پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 324723 / ڈاؤنلوڈ: 8601
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سودہ زوجہ رسول(ص) کی گفتگو

چنانچہ صحاح کے اندر اور آپ کے محدثین و مورخین کی کتابوں میں درج ہے کہ سودہ زوجہ رسول خدا(ص) سے لوگوں نے کہا کہ تم حج وعمرہ کیوں نہیں کرتیں اور اس سعادت عظمی سے کس لیے محروم ہو؟ سودہ نے جواب دیا کہ مجھ پر ایک مرتبہ حج واجب تھا اس کو بجالائی، اب اس کے بعد میرا حج و عمرہ حکم خداوندی کی اطاعت ہے کیونکہ اس کا ارشاد ہے "وَ قَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ " ( یعنی اپنے گھروں میں سکون سے بیٹھو ۱۲ مترجم) بس میں اس کی تعمیل میں گھر سے باہر نہیں نکلوں گی بلکہ میرا تو ارادہ یہ ہے کہ جس حجرے میں رسول اللہ(ص) مجھ کو بٹھا گئے ہیں حتی الامکان اس سے بھی قدم باہر نہ رکھوں گی یہاں تک کہ مرجائوں ( چنانچہ انہوں نے کیا بھی یہی کہ گھر سے باہر نہیں نکلیں ان کا جنازہ ہی باہر نکلا)

ہمارے لیے سودہ یا عائشہ اور ام سلمہ میں کوئی فرق نہیں سبھی پیغمبر(ص) کی بیویاںاور امہات المومنین ہیں۔ البتہ ان کے اعمال کے لحاظ سے فرق ہے۔

امت کے نزدیک عائشہ و حفصہ کا جو احترام ہے وہ اس وجہ سے نہیں کہ ابوبکر و عمر کی بیٹیاں تھیں( اگر چہ آپ اسی جہت سے احترام کرتے ہیں) بلکہ اس لیے ہے کہ رسول اللہ(ص) کی زوجہ اور شریک حیات تھیں۔ لیکن ازواج رسول(ص) کو فخر و شرف اسی وقتحاصل ہوگا جب وہ متقی اور پرہیز گار ہوں جیسا کہ آیت نمبر۳۱ سورہ نمبر۳۳ ( احزاب) میں صاف صاف ارشاد ہے۔

"يا نِساءَ النَّبِيِ‏ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ ."

جس کا مطلب یہ ہے کہ اے زنان پیغمبر(ص) تم کسی دوسری عورت کے مانند نہیں ہو ( یعنی شرافت فضیلت کی حیثیت سے سب پر فوقیت رکھتی ہو) لیکن شرط یہ ہے کہ خدا ترسی اور پرہیز گاری اختیار کرو۔

علی علیہ السلام سے عائشہ کی مخالفت اور جنگ

پس سودہ رسول اللہ(ص) کی ایک متقی اور مطیع و فرمانبردار بیوی تھیں، اور عائشہ آں حضرت(ص) کی و سرکش زوجہ تھیں جو طلحہ و زبیر کے فریب میں آکر( یا حضرت علی علیہ السلام سے اپنے ذاتی بغض و عداوت کی بنا پر) بصرہپہنچیں جہاں علی علیہ السلام کی طرف سے والی بصرہ اوربزرگ صحابی عثمان ابن حنیف کو گرفتار کر کے ان کے سر اور چہرے کے سب بال اکھاڑ ڈالے گئے۔ تازیانوں کی زبردست مار دے کر ان کو نکال دیااور بیچارے سو(۱۰۰) نفر سے زیادہ نہتے لوگوں کو قتل کردیا گیا۔ چنانچہ ابن اثیر، مسعودی، محمد بن جریر طبری اور ابن ابی الحدید وغیرہ سب نے سب اس کو تفصیل سے لکھا ہے۔

۱۴۱

اس کے بعد عسکرنامی اونٹ پر سوار ہو کر جس کو تیندوے کی کھال اور زرہ پہنائی گئی تھی ایک( زمانہ جاہلیت کے ) جنگی سپاہی کے میدان میں آگئیں اور محض ان کی بغاوت کی وجہ سے ہزاروں مسلمانوں کے خون بہہ گئے۔ آیا یہ داغ نہیں تھا کہ بے حیثیت اور خدا ناشناس لوگ اپنی عورتوں کو تو گھروں کے اندر پردے میں بٹھائیں لیکن رسول خدا(ص) کی بیوی کو اس نصیحت و رسوائی کے ساتھ مجمع عام میں لا کھڑی کریں۔

آیا یہ اقدام خدا و رسول(ص) کے حکم سے سرتابی نہیں تھا؟

فضائل علی(ع) شمار سے باہر ہیں

اور وہ بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ایسی بزرگ شخصیت کے مقابلے میں جس کے فضائل و مناقب میں خود آپ کے اکابر علماءنے اتنی کثرت سے روایتیں نقل کی ہیں کہ ان کا شمار و احصار و شواہد ہے۔

چنانچہ امام احمد ابن حنبل مسند میں، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں، امام فخرالدین تفسیر کبیر میں خطیب خوارزمی مناقب میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب۶۴ میں اور میر سید علی ہمدانی شافعی مودۃ القربی مودت پنجم میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب اور جرامت عبداللہ بن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلعم نے علی علیہ السلام سے فرمایا:

" لو انّ‏ البحر مداد و الغياض اقلام و الإنس كتّاب و الجنّ حسّاب ما احصوا فضائلك يا ابا الحسن"

یعنی اگر سمندر روشنی بن جائے، درخت قلم بن جائیں، سارے انسان لکھنے والے ہوں اور پوری قوم جن حساب کرنے والی ہو تب بھی اے ابو الحسن(ع) تمہارے فضائل کا شمار نہیں کرسکتے۔

جن بزرگوار کے حق میں جناب رسالت ماب ایسے کلمات ارشاد فرمائیں کہ تمام جن و انس مل کر بھی ان کے فضائل کا حساب نہیں کرسکتے تو بھلا ہم لوگ اپنی کند زبانوں اور شکستہ قلموں سے آپ کے مراتب و مناقب عالیہ کا حصر کیونکر کرسکتے ہیں؟

پھر بھی جہاں تک طاقت و قدرت تھی اکابر علمائے شیعہ کے علاوہ خود آپ کے علماء نے باوجود اپنے پورے تکلف کے اور بعض نے اپنے انتہائی تعصب کے بعد بھی جیسے قوشجی ، ابنحجر اور روز یہاں وغیرہ نے حضرت علی(ع) کا لا تعداد لا تحصی فضائل میں سے صرف ایک جز کو درج کر کے اپنی کتابوں کو بھر دیا ہے۔

۱۴۲

علی(ع) کے فضائل و مناقب میں روایتیں

آپ صحاح ستہ کو غور سے ملاحظہ فرمائیے۔ ان کے علاوہ مودت القربی پر سید علی ہمدانی ، معجم طبرانی، مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی، مسند وفضائل امام احمد بن حنبل جمع بین الصحیحین حمیدی مناقب اخطب الخطباء خوازرمی، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد دوم ص۴۴۹ اور فصول المہمہ ابن صباغ مالکی بالخصوص ص۱۲۴ میں کتاب معالم العترۃ النبویہ حافظ عبدالعزیزبن الاخضر الجنابذی سے بروایت جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا میرے پدر بزرگوار حضرت رسول خدا(ص) عرفہ کی شام کو ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:

" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ َو جَل بَاهَى‏ بِكُمْ‏ الملَائِکةَعَامَّةً وَ غَفَرَ لَكُمْ عَامَّةً وَ لِعَلِيٍّ خَاصَّةً وَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ غَيْرَ مُحَابٍ لِقَرَابَتِي هَذَا جَبْرَئِيلُ يُخْبِرُنِي أَنَّ السَّعِيدَ كُلَّ السَّعِيدِ حَقَّ السَّعِيدِ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً فِي حَيَاتِهِ وَ بَعْدَ مَوْتِهِ وَ إِنَّ الشَّقِيَّ كُلَّ الشَّقِيِّ حَقَّ الشَّقِيِّ مَنْ أَبْغَضَ عَلِيّاً فِي حَيَاتِهِ وَ بَعْدَ ممَاَتِهِ."

یعنی خدائے عزوجل فرشتوں کے سامنے بالعموم تم لوگوں پر فخر کرتا ہے اور بالعموم تم لوگوں کوبخش دیا ہے اور خصوصیت کے ساتھ علی(ع) کو اور میں جو کہ خدا کا رسول(ص) ہوں بغیر رشتے اور قرابت والے جذبہ محبت کے کہتا ہوں کہ در حقیقت پوری سعادت کے ساتھ سعید و نیک بخت وہی ہے جو علی(ع) کو ان کی زندگی میں اور وفات کے بعد دوست رکھے اور پوری شقاوت کے ساتھ شقی و بد بخت دہی ہے جو علی(ع) سے ان کی زندگی میں اور موت کے بعد بغض رکھے۔

انہیں کتابوں میں ایک مفصل حدیث جس کو غالبا میں گذشتہ شبوں میں عرض بھی کرچکاہوں۔ خلیفہ عمر ابن خطاب سے وہ رسول اللہ(ص) سے نقل کرتے ہیں جس کے آخر میں علی علیہ السلام سے فرمایا:

"كَذَبَ‏ مَنْ‏ زَعَمَ‏ أَنَّهُ‏ يُحِبُّنِي‏ وَ هو مُبْغِضُكَ يَا عَلِيُّ مَنْ اَحبَّکَ فقَد اَحبَّنی وَمَن اَحبَّنیفَقَد اَحَبّه اللهُ وَمَن اَحَبّه اللهُ اَدخَلهُ الجَنَّة وَ مَنْ أَبْغَضَكَ فَقَدْ أَبْغَضَنِي وَ مَنْ أَبْغَضَنِي فَقَدْ أَبْغَضَ اللَّهَ وَ أَدْخَلَهُ النَارَ."

یعنی جھوٹا ہے وہ شخص جو اے علی(ع) تم کو دشمن رکھتا ہو اور پھر میری دوستی کا دعوی کرے، اے علی(ع) جس نے تم کو دوست رکھا اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جسنے مجھ کود وست رکھا اس کو خدا دوست رکھتا ہے اور جسکو خدا دوست رکھتا ہے اس کو جنت میں داخل کرتا ہے۔ اور جس نے تم کو دشمن رکھا اس نے مجھ کو دشمن رکھا اور جس نے مجھ کو دشمن رکھا اس کو خدا دشمن رکھتا ہے اور دوزخ میں ڈل دیتا ہے۔

۱۴۳

علی(ع) کی دوستی ایمان اور آپ(ع) کی دشمنی کفر و نفاق ہے

نیز کتاب الآل ابن خالویہ سے بروایت ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے علی(ع) سے فرمایا :

"حبّک‏ إيمان‏، و بغضک نفاق و اول من يدخل الجتة مجبک و اول من يدخل النار مبغضک."

یعنی اے علی(ع) تمہاری محبت ایمان اور تمہاری عداوت نفاق ہے، اور سب سے پہلے جو شخص جنت میں داخل ہوگا، وہ تمہارا دوست ہوگا اور سب سے پہلے جو شخص جہنم واصل ہوگا وہ تمہارا دشمن ہوگا۔

میرسید علی ہمدانی شافعی مودت القربی مودت سیم میں اور حموینی فرائد میں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے اصحاب کے درمیان فرمایا:

"لا يحب عليا الا مومن و لا يبغضه الا کافر"

یعنی علی(ع) کو دوست نہیں رکھتا لیکن مومن اور ان کو دشمن نہیں رکھتا لیکن کافر۔

اور دوسرے مقام پر فرمایا:

" لا يحبك‏ الّا مؤمن و لا يبغضك الامنافق"

یعنی اے علی(ع) تم کو دوست نہیں رکھتا لیکن مومن اور دشمن نہیں رکھتا لیکن منافق۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۶۲ ص۱۱۹ میں تاریخ دمشق، محدث شام اور محدث عراق سے اور انہوں نے حذیفہ اور جابر سے روایت نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

" عَلِيٌ‏ خَيْرُ الْبَشَرِ مَنْ أَبَى فَقَدْ كَفَرَ.."

یعنی علی(ع) بہترین بشر ہیں، جو شخص اس سے انکار کرے وہ کافر ہے۔

نیز عطا سے روایت کی ہے کہ لوگوں نے عائشہ سے علی(ع) کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا:

"ذَاكَ‏خَيْرُالْبَشَرِ، لاَ يَشُكُّ "( یعنی یہ بترین بشر ہیں، اس میں سوا کافر کے کوئی شک نہیں کرتا ۔)

اور کہتے ہیں کہ حافظ ابن عساکر اپنی تاریخ میں جس کو سو(۱۰۰) جلدیں ہیں اور ان میں سے تین جلدیں علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب میں ہیں پچاسویں جلد میں عائشہ سے اسی روایت کو نقل کیا ہے۔

محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص۱۷ میں اور ابن صباغ مالکی فصول المہمہ ترمذی اور نسائی سے اور وہ ابوسعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

"مَا كُنَّا نَعْرِفُ‏ الْمُنَافِقِينَ‏ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ص إِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيّاً "

یعنی ہم زمانہ رسول(ص) میں منافقین کو صرف علی(ع) کی عداوت سے پہنچانتے تھے۔

نیز فصول المہمہ میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم

۱۴۴

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے فرمایا:

"حربک حربی و دمک دمی و انا حارب لمن حاربک لا يحبك‏ إلّا طاهر الولادة، و لا يبغضك إلّا خبيث الولادةلا يحبك‏ الّا مؤمن و لا يبغضك الامنافق."

یعنی اے علی(ع) تم سے جنگکرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے، تمہارا خون میرا خون ہے اور جو شخص تم سے جنگ کرے اس سے میری بھی جنگ ہے۔ تم سے وہی محبت رکھتا ہے جو حلال زادہ ہے اور تم سے وہی بغض رکھتا ہے جو ولد الحرام ہو۔ تم کو دوست نہیں رکھتا مگر مومن اور تم کو دشمن نہیں رکھتا مگر منافق۔

شیخ : اس قسم کی حدیثیں صرف علی کرم اللہ وجہہ سے مخصوص نہیں، بلکہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہیں۔

خیر طلب: ممکن ہو تو ان حدیثوں میں سے کوئی نمونہ بیان فرمائیے تاکہ حقیقت کھل جائے۔

شیخ : عبدالرحمن ابن مالک مغول اپن سند کے ساتھ جابر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"لا يبغـضابابکر و عمر مومن و يحبهما منافق"

یعنی ابوبکر و عمر کا بغض مومن اور محبت منافق نہیں رکھتا۔

خیر طلب : آپ کے بیان سے پھر مجھ کو تعجب ہوا۔ کیا آپ پہلی شب کا یہ معاہدہ بھول گئے کہ ہم لوگ یکطرفہحدیثوں سے استدلال نہیں کریں گے؟ پھر بھی اگر آپ ایسا کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس قسم کے ضعیف و موضوع اور ناقابل قبول حدیثیں نہیں جن کے راوی جھوٹے اورجعلساز ہوں بلکہ صحیح الاسناد احادیث پیش کیجئے۔

شیخ : آپ نے طے کر لیا ہے جو حدیث بھی ہم سے سنیں گے اس کو اہانت کے ساتھ رد کریں گے۔

خیر طلب: مجھ کو افسوس ہے کہ تنہا میں نے ہی تردید نہیں کی ہے بلکہ خود آپ کے اکابر علماء نے بھی رد کیا ہے بہتر ہوگا کہ آپ میزان الاعتدلال ذہبی اور تاریخ خطیب بغدادی جلد دہم ص۲۳۶ کی طرف رجوع کیجئے تو نظر آئے کہ اکثر ائمہ جرح و تعدیل نے عبدالرحمن ابن مالک کے حالات میں نقل کیا ہے کہ انہ کذاباناک وضاع لا یشک فیہ احد۔ یعنی در حقیقت یہ ( عبدالرحمن) سخت جھوٹا، بڑا تہمت باندھنے والا اور بہت حدیثیں گڑھنے والا ہے جس میں کسی شخص کو بھی شک و شبہ نہیں۔

آپ کو خدا کا واسطہ انصاف سے بتائیے کہ آیا آپ کی یک طرفہ حدیث جو ایک دروغ گو اور جعل ساز شخص سے مروی ہے ان تمام احادیث وروایات کا مقابلہ کرسکتی ہے جو آپ کے اکابر علماء سے منقول ہیں اور جن میں سے بعض نمونے کے طور پر پیش کی جاچکی ہیں؟

مہربانی کر کے جامع الکبیر سیوطی جلد ششم ص۳۹۰، ریاض النظرہ محب الدین جلد دوم ص۲۱۵ جامع ترمذی جلد دوم ص۲۹۹، استیعاب ابن عبد البر جلد سیم ص۴۹، حلیتہ الاولیاء حافظ ابونعیم جلد ششم ص۲۹۵، مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی ص۱۷، اور فصول المہمہ ابن صباغ مالکی ص۱۲۶، کو ملاحظہ فرمائیے کہ ہر ایک نے مختلف عبارتوں کے ساتھ ابوذر غفاری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :

"ما كنّا نعرف‏ المنافقين‏ على عهد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله إلّابثلاث بتكذيبهم اللّه و رسوله،

۱۴۵

و التخلّف عن الصلوات، و بغضهم علي بن أبي طالب و عن ابی سعيد الخدری كنّا نعرف‏ المنافقين‏ إلّا ببغضهم عليّا و ما کنا نعرف المنافقين علی عهد رسول الله الا ببغضهم عليا."

یعنی ہم لوگ عہد رسول(ص) میں منافقین کو صرف تین علامتوں سے پہچانتے تھے، خدا و رسول(ص) کو جھٹلانے سے ، ترک نماز سے اور علی ابن ابی طالب(ع) کی عداوت سے ، اور ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ہم منافقین کو بغض علی(ع) سے پہچانتے تھے اور عہد رسول(ص) میں ہمارے پاس منافقین کی سوا اس کے اور کوئی پہچان نہیں تھی کہ وہ علی(ع) سے دشمنی رکھتے تھے۔

نیز امام احمد بن حنبل نے مسند جلد اول ص۹۵ و ص۱۳۸ میں، ابن عبدالبر نے استیعاب جلد سیم ص۱۳۷ میں، احمد خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد جلد چہاردہم ص۴۲۶ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۲۶۴ میں، امام نسائی نے سنن جلد ہشتم ص۱۱۷، او خصائص العلوی ص۲۷ میں، حموینی نے فرائد باب ۲۲ میں ابن حجر نے اصابہ جلد دوم ص۵۰۹ میں، حافط ابونعیم نے حلیتہ الاولیاء جلد چہارم ص۱۸۵ میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص۱۵، سیوطی نے جامع الکبیر ص۱۵۲، ص۴۰۸ میں، محمد ابن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص۱۷ میں اور ترمذی نےجامع جلددوم ص۱۳ میںمختلف عبارات کےساتھ کہیں ام سلمہ اور کہیں ابنعباس سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا :

" ياعلی ال يحبک منافق و لا يبغضک مومن لا يحبک الا مومن و لا يبغضک الا منافق ال يحب عليا المنافق و لا يبغضه مومن"

یعنی اے علی(ع) منافق تم سے محبت نہیں رکھتا اور مومن تم سے بغض نہیں رکھتا۔ تم کو دوست نہیں رکھتا۔ مگر مومن اور تم کو دشمن نہیں رکھتا مگر منافق، علی سے منافق محبت نہیں رکھتا اور مومن ان سے عداوت نہیں رکھتا۔

اور ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۳۶۴ میں شیخ معتزلہ شیخ ابوالقاسم بلخی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں :

"و قد اتفقت الاخبار الصحيحه التی لا ريب فيها عند المحدثين علی ان النبی قال له لايبغضک الا منافق و لا يحبک الا مومن"

یعنی اخبار صحیحہ کا اتفاق ہے اور تمام محدیثیں اس پر متفق ہیں کہ یقینا پیغمبر(ص) نے علی(ع) سے فرمایا کہ تم کو سوا منافق کے کوئی دشمن نہیں رکھتا اور سوا مومن کے کوئی دوست نہیں رکھتا۔

نیز جلد چہارم ص۲۶۴ میں امیرالمومنین علیہ السلام کا ایک خطبہ نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

"لو ضربت خيشوم المؤمن بسيفي هذا على أن يبغضني ما أبغضني، و لو صببت الدنيا بجملتها على المنافق أن يحبّني ما أحبّني، و ذلك أنّه قضي فانقضى على لسان النبيّ الامّي صلّى اللّه عليه و آله و سلّم: أنّه لا يبغضك مؤمن و لا يحبّك‏ منافق."

یعنی اگر میں اپنی اس تلوار سے مومن کی ناک پر ماروں کو مجھ کو دشمن رکھے تب بھی وہمجھ سے دشمن نہ رکھے گا اور اگر میں تمام دنیا منافق کو دے دوں کہ مجھ کو دوست رکھے تب بھی وہ مجھ کو دوست نہ رکھے گا۔ اور یہ وہی فیصلہ ہے جو زبان رسول(ص) پر جاری ہوچکا ہے کہ آپ نے فرمایا اے علی(ع) مومن تم سے بغض نہیں رکھتا اور منافق تم سے محبت نہیں کرتا۔

اس قسم کے اخبار و احادیث آپ کی معتبر کتابوں میں بکثرت سے مروی ہیں۔ میں نے وقت کے لحاظ سے یہ چند حدیثیں جو اس وقت پیش نظر تھیں عرض کردیں۔

۱۴۶

اب میں آپ حضرات سے حق کے نام پر سوال کرتا ہوں کہ علی علیہ السلام سے عائشہ کیبغاوت اور جنگ آیا رسول خدا(ص) سے جنگ نہیں تھی؟ آیا یہ لڑائی اور لوگوں کو علی علیہ السلام سے جنگ کرنے پر آمادہ کرنا خلوصو محبت اور دوستی کی وجہ سے تھا یا بغض و کینہ اور عداوت کی بنا پر؟ ظاہر ہے کہ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان محبت کے سبب سے جنگ ہوتی ہے لہذا قطعا بغض و عداوت کی وجہ سے تھی، تو ان تمام احادیث میں جن کا نمونہ پیش کیا گیا ہے کیا رسول اکرم(ص) نے علی(ع) سے دشمنی اور جنگ کرنے کو کفر ونفاق کی ایک علامت قرار نہیں دیا ہے؟ آیا ان اخبار و احادیث کو علی سے عائشہ کے مقابلے اور جنگ پر منطبق کرنے سے کیا نتیجہ نکلے گا؟

گذارش ہے کہ بغیر کسی طرفداری اور جذبہ محبتو عداوت کے از روئے انصاف سچا فیصلہ فرمائیے۔ عجیب چیز ہے کہ اس وقت مجھ کو ایک ایسی حدیث یاد آگئی جس کو نقیہ ہمدانی میر سید علی شافعی نے مودۃ القربی کی مودت سیم میں خود عائشہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ :

" أنّ اللّه قد عهد إليّ أنّ من‏ خرج‏ على‏ عليّ‏ عليه السّلام فهو كافر في النار"

یعنی بتحقیق اللہ نے قطعی طور پر مجھ سے قول و قرار فرمایا ہے کہ جو شخص بھی علی(ع) پر خروج اور بغاوت کرے وہ کافر ہے۔ اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

پھر تعجب یہ ہے کہ جب لوگوں نے ان پر اعتراض کیا کہ جب آپ پیغمبر(ص) سے ایسی بات سن چکی تھیں تو علی (ع) پر خروج کیوں کیا؟ تو یہ پھسپھسا عذر پیش کردیا کہ:

" نسيت هذا الحديث يوم الجمل حتّى ذكرته بالبصرة"

یعنی میں اس حدیث کو جنگ جمل کے روز بھول گئی تھی یہاں تک کہ بصرے میں یاد آئی۔

شیخ : حضرت آپ خود ایسا بیان دے رہے ہیں تو اب ام المومنین رضی اللہ عنہا پر کیا اعتراض ہے؟ بدیہی چیز ہے کہ انسان سہوو نسیان کا مرکز ہے۔

خیر طلب: اگر میں بھی مان لوں کہ جنگ جمل کے روز وہ اس حدیث کو بھول گئیں تھیں تو کیا جس روز مکہ معظمہ سے واپس ہو رہی تھیں اور تمام خیر خواہوں نے یہاں تک کہ رسول اللہ(ص) کی پاک باز بیویوں نے بھی ان کو منع کیا تھا کہ یہ بیجا حرکت نہ کرو اس لیے کہ علی(ع) سے مخالفت کرنا پیغمبر(ص) سے مخالفت کرنا ہے اس وقت بھی یہ حدیث یاد نہیں تھی؟

آیا آپ کے مورخین جنہوں نے واقعہ جمل تحریر کیا ہے متوجہ نہیں کرچکے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا تھا عائشہ اس راستے سے جس میں حوائب کے کتے تم پر بھونکیں۔ چنانچہ جب یہ بصرے جارہی تھیںاور چشمہ بنی کلاب پر پہنچیں تو کتوں نے چاروں طرف سے محمل کو گھیر لیا اور بھونکنا شروع کیا، انہوں نے پوچھا کہ یہ کون سا مقام ہے ؟ تو لوگوں نے جواب دیاکہ حوائب اس پر ان کو پیغمبر(ص) کا ارشاد یاد آگیا تھا تو پھر کس لیے طلحہ و زبیر کے فریب میں آئیں اور آگے بڑھتی گئیں، یہاں تک کہ بصرے پہنچ کر ایسا عظیم فتنہ برپاکردیا؟

آیا اس کے لیے بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ بھول گئی تھیں یا بالقصد و بالارادہ جان بوجھ کر یہ راستہ طے کیا؟ آیا یہ حقیقت میں ایک بہت بڑا دھبہ نہیں تھا جس نے ام المومنین عائشہ کا دامن آلودہ کردیا اور جو کسیپانی سے دھویا نہیں جاسکتا کیوںکہ انہوں نے

۱۴۷

سب سمجھتے ہوئے عمدا خدا و رسول(ص) کے حکم سے منہ موڑا ااور طلحہ و زبیر کی بات مان کے خلیفہ اور وصیرسول(ص) سے لڑنے کے لیے پہنچ گئیں باوجودیکہ خود بھی کہتی تھیں کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ جو شخص علی(ع) سے جنگ کرے اور ان پر خروج کرے وہ کافر ہے؟ آیا امیرالمومنین علیہ السلام سے جو رسول اللہ(ص) کے وصی اور خلیفہ تھے جنگ کرنا اور مسند خلافت پر بیٹھتے ہی آپ کے لیے پریشانی کے اسباب اور جنگی انقلاب پیدا کرنا آں حضرت صلعم کے لیے باعث تکلیف نہیں تھا ؟ کیا جیسا کہ میں گذشتہ شب مع اسناد کے عرض کرچکا ہوں حدیث میں نہیں ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"من‏ آذى‏ عليا فقد آذاني!! إن عليا أولكم إيماناً و أوفاكم بعهد اللَّه، يا أيها الناس من‏ آذى‏ عليا بعث يوم القيامة يهوديّاً أو نصرانياً."

یعنی جس نے علی(ع) کو ایذا دی اس نے یقینا مجھ کو ایذا دی اور جس نے مجھ کو ایذا دی اس نے در حقیقت خدا کو ایذا دی۔ اے گروہ ناس جس نے علی(ع) کو تکلیف پہنچائی وہ قیامت کے روز یہودی یا ںصرانی اٹھایا جائے گا۔

عائشہ کے حکم سے بصرے میں صحابہ اور بے گناہ مومنین کا قتل عام

جب یہ تمام روایتیں آپ کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں تو آپ کس حق سے شیعوں پر اعتراض فرماتے ہیں؟

آیا بے خطا مومنین کا خون، رسول اللہ(ص) کے محترم صحابیعثمان ابن حنیف کی زجر و توبیخ اور سو(۱۰۰) نفر سے زیادہ خزانے کے محافظین کا قتل جو غیر مسلح تھے اور جنگی سپاہیوں میں سے نہیں تھے اور جن سے چالیس اشخاص مسجد کے اندر مارے گئے، یہ سب جنگ کے محرک اور بانی کی گردن پر نہیں تھا؟

چنانچہ علامہ مسعودی نے مروج الذہب جلد دوم ص۷ میں اس عبارت کے ساتھ لکھا ہے :

" فقتل‏ منهم‏ سبعون‏ رجلا غير من جرح، و خمسون من السبعين ضرب رقابهم صبرا من بعد الاسر، و هؤلاء أول من قتل ظلما في الاسلام"

یعنی علاوہ ان لوگوں کے جو زخمی کئے گئے بیت المال کے نہتے محافظین میں سے ستر آدمیوں کو قتل کیا جن میں سے پچاس کی اسیری اور مجبوری کی حالت میں گردنیں ماری گئیں، اور یہ لوگ اسلام کے اندر سب سے پہلے ظلم کے ساتھ قتل کئے گئے۔

اور آپ کے علماء مورخیں میں سے ابن جریر اور ابن اثیر وغیرہ نے ان واقعات کو پوری تفصیل سے نقل کیا ہے ، اب آپ یا تو ان روایات کو اپنی معتبر کتابوں سے خارج کیجئے، جیسا کہ جدید مطبوعات میں آپ کے علماء تحریف سے کام لے رہے ہیں بلکہ بعض مطالب کو تو سرے سے غائب ہی کردیتے ہیں، اور اپنے علمائے اعلام و اکابر مورخین کو جھٹلائیے یا شیعوں پر طعن و تشنیع اور اعتراض کرنے سے باز آئیے کیونکہ شیعہ تو وہی کہتے ہیں جو آپ کی کتب معتبرہ میں درج ہوچکا ہے۔ خدا کی قسماس میں جماعت شیعہ کا کوئی قصور نہیں ہے، ہمارے اور آپ کے درمیان فرق صرف ؟؟؟؟؟ رہے کہ آپ اپنی معتبر کتب میں ان اخبار و احادیث کا سطحینظر سے مطالعہ کرتے ہیںاور حب الشی یعمی ویصم ( یعنی کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرا بنادیتی

۱۴۸

ہے۔۱۲ مترجم) کے مصداق تاریخ کے ان اہمواقعات کو اخبار کے مطابق نہیں کرتے، ہمیشہ محض حسنِ ظن اور بے موقع دفاع سے کام لیتے ہیں اور حقائق پر کوئی توجہ نہیں کرتے۔ یا اگر توجہ کرتے بھی ہیں تو پردہ پوشی کی کوشش کرتے ہوئے اس کی صفائی اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ پسر مردہ عورت بھی ہنس پڑے۔

لیکن ہم غیر جانبداری کے ساتھ منصفانہ اور گہری نظر ڈالتے ہیں اور کتب فریقین میں مروی اخبار و احادیث کو واقعات کے مطابق کر کے حقائق کا انکشاف کرتے ہیں۔ اس مطابقت میں بھی آپ کو جس مقام پر کوئی شبہ یا غلطی اور خود غرضی نطر آئیے۔منطقی اعتراض کے ساتھ اس کی تردید کر دیجئے میں انتہائی ممنوں ہوں گا۔

شیخ : آپ کے بیانات درست ہیں لیکن ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی انسان تھیں معصوم نہیں تھیں یقینا دھوکہ میں آکر ان سے ایک خطا سرزد ہوگئی۔ اپنی سادگی کی وجہ سے دو بڑے صحابیوں کے فریب میں آگئی تھیں لیکن بعد میں توبہ کر لی اور خدا نے بھی ان سے درگذر فرمائی۔

خیر طلب: اولا آپ نے اقرار کر لیا کہ کبار صحابہ خطار کار اور فریبی تھے حالانکہ حاضرین تحت شجرہ اور بیعت رضوان والوں میں سے تھے۔ پس آپ کی وہ حدیث جو صحابہ کی پاک دامنی کے لیے آپ پچھلی راتوں میں پیش کرچکے ہیں کہ سارے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی پیروی کی جائے ہدایت حاصل ہوجائی گی خود بخود باطل ہوجاتی ہے۔

دوسرے آپ نے فرمایا کہ ام المومنین عائشہ نے توبہ کرلی تو یہ محض دعوی ہی دعوی ہے۔ کیونکہ بغاوت و جنگ اور مسلمانوں کا قتل عام تو بالاتفاق ثابت ہے لیکن ان کی توبہ کا کوئی ثبوت نہیں لہذا اس کا سہارا نہیں لیا جاسکتا۔

امام حسن(ع)کو پیغمبر(ص) کے پاس دفن کرنے سے عائشہ کی ممانعت

البتہ یہ مسلم ہے کہ عائشہ کی طبیعت میں سکون نہیں تھا، ان سے پے در پے طفلانہ حرکتیں سرزد ہوتی رہیں جنمیں سے ہر ایک نے ان کی تاریخ زندگی کو فاسد بنایا۔ بقول آپ کے اگرتوبہ کر لی تھی اور پشیمان ہو کر خاموش بیٹھ گئی تھیں تو پھر کس لیے بعد کو سبط رسول(ص) امام حسن علیہ السلام کے جنازے کے ساتھ ایسا سلوک کیا اور ایسا فساد برپا کیا جس سے ہر سننے والا بغیر متاثر ہوئے نہیں رہتا؟

فقط یہی نہیں کہ رسول اللہ(ص) کو رنجیدہ اورآرزدہ کرتیتھیں یا زمانہ جاہلیت کی عورتوں کی طرح اونٹ پر سوار ہوکر پیغمبر(ص) کے وصی اور خلیفہ سے لڑنے جاتی تھیں جس سے ہم کہہ سکیں کہ صرف زندہ افراد سے ضد اور مخالفت رکھتی تھیں، بلکہ خچر پر سوار ہو کر رسول خدا(ص) کے بڑے نواسے حضرت امام حسن علیہ السلام کے جنازے کا راستہ بھی روکا چنانچہ آپ کے اکابر علماء مورخین بالخصوص یوسف سبط ابن جوزی نے تذکرہ خواص الامہ ص۱۲۲ میں، علامہ مسعودی صاحب مروج الذہب نے اثبات الوصیہ ص۱۳۶ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۱۸ کے شروع میں ابو الفرج اور یحیی بن الحسن صاحب کتاب النسب سے نقل کرتے ہوئے خداوند شاہ نے

۱۴۹

روضتہ الصفا جلد دوم میں واقدی نے ، متوفی احمد بن محمد حنفی نے ترجمہ تاریخ اعثم کوفی میں، ابن شخنہ نے روضتہ المناظر میں، اور ابو الفداء وغیرہ نے اپنی تاریخوں میں نقل کیا ہے کہ جس وقت حضرت کا جنازہ لے چلے تو عائشہ خچر پر سوار ہو کر بنی امیہ اور ان کے غلاموں کی ایک جماعت کے ساتھ لیے ہوئے سد راہ ہوئیں اور کہا کہ ہم امام حسن(ع) کو قبر رسول (ص) کے پہلو میں دفن نہ کرنے دیں گے۔

بروایت مسعودی ابن عباس نے کہا کہ عائشہ تمہارے حال پر تعجبہے :

"اما كفاك‏ أن‏ يقال‏ يوم‏ الجمل‏ حتى يقال يوم البغل؟ يوما على جمل و يوما على بغل بارزة عن حجاب رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله تريدين إطفاء نور اللّه؛ و اللّه متمّ نوره و لو كره المشركون، انّا للّه و انّا إليه راجعون."

یعنی آیا تمہارے لیے روز جمل کی شہرت کافی نہیں ہوئی تھی، ( یعنی اونٹ پر سوار ہو کر میدان جنگ میں نکل پڑیں) یہاں تک کہ لوگ یوم بغل کا ذکر کریں( یعنی خچر پر سوار ہوکر فرزند رسول(ص) کا جنازہ روکا) تمنے کبھی خچر پر بیٹھ کر حجاب پیغمبر(ص) کو چاک کر دیا یا تمہارا عزم ہے کہ اللہ کے نور کو بجھا دو حالانکہ خدا اپنے نور کو کامل کرنےوالا ہے چاہے مشرکین کو ناگوار ہی ہو یقینا ہم اللہ کے لیے ہیں اور یقینا ہم کو اسی کی طرف پلٹ کے جانا ہے۔

اور بعض نے لکھا ہے کہ ان سے یہ فرمایا:

تجملت‏تبغلت‏و لو عشت تفيلتلك الثمن من التسع‏و في الكل تطمعت

یعنی تم کبھی اوںٹ پر سوار ہوئیں کبھی خچر پر، اور اگر زندہ رہوگی تو ہاتھی پر بھی سوار ہوگی۔ تمہارا آٹھویں حصے میں سے صرف نواں حصہ ہے لیکن سب پر قابض ہوگئیں۔

بنی ہاشم نے چاہا کہ تلوار کھینچ کر ان لوگوں کودفع کریں لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام مانع ہوئے اور فرمایا میرے بھائی نے وصیت فرمائی ہے کہ میں اس پر راضی نہیں ہوں کہ میرے جنازے کے پیچھے ایک فصد کے برابر بھی خون ریزی ہو، چنانچہ آپ کے حکم سے جنازہ واپس لائے اور بقیع میں دفن کیا۔

شہادت امیرالمومنین (ع) پر عائشہ کا سجدہ اور اظہار مسرت

اگر یہ صحیح ہے کہ عائشہ نے توبہ کر لی تھی اور امیرالمومنین(ع) سے جنگ کرنے پر نادم تھیں تو حضرت کی خبر شہادت سننے کے بعدسجدہ شکر کیوں بجالائیں؟ جیسا کہ ابو الفرج اصفہانی صاحب اغالی نے مقاتل الطالبین میں حضرت کے حالات بیان کرتے ہوئے آخر میں نقل کیا ہے کہ "لما جاء عائشه قتل اميرالمومنين علی سجدت "( یعنی جب عائشہ کو قتل و شہادت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی خبر ملی تو انہوں نے (شکر کا) سجدہ کیا۔)

اگر واقعی توبہ کر لی تھی اور پشیمان تھیں تو حضرت کی خبر شہادت سن کر مسرت وشادمانی کا اظہار کس لیے کیا؟ جیسا کہ محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ حوادث سنہ۴۰ ہجری میں اور ابوالفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبین آخر حالات حضرت علی علیہ السلام میں روایت کی ہے جس وقت ان کو ایک غلام نے حضرت کی شہادت سے مطلع کیا تو انہوں نے کہا:

فالقف عصاها واستفرت بها النوی کما فر عيناه بالاياب السافر

۱۵۰

القاء عصاء اطمینان قلب اور خاطر جمعی کا کنایہ ہے بعنی جس وقت کسی مخصوص موقع پر کسی شخص کے دل کو اطمینان اور دماغ کو سکون حاصل ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے القی عصاہ (جیساکہ مسکویہ نے تجارب الامم اور میری نے حیات الحیوان میں بیان کیا ہے) یہ شعر پڑھنے سے عائشہ کا مطلب یہ تھا کہ علی(ع) کے بارے میں میرے خیالات کو تسکین میرے دل کو فرحت اور میرے دماغ کو آسودگی حاصل ہوگئی اس لیے کہ میں اسی اطلاع کی منتظر تھی، جیسے کوئی شخص اپنے مسافر کی واپسی کا انتظار کر رہا ہو اور اس کے آجانے پر اس کی آںکھیں روشن اور دل باغ باغ ہوجائے اس کے بعد خبر لانے سے دریافت کیا کہ کس نے ان کو قتل کیا؟ جواب ملا کہ قبیلہ بنی مراد کےعبدالرحمن ابن ملجم نے تو فورا کہا:

فان يک نائبا فلقد نغاه غلام ليس فی فيه التراب

یعنی اگر علی(ع) مجھ سے دور ہیں تو ان کی موت کی خبر وہ غلام لایا ہے جس کے منہ میں خاک نہ ہو۔

زینب دختر ام سلمہ موجود تھیں انہوں نے کہا۔ آیا علی(ع) کے بارے میں تم کو اس طرح خوش ہونا اور ایسی باتیں کہہ کے اظہار مسرت کرنا مناسب ہے؟ انہوں نے دیکھا کہ یہ تو برا ہوا لہذا جواب دیا کہ میں آپے میں نہیں تھی اور بھول چوک میں اس قسم کے الفاظ کہہ ریئے، چنانچہ اگر پھریہ کیفیت مجھ پر طاری ہو اور یہ باتیں دہرائوں تو مجھ کو یاد دلا دینا تاکہ باز رہوں۔

بہتر ہوگا کہ آپ حضرات محبت و عداوت کے جذبات کو الگ رکھ کے عبرت حاصل کریں تو معلوم ہو کہ مسئلہ توبہ کی کوئی حقیقت نہ تھی بلکہ یہ مرتے دم تک اپنی دشمنی پر قائم رہیں، ورنہ اظہار مسرت اور سجدہ شکر کیوں کرتیں؟ حضرات ! ان افعال کو کس چیز پرمحمول کیجئے گا؟ کیا اس کے علاوہ اور کوئی مطلب نکل سکتا ہے کہ ام المومنین عائشہ عقل کی اوچھی عورت تھیں اور زندگی بھر چین سے نہیں بیٹھیں؟ اس وقت مجھ کو ایک اوربات یاد آگئی ، آپ حضرات شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں اور ان کو عداوت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ خلیفہ سوم عثمان پر نکتہ چینی کیوں کرتے ہیں اور ان کے وہ مطاعن جن کو خود آپ کے علماء نے بھی نقل کیا ہے کیوں بیان کرتے ہیں؟

عثمان کی نسبت عائشہ کے متضاد فقرے

اگر یہی بات ہے و آپ کو ام المومنین عائشہ سے بھی حسن ظن نہ رکھنا چاہئیے اس لیے کہ بالعموم آپ کے اکابر علماء مورخین جیسے ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۷۷ میں، مسعودی نے کتاب اخبار الزمان اور اوسط میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص۳۶ میں، نیز ابن جریر، ابن عساکر اور ابن اثیر وغیرہ نے لکھا ہے کہ ام المومنین عائشہ برابر عثمان کی بدگوئی کرتی رہتی تھیں یہاں تک کہ آواز دیتی تھیں "اقتلوا نعثلا قتله الله فقد کفر " یعنی نعثل ( عثمان) کو قتل کردو، خدا اس کو قتل کرے کیونکہ بتحقیق یہ کافر ہوگیا ہے) لیکن جیسے ہی عثمان قتل ہوئے تو علی علیہ السلام سے اپنے کینے اور عداوت کی بناء پر

۱۵۱

کہنے لگیں "قتل عثمان مظلوما والله لاطلبن بدمه فقوموا " ( یعنی عثمان مظلوم قتل ہوئے، خدا کی قسم میں ان کے خون کا مطالبہ کروں گی پس میری حمایت میں اٹھ کھڑے ہو)

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں :

" أن‏ عائشة كانت‏ من أشد الناس على عثمان حتى إنها أخرجت ثوبا من ثياب رسول الله ص فنصبته في منزلها و كانت تقول للداخلين إليها هذا ثوب رسول الله صلی الله عليه و آله لم يبل و عثمان قد أبلى سنته."

یعنی در حقیقت عائشہ تمام لوگوں سے زیادہ عثمان کی دشمن تھیں، یہاں تک کہ رسول اللہ(ص) کا پیراہن نکال کے اپنے گھر میں لٹکا دیا تھا اور آنے والوں سے کہتی تھیں کہ ابھی رسول اللہ(ص) کا پیراہن بوسیدہ نہیں ہوا اور عثمان نے آںحضرت(ص) کی سنت کو فرسودہ اور بیکار بنا دیا۔

نیز ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ جس وقت مکے میں عائشہ کو قتل عثمان کی خبر ملی تو کہا:

"أبعده‏ الله‏ ذلك بما قدمت يداه و ما الله‏ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ."

یعنی خدا ان کو اپنی رحمت سے دور کرے، یہ انہیں کی کرتوت کا نتیجہ ہے، اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔

آپ خلیفہ عثمان کے حق میں عائشہ سے بغیر کسی دلیل کے اس قسم کے الفاظ سنتے ہیں اور قطعا کوئی اثر نہیں لیتے لیکن یہی باتیں اگر بے چارے شیعوں کی زبانسے نکلیں تو آپ فورا رفض اور کفر کا حکم لگا کر ان کا قتل واجب جانتے ہیں۔

انسان کی نظر بے لوث ہونا چاہئیے کیونکہ بدگمانی ہی سے ساری خرابیان پیدا ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت مسلم ہے کہ ام المومنین عائشہ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی طرف سے شدید کینے اور عداوت کا جذبہ رکھتی تھیں، چنانچہجس وقت یہ سنا کہ مسلمانوں نے حضرت سے بیعت کر لی تو کہا:

" لوددت إن السماء انطبقت على الارض ، ثمّ ان اتم هذا قتلوا ابن‏ عفّان‏ مظلوما."

یعنی میرے نزدیک آسمان کو زمین پر پھٹ پڑنا بہتر ہے اگر میں اس ( خلافت ) کو مکمل ہوجانے دوں، ابن عفان (عثمان) کو مظلوم قتل کیا۔

آیا اس قسم کے مختلف اور متضاد جملے ام المومنین عائشہ کے تلون مزاج کو ثابت نہیں کرتے؟

شیخ :ام المومنین عائشہکے طرز عمل اور رفتار و گفتار میں ایسے اختلافات کثرت سے منقول ہیں لیکن دو چیزیں مسلم اور ثابت ہیں۔

ایک یہ کہ عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کو لوگوں نے فریب دیا اور وہ اس روز علی کرم اللہ وجہہ کے مرتبہ ولایت کی طرف متوجہ نہیں تھیں جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے کہ میں بھول گئی تھی اور مجھ کو بصرے میں یاد آیا۔

دوسرے توبہ کرنی تھی لہذا قطعا خداوند عالم پچھلی غلطیوں کو معاف کر کے ان کو بہشت کے بلند درجات میں جگہ دیگا۔

خیر طلب : توبہ کے موضوع پر میں بار بار اپنی گفتگو نہیں دہرائوں گا اور یہ نہیں پوچھوں گا کہ اتنے زیادہ بے گناہ مسلمانوں کا خون بہائے جائے، ان کی ہتک حرمت کئے جانے اور ان کے اموال تاخت و تاراج کئے جانے کے بعد کیوںکر ممکن ہے کہ بغیر محاکمے اور باز پرس کے چھٹی مل جائے؟ یہ صحیح ہے کہ خدا ارحم الراحمین ہے لیکن

" فِي‏ مَوْضِعِ‏ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ، وَ أَشَدُّ الْمُعاقِبِينَ فِي مَوْضِعِ النَّكالِ وَ النَّقِمَةِ"

یعنی خدا عفو و رحمت کے موقع پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اورعذاب و عقوبت کے

۱۵۲

محل پر سب سےزیادہ سخت سزا دینے والا بھی ہے۔

اس کے علاوہ ان کو خود مرتے دم اعتراف رہا کہ وہ عمدا ان واقعات و حوادث کی باعث ہوئیں۔ اور اسی وجہ سے جیسا کہ آپ کے اکابر علماء نے نقل کیا ہے وصیت کی تھی کہ مجھ کو پیغمبر(ص) کے پہلو میں دفن نہ کرنا اس لیے کہ میں خود جانتی ہوں کہ میں نے آں حضرت(ص) کے بعد کون کون سے حادثات رونما کئے ہیں چنانچہ حاکم نے مستدرک میں، ابن قتیبہ نے معارف میں، محمد بن یوسف زرندی نے کتاب اعلام بسیرۃ النبی میں اور ابن البیع نیشاپوری وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ عائشہ نے عبداللہ ابن زبیر کو وصیت کی :

"ادفونی مع اخواتی بالبقيع فانی قد احدث امورا بعده"

یعنی مجھ کو بقیع کے اندر میری بہنوں کے پہلو میں دفن کرنا اس لیے کہ میں نے رسول اللہ(ص) کے بعد نئی نئی باتیں پیدا کی ہیں۔

اور آپ جو یہ فرمایا ہے کہ ام المومنین پر نسیان طاری تھا، فضائل علی(ع) کی حدیثوں کو بصرے میں یاد کیا اور اسی بنا پر پیغمبر(ص) کی ممانعت بھی بھول گئی تھیں، تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے بہتر ہوگا کہ اپنے اکابر علماء کی معتبر کتب کا مطالعہ کیجئے تاکہ اس حسن ظن کی حقیقت واضح ہوجائے، خصوصیت کے ساتھ ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۷۷ کو پڑھئیے تو اصلیت کا پتہ چل جائے۔

اب میں مطلب روشن ہونے کے لیے اس کتاب کے بعض مندرجات کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔

عائشہ کو ام سلمہ کی نصیحتیں

ابن ابی الحدید نے تاریخ ابی مخنف لوط بن یحیی ازدی سے نقل کیا ہے کہ اس موقع پر ام المومنین ام سلمہ بھی بسلسلہ حج مکہ معظمہ میں موجود تھیں، جب انہوںنے سنا کہ عائشہ عثمان کی خون خواہی کے لیے اٹھی ہیں اور بصرہ جارہی ہیں تو بہت متاثر ہوئیں اور ہر مجمع میں علی علیہ السلام کے فضائل ومناقب بیان کرنے لگیں۔ عائشہ ام کے پاس آئیں تاکہ ان کو فریب دے کر اپنا شریک کار بنالیں تب بصرہ روانہ ہوں۔

ام سلمہ نے فرمایا کہ تم کل تک تو عثمان کو اس قدر گالیاں دیتی تھیں ، ان کی مذمت کرتی تھیں، اور ان کو نعثل کہتی تھیںاور اب انہیں کے خون کا قصاص لینے کے لیے علی علیہ السلام کے مقابلے میں اٹھی ہو۔ کیا تم ان حضرت کے فضائل سے آگاہ نہیں ہو؟ اگر بھول گئی ہوتو میں اب پھر یاد دلاتی ہوں۔

عائشہ کو فضائل علی علیہ السلام کی یاد دہانی

یاد کرو کہ ایک روز میں رسول خدا(ص) کے ہمراہ تمہارے حجرے میں آئی تھی کہ اتنے میں علی(ع) بھی آگئے اور پیغمبر(ص) سے کچھ خفیہ باتیں کرنے لگے جب اس سرگوشی میں دیر لگی تو تم ان حضرت کو سخت و سسنت کہنے کے لیے اٹھیں، میں نے منع بھی کیا لیکن تم نے دھیان

۱۵۳

نہیں دیا اور ان بزرگوار پر غصہ دکھاتے ہوئے کہا کہ نو دنوں میں سے ایک دن میری باری کا ہے اس میں بھی تم آگئے اور پیغمبر(ص) کو مشغول کر لیا، اس پر رسول اکرم(ص) اس قدر غضبناک ہوئے کہ چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور تم سے فرمایا:

"ارجعى‏ ورائك‏ و اللّه لا يبغضه أحد من أهل بيتي و لا من غيرهم من الناس إلّا و هو خارج من الايمان، "

یعنی پیچھے ہٹو، خدا کی قسم کوئی میرا گھر والا ہو یا غیر شخص اگر علی(ع) سے بغض رکھے گا تو وہ قطعا ایمان سے خارج ہے۔

پس تم نادم اور شرمندہ ہو کر لوٹ آئی تھیں!عائشہ نے کہا ہاں مجھ کو یاد ہے ۔ ام سلمہ نے فرمایا یاد کرو ایک روز تم پیغمبر(ص) کا سرمبارک دھو رہی تھیں اور میں حیس ( ایک قسم کا کھانا) تیار کر رہی تھی، آں حضرت (ص) نے سر مبارک بلند کر کے فرمایا کہ تم دونوں میں سے اونٹ پر بیٹھنے والی گنہ گار عورت کون ہے جس پر حواب کے کتے بھونکیں گے اور وہ پل صراط پر منہ کے بل گرے گی؟ میں نے حیس کو چھوڑ دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ(ص) میں ایسے کام سے اللہ اور اس کے رسول(ص) سے پناہ مانگتی ہوں۔ اس کے بعد آن حضرت(ص) نے تمہاری پیٹھ پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ بچو اس سے کہ یہ حرکت کرنے والی عورت تمہیں ہو!عائشہ نے کہا ہاں مجھ کو یاد ہے۔

ام سلمہ نے کہا میں تم کو یاد دلاتی ہوں کہ ایک سفر میں ہم دونوں پیغمبر(ص) کے ہمراہ تھیں ایک روز علیعلیہ السلام پیغمبر صلعم کی کفشین سی رہے تھے اور ہم دونوں ایک درخت کے سائے میں بیٹھی تھیں۔ اتفاق سے تمہارے باپ ابوبکر اور عمر نے آکر اجازت چاہی میں اور تم پردے میں چلی گئیں اور یہ لوگ بیٹھ گئےتھوڑی گفتگو کے بعد انہوں نے کہا یا رسول اللہ(ص) :

" يا رسول اللّه إنا لا ندرى‏ قدر ما تصحبنا فلو أعلمتنا من يستخلف علينا ليكون بعدك لنا مفزعا، فقال لهما: أما أنّى أرى مكانه و لو فعلت لتفرّقتم عنه كما تفرّقت بنو اسرائيل عن هارون بن عمران، فسكتا ثمّ خرجا"

مطلب یہ کہ ہم لوگ آپ کی مصاحبت کی قدر نہیں جانتے پس ہماری خواہش ہے کہ ہم سے بتائیے کہ ہم پر آپ کا خلیفہ اور جانشین کون ہوگا تاکہ آپ کےبعد وہ ہمارے لیے فریاد رس اور پناہ گاہ ہو، آں حضرت(ص) نے ان دونوں (ابوبکر و عمر) سے فرمایا میں اس کے مقام اور منزل کو دیکھ رہا ہوں لیکن اگر عملا ایسا کروں اور اس کو پہنچوادوں تو تم لوگ اس کو چھوڑ کے الگ ہوجائو گے جس طرح بنی اسرائیل ہارون کو چھوڑ کر الگ ہوگئے تھے۔ پس وہ دونوں خاموش ہو کر چلے گئے ۔

ان دونوں کے جانے کے بعد ہم لوگ باہر آئے اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص):

"من كنت يا رسول اللّه مستخلفا عليهم؟ فقال عليه السّلام: خاصف النّعل، فنزلنا و لم نر أحدا إلّا عليا، فقلت: يا رسول اللّه ما نرى إلّا عليّا، فقال: هو ذاك."

یعنی ان لوگوں پر آپ کا خلیفہ کون ہوگا؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا جو شخص میری جوتیاں سی رہا ہے۔ ہم لوگوں نے نکل کے دیکھا تو سوا علی(ع) کے اور کوئی نظر نہ آِیا پس میں ن ے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) ! مجھ کو تو سوا علی(ع) کے اور کوئی نظر نہیں آرہا ہے فرمایا وہی ( علی(ع)) خلیفہ ہیں۔

عائشہ نے کہا ہاں مجھ کو یاد ہے ام سلمہ نےکہا کہ جب ان احادیث کو جانتی ہو تو پھر کہاں جارہی ہو؟ انہوں نے جواب دیا میں لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے جارہی ہوں۔ اب تو آپ حضرات کو بھی تصدیقکرنا چاہئیے کہ ام المومنین عائشہ نے فریب نہیں کھایا بلکہ جان بوجھ کر فتنہ انگیزی پر آمادہ تھیں اور سب کچھ سمجھتے ہوئے عمدا بغاوت کی، باوجودیکہ ام سلمہ نے رسول اللہ(ص) کی حدیثیں بھی یاد دلائیں لیکن باز نہیں آئیں اور امیرالمومنین(ع) کی عظمت ومنزلت

۱۵۴

کا اقرار کرنے کےبعد بھی بصرے کی طرف سفر کر کےاتنا بڑا فتنہ برپا کیا جس کے نتیجے میں بے شمار مسلمانوں کا خون بہہ گیا۔ خصوصیت کے ساتھ اس حدیث خاصف النعل میں حضرت کی امامت و خلافت پر بہت بڑی نص اور حجت موجود ہے کیونکہ جس وقت ام سلمہ عرض کرتی ہیں کہ یا رسول اللہ(ص) کون ہے وہ شخص جس کو آپ اپنے بعد خلیفہ بنا رہے ہیں تو آں حضرت(ص) نے فرمایا میری نعلین کا سینے والا اور وہ سوا علی(ع) کے کوئی دوسرا نہیں تھا۔ شیعوں کا گناہ صرف یہ ہے کہ کسی عادت سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ تحقیق کے دور میں سے چودہ سو برس قبل کے اہم واقعات کا معائنہ کرتے ہیں اور بغیر تعصب یا جانبداری کے آیات قرآن مجید اور علمائے فریقین کی معتبر کتابوں سے استفادہ کر کے سچا سچا فیصلہ کرتے ہیں۔

اسی بنا پر ان کا عقیدہ ہے کہ اگر چہ سیاسی چالبازیوں کی وجہ سے بظاہر تاریخ میں علی علیہ السلام کی خلافت چوتھے نمبر پر آتی ہے لیکن یہ پس ماندگی حضرت کی افضلیت اور حضرت کے حق میں جو نصوص وارد ہیں ان کو قطع نہیں کرسکی اور نہ کرسکے گی۔

ہمارا بھی اعتقاد ہے اور ہم بھی اقرار کرتے ہیں کہ جیسا تاریخ میں درج ہے ابوبکر (سیاسی دائوں پیچ سے) کے اندر بغیر علی علیہ السلام ، بنی ہاشم اور کبار صحابہ کی موجودگی کے اور اںصار کے قبیلہ خزرج کی مخالفت کے باوجود خلیفہ نامزد کردیئے گئے، پھر اس کے بعد شخصی ڈکٹیڑی اور شوری کے بل پر عم و عثمان ظاہری طور پر علی علیہ السلام سے قبل مسند خلافت پر قابض ہوگئے۔

لیکن فرق یہ ہے کہ یہ لوگ امت والوں کے خلیفہ تھے یعنی ان کے چند ساتھی براتی لوگوں نے زور آزمائی کر کے ان کی گردن میں خلافت کا قلادہ ڈال دیا ۔ اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام خلیفہ رسول(ص) ہیں کیونکہ اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کی طرف سے منصوص تھے۔

شیخ : آپ بے لطفی کیبا تیں کر رہے ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا، جن لوگوں نے خلفائے ثلثہ ابوبکر و عمر وعثمان رضی اللہ عنہم کو اجماع کے ساتھ مقامات خلافت پر نصب کیا انہیں نے علی کرم اللہ وجہہ کو بھی خلافت پر مقرر کیا۔

خلفائے ثلاثہ کی تعیین میں اختلاف ان کی خلافت باطل ہونے کی دلیل ہے

خیر طلب: خلافت خلفاء کےطریق تعیین میں مختلف پہلوئوںسے کھلا ہوا تفاوت سے اولا آپ نے اجماع کی طرف اشارہ کیا ہے تو یہ بڑی بے لطفی کی بات ہے کہ ایک ہی مطلب بار بار دہرایا جائے کیونکہ میں پچھلی راتوں میں دلیل اجماع کے بے بنیاد ہونے پر مکمل روشنی ڈال چکا ہوں اور ثابت کرچکا ہوں کہ خلفائے ثلاثہ میں سے کسی ایک کی خلافت بھی اجماع امت کے ساتھ قائم نہیں ہوئی۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص۲۹

بطلان اجماع پر دوسرے دلائل

دوسرے اگر دلیل اجماع پر آپ کا اعتماد ہے اور آپ کے نزدیک خدا و رسول(ص) کی جانب سے امت کے لیے یہ حق

۱۵۵

شرعا ثابت ہے تو قاعدے کے رو سے چاہئیے یہ تھا کہ جو خلیفہ بھی دنیا سے اٹھے ساری امت جمع ہو یا زمانہحالکی رسم کے مطابق ایک نمائندہ جماعت یا انتظامی کمیٹی کی تشکیل کرے جو خلیفہ معین کرنے کا مسئلہ طے کرے اور جس پر سب کا اجماع ہوجائے یا ( بقول آپ کے ) صاحبان عقل متفق ہوجائیں اور اتفاق رائے ثابت ہوجائے وہشخص لوگوں کا منتخب خلیفہ قرار پائے ( رسول خدا(ص) کا خلیفہ نہیں) نیز ضروری تھا کہ اس تمدنی اصول پر ہر زمانے میں عملدر آمد ہوتا رہے۔

یقینا آپ تصدیق کریں گے کہ کسی اسلامی خلیفہ کے لیے اس قسم کا اجماع قطعا واقع نہیں ہوا، حتی کہ ناقص اجماع بھی (جس کے متعلق ہم پہلے ہیثابتکرچکے ہیں کہ کبار صحابہ بنی ہاشم اور انصار اس میں شامل نہیں تھے ) سوا ابوبکر بن ابی قحافہ کے کسی اور کے لیے منعقد نہیںہوا۔

اس لیے کہ اسلام کے جمل مورخین و محدثین کا اتفاق ہے کہعمر کی خلافت فقط خلیفہ ابوبکر کی نص پر قائم ہوئی ۔ اگر تعیین خلافت میں اجماع شرط ہےتو ابوبکر کے بعد عمر کے لیے اجماع کی تشکیل کیوں نہیں ہوئی اور رائے عامہ کا سہارا کیوں نہیں لیا گیا؟

شیخ : کھلی ہوئی بات ہے کہ چونکہ ابو بکر کو اجماع امت نے خلافت پر معین کیا تھا لہذا اپنے بعد والے خلیفہ کے تقرر تنہا خلیفہ اول کا قول ایک مضبوط سند ہے اور ان کے بعد بھی دوبارہ اجماع یا خلیفہ کے تعیین میں امت کی رائے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر خلیفہ کا قول خلیفہ ما بعد کی تعیین میں مستحکم سند ہے اور یہ خلیفہ کا مخصوص حق ہے کہ اپنے بعد کے لیے خلیفہ معین کر جائے او لوگوں کو حیران و سرگردان نہ چھوڑے ، چنانچہ مسلم الثبوت اجماعی خلیفہ ابوبکر نے جب عمر کو خلافت پر نصب کردیا تو وہ پیغمبر(ص) کے مستقل خلیفہ ہوگئے۔

خیر طلب: اول یہ کہ اگر آپ اپنے عقیدے کے مطابق، مسلم الثبوت خلیفہ کے لیے خلیفہ ما بعد کے تقرر میں ایسے حق کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ خلیفہ کا فرض ہے کہ امت کو حیران نہ چھوڑے نیز اپنے بعد خلیفہ معین کرنے کے لیے پس اسی کی ںص کافی ہے، تو آپ نے اسی حق کو مسلم الثبوت پیغمبر(ص) اور رسول برحق سے آخر کیوں سلب کرلیا؟ اور ان تمام مخصوص اور واضح نصوص کو جن کے ذریعہ رسول اکرم(ص) نے صراحتہ وکنایۃ باربار اور مختلف مقامات پر علی علیہ السلام کو معین فرمایا( جن میں سے بعض کی طرف ہمپچھلی شبوں میں اشارہ کرچکے ہیں اور آج کی رات بھی حدیث ام سلمہ کی کھلی ہو نص پیش کی جاچکی ہے) کیوں نظر انداز کردیتے ہیں اور ان سے اثر لینے کے بجائے ہر ایک کے لیے فضول تاویلیں کرتے ہیں جیسے ابن ابی الحدید نے حدیث ام سلمہ میں مضحکہ خیز تاویل و ترمیم کر کے اس نص صریح کو رد کیا ہے؟

واقعی بڑے تعجب کا مقام ہے کہ آخر کس بنیاد پر آپ فرماتے ہیں کہ عمر کو خلافت پر نصب کرنے کے لیے ابوبکر کا قول سند ہے لیکن رسول خدا(ص) کے قول میں کوئی سندیت نہیں؟ اور آں حضرت(ص) کے حکیمانہ ارشادات سے بے ربط مطالب پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟

دوسرے آپ کہاں سے اور کس دلیل سے فرماتے ہیں کہ خلیفہ اول جو اجماع سے معین ہوئے اپنے بعد خلیفہ مقررکرنے کا حق رکھتے ہیں؟ آیا پیغمبر(ص) کی طرف سے اس قسم کی کوئی ہدایت نافذ ہوئی ہے؟ جواب قطعا نفی میں ہوگا۔

۱۵۶

تیسرے آپ کہتے ہیں کہ جب خلیفہ اول اجماع سے مقرر ہوچکے تو اب دوسرے خلفاء کی تعیین دوبارہ اجماع کی ضرورت نہیں ہے۔ وہی مںصوب خلیفہ امت کی جانب سے اس کا حق رکھتے ہیں کہ اپنے بعد کے لیے خلیفہ معین کردیں اور تنہا انہیں کی نص کافی ہے۔

مجلس شوری پر اعتراض

اگر حقیقت یہی ہے تو یہ اصول صرف عمر ہی کی خلافت میں کیوں برتا گیا؟ بلکہ خلافت عثمان میں تو اس کے برخلاف عمل کیا گیا اور عمر نے خود خلیفہ معین کرنے کے عوض یہ معاملہ چھ اشخاص کے شوری پر چھوڑ دیا۔ معلوم نہیں اثبات خلافت پر آپ حضرات کی دلیل کیا ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ جب دلائل میں اختلاف پیدا ہوجائے تو اصل موضوع ہی باطل ہوجاتا ہے۔

اگر اثبات خلافت پر آپ کی دلیل اجماع امت ہے اور ساری امت کو جمع ہو کر متفقہ رائے دنیا چاہئیے (قطع نظر اس سے کہ ابوبکر کی خلافت میں بھی ایسا اجماع واقع نہیں ہوا) تو عمر کی خلافت میں اس طرح کا اجماع کیوں تشکیل نہیں دیا گیا؟ اگر آپ اجماع کو صرف پہلی ہی خلافت میں ضروری سمجھتے ہیں اور بعد والے خلفاء کی تعیین میں فقط اجماع کے ذریعے متنخب کئے ہوئے خلیفہ کی نص ہی کافی ہے۔ تو عثمان کی خلافت میں اس قاعدے پر کیوں عمل نہیں کیا گیا؟ اور خلیفہ عمر نے ابوبکر کے رویے کے بر خلاف خلیفہ کا انتخاب (ہٹلر شاہی نمونے کے)شوری کے اوپر کیوں چھوڑا؟ وہ بھی ایسی مجلس شوری جیسی دنیا کے کسی گوشے میں( یہاں تک کہ وحشی اقوام کے درمیان بھی) قائم نہیں ہوئی، بجائے اس کے کہ مجلس کے نمائندوں کو قوم منتخب کرے( تاکہ اس میں اکثریت کے قول اور خیال کی کچھ تو جھلک موجود ہے) خلیفہ عمر نے خود ہی نامزد کردیا۔

عبد الرحمن ابن عوف کی حکمیت پر اعتراض

اور سب سے عجیب تر بات یہ کہ جملہ ارکان کے اختیارات پامال کر کے ہر ایک ممبر کو عبدالرحمن بن عوف کا ماتحت اور محکوم بنادیا۔

معلوم نہیں کون سرشرعی، عرفی، علمی، یا عملی بنیاد پر عبدالرحمن کو یہ امتیازی ورجہ دے دیا( سوا اس کے کہ یہ عثمان کے عزیز قریب تھے اور یقین تھا کہ عثمان کو چھوڑ کے دوسرے کا ساتھ نہیں دیں گے) کہ اپنے دستور العمل میں کہہ دیا، جس طرف عبدالرحمن ہوں وہی حق ہے اور عبدالرحمن جس کی بیعت کرلیں دوسروں کو بھی اس کی اطاعت کرنا چاہئیے؟

جب ہم گہری نظر سے دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ یہ ایک آمرانہ حکم تھا جس کو شوری کے بھیس میں نافذ کیا گیا تھا۔ ورنہ ہم آج دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کا قانون اس طرز عمل کے بالکل برعکس ہے۔ واقعی تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ جیسا میں گذشتہ شبوں

۱۵۷

میں بھی سلسلہ اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں۔ باوجودیکہ رسول اللہ(ص) نے بار بار فرمایا ہے:

"عَلِيٌ‏ مَعَ‏ الْحَقِ‏ وَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ حَيْثُ دَارَ."

یعنی علی(ع) حق کے ساتھ اور حق علی (ع) کے ساتھ ہے جدھر وہ گردش کریں۔

نیز فرمایا ہے: "هذا علی فاروق‏ هذه‏ الأمّة يفرق بين الحقّ و الباطل "

یعنی یہ علی(ع) اس امت کے فاروق ہیں جو حق و باطل کے درمیان فرق قائم کرتے ہیں۔

چنانچہ حاکم مستدرک میں، حافظ ابونعیم نے حلیتہ الاولیاء میں، طبرانی ن اوسط میں، ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، محب الدین طبری نے ریاض النظرہ میں، حموینی نے فرائد میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، اور سیوطی نے در المنثور میں، ابن عباس، سلمان، ابوذر، اور حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"ستكون‏ بعدي‏ فتنة، فإذا كان ذلك فالزموا عليّ بن أبي طالب عليه السّلام، فإنّه أوّل من يراني، و أوّل من يصافحني يوم القيامة، و هو الصدّيق الأكبر، و هو فاروق هذه الأمّة؛ يفرق بين الحقّ و الباطل، و هو يعسوب المؤمنين."

یعنی عنقریب میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا پس اس موقع پر تم کو لازم ہے کہ علی ابن ابی طالب کا ساتھ پکڑو اس لیے کہ یہ پہلے وہ شخص ہیں جو قیامت کے روز مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ یہ سب سے بڑے بڑے راست گو اور اس امت کے فاروق ہیں جو حق وباطل کے درمیان تفریق کرتے ہیں اور یہی مومنین کے بادشاہ ہیں۔

اور عمار کے مشہور حدیث میں ہے جس کو سلسلہ اسناد کے ساتھ پچھلی راتوں میں تفصیل سے عرض کرچکا ہوں کہ آں حضرت(ص) نے عمار یاسر سے فرمایا:

"إن‏ سلك‏ الناس‏ كلهم‏ واديا و علي واديا فاسلك وادي علي دخل عن الناس يا عمار علی لايردک عن هدى و لا يدلک علی ردی يا عمار طاعة علي من طاعتي و طاعتي من طاعة الله."

یعنی اگر تمام لوگ ایک راستے پر ہوجائیں اور علی(ع) ایک راستے پر تو علی(ع) ہی کے راستے پر چلنا اور تمام لوگوں کا ساتھ چھوڑ دینا۔ اے عمار علی(ع) تم کو ہدایت سے برگشتہ نہ کریں گے اور ہلاکت کی طرف نہ لے جائیں گے۔ اے عمار علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت اور میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔

حضرت امیرالمومنین کی منزلت پر بدترین ظلم

لیکن پھر بھی خلیفہ عمر پیغمبر(ص) کی ہدایت کے برخلاف علی(ع) کو شوری میں عبدالرحمن کو محکوم اور ماتحت قرار دیتے ہیں آیا ایسی حکومت حقبجانب ہوسکتی ہے جس نے دوسرے تمام بزرگان صحابہ کو دودھ کی مکھی بنا دیا اور امر خلافت میں ان کے حق رائے وہی کو کالعدم کردیا؟ پھر اسی پر اکتفاء نہیں کی بلکہ خود شوری میں بھی علی علیہ السلام پر شرمناک ظلم ڈھایا اور ان حضرت کی انتہائی اہانت کی کہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ( فاروق ) کو عبدالرحمن کا ماتحت اور محکوم بنایا۔

محترم حضرات ! انصاف سے فیصلہ کیجئے اور استیعاب ، اصابہ، اور حلیتہ الاولیاء وغیرہ جیسی کتاب رجال کا مطالعہ کرنے کے بعد علی علیہ السلام کے حالات کا عبدالرحمن بلکہ شوری کے پانچوں ممبروں کی حیثیت کے ساتھ موازنہ کیجئے اور دیکھئے کہ حاکم بننے

۱۵۸

کی لیاقت عبدالرحمن کے اندر تھی یا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام میں؟ اس کے بعد اندازہ کیجئےکہ سیاسی پارٹی بندی کے ماتحتبھی حضرت علی(ع) کے حق ولایت کو پامال کردیا جائے۔

خلاصہ یہ کہ اگر خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب کا یہ دستور قابل عمل تھا کہ تعیین خلافت کے لیے مجلس شوری ضروری ہے تو حضرت امیرالمومنین(ع) کی خلافت میں اس کا سہارا کیوں نہیں لیا گیا؟

حیرت ہے کہ خلافت خلفائے اربعہ ( راشدین) ابوبکر، عمر ، عثمان اور علی(ع) میں چار طریقے بروئے کار آئے تو آیا ان چاروں قسموں میں سے کون سی قسم بنیادی برحق اور قابل اعتماد تھی اور کون سے اقسام باطل؟ اگر آپ کے حسب دل خواہ چاروں طریقے حق تھے تو ماننا پڑے گا کہ آپ کے پاس تعیین خلافت کے لیے کئی مستقل اصول اور محکم دلیل ہی موجود نہیں ہے۔

اگر آپ حضرات اپنی عادت سے ذرا ہٹ کے مںصفانہ اور گہری نظر سے حقائق کیجئے تو اعتراف کیجئے گا کہ حقیقت اس کے علاوہ ہے جس کا ظاہر بظاہر شہرہ اور رواج ہے۔

چشمباز وگوش باز و این عمی خیرتم از چشم بندی خدا

شیخ : اگر آپ کے یہ بیانات صحیح ہوںکہ (بقول آپ کے ) اس معاملے پر گہری نگاہ ڈالنا چاہئیے تو ایسی صورت میں علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت بھی ڈانواں ڈول ہوجاتی ہے، کیونکہ جس اجماع نے خلفائے سابق( ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم) کو خلافت پر نصب کیا اور تقویت دی اسی نے علی کرم اللہ وجہہ کو بھی منتخب کیا اور خلافت پر مقرر کیا ہے۔

خیر طلب: آپ کا یہ بیان اس وقت درست ہوسکتا ہے جب کہ پہلے سے رسول خدا(ص) کے نصوص اور ارشادات موجود نہ ہوں حالانکہ علی علیہ السلام کی خلافت اجماع امت کی پابند نہ تھی بلکہ خدا و رسول (ص) کی جانب سے مںصوص تھی۔

خلافت علی(ع) خدا و رسول(ص) کی طرف سے منصوص تھی

اگر حضرت نے خلافت کا بار سنھبالا تو وہ اجماع یا لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اپنا حق واپس پانے کے صورت میں تھا، اس لیے کہ اگر کسی حق دار کا حق غصب کر لیا جائے تو چاہے مدتین گذر جائیں لیکن جس وقت موقع ہاتھ آجائے،حالات سازگار ہوجائیں اور مانع برطرف ہوجائے وہ اپنا حق وصول کرسکتا ہے ۔ چنانچہ جس روز مانع برطرف ہوا اور ماحول مقتضی ہوگیا حضرت نے احقاق حق فرمایا اور حق اپنے مرکز سے ملحق ہوگیا۔

آپ حضرات اگر بھول گئے ہوں تو رسائل واخبارات کے صفحات او خصوصی اشاعتوں کا مطالعہ فرمائیے جن میں وہ دلائل اور نصوص خلافت درج ہیں جن کو ہم نے گذشتہ راتوں میں پیش کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ خلافت ظاہری کی مسند پر حضرت کا قیام اجماع یا لو گوں کی توجہ کے سبب سے نہیں بلکہ آیات قرآنی و نصوص پیغمبر(ص) کی بنیاد پر تھا اور اپنے حق کی واپسی تھی۔

۱۵۹

آپ تو ایسی ایک بھی متفق علیہ حدیث نہیں پیش کرسکتے جس میں رسول اکرم(ص) نے فرمایا ہو کہ ابوبکر، عمر اور عثمان میرے وصی اور خلیفہ ہیں یا جس میں اموی اور عباسی خلفاء میں سے کسی کا نام لیا ہو۔ البتہ ( علاوہ توار کتب شیعہ کے) آپ کی تمام معتبر کتابوںمیں پیغمبر(ص) سے ایسی حدیثیں ضرور کثرت سے منقول ہیں جن میں آں حضرت (ص) نے علی علیہ السلام کو اپنی خلافت و وصایت پر نصب فرمایا ہے چنانچہ ان میں سے چند پچھلی راتوں میں اور حدیث ام سلمہ آج کی شب عرض کرچکا ہوں۔

شیخ : ہماری روایتوں میں بھی وارد ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ابوبکر میرے خلیفہ ہیں۔

خیر طلب: گویا آپ ان دلائل کو بالکل بھول ہی گئے جو میں سابق راتوں میں ان احادیث کے بطلان پر قائم کرچکا ہوں، اور آج کی شب بھی میں آپ کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑوں گا ۔ شیخ مجددالدین فیروز آبادی صاحب قاموس اللغات کتاب مضرالسعادت میں کہتے ہیں :

" إن‏ ما ورد في‏ فضائل‏ أبي بكر فهي من المفتريات التي يشهد بديهة العقل بكذبها "

یعنی فضائل ابوبکر میں جو کچھ بھی نقل ہوا ہے وہ ایسی افترا پروازیون میں سے ہے کہ عقل بدیہی طور پر اس کے جھوٹ ہونے کی گواہی دیتی ہے۔

علی(ع) کی خلافت اجماع سے قریب تر تھی

ان چیزوں کے علاوہ اگر آپ خلافت کے ظاہری طریقے پر اچھی طرح غور کریں تو خلفائے راشدین( ابوبکر، عمر، عثمان اور علی(ع)) اور اموی و عباسی خلفاء میں سے کسی ایک کے لیے بھی کوئی اجماع منعقد نہیں ہوا کہ تمام امت جمع ہوتی یا ساری امت کے باقاعدہ چنے ہوئے نمائیندے اکٹھا ہوتے اور بالاتفاق اس کی خلافت کے لیے رائے دیتے ۔ پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرےخلفاء کی نسبت بظاہر حضرت علی علیہ السلام ہی کی خلافت اجماع سے قریب تر تھی اس لیے کہ آپ کے علماء و مورخین لکھتے ہیں کہ خلافت خزرج کے ساتھ اپنی مخالفت کی وجہ سے بیعت کر لی کیونکہ اس نے سعد بن عبادہ کو امارت کا امیدوار نامزد کیا تھا۔ پھر آگے چل کر بعض نے ڈرانے دھمکانے سے ( جس کی تفصیل عرض کرچکا ہوں) اور ایک جماعت نے لالچ دلانے سے بیعت کی لیکن پھر بھی ایک گروہ نے مثلا سعد بن عبادہ کی پیروی میں اںصار نے آخر تک خلافت تسلیم نہیں کی پھر عمر کی خلافت تنہا ابوبکر کی تجویز سے قائم ہوئی جس میں اجماع اور رائے عامہ کا قطعا کوئی دخل تھا بلکہ یہ خلافت شاہانہ انداز کا ایک نمونہ تھی۔

اس کے بعد عثمان عمر کی بنائی ہوئی آمرانہ مجلس شوری کی سیاسی ترکیب سے مسند خلافت پر بیٹھے ۔ البتہ علی علیہ السلام کےقیام خلافت میں تقریبا سارے بلاد مسلمین کے اکثر نمائیندوں نے جو اتفاق سے دربار خلافت سے داد خواہی کرنکے لیے مدینے آئے ہوئے تھے، شریک ہو کر ایک بڑے اجماع کی تشکیل کی اور سبھی کے اصرار سے حضرت خلافت ظاہری

۱۶۰

کی مسند پر بیٹھے۔

نواب: قبلہ صاحب مدینے میں بلاد مسلمین کے نمائیندوں کا اجماع کیا تعیین خلافت کے لیے تھا؟

خیر طلب: نہیں، ابھی تو خلیفہ سوم ہی مسند خلافت پر موجود تھے، اور اکثر بلاد مسلمین کے سرداران قوم اور بزرگان قبائل کی ایک بہت بڑی جماعت، عرض حال اور اور بنی امیہ وغیرہ کے جابر و ظالم عمال و حاکم اور بار خلافت کے مخصوصین جیسے مروان وغیرہ کے زشتو قبیح حرکاتکی شکایت کرنے کے لیے مدینے میں اکٹھا ہوئی تھی، بالاخر اسی اجماع کا جس میں کبار صحابہ بھی شامل تھے انجام یہ نکلا کہ خود عثمان کی غلط کاریوں اور امیرالمومنین و کبار صاحابہ کی مشفقانہ نصیحتوں پر دھیان نہ دینے کی وجہ سے ان کے قتل کی نوبتآئی۔

اس کے بعد بلاد مسلمین کے ان تمام بزرگان قبائل اور رئوسائے قوم کے ہمراہ جو مدینے میں موجود تھے مدینے والے بصورت اجماع حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں حاجر ہوئے اور آپکو التماس و اصرار کےساتھ مسجد میں لائے، پھر سب نے بالاتفاق اس بزرگوار کی بیعت کی۔ حضرت سے قبل خلفائے ثلاثہ میں سے کسی ایک کی بیعتمیں بھی ایسا کھلا ہوا اجماع واقع نہیںہوا کہ اپنی خواہش اور عزم و اختیار سے سارے اہل مدینہ اور زعمائے ملت نے مل کر ایک مخصوص فرد کی طرف بیعت کا ہاتھ بڑھایا ہو اوراس کو خلیفہ تسلیم کیا ہو۔

لیکن ایسے اجماع اور اجتماع کے باوجود جو امیرالمومنین (ع) کے لیے منعقد ہوا ہم اس کو حضرت کے لیے دلیل خلافت نہیں سمجھتے بلکہ آپ کی خلافت پر ہماری دلیل قرآن مجید اور خدا و رسول خدا(ص) کی نص ہے، جس طرح تمام انبیاء کی سیرت تھی کہ حکم خداوندی سے اپنا وصی اور خلیفہ معین فرما تے تھے۔

تیسرے آپ نے فرمایا کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام اور دوسرے خلفاء کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا، معلوم نہیں آپ جان بوجھ کر ایسا کہہ رہے ہیں یا واقعی غلط فہمی کا شکار ہیں، اس لیے کہ عقلی و نقلی دلائل بلکہ امت کے اجماع سے بھی ثابت ہے کہ علی(ع) اور دوسرے خلفاء بلکہ ساری امت کے درمیان بہت بڑا فرق تھا۔

علی(ع) دوسرے تمام خلفاء سے ممتاز تھے

پہلی خصوصیت جو حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کو حاصل تھی اور اسی جہت سے آپ تمام دوسرے خلفاء سے ممتاز تھے یہ ہے کہ وہ سب صرف مخلوق کی ایک جماعت کے مقرر کئے ہوئے تھے لیکن علی علیہ السلام خدا و رسول(ص) کی طرف سے معین ہوئے ہیں، اور ظاہر ہے کہ خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کا مقرر کیا ہوا خلیفہ یقینا ان لوگوں سے افضل ہے جن کو مخلوق نے مقرر کیا ہو۔ ہر عقلمند انسان جانتا ہے کہ خلیفہ منصوص اور خلیفہ غیر منصوص میں بہت فرق ہے اور سب سے بڑی امتیازی صفت جو علی علیہ السلام کو دیگر خلفاء اور ساری امت سے بلند قرار دیتی ہے وہ حضرت کے علم وفضل اور شرف و تقوی کا درجہ ہے، کیونکہ ( تھوڑے سے خوارج و نواصب اور

۱۶۱

بکریین کے علاوہ جن کی حالت سب کو لعلمو ہےجملہ علمائے امت کا اتفاق ہے کہ علی علیہ السلام پیغمبر صلعم کے بعد ساری امت سے اعلم، افضل، اقضی، اشرف اور اتقی تھے۔

چنانچہ میں اس بارے میں قرآن مجید کی تائیدوں کے ساتھ کافی روایتیں حتی کہ ابوبکر وعمر کی زبان سے بھی پچھلی شبوں میں آپکی معتبر کتابوں سے نقل کرچکا ہوں اور اس وقت پھر ایک حدیث یاد آگئی ہے جو پہلے بیان نہیں کی تھی لہذا انکشاف حقیقت کے لیے اس کو بھی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ امام احمد ابن حنبل نے مسند میں ، ابوالموئدموفق بن احمد خوارزمی نے مناقب میں، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی میں، حافظ ابوبکر بیہقی شافعی نے اپنی سنن میں اور دوسرے نے بھی رسول اکرم(ص) سے مختلف الفاظ وعبارات کے ساتھ مکرر نقلکیا ہے کہ فرمایا:

" علی اعلمکم و افضلکم و اقضاکم والرد عليه کالرد علی والرد علی کالرد علی الله وهو علی حد الشرک بالله"

یعنی علی(ع) تم سب سے اعلم ، افضل اور اقضی ہیں، جو شخص ان کے قول و فعل یا رائے کو رد کرے اس ن گویا میری تردید کی اور جس نے میری تردید کی اس نے گویا خدا کی تردید کی اور وہ شخص شرک باللہ کی حد میں ہے۔

ابن ابی الحدید معتزلی نے جو آپ کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں شرح نہج البلاغہ کی جلدوں میں کئی مقامات پر لکھا ہے کہ تفصیل امیرالمومنین علی علیہ السلام کا قول ایک قدیم قول ہے جس کے بہت سے اصحاب اور تابعین قائل تھے اور بغداد کے شیوخ نے اس حقیقت کی تصدیق کی ہے ( اس موقع پر عشاء کی اذان ہوئی اور مولوی صاحبان نماز کے لیے اٹھ گئے ادائے فریضہ اور چائے نوشی کے بعد خیر طلب نےافتتاح کلام کیا۔)

چوٹی کے فضائل وکمالات کیا ہیں؟

خیر طلب: جب آپ حضرات نماز میں مشغول تھے تو غور کرنے اے ایک موضوع نظر میں آیا ہے جو سوال کے طور پر آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

یہ فرمائیے کہ کسی شخص کی ایسی شرافت و فضیلت جس سے اس کو دوسرے افراد کے مقابلے میں فوقیت کا حق حاصل ہو کس چیز سے ہے؟

شیخ : ( تھوڑے سکوت کے بعد) حقیقتا شرافت اور فضیلت کے طریقے بہت ہیں لیکن اول درجے میں جن کو چوٹی کے فضائل و کمالات کہہ سکتے ہیں وہخدا و رسول(ص) پر ایمان کے بعد میرے نزدیک تین چیزیں ہیں۔

1۔ پاکیزہ نسب اور نسل۔ 2۔ علم و دانش۔ 3۔ تقوی و پرہیزگاری۔

خیر طلب: جزاک اللہ، میں بھی انہیں تین طریقوں سے بحث میں قدم رکھتا ہوں جن کو آپ نے بلند ترین فضائل و کمالات

۱۶۲

کے عنون سے انتخاب فرمایا ہے۔ یہ مان لینے کے بعد بھی کہ ہر ایک صحابی چاہے وہ خلیفہ ہو یا نہیں کسی نہ کسی خصوصیت کا حامل تھا عقلی و نقلی قواعد کے روسے یہ مسلم ہے کہ ان میں سے جو فردیں ان بلند خصوصیات اور اعلی فضائل کی جامع تھیں وہ سب سے مقدم اور بالاتر تھیں۔ اگر میں ثابت کردوں کہ ان تینوں خصوصیات میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ہی سب کے سید و سردار تھے تو آپ کو تصدیق کرنا چاہئیے کہ حضرت رسول خدا(ص) سے وارد نصوص کی موجودگی میں یہ بزرگوار امر خلافت میں بھی اولی اور سب سے زیادہ حقدار تھے، اور اگر تخت خلافت سے محروم رہے تو محض ان سیاسی حیلہ سازیوں کی وجہ سے جن کا نام مصلحت رکھ دیا گیا۔

( جیسا کہ شرح نہج البلاغہ جلد اول ص46 میں ابن ابی الحدید کا عقیدہ ہے)

علی علیہ السلام کا پاکیزہ نسب

اولا نسل ونسب کے معاملے میں مسلم ہے کہ ذات خاتم الانبیاء کے بعد شرافت میں کوئی شخص بھی علی علیہ السلام کو نہیں پہنچتا اور حضرت کی اصل و نسل اس قدر پاک و پاکیزہ اور درخشان ہے کہ صاحبان عقل کی عقلیں حیران اور دم بخورد ہیں، یہاں تک کہ آپ کے متعصب اکابر علماء جیسے علاء الدین مولوی علی بن محمد قوشجی ، ابو عثمان عمرو بن بحر جاحظ ناصبی اور سعد الدین مسعودی بن عمر تفتازانی بھیکہتے ہیں کہ ہم علی کرم اللہ وجہہ کے کلمات میں دم بخود اور حیران ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں"نَحْنُ أَهْلَ الْبَيْتِ لَا يُقَاسُ‏ بِنَا أَحَدٌ "

( یعنی ہم اہل بیت رسالت ہیں ہمارے اوپر کسی دوسرے کا قیاس نہیں کیا جاسکتا)

نیز نہج البلاغہ کے دوسرے خطبے میں ہے کہ خلافت ظاہری حاصل ہونے کے بعد حضرت نے فرمایا:

"لَا يُقَاسُ‏ بِآلِ‏ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه و آله مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَحَدٌ وَ لَا يُسَوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَيْهِ أَبَداً هُمْ أَسَاسُ الدِّينِ وَ عِمَادُ الْيَقِينِ إِلَيْهِمْ يَفِي‏ءُ الْغَالِي‏ وَ بِهِمْ يُلْحَقُالتَّالِي وَ لَهُمْ خَصَائِصُ حَقِّ الْوِلَايَةِ وَ فِيهِمُ الْوَصِيَّةُ وَ الْوِرَاثَةُ الْآنَ إِذْ رَجَعَ الْحَقُّ إِلَى أَهْلِهِ وَ نُقِلَ إِلَى مُنْتَقَلِهِ‏"

یعنی اس امت کے کسی ایک شخص کا بھی آل محمد صلی الہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ قیاس اور موازنہ نہیں ہوسکتا، جس شخص پر ہمیشہ اہل بیت کی نعمت و مرحمت جاری رہی ہو وہ ان کے برابر کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ دین کی بنیاد اور ایمان و یقین کے ستون ہیں، حد سے آگے بڑھ جانے والا پلٹ کے انہیں کی طرف آ تا ہے او رپیچھے رہ جانے ولا بڑھ کے انہیں سے ملحق ہوتا ہے، حق ولایت و امامت کے خصوصیت انہیں کے لیے ہیں اور ( رسول خدا(ص) کی) وصیت و وراثت انہیں میں ہے۔ اس وقت حق اپنے اہل کی طرف پلٹ آیا ہے اور جہاں سے متقل کیا گیا تھا وہیں پھر پہنچ گیا ہے)

امیرالمومنین کے یہ بیانات حق خلافت میں حضرت کے اور خاندان آلِ محمد صلوات اللہ علیہم اجمعین کے اولی اور مقدم ہونے پر پوری دلالت کرتے ہیں۔

یہ جملے صرف آپ ہی نے نہیں فرمائے ہیں بلکہ مخالفین بھی اس مفہوم کی تصدیق کرتےہیں۔ چنانچہ کسی شب میں عرض کرچکا

۱۶۳

ہوں کہ میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی مودت ہفتم میں ابی وائل سے اور وہ عبداللہ ابن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا، اصحاب پیغمبر(ص) کو شمار کرتے ہوئے ہم نے ابوبکر، عمر اور عثمان کا ذکر کیا تو ایک شخص نے کہا علی(ع) کا نام کہاں گیا؟ ہم نے کہا :

"عَلِيِ‏ مِنْ‏ أَهْلِ‏ البَيْتٍ‏ لَا يُقَاسُ‏ بِهِ أَحَدٌ هوَ مَعَ رَسُول الله ِ صَلیَ اللهُ عَليه وَ آلِهِ فِي دَرَجَتَه"

یعنی علی(ع) اہل بیت نبوت میں سے ہیں ان کے ساتھ کسی اور کا قیاس نہیںکیا جاسکتا،وہ رسول خدا صلعم کے ساتھ انہیں کے درجے میں ہیں۔)

نیز احمد بن محمد کرزی بغدادی سے نقل کرتے ہں کہ عبداللہ بن احمدحنبل نے کہا میں نے اپنے باپ ( امام حنابلہ احمد بن حنبل) سے تفصیل صحابہ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا ابوبکر ،عمر اور عثمان میں نے کہا بابا علی ابن ابی طالب(ع) کیا ہوئے؟ تو کہا "هوَ مِنْ‏ أَهْلِ‏ البَيْتٍ‏ لَا يُقَاسُ‏ بِهِ هَئُولا ءِ " ( یعنی وہ اہل بیت(ع) میں سے ہیں ان کے ساتھ ان لوگوں کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔)

غیر معمولی بات یہ ہے کہ علی علیہ السلام کا نسب دو پہلو رکھتا ہے۔ نورانی اور جسمانی اور اس حیثیت سے رسول خدا(ص) کے بعد حضرت کی ذات منفرد تھی۔

علی(ع) کی نورانی خلقت اور پیغمبر(ص) کےساتھ آپ کی شرکت

جنبہ نورانیت اور حقیقت خلقت کے لحاظ سے تقدم کا حق امیرالمومنین علیہ السلام کےساتھ ہے۔ چنانچہ آپ کے اکابر علماء مثلا امام احمد ابن حنبل اپنی باعظمت کتاب مسند میں، میر سید علی ہمدانی فقیہ شافعی مودۃ القربی میں، ابن مغازلی شافعی مناقب میں اور محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول فی مناقب آل الرسول میں رسول اکرم(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا:

"‏ كُنْتُ‏ أَنَا وَ عَلِي ابن ابی طالبِ نُوراً بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ من قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ اللَّهُ آدَمَباربعةِ عَشرَاَلْفِ عَامٍ فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ رَكَّبَ ذَلِكَ النُّورَ فِي صُلْبِهِ فَلَمْ يَزَلْ فِي شَيْ‏ءٍ وَاحِدٍ حَتَّى افْتَرَقْنَا فِي صُلْبِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَفِيَّ النُّبُوَّةُ وَ فِي عَلِيٍّ الْخِلَافَةُ."

یعنی میں اور علی ابن ابی طالب(ع) دونوں خلقت آدم سے چودہ ہزار سال قبل بارگاہ خداوندی میں ایک نور تھے، پس جب خدا نے آدم کو پیدا کیا تو اس نور کو ان کے صلب میں قرار دیا اور ہم برابر ایک نور کی صورت میں رہے یہاں تک کہ عبدالمطلب کے صلب میں ایک دوسرے سے الگ ہوئے پس مجھ میں نبوت اور علی(ع) میں خلافت آئی۔

میر سید علی ہمدانی فقیہ شافعی نے مودۃ القربی کی مودت ہشتم کو اس عبارت کے ساتھ اسی موضوع سے مخصوص کیا ہے :

"المودة الثامنة فی ان رسول الله و عليا من نورواحد اعطی علی من الخصال مالم يعط احد من العالمين"

یعنی آٹھویں مودت اس باب میں کہ رسول خدا(ص) اور علی(ع) ایک نور سے ہیں، علی(ع) کو ایسی خصلتیں عطا کی گئیں جو عالمین میں کسی کو نہیں ملیں۔

من جملہ ان احادیث کے جو اس مودت میں نقل کی ہیں اور ابن مغازلی شافعی نے بھی ذکر کیا ہے خلیفہ سوم عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"خلقت‏ أنا و علي‏ من نور واحد قبل أن

۱۶۴

یخلق اللّه آدم (عليه السّلام) بأربعة آلاف عام، فركّب ذلك في صلبه فلم يزل شي‏ء واحد حتى افترقنا في صلب عبد المطلب ففی النبوة و فی علی الوصية."اور اسی کے بعد دوسری حدیث میں لکھتے ہیں کہ علی سے خطاب فرمایا :" ففی النبوة والرسالة و فيک الوصية والامانة يا علی."

یعنی میں اور علی خلقت آدم سے چار ہزار برس قبل ایک نور سے پیدا ہوئے پس جب اللہ نے آدم کو پید اکیا تو اس نور کو ان کے صلب میں ودیعت فرمایا پھر ہم برابر ایک نور رہے یہاں تک کہصلب عبدالمطلب میں ایک دوسرے سے جدا ہوئے، پس مجھ میں نبوت اور علی(ع) میں وصایت قرار پائی۔یا یہ کہ میرے اندر نبوت و رسالت اور اے علی(ع) تمہارے اندر وصیت و امامت آئی۔

نیز اسی حدیث کو ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص450 ( مطبوعہ مصر) میں صاحب کتاب فردوس سے نقل کیا ہے، اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب اول میں جمع الفوائد، مناقب ابن مغازلی شافعی، فردوس دیلمی، فرائد السمطین حموینی اور مناقب خوارزمی سے یہ الفاظ و عبارات کے تھوڑے سے تفاوت لیکن وحدت مفہوم کے ساتھ نقل کیا ہے کہ محمد و علی صلوات اللہ علیہما کی نورانی خلقت کائنات کی خلقت سے ہزاروں سال پہلے ہوئی اور یہ کہ دونوں ایک ہی نور تھے یہاں تک کہ صلب عبد المطلب میں ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ ایک حصہ صلب عبد اللہ میں قائمہوا جس سے خاتم الانبیاء کی پیدائش ہوئی اور دوسرا حصہ صلب ابوطالب میں پہنچا جس سے علی علیہ السلام کی ولادت ہوئی، محمد صلعم کا نبوت و رسالت کے لیے اور علی علیہ السلام کا وصایت و امامت اور خلافت کے لیے انتخاب ہوا۔ جیسا کہ تمام اخبار میں خود رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے۔ اور ابو الموئد موفق بن احمد خوارزمی مناقب فصل چہاردہم اور مقتل الحسین فصل چہارم میں، سبط ابن جوزی تذکرہ ص28 میں، ابن صباغ مالکی فصول المہمہ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب87 میں پانچ حدیثیں حافظ محدث شام کی سند سے اور حافظ محدث عراق معجم طبرانی سے اپنا اسناد کےساتھ نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا میں اور علی(ع) دونوں ایک نور سے پیدا ہوئے اور ایک ساتھ رہے یہاں تک صلب عبدالمطلب میں ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ ان میں سے بعض اخبار مفصل اور بہت بلند و مفید ہیں لیکن اختصار کے لحاظ سے میں نے مکمل طور پر ذکر نہیں کیا، (شائقین اصل کتاب کی طرف رجوع فرمائیں)عبارتوں اور لفظوں کا اختلاف اس وجہ سے نہیں ہے کہ آں حضرت(ص) نے ایک ہی موقع پر ارشاد فرمایا اور ہر مادی نے ایک عبارت کےساتھ نقل کردیا ، بلکہ بہت ممکن ہے مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہو جیسا کہ خود حدیثوں کے سیاق سے ظاہر ہو رہاہے۔

علی علیہ السلام کا نسبِ جسمانی

اورجسمانی جنبہ بھی ماں باپ دونوں کی طرف سے بہت بڑی شرافت کا حامل ہے جو حضرت کے مخصوص خصائص و فضائل میں سے ہے۔

۱۶۵

دوسروں کے برخلاف آپ کے آبائواجداد ابوالبشر حضرت آدم(ع) تک سب کےسب موحد اورخدا پرست تھے اور کسی ناپاک صلب یا رحم میں یہ پاک نور جاگزین نہیں ہوا۔ یہ فخر صحابہ میں سے کسی ایک کو بھی حاصل نہیں تھا۔ سلسلہ نسب یہ ہے :

علی1۔ ابن ابی طالب2۔ بن عبدالمطلب3۔ بن ہاشم4۔ بن عبد5۔ مناف بن قصی6۔ بن کلاب7۔ بن 8۔مرہ بن کعب9۔ بن لوی10۔ بن غالب11۔ بن فہر12۔ بن مالک13۔ بن نضر14۔بن کنانہ15۔ بن خزیمہ16۔بن مدرکہ17۔ بن الیاس18۔ بن مضر19۔ بن نزار20۔بن سعد21۔بن عدنان22۔بن ادو23۔ بن الیسع24۔ بن الہمیس25۔ بن نبت26۔ بن سلامان27۔ بن حمل28۔ بن قیدار29۔ بن اسمعیل30۔ بن ابراہیم31۔ خلیل اللہ بن تارخ32۔ بن تاحور33۔ بن شاروع34۔ بن ابرغو 35۔بن تالغ36۔ بن عابر37۔ بن شالع38۔ بن ارفخشد 39۔بن سام 40۔بن نوح41۔ بن ملک42۔ بن متوشلخ43۔ بن اخںوخ44۔ بن یار45۔و بن مہلائل46۔ بن قینان47۔ بن انوش48۔ بن شیث49۔ بن آدم50۔ ابوالبشر علیہم السلام و رسول خدا صلعم کے بعد کسی کو بھی ایسا درخشان نسب نصیب نہیں ہوا۔

شیخ : آپ نے جو یہ فرمایا کہ آدم ابو البشر تک علی کرم اللہ وجہہ کے سبھی آبائو اجدا موحد تھے تو بظاہر اس میں آپ کو دھوکا ہوا ہے کیونکہ در اصل ایسا نہیں ہے۔ ہم بھی ظاہر پر مامور ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان بزرگوار کے آبائو اجداد میں مشرکین اور بت پرست بھی تھے جیسے ابراہیم خلیل کے باپ آزر جن کے لیے آیہ شریفہ میں صاف صاف ارشاد ہے:

"‏ وَ إِذْ قالَ إِبْراهِيمُ لِأَبِيهِ‏ آزَرَ أَ تَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً- إِنِّي أَراكَ وَ قَوْمَكَ فِي ضَلالٍ مُبِينٍ‏"

یعنی یاد کرو اس وقت کو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ آیا تم بتوں کو اپنا خدا بناتے ہو؟ میں تم کو اور تمہاری قوم کو کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھتا ہوں۔ سورہ نمبر6 ( انعام) آیت نمبر74۔

اس اشکال کا جواب کہ ابراہیم کا باپ آزر تھا

خیر طلب : بغیر سوچے سمجھے ہوئے آپ کا یہ بیان میری نظر میں عادتا اپنے اسلاف کی پیروی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس لیے کہ آپ کے اگلےاور پچھلے لوگ محض اس عرض سے کہ اپنے بزرگ اور چہیتے صحابیوں کو جن کی طرف قطعی طور سے کفر و شرک کی نسبت موجود ہے پاک قرار دے دیں یعنی یہ نسبی عیب ان سے دور ہوجائے اور ماں باپ کا مشرک ہونا معیوب نہ سمجھا جائے، اس بات پرآمادہ ہوگئے کہ اپنے عظیم المرتبت پیغمبر(ص) کے آبائو و اجداد میں بھی مشرک کو داخل کردیں اور آں حضرت(ص) کے نسب کو کفر و شرک سے ملا دیں تاکہ اپنے اسلاف اور بزرگان دین کی صفائی پیش کرسکیں۔

واقعی صاحبان عقل و دانش کی طرف سے ایسی مطلب پرستیاں بہت افسوسناک ہیں جن کو سواتعصب و عناد اپنے پیشوائوں کی اندھا دھند محبت اور بے محل ہاتھ پائوں مارنے کے اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ اور آپ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے کی عادت سے مجبور ہو کر ایسے جلسے میں ان باتوں کو دہراتے ہیں۔ حالانکہ آپ خود جانتے ہیں کہ علمائے انساب کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ابراہیم(ع) کے باپ تارخ تھے آزر نہیں تھا۔

شیخ : آپ نص کے مقابلے میں اجتہاد کر رہے ہیں اور علمائے انساب کے عقائد و نظریات کو قرآن کے مقابلے میں لا رہے ہیں

۱۶۶

باوجودیکہ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ حضرت ابراہیم کا باپ آزر بت پرست تھا۔

خیر طلب : میں کبھی نص کے مقابلے میں اجتہاد نہیں کرتا بلکہ قرآنی حقائق کو سمجھنے کے علاوہ چونکہ میرا کوئی اور مقصد نہیں ہے۔ لہذا جب میں قرآن کے عدیل و مفسر یعنیاہل بیتاور عترت رسول(ص) کی رہنمائی میں تھوڑے غور و فکر اور دقت نظر سے کام لیتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اس آیہ شریفہ میں عرف عام کا قاعدہ استعمال ہوا ہے اس لیے کہ عام اصطلاح میں چچا اور ماں کے شوہر کو بھی باپ کہا جاتا ہے۔

اور آزر کے بارے میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ حضرت ابراہیم(ع) کا چچا تھا، اور دوسرا یہ کہ چچا ہونے کے علاوہ اپنے بھائی تارخ یعنی حضرت ابراہیم کے والد کی وفات کے بعد اس نے حضرت کی والدہ کو اپنی زوجیت میں لے لیا تھا لہذا حضرت دو وجہوں سے ہمیشہ اس کو باپ کہہ کر خطاب فرماتے تھے، ایک چچا ہونے کی جہت سے اور دوسرے ماں کا شوہر ہونے کے سبب سے۔

شیخ : ہم قرآن کیصراحت سے چشم پوشی نہیں کرسکتے جب تک خود قرآن ہی میں اس کی دلیل نہ مل جائے کہ چچا یا ماں کے شوہر کو باپ کہا گیا ہو، اور اگر آپ ایسی دلیل پیش نہ کرسکیں ( اور ہرگز پیش نہ کرسکیں گے) تو آپ کا استدلال ناقص اور ناقابل قبول ہے۔

خیر طلب: ایسا حتمی دعوےنہ کیجئے کہ جب اس کے خلاف دلیل قائم کی جائے تو سارا زور بیان ٹوٹ جائے، اس لیے کہ خود قرآن مجید میں ایسی نظیریں موجود ہیں جن میں عرف عام کے قاعدے سے بیان کیا گیا ہے من جملہ ان کے سورہ نمبر2( بقرہ) کی آیت نمبر127 ہے جو میری گذارش کا ثبوت دے رہیہے اور جس میں موت کے وقت حضرت یعقوب کا اپنے بیٹوں کے ساتھ سوال وجواب مذکور ہے ارشاد ہے:

"إِذْ قالَ‏ لِبَنِيهِ‏ ما تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي- قالُوا نَعْبُدُ إِلهَكَ وَ إِلهَ آبائِكَ إِبْراهِيمَ وَ إِسْماعِيلَ وَ إِسْحاقَ إِلهاً واحِداً"

یعنی جس وقت جناب یعقوب(ع) نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم لوگ میرے بعدکس کی پرستش کروگے تو انہوں نے کہا کہ تمہارے خدا اور تمہارے باپوں ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق کی جو یکتا معبود ہے۔

اس آیت میں میرے دعوے کی دلیل لفظ اسماعیل ہے کیونکہ قرآن مجید کی شہادت سے حضرت یعقوب(ع) کے باپ حضرت اسحاق(ع) ہیں اور حضرت اسماعیل(ع) باپ تو نہیں بلکہ چچا ہیں لیکن آپ اصطلاح عام کے قاعدے سے ان کو باپ ہی کہتے تھے۔ چونکہ فرزندان یعقوب(ع) بھی عرفا چچا کو باپ کہتے تھے لہذا اپنے پدر بزرگوار کے جواب میں چچا کو باپ ہی کہا اور خدا نے ان کے سوال و جواب کو اسی طرح سے نقل کیا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے چچا اور ماں کے شوہر کو عرفا باپ کہتے تھے لہذا قرآن مجید نے بھی ان کو باپ کہا ورنہ تاریخ اور علم الانساب کی مضبوط دلیل سے یہ مسلم ہے کہ حضرت ابراہیم(ع) کے باپ آزر نہیں بلکہ تارخ تھے۔

۱۶۷

پیغمبر(ص) کے آبائو امہات مشرک نہیں بلکہ سب مومن تھے

اس کی دوسری دلیل کہ پیغمبر(ص) کے آبائو اجداد مشرک اور کافر نہیں تھے۔ سورہ نمبر26،(شعراء) کی آیت نمبر219 ہے جس میں ارشاد ہے

" وَ تَقَلُّبَكَ‏ فِي السَّاجِدِينَ" ( یعنی اور خدا پرستوں میں تمہاری گردش، 12 مترجم)

اس آیہ شریفہ کے معنی میں شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب2 میں نزی آپ کے دورے علماء نے ابن عباس ( جرامت و مفسر قرآن) سے روایت کی ہے کہ :

" تقلبهمن‏ أصلاب‏ الموحّدين‏من موحّدين نبی الى نبی حتى أخرجهمن صلب ابيه من نکاح غير سفاح من لدن آدم"

یعنی خدا نے پیغمبرج(ص) کو پشت آدم(ع) سے ایک نبی کے بعد دوسرے نبی کی طرف اہل توحید کے اصلاب میں منتقل فرمایا، یہاں تک کہ آپ کو اپنے باپ کے صلب سے ظاہر فرمایا بذریعہ نکاح نہ کہ حرام سے۔

من جملہ اور دلائل کے ایک مشہور حدیث ہے جس کو آپ کے سبھی علماء نے نقل کیا ہے ، یہاں تک کہ امام ثعلبی جو اصحاب حدیث کے امام ہیں اپنی تفسیر میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب2 میں ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"اهبطنی الله الی الارض فی صلب آدم و جعلنی فی صلب نوح فی السفينة و قذف بی فی صلب ابراهيم ثم لم يزل الله ينقلبی من الاصلاب الکريمة الی الارحام الطاهرة حتی اخرجنی من بين ابوين لم يلتقيا علی سفاح قط"

یعنی خدا نے مجھ کو زمین کی طرف صلب آدم میں ا تارا اور کشتی کے اندر مجھ کو صلب نوح(ع) میں قرار دیا اور مجھ کو صلب ابراہیم(ع) منفقل کیا اور اللہمجھ کو ہمیشہ بزرگ و محترم اصلاب سے پاک و پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ مجھ کو میرے ماں باپ سے پیدا کیا جنہوں نے ہرگز حرام طریقے سے باہم ملاقات نہیں کی۔

اور دوسری حدیث میں فرمایا" لم یدنسنی بدنس الجاہلیہ "( یعنی مجھ کو جاہلیت کی گندگی سے آلودہ نہیں کیا) اسی باب میں کتاب ابکار الافکار شیخ صلاح الدین بن زین الدین بن احمد معروف بہ ابن الصلاح حلبی اور علاء الدولہ سمنانی کی شرح کبریت احمر میں شیخ عبدالقادر سے بروایت جابر ابن عبداللہ انصاری ایک مفصل حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) سے اول ما خلق اللہ کے متعلق دریافت کیا گیا اور آں حضرت(ص) نے جوابات دیتے ہیں( جن کی تشریح کا وقت نہیں ) یہاں تک کہ آخر حدیث میں فرمایا ہے :

"و هکذا ينتقل الله نوری من طيب الی طيب و من طاهر الی طاهر الی اوصله الله الی صلب ابی عبد الله بن عبد المطلب و منه اوصله الله الی رحم امی آمنة ثم اخرجنی الی الدنيا فجعلنی سيد المرسلين و خاتم النبيين"

یعنی اور اسی طرح خدائے تعالے میرے نور کو طیب وطاہر اور پاک پاکیزہ سے طیب و طاہر اور پاک و پاکیزہ کی طرف منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ میرے باپ عبداللہ ابن عبدالمطلب کے صلب میں ودیعت کیا اور ان سے میری ماں آمنہ کے رحم میں لایا۔ پھر مجھ کو دنیا میں ظاہر کیا اور سید المرسلین و خاتم النبیین قرار دیا۔

۱۶۸

یہ ارشاد کہ میں طیب سے طیب اور طاہر سے طاہر کی طرف منتقل ہوتا رہا، اس بات کا ثبوت ہے کہ آں حضرت(ص) کے آبائو اجداد میں کوئی کافر نہیں تھا، اس لیے کہ قرآن مجید کے حکم انما المشرکین نجس کے مطابق ہر کافر و مشرک نجس ہے پس جب یہ فرمایا کہ" لم يزل انقل من اصلاب الطاهرين الی ارحام الطاهرات " یعنی میں برابر اصلاب طاہرین سے پاک پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل ہوتا رہا تو ثابت ہوا کہ مشرکین چونکہ نجس ہیں لہذا آں حضرت(ص) کے آبائو اجداد مشرک نہیں تھے۔

نیز ینابیع المودت کے اسی باب میں کبیر سے بروایت ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

"ما ولدني‏ في‏ سفاح‏ الجاهلية شي‏ء و ما ولدني إلّا نكاح كنكاح الإسلام"

یعنی میں زمانہ جاہلیت کےکسی حرام طریقے سے پیدا نہیں ہوا بلکہ اسلامی نکاح کے ذریعہ متولد ہوا۔

آیا آپ نے نہج البلاغہ کا خطبہ نمبر105نہیں پڑھا ہے جس میں امیرالمومنین علی علیہ السلام نے رسول اللہ(ص) کے آبائو اجداد کیاس طرح توصیف کی ہے کہ :

"فاستودعهم‏ في‏ أفضل‏ مستودع‏، و أقرهم في خير مستقر، تناسختهم كرائم الأصلاب إلى مطهرات الأرحام، كلما مضى منهم سلف قام منهم بدين اللّه خلف» إلى أن قال: «حتى أفضت كرامة اللّه سبحانه و تعالى إلى محمد صلى اللّه عليه و آله، فأخرجه من أفضل المعادن منبتا، و أعز الأرومات مغرسا، من الشجرة التي صدع منها أنبياءه، و انتجب منها أمناءه"

یعنی خدا نے ان( انبیاء) کو بزرگترین جائے امانت ( یعنی ان کے آبا ئے کرام کے اصلاب) میں امانت رکھا اور ان کو بہترین جائے قیام ( یعنی ان کی امہات کے ارحام طاہرہ) میں قرار دیا، ان کو بزرگ و احترام اصلاب سے پاک پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل فرمایا ، جب ان کے کسی سلف نے رحلت کی تو ایک خلف دین خدا کے ساتھ ان کا قائم مقام ہوا۔ یہاں تک کہ خدائے تعالے کی کرامت (یعنی نبوت و رسالت) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف آئی، پس آں حضرتج(ص) کو سب سے افضل معدن پیدائش اور سب سے معزز اصل و بنیاد سے ظاہر فرمایا، ایسے شجرہ طیبہ سے جس سے اپنے انبیاء کو پیدا کیا، اور جس سے اپنے امانت داروں کو برگزیدہ کیا۔

اگر میں چاہوں تو اس طرح کے دلائل جلسے کا وقت ختم ہونے تک برابر پیش کرتا ہوں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ مطلب ثابت کرنے کے لیے اور وہ بھی صاحبان اںصاف کے سامنے اسی قدر کافی ہوگا جس سے آپ حضرات سمجھ لیں کہ آدم ابوالبشر تک پیغمبر(ص) کے سارے آبائو اجداد مومن و موحد تھے۔ بدیہی چیز ہے کہ اہل البیت ادری بما فی البیت کے مصداق اہلبیت طہارت اور خاندان رسول (ص) کے افراد اپنےبزرگوں کے حالات سے دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگاہ تھے۔

پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ پیغمبر(ص) کے آبائو اجداد بھی سب کے سب مومن و موحد تھے تو یہ بات خود بخود ثابت ہوجاتی ہے کہ علی علیہ السلام کے آبائو و اجداد بھی سب کےسب مومن اور خدا پرست تھے۔ کیونکہ میں( تواتر اخبار شیعہ کے علاوہ) صرف ان اخبار و احادیث سے جن کو آپ کے علماء نے نقل کیا ہے پہلےہی ثابت کرچکا ہوں کہ محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام ایک نور تھے اور تمام پاک و پاکیزہ اصلاب و ارحام میں ایک ساتھ رہے یہاں تک کہ صلب عبدالمطلب میں ایک دوسرے سے جدا

۱۶۹

ہوئے نورانی اور جسمانی دونوں منزلوں میں جہاں رسول خدا(ص) تھے وہیں علی(ع) بھی تھے( پس ہر عقلمند کی عقل فیصلہ کرلے گی کہ جو بزرگ شخصیت ایسے روشن ومنزہ اور پاک و پاکیزہ نسب اور نسل کی حامل اور تمام اشخاص سے زیادہ رسول اللہ(ص) سے قریب تھی وہی منصب خلافت کے لیے اولی اور سب سے زیادہ حقدار تھی۔

شیخ: اگرچہ آپ نے ذزر اورتارخ کے مسئلے میں کامیابی کا راستہ نکال لیا ہے اور رسول خدا(ص) کے آبائو اجداد کی طہارت ثابت کردی ہے لیکن علی کرم اللہ وجہہ کے لیے اس قسم کا ثبوت ناممکن ہے کیونکہ (چاہے ہم اس کو تسلیم بھی کر لیں کہ عبدالمطلب تک سب موحد تھے لیکن ) علیکرم اللہ وجہہ کے باپ ابوطالب کے بارے میں ہرگز کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ ثابت ہے کہ وہ کفر کی حالت میں دنیا سے اٹھے۔

ایمان ابوطالب میں اختلاف

خیر طلب: میں تصدیق کرتا ہوں کہ جناب ابوطالب کے بارے میں امت کے اندر اختلاف پیدا کردیا گیا، لیکن کہنا چاہئیے کہ :

"اللهم‏ العن‏ أول‏ ظالم ظلم حق محمّد و آل محمّد "(یعنی خداوندا لعنت کر اس پہلے ظالم پر جس نے محمد و آل محمد(ص) کے حق میں ظلم کیا) لعنت ہو خدا کی اس شخص پر جس نے روز اول علی علیہ السلام کو ایذا اور نقصان پہنچانے کے لیے سب و لعن اہانت اور جھوٹی حدیثیں گڑھنے کا وہ طریقہ ایجاد کیا جس پر ایسے مطالب کی بنیاد قائم ہوئی کہ بعد کو خوارج و نواصب جو حضرت سے مخصوص طور پر عداوت رکھتے تھے اور آپ کے چند تنگ نظر اور نا فہم علماء اپنے اسلاف کی پیروی میں عادت اور تعصب کی بناء پر آپ کے اس قول کے قائل ہوگئے اور خیال قائم کر لیا کہ جناب ابوطالب بغیر ایمان کے دنیا سے اٹھے۔

حالانکہ جہمور علمائے شیعہ اور تمام اہل بیت طہارت و خاندن رسالت جن کے اقوال سند اور جن کا اجماع حجت ہے کیونکہ عدیل قرآن ہیں، نیز آپ کے بیشتر محققین و اںصاف پسند علماء جیسے ابن ابی الحدید، جلال الدین سیوطی، ابوالقاسم بلخی، ابوجعفر اسکافی ، فرقہ معتزلہ میں سے ان کے اساتذہ اور امیر سید علی ہمدانی شافعی وغیرہ سب بالاتفاق جناب ابوطالب کے اسلام و ایمان کے قائل ہیں۔

ایمان ابوطالب(ع) پر اجماع شیعہ

اور جماعت شیعہ کا تو اجماعی عقیدہ ہے کہ "انه قد آمن بالنبی فی اول الامر " ( یعنی ابوطالب(ع) در حقیقت شروع ہی میں پیغمبر(ص) پر ایمان لے آئے تھے۔

پھر سب سے بالاتر یہ کہ جناب ابوطالب کا ایمان دیگر بنی ہاشم یا آپ کے بھائی حمزہ اورعباس کے مانند کفر سے نہیں بلکہ

۱۷۰

فطری تھا اور اہل بیت طاہرین کے اتباع میں جماعت شیعہ کامسلمہ مسئلہ ہے کہ" انه لم يعبد صنما قط بل کان من اوصياء ابراهيم " ( یعنی ابوطالب نے قطعا کبھی کسی بت کی پرستش نہیں کی بلکہ آپ حضرت ابراہیم کے اوصیاء میں سے تھے)

اور آپ کے محقق علماء کی معتبر کتابوں میں اس مطلب کی طرف کثرت سے اشارے موجود ہیں۔ من جملہ ان کے ابن اثیر نے جامع الاصول میں کہا ہے:

" و ما اسلم من اعمام النبیغير حمزة والعباس و ابی طالب عند اهل البيت عليهم السلام"

یعنی اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک پیغمبر(ص) کے اعمام میں سے صرف حمزہ، ابن عباس اورابوطالب ایمان لائے۔

بدیہی چیز ہے کہ اہل بیت رسول علیہم السلام کا اجماع ہر مسلمان کے نزدیک حجت ہونا چاہئیے کیونکہ حدیث ثقلین اور ان دیگر احادیث کی بنا پر جن کو میں پچھلی راتوں میں پیش کرچکا ہوں اور جن سے باتفاق فریقین ثابت ہے کہ رسول اللہ(ص) نے ان حضرات کے حق میں وصیتیں اور سفارشیں فرمائی ہیں، یہ ہستیاں عدیل قرآن اور ثقلین میں سے ایک ہیں اور ہم سب مسلمان اس پر مامور ہیں کہ ان کی گفتار و کردار سے تمسک رکھیں تاکہ گمراہ نہ ہوں۔

دوسرے یہ کہ قاعدہ "اهل البيت ادری بما فی البيت" (یعنی گھر کیچیزوں سے گھر والے ہی زیادہ واقف ہوتے ہیں 12 مترجم) کے مطابق یہ جلیل القدر خاندان جو تقوی و پرہیزگاری کامجسمہ تھا اپنے آبائو اجداد اور اعمام کے ایمان و کفر سے مغیرہ بن شعبہ، دیگر نبی امیہ، خوارج و نواصب اور بے خبر لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگاہ تھا۔ واقعی تعجب تو ہوتا ہے آپ کے علماء پر کہ تمام اہل بیت رسالت اور امام المتقین حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا قول تو قبول نہیں کرتےجن کی صداقت و راست گوئی کی تصدیق خود آپ ہی کی معتبر روایتوں کے مطابق خدا و رسول (ص) نے فرمائی ہے اور جو بالاتفاق یہی کہتے ہیں کہ جناب ابوطالب مومن و موحد دنیا سے اٹھے، لیکن امیرالمومنین(ع) کے ایک جانی دشمن، فاسق و فاجر اور جانے بوجھے ہوئے آدمی مغیرہ ملعون اور چند اموی اور خارجی و ناصبی اشخاص کی بات ماننے کےلیے تیار ہیں بلکہ اس پر اصرار اور مقابلہ بھی کرتے ہیں۔

ابن ابی الحدید معتزلی جو آپ کے بزرگ علماء میں سے ہیں شرح نہج البلاغہ جلد 3 میں کہتے ہیں کہ ابوطالب کے اسلام میں اختلاف ہے، جماعت شیعہ امامیہ اور اکثر زیدیہ نے کہا ہے کہ وہ دنیا سے مسلمان اٹھے علاوہ اجماع جمہور علمائے شیعہ کے ہمارے بعض شیوخ علماء بھی جیسے ابوالقاسم بلخی اور ابو جعفر اسکافی وغیرہ بھی اسی عقیدے پر ہیں کہ ابوطالب اسلام لائے، لیکن اپنا ایمان ظاہر نہ کرنے کا مقصد یہتھا کہ پیغمبر(ص) کی پوری اماد کرسکیں اور مخالفین ان کے لحاظ سے آںحضرت(ص) کی مزاحمت نہ کرسکیں۔

حدیث ضحضاح اور اس کا جواب

شیخ : معلوم ہوتا ہے آپ نے حدیث ضحضاح نہیں دیکھی ہے جس میں ارشاد ہے "ان اباطالب فی ضحضاح من نار " (یعنی ابوطالب جہنم کے پانی میں ہیں)

۱۷۱

خیر طلب: یہ حدیث بھی ان دوسری موضوع اور جعلی حدیثوں کے مانند ہے جن کو زمانہ بنی امیہ اور بالخصوص منافقین کے رئیس معاویہ ابن ابو سفیان کے دور خلافت میں آل محمد(ص) اور اہل بیتطہارت علیہم السلام کے چند دشمنوں نے خوشامد اور جذبہ کفر و نفاق کے ماتحت تصنیف کیا تھا، اور بعد کو بنی امیہ اور ان کے پیروئوں نے بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی عداوت میں ان گڑھیہوئی حدیثوں کی تقویت دی اور مشہور کیا، انہوں نے اس کا موقع ہی نہیں دیا کہ جناب حمزہ و عباس کی طرح جناب ابوطالب کا ایمان بھی شہرت پاسکے، بلکہ اس کو قوم کی نگاہ سے بالکل اوجھل ہی کردیا۔

حدیث ضحضاح کی مجہولیت

عجیب تر چیز یہ ہے کہ حدیث ضحضاح کو وضع اور نقل کرنےوالا بھی حضرت امیرالمومنینعلیہ السلام کا فاسق وفاجر دشمنتنہا مغیرہ بن شعبہ ہی تھا جس کے لیے ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص159 تا ص163 میں، مسعودی مروج الذہب میں اور دیگر علماء لکھتے ہیں کہ مغیرہ نے بصرہ میں زنا کی، لیکن جس روز خلیفہ عمر کے سامنے اس کے گواہ پیش ہوئے تو تین آدمیوں نے شہادت دی اور چوتھا شخص بیان دینے آیا تو اس کو ایسا جملہ سکھا دیا گیا کہ گواہی ٹوٹ گئی، چنانچہ ان تیتوں پر حد جاری کی گئی اور مغرہ چھوڑ دیا گیا۔

ایک ایسے فاسق و فاجر زنا کار اور شرابیآدمی نے جس ر شرعی حد جاری ہونے والی تھی اور جو معاویہ ابن ابوسفیان کا جگری دوست تھا اس حدیث کو امیرالمومنینعلیہ السلام کے بغض و عداوت اور معاویہ کی چاپلوسی میں گڑھا اور معاویہ ان کے اتباع اور دیگر اموی افراد نے اس جعلی حدیث کو تقویت دی اور تصدیق کرنے لگے کہ "ان اباطالب فی ضحضاح من نار" ( ترجمہ گزر چکا ہے۔)

نیز جو افراد اس کے سلسلہ روایت میں داخل ہیں جیسے عبدالملک بن عمیر، عبدالعزیز داوردی اور ابوسفیان ثوری وغیرہ وہ بھی آپ کے اکابر علمائے جرح و تعدیل کے نزدیک جیساکہ ذہبی نے میزان الاعتدال جلد دوم میں لکھا ہے ضعیف و مردود اور ناقابل قبول ہیں اور ان میں سے بعض مثلا سفیان ثوری جعلسازوں اور سخت جھوٹے لوگوں میں شمار کئے گئے ہیں لہذا ایسی حدیث پر کیونکر اعتماد کیا جاسکتا ہے جس کو ایسے مشہور معروف ضعیف و کذاب لوگوں نے نقل کیا ہو؟

ایمان ابوطالب(ع) پر دلائل

حقیقت یہ ہے کہ جناب ابوطالب کے ایمان پر کثرت سے دلیلیں موجود ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اور ایسے

۱۷۲

واضح دلائل سے صرف وہی بے حس یا متعصب اور ضدی لوگ انکار کرسکتے ہیں جو حق کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔

1۔ رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے کہ : "انا وکافل اليتيم کهاتين فی الجنة " ( یعنی اپنی دونوں انگلیاں ملاکر فرمایا) میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا اندونوں انگلیوں کی طرح جنت ہیں باہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔)

ابن ابی الحدید نے بھی اس حدیث کو شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص312 میں نقل کیا ہے، اور لکھا ہے کہ بدیہی چیز ہے کہ ارشاد رسول(ص) سے ہر یتیم کی کفالت کرنے والا مراد نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اکثر یتیم کےکفیل فاسق و فاجر بلکہ گمراہ و بے دین اور جہنم کے مستحق ہوتے ہیں۔ پس آں حضرت(ص) کی مراد اس سے جناب ابوطالب(ع) اور آپ کے جد بزرگوار جناب عبدالمطلب تھے جو پیغمبر(ص) کے کفیل رہے او خصوصیت کے ساتھ مکہ معظمہ میں آں حضرت(ص) یتیم ابوطالب کے لقب سے مشہور تھے کیوںکہ وفات عبدالمطلب کے بعد آٹھ سال کے سن سے رسول اللہ(ص) کی کفالت اور دیکھ بھال آپ ہی کے ذمہ رہی۔

2۔ ایک مشہور حدیث ہے جس کو فریقین ( شیعہ و سنی) نے مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے، اور بعض نے اس طریقے سے روایت کی ہے کہآں حضرت صلعم نے فرمایا، جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے اور ان الفاظ میں مجھ کو بشارت دی کہ:

"ان الله حرم علی النار صلبا انزلک و بطنا حملک و ثديا ارضعک و حجرا کفلک "

یعنی قطعی طور پر اللہ نے آگ پر حرام کردیا ہے اس پشت کو جس سے آپ کا نزول ہوا، اس شکم کو جس نے آپ کو اٹھایا، اس پستان کو جس نے آپ کو دودھ پلایا اور اس گود کو جس نے آپ کی کفالت کی۔

میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور قاضی شوکانی نے حدیث قدسی میں اس طرح روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا، جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے اور کہا :

"ان الله يقرئک السلام و يقول انی حرمت النار علی صلب انزلک و بطن حملک و حجر کفلک"

یعنی پرورگار آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ یقینا میں نے حرام کردی ہے آتش جہنم اس پشت پر جس نے آپ کو اتارا، اس شکم کو جس نے آپ کو بار اٹھایا اور اس آغوش کو جس نے آپ کی کفالت کی۔

(صاحب صلب سے جناب عبداللہ، صاحب شکم سے حضرت آمنہ او صاحب آغوش سے جناب عبدالمطلب و ابوطالب مراد تھے۔)

اس قسم کے اخبار و احادیث پیغمبر(ص) کے کفیل جناب عبدالمطلب ، جناب ابوطالب اور ان کی زوجہ فاطمہ بن اسد کے ، نیز آں حضرت صلعم کے باپ اور ماں جناب عبداللہ اور آمنہ بنت وہب اور آں حضرت کی دایہ حلیمہ سعدیہ کے ایمان پر پوری دلالت کرتے ہیں۔

۱۷۳

مدح ابوطالب میں ابن ابی الحدید کے اشعار

من جملہ ان دلائل کے وہ اشعار ہیں جو آپ کے بہت بڑے عالم عزالدین عبد الحمید ابن ابی الحدید معتزلی نےجناب ابوطالب کی مدح میں نظم کئے ہیں اور شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص318 ( مطبوعہ مصر) نیز دوسری کتابوں میں درج ہیں کہتے ہیں:

ولولاأبوطالب‏و ابنه‏لما مثل الدين شخصا فقاما

فذاك بمكّة آوى و حامى‏و هذا بيثرب جس الحماما

تكفل عبد مناف بأمرو أودى فكان عليّ تماما

فقل في ثبير مضى بعد ماقضى ما قضاه و ابقى شماما

فلله ذا فاتحا للهدىو للّه ذا للمعالي ختاما

و ما ضر مجد أبي طالب‏جهول لغا أو بصير تعامى‏

كمالايضرإياةالصباح من ظنّ ضوء النهارالظلاما

مطلب یہ کہ اگر ابوطالب اور ان کے فرزند ( علی ابن ابی طالب(ع)) نہ ہوتے تو دین اسلام کو کوئی امتیاز اور مضبوطی حاصل نہ ہوتی، ابوطالب نے مکے میں آں حضرت(ص) کو پایا اور؟؟؟؟؟ کی اور علی علیہ السلام نے مدینے میں آں حضرت کے لیے جان نثار کی۔ عبدمناف ( ابوطالب) (اپنے پدر بزرگوار عبدالمطلب کے) حکم سے آں حضرت(ص) کی کفالت کرتے رہے اور علی(ع) نے ان خدمات کی تکمیل کی۔

ابوطالب(ع) نے قضائے الہی سے وفات پائی تو اس سے کوئی کمی نہیں ہوئی کیوںکہ انہوں نے اپنی خوشبو ( علی علیہ السلام) کو یاد گار چھوڑا ۔ ابوطالب نے خدا کی راہ میں ہدایت پر چلنے کے لیے ان خدمتوں کی ابتدا کی اور علی علیہ السلام نے اللہ کے لیے ان کو انتہا تک پہنچا کر بلندیاں حاصل کیں۔

ابوطالب کی بزرگی کو کسی نادان کی بکواس یا کسی بینا کی چشم پوشی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جس طرح کوئی دن کی روشنی کو اندھیرا سمجھ لے تو اس سے آثار صبح کا کوئی نقصان نہیں 12 مترجم عفی عنہ)

ابوطالب(ع) کے اشعار ان کے اسلام کی دلیل ہے

اسی طرح خود جناب ابوطالب(ع) نے آں حضرت صلعم کی مدح میں جو اشعار نظم کئے ہیں وہ بھی ان کے ایمان کا کھلا ہوا ثبوت

۱۷۴

ہیں، چنانچہ ان میں سے کچھ شعر ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص316 میں نقل کئے ہیں اور آپ کے بہت سے اکابر علماء جیسے شیخابو القاسم بلخی اور ابوجعفر اسکافی نے انہیں اشعار سے آپ کے ایمان پر استدلال کیا ہے، حق یہ ہے کہ ان جناب نے اپنے ایمان کو ان اشعار کی صورت میں بالکل ظاہر و ہویدا کردیا ہے ، ان کے قصیدے لامیہ کے چند شعر یہ ہیں۔

أعوذبرب‏البيت‏من كل طاعن‏علينا بسوء أو يلوح بباطل‏

و من فاجر يغتابنا بمغيبةو من ملحق في الدين ما لم نحاول

كذبتم و بيت الله يبزى محمدو لما نطاعن دونه و نناضل‏

و ننصره حتى نصرع دونه‏و نذهل عن أبنائنا و الحلائل‏

و حتى نرى ذا الردع يركب ردعه‏من الطعن فعل الأنكب المتحامل

و ينهض قوم في الحديد إليكم‏نهوض الروايا تحت ذات الصلاصل

و إنا و بيت الله من جد جدنالتلتبسن أسيافنا بالأماثل

بكل فتى مثل الشهاب سميدع‏أخي ثقة عند الحفيظة باسل‏

و ما ترك قوم لا أبا لك سيدايحوط الذمار غير نكس مواكل‏

و أبيض يستسقى الغمام بوجهه‏ثمال اليتامى عصمة للأرامل‏

يلوذ به الهلاك من آل هاشم‏فهم عنده في نعمة و فواضل‏

و ميزان صدق لا يخيس شعيرةو وزان صدق وزنه غير عائل

أ لم تعلموا أن ابننا لا مكذب‏لدينا و لا يعبأ بقول الأباطل

لعمري لقد كلفت وجدا بأحمدو أحببته حب الحبيب المواصل

و جدت بنفسي دونه فحميته‏و دافعت عنه بالذرى و الكواهل

فلا زال للدنيا جمالا لأهلهاو شينا لمن عادى و زين المحافل

و أيده رب العباد بنصره‏و أظهر دينا حقه غير باطل.

یعنی پناہ چاہتا ہوں میں رب کعبہ کی طرف ان لوگوں سے جو ہم پر برائی کے ساتھ طعن کرتے ہیں یا ہمکو باطل کے ساتھ نسبت دیتے ہیں اور اس بدکار سے جو ہماری غیبت اوربدگوئی کرتا ہے اورع اس شخص سے جو دین میں ایسی باتیں کرتا ہے جن سے ہم دور ہیں۔ قسم خانہ خدا کی تم نے جھوٹ کہا کہ ہم محمد(ص) کا ساتھ چھوڑ دیں گے، حالانکہ ابھی ہم نے ان کے مخالف سے نیزہ و تیر کے ساتھ جنگ نہیں کی ہے۔ اور ہم ان کی نصرت کریں گے یہاں تک کہ ان کے دشمن کو پچھاڑ دیں اور ایسی جان نثاری کریں گے کہاپنے بیوی بچوں کو بھول جائیں گے۔ ان کی نورانیت ایسی ہے کہ ان کے روئے روشن کے ذریعےباران رحمت طلب کیا جاتا ہے ، وہ یتیموں کے فریادرس اور بیوہ عورتوں کے پناہ دہندہ ہیں۔ بنی ہاشم کے بے بس افراد ان کے پاس پناہ لیتے ہیں اور ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ قسم اپنی جان کی مجھ کی احمد(ص) سے والہانہ محبت ہے اور میں ان کو ایک خالص دوست کی طرح محبوب رکھتا ہوں۔ میں نے اپنے نفس کو اس قابل پایا کہ ان پر فدا ہوجائوں پس میں نے ان کی حمایت کی اور سرو گردن کے ذریعہ ان کی طرف سے دفاع کیا۔ خدا ان کو قائم رکھے کہ وہ اہل دنیا کےلیےجمال، دشمنوں کے لیے مصیبت اور محفلوں کی زینت ہیں۔ پروردگار عالم اپنی نصرت سے ان کی تائید کرے اور ان کے دین کو ظاہر کرے جو برحق ہے اور اس میں باطل کی گنجائش نہیں۔آپ کے جو مخصوص اشعار ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص312 میں نیز اور لوگوں نے نقل کئے ہیںاور جن سے آپ کے ایمان پر استدلال کیا گیا ہےان میں سے قصیدہ میمیہ میں فرماتے ہیں۔

۱۷۵

يرجون‏مناخطة دون نيلهاضراب و طعن بالوشيج المقوم‏

يرجون أن نسخى بقتل محمدو لم تختضب سمر العوالي من الدم‏

كذبتم و بيت الله حتى تفلقواجماجم تلقى بالحطيم و زمزم‏

و ظلم نبي جاء يدعو إلى الهدى‏و أمر أتى من عند ذي العرش قيم‏

خلاصہ یہ کہ لوگ ہم سے دین اسلام کے خلاف نیزہ و شمشیر سے جنگ کر نے کی امید کرتے ہیں۔ وہ امید کرتے ہیں کہ ہم محمد(ص) کو قتل کر کے اس کو منسوخ کردیں، حالانکہ ابھی ان کی نصرت میں چہرے خون سے رنگیننہیں ہوئے۔ خانہ خدا کی قسم تم نے جھوٹ کہا، یہاں تک کہ تم مصیبت میں پڑ جائو اور اور حطیم و زمزم کٹے ہوئے سروں سے پٹ جائیں۔ اور اس نبی پر جوہدایت خلق کے لیےمبعوث ہوا ہے اور اس کتاب پر جو مالک عرش نے نازل کی ہے ظلم ہورہا ہے) من جملہ ان واضح دلائل کے جن سے حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے اور ان جناب کے ایمان کا کھلا ہوا ثبوت ملتا ہے۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص315 میں آپ کا یہ کلام نقل کیا ہے۔

ياشاهدالله‏علي فاشهدانی علی دين النبی أحمد

من ضل في الدين فإني مهتدي‏

یعنی اے اللہ کی گواہی دینے والے گواہ رہو کہ میں یقینا پیغمبر خدا(ص) احمد کے دین پر ہوں۔ اگر کوئی دین میں گمراہ ہے تو میں ہدایت یافتہ ہوں۔

حضرات ! خدا کے لیے انصاف کیجئے، کیا ایسے اشعار کہنے والے کو کافر کہا جاسکتا ہے جو صاف صاف اقرار کر رہا ہے کہمیں محمد صلعم کےدین پر ہوں اور ایسے برحق پیغمبر(ص) کی نصرت کرتا ہوں جس کے یہاں باطل کی کوئی گنجائش ہی نہیں؟

شیخ : یہ اشعار دو وجہوں سے قابل قبول و استدلال نہیں ہیں۔ اول یہ کہ ان میں کوئی تواتر نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی مقام پر یہ نہیں دیکھا گیا کہ ابوطالب نے اسلام و ایمان کا اقرار اور شہادتیں کا اعتراف کیا ہو، لہذا چند شعر نقل کردینے سے ان پر اسلام کا حکم جاری نہیں کیا جاسکتا۔

خیر طلب: تواتر کے بارے میں آپ کا ایراد عجیب ہے، جہاں آپ کا دل چاہتا ہے وہاں تو خبر واحد کو حجت سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں لیکن جہاں آپ کے مرضی کے خلاف ہو وہان فورا عدم تواتر کا حربہ استعمال کرنے لگتے ہیں۔

اگر آپ حضرات تھوڑا سا غور کر لیں تو بخوبی سمجھ میں آجائے کہ یہ اشعار اگرفردا فردا متواتر نہ ہوں تب بھی یہ سب مجموعی طور پر اس ایک امر پر متواتر حیثیت سے دلالت کرتے ہیں کہ جناب ابوطالب با ایمان اورخاتم الانبیاء(ص) کی نبوت و رسالت کے معتقد تھے، اکثر امور ایسے ہیں جن کا تواتر اسی طریقے سے معین ہوتا ہے۔ مثلا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی جنگیں اور غزوات میں آپ کی شجاعتیں اور حملے سبھی خبر واحد ہیں لیکن ان کے مجموعے سے معنوی تواتر پیدا ہوجاتا ہے جس سے حضرت کی بہادری کا

۱۷۶

ضروری علم حاصل ہوتا ہے۔ اور حاتم کی سخاوت یا نوشیروانکے عدل وغیرہ کی بھی یہی صورت ہے۔

علاوہ اس کے آپ جو تواتر کے اس قدر دل دادہ ہیں، یہ فرمائیے کہ گڑھی ہوئی حدیث ضحضاح کا تواتر کہاں سے ثابت کیجئے گا۔

آخری وقت ابوطالب(ع) کا اقرار وحدانیت

رہا آپ کا دوسرا اشکال تو اس کا جواب بالکل ظاہر ہے ، اس لیے کہ توحید ونبوت کا اقرار اور مبدائ و معاد کا اعتراف ضروری نہیں ہے کہ نثر ہی میں ہو، مثلا کہے:

"اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمد رسول الله " بلکہ اگر کوئی غیر شخص ایسے شعر کہے جو وحدانیت خدا اور رسالت خاتم الانبیاء(ص) کے اقرار و اعتراف کے قائم مقام ہوں تو قطعا کافی ہے۔ پس جس وقت جناب ابوطالب نے فرمایا:

ياشاهدالله‏علي فاشهدانی علی دين النبی أحمد

تو اس کا بھی وہی حکم ہوگا جو نثر میں اقرار کرنےکا ہوسکتا ہے۔

اس کے علاوہ موت کے وقت نثر میں بھی اقرار کیا ہے۔ چنانچہ سید محمد رسولی بزنجی ، حافظ ابونعیم اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ ابوجہل اور عبداللہ ابن ابی امیہ وغیرہ سرداران قریش کی ایک جماعت مرض الموت میں جناب ابوطالب کی عیادت کے لیے گئی، اس موقع پر رسول اللہ (ص) نے اپنے چچا ابوطالب(ع) سے فرمایا کہ کہئیے"لا اله الا الله" تاکہ میں خدائے تعالی کے سامنے اس پر گواہی دوں !فورا ابوجہل اور ابن ابی امیہ نے کہا، اے ابوطالب ! کیا عبدالمطلب کی ملت سے پلٹ جائو گے؟ اور بار بار ان الفاظ کو دہرایا، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا تم لوگ جان لو کہ ابوطالب عبدالمطلب ہی کی ملت پر ہے، چنانچہ وہ لوگ خوش خوش چلے گئے،ادھر ان جناب پر موت کے آثار طاری ہوئے تو ان کے بھائی عباس نے ( جو سرہانے بیٹھے ہوئے تھے) دیکھا کہ آپ کے ہونٹ جنبش کر رہے ہیں ، کان قریب لے گئے تو سنا کہ کہہ رہے ہیں"لا اله الا الله" عباس نے رسول اللہ(ص) کی طرف رخ کر کے عرض کیا کہ اے بھتیجے" والله لقد قال اخی الکلمة التی امرته بها" خدا کی قسم میرے بھائی (ا بوطالب) نے وہی بات کہی ہے جس کا تم نے حکم دیا تھا۔ لیکن چونکہ اس و قت تک عباس اسلام نہیں لائے تھے۔ لہذا کلمہ شہادت کو خود اپنی زبان پر جاری نہیںکیا۔ انتہی۔

جب کہ ہم اس سے قبل ثابت کرچکے ہیں کہ پیغمبر(ص) کےآبائو اجداد کے سب موحد ومومن تھے تو آپ کو سمجھ لینا چاہئیے کہ ابوطالب نے مصلحتا یہ جملہ فرمایا تھا کہ میں عبدالمطلب کی ملت پر ہوں، کیونکہ بظاہر تو ان لوگوں کو خوش اور مطمئن کردیا لیکن بباطن توحید کا اقرار بھی کیا، اس لیے کہ جناب عبدالمطلب ملت ابراہیم پر اور موحد تھے، مزید برآں یہ کہ صریحی طور پر کلمہ طیبہ"لا اله الا الله" بھی زبان پر جاری کیا۔ اگر آپ حضرات تھوڑی دیر کے لیے اپنی عادت سے ہٹ کے جناب ابوطالب کے تاریخی

۱۷۷

حالات کا اںصاف سے مطالعہ کر لیں تو بے ساختہ ان کے ایمان کی تصدیق کریں گے۔

ابتدائے بعثت میں ابوطالب(ع) سے پیغمبر(ص)کی گفتگو

اگر جناب ابوطالب کافر و مشرک اور بت پرست تھے تو پہلے ہی روز جب پیغمبر(ص) مبعوث برسالت ہوئے اور اپنے چچا عباس کے ہمراہ ابوطالب کے پاس جاکر فرمایا:

"ان الله قد امرنی باظهار امری وقد انبائی و استنبانی فما عندک يا عم"

یعنی بہ تحقیق اللہ نے مجھ کو اپنا امر ظاہر کرنے کاحکم دیا ہے اور قطعی طور پر مجھ کو اپنا نبی بنایا ہے پس آپ میرے ساتھ کیا سلوک کریںگے؟

تو قریش کے سردار ، بنی ہاشم کے رئیس اہل مکہ کے نزدیک مقبول القول اور پیغمبر(ص) کے کفیل زندگی ہونے کے بعد یہ دیکھتے ہوئے کہ آں حضرت(ص) ہمارے دین کے خلاف ایک نیا دین پیش کررہے ہیں قاعدے کے موافق اور اس تعصب کے پیش نظر جو اہل عرب اپنے دین میں رکھتے تھے )چاہئیے تو یہ تھا کہ فورا مخالفت پر آمادہ ہوجاتےاور آن حضرت(ص) کو سختی کے ساتھ اس اقدام سے روکنے کی کوشش کرتے اور اگر اس طرح کام نہ چلتا تو چونکہ ان کے عقیدے کے برخلاف نبوت کا دعوی کر کے مدد مانگنے آئے تھے۔ از آں حضرت(ص) کو نظر بند کردیتے یا کم از کم اپنے پاس سے نکال ہی دیتے اور نصرت و حمایت کا وعدہنہ کرتے تاکہ اس عظیم ارادے سے باز رہیں، جس سے اپنا مذہب بھی محفوظ رہے اور اپنے ہم مشرب لوگ ممنوں احسان بھی ہوجائیں۔ جس طرح آزر نے اپنے بھتیجے حضرت ابراہیم(ع) کو جھڑکا اور دھتکارا تھا۔

بعثت ابراہیم(ع) اور آزر سے آپ کی گفتگو

چنانچہ سورہ نمبر19 (مریم) کی آیت نمبر44 میں خدائے تعالی حضرت ابراہیم(ع) کی بعثت کا تذکرہ فرماتا ہے کہ جب آپ رسالت پر مبعوث ہوئے تو اپنے چچا آزر کے پاس گئے اور کہا :

"إِنِّي‏ قَدْ جاءَنِي‏ مِنَ الْعِلْمِ ما لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِراطاً سَوِيًّا. قالأَ راغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يا إِبْراهِيمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنِي مَلِيًّا"

یعنی یقینا میرے پاس ( وحی کے ذریعہ ) وہ علم آیا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا، پس تم میری پیروی کرو تاکہ تم کو راہ راست کی ہدایت کروں آزر نے جواب میں کہا، کیا تم میرے خدائوں سے منحرف ہوگئے ہو؟ اگر تم اپنے عقیدے سے دست بردار نہ ہوگے تو میں تم کو سنگ سار کردوں گا، اور تم میرے پاس سے عرضہ دراز کے لیے دور ہوجائو۔

لیکن اس کے برعکس جب حضرت خاتم الانبیاء(ص) نے جناب ابوطالب سے اعانت طلب کی تو آپ نے کہا:

۱۷۸

" اخْرُجْ يَا ابْنَ أَخِي فَإِنَّكَ الْمَنِيعُ كَعْباً وَ الْمَنِيعُ حِزْباً وَ الْأَعْلَى أَباً وَ اللَّهِ لَا يَسْلُقُكَ‏ لِسَانٌ‏ إِلَّا سَلَقَتْهُ أَلْسُنٌ حِدَادٌ وَ اجْتَذَبَتْهُ سُيُوفٌ حِدَادٌ وَ اللَّهِ لَتُذَلَّلَنَّ لَكَ الْعَرَبُ ذُلَّ الْبُهَمِ لِحَاضِنِهَا "

یعنی اےمیرے بھتیجے خروج کرو کیوںکہ تم یقینا مرتبے میں بلند قبیلے اور گروہ کے لحاظ سے مضبوط اور نسل کے اعتبار سے سب سے بزرگ و برتر ہو۔ قسم خدا کی جو زبان تم کو سخت وسست کہے گی میں تیز و تند زبانوںاور تیز دھار والی تلواروں سے اس کا جواب دوں گا۔ قسم خدا کی سارا عرب تمہارے سامنے اس طرح گھٹنے ٹیک دے گا۔ جس طرح جانور اپنے مالک کے آگے ذلیل رہتے ہیں۔

اس کے بعد مندرجہ ذیل اشعار سے جن کو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص306 (مطبوعہ مصر) میں اور سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص5 میں درج کیا ہے۔ پیغمبر(ص) کو خطاب کیا۔

وَاللَّهِ‏لَنْ‏يَصِلُواإِلَيْكَ بِجَمْعِهِمْ‏حَتَّى أُوَسَّدَ فِي التُّرَابِ دَفِيناً

فَاصْدَعْ بِأَمْرِكَ مَا عَلَيْكَ غَضَاضَةٌوَ انْشُرْ بِذَاكَ وَ قَرَّ مِنْكَ عُيُوناً

وَ دَعَوْتَنِي وَ زَعَمْتَ أَنَّكَ نَاصِحٌ‏فَلَقَدْ صَدَقْتَ وَ كُنْتَ قَبْلُ أَمِيناً

وَ عَرَضْتَ دِيناً قَدْ عَرَفْتُ بِأَنَّهُ‏مِنْ خَيْرِ أَدْيَانِ الْبَرِيَّةِ دِيناً

لَوْ لَا الْمَخَافَةُ أَنْ يَكُونَ مَعَرَّةٌلَوَجَدْتَنِي سَمِحاً بِذَاكَ مُبِيناً

یعنی قسم خدا کی وہ وگ اپنی جماعت کے ساتھ تم تک نہیں پہنچ سکتے، یہاں تک کہ میں ان کو قبروں کے اندر سلادوں۔ پس تم بیخوف ہوکر اپنا فرض اداکرو میں تم کو کامیابی کی خوشخبری دیتا ہوں ، تم اس کے ذریعے آنکھوں میں خنکی پیدا کرو۔ تم نے مجھ کو اپنے دین کی طرف دعوت دی اور میں یقین کرتا ہوں کہ تم نےمجھ کو صحیح راستےکی ہدایت کی، تم یقینا سچے اور ہمیشہ سےامانت دار ہو۔ تم نے ایسا دین پیش کیا ہے جس کے لیے مجھ کو معلوم ہے کہ دنیا کے تمام ادیان سے بہتر ہے۔ اگر مجھ کو ملامت اور بدگوئی کا خوف نہ ہوتا تو تم مجھ کو باعلان اس کا ہمنوا پاتے۔

خلاصہ یہ کہ پیغمبر(ص) سے ناراض ہونے اور آں حضرت(ص) کو اس ارادے سے باز رکھنے یا قتل و اسیری اور گھر سے نکال دینے کی دھمکی دینے کے عوض اس قسم کے ہمت بڑھانے والے اشعار اور ہمدردانہ گفتگو سے آپ کی حوصلہ افزائی اور ترغیب کی کہ کھلم کھلا اپنا فرض ادا کرو تمہارے لیے کسی ذلت و رسوائی یا نقصان کا خوف نہیں ہے۔ تم اپنے عقیدے کا اعلان کرو تاکہ اس سے لوگوں کی آںکھیں روشن ہوں۔ تم نے مجھ کو دعوت دی ہے اور میں بھی جانتا ہوں کہ تم ہادی برحق اور سچے ہو، اور جس طرح پہلےسے امانتدار ہو اس دعوی میں بھی صادق ہو۔ میں نے اچھی طرح سے سمجھ لیا ہے کہ در حقیقت یہ دین سارے ادیان عالم سے بہتر ہے۔

جس قدر میں نے پیش کیا ہے اس کے علاوہ ایسے اشعار بہت ہیں جن کو اس موضوع پر ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم میں، نیز دوسرے علماء نے نقل کیا ہے لیکن ان سب کو پیش کرنے کا وقت نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ نمونے کے لیے

۱۷۹

اسی قدر کافی ہوگا۔

اب آپ حضرات خدا کو حاضر و ناظر جان کر انصاف سے بتائیے کہ ایسے جملے اور اشعار کہنے والے کو مشرک اور کافر کہا جائے گا یا مومن وموحد اور سچا خدا پرست مانا جائے گا؟چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی اس حقیقت کی بے ساختہ تصدیق کی ہے۔

ینابیع المودت شیخ سلیمان بلخی باب52 کو ملاحظہ فرمائیے جس میں ابوعثمان عمرو بن بحر جاحظ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے جناب ابوطالب کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے:

" و حامي‏ النّبي‏ و معينه و محبه أشدّ حبّا و كفيله و مربيه و المقر بنبوته و المعترف برسالته و المنشد في مناقبه أبياتا كثيرة، و شيخ قريش أبو طالب"

یعنی ابوطالب پیغمبر(ص) کے حامی، مددگار، انتہائی چاہنے والے، کفیل زندگی، مربی، آں حضرت(ص) کی نبوت کا اقرار کرنے والے، رسالت کے معترف، آں حضرت(ص) کی مدح وثنا میں کثرت سے اشعار کہنے والےاور قریش کے رئیس و بزرگ تھے۔

تھوڑے سے غور وتامل کے بعد ہر منصف مزاج عقلمند اور غیر جانب دار انسان جناب ابوطالب کے ایمان کی گواہی دیگا۔ البتہ جوبنی امیہ اپنے خلیفہ معاویہ کے حسب الحکم اسی سال تک سید الموحدین حضرت امیرالمومنین (ع) اور پیغمبر(ص) کے دونوں جان سے زیادہ عزیز نواسوں حسن و حسین علیہم السلام پر لعنت اور سب وشتم کے لیے لوگوں کو آمادہ کرتے رہے اور حضرت کافر اٹھے اور اہل جہنم سے ہیں تاکہ جس طرح ہر پہلو سے امیرالمومنین(ع) کے قلب کو اذیتیں پہنچائیں اسی طرح اس رخ سے بھی حضرت کو رنج و تکلیف میں مبتلا کریں۔ چنانچہ اس جعلی حدیث کا راوی بھی میرہ بن شعبہ ملعون ہے جو حضرت علی علیہ السلام کا دشمن اور معاویہ کا جگری دوست تھا۔ ورنہ جناب ابوطالب کا ایمان فریقین کے صاحبان عقل کے نزدیک اظہر من الشمس ہے، اور صرف خوارج و نواصب اور ان دونوں گمراہ فرقوں کے بچے کچے افراد ہی اب تک ہر دور اور ہر زمانے میں جناب ابوطالب کے کفر کا عقیدہ پھیلاتے اور اس پر زور دیتے رہے جس کو بے خبر اور سادہ لوح لوگوں نے بر بنائے عادت صحیح سمجھ لیا سب سے زیادہ تعجب خیز اور افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ ابوسفیان ، معاویہ اور یزید لعنت اللہ علیہم کوتو مومن و مسلمان بلکہ خلیفہ رسول سمجھ لیا حالانکہ ان کے کفر پر بیشمار واضح دلائل موجود ہیں لیکن جناب ابوطالب کو آپ کے ایمان پرایسی کھلی ہوئی دلیلوں کے باوجود کافر ومشرک کہتے ہیں۔

شیخ : آیا یہ مناسب ہے کہ آپ خال المومنین معاویہ بن ابی سفیان کو کافر کہیں اور ہمیشہ ان پر لعنت کریں آخر معاویہ ابن ابی سفیان و یزید رضی اللہ عنہما کے کفر و لعن پر آپ کے پاس دلیل کیا ہے جبکہ یہ دونوں ہر بزرگ خلفاء میں سے ہیں اور بالخصوص معاویہ رضی اللہ عنہ تو خال المومنین اور کاتب وحی بھی تھے؟

خیر طلب: پہلے آپ یہ فرمائیے کہ معاویہ خال مومنین کس صورت سے ہیں؟

شیخ :ظاہر ہے کہ معاویہ کہ بہن ام حبیبہ چونکہ رسول اللہ(ص) کی زوجہ اور ام المومنین تھیں لہذا قطعا ان کے بھائی معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خال المومنین ہوئے۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394