏ اللَّهِ "

یعنی تمہارے لیے ہرگز جائز نہیں ہے کہ رسول اللہ(ص) کو ( زندگی میں یا بعد از وفات) اذیت پہنچائو۔

پس عقل کیونکر باور کرسکتی ہے کہ آپ کوئی ایسا اقدام کریں کہ آپ کے قول یا فعل سے رسول خدا(ص) آزردہ خاطر اور غضبناک ہوں؟ اور یہ کیونکر سمجھ میں آسکتا ہے کہ مجسمہ خلق عظیم پیغمبر(ص) اس ہستی پر ناراض ہو جو خدا کو محبوب ہو اور وہ بھی ایک مباح کام کے لیے کیونکہ خدائے تعالے نے قرآن مجید میں کوئی استثناء نہیں فرمایا ہے۔ آیت نمبر3 سورہ نمبر4 ( نساء)

"فَانْكِحُوا ما طابَ لَكُمْ مِنَ النِّساءِ مَثْنى‏ وَ ثُلاثَ وَ رُباعَ"

یعنی تم کو جو بہتر معلوم ہو دو تین اور چار عورتون سے نکاح کرسکتے ہو۔

اس حکم سے امر نکاح انبیاء و اوصیاء اور ساری امت میں عمومیت رکھتا ہے اگرفرض کر لیاجائے کہ امیرالمومنین(ع) کوئی ایسا قصد کر بھی رہے تھے تو شرعا جائز تھا اور رسول اکرم(ص) کسی امر مباح کے لیے ہرگز غضبناک نہیں ہوتے تھے اور نہ ایسے کلمات فرماتے تھے۔

چنانچہ ہر عقل مند انسان غور و تحقیق کے بعد سمجھ لیتا ہے کہ ی روایت بنی امیہ والوں کے موضوعات میں سے ہے اور آپ کے اکابر علماء بھی اس حقیقت کے معترف ہیں۔

۱۲۱

عہد معاویہ کی حدیث سازی اور ابو جعفر اسکافی کا بیان

چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص358 میں اپنے شیخ و استاد ابوجعفر اسکافی بغدادی سے اس بارے میں ایک بیان نقل کرتے ہیں کہ معاویہ ابن ابوسفیان نے صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کو معین کیا تھا کہ علی علیہ السلام کی مذمت میں روایتیں وضع کریں اور ان حضرت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنائیں تاکہ لوگ آپ سے بیزاری اختیار کریں۔

من جملہ ان کے ابوہریرہ و عمرو بن عاص ، مغیرہ بن شعبہ اور تابعین میں سے عروہ بن زبیربھی تھے۔ لکھتے ہیں کہ انہوں نے ان لوگوں کی بعض جعلی روایتوں کا بھی تذکرہ کیا ہے، یہاں تک کہ جب ابوہریرہ کا نام آیا تو کہا ابوہریرہ وہ شخص ہے جس نے ایک حدیث اس مفہوم کی روایت کی ہے کہ علی علیہ السلام نے رسول خدا(ص) کی زندگی میں دختر ابوجہل کی خواستگاری کی جس سے آں حضرت(ص) نے ان پر غیظ وغضب کا اظہار کیا اور بالائے منبر فرمایا کہ دوست خدا اور دشمن خدا میں یکجائِ نہیں ہوسکتی ، فاطمہ(ع) میرا پارہ تن ہے جو شخص اس کو اذِیت دے اس نے مجھ کو اذیت دی، جو شخص ابوجہل کی بیٹی کو لانا چاہتا ہے اس کو چاہئیے کہ میری بیٹی سے علیحدہ ہوجائے۔

اس کے بعد ابوجعفر کہتے ہیں " والحدیث مشہور من روایہ الکرابیسی" یعنی یہ حدیث روایت کرابیسی کے نام سے مشہور ہے اس لیے کہ ہر بے بنیاد روایت کو کرابیسی کہتے ہیں۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیحیں بخاری و مسلم میں مسور بن محرمہ الزہر سے مروی ہے۔ اور سید مرتضی علم الہدی ( جو اکابر و مفاخر محققین علمائے شیعہ میں سے ہیں) کتاب تنزیہ الانبیاء و الائمہ میں کہتے ہیں کہ یہ روایت حسین کرابیسی سے منقول ہے جو اہل بیت طاہرین کی مخالفت میں مشہور ہے، یہ اس خاندان جلیل کے سخت دشمنوں اور نواصب میں سے تھا اور اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔ چونکہ خود آپ کی معتبر کتابوں میں مروی اخبار کثیرہ کی بنا پر علی(ع) کا دشمن منافق ہے اور منافق بحکم قرآن مجید جہنمی ہے لہذا اس کی روایت مردود ہے۔

اس کے علاوہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اذیت دینے والوں کی مذمت میں روایتیں صرف کرابیسی کے بیان یا دختر ابوجہل کے گڑھے ہوئے واقعہ میں ابوہریرہ کی نقل سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ اس موضوع میں بکثرت روایات وارد ہیں۔

من جملہ ان کے خواجہ پارسائے بخاری فصل الخطاب میں، امام احمد بن حنبل مسند اورمیر سید ہمدانی شافعی مودۃ القربی مودۃ سیزدہم میں سلمان محمدی سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا۔

"حبّ‏ فاطمة ينفع في مائة من المواطن ايسر تلك المواطن الموت و القبر و الميزان و الصّراط و الحساب فمن رضيت عنه ابنتى فاطمة رضيت عنه و من رضيت عنه

۱۲۲

رضى اللَّه عنه و من غضبت عليه ابنتى فاطمة غضبت عليه و من غضبت عليه غضب اللَّه عليه و ويل لمن يظلمها و يظلم بعلها عليا و ويل لمن يظلم ذرّيّتها و شيعتها"

یعنی فاطمہ(ع) کی محبت سو مقامات پر نفع پہنچاتی ہے۔ جن میں سب سے آسان موت، قبر، میزان، صراط اور حساب ہے پس جس سے میری بیٹی فاطمہ(ع) خوش ہے اس سے میں بھی راضی ہوں اور جس سے میں راضی ہوں اس سے خدا راضی ے اور جس پر میری بیٹی فاطمہ(ع) ناراض ہے اس پر میں بھی ناراض ہوں اور جس پر میں غضبناک ہوں اس پر خدا غضب ناک ہے وائے ہو اس پر جو فاطمہ(ع) پر اور ان کے شوہر علی(ع) پر ظلم کرے اور وائے ہو اس پر جو علی(ع) و فاطمہ(ع) کی اولاد اور ان دونوں کے شیعوں پر ظلم کرے۔

جس قدر روایتیں پیش کی گئیں ثبوت اور نمونے کے لیے اتنی ہی کافی ہیں۔ اب آپ حضرات یہ فرمائیں کہ یہ اخبار صحیحہ جو فریقین کی کتب معتبرہ میں بکثرت سے منقول ہیں ان روایات کے ساتھ جو پہلے عرض کرچکا کہ آپ کے اکابر علماء جیسے بخاری و مسلم وغیرہ نے روایت کی ہے کہ فاطمہ(ع) ابوبکر وعمر پر غضبناک اور ناراض رہیں یہاں تک کہ دنیا سے اٹھ گئیں ، کیونکر جمع کی جاسکتی ہیں؟

حافظ : یہ روایتین صحیح ہیں اور ہماری معتبر کتابوں میں بکثرت اور بہت تفصیل سے منقول ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ دختر ابوجہل کے لیے علی کرم اللہ وجہہ کی خواستگاری کے سلسلہ میں حدیث کرابیسی خود میرے دل میں کھٹکتی تھی اور مجھ کو اس پر یقین نہیں آتا تھا، میں بہت ممنون ہوں کہ آج آپ نےاس گتھی کو حل فرما دیا۔

غضب فاطمہ(ع) کے دینی ہونے میں اشکال اور اس کا جواب

دوسری یہ کہ ان احادیث میں غضب سے غضب دینی مراد ہے نہ کہ معمولی دنیاوی غصہ۔ اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما فاطمہ رضی اللہ عنہا کایہ غصہ جو ہماری تمام صحیح کتابوں میں منقول ہے غضب دینی نہیں تھا۔یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا ن شیخین رضی اللہ عنہما پر دینی فرائض کے خلاف کوئی عمل کرنے کی وجہ سے غصہ نہیں کیا البتہ جو شخص فاطمہ(ع) کو دینی غصہ دلائے قطعا اس پر خدا و رسول(ص) کا غضب نازل ہوگا۔

در اصل فاطمہ رضی اللہ عنہا کا یہ غصہ ان کا حالت میں اس قسم کا تغیر تھا جو ہر حساس انسان میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ اپنی مراد اور مقصد کو حاصل نہ کرسکے۔

چونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فدک کی درخواست کی تھی اور خلیفہ نےفدک واپس کرنے سے موافقت نہیں کی لہذا فطری طور پر متاثر ہوئیں اور اس وقت غضبناک ہوئیں لیکن بعد کو یہ معمولی غصہ بھی ان کے دل سے نکل گیا اور خلیفہ کے حکم پر راضی ہوگئیں اور ان جلیل القدر بی بی کی رضامندی کا ثبوت ان کی خاموشی تھی۔

۱۲۳

یہاں تک کہ جب علی کرم اللہ وجہہ کو خلافت ملی تو باوجود ا پنے اس اثر و اقتدار کے فدک کو ضبط نہیں کیا چنانچہ یہ بھی ایک دلیل قاطع ہے کہ آپ سابق خلفاء کے فیصلے پر راضی تھے۔

خیر طلب: آپ نے ایسے مطالب بیان فرمائے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا ایک مفصل جواب ہے چونکہ رات کافی گزر چکی ہے لہذا اگرچہ حضرات سامعین میں کوئی کسل نظر نہیں آتا پھر بھی بہتر ہوگا کہ اگر آپ کی رائے ہو تو جوابات کل شب پر رکھے جائیں۔

و تمام اہل جلسہ بول اٹھےاور کہنے لگے کہ ہم ہرگز رضامند نہیں۔ چونکہ ہم ایک فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکے ہیں لہذا جب تک اس مسئلہ کا نتیجہ معلوم نہ ہوجائے گا نہ جائیں گے۔

خیر طلب : مجھ کو منظور ہے، لیکن وقت کے لحاظسے مفصل جواب ترک کر کے مختصر طور پر عرض کرتا ہوں۔

فاطمہ(ع) کے قلب و جوارح ایمان سے مملو تھے

اول یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ فاطمہ صدیقہ سلام اللہ علیہا کا غصہ دینی نہیں بلکہ نفسانی تھا تو یہ غلط فہمی ہے اور آپ نے بغیر تحقیق اور غور و فکر فرما دیا، اس لیے کہ اصول اخلاق، آیات قرآن اور احادیث رسول(ص) کے مطابق ایک مومن کامل بھی ایسا غصہ نہیں کرتا نہ کہ جناب فاطمہ(ع) جن کی بزرگی آیہ تطہیر، آیہ مباہلہ اور سورہ ہل اتی سے واضح ہے۔

ہماری اور آپ کی معتبر کتابوں میں کثرت سے وارد ہے کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کمال ایمان کے درجہ پر فائز تھیں، اور رسول اکرم(ص) نے خاص طور فرمایا ہے۔

"ان ابنتی فاطمة ملاء الله قلبها و جوارحها ايمانا الی مشاشها"

یعنی یقینا خدا نے میری بیٹی فاطمہ(ع) کے قلب و جوارح کو سرتا قدم ایمان سے بھر دیا ہے۔

فاطمہ(ع) کا غصہ دینی تھا

وہ مومن ومومنہ جن کے ایمان کی علامت حق کوتسلیم کرنا ہو ہرگز ایسا عمل نہیں کرتے کہ جب کوئی حاکم سچا فیصلہ کرے یعنی خدا کا حکم جاری کرے تو اس پر غصہ دکھائیں اور وہ بھی ایسا غصہ جو کینے اور عداوت کے ساتھ ہو، پھر اسی غیض و غضب پر مرتے دم تک قائم رہیں یہاں تک کہ وصیت کر جائیں کہ ان ناحق حکم دینے والوں میں سے کسی کو میرے جنازے پر نماز نہ پڑھنے دینا۔

حق تو یہ ہے کہ وہ فاطمہ(ع) جن کی طہارت کا ثبوت خدا دے رہا ہو قطعا کوئی جھوٹا دعوی ہی نہیں کرسکتیں تاکہ حاکم ان کے خلاف حکم دے۔

۱۲۴

دوسرے اگر بی بی فاطمہ(ع) کا غصہ صرف حالت کا تغیر تھا تو جلد زائل بھی ہوجانا چاہیے تھا، بالخصوص اس عذر خواہی کے بعد تو دل بالکل صاف ہوجانا چاہئیے جو بعد کو ان لوگوں نے کی، کیونکہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے" المومن لیس بحقود " مومن کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ طبیعتا اور ہوائے نفسانی کی بنا رپ دل میں بغض و عداوت نہ رکھتا ہو۔ نیز حدیث میں ارشاد رسول(ص) ہے کہ اگر مومن سے کوئی غلطی ہوجائے تو مومن تین روز سے زیادہ اپنے دل میں عداوت نہیں رکھتا۔ پس صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا(ع) کی ذات جو سرتا پا ایمان میں غرق اور شہادت خداوندی کی بنا پر ہر قسم کے رجس و کثافت اور اخلاق رذیلہ سے پاک و مبرا تھی ہرگز کینہ پرور نہیں ہوسکتی۔ اور دوسری طرف فریقین کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ابوبکر و عمر سے ناراض اور غضبناک دنیا سے گئیں لہذا معلوم ہوا کہ جناب معصومہ کا غصہ دینی تھا کہ جب خدا اور اپنے پدر بزرگوار کے حکم کے خلاف فیصلہ صادر ہوتے دیکھا تو غضب دینی کے ساتھ غضب ناک ہوئیں اور یہی وہ غصہ ہے جو غضب خدا و رسول(ص) کا ذریعہ ہے۔

فاطمہ(ع) کا سکوت رضا مندی کی دلیل نہیں تھا

تیسرے آپ نے فرمایا ہے کہ فاطمہ(ع) کی خاموشی ان معصومہ مظلومہ(ع) کی رضامندی کی دلیل تھی تو اس میں بھی آپ کو دھوکا ہوا ہے۔ ہر سکوت رضامندی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ بعض مواقع پر ظالم کے سخت اقتدار کے سبب سے مظلوم خاموشی پر مجبور ہوجاتا ہے تاکہ ہنگامے اور فساد کے مقابلے میں اپنی آبرو بچائے۔

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا صرف یہی نہیں کہ راضی تھیں بلکہ دنیا سے غضب ناک بھی گئیں جیسا کہ میں خود آپ کے اکابر علماء کے اقوال پیش کرچکا ہوں، بالخصوص آپ کے وہ بزرگ او موثق عالم بخاری و مسلم لکھتے ہیں:

"فغضبت‏ فاطمةعلىأبىبكرفهجرتهولمتكلمهحتّىتوفيت"

یعنی فاطمہ ابوبکر پر غضبناک ہوئیں، پس ان سے دوری اختیار کی اور ان سے بات نہیں کی یہاں تک کہ وفات پائی۔

علی(ع) کو اپنی خلافت میں عمل کی آزادی نہیں تھی

چوتھے آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ علی علیہ السلام نے اپنی خلافت ( ظاہری) کے اقتدار میں چونکہ فدک پر تصرف نہیں کیا اور اس کو اولاد فاطمہ(ع) کے سپردنہیں کیا لہذا یہ فیصلے پر آپ کی رضامندی کی دلیل ہے ،اس میں بھی آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے اس لیے کہ حضرت اپنے دور خلافت میں عمل کے لیے آزاد نہیں تھے کہ جو چاہتےاقدام کرتے یا کوئی حق واگذار کرتے یا کوئی بدعت دفع کرتے ۔ آپ جونہی اس قسم کا کوئی قدم اٹھاتے تھے فورا وادیلا مچ جاتی تھی۔

۱۲۵

اگر آپ اولاد فاطمہ(ع) کو فدک واپس کر دیتے تو یقینا مخالفین اور خاص طور سے معاویہ اور انکےچیلو کو موقع ہاتھ آجاتا کہ پہلے والوں نے جو بات کہی تھی کہ علی(ع) اپنے لیے کسب منفعت کررہے ہیں اس کو صحیح ثابت کریں اور یہ پروپیگنڈا کر کے اپنے قدم مضبوط کریں کہ علی(ع) نے ابوبکر کے خلاف عمل کیا۔

اس کے علاوہ ایسا حکم دینے کے لیے قدرت اور خودمختاری ضروری تھی حالانکہ لوگوں نے حضرت کے لیے ایسی طاقت اور اختیارات ہی باقی نہیں رکھے تھے کہ سابق خلفاء کے قول و فعل کے خلاف کوئی طریقہ رائج کرسکیں۔ چنانچہ منبر اور تراویح کے قضیہ سے یہ بات صاف ہوگئی۔

چونکہ حضرت سے پہلے دوسرے خلفاء نے منبر کو اس مقام سے ہٹا دیا تھا جہاں پر رسول خدا(ص) نے رکھا تھا لہذا جس وقت آپ کو خلافت ظاہری حاصل ہوئی تو چاہا کہ منبر رسول(ص) کو پھر اس کی اصلی جگہ لے جائیں لیکن لوگوں نے ہنگامہ برپا کر دیا اور اس کے لیے تیار نہیں ہوئے کہ سیرت شیخین کے خلاف عمل کیا جائے چاہے وہ عمل پیغمبر(ص) کے مطابق ہی کیون نہ ہو۔

اسی طرح لوگوں کو نماز تراویح با جماعت سے منع فرمایا تو پھر شور و غوغا بلند ہوا کہ علی خلیفہ عمر کے خلاف چلنا چاہتے ہیں۔

نواب : قبلہ صاحب ! نماز تراویح کیا تھی کہ علی کرم اللہ وجہہ نے اس کی جماعتسے منع کیا؟

خیر طلب : تراویح لغت میں ترویحہ کی جمع ہے جو در اصل نشست کے معنی میں ہے۔ بعد کو ماہ رمضان ال مبارک کی راتوں مِں چار رکعت نماز کے بعد استراحت کے لیے بیٹھنے کا نام قرار پایا، شبہائے ماہ رمضان میں چار رکعت مستحبی نماز کا( یاتمام شبوں میں بیس رکعت مستحبی نماز کا) نام ہوگیا۔

یہی مسئلہ ہے کہ اسلامی دینیات میں صرف فریضہ اور واجب نمازیں تو جماعت سے پڑھی جاسکتی ہیں لیکنمستحبی نمازیں ممنوع ہیں کیونکہ خود پیغمبر(ص) کا ارشاد ہے۔

" إِنَّ الصَّلَاةَ بِاللَّيْلِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ النَّافِلَةَ فِي‏ جَمَاعَةٍ بِدْعَةٌ وَ صَلَاةَ الضُّحَىمَعْصِيَةٌ أَلَا فَلَا تَجْتَمِعُوا لَيْلًا شَهْر رَمَضَانَ فِيلنَّافِلَةوَ لَا تُصَلُّوا صَلَاةَ الضُّحَى فَإِنَّ قَلِيلا مِنَ السُنَّة خَير مِن کَثِير مِن بِدعةَِ أَلَا وَ إِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَ كُلَّ ضَلَالَةٍ سَبِيلُهَا إِلَى النَّارِ "

یعنی در حقیقت شبہائے ماہ رمضان کی نماز نافلہ جماعت سے پڑھنا بدعت ہے اور نماز چاشت پڑھن گناہ ہے لوگو!ماہ رمضان کا نافلہ جماعت سے نہ پڑھو اور نماز چاشت بھی نہ پڑھو بس یقینا تھوڑا سا عمل جو سنت کے مطابق ہو اس بہت سے عمل سے بہتر ہے جو بدعت ہو۔ جان لوگ کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا راستہ آتش جہنم کی طرف ہے۔

ایک رات عمر اپنے دور خلافت کے سنہ14ہحری میں مسجد کے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ چراغ روشن ہیں اور لوگ

۱۲۶

جمع ہیں، پوچھا کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا کہ سب سنتینماز جماعت سے پڑھنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ عمر نے کہا: بدعۃ و نعمت البدعۃ یہ عمل بدعت ہے لیکن اچھی بدعت ہے۔

بخاری اپنی صحیح میں عبدالرحمن ابنعبدالقادری سے نقل کرتے ہیں کہ خلیفہ نے جب دیکھا کہ لوگ الگ الگ نماز پڑھ رہے ہیں تو کہا کہ جماعت سے پڑھیں تو بہتر ہے اور ابی بن کعب کو حکم دیا کہ ان کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھائو! دوسری رات مسجد میں آئے تو دیکھا کہ لوگ ان کے حکم کیتعمیل میں جماعت سے پڑھ رہے ہیں کہ کہا نعمت البدعت ہذہ کیا اچھی بدعت ہے یہ بدعت۔

اس زمانہ سے عہد خلافت امیرالمومنین علیہ السلام تک یہ عمل جاری رہا۔ حضرت نے اس کو منع فرمایا کہ رسول خدا صلعم کےزمانے میں چونکہ یہ طریقہ نہیں تھا بلکہا سکی ممانعت تھی لہزا اسے ترک کردینا چاہئیے یہاں تک کہ آپ کوفے میں تشریف لائے تو اہل کوفہ نے درخواست کی کہ ہمارے لیے ایک پیشنماز معین فرمادیجئے تاکہ ہم نافلہ شبہائے رمضان جماعت سے پڑھیں حضرت نے اس سے منع فرمایا لیکن اس کے باوجود چونکہ ان لوگوں کی عادت ہوچکی تھی لہذا باز نہیں آئے اور جو نہی آپ تشریف لےگئے سب نے جمع ہو کر آپس میں ایک شخص کو امام مقرر کیا تاکہ جماعت سے نماز پڑھیں۔ فورا یہ خبر امیرالمومنین علیہ السلام کو پہنچی تو آپ نے اپنے بڑے فرزند امام حسن(ع) کو بلا کر حکم دیا کہ تزیانہ لے کر جائو اور اس مجمع کو نماز نافلہ جماعت کے ساتھ پڑھنے سے روکو! جب لوگوں نے یہ کیفیت دیکھی تو نالہ و فریاد کی آوازیں بلند کیں کہ ہائے علی(ع) تو ہم کو نماز نہیں پڑھنے دیتے۔

باوجودیکہ خود جانتے تھے کہ رسول خدا(ص) کے عہد میں نماز کا یہ طریقہ نہیں تھا بلکہ عمر کے زمانے میں رائج ہوا ہے پھر بھی جضرت علی علیہ السلام کے فرمان اور ہدایت پر عمل پیرا نہیں ہوئے جو حکم رسول کے مطابق تھی۔

پس حضرت فدک کو اولاد فاطمہ(ع) کےسپرد کیونکر کرسکتے تھے؟ اگر ایسا کرتے اور فرماتے کہ اس کو ظلم سے غصب کیا گیا تھا لہذا مظلومہ کے وارثوں کو ملنا چاہئیے ۔ تو فورا لوگ چیخنے لگتے کہ علی ابن ابی طالب(ع) دنیا کی طرف مائل ہیں اور اپنی اولاد کے فائدے کے لیے مسلمانوں کا حق ضبط کر لیا ہے۔ چنانچہ سابق کی طرح آپ نے صبر ہی مناسب سمجھا۔ اور چونکہ اصلی حقدار بھی دنیا سے اٹھ چکا تھا لہذا آپ نے استقرار حق کو ملتوی کردیا تاکہ جب خلائق کو واگزار کرانے کے لیے امام مہدی آخر الزمان عجل اللہ فرجہ تشریف لائیں تو ان کا یہ حق واپس لیں۔

ایسی صورت میں حضرت کی خاموشی بھی فیصلہ پر راضی ہونے کی دلیل نہیں تھی۔ اگر آپ فدک کے معاملے میں سابق خلفاء کے طرز عمل کو حق سمجھتے تو اولا ان کے مقابلے میں استدلال نہ فرماتے۔

دوسرے اپنے درد دل اور ناراضگی کا اظہار نہ کرتے اور خدائے حکیم مطلق کو حکم قرار نہ دیتے۔

چنانچہ نہج البلاغہ میں ہے کہ حضرت نے اپنے عامل بصرہ عثمان ابن حنیف انصاری کے نام ایک خط اپنا دلی صدمہ ظاہر کرتے ہوئے لکھا :

۱۲۷

" كَانَتْ‏ فِي‏ أَيْدِينَا فَدَكٌ‏ مِنْ كُلِّ مَا أَظَلَّتْهُ السَّمَاءُ فَشَحَّتْ عَلَيْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ وَ سَخَتْ عَنْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ آخَرِينَ وَ نِعْمَ الْحَكَمُ اللَّهُ "

یعنی دنیا کی جن چیزوں پر آسمان نے سایہ ڈالا ہے ان میں سے ہمارے قبضے میں صرف فدک تھا ایک گروہ( خلفائے ماسبق ) نے اس کے لیے بخل دکھایا ( اور ہم سے چھین لیا) اور دوسری جماعت ( فاطمہ(ع) اور ان کی اولاد ) نے بھی اس سے ہاتھ کھینچ لیا اور اللہ سب سے اچھا اور فیصلہ کرنے والا ہے۔

رہا آپ کا یہ فرمانا کہ فاطمہ مظلومہ سلام اللہ علیہا آخر عمر میں ان پر راضی ہوگئیں اور ان لوگوں سے در گذر کی تو یہاں پھر آپ نے سخت دھوکا کھایا کیونکہ ہرگز ایسی صورت پیدا نہیں ہوئی، جیسا کہ ان روایتوں سے جو پہلے عرض کی جاچکیں تم نے ثابت کیا ہے کہ وہ مظلوم بی بی مرتے دم تک ناراض اور غضب ناک رہیں۔

ابوبکر اور عمر کی عیادت فاطمہ(ع)

اب میں خاتمہ کلام پر مزید ثبوت کے لیے ایک روایت اور پیش کرتا ہوں کہ ابومحمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوی متوفی سنہ276 ہجری نے تاریخ الخلفاء الراشدین معروف بہ الامامتہ والسیاستہ جلد اول ص12 میں اور آپ کے دیگر علماء جیسے ابن ابی الحدید وغیرہ نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ:

"فقال عمر لأبي بكر: انطلق بنا إلى فاطمة، فإنّا قد أغضبناها."

یعنی عمر نے ابوبکر سے کہا کہ آئو ہم فاطمہ(ع)کے پاس چلیں کیونکہ ہم نے یقینا ان کو غضب ناک کیا ہے۔

(اور بعض روایتوں میں ہے کہ ابوبکر نے عمر سے کہا کہ ہمارے ساتھ فاطمہ(ع) کے پاس چلو اور بظاہر یہی ہے)

خلاصہ یہ ہے کہ دونوں ایک ساتھ بی بی فاطمہ(ع) کے دروازے پر گئے لیکن جناب معصومہ(ع) نے ملاقات کی اجازت نہیں دی جب انہوں نے علی علیہ السلام کو واسطہ قرار دیا تو آپ ن سکوت اختیار کیا ۔ حضرت(ص)نے اسی پر اکتفا کر کے ان لوگوں کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ انہوں نے پہنچ کر سلام کیا تو ان مظلومہ ن دیوار کی طرف منہ پھیر لیا ابوبکر نے کہا اے رسول خدا(ص) کی پارہ جگر خدا کی قسم میں رسول اللہ(ص) کے رشتے کو اپنے رشتے سے زیادہ محبوب اور تم کو اپنی بیٹی عائشہ سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں۔ کا شکر میں رسول اللہ(ع) کے بعد ہی مرگیا ہوتا۔ میں تمہاری منزلت اور فضل او شرف کو سب سے زیادہ جانتا ہوں، اگر میں نے تم کو حق وراثت سےمحروم کیا ہے تو یہ آں حضرت ہی کیطرف سے تھا کیونکہ میں نے خود سنا ہے کہ فرمایا " لا نورث ماترکناہ صدقۃ"

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے امیرالمومنین علیہ السلام سے کہا کہ میں رسول اکرم(ص) کی ایک حدیث ان لوگوں کو یاد دلاتی ہوںتم دونوں کو خدا کی قسم دیتی ہوں کیا تم نے آں حضرت(ص) کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا ہے کہ:

۱۲۸

"رِضَا فَاطِمَةَ مِنْ رِضَايَ وَ سَخَطُ فَاطِمَةَ مِنْ سَخَطِي وَ مَنْ أَحَبَّ فَاطِمَةَ ابْنَتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي وَ مَنْ أَرْضَى فَاطِمَةَ فَقَدْ أَرْضَانِي وَ مَنْ أَسْخَطَ فَاطِمَةَ فَقَدْ أَسْخَطَنِي"

یعنی فاطمہ(ع) کی خوشنودی میری خوشنودی سے ہے اور فاطمہ(ع) کا غصہ میرے غصے سے ہے۔ پس جوشخص میری بیٹی فاطمہ(ع) کو دوست رکھے اس نے یقینا مجھ کو دوست رکھا، جو شخص فاطمہ(ع) کو خوش رکھے اس نے مجھ کو خوش رکھا اور جو شخص فاطمہ(ع) کو خشمناک کرے اس نے مجھ کو خشمناک کیا۔

" قَالا نَعَمْ سَمِعْنَاهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلی اللهُ علَيهِ وَ سَلَّم "

دونوں نے کہا ہاں ہم نے رسول اللہ(ص) سے یہ کلمات سنے ہیں، اس وقت جناب فاطمہ(ع) نے فرمایا:

" فَإِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَ مَلَائِكَتَهُ أَنَّكُمَا أَسْخَطْتُمَانِي وَ مَا أَرْضَيْتُمَانِي وَ لَئِنْ لَقِيتُ النَّبِيَّ ص لَأَشْكُوَنَّكُمَا إِلَيْهِ"

یعنی پس میں اللہ اور اس کے فرشتوں کو گواہ کر کے کہتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھ کو خشمناک کیا ہے اور مجھ کو راضی نہیں رکھا اور اگر میں پیغمبر(ص) سے ملاقات کروں گی تو ضرور بالفرور تم دونوں کی شکایت کروں گی۔

ابوبکر آپ کے ان الفاظ و بیانات سے دل تنگ ہوکر رونے لگے اور کہا میں تمہارے اور آں حضرت(ص) کے غیظ و غضب سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں، اس وقت فاطمہ زہرا(ع) نے نال و فریاد کے ساتھ فرمایا:

" و الله لأدعون عليك في كل صلاة اصليها ثم خرج باکيا."

یعنی خدا کی قسم میں اپنی ہر نماز میں تم پر ضرور بالضرور بدعا اور نفرین کروں گی۔

ابوبکر یہ سن کر روتے ہوئے باہر چلے گئے۔ لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے اور تسلی دینے لگی تو انہوں نے کہا وائے ہو تم پر تم سب تو خوش و خرم اپنے اپنے گھروں اپنی بیویوں کے پاس آرام کرتے ہو، اور میں اس حال میں ہوں "لا حاجة فی بيعتکم اقيلونی بيعتی " مجھے تمہاری بیعت کی کوئی احتیاج نہیں مجھ کو اس سے چھٹکارا دو، خدا کی قسم میں نے جو کچھ فاطمہ(ع) سے سنا اور دیکھا ہے اس کے بعد یہ خواہش نہیں رکھتا کہ کسی مسلمان کی گردن پر میری بیعت رہے۔ انتہی

پس اس قسم کی روایتوں سے جن کو خود آپ کے اکابر علماء نے لکھا ہے معلوم ہوتا ہے کہ مظلوم و مغموم بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا آخری وقت تک ابوبکر و عمر سے ناراض وغضبناک رہیں، غصے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ دنیا سے گئیں اور ہرگز ان سے خوش نہیں ہوئیں۔

۱۲۹

فاطمہ(ع) کو شب میں دفن کیا

امت کے ان وضیع اور ذات شریف لوگوں سے جناب معصومہ کی ناراضگی اور غم و غصہ کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ نے اپنے شوہر امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے یہ وصیت کی۔

" لَا يَشْهَدَ أَحَدٌ جِنَازَتِي‏ مِنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ ظَلَمُونِي وَ أَخَذُوا حَقِّي فَإِنَّهُمْ عدُوّی وَ عَدو رَسُولِ اللَّهِ ولا تترک أَنْ لَا يُصَلِّيَ عَلَيَّ أَحَدهمْ وَ لَا مِنْ أَتْبَاعِهِمْ وَ ادْفِنِّي فِي اللَّيْلِ إِذَا هَدَأَتِ الْعُيُونُ وَ نَامَتِ الْأَبْصَارُ"

یعنی ان لوگوں میں سے جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور میرا حق چھینا ہے ایک شخص بھی میرے جنازے پر نہ آئے کیونکہ یقینا یہ لوگ میرے اور رسول اللہ(ص) کے دشمن ہیں۔ ان میں سے اور ان کے پیروئوں میں سے کسی کو میرے جنازہ پر نماز نہ پڑھنے دیجئے گا اور مجھ کو شب میں دفن کیجئے گا جب لوگ سورہے ہوں۔

چنانچہ بخاری اپنی صحیح میں کہتے ہیں کہ علی(ع) نے فاطمہ(ع) کی وصیت پر عمل کیا اور ان کو رات کے وقت دفن کیا، لوگوں نے ہرچند جستجو کی کہ فاطمہ(ع) کو کہا دفن کیا ہے لیکن پتہ نہ پاسکے

فاطمہ(ع) کا درد دل قیامت تک رلائے گا

یہ بات بالاتفاق ثابت ہے کہ فاطمہ طاہرہ سلام اللہ علیہا اپنی وصیت کے موافق ات کو دفن کیا گئیں۔

محترم حضرات!خدا کے لیےانصاف سے کام لیجئے کہ جس پیغمبر(ص) نے امت کی اصلاح و فلاح کے لیے اس قدر صبر آزما زحمتیں پرداشت کی ہوں اور اس امت کے آرام و خوش حالی کے لیے ساری زندگی صرف کردی ہو وہ وقت وفات اپنی یادگار میں صرف ایک بیٹی چھوڑے اور اس کے لیے شب و روز اور خفیہ و علانیہ اس قدر پر زور وصیتیں اور ہدایتیں فرمائے جن سے آپ کے اکابر علماء کی معتبر کتابیں پر ہیں کہ فاطمہ(ع) میرے جسم کا حصہ اور میری و دیعت و امانت ہے، میری ہی طرح اس کا بھی لحاظ رکھنا اور کوئی کام ایسا نہ کرنا جس سے یہ تم پر ناراض ہو، کیونکہ اگر یہناراض ہوگی تو میں بھی تم سے ناراض ہوں گا۔

چنانچہ میر سید علی ہمدانی فقیہ شافعی مودۃ القربی میں کہتے ہیں کہ پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ فاطمہ(ع) کو آزار دیں گے میں قیامت کے روز ان سےسخت مواخذہ کروں گا، اس لیے کہ فاطمہ(ع) کی رضامندی میری رضامندی ہے اور فاطمہ(ع) کا غصہ میرا غصہ ہے وائے ہو اس شخص پر جس سے میں ناراض و غضبناک ہوں۔

۱۳۰

اس کے بعد بھی یہ امت آں حضرت(ع) کی سفارش اور وصیت و ہدایت کی کوئی پروانہ کرے بلکہ آپ کا حق ثابت چھین لے اور اس قدر اذیت پہنچائے اور غم و غصہ دلائے کہ عین عالم شباب میں اپنی ناکامی پر فریاد کریں اور کہیں۔

صُبَّتْ‏عَلَيَ‏مَصَائِبُ‏لَوْ أَنَّهَاصُبَّتْ عَلَى الْأَيَّامِ صِرْنَ لَيَالِيَا.

یعنی مجھ پر اتنی مصیبتیں ڈالی گئیں کہ اگر وہ دنوں پر ڈالی جائیں تو رات ہوجاتے۔

چنانچہ غم و غصہ اور مصائب و اندوہ کےفشار سے مجبور ہو کر وہ مظلوم و ناکام بی بی اور رسول خدا(ص) کی عزیز و محبوب بیٹیبارگاہ خداوندی میں برابر موت کے لیے دعا کیا کرتی تھی کہ " اللہم عجل وفاقی سریعا" یعنی خداوندا مجھ کو جلد از جلد موت دے دے۔ 12 مترجم۔

آخر کار اس کیوصیت بھی کر جائیں کہ میریمیت رات کے وقت سپرد خاک کیجئے گا اور میرے مخالفین میں سے کسی کو نہ میرے جنازے میں شرکت کرنے دیجئے گا نہ مجھ پر نماز پڑھنے دیجئے گا۔

بزرگان محترم! سچے دل سے فیصلہ کیجئے کہ آیا یہ حالت فاطمہ(ع) مظلومہ سلام علیہا کی خوشنودی مزاج کا نتیجہ تھے یا آپ کے شدید غیظ و غضب کا کھلا ہوا ثبوت؟ پھر ان اخبار کو ایک دوسرے سے ملا کر حقیقت آشکار کا مشاہدہ کیجئے۔

اندر کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است

ان بیانات کے دوران میں سارے حاضرین جلسہ روتے رہے، خصوصا جناب حافظ صاحب جنہوں نے اپنا سر نہوڑا لیا تھا، آنسوئوں کے قطرات ان کے دامن پر گررہے تھے اور کلمات استرجاع و استغفار ان کی زبان پر جاری تھے، چنانچہ اس شب کے بعد پھر انہوں نے بحث نہیں کی۔ معلوم ہو رہا تھا کہ بہت متاثرت ہیں اور چونکہ ایک منصف مزاج عالم تھے لہذا ہمارے منطقی دلائل نے ان کے عقائد میں انقلاب پیدا کردیا ہے ، جیسا کہ آخری شبمیں اشارۃ مذہب شیعہ قبول کرنے کے بعد ہم سے رخصت ہوئے۔

تقریبا پندرہ منٹ تک مجمع پرسکوت و حیرانی اور حزن و اندوہ کی کیفیت طاری رہی، چائے لائی گئی لیکن کسی نے نہیں پی اور تین بجے شب کو اذان صبح کے قریب یہ نشست ختم ہوئی۔

۱۳۱

نویں نشست

شب شنبہ 2 شعبان المعظم سنہ1345 ہجری

غروب آفتاب کے وقت شرکاء میں سے چند سنی حضرات، نواب عبد القیوم خان، غلام امامین مولوی عبدالواحد، غلام حیدر خان اور سید احمد علی شاہ آئے اور رسمی صاحب سلامت کے بعد کہا کہ ان تمام راتوں میں بالخصوص گزشتہ شب ہمارے اوپر حق بالکل ظاہر ہوگیا اور جوکچھ چاہئیے ہم کو معلوم ہوگیا ہے، چونکہ ہم لوگ ضدی اور متعصب نہیں ہیں اور جاہ و منصب کی خواہش بھی نہیں رکھتے ، صرف عادت اور ماحول کے اثرات سے بغیر سمجھے بوجھے اتنی زندگی گمراہی میں بسر کردی لہذا اب جب کہ حق آشکار ہوچکا ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ پھر بھی ہم لکیر کے فقیر بنے رہیں۔ چنانچہ ہم نے طے کر لیا ہے کہ آج کی رات تمام حاضرین جلسہ کےسامنے بالاعلان حضرات اہل سنت کے طریقے سے بیزاری کا اظہار کردیں( جیسا کہ آخری شب میں کیا بھی اور با قاعدہ تشیع کا اعلان کردیا)

میں نے تھوڑی اخلاقی گفتگو کے بعد ان حضرات سے خواہش کی کہ جب تک مناظرے کے جلسے ہو رہے ہیں خاموشی سے سنتے رہیں اور ابھی اپنے عقیدے کا اظہار نہ کریں بلکہ انتظار کریں کہ ان کا آخری نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تنہا ہمیں لوگوں پر نہیں بلکہ رسائل و اخبارات کو پڑھنے اور طرفین کے مباحثات اور دلائل کا مطالعہ کرنے کے بعد بہت سے پاک نفس لوگوں پر مطلب واضح اور حقیقت ظاہر ہوگئی ہے اور انہوں نے اپنی شیعیت کا اظہار کیا ہے لیکن دوسرے اشخاص کے دبائو اور خجالت کی وجہ سے وہ آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتے۔ اور انمیں سے بعض افراد تو اپنے ضروریات زندگی اور شہر والوں کے ساتھ معاشرتی پابندیوں کے سبب سے مجبور ہیں کہ اپنے خیالات کو پوشیدہ رکھیں۔

نماز مغرب کے بعد ہی علماء اور دیگر حضرات بھی تشریف لے آئے جن کا باقاعدہ استقبال کیا گیا اور جب مجلس مناظرہ منعقد ہوئی تو شیخ عبدالسلام صاحب ہمارے فریق مقابل قرار پائے۔ حافظ صاحب چونکہ کل شب کے بیانات سے بہت متاثر تھے لہذا وہ صرف طرفین کی گفتگو سنتے رہے۔

شیخ : مولانا صاحب ان جلسوں میں جب سے ہم آپ کی ملاقات سے فیض یاب ہو رہے ہیں علاوہ علم ومنطق کے

۱۳۲

آپ کے حسنِ اخلاق اور بلند تہذیب و ادب نے ہم سب کو مسخر کر لیا ہے آپ کی سامنے اگر کوئی دشمن بھی آجائے سر تسلیم خم کردے، دوستوں کا کیا ذکر۔

آپ ہر مقام پراہل سنت والجماعت کے اعمال و افعال کا تو شکوہ کرتے ہیں لیکن شیعوں کے طرز طریقوں پر کوئی توجہ نہیں کرتے بلکہ برابر ان کی طرف سے دفاع کرتے رہتے ہیں، در آنحالیکہ اہل تشیع کے اعمال قبیحہ اور افعال شیعہ اس قدر گندے ہیں کہان کی اصلاح ممکن نہیں۔

خیر طلب : میں صرف حق کی طرف سے دفاع کرنے کا عادی ہوں وہ چاہے جہاں ہو، اس لیے کہ ہمارے مولا و آقا امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے فرزندوں بالخصوص حسنین علیہما السلام کو جو وصیتیں فرمائی ہیں ان میں ارشاد فرماتے ہیں:

"قولا للحق واعملا للآخرة کونا للظالم خصما وللمظلوم عونا"

یعنی حق بات کہو اور آخرت کے لیے عمل کرو، ظالم کے دشمن رہو اور مظلوم کی مدد کرو۔

اگر میں نے مخالفین کی شکایت یاشیعوں کی طرف سے کوئی دفاع کیا ہے تو حق کی روسے کیا ہے، میں نے جو کچھ شکوہ کیا ہے اس کو عقلی اور منطقی دلیلوں سے ثابت کردیا ہے، اب اس کا ثبوت آپ کے ذمے ہے کہ شیعوں کے وہ کونسےبرے اعمال ہیں جن کی آپ اس قدر سخت مذمت اور تنقید کررہے ہیں کہ ان کی اصلاح ہی نہیں ہوسکتی؟

شیعوں پر اعتراض کہ عائشہ کو زنا کاری کی نسبت دیتے ہیں اور اس کا جواب

شیخ : بدترین حرکت جو شیعوں سے سرزد ہوتی ہے اور عقلی نقلی حیثیت سے مذموم ہے وہیہ ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کوبعض برے کاموں اور زناکاری سے نسبت دیتے ہیں، حالانکہ یہ مسلم ہے کہ آپ نے رسول اللہ(ص) کی ہمبستری کا شرف پایا ہے۔ اور آںحضرت(ص) کی محبوب بیوی تھیں۔ وہ اس کا بھی کوئی لحاظ نہیں کرتے کہ عائشہ پر بدکاری اور زنا کاری کی تہمت کا اثر کہاں تک پہنچتا ہے کہ انہوں نے سورہ نورنہیں پڑھا جس میں خدا فرماتا ہے۔

"‏الْخَبِيثاتُ‏ لِلْخَبِيثِينَ وَ الْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثاتِ‏ وَ الطَّيِّباتُ لِلطَّيِّبِينَ وَ الطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّباتِ أُولئِكَ مُبَرَّؤُنَ مِمَّا يَقُولُونَ "

یعنی بدکار و ناپاک عورتیں اسی قسم کے مردوں کے لیے اور بدکار و ناپاک مرد اسی طرح کی عورتوں کے لیے مناسب ہیں اور نیک و پاکیزہ عورتیں اسی طریقے کے مردوں کے لیے اور نیک و پاکباز مرد اسی صفت کی عورتوں کے لائق ہیں اور یہ پاک و پاکیزہ افراد ان اتہامات سے مبرا ہیں جو ان پر لوگ عائد کرتے ہیں۔

خیر طلب : اولا آپ نے ام المومنین عائشہ کے بارے میں آوارگی اور زنا کاری کہ تہمت کا جو الزام شیعوں پر لگایا ہے وہ سراسر

۱۳۳

جھوٹ اور زبردست دھوکا ہے۔ حاشا ثم حاشا، شیعوں کی جانب سے بلکہ شیعہ عوام کی طرف سے بھی ہرگز ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی، آپ کا یہ فرمانا، ایک کھلا ہوا بہتان ہے جو جذبات برانگیختہ کرنے کے لیے صدیوں پہلے چند نواصب اور خوارج کی زبانوں سے نکلا تھا وہ جو کچھ خود کہنا چاہتے تھے اس کو شیعوں کے سرتھوپ کے ان کی زبانیبیان کرنا شروع کیا اور بیچارے شیعوں کوبدنام کیا، پھر کچھ دوسرے لوگ بھی یکے بعد دیگر بغیر جانچ پڑتال کے ان الزامات کو تسلیم کر کے اعتراض پر تل گئے جیسا کہ جناب عالی ایراد اور عجیب جوئی کررہے ہیں۔ آپ اگر علمائے شیعہ کی تمام کتابوں کا ایک ایک ورق الٹ ڈالیں گے تب بھی ہرگز کہیں نظر نہیں آئے گا کہ کسی نے ام المومنین عائشہ پر بدکاری اور زنا کی تہمت لگائی ہو۔ یہ دعوی نرا جھوٹا الزام ہے۔

قضیہ افک اور تہمت زنا سے عائشہ کی بریت

آپ شیعوں کی تفسیروں اور کتب اخبار کا مطالعہ کیجئے تو پتہ چلے کی قضیہ افک میں انہوں نے ام المومنین عائشہ کی طرف سے کیونکر دفاع کیا ہے در آنحالیکہ اگر شیعوں کے ایسے عقائد ہوتے تو ام المومنین عائشہ کی ذات پر حملہ کرنے کے لیے آوارگی و زناکاری کی تہمت لگانے کا سب سے اچھا موقع افک ہی کا معاملہ تھا۔

در حقیقت اس قسم کے اتہامات تو خود رسول اللہ(ص)کے زمانے میں منافقین صحابہ کی ایک جماعت نے عائد کئے تھے، جیسے مسطح بن اثاثہ، حسان بن ثابت اور عبداللہ بن ابی وغیرہ، چنانچہ عائشہ کی برائت ذمہ اور منافقین کی غلط بیانی پر قرآن مجید میں سات آیتیں بھی نازل ہوئیں۔

آپ کی یاد داشت کے لیے عرض کرتا ہوں کہ ہم شیعوں کا عقیدہ اس بات پر ہے کہ جو شخص رسول اللہ(ص) کی بیوی کو چاہے وہ عائشہ اور حفصہ ہی ہوں آوارگی و زناکاری کی نسبت دیے وہ ملحد و کافر اور ملعون ہے اور کا خون و مال حلال ہے، اس لیے کہ ایسی نسبت خود آں حضرت(ص) کے مقدس مرتبے کی شان میں بہت بڑی اہانت ہے۔

اس کے علاوہ شیعوں کو یہ بھی علم ہے کہ کسی مسلمان پر بھی زناکاری اور حرام کاری کی تہمت لگانا حرام ہے نہ کہ حرم رسول (ص) پر چاہے وہ عائشہ اور حفصہ ہی کیوں نہ ہوں۔

شوہر و زوجہ نیکی اور بدی میں ایک دوسرے کے مثل نہیں

دوسرے جو آیہ شریفہ آپ نے تلاوت کی اس کے معنی وہ نہیں ہیں جو آپ سمجھے ہوئے ہیں کہ شوہر و زوجہ کو نیکی او بدی میں ہر پہلو سے ایک دوسرے کا شریک ومماثل ہونا چاہیے ۔ یعنی اگر ان میں سے ایک نیک بخت، مومن اور جنت کا مستحق

۱۳۴

ہوتو دوسرا بھی ایسا ہی ہو۔ یا اگر ایک بدبخت و فاسق یا کافر و مستحق جہنم ہو تو دوسرا بھی اسی کے مثل ہو۔

اگر مطلب یہی ہو جیسا آپ کا خیال ہے تو اس کی زد میں بہت سے لوگ آجائیں گے جن میں شیخ الانبیاء حضرت نوح(ع) اور حضرت لوط علی نبینا و آلہ و علیہما السلام ، ان کی بیویان اور آسیہ وفرعون بھی ہیں۔ کیونکہ آیت نمبر10، 11 سورہ نمبر26 ( تحریم) میں ارشاد ہے۔

"ضَرَبَ‏ اللَّهُ‏ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَ امْرَأَتَ لُوطٍ كانَتا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبادِنا صالِحَيْنِ فَخانَتاهُما فَلَمْ يُغْنِيا عَنْهُما مِنَ اللَّهِ شَيْئاً وَ قِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ‏وَ ضَرَبَ‏ اللَّهُ‏ مَثَلًا لِلَّذِينَ‏ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ وَ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ‏."

یعنی خدائے تعالی نے کافروں کے لیے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال دی ہے جو ہمارے دو صالح بندوں کے تحت میں تھیں پس ان عورتوں نے دونوں کے ساتھ خیانت کی اور یہ دونوں ( نوح و لوط) ان کو قہر خدا سے نہیں بچا سکے ان دونوں عورتوں کے لیے حکم دے دیا گیا کہ دوسرے دو زخمیوں کے ساتھ آگ میں جھونک دی جائیں نیز خدا نے مومنین کے لیے( آسیہ) زن فرعون کی مثال دی ہے جب کہ انہوں نے دعا کی کہ بار الہا میرے لیے جنت میں ایک گھر بنا اور مجھ کو فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے اور قوم جفا کار سے بچالے۔

نوح(ع) و لوط(ع) کی بیویاں جہنم میں اور فرعون کی زوجہ جنت میں جائیگی

یہ دونوں آیتیں صاف صاف تبارہی ہیں کہ زوجیت طرفین کے لیے ایک ہی قسم کا نتیجہ اور ثمر نہیں دیا کرتی، چنانچہ شیخ الانبیاء حضرت نوح(ع) اور حضرت لوط(ع) کی بیویاں نے اپنے شوہروں کے ساتھ جو خیانت کی اس کی وجہ سے ان دو بزرگ پیغمبروں کی زوجیت نے ان کو کوئی نفع نہیں بخشا۔ دونوں کافر مریں اور جہنم میں جائیں گی جیسا کہ آخری حصہ "قِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ " صراحت کر رہا ہے یعنی حکم دے دیا گیا کہ ان دونوں عورتوں کو دو زخمیوں کے ساتھ آگ میں ڈال دو۔

اور اسی کے برعکس آسیہ زن فرعون کو اپنے کافر شوہر سے کوئی ضرر نہیں پہنچا۔ فرعون جہنم میں اور یہ بہشت میں جائیں گی۔

پس زوجیت کا رشتہ جس کو آپ سبب شرافت سمجھتے ہیں کوئی حقیقت نہیں رکھتا، البتہ یہ تعلق اس وقت اثر انداز ہوگا جب کہ ظاہر و باطن اور اخلاق وسیرت میں ایک دوسرے سے مشابہ ہوں۔ ورنہ کافر ومسلم اور منافق و مومن کو آپس میں ازدواجی سلسلہ کی وجہ سے کوئی نفع یا ضرر نہیں پہنچتا۔ چنانچہ اگر کوئی شخص مومن ہے اور اس کی زوجہ بے دین ہو کر اس کو برا کہے

۱۳۵

اس کے اخلاق کی مذمت کرے تو اس سے شوہر کا کوئی نقصان نہ ہوگا۔ اور اگر لوگ اس عورت کے فاسد اخلاق کی بدگوئی کریں تو اس سے بھی مومن شوہر کی کوئی اہانت نہ ہوگی۔

شیخ : سخت تعجب ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں آپ کے بیان کے اندر کھلا ہوا تضاد نظر آیا۔

خیر طلب: صرف ایک نشست میں نہیں بلکہ اول عمر سے آخری دم تک ممکن نہیں ہے کہ میں متضاد گفتگو کروں کیونکہ دینیو مذہبی امور علمی اور عقلی ہیں، ان کا ایک مرتب نقشہ ہے جو ہمارے ہاتھوں میں دیا گیا ہے۔ ہم عقائد میں ذاتی نظریات کو دخل نہیں دیتے، نہ فلاسفہ اور حکماء کے ایسے عقیدے رکھتے ہیں جو برابر بدلتے رہیں ہر ایک ذاتی مضر؟؟؟؟؟ پر کار بند ہو اور اپنے ہی نظریات پر عملدرآمد کرے۔ افلاطون کے نظریے اس کے استاد سقراط سے مطابقت نہیں کرتے اور فیض و فیاض کے خیالات ان کے استاد صدر المتالہین سے میل نہیں کھاتے۔

لیکن مکتب انبیاء کے تربیت یافتہ لوگوں میں بالخصوص حضرت خاتم الانبیاء کے بلند تعلیمات میں جو آں حضرت(ص) کے باب علم حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے وسیلے سے ہم تک پہنچے ہیں کوئی تناقض نہیں ہے۔ لہذا ہم بھی متناقض اور متضاد باتیں نہیں کہتے۔

در پس پردہ کہ طوطی صفتم داشتہ اندآنچہ استاد ازل گفت ہماں می گویم

اگر جناب عالی رسائل واخبارات کی طرف رجوع کریںاو گذشتہ راتوں کے میرے تمام بیانات اور گفتگو پر غور کریں تو نظر آئے گا کہ میں اپنے بزرگان دین حضرت رسول خدا(ص) او ائمہ طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین کے ہدایات و ارشادات سے جو قرآن مجید کی بنیادوں پر قائم ہیں کہیں پر الگ نہیں ہوا اور نہالگ ہوں گا۔ یہ یرے ذاتی نظریات نہیں تھے جو کبھی فراموش ہوجائیں یا نقطہ خیال بدل جائے۔ جو کچھ میں نے اب تک عرض کیا یا آئیندہ کروں گا وہ قرآن مجید اور اقوال بزرگان دین سے استفادہ ہوگا۔ لہذا میرے کلمات اور گفتگو میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب ذرا آپ بیان فرمائیے تاکہ میں بھی دیکھوں کہ وہ کون سے جملے تھے جن میں آپ کو تناقض نطر آیا؟

شیخ : ایک جگہ تو آپ فرماتے ہیں کہ کسی آدمی کو بھی زنا اور حرام کاری کی نسبت دینا حرام ہے اور دوسرے مقام پر یہ فرمایا کہ نوح(ع) و لوط(ع) کی بیویوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی۔کیا یہ دونوں جملے متناقض نہیں ہیں؟ اور آیا آپ کی گفتگو بیجا نہیں ہے کہ انبیاء کی بیویوں پر آوارگی و زناکاری اور خیانت کی تہمت رکھ رہے ہیں؟

خیر طلب : مجھ کو یقین ہے کہ آپ جان بوجھ کر انجان بن رہے ہیں اور بلاوجہ جلسے کا وقت لے رہے ہیں۔ آپ خود جانتے ہیں کہ اس مقام پر آپ نے مغالطہ دیا ہے لیکن مجھ کو آپ جیسے دانشمند عالم سے اس خلط مبحث کی امید نہیں تھی کیونکہ آیہ شریفہ میں خیانت کے معنی آپ کو خود معلوم ہیں۔ ازواج انبیاء کے لیے آپ کی یہ طرفداری قطعا اسی غرض سے ہے کہ ایسا نہ ہو یہ بات آگے بڑھے اور آپ کے مقصد کے خلاف حقیقتوں کا انکشاف ہونے لگے۔

۱۳۶

نوح(ع) و لوط(ع) کی بیویوں کی خیانت کا مطلب

آپ سے تعجب ہے کہ خیانت کو زناکاری سے تعبیر کر رہے ہیں حالانکہ دونوں چیزوں کے درمیان بہت فرق ہے۔ ابنیاء کی عورتیں آوارگی سے بالکل معر و مبرا تھیں، یہاں تو صرف خیانت کا تذکرہ ہے۔

اول : یہ کہ کسی پیغمبر کی زوجہ ہو اگر وہ اس پیغمبر کی رفتار و گفتار اور ہدایت کے خلاف عمل کرے تو یقینا خائن ہے۔

دوسرے : یہ میرا قول نہیں ہے کہ انہوں نے خیانت کی جس پر آپ غلط فہمی پھیلانے اور اعتراض قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔بلکہ آیہ شریفہ میں صاف صاف ارشاد ہے"فَخانَتاهُما " ( یعنی دونوں عورتوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی 12 مترجم) اور ان کی خیانت زناکاری نہیں تھی جیسا میں عرض کرچکا کہ ازواج انبیاء بالعموم اس قسم کی خیانت سے مبرا تھیں پس ان کی خیانت کا مطلب نافرمانی اور کفر و نفاق تھا۔

حضرت نوح(ع)کی زوجہ اپنے شوہر کی مخالف تھی اور لوگوں سے آپ کی بدگوئی کرتی تھی، کہتی تھی کہ میرا شوہر دیوانہ ہے چونکہ میرا اور اس کا رات دن کا ساتھ ہے لہذا میں اس کے حالات سے بخوبی واقف ہوں، اس کے فریب میں نہ آنا۔ اور حضرت لوط(ع) کی زوجہ آپ کی قوم کو تازہ وارد مہمانوں کی خبر پہنچاتی تھی اور آپ کے دشمنوں اور ظالموں کو شوہر کے گھر کے راز بتا کر فتنہ و فساد برپا کرتی تھی۔

آیہ مبارکہ کے معنی

اور سورہ نور کی جس آیت سے آپ نے اپنے مطلب پر استدلال کیا ہے، بر بنائے تحقیق مفسرین اور بقول معصوم اس کے معنی اس طرح سے ہیں کہ ناپاک عورتیں نا پاک مردوں کے لائق ہیں اور نا پاک مرد ان کی طرف مائل ہیں، اور پاک عورتیں پاک مردوں کے قابل ہیں اور پاک مرد ان کی طرف مائل ہیں، اور اسی سورے میں اس سے قبل کی ایک آیت کے بھی یہی معنی ہیں جس میں ارشاد ہے:

"الزَّانِي‏ لا يَنْكِحُ‏ إِلَّا زانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَ الزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُها إِلَّا زانٍ أَوْ مُشْرِكٌ "

یعنی زناکار مرد صرف زنا کار اور مشرک عورت سے نکاح کرتا ہے اور زنا کار عورت سے صرف زناکار اور مشرک مرد ہی نکاح کرنا چاہتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ آیہ شریفہ"الْخَبِيثاتُ‏ لِلْخَبِيثِينَ" ہرگز آپ کے مدعا کو ثابت نہیں کرتی اور اس کے معنی آپ کے نظریے اور مقصد سے کوئی ربط نہیں رکھتے۔

۱۳۷

حالات عائشہ کی طرف اشارہ

ام المومنین عائشہ پر تنقید کی جاتی ہے تو کسی جانبداری یا تعصب کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے غلط طرز عمل کی وجہ سے ہے کہ وہ ساری زندگی سکون سے نہیں بیٹھیں اور برابر ان سے ایسے افعال سرزد ہوتے رہے جو رسول اللہ(ص) کی کسی بیوی سے حتی کہ حفصہ دختر عمر سے بھی سرزد نہیں ہوئے۔ جماعت شیعہ کی تنقید اور تبصرہ انہیں تنقیدوںکے حدود کے اندر ہے جن کو خود آپ کے علما نے نقل کیا ہے کہ اس مضطرب الحال عورت نے اپنی تاریخ زندگی کو داغدار بنایا ہے۔

شیخ : آپ خود اںصاف کیجئے کہ آپ کے سابق بیانات کے پیش نظر کیا آپ جیسےشریف اور متین انسان کے لیے ایسے جملے زبان سے نکالنا مناسب ہے ک ام المومنین نے اپنی تاریخ کو داغدار بنا دیا؟

خیر طلب : رسول اللہ(ص) کی بیویاں سو ام المومنین جناب خدیجہ کے سب سب ہمارے لیے یکسان ہیں۔ ام سلمہ، سودہ، عائشہ، حفصہ، اور میمونہ وغیرہ سبھی امہات المومنین ہیں لیکن عائشہ کی رفتار و گفتار اور اعمال و افعال نے ان کو دوسری عورتوں سے الگ اور ان کی تاریخ کو داغدار کردیا۔ یہ میرا ہی قولنہیں ہے بلکہ خود آپ کے اکابر علماء نے ان کی زندگی کو داغدار لکھا ہے کسی شخص کے نیک و بد افعال چھپے نہیں رہتے، ایک دن حقیقت کھل جاتی ہے۔

اصلیت یہ ہے کہ آپ حضرات اپنی والہانہ محبت کی بنا پر چشم پوشی سے کام لیتے ہوئے بجائے اس کے کہ روایات کی مطابقت کریں ہر بات کو صحت پر محمول کر کے دفاع کرنے لگتے ہیں۔

ہم بھی وہی کہتے ہیں جو آپ کے اکابر علماء کہتے ہیں البتہ حیرت تو اس پر ہے کہ اگر سنی علماء مورخین لکھیں اور کہیں تو کوئی قباحت نہیں اور نہ آپ ان کو کوئی گرفت کرتے ہیں، لیکن گر بیچارہ کوئی شیعہ وہی بات لکھدے یا کہدے تو آپ اس پر ہزاروں عیب اور تہمتیں لگا کر اعتراضات کی بھرمار کردیتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی ایراد و اعتراض ہے تو سب سے پہلے اپنے علماء پر وارد کیجئے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھا کیوں؟

شیخ : یقینا بات یہ ے کہ انہوں نے چونکہ علی کرم اللہ وجہہ کی مخالفت کی ہے اس وجہ سے آپ خردہ بینی کرتے ہیں۔

خیر طلب : اولا ہمارے یہاں خردہ بینی نہیں بلکہ کلی بینی ہے۔ امیرالمومنین، امام حسن اور اہل بیت طہارت علیہم السلام کی مخالفت تو اپنی جگہ پر ایک مستقل چیز ہی ہے، لیکن ام المومنین عائشہ کی بدنما تاریخ زندگی کی داغ بیل تو خود رسول اللہ(ص) کے زمانے میں پڑچکی تھی جب کہ وہ فطرت اور ذاتی خصلتوں کی بنا پر خود پیغمبر(ص) کو اذیت و آزار پہنچاتی رہتی تھیں دوسروں کا کیا تذکرہ اور ہمیشہ آں حضرت(ص) کی نافرمانی پر کمر بستہ رہتی تھیں۔

شیخ : تعجب ہے کہ ام المومنین اور رسول خدا(ص) کی محبوبہ کو آپ اس قدر پست سمجھتے ہیں کہ یہاں تک کہنے پر تیار ہوگئے کہ وہ آںحضرت(ص)

۱۳۸

کو اذیت پہنچاتی تھیں۔ آپ کا یہ دعوی کیونکر تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ در آنحالیکہ ام المومنین نے قطعا قرآن کریم کر پڑھا تھا اور آیہ شریفہ :

" إِنَ‏ الَّذِينَ‏ يُؤْذُونَ‏ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ- وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذاباً مُهِيناً"

یعنی جو لوگ خدا و رسول(ص) کو ( نافرمانی اور مخالفت وغیرہ سے) آزار و اذیت پہنچاتے ہیں یقینا خدا نے ان پر دنیا و آخرت میں لعنت کی ہے اور ان کے لیے ذلت و خواری کے ساتھ عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

ان کی نظر سے گذر چکی تھی لہذا کیسے ممکن تھا کہ آں حضرت(ص) کو اذیت و آزار دے کر دنیا و آخرت میں خدا کی ملعون بنیں او آخرت میں اپنےلیے ذلت و خواری کے ساتھ عذاب سخت مہیا کریں؟ پس قطعا یہ مضمون خالص جھوٹ اور شیعوں کی لگائی ہوئی تہمتوں میں سے ہے۔

خیر طلب: میری درخواست ہے کہ اس قدر گندی باتیں نہ کہئے کیونکہ میں کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ شیعہ تہمت طراز اور افترا پرواز نہیں ہیں، اس لیے کے ان کےہاتھوں میں ایسی واضح دلیلیں ہیں جن کے بعد ان کو کسی جعلسازی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

رہا آیئہ شریفہ کا معاملہ تو میں بھی تصدیق کرتا ہوں کہ تنہا ام المومنین عائشہ ہی نے اس آیت کو نہیں دیکھا تھا بلکہ ان کے باپ ابوبکر اور کبار صحابہ سبھی نے دیکھا تھا۔ اس کے بعد ان اخبار و احادیث کی مطابقت سے جو میں گذشتہ شبوں میں پیش کرچکا ہوں بہت سی حقیقتوں کا انکشاف بھی ہوتا ہے۔ بشرطیکہ انصاف سے کام لیا جائے۔

پیغمبر(ص) کو عائشہ کی ایذا رسانی

اور رسول اللہ(ص) کو عائشہ کی ایذا رسانی کا مضمون صرف علمائے شیعہ ہی کی کتابوں میں نہیں ہے بلکہ آپ کے اکابر علماء بڑے بڑے مورخین نے بھی لکھا ہے کہ انہوں نے بار بار آں حضرت(ص) کو تکلیف پہنچائی اور رنجیدہ خاطر کیا۔

چنانچہ امام غزالی نے احیاء العلوم جزء دوم باب 3 کتاب آداب النکاح ص135 میں عائشہ کی مذمت میں کئی روایتیں نقل کی ہیں، من جملہ ان کے رسول خدا(ص) سے ان کا مقابلہ اور ابوبکر کا فیصلہ ہے ک جس کو مولوی علی متقی ہندی نے کنزالعمال جلد ہفتم ص116 میں ابویعلی نے مسند میں اور ابو الشیخ نے کتاب امثال میں بھی روایت کیا ہےکہ :

ابوبکر اپنی بیٹی عائشہ سے ملنے گئے تو وہاں پیغمبر(ص) اور عائشہ کے درمیان رنجش ہوگئی تھی جس کا فیصلہ ابوبکر کے اوپر رکھا گیا عائشہ اپنی گفتگو میں توہین آمیز الفاظ کہہ رہی تھیں، چنانچہ اسی سلسلہ میں آں حضرت(ص) سے کہا کہ اپنی بات چیت اور طرز عمل میں اںصاف کا طریقہ اختیار کرو، اس گستاخانہ کلام سے ابوبکر کو اتنا غصہ آیا کہ ا پنی بیٹی کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ رسید کردیا جس سے خون ان کے کپڑوں پر بہہ نکلا۔

نیز امام غزالی نے اسی باب نکاح میں اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے کہ :

۱۳۹

ابوبکر اپنی بیٹی کے گھر پہنچے تو ان کو معلوم ہوا کہ رسول اللہ(ص) عائشہ سے ناراض ہیں، انہوں نے کہا کہ تمہارے درمیان جو قضیہ ہو اس کو بیان کرو تاکہ میں فیصلہ کردوں پیغمبر(ص) نے عائشہ سے فرمایا " تکلمین او اتکلم" تم کہو گی یا میں بیان کروں؟ انہوں نے جواب دیا " بل تکلم ولا تقل الا حقا" تم ہی بتائو لیکن بات سچ ہی کہنا( جھوٹ نہ بولنا) اور اپنے دوسرے جملہ میں آں حضرت(ص) سے کہا:

" انت الذی تزعم انک نبی الله"( تم تو وہ ہو کہ اپنے کو واقعی خدا کا نبی سمجھ بیٹھے ہو۔)

آیا ان جملوں سے مقام نبوت پر حملہ نہیں ہوا؟ معلوم تو یہ ہوتا ہے کہ شاید عائشہ رسول خدا(ص) کو برحق پیغمبر(ص) ہی نہیں سمجھتی تھیں اور جب تو آں حضرت(ص) کی شان میں ایسے فقرے استعمال کرتی تھیں۔

اس قسم کی اہانتیں آپ کی کتابوں میں کثرت سے منقول ہیں جو سب کی سب آں حضرت(ص) کے آزار و اذیت اور دلی رنجش کا باعث تھیں۔

آخر فریقین کے علماء و مورخین بلکہ غیروں نے بھی تاریخ اسلام میں دوسرے ازواج رسول(ص) کے لیے کوئی بات کیوں نہیں لکھی؟ اور کوئی تنقید کیوں نہیں کی؟ حتی کہ حفصہ دختر عمر کے لیے بھی اس قسم کے ایرادات نہیں کئے، فقط عائشہ ہی کے طور طریقے ان کی بدنامی کا سبب بنے اور ہم بھی عائشہ کے بارے میں وہی کہتے ہیں جو خود آپ کے کابر علماء نے کہا ہے آیا آپ نے امام غزالی کی کتابیں، تاریخ طبری، مسعودی اور ابن اعثم کوفی وغیرہ کا مطالعہ نہیں کیا ہے آپ کے بڑے بڑے علماء نے ان کو احکام خدا و رسول(ص) کےمقابلہ میں سرکش اور نافرمان قرار دیا ہے؟ آیا اللہ اور اس کے رسول(ص) کے حکم سے انحراف نیک بختی اور سعادت کی دلیل ہے؟ اس کے بعد بھی آپ اس کی شکایت کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین کی تاریخ زندگی کو داغدار کیوں کہا؟ خدا و رسول(ص) کے احکام سے سرکشی، خلیفہ رسول(ص) کے مقابلے میں بغاوت اور آں حضرت(ص) کے مسلم الثبوت وصی سے جنگ کرنے سے بڑھ کے اور کونسا تاریخی داغ ہوسکتا ہے؟

حالانکہ آیت نمبر33 سورہ نمبر33( احزاب) میں خدا آں حضرت(ص) کی تمام بیویوں سے خطاب فرماتا ہے۔

"وَ قَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَ لا تَبَرَّجْنَ‏ تَبَرُّجَ الْجاهِلِيَّةِ الْأُولى‏"

یعنی اپنے اپنے گھروں میں سکون سے بیٹھو اور پہلے زمانہ جاہلیت کی طرح بنائو سنگار نہ دکھائو۔

چنانچہ آں حضرت(ص) کی دوسری بیویوں نے اس حکم کی پابندی بھی کی اور بخیر کسی ضروری کام کے گھر سے باہر قدم نہیں رکھتی تھیں یہاں تک کہ اعمش نے بھی اس کی روایت کی ہے۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394