پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 325699 / ڈاؤنلوڈ: 8670
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

کی مسند پر بیٹھے۔

نواب: قبلہ صاحب مدینے میں بلاد مسلمین کے نمائیندوں کا اجماع کیا تعیین خلافت کے لیے تھا؟

خیر طلب: نہیں، ابھی تو خلیفہ سوم ہی مسند خلافت پر موجود تھے، اور اکثر بلاد مسلمین کے سرداران قوم اور بزرگان قبائل کی ایک بہت بڑی جماعت، عرض حال اور اور بنی امیہ وغیرہ کے جابر و ظالم عمال و حاکم اور بار خلافت کے مخصوصین جیسے مروان وغیرہ کے زشتو قبیح حرکاتکی شکایت کرنے کے لیے مدینے میں اکٹھا ہوئی تھی، بالاخر اسی اجماع کا جس میں کبار صحابہ بھی شامل تھے انجام یہ نکلا کہ خود عثمان کی غلط کاریوں اور امیرالمومنین و کبار صاحابہ کی مشفقانہ نصیحتوں پر دھیان نہ دینے کی وجہ سے ان کے قتل کی نوبتآئی۔

اس کے بعد بلاد مسلمین کے ان تمام بزرگان قبائل اور رئوسائے قوم کے ہمراہ جو مدینے میں موجود تھے مدینے والے بصورت اجماع حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں حاجر ہوئے اور آپکو التماس و اصرار کےساتھ مسجد میں لائے، پھر سب نے بالاتفاق اس بزرگوار کی بیعت کی۔ حضرت سے قبل خلفائے ثلاثہ میں سے کسی ایک کی بیعتمیں بھی ایسا کھلا ہوا اجماع واقع نہیںہوا کہ اپنی خواہش اور عزم و اختیار سے سارے اہل مدینہ اور زعمائے ملت نے مل کر ایک مخصوص فرد کی طرف بیعت کا ہاتھ بڑھایا ہو اوراس کو خلیفہ تسلیم کیا ہو۔

لیکن ایسے اجماع اور اجتماع کے باوجود جو امیرالمومنین (ع) کے لیے منعقد ہوا ہم اس کو حضرت کے لیے دلیل خلافت نہیں سمجھتے بلکہ آپ کی خلافت پر ہماری دلیل قرآن مجید اور خدا و رسول خدا(ص) کی نص ہے، جس طرح تمام انبیاء کی سیرت تھی کہ حکم خداوندی سے اپنا وصی اور خلیفہ معین فرما تے تھے۔

تیسرے آپ نے فرمایا کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام اور دوسرے خلفاء کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا، معلوم نہیں آپ جان بوجھ کر ایسا کہہ رہے ہیں یا واقعی غلط فہمی کا شکار ہیں، اس لیے کہ عقلی و نقلی دلائل بلکہ امت کے اجماع سے بھی ثابت ہے کہ علی(ع) اور دوسرے خلفاء بلکہ ساری امت کے درمیان بہت بڑا فرق تھا۔

علی(ع) دوسرے تمام خلفاء سے ممتاز تھے

پہلی خصوصیت جو حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کو حاصل تھی اور اسی جہت سے آپ تمام دوسرے خلفاء سے ممتاز تھے یہ ہے کہ وہ سب صرف مخلوق کی ایک جماعت کے مقرر کئے ہوئے تھے لیکن علی علیہ السلام خدا و رسول(ص) کی طرف سے معین ہوئے ہیں، اور ظاہر ہے کہ خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کا مقرر کیا ہوا خلیفہ یقینا ان لوگوں سے افضل ہے جن کو مخلوق نے مقرر کیا ہو۔ ہر عقلمند انسان جانتا ہے کہ خلیفہ منصوص اور خلیفہ غیر منصوص میں بہت فرق ہے اور سب سے بڑی امتیازی صفت جو علی علیہ السلام کو دیگر خلفاء اور ساری امت سے بلند قرار دیتی ہے وہ حضرت کے علم وفضل اور شرف و تقوی کا درجہ ہے، کیونکہ ( تھوڑے سے خوارج و نواصب اور

۱۶۱

بکریین کے علاوہ جن کی حالت سب کو لعلمو ہےجملہ علمائے امت کا اتفاق ہے کہ علی علیہ السلام پیغمبر صلعم کے بعد ساری امت سے اعلم، افضل، اقضی، اشرف اور اتقی تھے۔

چنانچہ میں اس بارے میں قرآن مجید کی تائیدوں کے ساتھ کافی روایتیں حتی کہ ابوبکر وعمر کی زبان سے بھی پچھلی شبوں میں آپکی معتبر کتابوں سے نقل کرچکا ہوں اور اس وقت پھر ایک حدیث یاد آگئی ہے جو پہلے بیان نہیں کی تھی لہذا انکشاف حقیقت کے لیے اس کو بھی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ امام احمد ابن حنبل نے مسند میں ، ابوالموئدموفق بن احمد خوارزمی نے مناقب میں، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی میں، حافظ ابوبکر بیہقی شافعی نے اپنی سنن میں اور دوسرے نے بھی رسول اکرم(ص) سے مختلف الفاظ وعبارات کے ساتھ مکرر نقلکیا ہے کہ فرمایا:

" علی اعلمکم و افضلکم و اقضاکم والرد عليه کالرد علی والرد علی کالرد علی الله وهو علی حد الشرک بالله"

یعنی علی(ع) تم سب سے اعلم ، افضل اور اقضی ہیں، جو شخص ان کے قول و فعل یا رائے کو رد کرے اس ن گویا میری تردید کی اور جس نے میری تردید کی اس نے گویا خدا کی تردید کی اور وہ شخص شرک باللہ کی حد میں ہے۔

ابن ابی الحدید معتزلی نے جو آپ کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں شرح نہج البلاغہ کی جلدوں میں کئی مقامات پر لکھا ہے کہ تفصیل امیرالمومنین علی علیہ السلام کا قول ایک قدیم قول ہے جس کے بہت سے اصحاب اور تابعین قائل تھے اور بغداد کے شیوخ نے اس حقیقت کی تصدیق کی ہے ( اس موقع پر عشاء کی اذان ہوئی اور مولوی صاحبان نماز کے لیے اٹھ گئے ادائے فریضہ اور چائے نوشی کے بعد خیر طلب نےافتتاح کلام کیا۔)

چوٹی کے فضائل وکمالات کیا ہیں؟

خیر طلب: جب آپ حضرات نماز میں مشغول تھے تو غور کرنے اے ایک موضوع نظر میں آیا ہے جو سوال کے طور پر آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

یہ فرمائیے کہ کسی شخص کی ایسی شرافت و فضیلت جس سے اس کو دوسرے افراد کے مقابلے میں فوقیت کا حق حاصل ہو کس چیز سے ہے؟

شیخ : ( تھوڑے سکوت کے بعد) حقیقتا شرافت اور فضیلت کے طریقے بہت ہیں لیکن اول درجے میں جن کو چوٹی کے فضائل و کمالات کہہ سکتے ہیں وہخدا و رسول(ص) پر ایمان کے بعد میرے نزدیک تین چیزیں ہیں۔

۱۔ پاکیزہ نسب اور نسل۔ ۲۔ علم و دانش۔ ۳۔ تقوی و پرہیزگاری۔

خیر طلب: جزاک اللہ، میں بھی انہیں تین طریقوں سے بحث میں قدم رکھتا ہوں جن کو آپ نے بلند ترین فضائل و کمالات

۱۶۲

کے عنون سے انتخاب فرمایا ہے۔ یہ مان لینے کے بعد بھی کہ ہر ایک صحابی چاہے وہ خلیفہ ہو یا نہیں کسی نہ کسی خصوصیت کا حامل تھا عقلی و نقلی قواعد کے روسے یہ مسلم ہے کہ ان میں سے جو فردیں ان بلند خصوصیات اور اعلی فضائل کی جامع تھیں وہ سب سے مقدم اور بالاتر تھیں۔ اگر میں ثابت کردوں کہ ان تینوں خصوصیات میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ہی سب کے سید و سردار تھے تو آپ کو تصدیق کرنا چاہئیے کہ حضرت رسول خدا(ص) سے وارد نصوص کی موجودگی میں یہ بزرگوار امر خلافت میں بھی اولی اور سب سے زیادہ حقدار تھے، اور اگر تخت خلافت سے محروم رہے تو محض ان سیاسی حیلہ سازیوں کی وجہ سے جن کا نام مصلحت رکھ دیا گیا۔

( جیسا کہ شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۴۶ میں ابن ابی الحدید کا عقیدہ ہے)

علی علیہ السلام کا پاکیزہ نسب

اولا نسل ونسب کے معاملے میں مسلم ہے کہ ذات خاتم الانبیاء کے بعد شرافت میں کوئی شخص بھی علی علیہ السلام کو نہیں پہنچتا اور حضرت کی اصل و نسل اس قدر پاک و پاکیزہ اور درخشان ہے کہ صاحبان عقل کی عقلیں حیران اور دم بخورد ہیں، یہاں تک کہ آپ کے متعصب اکابر علماء جیسے علاء الدین مولوی علی بن محمد قوشجی ، ابو عثمان عمرو بن بحر جاحظ ناصبی اور سعد الدین مسعودی بن عمر تفتازانی بھیکہتے ہیں کہ ہم علی کرم اللہ وجہہ کے کلمات میں دم بخود اور حیران ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں"نَحْنُ أَهْلَ الْبَيْتِ لَا يُقَاسُ‏ بِنَا أَحَدٌ "

( یعنی ہم اہل بیت رسالت ہیں ہمارے اوپر کسی دوسرے کا قیاس نہیں کیا جاسکتا)

نیز نہج البلاغہ کے دوسرے خطبے میں ہے کہ خلافت ظاہری حاصل ہونے کے بعد حضرت نے فرمایا:

"لَا يُقَاسُ‏ بِآلِ‏ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه و آله مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَحَدٌ وَ لَا يُسَوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَيْهِ أَبَداً هُمْ أَسَاسُ الدِّينِ وَ عِمَادُ الْيَقِينِ إِلَيْهِمْ يَفِي‏ءُ الْغَالِي‏ وَ بِهِمْ يُلْحَقُالتَّالِي وَ لَهُمْ خَصَائِصُ حَقِّ الْوِلَايَةِ وَ فِيهِمُ الْوَصِيَّةُ وَ الْوِرَاثَةُ الْآنَ إِذْ رَجَعَ الْحَقُّ إِلَى أَهْلِهِ وَ نُقِلَ إِلَى مُنْتَقَلِهِ‏"

یعنی اس امت کے کسی ایک شخص کا بھی آل محمد صلی الہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ قیاس اور موازنہ نہیں ہوسکتا، جس شخص پر ہمیشہ اہل بیت کی نعمت و مرحمت جاری رہی ہو وہ ان کے برابر کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ دین کی بنیاد اور ایمان و یقین کے ستون ہیں، حد سے آگے بڑھ جانے والا پلٹ کے انہیں کی طرف آ تا ہے او رپیچھے رہ جانے ولا بڑھ کے انہیں سے ملحق ہوتا ہے، حق ولایت و امامت کے خصوصیت انہیں کے لیے ہیں اور ( رسول خدا(ص) کی) وصیت و وراثت انہیں میں ہے۔ اس وقت حق اپنے اہل کی طرف پلٹ آیا ہے اور جہاں سے متقل کیا گیا تھا وہیں پھر پہنچ گیا ہے)

امیرالمومنین کے یہ بیانات حق خلافت میں حضرت کے اور خاندان آلِ محمد صلوات اللہ علیہم اجمعین کے اولی اور مقدم ہونے پر پوری دلالت کرتے ہیں۔

یہ جملے صرف آپ ہی نے نہیں فرمائے ہیں بلکہ مخالفین بھی اس مفہوم کی تصدیق کرتےہیں۔ چنانچہ کسی شب میں عرض کرچکا

۱۶۳

ہوں کہ میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی مودت ہفتم میں ابی وائل سے اور وہ عبداللہ ابن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا، اصحاب پیغمبر(ص) کو شمار کرتے ہوئے ہم نے ابوبکر، عمر اور عثمان کا ذکر کیا تو ایک شخص نے کہا علی(ع) کا نام کہاں گیا؟ ہم نے کہا :

"عَلِيِ‏ مِنْ‏ أَهْلِ‏ البَيْتٍ‏ لَا يُقَاسُ‏ بِهِ أَحَدٌ هوَ مَعَ رَسُول الله ِ صَلیَ اللهُ عَليه وَ آلِهِ فِي دَرَجَتَه"

یعنی علی(ع) اہل بیت نبوت میں سے ہیں ان کے ساتھ کسی اور کا قیاس نہیںکیا جاسکتا،وہ رسول خدا صلعم کے ساتھ انہیں کے درجے میں ہیں۔)

نیز احمد بن محمد کرزی بغدادی سے نقل کرتے ہں کہ عبداللہ بن احمدحنبل نے کہا میں نے اپنے باپ ( امام حنابلہ احمد بن حنبل) سے تفصیل صحابہ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا ابوبکر ،عمر اور عثمان میں نے کہا بابا علی ابن ابی طالب(ع) کیا ہوئے؟ تو کہا "هوَ مِنْ‏ أَهْلِ‏ البَيْتٍ‏ لَا يُقَاسُ‏ بِهِ هَئُولا ءِ " ( یعنی وہ اہل بیت(ع) میں سے ہیں ان کے ساتھ ان لوگوں کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔)

غیر معمولی بات یہ ہے کہ علی علیہ السلام کا نسب دو پہلو رکھتا ہے۔ نورانی اور جسمانی اور اس حیثیت سے رسول خدا(ص) کے بعد حضرت کی ذات منفرد تھی۔

علی(ع) کی نورانی خلقت اور پیغمبر(ص) کےساتھ آپ کی شرکت

جنبہ نورانیت اور حقیقت خلقت کے لحاظ سے تقدم کا حق امیرالمومنین علیہ السلام کےساتھ ہے۔ چنانچہ آپ کے اکابر علماء مثلا امام احمد ابن حنبل اپنی باعظمت کتاب مسند میں، میر سید علی ہمدانی فقیہ شافعی مودۃ القربی میں، ابن مغازلی شافعی مناقب میں اور محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول فی مناقب آل الرسول میں رسول اکرم(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا:

"‏ كُنْتُ‏ أَنَا وَ عَلِي ابن ابی طالبِ نُوراً بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ من قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ اللَّهُ آدَمَباربعةِ عَشرَاَلْفِ عَامٍ فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ رَكَّبَ ذَلِكَ النُّورَ فِي صُلْبِهِ فَلَمْ يَزَلْ فِي شَيْ‏ءٍ وَاحِدٍ حَتَّى افْتَرَقْنَا فِي صُلْبِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَفِيَّ النُّبُوَّةُ وَ فِي عَلِيٍّ الْخِلَافَةُ."

یعنی میں اور علی ابن ابی طالب(ع) دونوں خلقت آدم سے چودہ ہزار سال قبل بارگاہ خداوندی میں ایک نور تھے، پس جب خدا نے آدم کو پیدا کیا تو اس نور کو ان کے صلب میں قرار دیا اور ہم برابر ایک نور کی صورت میں رہے یہاں تک کہ عبدالمطلب کے صلب میں ایک دوسرے سے الگ ہوئے پس مجھ میں نبوت اور علی(ع) میں خلافت آئی۔

میر سید علی ہمدانی فقیہ شافعی نے مودۃ القربی کی مودت ہشتم کو اس عبارت کے ساتھ اسی موضوع سے مخصوص کیا ہے :

"المودة الثامنة فی ان رسول الله و عليا من نورواحد اعطی علی من الخصال مالم يعط احد من العالمين"

یعنی آٹھویں مودت اس باب میں کہ رسول خدا(ص) اور علی(ع) ایک نور سے ہیں، علی(ع) کو ایسی خصلتیں عطا کی گئیں جو عالمین میں کسی کو نہیں ملیں۔

من جملہ ان احادیث کے جو اس مودت میں نقل کی ہیں اور ابن مغازلی شافعی نے بھی ذکر کیا ہے خلیفہ سوم عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"خلقت‏ أنا و علي‏ من نور واحد قبل أن

۱۶۴

یخلق اللّه آدم (عليه السّلام) بأربعة آلاف عام، فركّب ذلك في صلبه فلم يزل شي‏ء واحد حتى افترقنا في صلب عبد المطلب ففی النبوة و فی علی الوصية."اور اسی کے بعد دوسری حدیث میں لکھتے ہیں کہ علی سے خطاب فرمایا :" ففی النبوة والرسالة و فيک الوصية والامانة يا علی."

یعنی میں اور علی خلقت آدم سے چار ہزار برس قبل ایک نور سے پیدا ہوئے پس جب اللہ نے آدم کو پید اکیا تو اس نور کو ان کے صلب میں ودیعت فرمایا پھر ہم برابر ایک نور رہے یہاں تک کہصلب عبدالمطلب میں ایک دوسرے سے جدا ہوئے، پس مجھ میں نبوت اور علی(ع) میں وصایت قرار پائی۔یا یہ کہ میرے اندر نبوت و رسالت اور اے علی(ع) تمہارے اندر وصیت و امامت آئی۔

نیز اسی حدیث کو ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۴۵۰ ( مطبوعہ مصر) میں صاحب کتاب فردوس سے نقل کیا ہے، اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب اول میں جمع الفوائد، مناقب ابن مغازلی شافعی، فردوس دیلمی، فرائد السمطین حموینی اور مناقب خوارزمی سے یہ الفاظ و عبارات کے تھوڑے سے تفاوت لیکن وحدت مفہوم کے ساتھ نقل کیا ہے کہ محمد و علی صلوات اللہ علیہما کی نورانی خلقت کائنات کی خلقت سے ہزاروں سال پہلے ہوئی اور یہ کہ دونوں ایک ہی نور تھے یہاں تک کہ صلب عبد المطلب میں ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ ایک حصہ صلب عبد اللہ میں قائمہوا جس سے خاتم الانبیاء کی پیدائش ہوئی اور دوسرا حصہ صلب ابوطالب میں پہنچا جس سے علی علیہ السلام کی ولادت ہوئی، محمد صلعم کا نبوت و رسالت کے لیے اور علی علیہ السلام کا وصایت و امامت اور خلافت کے لیے انتخاب ہوا۔ جیسا کہ تمام اخبار میں خود رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے۔ اور ابو الموئد موفق بن احمد خوارزمی مناقب فصل چہاردہم اور مقتل الحسین فصل چہارم میں، سبط ابن جوزی تذکرہ ص۲۸ میں، ابن صباغ مالکی فصول المہمہ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب۸۷ میں پانچ حدیثیں حافظ محدث شام کی سند سے اور حافظ محدث عراق معجم طبرانی سے اپنا اسناد کےساتھ نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا میں اور علی(ع) دونوں ایک نور سے پیدا ہوئے اور ایک ساتھ رہے یہاں تک صلب عبدالمطلب میں ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ ان میں سے بعض اخبار مفصل اور بہت بلند و مفید ہیں لیکن اختصار کے لحاظ سے میں نے مکمل طور پر ذکر نہیں کیا، (شائقین اصل کتاب کی طرف رجوع فرمائیں)عبارتوں اور لفظوں کا اختلاف اس وجہ سے نہیں ہے کہ آں حضرت(ص) نے ایک ہی موقع پر ارشاد فرمایا اور ہر مادی نے ایک عبارت کےساتھ نقل کردیا ، بلکہ بہت ممکن ہے مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہو جیسا کہ خود حدیثوں کے سیاق سے ظاہر ہو رہاہے۔

علی علیہ السلام کا نسبِ جسمانی

اورجسمانی جنبہ بھی ماں باپ دونوں کی طرف سے بہت بڑی شرافت کا حامل ہے جو حضرت کے مخصوص خصائص و فضائل میں سے ہے۔

۱۶۵

دوسروں کے برخلاف آپ کے آبائواجداد ابوالبشر حضرت آدم(ع) تک سب کےسب موحد اورخدا پرست تھے اور کسی ناپاک صلب یا رحم میں یہ پاک نور جاگزین نہیں ہوا۔ یہ فخر صحابہ میں سے کسی ایک کو بھی حاصل نہیں تھا۔ سلسلہ نسب یہ ہے :

علی۱۔ ابن ابی طالب۲۔ بن عبدالمطلب۳۔ بن ہاشم۴۔ بن عبد۵۔ مناف بن قصی۶۔ بن کلاب۷۔ بن ۸۔مرہ بن کعب۹۔ بن لوی۱۰۔ بن غالب۱۱۔ بن فہر۱۲۔ بن مالک۱۳۔ بن نضر۱۴۔بن کنانہ۱۵۔ بن خزیمہ۱۶۔بن مدرکہ۱۷۔ بن الیاس۱۸۔ بن مضر۱۹۔ بن نزار۲۰۔بن سعد۲۱۔بن عدنان۲۲۔بن ادو۲۳۔ بن الیسع۲۴۔ بن الہمیس۲۵۔ بن نبت۲۶۔ بن سلامان۲۷۔ بن حمل۲۸۔ بن قیدار۲۹۔ بن اسمعیل۳۰۔ بن ابراہیم۳۱۔ خلیل اللہ بن تارخ۳۲۔ بن تاحور۳۳۔ بن شاروع۳۴۔ بن ابرغو ۳۵۔بن تالغ۳۶۔ بن عابر۳۷۔ بن شالع۳۸۔ بن ارفخشد ۳۹۔بن سام ۴۰۔بن نوح۴۱۔ بن ملک۴۲۔ بن متوشلخ۴۳۔ بن اخںوخ۴۴۔ بن یار۴۵۔و بن مہلائل۴۶۔ بن قینان۴۷۔ بن انوش۴۸۔ بن شیث۴۹۔ بن آدم۵۰۔ ابوالبشر علیہم السلام و رسول خدا صلعم کے بعد کسی کو بھی ایسا درخشان نسب نصیب نہیں ہوا۔

شیخ : آپ نے جو یہ فرمایا کہ آدم ابو البشر تک علی کرم اللہ وجہہ کے سبھی آبائو اجدا موحد تھے تو بظاہر اس میں آپ کو دھوکا ہوا ہے کیونکہ در اصل ایسا نہیں ہے۔ ہم بھی ظاہر پر مامور ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان بزرگوار کے آبائو اجداد میں مشرکین اور بت پرست بھی تھے جیسے ابراہیم خلیل کے باپ آزر جن کے لیے آیہ شریفہ میں صاف صاف ارشاد ہے:

"‏ وَ إِذْ قالَ إِبْراهِيمُ لِأَبِيهِ‏ آزَرَ أَ تَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً- إِنِّي أَراكَ وَ قَوْمَكَ فِي ضَلالٍ مُبِينٍ‏"

یعنی یاد کرو اس وقت کو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ آیا تم بتوں کو اپنا خدا بناتے ہو؟ میں تم کو اور تمہاری قوم کو کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھتا ہوں۔ سورہ نمبر۶ ( انعام) آیت نمبر۷۴۔

اس اشکال کا جواب کہ ابراہیم کا باپ آزر تھا

خیر طلب : بغیر سوچے سمجھے ہوئے آپ کا یہ بیان میری نظر میں عادتا اپنے اسلاف کی پیروی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس لیے کہ آپ کے اگلےاور پچھلے لوگ محض اس عرض سے کہ اپنے بزرگ اور چہیتے صحابیوں کو جن کی طرف قطعی طور سے کفر و شرک کی نسبت موجود ہے پاک قرار دے دیں یعنی یہ نسبی عیب ان سے دور ہوجائے اور ماں باپ کا مشرک ہونا معیوب نہ سمجھا جائے، اس بات پرآمادہ ہوگئے کہ اپنے عظیم المرتبت پیغمبر(ص) کے آبائو و اجداد میں بھی مشرک کو داخل کردیں اور آں حضرت(ص) کے نسب کو کفر و شرک سے ملا دیں تاکہ اپنے اسلاف اور بزرگان دین کی صفائی پیش کرسکیں۔

واقعی صاحبان عقل و دانش کی طرف سے ایسی مطلب پرستیاں بہت افسوسناک ہیں جن کو سواتعصب و عناد اپنے پیشوائوں کی اندھا دھند محبت اور بے محل ہاتھ پائوں مارنے کے اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ اور آپ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے کی عادت سے مجبور ہو کر ایسے جلسے میں ان باتوں کو دہراتے ہیں۔ حالانکہ آپ خود جانتے ہیں کہ علمائے انساب کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ابراہیم(ع) کے باپ تارخ تھے آزر نہیں تھا۔

شیخ : آپ نص کے مقابلے میں اجتہاد کر رہے ہیں اور علمائے انساب کے عقائد و نظریات کو قرآن کے مقابلے میں لا رہے ہیں

۱۶۶

باوجودیکہ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ حضرت ابراہیم کا باپ آزر بت پرست تھا۔

خیر طلب : میں کبھی نص کے مقابلے میں اجتہاد نہیں کرتا بلکہ قرآنی حقائق کو سمجھنے کے علاوہ چونکہ میرا کوئی اور مقصد نہیں ہے۔ لہذا جب میں قرآن کے عدیل و مفسر یعنیاہل بیتاور عترت رسول(ص) کی رہنمائی میں تھوڑے غور و فکر اور دقت نظر سے کام لیتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اس آیہ شریفہ میں عرف عام کا قاعدہ استعمال ہوا ہے اس لیے کہ عام اصطلاح میں چچا اور ماں کے شوہر کو بھی باپ کہا جاتا ہے۔

اور آزر کے بارے میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ حضرت ابراہیم(ع) کا چچا تھا، اور دوسرا یہ کہ چچا ہونے کے علاوہ اپنے بھائی تارخ یعنی حضرت ابراہیم کے والد کی وفات کے بعد اس نے حضرت کی والدہ کو اپنی زوجیت میں لے لیا تھا لہذا حضرت دو وجہوں سے ہمیشہ اس کو باپ کہہ کر خطاب فرماتے تھے، ایک چچا ہونے کی جہت سے اور دوسرے ماں کا شوہر ہونے کے سبب سے۔

شیخ : ہم قرآن کیصراحت سے چشم پوشی نہیں کرسکتے جب تک خود قرآن ہی میں اس کی دلیل نہ مل جائے کہ چچا یا ماں کے شوہر کو باپ کہا گیا ہو، اور اگر آپ ایسی دلیل پیش نہ کرسکیں ( اور ہرگز پیش نہ کرسکیں گے) تو آپ کا استدلال ناقص اور ناقابل قبول ہے۔

خیر طلب: ایسا حتمی دعوےنہ کیجئے کہ جب اس کے خلاف دلیل قائم کی جائے تو سارا زور بیان ٹوٹ جائے، اس لیے کہ خود قرآن مجید میں ایسی نظیریں موجود ہیں جن میں عرف عام کے قاعدے سے بیان کیا گیا ہے من جملہ ان کے سورہ نمبر۲( بقرہ) کی آیت نمبر۱۲۷ ہے جو میری گذارش کا ثبوت دے رہیہے اور جس میں موت کے وقت حضرت یعقوب کا اپنے بیٹوں کے ساتھ سوال وجواب مذکور ہے ارشاد ہے:

"إِذْ قالَ‏ لِبَنِيهِ‏ ما تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي- قالُوا نَعْبُدُ إِلهَكَ وَ إِلهَ آبائِكَ إِبْراهِيمَ وَ إِسْماعِيلَ وَ إِسْحاقَ إِلهاً واحِداً"

یعنی جس وقت جناب یعقوب(ع) نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم لوگ میرے بعدکس کی پرستش کروگے تو انہوں نے کہا کہ تمہارے خدا اور تمہارے باپوں ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق کی جو یکتا معبود ہے۔

اس آیت میں میرے دعوے کی دلیل لفظ اسماعیل ہے کیونکہ قرآن مجید کی شہادت سے حضرت یعقوب(ع) کے باپ حضرت اسحاق(ع) ہیں اور حضرت اسماعیل(ع) باپ تو نہیں بلکہ چچا ہیں لیکن آپ اصطلاح عام کے قاعدے سے ان کو باپ ہی کہتے تھے۔ چونکہ فرزندان یعقوب(ع) بھی عرفا چچا کو باپ کہتے تھے لہذا اپنے پدر بزرگوار کے جواب میں چچا کو باپ ہی کہا اور خدا نے ان کے سوال و جواب کو اسی طرح سے نقل کیا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے چچا اور ماں کے شوہر کو عرفا باپ کہتے تھے لہذا قرآن مجید نے بھی ان کو باپ کہا ورنہ تاریخ اور علم الانساب کی مضبوط دلیل سے یہ مسلم ہے کہ حضرت ابراہیم(ع) کے باپ آزر نہیں بلکہ تارخ تھے۔

۱۶۷

پیغمبر(ص) کے آبائو امہات مشرک نہیں بلکہ سب مومن تھے

اس کی دوسری دلیل کہ پیغمبر(ص) کے آبائو اجداد مشرک اور کافر نہیں تھے۔ سورہ نمبر۲۶،(شعراء) کی آیت نمبر۲۱۹ ہے جس میں ارشاد ہے

" وَ تَقَلُّبَكَ‏ فِي السَّاجِدِينَ" ( یعنی اور خدا پرستوں میں تمہاری گردش، ۱۲ مترجم)

اس آیہ شریفہ کے معنی میں شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۲ میں نزی آپ کے دورے علماء نے ابن عباس ( جرامت و مفسر قرآن) سے روایت کی ہے کہ :

" تقلبهمن‏ أصلاب‏ الموحّدين‏من موحّدين نبی الى نبی حتى أخرجهمن صلب ابيه من نکاح غير سفاح من لدن آدم"

یعنی خدا نے پیغمبرج(ص) کو پشت آدم(ع) سے ایک نبی کے بعد دوسرے نبی کی طرف اہل توحید کے اصلاب میں منتقل فرمایا، یہاں تک کہ آپ کو اپنے باپ کے صلب سے ظاہر فرمایا بذریعہ نکاح نہ کہ حرام سے۔

من جملہ اور دلائل کے ایک مشہور حدیث ہے جس کو آپ کے سبھی علماء نے نقل کیا ہے ، یہاں تک کہ امام ثعلبی جو اصحاب حدیث کے امام ہیں اپنی تفسیر میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب۲ میں ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"اهبطنی الله الی الارض فی صلب آدم و جعلنی فی صلب نوح فی السفينة و قذف بی فی صلب ابراهيم ثم لم يزل الله ينقلبی من الاصلاب الکريمة الی الارحام الطاهرة حتی اخرجنی من بين ابوين لم يلتقيا علی سفاح قط"

یعنی خدا نے مجھ کو زمین کی طرف صلب آدم میں ا تارا اور کشتی کے اندر مجھ کو صلب نوح(ع) میں قرار دیا اور مجھ کو صلب ابراہیم(ع) منفقل کیا اور اللہمجھ کو ہمیشہ بزرگ و محترم اصلاب سے پاک و پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ مجھ کو میرے ماں باپ سے پیدا کیا جنہوں نے ہرگز حرام طریقے سے باہم ملاقات نہیں کی۔

اور دوسری حدیث میں فرمایا" لم یدنسنی بدنس الجاہلیہ "( یعنی مجھ کو جاہلیت کی گندگی سے آلودہ نہیں کیا) اسی باب میں کتاب ابکار الافکار شیخ صلاح الدین بن زین الدین بن احمد معروف بہ ابن الصلاح حلبی اور علاء الدولہ سمنانی کی شرح کبریت احمر میں شیخ عبدالقادر سے بروایت جابر ابن عبداللہ انصاری ایک مفصل حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) سے اول ما خلق اللہ کے متعلق دریافت کیا گیا اور آں حضرت(ص) نے جوابات دیتے ہیں( جن کی تشریح کا وقت نہیں ) یہاں تک کہ آخر حدیث میں فرمایا ہے :

"و هکذا ينتقل الله نوری من طيب الی طيب و من طاهر الی طاهر الی اوصله الله الی صلب ابی عبد الله بن عبد المطلب و منه اوصله الله الی رحم امی آمنة ثم اخرجنی الی الدنيا فجعلنی سيد المرسلين و خاتم النبيين"

یعنی اور اسی طرح خدائے تعالے میرے نور کو طیب وطاہر اور پاک پاکیزہ سے طیب و طاہر اور پاک و پاکیزہ کی طرف منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ میرے باپ عبداللہ ابن عبدالمطلب کے صلب میں ودیعت کیا اور ان سے میری ماں آمنہ کے رحم میں لایا۔ پھر مجھ کو دنیا میں ظاہر کیا اور سید المرسلین و خاتم النبیین قرار دیا۔

۱۶۸

یہ ارشاد کہ میں طیب سے طیب اور طاہر سے طاہر کی طرف منتقل ہوتا رہا، اس بات کا ثبوت ہے کہ آں حضرت(ص) کے آبائو اجداد میں کوئی کافر نہیں تھا، اس لیے کہ قرآن مجید کے حکم انما المشرکین نجس کے مطابق ہر کافر و مشرک نجس ہے پس جب یہ فرمایا کہ" لم يزل انقل من اصلاب الطاهرين الی ارحام الطاهرات " یعنی میں برابر اصلاب طاہرین سے پاک پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل ہوتا رہا تو ثابت ہوا کہ مشرکین چونکہ نجس ہیں لہذا آں حضرت(ص) کے آبائو اجداد مشرک نہیں تھے۔

نیز ینابیع المودت کے اسی باب میں کبیر سے بروایت ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

"ما ولدني‏ في‏ سفاح‏ الجاهلية شي‏ء و ما ولدني إلّا نكاح كنكاح الإسلام"

یعنی میں زمانہ جاہلیت کےکسی حرام طریقے سے پیدا نہیں ہوا بلکہ اسلامی نکاح کے ذریعہ متولد ہوا۔

آیا آپ نے نہج البلاغہ کا خطبہ نمبر۱۰۵نہیں پڑھا ہے جس میں امیرالمومنین علی علیہ السلام نے رسول اللہ(ص) کے آبائو اجداد کیاس طرح توصیف کی ہے کہ :

"فاستودعهم‏ في‏ أفضل‏ مستودع‏، و أقرهم في خير مستقر، تناسختهم كرائم الأصلاب إلى مطهرات الأرحام، كلما مضى منهم سلف قام منهم بدين اللّه خلف» إلى أن قال: «حتى أفضت كرامة اللّه سبحانه و تعالى إلى محمد صلى اللّه عليه و آله، فأخرجه من أفضل المعادن منبتا، و أعز الأرومات مغرسا، من الشجرة التي صدع منها أنبياءه، و انتجب منها أمناءه"

یعنی خدا نے ان( انبیاء) کو بزرگترین جائے امانت ( یعنی ان کے آبا ئے کرام کے اصلاب) میں امانت رکھا اور ان کو بہترین جائے قیام ( یعنی ان کی امہات کے ارحام طاہرہ) میں قرار دیا، ان کو بزرگ و احترام اصلاب سے پاک پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل فرمایا ، جب ان کے کسی سلف نے رحلت کی تو ایک خلف دین خدا کے ساتھ ان کا قائم مقام ہوا۔ یہاں تک کہ خدائے تعالے کی کرامت (یعنی نبوت و رسالت) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف آئی، پس آں حضرتج(ص) کو سب سے افضل معدن پیدائش اور سب سے معزز اصل و بنیاد سے ظاہر فرمایا، ایسے شجرہ طیبہ سے جس سے اپنے انبیاء کو پیدا کیا، اور جس سے اپنے امانت داروں کو برگزیدہ کیا۔

اگر میں چاہوں تو اس طرح کے دلائل جلسے کا وقت ختم ہونے تک برابر پیش کرتا ہوں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ مطلب ثابت کرنے کے لیے اور وہ بھی صاحبان اںصاف کے سامنے اسی قدر کافی ہوگا جس سے آپ حضرات سمجھ لیں کہ آدم ابوالبشر تک پیغمبر(ص) کے سارے آبائو اجداد مومن و موحد تھے۔ بدیہی چیز ہے کہ اہل البیت ادری بما فی البیت کے مصداق اہلبیت طہارت اور خاندان رسول (ص) کے افراد اپنےبزرگوں کے حالات سے دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگاہ تھے۔

پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ پیغمبر(ص) کے آبائو اجداد بھی سب کے سب مومن و موحد تھے تو یہ بات خود بخود ثابت ہوجاتی ہے کہ علی علیہ السلام کے آبائو و اجداد بھی سب کےسب مومن اور خدا پرست تھے۔ کیونکہ میں( تواتر اخبار شیعہ کے علاوہ) صرف ان اخبار و احادیث سے جن کو آپ کے علماء نے نقل کیا ہے پہلےہی ثابت کرچکا ہوں کہ محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام ایک نور تھے اور تمام پاک و پاکیزہ اصلاب و ارحام میں ایک ساتھ رہے یہاں تک کہ صلب عبدالمطلب میں ایک دوسرے سے جدا

۱۶۹

ہوئے نورانی اور جسمانی دونوں منزلوں میں جہاں رسول خدا(ص) تھے وہیں علی(ع) بھی تھے( پس ہر عقلمند کی عقل فیصلہ کرلے گی کہ جو بزرگ شخصیت ایسے روشن ومنزہ اور پاک و پاکیزہ نسب اور نسل کی حامل اور تمام اشخاص سے زیادہ رسول اللہ(ص) سے قریب تھی وہی منصب خلافت کے لیے اولی اور سب سے زیادہ حقدار تھی۔

شیخ: اگرچہ آپ نے ذزر اورتارخ کے مسئلے میں کامیابی کا راستہ نکال لیا ہے اور رسول خدا(ص) کے آبائو اجداد کی طہارت ثابت کردی ہے لیکن علی کرم اللہ وجہہ کے لیے اس قسم کا ثبوت ناممکن ہے کیونکہ (چاہے ہم اس کو تسلیم بھی کر لیں کہ عبدالمطلب تک سب موحد تھے لیکن ) علیکرم اللہ وجہہ کے باپ ابوطالب کے بارے میں ہرگز کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ ثابت ہے کہ وہ کفر کی حالت میں دنیا سے اٹھے۔

ایمان ابوطالب میں اختلاف

خیر طلب: میں تصدیق کرتا ہوں کہ جناب ابوطالب کے بارے میں امت کے اندر اختلاف پیدا کردیا گیا، لیکن کہنا چاہئیے کہ :

"اللهم‏ العن‏ أول‏ ظالم ظلم حق محمّد و آل محمّد "(یعنی خداوندا لعنت کر اس پہلے ظالم پر جس نے محمد و آل محمد(ص) کے حق میں ظلم کیا) لعنت ہو خدا کی اس شخص پر جس نے روز اول علی علیہ السلام کو ایذا اور نقصان پہنچانے کے لیے سب و لعن اہانت اور جھوٹی حدیثیں گڑھنے کا وہ طریقہ ایجاد کیا جس پر ایسے مطالب کی بنیاد قائم ہوئی کہ بعد کو خوارج و نواصب جو حضرت سے مخصوص طور پر عداوت رکھتے تھے اور آپ کے چند تنگ نظر اور نا فہم علماء اپنے اسلاف کی پیروی میں عادت اور تعصب کی بناء پر آپ کے اس قول کے قائل ہوگئے اور خیال قائم کر لیا کہ جناب ابوطالب بغیر ایمان کے دنیا سے اٹھے۔

حالانکہ جہمور علمائے شیعہ اور تمام اہل بیت طہارت و خاندن رسالت جن کے اقوال سند اور جن کا اجماع حجت ہے کیونکہ عدیل قرآن ہیں، نیز آپ کے بیشتر محققین و اںصاف پسند علماء جیسے ابن ابی الحدید، جلال الدین سیوطی، ابوالقاسم بلخی، ابوجعفر اسکافی ، فرقہ معتزلہ میں سے ان کے اساتذہ اور امیر سید علی ہمدانی شافعی وغیرہ سب بالاتفاق جناب ابوطالب کے اسلام و ایمان کے قائل ہیں۔

ایمان ابوطالب(ع) پر اجماع شیعہ

اور جماعت شیعہ کا تو اجماعی عقیدہ ہے کہ "انه قد آمن بالنبی فی اول الامر " ( یعنی ابوطالب(ع) در حقیقت شروع ہی میں پیغمبر(ص) پر ایمان لے آئے تھے۔

پھر سب سے بالاتر یہ کہ جناب ابوطالب کا ایمان دیگر بنی ہاشم یا آپ کے بھائی حمزہ اورعباس کے مانند کفر سے نہیں بلکہ

۱۷۰

فطری تھا اور اہل بیت طاہرین کے اتباع میں جماعت شیعہ کامسلمہ مسئلہ ہے کہ" انه لم يعبد صنما قط بل کان من اوصياء ابراهيم " ( یعنی ابوطالب نے قطعا کبھی کسی بت کی پرستش نہیں کی بلکہ آپ حضرت ابراہیم کے اوصیاء میں سے تھے)

اور آپ کے محقق علماء کی معتبر کتابوں میں اس مطلب کی طرف کثرت سے اشارے موجود ہیں۔ من جملہ ان کے ابن اثیر نے جامع الاصول میں کہا ہے:

" و ما اسلم من اعمام النبیغير حمزة والعباس و ابی طالب عند اهل البيت عليهم السلام"

یعنی اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک پیغمبر(ص) کے اعمام میں سے صرف حمزہ، ابن عباس اورابوطالب ایمان لائے۔

بدیہی چیز ہے کہ اہل بیت رسول علیہم السلام کا اجماع ہر مسلمان کے نزدیک حجت ہونا چاہئیے کیونکہ حدیث ثقلین اور ان دیگر احادیث کی بنا پر جن کو میں پچھلی راتوں میں پیش کرچکا ہوں اور جن سے باتفاق فریقین ثابت ہے کہ رسول اللہ(ص) نے ان حضرات کے حق میں وصیتیں اور سفارشیں فرمائی ہیں، یہ ہستیاں عدیل قرآن اور ثقلین میں سے ایک ہیں اور ہم سب مسلمان اس پر مامور ہیں کہ ان کی گفتار و کردار سے تمسک رکھیں تاکہ گمراہ نہ ہوں۔

دوسرے یہ کہ قاعدہ "اهل البيت ادری بما فی البيت" (یعنی گھر کیچیزوں سے گھر والے ہی زیادہ واقف ہوتے ہیں ۱۲ مترجم) کے مطابق یہ جلیل القدر خاندان جو تقوی و پرہیزگاری کامجسمہ تھا اپنے آبائو اجداد اور اعمام کے ایمان و کفر سے مغیرہ بن شعبہ، دیگر نبی امیہ، خوارج و نواصب اور بے خبر لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگاہ تھا۔ واقعی تعجب تو ہوتا ہے آپ کے علماء پر کہ تمام اہل بیت رسالت اور امام المتقین حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا قول تو قبول نہیں کرتےجن کی صداقت و راست گوئی کی تصدیق خود آپ ہی کی معتبر روایتوں کے مطابق خدا و رسول (ص) نے فرمائی ہے اور جو بالاتفاق یہی کہتے ہیں کہ جناب ابوطالب مومن و موحد دنیا سے اٹھے، لیکن امیرالمومنین(ع) کے ایک جانی دشمن، فاسق و فاجر اور جانے بوجھے ہوئے آدمی مغیرہ ملعون اور چند اموی اور خارجی و ناصبی اشخاص کی بات ماننے کےلیے تیار ہیں بلکہ اس پر اصرار اور مقابلہ بھی کرتے ہیں۔

ابن ابی الحدید معتزلی جو آپ کے بزرگ علماء میں سے ہیں شرح نہج البلاغہ جلد ۳ میں کہتے ہیں کہ ابوطالب کے اسلام میں اختلاف ہے، جماعت شیعہ امامیہ اور اکثر زیدیہ نے کہا ہے کہ وہ دنیا سے مسلمان اٹھے علاوہ اجماع جمہور علمائے شیعہ کے ہمارے بعض شیوخ علماء بھی جیسے ابوالقاسم بلخی اور ابو جعفر اسکافی وغیرہ بھی اسی عقیدے پر ہیں کہ ابوطالب اسلام لائے، لیکن اپنا ایمان ظاہر نہ کرنے کا مقصد یہتھا کہ پیغمبر(ص) کی پوری اماد کرسکیں اور مخالفین ان کے لحاظ سے آںحضرت(ص) کی مزاحمت نہ کرسکیں۔

حدیث ضحضاح اور اس کا جواب

شیخ : معلوم ہوتا ہے آپ نے حدیث ضحضاح نہیں دیکھی ہے جس میں ارشاد ہے "ان اباطالب فی ضحضاح من نار " (یعنی ابوطالب جہنم کے پانی میں ہیں)

۱۷۱

خیر طلب: یہ حدیث بھی ان دوسری موضوع اور جعلی حدیثوں کے مانند ہے جن کو زمانہ بنی امیہ اور بالخصوص منافقین کے رئیس معاویہ ابن ابو سفیان کے دور خلافت میں آل محمد(ص) اور اہل بیتطہارت علیہم السلام کے چند دشمنوں نے خوشامد اور جذبہ کفر و نفاق کے ماتحت تصنیف کیا تھا، اور بعد کو بنی امیہ اور ان کے پیروئوں نے بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی عداوت میں ان گڑھیہوئی حدیثوں کی تقویت دی اور مشہور کیا، انہوں نے اس کا موقع ہی نہیں دیا کہ جناب حمزہ و عباس کی طرح جناب ابوطالب کا ایمان بھی شہرت پاسکے، بلکہ اس کو قوم کی نگاہ سے بالکل اوجھل ہی کردیا۔

حدیث ضحضاح کی مجہولیت

عجیب تر چیز یہ ہے کہ حدیث ضحضاح کو وضع اور نقل کرنےوالا بھی حضرت امیرالمومنینعلیہ السلام کا فاسق وفاجر دشمنتنہا مغیرہ بن شعبہ ہی تھا جس کے لیے ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص۱۵۹ تا ص۱۶۳ میں، مسعودی مروج الذہب میں اور دیگر علماء لکھتے ہیں کہ مغیرہ نے بصرہ میں زنا کی، لیکن جس روز خلیفہ عمر کے سامنے اس کے گواہ پیش ہوئے تو تین آدمیوں نے شہادت دی اور چوتھا شخص بیان دینے آیا تو اس کو ایسا جملہ سکھا دیا گیا کہ گواہی ٹوٹ گئی، چنانچہ ان تیتوں پر حد جاری کی گئی اور مغرہ چھوڑ دیا گیا۔

ایک ایسے فاسق و فاجر زنا کار اور شرابیآدمی نے جس ر شرعی حد جاری ہونے والی تھی اور جو معاویہ ابن ابوسفیان کا جگری دوست تھا اس حدیث کو امیرالمومنینعلیہ السلام کے بغض و عداوت اور معاویہ کی چاپلوسی میں گڑھا اور معاویہ ان کے اتباع اور دیگر اموی افراد نے اس جعلی حدیث کو تقویت دی اور تصدیق کرنے لگے کہ "ان اباطالب فی ضحضاح من نار" ( ترجمہ گزر چکا ہے۔)

نیز جو افراد اس کے سلسلہ روایت میں داخل ہیں جیسے عبدالملک بن عمیر، عبدالعزیز داوردی اور ابوسفیان ثوری وغیرہ وہ بھی آپ کے اکابر علمائے جرح و تعدیل کے نزدیک جیساکہ ذہبی نے میزان الاعتدال جلد دوم میں لکھا ہے ضعیف و مردود اور ناقابل قبول ہیں اور ان میں سے بعض مثلا سفیان ثوری جعلسازوں اور سخت جھوٹے لوگوں میں شمار کئے گئے ہیں لہذا ایسی حدیث پر کیونکر اعتماد کیا جاسکتا ہے جس کو ایسے مشہور معروف ضعیف و کذاب لوگوں نے نقل کیا ہو؟

ایمان ابوطالب(ع) پر دلائل

حقیقت یہ ہے کہ جناب ابوطالب کے ایمان پر کثرت سے دلیلیں موجود ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اور ایسے

۱۷۲

واضح دلائل سے صرف وہی بے حس یا متعصب اور ضدی لوگ انکار کرسکتے ہیں جو حق کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔

۱۔ رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے کہ : "انا وکافل اليتيم کهاتين فی الجنة " ( یعنی اپنی دونوں انگلیاں ملاکر فرمایا) میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا اندونوں انگلیوں کی طرح جنت ہیں باہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔)

ابن ابی الحدید نے بھی اس حدیث کو شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۳۱۲ میں نقل کیا ہے، اور لکھا ہے کہ بدیہی چیز ہے کہ ارشاد رسول(ص) سے ہر یتیم کی کفالت کرنے والا مراد نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اکثر یتیم کےکفیل فاسق و فاجر بلکہ گمراہ و بے دین اور جہنم کے مستحق ہوتے ہیں۔ پس آں حضرت(ص) کی مراد اس سے جناب ابوطالب(ع) اور آپ کے جد بزرگوار جناب عبدالمطلب تھے جو پیغمبر(ص) کے کفیل رہے او خصوصیت کے ساتھ مکہ معظمہ میں آں حضرت(ص) یتیم ابوطالب کے لقب سے مشہور تھے کیوںکہ وفات عبدالمطلب کے بعد آٹھ سال کے سن سے رسول اللہ(ص) کی کفالت اور دیکھ بھال آپ ہی کے ذمہ رہی۔

۲۔ ایک مشہور حدیث ہے جس کو فریقین ( شیعہ و سنی) نے مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے، اور بعض نے اس طریقے سے روایت کی ہے کہآں حضرت صلعم نے فرمایا، جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے اور ان الفاظ میں مجھ کو بشارت دی کہ:

"ان الله حرم علی النار صلبا انزلک و بطنا حملک و ثديا ارضعک و حجرا کفلک "

یعنی قطعی طور پر اللہ نے آگ پر حرام کردیا ہے اس پشت کو جس سے آپ کا نزول ہوا، اس شکم کو جس نے آپ کو اٹھایا، اس پستان کو جس نے آپ کو دودھ پلایا اور اس گود کو جس نے آپ کی کفالت کی۔

میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور قاضی شوکانی نے حدیث قدسی میں اس طرح روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا، جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے اور کہا :

"ان الله يقرئک السلام و يقول انی حرمت النار علی صلب انزلک و بطن حملک و حجر کفلک"

یعنی پرورگار آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ یقینا میں نے حرام کردی ہے آتش جہنم اس پشت پر جس نے آپ کو اتارا، اس شکم کو جس نے آپ کو بار اٹھایا اور اس آغوش کو جس نے آپ کی کفالت کی۔

(صاحب صلب سے جناب عبداللہ، صاحب شکم سے حضرت آمنہ او صاحب آغوش سے جناب عبدالمطلب و ابوطالب مراد تھے۔)

اس قسم کے اخبار و احادیث پیغمبر(ص) کے کفیل جناب عبدالمطلب ، جناب ابوطالب اور ان کی زوجہ فاطمہ بن اسد کے ، نیز آں حضرت صلعم کے باپ اور ماں جناب عبداللہ اور آمنہ بنت وہب اور آں حضرت کی دایہ حلیمہ سعدیہ کے ایمان پر پوری دلالت کرتے ہیں۔

۱۷۳

مدح ابوطالب میں ابن ابی الحدید کے اشعار

من جملہ ان دلائل کے وہ اشعار ہیں جو آپ کے بہت بڑے عالم عزالدین عبد الحمید ابن ابی الحدید معتزلی نےجناب ابوطالب کی مدح میں نظم کئے ہیں اور شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص۳۱۸ ( مطبوعہ مصر) نیز دوسری کتابوں میں درج ہیں کہتے ہیں:

ولولاأبوطالب‏و ابنه‏لما مثل الدين شخصا فقاما

فذاك بمكّة آوى و حامى‏و هذا بيثرب جس الحماما

تكفل عبد مناف بأمرو أودى فكان عليّ تماما

فقل في ثبير مضى بعد ماقضى ما قضاه و ابقى شماما

فلله ذا فاتحا للهدىو للّه ذا للمعالي ختاما

و ما ضر مجد أبي طالب‏جهول لغا أو بصير تعامى‏

كمالايضرإياةالصباح من ظنّ ضوء النهارالظلاما

مطلب یہ کہ اگر ابوطالب اور ان کے فرزند ( علی ابن ابی طالب(ع)) نہ ہوتے تو دین اسلام کو کوئی امتیاز اور مضبوطی حاصل نہ ہوتی، ابوطالب نے مکے میں آں حضرت(ص) کو پایا اور؟؟؟؟؟ کی اور علی علیہ السلام نے مدینے میں آں حضرت کے لیے جان نثار کی۔ عبدمناف ( ابوطالب) (اپنے پدر بزرگوار عبدالمطلب کے) حکم سے آں حضرت(ص) کی کفالت کرتے رہے اور علی(ع) نے ان خدمات کی تکمیل کی۔

ابوطالب(ع) نے قضائے الہی سے وفات پائی تو اس سے کوئی کمی نہیں ہوئی کیوںکہ انہوں نے اپنی خوشبو ( علی علیہ السلام) کو یاد گار چھوڑا ۔ ابوطالب نے خدا کی راہ میں ہدایت پر چلنے کے لیے ان خدمتوں کی ابتدا کی اور علی علیہ السلام نے اللہ کے لیے ان کو انتہا تک پہنچا کر بلندیاں حاصل کیں۔

ابوطالب کی بزرگی کو کسی نادان کی بکواس یا کسی بینا کی چشم پوشی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جس طرح کوئی دن کی روشنی کو اندھیرا سمجھ لے تو اس سے آثار صبح کا کوئی نقصان نہیں ۱۲ مترجم عفی عنہ)

ابوطالب(ع) کے اشعار ان کے اسلام کی دلیل ہے

اسی طرح خود جناب ابوطالب(ع) نے آں حضرت صلعم کی مدح میں جو اشعار نظم کئے ہیں وہ بھی ان کے ایمان کا کھلا ہوا ثبوت

۱۷۴

ہیں، چنانچہ ان میں سے کچھ شعر ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص۳۱۶ میں نقل کئے ہیں اور آپ کے بہت سے اکابر علماء جیسے شیخابو القاسم بلخی اور ابوجعفر اسکافی نے انہیں اشعار سے آپ کے ایمان پر استدلال کیا ہے، حق یہ ہے کہ ان جناب نے اپنے ایمان کو ان اشعار کی صورت میں بالکل ظاہر و ہویدا کردیا ہے ، ان کے قصیدے لامیہ کے چند شعر یہ ہیں۔

أعوذبرب‏البيت‏من كل طاعن‏علينا بسوء أو يلوح بباطل‏

و من فاجر يغتابنا بمغيبةو من ملحق في الدين ما لم نحاول

كذبتم و بيت الله يبزى محمدو لما نطاعن دونه و نناضل‏

و ننصره حتى نصرع دونه‏و نذهل عن أبنائنا و الحلائل‏

و حتى نرى ذا الردع يركب ردعه‏من الطعن فعل الأنكب المتحامل

و ينهض قوم في الحديد إليكم‏نهوض الروايا تحت ذات الصلاصل

و إنا و بيت الله من جد جدنالتلتبسن أسيافنا بالأماثل

بكل فتى مثل الشهاب سميدع‏أخي ثقة عند الحفيظة باسل‏

و ما ترك قوم لا أبا لك سيدايحوط الذمار غير نكس مواكل‏

و أبيض يستسقى الغمام بوجهه‏ثمال اليتامى عصمة للأرامل‏

يلوذ به الهلاك من آل هاشم‏فهم عنده في نعمة و فواضل‏

و ميزان صدق لا يخيس شعيرةو وزان صدق وزنه غير عائل

أ لم تعلموا أن ابننا لا مكذب‏لدينا و لا يعبأ بقول الأباطل

لعمري لقد كلفت وجدا بأحمدو أحببته حب الحبيب المواصل

و جدت بنفسي دونه فحميته‏و دافعت عنه بالذرى و الكواهل

فلا زال للدنيا جمالا لأهلهاو شينا لمن عادى و زين المحافل

و أيده رب العباد بنصره‏و أظهر دينا حقه غير باطل.

یعنی پناہ چاہتا ہوں میں رب کعبہ کی طرف ان لوگوں سے جو ہم پر برائی کے ساتھ طعن کرتے ہیں یا ہمکو باطل کے ساتھ نسبت دیتے ہیں اور اس بدکار سے جو ہماری غیبت اوربدگوئی کرتا ہے اورع اس شخص سے جو دین میں ایسی باتیں کرتا ہے جن سے ہم دور ہیں۔ قسم خانہ خدا کی تم نے جھوٹ کہا کہ ہم محمد(ص) کا ساتھ چھوڑ دیں گے، حالانکہ ابھی ہم نے ان کے مخالف سے نیزہ و تیر کے ساتھ جنگ نہیں کی ہے۔ اور ہم ان کی نصرت کریں گے یہاں تک کہ ان کے دشمن کو پچھاڑ دیں اور ایسی جان نثاری کریں گے کہاپنے بیوی بچوں کو بھول جائیں گے۔ ان کی نورانیت ایسی ہے کہ ان کے روئے روشن کے ذریعےباران رحمت طلب کیا جاتا ہے ، وہ یتیموں کے فریادرس اور بیوہ عورتوں کے پناہ دہندہ ہیں۔ بنی ہاشم کے بے بس افراد ان کے پاس پناہ لیتے ہیں اور ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ قسم اپنی جان کی مجھ کی احمد(ص) سے والہانہ محبت ہے اور میں ان کو ایک خالص دوست کی طرح محبوب رکھتا ہوں۔ میں نے اپنے نفس کو اس قابل پایا کہ ان پر فدا ہوجائوں پس میں نے ان کی حمایت کی اور سرو گردن کے ذریعہ ان کی طرف سے دفاع کیا۔ خدا ان کو قائم رکھے کہ وہ اہل دنیا کےلیےجمال، دشمنوں کے لیے مصیبت اور محفلوں کی زینت ہیں۔ پروردگار عالم اپنی نصرت سے ان کی تائید کرے اور ان کے دین کو ظاہر کرے جو برحق ہے اور اس میں باطل کی گنجائش نہیں۔آپ کے جو مخصوص اشعار ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص۳۱۲ میں نیز اور لوگوں نے نقل کئے ہیںاور جن سے آپ کے ایمان پر استدلال کیا گیا ہےان میں سے قصیدہ میمیہ میں فرماتے ہیں۔

۱۷۵

يرجون‏مناخطة دون نيلهاضراب و طعن بالوشيج المقوم‏

يرجون أن نسخى بقتل محمدو لم تختضب سمر العوالي من الدم‏

كذبتم و بيت الله حتى تفلقواجماجم تلقى بالحطيم و زمزم‏

و ظلم نبي جاء يدعو إلى الهدى‏و أمر أتى من عند ذي العرش قيم‏

خلاصہ یہ کہ لوگ ہم سے دین اسلام کے خلاف نیزہ و شمشیر سے جنگ کر نے کی امید کرتے ہیں۔ وہ امید کرتے ہیں کہ ہم محمد(ص) کو قتل کر کے اس کو منسوخ کردیں، حالانکہ ابھی ان کی نصرت میں چہرے خون سے رنگیننہیں ہوئے۔ خانہ خدا کی قسم تم نے جھوٹ کہا، یہاں تک کہ تم مصیبت میں پڑ جائو اور اور حطیم و زمزم کٹے ہوئے سروں سے پٹ جائیں۔ اور اس نبی پر جوہدایت خلق کے لیےمبعوث ہوا ہے اور اس کتاب پر جو مالک عرش نے نازل کی ہے ظلم ہورہا ہے) من جملہ ان واضح دلائل کے جن سے حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے اور ان جناب کے ایمان کا کھلا ہوا ثبوت ملتا ہے۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص۳۱۵ میں آپ کا یہ کلام نقل کیا ہے۔

ياشاهدالله‏علي فاشهدانی علی دين النبی أحمد

من ضل في الدين فإني مهتدي‏

یعنی اے اللہ کی گواہی دینے والے گواہ رہو کہ میں یقینا پیغمبر خدا(ص) احمد کے دین پر ہوں۔ اگر کوئی دین میں گمراہ ہے تو میں ہدایت یافتہ ہوں۔

حضرات ! خدا کے لیے انصاف کیجئے، کیا ایسے اشعار کہنے والے کو کافر کہا جاسکتا ہے جو صاف صاف اقرار کر رہا ہے کہمیں محمد صلعم کےدین پر ہوں اور ایسے برحق پیغمبر(ص) کی نصرت کرتا ہوں جس کے یہاں باطل کی کوئی گنجائش ہی نہیں؟

شیخ : یہ اشعار دو وجہوں سے قابل قبول و استدلال نہیں ہیں۔ اول یہ کہ ان میں کوئی تواتر نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی مقام پر یہ نہیں دیکھا گیا کہ ابوطالب نے اسلام و ایمان کا اقرار اور شہادتیں کا اعتراف کیا ہو، لہذا چند شعر نقل کردینے سے ان پر اسلام کا حکم جاری نہیں کیا جاسکتا۔

خیر طلب: تواتر کے بارے میں آپ کا ایراد عجیب ہے، جہاں آپ کا دل چاہتا ہے وہاں تو خبر واحد کو حجت سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں لیکن جہاں آپ کے مرضی کے خلاف ہو وہان فورا عدم تواتر کا حربہ استعمال کرنے لگتے ہیں۔

اگر آپ حضرات تھوڑا سا غور کر لیں تو بخوبی سمجھ میں آجائے کہ یہ اشعار اگرفردا فردا متواتر نہ ہوں تب بھی یہ سب مجموعی طور پر اس ایک امر پر متواتر حیثیت سے دلالت کرتے ہیں کہ جناب ابوطالب با ایمان اورخاتم الانبیاء(ص) کی نبوت و رسالت کے معتقد تھے، اکثر امور ایسے ہیں جن کا تواتر اسی طریقے سے معین ہوتا ہے۔ مثلا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی جنگیں اور غزوات میں آپ کی شجاعتیں اور حملے سبھی خبر واحد ہیں لیکن ان کے مجموعے سے معنوی تواتر پیدا ہوجاتا ہے جس سے حضرت کی بہادری کا

۱۷۶

ضروری علم حاصل ہوتا ہے۔ اور حاتم کی سخاوت یا نوشیروانکے عدل وغیرہ کی بھی یہی صورت ہے۔

علاوہ اس کے آپ جو تواتر کے اس قدر دل دادہ ہیں، یہ فرمائیے کہ گڑھی ہوئی حدیث ضحضاح کا تواتر کہاں سے ثابت کیجئے گا۔

آخری وقت ابوطالب(ع) کا اقرار وحدانیت

رہا آپ کا دوسرا اشکال تو اس کا جواب بالکل ظاہر ہے ، اس لیے کہ توحید ونبوت کا اقرار اور مبدائ و معاد کا اعتراف ضروری نہیں ہے کہ نثر ہی میں ہو، مثلا کہے:

"اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمد رسول الله " بلکہ اگر کوئی غیر شخص ایسے شعر کہے جو وحدانیت خدا اور رسالت خاتم الانبیاء(ص) کے اقرار و اعتراف کے قائم مقام ہوں تو قطعا کافی ہے۔ پس جس وقت جناب ابوطالب نے فرمایا:

ياشاهدالله‏علي فاشهدانی علی دين النبی أحمد

تو اس کا بھی وہی حکم ہوگا جو نثر میں اقرار کرنےکا ہوسکتا ہے۔

اس کے علاوہ موت کے وقت نثر میں بھی اقرار کیا ہے۔ چنانچہ سید محمد رسولی بزنجی ، حافظ ابونعیم اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ ابوجہل اور عبداللہ ابن ابی امیہ وغیرہ سرداران قریش کی ایک جماعت مرض الموت میں جناب ابوطالب کی عیادت کے لیے گئی، اس موقع پر رسول اللہ (ص) نے اپنے چچا ابوطالب(ع) سے فرمایا کہ کہئیے"لا اله الا الله" تاکہ میں خدائے تعالی کے سامنے اس پر گواہی دوں !فورا ابوجہل اور ابن ابی امیہ نے کہا، اے ابوطالب ! کیا عبدالمطلب کی ملت سے پلٹ جائو گے؟ اور بار بار ان الفاظ کو دہرایا، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا تم لوگ جان لو کہ ابوطالب عبدالمطلب ہی کی ملت پر ہے، چنانچہ وہ لوگ خوش خوش چلے گئے،ادھر ان جناب پر موت کے آثار طاری ہوئے تو ان کے بھائی عباس نے ( جو سرہانے بیٹھے ہوئے تھے) دیکھا کہ آپ کے ہونٹ جنبش کر رہے ہیں ، کان قریب لے گئے تو سنا کہ کہہ رہے ہیں"لا اله الا الله" عباس نے رسول اللہ(ص) کی طرف رخ کر کے عرض کیا کہ اے بھتیجے" والله لقد قال اخی الکلمة التی امرته بها" خدا کی قسم میرے بھائی (ا بوطالب) نے وہی بات کہی ہے جس کا تم نے حکم دیا تھا۔ لیکن چونکہ اس و قت تک عباس اسلام نہیں لائے تھے۔ لہذا کلمہ شہادت کو خود اپنی زبان پر جاری نہیںکیا۔ انتہی۔

جب کہ ہم اس سے قبل ثابت کرچکے ہیں کہ پیغمبر(ص) کےآبائو اجداد کے سب موحد ومومن تھے تو آپ کو سمجھ لینا چاہئیے کہ ابوطالب نے مصلحتا یہ جملہ فرمایا تھا کہ میں عبدالمطلب کی ملت پر ہوں، کیونکہ بظاہر تو ان لوگوں کو خوش اور مطمئن کردیا لیکن بباطن توحید کا اقرار بھی کیا، اس لیے کہ جناب عبدالمطلب ملت ابراہیم پر اور موحد تھے، مزید برآں یہ کہ صریحی طور پر کلمہ طیبہ"لا اله الا الله" بھی زبان پر جاری کیا۔ اگر آپ حضرات تھوڑی دیر کے لیے اپنی عادت سے ہٹ کے جناب ابوطالب کے تاریخی

۱۷۷

حالات کا اںصاف سے مطالعہ کر لیں تو بے ساختہ ان کے ایمان کی تصدیق کریں گے۔

ابتدائے بعثت میں ابوطالب(ع) سے پیغمبر(ص)کی گفتگو

اگر جناب ابوطالب کافر و مشرک اور بت پرست تھے تو پہلے ہی روز جب پیغمبر(ص) مبعوث برسالت ہوئے اور اپنے چچا عباس کے ہمراہ ابوطالب کے پاس جاکر فرمایا:

"ان الله قد امرنی باظهار امری وقد انبائی و استنبانی فما عندک يا عم"

یعنی بہ تحقیق اللہ نے مجھ کو اپنا امر ظاہر کرنے کاحکم دیا ہے اور قطعی طور پر مجھ کو اپنا نبی بنایا ہے پس آپ میرے ساتھ کیا سلوک کریںگے؟

تو قریش کے سردار ، بنی ہاشم کے رئیس اہل مکہ کے نزدیک مقبول القول اور پیغمبر(ص) کے کفیل زندگی ہونے کے بعد یہ دیکھتے ہوئے کہ آں حضرت(ص) ہمارے دین کے خلاف ایک نیا دین پیش کررہے ہیں قاعدے کے موافق اور اس تعصب کے پیش نظر جو اہل عرب اپنے دین میں رکھتے تھے )چاہئیے تو یہ تھا کہ فورا مخالفت پر آمادہ ہوجاتےاور آن حضرت(ص) کو سختی کے ساتھ اس اقدام سے روکنے کی کوشش کرتے اور اگر اس طرح کام نہ چلتا تو چونکہ ان کے عقیدے کے برخلاف نبوت کا دعوی کر کے مدد مانگنے آئے تھے۔ از آں حضرت(ص) کو نظر بند کردیتے یا کم از کم اپنے پاس سے نکال ہی دیتے اور نصرت و حمایت کا وعدہنہ کرتے تاکہ اس عظیم ارادے سے باز رہیں، جس سے اپنا مذہب بھی محفوظ رہے اور اپنے ہم مشرب لوگ ممنوں احسان بھی ہوجائیں۔ جس طرح آزر نے اپنے بھتیجے حضرت ابراہیم(ع) کو جھڑکا اور دھتکارا تھا۔

بعثت ابراہیم(ع) اور آزر سے آپ کی گفتگو

چنانچہ سورہ نمبر۱۹ (مریم) کی آیت نمبر۴۴ میں خدائے تعالی حضرت ابراہیم(ع) کی بعثت کا تذکرہ فرماتا ہے کہ جب آپ رسالت پر مبعوث ہوئے تو اپنے چچا آزر کے پاس گئے اور کہا :

"إِنِّي‏ قَدْ جاءَنِي‏ مِنَ الْعِلْمِ ما لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِراطاً سَوِيًّا. قالأَ راغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يا إِبْراهِيمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنِي مَلِيًّا"

یعنی یقینا میرے پاس ( وحی کے ذریعہ ) وہ علم آیا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا، پس تم میری پیروی کرو تاکہ تم کو راہ راست کی ہدایت کروں آزر نے جواب میں کہا، کیا تم میرے خدائوں سے منحرف ہوگئے ہو؟ اگر تم اپنے عقیدے سے دست بردار نہ ہوگے تو میں تم کو سنگ سار کردوں گا، اور تم میرے پاس سے عرضہ دراز کے لیے دور ہوجائو۔

لیکن اس کے برعکس جب حضرت خاتم الانبیاء(ص) نے جناب ابوطالب سے اعانت طلب کی تو آپ نے کہا:

۱۷۸

" اخْرُجْ يَا ابْنَ أَخِي فَإِنَّكَ الْمَنِيعُ كَعْباً وَ الْمَنِيعُ حِزْباً وَ الْأَعْلَى أَباً وَ اللَّهِ لَا يَسْلُقُكَ‏ لِسَانٌ‏ إِلَّا سَلَقَتْهُ أَلْسُنٌ حِدَادٌ وَ اجْتَذَبَتْهُ سُيُوفٌ حِدَادٌ وَ اللَّهِ لَتُذَلَّلَنَّ لَكَ الْعَرَبُ ذُلَّ الْبُهَمِ لِحَاضِنِهَا "

یعنی اےمیرے بھتیجے خروج کرو کیوںکہ تم یقینا مرتبے میں بلند قبیلے اور گروہ کے لحاظ سے مضبوط اور نسل کے اعتبار سے سب سے بزرگ و برتر ہو۔ قسم خدا کی جو زبان تم کو سخت وسست کہے گی میں تیز و تند زبانوںاور تیز دھار والی تلواروں سے اس کا جواب دوں گا۔ قسم خدا کی سارا عرب تمہارے سامنے اس طرح گھٹنے ٹیک دے گا۔ جس طرح جانور اپنے مالک کے آگے ذلیل رہتے ہیں۔

اس کے بعد مندرجہ ذیل اشعار سے جن کو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص۳۰۶ (مطبوعہ مصر) میں اور سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص۵ میں درج کیا ہے۔ پیغمبر(ص) کو خطاب کیا۔

وَاللَّهِ‏لَنْ‏يَصِلُواإِلَيْكَ بِجَمْعِهِمْ‏حَتَّى أُوَسَّدَ فِي التُّرَابِ دَفِيناً

فَاصْدَعْ بِأَمْرِكَ مَا عَلَيْكَ غَضَاضَةٌوَ انْشُرْ بِذَاكَ وَ قَرَّ مِنْكَ عُيُوناً

وَ دَعَوْتَنِي وَ زَعَمْتَ أَنَّكَ نَاصِحٌ‏فَلَقَدْ صَدَقْتَ وَ كُنْتَ قَبْلُ أَمِيناً

وَ عَرَضْتَ دِيناً قَدْ عَرَفْتُ بِأَنَّهُ‏مِنْ خَيْرِ أَدْيَانِ الْبَرِيَّةِ دِيناً

لَوْ لَا الْمَخَافَةُ أَنْ يَكُونَ مَعَرَّةٌلَوَجَدْتَنِي سَمِحاً بِذَاكَ مُبِيناً

یعنی قسم خدا کی وہ وگ اپنی جماعت کے ساتھ تم تک نہیں پہنچ سکتے، یہاں تک کہ میں ان کو قبروں کے اندر سلادوں۔ پس تم بیخوف ہوکر اپنا فرض اداکرو میں تم کو کامیابی کی خوشخبری دیتا ہوں ، تم اس کے ذریعے آنکھوں میں خنکی پیدا کرو۔ تم نے مجھ کو اپنے دین کی طرف دعوت دی اور میں یقین کرتا ہوں کہ تم نےمجھ کو صحیح راستےکی ہدایت کی، تم یقینا سچے اور ہمیشہ سےامانت دار ہو۔ تم نے ایسا دین پیش کیا ہے جس کے لیے مجھ کو معلوم ہے کہ دنیا کے تمام ادیان سے بہتر ہے۔ اگر مجھ کو ملامت اور بدگوئی کا خوف نہ ہوتا تو تم مجھ کو باعلان اس کا ہمنوا پاتے۔

خلاصہ یہ کہ پیغمبر(ص) سے ناراض ہونے اور آں حضرت(ص) کو اس ارادے سے باز رکھنے یا قتل و اسیری اور گھر سے نکال دینے کی دھمکی دینے کے عوض اس قسم کے ہمت بڑھانے والے اشعار اور ہمدردانہ گفتگو سے آپ کی حوصلہ افزائی اور ترغیب کی کہ کھلم کھلا اپنا فرض ادا کرو تمہارے لیے کسی ذلت و رسوائی یا نقصان کا خوف نہیں ہے۔ تم اپنے عقیدے کا اعلان کرو تاکہ اس سے لوگوں کی آںکھیں روشن ہوں۔ تم نے مجھ کو دعوت دی ہے اور میں بھی جانتا ہوں کہ تم ہادی برحق اور سچے ہو، اور جس طرح پہلےسے امانتدار ہو اس دعوی میں بھی صادق ہو۔ میں نے اچھی طرح سے سمجھ لیا ہے کہ در حقیقت یہ دین سارے ادیان عالم سے بہتر ہے۔

جس قدر میں نے پیش کیا ہے اس کے علاوہ ایسے اشعار بہت ہیں جن کو اس موضوع پر ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم میں، نیز دوسرے علماء نے نقل کیا ہے لیکن ان سب کو پیش کرنے کا وقت نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ نمونے کے لیے

۱۷۹

اسی قدر کافی ہوگا۔

اب آپ حضرات خدا کو حاضر و ناظر جان کر انصاف سے بتائیے کہ ایسے جملے اور اشعار کہنے والے کو مشرک اور کافر کہا جائے گا یا مومن وموحد اور سچا خدا پرست مانا جائے گا؟چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی اس حقیقت کی بے ساختہ تصدیق کی ہے۔

ینابیع المودت شیخ سلیمان بلخی باب۵۲ کو ملاحظہ فرمائیے جس میں ابوعثمان عمرو بن بحر جاحظ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے جناب ابوطالب کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے:

" و حامي‏ النّبي‏ و معينه و محبه أشدّ حبّا و كفيله و مربيه و المقر بنبوته و المعترف برسالته و المنشد في مناقبه أبياتا كثيرة، و شيخ قريش أبو طالب"

یعنی ابوطالب پیغمبر(ص) کے حامی، مددگار، انتہائی چاہنے والے، کفیل زندگی، مربی، آں حضرت(ص) کی نبوت کا اقرار کرنے والے، رسالت کے معترف، آں حضرت(ص) کی مدح وثنا میں کثرت سے اشعار کہنے والےاور قریش کے رئیس و بزرگ تھے۔

تھوڑے سے غور وتامل کے بعد ہر منصف مزاج عقلمند اور غیر جانب دار انسان جناب ابوطالب کے ایمان کی گواہی دیگا۔ البتہ جوبنی امیہ اپنے خلیفہ معاویہ کے حسب الحکم اسی سال تک سید الموحدین حضرت امیرالمومنین (ع) اور پیغمبر(ص) کے دونوں جان سے زیادہ عزیز نواسوں حسن و حسین علیہم السلام پر لعنت اور سب وشتم کے لیے لوگوں کو آمادہ کرتے رہے اور حضرت کافر اٹھے اور اہل جہنم سے ہیں تاکہ جس طرح ہر پہلو سے امیرالمومنین(ع) کے قلب کو اذیتیں پہنچائیں اسی طرح اس رخ سے بھی حضرت کو رنج و تکلیف میں مبتلا کریں۔ چنانچہ اس جعلی حدیث کا راوی بھی میرہ بن شعبہ ملعون ہے جو حضرت علی علیہ السلام کا دشمن اور معاویہ کا جگری دوست تھا۔ ورنہ جناب ابوطالب کا ایمان فریقین کے صاحبان عقل کے نزدیک اظہر من الشمس ہے، اور صرف خوارج و نواصب اور ان دونوں گمراہ فرقوں کے بچے کچے افراد ہی اب تک ہر دور اور ہر زمانے میں جناب ابوطالب کے کفر کا عقیدہ پھیلاتے اور اس پر زور دیتے رہے جس کو بے خبر اور سادہ لوح لوگوں نے بر بنائے عادت صحیح سمجھ لیا سب سے زیادہ تعجب خیز اور افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ ابوسفیان ، معاویہ اور یزید لعنت اللہ علیہم کوتو مومن و مسلمان بلکہ خلیفہ رسول سمجھ لیا حالانکہ ان کے کفر پر بیشمار واضح دلائل موجود ہیں لیکن جناب ابوطالب کو آپ کے ایمان پرایسی کھلی ہوئی دلیلوں کے باوجود کافر ومشرک کہتے ہیں۔

شیخ : آیا یہ مناسب ہے کہ آپ خال المومنین معاویہ بن ابی سفیان کو کافر کہیں اور ہمیشہ ان پر لعنت کریں آخر معاویہ ابن ابی سفیان و یزید رضی اللہ عنہما کے کفر و لعن پر آپ کے پاس دلیل کیا ہے جبکہ یہ دونوں ہر بزرگ خلفاء میں سے ہیں اور بالخصوص معاویہ رضی اللہ عنہ تو خال المومنین اور کاتب وحی بھی تھے؟

خیر طلب: پہلے آپ یہ فرمائیے کہ معاویہ خال مومنین کس صورت سے ہیں؟

شیخ :ظاہر ہے کہ معاویہ کہ بہن ام حبیبہ چونکہ رسول اللہ(ص) کی زوجہ اور ام المومنین تھیں لہذا قطعا ان کے بھائی معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خال المومنین ہوئے۔

۱۸۰

خیر طلب : یہ فرمائیے کہ ام المومنین عائشہ کا مرتبہ زیادہ بلند تھا یا ام حبیبہ خواہر معاویہ کا؟

شیخ : اگرچہ دونوں ام المومنین تھیں لیکن عائشہ کا مقام و مرتبہ یقینا سب سے بالاتر تھا۔

محمد ابن ابی بکر علی(ع) کے پیرو تھے اس لیے خال المومنین نہیں کہلائے

خیر طلب : آپ کے اس قاعدے سے تو ازواج رسول(ص) کےسبھی بھائی خال المومنین ہیں۔ پھر آپ محمد بن ابی بکر کو خال المومنین کیوں نہیں کہتے ؟ حالانکہ آپ کے نزدیک ان کے باپ معاویہ کے باپ سے بالاتر اور ان کی بہن بھی معاویہ کی بہن سے جلیل القدر ہیں معلوم ہوا کہ معاویہ کا خال المومنین ہونا کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور اس میں ان کے لیے کوئی شرف بھی نہیں ہےورنہ صفیہ زوجہ رسول(ص) کے باپ حی ابن اخطب یہودی کو بھی صاحب شرف ہونا چاہیے۔

آپ قطعی طور پر سمجھ لیجئے کہ ام المومنین اور خال المومنین ہونے کا کوئی لحاظ نہیں ہے بلکہ در حقیقت خاندان رسول(ص) اور عترت و اہل بیت رسالت(ع) کی ضد اور مخالفت مںظور ہے۔ چونکہ معاویہ نے عترت رسول(ص) سے جنگ کی، امام الموحدین حضرت امیرالمومنین(ع) اور پیغمبر(ص) کے دونوں نواسوں یعنی سرداران جوانان اہل جنت حسن و حسین علیہم السلام پر لعنت اور سبوشتم کرنے کا حکم دیا۔ اور فرزند رسول(ص) امام حسن مجتبی(ع) نیز دوسرے پاکباز صحابہ اور شیعوں کا قتل عام کیا لہذا خال المومنین ہوگئے( چنانچہ ابوالفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبین میں، ابن عبدالبر نے استیعاب میں، مسعودی نے اثبات الوصیہ میں اور دوسرے علماء نے نقلکیا ہے کہ اسماء جعدہ نے معاویہ کے حکم اور وعدے پر حضرت ابو محمد حسن ابن علی علیہما السلام کو زہر دیا۔ یہاں تک کہ ابن عبد البر اور محمد بن جریر طبری نے لکھا ہےکہجس وقت ان بزرگوار کی خبر وفات معاویہ کو ملی تو انہوں نےتکبیر کہی اور ان کے سارے حاشیہ نشینوں نے بھی جوش مسرت میں تکبیر کہی) یقینا ایسے ہی ملعون کو آپ کے نزدیک خال المومنین ہونا چاہئیے۔

لیکن جناب محمد ابن ابوبکر چونکہ حضرت امیرالمومنین (ع) کے پروردہ اور اہلبیت طاہرین (ع) کے مخلص شیعوں میں سے تھے جیسا کہ اس جلیل القدر خاندان سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

يابني‏الزهراءأنتم عدتي‏و بكم في الحشر ميزاني رجح‏

و إذا صح ولائي فيكم‏لا ابالي أي كلب قد نبح‏

یعنی اے اولاد فاطمہ(ع) میرے لیے جائے پناہ اور سرپرست ہو اور تمہارے ہی وسیلے سے قیامت کے روز میرے میزان عمل کا پلہ بھاری ہوگا۔ جب میری محبت تمہارے لیے خالص ہوگئی تو میں اس کی پروا نہیں کرتا کہ کوئی میرے گرد بھونکتا رہے۔

لہذا باوجودیکہ خلیفہ اول ابوبکر کے فرزند اور ام المومنین عائشہ کے بھائی تھے پھر بھی خال المومنین نہ کہے جائیں بلکہ ان پر سب ، لعن کی جائے اور باپ کی وراثت سے بھی محروم کردیئے جائیں؟

۱۸۱

یہاں تک کہ جس وقت عمرو بن عاص اور معاویہ بن خدیج نے مصر کو فتح کیا تو جناب محمد ابن ابوبکر پر پانی بندکردیا اور سخت پیاس کے عالم میں ان کو قتل کیا، پھر ایک مرے ہوئے گدھےکے پیٹ میں رکھ کے آگ سے جلا دیا۔ جب معاویہ کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے انتہائی مسرت اور شادمانی کا اظہار کیا۔

آپ ان واقعات کو سن کر تو قطعی متاثر نہیں ہوتے کہ ان ملاعین نے خلیفہ ابوبکر کے بیٹے خال المومنین جناب محمد کے ساتھ کیوں ایسا سلوک کیا اور ان کو اس ذلت و خواری کے ساتھ کیوں شہید کیا۔ لیکن معاویہ پر لعن کی جائے تو ناراض ہوجاتے ہیں، کہ خال المومنین کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا؟

پس آپ کو تصدیق کرنا چاہیئے کہ جنگ در اصل عترت رسول(ص) سے تھی اور ہے۔

محمد ابن ابی بکر چونکہ اہل بیت(ع) کے دوستوں میں سے تھے لہذا نہ آپ ان کو خال المومنین کہتے ہیں نہ ان کے قتل سے رنجیدہ ہوتے ہیں اور معاویہ چونکہ عترت و اہل بیت رسول(ص) کے پکے دشمن تھے اور ان حضرات پر علانیہ لعنت کرتے تھے لہذا ان کو خال المومنین بھی کہتے ہیں اور ان کی طرف داری بھی کرتے ہیں۔ خدا کی پناہ اس تعصب وعناد اور ہٹ دھرمی سے۔

معاویہ وحی کے نہیں بلکہ خطوط کے کاتب تھے

دوسرے معاویہ کاتب وحی بھی نہیں تھے کیوں کہ یہ ہجرت کے دسویں سال اسلام لائے ہیں جب کہ وحی کے سلسلے میں کوئی چیز باقی ہی نہیں رہ گئی تھی، بلکہ کاتب مراسلات تھے۔ چونکہانہوں نے رسول اللہ(ص) کو بہت اذیتیں پہنچائی تھیں اور آں حضرت(ص) کی بدگوئیاں کی تھیں ، نیز سنہ8 ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر جب ابوسفیان نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے اپنے باپکو بہت سے خطوط لکھے تھے جن میں تو بیخ و سرزنش کی تھی کہ تم کیوں مسلمان ہوئے؟ لہذا جس وقت جزیرہ عرب میں اور اس سے باہر اسلام کی عام اشاعت کے اثر سے خود بھی مسلمان ہونے پر مجبور ہوئے تو مسلمانوں کے درمیان ان کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ پیغمبر(ص) کے چچا جناب عباس نے آں حضرت(ص) سے درخواست کی کیا معاویہ کو کبھی امتیاز دے نہ دیجئے تاکہ سب کی اور خجالت سے نجات پاجائے آں حضرت(ص) نے اپنے چچا کی رعایت سے ان کو مراسلات کا کاتب مقرر کردیا۔ چنانچہ مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ "ان معاوية يکتب بين يدی النی صلی الله عليه و آله "( یعنی معاویہ پیغمبر(ص) کے سامنے کتابت کرتے تھے اور مدائنی کہتے ہیں:

" كان‏ زيد بن‏ ثابت‏ يكتب الوحي، و كان معاوية يكتب للنبي صلّى اللّه عليه و آله فيما بينه و بين العرب"

یعنی زید بن ثابت وحی لکھتے تھے اور معاویہ آں حضرت(ص) اور عرب کے درمیان خط کتابت کا کام کرتے تھے۔

۱۸۲

معاویہ کے کفر و لعن پر دلائل

تیسرے ان کے کفر اور ان پر لعنت کے ثبوت میں آیات و اخبار اور ان لوگوں کے حرکات سے بکثرت دلیلیں قائم ہیں۔

شیخ : اخبار و آیات کے دلائل سننے کے قابل ہیں۔ التماس ہے کہ انکوبیان کیجئے تاکہ یہ معمہ حل ہو۔

خیر طلب: آپ تعجب نہ کریں، اس میں کوئی معما نہیں ہے بلکہ اتنی کثرت سے دلیلیں موجود ہیں کہ اگر سب کو نقل کروں تو ایک مستقل کتاب بن جائے لیکن یہاں وقت کے لحاظ سے بعض کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔

معاویہ و یزید کی لعن پر آیات و اخبار کی دلالت

1۔ سورہ نمبر17( بنیاسرائیل) آیت نمبر62 میں ارشاد ہے :

"وَ ما جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْناكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ وَ نُخَوِّفُهُمْ فَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْياناً كَبِيراً"

آپ کے علمائے مفسرین جیسے امام ثعلبی اور امام فخرالدین رازی وغیرہ نے روایت کی ہے کہ رسول خدا(ص) نے عالم خواب میں دیکھا کہ بنی امیہ بندروں کے مانند آں حضرت(ص) کے منبر پر چڑھ اتر رہے ہیں اس کے بعد جبرئیل یہ آیت لائے کہ جو کچھ ہم نے تم کو خواب میں دکھایا ہے وہ لوگوںکے لیے فتنہ اور امتحان ہے اور وہ درخت ہے جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے( یعنی شجرہ نسل بنی امیہ) اور ہم ان کو ان آیات عظیم کے ذریعے خدا سے ڈراتے ہیں لیکن اس سے ان کے سوائے کفر اور سخت سرکشی کے اور کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔ پس جب خدائے تعالی نے نسل بنی امیہ کو جن کے راس و رئیس ابوسفیان اور معاویہ تھے قرآن میں شجرہ ملعونہ یعنی لعنت کیا ہوا درخت فرمایا ہے تو معاویہ بھی جو اسی درخت کی ایک مضبوط شاخ ہیںقطعا ملعون ہوئے۔

2۔ سورہ نمبر47(محمد) آیت نمبر32، 32 میں فرماتا ہے:

"فَهَلْ‏ عَسَيْتُمْ‏ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ‏ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَ تُقَطِّعُوا أَرْحامَكُمْ‏ أُولئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَ أَعْمى‏ أَبْصارَهُمْ‏"

یعنی اے منافقین کیا عنقریب اگر تم حاکم بن جائو تو زمین میں فساد برپا کروگے اور اپنے قرابت کے رشتہ قطع کروگے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے پس (گویا) انکے کانوں کو بہرا اورآنکھوں کو اندھا بنادیا ہے۔

اس آیت میں زمین پر فساد پھیلانے والوں اور قطع رحم کرنے والوں پر کھلی ہوئی لعنت کی گئی ہے اور معاویہ سے زیادہ مفسد کون ہوگا جن کا فساد ان کے دور خلافت میں ز بان زد خاص و عام تھا۔ ان کے علاوہ قاطع ارحام بھی تھے جو ان پر ثبوت لعن کے

۱۸۳

لیے خود ایک دوسری دلیل ہے۔

3۔ سورہ نمبر33 ( احزاب) آیت نمبر57 میں ارشاد فرمایا ہے:

" إِنَّ الَّذِينَ‏ يُؤْذُونَ‏ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذاباً مُهِيناً."

یعنی جو لوگ خدا و رسول(ص) کو اذیت پہنچاتے ہیں یقینا اللہ نے ان پر دنیا و آخرت میں کمی کی ہے اور ان کے لیے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

بدیہی چیز ہے ک امیرالمومنین (ع) اور دونوں ریحانہ رسول حسنو حسین علیہم السلام نیز عمار یاسر وغیرہ کے ایسے رسول اللہ(ص) کے خاص صحابہ کو رنج و اذیت پہنچانا در اصل آن حضرت(ص) کو رنج اذیت پہنچانا ہے اور معاویہ نے چونکہ ان مقدس ہستیوں کو رنج و آزار پہنچایا ہے لہذا بصراحت آیت دنیا وآخرت میں ملعون ہوئے۔

4۔ سورہ نمبر40( مومن) آیت نمبر55 میں فرمایا ہے:

"يَوْمَ‏ لا يَنْفَعُ‏ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوءُ الدَّارِ"

یعنی اس روز ظالمون کو ان کی معذرت اور پشیمانی کوئی فائدہ نہ دے گی، ان کے لیے لعنت اور بری قیام گاہ موجود ہے۔

5۔ سورہ نمبر11 (ہود) آیت نمبر21 میں ارشاد ہے:

"أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ‏"( یعنی جان لو کہ ظالمون پر خدا کی لعنت ہے۔)

6۔ سورہ نمبر7( اعراف) آیت نمبر42 میں ارشاد ہے:

" فَأَذَّنَ‏ مُؤَذِّنٌ‏ بَيْنَهُمْ- أَنْ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ"( یعنی ان کے درمیان ایک منادی نے ندا کی کہ ظالمون پر خدا کی لعنت ہو)

اور اسی طرح کی دوسری آیتوں میں بھی جو ظالمین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ ہر ظالم ملعون ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی اپنا یا غیر معاویہ کے کھلے ہوئے مظالم سے انکار کرے گا۔ پس اسی دلیل سے کہ وہ ظالم تھے لعنت خداوندی کے مستحق قرار پائے اور ایسے صریحی نصوص کی موجودگی میں ہم بھی اس شخص پر لعن کرسکتے ہیں جو خدا کے نزدیک ملعون ہو۔

7۔ سورہ نمبر4 ( نساء) آیت نمبر95 میں فرمایا ہے:

"وَ مَنْ‏ يَقْتُلْ‏ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فِيها وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهُ وَ أَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظِيماً"

یعنی جو شخص کسی مومن کو عمدا قتل کردے تو اس کا عوض جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ معذب رہے گا۔ خدا اس پر غضب ناک ہے اور اس پر لعنت کرتا ہے اور اس کے لیے زبردست عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

معاویہ کے حکم سے خاص خاص مومنین کا قتل

یہ آیہ شریفہ واضح کررہی ہے کہ جو شخص کسی ایک مومن کو بھی عمدا قتل کردے وہ خدا کا ملعون ہے اور اس کی قیام گاہ جہنم ہے اب آپ حضرات انصاف سے بتائیے کہ آیا معاویہ عام اور خاص مومنین کے قتل میں شریک نہیں تھے؟ آیا حجر ابن عدی اور ان کے سات اصحاب کو انہوں نے اپنے حکم سے عمدا قتل نہیں کرایا؟ اور خصوصیت کے ساتھ کہا عبدالرحمن ابن حسان غزمی کو زندہ درگور نہیں کرایا؟ چنانچہ ابن عساکر اور یعقوب بن سفیان نے اپنیتاریخوں میں، بیہقی نے دلائل میں، ابن عبدالبر نے

۱۸۴

استیعاب میں اور ابن اثیر نے کامل میں نقل کیا ہے کہ حجر ابن عدی کبار وبزرگان صحابہ میں سے تھے جن کو معاویہ نے مع ان کے سات آدمیوں کے بہت سختی کے ساتھ محض اس خطا پر قتل کرایا کہ انہوں نے علی علیہ السلام پر لعن اور آپ سے تبرا کیوں نہیں کیا۔ آیا امام حسن ابن علی ابن ابی طالب علیہما السلام رسول اللہ(ص) کے بڑے نواسے ، اصحاب کساء کی ایک فرد، جوانان اہل جنت کے دو سرداروں میں سے ایک اور اکابر مومنین میں سے نہیں تھے جن ک لیے برابر روایت مسعودی و ابن عبدالبر و ابوالفرج اصفہانی وطبقات محمد بن سعد وتذکرۃ سبط ابنجوزی وغیرہ اکابر علمائے اہل سنت ، معاویہ نے اسماء جعدہ کے پاس ایک زہر بھیجا اور وعدہ کیا کہ اگر تم حسن بن علی(ع) کو مار ڈالو گی تو تم کو ایک لاکھ درہم دوں گااور اپنے بیٹے یزید کے ساتھ عقد کروں گا؟ ( چنانچہ شہادت امام حسن علیہ السلام کے بعد ایک لاکھ درہم تو دے دئیے لیکن یزید کے ساتھ نکاح کرنے سے انکار کردیا) آیا قتل مومن کے علاوہ رسول اللہ(ص) کے پارہ جگر حضرت امام حسن علیہ السلام کو شہید کرنے سے آں حضرت(ص) کو اذیت نہیں پہنچی؟ اور مذکورہ بالا دونوں آیتوں کے بعد بھی آپ کو ملعون ہونے میں تامل ہے؟ آیا صفین میں رسول خدا(ص) کے بزرگ صحابی عمار یاسر کی شہادت معاویہ کے حکم سے نہیں ہوئی ؟ اور کیا باتفاق اکابر علمائے اہل سنت رسول اللہ(ص) نے عمار یاسر سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ "ستقتلک الفئة الباغية "( یعنی عنقریب تم کو ایک باغی اور گمراہ گروہ قتل کرے گا؟

آیا آپ کو اس میں کوئی شک ہے کہ معاویہ کے حکم اور عمال معاویہ کے ہاتھوں سے اتنے بزرگان مومنین قتل ہوئے کہ انکی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے؟ آیا مومن پاک نفس اور بہت بڑے مرد مجاہد مالک اشتر کو معاویہ کے حکم سے زہر نہیں دیا گیا؟ آیا معاویہ کے خاص کارندے عمرو بن عاص اور معاویہ بن خدیج نے مصر میں امیرالمومنین (ع) کے گورنر اور صالح و کامل مومن محمد ابن ابوبکر کو ظلم سے شہید نہیں کیا، یہاں تک کہ بعد کو مردہ گدھے کے پیٹ میں رکھ کے آگے سے جلایا بھی؟ اگر میں چاہوں کہ جس قدر مومنین کو معاویہ اور ان کے عمال نے قتل کرایا ہے سب کی تفصیل بیان کروں تو ایک رات نہیں بلکہ کئی راتیں درکار ہوں گی۔

معاویہ کے حکم سے بسر بن ارطاۃکے ہاتھوں تیس(30) ہزار مومنین کا قتل

ان کا ایک بدترین عمل مومنین اور شیعیان علی کا وہ قتل عام ہے جو معاویہ کے حکم سے خونخوار وسفاک بسر ابن ارطاۃ نے کیا۔ چنانچہ ابوالفرج اصفہانی و علامہ سمہوددی نے تاریخ المدینہ میں، ابن خلکان ، ابن عساکر اورطبری نے اپنی تاریخوں میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں اورآپ کے دوسدرے اکابر علماء نے لکھا ہے کہ معاویہ نے بسر کو حکم دیا کہ اپنا لشکر لے کر مدینے اور مکے سے صنعاء اور یمن کی طرف دھاوا کرو اور ایس طرح کا حکم ضحاک بن قیس فہری وغیرہ کو بھی دیا جس کو الفرج نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ :

" فيقتلوا کل من وجده من شيعتة علی ابن ابی طالب و اصحابه ولا يکفوا ايديهم عن النساء والصبيان"

یعنی علی ابن ابی طالب(ع) کے اصحاب اور شیعوں میں سے جو بھی مل جائے قتل کردیا جائے ، یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں کو بھی نہ چھوڑا

۱۸۵

جائے۔ پس یہ لوگ اس شدید حکم کے ساتھ تین ہزار کاجراد و خونخوار لشکر کے کر روانہ ہوئے اور مدینہ ، صنعاء،یمن ، طائف اور نجران میں نیز راستے کے درمیان اس قدر مومنین و مسلمین حتی کہ عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کیا کہ ان کے اعمال سے تاریخ کے صفحات سیاہ ہوگئے افسوس کہ ان سارے انسانیت سوز حرکات کی تشریح پیش کرنے کا وقت نہیں لیکن مختصر نمونہ یہ ہے کہ جس وقت یمن میں پہنچے تو والی یمن عبیداللہ ابن عباس شہر سے باہر تھے، یہ ان کے گھر میں گھس گئے اور ان کے دو چھوٹے چھوٹے بچوں سلیمان اور دائود کو ماں کی گود میں ذبح کردیا۔

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص121 سطر اول میں لکھتے ہیں کہ اس فوج کشی میںجولوگ آگ سے جلا دیئے گئے ان کے علاوہ تیس ہزار افراد قتل کئے گئے۔

آیا آپ حضرات کو اب بھی اس حقیقت میں کوئی شک وشبہ ہے کہ معاویہ پر آیات قرآنی کے حکم سے دنیا وآخرت میں خدا و رسول(ص) کی لعنت ہے؟

امیرالمومنین (ع) پر سب وشتم اور آپ کی مذمت میں حدیثیں گھڑنے کےلیے معاویہ کا حکم

معاویہ ک کفر اور قابل لعن ہونے کے ثبوت میں من جملہ دوسرے واضح دلائل کے امیرالمومنین(ع) پر سب وشتم اور لعنت کرنا نیز لوگوں کو نمازوں کے قنوت اور نماز جمعہ کے خطبے وغیرہ میں اس گناہ عظیم کا حکم دینا بھی ہے جس پر ہم آپ جہمور امت یہاں تک کہ غیر اقوام کے مورخین کو بھی اتفاق ہے کہ یہ عمل قبیح اور بدعت کھلم کھلا حتی کہ مبروں کے اوپر بھی رائج تھی اور ایک بڑی جماعت کو لعنت نہ کرنےکے جرم میں قتل کردیا گیا، بالآخر عمر ابن عبدالعزیز نے اپنی خلافت کے زمانے میں اس بدعت کو ختم کیا۔

قطعی چیز ہے کہ جو شخص امام الموحدین برادر رسول(ص) زوج بتول(ص) امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر آپ کی حیات میں یا بعد وفات سب وشتم اور لعن کرے یا اس کا حکم دے وہ ملعون اور کافر ہے اس لیے کہ آپ کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں جیسے امام احمد نے مسند میں، امام ابوعبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں، امام ثعلبی و امام فخرالدین رازی نے اپنی تفسیروں میں، ابن ابی الحدید ن شرح نہج البلاغہ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں، ابن صباغ مالکی ن فصول المہمہ میں، حاکم نے مستدرک میں، خطیب خوارزمی ن مناقب میں، ابراہیم حموینی ن فرائد میں، ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں، امام الحرم ن ذخائر العقبی میں اور ابن حجر نے صواعق میں، غرضیکہ آپ کے سبھی بڑے بڑے علماء نے مختلف الفاظ عبارات کے ساتھ مجمل اور مفصل طور سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا۔ "من سب عليا فقد سبنی ومن سبنی فقد سب الله " ( یعنی جس شخص نے علی(ع) کو سب وشتم کیا اس نے

۱۸۶

یقینا مجھ کو سب وشتم کیا اور جس نے مجھ کو سب وشتم کیا اس نے در حقیقت خدا کو سب وشتم کیا۔)

ان میں سے بعض نے ان اخبار کو نقل کر کے عمومیت دی ہے جو اس چیز پر دلالت کرتے ہیں کہ علی(ع) کو اذیت دینا اذیت دینے والے کے ملعون ہونے کا باعث ہے، مثلا دیلمی نے فردوس میں، سلیمان حنفی نے ینابیع المودت میں مختلف اسناد کے ساتھ نیز اوروںنے نقل کیا ہے اور جس کی طرف میں پچھلی شبوں میں ارشارہبھی کرچکا ہوں کہ فرمایا:

" من آذی عليا فقد آذانی و من اذانی فعليه لعنة الله"

یعنی جو شخص علی(ع) کو اذیت دے اس نے حقیقتا مجھ کو اذیت دی اور جو شخص مجھ کواذیت دے اس پر خدا کی لعنت ہو۔

یہاں تک کہ ابن حجر مکی نے صواعق میں اس سے بالاتر کل عتر و اہل بیت(ع) کے سب ولعن سے متعلق حدیث نقل کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

"من سب اهل بيتی فانما يرتد عن الله والاسلام و من اذانی فی عترتی فعليه لعنة الله"

یعنی جو شخص میرے اہل بیت کو سب وشتم کرے تو سوا اس کے نہیں ہے کہ وہ دین خدا اور اسلام سے مرتد ہوگیا اور جس نے میری عترت کے بارے میں مجھ کو ایذا دی پس اس پر خدا کی لعنت ہو۔

پس معاویہ کا ملعون ہونا ثابت ہے کیونکہ جب ابن اثیر نے کامل میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے وہ نماز کے قنوت میں حضرت امیرالمومنین(ع) اور پیغمبر(ص) کے دونوں نواسوں امام حسن و امام حسین علیہم السلام نیز ابن عباس اور مالک اشتر پر لعنتکیا کرتے تھے۔

اور امام احمد ابن حنبل نے مسند میں کئی سلسلوں سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"من اذی عليا بعث يوم القيمة يهوديا او نصرانيا"

یعنی جو شخص علی(ع) کو اذیت دے وہ قیامت کے روز یہودی یا نصرانی محشور ہوگا۔

یقینا خود بہتر جانتے ہیں کہ یہ چیز مقدس دین اسلام کے ضروریات میں سے ہے کہ خدا و رسول(ص) کو سب وشتم کرنا کفر اور نجاست کا باعث ہے اور ایسے آدمی کا قتل واجب ہے۔

اس قسم کے اخبار و احادیث کے حکم سے جوآپ کی معتبر کتابوں میں کثرت سے منقول ہیں اور پچھلی راتوں میں تفصیل سے بیان ہوچکے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا، علی علیہ السلام اور میری عترت و اہل بیت پر سب وشتم اور لعن و دشنام در اصل مجھ پر اور میرے پروردگار پر سب و لعن اور دشنام ہے" معاویہ کا ملعون اور کافر ہونا قطعا ثابت ہے۔

چنانچہ محمد ابن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب دہم میں اپنے اسناد سے نیز دوسروں نے ایک روایت نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عبد اللہ ابنعباس اور سعید ابن جہمیر نے زمزم کے کنارے دیکھا کہ اہل شام کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی ہے اور علی علیہ السلام کو سب وشتم کررہی ہے انہوں نے قریب جا کر پوچھا "ايکم السباب لله عزوجل "( تم میں سے کون خدا تعالے کو گالیاں دے رہا تھا؟ ان لوگوں نےکہا ہم میں سے کسی یہ حرکت نہیں کی۔ انہوں نے پوچھا"ايکم السباب رسول لله صلی الله عليه و آله" تم میں سےکون رسول اللہ(ص) کو گالیاں دے رہا تھا؟ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم میں سے کسی نے بھی آں حضرت(ص)کو دشنام نہیں دی، تو انہوں نے فرمایا"ايکم السباب علی ابن ابی طالب" پھر تم میں سے کون شخص علی(ع) ابن ابی طالب کو گالیان دے رہا تھا؟ ان لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ علی(ع) کو دشنام دے رہے تھے انہوں نے کہا کہ تم

۱۸۷

لوگ رسول خدا(ص) پر گواہ رہو کہ میں نے آن حضرت(ص) سے خود سنا ہے کہ آپ نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے فرمایا

" من سبک فقد سبنی ومن سبنی فقدسب الله ومن سب الله اکبه الله علی فحزيه فی النار"

یعنی اے علی(ع) جو شخص تمکو دشنام دے اس نے مجھ کو دشنام دیا اور جس نے مجھ کو دشنام دیا اس نے خدا کو گالی دی اور جس نے خدا کو گالی دی خدا اس کومنہ کے بل آگ میں جھونک دے گا، کسی مسلم یا غیر مسلم عالمکو اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہےکہ یہ زبردست بدعت معاویہ کے حکم سے مسلمانوں میں اس طرح رائج ہوئی کہ جیسا عرض کیا گیا۔ اسی سال تک علانیہ اور بے دھڑک حتی کہ منبروں کے اوپر اور خطبوں کے اندر حضرت امیرالمومنین مظلوم پر لعنت اور دشنام طرازی کی جاتی تھی۔ اور چونکہ صحیح و معتبر احادیث کے مطابق علی علیہ السلام کو دشنام دینا خدا و رسول(ص) کو دشنام دینا ہے اور بدیہی بات ہے کہ خدا و رسول(ص) کوسب وشتم کرنے والا کافر اور ملعون ہے لہذا اسی دلیل سے معاویہ کا کفر واضح اور ان پر خدا کی لعنت ثابت ہے۔

علی(ع) کا دشمن کافر ہے

علاوہ ان دلائل کے آپ کے اکابر علماء کی معتبر کتابوں میں جیسے تفسیر جلال الدین سیوطی ، تفسیر امام ثعلبی، مودۃ القربی میر سید علی ہمدانی مسند امام احمد ابن حنبل، صواعق ابن حجر، مناقب خوارزمی، فضائل ابن مغازلی شافعی، نیابیع المودۃ سلیمان بلخی حنفی ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی، اوسط طبرانی، ذخائر العقبی امام الحرم، خصائص العلوی امام ابوعبدالرحمن نسائی، کفایت الطالب گنجی شافعی، مطالب السئول محمد بن شافعی،تذکرۃ خواص الامہ سبط ابن جوزی اور فصول المہمہ ابن صباغ مالکی وغیرہ میں کثرت کے ساتھ مختلف الفاظ و عبارات میں درج ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا "لا يحب عليا الا مومن ولا يبغضه الا کافر "( اور بعضروایتوں میں ہے الا منافق (یعنی دوست نہیں رکھتا علی کو سوا اس کے جو مومن ہو اور بغض نہیں رکھتا ان سے سوا اس شخص کے جو کافر ہو یا منافق ہو) جیسا کہ پچھلی شبوں میں مفصل عرض کرچکاہوں، بدیہی چیز ہے کہ حدیث میں کافر یا منافق دونوں میں سے جو لفظ بھی ہو اس بات کو پوری دلیل ہے کہ علی(ع) کا دشمن دوزخی ہے کیونکہ خدائے تعالی قرآن مجید میں صاف صافاعلان فرما رہا ہے کہ کفار و منافقین کا ٹھکانا طبقات جہنم ک اندر ہوگا۔

چنانچہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب آخر باب 3 میں بسند نقل کیا ہے کہ محمد بن منصور طوسی نے کہا ہم امام احمد ابن حنبل کے پاس تھے کہ ایک شخص نے ان سےکہا اے ابو عبداللہ لوگ علی کرم اللہ وجہہ سے جو یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا " انا قسیم النار میں آتش جہنم کا تقسیم کرنے والا ہوں تو اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ احمد ابن حنبل نے کہا" کون ہے جو اس حدیث سے انکار کرے؟ کیا ہم نے رسول خدا(ص) سے روایت نہیں کی ہےکہ آپ نے علی(ع) سے فرمایا"لا يحبک الا مومن ولا يبغضک الا منافق" (یعنی تم کو دوست نہیں رکھتا ہے لیکن مومن اوردشمن نہیں رکھتا ہے۔ لیکن منافق؟ ہم نے کہا آپ کا کہنا درست ہے اس پر احمد بن حنبل نے مطلب کی توجیہ کی اور کہا، پس مومن کہاں ہے ہم نے کہا بہشت میں پھر انہوں نے کہا منافق کہاں ہے؟ ہم نے کہا جہنم میں، انہوں نے کہا پھر تو صحیح ہے کہ علی(ع) جہنم کے تقسیم کرنے والے ہیں۔

۱۸۸

( یعنی علی کا دشمن بارشاد پیغمبر(ص) منافق ہے اور منافق بحکم آیہ نمبر144 سورہ نمبر4 ( نساء) :

"إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي‏ الدَّرْكِ‏ الْأَسْفَلِ‏ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيراً"

یعنی یقینا منافقین جہنم کے سب سے پستطبقے میں ہیں اور تم ان کا ہرگز کوئی یار و مددگار نہیں پائو گے ۔

جہنم کے درک اسفل اور سب سے پست طبقے میں رہے گا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ علی(ع) کا دشمن جہنم کے پست ترین طبقے میں معذب ہوگا اور اس آیت کے مطابق منافقین کا عذاب کفار سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔

نیز آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" من‏ ابغض‏ عليا فقد ابغضنى و من ابغضنى فقد ابغض اللّه "

یعنی جو شخص علی علیہ السلام سے دشمنی رکھے پس یقینا اس نے مجھ کو دشمن رکھا اور جو شخص مجھ کو دشمن رکھے اس نے در حقیقت خدا کو دشمن رکھا، ) اس قسم کے اخبار و احادیث اس کثرت سے ہیں کہ تواتر معنوی کی حد میں آگئے ہیں۔

شیخ : آیا آپ کے ایسے انسان کے لیے یہ مناسب ہے کہ صحابہ رسول(ص) میں سے ایک لائق و فائق ہستی کی شان میں جسارت اور رد و قدح کے الفاظ کہیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ خدا نےآں حضرت(ص) کے اصحاب کی مدح و ثناء میں متعدد آیتیں نازلفرمائی ہیں اور ان کے اندر ان لوگوں کو مغفرت اور خوشنودی کی بشارت دی ہے؟ اور خال المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ تو یقینا بزرگ صحابہ میں سے اور آیات مدح و رضامندی کے مصداق ہیں۔ آیا صحابہ کی اہانت خدا و رسول(ص) کی اہانت نہیں ہے۔

اصحاب رسول(ص) میں اچھے برے سبھی تھے

خیر طلب: غالبا آپ بھولے نہ ہوں گے کہ گذشتہ شبوں میں صحابہ کے موضوع پر میں کافی تشریح کرچکا ہوں اور اس وقت بھی آپ کی تقریر کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑوں گا۔ مختصر عرض ہے کہ صحابہ عظام کی مدح میں آیتوں کے نزول سے کسی نے انکار نہیں ہے لیکن اگر آپ حضرات تھوڑا سا غور کر لیں اور صحابہ یا اصحاب کے لغوی اور اصطلاحی معنی پر توجہ کریں تو خود تصدیق کریں گے کہ مدح صحابہ میں جو آیتیں نازل ہوئی ہیں وہ کلی اطلاق نہیں رکھتی ہیں جن کی روشنی میں ہم جملہ اصحاب کو پاک عادل اور ہر رجس و گندگی سارے صغیرہ و کبیرہ گناہوں اور ارتداد وغیرہ سے منزہ و مبرا سمجھ لیں۔

جناب من آپ بخوبی جانتے ہیں کہ صحبہ لغت میں معاشرت کے معنی رکھتا ہے، چنانچہ فیروز آبادی قاموس میں کہتے ہیں کہ صحبہ بروزن سمعہ یعنی اس کےساتھ زندگی گزاری اور عرف عامہ میں اس پر ملازمت نصرت اور موازرت کا بھی اضافہ کرتے ہیںچاہے مدت میں زیادہ ہو یا کم۔

پس لغت عرب اور قرآن و حدیث کے بہت سے شواہد بتاتے ہیں کہ مصاحب نبی(ص) اس شخص کو کہتے ہیں جو آں حضرت(ص) کےساتھ زندگی گذار چکا ہو چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، اچھا ہو یا برا، پرہیزگار ہو یا بدکار مومن ہو یا منافق۔

جس طرح آپ نے صاحب اور مصاحب نبی کے لفظ کو صرف پاک دامن مومنین کے لیے مخصوص کردیا ہے کہ

۱۸۹

صحابہ سب کے سب جنتی ادور رضائے الہی سے ممتاز تھے تو یہ صحیح نہیں ہے اور عقل و نقل کے خلاف ہے۔ سبب واضح کرنے کے لیے میں مجبور ہوں کہ مذکورہ سابق آیات اور معتبر احادیث و اہل سنت کے علاوہ مختصر طور پرکچھ مزید دلائل پیش کردوں تاکہ آپ حضرات لفظ اصحاب سے مرعوب ہو کر حق سے منحرف نہ ہوں اورجان لیں کہ صحبہ، صحاب، مصاحب اور اصحاب کا اطلاق مسلم، کافر، مومن و منافق اور نیک و بد سب پر ہوتا ہے۔

1۔ آیتنمبر2 سورہ نمبر53 ( نجم) میں مشرکین سے خطاب ہے:"‏ ما ضَلَ‏ صاحِبُكُمْ وَ ما غَوى" (یعنیتمہارا صاحب ( محمد(ص)) نہ کبھی گمراہ ہوا نہ بہکا)

2۔ آیت نمبر25 سورہ نمبر34 ( سبا) میں فرماتا ہے " قُلْ إِنَّما أَعِظُكُمْ‏ بِواحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنى‏ وَ فُرادى‏ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بِصاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ"

یعنیامت سے کہدو کہ میں تم کو ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم لوگ خالص خدا کے لیے دو دو اور ایک ایک کر کے کھڑے ہو پھر غور و فکر کرو کہ تمہارے صاحب و رسول خدا(ص) کو جنون نہیں ہے۔

3۔ آیت نمبر32 سورہ نمبر18( کہف) میں ارشاد ہے" وَ كانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقالَ لِصاحِبِهِ وَ هُوَ يُحاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنْكَ‏ مالًا وَ أَعَزُّ نَفَراً"

( یعنی اس کافر نے ) اپنے مصاحب و رفیق سے ( جو مومن و فقیر تھا) گفتگو اور فخر کے موقع پر کہا کہ میںتم سے دولت اور ثروت میں زیادہ اور حشم و خدم کی حیثیت سے بھی عزت میں بڑھا ہوا ہوں۔

4۔ اسی سورہ کی آیت نمبر35 میں فرمایا ہے: "قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَ هُوَ يُحاوِرُهُ‏ أَ كَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا "

یعنی (با ایمان اور فقیر) مصاحب و رفیق نے بات چیت اور نصیحت کرتے ہوئے اپنے (کافر) ساتھی سے کہا کہ آیا تم نے اس خدا سے کفر اختیار کر لیا جس نے تم کو اولامٹی سے پھر نطفے سے پیدا کیا اس کے بعد تم کو پورا آدمی بنا کر تیار کردیا ؟

5۔ آیت نمبر183 سورہ نمبر7( اعراف) میں ارشاد ہوتا ہے: "أَ وَ لَمْ‏ يَتَفَكَّرُوا ما بِصاحِبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ "

یعنی آیا انلوگوں نے غور و فکر سے کام نہیں لیا کہ ان کے صاحب (محمد(ص)) کو جنون نہیں ہے۔

6۔ آیت نمبر70 سورہ نمبر6 ( انعام) میں فرمارہا ہے : "قُلْ‏ أَ نَدْعُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَنْفَعُنا وَ لا يَضُرُّنا وَ نُرَدُّ عَلى‏ أَعْقابِنا بَعْدَ إِذْ هَدانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرانَ لَهُ أَصْحابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنا قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدى "

یعنی کہدو اے پیغمبر(ص) کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر کیا اس (بت وغیرہ) کو پکاریں جو نہ ہم کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، اور پھر طریقہ جاہلیت کی طرف پلٹ جائیں جب کہ خدا ہم کو ہدایت دے چکا ہے!اس کے کچھ اصحاب ہیں جو ہدایت کے لیے اس کو پکارتے ہیں کہدو کہ ہدایت تو در حقیقت اللہ کی ہدایت ہے۔

7۔ آیت نمبر39 سورہ نمبر14( یوسف) میں حضرت یوسف(ع) کی زبان سے ان کے دو قید خانے کے کافر، مصاحبوں کو

۱۹۰

خطاب فرماتا ہے "يا صاحِبَيِ‏ السِّجْنِ‏ أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ "

یعنی اے میرے قید خانے کے دونوں رفیقو میں تم سے پوچھتا ہوں کہ بہت سے متفرق خدا بہتر ہیں یا ایک اللہ جو قہار ہے؟

نمونے کے طور پر یہ چند آیتیں پیش کردینے کے بعد ظاہر ہوگیا کہ صرف صحبہ، صاحب، مصاحب اور اصحاب کے ناموں کو بحیثیت لغت مسلم و مومن سے کوئی خصوصیت نہیں ہے بلکہ ان کا استعمال مسلم و کافر مومنو منافق اور نیک و بد سبھی کے لیے ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کسی کے ساتھ معاشرت رکھنے والے کو لغت میں مصاحب یا اصحاب کہتے ہیں۔ بدیہی چیز ہے کہ اصحاب رسول(ص) سے وہی لوگ مراد ہیں جو آں حضرت(ص) کے ساتھ معاشرت رکھتے تھے اور آیات مبارکہ اس پر گواہ ہیں۔

یقینا اصحاب اور آں حضرت(ص) کے ساتھرہنے سہنے والوں کے درمیان اچھے اور برے ( یعنی مومن و منافق) بہت سے لوگ تھے اور جو آیتیں اصحاب کی مدح میں نازل ہوئی ہیں ان کا اطلاق عمومیت کے ساتھ سب کے اوپر نہیں بلکہ صرف نیک اصحاب سے تعلق ہے۔ ہم بھی مانتے ہیں کہ آں حضرت(ص) کے بزرگ اصحاب ایسے تھے کہ دیگر انبیاء عظام میں سے کسی کو بھی ویسے اصحاب نہیں ملے۔ مثلا بدر و احد اور حنین کے اصحاب، جنہوں نے پورا امتحان دیا۔ بغیر ہوا و ہوس کے پیغمبر(ص) کی نصرت اور فرمانبرداری میں ثابت قدمرہے اور ایک لمحہ کے لیے بھی آں حضرت(ص) سے انحراف نہیں کیا لیکن اصحاب کے درمیان بدنفس ، صاحب مکرو فریب ، اہل نفاق اور آں حضرت(ص) نیز اہل بیت طاہرین علیہم السلام کے دشمن بھی کثرت سے موجود تھے جیسے عبداللہ ابن ابو سفیان حکم بن عاص ( یعنی عثمان کا چچا اور طرید رسول) ابو ہریرہ ، ثعلبہ ، یزید بن سفیان، ولید بن عقبہ، حبیب بن مسلمہ، سمرہ بن جندب، عمرو بن عاص، بسر بن ارطاۃ، ( سفاک و خونخوار) مغیرہ بن شعبہ معاویہ بن ابی سفیان اور ذو الثد یہ خارجی وغیرہ جنہوں نے رسول اللہ(ص) کے زمانہ حیات میں اور بعد وفات بھی کافی فتنے اٹھائے ۔ اپنی پچھلی حالت پر الٹے پائوں پلٹ گئے اور بڑے بڑے فسادات پھیلائے چنانچہ انہیں افراد میں سے ایک معاویہ کی ذات بھی ہے جس پر اپنی زندگی میں رسول اللہ(ص) نے لعنت کی تھی اور آںحضرت(ص) کی وفات کے بعد جب مناسب موقع ہاتھ آیا تو خون خواہی عثمان کے نام سے بغاوت کردی اور بے شمار مسلمانوں کی خونریزی کا باعث ہوا۔ خصوصیت کے ساتھ آں حضرت(ص) عمار یاسر جیسے کئی محترم صحابی اس فتنے میں شہید ہوئے، جس کی خبر آں حضرت(ص) خود دے گئے تھے اور ہم گذشتہ شبوں میں ان روایتوں کو نقل کرچکے ہیں۔ لہذا جس طرح سے بزرگان اصحاب اور مومنین صالحین کی تعریف وتوصیف ، فضائل و مناقب اور وعدہ بخشش کے سلسلے میں کافی آیات و اخبار وارد ہوئے ہیں اسیطرح خائن و بدکار اور منافقین صحابہ کے بارے میں بھی وعید شدید اور عذاب کے لیے کثرت سے آیتیں اور حدیثیں موجود ہیں جوثابت کرتی ہیں کہ ان لوگوں نے آں حضرت(ص) کو آپ کی زندگی میں جو اذیتیں پہنچائی تھیں ان کے علاوہ بعد وفات بھی فتنےبرپا کئے، اور مرتد ہوگئے۔

شیخ : تعجب ہے آپ کیونکر فرمارہے ہیں کہ رسول خدا(ص) کے اصحاب مرتد ہوگئے اور انہوں نے فتنہ و فساد برپا کیا؟

۱۹۱

خیر طلب: میں نہیں کہہ رہا ہوں آیتیں اور حدیثیں کہہ رہی ہیں۔ اگر ذرا سنجیدگی سے غور کیجئے تو تعجب رفع ہوجائے اولا خداوند عالم نے آیت نمبر138 سورہ نمبر3( آل عمران) میں ان کے ارتداد کی خبر دی ہے اور فرمایا ہے:

" أَ فَإِنْ‏ ماتَ‏ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى‏ أَعْقابِكُمْ‏"( یعنی اگر پیغمبر(ص) کو موت آجائے یا قتل ہوجائیں تو کیا تم اپنے پچھلے پائوں (یعنی دین جاہلیت، پر پلٹ جائو گے؟)

اس آیہ شریفہ اور سورہ منافقون نیز دوسرے آیات کے علاوہ خود آپ کے علماء بخاری، مسلم، ابن عساکر، یعقوب بن سفیان احمد ابن حنبل اور عبدالبر وغیرہ ہم کے طرف سے بکثرت اخبار و حدیث اصحاب کی مدح و مذمت ، کفر و ار تداد اور نفاق کے بارے میں انفرادی یا اجتماعی طور سے مروی ہیں۔ چونکہ وقت تنگ ہے لہذا نمونے کے لیے فی الحال دو روایتوں کا حوالہ دےرہا ہوں تاکہ آپ کا تعجب رفع ہوجائے اور سمجھ لیجئے کہ نیک صحابہ کو نیک اور بد کو بد جاننا چاہئیے۔ اور پھر یہ تو فرمائیے کہ منافقین کے سردار، امیرالمومنین علی علیہ السلام ک سب سے بڑے دشمن اور سب و شتم کرنے والے رسول اللہ(ص) کی فدیت طاہرہ اور اصحاب پاک کو قتل کرنے والے اور خدا و رسول(ص) سے باقاعدہ دشمنی کرنے والے کے کفر پر کیا دلیلہے؟

بخاری نے لفظوں کے معمولی فرق کے ساتھ سہل ابن سعد اور عبداللہ ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا:

" انا فرطكم على الحوض و ليرفعن معى رجال منكم حتی اذا هويت لاناولهم اختجلوا دونى فاقول: يا ربّ اصحابى فيقول لا تدرى ما احدثوا بعدك‏؟! "

یعنی میں تمسے پہلے حوض کوثر پر تمہارا مںتظر رہوںگا اور جب تم میں سے ایک گروہ مجھ سے کترائے گا تو عرض کروں گاکہ خداوندا یہ تومیرے اصحاب ہیں؟ ادھر سے جواب آئے گا کہ تم کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے تمہارے بعد کیا کیا بدعتیں پھیلائیں۔

احمد بن حنبل نے مسند میں، طبرانی نے کبیر میں اور ابونصر سخری نے ابانہ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

"‏ أَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ أَقُولُ اتَّقُوا اللَّهَ اتَّقُوا الْحُدُودَ اتَّقُوا النَّارَ فَإِذَا مِتُ‏ تَرَكْتُكُمْ‏ وَ أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ فَمَنْ تَزَوَّدَ فَقَدْ أَفْلَحَ‏ فَيُوتَی بِاقوَام فَيُؤْخَذُبِهِمْذَاتَ‏ الشِّمَالِ‏ فَأَقُولُ يَارَبِّ أُمَّتي‏فَيُقَالُ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوامُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ و فی روايَة للطبری فی الکبير بعد قوله : يَارَبِّ أُمَّتي‏فَيُقَالُ إِنَّكَ لَاتَدْرِي مَاأَحْدَثُوابَعْدَكَ مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ"

یعنی میں تم کو عذاب دوزخ سے بچانا چاہتا ہوں لہذا کہتا ہوں کہ نار جہنم سے ڈرو اور دین خدا میں کمی بیشی نہ کرو جب میں وفات پا جائوں گا اور تم سے جدا ہوں جائون گا تو تم سے پہلے حوض کوثر پر موجود رہوں گا۔ پس جو شخص وہاں میرے پاس پہنچے وہی ناجی اور کامیاب ہے۔ اس وقت میں بہت سے لوگوں کو عذاب الہی میں گرفتار پائوں گا تو عرض کروں گا کہ خداوندا یہ تو میری امت کےلوگ ہیں۔ جواب ملے گا کہ حقیقتا یہ لوگتمہارے بعد مستقل طور سے اپنے پچھلے دین پر پلٹ گئے اور یا رب امتی کے بعد کبیر میں طبرانی کی روایت ہے کہ پس کہا جائیگا تم نہیں جانتے کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا بدعت یں پیدا کیں اور اپنے دین جاہلیت پر مرتد ہوگئے۔

واقعی یہ دیکھ کر دل جلتا ہے کہ ایک ایسے ملحد و کافر اور بے دین کو ( جیسا کہ اس سے قبل اس کے کفر وملعونیت کے

۱۹۲

کافی دلائل پیش کرچکا ہوں(1) اور اس کے دوزخی فرزند یزید پلید کو تو ( جس کا کفر گذشتہ راتوں میں ثابت کرچکا ہوں(2) آپ مسلم و مومن کہیں ان کے ایمان پر اصرار اور کفر سے انکار کریں،ان کو خلیفہ اور جنتی ثابت کرنے کی کوشش کریں بلکہ ناحق امیرالمومنین کا خطاب بھی دے دیں حالانکہ ان کے کفر آمیز حرکات اور اس کے دلائل خود آپ ہی کی معتبرکتابوں میں مکمل طور سے درج ہیں۔ ( یہاں تک کہ اہل سنت کے انصاف پسند

اکابر علماء نے ان دونوں کے رد میں مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں(3) لیکن جناب ابوطالب(ع) کے کفر پر شدید اصرار کر کے اس یکتا جوان مرد اور مومن وموحد کا کافر ثابت کرنے کی سعی بلیغ کریں۔

کھلی ہوئی بات ہے کہ یہ عقیدہ اور اس قسم کی فضول باتیں فحش امیرالمومنین علی علیہ السلام سے بغض و کینہ رکھنے کا نتیجہ ہیں تاکہ ان بیہودہ الفاظ کےذریعے جہاں تک ممکن ہو اس محبوب خدا و رسول امام مظلوم کے زخمی قلب پر برابر ظلم و اذیت کے تیر چلائے جائیں۔ ورنہ معاویہ و یزید ملعون کے کفر ونفاق پر جو محکم دلیلیں قائم ہیں ان پر تو ہزاروں طرح کے حاشیے چڑھا کر ان دونوں کو مجتہد کہیں ان کے اعمال و کفر کو ان کے اجتہاد کا نتیجہ بتائیں اور ان کی صفائی میںانتہائی اوچھے دلائل قائم کریں، اور جناب ابوطالب (ع) کے خدا و رسول(ص) پر ایمان رکھنے کے سلسلے میں واضح دلائل اور آپ کے کھلے ہوئے اعلانات کو جھٹلا کر آپ کا کفر ثابت کریں؟ میں نہیں جانتا کہ خارجی، ناصبی، اموی اور ان کے بچے کھچے دوست اشخاص کب تک اور کہاں تک ہمارے سنی بھائیوں پر حکومت کریں گے۔ عادت اور تعصب کی بنیاد پر ان کو اندھا دھند اپنے عقائد کے پیچھے دوڑاتے رہیں گے اور برادران اہل سنت کو اتنا موقع نہ دیں گے کہ وہ چشم انصاف کھول کے حق و صداقت کا جلوہ دیکھ سکیں۔

ایمان ابوطالب(ع) پرمزید دلائل

آیا پیغمبر(ص) کے اہل بیت(ع) نے جو آں حضرت(ص) کے حسب الایثار عدیل قرآن ہیں جن کا اجماع مسلمانون کے لیے حجت ہے اور جن کے علم زاہد اور ورع و تقوی پر خور آپ کے اکابر علماء کا اتفاق ہے یہ نہیں

کہا ہے کہ جناب ابوطالب(ع) صاحب ایمان تھے اور دنیا سے مومن ہی اٹھے؟

آیا اصبع بن نباتہ نے جو آپ کے علماء رجال کے نزدیک قابل وثوق اور معتمد علیہ تھے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت نہیں کی ہے کہحضرت نے فرمایا :

" والله ما عبد ابی ولا جدی عبد المطلب ولا هاشم ولا عبد مناف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص--- تا ص---

2۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کی جلد اول ص-- تا ص--

3۔ جیسے ابوالفرج ابن جوزی اور آخر میں جلیل القدر مصنف عالم سید محمد بن عقیل علوی متوفی سنہ1350ھ نے ایک کتاب نصائح الکافیہ میں تیوسی معاویہ کے نام سے تالیف کی ہے جس کے اب تک دو ایڈیشن ہوچکے ہیں اور آخری بار سنہ1306 ھ میں مطبع النجاح( بغداد میں چھپی)

۱۹۳

صنما قط"یعنی خدا کی قسم میرے باپ ابوطالب میرے دادا عبدالمطلب ہاشم اور عبد مناف نے ہرگز کبھی بت پرستی نہیں کی، مقصد یہ کہ خدائے وحدہ لاشریک کی رو بقبلہ عبادت کی اور دین حضرت ابراہیم کے پیرو رہے۔

کیا یہ حق بجانب ہے کہ آپ علی اور اہل بیتطاہرین علیہم السلام کا قول ترک کر کے مغیرہ ملعون، امویوں ، خارجیوں، ناصبیوں اور امیرالمومنین(ع) کے شدیدترین دشمنوں کے اقوال کے پیچھے دوڑتے پھریں اور جناب ابوطالب(ع) کے صریحی اشعار وکلمات کی اوچھی تاویلیں کرتے رہیں؟ حضرت امیرالمومنین(ع) کے ارشاد کی تائید میں من جملہ دوسرے دلائل کے ام المومنین جناب خدیجہ اور پیغمبر صلعم کے عقد کا وہ خطبہ بھی ہے جس کو سبط ابن جوزی نے تذکرہ خواص الامہ آخر باب 11 ص170 میں نقل کیا ہے کہ جس وقت محفل عقد آراستہ ہوئی تو جناب ابوطالب نے ایسی عبارت کے ساتھ خطبہ پڑھا جو کل کی کل ان کے ایمان اور اعتقاد وحدانیت خدا پر دلالت کررہی ہے۔ خطبے کی تمہید اس طرح شروع کی:

"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَنَا مِنْ‏ ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ‏ وَ زَرْعِ إِسْمَاعِيلَ وَ جَعَلَ لَنَا بَلَداً حَرَاماً وَ بَيْتاً مَحْجُوجاً وَ جَعَلَنَا الْحُكَّامَ عَلَى النَّاسِ الی آخرها"

یعنی حمد اس خدا کی جس نے ہم کو ابراہیم(ع) کی ذریت اسماعیل (ع) کی اولاد، معدکی اصل اور مضر کے عنصر میں سے قرار دیا ہم کو اپنے گھر کا محافظ اور اپنے حرم کا ذمہ دار بنایا ہمارے لیے ایسا گھر تجویز کیا جس کا حج کیا جاتا ہے اور ایسا حرم مقرر کیا جو امن و امان کی جگہ ہے ہمکو انسانوں پر حاکم معین کیا ۔ الی آخرہ۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب14 ص73 ( مطبوعہ اسلامبول) میں موفق بن احمد خوارزمی سے اور انہوں نے محمد بن کعب سے نقل کیا ہے کہ :

رای ابوطالب النبی صلی الله عليه وآله وسلم يتفل فی فم علی ای يدخل لعاب فمه علی فقال ما هذا يابن اخی فقال ايمان وحکته فقال ابوطالب لعلی يا بن انصر ابن عمک وازرة"

یعنی ابوطالب نے دیکھا کہ پیغمبر(ص) اپنا لعاب دہن علی(ع) کے منہ میں ڈال رہے ہیں تو پوچھا کہ اے میرے بھتیجے اس کا کیا مقصد ہے؟ آپ نے فرمایا یہ سب ایمان اور حکمت کا فیضان تھا ۔ پس ابوطالب نے علی سے کہا اے بیٹے ابن عم کے ناصر اور وزیر بنو۔

آیا یہ بیانات جناب ابوطالب کے ایمان کو ثابت نہیں کرتے؟ علاوہ اس کے کہ پیغمبر(ص) کوکوئی روک ٹوک اور ممانعت نہیں کی اور نہ اپنے دوازدہ سالہ فرزند کو باز رکھنے کی کوشش کی، ان کو تاکید بھی کی کہ اپنے پسر عم رسول خدا(ص) کی مدد کریں۔

جعفر طیار(ع) کا باپ کے حکم سے ایمان لانا

نیز آپ کے سبھی علماء نے اپنی کتابوں میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ ایک روز جناب ابوطالبپ(ع) مسجد میں آئے تو دیکھا کہ رسول اکرم(ص) نماز پڑھتے ہیں اور علی(ع) آں حضرت(ص) کے داہنی طرف مشغول

۱۹۴

نماز ہیں انہوں نے اپنے فرزند جعفر (طیار) سے جو ان کے ہمراہ تھے اور ابھی ایمان نہیں لائے تھے کہا " صل جناح ابن عمک" اپنے پسر عم کے پہلو میں کھڑے ہو کر تم بھی ان کے ساتھ نماز پڑھو!جعفر آگے بڑھے اور رسول اللہ(ص) کے بائیں جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، اس وقت جناب ابوطالب نے یہ شعر نظم کئے۔

إِنَّ عَلِيّاً وَ جَعْفَراً ثِقَتِي‏عِنْدَ مُلِمِّ الزَّمَانِ وَ الْكَرْبِ

لَا تَخْذُلَا وَ انْصُرَا ابْنَ عَمِّكُمَاأَخِي لِأُمِّي مِنْ بَيْنِهِمْ وَ أَبِي‏

وَاللَّهِ‏لَاأَخْذُلُ‏النَّبِيَّ وَ لَايَخْذُلُهُ مِنْ بَنِيَّ ذُو حَسَبٍ

یعنی یقینا علی(ع) اور جعفر(ع) رنج و مصیبت کے وقت میرے سہارے اور قوت ہیں۔ اے علی(ع) و جعفر(ع) اپنے چچا کے فرزند اور میرے سگے بھتیجے کاساتھ نہ چھوڑو بلکہ ان کی مدد کرو۔ قسم خدا کی میں نبی(ص) کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا اور کوئی شریف پیغمبر(ص) کا ساتھ چھوڑ بھی سکتا ہے؟

پس آپ کے علماء ومورخین کا اتفاق ہے کہ جعفر کا اسلام و ایمان اور رسول اللہ(ص) کے سات ان کا نماز پڑھنا اپنےباپ جناب ابوطالب کے حکم اور اجازت سے تھا۔

کوئی صاحب عقل کیونکر یقین کر سکتا ہے کہ جو باپ مشرک اور کافر ہو وہ اپنے بھتیجے کو اتنے زبردست دعوے سے منع نہ کرے یہاں تک کہ اپنے بیٹوں کو بھی ایسے شخص پر ایمان لانے سے باز رکھنے کی کوشش نہ کرے جو ایک نیا دین لایا ہو اور اس کے دین کا دشمن ہو؟ اور وہ بھی جناب ابوطالب(ع) کا ایسا با اقتدار و با اثر باپ جو قریش کا سردار تھا؟ بلکہ مزید برآں اپنے فرزند کو حکم دے کہ جائو اور اپنے چچا کے بیٹے پر ایمان لائو اور ان کی اقتداء کرو؟ پھر اپنے سارے جسمانی و روحانی قوی کےساتھ اپنے دین کے سب سے بڑے دشمن کی حمایت و نصرت کرے؟فاعبروا يا اولی الالباب.

فریقین کے سارے اکابر علماء نے نقل کیا ہے کہ جب قریش اور مکے کے باشندوں نے بنی ہاشم کی اقتصادی ناکہ بندی کی تو جناب ابوطالب(ع) سارے خاندان کے ساتھ رسول اللہ(ص) کی حمایت پر کمر بستہ ہوگئے اور چار سالم تک شعب ابوطالب(ع) میں آں حضرت(ص) کی حفاظت و نگہبانی کی ، یہاں تک کہ اس ساری مدت کے اندر جس مقام پر شب کے پہلے حصے میں رسول اللہ(ص) سوتے تھے، ایک ساعتکے بعد جناب ابوطالب(ع) آکر آں حضرت(ص) کو بیدار کرتے تھے اور اس سے محفوظ جگہ لے جاتے تھے اور اپنے فرزند دل بن علی علیہ السلام کو آپ کے بستر پر سلادیتے تھے تاکہ اگر کسی دشمن نے آں حضرت(ص) کو ابتدائے شب میں وہاں دیکھا ہو اور آپ کے متعلق کوئی بری نیت رکھتا ہو تو علی(ع) آپ پر قربان ہوجائیں اور آپ کا وجود مسعود امن و آسائش اور حفاظت و اطمینان میں رہے۔

آپ کو خدا کی قسم یہ بتائیے کہ آیا کوئی مشرک کسی ایسے موحد کے لیے جو نبوت کا مدعی اورمشرکین کو کفر و گمراہی میں مبتلا جانتا ہو اس قدر ہمدردی اور کوشش کرسکتا ہے؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔ پس معلوم ہوا کہ یہ ساری جانفشانی اور فداکاری ایمان کامل کا نتیجہ تھی۔

۱۹۵

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ میں طبقات محمد بن سعد سے اور انہوں نے واقدی سے نیز علامہ سید محمد بن سید رسول برزنجی نے کتاب الاسلام فی العم وآباء سید الانام میں ابن مسعد اور ابن عساکر وغیرہ سے اور انہوں نے صحیح اسناد کے ساتھ محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے کہ علی علیہ السلام نے فرمایا جب ابوطالب نے وفات پائی تو میں نے رسول اللہ(ص) کو خبر دیفبکی بکاء شديدا! پس آں حضرت(ص) نے شدید گریہ فرمایا پھر مجھ کو حکم دیا کہ "اذهب فغسنله و کفنه ووازرة غفر الله له و رحمه " جاو ان کو غسلوکفن دو اور دفن کرو، خدا ان کی مغفرت کرے اور ان پر رحمت نازل فرمائے۔

خدا کے لیے انصاف کیجئے کہ اسلام میں کافر کو غسل و کفن دینے کی اجازت دی گئی ہے ؟ کیا ہمارے لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ رسول خدا(ص) نے کافر و مشرک کے لیے مغفرت طلب کی، یہاں تک کہ لکھتے ہیں"و جعل الله يستغرله اياما لا يخرج من بيته " یعنی رسول خدا(ص) کئی روز تک گھر سے باہر نہیں نکلے اور جناب ابوطالب(ع) کے لیے استغفار اور دعائے بخشش کرتے رہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ آں حضرت(ص) نے اپنے قرآن میں سورہ نمبر4(نساء) کی آیت نمبر51، 116 نہ دیکھی ہو کہ خدائے تعالی نے فرمایا ہے:

" إِنَ‏ اللَّهَ‏ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَ يَغْفِرُ ما دُونَ ذلِكَ لِمَنْ يَشاءُ"

یعنی خدا اس کو ہرگز نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ دوسرے گناہوں کو بخشے گا۔

پروردگار عالم کے اس صریحی اعلان کے باوجود کہ ہم مشرک ہو نہیں بخشیں گے۔ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ رسول اکرم(ص) ایک مشرک کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کریں؟ در آنحالیکہ اس کے لیے طلب رحمت و مغفرت حرام ہے اسی طرح جسم میت کو غسل و کفن دینا بھی مسلمان کے لیے مخصوص ہے اور کفار کے لیے ہزگز جائز نہیں۔ پس یہی رسول اللہ(ص) کا جناب ابوطالب کے لیے استغفار کرنا اور علی علیہ السلام ک وحکم دینا کہ جائو اپنے باپ کوغسل و کفن دو، جناب ابوطالب کے ایمان کی ایک واضح دلیل ہے دیدہ حق میں اور نگاہ انصاف سے تذکرہ سبط ابن جوزی ص6 کا مطالعہ کیجئے اور دیکھیئے کہ امیرالمومنین(ع) نے اپنے باپ کے لیے کیونکر مرثیہ کہا ہے۔ فرماتے ہیں:

أبا طالب عصمة المستجيروغيث‏المحول‏و نور الظلم‏

لقد هدّ فقدك أهل الحفاظفصلّى عليك ولي النعم‏

و لقاك ربك رضوانهفقد كنت للطهر من خير عم

یعنی اے ابوطالب آپ پناہ چاہنے والے کو پناہ، افتادہ زمینوں کے لیے بارانِ رحمت اور تااریکیوں کے لیے وشنی تھے۔ آپ کی موت سے اراکان حفاظت تباہ ہوگئے، پس آپ پر منعم حقیقی نے اپنی رحمت نازل کی اور پروردگار نے آپ کو اپنیبارگاہ کرم سے لحق کر لیا۔ آپ یقینا پیغمبر کے بہترین چچا تھے۔

آیا یقین کیا جاسکتا ہے کہ ایسی بزرگ شخصیت جس کے لیے مجسمہ توحید پرستی ( علی علیہ السلام) نے اس قسم کا مرثیہ

۱۹۶

کہا ہو وہ دنیا سے کافر اٹھی ہو؟

یہ ساری دلیلیں ثابت کرتی ہیں کہ جناب ابوطلب دنیا سے مومن گئے ورنہ رسول اکرم(ص) نہ ان کو غسل و کفن دیتے اور نہ دفن کرنے کے لیے ایک معصوم امام کو مامور فرماتے اور نہ ا ن کے لیے دعائے رحمت ہی کرتے اس لیے کہ آں حضرت(ص) حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کا مکمل نمونہ تھے آپ کی دوستی اور دشمنی محض خدا کے لیے تھی، خواہش نفس کی وجہ سے نہیں کہ ابوطالب(ع) چونکہ میرے چچا ہیں لہذا چاہے وہ مشرک ہی ہوں اور حکم خدا کے خلاف ہی کرنا پڑے لیکن میں ان کے واسطے شدید گریہ بھی کروں گا اور استغفار دعائےرحمت بھی۔

شیخ : اگرابوطالب(ع) مومن و موحد تھے تو کس وجہ سے اپنا ایمان پوشیدہ رکھا اور اپنے بھائی عباس و حمزہ کی طرح علانیہ اظہار ایمان نہیں کیا۔

خیر طلب: بدیہی چیز ہے کہ عباس و حمزہ اور جناب ابوطالب(ع) کے درمیان کافی تفاوت اور فرق تھا کیونکہ جناب حمزہ اس قدر شجاع ، نڈر اور شہزور تھے کہ سارے اہل مکہ ان سے دبتے تھے لہذا ان کا اسلام لانا اور ایمان کا اعلانکرنا پیغمبر(ص) کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوا۔

عباس(رض) کا اسلام پوشیدہ تھا!

لیکن جناب عباس نے بھی فورا ا پنا اسلام ظاہر نہیں کیا، چنانچہ ابن عبدالبر استیعاب میں نقل کرتے ہیں کہ عباس مکہ ہی میں ایمان لے آئے تھے لیکن لوگوں سے پوشیدہ رکھتے تھے، یہاں تک کہ جب رسول خدا(ص) نے ہجرت کی تو انہوں نے بھی آں حضرت(ص) کے ساتھ روانہ ہونا چاہا حضرت نے ان کو لکھا کہ آپ کا مکے میں ٹھہرنا میرے لیے مفیدہے۔ چنانچہ یہ مکے کی خبریں آں حضرت(ص) کو پہنچاتے تھے، بدرکبری کی جنگ میں کفار کو اپنے ہمراہ لائے کافروں کی شکست کے بعد آپ اسیر ہوگئے اور فتح خیبر کے روز مناسب موقع ہاتھ آیا تو، اپنے ایمان کو ظاہر کیا۔

نیز شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب 56 ص226 ( مطبوعہ اسلامبول) میں ذخائر العقبی امام الحرم ابوجعفر احمد بن عبداللہ طبری شافعی سے اور انہوں نے فضائل ابوالقاسم الہی سے کیا ہے کہ اہل علم جانتےہیں کہ عباس پہلے ہی اسلام لے آئے تھے لیکن اس کو چھپاتے تھے جب جنگ بدر میں کفار کے لشکر کے ہمراہ آئے تو پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ جو شخص عباس سے ملاقات کرے وہ ان کو قتل نہ کرے اس لیے کہ انہوں نے کراہت کے ساتھ کافروں کی ہمراہی اختیار کی ہے، وہ ہجرت پر تیار تھے لیکن میں نے ان کو لکھا کہ وہیں رہ کر مشرکین کی خبریں مجھ کو پہنچائیں جس روز ابو رافع نے آں حضرت(ص) کو عباس کے اظہار اسلام کی خبر دی تو آں حضرت(ص) نے اس کو آزاد فرما دیا۔

۱۹۷

ابوطالب(ع) نے اپنا ایمان کس لیے چھپایا

اور اگر جناب ابوطالب اپنا ایمان ظاہر کردیتے تو معاملہ یک طرفہ ہوجاتا یعنی تبلیغ اسلام کی ابتداء میں جب کہ ابھی رسول اکرم(ص) کے ساتھ اور ناصر و مددگار نہیں تھے۔ سار قریشاور پورا عرب متحد ہو کر بنی ہاشم کے مقابلے پر اٹھ کھڑا ہوتا اور نبوت کو نبیخ رین سے اکھاڑ پھینکتا۔ لہذا جناب ابوطالب نے مصلحتا اپنے ایمان کا اعلان نہیں کیا تاکہ بظاہر ایک ہم مشرب کی حیثیت سے قریش اور دیگر دشمنوں کی روکتھام کر سکیں اور وہ لوگ بھی محض جناب ابوطالب کے احترام اور لحاظ کی وجہ سے زیادہ شدید اقدامات نہ کریں جس سے آں حضرت کو اپنے مقصد کی اشاعت کا پورا موقع ملتا رہے۔ چنانچہ جب تک آپ زندہ رہے یہی صورت حال رہی اور رسول خدا(ص) پوری لگن کے ساتھ اپنا جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا"اخرج‏ عن‏ مكّة فما لك بها ناصر بعد أبى طالب. " ( اب آپ مکے سے چلے جائیے کیونکہ ابوطالب کے بعد اب یہاں آپ کا کوئی حمایتی نہیں ہے۔

شیخ: آیا رسول خدا(ص) کے زمانے میں ابو طالب کا اسلام مشہور تھا اور امت اس کی قائل تھی نہیں۔

خیر طلب : ہاں پوری شہرت رکھتا تھا اور ساری امت ان جناب کا نام تعظیم کے ساتھ لیتی تھی۔

شیخ : یہ کیونکر ممکن ہے کہ پیغمبر(ص) کے زمانے میں تو ایک معاملہ طشت ازبام اور پوری طرح مشہور ہو لیکن تقریبا تیس(30) سال کے بعد ( بقول آپ کے) ایک حدیث گڑھ دینے سے حق اور حقیقت کے برخلاف اس طرح سے شہرت پا جائے کہ سابقہ حقیقت کالعدم ہی ہوجائے؟

خیر طلب:ليس هذا بأوّل قارورة كسرت في الإسلام. ( یعنی یہ کوئی (اصلیت کا) پہلا شیشہ نہیں ہے جو اسلام میں توڑا گیا)

یہ کوئی نئی بات نہیں تھی کہ رسول اللہ(ص) کے زمانے میںکوئی اصلیت مشہور رہی ہو لیکن برسوکے بعد کوئی حدیث گڑھنے کی وجہ سے اس کی پہلی صورت ختم ہوگئی ہو۔

بہت سے امور بلکہ دینی احکام بھی ایسے ہیں جو صاحب شریعت حضرت خاتم الانبیاء(ص) کے عہد میں رائج و نافذ اوعر جائز بلکہ عمل و رامد کے اندر تھے) لیکن چند سال گزرنے کے بعد لوگوں کے دبائو اور اثرات کے نتیجے میں ان کی حقیقت ہی بدل گئی اور ایک صورت قائم ہوگئی۔

شیخ : ممکن ہو تو جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں ان بہت سے امور میں سے ایک ہی نمونہ بیان کیجئے۔

۱۹۸

خیر طلب : شواہد تو اتنے زیادہ ہیں کہ جلسے کا وقت ان سب کو پیش کرنے کی گنجائش ہی نہیں رکھتا، لیکن نمونے کے طور پر ان میں سے ایک ایسی مثال پیش کرتا ہوں جو سب سے زیادہ اہم اور واضح نیز قرآن مجید کی دلالت اور جمہور مسلمین کے اتفاق سے بالکل مستحکم ہے اور وہ ہیں متعہ کے دو مستقل حکم یعنی منقطع اور حج نساء بحکم قرآن اور باتفاق فریقین ( شیعہ و سنی) زمانہ رسول(ص) میں یہ دونوں عمل عام شہرت اور رواج کے مالک تھے، یہاں تک کہ پوری خلافت ابوبکر اور خلافت عمر ابن خطاب کے ایک حصے میں بھی امت کے اندر جاری رہے، لیکن خلیفہ عمر کے صرف ایک جملے سے کایا پلٹ ہوگئی، انہوں نے کہا:

"متعتان‏ كانتا على عهد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلم و أنا أحرمهما و اعاقب عليهما"

یعنی دو متعے جو رسول اللہ(ص) کے زمانے میں رائج تھے میں ان دونوں کو حرام کرتا ہوں اور جو کوئی ان پر عمل کرے گا اس کو سزادوں گا۔

یعنی تیرہ سو سال سے زیادہ ہوگئے حلال خدا حرام ہوچکا ہےعمر کے اس قول پر ان کے زمانہ خلافت میں اور اس کے بعد اس قدر زور دیا گیا اور بغیر کسی دلیل کے قرآن مجید کی نص صریح اور عمل رسول(ص) و اصحاب رسول(ص) کے برخلاف اس طرح سے اس کی اندھی اور بھیڑیا دھسان تقلید کی گئی کہ سابقہ حقیقت بالکل فراموش ہوگئی اب تک عام طور پر برادران اہل سنت کے کروڑوں لوگ اس متعہ کو جو حلال خدا اور پیغمبر(ص) کی روش سنت ہے شیعوں کی ایک بدعت سمجھتے ہیں اور اگر ہم دلائل کے ساتھ بیان کریں تب بھی تسلیم نہیں کرتے کہ پیغمبر(ص) اور ابوبکر و عمر کے زمانے میں یہ دونوں متعے شائع اور حلالتھے، صرف خلیفہ عمر کے کہنے سے ان کے اواسطخلافت میں یہ حلال خدا حرام بن گیا۔ جس جگہ اللہ کا وہ محکم حکم جس کی گواہی قرآن دے رہا ہو۔ رسول اللہ(ص) اور پاک صحابہ کی سیرت جس کی تصدیق کر رہی ہو، جس کو شیخیں ابوبکر و عمر کی تائید حاصل ہو اور جس کی حلت پر قرآن مجید نیز اہل سنت کی معتبر کتابوں میں واضح دلیلیں موجود ہوں، تنہا عمر کے اس اعلان سے جس کو آیات و احادیث کی قطعا کوئی حمایت حاصل نہ ہو حرام و بدعت ہوجائے وہاں آپ چاہتے ہیں کہ جناب ابوطالب(ع) کا اسلام و ایمان کفر سے مبدل نہ ہو۔

شیخ : یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا کے کروڑوں مسلمان صدیوں سے قرآن مجید اور سنت رسول(ص) کے خلاف عمل کرتے آرہے ہیں حالانکہ سارا عالم ہم کو سنی کہتا ہے، یعنی ہم سنت رسول(ص) کے پیرو ہیں، اور شیعوں کو رافضی کہا جاتا ہے، یعنی انہوں نےرسول(ص) کی سنت سے انحراف کیا۔

سنی درحقیقت رافضی اور شیعہ اہل سنت ہیں

خیر طلب : بظاہر آپ لوگ اپنے کو سنی اور شیعوں کو رافضی کہتےحالانکہ اگر عادت اور تعصب سے ہٹ کے اںصاف سے جائزہ لیجئے تو نظرآئے گا کہ بباطن اور در حققیت شیعہ سنی یعنی قرآن و سنت رسول(ص) کے تا بع اور احکام پیغمبر(ص) کے فرمانبردار ہیں اور آپ لوگ رافضی یعنی قرآن سنت اور احکام رسول(ص) سے منحرف ہیں۔

۱۹۹

شیخ : یہ خوب رہی۔ آپ نے کروڑوں خالص مسلمانوں کو رافضی کیسے بنادیا؟ کیا دلیل ہے۔ آپ کے پاس اس مقصد پر؟

خیر طلب: اسی طرح جیسے آپ لوگ یعنی سنی حضرات دس کروڑ پاک نفس شیعوں اور عترت و اہل بیت رسول(ص) کے پیروئوں کو رافضی کافر اور مشرک کہتے ہیں میں گذشتہ راتوں میں کافی دلائل کےساتھ عرض کرچکا ہوں کہ رسول اکرم(ص) نے ہدایت فرمائی ہے کہ میرے بعد قرآن اورمیری عترت کی پیروی کرنا لیکن آپ لوگ جان بوجھ کر عترت(ع) سے منہ موڑ کر دوسرون کے پیرو بنے پیغمبر(ص) کی سیرت اورسنت کو جس کی آں حضرت(ص) بحکم قرآن اپنی زندگی میں برابر عملی تاکید فرماتے رہےپامال کردیا، شیخین کے حکم سےا ن حضرات کاسات ھ چھوڑ دیا اور پھر سنت و سیرت رسول(ص) پر عمل کرنے والوں کو رافضی بلکہ مشرک اور کافر تک کہہ دیا۔

من جملہ ان احکام کے آیت 42 سورہ 8 ( انفال) میں صریحا ارشاد ہے کہ:

"وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ‏ مِنْ شَيْ‏ءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى الخ"

یعنی جان لو کہ جو کچھ تم کو غنیمت اور فائدہ حاصل ہو اس میں سے خمس یعنی پانچواں حصہ خدا و رسول(ص) اور قرابتداروں کے لیے مخصوص ہے۔الخ

چنانچہ آں حضرت(ص) اپنی زندگی میں اس حکم پر عمل فرماتے رہے اور خمس غنائم کو اعزہ و اقارب میں تقسیم فرمادیتے تھے لیکن آپ لوگوں نے اس سے مخالفت اور روگردانی کی۔(1)

اگر میں سب کی فہرست پیش کرنا چاہوں تو رشتہ کلام بہت طولانی ہوجائے گا۔

البتہ سب سے بڑی دلیل اس مطلب پر کہ ہم شیعہ رسول اللہ(ص) کی سنت و سیرت کے تابع اور آپ لوگ رافضی، رسول خدا(ص) اور صحابہ کرام کی سنت و سیرت کے تارک اور اس سے منحرف ہیں۔ یہی متعہ کا موضوع بہ حکم خدا، سنت رسول(ص) اور عمل صحابہ کی بنا پر خود آں حضرت( ص) کے عہد پورے زمانہ خلافت ابوبکر میں، اور خلافت عمر کے درمیان تک حلال اور زیر عمل تھا۔ لیکن عمر کے صرف فقرے سے جو انہوں نے از رو ئے سیاست اور ایک خاص مقصد کے تحت کہا تھا آپ لوگوں نےحلال خدا کو حرام اور سنت رسول(ص) کو بیکار سمجھ کر ترک کر دیا اس کے باوجود اپنے کو سنی اور ہم شیعوں کو جو قرآن اورسنت پیغمبر(ص) کے تابع ہیں راضی کہتے ہیں اور بے خبر لوگوں کو یہ سبق اس طرح سے رٹایا ہے کہ چودہ سو برس کے قریب ہو رہے ہیں وہ ہم کو رافضی اور مشرک ہی کہتے ہیں۔

حیرت یہ ہے کہ آپ یعنی برادران اہل سنت بالکل مدعی سست گواہ چست کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ کیونکہ خود خلیفہ عمر نے تو اپنی بات کے ثبوت میں کوئی دلیل و برہان پیش نہیں کی لیکن سنی علماء نے اپنی کتابوں میں یہ ثابت کرنے کے لیے دسیوں پھسپسی دلیلیں اکٹھا کی ہیں کہ خلیفہ عمر کا کلام حق ہے چاہے قرآن و سنت رسول}ص) اور سیرت صحاب باطل و بے بنیاد ٹھہر جائے۔

شیخ : حلت متعہ و عقد انقطاع پر آپ کی دلیل کیا ہے؟ کہاں سے اور کس دلیل سے آپ کہہ رہے ہیں کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے قول خدا اور سنت رسول(ص) کے خلاف عمل کیا۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394