پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 325670 / ڈاؤنلوڈ: 8655
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

تو یہ آپ کا جان بوجھ کے انجان بننا ہے، بہتر ہوتا کہ آپ ایسے کسی ایک ہی فتوے کا پتہ دیتے جس میں حضرت کے نام کو اذان و اقامت کا جزئ کہا گیا ہو۔ در آں حالیکہ ساری استدلالی کتابوں اور عملیہ رسالوں میں تمام شیعہ فقہائ نے بالاتفاق یہی بیان کیا ہے کہ ولایت حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شہادت جزئ ایمان نہیں ہے اور اس کو اذان واقامت میں بقصد جزئیت کہنا حرام ہے، اگرنیت کے وقت مجموعی طور پر حضرت کے نام کےساتھ قصد کیا جاۓ تو نہ صرف یہ کہ فعل حرام ہوگا بلکہ عمل بھی باطل ہو جاۓ گا۔ البتہ رسول (ص) خدا کا نام ذکر کرنے کے بعد بغیر قصد جزئیت کے تیمن و تبرک کی نیت سے علی علیہ السلام کا نام لینا مطلوب و مستحسن ہے، اس لئے کہ خدا نے ہر مقام پر پیغمبر(ص) کے نام کے بعد آپ کا نام لیا ہے، جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے۔ پس آپ حضرات بلاوجہ شور و ہنگامہ مچاتے ہیں۔ غالبا اسی قدر کافی ہوگا لہذا ہم پھر اصل مطلب پر آتے ہیں کہ اگر آپ حضرات ذرا گہری نظر ڈالیں تو ثابت ہوگا کہ نسل و نسب کے اعتبار سے صحابہ کبار میں سے ایک بھی امیرالمومنین علی علیہ السلام کا مثل نہیںتھا۔

علی علیہ السلام کا زہد و تقویٰ

رہا زہد و تقوی اور پرہیزگاری کا موضوع تو یہ حضرت کی وہ خصوصیت ہے جس میں عالم کے اندر کوئی دوسرا آپ کی برابری نہیں کہ سکتا، کیونکہ امت کے اندر دوست دشمن سبھی کا اجماع ہے کہ رسول خدا(ص) کے بعد کوئی امیرالمومنین سے زیادہ عابد و زاہد اور متقی شخص نہیں دیکھا گیا، چنانچہ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور محمد ابن طلحہ شافعی مطالب السئول میں بنی امیہ کی مشہور فرد عمرابن عبدالعزیز سے نقل کرتے ہیں کہ آپ پرہیزگاری میں اپنے زمانے کے سارے انسانوں سے بلند و ممتاز تھے، وہ کہتے ہیں:

"مَا عَلِمْنَا أَحَداً كَانَ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ النَّبِيِّ أَزْهَدَ مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ."

یعنی ہم نہیں جانتے کہ رسول خدا(ص) کے بعد اس امت میں کوئی شخص علی ابن ابی طالب سے زیادہ زاہد و پرہیزگار رہا ہو۔

ملا علی توشطی اپنے انتہائی تعصب کے با وجود اپنی کتاب کے اکثر مقامات پر کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام کے بارے میں عقلمندوں کی عقلیں مبہوت ہیں کیونکہ آپ نے پچھلے اور اگلے لوگوں کے کارناموں پر خط نسخ کھینچ دیا اور شرح تجرید میں کہتے ہیںکہ انسان علی علیہ السلام کے حالات اور طریقہ زندگی کو سن کر دم بخود ا ور حیران رہ جاتا ہے۔

عبداللہ بن رافع کی روایت

من جملہ عبداللہ رافع کی روایت ہے کہ ایک روز میںافطار کے وقت امیرالمومنین علیہ السلام کے یہاں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت کے سامنے ایک سر بہر کیسہ لایا گیا، جب آپ نے اس کو کھولا تو اس میں بغیر چھنا ہوا آٹا تھا جس میں کافی بھوسی ملی تھی۔

۲۲۱

آپ نے اس میں سے تین مٹھی آٹا لے کرنوش فرمایا اور اوپر سے ایک گھونٹ پانی پی کر شکر خدا بجا لاۓ۔ مین نے عرض کیا کہ یا اباالحسن آپ نے تھیلی کے منہ پر مہرکس لئے لگائی ہے؟ فرمایا اس لئے کہ حسنین (علیہما السلام) چونکہ مجھ سے محبت کرتے ہیں لہذا ہوسکتا ہے کہ اس میں روغن زیتوں یا شیرینی شامل کردیں اور علی کا نفس اس کا کھانے سے لذت حاصل کرے۔

بدیہی چیز ہے کہ دنیا کی مباح لذتوں میں بھی نفس کو آزادی دینے سے رفتہ رفتہ بغاوت وسرکشی پیدا ہوتی ہے جو آدمی کو خدا کی یاد سے غافل کردیتی ہے۔

علی علیہ السلام اپنے نفس کو اسی بنا پر لذیذ غذاؤں سے باز رکھتے تھے تاکہ نفس کا غلبہ نہ ہوجاۓ اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۵۱ میں اس روایت کو احنف بن قیس سے نقل کیا ہے۔

سوید بن غفلہ کی روایت

نیز شیخ نے ینابیع المودت میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں اور طبری نے اپنیتاریخ میں سوید بن غفلہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں میں ایک روز امیرالمومنین کی خدمت میں مشرف ہوا تو دیکھا کہ ایک ایسے کھٹے دودھ کا پیالہ حضرت کے سامنے رکھا ہوا ہے کہ اس کی ترشی کی بو میری ناک تک آرہی تھی اور ایک بھوسی ملی ہوئی سوکھی روٹی دست مبارک میں ہے جو اس قدر خشک ہے کہ توڑے نہیں ٹوٹتی۔ حضرت اس کو زانوۓ مبارک سے دبا کرتوڑتے تھے اور اس کھٹے دودھ میں نرم کر کے تناول فرماتے تھے، مجھ کو کھانے کی دعوت دی تو میں نے عرض کیا کہ میں روزے سے ہوں، فرمایا، میں نے اپنے حبیب حضرت رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ جو شخص روزے سے ہو اور کسی کھانےکی طرف رغبت کرے پھر خدا کے لئے اس کو نہ کھاۓ تو خدا اس کو بہشت کے کھانے کھلاۓ گا۔

سوید کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی حالت پر میرا دل تڑپ اٹھا۔ میں نے حضرت کی خادمہ فضہ سے جو میرے قریب ہی تھیں کہا کہ تم خدا سے نہیں ڈرتیں جو بغیر جو کی بھوسی نکالے ہوۓ روٹی پکاتی ہو؟ فضہ نے کہا خدا کی قسم خود حضرت نے حکم دیا ہے کہ بھوسی نہ نکالی جاۓ۔

حضرت نے فرمایا تم فضہ سے کیا کہہ رہے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ کہا تھا کہ آٹے کی بھوسی کیوں نہیں نکالتیں؟ حضرت نےفرمایا میرے ماں باپ فدا ہوں رسول اللہ(ص) پر کہ آں حضرت(ص) بھوسی الگ نہیں فرماتے تھے اور کبھی تین روز تک برابر گیہوں کی روٹی سے سیر نہیں ہوۓ یہاں تک کہ دنیا سے اٹھ گئے (یعنی میں رسول خدا(ص) کی تاسی کرتا ہوں)

۲۲۲

علی علیہ السلام کا حلوا نہ کھانا

موفق بن احمد خوارزمی اور ابن مغازلی فقیہ شافعی ا پنےمناقب میں نقل کرتے ہیں کہ خلافت ظاہری کے زمانے میں ایک روز علی علیہ السلام کے لئے عمدہ حلوا لایا گیا، آپ نے انگشت مبارک سے تھوڑا سا اٹھا کر سونگھا اور فرمایا کس قدر خوش رنگ اور خوشبودار ہے لیکن علی اس کے مزے سے واقف نہیں( مطلب یہ کہ میں نے اب تک حلوا کھایا ہی نہیں) میں نے عرض کیا یا علی(ع)، کیا حلوا آپ کے لئے حرام ہے؟ فرمایا حلال خدا حرام نہیں کرتا لیکن میں خود اپنا شکم کیوں کر سیر کروں جب کہ ملک میں بہت سے بھوکے پیٹ والے بھی موجود ہیں۔

" ایت بطنا فاوحول الحجاز بطون عوثی و اکباد حرا و کیف ارضی بان اسمی امیرالمومنین ولا اشارکهم فی خشونةالعسروشدائدالضروالبلوی"

یعنی کیا میں شکم سیر ہو کر سوؤں حالانکہ اطراف حجاز میں گرسنہ پیٹ اور بھنتے ہوۓ جگر موجود ہیں؟ میں کس طرح رضامند ہوں اس پر کہ میرا نام امیرالمومنین ہو اور عسرت کی سختی اور رنج و بلا کے شدائد میں ان کا شریک نہ بنوں؟

نیز خوارزمی عدی بن ثابت سے نقل کرتے ہیں کہ ایک روز آپ کے لئے فالودہ لایا گیا لیکن آپ نے اپنے نفس کو دبا دیا اور اس کو نوش نہیں فرمایا۔

یہ ہیں حضرت کی خوارک کے نمونے کہ کبھی سرکہ کبھی نمک کبھی تھوڑی سبزی اور کبھی دودھ کے ساتھ جو کی سوکھی ہوئی روٹی تناول فرماتے تھے اور کسی وقت ایک دسترخوان پر دو قسم کی غذائیں مہیا نہیں فرماتے تھے۔ سنہ ۴۰ ہجری میں ماہ رمضان المبارک کی انیسویں شب جس میں عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کے ہاتھ سے حضرت کو ضربت شہادت لگی، آپ افطار کے لئے اپنی بیٹی ام کلثوم کے مہمان تھے دسترخوان پر روٹی و دودھ اور نمک رکھا گیا تو باوجودیکہ اپنی بیٹی ام کلثوم کو انتہائی عزیز رکھتے تھے حضرت نے غصے کے ساتھ فرمایا کہ میں نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ کوئی لڑکی اپنے باپ پرتمہاری طرح جفا کرے۔ام کلثوم نے عرض کیا کہ بابا میں نے کون سی جفا کی ہے؟ فرمایا تم نے کب دیکھا ہے کہ تمہارا باپ ایک دسترخوان پر دو طرح کی غذائیں جمع کرے؟ پھر حکم دیا کہ دودھ اٹھا لیا جاۓ کیوں کہ وہ زیادہ لذیذ تھا، اور روٹی کے چند لقمے نمک کے ساتھ تناول فرماۓ اس کے بعد ارشاد فرمایا:

"في‏ حلال‏ الدنيا حساب و في حرامها عذاب عقاب "

یعنی دنیا کے حلال میں حساب اور اس کے حرام میں عذاب وعقاب ہے۔

علی علیہ السلام کا لباس

حضرت کا لباس بھی بہت سادہ اور کم قیمت ہوتا تھا۔ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، ابن مغازلی فقیہ شافعینے

۲۲۳

مناقب میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ میں اور آپ کے دیگر علمائ نے لکھا ہے:

"و کان علیهإزار غليظ اشتراه بخمسة دراهم، "

یعنی آپ کا لباس موٹے کپڑے کا تھا جو آپنے پانچ درہم میں خریدا تھا۔

جہاں تک ممکن ہوتا تھا آپ اپنے لباس میں پیوند لگاتے رہتے تھے اور زیادہ تر پیوند چمڑے یا خرمے کی چھال کے ہوتے تھے۔ حضرت کی کفش لیف خرما کی ہوتی تھی۔ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے لباس میں اتنے پیوند لگاۓ تھے کہ حضرت کی خلافت و ریاست ظاہری کے زمانے میں اس کو دیکھ کر آپ کے ابن عم عبداللہ ابن عباس کو صدمہ ہوا تو آپ نے فرمایا :

"لقد رفعت مرقعةحتی استحییت من راقعه امالعلی من زینةالدنیاکیف نفرح بلذة تفنی ونعیم لایبقی"

میں نے اس قدر پیوند کے اوپر پیوند لگواۓ ہیں کہ مجھ کو پیوند لگانے والے سے شرم آنے لگی ہے۔ علی کو زینت دنیا سے کیا کام؟ میں کیونکر خوش ہوں اس لذت پر جو مٹ جاۓ گی اور اس نعمت پر جو باقی نہ رہے گی۔

ایک اور شخص نے حضرت پر اعتراض کیا کہ آپ ریاست وخلافت کے زمانے میں بھی کس لئے پیوند دار کپڑے پہنتے ہیں جس سے دشمن آپ کو حقیر سمجھتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ یہ وہ لباس ہے جو دل کو دباتا ہے، غرور کو انسان سے دور کرتا ہے اور مومن اس کی اقتدا کرتا ہے۔

نیز محمد بن طلحہ نے مطالب السئول میں، خوارزمی نے مناقب میں، ابن اثیر نے کامل میں اور سلیمانبلخی نے ینابیع المودۃ میں روایت کی ہے کہ علی علیہ السلام اور ان کے غلام کا لباس یکساں ہوتا تھا۔ آپ ایک نمونے اور ایک ہی قیمت کے دو کپڑے خریدتے تھے۔ ایک خود پہنتے تھے اور دوسرا اپنے غلام قنبر کو دےدیتے تھے۔ یہ تھی حضرت علی علیہ السلام کی خوراک و پوشاک کی مختصر کیفیت جس کو آپ کے علمائ نے بھی درج کیا ہے، اور میں نے وقت جلسہ کے لحاظ سے اختصار کی کوشش کی ہے ورنہ حضرت کے مفصل حالات محیرالعقول ہیں۔ حضرت جو کی خشک روٹی خود کھاتے تھے اور گیہوں کی روٹی شکر شہد اور خرما فقیروں، یتیموں اور محتاجوں کو کھلاتے تھے، خود پیوند دار لباس پہنتے تھے لیکن یتیموں اور بیواؤں کو نفیس کپڑے پہناتے تھے۔

معاویہ سے ضرار کی گفتگو

حضرت کے زہدو تقوی اور دنیا سے بے اعتنائی کے ثبوت میں آپ کا وہ کلام کافی ہے جس کے سامنے دنیاۓ دنی سے کسی اور کا خطاب نہیں ٹھہر سکا۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح النہج البلاغہ میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیائ جلد اول ص۸۴ میں، شیخ عبداللہ بن عامر شیراذی شافعی نے کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص۸ میں، محمد بن طلحہ نے مطالب السئول ص۳۳میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص۱۲۸ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب۵۱ میں، سبط ابن جوزی

۲۲۴

نے تذکرۃ الخواص الامہ آخر باب۵ میں اور آپ کے دوسرےبڑے بڑے علمائ مورخین نے ضرار بن ضمرہ کے ساتھ معاویہ کے جو مفصل مذاکرات نقل کئے ہیں ان میں ضرار نے معاویہ کے سامنے آخر گفتگو میں علی علیہ السلام کی تعریف اس طرح کی ہے:

" لقد رأيته‏ في‏ بعض‏ مواقفه و قد أرخى الليل سدوله و غارت نجومه قابض على لحيته يتململ تململ السقيم و يبكي بكاء الحزين و يقول يَا دُنْيَا غُرِّي غَيْرِي أَ بِي تَعَرَّضْتِ أَمْ إِلَيَّ تَشَوَّقْتِ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ طَلَّقْتُكِ ثَلَاثاً لَا رَجْعَةَ لِي فِيكِ فَعُمُرُكِ قَصِيرٌ و خطرک کبیر وَ عیشک حَقِيرٌ آهِ مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وَ بُعْدِ السَّفَرِ وَ وَحْشَةِ الطَّرِيقِ فبکی معاوية و قال رحم الله اباالحسن لقد كان و الله كذلك "

یعنی میں نے بعض مواقع پر علی علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ رات کی تاریکی چھائی ہوئی ہے، ستارے چھٹکے ہوۓ ہیں اور آپ اپنی ریش مبارک کو پکڑے ہوۓ مارگزیدہ کے مانند تڑپ رہے ہیں اور بہت کرب کے ساتھ رو رو کر کہہ رہے ہیں کہ اے دنیا میرے علاوہ کسی اور کو فریب دے، کیا تو مجھ سے لپٹتی ہے اور میری طرف راغب ہے؟ تو یہ بات کو سوں دور ہے، میں نے تجھ کو تین طلاق دۓ ہیں جس کے بعد پھر رجوع نہیں ہوسکتا ہے، کیوں کہ تیری عمر کوتاہ، تیرا خطرہ بہت بڑا اور تیرا عیش بہت ذلیل ہے فریاد ہے زاد راہ کی کمی ہے، سفر کی دوری سے اور راستے کی وحشت سے۔ پس معاویہ نے رونا شروع کیا اور کہا خدا رحم کرے ابوالحسن (علی) پر واللہ یقینا وہ ایسے ہی تھے۔

دوسرے مقام پر معاویہ ہی کا قول ہے" عقمت‏ النساء أن يلدن مثل علي ابن ابی طالب" یعنی عورتیں علی ابن ابی طالب ایسا انسان پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔

زہد کے لئے علی علیہ السلام کو پیغمبر(ص) کی بشارت

امیرالمومنین علیہ السلام کا زہد فیوض ربانی میں سے ایک ایسا فیض ہے جس کی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو بشارت دی ہے۔چنانچہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۴۶ میں عمار یاسر سے ایک روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے حضرت رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ علی علیہ السلام سے فرمایا:

"إن اللّه قد زيّنك‏ بزينة لم يزيّن العباد بزينة أحبّ الى اللّه الزهد في الدنيا و جعلك لا تفال من الدنیا شيئا، و لا تنال الدنیا منک شیئاو وهب لك حبّ المساكين، فرضوا بک اماما و رضیت اتباها فطوبی لمن احبک و صدق فیکو ويل لمن أبغضك و كذب عليك، فأما الذین أحبّوك و صدقوا فيك، فاولئك جيرانك في دارك و رفقائک فی قصرک، وأما الذینأبغضوك و كذبوا عليك، فحقّ على اللّه أن يوقفهم موقف الكذابين یومالقیمة."

یعنی در حقیقت خداوند عالم نے تم کو اس زینت سے آراستہ کیا ہے کہ بندوں میں کسی اور کو ایسی زینت سے نہیں سنوارا جو خدا کے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہو، اور وہ ہے زہد فی الدنیا۔ تم کو ایسا بنا دیا کہ نہ تم دنیا سے

۲۲۵

بہرہ اندوز ہوتے ہو نہ دنیا تم کو اپنے سے وابستہ کرسکتی ہے۔ تم کو مسکینوں اور محتاجوں کی محبت عطا کی پس وہ تمہاری امامت پر راضی ہوۓ اور میں بھی ان سے تمہاری پیروی کی وجہ سے رضامند ہوا۔ پس خوشا حالی اس کا جس نے تم کو دوست رکھا اور تمہاری تصدیق کی، اور واۓ ہو اس کے لئے جو تم سے دشمنی رکھے اور تمہاری تکذیب کرے۔ جن لوگوں نے تم سے محبت رکھی اور تمہاری تصدیق کی وہ جنت میں تمہارے پڑوسی اور تمہارے قصر میں تمہارے مصاحب ہوں گے، اور جن لوگوں نے تم کو دشمن رکھا اور تم کو جھٹلایا تو خدا پر لازم ہے کہ قیامت کے روز ان کو جھوٹوں کی منزل پر ٹھہرا کر کیفر کردار کو پہنچاۓ۔

آپ زہد و روع اور پرہیزگاری میں اس قدر کامل تھے کہ دوست و دشمن سبھی آپ کو امام المتقین کہتے تھے۔ اور صرف لوگوں ہی نے آپ کو امام المتفقین کا لقب نہیں دیا تھا بلکہ جس نے سب سے علی(ع) کو اس لقب سے پکارا اور آپ کو باربار اس لقب کے ساتھ امت میں روشناس کرایا وہ حضرت خاتم الانبیائ(ص) کی مقدس ذات تھی، چونکہ وقت تنگ ہے اور تفصیل سے روایتیں پیش کرنے کا موقع نہیں ہے، لہذا صرف نمونے کے لئے چند حدیثوں پر اکتفا کرتا ہوں۔

خدا و رسول(ص) نے علی(ع) کو امام المتقین فرمایا

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۴۵۰ میں، حافظ ابونعیم اصفہانی حلیتہ الاولیائ میں، میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب۵۴ میں انس ابن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اکرم(ص) نے مجھ سے فرمایا اے انس میرے واسطے وضو کا پانی لے آؤ، میں اٹھ کر پانی لایا تو آں حضرت(ص) وضو کر کے دو رکعت نماز بجالاۓ۔ اس کے بعد مجھ سے فرمایا اے انس:

"‏ أول‏ من‏ يدخل‏ من‏ هذا الباب هو إمام المتقين، و سيد المسلمين، و يعسوب المؤمنين، و خاتم الوصيين، و قائد الغر المحجلين"

پہلا جو شخص اس دروازے سے داخل ہو وہ اہلِ تقوے کا امام، مسلمانوں کا سردار، مومنین کا بادشاہ( جس طرح شہد کی مکھیوں کا بادشاہ یعسوب ہوتا ہے) اوصیائ کا خاتم اور روشن چہروں اور ہاتھوں والے لوگوں کو (جنت کی طرف) لے جانے والا ہے۔

انس کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا خداوند اس آنے والے کو اںصار میں سے قرار دے، لیکن اپنی دعا کو پوشیدہ رکھا۔ اتنے میں دیکھا کہ علی(ع) دروازے سے داخل ہوۓ۔ پیغمبر(ص) نے فرمایا کون ہے؟ میں نے عرض کیا علی ابن ابی طالب ہیں پس آنحضرت(ص) نے ہنسی خوشی کے ساتھ اٹھ کر علی(ع) کا استقبال کیا، ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور ان کے چہرے سے پسینہ پونچھا۔ علی(ع) نے عرض کیا رسول اللہ(ص) آج مجھ سے وہ برتاؤ کر رہے ہیں جو پہلے نہیں کرتے تھے؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا کیونکر نہ کروں در آں حالیکہ تم میری جانب سے میری رسالت کو امت والوں تک پہنچاؤگے، میری آواز ان کو سناؤگے اور میرے بعد وہ جس چیز میں اختلاف کریں گے ان کے سامنے اس کی وضاحت کرو گے۔

۲۲۶

نیز ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد دوم میں اور حافظ ابونعیم حلیتہ الاولیائ میں نقل کرتے ہیں کہ ایک روز علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے پاس حاضر ہوۓ تو آں حضرت نے فرمایا :مرحبابسید المسلمین و امام المتقین (یعنی خوش آمدید ہے مسلمانوں کے سردار اور پرہیزگاروں کے امام کو۔ ۱۲ مترجم) پھر فرمایا کہ اس نعمت پر تمہارا شکر کیسا ہے؟ عرض کیا کہ میں حمد کرتا ہوں خدا کی اس نعمت پر جو مجھ کو عنایت کی ہے اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ مجھ کو شکر کیتوفیق عطا فرماۓ اور جو کچھ مجھ پر انعام فرمایا ہے اس میں اضافہ کرے۔ محمد بن طلحہ شافعی بھی مطالب السئول باب اول فصل چہارم کے آخر میں اس حدیث کو نقل کرتے ہیں اور اسی دلیل سے اہل تقوی پر حضرت کی امامت اور برتری کو ثابت کرتے ہیں۔

حاکم مستدرک جزئ سیم ص۱۳۸ میں اور بخاری و مسلم اپنی صحیحیں میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا علی(ع) کے بارے میں مجھ پر تین چیزوں کی وحی ہوئی۔

"انه سيد المسلمين،و إمام المتقين، و يعسوب المؤمنين، و قائد الغر المحجلين"

یعنی در حقیقت وہ مسلمانوں کے سید و آقا، اہل تقوےٰ کے پیشوا اور روشن چہرے اور ہاتھ والوں کو ( بہشت کی طرف) کھینچنے والے ہیں۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۴۵ میں سند کے ساتھ عبداللہ بن اسعد بن زرارہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا، شب معراج جب مجھ کو آسمان پر لے گئے تو موتی کے ایک قصر میں پہنچایا، جس کا فرش چمکتے ہوۓ سونے کا تھا:

" فأوحي إلى في علي بثلاث خصال بأنه سيد المسلمين و إمام المتقين و قائد الغر المحجلين"

یعنی پس میری طرف وحی کی اور مجھ کو علی کے بارے میں تین خصلتوں کی ہدایت کی کہ وہ یقینا مسلمانوں کے سیدو سردار، اہل تقوی کے امام و پیشوا اور روشن چہرے اور ہاتھوں والوں کو ( جنت کی طرف) کھینچنے والے ہیں۔

اور امام احمد بن حنبل مسند میں نقل کرتے ہیں کہ ایک روز رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے خطاب فرمایا:

" يا علي، النظر علی وجهک عبادةانک امام المتقین و سید المؤمنینمن‏ احبك‏ فقد احبني‏، و من احبنيفقد احب اللّه و من ابغضک فقد ابغضني، و من ابغضنيفقد أبغض اللّه "

یعنی اے علی(ع) تمہارے چہرے پر نظر کرنا عبادت ہے یقینا تم صاحبان تقوی کے امام او مومنین کے سردار ہو جو شخص تم کو دوست رکھے اس نے در حقیقت مجھ کو دوست رکھا اور جو شخص مجھ کو دوست رکھے اس نے در اصل خدا کو دوست رکھا۔ اور جو شخص تم سے دشمنی رکھے اس نے حقیقتا مجھ سے دشمنی رکھی اور جس نے مجھ سے دشمنی رکھی اس نے یقینا خدا سے دشمنی رکھی۔

یہ صحیح ہے کہ ذلیل اور بے عقل اور خوشامدی لوگ اور اکثر بے بصیرت اشخاص بعض افراد کا بے جا القاب و آداب اور غلط تعریف و توصیف کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جیسا کہ اکثر سلاطین و امرا اور وزارائ و خلفائ کے بارے میں کہا گیا ہے اور ارباب تواریخ نے بھی اس کو درج کیا ہے لیکن رسول خدا(ص) جیسی ہستی سے جو حق و حقیقت کا مجسمہ تھی ایک لمحے کے لئے بھی اس کی توقع نہیں ہوسکتی کہ آپ کسی شخص کو ایسے لقب یا صفت کے ساتھ یاد کریں گے جو اصلیت سے دور ہو بلکہ صاحب وحی کی زبان مبارک پر جو کچھ بھی جاری ہوجاۓ وہ یقینا عین حقیقت اور بمصداق آیہ شریفہ:

" وَ ما يَنْطِقُ‏ عَنِ الْهَوى‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحى‏"

۲۲۷

یعنی وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ بولتے ہی نہیں، وہ جو کچھ کہتے ہیں خالص وحی الہی ہوتی ہے۔

وحی مطلق، بالخصوص جب خودہی یہ فرمائیں کہ پروردگار نے شب معراج مجھ کو وحی فرمائی اور حکم دیا کہ علی کو امام المتقین کہوں۔

پس امیرالمومنین علی علیہ السلام کی عظمت و فضیلت اور تقوی کی تعریف میں یہی کافی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے خدا کے حکم سے آپ کو ایسی خصوصیت کے ساتھ مخصوص فرمایا جو کسی دوسرے صحابی کو نصیب نہیں ہوئی۔ تمام صحابہ کے نزدیک آپ کو امام المتقین قرار دیا۔ اور باربار اس لقب سے مخاطب فرمایا امام کو قطعا مکمل طور پر متقی ہونا چاہئیے تاکہ اہل تقوی کا پیشوا بن سکے، اس لئے کہ امام کے تقوی کو صاحبان تقوی کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ عمل ہونا چاہیئے۔

اگر میں علی علیہ السلام کے زہد و ورع اور تقوی کے سارے پہلوؤں کو شرح و بسط سے بیان کرنا چاہوں تو پورا دفتر بھی ناکافی ہے۔

شیخ : آپ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں جس قدر فرمائیے کم ہوگا۔ واقعی معاویہ نے سچ ہی کہ ہے کہ دنیا کی عورتیں علی ابن ابی طالب ایسا انسان پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔

خیر طلب: پس معلوم ہوا کہ کبارصحابہ کے درمیان علی علیہ السلام اہل تقوی کے سرگروہ تھے جن کو رسول اکرم(ص) حضرت خاتم الانبیائ نے خداۓ تعالیٰ کے حکم و ہدایت سے امام المتقین اور پرہیزگاروں کا پیشوا قرار دیا ہے لہذا جس طرح آپ روحانی و جسمانی حیثیت سے نسل و نسب میں ممتاز و مقدم تھے اسی طرح تقوے کی حیثیت سے بھی آپ کو برتری اور حق تقدم حاصل تھا۔

اس جگہ ایک مطلب نظر کے سامنے آگیا ہے، اگر اجازت ہو تو آپ سے ایک بات دریافت کروں؟

شیخ : بہتر ہے، فرمائیے۔

خیر طلب : آیا صحابہ کبار کے درمیان امامت اہل تقوےٰ کی اہلیت رکھنے کے بعد علی علیہ السلام کے لئے آپ نفس پرستی محبت جاہ و منصب اور دنیا طلبی کا شبہ کرتے ہیں؟

شیخ : یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق ایسا خیال پیدا ہو۔ جیسا کہ خود آپ نے فرمایا اور مشہور بھی ہے، جو شخص دنیا کو تین طلاق دے دے اور اس کا اعلان کر کے دنیا سے اپنی بے اعتنائی کو ثابت کر دے وہ کیونکر دنیا کی طرف مائل ہوسکتا ہے؟ اس کے علاوہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا مقام ومرتبہ اس سے بالاتر ہے کہ ہم ان جناب کی طرف ایسی نسبت دیں، بلکہ ایسا کرنا تو درکنار اس چیز کا تصور بھی محال ہے۔

خیر طلب : پس آپ جیسے مجسم تقوی کے سارے اعمال قطعا خدا کے لئے تھے، آپ نے ایک قدم بھی حق کے خلاف نہیں اٹھایا اور جہاں بھی حق نظر آتا تھا آپ بے اختیار اس کا استقبال کرتے تھے۔

شیخ : بدیہی چیز ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ہم کو اس کے خلاف کوئی سراغ نہیں ملتا۔

۲۲۸

حقیقت پسند منصفانہ فیصلہ کریں

خیر طلب: بس اب یہ فرمائیے کہ رسول اللہ صلعم کی وفات کے بعد جب علی علیہ السلام حسب وصیت آں حضرت(ص) کے غسل و کفن اور دفن میں مشغول تھے اور سقیفہ بنی ساعدہ میں چند اشخاص نے جمع ہو کر ابوبکر کی بیعت کر لی اس کے بعد حضرت کو بیعت کے لئے طلب کیا تو آپ نے کس وجہ سے بیعت نہیں کی؟

اگر ابوبکر کا طریقہ خلافت برحق اور مسئلہ اجماع ثابت و مسلم اور حقانیت کی دلیل تھا تو قاعدے کے لحاظ سے اس قدر شدید تقوی و پرہیزگاری کی موجودگی میں علی علیہ السلام کو ہرگز پہلو تہی اور حق سے انحراف نہ کرنا چاہیئے تھا، اس لئے کہ ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق جہاں حق ہو وہیں علی کو بھی ہونا چاہیئے، ایک طرف توتقوی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ متقی انسان حق سے روگردانی نہ کرے اور دوسری طرف وہ احادیث ہیں جو میں گذشتہ راتوں میں پیش کرچکا ہوں کہ رسول اللہ(ص) نےفرمایا:

" علی مع الحق والحق مع علی حیثما دار"( یعنی علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے جدھر وہ گردش کریں اگروہ اقدامات برحق اور منصب خلافت پر ابوبکر کا تعین صحیح تھا تو چاہیئے تھا کہ حضرت انتہائی رغبت اور پوری دلچسپی کے ساتھ ان لوگوں کا استقبال اور تصدیق کرتے نہ یہ کہ الٹی مخالفت کرتے، پس لامحالہ علی علیہ السلام کی مخالفت دو حال سے خالی نہیں تھی۔ یا تو علی کی روش حق کے خلاف تھی اور آپ نے حکم رسول(ص) سے سرتابی کی کہ خلیفہ پیغمبر(ص) سے بیعت نہیں کی۔ یا پھر آپ اس طرز خلافت اور طریقہ اجماع کو مصنوعی، سیاسی اور حق کے برخلاف سمجھتے تھے اس وجہ سے بیعت نہیں فرمائی۔

پہلی صورت تو حدیث پیغمبر(ص) کے پیش نظر کہ علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ گردش کرتا ہے، نیز اس لئے کہ آپ کو امام المتقین فرمایا۔ اور علی علیہ السلام قطعا اہل دنیا میں سے نہیں تھے، جاہ وہ منصب کی خواہش اور ہوا و ہوس کی آپ کے دل میں کوئی گنجائش نہ تھی، دنیا کو تین طلاق دے چکے تھے اور ریاست ظاہری کے طلب گار نہیں تھے، قطعا نا ممکن ہے۔ لہذا لازمی طور پر دوسری ہی صورت تھی کہ آپ چونکہ اس خلافت کو مصںوعی، سیاسی اور خدا و رسول(ص) کی مرضی کے خلاف جانتے تھے اس وجہ سے بیعت نہیں فرمائی۔

شیخ: آپ تو عجیب بات فرمارہے ہیں کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے بیعت نہیں کی حالانکہ ہماری اور آپ کی تمام کتب اخبار و تواریخ سے ثابت ہے کہ سیدنا علی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور اجماع سے اختلاف نہیں کیا۔

خیر طلب: تعجب تو آپ سے ہے کہ پچھلی گفتگو کو بالکل بھول ہی گئے جس میں میں نے آپ کا اکابر علمائ کے اقوال تفصیل سے پیش کئے تھے۔ یہاں تک کہ بخاری اور مسلم نے بھی اپنی صحیحیں میں میں لکھا ہے کہ علی نے اس وقت بیعیت نہیں کی۔ آپ کے علمائ نے عام طور سے اعتراف کیا ہے کہ روز اول جب حضرت کو جبر و اہانت کے ساتھ گھر سے کھینچتے ہوۓ مسجد میں لے گئے

۲۲۹

( جیسا کہ پچھلی شبوں میں تفصیل سے عرض کیا جاچکا ہے) تو آپ نے بیعت نہیں کی اور اسی طرح واپس آگئے۔ ابراہیم بن سعد ثقفی متوفی سنہ۲۸۳ھ ابن ابی الحدید اور طبری وغیرہ نے لکھا ہے کہ حضرت کی بیعت چھ مہینے بعد ہوئی( یعنی صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد جیسا کہ گذشتہ شبوں میں تفصیل سے ذکر ہوچکا ہے)

بفرض محال اگر ہم ان بھی لیں کہ حضرت بیعت کر لی تو کم و بیش چھ ماہ تک کیوں تو ؟؟؟؟ کیا اور بیعت نہیں کی؟ بلکہ اس کے خلاف احتجاج بھی کیا؟ حالانکہ علی(ع) جیسے مجسمہ حق و تقوی فرد کو ایک ساعت کے لئے بھی حق سے منحرف ہونا اور اس کو پسِ پشت ڈال دینا مناسب نہیں تھا۔

شیخ : ضرور کوئی وجہ رہی ہوگی، چنانچہ اس موقع پر وہ خود بہتر سمجھتے تھے کہ کیا کرنا چاہیئے۔ اب ہم کو کیا پڑی ہےکہ بزرگوں کے باہمی معاملات ا ور ان کے اختلاف میں تیرہ سو برص کے بعد دخل دیں؟ ( حاضرین کا زور دار قہقہہ)

خیر طلب: میں بھی آپ کے اسی قدر جواب پر قناعت کرتا ہوں، کیوںکہ جب آپ کو اپنا مطلب ثابت کرنے کے لئے کوئی معقول جواب نہیں ملااور گریز و دفاع کا کوئی راستہ نظر نہ آیا تو اس قسم کے جواب کا سہارا لیا۔ لیکن نیک اور اںصاف پسند اشخاص کے نزدیک بات اس قدر واضحاور روشن ہے کہ کسی دلیل و برہان کی محتاج نہیں۔

رہا آپ کا یہ فرمانا کہ بزرگوں کے معاملات اور اختلافات میں ہم دخل دینے کی ضرورت نہیں، تو یقینا جہاں تک ان کا اور ان کے معاملات کا تعلق ہم سے نہیں ہے آپ کا فرمانا درست ہے اور بزرگوں کے اختلاف آرائ میں ہم کو دخل دینے کا حق نہیں ہے لیکن اس موضوع میں خصوصیت کے ساتھ آپ کو دھوکا ہوا ہے، کیونکہ ہر صاحب عقل مسلمان کا فریضہ ہے کہ تقلیدی نہیں بلکہتحقیقی دین رکھتا ہو۔ اور دین میں تحقیق کا راستہ یہی ہے کہ جب ہم جہمور مسلمین کی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ وفات رسول(ص) کے بعد امت اور صحابہ کبار میں دو فرقے ہوگئے تو ہم کو چھان بین کر کے دیکھنا چاہیئے کہ ان دونوں فرقوں میں سے حق پر کون تھا تاکہ ہم اس کی پیروی کریں نہ یہ کہ بربناۓ عادت اور ماں باپ اور اسلاف کی تقلید میں بغیر کسی جانچ پڑتال کے محض اپنے خیال سے کسی راستے کو حق سمجھ کے اندھا دھند اس پر چلنے لگیں۔

شیخ: آپ یقینا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق نہیں تھی۔ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق نہیں تھی اور یہ منصب علی کرم اللہ وجہہ کا حق تھا تو اپنی مخصوص قوت وشجاعت نیز حق و حقیقت کے نفاذ میں پوری دلچسپی رکھنے کے باوجود جب کہ دوسرے لوگ ان کو ترغیب بھی دے رہے تھے حق کو قائم کرنے کے لیے کیوں نہیں اٹھے یہاں تک کہ بقول آپ کے چھ مہینے کے بعد بیعت(۱) بھی کر لی، نماز میں بھی حاضر ہوتے تھے اور مشورہ طلب مواقع پر خلفائ رضی اللہ عنہم کو صائب رائیں بھی دیا کرتے تھے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ یہ خیال در اصل اہل سنت کا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے بیعت کی ہی نہیں جس کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے کہ خلافت کیتیسری منزل میں جب آپ کے سامنے سیرت شیخیں پر عمل کرنے کی شرط رکھی گئی تو باتفاق فریقین آپ نے خلافت ظاہری سے محروم رہنا گوارا کر لیا لیکن اس شرط کو ٹھکرا دیا۔ ظاہر ہے کہ جو شخص کسی کی بیعت کرچکا ہو وہ اس کی سیرت پر عمل کرنے سے انکار نہیں کرسکتا اور پھر علی(ع) جیسا اپنے فرض اور عہد کا پابند انسان ۱۲ مترجم عفی عنہ۔

۲۳۰

تنہائی کی وجہ سے انبیائ(ع) کا سکوت اور گوشہنشینی

خیر طلب: پہلی چیز تو یہ کہ انبیائ(ع) ا وصیائ مشیت خداوندی اور ہدایات الہی کے مطابق عمل کرتے تھےاور اپنا ذاتی ارادہ نہیں رکھتے تھے لہذا ان کے اوپر اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ جنگ کے لئے کیوں نہیں اٹھے یا دشمنوں کے مقابلہ میں سکوت و گوشہ نشینی کیوں اختیار کی یا شکست کیوں کھائی؟

اگر انبیاۓ عظام اور اصیاۓ کرام کے تاریخی حالات دیکھیئے تو اس قسم کے واقعات کثرت سے ملیں گے جو آپ کے خیالات سے میل نہیں کھاتے۔ خصوصیت کے ساتھ قرآن مجید نے بھی ان میں سے بعض کاذکر

کیا ہے کہ ان حضرات نے ہمراہی اورمددگار نہ ہونے کی وجہ سے خاموشی اور گوشہ نشینی یا روپوشی اور فرار اختیار کیا چنانچہ آیت نمبر۱۰ سورہ نمبر۵۴(قمر) میں شیخ الانبیائ حضرت نوح(ع) کا قول بیان کرتا ہے: "فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي‏ مَغْلُوبٌ‏ فَانْتَصِرْ "( یعنی پس خدا سے دعا کی کہ بار الہا میں ا پنی قوم سے مغلوب ہوں لہذا میری مدد کر) آیت نمبر۴۸ سورہ نمبر۱۶( مریم) میں حضرت ابراہیم علی نبینا و آلہ و علیہ السلام کے سکوت و کنارہ کشی کی خبر دیتا ہے کہ جس وقت انہوں نے اپنے چچا آزر سے امداد مانگی اور مایوس کن جواب پایا تو فرمایا:

"وَ أَعْتَزِلُكُمْ‏ وَ ما تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَ أَدْعُوا رَبِّي "

یعنی میں تم سے اور ان بتوں سے جن کی تم خدا کے علاوہ پرستش کرتے ہو کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں۔

پس جس مقام پر اپنے چچا سے امداد اور کمک نہ ملنے کی وجہ سے ابراہیم خلیل اللہ عزلت وگوشہ نشینی اختیار کریں، وہاں یار و مددگار نہ ملنے کی وجہ سے علی علیہ السلام کو بدرجہ اولی عزلت و کنارہ کشی اختیار کرنا چاہیئے۔

شیخ: میرا خیال ہے کہ اس عزلت سے مراد عزلت قلبی ہے کہ ان سے قلبا دوری اور بیزاری اختیار کی نہ کہ عزلت مکانی۔

خیر طلب: اگر جناب عالی فریقین کی تفسریں ملاحظہ فرمائیں تو دیکھیں گے کہ اعتزل سے مراد عزلت مکانی تھی نہ کہ عزلت قلبی مجھ کو یاد ہے کہ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد پنجم ص۸۰۹ میں کہتے ہیں:

" الاعزال للشئی هوالتباعدعنه ولمرادانی افارقکم فی المکان وافارقکم فی طریقتکم"

یعنی کسی چیز سے اعتزال کے معنی ہیں اس سے دوری اختیار کرنا، اور حضرت ابراہیم کی مراد یہ تھی کہ میں تم سے مکانی اور مذہبی دونوں حیثیتوں سے دوری اور علیحدگی اختیار کرتا ہوں۔

۲۳۱

چنانچہ ارباب سیر نے روایت کی ہے کہ اس قضیے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام بابل سے کوہستان فارس کی طرف ہجرت کر گئے اورسات سال تک انہیں پہاڑوں کے اطراف خلقت سے الگ تھلگ زندگی بسر کی، اس کےبعد بابل واپس آکے اپنی تبلیغ شروع کی اور بتوں کو توڑا۔ اس پر لوگوں نے ان کو گرفتار کر کے آگ میں ڈال دیا۔ خداوند عالم نے آگ کو ان پر سرد و سلامتی بنا دیا اور اس طرح ان کی رسالت کا سکہ بیٹھا۔

آیت نمبر۲۰ سورہ نمبر۲۸ (قصص) میں خوف و ہراس کی وجہ سے حضرت موسی علیہ السلام کے فرار کرنے کا قصہ اس طرح نقل فرمایا ہے:

" فَخَرَجَ‏ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ قالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ‏"

یعنی پسموسی خوف کی حالت میں دشمن کی نگرانی کرتے ہوۓ شہر سے باہر نکلے اور کہا خداوندا مجھ کو قوم ستمگار سے نجات دے۔

سورہ اعراف میں حضرت موسی(ع) کی عدم موجودگی میں سامری کے بہکانے سے بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی، اس کی شعبدہ بازی اور حضرت موسی(ع) کے خلیفہ ہونے کے باوجود حضرت ہارون کی خاموشی کو بیان کیا ہے، یہاں تک کہ آیت ۱۴۹ میں خبر دی کہ:

" وَ أَخَذَ بِرَأْسِ‏ أَخِيهِ‏ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ قالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَ كادُوا يَقْتُلُونَنِي "

یعنی موسی(ع) غصے میں اپنے بھائی کاسرپکڑ کے اپنی طرف کھینچنے لگے تو انہوں نے کہا اے میری ماں کے فرزند ( میری طرف سے ہدایت میں کوتاہی نہیں ہوئی بلکہ) در حقیقت قوم نے مجھ کو حقیر و کمزور بنا دیا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں۔

امر خلافت میں ہارون(ع) سے علی(ع) کی مشابہت

پس آیات قرآنی کے مطابق حضرت ہارون علیہ السلام نے جو پیغمبر اور حضرت موسی علیہ السلام کے منصوص خلیفہ تھے اپنی تنہائی کی وجہ سے اور اسبنا پر کہ امت نے ان کو ضعیف خوار بنا دیا تھا سامری کے عمل شفیع اور لوگوں کے شرک و گوسالہ پرستی کے مقابلے میں سکوت اختیار کیا اور تلوار نہیں اٹھائی۔

لہذا علی علیہ السلامبھی جن کو رسول اللہ(ص)نے ہارون کی شبیہ اور منزلت ہارونی کا حامل بتایا تھا و جیسا کہ ہم گذشتہ شبوں میں تفصیل سے عرض کرچکے ہیں) اس بات کا پورا حق رکھتے تھے کہ جب ایسی صورت حال پیش آجاۓ آپ تنہارہ جائیں اور دنیا طلبوں اور مخالفین کو دوسری طرف پائیں تو جناب ہارون کی طرحبسر و تحمل اختیار کریں۔ اسی بنا پر آپ کے اکابر علمائ کی روایتوں کے مطابق جو پہلے عرض کی گئیں جس وقت حضرت کو جبرا مسجد میں لاۓ، برہنہ تلوار آپ کے سر پر رکھی اور بیعت کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تو آپ نے اپنے کو قبر رسول(ص) تک پہنچایا اور وہی الفاظ دہراۓ جو خدا نے حضرت ہارون کی زبان نقل فرماۓ ہیں کہ انہوں نے حضرت موسی سے کہا تھا:

"ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَ كادُوا يَقْتُلُونَنِي "

مطلب یہ تھا، کہ یا رسول اللہ(ص) دیکھئیے امت نے مجھ کو تنہا چھوڑ دیا ہے، مجھ کو حقیر و ضعیف بنا دیا ہے اور چاہتے ہیں کہ مجھ کو قتل کردیں۔تمام

۲۳۲

انبیائ کی سیرتوں سے بالاتر اور سب سے بڑی حجت خود حضرت خاتم الانبیائ(ص) کی سیرت ہےجس پر غور کرنا ہمارے لئے ضروری ہے کہ مکہ معظمہ میں دشمنوں اور امت کی بدعتوں کے مقابل تیرہ سال تک کیوں خاموش رہے، یہاں تک کہ اپنے مرکز بعثت اور وطن مالوف سے رات کے وقت چھپ کر نکل گئے؟

بات صرف یہی تھی کہ آپ کے پاس ناصر و مددگار نہیں تھے لہذا انبیائ نے سلف کے مانند صبر و تحمل اور وہاں ٹھہرنے کے بجاۓ ہٹ جانے کو ترجیح دی، کیونکہ " الفرار مما لا یطاق من سنن المرسلین" یعنی جس چیز کی طاقت نہ ہو اس سے فرار اختیار کرنا پیغمبروں کی سنت۔ ۱۲ مترجم، بلکہ اس سے بڑھ کر کہوں آں حضرت(ص) اپنی قدرت و طاقت کے دور میں بھی قوم سے کماحقہ بدعت کے آثار کو ہر طرف نہیں کرسکے۔

شیخ: یہ کیوں کر یقین کیا جاسکتا ہے کہ آں حضرت(ص) بدعتوں کو برطرف نہیں کرسکے؟

خیر طلب: حمیدی نے جمع بین الصحیحیں میں اور امام احمد ابن حنبل نے مسند میں ام المومنین عائشہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے ان سے فرمایا کہ اگر یہ لوگ عہد کفر اور زمانہ جاہلیت سے قریب نہ ہوتے اور مجھ کواس کاخوف نہ ہوتا کہ یہ اپنے دلوں سے اس کے منکر ہوجائیں گے تو میں حکم دیتا کہ خانہ کعبہ کو مسمار کردیا جاۓ اور جو کچھ اس میں سے نکال دیا گیا ہے وہ پھر اس میں داخلکیا جاۓ میں اس عمارت کو زمین کے برابر کر کے زمانہ حضرت ابراہیم کی طرح مشرق و مغرب کی جانب اس کے دو دروزے قائم کرتا اور حضرت ابراہیم کی قائم کی ہوئی بنیادوں پر پھر سے اس کی تعمیر کرتا۔

حضرات ذرا اںصاف سے غور کیجئے تو ماننا پڑے گا کہ جہاں رسول اللہ(ص) باوجود اس بلند مرتبے اور الہی منصب کے کہ آپ شرک و کفر اور اس کے آثار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے مبعوث ہوۓ تھے اپنے صحابہ سے مطمئن نہ ہوں( جیسا کہ آپ کے بڑےبڑے علمائ نے لکھا ہے) اور تعمیر ابراہیمی میں داخل کی ہوئی بدعتکر کے اس کو اصلی صورت پر اس لئے نہ لاسکیں کہ کہیں مسلمان اپنی عہد جاہلیت کی عادت کے پیش نظر اس سے انکار نہ کر بیٹھیں، وہاں امیرالمومنین علیہ السلام بھی اس سیرت اور دستور پر عمل کرنے میں حق بجانب تھے، کیونکہ آپ کا سامنا ایک ایسی حاسد اور کینہ پرور قوم سے تھا جو اس چیز کا موقع ہی تلاش کررہی تھی کہ انتقام لینے کے لئے آپ کو بلکہ اصل دین اسلام ہی کو نظم و عداوت کے تیروں کا نشانہ بنائے۔

چنانچہ فقیہ واسطی ابن مغازلی شافعی اور خطیب خوارزمی نے اپنے مناقب میں نقل کیا ہے کہ رسول صلعم نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ امت تمہاری طرف سے دلوں میں کینے رکھتی ہے اور میرے بعد عنقریب یہ لوگ تم کو دھوکا دیں گے اور جو کچھ اپنے دلوں میں چھپاۓ ہوۓ ہیں اس کوظاہر کریں گے۔ میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ اس وقت صبر و تحمل سے کام لینا تاکہ خدا تم کو اس کا اجر اور جزاۓ خیر عنایت فرماۓ۔

۲۳۳

وفاتِ رسول(ص) کے بعد خدا کے لئے علی(ع) کا صبر وسکوت

دوسرے امیرالمومنین علیہ السلام وہ یکتا انسنا کامل تھے جنہوں نے زندگی بھر کبھی اپنی ذات کی طرف نہیں دیکھا بلکہ ہر وقت خدا پر نظر رکھتے تھے، یعنی ہر حیثیت سے فنا فی اللہ کی منزل میں تھے آپ اپنے کو، اپنے متعلقین کو اور امامت وخلافت اور ریاست کو محض خدا اور خدا کے دین کے لئے چاہتے تھے، لہذا آپ کا صبر وتحمل، خاموشی اور اپنا مسلم الثبوت حق حاصل کرنے کے لئے مخالفین سے مقابلہ نہ کرنا بھی صرف خدا کے لئے تھا تاکہ ایسا نہ ہو مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ پڑ جاۓ۔

لوگ اپنے سابق کفر کی طرف پلٹ جائیں۔ چنانچہ اس موقع پر جب حضرت فاطمہ مظلومہ(ع) کا حق چھینا جاچکا اور آپ مظلومی و مایوسی کی حالت میں گھر پلٹیں تو آپ نے امیرالمومنین علیہ السلام کو مخاطب کر کے عرض کیا:

" اشْتَمَلْتَ‏ شَمْلَةَ الْجَنِينِ‏، وَ قَعَدْتَ حُجْرَةَ الظَّنِينِ، نَقَضْتَ قَادِمَةَ الْأَجْدَلِ، فَخَانَكَ رِيشُ الْأَعْزَلِ، هَذَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ يَبْتَزُّنِي نَحِيلَةَ أَبِي وَ بُلْغَةَ ابْنَيَّ، الخ لَقَدْ أَجْهَرَ فِي خِصَامِي، وَ أَلْفَيْتُهُ أَلَدَّ فِي كَلَامِي"

یعنی آپ جنین کے مانند سمٹ کے بیٹھ رہے، ایک متہم انسان کی طرح گوشہ نشینی اختیار کر لی اور اپنے شکاری پرندے والے شہ پر توڑ دیئے۔ پس کمزور پرندے والے پروں نے آپ کا ساتھ نہیں دیا۔ یہ ابن قحافہ(ابوبکر) میرے باپ کا عطیہ اورمیرے بچوں کا ذریعہ معاش مجھ سے بجز چھین رہا ہے۔ الخ ۔ در حقیقت ان لوگوں نے مجھ سے کھلی ہوئی دشمنی برتی اور مجھ سے بدکلامی کی۔

آپ کی تقریر طولانی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سارا بیان سنتے رہے۔ یہاں تک کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا خاموش ہوئیں تو ایک مختصر جواب دے کر ان معصومہ کو مطمئن کردیا۔ من جملہ اس کے فرمایا۔ فاطمہ! میں نے امر دین اور احقاق حق میں جہاں تک ممکن تھا کوتاہی نہیں کی آیا تم یہ چاہتی ہو کہ یہ دین مبین باقی اور پائدار رہے اور تمہارے باپ کا نام ابد تک مسجدوں اور اذانوں کے اندر لیا جاتا رہے؟

آپ نے کہا میری سب سے بڑی آرزو اور خواہش یہی ہے۔ حضرت نے فرمایا، پس اس صورت میں تم کوصبر کرنا چاہیئے کیونکہ تمہارے باپ حضرت خاتم الانبیائ(ص) نے مجھ کو اس کے لئے وصیتیں فرمائی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ صبر سے کام لینا چاہیئے ورنہ میں اتنے طاقت رکھتا ہوں کہ دشمنوں کو زیر کر کے تمہارا حق وصول کرلوں، لیکن یہ جان لوکہ پھر دین ختم ہوجاۓ گا لہذا خدا کے لئے اور دین خدا کی حفاظت کے لئے صبر کرو کیونکہ آخرت کا ثواب تمہارے لئے اس حق سے بہتر ہے جو تم سے غصب کر لیا گیا ہے۔

اسی بنا پر حضرت نے صبر کو اپنا لائحہ عمل قرار دیا اور حوزہ اسلام کے تحفظ کی غرض سے ضبط و خاموشی اختیار کی تاکہ پارٹی بندی نہ پیدا ہونے پاۓ، چنانچہ اپنے اکثر خطبات و بیانات میں ان پہلوؤں کی طرف اشارہ بھی فرماتے رہے۔

۲۳۴

وفات رسول(ص) کے بعد خاموشی کی مصلحت پر علی(ع) کے بیانات

من جملہ ان کے ابراہیم بن محمد ثقفی جو ثقاتعلماۓ اہل سنت میں سے ہیں۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور علی بن محمد ہمدانی نقل کرتے ہیں کہ جب طلحہ اور زبیر نے بیعت توڑ دی اور بصرے کی طرف روانہ ہوۓ تو حضرت علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ لوگ مسجد میں جمع ہوں اس کےبعد ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا جس میں حمد و ثناۓ الہی کے بعد فرمایا:

" فإنّ اللّه تبارك و تعالى لمّا قبض نبيّه صلى اللّه عليه و آله و سلّم قلنا: نحن‏ أهل‏ بيته‏ و عصبته، و ورثته، و أوليائه، و أحقّ خلائق اللّه به، لا تنازع حقّه و سلطانه، فبينما نحن على ذلك، إذ نفر المنافقون، فانتزعوا سلطان نبيّنا صلى اللّه عليه و آله و سلّم منّا، و ولّوه غيرنا، فبكت لذلك و اللّه العيون و القلوب منّا جميعا، و خشّنت و اللّه الصدور، و أيم اللّه لو لا مخافة الفرقة بين المسلمين أن يعودوا إلىالكفر، و يعوّر الدين لكنّا قد غيّرنا ذلك ما استطعناه، و قد ولّى ذلك ولاة و مضوا لسبيلهم، و ردّ اللّه الأمر إلينا و قد بايعاني، و قد نهضا إلى البصرة ليفرّقا جماعتكم، و يلقيا بأسكم بينكم"

مطلب یہ کہ وفاتِ رسول(ص) کے بعد ہم نے کہا کہ ہم پیغمبر(ص) کے اہل بیت آپ کے عزیز، آپ کے وارث، آپ کی عترت، آپ کے اولیائ اور اہل عالم میں آپ کی جانب سے سب سے زیادہ حقدار۔ آں حضرت(ص) کے حق اور سلطنتمیں ہمارا کوئی فریق نہیں تھا لیکن منافقین کے ایک گروہ نے گٹھ جوڑ کر کے ہمارے نبی کی حکومت وسلطنت کو ہم سے چھین لیا اور ہمارے غیر کے سپرد کردیا پس خدا کی قسم اس کے لئے ہماری آنکھیں اور ہمارے دل رو دیئے اور خدا کی قسم ہم سب کے سینے غم اور غصے سے لبریز ہوگئے خدا کی قسم اگر مسلمانوں میں تفرقہ پڑجانے کا خوف نہ ہوتا کہ وہ اپنے دین سے پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔ تو ہم اس خلافت کا تختہ پلٹ دیتے( لیکن ہم نے سکوت اختیار کیا) وہ لوگ اس مسند پر قابض رہے یہاں تک کہ وہ اپنے ٹھکانے لگ گئے اور خدا نے امر خلافت کو پھر میری طرف پلٹایا چنانچہ ان دونوں(طلحہ و زبیر) نے بھی میری بیعت کی اس کے بعد محض اس لئے بصرے کی طرف کوچ کیا کہ تمہاری جماعت میں پھوٹ ڈال دیں اور تمہارے اندر خانہ جنگی پیدا کردیں۔

نیز آپ کے بڑے علمائ میں سے ابن ابی الحدید اورکلبی نے روایت کی ہے کہ بصرے کی طرف روانہ ہونے کے موقع پر حضرت نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور دوران تقریر میں فرمایا:

" إن الله لما قبض نبيه استأثرت علينا قريش بالأمر و دفعتنا عن حق نحن‏ أحق‏ به‏ من‏ الناس‏ كافة فرأيت أن الصبر على ذلك أفضل من تفريق كلمة المسلمين و سفك دمائهم و الناس حديثو عهد بالإسلام والدین"

یعنی جب رسولخدا(ص) نے رحلت فرمائی تو قریش نے خلافت کے

۲۳۵

۲۳۶

۲۳۷

اور نتیجہ یہ ہوتا کہ اسلام کی عمارت منہدم ہوجاتی۔

چونکہ امیرالمومنین علیہ السلام حقائق کے عالم ودانا تھے اور رسول اللہ(ص) بھی آپ کو خبر دے چکے تھے۔ لہذا جانتے تھےکہ دین کی ا صل فنا نہ ہوگی اور لوگوںکے درمیان دین کی مثال آفتاب کے مانند ہے جو کچھ مدت تک تو جہل و عناد کی گھٹاؤں میں چھپ سکتا ہے لیکن آخر کار ظاہر و درخشان ہوکر رہے گا(چنانچہ وہی ہوا کہ اس بزرگوار کے نور حقیقت نے عالم کو روشن ومنور کیا۔

پس آپ نے اندازہ کر لیا کہ مصلحت دین کے اقتضا سے اس وقت صبر کر جانا اس سے بہتر ہے کہ مقابلے کے لیے میدان میں آجائیں جس سے گروہ بندی کی تشکیل ہو، مسلمانوں میں پھوٹپڑے اور دشمنوں کو دین کی جڑ کاٹنےکا موقع ملے اگرچہ رسولِ خدا(ص) بقاۓ اسلام کی خبر دے چکے تھے لیکن یہ مسلمانوں کی ذلت و حقارت کا سبب تو بنتا ہی اور ایک زمانے تک کے لئے ان کی ترقی پھر پستی کے غار میں جا پڑتی۔ خلاصہ یہ کہ چھ مہینے تک اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھی، جلسوں اور شبعوں میں کثرت سے مناظرے کر کے حق کو ظاہر فرمایا( جیسا کہ پچھلی شبوں میں عرض کرچکا) بیعت نہیں کی، اور گو کہ جنگ کے لئے نہیں اٹھے لیکن مباحثات اور احتجاجات کے ذریعے اثبات حق کرتے رہے۔

خطبہ شقشقیہ

چنانچہ خطبہ شقشقیہ کی ابتدا ہی سے اس مقصد کی طرف اشارہ فرمایا ہے فرماتے ہیں:

" أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ تَقَمَّصَهَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ وَ إِنَّهُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْهَا مَحَلُ‏ الْقُطْبِ‏ مِنَ‏ الرَّحَى‏ يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ فَسَدَلْتُ دُونَهَا ثَوْباً وَ طَوَيْتُ عَنْهَا كَشْحاً وَ طَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَةٍ عَمْيَاءَ يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ وَ يَشِيبُ فِيهَا الصَّغِيرُ وَ يَكْدَحُ مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّهُ فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى هَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَيْنِ قَذًى وَ فِي الْحَلْقِ شَجاً أَرَى تُرَاثِي نَهْباً حَتَّى مَضَى الْأَوَّلُ لِسَبِيلِهِ فَأَدْلَى بِهَا إِلَى فُلَانٍ بَعْدَهُ الخ"

یعنی قسم خدا کی فلان شخص(ابوبکر) نے قمیص خلافت کو زبردستی پہن لیا حالانکہ یقینا وہ جانتا تھا کہ خلافت کے لئے میری حیثیت چکی کی میخ کی مانند ہے۔میرے سرچشمہ فیض سے علوم و معارف کا سیلاب امنڈتا ہے اور میرے علم و دانش کی بلندیوں میں کوئی پرندہ نہیں مارسکتا۔ پس میں نے اپنے اور اس جامہ خلافت کے درمیان پردہ ڈال دیا۔ اس سے پہلو تہی کی اور اس معاملہ میں غور کرنا شروع کیا آیا اس بریدہ اور شکستہ ہاتھوں سے(یعنی بغیر تاخیر و مددگار کے) اس پر حملہ کردوں یا ظلمت وتا ریکی ضلالت پر صبر کروں۔ یہ وہ مصیبت تھی جس کے صدمے سے بوڑھا ضعیف ہوجاۓ، خوردسال بوڑھا ہوجاۓ اور مومن رنج و غم میں مبتلا ہو۔ یہاں تک کہ اپنے

۲۳۸

پروردگار سے ملاقات کرے، اس وقت میں نے دیکھا کہ اس واقعے پر صبرکرنا ہی بہتر ہے اورع عقلمندی ہے۔ پس میں نے صبرکیا، در آنحالیکہ آنکھوں میں غبار اندوہ اور خار الم کی خلش تھی اور حلق میں غم و غصہ کا پھندا پڑ رہاتھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ میری میراث کس طرح تاخت و تاراج ہو رہی ہے، یہاں تک کہ پہلا تو اپنے راستے چلا گیا لیکن اپنے بعد خلافت کا تحفہ فلان ( عمر) کی گود میں ڈال گیاالخ۔

یہ سارا خطبہ حضرت کے درد دل سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن وقت اس سے زیادہ زحمت دینے کی اجازت نہیں دے رہے ہے۔ میرا خیال ہے کہ اثبات مقصد اور حضرت کے دلی تاثرات کو ظاہر کرنے کے لئے اسی قدر کافی ہے۔

خطبہ شقشقیہ میں اشکال اور اس کا جواب

شیخ: اول تو یہ خطبہ ان حضرت کی رنجیدگی کی دلیل نہیں ہے، دوسرے اس خطبے کا حضرت سے تعلق ہی نہیں ہے بلکہ ہو تو سیدشریف رضی الدین کی تصنیف ہے جس کو انہوں نے حضرت کے خطبات میں شامل کردیا ہے۔ ورنہ ان جناب کو خلفائ رضی اللہ عنہم سے کوئی شکایت نہ تھی بلکہ انتہائی خوشی تھی اور ان کے عمل درآمد سے بھی راضی تھے۔

خیر طلب: آپ کا یہ بیان سخت تعصب کا نتیجہ ہے ورنہ خلافت کے بارے میں حضرت کے بیانات اور شکایات کا پہلے ہی ذکر ہوچکا ہے، اور حضرت کی رنجیدگی و آزردگی کچھ اسی خطبے سے مخصوص نہیں کہ آپ اس پر اشکال تراشی کریں آپ کے اس اشکال پر کہ یہ خطبہ ایک عابد و پرہیزگار اور بزرگوار عالم سید رضی الدین رضوان اللہ علیہ کی تصنیف ہے میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ آپ بغض و عناد کے باعث حد اعتدال سے آگے بڑھ گئے ہیں اور بغیر کسی دلیل کے آخری دور کے اپنے بعض متعصب اسلاف کی پیروی کی ہے۔ البتہ اتنا کہوں گا کہ آپ کا مطالعہ گہرا نہیں ہے ورنہ سمجھ میں آجاتا کہ یقینی اور قطعی طور پر یہ خطبہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے منقول ہے کیونکہ آپ کے بڑے بڑے علمائ متقدمین ومتاخرین مثلا عزالدین عبدالحمید ابن ابی الحدید، شیخ محمد عبدہ، مفتی مصر اور شیخ محمد خصری نے محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ ص۱۱۷ میں شہادت دی ہے اور اعتراف کیا ہے کہ یہ خطبہ حضرت ہی کا ہے، نیز اس کی شرح بھی کی ہے۔ صرفچند آخری دور کے متعصب لوگوں نے اپنے فساد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے شبہات پیدا کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے ہیں ورنہ ان چالیس نفر سے زیادہ شیعہ و سنی اکابر علمائ میں سے جنہوں نے نہج البلاغہ کی شرحیں لکھی ہیں کسی ایک نے بھی ایسی بات نہیں کہی ہے۔

۲۳۹

سید رضیؒ کے حالات

اس کے علاوہ جلیل القدر عالم ربانی سید رضی الدین علیہ الرحمہ کی پرہیزگاری اور تقدس کا درجہ اس سے کہیںبلند ہے کہ ان پر خطبہ تصنیف کر کے حضرت علی علیہ السلام کی طرف اس کی جھوٹی نسبت دینے کا الزام لگایا جاۓ۔ اس کے ماسوا عربی ادب کے جن ماہرین نے نہج البلاغہ کے خطبوں پر غور کیا ہے انہوں نے ان کی فصاحت و بلاغت، قدرت الفاظ، بلندی مطالب اور ان کے اندر سموۓ ہوۓ علم و حکمت کے بیشبہاخزاںوں کے پیش ںظریہ طے کردیا ہے کہ سید رضی ہی نہیں بلکہ کسی فرد بشر کے لئےبھی ایسا کلام پیش کرنا ممکن نہیں ہے جب تک اس کا تعلق عالم غیب سے نہ ہو چنانچہ آپ کے اکابر علمائ جیسے عبدلحمید ابن ابی الحدید معتزلی نے اور متاخرین میں سے شیخ محمد عبد و مفتی مصر نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ حضرت کے خطبات وبیانات میں جو خوبصورت الفاظ، بلند مطالب اور نادر انداز کلام استعمال ہوا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ یہ کلمات کلام رسول(ص) کے بعد کلام خالق سے پست اور کلام مخلوق سے بلند ہیں۔

عالم جلیل القدر سید رضی رضوان اللہ علیہ کے نظم ونثر کلمات وخطبات اور رسائل شیعہ وسنی صاحبان علم کے تالیفات میں موجود ہیں جن کی نہج البلاغہ کے خطبوں سے مطابقت کرنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ دوںوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

چہ نسبت خاک را با عالم پاک

چنانچہ ابن ابی الحدید نقل کرتے ہیں کہ مصدق بن شبیب نے ابن الخشاب جیسے مشہور و معروف شخص سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا، نہ رضی نہ غیر رضیکسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے کہ ایسے نادر اسلوب کے ساتھ ایسا کلام پیش کرسکے۔ ہم نے کلمات رضی کو دیکھاہے، ان کو اس مقدس خطبات سے ہرگز کوئی رابطہ نہیں ہے۔

خطبہ شقشقیہ سید رضیؒ کی ولادت سے پہلے درج کتب تھا

علمی قواعد اور عقل اصول سے قطع نظر فریقین ( شیعہ وسنی)کے اہل علم اور اصحاب حدیث و تاریخ کے بڑی جماعت نے عالم گزرگوار سید رضی الدین اور ان کے پدر مرحوم ابو احمد نقیب الطالبین کی ولادت سے قبل اس خطبے کی روایت کی ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں کہتے ہیں کہ اس خطبہ شریفہ کو میں نے اپنے شیخ ابوالقاسم بلخی امام معتزلہ کی تصانیف میں کثرت سے پایا ہے۔ جو مقتدر باللہ عباسی کے زمانے میں تھے، اور ظاہر ہے کہ سید رضی کی ولادت اس کے مدتوں بعد ہوئی ہے۔اس کے علاوہ میں نے اس کو مشہور متکلم ابوجعفر بن قبہ کی کتاب الانصاف میں بھی بارہا دیکھا ہے جو

۲۴۰

شیخ ابوالقاسم بلخی کے شاگردوں میں سے تھے اور سید رضیکی ولادت سے قبل وفات پاچکے تھے۔ نیز شیخ ابوعبداللہ بن احمد معروف بابن خشاب سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیںمیں نے اس خطبے کو ان کتابوں میں دیکھا ہے جو سید رضی کی پیدائش سے دو سو برس پہلے تصنیف ہوچکی تھیں بلکہ یہ خطبہ میں نے علماۓ اہل ادب کی ان تحریروں میں بھی پایا ہے جو سید رضی کے والد احمد نقیب الطالبین کی ولادت سے قبل لکھی گئی تھیں۔

فیلسوف متبحر اور حکیم محقق کمال الدین میثم بن علی بن میثم بحرانی نے شرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے کہ میں نے اس خطبے کو دو جگہ پایا، ایک وزیر بن فرات کی تحریر میں جو سید شریف رضی الدین علیہ الرحمہ کی ولادت سے ساٹھ سال سے زیادہ پہلے لکھی گئی ہے۔ دوسرے شیوخ معتزلہ میں سے ابوالقاسم کے شاگرد ابوجعفر بن قبہ کی کتاب الانصاف میں جو ولادت سید رضی سے قبل ہی وفات پاچکے تھے۔ پس ان دلائل و شواہد سے آپ کے ان متعصب علماۓ متاخرین کی ہٹ دھرمی اور عناد ثابت ہوگیا جنہوں نے بجا طور پر ہاتھ پاؤں مارے ہیں، ان تمام دلائل و شواہد سے قطع نظر اس خطبے کے بارے میں آپ حضرات کا فرضی دعوے اس وقت صحیح ہوسکتا تھا جب کہ حضرت علی علیہ السلام کے دوسرے خطبات و واقعات اور دردِ دل کے نمونے جو خود آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں( اور جن میں سے بعض کی جانب میں گذشتہ شبوں میں اشارہبھی کرچکا ہوں) عام طور پر پیش نظر نہ ہوتے۔ کیا ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص561 میں حضرت کا یہ خطبہ تفصیل سے نقل نہیں کیا ہے کہ فرماتے ہیں، میں روز اول سے وقت وفات تک رسول اللہ(ص) کے ساتھ رہا۔ یہاں تک کہ آں حضرت(ص) نے میرے ہی سینے پر دم توڑا، میں نے ہی ملائکہ کی مدد سے آپ کوغسل دیا، آپ پر نماز پڑھی اور آپ کو قبر میں اتارا،پس آں حضرت(ص) کی نسبت مجھ سے زیادہ قریب اور حق دار کوئی بھی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ خطبے کے آخر میں اپنے اور مخالفین کے حالات بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:

" فوالّذي‏ لا إله‏ إلّا هو إنّي لعلى جادّة الحقّ، و إنّهم لعلى مزلّة الباطل"

یعنی قسم اس کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں یقینا میں حق کی شاہراہ پر ہوں اور میرے مخالفین قطعا مزلہ باطل یعنی اس منزل پر ہیں جہاں سے قعر ضلالت میں گرجاتے ہیں۔؟

پھر بھی آپ فرماتے کہ علی علیہ السلام اپنے مخالفین کو حق پر سمجھتے تھے اور ان سے رنجیدہ نہیں تھے بلکہ ان کے طرز عمل پر راضی تھے۔ جناب شیخ صاحب حق اور حقیقت اس طرح کی باتوں سے پوشیدہ اورفنا نہ ہوگی۔ اگر آپ سورہ نمبر9( توبہ) کی آیت نمبر(32) پر گہری نظر ڈالئے جس میں ارشاد ہے:

"‏ يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ بِأَفْواهِهِمْ وَ يَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكافِرُونَ‏"

یعنی وہ لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو پھونکیں مار کے بجھا دیں اور خدا نے اس کے برخلاف یہ طے کردیا ہے کہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا چاہے کافروں کو ناگوار ہی ہو۔

تو تصدیق کیجئے گا کہ ؎چراغے را کہ ایزد برفروزدگرابلہ پف زند ریشش بسوزد

شیخ: چونکہ رات کافی گذر چکی ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ بھی بہت خشکی کے ساتھ گفتگو فرمارہے ہیں۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ اب جلسہ برخاست کیا جائے۔ بقیہ مطالب اور جناب عالی کا جواب کل شب پر رہا۔ انشائ اللہ۔

۲۴۱

دسویں نشست

شب یک شنبہ سوم شعبان المعظم سنہ1345 ہجری

(رات ہوتے ہی مولوی صاحبان کافی بڑے مجمع کے ہمراہ تشریف لاۓ، عید ولادت حضرت امام حسین(ع) کی شب تھی لہذا شربت اور شیرینی وغیرہ کی تقسیم ہوئی، اس کے بعد ہم نے چاہا کہ مباحثے کا آغاز ہو کہ اتنے میں نواب عبدالقیوم خان صاحب بھی تشریف لے آۓ اور معمولی صاحب سلامت اور شربت و شیرینی کے بعد بیان کیا)

نواب: قبلہ صاحب میں اپنی جسارت کے لئے معافی چاہتا ہوں لیکن ایک ایسا مسئلہ پیش آگیا ہے کہ اس پر سوال اور گفتگو بہت ضروری ہے اگر اجازت ہو تو جلسے کی کاروائی اور مذاکرہ شروع ہونے سے پہلے اپنا مطلب عرض کروں۔

خیر طلب: ضرور فرمائیے، میں سننے کے لئے بسرو چشم حاضر ہوں۔

عمر کے علمی درجے پر سوال اور اس کا جواب

نواب: آج صبح کو کچھ لوگ غریب خانے پر اکٹھا تھے، سب جناب عالی کا ذکر خیر کر رہے تھے گذشتہ راتوں میں آپ مباحثہ کی تفصیل کے متعلق، اخبارات اور رسائل پڑھے جارہے تھے اور ہم لوگ طرفین کے بیانات پر بحث کر رہے تھے اتنے میں میرے ایک بندہ زادے( عبدالعزیز) نے جو اسلامیہ کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہے مجھ سے کہا کہ چند روز ہوۓ درجے میں درس دیتے ہوۓ ہمارے استاد معظم نے اپنی تقریر میں ایک موقع پر کہا کہ مدینہ منورہ میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ صدر اسلام کے سب سے بڑے فقیہوں میں سے تھے۔ آپ کو قرآن کے آیات و مطالب اسلام کے علمی و فقیہی مسائل پر پورا عبور حاصل تھا اور علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ عبداللہ ابن مسعود، عبداللہ ابن عباس، عکرمہ اور زید بن ثابت وغیرہ رضی اللہ عنہم جیسے فقہائ کے درمیان خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ فقیہ اور ممتاز تھے، یہاں تک کہ علی ابن ابی طالب

۲۴۲

کرم اللہ وجہہ جو علمی مسائل اور فقہی مباحث میں سارے صحابہ سے آگے تھے وہ بھی جب فقہی مشکلات اور حقوق مسلمین میں مجبور پڑتے تھے تو خلیفہ ثانی عمر کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان کی ذہانت اور علم و دانش کا سہارا لیتے تھے اور خلیفہ بھی علی کے علمی مشکلات اور فقہی مسائل کو حل کردیا کرتے تھے اس پر اور سب نے نے بھی تصدیق کی کہ بات بالکل صحیح ہے کیونکہ ہمارے علمائ نے بیان کیا ہے کہ خلیفہ عمر مراتب علم وفضل میں یکتاۓ زمانہ تھے، مجھ کو چونکہ دینی معاملات اور تاریخی حالات سے پوری واقفیت نہیں تھی لہذا سکوت اختیار کیا، بالاخر اپنے احباب اور بالخصوص بندہ زادے سے وعدہ کیا کہ آج را ت کو مناظرہ شروع ہونے سے پہلے میں یہ مسئلہ پیش کروں گا، چونکہ فریقین کے علمائ موجود ہیں لہذا اس اہم مطلب کا کوئی نتیجہ ضرور نکلے گا جس سے ہم کو صحابہ کے علمی مدارج کا پتہ چل جاۓ گا۔ چنانچہ جسارت کرتے ہوۓ گذارش ہے کہ آپ اس بات کی اچھائی یا برائی کو زیر بحث لائیں تاکہ عام لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں اور ہم ہر ایک صحابی کے علمی معیار کی جانچ کر کے فیصلہ کر سکیں کہ صحابہ میں سے کس کو علمی فوقیت حاصل تھی۔ بندہ زادہ اور احباب بھی نتیجہ معلوم کرنے کے لئے حاضر ہیں۔ ہم کو مستفیض فرمائیے تاکہ بالخصوص بندہ زادہ اگر متزلزل ہو تو ثابت قدم ہوجاۓ۔

خیر طلب: ( میں نے جناب یوسف علی شاہ کی طرف جو ایک محترم شیعہ فاضل اور اسی کالج میں تاریخ و جغرافیہ اور انگریزی زبان کے مدرس تھے، رخ کر کے پوچھا کہ کیا یہی بات ہے؟ انہوں نے فرمایا، مجھ کو معلوم نہیں کون معلم تھا اور اس نے کیا تقریر کی۔

خیر طلب: ایسا کہنے والا چاہے جو بھی ہو اس کے اوپر سخت تعجب ہے کہ اس نے یہ باتیں کہاں سے پیدا کر لیں۔ عوام کی بات چیت میں تو خیر افراط و تفریط کثرت سے ہوتی ہے لیکن ایک مسلم کی گفتگو کو حلم و منطق کے مطابق ہونا چاہیئے۔ یہ بے علم اور لفاظ معلم جو شخص بھی رہا ہو اس نے ایسا دعوی کیا ہے جو آپ کے علمائ نے اس کو جھٹلا دیا ہے اس کے علاوہ یہ تعریف تو بما لایرضی صاحبہ (یعنی جس پر خود ممدوح بھی راضی نہیں) ہے، کیونکہ خود خلیفہ عمر نے بھی ہرگز کبھی اس کا دعوی نہیں کیا ہے نیز آپ کے علمائ نے کسی کتاب میں اس عقیدے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ جس محدث اور مورخنے خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب کے حالات میں کچھ لکھا ہے اس نے صرف ان کی چالاکی، ہوشیاری، سخت گیری اور سیاسی مہارت سے بحث کی ہے اور ان کے علم کے موضوع پر اپنی کتابوں میں قطعا کوئی بحث یا نبوت پیش نہیں کیا ہے۔ ورنہ خلیفہ کے حالات کی تشریح میں انہوں نے جو ابواب قائم کئے ہیں انہیں میں ایک باب ان کے علم کے لئےبھی ہونا چاہیئے تھا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس قول کے برخلاف فریقین کی کتابوںمیں پوری صراحت سے درج ہے کہ خلیفہ عمر علمی مسائل کی مہارت اورفقہی مدارج سے کورے تھے اور اس قسم کے اتفاقات اور احتیاج کے مواقع پر علی(ع)، عبداللہ ابن مسعود اور دوسرے فقہاۓ مدینہ کا دامن تھامتے تھے خصوصیت کے ساتھ ابن ابنی الحدید نےنقل کیاہے کہ عبداللہ ابن مسعود مدینے کے فقیہوں میں سے تھے اور خلیفہ عمر کا اصرار تھا کہ عبداللہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں تاکہ جب ضروری موقع اور اہم مراحل در پیش ہوں اور ان سے فقہی سوالات کئے جائیں تو عبداللہ ان کا

۲۴۳
۲۴۴
۲۴۵

ارتکاب نہیں کیا جاسکتا۔ اور ظاہر ہے کہ عورت کے اس مخصوص مال کو جس کی وہ بحکم قرآن اپنے مہر کے عنوان سے مالک ہوچکی ہے چھین کر بیت المال میں داخل کرنا شرعا ہرگز جائز نہیں ہے۔

ان تمام چیزوں سے قطع نظر کسی شخص پر ایسے عمل کے لئے جس میں اس نے کوئی جرم وگناہ نہ کیا ہو حد جاری کرنا فقہ اسلامی کے روسے قطعا جائز نہیں ہے۔ حدود تعزیرات کے باب میں میری نظر سے تو کوئی ایسا مسئلہ گذرا نہیں ہے، اگر آپ جانتے ہوں تو بتادیجئے۔ اور اگر باب حدود میں کوئی ایسی حد موجود نہیں ہے تو آپ کو تصدیق کرنا چاہیئے کہ معلم کا یہ دعوی غلط اور بے جا تھا۔

وفاتِ پیغمبر(ص) سے عمر کا انکار

اتفاق سے خلیفہ کی عادت ہی کچھ ایسی تھی کہ ان کو ہر موقع پر تاؤ آجاتا تھا اور دوسرے شخص کو مرعوب کرنے کے لیے غصہ دکھا کر کہتے تھے کہ میں حد جاری کروں گا۔ چنانچہ امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، طبری نے اپنی تاریخ میں اور آپ کے دوسرے علمائ نے نقل کیا ہے کہ جب رسول خداصلعم نے دنیا سے ( رحلت فرمائی تو عمر ابوبکر کے پاس گئے اور کہا مجھ کو خوف ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو محمد(ص) مرے نہ ہوں بلکہ حیلہ کیا ہو( یعنی اپنے کو مردہ بنا لیا ہو) تاکہ اپنے دوست و دشمن کو پہچان لیں، یا حضرت موسی(ع) کی طرح غائب ہوگئے ہوں اور پھر واپس آکر جس نے ان کی مخالفت کی ہو اور نافرمان بن گیا ہو اس کو سزا دیں۔ پس جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ(ص) مرگئے ہیں میں اس پر حد جاری کروں گا۔ ابوبکر نے جب یہ باتیں سنیں تو ان کے دل میں بھی شک پیدا ہوا اس طرح گفتگو سے لوگوں میں ایک اضطراب پھیل گیا اور آپس میں اختلاف ہونے لگا۔ جب اس کی خبر علی علیہ السلام کو پہنچی گو آپ فرما فورا مجمع کے سامنے تشریف لاۓ اور فرمایا، اے قوم! تم لوگوں نے یہ کیا جاہلانہ شور و غل برپا کر رکھا ہے۔ کیا تم اس آیہ شریفہ کو بھول گئے ہو کہ خداوند عالم نے رسول کی زندگی ہی میں آپ سے دیا تھا۔ انک میت و انہم میتون۔ یعنی یقینا تم کو بھی موت آۓ گی اور تمہاری امت والے بھی مریں گے؟ پس بحکم آیت رسول خدا(ص) نے دنیا سے رحلت فرمائی۔ علی علیہ السلام کا یہ استدلال امت کی سمجھ میں آگیا اور لوگوں نے آں حضرت(ص) کی موت پر یقین کر لیا۔ عمر نے کہا گویا میں نے یہ آیت کبھی سنی ہی نہیں تھی۔

ابن اثیر نے کامل اور نہایہ میں زمخشری نے اساس البلاغہ میں، شہرستانی نے ملل والنحل مقدمہ چہارم میں اور آپ کے دوسرے متعدد علمائ نے لکھا ہے کہ جس وقت عمر چیخ رہے تھے کہ پیغمبر(ص) ہرگز نہیں مرے ہیں، تو ابوبکر ان کے پاس پہنچے اور کہا، کیا خداوند عالم یہ نہیں فرماتا ہے کہانک میت و انهممیتون نیز یہ بھی فرمایا ہے کہافان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ( یعنی اگر وہ ( پیغمبر(ص)) اپنی موت سے مرجائیں یا قتل کردیئے جائیں تو کیا تم پھر اپنے پچھلے کفر وجاہلیت

۲۴۶

پر پلٹ جاؤگے؟) اس وقت عمر خاموش ہوۓ اور کہا، گویا میں نے یہ آیت قطعا سنی ہی نہیں تھی، اب مجھ کو یقین آیا کہ پیغمبر(ص) نے وفات پائی۔

اب آپ خدا کے لئے سچ بتائیے، کیا اس متعصب معلم نے بغیر علم کے بے جا اور غلط دعوی نہیں کیا ہے۔۔

پانچ اشخاص کی سنگساری کا حکم اور حضرت علی(ع) کی تنبیہ

من جملہ اور دلائل کے ایک یہ ہے جس کو حمیدی جمع بین الصحیحین میں نقل کرتے ہیں کہ خلافتِ عمر کے زمانے میں پانچ اشخاص زنا کے جرم میں گرفتار کر کے خلیفہ کے سامنے لاۓ گئے اور اس کا ثبوت بھی گزر گیا کہ ان پانچوں نے فلان عورتوں کے ساتھ زنا کی ہے۔ عمر نے فورا ان کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا، اسی وقت حضرت علی علیہ السلام مسجد میں داخل ہوۓ اور اس حکم سے مطلع ہوکر عمر سے فرمایا کہ اس مقام پر خدا کا حکمتمہارے حکم کے خلاف ہے۔ عمر نے کہا، یا علی زنا ثابت ہے اور ثبوت زنا کے بعد سنگساری کا حکم ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ زنا کے متعلق مختلف صورتوں میں الگ الگ احکام ہیں، چنانچہ اس موقع پر بھی حکم میں اختلاف ہے۔ عمر نے کہا جو خدا و رسول(ص) کا حکم ہو بیان کیجئے کیونکہ میں رسول خدا(ص) سے بارہا سن چکا ہوں کہ آں حضرت نے فرمایا" علی اعلمکم و اقضاکم" یعنی علی تم سب سے زیادہ عالم اور تم سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔ حضرت نے حکم دیا کہ وہ پانچوں اشخاص لاۓ جائیں۔ پہلے ایک شخصحاضر کیا گیا تو :

"امر بضرب عنقه وامر برجم الثانی و قدم الثالث فضربه فقدم الرابع فضربه نصف الحد خمسین جلدة فقدم الخامس فعزره"

یعنی حکم دیا کہ اس کی گردن مار دی جاۓ، دوسرے کو سنگسار کرنے کا حکم دیا، تیسرا آیا تو اس کو سو(100) تازیانے لگواۓ، چوتھے کو نصف حد یعنی پچاس تازیانے اور پانچواں کو حد تعزیر یعنی پچیس تازیانے مارنے کا حکم صادر فرمایا۔

عمر متعجب و متحیر ہوۓ اورکہا" کیف ذالک یا ابالحسن " یہ فیصلہ آپ نے کیونکر کیا؟ حضرت نے فرمایا:

"أَمَّا الْأَوَّلُ فَكَانَ ذِمِّيّاً زَنَى‏ بِمُسْلِمَةٍ فَخَرَجَ عَنْ ذِمَّتِهِ وَ أَمَّا الثَّانِي فَرَجُلٌ مُحْصَنٌ زَنَى فَرَجَمْنَاهُ وَ أَمَّا الثَّالِثُ فَغَيْرُ مُحْصَنٍ فَضَرَبْنَاهُ الْحَدَّ وَ أَمَّا الرَّابِعُ فَعَبْدٌ زَنَى فَضَرَبْنَاهُ نِصْفَ الْحَدِّ وَ أَمَّا الْخَامِسُ فَمَغْلُوبٌ عَلَى عَقْلِهِ مَجْنُونٌ فَعَزَّرْنَاهُ فَقَالَ عُمَرُ لَا عِشْتُ فِي أُمَّةً لَسْتَ فِيهَا يَا أَبَا الْحَسَنِ."

یعنی پہلا شخص کافر ذمی تھا جس نے مسلمان عورت سے زیا کی تھی لہذا وہ ذمہ اسلام سے خارج ہوگیا تھا ( اور اس کے لئے گردن مارنے کا حکم تھا) دوسرا شخص شادی شدہ تھا اس وجہ سے سنگسار کیا گیا۔ تیسرا شخص مجرد تھا پس اس کے اوپر سو(100)تازیانوں کی حد جاری کی گئے چوتھا شخص غلام تھا جس کی حد آزاد کی نصف یعنی پچاس تازیانے ہے، اور پانچواں شخص ابلہ اور کم عقل تھا اس سبب سے اس کو صرف تعزیر دی گئی یعنی پچیس تازیانے مارے گئے۔ پس عمر نے کہا، اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا

۲۴۷

ہوتا۔ میں زندہ نہ رہوں اس امت کے اندر جس میں آپ نہ ہوں۔ ( اے ابوالحسن(ع))

حاملہ عورت کی سنگساری کا حکم اور حضرت علی(ع) کی ممانعت

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب فی مناقب امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) میں، امام احمد بن حنبل مسند میں، بخاری اپنی صحیح میں، حمیدی جمع الصحیحین میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب14 ص75 میں مناقب خوارزمی سے امام فخرالدین رازی اربعین ص466 میں، محب الدین طبری ریاض النضرہ جلد دوم ص196 میں، خطیب خوارزمی مناقب ص48 میں، محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص13 میں اور امام الحرم ذخائر العقبی ص80 میں نقل کرتے ہیں کہ:

" اتي عند عمر بن الخطاب رضیالله عنه امرأة حاملة، فسألها فاعترفت‏ بالفجور فأمر بها بالرجم فقال عليّ لعمر سلطانك عليها فما سلطانك على الذی في بطنها؟ فخلى عمر سبيلها و قال: عجزن النساء أن يلدن عليّا و لو لا علي لهلك عمروقال الله مل اتبقی لمعضلةلیس له اعلی حیا."

یعنی عمر ابن خطاب رضی اللہ نہ کے سامنے ایک حاملہ عورت لائی گئی، پوچھنے پر اس نے زنا کاری کا اقرار کیا، تو انہوں نے سنگسار کرنے کا حکم دیے دیا، پس علی علیہ السلام نے عمر سے فرمایا کہ تمہارا حکم اس عور ت کے اوپر تو نافذ ہے لیکن جو بچہ اس کے شکم کے اندر ہے اس کے اوپر تم کو کوئی اختیار نہیں ہے( کیونکہ وہ بے گناہ ہے اس کا قتل جائز نہیں) اس پر انہوں نے اس عورت کو چھوڑ دیا۔ اور کہا عورتیں علی جیسا انسان پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا۔ پھر کہا خداوندا مجھ کو کسی ایسے پیچیدہ اور مشکل امر کے لئے باقی نہ رکھ جس کو حل کرنے کے لئے علی موجود نہ ہوں۔

مجنون عورت کی سنگساری کا حکم اور حضرت علی(ع) کی روک تھام

نیز امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی نے ذخائر العقبی ص81 میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب14 ص75 میں حسن بصری سے، ابن حجر نے فتح الباری جلد دوازدہم ص101 میں، ابوداؤد نے سنن جلد دوم ص227 میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص87 میں، ابن ماجہ نے سنن جلد دوم ص227 میں، منادی نے فیض القدیر جلد چہارم ص257 میں، حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد دوم ص59 میں، قسطلانی نے ارشاد الساری جلد دہم ص9 میں، بیہقی نے سنن جلد ہشتم ص164 میں، محب الدین طبری نے ریاض النضرہ ص196 میں اور بخاری نے اپنی صحیح بابلا یرجم المجنون والمجنونة میں، غرضیکہ آپ کے اکثر اکابر علمائ نے نقل کیا ہے کہ ایک روز ایک مجنون عورت کو خلیفہ عمر ابن خطاب کے

۲۴۸

سامنے لاۓ جس نے زنا کیا تھا اور اقرار زنا کے بعد خلیفہ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا۔ حضرت امیرالمومنین موجود تھے آپ نے فرمایاتم یہ کیا کر رہے ہو۔

"رفع‏ القلم‏ عن‏ ثلاثة: عن النائم حتّى يستيقظ، و عن المجنون حتّى يفيق، و عن الطفل حتّى يحتلم قال فخلا سبيلها"

یعنی میں نے رسول اللہ(ص) کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ تین قسم کے لوگ مرفوع القلم قرار دیئے گئے ہیں، سوتا ہوا شخص جب تک وہ بیدار نہ ہو، دیوانہ جب تک وہ صحت یاب اور صاحب عقل نہ ہوجاۓ اور بچہ جب تک وہ بالغ نہ ہوجاۓ۔ یہ سن کر خلیفہ نے اس عورت کو رہا کردیا۔

ابن السمان نے کتاب الموافقہ میں اس قسم کی بہت سی روایتیں نقل کی ہیں اور بعض کتابوں میں تو خلیفہ کی غلطی اور اشتباہ کے تقریبا سو مقامات درج ہیں، لیکنجلسے کا وقت اس سے زیادہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میرا خیال ہے کہ نمونے اور اثبات مقصد کے لئے جتنا عرض کیا گیا اسی قدر کافی ہوگا۔ امید ہے کہ اپنے اکابر علمائ کی نقل کی ہوئی یہ روایتیں سننے کے بعد آپ حضرات تسلیم کریں گے کہ جس بے خبرمعلم نے ایسی بات کہی ہے وہ علم سے بالکل بے بہرہ انسان ہے اور اس نے محض تعصب و عناد کے ماتحت یہ بیان دیا ہے قطعا اس سے دلیلکا مطالبہ کرنا چاہیئے( کیونکہ وہ ہرگز اس پر کوئی دلیل قائم نہیں کرسکتا) جو کچھ فریقین کے نزدیک مسلم ہے وہ یہ ہے کہ سارے اصحابِ رسول کے درمیان کوئی شخص امیرالمومنین علیہ السلام سے زیادہعالم و فقیہ اور کامل نہیں تھا، جیسا کہ نورالدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ فصل سوم ص17 میں، بسلسلہ حالات حضرت علی علیہ السلام لکھا ہے۔

علی علیہ السلام کا علم وفضل اور منصب قضاوت

فصل فی ذکر شئی من علومه فمنهاعلم الفقه الذی هِومرجع الانام و منبع الحلال و الحرام فقد کان علی مطلعهاعلی فوامض احکامهِ منقادالهجامعهِ بزمامه مشهودالهفیه بعلومحله ومقامه ولهذااخصه رسولالله ِصلی الله علیه وسلم لعلم القضائکم اتقلهل امام ابومحمدالحسین بن مسعود البغوی رحمةالله علیه فی کتابه المصابیحم رویاعن انس بن مالک أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص لَمَّا خَصَّصَ جَمَاعَةً مِنَ الصَّحَابَةِ كُلَّ وَاحِدٍ بِفَضِيلَةٍ خَصَّصَ‏ عَلِيّاً بِعِلْمِ‏ الْقَضَاءِ فَقَالَ صلی الله ِعلیه ِوآلهِ وسلم وَ أَقْضَاکُمْ عَلِيٌّ."

یعنی ابن صباغ مالکی کہتے ہیں کہ اس فصل میں علی علیہ السلام کے علوم کا تذکرہہے۔ منجملہ ان کے علم فقہ ہے جو

۲۴۹

لوگوں کا مرجع حلال و حرام کا سرچشمہ ہے۔ پس یقینا علی علیہ السلام اس کے غوامض احکام اور حقائق سے آگاہ تھے، اس کے دشوار مسائل آپ کے لئے آسان اور اس کے بلند مطالب آپ کے پیش نظر تھے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سب کے مقابلے میں علم و فضل سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ(ص) نے صحابہ کی ایک جماعت میں سے ہر ایک کی کسی نہ کسی فضیلت کے ساتھ تخصیص کی تو علی کو علم قضاوت کے ساتھ خصوصیت دی اور فرمایا، علی تم سب لوگوں سے بہتر فیصلہ الاحکم دینے والے ہیں۔

نیز اسی حدیث علی اقضا کم کو محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول فی مناقب آل رسول ص22 میں مخصوص فرمایا جیسا کہ امام ابومحمد حسین بن مسعود بغوی نے کتاب مصابیح میں انس بن مالک سے قاضی بغوی سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

"و قد صدع هذا الحديث بمنطوقه و صرح‏ بمفهومه‏ أن أنواع العلم و أقسامه قد جمعهارسول الله لعلي دون غيره "

یعنی یہ حدیث اپنے مضمون اور مفہوم سے اس بات کی پوری صراحت کررہی ہے کہ رسول خدا صلعم نے علم کے سارے انواع و اقسام کو دوسروں کے علاوہ صرف علی علیہ السلام کے اندر جمع فرمایا ہے اس لئے کہ قضاوت کا حق اسی شخص کو حاصل ہے جو علاوہ کمال عقل، زیادتی تمیز اور ذہانت و زکاوت کے سہو و غفلت سے دور ہو اور جملہ علوم کے کے اندر پوری مہارت رکھتا ہو۔ اور حدیث کے اندر افعل التفضیل کا صیغہ مکمل طور سے اس مقصد کا ثابت کرتا ہے، اس کے بعد بہت سے دلائل تشریح کے ساتھ بیان کئے ہیں کہ علی علیہ السلام تمام امت سے زیادہ عالم اور افضل تھے۔

پس آپ حضرات احادیث منقولہ پر غور کرنے اور اپنے بڑے بڑے محققین علمائ کے بیانات سے اس بے علم معلم کے الفاظ کو مطابق کرنے کے بعد تصدیق کریں گے اس کا دعوی سرتا سر غلط ہے کیونکہ علی علیہ السلام کا مقدس مرتبہ اس سے کہیں بلند ہے کہ صحابہ میں سے کسی کے ساتھ آپ کا موازنہ کیا جاۓ اس معلم صاحب کا تو یہ معاملہ ہے کہ" پیراں نمی پرند مریداں می پرانند" اس لئے کہ خود خلیفہ عمر نے علی علیہ السلام کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کیا ہے اور( جیسا کہ خود آپ کے اکابر علمائ نے اوقات اور مواقع کا حوالہ دیتے ہوۓ نقل کیا ہے) اپنے زمانہ میں خلافت میں ستر مرتبہ کہا ہے"لو لا علي لهلك عمر " ( یعنی اگرعلی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا"وہ ہرگز اس پر تیار نہیں تھے کہ ان کی طرف ایسی فضیلت منسوب کی جاۓ اور اس قسم کیتعریف و توصیف یقینا ان کی مرضی کے خلاف ہے۔

اس متعصب اور بے علم معلم کے مبالغہ آمیز قول کے برخلاف امام احمد بن حنبل مسند میں، اور امام الحرم احمد مکی شافعی ذخائر العقبی میں، جیسا کہ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب56 میں اور محب الدین طبری نے ریاض النضرہ جلد دوم ص195 میں معاویہ کا قول نقل کیا ہے، کہتے ہیں کہ:

"ان عمر بن الخطاب اذا اشکل علیه شئی اخذ من علی "

یعنی جس وقت عمر ابن خطاب کو کوئی مشکل معاملہ پیش آتا تھا تو علی علیہ السلام سے مدد حاصل کرتے تھے۔

یہاں تک کہ ابوالحجاج بلوی اپنی کتاب ( الف با) کی جلد اول ص224 میں نقل کرتے ہیں کہ جس و قت معاویہ کو شہادت علی اسلام کی

۲۵۰

خبر ملی تو کہا"لقد ذهب الفقه والعلم بموت ابن ابیطالب " یعنی علی علیہ السلام کی موت سے فقہ اور حکم جاتا رہا۔

نیز سعید ابن مسیب سے معاویہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ :

"‏ كان عمر رضی الله عنه يتعوذ من‏ معضلة ليس لها أبو حسن."( یعنی عمر رضی اللہ عنہ ایسی دشواری سے پناہ کرتے تھے جس کو د فع کرنے کے لئے ابوالحسن ( علی علیہ السلام) موجود نہ ہوں۔

ابوعبداللہ محمد بن علی الحکیم الترمذی شرح رسالہ فتح المبین میں کہتے ہیں:

"کانت الصحابه رضی الله عنهم یرجعون الیه فی احکام الکتاب و یاخذون عنه الفتاوی کما قال عمر بن الخطاب رضی الله عنه فی عدةمواطنلو لا علي لهلك عمر و قال صلی اللهعلیهوسلمأعلم‏ أمّتي‏ من بعدي عليّ بن أبي طالب."

یعنی پیغمبر(ص) کے اصحاب احاکم قرآن میں علی علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے تھے اور آپ سے فتوی حاصل کرتے تھے، جیسا کہ عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے متعدد مقامات پر کہا ہے کہ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا اور رسول خدا صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت کے سب سے بڑے عالم علی ابن ابی طالب ہیں۔جو کچھ اخبار و تواریخ کی کتابوں میں ملتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ عمر علمی مراتب اور فقہی مسائل میں اس قدر کورے تھے کہ اکثر عام اور ضروری احکام و مسائل میں ایسا کھلا ہوا دھوکا کھاتے تھے کہ جو صحابی موجود ہوتا تھا وہ ان کو متنبہ اور متوجہ کردیتا تھا۔

شیخ: آپ بہت بے لطفی کی بات کر رہے ہیں کہ خلیفہ کو ایسی نسبت دیتے ہیں آیا یہ ممکن ہے کہ خلیفہ رضی اللہ عنہ دینکے احکام و مسائل میں دھوکا کھا گئے ہوں۔؟

خیر طلب: یہ بے لطفی میری طرف سے نہیں ہے بلکہ خود آپ کے بڑے بڑے علمائ نے حقیقت کا انکشاف کیا ہے اور اپنی معتبر کتابوں میں درج اور شائع کیا ہے۔

شیخ: اگر ممکن ہو تو ذرارہ اشتباہ کے واقعے مع اسناد کے بیان فرمائیے تاکہ سچ اور جھوٹ کا پول کھل جاۓ اورتہمت لگانے والا ذلیل ہو۔

خیر طلب: ان کے اشتباہ کے واقعات بہت ہیں اور ایسے تقریبا سو مواقع کتابوں میں درج ہیں لیکن اس وقت جو میرے پیش نظر ہیں ان میں سے بلحاظ وقت صرف ایک نمونہ عرض کرتا ہوں۔

تیممّ کےبارے میں اشتباہ اور غلط حکم

مسلمابن حجاج نے اپنی صحیح ب اب تیمم میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند جلد چہارم ص90225

۲۵۱

میں، بیہقی نے سنن جلد اول ص209 میں، ابو داؤد نے سنن جلد اول ص54 میں، ابن ماجہ نے سنن جلد اول ص20 میں، امام نسائی نے سنن جلد اول ص59 تا ص61 میں اور آپ کے دوسرے اکابر علمائ نے مختلف طریقوں سے الفاظ کے فرق کے ساتھ نقل کیا ہے کہ خلافت عمر کے زمانے میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا، میں جنب ہوگیا ہوں اور غسل کے لئے پانی نہیں مل سکا ہے، ایسی صورت میں میں نہیں جانتا کہ مجھ کو کیا کرنا چاہیئے۔ خلیفہ نے کہا جب تک پانی نہ ملے اور غسل نہ کر لو اس وقت تک نماز نہ پڑھو۔ صحابہ میں سے عمار یاسر موجود تھے انہوں نے کہا، اے عمر تم کیا بھول گئے ہو کہ ایک سفر میں اتفاق سے مجھ کو اور تم کو غسل کی ضرورت لاحق ہوئی، چونکہ پانی نہیں تھا لہذا تم نے نماز نہیں پڑھی، لیکن میں نے سوچا کہ تیمم بدل غسل کا طریقہ یہ ہے کہ سارے جسم پر مٹی ملی جاۓ لہذا اپنے کل بدن پر خاک مل کے نماز پڑھ لی۔ جب رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوۓ تو آں حضرت(ص) نے مسکراتے ہوۓ فرمایا کہ تیمم کے لئے اسی قدر کافی ہے کہ ہاتھ کی دونوں ہتھیلیوں کو ایک ساتھ زمین پر مار کر دونوں ہتھیلیاں ملا کر پیشانی پر ملی جائیں اس کے بعد بائیں ہتھیلی سے داہنے ہاتھ کی پشت دست پر اور پھر داہنی ہتھیلی سے بائیں ہاتھ کی پشت دست پر مسح کیا جاۓ۔ پس اب تم یہ کیوں کہہ رہے ہو کہ نماز نہ پڑھو؟

عمر کو کوئی جواب نہ بن پڑا تو کہا، اے عمار خدا سے ڈرو۔ عمار نے کہا، کیاتم اجازت دیتے ہو کہ یہ حدیث نقل کروں تولیک ماتولیت۔ یعنی جاؤ میں نےتم کو تمہاری مرضی پر چھوڑا؟ اب اگر آپ حضرات اس معتبر روایت پر جس کو آپ کے علمائ نے اپنے معتبر صحاح میں نقل کیا ہے ہر پہلو سے غور کریں تو یقینا بے ساختہ تصدیق کریں گے کہ معلم صاحب کا یہ کہنا بالکل ہی بیجا ہے کہ خلیفہ صحابہ کے درمیان بہت بڑے فقیہ تھے۔

یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایکفقیہ جو شب و روز اور سفر و حضر میں پیغمبر(ص) کے ہمراہ رہا ہو اور آں حضرت(ص) سے سنا بھی ہو کہ پانی نہ ملنے پر کس طرح تیمم کرنا چاہیئے، اس کے علاوہ سورہ نمبر5 ( مائدہ) آیت نمبر9 میں خداوند عالم کا یہ صریحی حکم بھی پڑھ چکے ہو۔"فَلَمْ‏ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً" ( یعنی اگر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کرو) وہ حکم الہی میں ترمیم کر کے ایک مسلمان آدمی سے کہے کہاگر پانی نہیں ملا ہےتو نماز ہی نہ پڑھو۔ در آنحالیکہ قرآن مجید ایسی صورت میں تیمم کی تاکید کر رہا ہو؟ اتفاق سے تیمم کا مسئلہ مسلمانوں میں اس طرح رائج اور عام طور پر داخل عمل ہے کہ وضو اور غسل کے مانند اس سے ایک جاہل مسلمان بھی واقف ہے نہ کہ پیغمبر(ص) کا صحابی اور خلیفہ جس کے اوپر علاوہ اس کے کہ لوگوں کو تعلیم دینے کی ذمہ داری ہےخود اپنے عمل کے لئے بھی اس کو جاننا فرض ہے۔ یہ تو میں نہیں کہوں گا کہ خلیفہ عمر نے جان بوجھ کر قصدا حکم خدا کو بدلایا وہ دین میں خلل ڈالنا چاہتے تھے لیکن اتنا ضرور ممکن ہے کہ مسائل کی یاد داشت میں ان کا حافظہ کمزور تھا اور احکام کو محفوظرکھنا ان کے لئے مشکل تھا، اور یہی سبب تھا کہ جیسا آپ کے علمائ نے لکھا ہے۔ یہ عبداللہ ابن مسعود جیسے فقیہ صحابی سے کہا کرتے تھے کہ تم میرے ساتھ ہی رہا کرو تاکہ جب مجھ سے کوئی بات پوچھی جاۓ تو تم اس

۲۵۲

کا جواب دے دو۔ اب آپ حضرات پوری توجہ کے ساتھ فیصلہ کیجئے کہ کس قدر فرق ہے ایسے آدمی سے جو اس قدر سادہ دماغ اور سطحی معلومات رکھتا ہوکہ مسائل کو سمجھنے اور احکام کو بیان کرنے سے قاصر ہو، اور اس انسان سے جو جملہ امور کے جزئیات و کلیات پر مکمل عبور رکھتا ہو اور تمام علمی و عملی مسائل ہتھیلی کے مانند اس کی نگاہوں کے سامنے ہوں،

شیخ: سوا رسول خدا(ص) کے اور کون ایسا ہوسکتا ہے جو کہ جملہ امور کے جزئیات وکلیات پر پورا عبور رکھتا ہو؟

خیر طلب: بدیی چیز ہے کہ رسول اکرم حضرت خاتم الانبیائ صلعم کے بعد صحابہ میں سے کسی فرد کو بھی ایسا عبور حاصل نہیں تھا سوا آں حضرت(ص) کے باب علم حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے، جن کے لئے خود پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ علی تم سب سے زیادہ عالم ہیں۔

تمام علوم ہتھیلی کی طرح علی(ع) کے سامنے تھے

چنانچہ اخطب الخطبائ ابوالموئد موفق بن احمد خوارزمی اپنے مناقب میں نقل کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ عمر نے تعجب کے ساتھ علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ آپ سے چاہے جو حکم یا مسئلہ دریافت کیا جاۓ آپ بلاتامل جواب دے دیتے ہیں؟ حضرت نے عمر کے جواب میں ان کے سامنے اپنا دست مبارک کھول دیا اور فرمایا، میرے ہاتھ میں کتنی انگلیاں ہیں؟ انہوں نے فورا کہا، پانچ۔ حضرت نے فرمایا تم نے غور و تامل کیوں نہیں کیا؟ عمر نے جواب دیا کہ غور وتامل کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ پانچوں انگلیاں میری نظر کے سامنے تھیں۔ حضرت نے فرمایا بس اسی طرح تمام مسائل اور احکام اور علوم میری نظر کے سامنے ہیں لہذا بغیر کسی غور و تامل کے فورا سوالات کے جوابات دے دیا کرتا ہوں۔

صاحبان اںصاف ! کیا یہ بے شعوری نہیں ہے کہ محض جانبداری اور بغض وعناد کی بنا پر یہ بے لگام اوربے اںصاف معلم ایک اتنی بڑی درس گاہ میں بغیر کسی دلیل و برہان کے ایسی مہمل باتیں کرے اور نا واقف نوجوانوں کو یہ کہہ کر مغالطہ دے کہ ایسا عالم جو سارے علوم کا جامع اور رسول اللہ صلعم کا باب علم تھا وہ اپنے مشکلات میں خلیفہ عمر کی طرف رجوع کرتا تھا؟

حضرت علی(ع) کی طرف سے معاویہ کا دفاع

اس وقت مجھ کو ایک روایت یاد آگئی ہے جو مزید ثبوت کے لئے پیش کرتا ہوں۔

۲۵۳

ابن حجر مکی جیسے متعصب عالم نے صواعق محرقہ باب11 مقصد پنجم ص110 میں آیت 14 کے ذیل میں لکھا ہے کہ امام احمد بن حبنل نے روایت کی ہے، نیز میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے معاویہ سے کوئی سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ اس کو علی(ع) سے پوچھو کیونکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ عرب نےکہا کہ میں تمہارے جواب کو علی(ع) کے جواب سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔ معاویہ نے کہا تو نے بہت بری بات کہی:

" كرهت‏ رجلا كان رسول اللّه يغره بالعلم غرّا و لقد قال له: أنت منّي بمنزلة هارون من موسى إلّا أنّه لا نبيّ بعدي و كان عمر إذا أشكل عليه شي‏ءاخذ منه"

یعنی تو نے اس شخص سے کراہت کی جس کو رسول اللہ(ص) نے علم کی پوری تعلیم دی ہے ا ور یقینی طور پر جس کے لئے فرمایا ہے کہ تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی، سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی بنی نہ ہوگا۔ اور عمر جس وقت کسی مشکل میں پھنسے تھے تو اس کا حل علی ہی سے دریافت کرتے تھے۔

اسی کو کہتے ہیں کہ "الفضل ما شهدت بهالاعدائ " ( یعنی فضیلت وہی ہے جس کی دشمن بھی گواہی دیں) علی علیہ السلام کی شان میں آپ کے سب سے بڑے دشمن معاویہ ہی کی شہادت کافی ہے اور اس مقصد کو ثابت کرنے کے لئے یہی کیا کم ہے جس کو عام طور سے آپ کے اکابر علمائ نے اپنی معتبر کتابوں میں مثلا نورالدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور دوسروں نے لکھا ہے کہ خلیفہ عمر ابن خطاب نے ستر مرتبہ کہا"لو لا علي لهلك عمر " ( یعنی اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا) بلکہ صاف صاف اقرار کیا کہ اگر مشکلات اور مصائب میں نیز دشوار مسائل کا جواب دینے کے لئے علی موجود نہ ہوں تو کام نہیں چل سکتا۔ اور اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا۔ ( ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص---)

اپنے عجز اور علی(ع) کی مشکل کشائی کے لئے عمر کا اعتراف

نیز نورالدین مالکی نے فصول المہمہ فصل اول کی فصل سوم ص18 میں روایت کی ہے کہ لوگ ایک شخص کو خلیفہ عمر کے پاس لاۓ اور مجمع کے سامنے اس سے پوچھا کیف اصبحت تم نے کس حال میں صبح کی؟ اس نے کہا:

" اصحبت احب الفتنةواکره الحق واصدق الیه ودوالنصاری واؤمن بمالماره واقربم الم یخلق "

یعنی میں نے اس حالت میں صبح کی ہے کہ فتنے کو دوست رکھتا ہوں، حق سے کراہت رکھتا ہوں، یہود و نصاری کی تصدیق کرتا ہوں، بن دیکھی چیز پر ایمان رکھتا ہوں اور جو چیز خلق نہیں ہوئی اس کا اقرار کرتا ہوں۔

عمر نے حکم دیا

۲۵۴

کہ جاکر علی علیہ السلام کو بلا لاؤ۔ جس وقت امیرالمومنین(ع) تشریف لاۓ تو یہ قضیہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپ نے فرمایا، اس نے صحیح کہا ہے۔ اس نے جو یہ کہا کہ فتنے کو دوست رکھتا ہوں تو اس سے مال واولاد مراد ہے، کیونکہ خداوند عالم نے فرمایا ہے"إِنَّما أَمْوالُكُمْ‏ وَ أَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ " ( یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تمہارے اموال، اولاد فتنہ اور ذریعہ معاش ہیں۔ سورہ نمبر8 انفال آیت نمبر28۔

حق سے کراہت کرنے میں اس کی مراد موت ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے" وَ جاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ‏ بِالْحَقِ‏ " یعنی موت کی سختی اور بے ہوشی حق و حقیقت کے ساتھ آپہنچی۔ سورہ نمبر50( ق) آیت نمبر18۔ یہود و نصاری کی تصدیق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

" وَ قالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ‏ النَّصارى‏ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ وَ قالَتِ النَّصارى‏ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ "

یعنی یہود نے کہا نصاری حق پر نہیں ہیں اور ںصاری نے کہا کہ یہود حق پر نہیں ہیں۔

یعنی دونوں فرقے ایک دوسرے کی تکذیب کرتے ہیں لہذا یہ عرب کہتا ہے کہ میں دونوں فرقوں کو تصدیق کرتا ہوں۔ یعنی دونوں کی تکذیب کرتا ہوں۔ یہ کہنے کا مقصد کہ بن دیکھی چیز پر ایمان رکھتا ہوں۔ یہ ہے کہ خدا کی ذات پر ایمان رکھتا ہوں۔

رہا یہ کہنا کہ ایسی چیز کا اقرار کرتا ہوں جو خلق نہیں ہوئی ہے تو اس سے قیامت مراد ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے عمر نے کہا "اعوذ باللهمن معضلةلا علی لها " ( یعنی خداکی پناہ چاہتا ہوں اس مشکل امر سے جس کے لئے علی (ع) نہ ہوں)

اسی قضیہ کو بعض علمائ نے جیسے محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب57 میں دوسرے طریقے سے مزید تفصیل کے ساتھ بروایت حذیفہ بن الیمان خلیفہ عمر سے نقل کیا ہے۔

اس قسم کے مراحل ابوبکر و عمر کے زمانہ خلافت میں کثرت سے پیش آۓ ہیں جن میں ابوبکر وعمر جواب سے عاجز رہے اور علی(ع) نے جوابات دئیے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ جس وقت علمائ یہود و ںصاری مادئیں اور نیچری لوگ آتے تھے اور مشکل مسائل دریافت کرتے تھے تو صرف حضرت علی(ع) ہی تھے جو ان لی گھتیوں کو حل فرماتے تھے۔

غرضیکہ آپ کے اکابر علمائ کے اقرار کے مطابق جیسا کہ بخاری و مسلم نے اپنی صحیحیں میں، نیشاپوری نے اپنی تفسیر میں، ابن مغازلی فقیہ شافعی نے مناقب میں، محمد بن طلحہ نے مطالب السئول باب4 میں ص18 میں، حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی سنہ852ھ نے تہذیب التہذیب(مطبوعہ حیدر آباددکن) ص338 میں، قاضی فضل اللہ بن روزبہان شیرازی نے ابطال الباطل میں، محب الدین طبری نے ریاض النضرہ جلد دوم ص84 میں، ابن اثیر جزری متوفی سنہ360ھ نے اسد الغابہ جلد چہارم ص22 میں، ابن عبد البر قرطبی متوفی سنہ463ھ نے استیعاب جلد دوم ص474 اور جلد سوم ص39 میں، ابن کثیر نے اپنی تاریخ جلد ہفتم ص369 میں، ابن قتیبہ دینوری متوفی سنہ276ھ نے تاویل مختلف الحدیث( مطبوعہ مصر) ص201 و 204 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی سنہ658ھ نے کفایت الطالب باب57 مین، جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفائ ص66 میں، سید مومن شبلنجی نے نور الابصار ص73 میں، نورالدین علی بن عبداللہ سمہودی متوفی سنہ911ھ نے جواہر القصدین میں،

۲۵۵

حاج احمد آفندی نے ہدایۃ المرتاب ص146 و ص152 میں، محمد بن علی الصبان نے اسحاف الراغبین ص52 میں، یوسف سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ باب6 ص87 میں، ابن ابی الحدید متوفی سنہ655ھ نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص6 میں، مولوی علی قوشجی نے شرح تجرید ص407 میں، اخطب الخطبائ خوارزمی نے مناقب ص48 ، ص60 میں، حتی کہ ابن حجر مکی جیسے متعصب متوفی سنہ973ھ نے صواعق محرقہ ص78 میں، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد دوم ص509 میں اور علامہ ابن قیم جوزیہ نے طرق الحکیمہ ص47، ص53 میں ایسے بہت سے واقعات نقل کئے ہیں کہ خلیفہ عمر نے مشکل مراحل و مسائل میں، بالخصوص بادشاہ روم کے سخت و دشوار سوالات میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کی طرف رجوع کیا ہے، یہاں تک کہ یہ بات تقریبا تواتر کو پہنچ گئی ہے کہ خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب نے ایسے متعدد مواقع پر جب کہ علی علیہ السلام نے مشکلات کو حل کیا ہے اور ان کے جوابات دیئے ہیں باربار کبھی یہ کہا ہے کہ ""اعوذ باللهمن معضلةلیس فیها ابوالحسن" ( یعنی میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں اس دشواری سے جس میں ابوالحسن ( علی علیہ السلام) موجود نہ ہوں) کبھی کہتے تھے" لو لا علي لهلك عمر " یعنی اگر علی نہ ہوتے تو قریب تھا کہ پسر خطاب(عمر) ہلاک ہوجاۓ) اس بے خبر اور بے لحاظ معلم کی تقریر کے بر خلاف ابن مغازلی شافعی مناقب میں اور حمیدی جمع بین الصحیحین میں لکھتے ہیں کہ خلفائ تمام مراحل میں علی سے مشورہ کرتے تھے اور دین و دنیا کے امور میں مرکز فتوی علی علیہ السلام تھے۔ خلفائ آپ کے الفاظ اور ہدایات کو توجہ سے سنتے تھے ان پر عمل کرتے تھے اور فائدہ اٹھاتے۔ جیسا کہ مختصر طور پر عرض کیا گیا۔

پس ہر صاحب بصیرت پر ظاہر و آشکار ہے کہ دیگر کمالات اور نصوص و احادیث سے قطع نظر خود یہی منقول قضایا اور احکام و ارشادات جو ان حضرت سے صادر ہوۓ ہیں آپ کی امامت و ولایت اور دوسروں کے اوپر آپ کے حق تقدم کے لئے دلیل کامل ہیں۔

علی(ع) منصب خلافت کے لئے اولیٰ و احق تھے

کیونکہ اعلمیت خود ہی اولویت کی بہت بڑی دلیل ہے، بالخصوص جب کہ اس کے ساتھ دوسرے صفات کمالیہ بھی وابستہ ہوں، چنانچہ سورہ10 ( یونس) کی آیت 36 میں صاف صاف ارشاد ہے۔

" أَ فَمَنْ يَهْدِي إِلَى‏ الْحَقِ‏ أَحَقُ‏ أَنْ يُتَّبَعَ- أَمَّنْ لا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدى‏- فَما لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ‏"

یعنی آیا جو شخص حق کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ پیروی کا زیادہ حق دار ہے یا وہ شخص ہو جو خود ہی ہدایت نہیں پاتا جب تک دوسرا اس کو ر اہ نہ دکھاۓ؟ پس تم کو کیا ہوگیا ہے؟ تم کیسے حکم لگاتےہو؟

یعنی جو شخص طریقہ ہدایت کا عالم ہو قطعا وہ لوگوں کا حاکم اور رہنما بننے کے لئے اولی اور سب سے زیادہ مستحق ہے نہ کہ وہ شخص جو راہ ہدایت سے جاہل اور اس کا محتاج ہو، کہ

۲۵۶

دوسرا اس کی ہدایت و رہنمائی کرے۔ یہ آیہ شریفہ اس بات کی ایک مضبوط دلیل ہے کہ افضل کے اوپر مفضول کو مقدم کرنا جائز نہیں ہے اور امر خلافت و امامت دینی و دنیوی ریاست عامہ اورجانشینی رسول(ص) بھی اس عقلی ق اعدے کے ماتحت ہے۔ چنانچہ آیت 13 سورہ 29 ( زمر) میں استفہام تقریری و انکاری کے طور پر ارشاد ہے۔

" قُلْ هَلْ‏ يَسْتَوِي‏ الَّذِينَ‏ يَعْلَمُونَ وَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ"

یعنی آیا صاحبان علم و دانش ( جیسے علی علیہ السلام) اور جاہل ونادان لوگ برابر ہیں؟ ( ہرگز نہیں)

انصاف سے فیصلہ ہونا چاہیئے

حضرات! آپ کو خدا کاواسطہ عادت اور تعصب کو چھوڑ یئے اور منصفانہ فیصلہ کیجئے۔

کیا یہ انصاف تھا کہا یک ایسی بزرگ ہستی کو جس کا ہر شے کے ظاہری و باطنی حالات پر علمی عبور اظہر من الشمس ہے اور اس پر تمام علماۓ فریقین بلکہ غیروں کا بھی اتفاق ہے اور جس کے لئے رسول خدا صلعم نے وصیتیں فرمائیں تھیں بالکل بر طرف کردیا جاۓ؟ آیا حضرت کو برطر کرنے اور آپ سے کنارہ کشی کرنے میں سازشیں اور سیاست کام نہیں کررہی تھی؟ اگر آپ امت رسول اور صحابہ کبار میں سے کوئی فرد ایسا ڈھونڈھ کر نکال سکتے ہوں جس کو پیغمبر(ص) نے اپنا باب علم امام المتقین اور سید الوصیین فرمایا ہو تو امر خلافت میں ضرور اس کو مقدم کیجئے۔ اور اگر سوا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ان بلند صفات کا حامل کوئی دوسرا نہ مل سکے جو بعد رسول(ص) سب سے بڑا عالم، اور ساری امت سے زیادہ عابد و زاہد اور متقی و پرہیزگار ہو تو بحکم عقل آپ کو تصدیق کرنا ہوگا کہ علی امام برحق، رسول اللہ(ص) کے وصی اور خلیفہ اور تمام امت سے زیادہ اس بزرگ منصب کے لائق تھے اور ہیں اورقطعا ایسی بلند شخصیت کا محروم اور الگ کردیا جانا محض سیاسی داؤں پیچ کا نتیجہ تھا۔

شیخ: سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے جو علمی و عملی فضائل و مناقب جناب نے بیان کئے ان پر سب کو اتفاق ہے اور سوا چند ہٹ دھرمی اور تعصب و عناد سے کام لینے والے جاہل خارجیوں کے کسی نے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا ہے لیکن یہ بھی مسلم ہے کہ سیدنا علی نے خود ہی بہ رضا و رغبت خلفائ رضی اللہ عنہم کی خلافت کو قبول کیا اور ان کے مرتبے کی برتری اور حق تقدم کو ماں لیا، لہذا ہم کو کیا پڑی ہے کہ بقول آپ کے مدعی سست و گواہ چست کے مصداق بنیں اور تیرہ سو سال کے بعد غم وغصہ دکھائیں اور آپس میں لڑیں کہ اجماع امت نے ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو کیوں پسند کیا اور علی پر کیوں مقدم رکھا؟

کیا قباحت ہے اگر ہم لوگ آپس میں صلح و صفائی کے ساتھ رہیں اور جس چیز کی تاریخ نے خبر دی ہے اور جس کی آپ کے علمائ بھی عام طور پر تصدیق کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) کے بعد ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم یکے بعد دیگرے مسند خلافت پر بیٹھے، ہم بھی برادرانہ طریقے سے آپس میں علی کرم اللہ وجہہ کے مرتبے کی برتری، علمی و عملی افضلیت اور رسول اللہ(ص) کے ساتھ

۲۵۷

آپ کی قرابت کا لحاظ رکھتے ہوۓ ایک دوسرے کے ساتھ عملی تعاون کریں اور جس طرح ہمارے چاروں مذاہب باہم متحد ہیں اسی طرح شیعہ مذہب بھی اتحاد رکھے؟

ہم سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے علم و عمل کی عظمت سے قطعا انکار نہیں کرتے لیکن آپ خود تصدیق کریں گے کہ سن کی بزرگی، سیاسی سوجھ بوجھ، ہوشیاری اور دشمنوں کے مقابل تحمل و بردباری کی حیثیت سے یقینا ابوبکر رضی اللہ عنہ مقدم تھے اور اسی وجہ سے اجماع اس کے زریعے مسند خلافت پر متمکن ہوۓ، کیونکہ علی کرم اللہ وجہہ ابھی نو عمر جوان تھے اور خلافت کی قدرت و طاقت نہیں رکھتے تھے، چنانچہ پچیس سال کے بعد بھی جب خلیفہ ہوۓ تو سیاست نہ جاننے کی وجہ سے اس قدر خونریزیاں اور ساری باف برپا ہوۓ۔

خیر طلب: آپ نے کئی جملے ایک دوسرے سے ملاکر ارشاد فرماۓ لہذا ضرورت ہے کہ اپنی تیار کی ہوئی اس یاد داشت کی رو سے ہر ایک کو الگ الگ کر کے جواب عرض کروں۔

راہزن اور زوؔار کی مِثل

اول آپ نے فرمایا ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے خواہش و رغبت سے سر تسلیم خم کیا اور خلفاۓ ثلاثہ کی خلافت پر راضی ہوۓ اس مقام پر مجھ کو ایک واقعہ یاد آگیا جس کو مثال کے طور پر پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے سابق زمانے میں جب ایران کے راستوں اور گزرگا ہوں میں بدامنی پھیلی ہوئی تھی اور زائرین عتبات عالیات کو آمد و رفت میں سخت زحمت پیش آتی تھی،زائرین کا ایک قافلہ واپسی میں رہزنوں کے چنگل میں پھنس گیا۔ وہ لوگ ان کو گرفتار کر کے اور ان کا مال و متاع لوٹ کے آپس میں تقسیم کر رہے تھے کہ اتنے میں کسی زائر کا ایک عدد کفن ایک بوڑھے قزاق کے ہاتھ میں پڑا، اس نے کہا حضرات زائرین یہ کفن کس کا ہے؟ زائر نے کہا میرا سارا مال تمہارا لیکن یہ کفن مجھ کو واپس کر دو کیونکہ میری زندگی کا آخری زمانہ ہے اور میں نے اپنا یہ لباس آخرت بڑی زحمت سے مہیا کیا ہے۔ یہ میری تمناؤں کا سرمایہ ہے۔ قزاق نے ہرچند اصرار کیا لیکن زائر نے یہی کہا کہ میں اپنا یہ حق کسی کو نہیں بخشوں گا۔ لٹیرے نے تازیانہ نکال کے زائر کے سر اور چہرے پر مارنا شروع کیا اور کہا کہ میں یہاں تک ماروں گا کہ تم مجھ کو یہ کفن بخش دو اور کہہ دو کہ حلال ہے۔ بیچارے بوڑھے کو اس قدر مارا کہ وہ بے بس ہو کر چیخنے لگا، جناب، حلال، حلال، حلال،ماں کے دودھ سے بھی زیادہ حلال( حاضرین جلسہ کا قہقہہ)

یقین ہے کہآپ معاف فرمائیں گے کیونکہ مثل میں کوئی عیب نہیں ہے اور اس کا مقصد صرف دماغوں کو متوجہ کرنا اور مطلب کی وضاحت ہوا کرتا ہے۔ آپ حضرات گویا گذشتہ راتوں کے بیانات بالکل بھول ہی گئے جن میں میں نے مضبوط

۲۵۸

تاریخی دلائل اور ابن ابی الحدید، جوہری، طبری، بلاذری، ابن قتیبہ اور مسعودی وغیرہ کے ایسے آپ کے اکابر علمائ کی شہادتوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے گھر پر آگ لے گئے آپ کو ننگے سر اور بغیر ردا کے جبرا کھینچتے ہوۓ مسجد میں لے گئے اور آپ کے سامنے برہنہ تلوار کھینچ کر کہا بیعت کرو ورنہ تمہاری گردن ماردیں گے۔

خدا کے لئے اںصاف سے بتائیے،کیا رضا ورغبت کے معنی یہی ہیں؟ اگر شور و غل اور ہنگامہ و فساد برپا کر کے، گھر میں آگ لگا کر، ضرب شمشیر کے زور سے اور قتل کی دھمکی دے کر بجبربیعت لینے ہی کا مطلب اپنی خواہش اور رضامندی سے بیعت کرنا ہوتا ہے تو پھر جبر و اکراہ اور زبردستی کی بیعت کیسی ہوتی ہے؟

انشائ اللہ گھر واپس جانے کے بعد اگرآپ رسائل و اخبارات کے صفحات نگاہ انصاف سے پڑھیں گے اور گذشتہ شبوں میں ہم نے مکرر جو دلائل پیش کئے ہیں ان پر غور کریں گے تو قطعی طور پر تصدیق کریں گے کہ رضا ورغبت کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ ہان یہ ہوسکتا ہے کہ اسی قزاق کی طرح مار مار کے زبردستی ہم سے کہلا لیجیئے کہ ہاں راضی تھے۔

دوسرے آپ نے فرمایا ہے کہ ہم کو کیا پڑی ہے کہ تیرہ سو سال کےبعد اس مسئلے پر غور کریں اور آپس میں لڑائی جھگڑا کریں۔ تو اول تو ہم نے کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا ہے اور نہ ایسا کریں گے بلکہ حملوں اور اعتراضات کے جواب میں مجبورا دفاع سے کام لیتے ہیں۔ یہ حضرات اہل سنت ہی ہیں جو ہم شیعوں کی جان کو اٹکے ہوۓ ہیں اور ہماری جان و مال کو مباح سمجھتے ہیں۔ جس وقت وہ ناواقف عوام کے سامنے ہم کو مشرک، کافر اور بدعتی کہہ کے غلط فہمی پھیکلاتے ہیں تو ہم بھی مجبورا مقابلے پر آکے ثابت کرتے ہیں کہ ہم مشرک اور کافر نہیں ہیں بلکہ مومن اور موحد خالص ہیں اور اپنے اس پاکیزہ عقیدہ توحید پر فخر کرتے ہیں۔

دین کا اندھا سودا نہ کرنا چاہیئے

دوسرے میں قبل کی راتوں میں عرض کرچکا ہوں کہ دینی عقائد تقلیدی نہیں ہوتے ہیں کہ جیسا تاریخ بتارہی ہے خلفاۓ اربعہ جس طریقے سے کہ آپ نے بیان کیا جب حاکم بن گئے تو ہم بھی آںکھ بند کر کے اسلاف کے عادات اور طریقوں کے پابند ہو کر سرتسلیم خم کردیں۔ حالانکہ عقلی و نقلی دلیلوں سے بالکل ثابت و محقق ہے کہ اصول عقائد کو تقلیدی نہیں بلکہ تحقیقی ہونا چاہیئے میں پھر عرض کرتا ہوں کہ جب ہمارے اور آپ کے اور جمہور امت کے مورخین یہ لکھ چکے ہیں کہ وفات رسول(ص) کے بعد امت دو گروہوں میں بٹ گئی، ایک فرقہ کہتا تھا کہ ابوبکرکی پیروی کرنا چاہیے اور ایک جماعت کا قول کہ حق علی(ع) کے ساتھ ہے، اور جب رسول اللہ(ص) مسلمانوں سے حضرت علی(ع) کے لئے بیعت لے چکے ہیں اور یہ فرماچکے ہیں کہ علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے۔ اور علیکی مخالفت میری مخالفت ہے تو آں حضرت(ص) کے حسب الحکم علی علیہ السلام کی اطاعت و پیروی فرض ہے۔ ہماری

۲۵۹

اور آپ کی ہر فرد کا یہ فریضہ ہے کہ طرفین کی دلیلیں سنے اور جانچ پڑتال کرے، اس کے بعد جو طریقہ حق نظر آۓ اس کی پیروی کرے۔ اور یقینا برحق طریقہ وہی ہے جس پر عقلی و نقلی اور منطقی دلائل قائم ہوں۔

میں نے اپنا مذہب تحقیق کے ذریعے قبول کیا ہے

آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں نے اپنے اسلاف اور آباء اجداد کی تقلید میں شیعہ مذہب کو اندھا دھند محض عادتا قبول کرلیا ہے لیکن خدا کی قسم ایسا نہیں ہے بلکہ جب سے میں نے عقل و تمیز حاصل کی براہ راہ حق کی جستجو میں رہا۔ پہلے ذات وحدہ لاشریک کی معرفت میں غور و خوض کرتا رہا اور مادیین اور دوسرے فرقوں کے عقائد کا مطالعہ کیا یہاں تک کہ بحمد اللہ خالص توحید کے عقیدے پر قائم ہوا، پھر انبیائ کی رسالتوں اور دیگر بانیاں مذاہب کی تبلیغ کے طریقوں کا جائزہ لیا۔ ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے علاوہ ہر قوم کے علمائ سے مناظرے اور مباحثے کئے اور کافی تحقیقات کی، یہاں تک بالآخر مجھ پر مقدس دین اسلام کی حقانیت ثابت ہوگئی اور میں نے اپنے جد امجد حضرت رسول خدا محمد بن عبداللہ علیہو آلہ وسلم کو دلیل و برہان کے ساتھ خاتم الانبیائ مانا اسی طرح بعد پیغمبر(ص) کے طریقے میں اپنے اسلاف اور آباؤ اجداد کی اندھی تقلید نہیں کی بلکہ فریقین ( شیعہ و سنی) کے دلائل کی باریک بینی اورغیر جانب داری کے ساتھ جانچ کی اور اہل خلاف کی صدہا کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا۔ میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ میں نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی حقیقت ولایت و خلافت کو عاقلانہ غور وفکر کے ساتھ بڑے بڑے علمائ اہل سنت کی معتبر کتابوں سے اخذ کیا ہے۔ اور منصب امامت و خلافت کے سلسلے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس بارے میں جس قدر سنی علمائ کی خاص خاص کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اتنا شیعہ علمائ کی کتابوں پرغور نہیں کیا۔ اس لئے کہ اثبات امامت میں جو دلیلیں علماۓ شیعہ کی کتابوں میں درج ہیں وہ اکابر علماۓ اہل سنت کی کتابوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

بات در اصل یہ ہے کہ آپ حضرات آیات و اخبار کے دلائل کا سطحی مطالعہ کرتے ہیں، لیکن ہم گہری نظر ڈالتے ہیں آپ کے علمائ اپنے بزرگوں کی پیروی میں ہر آیت اور حدیث کی جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے ثبوت میں ںص صریح ہے مضحکہ انگیز تاویلیں کر کے اس کو ایک فرضی مطلب پہ محمول کرتے ہیں۔ حالانکہ جو شخص بھی بڑے بڑے سنی علمائ کی کتابوں کا غائر مطالعہ کرے وہ ہماری طرح بے اختیار کہہ اٹھے گا کہ:

" أشهد أنّ‏ عليّا وليّ‏ اللّه‏و خلیفة رسوله و حجته‏على‏خلقه"

تیسرے آپ کا ارشاد ہے کہ بہتر یہ ہے کہ ہم مورخین کے بیان کی پابندی کرتے ہوۓ ابوبکر، عمر اور عثمان کو علی علیہ السلام پر مقدم سمجھیں، تو یہ عمل عقلی و نقلی قواعد کے روسے غیر ممکن ہے۔ کیونکہ انسان کو حیوان کے مقابلے میں عقل وعلم اور غور وفکر ہی کی قوتوں سے امتیاز ہے، اور آنکھ بند کر کے اسلاف کی پیروی نہیں کی جاسکتی۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394