پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 324645 / ڈاؤنلوڈ: 8593
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

حلت متعہ پر دلائل

خیر طلب : اس مطلب پر دلائل کثرت سے ہیں اور محکم آسمانی سند قرآن مجید ہے، چنانچہ آیت نمبر۲۸ سورہ نمبر۴ ( نساء) میں صاف صاف فرمایا ہے:

" فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَفَاتُوهُنَ‏ أُجُورَهُنَ‏ فَرِيضَةً."

یعنی جب تم نے ان سے فائدہ اور تمتع حاصل کیا( یعنی متعہ کیا) تو ان کی اجرت ( یعنی مہر معین) ان کو فورا ادا کرو کیونکہ یہ فرض و واجب ہے۔

ظاہر ہے کہ قرآن مجید کا حکم ابد تک واجب العمل ہے جب تک خود قرآن میں اس کا کوئی ناسخ پایا جائے چونکہ اس موضوع مِں کوئی ناسخ نہیں آیا ہے لہذا یہ حکم محکم ہمیشہ کے لے باقی اور برقرار ہے۔

شیخ : یہ آیت نکاح دائمی سے کیوں مربوط نہیں ہے جب کہ انہیں آیتوں کے ذیل میں آئی ہے اور حکم دے رہی ہے کہ ان کی اجرت اور مہر ادا کیا جائے؟

خیر طلب : آپ نے اپنے بیان میں بے لطفی سے کام لیااور اصطلاح کے اندر خلط مبحث کردیا کیونکہ آپ ہی کے بڑے بڑے علماء جیسے طبری نے تفسیر کبیر جزء پنجم میں اور امام فخر الدین رازی نے تفسیر مفاتیح الغیب جز سیم میں نیز اوروں نے اس آیہ مبارکہ کو متعہ کے بارے میں نقل کیا ہے۔

آپ کے علماء و مفسرین کی تصریح کے علاوہ آپ حضرات خود ہی بخوبی جانتے ہیں کہ پورے سورہ نساء میں اسلام کے اندر نکاح و ازدواج کے اقسام بیان کئے گئے ہیں، یعنی عقدد دائمی ، متعہ منقطعہ اور ملک یمین نکاح دائمی کے لیے آیت نمبر۳ سورہ نمبر۴( نساء) میں ارشاد ہے:

"فَانْكِحُوا ما طابَ لَكُمْ مِنَ النِّساءِ مَثْنى‏ وَ ثُلاثَ وَ رُباعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ"

یعنی عورتوں سے اپنی مرضی کے مطابق دو، تین اور چار تک نکاح کرو، لیکن اگر اس کا ڈر ہو کہ ان کے درمیان انصاف نہ کر سکو گے تو صرف ایک پر اکتفا کرو یا پھر جو تمہاری کنیز میںہو۔ ملک یمین اور کنیزوں کے بارے میں فرماتا ہے:

"وَ مَنْ‏ لَمْ‏ يَسْتَطِعْ‏ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَناتِ الْمُؤْمِناتِ فَمِنْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ مِنْ فَتَياتِكُمُ الْمُؤْمِناتِ وَ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمانِكُمْ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَ آتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ"

یعنی تم میں سے جس شخص کو اتنی قدرت اور استطاعت نہ ہو کہ پارسا اور مومنہ ( آزاد ) عورتوں کے ساتھ نکاح کرسکے تو ان جوان عورتوں میں سے جو تمہاری ملکیت اور کنیزی میں ہوں اپنی زوجیت میں رکھو اللہ تمہارے ایمان کے متعلق سب سے زیادہ جاننے والا ہے تم میں سے ایک دوسرے سے ہےپسان کے مالکوں کی اجازت سے ان کےساتھ نکاح کرو اور ان کے مہر خوبی کے ساتھ ادا کر دو۔

اور متعہ یا عقد منقطع کے سلسلے میں آیت :

"فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَ فَاتُوهُنَ‏ أُجُورَهُنَ‏ فَرِيضَةً."

۲۰۱

نازل ہوئی اگر یہ آیت نکاح دائم سے متعلق ہو تو لازم آتا ہے کہ ایک ہی سورے میں دائمی نکاح کا حکم دو مرتبہ دہرایا گیا ہے اور یہ چیز قاعدے کے خلاف ہوگی اور اگر متعہ کے لیے نازل ہوئی ہے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک مستقل اور جدید حکم ہے۔

دوسرے (صرف شیعہ بھی نہیں بلکہ)تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ عقعد متعہ صدر اسلام میں رائج اور مشروع تھا۔ اور صحابہ کرام خود رسول اللہ(ص) کے زمانے میں اس ہدایت پر عمل کرتے تھے اگر یہ آیت نکاح کے لیے ہے تو آیت متعہ کونسی ہے جس کے عام طور پر مسلمان قائل ہیں؟ پس قطعا آیت متعہ یہی ہے جس کا خود آپ کے مفسرین نے بھی ذکر کیا ہے اور اس کی شرعی حیثیت کو ثابت کیا ہے، نیز یہ کہ اس کے لیے کوئی ناسخ آیت نہیں آئی جیسا کہ خود آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہے۔

حلیت متعہ پر روایات اہل سنت

من جملہ صحیح بخاری اور مسند امام احمد ابن حنبل میں ابورجاءسے بسند عمران ابن حصین منقول ہے کہ انہوں نے کہا:

"نزلت‏ آية المتعة في كتاب اللّه نفعلنا مع رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله لم ينزل قرآن بحرمته و لم ينه عنها رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله حتّى مات قال رجل برأيه ما شاء- قال محمد( يقال انه عمر )"

یعنی آیت متعہ کتب خدا میں نازل ہوئی پس ہم رسول اللہ (ص) کے دور میں اس پر عامل تھے اور اس کی حرمت پر نہ کوئی آیتنازل ہوئی نہ رسول خدا(ص) ہی نے مرتے دم تک اس کی ممانعت کی، صرف ایک شخص نے اپنی خود رائی سے جو چاہا کہہ دیا۔ بخاری کہتے ہیں کہ کہا جاتا ہے یہ شخص عمر تھے۔

صحیح مسلم جزو اول باب نکاح المتعہ ص۵۴۵ میں ہے کہ :

"حدثنا الحسن الحلوائی قال حدثنا عبد الرزاق قال اخبرنا ابن جريح قال قال عطاء قال قدم جابر بن عبد الله معتمرا فجئناه في منزله فسأله القوم عن أشياء، ثمَ‏ ذكروا المتعة فقال: نعم استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه (و آله) و سلم و أبي بكر و عمر."

یعنی ہم سےبیان کیا حسن حلوائی نے کہ ہم سے بتایا عبدالرزاق نے کہ ہم کو خبر دی ابن جریح نے کہ کہا عطا نے کہ جابر ابن عبداللہ اںصاری عمرہ کے لیے مکے میں آئے تو ہم ان کی قیام گاہ پر گئے، لوگوں نے ان سے مختلف باتیں دریافت کیں۔ یہاں تک کہ متعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہم رسول اللہ(ص) کے زمانے میں ابو بکر و عمر کے عہد میں متعہ کرتے تھے)

نیز اسی کتاب کے جزء اول ص۴۶۷ باب المتعہ بالحج والعمرہ ( مطبوعہ مصر ۱۳۰۶ ہجری) میں ابونضرہ کی سند سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا، ؟؟؟؟ جابر ابن عبداللہ انصاری کے پاس تھا کہ ایک شخص وارد ہوا۔

" فقال: ابن عباس و ابن الزبير اختلفا في‏ المتعتين‏ فقال جابر فعلناهما مع رسول الله صلى الله عليه (و آله) ثمَّ نهانا عنهما عمر فلم نعد لهما."

یعنی اس نے کہا کہ ابن عباس اور ابن زبیر درمیان دونوں متعوں کے بارے میں اختلاف ہے۔ ( یعنی متعہ النساء اور متعہ الحج) پس جابر نے کہا کہ ہم رسول اللہ(ص) کے زمان دونوں کو بجا لائے ہیں۔ پھر عمر نے ان کی ممانعتکی جس کےبعد سے نوبت نہیں آئی۔

۲۰۲

اور امام احمد ابن حنبل نے مسند جزء اول ص۲۵ میں روایت ابونضرہ کو دوسرے طریق سے نقل کیا ہے نیز دونوں ایک اور روایت جابر سے نقل کرتے ہیں کہ دوسرے موقع پر کہا :

" كنا نستمتع‏ بالقبضة من التمر و الدقيق الأيام على عهد رسول الله صلى الله عليه (و آله) و أبي بكر و عمر حتى نهى عنه عمر في شأن عمرو بن حريث."

یعنی ہم رسول اللہ(ص) اور ابوبکر کے زمانے میں ایک مٹھی خرما اور آٹے پر متعہ کیا کرتے تھے یہاں تک کہ عمر نے عمرو بن حریث کے بارے میں اس کو منع کیا۔

حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں عبداللہ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا ہم لوگ رسول خدا(ص) کے زمانے میں متعہ کرتے تھے، یہاں تک کہ جب عمر کی خلافت قائم ہوئی تو انہوں نے کہا کہ خدائے تعالی اپنے پیغمبر(ص) کے لیے جو چاہتا تھا حلال کردیتا تھا۔ اب ان کی رحلت ہوچکی ہے اور قرآن اپنی جگہ پر باقی ہے پس جب تم حج یا عمرہ شروع کروتو اس طرح ختم کرو جس طرح خدا نے فرمایا ہے اور متعہ سے تو بہ کرو اور جس شخص نے متعہ کیا ہوا اس کو میرے سامنے لائو تو میں اس کو سنگسار کروں گا۔

آپ کی معتبر کتابوں میں ایسے اخبار میں ایسے کثرت سے منقول ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ عہد رسول(ص) میں متعہ عام طور پر رائج اور مشروع تھا اور اصحاب اس پر عمل کرتے تھے یہاں تک کہ عمر نے اس کو اپنی خلافت کے دور میں حرام قرار دیا۔ ان روایتوں میں علاوہ اصحاب وغیرہ کی ایک جماعت جیسے ابی بن کعب، ابن عباس، عبداللہ ابن مسعود، سعید بن جبر اور سدی وغیرہ نے آیت متعہ کو اس طریقے سے پڑھا ہے۔

" فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ‏ بِهِ مِنْهُنَ‏- إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى"( یعنی پس جب تم ان سے متمتع اور بہرہ مند ہوئے یعنی متع کیا اس مدت تک جو مقرر کی گئی تھی۔

چنانچہ جاء اللہ زمخشری نے کشاف میں ابنعباس سے بطریق ارسال مسلمات نقل کیا ہے، نیز محمد بن جریر طبری سے اپنی تفسیر کبیر میں اور امام فخرالدین رازی نے تفسیر مفاتیح الغیب جلد سیم میں اسی آیہ مبارکہ کے ذیل میں ذیل میں اور امام نووی نے شرح صحیح مسلمباب اول نکاح المتعہ میں بازری سے قاضی عیاض کا قول نقل کیا ہے کہ عبد اللہ ابن مسعود ( کاتب وحی) اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے۔"فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ‏ بِهِ مِنْهُنَ‏- إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى " امام فخر الدین رازی نے ابی ابن کعب اور ابن عباس کا قول نقل کرنے کے بعد کہا ہے:

"والامة ما انکروا عليها فی هذه القرائة فکان ذالک اجماعا علی صحة ما ذکرنا"

یعنی امت نے اس قرائت میں ان دونوں کا انکار نہیں کیا ہے۔ پس جو کچھ ہم نے زکر کیا اس کے صحیح ہونےپر اس طرح اجماع قائم ہوچکا ہے۔

پھر بعد والے ورق میں جواب دیتے ہوئے کہتے :

" فان تلک القرائة لا تدل الا علی ان المتعته کانت مشروعة و نحن لا ننازعفيه"

یعنی یہ قرائت یقینا اس پر دلالت کرتی ہے کہ متعہ شرعا جائز تھا اور ہم اس بارے میں کوئی نزاع نہیں رکھتے( کہ متعہ عہد رسول(ص) میں مشروع تھا۔

شیخ : آپ کی دلیل عدم نسخ پر کیا ہے کہ رسول خدا(ص) کے زمانے میں تو جائز تھا لیکن بعد کو منسوخ نہیں ہوا؟

خیر طلب : عدم نسخ اور اس بات کے دلائل بہت ہیں کہ یہ حکم اب بھی اپنے شرعی جواز پر باقی ہے۔ عام عقلوں کے

۲۰۳

لیے ساری دلیلوں سے زیادہ قرین قیاس دلیل جس سے ان کو معلوم ہو جائےکہ متعہ عہد رسول سے لے کر اواسط خلافت عمر تک عام طور پر جائز و مشروع تھا اور یہ حکم منسوخ نہیں ہوا ہے، علاوہ مذکورہ بالا روایات اور صحابہ کرام کی سیرت و عمل کے خود خلیفہ عمر ابن خطاب کا قول ہے جس کو آپ کے علماء نے عمومیت کے ساتھ نقل کیا ہے کہ بالائے منبر کہا:

"متعتان‏ كانتا على عهد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلم و أنا أحرمهما و اعاقب عليهما"

اور بعض اخبار میں ہے"انهی عنهما" (یعنی رسول خدا(ص) کے زمانے میں دو متعے جائز تھے اور میں ان دونوں کو حرام یا منع کرتا ہوں، اور جو شخص ان عامل ہوگا اس کو سزا دوں گا۔(۱)

شیخ : آپ کا فرمانا بجا ہے، لیکن میں نے عرض کیا کہ رسول خدا(ص) کے زمانے میں اول اول بہت سے ایسے احکام رائج تھے جو بعد میں منسوخ ہوگئے، چنانچہ یہ متعہ بھی شروع میں جائز تھا لیکن بعد میں منسوخ ہوگیا۔

خیر طلب : چونکہ دین کی بنیاد اور اساس قرآن مجید پر ہے لہذا جو حکم قرآن کے اندر نافذ ہوا ہو اس کا ناسخ بھی قرآن کے اندر اور زبان حضرت خاتم الانبیاء سے موجود ہونا ضروری ہے۔ اب فرمائیے کہ قرآن مجید میں کس مقام پر یہ حکم منسوخ ہوا ہے؟

شیخ : سورہ نمبر ۲۳ ( مومنون کی آیت نمبر۶ اس کی ناسخ ہے ارشاد ہوتا ہے :

" إِلَّا عَلى‏ أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ‏ أَيْمانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ "

یعنی سوا اپنی بیویوں کے اور ان کنیزوں کے جن پر مالکانہ قبضہ ہے ( اور کسی پر تصرف جائزنہیں، پس ایسے لوگوں پر کوئی ملامت نہیں ہے)

اس آیت میں حلال ہونے کے دو سبب قرار دیئے گئے ہیں ۔۱۔ زوجیت۔ ۲۔ اور ملک یمین کے ذریعے قبضہ ۔ لہذا اسی آیت کی دلیل سے کہ متعہ منسوخ ہوچکا ہے۔

خیر طلب : اس آیت میں متعہ کے منسوخ ہونے پر کوئی دلالت نہیں ہے بلکہ اور اس کی تائید ہے، اس لیے کہ متعہ بھی زوجیت کے حکم میں ہے اور ممتوعہ عورت مرد کی حقیقی زوجہ ہے اگر ممتوعہ حقیقتا بیوی نہ ہوتی تو خداوند عالم آیت میں یہ حکم نہ دیتا کہ ان کا حق مہر ادا کرو۔ علاوہ اس مفہوم کے سورہ مومنون مکی ہے اور سورہ نساء مدنی، ظاہر ہے کہ مکی سورتیں مدنی سورتوں پر مقدم ہیں۔ پس یہ آیت ناسخ کیونکر بن سکتی ہے جب کہ آیت متعہ سے قبل نازل ہوئی ہے؟ کیا ناسخ منسوخ سے پہلے ہی آگئی۔"فاعتبروا يا أولي‏ الألباب‏"

اکابر صحابہ و تابعین اور امام مالک کا حکم کہ متعہ منسوخ نہیں

قطع نظر اس سے کہ عبداللہ ابن عباس، عبد اللہ ابن مسعود ( کاتب وحی) جابر ابن عبداللہ انصاری، سلمہ ابن اکوع، ابوذر غفاری،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اس کو سنگسار کروں گا، جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح جزء اول ص۴۶۷ میں نقل کیا ہےاحکام اسلام کے اندر متعہ کرنے والے کو رجم و سنگسار کرنے کا حکم کہیں نظر سے نہیں گذرا۔ پھر خلیفہ عمر نے ایسا کیوں کیا؟ مجھ کو پتہ نہیں۔

۲۰۴

سبرۃ بن معبد، اکوع بن عبداللہ الالمی، اور عمران بن حصین وغیرہ اکابر صحابہ و تابعین نے اس کے عدم نسخ کا حکم دیا ہے، آپ کےبڑے بڑے علماء نے بھی صحابہ کی پیروی میں اس کے منسوخ نہ ہونے کا فتوی دیا ہے۔ مثلا جار اللہ زمخشری تفیہ کشاف میں جس مقام پر جرامت عبداللہ ابن عباس کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ آیت متعہ محکمات قرآن میں سے ہے وہاں یہ بھی کہتے ہیں کہ یعنی منسوخ نہیں ہوئی ہے۔ نیز امام مالک ابن انس نے متعہ کے مشروع و جائز ہونے اور منسوخ نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

چنانچہ ملا سعد الدین تفتازانی نے شرح مقاصد میں، برہان الدین حنفی نے ہدایہ میں، ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اور دوسروں نے بھی مالک کا قول اور فتوی نقل کیا ہے کہ ایک جگہ ہے :

"هو جائز لانه کان مباحا مشروعا واشتهر عن ابن عباس حليتها و تبعه علی ذالک اکثر اهل اليمن و مکة من اصحابه"

یعنی متعہ جائز ہے اس لیے کہ شرعا جائز اور مباح ہے، اور ابن عباس سے اس کی حلت مشہور ہے اور ان کے اصحاب میں سے یمن و مکہ کے زیادہ تر لوگوں نے اس کی متابعت کی ہے۔

اور دوسرے مقام پر کہا ہے "هو لانه کان مباحا فيبقی الی ان يظهر ناسخه " (یعنی متعہ جائز ہے اس لے کہ مباحتھا اور وہ اپنے حلال و مباح ہونے پر قائم ہےجب تک اسی کا ناسخ ظاہر نہ ہو) معلوم ہوتا ہے کہ سنہ۱۷۹ ہجری تک یعنی جب مالک کا انتقال ہوا ہے اس وقت تک نسخ متعہ کے دلائل ان کے سامنے نہیں آئے تھے اور ظاہر ہوا کہ یہ سب کچھ متاخرین کی ایجاد ہے تاکہ خلیفہ عمر کے قول میں جان پیدا کی جائے۔

اور آپ کے بزرگ مفسرین جیسے زمخشری، بغوی اور امام ثعلبی بھی ابن عباس اور کبار صحابہ کے عقیدے پر گئے ہیں، اور حلت و جواز متعہ کے قائل ہوئے ہیں۔

شیخ : چونکہ ممتوعہ عورت کے لیے وراثت، طلاق، عدہ اورنفقہ کے شرائط زوجیت نہیں ہیں لہذا وہ حقیقی زوجہ نہیں ہوسکتی۔

ممتوعہ عورت میں زوجیت کے سارے آثار موجود ہیں

خیر طلب : معلوم ہوتا ہے تنفر اور بدظنی کی وجہ سے آپ نے شیعوں کی فقہی کتابوں کا پورا مطالعہ نہیں کیا ہے ورنہ آپ دیکھتے کہ ممتوعہ عورت میں زوجیت کے سارے آثار موجود ہیں، سوا ان چیزوں کے جو دلیل کے ساتھ خارج ہو جائیں اور پھر آپ اس قسم کا اشکال قائم نہ کرتے۔ دوسرے یہ کہ متعہ نکاح مسلم کی ایک قسم ہے جس پر تحقیق کے ساتھ زوجیت صادق آتی ہے البتہ امت کی سہولت و آسانی اور حرام کاری سے محفوظ رکھنے کے لیے از راہ لطف و کرم اس کے بعض شرائط اور تکلفاتحذف کردیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں تک شرائط کا سوال ہے، اول تو یہی ثابت نہیں ہے کہ وراثت کوئی زوجیت کا لازمی جز ہے کیونکہ اکثرعورتیں زوجہ ہونے کے باوجود شوہر کا ورثہ نہیں پاتیں جیسےکتابیہ، ناشزہ( نافرمان) اور اپنے شوہر

۲۰۵

کی قاتل عورت، جو بیوی تو کہلاتی ہے لیکن وراثت سے محروم ہے۔

دوسرے زن ممتوعہ کا حق وراثت سے محروم ہونا بھی قطعی طور سے معلوم نہیں ہے اس لیے کہ فقہا کے فتوی اس بارے میں مختلف ہیں جیسا کہ آپ کے یہاں بھی مسائل اور احکام میں کافی اختلاف ہے۔

تیسرے علمائے امامیہ کا اس پر اجماع ہے کہ ممتوعہ بیوی کو بھی عدہ رکھنا چاہیے اور اس کی کم سے کم مدت پینتالیس روز مقرر کی گئی ہے اور اگر شوہر مرجائے تو چار ماہ دس دن کا عام عدہ وفات رکھے چاہے مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ اور یائسہ ہو یا غیر یائسہ۔

چوتھے حق نفقہ بھی زوجیت کی لازمی شرطوں میں سے نہیں ہے، کیونکہ بہت سی عورتوں ایسی ہیں جو زوجیت کے اندر ہونے کے بعد بھی نفقے کی مستحق نہیں ہوتیں جیسے ناشزہ، کتابیہ اور شوہر کی قاتل۔

پانچوں مدت کا پورا ہوجانا ہی اس کی طلاق ہے، اور اسی طرح اگر درمیان ہی میں شوہر اس کی مدت بخش دے تو، اس کو طلاق ہو جاتی ہے۔

پس یہ جتنے شرائط آپ نے گنوائے ہیں ان میں سے کسی کے اندر کوئی وزن موجود نہیںہے، چنانچہ شیعوں کے مایہ ناز عالم کامل علامہ حلی حسن بن یوسف بن علی بن مطہر جمال الدین قدس سرہ نے آپ کے اکابر علماء کے مقابلے اور ان کیتردید میں انہیں دلائل کو انتہائی مکمل اور مفصل طریقے پر پیش کیا ہے، جن کو میں نے تنگی وقت کی وجہ سے مختصر کردیا (اگر کوئی شخص پوری تفصیل اور تحقیق کا خواہشمند ہو تو وہ علامہ حلی کی کتابمباحثات سنیہ و معارضات نصیریہ اور دوسرے تالیفات کی طرف رجوع کرے)

شیخ : آیہ شریفہ سے قطع نظر حدیثیں بھی کثرت سے وارد ہیں کہ متعہ کا حکم رسول خدا کے زما نے میں منسوخ ہوگیا تھا۔

خیرطلب: مہربانی کر کے بیان فرمائیے کہ حکم نسخ کہاں وارد ہوا ہے؟

شیخ: اختلاف کے ساتھ نقل ہو اہے، بعض کا قول ہے کہ فتح خیبر میں،بعض کہتے ہیں فتح مکہ کے روز، بعض روایتیں ظاہر کرتی ہیں کہ حجتہ الوداع میں، بعض کابیان ہے کہ تبوکمیں اوربعض دوسرےلوگوںنے بتایا ہے کہ حکم نسخ عمرۃ القضا میں نازل ہوا۔

عہد رسول(ص) میں منسوخ نہ ہونے کے دلائل!

خیر طلب: یہی عقیدے کا اختلاف اور روایتوں کا تناقض و تعارض اس بات کی پوری دلیل ہے کہ ایسا کوئی حکم آیا ہی نہیں اور ایسے اخبار پر اعتماد ہو بھی کیسے ہوسکتا ہے جب کہ ان کے برعکس سحاح ستہ،جمع بینالصحیحین،جمع بین الصحاح الستہ ا ور مسند وغیرہ جیسی آپ کی معتبر کتابوں میں کبار صحابہ سے کثرت کےساتھ ایسی روایتیں منقول ہیں جوزمانہ خلافت عمر تک

۲۰۶

اس آیت کے منسوخ ہونے کا ثبوت دے رہی ہیں۔

سارے دلائل سے واضح تر دلیل تو یہی ہے کہ آپ کے شیوخ اکابر علماءنے خود خلیفہ عمر کایہ قول نقل کیا ہے کہ:

"متعتان‏ كانتا على عهد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلم و أنا أحرمهما "

اگر نسخ کا کوئی حکم آیت یا حدیث اور ارشاد پیغمبر کی صورت میں موجود ہوتا تو خلیفہ کو کہنا چاہئیےتھا کہ اسہدایت کے مطابق جو رسول اللہ(ص) دے گئے ہیں اور جس پر قرآن کی آیت دلالت کرتی ہے جو شخص متعہ کرے گا اور اس منسوخ وممنوع اور حرام فعل کا مرتکب ہوگا میں اس کو سزا دوں گا( اور دلوں کو متاثر و مرعوب کرنے کے لیے یقینا اس قسم کا بیان زیادہ کار آمد ہوتا) نہ بجائے اس کے کہتے یہ ہیں کہدو متعے جو رسول خدا کے زمانے میں حلالتھے میں ان کو حرام کرتا ہوں۔اگر آپ کا دعوی صحیح ہو اورکوئی ناسخ اس کا قرآن مجید میں نازل ہوا ہو تو کیونکر ممکن تھا کہ صحابہ رسول (ص) اور آں حضرت کے مکتب و درس گاہ کے شاگرد جیسے عبداللہ ابن عباس ( جر امت) عمران بن حصین،ابوذر غفاری ابن مسعود ( کا تب وحی) جابرابن عبداللہ انصاری، ابوسعید خدری، سلمہ بن اکوعاور دوسرے اصحاب و تابعین اس پر عمل کرتے ؟چنانچہ آپ کےبڑے بڑے محدثین و مورخین یہاں تک کہبخاری اور مسلم نے بھی جن کی کتابوں کو آپ انتہائی اہم سمجھتے ہیں اس کو وزح کیا ہے اور جن میں سے بعض کی طرف اشارہ بھی کرچکا ہوں، یہ سب پورا ثبت ہے اس بات کا کہ رسول اکرم(ص) کے زمانے سے خلافت عمر کے دور تک اصحاب اس پر عامل تھے اور کہتے تھے کہ آں حضرت(ص) کے وقت وفات تک کوئی ایسی چیز جو حکم متعہ کے منسوخ ہونے پر دلالت کرتی ہو ہم نے نہیں سنی لہذا ہمارا عمل اس پر جاری رہا۔

اس مطلب کی صراحت وہ روایت بھی کرتی ہےجو امام احمد ابن حنبلنے مسند میں ابوبیار سے اور اس نے عمران ب ن حصین سے نقل کی ہے کہ:

"نزلت‏ آية المتعة في كتاب اللّه، و عملنا بها مع رسول اللّه (ص)، فلم تنزل آية بنسخها و لم ينه عنها النبی (ص) حتى مات"

یعنی آیت متعہ قرآن مجید میں نازل ہوئی اور ہم رسول اللہ(ص) کے عہدمیں اس پر عامل تھے۔ پس نہ اس کو منسوخ کرنے کے لیے کوئی آیت اتری اور نہ پیغمبر(ص) نے وقت وفات تک اس سے منع فرمایا۔

نیز عمران بن حصین کی اس روایت میں بھی جو پہلے عرض کرچکا ہوں اس کی وضاحت موجود ہے کہ متعہ کی ممانعت نہ قرآن میں ہے نہ پیغمبر(ص) کی ز بان سے۔

پس جب کتاب و سنت کسی میں نسخ اورممانعت کا ذکر نہیں ہے تو متعہ قطعا اپنی حلیت و مشروعیت پر ابد تک باقی ہے چنانچہ ابوعیسی محمد بن عیسی بن سورة الترمذی نے اپنی سنن میں جو صحاح ستہ میں داخل ہے، امام احمد بن حنبل نے مسند جز دوم ص۹۵ میں اور ابن اثیر نے جامع الاصول میں متعدد اسناد کےساتھ نقل کیا ہے کہ عبداللہ ابن عمر خطاب سے ایک شامی آدمی نے پوچھا کہ آپ متعتہ النساء کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا قطعا حلال ہے۔ اس نے کہا آپ کے باپ خلیفہ صاحب نے تو اس سے منع کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ پیغمبر﴿ ص نے حکم دیا ہے لہذا اگرمیرے باپ نے منع کیا ہےتو یقینامیرے

۲۰۷

باپ کی ممانعت پر پیغمبر{ص} کا حکم مقدم ہے اور میں فرمانِ رسول کا تابع ہوں۔ رہے وہ اخبار جو بقول آپ کے منقول ہیں تو غالبا صحابہ اور تابعین کے بعد والے لوگوں نے خلیفہ عمر کے قول کو درست اور مضبوط کرنےکے لیے کچھی حدیثیں گڑھ کے مشہور کردی ہیں، ورنہ معاملہ اس قدر صاف اور واضح ہے کہ مزید توضیح یا تردید کی گنجایش ہی نہیں ہے اس لیے کہ آپ کے پاس خلیفہ عمر کے قول کے علاوہ ابطال متعہ اور اس کی حرمت پر ایک بھی صحیح سند یا کامل دلیل موجود نہیں ہے۔

شیخ : خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کا قول خود مسلمانوں کے لیے ایک زبردست سند ہے جس کی ان کو پیروی کرنا چاہیے کیونکہ اگرخلیفہ نے رسول خدا سے سنا نہ ہوتا تو نقل نہ کرتے۔

خیر طلب: ایک نکتہ سنج اور انصاف پسند عالم سے بہت بعید ہے کہ {محض خلیفہ عمر کیوالہانہ محبت و عقیدت میں} اس قسم کی تقریر کرنےلگے،اس لیے کہ ہر کام میں غور و فکر کرنا ضروری ہے۔

حضرات! اپنے اس بیان پر کہ خلیفہ کا قول مسلمانوں کے لیے ایسی مضبوط سند ہے کہ اس کی پیروی ضروری ہے ذرا گہری نظر ڈالیے میں نے تو جہاں تک آپ کی صحیح و معتبر کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، ایک روایت بھی ایسی نہیں دیکھی کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا ہو کہ عمر بن خطاب کا قول سند ہے یا مسلمانوں پر اس کی پیروی لازم ہے۔ البتہ آپ کی معتبر کتابوں میں ایسی متواتر اور معتبر حدیثیں بھری پڑی ہیں کہ عترت طاہرہ رسالت{ع} کی پیروری کرو۔ بالخصوص اس عالی منزلت خاندان کی فرد اکمل امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی، جیسا کہ انمیں سے بعض اخبار کی طرف گزشتہ شبوں میں اشارہ کیا جاچکا ہے، اور ظاہر ہے کہ تمام عترت اور اہل بیت رسالت نے اس کے منسوخ نہ ہونے کا حکم دیا ہے۔

رہا آپ کا یہ فرمانا کہ اگر خلیفہ نے بارگاہ رسالت سے اس کی حرمت کو سنا نہ ہوتا توبیان نہ کرتے، تو اس میں بہت سے اشکال ہیں۔

اول اگرخلیفہ عمر نے رسول خدا{ص} سے ایسے نسخ کو سنا تھا تو ان کو چاہیے تھا کہ آں حضرت(ص) کے زمانے سے لے کر اپنے دورِ حکومت تک کبھی تو کہے ہوتے بالخصوص جس وقت دیکھتے تھے کہ کبار صحابہ اس کے مرتکب ہو رہے ہیں تو نہی عن المنکر کے عنوان سے بھی ان کا فرض تھا کہ جا کر لوگوں کو بتاتے کہ یہ عمل منسوخ ہے لہذا اس کا ارتکاب نہ کرو۔ آخر کیوں نہیں بتایا اور نہی عن المنکر کیوں نہیں کی؟

دوسرے جو حکم رسول(ص) کی ہدایت سے امت میں پھیلا ہو اس کا ناسخ بھی آں حضرت(ص) ہی کے ذریعے شایع ہونا چاہیے چنانچہ علم اصول میں معین ہے کہبیان میں وقت ضرورت سے تاخیر جایز نہیں ہے۔ آیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ حکم ساری امت میں شایع ہوچکا ہو پیغمبر(ص) اس کے منسوخ ہونے کا ذکر سوا عمر کے اور کسی سے نہ کریں اور عمر بھی کسی سے نہ کہیں۔ نہاں تک کہ اپنی خلافت کے آخری دور میں ایک خاص شخص کی مخالفت میں سیاسی طور پر اس کی حرمت کا اعلان کریں؟آیا اس ساری مدت میں جب امت ( بقول آپ کے) اس منسوخ حکم پر عمل پیرا ہو رہی تھی اس کے سر کوئی ذمہ داری نہ تھی؟ اور اس کا یہ طریقہ خلافِ

۲۰۸

شرع نہیں تھا۔

آیا اس منسوخ اور غیر مشروع عمل کے لیے جس کی ممانعت (بقول آپ کے) لوگوں تک نہیں پہنچایی گئی۔ چنانچہ امت اس کو اپنائے رہی، سوا رسول خدا(ص) کے اور کوئی جواب دہ ہوسکتا ہے کہ ایک ناسخ حکم کو جو خدا کی طرف سے ان کے سپرد کیا گیا تھا(بقول آپ کے) امت کو نہیں پہنچایا اور راز داری کے ساتھ تنہا عمر سے کہہ دیا اور عمر نے بھی کسی سے نہیں بتایا یہاں تک کہ اپنی خلافت کے آخری حصے میں صرف ذاتی راۓ کے طور پر اس کی حرمت کا حکم دیا؟ اور خلیفہ ابوبکر نے بھی جن کا مرتبہ یقینا عمر سے بالاتر تھا اپنے سارے عہدِ خلافت میں اس منسوخ حکم کی روک تھام نہیں کی؟ آیا یہ کفر کا کلمہ نہیں ہے اور اس کا ----- کافر نہیں ہے کہ کہا جاۓ رسول اللہ (ص) نے احکام کی تبلیغ میں کوتاہی کی اور امت اپنی جہالت و ناواقفیت کی وجہ سے منسوخ حکم پر عمل کرتی رہی؟

تیسرے اگر متعہ پیغؐمبر کے زمانے میں منسوخ ہوچکا تھا اور عمر نے بھی اس کو آں حضرت (ص) ہی سے سنا تھا تو ضرورت اس کی تھی کہ بیان کرتے وقت اس حکم آں حضرت سے منسوب کرتے اور کہتے کہ میں نے خود پیغؐمبر کو فرماتے ہوۓ سنا کہ عقد متعہ منسوخ ہے اور کوئی شخص اس کا ارتکاب نہ کرے ورنہ اس پر حد جاری ہوگی یا سنگسار ہوگا۔ ظاہر ہے کہ ارشاد پیغمبر(ص) کا حوالہ دینے سے امت پر کافی اثر قائم ہوتا۔ لیکن کہتے یہ ہیں کہ رسول اللہ(ص) کے زمانے میں دو متعے جائز اور مشروع تھے جن کو میں حرام کرتاہوں اور اب ایسا کرنے والوں کو سنگسار کروں گا۔ آیا حلال و حرام اور حدود و قواعد کا مقرر کرنا اس پیغؐمبر کا فرض ہے جس کا تعلق عالم غیب سے ہو یا ایسے خلیفہ کا حق ہے جس کو لوگوں نے معین کردیا ہو؟

ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آسکا اور نہ میری عقل فیصلہ کرسکی کہ عمر نے آخر کس دلیل و برہان سے حلال خدا کو حرام کہا اور کیوںکر یہ کہنے کی جرأ ت کی کہ انا احرمہا ( یعنی میں ان دونوں کو حرام کرتا ہوں) تعجب یہ ہے کہ خود رسول اللہ(ص) تو تبلیغ احکام کے مواقع پر یہ ہیں فرماتے تھے کہ میں نے حلال یا حرام کیا، بلکہ جس وقت کسی حکم کا اعلان فرماتے تھے تو یہی فرماتے تھے کہ مجھ کو اس کی تبلیغ کا حکم خداۓ تعالیٰ نے دیا ہے لیکن خلیفہ عمر انتہائی جسارت اور صراحت کے ساتھ کہتے ہیں۔

"متعتان‏ كانتا على عهد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلم و أنا أحرمهما "

فاعتبروا یا اولی الابصار

مجتہد احکام میں الٹ پھیر کرسکتا ہے

شیخ : یقینا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے چند محقق علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ(ص)چونکہ احکام شرعی میں مجتہد تھے لہذا دوسرا مجتہد بھی اجتہاد کی روسے پہلے حکم کی مخالفت کر کے حلال کو حرام اورحرام کرسکتا ہے چنانچہ اسی بنا پر خلیفہ

۲۰۹

عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔"أنا أحرمهما "

خیر طلب: مجھ کو اس کی امید نہیں تھی کہ آپ حضرات ایک غلطی کو درست کرنے کے لیے دوسری بہت سی غلطیاں بھی کریں گے۔ آپ کو خدا کی قسم سچ بتائیے کیا نص کے مقابلے میں اجتہاد کی بھی کوئی حقیقت ہے؟ کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ رسول اکرم(ص) کو اس قدر پست اورخلیفہ عمر کو اس قدر بلند کیجئیے کہ دو مجتہدوں کے مانند دونوں کوبرابر بنادیجئے؟ کیا آپ کا یہ بیان سراسر غلو ا ور آیات قرآنی کا صریحی مخالفت نہیں ہے؟ اگرچہ وقت تنگ ہے لیکن نمونے کے طور پر ایسی کچھ آیتوں کا حوالہ دے دینا ضروری سمجھتا ہوں۔

خداوند عالم آیت١٦ سورہ١ ۰) یونس) میں پیغمبر(ص) سے صاف صاف فرماتا ہے:

"قُلْ ما يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ‏ تِلْقاءِ نَفْسِي‏ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا ما يُوحى‏ إِلَيَ‏"

( یعنی ان سے کہہ دو کہ مجھ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں اپنی طرف سے قرآن کو بدل دوں۔ میں صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے)

جس مقام پر خود رسول اکرم(ص) بغیر نزول وحی کے احکام شرع میں اپنی خواہش اور ارادے سے کوئی تغیر و تبدل نہ کرسکتے ہوں، ہاں خلیفہ عمرکو جو حقیقت وحی سے بالکل اجنبی تھے یہ اختیار کہاں سے حاصل ہوگیا کہ احکام میں تصرف کر کے حلال خدا کو حرام کردیں؟

آیت نمبر۴ سورہ نمبر۵۳ (نجم) میں ارشاد ہے:

" وَ ما يَنْطِقُ‏ عَنِ الْهَوى‏إِنْهُوَإِلَّاوَحْيٌيُوحى"‏

(یعنی پیغمبر(ص) اپنی خواہش نفس سے ایک بات بھی نہیں کہتے، وہ تو وہی کہتے ہیں جو احی الہی ہوتی ہے)

اور ایت نمبر۸ سورہ نمبر۴۶ ( احقاف) میں فرماتا ہے:

"قُلْماكُنْتُ بِدْعاً مِنَ‏الرُّسُلِوَ ما أَدْرِي ما يُفْعَلُ بِي وَ لا بِكُمْإِنْأَتَّبِعُإِلَّامايُوحى‏إِلَيَّوَماأَنَاإِلَّانَذِيرٌمُبِينٌ‏."

(یعنی کہہ دو اے رسول (ص) کہ میں کوئی نیا پیغمبر نہیں ہوں اور نہ از خود یہ جانتا ہوں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا برتاؤ ہوگا۔ میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے)

یہ مکمل ثبوت ہے اس بات کا کہ پیغمبر(ص) کی متابعت واجب ہے، پس عمر ہوں یا اور کوئی غیر شخص ہرگز کسی کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ احکام الہی میں تصرف کرے اور حلال خدا کو حرام کرے۔

شیخ : خلیفہ رضی اللہ عنہ نے قوم کی بھلائی اور مصلحت قطعا اسی میں دیکھی کہ حکم کو منسوخ کردیں، اس لئے کہ آج دیکھا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ساعت، ایک ماہ یا ایک سال کی لذت کے لئے کسی عورت سے متعہ کرتے ہیں اور بعد کو حاملہ یا غیر حاملہ اس کو یونہی، چھوڑ دیتے ہیں جس کے سبب سے آوارگی پھیلتی ہے۔

خیر طلب : معاف کیجئے گا جناب! آپ کا یہ بیان ہی مضحکہ خیز اور حیرت انگیز ہے، اس لئے کہ آپ چند شہوت پرست اور لا ابالی اشخاص کے طرز عمل کو احکام کے حلال و حرام میں دخل دے رہے ہیں۔ اگرایسے لوگوں کی نفس پرستی اور بے پروائی ہے سے کوئی حلال حرام ہوجاۓ تو دائمی نکاح بھی حرام ہوجانا چاہئیے۔ کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ

۲۱۰

بعض لوگوں نے مال و جمال یا کسی اور چیز کی وجہ سے شریف لڑکیوں کے ساتھ دائمی نکاح کیا، پھر بغیر خرچ و نفقہ کے ان کو لا وارث چھوڑ کر چل دیئے، لہذا کہنا چاہیئے کہ کچھ اشخاص ایسے حرکات کرتے ہیں اس وجہ سے عقد نکاحبالکل غلط چیز ہے۔

چاہیئے یہ کہ لوگوں میں دیانت کی ترویج کی جاۓ اور ان کو دینی فرائض سے آگاہ کیا جاۓ اگرکوئی شخص دیندار ہے اور دائمی عورت کی ذمہ داری اٹھانے کی اہلیت اپنے میں نہیں پاتا نیز حرام کاری کے قریب بھی جانا نہیں چاہتا تو وہ دستور شریعت کے مطابق کسی عورت کو متعہ اور عقد منقطع کے ذریعہ تصرف میں لانا چاہے گا۔ چنانچہ پہلے شرائط متعہ کی تحقیق کرے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہر حکم کے لئے کچھ شرطیں ہوتی ہیں جن کو پہلے معلوم کر لینا ضروری ہے۔ اس کے بعد عمل کی منزل میں قدم رکھنا چاہیئے لہذا قرار داد کے وقت وہ عورت کا مہر اتنا مقرر کرے گا کہ عدت متعہ تمام ہونے کے بعد وہ اپنے عدہ کے زمانے میں جو صرف پینتالیس روز ہے آسانی سے بسر کرسکے۔

دوسرے یہ کہ علیحدگی کے بعد عدہ کی ساری مدت میں وہ عورت کی دیکھ بھال کرتا رہےگا کہ اگر حاملہ ہوگئی ہے تو بچہ چونکہ اس کا ہے لہذا اس کی نگہداشت کرے تاکہ ولادت کے بعد اپنی اولاد کو حاصل کرسکے۔

اگر کچھ لوگ ان شرطوں کو لحاظ نہ کریں تو اس کا نتیجہ یہ نہیں نکل سکتا کہ آپ جیسے سادہ دل حضرات بغیر سوچے سمجھے ایک طے شدہ حلال حکم کو منسوخ فرض کر لیں۔

علاوہ اس کے اگر آپ کا فرمانا صحیح بھی ہو تو اس امت کی مصلحت اوربھلائی کو خدا و رسول(ص) قطعا عمر سے زیادہ جانتے تھے لہذا انہوں نے سب کو اس کی ممانعت کیوں نہیں کردی تھی؟

اگر پیغمبر(ص) نے منع نہیں کیا ہے تو خلیفہ وامام اور حجتہ منصوص بھی اپنی مصلحت بینی سے حلال خدا کو حرام نہیں کہہ سکتا، پس یہ بہانہ کام نہیں دے گا کہ امت کی بھلائی اسی میں تھی کہ لوگ متعہ نہ کریں۔

ممانعت متعہ سے آوارگی پھیلی

اگر اچھی طرح سے غور کیجیئے تو حکم متعہ آوارگی پھیلنے کا سبب نہیں ہوا بلکہ ممانعت متعہ نے آوارگی پھیلائی اس لئے کہ ایسے جوان مرد عورت جن کے پاس دائمی نکاح کے وسائل مہیا نہیں ہیں اور متعہ بھی خلیفہ عمر کے حسب الحکم ان کے لئے حرام بلکہ گناہ عظیم ہے، وہاگر اپنی شہوت اور جنسی جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے تو ظاہر ہے کہ سوا اس کے اور کیا کریں گے کہ مجبورا حرام کاری میں مبتلا ہوں؟ اور جب کسی قوم کے اندر زنا کاری کا رواج ہوجاتا ہے تو حرمتوں کے پردے چاک اور شرافت انسانی کی عمارت متزلزل ہوجاتی ہے۔ آتشک اور سوزاک وغیرہ کے ایسے امراض ساریہ کی فرا وانی ہوتی ہے اور خداندان پریشان حال وکمزور ہوجاتے ہیں۔

۲۱۱

چنانچہ امام احمد ثعلبی اور طبری نے اپنی تفسیر میں اور امام احمد حنبل نے مسند میں آیت متعہ کے ذیل میں سند کے ساتھ امیرالمومنین علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

" لو لا ان عمر نهي عن المتعةما زنى‏إلّا شقيّ‏."

(یعنی اگر عمر نے متعہ کو منع نہ کیا ہوتا تو سوا بد بخت کے کوئی زنا نہ کرتا )

نیز ابن جریح اور عمرو بن دینار نے عبداللہ ابن عباس(جرامت) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

"ما كانت المتعة إلا رحمة رحم الله بها أمة محمد صلى الله عليه و آله لو لا نهيه(ای عمر) عنها ما احتاج إلى‏ الزنا إلا شقي‏"

( یعنی متعہ در حقیقت خدا کی رحمت تھا جس کو اس نے امت محمد(ص) پر نازل کیا تھا، اگر عمر نے اس کی ممانعت نہ کی ہوتی تو سوا بدبخت کے کوئی زنا کا محتاج نہ ہوتا)

پس بقول اصحاب پیغمبر(ص) کے زنا کاری پھیلنے کا سبب متعہ کی ممانعت ہے نہ کہ خود عمل متعہ اور حلال و حرام کے جتنے احکام خداوندی پیغمبر اسلام(ص) کے ذریعے امت تک پہنچے ہیں وہ سب کے سب قوم کی بھلائی اور مصلحت پر مبنی تھے اور ہیں اور رہیں گے۔ الی یوم القیامہ۔

اس مقام پر کہنے کے لائق بہت کچھ ہے اور اس عقیدے کے بطلان پر ( کہ دوںوں متعے حرام ہیں) بیشمار شواہد موجود ہیں لیکن ہمارا یہ مختصر جلسہ ان کی تفصیل بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

اس کے علاوہ ہماری گفتگو اس موضوع پر تھی بھی نہیں بلکہ آپ کے تقاضے پر میں نے یہ حکم صرف اس غرض سے نقل کر دیا تھا کہ جناب عالی کی استبعاد رفع ہوجائے، کیونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ پیغمبر(ص) کے زمانے میں کوئی امر جاری اور نافذ رہا ہو لیکن بعد کو وضعی احادیث کی بنا پر اس کے برخلاف ہوجاۓ، میں نے آپ کو بتانا چاہا تھا کہ جس طرح خدا کے احکام بدل دیئے گئے، حلال و حرام میں تصرف کیا گیا، خمس اور دونوں متعوں کے مستقل احکام جو باتفاق فریقین(شیعہ و سنی) حضرت خاتم الانبیائ(ص) کے زمانے سے خلافت عمر کے آخری دور تک امت میں رائج اور کبار صحابہ و تابعین کے اعمال میں داخل تھے، بعد کو جیسا کہ جابر کی روایت سے ثابت ہے عمرو بن حریث کی خاطر سے بغیر کسی دلیل و برہان کے صرف خلیفہ عمرکی ذ اتی خواہش کی بنا پر اس کے ایک جملے سے منسوخ ہوگئے، حلال خدا حرام بن گیا، اور آج کروڑوں مسلمان بغیر ثبوت کے فقط اسلاف کی پیروی میں اسی جملے اور عقیدے پر جملے ہوۓ ہیں، حالانکہ وجوب خمس، متعہ کے دونوں حکم محکم اور عہد رسول میں ان کے منسوخ نہ ہونے پر قرآنی آیات اور حدیثوں کے دلائل خود آپ کی معتبر کتابوں میں اب تک موجود ہیں۔

مزید بر آں ان احکام پر عمل کرنے والوں کو جن کے منسوخ ہونے کی کوئی دلیل نہیںبدعتی اور گمراہ کہا جاتا ہے۔ پس دوسرے محلپر بھی کوئی استبعاد باقی نہیں رہتا کہ جناب ابوطالب کے اسلام و ایمان کو بھی جو عہد پیغمبر(ص) اور صدر اسلام میں مشہور و معروف اور امت کی نظر میں قابل احترام تھا حدیث ضحضاح گڑھ کے برعکس مشہور کیا جاۓ اور پھر نا فہم لوگ اپنی عادت اور تقلید کی بنا پر بغیر کسی تحقیق کے حق و صداقت کو پامال اور نسیا منسیؑا بنا دیں۔

۲۱۲

اب میں تقریر کو اس سے زیادہ طول نہیں دوں گا، کیونکہ ارباب عقل و دانش کے لئے اسی قدر دلائل کافی ہیں اورصاحبان بصیرت کے سامنے روشن ہے کہ ان جناب کے ایمان پر بہت کثرت سے دلیلیں موجود ہیں لیکن میں اختصار کے خیال سے اسی جگہ مطلب تمام کرتا ہوں۔

ورنہ خوارج و نواصب، بنی امیہ اور ان کے پیرو تو اگر دیکھیں کہ جناب ابوطالب زندہ ہو کر خود اپنی زبان سے کلمہ شہادتیں جاری کر رہے ہیں تب بھی عداوت امیرالمومنین(ع) کی وجہ سے اوجھی تاویلیں کر کے ان الفاظ کا کوئی دوسرا مطلب نکالیں گے۔

آپ حضرات سے کوئی صاحب اگر اس بارے میں مزید تفصیلات جاننا چاہتے ہوں تو اپنے اکابر علمائ جیسے جلال الدین سیوطی، ابوالقاسم بلخی، محمد بن اسحاق، ابن سعد، ابن قتیبہ، واقدی، امام موصلی، شوکانی، امام تلمسانی، امام قرطبی، علامہ برزنجی، علی اجہوری، امام شعرانی، امام سجمی اور ابوجعفر اسکافی وغیرہ کی متعبر کتابوں کا مطالعہ کریں، کیونکہ یہ سب رسول خدا صلعم کے ماں باپ اور چچا جناب ابوطالب کے اسلام وایمان کا اعتراف و اعتقاد رکھتے تھے اور اکثر نے اس موضوع پر مشتمل رسالے لکھے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ جو کچھ عرض کیا گیا اس سے معلوم ہوگیا کہ علی علیہ السلام روحانی و جسمانی حیثیت سے اس قدر ممتاز نسب اور پاکیزہ نسل کے مالک تھے کہ صحابہ کبار میں سے ایکبھی ان حضرت کے مقدس مرتبے کو نہیں پہنچتا۔

لقد ظهرت‏ فلا تخفى على أحد إلّا على أكمهَ لا يعرف القمرا

یعنی یقینا یہ بات اس قدر ظاہر ہے کہ کسی کے اوپر مخفی نہیں، سوا اس مادر زاد اندھے کے جو چاند کو نہ دیکھ سکے۔

علی(ع) کا مولد خانہ کعبہ تھا

دوسری خصوصیت جو علی علیہ السلام کو ممتاز کرتی ہے وہ محل و مکان ولادت ہے، کیونکہ آدم سے لے کر خاتم(ص) تک سارے انبیاۓ عظام و اوصیاۓ کرام اور ان کی نیک امتوں میں سے ایک شخص بھی اس خصوصیت عظمی سے سرفراز نہیں ہوا، آپ جس طرح سے نسل و نسب اور جنبہ نورانیت کی حیثیت سے ساری خلقت میں ممتاز تھے اسی طرح جاۓ ولادت کے لحاظ سے بھی ایک نمایاں خصوصیت رکھتے تھے کہ آپ خانہ کعبہ کے اندر متولد ہوۓ اور اس امتیازی شان میں منفرد تھے۔

حضرت عیسی علی نبینا و آلہ و علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر آپ کی مادر گرامی حضرت مریم طاہرہ کو اس غیبی آواز نے بیت المقدس سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا کہ

"اخرجی عن البيت‏ فان هذه بیت العبادة لا بيت الولادة "

(یعنی ( اے مریم) بیت المقدس سے نکل جاؤ کیونکہ یہ عبادت کا گھر ہے زچہ خانہ نہیں ہے۔)لیکن جب علی علیہ السلام کی ولادت

۲۱۳

باسعادت کا وقت آیا تو آپ کی مادر گرامی فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کے اندر بلائی گئیں۔ پھر یہ کوئی اتفاقی بات بھی نہیں تھی کہ جیسے کوئی عورت مسجد میں ہو اور دفعتہ وضع حمل ہوجاۓ بلکہ باقاعدہ دعوت کی صورت میں اس گھر کے اندر لے جائی گئیں جس کا دروازہ مقفل تھا بعض ناواقف لوگ یہ وہم کرتے ہیں کہ فاطمہ بنت اسد مسجد کے اندر تھیں کہ اتنے میں ان کو دردِ زہ عارض ہوا اور وہ باہر نہ جاسکیں مجبورا اسی مسجد میں وضع حمل ہوا۔

حالانکہ یہ صورت نہیں تھی فاطمہ بنت اسد کے وضع حمل کا مہینہ تھا، آپ مسجد الحرام گئیں وہاں دردِ زہ عارض ہوا۔مستجار کعبہ مشغول دعا ہوئیں اور درگاہِ الہی میں فریاد کی کہ خداوندا تجھ کو اپنی عزت وجلال کا واسطہ اس دردِ زہ کو مجھ پر آسان فرما۔ ایک مرتبہ خانہ کعبہ کی دیوار ( جو اس زمانے میں مسجد الحرام کے وسط میں تھی اور اس کا دروازہ زمین کے برابر سے تھا جو ہمیشہ بند اور مقفل رہتا تھا، صرف خاص موسم میں کھولا جاتا تھا) شگافتہ ہوئی یا مقفل دروازہ کھل گیا۔

دوسری روایت میں ہے اور ایک آواز آئی "یا فاطمةادخلیالبیت " اے فاطمہ گھر کے اندر داخل ہوجاؤ بیت اللہ اردگرد بیٹھے ہوۓ مجمع کے سامنے فاطمہ اندر گئیں اور در و دیوار پھر سابق حالت آگئے۔ سب کو بہت تعجب ہوا جناب عباسی بھی موجود تھے، انہوںنے یہ ماجرا دیکھا تو فورا اپنے بھائی جناب ابوطالب کو خبری کیوںکہ دروازے کی کنجی انہیں کے پاس تھی وہ اسی وقت آۓ اور ہر چند کوشش کی لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ تین روز تک فاطمہ بظاہر بغیر کسی دوا و غذا اور تیمار دار کے خانہ کعبہ کے اندر رہیں، مکے کے ہر گھر میں اس غیر معمولی واقعے کا چرچا ہورہا تھا یہاں تک کہ تیسرے روز جہاں سے داخل ہوئی تھیں اسی جگہ پھر راستہ بنا اور فاطمہ باہر آئیں۔ لوگوں نے ہجوم کیا تو دیکھا کہ ان کے ہاتھوں پر ایک چاند سا بیٹا ہے جو آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے۔

اسد اللہ در وجود آمددر پس پردہ ہر چہ بود آمد

یہ خصوصیت اور امتیاز علی علیہ السلام کے لئے مخصوص ہو کے رہ گیا کہ ان کا مولد خانہ کعبہ تھا اور وہ بھی اس خصوصی دعوت کے ساتھ کہ ان کی مادر گرامی گھر کے اندر بلائی گئیں۔

اس مسئلے میں فریقین ۰ شیعہ و سنی) کا اتفاق ہے ہے کہ آپ سے قبل یا بعد کسی اور کو یہ شرفِ خاص حاصل نہیں ہوا چنانچہ حاکم مستدرک میں اور نور الدین بن صباغ مالکی فصول المہمہ فصل اول نمبر۱۴ میں کہتے ہیں۔

" و لم‏ يولد في‏ بيت‏ الحرام‏ قبله أحد سواه و هي فضيلة خصه الله تعالى بها إجلالا له و إعلاء لمرتبته و إظهارا لتكریمه "

یعنی علی(ع) سے قبل آپ کے سوا اور کسی کی ولادت خانہ کعبہ میں نہیں ہوئی اور یہ وہ فضیلت ہے جو خداۓ تعالی نے آپ کی عزت افزائی، آپ کا مرتبہ بلند کرنے اور آپ کی تعظیم و تکریم کے اظہار کے لئے آپ کی ذات سے مخصوص کردی۔

۲۱۴

عالم غیب سے علی(ع) کا نام اور ایمان ا بوطالب(ع) پر ایک اور دلیل

دوسری خصوصیت جو اسی سلسلے میں علی علیہ السلام کے لیے ظاہر ہوئی اور آپ کی مزید شرافت و بزرگی کا باعث ہوئی وہ عالم غیب سے حضرت کا نام رکھا جانا ہے۔

شیخ : یہتو آپ نے انوکھی بات کہی گویا، ابوطالب پیغمبر تھے کہ ان کے اوپر وحی نازل ہوئی کہ بچے کا نام علی رکھو۔ آپ کا یہ بیان قطعا ان پروپیگنڈوں میں سے ہے جو شیعوں نے اپنے عشق و محبت میں وضع کئے ہیں، ورنہ اس کی کوئی صورت ہی نہیں کہ خدا بچے کا نام علی رکھنے کے لئے حکم دے۔ علی ایک معمولی نام تھا جو ماں باپ نے اپنی مرضی اور ارادے سے آپ کے لئے تجویز کیا عالم غیب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

خیر طلب: میں نے تو ہرگز کوئی انوکھی بات نہیں کہی جس پر آپ کو تعجب ہوا۔ البتہ آپ کی یہ حیرانی در اصل مرتبہ ولایت سے اجنبیت کی وجہ سے ہے۔

چونکہ آپ نے چندجملے ایک دوسرے سے مخلوط کر کے بیان کئے ہیں لہذا ان کو الگ الگ کر کے ہر ایک کا جواب علیحدہ علیحدہ عرض کرتا ہوں۔

اولا آپ سوچتے ہیں کہ بچے کا نام ولادت کے بعد رکھا گیا، حالانکہ ایسا نہیں بلکہ تمام آسمانی کتابوں میں محمد(ص) و علی علیہما الصلوۃ والسلام کے نام نبوت و امامت کے عنوان سے ذکر ہوۓ ہیں کیونکہ ان دونوں بزرگواروں کے نام خداۓ تعالی نے خلقت سے ہزاروں سال قبل رکھے تھے جو تمام آسمانوں، جنت کے دروازون اور عرش الہی پر لکھ دیئے گئے تھے۔ ابوطالب کے زمانے سے اس کا تعلق نہیں۔

شیخ : آیا آپ کا یہ بیان غلو نہیں ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ کو اس قدر اونچا اٹھائیے کہ خلقت خلائق سے پہلے عالم ملکوت میں پیغمبر(ص) کے نام گرامی کے ساتھ ان کا نام بھی درج کردیجئے حالانکہ پیغمبر(ص) کی ذات کے مانند آپ کا نام بھی سب سےبالاتر ہے اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔ آپ حضرات کے اسی قسم کے بیانات کا نتیجہ ہے کہ اذان و اقامت میں آپ کے فقہائ کے فتوے پر نام پیغمبر(ص) کے بعد علی کا نام واجب سمجھ کے لیا جاتا ہے۔

خیر طلب: ( مسکرتے ہوئے) نہیں جناب، میرے اس بیان کو قطعا غلو سے کوئی ربط نہیں ہے۔ اور ملکوت اعلی میں اس نام مبارک کو میں نے لکھا بھی نہین ہے جو آپ مجھ سے منسوب کر رہے ہیں، بلکہ خود خداۓ تعالی نے اپنے اور اپنے رسول کے نام کے ساتھ آپ کا نام لکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ کی متعبر کتابوں کے اندر اس بارے میں کافی روایتیں موجود ہیں۔

۲۱۵

شیخ : حیرت ہے کہ آپ نے تو غلو کو ایک درجہ اور بڑھا دیا کہ علی کے نام کو خداۓ عزو جل کے نام سے ملحق کردیا؟ اگر ممکن ہو تو ذرا ان روایتوں میں سے کسی کا حوالہ دیجئے۔

نام خدا و رسول(ص) کے بعد عرش پر علی(ع) کا نام درج ہے

خیر طلب : محمد بن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں، ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں بسلسلہ حالات علی علیہ السلام، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب بات۶۲ میں، حافظ ابونعیم نے حلیتہ الاولیائ میں اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ ( مطبوعہ اسلامبول صفحہ۲۳۸) بات۵۶ حدیث ۵۲ میں ذخائر العقبی امام الحرم احمد بن عبداللہ طبری شافعی سے نقل کرتے ہوۓ ابوہریرہ کی سند سے ( بعض الفاظ کی مختصر الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ) روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"مكتوب‏ على‏ ساق‏ العرش‏: لا إِلهَ إِلَّااللَّهُ وحده لا شريك له، و محمّد عبدي و رسولي أيّدته بعليّ بن ابی طالب"

یعنی ساق عرش پر لکھا ہوا ہے کہ سواۓ وحدہ لاشریک کے کوئی خدا نہیں اور محمد(ص) میرا بندہ اور رسولہے جس کی میں نے علی ابن ابی طالب کے ذریعے تائید کی ہے۔

جلال الدین سیوطی نے خصائص الکبری جلد اول ص۱۰ اور تفسیر درمنثور اوائل سورہ بنی اسرائیل میں ابن عدی اور ابن عساکر سے نقل کیا ہے اور انہوںنے انس ابن مالک سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا، میں نے ساق عرش پر لکھا ہوا دیکھا۔

« لا إله إلّا اللّه محمّد رسول اللّه أيّدته بعليّ"

( یعنی سوا اللہ کے کوئی خدا نہیں) محمد اللہ کے رسول ہیں، میں نے علی(ص) کے ذریعے ان کی حمایت کی ہے۔(مترجم۱۲)

ینابیع المودۃ ص۲۰۷ میں ذخائر العقبی امام الحرم سے بروایت سیرت ملا منقول ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا، شبِ معراج جب مجھ کو ملکوت اعلی میں لے گئے تو:

" نظرت الی ساق الایمن من العرش فرایت مکتوبا محمد رسول اللّه ایدته بعلی ونصرته به"

یعنی میں نے داہنی جانب ساق عرش پر نظر کی تو دیکھا کہ لکھا ہوا ہے، محمد اللہ کے رسول(ص) ہیں میں نے علی کی ذات سے انکی تائید ونصرت کی ہے۔

نیز ینابیع المودت ص۲۳۴ حدیث نمبر۱۹ میں کتاب السبعین امام الحرم سے بحوالہ مناقب فقیہ واسطی ابن مغازلی شافعی میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودت القربی مودت ششم میں دو حدیثیں، خطیبخوارزمی نے مناقب میں، ابن شیرویہ نے فردوس میں اور ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں سب نے جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"مكتوب‏ على‏ باب‏ الجنّة، لا إله إلّا اللّه محمّد رسول اللّه، عليّ أخو رسول اللّه قبل أن تخلق السّماوات و الأرض بألفي عام"

یعنی

۲۱۶

۲۱۷

۲۱۸

یعنی پس درخت کے نیچے سے ان کو آواز دی کہ غم نہ کرو کیونکہ خدا نے تمہارے پاؤں کے نیچے چشمہ جاری کردیا ہے اور اپنی طرف درخت خرما کی شاخ کو حرکت دو تاکہ تمہارے لئے تازہ خرمے گریں پس ان کو کھاؤ اور پانی پیو اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھو، اور اگر کسی آدمی کو دیکھو کہ (اشارے سے) کہو کہ میں نے خدا کے لئے ( خاموشی کے ) روزے کی نذر کی ہے۔ لہذا آج کسی شخص سے بات نہیں کروں گی۔) پس جس طرح وحی یا منادی کی آواز کے ذریعے شہد کی مکھی او نو خابذ مادر حضرت موسی اورمریم مادر حضرت عیسی کو ہدایت دی ہے حالانکہ ان میں سے کوئی پیغمبر نہیں تھا، اسی طرح جناب ابوطالب کو بھی اپنے فرزند کا نام رکھنے کے لیے ہدایت دی۔

نیز کسی نے یہ نہیں کہا کہ جناب ابوطالب پیغمبر تھے یا ان پر وحی نازل ہوئی بلکہ نداۓ آسمانی اور ایک لوح کے نزول سے جس میں نوزائیدہ بچے کا نام رکھنے کی ہدایت درج تھی ان کی رہنمانی کی گئی، چنانچہ خود آپ کے اکابر علمائ نے اس کو اپنی معتبر کتابوں میں تحریر کیا ہے۔

نام علی(ع) کے لئے ابوطالب(ع) پر لوح کا نزول

میر سید علی ہمدانی فقیہ شافعی نے مودۃ القربی کی مودت ہشتم میں بروایت عباس ابن عبدالمطلب جس کو سلیمان بلخی حنفی نے بھی ینابیع المودت باب۵۶ میں نقل کیا ہے، اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے سو۱۰۰ باب کےبعد باب۷ میں الفاظ کے مختصر اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جب علی علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو آپ کی ماں فاطمہ نے اپنے باپ کے نام پر آپ کا نام اسد رکھا۔ جناب ابوطالب اس نام پر راضی نہیں ہوۓ اور فرمایا کہ فاطمہ آؤ آج رات کو ہم لوگ کوہ قبیس پر چلیں ( بعض نے کہا ہے کہ فرمایا مسجد الحرام میں چلیں) اور خدا سے دعا کریں شاید وہ ہم کو اس بچے کے لئے کسی نام کی خبر دے، جب رات ہوئی تو دوںوں کوہ ابوقبیس پر( یا مسجد الحرام میں) پہنچ کر دعا میں مشغول ہوۓ اور جناب ابوطالب نے دعا کو نظم کر کے اس طرح کہا:

يا ربّ‏ هذا الغسق‏ الدجيّ‏ و القمر المبتلج المضيّ‏

بيّن لنا من(عن)امرك الخفی(لمقضيّ)‏ما ذا ترى في اسم ذا الصبيّ؟

لما تسمی لذاک العبی

۲۱۹

یعنی اے اس اندھیرے رات اور روشن ومنور چاند یا صبح کے پروردگار! اپنے امر پہناں یا اپنی مرضی سے ہم پر ظاہر کردے کہ تو اس بچے کا نام کیا تجویز کرتا ہے؟ اس وقت آسمان کی طرف سے ایک آواز آئی، ابوطالب نے سر اٹھایا تو زبرجد سبز کے مانند ایک لوح نظر آئی جس پر چار سطریں لکھی ہوئی تھیں، انہوں نے لوح کو لے کر اپنے سینے سے لگایا اور پڑھا تو یہ اشعار درج تھے:

خُصِّصْتُمَا بِالْوَلَدِ الزَّكِيِ‏ وَ الطَّاهِرِ الْمُنْتَجَبِ الرَّضِيِ‏

واسْمُهُ مِنْ قاهِرِالعَلِيٍ‏ عَلِيٌّ اشْتُقَّ مِنَ الْعَلِيِ‏

یعنی میں نے تم دنوں کو پاک و پاکیزہ اور منتخب و پسندیدہ فرزند کے ساتھ مخصوص کیا۔ اس کا نام خداۓ علی کی جانب سے علی(ع) رکھا گیا ہے جو علی اعلیٰ سے مشتق ہے۔

گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں نقل کیا ہےکہ ایک آواز آئی جس نے ابوطالب کے جواب میں ی دو شعر سناۓ

یا اهلبیت المصطفی النبیخصصتم بالولدالزکی

ان اسمهم نشامخالعلیعلیاشتق من العلی

یعنی اے برگزیدہ پیغمبر کے گھر والوں میں نے ایک پاک و پاکیزہ بچے سے تم کو خصوصیت دی۔ یقینا اس کا نام خداۓ بزرگ و برتر کی طرف سے علی رکھا گیا ہے جو اس کے نام"علی" سے مشتق ہے۔

"سرّ ابوطالب سرورا عظيما وخر ساجد الله تبارک وتعالیٰ"

یعنی پس ابوطالب کو انتہائی مسرت و شادمانی حاصل ہوئی اور خداۓ عزوجل کے لئے سجدے میں گر پڑۓ۔

اس کے بعد اس امر عظیم کے شکرانے میں دس اونٹ قربانی کئے اور اس لوح کو مسجد الحرام میں لٹکا دیا بنی ہاشم اس لوح کی وجہ سے قریش پر فخر کرتے تھے اور وہ اسی طرح رہی یہاں تک کہ عبداللہ ابن زبیر سے حجاج کی جنگ کے زمانے میں غائب ہوگئی۔

یہ روایت بھی مذکورہ بالا روایتوں اور دلیلوں کیتائید کرتی ہے کہ ابوطالب ہمیشہ سے موحد اور با ایمان تھے چنانچہ اسی بنا پر خدا سے نام معین کرنے کا سوال کیا اورجس وقت رحمت الہی کا ایسا فیضان دیکھا تو خاک پر گر پڑے اور خداۓ وحدہ لاشریک کا سجدہ بجالاۓ۔ آیا ایسا شخص جو ایک جدید نعمت سےسر فراز ہوتے ہی خاک پر گر کے خدا کا سجدہ ادا کرے اس کو مشرک کہا جاسکتا ہے؟ خدا کی پناہ اس جاہلانہ تعصب وعناد سے۔

علی(ع) کا نام اذان و اقامت کا جزئ نہیں ہے

آپ نے جو یہ فرمایا کہ شیعہ فقہا کے فتوے سے اذان و اقامت میں علی علیہ السلام کا نام لینا واجب سمجھا جاتا ہے

۲۲۰

تو یہ آپ کا جان بوجھ کے انجان بننا ہے، بہتر ہوتا کہ آپ ایسے کسی ایک ہی فتوے کا پتہ دیتے جس میں حضرت کے نام کو اذان و اقامت کا جزئ کہا گیا ہو۔ در آں حالیکہ ساری استدلالی کتابوں اور عملیہ رسالوں میں تمام شیعہ فقہائ نے بالاتفاق یہی بیان کیا ہے کہ ولایت حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شہادت جزئ ایمان نہیں ہے اور اس کو اذان واقامت میں بقصد جزئیت کہنا حرام ہے، اگرنیت کے وقت مجموعی طور پر حضرت کے نام کےساتھ قصد کیا جاۓ تو نہ صرف یہ کہ فعل حرام ہوگا بلکہ عمل بھی باطل ہو جاۓ گا۔ البتہ رسول (ص) خدا کا نام ذکر کرنے کے بعد بغیر قصد جزئیت کے تیمن و تبرک کی نیت سے علی علیہ السلام کا نام لینا مطلوب و مستحسن ہے، اس لئے کہ خدا نے ہر مقام پر پیغمبر(ص) کے نام کے بعد آپ کا نام لیا ہے، جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے۔ پس آپ حضرات بلاوجہ شور و ہنگامہ مچاتے ہیں۔ غالبا اسی قدر کافی ہوگا لہذا ہم پھر اصل مطلب پر آتے ہیں کہ اگر آپ حضرات ذرا گہری نظر ڈالیں تو ثابت ہوگا کہ نسل و نسب کے اعتبار سے صحابہ کبار میں سے ایک بھی امیرالمومنین علی علیہ السلام کا مثل نہیںتھا۔

علی علیہ السلام کا زہد و تقویٰ

رہا زہد و تقوی اور پرہیزگاری کا موضوع تو یہ حضرت کی وہ خصوصیت ہے جس میں عالم کے اندر کوئی دوسرا آپ کی برابری نہیں کہ سکتا، کیونکہ امت کے اندر دوست دشمن سبھی کا اجماع ہے کہ رسول خدا(ص) کے بعد کوئی امیرالمومنین سے زیادہ عابد و زاہد اور متقی شخص نہیں دیکھا گیا، چنانچہ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور محمد ابن طلحہ شافعی مطالب السئول میں بنی امیہ کی مشہور فرد عمرابن عبدالعزیز سے نقل کرتے ہیں کہ آپ پرہیزگاری میں اپنے زمانے کے سارے انسانوں سے بلند و ممتاز تھے، وہ کہتے ہیں:

"مَا عَلِمْنَا أَحَداً كَانَ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ النَّبِيِّ أَزْهَدَ مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ."

یعنی ہم نہیں جانتے کہ رسول خدا(ص) کے بعد اس امت میں کوئی شخص علی ابن ابی طالب سے زیادہ زاہد و پرہیزگار رہا ہو۔

ملا علی توشطی اپنے انتہائی تعصب کے با وجود اپنی کتاب کے اکثر مقامات پر کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام کے بارے میں عقلمندوں کی عقلیں مبہوت ہیں کیونکہ آپ نے پچھلے اور اگلے لوگوں کے کارناموں پر خط نسخ کھینچ دیا اور شرح تجرید میں کہتے ہیںکہ انسان علی علیہ السلام کے حالات اور طریقہ زندگی کو سن کر دم بخود ا ور حیران رہ جاتا ہے۔

عبداللہ بن رافع کی روایت

من جملہ عبداللہ رافع کی روایت ہے کہ ایک روز میںافطار کے وقت امیرالمومنین علیہ السلام کے یہاں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت کے سامنے ایک سر بہر کیسہ لایا گیا، جب آپ نے اس کو کھولا تو اس میں بغیر چھنا ہوا آٹا تھا جس میں کافی بھوسی ملی تھی۔

۲۲۱

آپ نے اس میں سے تین مٹھی آٹا لے کرنوش فرمایا اور اوپر سے ایک گھونٹ پانی پی کر شکر خدا بجا لاۓ۔ مین نے عرض کیا کہ یا اباالحسن آپ نے تھیلی کے منہ پر مہرکس لئے لگائی ہے؟ فرمایا اس لئے کہ حسنین (علیہما السلام) چونکہ مجھ سے محبت کرتے ہیں لہذا ہوسکتا ہے کہ اس میں روغن زیتوں یا شیرینی شامل کردیں اور علی کا نفس اس کا کھانے سے لذت حاصل کرے۔

بدیہی چیز ہے کہ دنیا کی مباح لذتوں میں بھی نفس کو آزادی دینے سے رفتہ رفتہ بغاوت وسرکشی پیدا ہوتی ہے جو آدمی کو خدا کی یاد سے غافل کردیتی ہے۔

علی علیہ السلام اپنے نفس کو اسی بنا پر لذیذ غذاؤں سے باز رکھتے تھے تاکہ نفس کا غلبہ نہ ہوجاۓ اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب51 میں اس روایت کو احنف بن قیس سے نقل کیا ہے۔

سوید بن غفلہ کی روایت

نیز شیخ نے ینابیع المودت میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں اور طبری نے اپنیتاریخ میں سوید بن غفلہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں میں ایک روز امیرالمومنین کی خدمت میں مشرف ہوا تو دیکھا کہ ایک ایسے کھٹے دودھ کا پیالہ حضرت کے سامنے رکھا ہوا ہے کہ اس کی ترشی کی بو میری ناک تک آرہی تھی اور ایک بھوسی ملی ہوئی سوکھی روٹی دست مبارک میں ہے جو اس قدر خشک ہے کہ توڑے نہیں ٹوٹتی۔ حضرت اس کو زانوۓ مبارک سے دبا کرتوڑتے تھے اور اس کھٹے دودھ میں نرم کر کے تناول فرماتے تھے، مجھ کو کھانے کی دعوت دی تو میں نے عرض کیا کہ میں روزے سے ہوں، فرمایا، میں نے اپنے حبیب حضرت رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ جو شخص روزے سے ہو اور کسی کھانےکی طرف رغبت کرے پھر خدا کے لئے اس کو نہ کھاۓ تو خدا اس کو بہشت کے کھانے کھلاۓ گا۔

سوید کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی حالت پر میرا دل تڑپ اٹھا۔ میں نے حضرت کی خادمہ فضہ سے جو میرے قریب ہی تھیں کہا کہ تم خدا سے نہیں ڈرتیں جو بغیر جو کی بھوسی نکالے ہوۓ روٹی پکاتی ہو؟ فضہ نے کہا خدا کی قسم خود حضرت نے حکم دیا ہے کہ بھوسی نہ نکالی جاۓ۔

حضرت نے فرمایا تم فضہ سے کیا کہہ رہے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ کہا تھا کہ آٹے کی بھوسی کیوں نہیں نکالتیں؟ حضرت نےفرمایا میرے ماں باپ فدا ہوں رسول اللہ(ص) پر کہ آں حضرت(ص) بھوسی الگ نہیں فرماتے تھے اور کبھی تین روز تک برابر گیہوں کی روٹی سے سیر نہیں ہوۓ یہاں تک کہ دنیا سے اٹھ گئے (یعنی میں رسول خدا(ص) کی تاسی کرتا ہوں)

۲۲۲

علی علیہ السلام کا حلوا نہ کھانا

موفق بن احمد خوارزمی اور ابن مغازلی فقیہ شافعی ا پنےمناقب میں نقل کرتے ہیں کہ خلافت ظاہری کے زمانے میں ایک روز علی علیہ السلام کے لئے عمدہ حلوا لایا گیا، آپ نے انگشت مبارک سے تھوڑا سا اٹھا کر سونگھا اور فرمایا کس قدر خوش رنگ اور خوشبودار ہے لیکن علی اس کے مزے سے واقف نہیں( مطلب یہ کہ میں نے اب تک حلوا کھایا ہی نہیں) میں نے عرض کیا یا علی(ع)، کیا حلوا آپ کے لئے حرام ہے؟ فرمایا حلال خدا حرام نہیں کرتا لیکن میں خود اپنا شکم کیوں کر سیر کروں جب کہ ملک میں بہت سے بھوکے پیٹ والے بھی موجود ہیں۔

" ایت بطنا فاوحول الحجاز بطون عوثی و اکباد حرا و کیف ارضی بان اسمی امیرالمومنین ولا اشارکهم فی خشونةالعسروشدائدالضروالبلوی"

یعنی کیا میں شکم سیر ہو کر سوؤں حالانکہ اطراف حجاز میں گرسنہ پیٹ اور بھنتے ہوۓ جگر موجود ہیں؟ میں کس طرح رضامند ہوں اس پر کہ میرا نام امیرالمومنین ہو اور عسرت کی سختی اور رنج و بلا کے شدائد میں ان کا شریک نہ بنوں؟

نیز خوارزمی عدی بن ثابت سے نقل کرتے ہیں کہ ایک روز آپ کے لئے فالودہ لایا گیا لیکن آپ نے اپنے نفس کو دبا دیا اور اس کو نوش نہیں فرمایا۔

یہ ہیں حضرت کی خوارک کے نمونے کہ کبھی سرکہ کبھی نمک کبھی تھوڑی سبزی اور کبھی دودھ کے ساتھ جو کی سوکھی ہوئی روٹی تناول فرماتے تھے اور کسی وقت ایک دسترخوان پر دو قسم کی غذائیں مہیا نہیں فرماتے تھے۔ سنہ 40 ہجری میں ماہ رمضان المبارک کی انیسویں شب جس میں عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کے ہاتھ سے حضرت کو ضربت شہادت لگی، آپ افطار کے لئے اپنی بیٹی ام کلثوم کے مہمان تھے دسترخوان پر روٹی و دودھ اور نمک رکھا گیا تو باوجودیکہ اپنی بیٹی ام کلثوم کو انتہائی عزیز رکھتے تھے حضرت نے غصے کے ساتھ فرمایا کہ میں نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ کوئی لڑکی اپنے باپ پرتمہاری طرح جفا کرے۔ام کلثوم نے عرض کیا کہ بابا میں نے کون سی جفا کی ہے؟ فرمایا تم نے کب دیکھا ہے کہ تمہارا باپ ایک دسترخوان پر دو طرح کی غذائیں جمع کرے؟ پھر حکم دیا کہ دودھ اٹھا لیا جاۓ کیوں کہ وہ زیادہ لذیذ تھا، اور روٹی کے چند لقمے نمک کے ساتھ تناول فرماۓ اس کے بعد ارشاد فرمایا:

"في‏ حلال‏ الدنيا حساب و في حرامها عذاب عقاب "

یعنی دنیا کے حلال میں حساب اور اس کے حرام میں عذاب وعقاب ہے۔

علی علیہ السلام کا لباس

حضرت کا لباس بھی بہت سادہ اور کم قیمت ہوتا تھا۔ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، ابن مغازلی فقیہ شافعینے

۲۲۳

مناقب میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ میں اور آپ کے دیگر علمائ نے لکھا ہے:

"و کان علیهإزار غليظ اشتراه بخمسة دراهم، "

یعنی آپ کا لباس موٹے کپڑے کا تھا جو آپنے پانچ درہم میں خریدا تھا۔

جہاں تک ممکن ہوتا تھا آپ اپنے لباس میں پیوند لگاتے رہتے تھے اور زیادہ تر پیوند چمڑے یا خرمے کی چھال کے ہوتے تھے۔ حضرت کی کفش لیف خرما کی ہوتی تھی۔ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے لباس میں اتنے پیوند لگاۓ تھے کہ حضرت کی خلافت و ریاست ظاہری کے زمانے میں اس کو دیکھ کر آپ کے ابن عم عبداللہ ابن عباس کو صدمہ ہوا تو آپ نے فرمایا :

"لقد رفعت مرقعةحتی استحییت من راقعه امالعلی من زینةالدنیاکیف نفرح بلذة تفنی ونعیم لایبقی"

میں نے اس قدر پیوند کے اوپر پیوند لگواۓ ہیں کہ مجھ کو پیوند لگانے والے سے شرم آنے لگی ہے۔ علی کو زینت دنیا سے کیا کام؟ میں کیونکر خوش ہوں اس لذت پر جو مٹ جاۓ گی اور اس نعمت پر جو باقی نہ رہے گی۔

ایک اور شخص نے حضرت پر اعتراض کیا کہ آپ ریاست وخلافت کے زمانے میں بھی کس لئے پیوند دار کپڑے پہنتے ہیں جس سے دشمن آپ کو حقیر سمجھتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ یہ وہ لباس ہے جو دل کو دباتا ہے، غرور کو انسان سے دور کرتا ہے اور مومن اس کی اقتدا کرتا ہے۔

نیز محمد بن طلحہ نے مطالب السئول میں، خوارزمی نے مناقب میں، ابن اثیر نے کامل میں اور سلیمانبلخی نے ینابیع المودۃ میں روایت کی ہے کہ علی علیہ السلام اور ان کے غلام کا لباس یکساں ہوتا تھا۔ آپ ایک نمونے اور ایک ہی قیمت کے دو کپڑے خریدتے تھے۔ ایک خود پہنتے تھے اور دوسرا اپنے غلام قنبر کو دےدیتے تھے۔ یہ تھی حضرت علی علیہ السلام کی خوراک و پوشاک کی مختصر کیفیت جس کو آپ کے علمائ نے بھی درج کیا ہے، اور میں نے وقت جلسہ کے لحاظ سے اختصار کی کوشش کی ہے ورنہ حضرت کے مفصل حالات محیرالعقول ہیں۔ حضرت جو کی خشک روٹی خود کھاتے تھے اور گیہوں کی روٹی شکر شہد اور خرما فقیروں، یتیموں اور محتاجوں کو کھلاتے تھے، خود پیوند دار لباس پہنتے تھے لیکن یتیموں اور بیواؤں کو نفیس کپڑے پہناتے تھے۔

معاویہ سے ضرار کی گفتگو

حضرت کے زہدو تقوی اور دنیا سے بے اعتنائی کے ثبوت میں آپ کا وہ کلام کافی ہے جس کے سامنے دنیاۓ دنی سے کسی اور کا خطاب نہیں ٹھہر سکا۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح النہج البلاغہ میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیائ جلد اول ص84 میں، شیخ عبداللہ بن عامر شیراذی شافعی نے کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص8 میں، محمد بن طلحہ نے مطالب السئول ص33میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص128 میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب51 میں، سبط ابن جوزی

۲۲۴

نے تذکرۃ الخواص الامہ آخر باب5 میں اور آپ کے دوسرےبڑے بڑے علمائ مورخین نے ضرار بن ضمرہ کے ساتھ معاویہ کے جو مفصل مذاکرات نقل کئے ہیں ان میں ضرار نے معاویہ کے سامنے آخر گفتگو میں علی علیہ السلام کی تعریف اس طرح کی ہے:

" لقد رأيته‏ في‏ بعض‏ مواقفه و قد أرخى الليل سدوله و غارت نجومه قابض على لحيته يتململ تململ السقيم و يبكي بكاء الحزين و يقول يَا دُنْيَا غُرِّي غَيْرِي أَ بِي تَعَرَّضْتِ أَمْ إِلَيَّ تَشَوَّقْتِ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ طَلَّقْتُكِ ثَلَاثاً لَا رَجْعَةَ لِي فِيكِ فَعُمُرُكِ قَصِيرٌ و خطرک کبیر وَ عیشک حَقِيرٌ آهِ مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وَ بُعْدِ السَّفَرِ وَ وَحْشَةِ الطَّرِيقِ فبکی معاوية و قال رحم الله اباالحسن لقد كان و الله كذلك "

یعنی میں نے بعض مواقع پر علی علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ رات کی تاریکی چھائی ہوئی ہے، ستارے چھٹکے ہوۓ ہیں اور آپ اپنی ریش مبارک کو پکڑے ہوۓ مارگزیدہ کے مانند تڑپ رہے ہیں اور بہت کرب کے ساتھ رو رو کر کہہ رہے ہیں کہ اے دنیا میرے علاوہ کسی اور کو فریب دے، کیا تو مجھ سے لپٹتی ہے اور میری طرف راغب ہے؟ تو یہ بات کو سوں دور ہے، میں نے تجھ کو تین طلاق دۓ ہیں جس کے بعد پھر رجوع نہیں ہوسکتا ہے، کیوں کہ تیری عمر کوتاہ، تیرا خطرہ بہت بڑا اور تیرا عیش بہت ذلیل ہے فریاد ہے زاد راہ کی کمی ہے، سفر کی دوری سے اور راستے کی وحشت سے۔ پس معاویہ نے رونا شروع کیا اور کہا خدا رحم کرے ابوالحسن (علی) پر واللہ یقینا وہ ایسے ہی تھے۔

دوسرے مقام پر معاویہ ہی کا قول ہے" عقمت‏ النساء أن يلدن مثل علي ابن ابی طالب" یعنی عورتیں علی ابن ابی طالب ایسا انسان پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔

زہد کے لئے علی علیہ السلام کو پیغمبر(ص) کی بشارت

امیرالمومنین علیہ السلام کا زہد فیوض ربانی میں سے ایک ایسا فیض ہے جس کی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو بشارت دی ہے۔چنانچہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب46 میں عمار یاسر سے ایک روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے حضرت رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ علی علیہ السلام سے فرمایا:

"إن اللّه قد زيّنك‏ بزينة لم يزيّن العباد بزينة أحبّ الى اللّه الزهد في الدنيا و جعلك لا تفال من الدنیا شيئا، و لا تنال الدنیا منک شیئاو وهب لك حبّ المساكين، فرضوا بک اماما و رضیت اتباها فطوبی لمن احبک و صدق فیکو ويل لمن أبغضك و كذب عليك، فأما الذین أحبّوك و صدقوا فيك، فاولئك جيرانك في دارك و رفقائک فی قصرک، وأما الذینأبغضوك و كذبوا عليك، فحقّ على اللّه أن يوقفهم موقف الكذابين یومالقیمة."

یعنی در حقیقت خداوند عالم نے تم کو اس زینت سے آراستہ کیا ہے کہ بندوں میں کسی اور کو ایسی زینت سے نہیں سنوارا جو خدا کے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہو، اور وہ ہے زہد فی الدنیا۔ تم کو ایسا بنا دیا کہ نہ تم دنیا سے

۲۲۵

بہرہ اندوز ہوتے ہو نہ دنیا تم کو اپنے سے وابستہ کرسکتی ہے۔ تم کو مسکینوں اور محتاجوں کی محبت عطا کی پس وہ تمہاری امامت پر راضی ہوۓ اور میں بھی ان سے تمہاری پیروی کی وجہ سے رضامند ہوا۔ پس خوشا حالی اس کا جس نے تم کو دوست رکھا اور تمہاری تصدیق کی، اور واۓ ہو اس کے لئے جو تم سے دشمنی رکھے اور تمہاری تکذیب کرے۔ جن لوگوں نے تم سے محبت رکھی اور تمہاری تصدیق کی وہ جنت میں تمہارے پڑوسی اور تمہارے قصر میں تمہارے مصاحب ہوں گے، اور جن لوگوں نے تم کو دشمن رکھا اور تم کو جھٹلایا تو خدا پر لازم ہے کہ قیامت کے روز ان کو جھوٹوں کی منزل پر ٹھہرا کر کیفر کردار کو پہنچاۓ۔

آپ زہد و روع اور پرہیزگاری میں اس قدر کامل تھے کہ دوست و دشمن سبھی آپ کو امام المتقین کہتے تھے۔ اور صرف لوگوں ہی نے آپ کو امام المتفقین کا لقب نہیں دیا تھا بلکہ جس نے سب سے علی(ع) کو اس لقب سے پکارا اور آپ کو باربار اس لقب کے ساتھ امت میں روشناس کرایا وہ حضرت خاتم الانبیائ(ص) کی مقدس ذات تھی، چونکہ وقت تنگ ہے اور تفصیل سے روایتیں پیش کرنے کا موقع نہیں ہے، لہذا صرف نمونے کے لئے چند حدیثوں پر اکتفا کرتا ہوں۔

خدا و رسول(ص) نے علی(ع) کو امام المتقین فرمایا

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص450 میں، حافظ ابونعیم اصفہانی حلیتہ الاولیائ میں، میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب54 میں انس ابن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اکرم(ص) نے مجھ سے فرمایا اے انس میرے واسطے وضو کا پانی لے آؤ، میں اٹھ کر پانی لایا تو آں حضرت(ص) وضو کر کے دو رکعت نماز بجالاۓ۔ اس کے بعد مجھ سے فرمایا اے انس:

"‏ أول‏ من‏ يدخل‏ من‏ هذا الباب هو إمام المتقين، و سيد المسلمين، و يعسوب المؤمنين، و خاتم الوصيين، و قائد الغر المحجلين"

پہلا جو شخص اس دروازے سے داخل ہو وہ اہلِ تقوے کا امام، مسلمانوں کا سردار، مومنین کا بادشاہ( جس طرح شہد کی مکھیوں کا بادشاہ یعسوب ہوتا ہے) اوصیائ کا خاتم اور روشن چہروں اور ہاتھوں والے لوگوں کو (جنت کی طرف) لے جانے والا ہے۔

انس کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا خداوند اس آنے والے کو اںصار میں سے قرار دے، لیکن اپنی دعا کو پوشیدہ رکھا۔ اتنے میں دیکھا کہ علی(ع) دروازے سے داخل ہوۓ۔ پیغمبر(ص) نے فرمایا کون ہے؟ میں نے عرض کیا علی ابن ابی طالب ہیں پس آنحضرت(ص) نے ہنسی خوشی کے ساتھ اٹھ کر علی(ع) کا استقبال کیا، ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور ان کے چہرے سے پسینہ پونچھا۔ علی(ع) نے عرض کیا رسول اللہ(ص) آج مجھ سے وہ برتاؤ کر رہے ہیں جو پہلے نہیں کرتے تھے؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا کیونکر نہ کروں در آں حالیکہ تم میری جانب سے میری رسالت کو امت والوں تک پہنچاؤگے، میری آواز ان کو سناؤگے اور میرے بعد وہ جس چیز میں اختلاف کریں گے ان کے سامنے اس کی وضاحت کرو گے۔

۲۲۶

نیز ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد دوم میں اور حافظ ابونعیم حلیتہ الاولیائ میں نقل کرتے ہیں کہ ایک روز علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے پاس حاضر ہوۓ تو آں حضرت نے فرمایا :مرحبابسید المسلمین و امام المتقین (یعنی خوش آمدید ہے مسلمانوں کے سردار اور پرہیزگاروں کے امام کو۔ 12 مترجم) پھر فرمایا کہ اس نعمت پر تمہارا شکر کیسا ہے؟ عرض کیا کہ میں حمد کرتا ہوں خدا کی اس نعمت پر جو مجھ کو عنایت کی ہے اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ مجھ کو شکر کیتوفیق عطا فرماۓ اور جو کچھ مجھ پر انعام فرمایا ہے اس میں اضافہ کرے۔ محمد بن طلحہ شافعی بھی مطالب السئول باب اول فصل چہارم کے آخر میں اس حدیث کو نقل کرتے ہیں اور اسی دلیل سے اہل تقوی پر حضرت کی امامت اور برتری کو ثابت کرتے ہیں۔

حاکم مستدرک جزئ سیم ص138 میں اور بخاری و مسلم اپنی صحیحیں میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا علی(ع) کے بارے میں مجھ پر تین چیزوں کی وحی ہوئی۔

"انه سيد المسلمين،و إمام المتقين، و يعسوب المؤمنين، و قائد الغر المحجلين"

یعنی در حقیقت وہ مسلمانوں کے سید و آقا، اہل تقوےٰ کے پیشوا اور روشن چہرے اور ہاتھ والوں کو ( بہشت کی طرف) کھینچنے والے ہیں۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب45 میں سند کے ساتھ عبداللہ بن اسعد بن زرارہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا، شب معراج جب مجھ کو آسمان پر لے گئے تو موتی کے ایک قصر میں پہنچایا، جس کا فرش چمکتے ہوۓ سونے کا تھا:

" فأوحي إلى في علي بثلاث خصال بأنه سيد المسلمين و إمام المتقين و قائد الغر المحجلين"

یعنی پس میری طرف وحی کی اور مجھ کو علی کے بارے میں تین خصلتوں کی ہدایت کی کہ وہ یقینا مسلمانوں کے سیدو سردار، اہل تقوی کے امام و پیشوا اور روشن چہرے اور ہاتھوں والوں کو ( جنت کی طرف) کھینچنے والے ہیں۔

اور امام احمد بن حنبل مسند میں نقل کرتے ہیں کہ ایک روز رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے خطاب فرمایا:

" يا علي، النظر علی وجهک عبادةانک امام المتقین و سید المؤمنینمن‏ احبك‏ فقد احبني‏، و من احبنيفقد احب اللّه و من ابغضک فقد ابغضني، و من ابغضنيفقد أبغض اللّه "

یعنی اے علی(ع) تمہارے چہرے پر نظر کرنا عبادت ہے یقینا تم صاحبان تقوی کے امام او مومنین کے سردار ہو جو شخص تم کو دوست رکھے اس نے در حقیقت مجھ کو دوست رکھا اور جو شخص مجھ کو دوست رکھے اس نے در اصل خدا کو دوست رکھا۔ اور جو شخص تم سے دشمنی رکھے اس نے حقیقتا مجھ سے دشمنی رکھی اور جس نے مجھ سے دشمنی رکھی اس نے یقینا خدا سے دشمنی رکھی۔

یہ صحیح ہے کہ ذلیل اور بے عقل اور خوشامدی لوگ اور اکثر بے بصیرت اشخاص بعض افراد کا بے جا القاب و آداب اور غلط تعریف و توصیف کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جیسا کہ اکثر سلاطین و امرا اور وزارائ و خلفائ کے بارے میں کہا گیا ہے اور ارباب تواریخ نے بھی اس کو درج کیا ہے لیکن رسول خدا(ص) جیسی ہستی سے جو حق و حقیقت کا مجسمہ تھی ایک لمحے کے لئے بھی اس کی توقع نہیں ہوسکتی کہ آپ کسی شخص کو ایسے لقب یا صفت کے ساتھ یاد کریں گے جو اصلیت سے دور ہو بلکہ صاحب وحی کی زبان مبارک پر جو کچھ بھی جاری ہوجاۓ وہ یقینا عین حقیقت اور بمصداق آیہ شریفہ:

" وَ ما يَنْطِقُ‏ عَنِ الْهَوى‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحى‏"

۲۲۷

یعنی وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ بولتے ہی نہیں، وہ جو کچھ کہتے ہیں خالص وحی الہی ہوتی ہے۔

وحی مطلق، بالخصوص جب خودہی یہ فرمائیں کہ پروردگار نے شب معراج مجھ کو وحی فرمائی اور حکم دیا کہ علی کو امام المتقین کہوں۔

پس امیرالمومنین علی علیہ السلام کی عظمت و فضیلت اور تقوی کی تعریف میں یہی کافی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے خدا کے حکم سے آپ کو ایسی خصوصیت کے ساتھ مخصوص فرمایا جو کسی دوسرے صحابی کو نصیب نہیں ہوئی۔ تمام صحابہ کے نزدیک آپ کو امام المتقین قرار دیا۔ اور باربار اس لقب سے مخاطب فرمایا امام کو قطعا مکمل طور پر متقی ہونا چاہئیے تاکہ اہل تقوی کا پیشوا بن سکے، اس لئے کہ امام کے تقوی کو صاحبان تقوی کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ عمل ہونا چاہیئے۔

اگر میں علی علیہ السلام کے زہد و ورع اور تقوی کے سارے پہلوؤں کو شرح و بسط سے بیان کرنا چاہوں تو پورا دفتر بھی ناکافی ہے۔

شیخ : آپ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں جس قدر فرمائیے کم ہوگا۔ واقعی معاویہ نے سچ ہی کہ ہے کہ دنیا کی عورتیں علی ابن ابی طالب ایسا انسان پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔

خیر طلب: پس معلوم ہوا کہ کبارصحابہ کے درمیان علی علیہ السلام اہل تقوی کے سرگروہ تھے جن کو رسول اکرم(ص) حضرت خاتم الانبیائ نے خداۓ تعالیٰ کے حکم و ہدایت سے امام المتقین اور پرہیزگاروں کا پیشوا قرار دیا ہے لہذا جس طرح آپ روحانی و جسمانی حیثیت سے نسل و نسب میں ممتاز و مقدم تھے اسی طرح تقوے کی حیثیت سے بھی آپ کو برتری اور حق تقدم حاصل تھا۔

اس جگہ ایک مطلب نظر کے سامنے آگیا ہے، اگر اجازت ہو تو آپ سے ایک بات دریافت کروں؟

شیخ : بہتر ہے، فرمائیے۔

خیر طلب : آیا صحابہ کبار کے درمیان امامت اہل تقوےٰ کی اہلیت رکھنے کے بعد علی علیہ السلام کے لئے آپ نفس پرستی محبت جاہ و منصب اور دنیا طلبی کا شبہ کرتے ہیں؟

شیخ : یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق ایسا خیال پیدا ہو۔ جیسا کہ خود آپ نے فرمایا اور مشہور بھی ہے، جو شخص دنیا کو تین طلاق دے دے اور اس کا اعلان کر کے دنیا سے اپنی بے اعتنائی کو ثابت کر دے وہ کیونکر دنیا کی طرف مائل ہوسکتا ہے؟ اس کے علاوہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا مقام ومرتبہ اس سے بالاتر ہے کہ ہم ان جناب کی طرف ایسی نسبت دیں، بلکہ ایسا کرنا تو درکنار اس چیز کا تصور بھی محال ہے۔

خیر طلب : پس آپ جیسے مجسم تقوی کے سارے اعمال قطعا خدا کے لئے تھے، آپ نے ایک قدم بھی حق کے خلاف نہیں اٹھایا اور جہاں بھی حق نظر آتا تھا آپ بے اختیار اس کا استقبال کرتے تھے۔

شیخ : بدیہی چیز ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ہم کو اس کے خلاف کوئی سراغ نہیں ملتا۔

۲۲۸

حقیقت پسند منصفانہ فیصلہ کریں

خیر طلب: بس اب یہ فرمائیے کہ رسول اللہ صلعم کی وفات کے بعد جب علی علیہ السلام حسب وصیت آں حضرت(ص) کے غسل و کفن اور دفن میں مشغول تھے اور سقیفہ بنی ساعدہ میں چند اشخاص نے جمع ہو کر ابوبکر کی بیعت کر لی اس کے بعد حضرت کو بیعت کے لئے طلب کیا تو آپ نے کس وجہ سے بیعت نہیں کی؟

اگر ابوبکر کا طریقہ خلافت برحق اور مسئلہ اجماع ثابت و مسلم اور حقانیت کی دلیل تھا تو قاعدے کے لحاظ سے اس قدر شدید تقوی و پرہیزگاری کی موجودگی میں علی علیہ السلام کو ہرگز پہلو تہی اور حق سے انحراف نہ کرنا چاہیئے تھا، اس لئے کہ ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق جہاں حق ہو وہیں علی کو بھی ہونا چاہیئے، ایک طرف توتقوی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ متقی انسان حق سے روگردانی نہ کرے اور دوسری طرف وہ احادیث ہیں جو میں گذشتہ راتوں میں پیش کرچکا ہوں کہ رسول اللہ(ص) نےفرمایا:

" علی مع الحق والحق مع علی حیثما دار"( یعنی علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے جدھر وہ گردش کریں اگروہ اقدامات برحق اور منصب خلافت پر ابوبکر کا تعین صحیح تھا تو چاہیئے تھا کہ حضرت انتہائی رغبت اور پوری دلچسپی کے ساتھ ان لوگوں کا استقبال اور تصدیق کرتے نہ یہ کہ الٹی مخالفت کرتے، پس لامحالہ علی علیہ السلام کی مخالفت دو حال سے خالی نہیں تھی۔ یا تو علی کی روش حق کے خلاف تھی اور آپ نے حکم رسول(ص) سے سرتابی کی کہ خلیفہ پیغمبر(ص) سے بیعت نہیں کی۔ یا پھر آپ اس طرز خلافت اور طریقہ اجماع کو مصنوعی، سیاسی اور حق کے برخلاف سمجھتے تھے اس وجہ سے بیعت نہیں فرمائی۔

پہلی صورت تو حدیث پیغمبر(ص) کے پیش نظر کہ علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ گردش کرتا ہے، نیز اس لئے کہ آپ کو امام المتقین فرمایا۔ اور علی علیہ السلام قطعا اہل دنیا میں سے نہیں تھے، جاہ وہ منصب کی خواہش اور ہوا و ہوس کی آپ کے دل میں کوئی گنجائش نہ تھی، دنیا کو تین طلاق دے چکے تھے اور ریاست ظاہری کے طلب گار نہیں تھے، قطعا نا ممکن ہے۔ لہذا لازمی طور پر دوسری ہی صورت تھی کہ آپ چونکہ اس خلافت کو مصںوعی، سیاسی اور خدا و رسول(ص) کی مرضی کے خلاف جانتے تھے اس وجہ سے بیعت نہیں فرمائی۔

شیخ: آپ تو عجیب بات فرمارہے ہیں کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے بیعت نہیں کی حالانکہ ہماری اور آپ کی تمام کتب اخبار و تواریخ سے ثابت ہے کہ سیدنا علی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور اجماع سے اختلاف نہیں کیا۔

خیر طلب: تعجب تو آپ سے ہے کہ پچھلی گفتگو کو بالکل بھول ہی گئے جس میں میں نے آپ کا اکابر علمائ کے اقوال تفصیل سے پیش کئے تھے۔ یہاں تک کہ بخاری اور مسلم نے بھی اپنی صحیحیں میں میں لکھا ہے کہ علی نے اس وقت بیعیت نہیں کی۔ آپ کے علمائ نے عام طور سے اعتراف کیا ہے کہ روز اول جب حضرت کو جبر و اہانت کے ساتھ گھر سے کھینچتے ہوۓ مسجد میں لے گئے

۲۲۹

( جیسا کہ پچھلی شبوں میں تفصیل سے عرض کیا جاچکا ہے) تو آپ نے بیعت نہیں کی اور اسی طرح واپس آگئے۔ ابراہیم بن سعد ثقفی متوفی سنہ283ھ ابن ابی الحدید اور طبری وغیرہ نے لکھا ہے کہ حضرت کی بیعت چھ مہینے بعد ہوئی( یعنی صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد جیسا کہ گذشتہ شبوں میں تفصیل سے ذکر ہوچکا ہے)

بفرض محال اگر ہم ان بھی لیں کہ حضرت بیعت کر لی تو کم و بیش چھ ماہ تک کیوں تو ؟؟؟؟ کیا اور بیعت نہیں کی؟ بلکہ اس کے خلاف احتجاج بھی کیا؟ حالانکہ علی(ع) جیسے مجسمہ حق و تقوی فرد کو ایک ساعت کے لئے بھی حق سے منحرف ہونا اور اس کو پسِ پشت ڈال دینا مناسب نہیں تھا۔

شیخ : ضرور کوئی وجہ رہی ہوگی، چنانچہ اس موقع پر وہ خود بہتر سمجھتے تھے کہ کیا کرنا چاہیئے۔ اب ہم کو کیا پڑی ہےکہ بزرگوں کے باہمی معاملات ا ور ان کے اختلاف میں تیرہ سو برص کے بعد دخل دیں؟ ( حاضرین کا زور دار قہقہہ)

خیر طلب: میں بھی آپ کے اسی قدر جواب پر قناعت کرتا ہوں، کیوںکہ جب آپ کو اپنا مطلب ثابت کرنے کے لئے کوئی معقول جواب نہیں ملااور گریز و دفاع کا کوئی راستہ نظر نہ آیا تو اس قسم کے جواب کا سہارا لیا۔ لیکن نیک اور اںصاف پسند اشخاص کے نزدیک بات اس قدر واضحاور روشن ہے کہ کسی دلیل و برہان کی محتاج نہیں۔

رہا آپ کا یہ فرمانا کہ بزرگوں کے معاملات اور اختلافات میں ہم دخل دینے کی ضرورت نہیں، تو یقینا جہاں تک ان کا اور ان کے معاملات کا تعلق ہم سے نہیں ہے آپ کا فرمانا درست ہے اور بزرگوں کے اختلاف آرائ میں ہم کو دخل دینے کا حق نہیں ہے لیکن اس موضوع میں خصوصیت کے ساتھ آپ کو دھوکا ہوا ہے، کیونکہ ہر صاحب عقل مسلمان کا فریضہ ہے کہ تقلیدی نہیں بلکہتحقیقی دین رکھتا ہو۔ اور دین میں تحقیق کا راستہ یہی ہے کہ جب ہم جہمور مسلمین کی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ وفات رسول(ص) کے بعد امت اور صحابہ کبار میں دو فرقے ہوگئے تو ہم کو چھان بین کر کے دیکھنا چاہیئے کہ ان دونوں فرقوں میں سے حق پر کون تھا تاکہ ہم اس کی پیروی کریں نہ یہ کہ بربناۓ عادت اور ماں باپ اور اسلاف کی تقلید میں بغیر کسی جانچ پڑتال کے محض اپنے خیال سے کسی راستے کو حق سمجھ کے اندھا دھند اس پر چلنے لگیں۔

شیخ: آپ یقینا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق نہیں تھی۔ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق نہیں تھی اور یہ منصب علی کرم اللہ وجہہ کا حق تھا تو اپنی مخصوص قوت وشجاعت نیز حق و حقیقت کے نفاذ میں پوری دلچسپی رکھنے کے باوجود جب کہ دوسرے لوگ ان کو ترغیب بھی دے رہے تھے حق کو قائم کرنے کے لیے کیوں نہیں اٹھے یہاں تک کہ بقول آپ کے چھ مہینے کے بعد بیعت(1) بھی کر لی، نماز میں بھی حاضر ہوتے تھے اور مشورہ طلب مواقع پر خلفائ رضی اللہ عنہم کو صائب رائیں بھی دیا کرتے تھے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ یہ خیال در اصل اہل سنت کا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے بیعت کی ہی نہیں جس کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے کہ خلافت کیتیسری منزل میں جب آپ کے سامنے سیرت شیخیں پر عمل کرنے کی شرط رکھی گئی تو باتفاق فریقین آپ نے خلافت ظاہری سے محروم رہنا گوارا کر لیا لیکن اس شرط کو ٹھکرا دیا۔ ظاہر ہے کہ جو شخص کسی کی بیعت کرچکا ہو وہ اس کی سیرت پر عمل کرنے سے انکار نہیں کرسکتا اور پھر علی(ع) جیسا اپنے فرض اور عہد کا پابند انسان 12 مترجم عفی عنہ۔

۲۳۰

تنہائی کی وجہ سے انبیائ(ع) کا سکوت اور گوشہنشینی

خیر طلب: پہلی چیز تو یہ کہ انبیائ(ع) ا وصیائ مشیت خداوندی اور ہدایات الہی کے مطابق عمل کرتے تھےاور اپنا ذاتی ارادہ نہیں رکھتے تھے لہذا ان کے اوپر اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ جنگ کے لئے کیوں نہیں اٹھے یا دشمنوں کے مقابلہ میں سکوت و گوشہ نشینی کیوں اختیار کی یا شکست کیوں کھائی؟

اگر انبیاۓ عظام اور اصیاۓ کرام کے تاریخی حالات دیکھیئے تو اس قسم کے واقعات کثرت سے ملیں گے جو آپ کے خیالات سے میل نہیں کھاتے۔ خصوصیت کے ساتھ قرآن مجید نے بھی ان میں سے بعض کاذکر

کیا ہے کہ ان حضرات نے ہمراہی اورمددگار نہ ہونے کی وجہ سے خاموشی اور گوشہ نشینی یا روپوشی اور فرار اختیار کیا چنانچہ آیت نمبر10 سورہ نمبر54(قمر) میں شیخ الانبیائ حضرت نوح(ع) کا قول بیان کرتا ہے: "فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي‏ مَغْلُوبٌ‏ فَانْتَصِرْ "( یعنی پس خدا سے دعا کی کہ بار الہا میں ا پنی قوم سے مغلوب ہوں لہذا میری مدد کر) آیت نمبر48 سورہ نمبر16( مریم) میں حضرت ابراہیم علی نبینا و آلہ و علیہ السلام کے سکوت و کنارہ کشی کی خبر دیتا ہے کہ جس وقت انہوں نے اپنے چچا آزر سے امداد مانگی اور مایوس کن جواب پایا تو فرمایا:

"وَ أَعْتَزِلُكُمْ‏ وَ ما تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَ أَدْعُوا رَبِّي "

یعنی میں تم سے اور ان بتوں سے جن کی تم خدا کے علاوہ پرستش کرتے ہو کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں۔

پس جس مقام پر اپنے چچا سے امداد اور کمک نہ ملنے کی وجہ سے ابراہیم خلیل اللہ عزلت وگوشہ نشینی اختیار کریں، وہاں یار و مددگار نہ ملنے کی وجہ سے علی علیہ السلام کو بدرجہ اولی عزلت و کنارہ کشی اختیار کرنا چاہیئے۔

شیخ: میرا خیال ہے کہ اس عزلت سے مراد عزلت قلبی ہے کہ ان سے قلبا دوری اور بیزاری اختیار کی نہ کہ عزلت مکانی۔

خیر طلب: اگر جناب عالی فریقین کی تفسریں ملاحظہ فرمائیں تو دیکھیں گے کہ اعتزل سے مراد عزلت مکانی تھی نہ کہ عزلت قلبی مجھ کو یاد ہے کہ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد پنجم ص809 میں کہتے ہیں:

" الاعزال للشئی هوالتباعدعنه ولمرادانی افارقکم فی المکان وافارقکم فی طریقتکم"

یعنی کسی چیز سے اعتزال کے معنی ہیں اس سے دوری اختیار کرنا، اور حضرت ابراہیم کی مراد یہ تھی کہ میں تم سے مکانی اور مذہبی دونوں حیثیتوں سے دوری اور علیحدگی اختیار کرتا ہوں۔

۲۳۱

چنانچہ ارباب سیر نے روایت کی ہے کہ اس قضیے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام بابل سے کوہستان فارس کی طرف ہجرت کر گئے اورسات سال تک انہیں پہاڑوں کے اطراف خلقت سے الگ تھلگ زندگی بسر کی، اس کےبعد بابل واپس آکے اپنی تبلیغ شروع کی اور بتوں کو توڑا۔ اس پر لوگوں نے ان کو گرفتار کر کے آگ میں ڈال دیا۔ خداوند عالم نے آگ کو ان پر سرد و سلامتی بنا دیا اور اس طرح ان کی رسالت کا سکہ بیٹھا۔

آیت نمبر20 سورہ نمبر28 (قصص) میں خوف و ہراس کی وجہ سے حضرت موسی علیہ السلام کے فرار کرنے کا قصہ اس طرح نقل فرمایا ہے:

" فَخَرَجَ‏ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ قالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ‏"

یعنی پسموسی خوف کی حالت میں دشمن کی نگرانی کرتے ہوۓ شہر سے باہر نکلے اور کہا خداوندا مجھ کو قوم ستمگار سے نجات دے۔

سورہ اعراف میں حضرت موسی(ع) کی عدم موجودگی میں سامری کے بہکانے سے بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی، اس کی شعبدہ بازی اور حضرت موسی(ع) کے خلیفہ ہونے کے باوجود حضرت ہارون کی خاموشی کو بیان کیا ہے، یہاں تک کہ آیت 149 میں خبر دی کہ:

" وَ أَخَذَ بِرَأْسِ‏ أَخِيهِ‏ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ قالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَ كادُوا يَقْتُلُونَنِي "

یعنی موسی(ع) غصے میں اپنے بھائی کاسرپکڑ کے اپنی طرف کھینچنے لگے تو انہوں نے کہا اے میری ماں کے فرزند ( میری طرف سے ہدایت میں کوتاہی نہیں ہوئی بلکہ) در حقیقت قوم نے مجھ کو حقیر و کمزور بنا دیا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں۔

امر خلافت میں ہارون(ع) سے علی(ع) کی مشابہت

پس آیات قرآنی کے مطابق حضرت ہارون علیہ السلام نے جو پیغمبر اور حضرت موسی علیہ السلام کے منصوص خلیفہ تھے اپنی تنہائی کی وجہ سے اور اسبنا پر کہ امت نے ان کو ضعیف خوار بنا دیا تھا سامری کے عمل شفیع اور لوگوں کے شرک و گوسالہ پرستی کے مقابلے میں سکوت اختیار کیا اور تلوار نہیں اٹھائی۔

لہذا علی علیہ السلامبھی جن کو رسول اللہ(ص)نے ہارون کی شبیہ اور منزلت ہارونی کا حامل بتایا تھا و جیسا کہ ہم گذشتہ شبوں میں تفصیل سے عرض کرچکے ہیں) اس بات کا پورا حق رکھتے تھے کہ جب ایسی صورت حال پیش آجاۓ آپ تنہارہ جائیں اور دنیا طلبوں اور مخالفین کو دوسری طرف پائیں تو جناب ہارون کی طرحبسر و تحمل اختیار کریں۔ اسی بنا پر آپ کے اکابر علمائ کی روایتوں کے مطابق جو پہلے عرض کی گئیں جس وقت حضرت کو جبرا مسجد میں لاۓ، برہنہ تلوار آپ کے سر پر رکھی اور بیعت کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تو آپ نے اپنے کو قبر رسول(ص) تک پہنچایا اور وہی الفاظ دہراۓ جو خدا نے حضرت ہارون کی زبان نقل فرماۓ ہیں کہ انہوں نے حضرت موسی سے کہا تھا:

"ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَ كادُوا يَقْتُلُونَنِي "

مطلب یہ تھا، کہ یا رسول اللہ(ص) دیکھئیے امت نے مجھ کو تنہا چھوڑ دیا ہے، مجھ کو حقیر و ضعیف بنا دیا ہے اور چاہتے ہیں کہ مجھ کو قتل کردیں۔تمام

۲۳۲

انبیائ کی سیرتوں سے بالاتر اور سب سے بڑی حجت خود حضرت خاتم الانبیائ(ص) کی سیرت ہےجس پر غور کرنا ہمارے لئے ضروری ہے کہ مکہ معظمہ میں دشمنوں اور امت کی بدعتوں کے مقابل تیرہ سال تک کیوں خاموش رہے، یہاں تک کہ اپنے مرکز بعثت اور وطن مالوف سے رات کے وقت چھپ کر نکل گئے؟

بات صرف یہی تھی کہ آپ کے پاس ناصر و مددگار نہیں تھے لہذا انبیائ نے سلف کے مانند صبر و تحمل اور وہاں ٹھہرنے کے بجاۓ ہٹ جانے کو ترجیح دی، کیونکہ " الفرار مما لا یطاق من سنن المرسلین" یعنی جس چیز کی طاقت نہ ہو اس سے فرار اختیار کرنا پیغمبروں کی سنت۔ 12 مترجم، بلکہ اس سے بڑھ کر کہوں آں حضرت(ص) اپنی قدرت و طاقت کے دور میں بھی قوم سے کماحقہ بدعت کے آثار کو ہر طرف نہیں کرسکے۔

شیخ: یہ کیوں کر یقین کیا جاسکتا ہے کہ آں حضرت(ص) بدعتوں کو برطرف نہیں کرسکے؟

خیر طلب: حمیدی نے جمع بین الصحیحیں میں اور امام احمد ابن حنبل نے مسند میں ام المومنین عائشہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے ان سے فرمایا کہ اگر یہ لوگ عہد کفر اور زمانہ جاہلیت سے قریب نہ ہوتے اور مجھ کواس کاخوف نہ ہوتا کہ یہ اپنے دلوں سے اس کے منکر ہوجائیں گے تو میں حکم دیتا کہ خانہ کعبہ کو مسمار کردیا جاۓ اور جو کچھ اس میں سے نکال دیا گیا ہے وہ پھر اس میں داخلکیا جاۓ میں اس عمارت کو زمین کے برابر کر کے زمانہ حضرت ابراہیم کی طرح مشرق و مغرب کی جانب اس کے دو دروزے قائم کرتا اور حضرت ابراہیم کی قائم کی ہوئی بنیادوں پر پھر سے اس کی تعمیر کرتا۔

حضرات ذرا اںصاف سے غور کیجئے تو ماننا پڑے گا کہ جہاں رسول اللہ(ص) باوجود اس بلند مرتبے اور الہی منصب کے کہ آپ شرک و کفر اور اس کے آثار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے مبعوث ہوۓ تھے اپنے صحابہ سے مطمئن نہ ہوں( جیسا کہ آپ کے بڑےبڑے علمائ نے لکھا ہے) اور تعمیر ابراہیمی میں داخل کی ہوئی بدعتکر کے اس کو اصلی صورت پر اس لئے نہ لاسکیں کہ کہیں مسلمان اپنی عہد جاہلیت کی عادت کے پیش نظر اس سے انکار نہ کر بیٹھیں، وہاں امیرالمومنین علیہ السلام بھی اس سیرت اور دستور پر عمل کرنے میں حق بجانب تھے، کیونکہ آپ کا سامنا ایک ایسی حاسد اور کینہ پرور قوم سے تھا جو اس چیز کا موقع ہی تلاش کررہی تھی کہ انتقام لینے کے لئے آپ کو بلکہ اصل دین اسلام ہی کو نظم و عداوت کے تیروں کا نشانہ بنائے۔

چنانچہ فقیہ واسطی ابن مغازلی شافعی اور خطیب خوارزمی نے اپنے مناقب میں نقل کیا ہے کہ رسول صلعم نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ امت تمہاری طرف سے دلوں میں کینے رکھتی ہے اور میرے بعد عنقریب یہ لوگ تم کو دھوکا دیں گے اور جو کچھ اپنے دلوں میں چھپاۓ ہوۓ ہیں اس کوظاہر کریں گے۔ میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ اس وقت صبر و تحمل سے کام لینا تاکہ خدا تم کو اس کا اجر اور جزاۓ خیر عنایت فرماۓ۔

۲۳۳

وفاتِ رسول(ص) کے بعد خدا کے لئے علی(ع) کا صبر وسکوت

دوسرے امیرالمومنین علیہ السلام وہ یکتا انسنا کامل تھے جنہوں نے زندگی بھر کبھی اپنی ذات کی طرف نہیں دیکھا بلکہ ہر وقت خدا پر نظر رکھتے تھے، یعنی ہر حیثیت سے فنا فی اللہ کی منزل میں تھے آپ اپنے کو، اپنے متعلقین کو اور امامت وخلافت اور ریاست کو محض خدا اور خدا کے دین کے لئے چاہتے تھے، لہذا آپ کا صبر وتحمل، خاموشی اور اپنا مسلم الثبوت حق حاصل کرنے کے لئے مخالفین سے مقابلہ نہ کرنا بھی صرف خدا کے لئے تھا تاکہ ایسا نہ ہو مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ پڑ جاۓ۔

لوگ اپنے سابق کفر کی طرف پلٹ جائیں۔ چنانچہ اس موقع پر جب حضرت فاطمہ مظلومہ(ع) کا حق چھینا جاچکا اور آپ مظلومی و مایوسی کی حالت میں گھر پلٹیں تو آپ نے امیرالمومنین علیہ السلام کو مخاطب کر کے عرض کیا:

" اشْتَمَلْتَ‏ شَمْلَةَ الْجَنِينِ‏، وَ قَعَدْتَ حُجْرَةَ الظَّنِينِ، نَقَضْتَ قَادِمَةَ الْأَجْدَلِ، فَخَانَكَ رِيشُ الْأَعْزَلِ، هَذَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ يَبْتَزُّنِي نَحِيلَةَ أَبِي وَ بُلْغَةَ ابْنَيَّ، الخ لَقَدْ أَجْهَرَ فِي خِصَامِي، وَ أَلْفَيْتُهُ أَلَدَّ فِي كَلَامِي"

یعنی آپ جنین کے مانند سمٹ کے بیٹھ رہے، ایک متہم انسان کی طرح گوشہ نشینی اختیار کر لی اور اپنے شکاری پرندے والے شہ پر توڑ دیئے۔ پس کمزور پرندے والے پروں نے آپ کا ساتھ نہیں دیا۔ یہ ابن قحافہ(ابوبکر) میرے باپ کا عطیہ اورمیرے بچوں کا ذریعہ معاش مجھ سے بجز چھین رہا ہے۔ الخ ۔ در حقیقت ان لوگوں نے مجھ سے کھلی ہوئی دشمنی برتی اور مجھ سے بدکلامی کی۔

آپ کی تقریر طولانی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سارا بیان سنتے رہے۔ یہاں تک کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا خاموش ہوئیں تو ایک مختصر جواب دے کر ان معصومہ کو مطمئن کردیا۔ من جملہ اس کے فرمایا۔ فاطمہ! میں نے امر دین اور احقاق حق میں جہاں تک ممکن تھا کوتاہی نہیں کی آیا تم یہ چاہتی ہو کہ یہ دین مبین باقی اور پائدار رہے اور تمہارے باپ کا نام ابد تک مسجدوں اور اذانوں کے اندر لیا جاتا رہے؟

آپ نے کہا میری سب سے بڑی آرزو اور خواہش یہی ہے۔ حضرت نے فرمایا، پس اس صورت میں تم کوصبر کرنا چاہیئے کیونکہ تمہارے باپ حضرت خاتم الانبیائ(ص) نے مجھ کو اس کے لئے وصیتیں فرمائی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ صبر سے کام لینا چاہیئے ورنہ میں اتنے طاقت رکھتا ہوں کہ دشمنوں کو زیر کر کے تمہارا حق وصول کرلوں، لیکن یہ جان لوکہ پھر دین ختم ہوجاۓ گا لہذا خدا کے لئے اور دین خدا کی حفاظت کے لئے صبر کرو کیونکہ آخرت کا ثواب تمہارے لئے اس حق سے بہتر ہے جو تم سے غصب کر لیا گیا ہے۔

اسی بنا پر حضرت نے صبر کو اپنا لائحہ عمل قرار دیا اور حوزہ اسلام کے تحفظ کی غرض سے ضبط و خاموشی اختیار کی تاکہ پارٹی بندی نہ پیدا ہونے پاۓ، چنانچہ اپنے اکثر خطبات و بیانات میں ان پہلوؤں کی طرف اشارہ بھی فرماتے رہے۔

۲۳۴

وفات رسول(ص) کے بعد خاموشی کی مصلحت پر علی(ع) کے بیانات

من جملہ ان کے ابراہیم بن محمد ثقفی جو ثقاتعلماۓ اہل سنت میں سے ہیں۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور علی بن محمد ہمدانی نقل کرتے ہیں کہ جب طلحہ اور زبیر نے بیعت توڑ دی اور بصرے کی طرف روانہ ہوۓ تو حضرت علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ لوگ مسجد میں جمع ہوں اس کےبعد ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا جس میں حمد و ثناۓ الہی کے بعد فرمایا:

" فإنّ اللّه تبارك و تعالى لمّا قبض نبيّه صلى اللّه عليه و آله و سلّم قلنا: نحن‏ أهل‏ بيته‏ و عصبته، و ورثته، و أوليائه، و أحقّ خلائق اللّه به، لا تنازع حقّه و سلطانه، فبينما نحن على ذلك، إذ نفر المنافقون، فانتزعوا سلطان نبيّنا صلى اللّه عليه و آله و سلّم منّا، و ولّوه غيرنا، فبكت لذلك و اللّه العيون و القلوب منّا جميعا، و خشّنت و اللّه الصدور، و أيم اللّه لو لا مخافة الفرقة بين المسلمين أن يعودوا إلىالكفر، و يعوّر الدين لكنّا قد غيّرنا ذلك ما استطعناه، و قد ولّى ذلك ولاة و مضوا لسبيلهم، و ردّ اللّه الأمر إلينا و قد بايعاني، و قد نهضا إلى البصرة ليفرّقا جماعتكم، و يلقيا بأسكم بينكم"

مطلب یہ کہ وفاتِ رسول(ص) کے بعد ہم نے کہا کہ ہم پیغمبر(ص) کے اہل بیت آپ کے عزیز، آپ کے وارث، آپ کی عترت، آپ کے اولیائ اور اہل عالم میں آپ کی جانب سے سب سے زیادہ حقدار۔ آں حضرت(ص) کے حق اور سلطنتمیں ہمارا کوئی فریق نہیں تھا لیکن منافقین کے ایک گروہ نے گٹھ جوڑ کر کے ہمارے نبی کی حکومت وسلطنت کو ہم سے چھین لیا اور ہمارے غیر کے سپرد کردیا پس خدا کی قسم اس کے لئے ہماری آنکھیں اور ہمارے دل رو دیئے اور خدا کی قسم ہم سب کے سینے غم اور غصے سے لبریز ہوگئے خدا کی قسم اگر مسلمانوں میں تفرقہ پڑجانے کا خوف نہ ہوتا کہ وہ اپنے دین سے پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔ تو ہم اس خلافت کا تختہ پلٹ دیتے( لیکن ہم نے سکوت اختیار کیا) وہ لوگ اس مسند پر قابض رہے یہاں تک کہ وہ اپنے ٹھکانے لگ گئے اور خدا نے امر خلافت کو پھر میری طرف پلٹایا چنانچہ ان دونوں(طلحہ و زبیر) نے بھی میری بیعت کی اس کے بعد محض اس لئے بصرے کی طرف کوچ کیا کہ تمہاری جماعت میں پھوٹ ڈال دیں اور تمہارے اندر خانہ جنگی پیدا کردیں۔

نیز آپ کے بڑے علمائ میں سے ابن ابی الحدید اورکلبی نے روایت کی ہے کہ بصرے کی طرف روانہ ہونے کے موقع پر حضرت نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور دوران تقریر میں فرمایا:

" إن الله لما قبض نبيه استأثرت علينا قريش بالأمر و دفعتنا عن حق نحن‏ أحق‏ به‏ من‏ الناس‏ كافة فرأيت أن الصبر على ذلك أفضل من تفريق كلمة المسلمين و سفك دمائهم و الناس حديثو عهد بالإسلام والدین"

یعنی جب رسولخدا(ص) نے رحلت فرمائی تو قریش نے خلافت کے

۲۳۵

۲۳۶

۲۳۷

اور نتیجہ یہ ہوتا کہ اسلام کی عمارت منہدم ہوجاتی۔

چونکہ امیرالمومنین علیہ السلام حقائق کے عالم ودانا تھے اور رسول اللہ(ص) بھی آپ کو خبر دے چکے تھے۔ لہذا جانتے تھےکہ دین کی ا صل فنا نہ ہوگی اور لوگوںکے درمیان دین کی مثال آفتاب کے مانند ہے جو کچھ مدت تک تو جہل و عناد کی گھٹاؤں میں چھپ سکتا ہے لیکن آخر کار ظاہر و درخشان ہوکر رہے گا(چنانچہ وہی ہوا کہ اس بزرگوار کے نور حقیقت نے عالم کو روشن ومنور کیا۔

پس آپ نے اندازہ کر لیا کہ مصلحت دین کے اقتضا سے اس وقت صبر کر جانا اس سے بہتر ہے کہ مقابلے کے لیے میدان میں آجائیں جس سے گروہ بندی کی تشکیل ہو، مسلمانوں میں پھوٹپڑے اور دشمنوں کو دین کی جڑ کاٹنےکا موقع ملے اگرچہ رسولِ خدا(ص) بقاۓ اسلام کی خبر دے چکے تھے لیکن یہ مسلمانوں کی ذلت و حقارت کا سبب تو بنتا ہی اور ایک زمانے تک کے لئے ان کی ترقی پھر پستی کے غار میں جا پڑتی۔ خلاصہ یہ کہ چھ مہینے تک اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھی، جلسوں اور شبعوں میں کثرت سے مناظرے کر کے حق کو ظاہر فرمایا( جیسا کہ پچھلی شبوں میں عرض کرچکا) بیعت نہیں کی، اور گو کہ جنگ کے لئے نہیں اٹھے لیکن مباحثات اور احتجاجات کے ذریعے اثبات حق کرتے رہے۔

خطبہ شقشقیہ

چنانچہ خطبہ شقشقیہ کی ابتدا ہی سے اس مقصد کی طرف اشارہ فرمایا ہے فرماتے ہیں:

" أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ تَقَمَّصَهَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ وَ إِنَّهُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْهَا مَحَلُ‏ الْقُطْبِ‏ مِنَ‏ الرَّحَى‏ يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ فَسَدَلْتُ دُونَهَا ثَوْباً وَ طَوَيْتُ عَنْهَا كَشْحاً وَ طَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَةٍ عَمْيَاءَ يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ وَ يَشِيبُ فِيهَا الصَّغِيرُ وَ يَكْدَحُ مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّهُ فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى هَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَيْنِ قَذًى وَ فِي الْحَلْقِ شَجاً أَرَى تُرَاثِي نَهْباً حَتَّى مَضَى الْأَوَّلُ لِسَبِيلِهِ فَأَدْلَى بِهَا إِلَى فُلَانٍ بَعْدَهُ الخ"

یعنی قسم خدا کی فلان شخص(ابوبکر) نے قمیص خلافت کو زبردستی پہن لیا حالانکہ یقینا وہ جانتا تھا کہ خلافت کے لئے میری حیثیت چکی کی میخ کی مانند ہے۔میرے سرچشمہ فیض سے علوم و معارف کا سیلاب امنڈتا ہے اور میرے علم و دانش کی بلندیوں میں کوئی پرندہ نہیں مارسکتا۔ پس میں نے اپنے اور اس جامہ خلافت کے درمیان پردہ ڈال دیا۔ اس سے پہلو تہی کی اور اس معاملہ میں غور کرنا شروع کیا آیا اس بریدہ اور شکستہ ہاتھوں سے(یعنی بغیر تاخیر و مددگار کے) اس پر حملہ کردوں یا ظلمت وتا ریکی ضلالت پر صبر کروں۔ یہ وہ مصیبت تھی جس کے صدمے سے بوڑھا ضعیف ہوجاۓ، خوردسال بوڑھا ہوجاۓ اور مومن رنج و غم میں مبتلا ہو۔ یہاں تک کہ اپنے

۲۳۸

پروردگار سے ملاقات کرے، اس وقت میں نے دیکھا کہ اس واقعے پر صبرکرنا ہی بہتر ہے اورع عقلمندی ہے۔ پس میں نے صبرکیا، در آنحالیکہ آنکھوں میں غبار اندوہ اور خار الم کی خلش تھی اور حلق میں غم و غصہ کا پھندا پڑ رہاتھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ میری میراث کس طرح تاخت و تاراج ہو رہی ہے، یہاں تک کہ پہلا تو اپنے راستے چلا گیا لیکن اپنے بعد خلافت کا تحفہ فلان ( عمر) کی گود میں ڈال گیاالخ۔

یہ سارا خطبہ حضرت کے درد دل سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن وقت اس سے زیادہ زحمت دینے کی اجازت نہیں دے رہے ہے۔ میرا خیال ہے کہ اثبات مقصد اور حضرت کے دلی تاثرات کو ظاہر کرنے کے لئے اسی قدر کافی ہے۔

خطبہ شقشقیہ میں اشکال اور اس کا جواب

شیخ: اول تو یہ خطبہ ان حضرت کی رنجیدگی کی دلیل نہیں ہے، دوسرے اس خطبے کا حضرت سے تعلق ہی نہیں ہے بلکہ ہو تو سیدشریف رضی الدین کی تصنیف ہے جس کو انہوں نے حضرت کے خطبات میں شامل کردیا ہے۔ ورنہ ان جناب کو خلفائ رضی اللہ عنہم سے کوئی شکایت نہ تھی بلکہ انتہائی خوشی تھی اور ان کے عمل درآمد سے بھی راضی تھے۔

خیر طلب: آپ کا یہ بیان سخت تعصب کا نتیجہ ہے ورنہ خلافت کے بارے میں حضرت کے بیانات اور شکایات کا پہلے ہی ذکر ہوچکا ہے، اور حضرت کی رنجیدگی و آزردگی کچھ اسی خطبے سے مخصوص نہیں کہ آپ اس پر اشکال تراشی کریں آپ کے اس اشکال پر کہ یہ خطبہ ایک عابد و پرہیزگار اور بزرگوار عالم سید رضی الدین رضوان اللہ علیہ کی تصنیف ہے میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ آپ بغض و عناد کے باعث حد اعتدال سے آگے بڑھ گئے ہیں اور بغیر کسی دلیل کے آخری دور کے اپنے بعض متعصب اسلاف کی پیروی کی ہے۔ البتہ اتنا کہوں گا کہ آپ کا مطالعہ گہرا نہیں ہے ورنہ سمجھ میں آجاتا کہ یقینی اور قطعی طور پر یہ خطبہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے منقول ہے کیونکہ آپ کے بڑے بڑے علمائ متقدمین ومتاخرین مثلا عزالدین عبدالحمید ابن ابی الحدید، شیخ محمد عبدہ، مفتی مصر اور شیخ محمد خصری نے محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ ص117 میں شہادت دی ہے اور اعتراف کیا ہے کہ یہ خطبہ حضرت ہی کا ہے، نیز اس کی شرح بھی کی ہے۔ صرفچند آخری دور کے متعصب لوگوں نے اپنے فساد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے شبہات پیدا کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے ہیں ورنہ ان چالیس نفر سے زیادہ شیعہ و سنی اکابر علمائ میں سے جنہوں نے نہج البلاغہ کی شرحیں لکھی ہیں کسی ایک نے بھی ایسی بات نہیں کہی ہے۔

۲۳۹

سید رضیؒ کے حالات

اس کے علاوہ جلیل القدر عالم ربانی سید رضی الدین علیہ الرحمہ کی پرہیزگاری اور تقدس کا درجہ اس سے کہیںبلند ہے کہ ان پر خطبہ تصنیف کر کے حضرت علی علیہ السلام کی طرف اس کی جھوٹی نسبت دینے کا الزام لگایا جاۓ۔ اس کے ماسوا عربی ادب کے جن ماہرین نے نہج البلاغہ کے خطبوں پر غور کیا ہے انہوں نے ان کی فصاحت و بلاغت، قدرت الفاظ، بلندی مطالب اور ان کے اندر سموۓ ہوۓ علم و حکمت کے بیشبہاخزاںوں کے پیش ںظریہ طے کردیا ہے کہ سید رضی ہی نہیں بلکہ کسی فرد بشر کے لئےبھی ایسا کلام پیش کرنا ممکن نہیں ہے جب تک اس کا تعلق عالم غیب سے نہ ہو چنانچہ آپ کے اکابر علمائ جیسے عبدلحمید ابن ابی الحدید معتزلی نے اور متاخرین میں سے شیخ محمد عبد و مفتی مصر نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ حضرت کے خطبات وبیانات میں جو خوبصورت الفاظ، بلند مطالب اور نادر انداز کلام استعمال ہوا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ یہ کلمات کلام رسول(ص) کے بعد کلام خالق سے پست اور کلام مخلوق سے بلند ہیں۔

عالم جلیل القدر سید رضی رضوان اللہ علیہ کے نظم ونثر کلمات وخطبات اور رسائل شیعہ وسنی صاحبان علم کے تالیفات میں موجود ہیں جن کی نہج البلاغہ کے خطبوں سے مطابقت کرنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ دوںوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

چہ نسبت خاک را با عالم پاک

چنانچہ ابن ابی الحدید نقل کرتے ہیں کہ مصدق بن شبیب نے ابن الخشاب جیسے مشہور و معروف شخص سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا، نہ رضی نہ غیر رضیکسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے کہ ایسے نادر اسلوب کے ساتھ ایسا کلام پیش کرسکے۔ ہم نے کلمات رضی کو دیکھاہے، ان کو اس مقدس خطبات سے ہرگز کوئی رابطہ نہیں ہے۔

خطبہ شقشقیہ سید رضیؒ کی ولادت سے پہلے درج کتب تھا

علمی قواعد اور عقل اصول سے قطع نظر فریقین ( شیعہ وسنی)کے اہل علم اور اصحاب حدیث و تاریخ کے بڑی جماعت نے عالم گزرگوار سید رضی الدین اور ان کے پدر مرحوم ابو احمد نقیب الطالبین کی ولادت سے قبل اس خطبے کی روایت کی ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں کہتے ہیں کہ اس خطبہ شریفہ کو میں نے اپنے شیخ ابوالقاسم بلخی امام معتزلہ کی تصانیف میں کثرت سے پایا ہے۔ جو مقتدر باللہ عباسی کے زمانے میں تھے، اور ظاہر ہے کہ سید رضی کی ولادت اس کے مدتوں بعد ہوئی ہے۔اس کے علاوہ میں نے اس کو مشہور متکلم ابوجعفر بن قبہ کی کتاب الانصاف میں بھی بارہا دیکھا ہے جو

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394