پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 394
مشاہدے: 302328
ڈاؤنلوڈ: 7233

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302328 / ڈاؤنلوڈ: 7233
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=379&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=375&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں

خیر طلب : یہ فرمائیے کہ ام المومنین عائشہ کا مرتبہ زیادہ بلند تھا یا ام حبیبہ خواہر معاویہ کا؟

شیخ : اگرچہ دونوں ام المومنین تھیں لیکن عائشہ کا مقام و مرتبہ یقینا سب سے بالاتر تھا۔

محمد ابن ابی بکر علی(ع) کے پیرو تھے اس لیے خال المومنین نہیں کہلائے

خیر طلب : آپ کے اس قاعدے سے تو ازواج رسول(ص) کےسبھی بھائی خال المومنین ہیں۔ پھر آپ محمد بن ابی بکر کو خال المومنین کیوں نہیں کہتے ؟ حالانکہ آپ کے نزدیک ان کے باپ معاویہ کے باپ سے بالاتر اور ان کی بہن بھی معاویہ کی بہن سے جلیل القدر ہیں معلوم ہوا کہ معاویہ کا خال المومنین ہونا کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور اس میں ان کے لیے کوئی شرف بھی نہیں ہےورنہ صفیہ زوجہ رسول(ص) کے باپ حی ابن اخطب یہودی کو بھی صاحب شرف ہونا چاہیے۔

آپ قطعی طور پر سمجھ لیجئے کہ ام المومنین اور خال المومنین ہونے کا کوئی لحاظ نہیں ہے بلکہ در حقیقت خاندان رسول(ص) اور عترت و اہل بیت رسالت(ع) کی ضد اور مخالفت مںظور ہے۔ چونکہ معاویہ نے عترت رسول(ص) سے جنگ کی، امام الموحدین حضرت امیرالمومنین(ع) اور پیغمبر(ص) کے دونوں نواسوں یعنی سرداران جوانان اہل جنت حسن و حسین علیہم السلام پر لعنت اور سبوشتم کرنے کا حکم دیا۔ اور فرزند رسول(ص) امام حسن مجتبی(ع) نیز دوسرے پاکباز صحابہ اور شیعوں کا قتل عام کیا لہذا خال المومنین ہوگئے( چنانچہ ابوالفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبین میں، ابن عبدالبر نے استیعاب میں، مسعودی نے اثبات الوصیہ میں اور دوسرے علماء نے نقلکیا ہے کہ اسماء جعدہ نے معاویہ کے حکم اور وعدے پر حضرت ابو محمد حسن ابن علی علیہما السلام کو زہر دیا۔ یہاں تک کہ ابن عبد البر اور محمد بن جریر طبری نے لکھا ہےکہجس وقت ان بزرگوار کی خبر وفات معاویہ کو ملی تو انہوں نےتکبیر کہی اور ان کے سارے حاشیہ نشینوں نے بھی جوش مسرت میں تکبیر کہی) یقینا ایسے ہی ملعون کو آپ کے نزدیک خال المومنین ہونا چاہئیے۔

لیکن جناب محمد ابن ابوبکر چونکہ حضرت امیرالمومنین (ع) کے پروردہ اور اہلبیت طاہرین (ع) کے مخلص شیعوں میں سے تھے جیسا کہ اس جلیل القدر خاندان سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

يابني‏الزهراءأنتم عدتي‏و بكم في الحشر ميزاني رجح‏

و إذا صح ولائي فيكم‏لا ابالي أي كلب قد نبح‏

یعنی اے اولاد فاطمہ(ع) میرے لیے جائے پناہ اور سرپرست ہو اور تمہارے ہی وسیلے سے قیامت کے روز میرے میزان عمل کا پلہ بھاری ہوگا۔ جب میری محبت تمہارے لیے خالص ہوگئی تو میں اس کی پروا نہیں کرتا کہ کوئی میرے گرد بھونکتا رہے۔

لہذا باوجودیکہ خلیفہ اول ابوبکر کے فرزند اور ام المومنین عائشہ کے بھائی تھے پھر بھی خال المومنین نہ کہے جائیں بلکہ ان پر سب ، لعن کی جائے اور باپ کی وراثت سے بھی محروم کردیئے جائیں؟

۱۸۱

یہاں تک کہ جس وقت عمرو بن عاص اور معاویہ بن خدیج نے مصر کو فتح کیا تو جناب محمد ابن ابوبکر پر پانی بندکردیا اور سخت پیاس کے عالم میں ان کو قتل کیا، پھر ایک مرے ہوئے گدھےکے پیٹ میں رکھ کے آگ سے جلا دیا۔ جب معاویہ کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے انتہائی مسرت اور شادمانی کا اظہار کیا۔

آپ ان واقعات کو سن کر تو قطعی متاثر نہیں ہوتے کہ ان ملاعین نے خلیفہ ابوبکر کے بیٹے خال المومنین جناب محمد کے ساتھ کیوں ایسا سلوک کیا اور ان کو اس ذلت و خواری کے ساتھ کیوں شہید کیا۔ لیکن معاویہ پر لعن کی جائے تو ناراض ہوجاتے ہیں، کہ خال المومنین کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا؟

پس آپ کو تصدیق کرنا چاہیئے کہ جنگ در اصل عترت رسول(ص) سے تھی اور ہے۔

محمد ابن ابی بکر چونکہ اہل بیت(ع) کے دوستوں میں سے تھے لہذا نہ آپ ان کو خال المومنین کہتے ہیں نہ ان کے قتل سے رنجیدہ ہوتے ہیں اور معاویہ چونکہ عترت و اہل بیت رسول(ص) کے پکے دشمن تھے اور ان حضرات پر علانیہ لعنت کرتے تھے لہذا ان کو خال المومنین بھی کہتے ہیں اور ان کی طرف داری بھی کرتے ہیں۔ خدا کی پناہ اس تعصب وعناد اور ہٹ دھرمی سے۔

معاویہ وحی کے نہیں بلکہ خطوط کے کاتب تھے

دوسرے معاویہ کاتب وحی بھی نہیں تھے کیوں کہ یہ ہجرت کے دسویں سال اسلام لائے ہیں جب کہ وحی کے سلسلے میں کوئی چیز باقی ہی نہیں رہ گئی تھی، بلکہ کاتب مراسلات تھے۔ چونکہانہوں نے رسول اللہ(ص) کو بہت اذیتیں پہنچائی تھیں اور آں حضرت(ص) کی بدگوئیاں کی تھیں ، نیز سنہ8 ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر جب ابوسفیان نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے اپنے باپکو بہت سے خطوط لکھے تھے جن میں تو بیخ و سرزنش کی تھی کہ تم کیوں مسلمان ہوئے؟ لہذا جس وقت جزیرہ عرب میں اور اس سے باہر اسلام کی عام اشاعت کے اثر سے خود بھی مسلمان ہونے پر مجبور ہوئے تو مسلمانوں کے درمیان ان کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ پیغمبر(ص) کے چچا جناب عباس نے آں حضرت(ص) سے درخواست کی کیا معاویہ کو کبھی امتیاز دے نہ دیجئے تاکہ سب کی اور خجالت سے نجات پاجائے آں حضرت(ص) نے اپنے چچا کی رعایت سے ان کو مراسلات کا کاتب مقرر کردیا۔ چنانچہ مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ "ان معاوية يکتب بين يدی النی صلی الله عليه و آله "( یعنی معاویہ پیغمبر(ص) کے سامنے کتابت کرتے تھے اور مدائنی کہتے ہیں:

" كان‏ زيد بن‏ ثابت‏ يكتب الوحي، و كان معاوية يكتب للنبي صلّى اللّه عليه و آله فيما بينه و بين العرب"

یعنی زید بن ثابت وحی لکھتے تھے اور معاویہ آں حضرت(ص) اور عرب کے درمیان خط کتابت کا کام کرتے تھے۔

۱۸۲

معاویہ کے کفر و لعن پر دلائل

تیسرے ان کے کفر اور ان پر لعنت کے ثبوت میں آیات و اخبار اور ان لوگوں کے حرکات سے بکثرت دلیلیں قائم ہیں۔

شیخ : اخبار و آیات کے دلائل سننے کے قابل ہیں۔ التماس ہے کہ انکوبیان کیجئے تاکہ یہ معمہ حل ہو۔

خیر طلب: آپ تعجب نہ کریں، اس میں کوئی معما نہیں ہے بلکہ اتنی کثرت سے دلیلیں موجود ہیں کہ اگر سب کو نقل کروں تو ایک مستقل کتاب بن جائے لیکن یہاں وقت کے لحاظ سے بعض کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔

معاویہ و یزید کی لعن پر آیات و اخبار کی دلالت

1۔ سورہ نمبر17( بنیاسرائیل) آیت نمبر62 میں ارشاد ہے :

"وَ ما جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْناكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ وَ نُخَوِّفُهُمْ فَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْياناً كَبِيراً"

آپ کے علمائے مفسرین جیسے امام ثعلبی اور امام فخرالدین رازی وغیرہ نے روایت کی ہے کہ رسول خدا(ص) نے عالم خواب میں دیکھا کہ بنی امیہ بندروں کے مانند آں حضرت(ص) کے منبر پر چڑھ اتر رہے ہیں اس کے بعد جبرئیل یہ آیت لائے کہ جو کچھ ہم نے تم کو خواب میں دکھایا ہے وہ لوگوںکے لیے فتنہ اور امتحان ہے اور وہ درخت ہے جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے( یعنی شجرہ نسل بنی امیہ) اور ہم ان کو ان آیات عظیم کے ذریعے خدا سے ڈراتے ہیں لیکن اس سے ان کے سوائے کفر اور سخت سرکشی کے اور کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔ پس جب خدائے تعالی نے نسل بنی امیہ کو جن کے راس و رئیس ابوسفیان اور معاویہ تھے قرآن میں شجرہ ملعونہ یعنی لعنت کیا ہوا درخت فرمایا ہے تو معاویہ بھی جو اسی درخت کی ایک مضبوط شاخ ہیںقطعا ملعون ہوئے۔

2۔ سورہ نمبر47(محمد) آیت نمبر32، 32 میں فرماتا ہے:

"فَهَلْ‏ عَسَيْتُمْ‏ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ‏ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَ تُقَطِّعُوا أَرْحامَكُمْ‏ أُولئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَ أَعْمى‏ أَبْصارَهُمْ‏"

یعنی اے منافقین کیا عنقریب اگر تم حاکم بن جائو تو زمین میں فساد برپا کروگے اور اپنے قرابت کے رشتہ قطع کروگے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے پس (گویا) انکے کانوں کو بہرا اورآنکھوں کو اندھا بنادیا ہے۔

اس آیت میں زمین پر فساد پھیلانے والوں اور قطع رحم کرنے والوں پر کھلی ہوئی لعنت کی گئی ہے اور معاویہ سے زیادہ مفسد کون ہوگا جن کا فساد ان کے دور خلافت میں ز بان زد خاص و عام تھا۔ ان کے علاوہ قاطع ارحام بھی تھے جو ان پر ثبوت لعن کے

۱۸۳

لیے خود ایک دوسری دلیل ہے۔

3۔ سورہ نمبر33 ( احزاب) آیت نمبر57 میں ارشاد فرمایا ہے:

" إِنَّ الَّذِينَ‏ يُؤْذُونَ‏ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذاباً مُهِيناً."

یعنی جو لوگ خدا و رسول(ص) کو اذیت پہنچاتے ہیں یقینا اللہ نے ان پر دنیا و آخرت میں کمی کی ہے اور ان کے لیے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

بدیہی چیز ہے ک امیرالمومنین (ع) اور دونوں ریحانہ رسول حسنو حسین علیہم السلام نیز عمار یاسر وغیرہ کے ایسے رسول اللہ(ص) کے خاص صحابہ کو رنج و اذیت پہنچانا در اصل آن حضرت(ص) کو رنج اذیت پہنچانا ہے اور معاویہ نے چونکہ ان مقدس ہستیوں کو رنج و آزار پہنچایا ہے لہذا بصراحت آیت دنیا وآخرت میں ملعون ہوئے۔

4۔ سورہ نمبر40( مومن) آیت نمبر55 میں فرمایا ہے:

"يَوْمَ‏ لا يَنْفَعُ‏ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوءُ الدَّارِ"

یعنی اس روز ظالمون کو ان کی معذرت اور پشیمانی کوئی فائدہ نہ دے گی، ان کے لیے لعنت اور بری قیام گاہ موجود ہے۔

5۔ سورہ نمبر11 (ہود) آیت نمبر21 میں ارشاد ہے:

"أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ‏"( یعنی جان لو کہ ظالمون پر خدا کی لعنت ہے۔)

6۔ سورہ نمبر7( اعراف) آیت نمبر42 میں ارشاد ہے:

" فَأَذَّنَ‏ مُؤَذِّنٌ‏ بَيْنَهُمْ- أَنْ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ"( یعنی ان کے درمیان ایک منادی نے ندا کی کہ ظالمون پر خدا کی لعنت ہو)

اور اسی طرح کی دوسری آیتوں میں بھی جو ظالمین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ ہر ظالم ملعون ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی اپنا یا غیر معاویہ کے کھلے ہوئے مظالم سے انکار کرے گا۔ پس اسی دلیل سے کہ وہ ظالم تھے لعنت خداوندی کے مستحق قرار پائے اور ایسے صریحی نصوص کی موجودگی میں ہم بھی اس شخص پر لعن کرسکتے ہیں جو خدا کے نزدیک ملعون ہو۔

7۔ سورہ نمبر4 ( نساء) آیت نمبر95 میں فرمایا ہے:

"وَ مَنْ‏ يَقْتُلْ‏ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فِيها وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهُ وَ أَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظِيماً"

یعنی جو شخص کسی مومن کو عمدا قتل کردے تو اس کا عوض جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ معذب رہے گا۔ خدا اس پر غضب ناک ہے اور اس پر لعنت کرتا ہے اور اس کے لیے زبردست عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

معاویہ کے حکم سے خاص خاص مومنین کا قتل

یہ آیہ شریفہ واضح کررہی ہے کہ جو شخص کسی ایک مومن کو بھی عمدا قتل کردے وہ خدا کا ملعون ہے اور اس کی قیام گاہ جہنم ہے اب آپ حضرات انصاف سے بتائیے کہ آیا معاویہ عام اور خاص مومنین کے قتل میں شریک نہیں تھے؟ آیا حجر ابن عدی اور ان کے سات اصحاب کو انہوں نے اپنے حکم سے عمدا قتل نہیں کرایا؟ اور خصوصیت کے ساتھ کہا عبدالرحمن ابن حسان غزمی کو زندہ درگور نہیں کرایا؟ چنانچہ ابن عساکر اور یعقوب بن سفیان نے اپنیتاریخوں میں، بیہقی نے دلائل میں، ابن عبدالبر نے

۱۸۴

استیعاب میں اور ابن اثیر نے کامل میں نقل کیا ہے کہ حجر ابن عدی کبار وبزرگان صحابہ میں سے تھے جن کو معاویہ نے مع ان کے سات آدمیوں کے بہت سختی کے ساتھ محض اس خطا پر قتل کرایا کہ انہوں نے علی علیہ السلام پر لعن اور آپ سے تبرا کیوں نہیں کیا۔ آیا امام حسن ابن علی ابن ابی طالب علیہما السلام رسول اللہ(ص) کے بڑے نواسے ، اصحاب کساء کی ایک فرد، جوانان اہل جنت کے دو سرداروں میں سے ایک اور اکابر مومنین میں سے نہیں تھے جن ک لیے برابر روایت مسعودی و ابن عبدالبر و ابوالفرج اصفہانی وطبقات محمد بن سعد وتذکرۃ سبط ابنجوزی وغیرہ اکابر علمائے اہل سنت ، معاویہ نے اسماء جعدہ کے پاس ایک زہر بھیجا اور وعدہ کیا کہ اگر تم حسن بن علی(ع) کو مار ڈالو گی تو تم کو ایک لاکھ درہم دوں گااور اپنے بیٹے یزید کے ساتھ عقد کروں گا؟ ( چنانچہ شہادت امام حسن علیہ السلام کے بعد ایک لاکھ درہم تو دے دئیے لیکن یزید کے ساتھ نکاح کرنے سے انکار کردیا) آیا قتل مومن کے علاوہ رسول اللہ(ص) کے پارہ جگر حضرت امام حسن علیہ السلام کو شہید کرنے سے آں حضرت(ص) کو اذیت نہیں پہنچی؟ اور مذکورہ بالا دونوں آیتوں کے بعد بھی آپ کو ملعون ہونے میں تامل ہے؟ آیا صفین میں رسول خدا(ص) کے بزرگ صحابی عمار یاسر کی شہادت معاویہ کے حکم سے نہیں ہوئی ؟ اور کیا باتفاق اکابر علمائے اہل سنت رسول اللہ(ص) نے عمار یاسر سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ "ستقتلک الفئة الباغية "( یعنی عنقریب تم کو ایک باغی اور گمراہ گروہ قتل کرے گا؟

آیا آپ کو اس میں کوئی شک ہے کہ معاویہ کے حکم اور عمال معاویہ کے ہاتھوں سے اتنے بزرگان مومنین قتل ہوئے کہ انکی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے؟ آیا مومن پاک نفس اور بہت بڑے مرد مجاہد مالک اشتر کو معاویہ کے حکم سے زہر نہیں دیا گیا؟ آیا معاویہ کے خاص کارندے عمرو بن عاص اور معاویہ بن خدیج نے مصر میں امیرالمومنین (ع) کے گورنر اور صالح و کامل مومن محمد ابن ابوبکر کو ظلم سے شہید نہیں کیا، یہاں تک کہ بعد کو مردہ گدھے کے پیٹ میں رکھ کے آگے سے جلایا بھی؟ اگر میں چاہوں کہ جس قدر مومنین کو معاویہ اور ان کے عمال نے قتل کرایا ہے سب کی تفصیل بیان کروں تو ایک رات نہیں بلکہ کئی راتیں درکار ہوں گی۔

معاویہ کے حکم سے بسر بن ارطاۃکے ہاتھوں تیس(30) ہزار مومنین کا قتل

ان کا ایک بدترین عمل مومنین اور شیعیان علی کا وہ قتل عام ہے جو معاویہ کے حکم سے خونخوار وسفاک بسر ابن ارطاۃ نے کیا۔ چنانچہ ابوالفرج اصفہانی و علامہ سمہوددی نے تاریخ المدینہ میں، ابن خلکان ، ابن عساکر اورطبری نے اپنی تاریخوں میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں اورآپ کے دوسدرے اکابر علماء نے لکھا ہے کہ معاویہ نے بسر کو حکم دیا کہ اپنا لشکر لے کر مدینے اور مکے سے صنعاء اور یمن کی طرف دھاوا کرو اور ایس طرح کا حکم ضحاک بن قیس فہری وغیرہ کو بھی دیا جس کو الفرج نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ :

" فيقتلوا کل من وجده من شيعتة علی ابن ابی طالب و اصحابه ولا يکفوا ايديهم عن النساء والصبيان"

یعنی علی ابن ابی طالب(ع) کے اصحاب اور شیعوں میں سے جو بھی مل جائے قتل کردیا جائے ، یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں کو بھی نہ چھوڑا

۱۸۵

جائے۔ پس یہ لوگ اس شدید حکم کے ساتھ تین ہزار کاجراد و خونخوار لشکر کے کر روانہ ہوئے اور مدینہ ، صنعاء،یمن ، طائف اور نجران میں نیز راستے کے درمیان اس قدر مومنین و مسلمین حتی کہ عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کیا کہ ان کے اعمال سے تاریخ کے صفحات سیاہ ہوگئے افسوس کہ ان سارے انسانیت سوز حرکات کی تشریح پیش کرنے کا وقت نہیں لیکن مختصر نمونہ یہ ہے کہ جس وقت یمن میں پہنچے تو والی یمن عبیداللہ ابن عباس شہر سے باہر تھے، یہ ان کے گھر میں گھس گئے اور ان کے دو چھوٹے چھوٹے بچوں سلیمان اور دائود کو ماں کی گود میں ذبح کردیا۔

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص121 سطر اول میں لکھتے ہیں کہ اس فوج کشی میںجولوگ آگ سے جلا دیئے گئے ان کے علاوہ تیس ہزار افراد قتل کئے گئے۔

آیا آپ حضرات کو اب بھی اس حقیقت میں کوئی شک وشبہ ہے کہ معاویہ پر آیات قرآنی کے حکم سے دنیا وآخرت میں خدا و رسول(ص) کی لعنت ہے؟

امیرالمومنین (ع) پر سب وشتم اور آپ کی مذمت میں حدیثیں گھڑنے کےلیے معاویہ کا حکم

معاویہ ک کفر اور قابل لعن ہونے کے ثبوت میں من جملہ دوسرے واضح دلائل کے امیرالمومنین(ع) پر سب وشتم اور لعنت کرنا نیز لوگوں کو نمازوں کے قنوت اور نماز جمعہ کے خطبے وغیرہ میں اس گناہ عظیم کا حکم دینا بھی ہے جس پر ہم آپ جہمور امت یہاں تک کہ غیر اقوام کے مورخین کو بھی اتفاق ہے کہ یہ عمل قبیح اور بدعت کھلم کھلا حتی کہ مبروں کے اوپر بھی رائج تھی اور ایک بڑی جماعت کو لعنت نہ کرنےکے جرم میں قتل کردیا گیا، بالآخر عمر ابن عبدالعزیز نے اپنی خلافت کے زمانے میں اس بدعت کو ختم کیا۔

قطعی چیز ہے کہ جو شخص امام الموحدین برادر رسول(ص) زوج بتول(ص) امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر آپ کی حیات میں یا بعد وفات سب وشتم اور لعن کرے یا اس کا حکم دے وہ ملعون اور کافر ہے اس لیے کہ آپ کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں جیسے امام احمد نے مسند میں، امام ابوعبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں، امام ثعلبی و امام فخرالدین رازی نے اپنی تفسیروں میں، ابن ابی الحدید ن شرح نہج البلاغہ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں، ابن صباغ مالکی ن فصول المہمہ میں، حاکم نے مستدرک میں، خطیب خوارزمی ن مناقب میں، ابراہیم حموینی ن فرائد میں، ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں، امام الحرم ن ذخائر العقبی میں اور ابن حجر نے صواعق میں، غرضیکہ آپ کے سبھی بڑے بڑے علماء نے مختلف الفاظ عبارات کے ساتھ مجمل اور مفصل طور سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا۔ "من سب عليا فقد سبنی ومن سبنی فقد سب الله " ( یعنی جس شخص نے علی(ع) کو سب وشتم کیا اس نے

۱۸۶

یقینا مجھ کو سب وشتم کیا اور جس نے مجھ کو سب وشتم کیا اس نے در حقیقت خدا کو سب وشتم کیا۔)

ان میں سے بعض نے ان اخبار کو نقل کر کے عمومیت دی ہے جو اس چیز پر دلالت کرتے ہیں کہ علی(ع) کو اذیت دینا اذیت دینے والے کے ملعون ہونے کا باعث ہے، مثلا دیلمی نے فردوس میں، سلیمان حنفی نے ینابیع المودت میں مختلف اسناد کے ساتھ نیز اوروںنے نقل کیا ہے اور جس کی طرف میں پچھلی شبوں میں ارشارہبھی کرچکا ہوں کہ فرمایا:

" من آذی عليا فقد آذانی و من اذانی فعليه لعنة الله"

یعنی جو شخص علی(ع) کو اذیت دے اس نے حقیقتا مجھ کو اذیت دی اور جو شخص مجھ کواذیت دے اس پر خدا کی لعنت ہو۔

یہاں تک کہ ابن حجر مکی نے صواعق میں اس سے بالاتر کل عتر و اہل بیت(ع) کے سب ولعن سے متعلق حدیث نقل کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

"من سب اهل بيتی فانما يرتد عن الله والاسلام و من اذانی فی عترتی فعليه لعنة الله"

یعنی جو شخص میرے اہل بیت کو سب وشتم کرے تو سوا اس کے نہیں ہے کہ وہ دین خدا اور اسلام سے مرتد ہوگیا اور جس نے میری عترت کے بارے میں مجھ کو ایذا دی پس اس پر خدا کی لعنت ہو۔

پس معاویہ کا ملعون ہونا ثابت ہے کیونکہ جب ابن اثیر نے کامل میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے وہ نماز کے قنوت میں حضرت امیرالمومنین(ع) اور پیغمبر(ص) کے دونوں نواسوں امام حسن و امام حسین علیہم السلام نیز ابن عباس اور مالک اشتر پر لعنتکیا کرتے تھے۔

اور امام احمد ابن حنبل نے مسند میں کئی سلسلوں سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"من اذی عليا بعث يوم القيمة يهوديا او نصرانيا"

یعنی جو شخص علی(ع) کو اذیت دے وہ قیامت کے روز یہودی یا نصرانی محشور ہوگا۔

یقینا خود بہتر جانتے ہیں کہ یہ چیز مقدس دین اسلام کے ضروریات میں سے ہے کہ خدا و رسول(ص) کو سب وشتم کرنا کفر اور نجاست کا باعث ہے اور ایسے آدمی کا قتل واجب ہے۔

اس قسم کے اخبار و احادیث کے حکم سے جوآپ کی معتبر کتابوں میں کثرت سے منقول ہیں اور پچھلی راتوں میں تفصیل سے بیان ہوچکے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا، علی علیہ السلام اور میری عترت و اہل بیت پر سب وشتم اور لعن و دشنام در اصل مجھ پر اور میرے پروردگار پر سب و لعن اور دشنام ہے" معاویہ کا ملعون اور کافر ہونا قطعا ثابت ہے۔

چنانچہ محمد ابن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب دہم میں اپنے اسناد سے نیز دوسروں نے ایک روایت نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عبد اللہ ابنعباس اور سعید ابن جہمیر نے زمزم کے کنارے دیکھا کہ اہل شام کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی ہے اور علی علیہ السلام کو سب وشتم کررہی ہے انہوں نے قریب جا کر پوچھا "ايکم السباب لله عزوجل "( تم میں سے کون خدا تعالے کو گالیاں دے رہا تھا؟ ان لوگوں نےکہا ہم میں سے کسی یہ حرکت نہیں کی۔ انہوں نے پوچھا"ايکم السباب رسول لله صلی الله عليه و آله" تم میں سےکون رسول اللہ(ص) کو گالیاں دے رہا تھا؟ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم میں سے کسی نے بھی آں حضرت(ص)کو دشنام نہیں دی، تو انہوں نے فرمایا"ايکم السباب علی ابن ابی طالب" پھر تم میں سے کون شخص علی(ع) ابن ابی طالب کو گالیان دے رہا تھا؟ ان لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ علی(ع) کو دشنام دے رہے تھے انہوں نے کہا کہ تم

۱۸۷

لوگ رسول خدا(ص) پر گواہ رہو کہ میں نے آن حضرت(ص) سے خود سنا ہے کہ آپ نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے فرمایا

" من سبک فقد سبنی ومن سبنی فقدسب الله ومن سب الله اکبه الله علی فحزيه فی النار"

یعنی اے علی(ع) جو شخص تمکو دشنام دے اس نے مجھ کو دشنام دیا اور جس نے مجھ کو دشنام دیا اس نے خدا کو گالی دی اور جس نے خدا کو گالی دی خدا اس کومنہ کے بل آگ میں جھونک دے گا، کسی مسلم یا غیر مسلم عالمکو اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہےکہ یہ زبردست بدعت معاویہ کے حکم سے مسلمانوں میں اس طرح رائج ہوئی کہ جیسا عرض کیا گیا۔ اسی سال تک علانیہ اور بے دھڑک حتی کہ منبروں کے اوپر اور خطبوں کے اندر حضرت امیرالمومنین مظلوم پر لعنت اور دشنام طرازی کی جاتی تھی۔ اور چونکہ صحیح و معتبر احادیث کے مطابق علی علیہ السلام کو دشنام دینا خدا و رسول(ص) کو دشنام دینا ہے اور بدیہی بات ہے کہ خدا و رسول(ص) کوسب وشتم کرنے والا کافر اور ملعون ہے لہذا اسی دلیل سے معاویہ کا کفر واضح اور ان پر خدا کی لعنت ثابت ہے۔

علی(ع) کا دشمن کافر ہے

علاوہ ان دلائل کے آپ کے اکابر علماء کی معتبر کتابوں میں جیسے تفسیر جلال الدین سیوطی ، تفسیر امام ثعلبی، مودۃ القربی میر سید علی ہمدانی مسند امام احمد ابن حنبل، صواعق ابن حجر، مناقب خوارزمی، فضائل ابن مغازلی شافعی، نیابیع المودۃ سلیمان بلخی حنفی ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی، اوسط طبرانی، ذخائر العقبی امام الحرم، خصائص العلوی امام ابوعبدالرحمن نسائی، کفایت الطالب گنجی شافعی، مطالب السئول محمد بن شافعی،تذکرۃ خواص الامہ سبط ابن جوزی اور فصول المہمہ ابن صباغ مالکی وغیرہ میں کثرت کے ساتھ مختلف الفاظ و عبارات میں درج ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا "لا يحب عليا الا مومن ولا يبغضه الا کافر "( اور بعضروایتوں میں ہے الا منافق (یعنی دوست نہیں رکھتا علی کو سوا اس کے جو مومن ہو اور بغض نہیں رکھتا ان سے سوا اس شخص کے جو کافر ہو یا منافق ہو) جیسا کہ پچھلی شبوں میں مفصل عرض کرچکاہوں، بدیہی چیز ہے کہ حدیث میں کافر یا منافق دونوں میں سے جو لفظ بھی ہو اس بات کو پوری دلیل ہے کہ علی(ع) کا دشمن دوزخی ہے کیونکہ خدائے تعالی قرآن مجید میں صاف صافاعلان فرما رہا ہے کہ کفار و منافقین کا ٹھکانا طبقات جہنم ک اندر ہوگا۔

چنانچہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب آخر باب 3 میں بسند نقل کیا ہے کہ محمد بن منصور طوسی نے کہا ہم امام احمد ابن حنبل کے پاس تھے کہ ایک شخص نے ان سےکہا اے ابو عبداللہ لوگ علی کرم اللہ وجہہ سے جو یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا " انا قسیم النار میں آتش جہنم کا تقسیم کرنے والا ہوں تو اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ احمد ابن حنبل نے کہا" کون ہے جو اس حدیث سے انکار کرے؟ کیا ہم نے رسول خدا(ص) سے روایت نہیں کی ہےکہ آپ نے علی(ع) سے فرمایا"لا يحبک الا مومن ولا يبغضک الا منافق" (یعنی تم کو دوست نہیں رکھتا ہے لیکن مومن اوردشمن نہیں رکھتا ہے۔ لیکن منافق؟ ہم نے کہا آپ کا کہنا درست ہے اس پر احمد بن حنبل نے مطلب کی توجیہ کی اور کہا، پس مومن کہاں ہے ہم نے کہا بہشت میں پھر انہوں نے کہا منافق کہاں ہے؟ ہم نے کہا جہنم میں، انہوں نے کہا پھر تو صحیح ہے کہ علی(ع) جہنم کے تقسیم کرنے والے ہیں۔

۱۸۸

( یعنی علی کا دشمن بارشاد پیغمبر(ص) منافق ہے اور منافق بحکم آیہ نمبر144 سورہ نمبر4 ( نساء) :

"إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي‏ الدَّرْكِ‏ الْأَسْفَلِ‏ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيراً"

یعنی یقینا منافقین جہنم کے سب سے پستطبقے میں ہیں اور تم ان کا ہرگز کوئی یار و مددگار نہیں پائو گے ۔

جہنم کے درک اسفل اور سب سے پست طبقے میں رہے گا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ علی(ع) کا دشمن جہنم کے پست ترین طبقے میں معذب ہوگا اور اس آیت کے مطابق منافقین کا عذاب کفار سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔

نیز آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" من‏ ابغض‏ عليا فقد ابغضنى و من ابغضنى فقد ابغض اللّه "

یعنی جو شخص علی علیہ السلام سے دشمنی رکھے پس یقینا اس نے مجھ کو دشمن رکھا اور جو شخص مجھ کو دشمن رکھے اس نے در حقیقت خدا کو دشمن رکھا، ) اس قسم کے اخبار و احادیث اس کثرت سے ہیں کہ تواتر معنوی کی حد میں آگئے ہیں۔

شیخ : آیا آپ کے ایسے انسان کے لیے یہ مناسب ہے کہ صحابہ رسول(ص) میں سے ایک لائق و فائق ہستی کی شان میں جسارت اور رد و قدح کے الفاظ کہیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ خدا نےآں حضرت(ص) کے اصحاب کی مدح و ثناء میں متعدد آیتیں نازلفرمائی ہیں اور ان کے اندر ان لوگوں کو مغفرت اور خوشنودی کی بشارت دی ہے؟ اور خال المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ تو یقینا بزرگ صحابہ میں سے اور آیات مدح و رضامندی کے مصداق ہیں۔ آیا صحابہ کی اہانت خدا و رسول(ص) کی اہانت نہیں ہے۔

اصحاب رسول(ص) میں اچھے برے سبھی تھے

خیر طلب: غالبا آپ بھولے نہ ہوں گے کہ گذشتہ شبوں میں صحابہ کے موضوع پر میں کافی تشریح کرچکا ہوں اور اس وقت بھی آپ کی تقریر کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑوں گا۔ مختصر عرض ہے کہ صحابہ عظام کی مدح میں آیتوں کے نزول سے کسی نے انکار نہیں ہے لیکن اگر آپ حضرات تھوڑا سا غور کر لیں اور صحابہ یا اصحاب کے لغوی اور اصطلاحی معنی پر توجہ کریں تو خود تصدیق کریں گے کہ مدح صحابہ میں جو آیتیں نازل ہوئی ہیں وہ کلی اطلاق نہیں رکھتی ہیں جن کی روشنی میں ہم جملہ اصحاب کو پاک عادل اور ہر رجس و گندگی سارے صغیرہ و کبیرہ گناہوں اور ارتداد وغیرہ سے منزہ و مبرا سمجھ لیں۔

جناب من آپ بخوبی جانتے ہیں کہ صحبہ لغت میں معاشرت کے معنی رکھتا ہے، چنانچہ فیروز آبادی قاموس میں کہتے ہیں کہ صحبہ بروزن سمعہ یعنی اس کےساتھ زندگی گزاری اور عرف عامہ میں اس پر ملازمت نصرت اور موازرت کا بھی اضافہ کرتے ہیںچاہے مدت میں زیادہ ہو یا کم۔

پس لغت عرب اور قرآن و حدیث کے بہت سے شواہد بتاتے ہیں کہ مصاحب نبی(ص) اس شخص کو کہتے ہیں جو آں حضرت(ص) کےساتھ زندگی گذار چکا ہو چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، اچھا ہو یا برا، پرہیزگار ہو یا بدکار مومن ہو یا منافق۔

جس طرح آپ نے صاحب اور مصاحب نبی کے لفظ کو صرف پاک دامن مومنین کے لیے مخصوص کردیا ہے کہ

۱۸۹

صحابہ سب کے سب جنتی ادور رضائے الہی سے ممتاز تھے تو یہ صحیح نہیں ہے اور عقل و نقل کے خلاف ہے۔ سبب واضح کرنے کے لیے میں مجبور ہوں کہ مذکورہ سابق آیات اور معتبر احادیث و اہل سنت کے علاوہ مختصر طور پرکچھ مزید دلائل پیش کردوں تاکہ آپ حضرات لفظ اصحاب سے مرعوب ہو کر حق سے منحرف نہ ہوں اورجان لیں کہ صحبہ، صحاب، مصاحب اور اصحاب کا اطلاق مسلم، کافر، مومن و منافق اور نیک و بد سب پر ہوتا ہے۔

1۔ آیتنمبر2 سورہ نمبر53 ( نجم) میں مشرکین سے خطاب ہے:"‏ ما ضَلَ‏ صاحِبُكُمْ وَ ما غَوى" (یعنیتمہارا صاحب ( محمد(ص)) نہ کبھی گمراہ ہوا نہ بہکا)

2۔ آیت نمبر25 سورہ نمبر34 ( سبا) میں فرماتا ہے " قُلْ إِنَّما أَعِظُكُمْ‏ بِواحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنى‏ وَ فُرادى‏ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بِصاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ"

یعنیامت سے کہدو کہ میں تم کو ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم لوگ خالص خدا کے لیے دو دو اور ایک ایک کر کے کھڑے ہو پھر غور و فکر کرو کہ تمہارے صاحب و رسول خدا(ص) کو جنون نہیں ہے۔

3۔ آیت نمبر32 سورہ نمبر18( کہف) میں ارشاد ہے" وَ كانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقالَ لِصاحِبِهِ وَ هُوَ يُحاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنْكَ‏ مالًا وَ أَعَزُّ نَفَراً"

( یعنی اس کافر نے ) اپنے مصاحب و رفیق سے ( جو مومن و فقیر تھا) گفتگو اور فخر کے موقع پر کہا کہ میںتم سے دولت اور ثروت میں زیادہ اور حشم و خدم کی حیثیت سے بھی عزت میں بڑھا ہوا ہوں۔

4۔ اسی سورہ کی آیت نمبر35 میں فرمایا ہے: "قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَ هُوَ يُحاوِرُهُ‏ أَ كَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا "

یعنی (با ایمان اور فقیر) مصاحب و رفیق نے بات چیت اور نصیحت کرتے ہوئے اپنے (کافر) ساتھی سے کہا کہ آیا تم نے اس خدا سے کفر اختیار کر لیا جس نے تم کو اولامٹی سے پھر نطفے سے پیدا کیا اس کے بعد تم کو پورا آدمی بنا کر تیار کردیا ؟

5۔ آیت نمبر183 سورہ نمبر7( اعراف) میں ارشاد ہوتا ہے: "أَ وَ لَمْ‏ يَتَفَكَّرُوا ما بِصاحِبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ "

یعنی آیا انلوگوں نے غور و فکر سے کام نہیں لیا کہ ان کے صاحب (محمد(ص)) کو جنون نہیں ہے۔

6۔ آیت نمبر70 سورہ نمبر6 ( انعام) میں فرمارہا ہے : "قُلْ‏ أَ نَدْعُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَنْفَعُنا وَ لا يَضُرُّنا وَ نُرَدُّ عَلى‏ أَعْقابِنا بَعْدَ إِذْ هَدانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرانَ لَهُ أَصْحابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنا قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدى "

یعنی کہدو اے پیغمبر(ص) کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر کیا اس (بت وغیرہ) کو پکاریں جو نہ ہم کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، اور پھر طریقہ جاہلیت کی طرف پلٹ جائیں جب کہ خدا ہم کو ہدایت دے چکا ہے!اس کے کچھ اصحاب ہیں جو ہدایت کے لیے اس کو پکارتے ہیں کہدو کہ ہدایت تو در حقیقت اللہ کی ہدایت ہے۔

7۔ آیت نمبر39 سورہ نمبر14( یوسف) میں حضرت یوسف(ع) کی زبان سے ان کے دو قید خانے کے کافر، مصاحبوں کو

۱۹۰

خطاب فرماتا ہے "يا صاحِبَيِ‏ السِّجْنِ‏ أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ "

یعنی اے میرے قید خانے کے دونوں رفیقو میں تم سے پوچھتا ہوں کہ بہت سے متفرق خدا بہتر ہیں یا ایک اللہ جو قہار ہے؟

نمونے کے طور پر یہ چند آیتیں پیش کردینے کے بعد ظاہر ہوگیا کہ صرف صحبہ، صاحب، مصاحب اور اصحاب کے ناموں کو بحیثیت لغت مسلم و مومن سے کوئی خصوصیت نہیں ہے بلکہ ان کا استعمال مسلم و کافر مومنو منافق اور نیک و بد سبھی کے لیے ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کسی کے ساتھ معاشرت رکھنے والے کو لغت میں مصاحب یا اصحاب کہتے ہیں۔ بدیہی چیز ہے کہ اصحاب رسول(ص) سے وہی لوگ مراد ہیں جو آں حضرت(ص) کے ساتھ معاشرت رکھتے تھے اور آیات مبارکہ اس پر گواہ ہیں۔

یقینا اصحاب اور آں حضرت(ص) کے ساتھرہنے سہنے والوں کے درمیان اچھے اور برے ( یعنی مومن و منافق) بہت سے لوگ تھے اور جو آیتیں اصحاب کی مدح میں نازل ہوئی ہیں ان کا اطلاق عمومیت کے ساتھ سب کے اوپر نہیں بلکہ صرف نیک اصحاب سے تعلق ہے۔ ہم بھی مانتے ہیں کہ آں حضرت(ص) کے بزرگ اصحاب ایسے تھے کہ دیگر انبیاء عظام میں سے کسی کو بھی ویسے اصحاب نہیں ملے۔ مثلا بدر و احد اور حنین کے اصحاب، جنہوں نے پورا امتحان دیا۔ بغیر ہوا و ہوس کے پیغمبر(ص) کی نصرت اور فرمانبرداری میں ثابت قدمرہے اور ایک لمحہ کے لیے بھی آں حضرت(ص) سے انحراف نہیں کیا لیکن اصحاب کے درمیان بدنفس ، صاحب مکرو فریب ، اہل نفاق اور آں حضرت(ص) نیز اہل بیت طاہرین علیہم السلام کے دشمن بھی کثرت سے موجود تھے جیسے عبداللہ ابن ابو سفیان حکم بن عاص ( یعنی عثمان کا چچا اور طرید رسول) ابو ہریرہ ، ثعلبہ ، یزید بن سفیان، ولید بن عقبہ، حبیب بن مسلمہ، سمرہ بن جندب، عمرو بن عاص، بسر بن ارطاۃ، ( سفاک و خونخوار) مغیرہ بن شعبہ معاویہ بن ابی سفیان اور ذو الثد یہ خارجی وغیرہ جنہوں نے رسول اللہ(ص) کے زمانہ حیات میں اور بعد وفات بھی کافی فتنے اٹھائے ۔ اپنی پچھلی حالت پر الٹے پائوں پلٹ گئے اور بڑے بڑے فسادات پھیلائے چنانچہ انہیں افراد میں سے ایک معاویہ کی ذات بھی ہے جس پر اپنی زندگی میں رسول اللہ(ص) نے لعنت کی تھی اور آںحضرت(ص) کی وفات کے بعد جب مناسب موقع ہاتھ آیا تو خون خواہی عثمان کے نام سے بغاوت کردی اور بے شمار مسلمانوں کی خونریزی کا باعث ہوا۔ خصوصیت کے ساتھ آں حضرت(ص) عمار یاسر جیسے کئی محترم صحابی اس فتنے میں شہید ہوئے، جس کی خبر آں حضرت(ص) خود دے گئے تھے اور ہم گذشتہ شبوں میں ان روایتوں کو نقل کرچکے ہیں۔ لہذا جس طرح سے بزرگان اصحاب اور مومنین صالحین کی تعریف وتوصیف ، فضائل و مناقب اور وعدہ بخشش کے سلسلے میں کافی آیات و اخبار وارد ہوئے ہیں اسیطرح خائن و بدکار اور منافقین صحابہ کے بارے میں بھی وعید شدید اور عذاب کے لیے کثرت سے آیتیں اور حدیثیں موجود ہیں جوثابت کرتی ہیں کہ ان لوگوں نے آں حضرت(ص) کو آپ کی زندگی میں جو اذیتیں پہنچائی تھیں ان کے علاوہ بعد وفات بھی فتنےبرپا کئے، اور مرتد ہوگئے۔

شیخ : تعجب ہے آپ کیونکر فرمارہے ہیں کہ رسول خدا(ص) کے اصحاب مرتد ہوگئے اور انہوں نے فتنہ و فساد برپا کیا؟

۱۹۱

خیر طلب: میں نہیں کہہ رہا ہوں آیتیں اور حدیثیں کہہ رہی ہیں۔ اگر ذرا سنجیدگی سے غور کیجئے تو تعجب رفع ہوجائے اولا خداوند عالم نے آیت نمبر138 سورہ نمبر3( آل عمران) میں ان کے ارتداد کی خبر دی ہے اور فرمایا ہے:

" أَ فَإِنْ‏ ماتَ‏ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى‏ أَعْقابِكُمْ‏"( یعنی اگر پیغمبر(ص) کو موت آجائے یا قتل ہوجائیں تو کیا تم اپنے پچھلے پائوں (یعنی دین جاہلیت، پر پلٹ جائو گے؟)

اس آیہ شریفہ اور سورہ منافقون نیز دوسرے آیات کے علاوہ خود آپ کے علماء بخاری، مسلم، ابن عساکر، یعقوب بن سفیان احمد ابن حنبل اور عبدالبر وغیرہ ہم کے طرف سے بکثرت اخبار و حدیث اصحاب کی مدح و مذمت ، کفر و ار تداد اور نفاق کے بارے میں انفرادی یا اجتماعی طور سے مروی ہیں۔ چونکہ وقت تنگ ہے لہذا نمونے کے لیے فی الحال دو روایتوں کا حوالہ دےرہا ہوں تاکہ آپ کا تعجب رفع ہوجائے اور سمجھ لیجئے کہ نیک صحابہ کو نیک اور بد کو بد جاننا چاہئیے۔ اور پھر یہ تو فرمائیے کہ منافقین کے سردار، امیرالمومنین علی علیہ السلام ک سب سے بڑے دشمن اور سب و شتم کرنے والے رسول اللہ(ص) کی فدیت طاہرہ اور اصحاب پاک کو قتل کرنے والے اور خدا و رسول(ص) سے باقاعدہ دشمنی کرنے والے کے کفر پر کیا دلیلہے؟

بخاری نے لفظوں کے معمولی فرق کے ساتھ سہل ابن سعد اور عبداللہ ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا:

" انا فرطكم على الحوض و ليرفعن معى رجال منكم حتی اذا هويت لاناولهم اختجلوا دونى فاقول: يا ربّ اصحابى فيقول لا تدرى ما احدثوا بعدك‏؟! "

یعنی میں تمسے پہلے حوض کوثر پر تمہارا مںتظر رہوںگا اور جب تم میں سے ایک گروہ مجھ سے کترائے گا تو عرض کروں گاکہ خداوندا یہ تومیرے اصحاب ہیں؟ ادھر سے جواب آئے گا کہ تم کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے تمہارے بعد کیا کیا بدعتیں پھیلائیں۔

احمد بن حنبل نے مسند میں، طبرانی نے کبیر میں اور ابونصر سخری نے ابانہ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

"‏ أَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ أَقُولُ اتَّقُوا اللَّهَ اتَّقُوا الْحُدُودَ اتَّقُوا النَّارَ فَإِذَا مِتُ‏ تَرَكْتُكُمْ‏ وَ أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ فَمَنْ تَزَوَّدَ فَقَدْ أَفْلَحَ‏ فَيُوتَی بِاقوَام فَيُؤْخَذُبِهِمْذَاتَ‏ الشِّمَالِ‏ فَأَقُولُ يَارَبِّ أُمَّتي‏فَيُقَالُ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوامُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ و فی روايَة للطبری فی الکبير بعد قوله : يَارَبِّ أُمَّتي‏فَيُقَالُ إِنَّكَ لَاتَدْرِي مَاأَحْدَثُوابَعْدَكَ مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ"

یعنی میں تم کو عذاب دوزخ سے بچانا چاہتا ہوں لہذا کہتا ہوں کہ نار جہنم سے ڈرو اور دین خدا میں کمی بیشی نہ کرو جب میں وفات پا جائوں گا اور تم سے جدا ہوں جائون گا تو تم سے پہلے حوض کوثر پر موجود رہوں گا۔ پس جو شخص وہاں میرے پاس پہنچے وہی ناجی اور کامیاب ہے۔ اس وقت میں بہت سے لوگوں کو عذاب الہی میں گرفتار پائوں گا تو عرض کروں گا کہ خداوندا یہ تو میری امت کےلوگ ہیں۔ جواب ملے گا کہ حقیقتا یہ لوگتمہارے بعد مستقل طور سے اپنے پچھلے دین پر پلٹ گئے اور یا رب امتی کے بعد کبیر میں طبرانی کی روایت ہے کہ پس کہا جائیگا تم نہیں جانتے کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا بدعت یں پیدا کیں اور اپنے دین جاہلیت پر مرتد ہوگئے۔

واقعی یہ دیکھ کر دل جلتا ہے کہ ایک ایسے ملحد و کافر اور بے دین کو ( جیسا کہ اس سے قبل اس کے کفر وملعونیت کے

۱۹۲

کافی دلائل پیش کرچکا ہوں(1) اور اس کے دوزخی فرزند یزید پلید کو تو ( جس کا کفر گذشتہ راتوں میں ثابت کرچکا ہوں(2) آپ مسلم و مومن کہیں ان کے ایمان پر اصرار اور کفر سے انکار کریں،ان کو خلیفہ اور جنتی ثابت کرنے کی کوشش کریں بلکہ ناحق امیرالمومنین کا خطاب بھی دے دیں حالانکہ ان کے کفر آمیز حرکات اور اس کے دلائل خود آپ ہی کی معتبرکتابوں میں مکمل طور سے درج ہیں۔ ( یہاں تک کہ اہل سنت کے انصاف پسند

اکابر علماء نے ان دونوں کے رد میں مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں(3) لیکن جناب ابوطالب(ع) کے کفر پر شدید اصرار کر کے اس یکتا جوان مرد اور مومن وموحد کا کافر ثابت کرنے کی سعی بلیغ کریں۔

کھلی ہوئی بات ہے کہ یہ عقیدہ اور اس قسم کی فضول باتیں فحش امیرالمومنین علی علیہ السلام سے بغض و کینہ رکھنے کا نتیجہ ہیں تاکہ ان بیہودہ الفاظ کےذریعے جہاں تک ممکن ہو اس محبوب خدا و رسول امام مظلوم کے زخمی قلب پر برابر ظلم و اذیت کے تیر چلائے جائیں۔ ورنہ معاویہ و یزید ملعون کے کفر ونفاق پر جو محکم دلیلیں قائم ہیں ان پر تو ہزاروں طرح کے حاشیے چڑھا کر ان دونوں کو مجتہد کہیں ان کے اعمال و کفر کو ان کے اجتہاد کا نتیجہ بتائیں اور ان کی صفائی میںانتہائی اوچھے دلائل قائم کریں، اور جناب ابوطالب (ع) کے خدا و رسول(ص) پر ایمان رکھنے کے سلسلے میں واضح دلائل اور آپ کے کھلے ہوئے اعلانات کو جھٹلا کر آپ کا کفر ثابت کریں؟ میں نہیں جانتا کہ خارجی، ناصبی، اموی اور ان کے بچے کھچے دوست اشخاص کب تک اور کہاں تک ہمارے سنی بھائیوں پر حکومت کریں گے۔ عادت اور تعصب کی بنیاد پر ان کو اندھا دھند اپنے عقائد کے پیچھے دوڑاتے رہیں گے اور برادران اہل سنت کو اتنا موقع نہ دیں گے کہ وہ چشم انصاف کھول کے حق و صداقت کا جلوہ دیکھ سکیں۔

ایمان ابوطالب(ع) پرمزید دلائل

آیا پیغمبر(ص) کے اہل بیت(ع) نے جو آں حضرت(ص) کے حسب الایثار عدیل قرآن ہیں جن کا اجماع مسلمانون کے لیے حجت ہے اور جن کے علم زاہد اور ورع و تقوی پر خور آپ کے اکابر علماء کا اتفاق ہے یہ نہیں

کہا ہے کہ جناب ابوطالب(ع) صاحب ایمان تھے اور دنیا سے مومن ہی اٹھے؟

آیا اصبع بن نباتہ نے جو آپ کے علماء رجال کے نزدیک قابل وثوق اور معتمد علیہ تھے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت نہیں کی ہے کہحضرت نے فرمایا :

" والله ما عبد ابی ولا جدی عبد المطلب ولا هاشم ولا عبد مناف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص--- تا ص---

2۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کی جلد اول ص-- تا ص--

3۔ جیسے ابوالفرج ابن جوزی اور آخر میں جلیل القدر مصنف عالم سید محمد بن عقیل علوی متوفی سنہ1350ھ نے ایک کتاب نصائح الکافیہ میں تیوسی معاویہ کے نام سے تالیف کی ہے جس کے اب تک دو ایڈیشن ہوچکے ہیں اور آخری بار سنہ1306 ھ میں مطبع النجاح( بغداد میں چھپی)

۱۹۳

صنما قط"یعنی خدا کی قسم میرے باپ ابوطالب میرے دادا عبدالمطلب ہاشم اور عبد مناف نے ہرگز کبھی بت پرستی نہیں کی، مقصد یہ کہ خدائے وحدہ لاشریک کی رو بقبلہ عبادت کی اور دین حضرت ابراہیم کے پیرو رہے۔

کیا یہ حق بجانب ہے کہ آپ علی اور اہل بیتطاہرین علیہم السلام کا قول ترک کر کے مغیرہ ملعون، امویوں ، خارجیوں، ناصبیوں اور امیرالمومنین(ع) کے شدیدترین دشمنوں کے اقوال کے پیچھے دوڑتے پھریں اور جناب ابوطالب(ع) کے صریحی اشعار وکلمات کی اوچھی تاویلیں کرتے رہیں؟ حضرت امیرالمومنین(ع) کے ارشاد کی تائید میں من جملہ دوسرے دلائل کے ام المومنین جناب خدیجہ اور پیغمبر صلعم کے عقد کا وہ خطبہ بھی ہے جس کو سبط ابن جوزی نے تذکرہ خواص الامہ آخر باب 11 ص170 میں نقل کیا ہے کہ جس وقت محفل عقد آراستہ ہوئی تو جناب ابوطالب نے ایسی عبارت کے ساتھ خطبہ پڑھا جو کل کی کل ان کے ایمان اور اعتقاد وحدانیت خدا پر دلالت کررہی ہے۔ خطبے کی تمہید اس طرح شروع کی:

"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَنَا مِنْ‏ ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ‏ وَ زَرْعِ إِسْمَاعِيلَ وَ جَعَلَ لَنَا بَلَداً حَرَاماً وَ بَيْتاً مَحْجُوجاً وَ جَعَلَنَا الْحُكَّامَ عَلَى النَّاسِ الی آخرها"

یعنی حمد اس خدا کی جس نے ہم کو ابراہیم(ع) کی ذریت اسماعیل (ع) کی اولاد، معدکی اصل اور مضر کے عنصر میں سے قرار دیا ہم کو اپنے گھر کا محافظ اور اپنے حرم کا ذمہ دار بنایا ہمارے لیے ایسا گھر تجویز کیا جس کا حج کیا جاتا ہے اور ایسا حرم مقرر کیا جو امن و امان کی جگہ ہے ہمکو انسانوں پر حاکم معین کیا ۔ الی آخرہ۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب14 ص73 ( مطبوعہ اسلامبول) میں موفق بن احمد خوارزمی سے اور انہوں نے محمد بن کعب سے نقل کیا ہے کہ :

رای ابوطالب النبی صلی الله عليه وآله وسلم يتفل فی فم علی ای يدخل لعاب فمه علی فقال ما هذا يابن اخی فقال ايمان وحکته فقال ابوطالب لعلی يا بن انصر ابن عمک وازرة"

یعنی ابوطالب نے دیکھا کہ پیغمبر(ص) اپنا لعاب دہن علی(ع) کے منہ میں ڈال رہے ہیں تو پوچھا کہ اے میرے بھتیجے اس کا کیا مقصد ہے؟ آپ نے فرمایا یہ سب ایمان اور حکمت کا فیضان تھا ۔ پس ابوطالب نے علی سے کہا اے بیٹے ابن عم کے ناصر اور وزیر بنو۔

آیا یہ بیانات جناب ابوطالب کے ایمان کو ثابت نہیں کرتے؟ علاوہ اس کے کہ پیغمبر(ص) کوکوئی روک ٹوک اور ممانعت نہیں کی اور نہ اپنے دوازدہ سالہ فرزند کو باز رکھنے کی کوشش کی، ان کو تاکید بھی کی کہ اپنے پسر عم رسول خدا(ص) کی مدد کریں۔

جعفر طیار(ع) کا باپ کے حکم سے ایمان لانا

نیز آپ کے سبھی علماء نے اپنی کتابوں میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ ایک روز جناب ابوطالبپ(ع) مسجد میں آئے تو دیکھا کہ رسول اکرم(ص) نماز پڑھتے ہیں اور علی(ع) آں حضرت(ص) کے داہنی طرف مشغول

۱۹۴

نماز ہیں انہوں نے اپنے فرزند جعفر (طیار) سے جو ان کے ہمراہ تھے اور ابھی ایمان نہیں لائے تھے کہا " صل جناح ابن عمک" اپنے پسر عم کے پہلو میں کھڑے ہو کر تم بھی ان کے ساتھ نماز پڑھو!جعفر آگے بڑھے اور رسول اللہ(ص) کے بائیں جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، اس وقت جناب ابوطالب نے یہ شعر نظم کئے۔

إِنَّ عَلِيّاً وَ جَعْفَراً ثِقَتِي‏عِنْدَ مُلِمِّ الزَّمَانِ وَ الْكَرْبِ

لَا تَخْذُلَا وَ انْصُرَا ابْنَ عَمِّكُمَاأَخِي لِأُمِّي مِنْ بَيْنِهِمْ وَ أَبِي‏

وَاللَّهِ‏لَاأَخْذُلُ‏النَّبِيَّ وَ لَايَخْذُلُهُ مِنْ بَنِيَّ ذُو حَسَبٍ

یعنی یقینا علی(ع) اور جعفر(ع) رنج و مصیبت کے وقت میرے سہارے اور قوت ہیں۔ اے علی(ع) و جعفر(ع) اپنے چچا کے فرزند اور میرے سگے بھتیجے کاساتھ نہ چھوڑو بلکہ ان کی مدد کرو۔ قسم خدا کی میں نبی(ص) کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا اور کوئی شریف پیغمبر(ص) کا ساتھ چھوڑ بھی سکتا ہے؟

پس آپ کے علماء ومورخین کا اتفاق ہے کہ جعفر کا اسلام و ایمان اور رسول اللہ(ص) کے سات ان کا نماز پڑھنا اپنےباپ جناب ابوطالب کے حکم اور اجازت سے تھا۔

کوئی صاحب عقل کیونکر یقین کر سکتا ہے کہ جو باپ مشرک اور کافر ہو وہ اپنے بھتیجے کو اتنے زبردست دعوے سے منع نہ کرے یہاں تک کہ اپنے بیٹوں کو بھی ایسے شخص پر ایمان لانے سے باز رکھنے کی کوشش نہ کرے جو ایک نیا دین لایا ہو اور اس کے دین کا دشمن ہو؟ اور وہ بھی جناب ابوطالب(ع) کا ایسا با اقتدار و با اثر باپ جو قریش کا سردار تھا؟ بلکہ مزید برآں اپنے فرزند کو حکم دے کہ جائو اور اپنے چچا کے بیٹے پر ایمان لائو اور ان کی اقتداء کرو؟ پھر اپنے سارے جسمانی و روحانی قوی کےساتھ اپنے دین کے سب سے بڑے دشمن کی حمایت و نصرت کرے؟فاعبروا يا اولی الالباب.

فریقین کے سارے اکابر علماء نے نقل کیا ہے کہ جب قریش اور مکے کے باشندوں نے بنی ہاشم کی اقتصادی ناکہ بندی کی تو جناب ابوطالب(ع) سارے خاندان کے ساتھ رسول اللہ(ص) کی حمایت پر کمر بستہ ہوگئے اور چار سالم تک شعب ابوطالب(ع) میں آں حضرت(ص) کی حفاظت و نگہبانی کی ، یہاں تک کہ اس ساری مدت کے اندر جس مقام پر شب کے پہلے حصے میں رسول اللہ(ص) سوتے تھے، ایک ساعتکے بعد جناب ابوطالب(ع) آکر آں حضرت(ص) کو بیدار کرتے تھے اور اس سے محفوظ جگہ لے جاتے تھے اور اپنے فرزند دل بن علی علیہ السلام کو آپ کے بستر پر سلادیتے تھے تاکہ اگر کسی دشمن نے آں حضرت(ص) کو ابتدائے شب میں وہاں دیکھا ہو اور آپ کے متعلق کوئی بری نیت رکھتا ہو تو علی(ع) آپ پر قربان ہوجائیں اور آپ کا وجود مسعود امن و آسائش اور حفاظت و اطمینان میں رہے۔

آپ کو خدا کی قسم یہ بتائیے کہ آیا کوئی مشرک کسی ایسے موحد کے لیے جو نبوت کا مدعی اورمشرکین کو کفر و گمراہی میں مبتلا جانتا ہو اس قدر ہمدردی اور کوشش کرسکتا ہے؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔ پس معلوم ہوا کہ یہ ساری جانفشانی اور فداکاری ایمان کامل کا نتیجہ تھی۔

۱۹۵

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ میں طبقات محمد بن سعد سے اور انہوں نے واقدی سے نیز علامہ سید محمد بن سید رسول برزنجی نے کتاب الاسلام فی العم وآباء سید الانام میں ابن مسعد اور ابن عساکر وغیرہ سے اور انہوں نے صحیح اسناد کے ساتھ محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے کہ علی علیہ السلام نے فرمایا جب ابوطالب نے وفات پائی تو میں نے رسول اللہ(ص) کو خبر دیفبکی بکاء شديدا! پس آں حضرت(ص) نے شدید گریہ فرمایا پھر مجھ کو حکم دیا کہ "اذهب فغسنله و کفنه ووازرة غفر الله له و رحمه " جاو ان کو غسلوکفن دو اور دفن کرو، خدا ان کی مغفرت کرے اور ان پر رحمت نازل فرمائے۔

خدا کے لیے انصاف کیجئے کہ اسلام میں کافر کو غسل و کفن دینے کی اجازت دی گئی ہے ؟ کیا ہمارے لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ رسول خدا(ص) نے کافر و مشرک کے لیے مغفرت طلب کی، یہاں تک کہ لکھتے ہیں"و جعل الله يستغرله اياما لا يخرج من بيته " یعنی رسول خدا(ص) کئی روز تک گھر سے باہر نہیں نکلے اور جناب ابوطالب(ع) کے لیے استغفار اور دعائے بخشش کرتے رہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ آں حضرت(ص) نے اپنے قرآن میں سورہ نمبر4(نساء) کی آیت نمبر51، 116 نہ دیکھی ہو کہ خدائے تعالی نے فرمایا ہے:

" إِنَ‏ اللَّهَ‏ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَ يَغْفِرُ ما دُونَ ذلِكَ لِمَنْ يَشاءُ"

یعنی خدا اس کو ہرگز نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ دوسرے گناہوں کو بخشے گا۔

پروردگار عالم کے اس صریحی اعلان کے باوجود کہ ہم مشرک ہو نہیں بخشیں گے۔ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ رسول اکرم(ص) ایک مشرک کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کریں؟ در آنحالیکہ اس کے لیے طلب رحمت و مغفرت حرام ہے اسی طرح جسم میت کو غسل و کفن دینا بھی مسلمان کے لیے مخصوص ہے اور کفار کے لیے ہزگز جائز نہیں۔ پس یہی رسول اللہ(ص) کا جناب ابوطالب کے لیے استغفار کرنا اور علی علیہ السلام ک وحکم دینا کہ جائو اپنے باپ کوغسل و کفن دو، جناب ابوطالب کے ایمان کی ایک واضح دلیل ہے دیدہ حق میں اور نگاہ انصاف سے تذکرہ سبط ابن جوزی ص6 کا مطالعہ کیجئے اور دیکھیئے کہ امیرالمومنین(ع) نے اپنے باپ کے لیے کیونکر مرثیہ کہا ہے۔ فرماتے ہیں:

أبا طالب عصمة المستجيروغيث‏المحول‏و نور الظلم‏

لقد هدّ فقدك أهل الحفاظفصلّى عليك ولي النعم‏

و لقاك ربك رضوانهفقد كنت للطهر من خير عم

یعنی اے ابوطالب آپ پناہ چاہنے والے کو پناہ، افتادہ زمینوں کے لیے بارانِ رحمت اور تااریکیوں کے لیے وشنی تھے۔ آپ کی موت سے اراکان حفاظت تباہ ہوگئے، پس آپ پر منعم حقیقی نے اپنی رحمت نازل کی اور پروردگار نے آپ کو اپنیبارگاہ کرم سے لحق کر لیا۔ آپ یقینا پیغمبر کے بہترین چچا تھے۔

آیا یقین کیا جاسکتا ہے کہ ایسی بزرگ شخصیت جس کے لیے مجسمہ توحید پرستی ( علی علیہ السلام) نے اس قسم کا مرثیہ

۱۹۶

کہا ہو وہ دنیا سے کافر اٹھی ہو؟

یہ ساری دلیلیں ثابت کرتی ہیں کہ جناب ابوطلب دنیا سے مومن گئے ورنہ رسول اکرم(ص) نہ ان کو غسل و کفن دیتے اور نہ دفن کرنے کے لیے ایک معصوم امام کو مامور فرماتے اور نہ ا ن کے لیے دعائے رحمت ہی کرتے اس لیے کہ آں حضرت(ص) حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کا مکمل نمونہ تھے آپ کی دوستی اور دشمنی محض خدا کے لیے تھی، خواہش نفس کی وجہ سے نہیں کہ ابوطالب(ع) چونکہ میرے چچا ہیں لہذا چاہے وہ مشرک ہی ہوں اور حکم خدا کے خلاف ہی کرنا پڑے لیکن میں ان کے واسطے شدید گریہ بھی کروں گا اور استغفار دعائےرحمت بھی۔

شیخ : اگرابوطالب(ع) مومن و موحد تھے تو کس وجہ سے اپنا ایمان پوشیدہ رکھا اور اپنے بھائی عباس و حمزہ کی طرح علانیہ اظہار ایمان نہیں کیا۔

خیر طلب: بدیہی چیز ہے کہ عباس و حمزہ اور جناب ابوطالب(ع) کے درمیان کافی تفاوت اور فرق تھا کیونکہ جناب حمزہ اس قدر شجاع ، نڈر اور شہزور تھے کہ سارے اہل مکہ ان سے دبتے تھے لہذا ان کا اسلام لانا اور ایمان کا اعلانکرنا پیغمبر(ص) کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوا۔

عباس(رض) کا اسلام پوشیدہ تھا!

لیکن جناب عباس نے بھی فورا ا پنا اسلام ظاہر نہیں کیا، چنانچہ ابن عبدالبر استیعاب میں نقل کرتے ہیں کہ عباس مکہ ہی میں ایمان لے آئے تھے لیکن لوگوں سے پوشیدہ رکھتے تھے، یہاں تک کہ جب رسول خدا(ص) نے ہجرت کی تو انہوں نے بھی آں حضرت(ص) کے ساتھ روانہ ہونا چاہا حضرت نے ان کو لکھا کہ آپ کا مکے میں ٹھہرنا میرے لیے مفیدہے۔ چنانچہ یہ مکے کی خبریں آں حضرت(ص) کو پہنچاتے تھے، بدرکبری کی جنگ میں کفار کو اپنے ہمراہ لائے کافروں کی شکست کے بعد آپ اسیر ہوگئے اور فتح خیبر کے روز مناسب موقع ہاتھ آیا تو، اپنے ایمان کو ظاہر کیا۔

نیز شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب 56 ص226 ( مطبوعہ اسلامبول) میں ذخائر العقبی امام الحرم ابوجعفر احمد بن عبداللہ طبری شافعی سے اور انہوں نے فضائل ابوالقاسم الہی سے کیا ہے کہ اہل علم جانتےہیں کہ عباس پہلے ہی اسلام لے آئے تھے لیکن اس کو چھپاتے تھے جب جنگ بدر میں کفار کے لشکر کے ہمراہ آئے تو پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ جو شخص عباس سے ملاقات کرے وہ ان کو قتل نہ کرے اس لیے کہ انہوں نے کراہت کے ساتھ کافروں کی ہمراہی اختیار کی ہے، وہ ہجرت پر تیار تھے لیکن میں نے ان کو لکھا کہ وہیں رہ کر مشرکین کی خبریں مجھ کو پہنچائیں جس روز ابو رافع نے آں حضرت(ص) کو عباس کے اظہار اسلام کی خبر دی تو آں حضرت(ص) نے اس کو آزاد فرما دیا۔

۱۹۷

ابوطالب(ع) نے اپنا ایمان کس لیے چھپایا

اور اگر جناب ابوطالب اپنا ایمان ظاہر کردیتے تو معاملہ یک طرفہ ہوجاتا یعنی تبلیغ اسلام کی ابتداء میں جب کہ ابھی رسول اکرم(ص) کے ساتھ اور ناصر و مددگار نہیں تھے۔ سار قریشاور پورا عرب متحد ہو کر بنی ہاشم کے مقابلے پر اٹھ کھڑا ہوتا اور نبوت کو نبیخ رین سے اکھاڑ پھینکتا۔ لہذا جناب ابوطالب نے مصلحتا اپنے ایمان کا اعلان نہیں کیا تاکہ بظاہر ایک ہم مشرب کی حیثیت سے قریش اور دیگر دشمنوں کی روکتھام کر سکیں اور وہ لوگ بھی محض جناب ابوطالب کے احترام اور لحاظ کی وجہ سے زیادہ شدید اقدامات نہ کریں جس سے آں حضرت کو اپنے مقصد کی اشاعت کا پورا موقع ملتا رہے۔ چنانچہ جب تک آپ زندہ رہے یہی صورت حال رہی اور رسول خدا(ص) پوری لگن کے ساتھ اپنا جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا"اخرج‏ عن‏ مكّة فما لك بها ناصر بعد أبى طالب. " ( اب آپ مکے سے چلے جائیے کیونکہ ابوطالب کے بعد اب یہاں آپ کا کوئی حمایتی نہیں ہے۔

شیخ: آیا رسول خدا(ص) کے زمانے میں ابو طالب کا اسلام مشہور تھا اور امت اس کی قائل تھی نہیں۔

خیر طلب : ہاں پوری شہرت رکھتا تھا اور ساری امت ان جناب کا نام تعظیم کے ساتھ لیتی تھی۔

شیخ : یہ کیونکر ممکن ہے کہ پیغمبر(ص) کے زمانے میں تو ایک معاملہ طشت ازبام اور پوری طرح مشہور ہو لیکن تقریبا تیس(30) سال کے بعد ( بقول آپ کے) ایک حدیث گڑھ دینے سے حق اور حقیقت کے برخلاف اس طرح سے شہرت پا جائے کہ سابقہ حقیقت کالعدم ہی ہوجائے؟

خیر طلب:ليس هذا بأوّل قارورة كسرت في الإسلام. ( یعنی یہ کوئی (اصلیت کا) پہلا شیشہ نہیں ہے جو اسلام میں توڑا گیا)

یہ کوئی نئی بات نہیں تھی کہ رسول اللہ(ص) کے زمانے میںکوئی اصلیت مشہور رہی ہو لیکن برسوکے بعد کوئی حدیث گڑھنے کی وجہ سے اس کی پہلی صورت ختم ہوگئی ہو۔

بہت سے امور بلکہ دینی احکام بھی ایسے ہیں جو صاحب شریعت حضرت خاتم الانبیاء(ص) کے عہد میں رائج و نافذ اوعر جائز بلکہ عمل و رامد کے اندر تھے) لیکن چند سال گزرنے کے بعد لوگوں کے دبائو اور اثرات کے نتیجے میں ان کی حقیقت ہی بدل گئی اور ایک صورت قائم ہوگئی۔

شیخ : ممکن ہو تو جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں ان بہت سے امور میں سے ایک ہی نمونہ بیان کیجئے۔

۱۹۸

خیر طلب : شواہد تو اتنے زیادہ ہیں کہ جلسے کا وقت ان سب کو پیش کرنے کی گنجائش ہی نہیں رکھتا، لیکن نمونے کے طور پر ان میں سے ایک ایسی مثال پیش کرتا ہوں جو سب سے زیادہ اہم اور واضح نیز قرآن مجید کی دلالت اور جمہور مسلمین کے اتفاق سے بالکل مستحکم ہے اور وہ ہیں متعہ کے دو مستقل حکم یعنی منقطع اور حج نساء بحکم قرآن اور باتفاق فریقین ( شیعہ و سنی) زمانہ رسول(ص) میں یہ دونوں عمل عام شہرت اور رواج کے مالک تھے، یہاں تک کہ پوری خلافت ابوبکر اور خلافت عمر ابن خطاب کے ایک حصے میں بھی امت کے اندر جاری رہے، لیکن خلیفہ عمر کے صرف ایک جملے سے کایا پلٹ ہوگئی، انہوں نے کہا:

"متعتان‏ كانتا على عهد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلم و أنا أحرمهما و اعاقب عليهما"

یعنی دو متعے جو رسول اللہ(ص) کے زمانے میں رائج تھے میں ان دونوں کو حرام کرتا ہوں اور جو کوئی ان پر عمل کرے گا اس کو سزادوں گا۔

یعنی تیرہ سو سال سے زیادہ ہوگئے حلال خدا حرام ہوچکا ہےعمر کے اس قول پر ان کے زمانہ خلافت میں اور اس کے بعد اس قدر زور دیا گیا اور بغیر کسی دلیل کے قرآن مجید کی نص صریح اور عمل رسول(ص) و اصحاب رسول(ص) کے برخلاف اس طرح سے اس کی اندھی اور بھیڑیا دھسان تقلید کی گئی کہ سابقہ حقیقت بالکل فراموش ہوگئی اب تک عام طور پر برادران اہل سنت کے کروڑوں لوگ اس متعہ کو جو حلال خدا اور پیغمبر(ص) کی روش سنت ہے شیعوں کی ایک بدعت سمجھتے ہیں اور اگر ہم دلائل کے ساتھ بیان کریں تب بھی تسلیم نہیں کرتے کہ پیغمبر(ص) اور ابوبکر و عمر کے زمانے میں یہ دونوں متعے شائع اور حلالتھے، صرف خلیفہ عمر کے کہنے سے ان کے اواسطخلافت میں یہ حلال خدا حرام بن گیا۔ جس جگہ اللہ کا وہ محکم حکم جس کی گواہی قرآن دے رہا ہو۔ رسول اللہ(ص) اور پاک صحابہ کی سیرت جس کی تصدیق کر رہی ہو، جس کو شیخیں ابوبکر و عمر کی تائید حاصل ہو اور جس کی حلت پر قرآن مجید نیز اہل سنت کی معتبر کتابوں میں واضح دلیلیں موجود ہوں، تنہا عمر کے اس اعلان سے جس کو آیات و احادیث کی قطعا کوئی حمایت حاصل نہ ہو حرام و بدعت ہوجائے وہاں آپ چاہتے ہیں کہ جناب ابوطالب(ع) کا اسلام و ایمان کفر سے مبدل نہ ہو۔

شیخ : یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا کے کروڑوں مسلمان صدیوں سے قرآن مجید اور سنت رسول(ص) کے خلاف عمل کرتے آرہے ہیں حالانکہ سارا عالم ہم کو سنی کہتا ہے، یعنی ہم سنت رسول(ص) کے پیرو ہیں، اور شیعوں کو رافضی کہا جاتا ہے، یعنی انہوں نےرسول(ص) کی سنت سے انحراف کیا۔

سنی درحقیقت رافضی اور شیعہ اہل سنت ہیں

خیر طلب : بظاہر آپ لوگ اپنے کو سنی اور شیعوں کو رافضی کہتےحالانکہ اگر عادت اور تعصب سے ہٹ کے اںصاف سے جائزہ لیجئے تو نظرآئے گا کہ بباطن اور در حققیت شیعہ سنی یعنی قرآن و سنت رسول(ص) کے تا بع اور احکام پیغمبر(ص) کے فرمانبردار ہیں اور آپ لوگ رافضی یعنی قرآن سنت اور احکام رسول(ص) سے منحرف ہیں۔

۱۹۹

شیخ : یہ خوب رہی۔ آپ نے کروڑوں خالص مسلمانوں کو رافضی کیسے بنادیا؟ کیا دلیل ہے۔ آپ کے پاس اس مقصد پر؟

خیر طلب: اسی طرح جیسے آپ لوگ یعنی سنی حضرات دس کروڑ پاک نفس شیعوں اور عترت و اہل بیت رسول(ص) کے پیروئوں کو رافضی کافر اور مشرک کہتے ہیں میں گذشتہ راتوں میں کافی دلائل کےساتھ عرض کرچکا ہوں کہ رسول اکرم(ص) نے ہدایت فرمائی ہے کہ میرے بعد قرآن اورمیری عترت کی پیروی کرنا لیکن آپ لوگ جان بوجھ کر عترت(ع) سے منہ موڑ کر دوسرون کے پیرو بنے پیغمبر(ص) کی سیرت اورسنت کو جس کی آں حضرت(ص) بحکم قرآن اپنی زندگی میں برابر عملی تاکید فرماتے رہےپامال کردیا، شیخین کے حکم سےا ن حضرات کاسات ھ چھوڑ دیا اور پھر سنت و سیرت رسول(ص) پر عمل کرنے والوں کو رافضی بلکہ مشرک اور کافر تک کہہ دیا۔

من جملہ ان احکام کے آیت 42 سورہ 8 ( انفال) میں صریحا ارشاد ہے کہ:

"وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ‏ مِنْ شَيْ‏ءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى الخ"

یعنی جان لو کہ جو کچھ تم کو غنیمت اور فائدہ حاصل ہو اس میں سے خمس یعنی پانچواں حصہ خدا و رسول(ص) اور قرابتداروں کے لیے مخصوص ہے۔الخ

چنانچہ آں حضرت(ص) اپنی زندگی میں اس حکم پر عمل فرماتے رہے اور خمس غنائم کو اعزہ و اقارب میں تقسیم فرمادیتے تھے لیکن آپ لوگوں نے اس سے مخالفت اور روگردانی کی۔(1)

اگر میں سب کی فہرست پیش کرنا چاہوں تو رشتہ کلام بہت طولانی ہوجائے گا۔

البتہ سب سے بڑی دلیل اس مطلب پر کہ ہم شیعہ رسول اللہ(ص) کی سنت و سیرت کے تابع اور آپ لوگ رافضی، رسول خدا(ص) اور صحابہ کرام کی سنت و سیرت کے تارک اور اس سے منحرف ہیں۔ یہی متعہ کا موضوع بہ حکم خدا، سنت رسول(ص) اور عمل صحابہ کی بنا پر خود آں حضرت( ص) کے عہد پورے زمانہ خلافت ابوبکر میں، اور خلافت عمر کے درمیان تک حلال اور زیر عمل تھا۔ لیکن عمر کے صرف فقرے سے جو انہوں نے از رو ئے سیاست اور ایک خاص مقصد کے تحت کہا تھا آپ لوگوں نےحلال خدا کو حرام اور سنت رسول(ص) کو بیکار سمجھ کر ترک کر دیا اس کے باوجود اپنے کو سنی اور ہم شیعوں کو جو قرآن اورسنت پیغمبر(ص) کے تابع ہیں راضی کہتے ہیں اور بے خبر لوگوں کو یہ سبق اس طرح سے رٹایا ہے کہ چودہ سو برس کے قریب ہو رہے ہیں وہ ہم کو رافضی اور مشرک ہی کہتے ہیں۔

حیرت یہ ہے کہ آپ یعنی برادران اہل سنت بالکل مدعی سست گواہ چست کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ کیونکہ خود خلیفہ عمر نے تو اپنی بات کے ثبوت میں کوئی دلیل و برہان پیش نہیں کی لیکن سنی علماء نے اپنی کتابوں میں یہ ثابت کرنے کے لیے دسیوں پھسپسی دلیلیں اکٹھا کی ہیں کہ خلیفہ عمر کا کلام حق ہے چاہے قرآن و سنت رسول}ص) اور سیرت صحاب باطل و بے بنیاد ٹھہر جائے۔

شیخ : حلت متعہ و عقد انقطاع پر آپ کی دلیل کیا ہے؟ کہاں سے اور کس دلیل سے آپ کہہ رہے ہیں کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے قول خدا اور سنت رسول(ص) کے خلاف عمل کیا۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص

۲۰۰