پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 325343 / ڈاؤنلوڈ: 8637
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

شیخ ابوالقاسم بلخی کے شاگردوں میں سے تھے اور سید رضیکی ولادت سے قبل وفات پاچکے تھے۔ نیز شیخ ابوعبداللہ بن احمد معروف بابن خشاب سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیںمیں نے اس خطبے کو ان کتابوں میں دیکھا ہے جو سید رضی کی پیدائش سے دو سو برس پہلے تصنیف ہوچکی تھیں بلکہ یہ خطبہ میں نے علماۓ اہل ادب کی ان تحریروں میں بھی پایا ہے جو سید رضی کے والد احمد نقیب الطالبین کی ولادت سے قبل لکھی گئی تھیں۔

فیلسوف متبحر اور حکیم محقق کمال الدین میثم بن علی بن میثم بحرانی نے شرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے کہ میں نے اس خطبے کو دو جگہ پایا، ایک وزیر بن فرات کی تحریر میں جو سید شریف رضی الدین علیہ الرحمہ کی ولادت سے ساٹھ سال سے زیادہ پہلے لکھی گئی ہے۔ دوسرے شیوخ معتزلہ میں سے ابوالقاسم کے شاگرد ابوجعفر بن قبہ کی کتاب الانصاف میں جو ولادت سید رضی سے قبل ہی وفات پاچکے تھے۔ پس ان دلائل و شواہد سے آپ کے ان متعصب علماۓ متاخرین کی ہٹ دھرمی اور عناد ثابت ہوگیا جنہوں نے بجا طور پر ہاتھ پاؤں مارے ہیں، ان تمام دلائل و شواہد سے قطع نظر اس خطبے کے بارے میں آپ حضرات کا فرضی دعوے اس وقت صحیح ہوسکتا تھا جب کہ حضرت علی علیہ السلام کے دوسرے خطبات و واقعات اور دردِ دل کے نمونے جو خود آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں( اور جن میں سے بعض کی جانب میں گذشتہ شبوں میں اشارہبھی کرچکا ہوں) عام طور پر پیش نظر نہ ہوتے۔ کیا ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۵۶۱ میں حضرت کا یہ خطبہ تفصیل سے نقل نہیں کیا ہے کہ فرماتے ہیں، میں روز اول سے وقت وفات تک رسول اللہ(ص) کے ساتھ رہا۔ یہاں تک کہ آں حضرت(ص) نے میرے ہی سینے پر دم توڑا، میں نے ہی ملائکہ کی مدد سے آپ کوغسل دیا، آپ پر نماز پڑھی اور آپ کو قبر میں اتارا،پس آں حضرت(ص) کی نسبت مجھ سے زیادہ قریب اور حق دار کوئی بھی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ خطبے کے آخر میں اپنے اور مخالفین کے حالات بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:

" فوالّذي‏ لا إله‏ إلّا هو إنّي لعلى جادّة الحقّ، و إنّهم لعلى مزلّة الباطل"

یعنی قسم اس کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں یقینا میں حق کی شاہراہ پر ہوں اور میرے مخالفین قطعا مزلہ باطل یعنی اس منزل پر ہیں جہاں سے قعر ضلالت میں گرجاتے ہیں۔؟

پھر بھی آپ فرماتے کہ علی علیہ السلام اپنے مخالفین کو حق پر سمجھتے تھے اور ان سے رنجیدہ نہیں تھے بلکہ ان کے طرز عمل پر راضی تھے۔ جناب شیخ صاحب حق اور حقیقت اس طرح کی باتوں سے پوشیدہ اورفنا نہ ہوگی۔ اگر آپ سورہ نمبر۹( توبہ) کی آیت نمبر(۳۲) پر گہری نظر ڈالئے جس میں ارشاد ہے:

"‏ يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ بِأَفْواهِهِمْ وَ يَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكافِرُونَ‏"

یعنی وہ لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو پھونکیں مار کے بجھا دیں اور خدا نے اس کے برخلاف یہ طے کردیا ہے کہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا چاہے کافروں کو ناگوار ہی ہو۔

تو تصدیق کیجئے گا کہ ؎چراغے را کہ ایزد برفروزدگرابلہ پف زند ریشش بسوزد

شیخ: چونکہ رات کافی گذر چکی ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ بھی بہت خشکی کے ساتھ گفتگو فرمارہے ہیں۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ اب جلسہ برخاست کیا جائے۔ بقیہ مطالب اور جناب عالی کا جواب کل شب پر رہا۔ انشائ اللہ۔

۲۴۱

دسویں نشست

شب یک شنبہ سوم شعبان المعظم سنہ۱۳۴۵ ہجری

(رات ہوتے ہی مولوی صاحبان کافی بڑے مجمع کے ہمراہ تشریف لاۓ، عید ولادت حضرت امام حسین(ع) کی شب تھی لہذا شربت اور شیرینی وغیرہ کی تقسیم ہوئی، اس کے بعد ہم نے چاہا کہ مباحثے کا آغاز ہو کہ اتنے میں نواب عبدالقیوم خان صاحب بھی تشریف لے آۓ اور معمولی صاحب سلامت اور شربت و شیرینی کے بعد بیان کیا)

نواب: قبلہ صاحب میں اپنی جسارت کے لئے معافی چاہتا ہوں لیکن ایک ایسا مسئلہ پیش آگیا ہے کہ اس پر سوال اور گفتگو بہت ضروری ہے اگر اجازت ہو تو جلسے کی کاروائی اور مذاکرہ شروع ہونے سے پہلے اپنا مطلب عرض کروں۔

خیر طلب: ضرور فرمائیے، میں سننے کے لئے بسرو چشم حاضر ہوں۔

عمر کے علمی درجے پر سوال اور اس کا جواب

نواب: آج صبح کو کچھ لوگ غریب خانے پر اکٹھا تھے، سب جناب عالی کا ذکر خیر کر رہے تھے گذشتہ راتوں میں آپ مباحثہ کی تفصیل کے متعلق، اخبارات اور رسائل پڑھے جارہے تھے اور ہم لوگ طرفین کے بیانات پر بحث کر رہے تھے اتنے میں میرے ایک بندہ زادے( عبدالعزیز) نے جو اسلامیہ کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہے مجھ سے کہا کہ چند روز ہوۓ درجے میں درس دیتے ہوۓ ہمارے استاد معظم نے اپنی تقریر میں ایک موقع پر کہا کہ مدینہ منورہ میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ صدر اسلام کے سب سے بڑے فقیہوں میں سے تھے۔ آپ کو قرآن کے آیات و مطالب اسلام کے علمی و فقیہی مسائل پر پورا عبور حاصل تھا اور علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ عبداللہ ابن مسعود، عبداللہ ابن عباس، عکرمہ اور زید بن ثابت وغیرہ رضی اللہ عنہم جیسے فقہائ کے درمیان خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ فقیہ اور ممتاز تھے، یہاں تک کہ علی ابن ابی طالب

۲۴۲

کرم اللہ وجہہ جو علمی مسائل اور فقہی مباحث میں سارے صحابہ سے آگے تھے وہ بھی جب فقہی مشکلات اور حقوق مسلمین میں مجبور پڑتے تھے تو خلیفہ ثانی عمر کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان کی ذہانت اور علم و دانش کا سہارا لیتے تھے اور خلیفہ بھی علی کے علمی مشکلات اور فقہی مسائل کو حل کردیا کرتے تھے اس پر اور سب نے نے بھی تصدیق کی کہ بات بالکل صحیح ہے کیونکہ ہمارے علمائ نے بیان کیا ہے کہ خلیفہ عمر مراتب علم وفضل میں یکتاۓ زمانہ تھے، مجھ کو چونکہ دینی معاملات اور تاریخی حالات سے پوری واقفیت نہیں تھی لہذا سکوت اختیار کیا، بالاخر اپنے احباب اور بالخصوص بندہ زادے سے وعدہ کیا کہ آج را ت کو مناظرہ شروع ہونے سے پہلے میں یہ مسئلہ پیش کروں گا، چونکہ فریقین کے علمائ موجود ہیں لہذا اس اہم مطلب کا کوئی نتیجہ ضرور نکلے گا جس سے ہم کو صحابہ کے علمی مدارج کا پتہ چل جاۓ گا۔ چنانچہ جسارت کرتے ہوۓ گذارش ہے کہ آپ اس بات کی اچھائی یا برائی کو زیر بحث لائیں تاکہ عام لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں اور ہم ہر ایک صحابی کے علمی معیار کی جانچ کر کے فیصلہ کر سکیں کہ صحابہ میں سے کس کو علمی فوقیت حاصل تھی۔ بندہ زادہ اور احباب بھی نتیجہ معلوم کرنے کے لئے حاضر ہیں۔ ہم کو مستفیض فرمائیے تاکہ بالخصوص بندہ زادہ اگر متزلزل ہو تو ثابت قدم ہوجاۓ۔

خیر طلب: ( میں نے جناب یوسف علی شاہ کی طرف جو ایک محترم شیعہ فاضل اور اسی کالج میں تاریخ و جغرافیہ اور انگریزی زبان کے مدرس تھے، رخ کر کے پوچھا کہ کیا یہی بات ہے؟ انہوں نے فرمایا، مجھ کو معلوم نہیں کون معلم تھا اور اس نے کیا تقریر کی۔

خیر طلب: ایسا کہنے والا چاہے جو بھی ہو اس کے اوپر سخت تعجب ہے کہ اس نے یہ باتیں کہاں سے پیدا کر لیں۔ عوام کی بات چیت میں تو خیر افراط و تفریط کثرت سے ہوتی ہے لیکن ایک مسلم کی گفتگو کو حلم و منطق کے مطابق ہونا چاہیئے۔ یہ بے علم اور لفاظ معلم جو شخص بھی رہا ہو اس نے ایسا دعوی کیا ہے جو آپ کے علمائ نے اس کو جھٹلا دیا ہے اس کے علاوہ یہ تعریف تو بما لایرضی صاحبہ (یعنی جس پر خود ممدوح بھی راضی نہیں) ہے، کیونکہ خود خلیفہ عمر نے بھی ہرگز کبھی اس کا دعوی نہیں کیا ہے نیز آپ کے علمائ نے کسی کتاب میں اس عقیدے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ جس محدث اور مورخنے خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب کے حالات میں کچھ لکھا ہے اس نے صرف ان کی چالاکی، ہوشیاری، سخت گیری اور سیاسی مہارت سے بحث کی ہے اور ان کے علم کے موضوع پر اپنی کتابوں میں قطعا کوئی بحث یا نبوت پیش نہیں کیا ہے۔ ورنہ خلیفہ کے حالات کی تشریح میں انہوں نے جو ابواب قائم کئے ہیں انہیں میں ایک باب ان کے علم کے لئےبھی ہونا چاہیئے تھا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس قول کے برخلاف فریقین کی کتابوںمیں پوری صراحت سے درج ہے کہ خلیفہ عمر علمی مسائل کی مہارت اورفقہی مدارج سے کورے تھے اور اس قسم کے اتفاقات اور احتیاج کے مواقع پر علی(ع)، عبداللہ ابن مسعود اور دوسرے فقہاۓ مدینہ کا دامن تھامتے تھے خصوصیت کے ساتھ ابن ابنی الحدید نےنقل کیاہے کہ عبداللہ ابن مسعود مدینے کے فقیہوں میں سے تھے اور خلیفہ عمر کا اصرار تھا کہ عبداللہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں تاکہ جب ضروری موقع اور اہم مراحل در پیش ہوں اور ان سے فقہی سوالات کئے جائیں تو عبداللہ ان کا

۲۴۳
۲۴۴
۲۴۵

ارتکاب نہیں کیا جاسکتا۔ اور ظاہر ہے کہ عورت کے اس مخصوص مال کو جس کی وہ بحکم قرآن اپنے مہر کے عنوان سے مالک ہوچکی ہے چھین کر بیت المال میں داخل کرنا شرعا ہرگز جائز نہیں ہے۔

ان تمام چیزوں سے قطع نظر کسی شخص پر ایسے عمل کے لئے جس میں اس نے کوئی جرم وگناہ نہ کیا ہو حد جاری کرنا فقہ اسلامی کے روسے قطعا جائز نہیں ہے۔ حدود تعزیرات کے باب میں میری نظر سے تو کوئی ایسا مسئلہ گذرا نہیں ہے، اگر آپ جانتے ہوں تو بتادیجئے۔ اور اگر باب حدود میں کوئی ایسی حد موجود نہیں ہے تو آپ کو تصدیق کرنا چاہیئے کہ معلم کا یہ دعوی غلط اور بے جا تھا۔

وفاتِ پیغمبر(ص) سے عمر کا انکار

اتفاق سے خلیفہ کی عادت ہی کچھ ایسی تھی کہ ان کو ہر موقع پر تاؤ آجاتا تھا اور دوسرے شخص کو مرعوب کرنے کے لیے غصہ دکھا کر کہتے تھے کہ میں حد جاری کروں گا۔ چنانچہ امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، طبری نے اپنی تاریخ میں اور آپ کے دوسرے علمائ نے نقل کیا ہے کہ جب رسول خداصلعم نے دنیا سے ( رحلت فرمائی تو عمر ابوبکر کے پاس گئے اور کہا مجھ کو خوف ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو محمد(ص) مرے نہ ہوں بلکہ حیلہ کیا ہو( یعنی اپنے کو مردہ بنا لیا ہو) تاکہ اپنے دوست و دشمن کو پہچان لیں، یا حضرت موسی(ع) کی طرح غائب ہوگئے ہوں اور پھر واپس آکر جس نے ان کی مخالفت کی ہو اور نافرمان بن گیا ہو اس کو سزا دیں۔ پس جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ(ص) مرگئے ہیں میں اس پر حد جاری کروں گا۔ ابوبکر نے جب یہ باتیں سنیں تو ان کے دل میں بھی شک پیدا ہوا اس طرح گفتگو سے لوگوں میں ایک اضطراب پھیل گیا اور آپس میں اختلاف ہونے لگا۔ جب اس کی خبر علی علیہ السلام کو پہنچی گو آپ فرما فورا مجمع کے سامنے تشریف لاۓ اور فرمایا، اے قوم! تم لوگوں نے یہ کیا جاہلانہ شور و غل برپا کر رکھا ہے۔ کیا تم اس آیہ شریفہ کو بھول گئے ہو کہ خداوند عالم نے رسول کی زندگی ہی میں آپ سے دیا تھا۔ انک میت و انہم میتون۔ یعنی یقینا تم کو بھی موت آۓ گی اور تمہاری امت والے بھی مریں گے؟ پس بحکم آیت رسول خدا(ص) نے دنیا سے رحلت فرمائی۔ علی علیہ السلام کا یہ استدلال امت کی سمجھ میں آگیا اور لوگوں نے آں حضرت(ص) کی موت پر یقین کر لیا۔ عمر نے کہا گویا میں نے یہ آیت کبھی سنی ہی نہیں تھی۔

ابن اثیر نے کامل اور نہایہ میں زمخشری نے اساس البلاغہ میں، شہرستانی نے ملل والنحل مقدمہ چہارم میں اور آپ کے دوسرے متعدد علمائ نے لکھا ہے کہ جس وقت عمر چیخ رہے تھے کہ پیغمبر(ص) ہرگز نہیں مرے ہیں، تو ابوبکر ان کے پاس پہنچے اور کہا، کیا خداوند عالم یہ نہیں فرماتا ہے کہانک میت و انهممیتون نیز یہ بھی فرمایا ہے کہافان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ( یعنی اگر وہ ( پیغمبر(ص)) اپنی موت سے مرجائیں یا قتل کردیئے جائیں تو کیا تم پھر اپنے پچھلے کفر وجاہلیت

۲۴۶

پر پلٹ جاؤگے؟) اس وقت عمر خاموش ہوۓ اور کہا، گویا میں نے یہ آیت قطعا سنی ہی نہیں تھی، اب مجھ کو یقین آیا کہ پیغمبر(ص) نے وفات پائی۔

اب آپ خدا کے لئے سچ بتائیے، کیا اس متعصب معلم نے بغیر علم کے بے جا اور غلط دعوی نہیں کیا ہے۔۔

پانچ اشخاص کی سنگساری کا حکم اور حضرت علی(ع) کی تنبیہ

من جملہ اور دلائل کے ایک یہ ہے جس کو حمیدی جمع بین الصحیحین میں نقل کرتے ہیں کہ خلافتِ عمر کے زمانے میں پانچ اشخاص زنا کے جرم میں گرفتار کر کے خلیفہ کے سامنے لاۓ گئے اور اس کا ثبوت بھی گزر گیا کہ ان پانچوں نے فلان عورتوں کے ساتھ زنا کی ہے۔ عمر نے فورا ان کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا، اسی وقت حضرت علی علیہ السلام مسجد میں داخل ہوۓ اور اس حکم سے مطلع ہوکر عمر سے فرمایا کہ اس مقام پر خدا کا حکمتمہارے حکم کے خلاف ہے۔ عمر نے کہا، یا علی زنا ثابت ہے اور ثبوت زنا کے بعد سنگساری کا حکم ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ زنا کے متعلق مختلف صورتوں میں الگ الگ احکام ہیں، چنانچہ اس موقع پر بھی حکم میں اختلاف ہے۔ عمر نے کہا جو خدا و رسول(ص) کا حکم ہو بیان کیجئے کیونکہ میں رسول خدا(ص) سے بارہا سن چکا ہوں کہ آں حضرت نے فرمایا" علی اعلمکم و اقضاکم" یعنی علی تم سب سے زیادہ عالم اور تم سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔ حضرت نے حکم دیا کہ وہ پانچوں اشخاص لاۓ جائیں۔ پہلے ایک شخصحاضر کیا گیا تو :

"امر بضرب عنقه وامر برجم الثانی و قدم الثالث فضربه فقدم الرابع فضربه نصف الحد خمسین جلدة فقدم الخامس فعزره"

یعنی حکم دیا کہ اس کی گردن مار دی جاۓ، دوسرے کو سنگسار کرنے کا حکم دیا، تیسرا آیا تو اس کو سو(۱۰۰) تازیانے لگواۓ، چوتھے کو نصف حد یعنی پچاس تازیانے اور پانچواں کو حد تعزیر یعنی پچیس تازیانے مارنے کا حکم صادر فرمایا۔

عمر متعجب و متحیر ہوۓ اورکہا" کیف ذالک یا ابالحسن " یہ فیصلہ آپ نے کیونکر کیا؟ حضرت نے فرمایا:

"أَمَّا الْأَوَّلُ فَكَانَ ذِمِّيّاً زَنَى‏ بِمُسْلِمَةٍ فَخَرَجَ عَنْ ذِمَّتِهِ وَ أَمَّا الثَّانِي فَرَجُلٌ مُحْصَنٌ زَنَى فَرَجَمْنَاهُ وَ أَمَّا الثَّالِثُ فَغَيْرُ مُحْصَنٍ فَضَرَبْنَاهُ الْحَدَّ وَ أَمَّا الرَّابِعُ فَعَبْدٌ زَنَى فَضَرَبْنَاهُ نِصْفَ الْحَدِّ وَ أَمَّا الْخَامِسُ فَمَغْلُوبٌ عَلَى عَقْلِهِ مَجْنُونٌ فَعَزَّرْنَاهُ فَقَالَ عُمَرُ لَا عِشْتُ فِي أُمَّةً لَسْتَ فِيهَا يَا أَبَا الْحَسَنِ."

یعنی پہلا شخص کافر ذمی تھا جس نے مسلمان عورت سے زیا کی تھی لہذا وہ ذمہ اسلام سے خارج ہوگیا تھا ( اور اس کے لئے گردن مارنے کا حکم تھا) دوسرا شخص شادی شدہ تھا اس وجہ سے سنگسار کیا گیا۔ تیسرا شخص مجرد تھا پس اس کے اوپر سو(۱۰۰)تازیانوں کی حد جاری کی گئے چوتھا شخص غلام تھا جس کی حد آزاد کی نصف یعنی پچاس تازیانے ہے، اور پانچواں شخص ابلہ اور کم عقل تھا اس سبب سے اس کو صرف تعزیر دی گئی یعنی پچیس تازیانے مارے گئے۔ پس عمر نے کہا، اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا

۲۴۷

ہوتا۔ میں زندہ نہ رہوں اس امت کے اندر جس میں آپ نہ ہوں۔ ( اے ابوالحسن(ع))

حاملہ عورت کی سنگساری کا حکم اور حضرت علی(ع) کی ممانعت

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب فی مناقب امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) میں، امام احمد بن حنبل مسند میں، بخاری اپنی صحیح میں، حمیدی جمع الصحیحین میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب۱۴ ص۷۵ میں مناقب خوارزمی سے امام فخرالدین رازی اربعین ص۴۶۶ میں، محب الدین طبری ریاض النضرہ جلد دوم ص۱۹۶ میں، خطیب خوارزمی مناقب ص۴۸ میں، محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص۱۳ میں اور امام الحرم ذخائر العقبی ص۸۰ میں نقل کرتے ہیں کہ:

" اتي عند عمر بن الخطاب رضیالله عنه امرأة حاملة، فسألها فاعترفت‏ بالفجور فأمر بها بالرجم فقال عليّ لعمر سلطانك عليها فما سلطانك على الذی في بطنها؟ فخلى عمر سبيلها و قال: عجزن النساء أن يلدن عليّا و لو لا علي لهلك عمروقال الله مل اتبقی لمعضلةلیس له اعلی حیا."

یعنی عمر ابن خطاب رضی اللہ نہ کے سامنے ایک حاملہ عورت لائی گئی، پوچھنے پر اس نے زنا کاری کا اقرار کیا، تو انہوں نے سنگسار کرنے کا حکم دیے دیا، پس علی علیہ السلام نے عمر سے فرمایا کہ تمہارا حکم اس عور ت کے اوپر تو نافذ ہے لیکن جو بچہ اس کے شکم کے اندر ہے اس کے اوپر تم کو کوئی اختیار نہیں ہے( کیونکہ وہ بے گناہ ہے اس کا قتل جائز نہیں) اس پر انہوں نے اس عورت کو چھوڑ دیا۔ اور کہا عورتیں علی جیسا انسان پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا۔ پھر کہا خداوندا مجھ کو کسی ایسے پیچیدہ اور مشکل امر کے لئے باقی نہ رکھ جس کو حل کرنے کے لئے علی موجود نہ ہوں۔

مجنون عورت کی سنگساری کا حکم اور حضرت علی(ع) کی روک تھام

نیز امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی نے ذخائر العقبی ص۸۱ میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۱۴ ص۷۵ میں حسن بصری سے، ابن حجر نے فتح الباری جلد دوازدہم ص۱۰۱ میں، ابوداؤد نے سنن جلد دوم ص۲۲۷ میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص۸۷ میں، ابن ماجہ نے سنن جلد دوم ص۲۲۷ میں، منادی نے فیض القدیر جلد چہارم ص۲۵۷ میں، حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد دوم ص۵۹ میں، قسطلانی نے ارشاد الساری جلد دہم ص۹ میں، بیہقی نے سنن جلد ہشتم ص۱۶۴ میں، محب الدین طبری نے ریاض النضرہ ص۱۹۶ میں اور بخاری نے اپنی صحیح بابلا یرجم المجنون والمجنونة میں، غرضیکہ آپ کے اکثر اکابر علمائ نے نقل کیا ہے کہ ایک روز ایک مجنون عورت کو خلیفہ عمر ابن خطاب کے

۲۴۸

سامنے لاۓ جس نے زنا کیا تھا اور اقرار زنا کے بعد خلیفہ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا۔ حضرت امیرالمومنین موجود تھے آپ نے فرمایاتم یہ کیا کر رہے ہو۔

"رفع‏ القلم‏ عن‏ ثلاثة: عن النائم حتّى يستيقظ، و عن المجنون حتّى يفيق، و عن الطفل حتّى يحتلم قال فخلا سبيلها"

یعنی میں نے رسول اللہ(ص) کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ تین قسم کے لوگ مرفوع القلم قرار دیئے گئے ہیں، سوتا ہوا شخص جب تک وہ بیدار نہ ہو، دیوانہ جب تک وہ صحت یاب اور صاحب عقل نہ ہوجاۓ اور بچہ جب تک وہ بالغ نہ ہوجاۓ۔ یہ سن کر خلیفہ نے اس عورت کو رہا کردیا۔

ابن السمان نے کتاب الموافقہ میں اس قسم کی بہت سی روایتیں نقل کی ہیں اور بعض کتابوں میں تو خلیفہ کی غلطی اور اشتباہ کے تقریبا سو مقامات درج ہیں، لیکنجلسے کا وقت اس سے زیادہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میرا خیال ہے کہ نمونے اور اثبات مقصد کے لئے جتنا عرض کیا گیا اسی قدر کافی ہوگا۔ امید ہے کہ اپنے اکابر علمائ کی نقل کی ہوئی یہ روایتیں سننے کے بعد آپ حضرات تسلیم کریں گے کہ جس بے خبرمعلم نے ایسی بات کہی ہے وہ علم سے بالکل بے بہرہ انسان ہے اور اس نے محض تعصب و عناد کے ماتحت یہ بیان دیا ہے قطعا اس سے دلیلکا مطالبہ کرنا چاہیئے( کیونکہ وہ ہرگز اس پر کوئی دلیل قائم نہیں کرسکتا) جو کچھ فریقین کے نزدیک مسلم ہے وہ یہ ہے کہ سارے اصحابِ رسول کے درمیان کوئی شخص امیرالمومنین علیہ السلام سے زیادہعالم و فقیہ اور کامل نہیں تھا، جیسا کہ نورالدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ فصل سوم ص۱۷ میں، بسلسلہ حالات حضرت علی علیہ السلام لکھا ہے۔

علی علیہ السلام کا علم وفضل اور منصب قضاوت

فصل فی ذکر شئی من علومه فمنهاعلم الفقه الذی هِومرجع الانام و منبع الحلال و الحرام فقد کان علی مطلعهاعلی فوامض احکامهِ منقادالهجامعهِ بزمامه مشهودالهفیه بعلومحله ومقامه ولهذااخصه رسولالله ِصلی الله علیه وسلم لعلم القضائکم اتقلهل امام ابومحمدالحسین بن مسعود البغوی رحمةالله علیه فی کتابه المصابیحم رویاعن انس بن مالک أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص لَمَّا خَصَّصَ جَمَاعَةً مِنَ الصَّحَابَةِ كُلَّ وَاحِدٍ بِفَضِيلَةٍ خَصَّصَ‏ عَلِيّاً بِعِلْمِ‏ الْقَضَاءِ فَقَالَ صلی الله ِعلیه ِوآلهِ وسلم وَ أَقْضَاکُمْ عَلِيٌّ."

یعنی ابن صباغ مالکی کہتے ہیں کہ اس فصل میں علی علیہ السلام کے علوم کا تذکرہہے۔ منجملہ ان کے علم فقہ ہے جو

۲۴۹

لوگوں کا مرجع حلال و حرام کا سرچشمہ ہے۔ پس یقینا علی علیہ السلام اس کے غوامض احکام اور حقائق سے آگاہ تھے، اس کے دشوار مسائل آپ کے لئے آسان اور اس کے بلند مطالب آپ کے پیش نظر تھے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سب کے مقابلے میں علم و فضل سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ(ص) نے صحابہ کی ایک جماعت میں سے ہر ایک کی کسی نہ کسی فضیلت کے ساتھ تخصیص کی تو علی کو علم قضاوت کے ساتھ خصوصیت دی اور فرمایا، علی تم سب لوگوں سے بہتر فیصلہ الاحکم دینے والے ہیں۔

نیز اسی حدیث علی اقضا کم کو محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول فی مناقب آل رسول ص۲۲ میں مخصوص فرمایا جیسا کہ امام ابومحمد حسین بن مسعود بغوی نے کتاب مصابیح میں انس بن مالک سے قاضی بغوی سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

"و قد صدع هذا الحديث بمنطوقه و صرح‏ بمفهومه‏ أن أنواع العلم و أقسامه قد جمعهارسول الله لعلي دون غيره "

یعنی یہ حدیث اپنے مضمون اور مفہوم سے اس بات کی پوری صراحت کررہی ہے کہ رسول خدا صلعم نے علم کے سارے انواع و اقسام کو دوسروں کے علاوہ صرف علی علیہ السلام کے اندر جمع فرمایا ہے اس لئے کہ قضاوت کا حق اسی شخص کو حاصل ہے جو علاوہ کمال عقل، زیادتی تمیز اور ذہانت و زکاوت کے سہو و غفلت سے دور ہو اور جملہ علوم کے کے اندر پوری مہارت رکھتا ہو۔ اور حدیث کے اندر افعل التفضیل کا صیغہ مکمل طور سے اس مقصد کا ثابت کرتا ہے، اس کے بعد بہت سے دلائل تشریح کے ساتھ بیان کئے ہیں کہ علی علیہ السلام تمام امت سے زیادہ عالم اور افضل تھے۔

پس آپ حضرات احادیث منقولہ پر غور کرنے اور اپنے بڑے بڑے محققین علمائ کے بیانات سے اس بے علم معلم کے الفاظ کو مطابق کرنے کے بعد تصدیق کریں گے اس کا دعوی سرتا سر غلط ہے کیونکہ علی علیہ السلام کا مقدس مرتبہ اس سے کہیں بلند ہے کہ صحابہ میں سے کسی کے ساتھ آپ کا موازنہ کیا جاۓ اس معلم صاحب کا تو یہ معاملہ ہے کہ" پیراں نمی پرند مریداں می پرانند" اس لئے کہ خود خلیفہ عمر نے علی علیہ السلام کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کیا ہے اور( جیسا کہ خود آپ کے اکابر علمائ نے اوقات اور مواقع کا حوالہ دیتے ہوۓ نقل کیا ہے) اپنے زمانہ میں خلافت میں ستر مرتبہ کہا ہے"لو لا علي لهلك عمر " ( یعنی اگرعلی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا"وہ ہرگز اس پر تیار نہیں تھے کہ ان کی طرف ایسی فضیلت منسوب کی جاۓ اور اس قسم کیتعریف و توصیف یقینا ان کی مرضی کے خلاف ہے۔

اس متعصب اور بے علم معلم کے مبالغہ آمیز قول کے برخلاف امام احمد بن حنبل مسند میں، اور امام الحرم احمد مکی شافعی ذخائر العقبی میں، جیسا کہ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۵۶ میں اور محب الدین طبری نے ریاض النضرہ جلد دوم ص۱۹۵ میں معاویہ کا قول نقل کیا ہے، کہتے ہیں کہ:

"ان عمر بن الخطاب اذا اشکل علیه شئی اخذ من علی "

یعنی جس وقت عمر ابن خطاب کو کوئی مشکل معاملہ پیش آتا تھا تو علی علیہ السلام سے مدد حاصل کرتے تھے۔

یہاں تک کہ ابوالحجاج بلوی اپنی کتاب ( الف با) کی جلد اول ص۲۲۴ میں نقل کرتے ہیں کہ جس و قت معاویہ کو شہادت علی اسلام کی

۲۵۰

خبر ملی تو کہا"لقد ذهب الفقه والعلم بموت ابن ابیطالب " یعنی علی علیہ السلام کی موت سے فقہ اور حکم جاتا رہا۔

نیز سعید ابن مسیب سے معاویہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ :

"‏ كان عمر رضی الله عنه يتعوذ من‏ معضلة ليس لها أبو حسن."( یعنی عمر رضی اللہ عنہ ایسی دشواری سے پناہ کرتے تھے جس کو د فع کرنے کے لئے ابوالحسن ( علی علیہ السلام) موجود نہ ہوں۔

ابوعبداللہ محمد بن علی الحکیم الترمذی شرح رسالہ فتح المبین میں کہتے ہیں:

"کانت الصحابه رضی الله عنهم یرجعون الیه فی احکام الکتاب و یاخذون عنه الفتاوی کما قال عمر بن الخطاب رضی الله عنه فی عدةمواطنلو لا علي لهلك عمر و قال صلی اللهعلیهوسلمأعلم‏ أمّتي‏ من بعدي عليّ بن أبي طالب."

یعنی پیغمبر(ص) کے اصحاب احاکم قرآن میں علی علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے تھے اور آپ سے فتوی حاصل کرتے تھے، جیسا کہ عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے متعدد مقامات پر کہا ہے کہ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا اور رسول خدا صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت کے سب سے بڑے عالم علی ابن ابی طالب ہیں۔جو کچھ اخبار و تواریخ کی کتابوں میں ملتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ عمر علمی مراتب اور فقہی مسائل میں اس قدر کورے تھے کہ اکثر عام اور ضروری احکام و مسائل میں ایسا کھلا ہوا دھوکا کھاتے تھے کہ جو صحابی موجود ہوتا تھا وہ ان کو متنبہ اور متوجہ کردیتا تھا۔

شیخ: آپ بہت بے لطفی کی بات کر رہے ہیں کہ خلیفہ کو ایسی نسبت دیتے ہیں آیا یہ ممکن ہے کہ خلیفہ رضی اللہ عنہ دینکے احکام و مسائل میں دھوکا کھا گئے ہوں۔؟

خیر طلب: یہ بے لطفی میری طرف سے نہیں ہے بلکہ خود آپ کے بڑے بڑے علمائ نے حقیقت کا انکشاف کیا ہے اور اپنی معتبر کتابوں میں درج اور شائع کیا ہے۔

شیخ: اگر ممکن ہو تو ذرارہ اشتباہ کے واقعے مع اسناد کے بیان فرمائیے تاکہ سچ اور جھوٹ کا پول کھل جاۓ اورتہمت لگانے والا ذلیل ہو۔

خیر طلب: ان کے اشتباہ کے واقعات بہت ہیں اور ایسے تقریبا سو مواقع کتابوں میں درج ہیں لیکن اس وقت جو میرے پیش نظر ہیں ان میں سے بلحاظ وقت صرف ایک نمونہ عرض کرتا ہوں۔

تیممّ کےبارے میں اشتباہ اور غلط حکم

مسلمابن حجاج نے اپنی صحیح ب اب تیمم میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند جلد چہارم ص۹۰۲۲۵

۲۵۱

میں، بیہقی نے سنن جلد اول ص۲۰۹ میں، ابو داؤد نے سنن جلد اول ص۵۴ میں، ابن ماجہ نے سنن جلد اول ص۲۰ میں، امام نسائی نے سنن جلد اول ص۵۹ تا ص۶۱ میں اور آپ کے دوسرے اکابر علمائ نے مختلف طریقوں سے الفاظ کے فرق کے ساتھ نقل کیا ہے کہ خلافت عمر کے زمانے میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا، میں جنب ہوگیا ہوں اور غسل کے لئے پانی نہیں مل سکا ہے، ایسی صورت میں میں نہیں جانتا کہ مجھ کو کیا کرنا چاہیئے۔ خلیفہ نے کہا جب تک پانی نہ ملے اور غسل نہ کر لو اس وقت تک نماز نہ پڑھو۔ صحابہ میں سے عمار یاسر موجود تھے انہوں نے کہا، اے عمر تم کیا بھول گئے ہو کہ ایک سفر میں اتفاق سے مجھ کو اور تم کو غسل کی ضرورت لاحق ہوئی، چونکہ پانی نہیں تھا لہذا تم نے نماز نہیں پڑھی، لیکن میں نے سوچا کہ تیمم بدل غسل کا طریقہ یہ ہے کہ سارے جسم پر مٹی ملی جاۓ لہذا اپنے کل بدن پر خاک مل کے نماز پڑھ لی۔ جب رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوۓ تو آں حضرت(ص) نے مسکراتے ہوۓ فرمایا کہ تیمم کے لئے اسی قدر کافی ہے کہ ہاتھ کی دونوں ہتھیلیوں کو ایک ساتھ زمین پر مار کر دونوں ہتھیلیاں ملا کر پیشانی پر ملی جائیں اس کے بعد بائیں ہتھیلی سے داہنے ہاتھ کی پشت دست پر اور پھر داہنی ہتھیلی سے بائیں ہاتھ کی پشت دست پر مسح کیا جاۓ۔ پس اب تم یہ کیوں کہہ رہے ہو کہ نماز نہ پڑھو؟

عمر کو کوئی جواب نہ بن پڑا تو کہا، اے عمار خدا سے ڈرو۔ عمار نے کہا، کیاتم اجازت دیتے ہو کہ یہ حدیث نقل کروں تولیک ماتولیت۔ یعنی جاؤ میں نےتم کو تمہاری مرضی پر چھوڑا؟ اب اگر آپ حضرات اس معتبر روایت پر جس کو آپ کے علمائ نے اپنے معتبر صحاح میں نقل کیا ہے ہر پہلو سے غور کریں تو یقینا بے ساختہ تصدیق کریں گے کہ معلم صاحب کا یہ کہنا بالکل ہی بیجا ہے کہ خلیفہ صحابہ کے درمیان بہت بڑے فقیہ تھے۔

یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایکفقیہ جو شب و روز اور سفر و حضر میں پیغمبر(ص) کے ہمراہ رہا ہو اور آں حضرت(ص) سے سنا بھی ہو کہ پانی نہ ملنے پر کس طرح تیمم کرنا چاہیئے، اس کے علاوہ سورہ نمبر۵ ( مائدہ) آیت نمبر۹ میں خداوند عالم کا یہ صریحی حکم بھی پڑھ چکے ہو۔"فَلَمْ‏ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً" ( یعنی اگر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کرو) وہ حکم الہی میں ترمیم کر کے ایک مسلمان آدمی سے کہے کہاگر پانی نہیں ملا ہےتو نماز ہی نہ پڑھو۔ در آنحالیکہ قرآن مجید ایسی صورت میں تیمم کی تاکید کر رہا ہو؟ اتفاق سے تیمم کا مسئلہ مسلمانوں میں اس طرح رائج اور عام طور پر داخل عمل ہے کہ وضو اور غسل کے مانند اس سے ایک جاہل مسلمان بھی واقف ہے نہ کہ پیغمبر(ص) کا صحابی اور خلیفہ جس کے اوپر علاوہ اس کے کہ لوگوں کو تعلیم دینے کی ذمہ داری ہےخود اپنے عمل کے لئے بھی اس کو جاننا فرض ہے۔ یہ تو میں نہیں کہوں گا کہ خلیفہ عمر نے جان بوجھ کر قصدا حکم خدا کو بدلایا وہ دین میں خلل ڈالنا چاہتے تھے لیکن اتنا ضرور ممکن ہے کہ مسائل کی یاد داشت میں ان کا حافظہ کمزور تھا اور احکام کو محفوظرکھنا ان کے لئے مشکل تھا، اور یہی سبب تھا کہ جیسا آپ کے علمائ نے لکھا ہے۔ یہ عبداللہ ابن مسعود جیسے فقیہ صحابی سے کہا کرتے تھے کہ تم میرے ساتھ ہی رہا کرو تاکہ جب مجھ سے کوئی بات پوچھی جاۓ تو تم اس

۲۵۲

کا جواب دے دو۔ اب آپ حضرات پوری توجہ کے ساتھ فیصلہ کیجئے کہ کس قدر فرق ہے ایسے آدمی سے جو اس قدر سادہ دماغ اور سطحی معلومات رکھتا ہوکہ مسائل کو سمجھنے اور احکام کو بیان کرنے سے قاصر ہو، اور اس انسان سے جو جملہ امور کے جزئیات و کلیات پر مکمل عبور رکھتا ہو اور تمام علمی و عملی مسائل ہتھیلی کے مانند اس کی نگاہوں کے سامنے ہوں،

شیخ: سوا رسول خدا(ص) کے اور کون ایسا ہوسکتا ہے جو کہ جملہ امور کے جزئیات وکلیات پر پورا عبور رکھتا ہو؟

خیر طلب: بدیی چیز ہے کہ رسول اکرم حضرت خاتم الانبیائ صلعم کے بعد صحابہ میں سے کسی فرد کو بھی ایسا عبور حاصل نہیں تھا سوا آں حضرت(ص) کے باب علم حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے، جن کے لئے خود پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ علی تم سب سے زیادہ عالم ہیں۔

تمام علوم ہتھیلی کی طرح علی(ع) کے سامنے تھے

چنانچہ اخطب الخطبائ ابوالموئد موفق بن احمد خوارزمی اپنے مناقب میں نقل کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ عمر نے تعجب کے ساتھ علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ آپ سے چاہے جو حکم یا مسئلہ دریافت کیا جاۓ آپ بلاتامل جواب دے دیتے ہیں؟ حضرت نے عمر کے جواب میں ان کے سامنے اپنا دست مبارک کھول دیا اور فرمایا، میرے ہاتھ میں کتنی انگلیاں ہیں؟ انہوں نے فورا کہا، پانچ۔ حضرت نے فرمایا تم نے غور و تامل کیوں نہیں کیا؟ عمر نے جواب دیا کہ غور وتامل کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ پانچوں انگلیاں میری نظر کے سامنے تھیں۔ حضرت نے فرمایا بس اسی طرح تمام مسائل اور احکام اور علوم میری نظر کے سامنے ہیں لہذا بغیر کسی غور و تامل کے فورا سوالات کے جوابات دے دیا کرتا ہوں۔

صاحبان اںصاف ! کیا یہ بے شعوری نہیں ہے کہ محض جانبداری اور بغض وعناد کی بنا پر یہ بے لگام اوربے اںصاف معلم ایک اتنی بڑی درس گاہ میں بغیر کسی دلیل و برہان کے ایسی مہمل باتیں کرے اور نا واقف نوجوانوں کو یہ کہہ کر مغالطہ دے کہ ایسا عالم جو سارے علوم کا جامع اور رسول اللہ صلعم کا باب علم تھا وہ اپنے مشکلات میں خلیفہ عمر کی طرف رجوع کرتا تھا؟

حضرت علی(ع) کی طرف سے معاویہ کا دفاع

اس وقت مجھ کو ایک روایت یاد آگئی ہے جو مزید ثبوت کے لئے پیش کرتا ہوں۔

۲۵۳

ابن حجر مکی جیسے متعصب عالم نے صواعق محرقہ باب۱۱ مقصد پنجم ص۱۱۰ میں آیت ۱۴ کے ذیل میں لکھا ہے کہ امام احمد بن حبنل نے روایت کی ہے، نیز میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے معاویہ سے کوئی سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ اس کو علی(ع) سے پوچھو کیونکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ عرب نےکہا کہ میں تمہارے جواب کو علی(ع) کے جواب سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔ معاویہ نے کہا تو نے بہت بری بات کہی:

" كرهت‏ رجلا كان رسول اللّه يغره بالعلم غرّا و لقد قال له: أنت منّي بمنزلة هارون من موسى إلّا أنّه لا نبيّ بعدي و كان عمر إذا أشكل عليه شي‏ءاخذ منه"

یعنی تو نے اس شخص سے کراہت کی جس کو رسول اللہ(ص) نے علم کی پوری تعلیم دی ہے ا ور یقینی طور پر جس کے لئے فرمایا ہے کہ تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی، سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی بنی نہ ہوگا۔ اور عمر جس وقت کسی مشکل میں پھنسے تھے تو اس کا حل علی ہی سے دریافت کرتے تھے۔

اسی کو کہتے ہیں کہ "الفضل ما شهدت بهالاعدائ " ( یعنی فضیلت وہی ہے جس کی دشمن بھی گواہی دیں) علی علیہ السلام کی شان میں آپ کے سب سے بڑے دشمن معاویہ ہی کی شہادت کافی ہے اور اس مقصد کو ثابت کرنے کے لئے یہی کیا کم ہے جس کو عام طور سے آپ کے اکابر علمائ نے اپنی معتبر کتابوں میں مثلا نورالدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور دوسروں نے لکھا ہے کہ خلیفہ عمر ابن خطاب نے ستر مرتبہ کہا"لو لا علي لهلك عمر " ( یعنی اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا) بلکہ صاف صاف اقرار کیا کہ اگر مشکلات اور مصائب میں نیز دشوار مسائل کا جواب دینے کے لئے علی موجود نہ ہوں تو کام نہیں چل سکتا۔ اور اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا۔ ( ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص---)

اپنے عجز اور علی(ع) کی مشکل کشائی کے لئے عمر کا اعتراف

نیز نورالدین مالکی نے فصول المہمہ فصل اول کی فصل سوم ص۱۸ میں روایت کی ہے کہ لوگ ایک شخص کو خلیفہ عمر کے پاس لاۓ اور مجمع کے سامنے اس سے پوچھا کیف اصبحت تم نے کس حال میں صبح کی؟ اس نے کہا:

" اصحبت احب الفتنةواکره الحق واصدق الیه ودوالنصاری واؤمن بمالماره واقربم الم یخلق "

یعنی میں نے اس حالت میں صبح کی ہے کہ فتنے کو دوست رکھتا ہوں، حق سے کراہت رکھتا ہوں، یہود و نصاری کی تصدیق کرتا ہوں، بن دیکھی چیز پر ایمان رکھتا ہوں اور جو چیز خلق نہیں ہوئی اس کا اقرار کرتا ہوں۔

عمر نے حکم دیا

۲۵۴

کہ جاکر علی علیہ السلام کو بلا لاؤ۔ جس وقت امیرالمومنین(ع) تشریف لاۓ تو یہ قضیہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپ نے فرمایا، اس نے صحیح کہا ہے۔ اس نے جو یہ کہا کہ فتنے کو دوست رکھتا ہوں تو اس سے مال واولاد مراد ہے، کیونکہ خداوند عالم نے فرمایا ہے"إِنَّما أَمْوالُكُمْ‏ وَ أَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ " ( یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تمہارے اموال، اولاد فتنہ اور ذریعہ معاش ہیں۔ سورہ نمبر۸ انفال آیت نمبر۲۸۔

حق سے کراہت کرنے میں اس کی مراد موت ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے" وَ جاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ‏ بِالْحَقِ‏ " یعنی موت کی سختی اور بے ہوشی حق و حقیقت کے ساتھ آپہنچی۔ سورہ نمبر۵۰( ق) آیت نمبر۱۸۔ یہود و نصاری کی تصدیق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

" وَ قالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ‏ النَّصارى‏ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ وَ قالَتِ النَّصارى‏ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ "

یعنی یہود نے کہا نصاری حق پر نہیں ہیں اور ںصاری نے کہا کہ یہود حق پر نہیں ہیں۔

یعنی دونوں فرقے ایک دوسرے کی تکذیب کرتے ہیں لہذا یہ عرب کہتا ہے کہ میں دونوں فرقوں کو تصدیق کرتا ہوں۔ یعنی دونوں کی تکذیب کرتا ہوں۔ یہ کہنے کا مقصد کہ بن دیکھی چیز پر ایمان رکھتا ہوں۔ یہ ہے کہ خدا کی ذات پر ایمان رکھتا ہوں۔

رہا یہ کہنا کہ ایسی چیز کا اقرار کرتا ہوں جو خلق نہیں ہوئی ہے تو اس سے قیامت مراد ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے عمر نے کہا "اعوذ باللهمن معضلةلا علی لها " ( یعنی خداکی پناہ چاہتا ہوں اس مشکل امر سے جس کے لئے علی (ع) نہ ہوں)

اسی قضیہ کو بعض علمائ نے جیسے محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۵۷ میں دوسرے طریقے سے مزید تفصیل کے ساتھ بروایت حذیفہ بن الیمان خلیفہ عمر سے نقل کیا ہے۔

اس قسم کے مراحل ابوبکر و عمر کے زمانہ خلافت میں کثرت سے پیش آۓ ہیں جن میں ابوبکر وعمر جواب سے عاجز رہے اور علی(ع) نے جوابات دئیے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ جس وقت علمائ یہود و ںصاری مادئیں اور نیچری لوگ آتے تھے اور مشکل مسائل دریافت کرتے تھے تو صرف حضرت علی(ع) ہی تھے جو ان لی گھتیوں کو حل فرماتے تھے۔

غرضیکہ آپ کے اکابر علمائ کے اقرار کے مطابق جیسا کہ بخاری و مسلم نے اپنی صحیحیں میں، نیشاپوری نے اپنی تفسیر میں، ابن مغازلی فقیہ شافعی نے مناقب میں، محمد بن طلحہ نے مطالب السئول باب۴ میں ص۱۸ میں، حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی سنہ۸۵۲ھ نے تہذیب التہذیب(مطبوعہ حیدر آباددکن) ص۳۳۸ میں، قاضی فضل اللہ بن روزبہان شیرازی نے ابطال الباطل میں، محب الدین طبری نے ریاض النضرہ جلد دوم ص۸۴ میں، ابن اثیر جزری متوفی سنہ۳۶۰ھ نے اسد الغابہ جلد چہارم ص۲۲ میں، ابن عبد البر قرطبی متوفی سنہ۴۶۳ھ نے استیعاب جلد دوم ص۴۷۴ اور جلد سوم ص۳۹ میں، ابن کثیر نے اپنی تاریخ جلد ہفتم ص۳۶۹ میں، ابن قتیبہ دینوری متوفی سنہ۲۷۶ھ نے تاویل مختلف الحدیث( مطبوعہ مصر) ص۲۰۱ و ۲۰۴ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی سنہ۶۵۸ھ نے کفایت الطالب باب۵۷ مین، جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفائ ص۶۶ میں، سید مومن شبلنجی نے نور الابصار ص۷۳ میں، نورالدین علی بن عبداللہ سمہودی متوفی سنہ۹۱۱ھ نے جواہر القصدین میں،

۲۵۵

حاج احمد آفندی نے ہدایۃ المرتاب ص۱۴۶ و ص۱۵۲ میں، محمد بن علی الصبان نے اسحاف الراغبین ص۵۲ میں، یوسف سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ باب۶ ص۸۷ میں، ابن ابی الحدید متوفی سنہ۶۵۵ھ نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۶ میں، مولوی علی قوشجی نے شرح تجرید ص۴۰۷ میں، اخطب الخطبائ خوارزمی نے مناقب ص۴۸ ، ص۶۰ میں، حتی کہ ابن حجر مکی جیسے متعصب متوفی سنہ۹۷۳ھ نے صواعق محرقہ ص۷۸ میں، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد دوم ص۵۰۹ میں اور علامہ ابن قیم جوزیہ نے طرق الحکیمہ ص۴۷، ص۵۳ میں ایسے بہت سے واقعات نقل کئے ہیں کہ خلیفہ عمر نے مشکل مراحل و مسائل میں، بالخصوص بادشاہ روم کے سخت و دشوار سوالات میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کی طرف رجوع کیا ہے، یہاں تک کہ یہ بات تقریبا تواتر کو پہنچ گئی ہے کہ خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب نے ایسے متعدد مواقع پر جب کہ علی علیہ السلام نے مشکلات کو حل کیا ہے اور ان کے جوابات دیئے ہیں باربار کبھی یہ کہا ہے کہ ""اعوذ باللهمن معضلةلیس فیها ابوالحسن" ( یعنی میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں اس دشواری سے جس میں ابوالحسن ( علی علیہ السلام) موجود نہ ہوں) کبھی کہتے تھے" لو لا علي لهلك عمر " یعنی اگر علی نہ ہوتے تو قریب تھا کہ پسر خطاب(عمر) ہلاک ہوجاۓ) اس بے خبر اور بے لحاظ معلم کی تقریر کے بر خلاف ابن مغازلی شافعی مناقب میں اور حمیدی جمع بین الصحیحین میں لکھتے ہیں کہ خلفائ تمام مراحل میں علی سے مشورہ کرتے تھے اور دین و دنیا کے امور میں مرکز فتوی علی علیہ السلام تھے۔ خلفائ آپ کے الفاظ اور ہدایات کو توجہ سے سنتے تھے ان پر عمل کرتے تھے اور فائدہ اٹھاتے۔ جیسا کہ مختصر طور پر عرض کیا گیا۔

پس ہر صاحب بصیرت پر ظاہر و آشکار ہے کہ دیگر کمالات اور نصوص و احادیث سے قطع نظر خود یہی منقول قضایا اور احکام و ارشادات جو ان حضرت سے صادر ہوۓ ہیں آپ کی امامت و ولایت اور دوسروں کے اوپر آپ کے حق تقدم کے لئے دلیل کامل ہیں۔

علی(ع) منصب خلافت کے لئے اولیٰ و احق تھے

کیونکہ اعلمیت خود ہی اولویت کی بہت بڑی دلیل ہے، بالخصوص جب کہ اس کے ساتھ دوسرے صفات کمالیہ بھی وابستہ ہوں، چنانچہ سورہ۱۰ ( یونس) کی آیت ۳۶ میں صاف صاف ارشاد ہے۔

" أَ فَمَنْ يَهْدِي إِلَى‏ الْحَقِ‏ أَحَقُ‏ أَنْ يُتَّبَعَ- أَمَّنْ لا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدى‏- فَما لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ‏"

یعنی آیا جو شخص حق کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ پیروی کا زیادہ حق دار ہے یا وہ شخص ہو جو خود ہی ہدایت نہیں پاتا جب تک دوسرا اس کو ر اہ نہ دکھاۓ؟ پس تم کو کیا ہوگیا ہے؟ تم کیسے حکم لگاتےہو؟

یعنی جو شخص طریقہ ہدایت کا عالم ہو قطعا وہ لوگوں کا حاکم اور رہنما بننے کے لئے اولی اور سب سے زیادہ مستحق ہے نہ کہ وہ شخص جو راہ ہدایت سے جاہل اور اس کا محتاج ہو، کہ

۲۵۶

دوسرا اس کی ہدایت و رہنمائی کرے۔ یہ آیہ شریفہ اس بات کی ایک مضبوط دلیل ہے کہ افضل کے اوپر مفضول کو مقدم کرنا جائز نہیں ہے اور امر خلافت و امامت دینی و دنیوی ریاست عامہ اورجانشینی رسول(ص) بھی اس عقلی ق اعدے کے ماتحت ہے۔ چنانچہ آیت ۱۳ سورہ ۲۹ ( زمر) میں استفہام تقریری و انکاری کے طور پر ارشاد ہے۔

" قُلْ هَلْ‏ يَسْتَوِي‏ الَّذِينَ‏ يَعْلَمُونَ وَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ"

یعنی آیا صاحبان علم و دانش ( جیسے علی علیہ السلام) اور جاہل ونادان لوگ برابر ہیں؟ ( ہرگز نہیں)

انصاف سے فیصلہ ہونا چاہیئے

حضرات! آپ کو خدا کاواسطہ عادت اور تعصب کو چھوڑ یئے اور منصفانہ فیصلہ کیجئے۔

کیا یہ انصاف تھا کہا یک ایسی بزرگ ہستی کو جس کا ہر شے کے ظاہری و باطنی حالات پر علمی عبور اظہر من الشمس ہے اور اس پر تمام علماۓ فریقین بلکہ غیروں کا بھی اتفاق ہے اور جس کے لئے رسول خدا صلعم نے وصیتیں فرمائیں تھیں بالکل بر طرف کردیا جاۓ؟ آیا حضرت کو برطر کرنے اور آپ سے کنارہ کشی کرنے میں سازشیں اور سیاست کام نہیں کررہی تھی؟ اگر آپ امت رسول اور صحابہ کبار میں سے کوئی فرد ایسا ڈھونڈھ کر نکال سکتے ہوں جس کو پیغمبر(ص) نے اپنا باب علم امام المتقین اور سید الوصیین فرمایا ہو تو امر خلافت میں ضرور اس کو مقدم کیجئے۔ اور اگر سوا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ان بلند صفات کا حامل کوئی دوسرا نہ مل سکے جو بعد رسول(ص) سب سے بڑا عالم، اور ساری امت سے زیادہ عابد و زاہد اور متقی و پرہیزگار ہو تو بحکم عقل آپ کو تصدیق کرنا ہوگا کہ علی امام برحق، رسول اللہ(ص) کے وصی اور خلیفہ اور تمام امت سے زیادہ اس بزرگ منصب کے لائق تھے اور ہیں اورقطعا ایسی بلند شخصیت کا محروم اور الگ کردیا جانا محض سیاسی داؤں پیچ کا نتیجہ تھا۔

شیخ: سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے جو علمی و عملی فضائل و مناقب جناب نے بیان کئے ان پر سب کو اتفاق ہے اور سوا چند ہٹ دھرمی اور تعصب و عناد سے کام لینے والے جاہل خارجیوں کے کسی نے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا ہے لیکن یہ بھی مسلم ہے کہ سیدنا علی نے خود ہی بہ رضا و رغبت خلفائ رضی اللہ عنہم کی خلافت کو قبول کیا اور ان کے مرتبے کی برتری اور حق تقدم کو ماں لیا، لہذا ہم کو کیا پڑی ہے کہ بقول آپ کے مدعی سست و گواہ چست کے مصداق بنیں اور تیرہ سو سال کے بعد غم وغصہ دکھائیں اور آپس میں لڑیں کہ اجماع امت نے ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو کیوں پسند کیا اور علی پر کیوں مقدم رکھا؟

کیا قباحت ہے اگر ہم لوگ آپس میں صلح و صفائی کے ساتھ رہیں اور جس چیز کی تاریخ نے خبر دی ہے اور جس کی آپ کے علمائ بھی عام طور پر تصدیق کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) کے بعد ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم یکے بعد دیگرے مسند خلافت پر بیٹھے، ہم بھی برادرانہ طریقے سے آپس میں علی کرم اللہ وجہہ کے مرتبے کی برتری، علمی و عملی افضلیت اور رسول اللہ(ص) کے ساتھ

۲۵۷

آپ کی قرابت کا لحاظ رکھتے ہوۓ ایک دوسرے کے ساتھ عملی تعاون کریں اور جس طرح ہمارے چاروں مذاہب باہم متحد ہیں اسی طرح شیعہ مذہب بھی اتحاد رکھے؟

ہم سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے علم و عمل کی عظمت سے قطعا انکار نہیں کرتے لیکن آپ خود تصدیق کریں گے کہ سن کی بزرگی، سیاسی سوجھ بوجھ، ہوشیاری اور دشمنوں کے مقابل تحمل و بردباری کی حیثیت سے یقینا ابوبکر رضی اللہ عنہ مقدم تھے اور اسی وجہ سے اجماع اس کے زریعے مسند خلافت پر متمکن ہوۓ، کیونکہ علی کرم اللہ وجہہ ابھی نو عمر جوان تھے اور خلافت کی قدرت و طاقت نہیں رکھتے تھے، چنانچہ پچیس سال کے بعد بھی جب خلیفہ ہوۓ تو سیاست نہ جاننے کی وجہ سے اس قدر خونریزیاں اور ساری باف برپا ہوۓ۔

خیر طلب: آپ نے کئی جملے ایک دوسرے سے ملاکر ارشاد فرماۓ لہذا ضرورت ہے کہ اپنی تیار کی ہوئی اس یاد داشت کی رو سے ہر ایک کو الگ الگ کر کے جواب عرض کروں۔

راہزن اور زوؔار کی مِثل

اول آپ نے فرمایا ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے خواہش و رغبت سے سر تسلیم خم کیا اور خلفاۓ ثلاثہ کی خلافت پر راضی ہوۓ اس مقام پر مجھ کو ایک واقعہ یاد آگیا جس کو مثال کے طور پر پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے سابق زمانے میں جب ایران کے راستوں اور گزرگا ہوں میں بدامنی پھیلی ہوئی تھی اور زائرین عتبات عالیات کو آمد و رفت میں سخت زحمت پیش آتی تھی،زائرین کا ایک قافلہ واپسی میں رہزنوں کے چنگل میں پھنس گیا۔ وہ لوگ ان کو گرفتار کر کے اور ان کا مال و متاع لوٹ کے آپس میں تقسیم کر رہے تھے کہ اتنے میں کسی زائر کا ایک عدد کفن ایک بوڑھے قزاق کے ہاتھ میں پڑا، اس نے کہا حضرات زائرین یہ کفن کس کا ہے؟ زائر نے کہا میرا سارا مال تمہارا لیکن یہ کفن مجھ کو واپس کر دو کیونکہ میری زندگی کا آخری زمانہ ہے اور میں نے اپنا یہ لباس آخرت بڑی زحمت سے مہیا کیا ہے۔ یہ میری تمناؤں کا سرمایہ ہے۔ قزاق نے ہرچند اصرار کیا لیکن زائر نے یہی کہا کہ میں اپنا یہ حق کسی کو نہیں بخشوں گا۔ لٹیرے نے تازیانہ نکال کے زائر کے سر اور چہرے پر مارنا شروع کیا اور کہا کہ میں یہاں تک ماروں گا کہ تم مجھ کو یہ کفن بخش دو اور کہہ دو کہ حلال ہے۔ بیچارے بوڑھے کو اس قدر مارا کہ وہ بے بس ہو کر چیخنے لگا، جناب، حلال، حلال، حلال،ماں کے دودھ سے بھی زیادہ حلال( حاضرین جلسہ کا قہقہہ)

یقین ہے کہآپ معاف فرمائیں گے کیونکہ مثل میں کوئی عیب نہیں ہے اور اس کا مقصد صرف دماغوں کو متوجہ کرنا اور مطلب کی وضاحت ہوا کرتا ہے۔ آپ حضرات گویا گذشتہ راتوں کے بیانات بالکل بھول ہی گئے جن میں میں نے مضبوط

۲۵۸

تاریخی دلائل اور ابن ابی الحدید، جوہری، طبری، بلاذری، ابن قتیبہ اور مسعودی وغیرہ کے ایسے آپ کے اکابر علمائ کی شہادتوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے گھر پر آگ لے گئے آپ کو ننگے سر اور بغیر ردا کے جبرا کھینچتے ہوۓ مسجد میں لے گئے اور آپ کے سامنے برہنہ تلوار کھینچ کر کہا بیعت کرو ورنہ تمہاری گردن ماردیں گے۔

خدا کے لئے اںصاف سے بتائیے،کیا رضا ورغبت کے معنی یہی ہیں؟ اگر شور و غل اور ہنگامہ و فساد برپا کر کے، گھر میں آگ لگا کر، ضرب شمشیر کے زور سے اور قتل کی دھمکی دے کر بجبربیعت لینے ہی کا مطلب اپنی خواہش اور رضامندی سے بیعت کرنا ہوتا ہے تو پھر جبر و اکراہ اور زبردستی کی بیعت کیسی ہوتی ہے؟

انشائ اللہ گھر واپس جانے کے بعد اگرآپ رسائل و اخبارات کے صفحات نگاہ انصاف سے پڑھیں گے اور گذشتہ شبوں میں ہم نے مکرر جو دلائل پیش کئے ہیں ان پر غور کریں گے تو قطعی طور پر تصدیق کریں گے کہ رضا ورغبت کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ ہان یہ ہوسکتا ہے کہ اسی قزاق کی طرح مار مار کے زبردستی ہم سے کہلا لیجیئے کہ ہاں راضی تھے۔

دوسرے آپ نے فرمایا ہے کہ ہم کو کیا پڑی ہے کہ تیرہ سو سال کےبعد اس مسئلے پر غور کریں اور آپس میں لڑائی جھگڑا کریں۔ تو اول تو ہم نے کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا ہے اور نہ ایسا کریں گے بلکہ حملوں اور اعتراضات کے جواب میں مجبورا دفاع سے کام لیتے ہیں۔ یہ حضرات اہل سنت ہی ہیں جو ہم شیعوں کی جان کو اٹکے ہوۓ ہیں اور ہماری جان و مال کو مباح سمجھتے ہیں۔ جس وقت وہ ناواقف عوام کے سامنے ہم کو مشرک، کافر اور بدعتی کہہ کے غلط فہمی پھیکلاتے ہیں تو ہم بھی مجبورا مقابلے پر آکے ثابت کرتے ہیں کہ ہم مشرک اور کافر نہیں ہیں بلکہ مومن اور موحد خالص ہیں اور اپنے اس پاکیزہ عقیدہ توحید پر فخر کرتے ہیں۔

دین کا اندھا سودا نہ کرنا چاہیئے

دوسرے میں قبل کی راتوں میں عرض کرچکا ہوں کہ دینی عقائد تقلیدی نہیں ہوتے ہیں کہ جیسا تاریخ بتارہی ہے خلفاۓ اربعہ جس طریقے سے کہ آپ نے بیان کیا جب حاکم بن گئے تو ہم بھی آںکھ بند کر کے اسلاف کے عادات اور طریقوں کے پابند ہو کر سرتسلیم خم کردیں۔ حالانکہ عقلی و نقلی دلیلوں سے بالکل ثابت و محقق ہے کہ اصول عقائد کو تقلیدی نہیں بلکہ تحقیقی ہونا چاہیئے میں پھر عرض کرتا ہوں کہ جب ہمارے اور آپ کے اور جمہور امت کے مورخین یہ لکھ چکے ہیں کہ وفات رسول(ص) کے بعد امت دو گروہوں میں بٹ گئی، ایک فرقہ کہتا تھا کہ ابوبکرکی پیروی کرنا چاہیے اور ایک جماعت کا قول کہ حق علی(ع) کے ساتھ ہے، اور جب رسول اللہ(ص) مسلمانوں سے حضرت علی(ع) کے لئے بیعت لے چکے ہیں اور یہ فرماچکے ہیں کہ علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے۔ اور علیکی مخالفت میری مخالفت ہے تو آں حضرت(ص) کے حسب الحکم علی علیہ السلام کی اطاعت و پیروی فرض ہے۔ ہماری

۲۵۹

اور آپ کی ہر فرد کا یہ فریضہ ہے کہ طرفین کی دلیلیں سنے اور جانچ پڑتال کرے، اس کے بعد جو طریقہ حق نظر آۓ اس کی پیروی کرے۔ اور یقینا برحق طریقہ وہی ہے جس پر عقلی و نقلی اور منطقی دلائل قائم ہوں۔

میں نے اپنا مذہب تحقیق کے ذریعے قبول کیا ہے

آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں نے اپنے اسلاف اور آباء اجداد کی تقلید میں شیعہ مذہب کو اندھا دھند محض عادتا قبول کرلیا ہے لیکن خدا کی قسم ایسا نہیں ہے بلکہ جب سے میں نے عقل و تمیز حاصل کی براہ راہ حق کی جستجو میں رہا۔ پہلے ذات وحدہ لاشریک کی معرفت میں غور و خوض کرتا رہا اور مادیین اور دوسرے فرقوں کے عقائد کا مطالعہ کیا یہاں تک کہ بحمد اللہ خالص توحید کے عقیدے پر قائم ہوا، پھر انبیائ کی رسالتوں اور دیگر بانیاں مذاہب کی تبلیغ کے طریقوں کا جائزہ لیا۔ ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے علاوہ ہر قوم کے علمائ سے مناظرے اور مباحثے کئے اور کافی تحقیقات کی، یہاں تک بالآخر مجھ پر مقدس دین اسلام کی حقانیت ثابت ہوگئی اور میں نے اپنے جد امجد حضرت رسول خدا محمد بن عبداللہ علیہو آلہ وسلم کو دلیل و برہان کے ساتھ خاتم الانبیائ مانا اسی طرح بعد پیغمبر(ص) کے طریقے میں اپنے اسلاف اور آباؤ اجداد کی اندھی تقلید نہیں کی بلکہ فریقین ( شیعہ و سنی) کے دلائل کی باریک بینی اورغیر جانب داری کے ساتھ جانچ کی اور اہل خلاف کی صدہا کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا۔ میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ میں نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی حقیقت ولایت و خلافت کو عاقلانہ غور وفکر کے ساتھ بڑے بڑے علمائ اہل سنت کی معتبر کتابوں سے اخذ کیا ہے۔ اور منصب امامت و خلافت کے سلسلے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس بارے میں جس قدر سنی علمائ کی خاص خاص کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اتنا شیعہ علمائ کی کتابوں پرغور نہیں کیا۔ اس لئے کہ اثبات امامت میں جو دلیلیں علماۓ شیعہ کی کتابوں میں درج ہیں وہ اکابر علماۓ اہل سنت کی کتابوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

بات در اصل یہ ہے کہ آپ حضرات آیات و اخبار کے دلائل کا سطحی مطالعہ کرتے ہیں، لیکن ہم گہری نظر ڈالتے ہیں آپ کے علمائ اپنے بزرگوں کی پیروی میں ہر آیت اور حدیث کی جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے ثبوت میں ںص صریح ہے مضحکہ انگیز تاویلیں کر کے اس کو ایک فرضی مطلب پہ محمول کرتے ہیں۔ حالانکہ جو شخص بھی بڑے بڑے سنی علمائ کی کتابوں کا غائر مطالعہ کرے وہ ہماری طرح بے اختیار کہہ اٹھے گا کہ:

" أشهد أنّ‏ عليّا وليّ‏ اللّه‏و خلیفة رسوله و حجته‏على‏خلقه"

تیسرے آپ کا ارشاد ہے کہ بہتر یہ ہے کہ ہم مورخین کے بیان کی پابندی کرتے ہوۓ ابوبکر، عمر اور عثمان کو علی علیہ السلام پر مقدم سمجھیں، تو یہ عمل عقلی و نقلی قواعد کے روسے غیر ممکن ہے۔ کیونکہ انسان کو حیوان کے مقابلے میں عقل وعلم اور غور وفکر ہی کی قوتوں سے امتیاز ہے، اور آنکھ بند کر کے اسلاف کی پیروی نہیں کی جاسکتی۔

۲۶۰

مثلا اگر کسی عالم اور فقیہ کا انتقال ہوجاۓ اور چند بازاری لوگ جمع ہوکر ایک جاہل محض یا لسان آدمی کو اس کی جگہ بٹھا کر اس کے علم وفقہ کا ڈنکا پیٹنے لگیں تو کیا تمام انسانوں کا فرض ہوجاۓ گا کہ اس فقیہ نما جاہل یا لسان شخص کی تقلید کریں؟ خصوصا اگر تحقیق اور امتحان کے موقع پر یہ ثابت ہوجاۓ کہ فقاہت کے مسند پر بیٹھنے والا اس علم سے بالکل کورا ہے تو عقل و نقل کے حکم سے اس کی تقلید قطعا حرام ہے، کیونکہ عالم کی موجودگی میں جاہل کو مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔

پس جب علاوہ صریحی نصوص کے آپ کے اکابر علمائ کی روایتوں اور قاعدوں کیروسے علی علیہ السلام کا علمی حق ثابت ہوگیا تو امر خلافت میں بھی آپ کا حق محفوظ اور عقل و نقل کے نزدیک مسلم ہے اور باب علم رسول ہونے کے بعد آپ سے انحراف عقلی و نقلی دونوں حیثیتوں سے مذموم ہے۔

البتہ تاریخی واقعات کی حیثیت سے ہم تصدیق کرتے ہیں کہ وفاتِ رسول(ص) کے بعد ابوبکر دو سال تین ماہ پھر عمر دس سال اور ان کے بعد عثمان بارہ سال کی مدت تک مسند خلافت پربیٹھے اور ہر ایک نے اپنے اپنے وقت میں کچھ کام انجام دیئے لیکن یہ تمام باتیں عقل و نقل اور دلیل و برہان کو منسوخ نہیں کرتی ہیں جس سے ہم باب علم رسول(ص) حضرت علی علیہ السلام کو واقعی اور حقیقی طور پر ان سے موخر سمجھ لیں۔ کیونکہ اکابر علمائ جیسے شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب37 ص112 میں سورہ نمبر37(صافات) کی آیت 24"وَ قِفُوهُمْ‏ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ " ( یعنی ان لوگوں کو ( موقف حساب میں) ٹھہراؤ کیونکہ یقینا ان سے باز پرس کی جاۓ گی) کے ذیل میں فردوس دیلمی، ابونعیم اصفہانی، محمدابن اسحاق مطلبی صاحب کتاب مغازلی، حاکم، حموینی، خطیب خوارزمی اور ابن مغازلی سے جن میں سے بعض نے ابن عباس سے بعض نے ابو سعید خدری سے اور بعض نے ابن مسعود سے اور ان سب نے حضرت رسول اکرم صلعم سے نقل کیا ہے کہ:

" إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ‏ عَنْ وَلَايَةِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ"(یعنی ان لوگوں سے ولایت علی علیہ السلام کا سوال کیا جاۓ)

نیز سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص10 میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب62 میں ابن جریر سے اور انہوں نے ابن عباس سے اسی آیت کے ذیل میں روایت کی ہے کہ اس سے علی علیہ السلام کی ولایت مراد ہے۔

اطاعت علی(ع) کے لئے پیغمبر(ص) کا حکم

علاوہ ان چیزوں کے خداوند عالم آیت7 سورہ 59 ( حشر) میں حکم دے رہا ہے کہ"و ما أتاكم‏ الرسول‏ فخذوه و ما نهاكم عنه فانتهوا "(یعنی جو کچھ رسول اللہ نے تمہارے سپرد کیا ہے بلاتاخیر اس کو قبول کرو اور جس چیز سے منع کیا ہے اس سے بلاپس و پیش باز رہو۔)

۲۶۱

لہذا مسلمان مجبور ہیں کہ رسول خدا(ص9 نے جو حکم دیا ہے اس کی اطاعت کریں اور جب ہم آں حضرت(ص) کی ہدایات کی طرف توجہ کرتے ہیں تو( جیسا کہ آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہے) ہم کو نظر آتا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے ساری امت میں سے صرف علی علیہ السلام کو اپنا باب علم فرمایا ہے اور آپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ بلکہ آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے وابستہ قرار دیا ہے۔

چنانچہ امام احمد بن حنبل نے مسند میں، امام الحرم نے ذخائر العقبیٰ میں، خوارزمی نے مناقب میں، سلیمان حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، نیز دیگر علمائ نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"معشر الانصار ألا أدلكم على ما إن تمسکتم عليه لم تضلوا،بعدی ابدا قالوا بلیٰ قالهذا عليّ بن أبي طالب فاحبوه و اکرموه واتبعوه انه مع القرآن والقرآن معه انه یهدیکم الی الهدی ولایدلکم علی الردی، فان‏ جبرئيل‏ أخبرنى‏ بالذی قلته"

یعنی اے جماعت انصار کیا میں تم کو ایسی چیز کی طرف ہدایت نہ کروں کہ اگرتم اسسے تمسک اختیار کرو تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں فرمایئے آں حضرت(ص) نے فرمایا۔ یہ علی(ع) ہیں پس ان کو دوست رکھو، ان کی تعظیم و تکریم کرو اور ان کی پیروی کرو۔ کیونکہ یقینا یہ قرآن کے ساتھ اور قرآن ان کے ساتھ ہے۔ لازمی طور پر یہ تم کو راہ ہدایت کی طرف لے جائیں گے اور ہلاکت میں نہ پھنسائیں گے۔ اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے، حقیقتا جبریل نے مجھ کو اس کی خبر دی ہے۔

نیز آپ ہی کے اکابر علمائ نے یہ روایت ہم تک پہنچائی ہے، جیسا کہ گذشتہ کسی شب میں نے مع اسناد کے عرض کرچکا ہوں کہ رسول اکرم صلعم نے عمار یاسر سے فرمایا:

ان سلک الناس کلهم وادیا وسلک علی وادیا فاسلک وادی علی و خل عن الناس"

یعنی اگر سارے انسان ایک طرف جائیں اور علی(ع) ایک طرف، تو علی(ع) کے راستے پر چلواور لوگوں کا ساتھ چھوڑ دو۔

اور مختلف مقامات اور مختلف اوقات میں بارہاارشاد فرمایا ہے:

" ومن اطاع علیا فقد اطاعنی و من اطاعنی فقد اطاع الله"( یعنی جس نے علی(ع) کی اطاعت کی اس نے درحقیقت میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ہے۔) جو کو میں گذشتہ راتوں میں اسناد کے ساتھ تفصیل سے پیش کرچکا ہوں۔

اس قسم کی حدیثیں آپ کی معتبر کتابوں میں بھری پڑی ہیں اورتواتر معنوی کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں کہ آں حضرت(ص) نے اس کا حکم دیا ہے کہ علی(ع) کے پیرو بنو، علی(ع) کے راستے پر چلو اور دوسروں کا راستہ ترک کرو۔ لیکن اس کے برعکس آپ کی کتابوں میں ایک حدیث بھی ایسی نظر نہیں آئی جسمیں رسول خدا(ص) نے فرمایا ہو کہ میرے بعد راہ ہدایت کے رہبر یا میرے باب علم اور میرے وصی و خلیفہ ابوبکر یا عمر یاعثمان ہیں۔ اگر آپ نے کچھ حدیثیں ایسی دیکھی ہوں جو موضوع ( یک طرفہ اور بکری واموی گروہوں کی گڑھی ہوئی نہ ہوں تو مہربانی کر کے ان کا پتہ دیجئے میں انتہائی ممنون ہوں گا۔

اس صورتِ حال کے باوجود آپ کہتے ہیں کہ ہم علی علیہ السلام کو جو بارشاد رسول(ص) آں حضرت(ص) کے باب علم، ہادی برحق

۲۶۲

اور پیغمبر(ص) کے وصی وخلیفہ ہیں چوتھے درجے میں رکھیں آں حضرت(ص) نے آپ کی اطاعت و متابعت اور پیروی کے لئے جس قدر تاکید احکام صادر فرماۓ ہیں اور جن سے آپ کی کتابیں پر ہیں ان سب سے چشم پوشی کر کے بھیڑیا دھسان تاریخی عمل در آمد کر کے پیچھے لگ جائیں، اور ان اشخاص کی پیروی کریں جن کے بارے میں متفق علیہ احادیث کے اندر رسول اللہ(ص) کی کوئی ہدایت موجود نہیں ہے۔ آیا یہ ہر ممکن ہے؟ اور اگر ہم اس راستے پر چلیں تو کیا عقل و نقل کے سامنے ہمارا مضحکہ نہ اڑےگا؟ اور خدا کے یہاں ہم سے باز پرس نہ ہوگی؟ آیا آپ کی بات پر عمل کر کے ہم رسول اللہ(ص) اور آں حضرت(ص) کے احکام کی مخالفت میں گرفتار نہ ہوجائیں گے؟ ان امور کا فیصلہ ہم آپ حضرات کے شعور اورجذبہ انصاف پر چھوڑتے ہیں۔

علماۓ اہلِ سنت ہم سے ہم آہنگی نہیں چاہتے

چوتھے آپ نے فرمایا ہے کہ مذاہب اربعہ ( حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی) کے مانند ہم بھی آپ کے ساتھ مل کے رہیں، تو یہ بھی ہونے والا نہیں ہے کیوںکہ آپ لوگ بغیر کسی برہان و دلیل کے شیعوں اور عترت اور اہل بیت رسول(ص) کے پیروؤں پر تہمت و افترا کر کے ان کو رافضی، مشرک اور کافر کہتے ہیں اور بدیہی چیز ہے کہ مشرک اور مومن کے درمیان حقیقی اتحاد ممکن نہیں ورنہ تمام حنفی، حنبلی اور شافعی برادران اہل سنت کےساتھ اتحاد و اتفاق رکھنے اور عملی تعاون کرنے کے لئے ہم دل سے تیار ہیں۔ البتہ شرط یہ ہے کہ استدلال کے ساتھ مذہبی عقائد اور حقائق کو واضح کرنے میں ہم اور آپ سب آزاد ہیں اور ایک دوسرے کی کوئی مزاحمت نہ کریں۔ جس طرح چاروں مذاہب کے پیرو اپنے عمل میں آزاد ہیں اسی طرح عترت پیغمبر(ص) کا اتباع کرنے والے شیعہ بھی اپنے اعمال میں آزاد رہیں لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے مذاہب اربعہ کے اندر اس قدر شدید اختلاف موجود ہیں کہ بعض لوگ ایک دوسرے کو کافر و فاسق تک کہتے ہیں، پھر بھی آپ ان سب کو مسلمان سمجھتے اور عمل کی آزادی دیتے ہیں، لیکن بیچارے شیعوں کو مشرک اور کافر کہہ کے جماعت مسلمین سے نکال باہر کرتے اور عمل و عبادت کی آزادی ان سے چھین لیتے ہیں۔ ایسی صورت میں اتحاد و موافقت کی کیا امید ہوسکتی ہے؟

خاک پر سجدہ کرنےسے اختلاف

اب یہی دیکھئے کہ خاک پر سجدہ کرنے کے سلسلے میں آپ کس قدر ہنگامہ اور انقلاب برپا کرتے ہیں کہ خاک اور تربت کو عوام کی نگاہوں میں بت ثابت کرتے ہیں اور موحد و خدا پرست شیعوں کو بت پرست کہتے ہیں حالانکہ ہم خدا و رسول(ص) کے حکم اور اجازت سے خاک پر سجدہ کرتے ہیں، اس لئے کہ قرآن مجید کی آیتوں میں سجدے کا حکم دیا گیا ہے اور آپ خود

۲۶۳

جانتے ہیں کہ سجدے کا مطلب ہے پیشانی زمین پر رکھنا۔ البتہ ہمارے اور آپ کے درمیان سجدے کے طریقے میں اختلاف ہے کہ کس چیز پر سجدہ کرنا چاہیئے۔

شیخ: پھر آپ تمام مسلمانوں کے مانند کس لئے سجدہ نہیں کرتے تاکہ اختلاف پیدا نہ ہو اور یہ بدظنی ختم ہوجاۓ۔

خیر طلب: سب سے پہلے تو یہی بتائیے کہ آپ یعنی حنفی حضرات فروعات بلکہ اصول میں بھی شافعیوں، مالکیوں اور حنبلیوں سے آخر اس قدر اختلاف کیوں رکھتے ہیں کہ کبھی کبھی ایک دوسرے کو فاسق فاجر اور کافر کہنے کی بھی نوبت آجاتی ہے؟ بہتر ہوگا کہ سب مل کر آپس میں ایک عقیدہ پیدا کیجئے تاکہ یہ اختلافات پیدا نہ ہوں۔

شیخ: بات یہ ہے کہ فقہائ کے فتاوی میں اختلاف ہے اور ہم میں سے جو فرقہ امام شافعی، امام اعظم، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم میں سے جس فقیہ کی پیروی کرے اس کو اجر و ثواب حاصل ہوگا۔

تاثر کے ساتھ اعلان حقیقت

خیر طلب: آپ خدا کی قسم اںصاف کیجئے کہ جن فقہاۓ اربعہ کی پیروی پرسوا علم و دانش اور احکام "بلیبرس" کی کورکورانہ" تقلید کے ( جیسا کہ علامہ مقریزی نے خطط میں نقل کیا ہے) اور کوئی دلیل موجود نہ ہو ان کا اتباع تو اجر و ثواب رکھتا ہو( چاہے اصول وفروع میں ان کے درمیان کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو) لیکن وہ ائمہ عترت طاہرہ اور اہل بیت رسالت(ع) جن کے علم و دانش اور فقہ وتقویٰ کے اعلیٰ مدارج پر خود آپ کے اکابر علمائ بھی ایمان رکھتے ہیں اور علاوہ اسکے ان مقدس ہستیوں کے بارے میں حضرت رسول خدا صلعم کے صریحی نصوص و احادیث یہ ثابت کرچکے ہیں کہ یہ حضرات عدیل قرآن ہیں اور ان کی متابعت میں نجات اور مخالفت میں ہلاکت ہے، ان کی اطاعت و پیروی شرک اور کفر بن جاۓ؟ پس آپ کو تصدیق کرنا چاہیئے کہ یہ مخالفتیں باہمی اختلافات کی بنا پر نہیں ہیں بلکہ عترت و اہل بیت طاہرین علیہم السلام سے بغض و نفرت رکھنے کی وجہ سے ہیں اور یہ اس وقت تک دور نہیں ہوسکتیں جب تک نفس کو اخلاق رذیلہ اور صفات ذمیمہ سے پاک اور دل کو بغض حسد اور کینے سے صاف کر کے اس میں اںصاف کا جذبہ پیدا کیا جاۓ ورنہ آپ کے مذاہب اربعہ کے درمیان تو اصول اور طہارت سے لے کر تا دان و قصاص تک جملہ فروعی احکام کے اندر اس قسم کے اختلافات کثرت سے موجود ہیں، باوجودیکہ آپ کے فقہائ اور ائمہ اربعہ کے اکثر فتوے قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ہیں پھر بھی آپ ان فتوے دینے والوں اور ان پر عمل کرنے والوں سے کوئی بدظنی نہیں رکھتے، لیکن جماعت شیعہ کو جو بحکم قرآن مجید پاک مٹی پر سجدہ کرتی ہے مشرک، کافر اور بت پرست کہتے ہیں۔

شیخ: کس مقام پر فقہاۓ اہل سنت اور ائمہ اربعہ رضی اللہ عنہم نے قرآن مجید کے خلاف فتوی دیا ہے؟ اگر یہ محض زبانی

۲۶۴

باتیں نہیں ہیں بلکہ کچھ حقیقت ہے تو مہربانی کر کے بیان فرمائیے۔

خیر طلب: اکثر مسائل میں ںص صریح بلکہ جمہور امت کے برخلاف حکم دیا گیا ہے جن کی پوری تفصیل پیش کرنے کا وقت نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ خود آپ ہی کے علمائ نے چاروں مذاہب کے درمیان اختلافی مسائل پر کافی کتابیں لکھی ہیں، بہتر ہوگا کہ آپ شیخ الطائفہ ابوجعفر محمد ابن حسن ابن علی ابن طوسی قدس سرہ کی عظیم المرتبت کتاب "مسائل الخلاف فی الفقہ" کا مطالعہ فرمائیے جس میں انہوں نےفقہاۓ اسلام کے سارے اختلافات کو باتطہارت سے لے کر باب دیات تک بغیر کسی تعصب اور جانب داری کے جمع کر کے اہل علم کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ان سب کو نقل کرنا تو ممکن نہیں ہے لیکن نمونے اور مطلب کو صاف کرنے کے لئے تاکہ حضرات اہل جلسہ کو یہ معلوم ہوجاۓ کہ نہ ہم زبانی باتیں کرتے ہیں اور نہ غلط الزامات عائد کرتے ہیں مختصر طور پر ایک مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہوں، جس سے ظاہر ہوجاۓ گا کہ اسی کے اندر قرآن مجید کی نص صریح کےبرخلاف فتوی دیا گیا ہے۔

شیخ: فرمائیے، کون سا مسئلہ ہے جس میں برعکس فتوی دیا گیا ہے؟

پانی نہ ہو تو غسل و وضو کے بدلے تیمم کرنا چاہیئے

خیرطلب: آپ حضرات خود جانتے ہیں کہ باب طہارت کا یہ ایک مسلمہ مسئلہ ہے کہ غسل اور وضو سنتی ہو یا واجب، خالص پانی سے ہونا چاہیئے۔ آیت نمبر8 سورہ نمبر5( مائدہ) میں ارشاد ہے:

"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ‏ إِلَى‏ الصَّلاةِ- فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرافِقِ"

یعنی جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے چہروں کو اور ہاتھوں کو مع کہنیوں کے دھوؤ۔

مطلب یہ کہ پاک وخالص پانی سے وضو کرو، اورجس موقع پر ایسا پانی دستیاب نہ ہوتو آیت نمبر46 سورہ نمبر4 ( نسائ) میں حکم ہوتا ہے:

" فَلَمْ‏ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ‏"

یعنی اگرپانی نہ پاؤتو پاک مٹی پر تیمم کرو پس اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرو۔

لہذا خاک پاک سے تیمم کرنا چاہیئے ان دونوں صورتوں کے علاوہ کوئی تیسرا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ پہلے درجے میں وضو کے لئے پانی ضروری ہے اور دوسرے درجے میں جب پانی نہ ملے یا کوئی اور مانع ہو تو سفر میں ہو یا حضر میں اس کے عوض پاک مٹی سے تیمم فرض ہے۔ اور اس حکم میں سارے فقہاۓ اہل اسلام متفق ہیں چاہے وہ شیعہ اثنا عشری جماعت کے ہوں یا مالکی، شافعی اور حنبلی۔

۲۶۵

ابوحنیفہ کا فتویٰ کہ مسافر کو پانی نہ ملے تو نبیذ سے غسل و وضو کرے

لیکن آپ کے امام اعظم ابوحنیفہ ( جن کے اکثر فتوے قیاس یعنی بے سوادی کی بنیاد پر ہیں) حکم دیتے ہیں کہ سفر میں اگر پانی نہ ملے تو نبیذ خرما سے غسل اور وضو کیا جاۓ۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیںکہ نبیذ ایک ایسی رقیق چیز ہے جس میں خرمے وغیرہ کا عرق شامل ہوتا ہے اور مضاف شئی سے وضو کرنا چائز نہیں ہے پس یہ دیکھتے ہوۓ کہ قرآن مجید نے نماز کے لئے خالص اور پاک پانی کو اور پانی نہ ملنے کی صورت میں پاک مٹی سے تیمم کو ذریعہ طہارت قرار دیا ہے، جب امام اعظم ابوحنیفہ نے نبیذ سے غسل و وضو کا فتوی دیا تو یہ یقینا ایک حکم صریح اور کھلی ہوئی نص قرآنی کی مخالفت ٹھہری۔ در آںحالیکہ بخاری نے اپنی صحیح میں ایک باب کا عنوان ہی یہ رکھا ہے کہ"لا یجوز الوضوء بالنبیذ والمسکر " ( یعنی نبیذ اور نشے والی چیز سے وضو جائز نہیں)

حافظ : باوجودیکہ میں امام شافعی رضی اللہ عنہ کے مذہب پر ہوں اور آپ کے بیان سے پورے طور پر متفق ہوں کہ اگر پانی نہ ہوتو تیمم کرنا چاہیئے اور ہمارے مذہب میں نبیذ سے طہارت جائز نہیں ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ فتوے صرف شہرت کی بنا پر امام ابوحنیفہ رضی اللہ سے منسوب ہوگیا ہے۔

خیر طلب: قطعا جناب عالی نے اصل حقیقت سے واقف ہونے کے بعد یہ عذر بارز پیش کیا ہے ورنہ یہفتوی امام ابو حنیفہ سے تواتر کے ساتھ منقول ہے چنانچہ فی الحال اس قدر میرے پیش نظر ہے کہ فخرالدین رازیتفسیر مفاتیح الغیب جلد سوم ص553 میں بسلسلہ آیت تیمم ( سورہ مائدہ) مسئلہ پنجم میں کہتے ہیں:

" قال الشافعی رحمه الله لایجوزالوضوءبنبیذالتمر و قال ابوحنیفه رحمه الله یجوزذالک فی السفر"

( یعنی شافعی نے کہا ہے کہ وضو نبیذ سے جائز نہیں اور ابوحنیفہ کا قول ہے کہ یہ سفر میں جائز ہے۔)

نیز بہت بڑے فلسفی ابن رشد نے ہدایتہ المجتہد میں ابو حنیفہ کے اس فتوے کو نقل کیا ہے۔

شیخ: آپ کیونکر فرما رہے ہیں کہ نص کے خلاف فتوی دیا ہے، حالانکہ بعض روایتیں صراحت کے ساتھ رسول خدا(ص) کے عمل سے اس کو ثابت کرتی ہیں؟

خیر طلب: ہوسکتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی روایت نظر میں ہوتو بیان فرمائیے۔

شیخ: من جملہ ان کے ایک روایت ہے جس کو عمرو بن حریث کا غلام ابوزید عبداللہ ابن مسعود سے نقل کرتا ہے کہ:

" أنرسول الله (صلّى اللّه عليه و آله) قال فی ليلة الجن عندک طهور قال لا الا شئی من نبیذ فی اداوة قال تمرة طيبة و ماء طهور فتوضا"

یعنی رسول خدا صلعم نے لیلتہ الجن میں اس سے فرمایا کہ تمہارے پاس پانی

۲۶۶

ہے؟ اس نے کہا نہیں، البتہ ظرف آب میں صرف تھوڑی سی نبیذ ہے۔ آں حضرت(ص)نے فرمایا خرما بھی پاک اور پانی بھی پاک یہ کہہ کر آپ نے وضو فرما لیا۔

اور ایک دوسری روایت ہے کہ عباس ابن ولید ابن صبیح الحلال دمشقی نے مران بن محمد طاہری دمشقی سے، اس نے عبیداللہ بن لہیعہ سے، اس نے قیس بن حجاج سے، اس نے خش صنعانی سے، اس نے عبداللہ بن ولید سے اور انہوں نے عبداللہ ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

" أن رسول الله (صلّى اللّه عليه و آله) قال له ليلة الجن معک ماء قال لا الا نبیذا فیسطحة قال رسول الله تمرة طيبة و ماء طهور صب علی قال فصبت علیه فتوضا به"

یعنی رسول اللہ(ص) نے لیلتہ الجن میں ان سے فرمایا کہ تمہارے ساتھ پانی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں، البتہ توشہ دان میں نبیذ موجود ہے، رسول اللہ(ص) نے فرمایا کہ پاکیزہ خرما اور پاک پانی ہے، اس کو میرے اوپر گراؤ، پس میں نے آں حضرت(ص) کے اوپر اس کو گرایا اور آپ نے اس سے وضو فرمایا۔

بدیہی چیز ہے کہ رسول خدا(ص) کا عمل ہمارے لئے حجت ہے اور کون سی نص اور دلیل آں حضرت(ص) کے عمل سے بہتر ہوسکتی ہے؟ یہی سبب ہے کہ ہمارے امام اعظم نے عمل پیغمبر(ص) کےروسے اس کے جواز کا فتوی دیاہے۔

خیر طلب: میرا خیال ہے کہ آپ خاموش رہے ہوتے تو ایسا بیان دینے سے بہتر ہوتا۔ اگرچہ میں شکرگذار ہوں کہ آپ نے دلیل قائم فرما دی تاکہ مطلب زیادہ بہتر طریقے سے صاف ہوسکے اور برادران اہل سنت اچھی طرح جان لیں کہ ان کے پیشوا غلط فہمی کے شکار ہیں اور ا نہوں نے بغیر تحقیق کے صرف قیاس کے روسے حکم دیا ہے۔نیز یہ کہ حق ہمارے ساتھ ہے مناسب ہوگا کہ پہلے ہم حدیث کے روات و اسناد کے بارے میں بحث کریں پھر اصل موضوع کے اوپر آئیں۔ اولا ابوزید غلام عمرو بن حریث کا حال معلوم نہیں اور یہ محدثین کے نزدیک مردود ہے جیسا کہ ترمذی وغیرہنے نقل کیا ہے، بالخصوص ذہبی میزان الاعتدال میں کہتے ہیں کہ یہ شخص پہچانا نہیں گیا اور یہ حدیث جو عبداللہ ابن مسعود سے مروی ہے صحیح نہیں ہے۔ حاکم کہتے ہیں کہ اس مجہول آدمی سے سوا اس کے اور کوئی حدیث منقول نہیں ہے، اور بخاری نے اس کو غیر معتبر راویوں میں شمار کیا ہے اسی وجہ سے قسطلاانی اور شیخ زکریا اںصاری جیسے آپ کے اکابر علمائ نے اپنی صحیح بخاری کی شرحوں میں باب لا یجوز الوضوء بالنبیذ ولا المسکر کے ذیل میں اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اور دوسری حدیث بھی کئی طریقوں سے مردود ہے۔

اول یہ کہ اس حدیث کو اس طریق سے سوا ابن ماجہ کے اور کسی عالم نے نقل نہیں کیا ہے۔

دوسرے اس کو اکابر علمائ نے اس وجہ سے اپنے سنن میں نقل نہیں کیا ہے کہ اس کے راویوں کا سلسلہ مجروح و مخدوش اور ناقابل اعتبار ہے۔ چنانچہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں متعدد اقوال نقل کئے ہیں کہ عباس ابن ولید قابل اعتماد نہیں ہے، اسی وجہ سے ارباب جرح ، تعدیل نے اس کو ترک کردیا ہے۔ نیز مروان بن محمد طاہری فرقہ مرجیہ کے گمراہوں میں سے

۲۶۷

تھا۔ جس کو ابن حزم اور ذہبی نے ضعیف ثابت کیا ہے۔ اور اسی طرح عبداللہ بن لہیعہ کو بھی بڑے بڑے علمائ جرح و تعدیل نے ضعیف قرار دیا ہے۔ پس جب کسی حدیث کے سلسلہ روات میں اس قدر ضعف اور فساد موجود ہو کہ خود آپ ہی کے اکابر علمائ اس کو متروک قرار دیں توقطعی طور پر خود بخود وہ حدیث درجہ اعتبار سے ساقط ہوجاتی ہے۔

تیسرے آپ کے علمائ نے جو روایتیں عبداللہ ابن مسعود سے نقل کی ہیں، ان کی بنا پر لیلتہ الجن میں کوئی شخص آں حضرت(ص) کےساتھ تھا ہی نہیں۔ چنانچہ ابوداؤد نے اپنی سنن ( باب الوضوء) میں اور ترمذی نے اپنی صحیح میں علقمہ سے نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود سے پوچھا گیا:

" من كان منكم مع النبي صلى الله عليه و آله ليلة الجن‏؟ فقال: ما كانمعه أحد منا "

یعنی لیلتہ الجن میں رسول اللہ(ص) کے ساتھ آپ لوگوں میں سے کون تھا؟ انہوں نے کہا ہم میں سے کوئی بھی آں حضرت کے ساتھ نہیں تھا۔

چوتھے لیلتہ الجن مکے میں ہجرت سے قبل گزری ہے اور جملہ مفسرین کا اتفاق ہے کہ آیت تیمم مدینے میں نازل ہوئی پس یہ حکم یقینا سابق حکم منسوخ کرتا ہے، اور اسی بنا پر آپ کے بڑے بڑے فقہائ جیسے امام شافعی اور امام مالک وغیرہ نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے۔

اس کے برعکس مدینے میں اس آیت کے نازل ہونے اور یہ حکم آنے کے بعدکہ سفر ہو یا حضر اگر پانی دستیاب نہ ہو تو حتمی طور پر تیمم کرنا چاہیئے، ایک ایسی جعلی حدیث کی بنیاد پر جس کے راویوں کا سلسلہ بھی مجہول الحال اور ضعیف ہو نبیذ سے وضو کرنے کا فتوی انتہائی تعجب خیز ہے اور اس سے زیادہ عجیب جناب شیخ صاحب کا ارشاد ہے کہ مجہول و ضعیف روایتوں کو قرآن مجید کے مقابلہ میں نص قرار دیتے ہیں اور اسی قاعدے کے روسے نص قرآنی کے خلاف ابوحنیفہ کے اجتہاد کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

نواب: قبل صاحب ! کیا نبیذ خرما سے وہی نشہ آور شراب مراد ہے جس کا پینا حرام ہے؟

خیر طلب: نبیذ دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک قسم حلال ہے جس میں نشہ نہیں ہوتا اور یہ وہ پانی ہے جس میں خرمے ڈال دۓ جاتے ہیں تاکہ خوش مزا ہوجاۓ۔ جب وہ تہ نشین ہوجاتے ہیں تو اوپر صاف پانی رہ جاتا ہے جو ایک طرح کا آپ مضاف ہوتا ہے اور اسی کو نبیذ کہتے ہیں یعنی خرمے کا نچوڑا ہوا شربت۔ اور دوسری قسم حرام ہے جس میں نشہ ہوتا ہے اسوقت ہمارا موضوع بحث جس کے جواز کا امام ابوحنیفہ نے فتوی دیا ہے وہ نبیذ جو نشہ آور اور پکائی ہوئی نہ ہو۔ ورنہ نشہ آور شراب سے وضو کرنا تو بالاتفاق حرام ہے۔

چنانچہ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ بخاری نے اپنی صحیحین میں ایک باب ہی اس عنوان سے قائم کیا ہے کہ "لایجوز الوضوء بالنبیذ ولا المسکر " ( یعنی نبیذ اور نشہ آور چیز سے وضو کرنا جائز نہیں۔)

۲۶۸

وضو میں نص کے خلاف پاؤں دھونے کا فتویٰ

من جملہ ان مسلمہ قواعد کے جن کو مذکورہ بالا آیت وضو میں ہدایت کی گئی ہے چہرہ اور ہاتھوں کو دھونے کے بعد سر اور کعبین یعنی پشت قدم کی بلندی تک پاؤں کا مسح کرنا ہے۔ چنانچہ صاف طور پر ارشاد ہے:

" وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلَى‏ الْكَعْبَيْنِ"

یعنی مسح کرو اپنے سروں کا اور پشت قدم کی بلندی تک پاؤں کا۔

لیکن آپ کے سارے فقہائ اس نص صریح کے برخلاف پاؤں دھونے کا فتوی دیتے ہیں۔ حالانکہ دھونے اور مسح کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔

شیخ: بہت سی روایتیں پاؤں کے دھونے پر دلالت کرتی ہیں۔

خیر طلب: اول تو روایتیں اسی وقت قابل قبول ہیں جب نص کے موافق ہوں۔ ورنہ اگر نص کی مخالف ہوں تو قطعا مردود ہیں، بدیہی چیز ہے کہ آیت قرآنی کی نص صریح کو خبر واحد سے منسوخ کرنا جائز نہیں ہے۔ اور آیہ شریفہ کی نص صریح دھونے کا نہیں بلکہ مسح کرنے کا حکم دے رہی ہے۔ ا گر آپ حضرات تھوڑی توجہ سے کام لیں تو سمجھ میں آجاۓ کہ اس آیت کا مضمون خود ہی اس مطلب پر دلالت کر رہا ہے، کیونکہ شروع میں فرماتا ہے"فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ "(یعنی دھوؤ اپنے چہروں اور ہاتھوں کو ۔ پس جس طرح آپ واو عطف کی وجہ سے ایدیکم میں حکم لگاتے ہیں کہ چہرہ دھونے کے بعد ہاتھوں کو بھی دھونا چاہیئے، اسی طرح حکم ثانی میں ارشاد ہے"وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ " جس میں"أَرْجُلَكُمْ "کو "بِرُؤُسِكُمْ " کا معطوف قرار دیا گیا۔ یعنی سر کے مسح کے بعد اپنے پاؤں کا بھی مسح کرو۔ ظاہر ہے کہ دھونا ہرگز مسح کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ پس جس صورت سے وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو دھونا واجب ہے اسی صورت سے سر اور پاؤں کا مسح کرنا بھی واجب ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک مسح کریں اور دوسرے کو دھوئیں کیوں کہ ایسا کرنے سے واو عطف بے کار و بے معنی ہوجاۓ گا۔

علاوہان کھلے ہوۓ، مطالب کے عرف عام کے قاعدے سے اسلام کی شریعت مقدسہ انتہائی سہولتیں لے کر آئی ہے اور اس کے احکام سختی اور مشقت سے محفوظ رکھے گئے ہیں اور ہر عقلمند بہ خوبی سمجھتا ہے کہ پاؤں کو دھونے میں جو مشقت ہے وہ مسح کرنے میں نہیں ہے۔ لہذا قطعی طور پر عمل مسح کے آسان تر ہونے کی وجہ سے شریعت کا حکم اسی کے اوپر جاری ہوا ہے، جیسا کہ آیت کا انداز کلام بھی یہی بتا رہا ہے۔ اور امام فخرالدین رازی نے بھی جو آپ کے اکابر مفسرین میں سے ہیں اسی آیہ شریفہ کے ذیل میں ظاہر کلام کے مطابق مسح کے واجب ہونے پر ایک مفصل بیان دیا ہے۔ جس کو تفصیل سے پیش کرنے کی وقت میں گنجائش نہیں، آپ خود اس کی طرف رجوع فرمائیں تاکہ آپ کے سامنے حقیقت واضح ہوجاۓ۔

۲۶۹

نص صریح کے خلاف موزے پر مسح کرنے کا فتویٰ

اور پاؤں دھونے سے بھی زیادہ عجیب باختلاف فقہاۓ اہل سنت سفر میں یا حضر میں یا صرف سفر میں موزے اور جراب پر مسح کرنے کا فتوی ہے، یہ حکم علاوہ اس کے کہ قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ہے( کیونکہ قرآن نے موزے اور جراب پر نہیں بلکہ پاؤں پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے)آپ کے پہلے حکم یعنی پاؤں دھونے کے بھی خلاف ہے، اس لئے کہ جب خود پاؤں کا مسح جائز نہیں ہے اور دھونا ضروری ہے تو اس مقام پر کیوں تخفیف کی گئی کہ بجاۓ دھونے کے موزے اورجراب پر مسح کرنا جائز کردیا گیا ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ موزے اور جراب کا مسح پاؤں کا مسح نہیں بن سکتافاعتبروا یا اولی الابصار

شیخ : بہت سی روایتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے موزوں کے اوپر مسح فرمایا ہے لہذا فقہاء نے اسی عمل کو جواز کی دلیل سمجھا۔

خیر طلب: میں باربار اس حقیقت کی طرف اشارہ کرچکا ہوں کہ ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق جو روایت آں حضرت(ص) سے منقول ہو اور قرآن مجید سے مطابقت نہ کرتی ہو وہ مردود ہے، اس لئے کہ جعلساز اور شعبدہ باز لوگوں نے دین میں خلل ڈالنے کے لئے بکثرت روایتیں گڑھ کے آں حضرت سے منسوب کی ہیں، چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علمائ نے بھی ایسی بہت سی روایتوں کو رد کردیا ہے جو پیغمبر(ص) کے نام سے منقول ہیں لیکن معیار پر پوری نہیں اترتیں۔

علاوہ اس کے کہ یہ روایتیں نص صریح کے خلاف ہیں ان کے درمیان غیر معمولی تضاد بھی موجود ہے جس کا اقرار خود آپ کے اکابر علمائ نے بھی کیا ہے۔مثلا حکیم دانش مند ابن رشد اندلسی بدایتہ المجتہد و نہایتہ المقتصد جلد اول ص15،16 میں اختلاف کا تذکرہ کرتے ہوۓ کہتے ہیں:

"سبب اختلافه متعارض الاخبارفی ذالک " ( یعنی ان کے اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اس بارے میں روایتیں ایک دوسرے کی معارض ہیں) نیز کہتے ہیں: "السبب فی اختلافهم اختلاف الاثار فی ذالک " ( یعنی ان کے اختلاف کا سبب اسبارے میں روایات کا اختلاف ہے) پس ایسے اخبار و احادیث کے ذریعے استدلال و استناد جو آپس میں ایک دوسرے کی ضد بھی ہوں اور قرآن کی نص صریح کے خلاف بھی، عقلی اور نقلی دونوں حیثیتوں سے مرودو اور ناقابل قبول ہے، کیونکہ آپ خود بہتر جانتے ہیں کہ جو روایتیں آپس میں ایک دوسرے کی مخالف ہوں ان میں سے صرف وہی روایت قابل قبول ہوتی ہے جو قرآن مجید سے موافقت کرتی ہو، اور اگر ان میں سے کوئی روایت بھی قرآن سے مطابقت نہ رکھتی ہو بلکہ نص صریح کے خلاف ہو تو سب ساقط اور متروک ہیں۔

۲۷۰

نص صریح کے خلاف عمامے پر مسخ کرنے کا حکم

نیز اسی آیہ شریفہ میں صاف طور پر ارشاد ہے" وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ " ( یعنی چہرہ اور ہاتھ دھونے کے بعد) اپنے سروں کا مسح کرو) اسی قرآن اصول کی بنیاد پر ائمہ عترت طاہرہ کی پیروی کرتے ہوۓ فقہا شیعہ امامیہ نے اور اسی طرح فقہاۓ شافعی و مالکی و حنفی وغیرہ نے فتوی دیا ہے کہ مسح سر پر ہونا چاہیئے۔ لیکن امام احمد بن حنبل، اسحق،ثوری اور اوزاعی کا فتوی ہےکہ عمامے اور مسح کرنا جائز ہے،جیسا کہ امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں نقل کیا ہے حالانکہ ہر عقلمند سمجھتا ہے کہ عمامے کے اوپر مسح کرنا دوسری شے ہے اور سر کے اوپر مسح کرنا دوسری، کیونکہ سر سے مراد اس کا گوشت وپوست، استخوان اور وہ بال ہیں جو اس سے متصل ہوں اور عمامہ ایک بنا ہوا کپڑا ہے جو سر پر رکھا جاتا ہے۔ ع

ببین تفاوت رہ از کجاست تابہ کجا

خاص توجہ اور منصفانہ فیصلے کی ضرورت ہے

اسی طریقے سے طہارت سے دیات تک جملہ احکام شروع میں آپ کے فقہائ اور ائمہ اربعہ کے درمیان سخت اختلافات موجود ہیں جن میں سے اکثر آیات قرآن کی نص صریح کے خلاف ہیں پھر بھی آپ ایک دوسرے کے شاکی نہیں ہیں اور سب اپنے اپنے اعمال میں پوری طرح آزاد ہیں۔

نہ آپ ابوحنیفہ اور حںفیوں کو مشرک کہتے ہیں جو اصول شرع کے برخلاف نبیذ سے طہارت اور وضو کا فتوی دیتے ہیں اور نہ دیگر فقہا کے ان فتاوی کو مردود سمجھتے ہیں جوآپس میں ایک دوسرے کے مخالف اور نصوص قرآن کے برعکس ہیں لیکن شیعہ کے اعمال پر جو عترت طاہرہ اور اہل بیت رسالت علیہم السلام سے صادر ہوۓ ہیں نکتہ چینی اور اعتراض کرتے ہیں بلکہ اس جلیل القدر اور عدیل قرآن خاندان کے پیروؤں کو رافضی، مشرک اور کافر بھی کہتے ہیں۔

چنانچہ اسی جلسہ کے اندر گذشتہ راتوں میں آپ نے باربار فرمایا ہے کہ شیعوں کے اعمال ان کے شرک کی دلیل ہیں۔

فرمارہے ہیں کہ مسلمانوں کی طرح نماز کیوں نہیں پڑھتے ہو؟ حالانکہ ہم آپ کے اور تمام مسلمانوں کے ساتھ اصل نماز میں جو صبح کی دو رکعت مغرب کی تین رکعت اور ظہر و عصر و عشائ کی چار رکعت ہے۔ یعنی شب و روز میں کل سترہ(17) رکعتیں فرض ہیں، یکساں طور پر شریک عمل ہیں۔ رہے فروعی اختلافات تو یہ مسلمانوں کے سبھی فرقوں کے درمیان کثرت سے پاۓ جاتے ہیں۔

۲۷۱

جس طرح سے ابوالحسن اشعری اور واصل بن عطا کے درمیان اصول و فروغ میں کھلا ہوا اختلاف موجود ہے نیز آپ کے ائمہ اربعہ( ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل) اور دوسرے بڑے بڑے فقہائ جیسے حسن، داؤد، کثیر، اوزاعی، سفیان ثوری، حسنبصری اور قاسم بن سلام وغیرہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں اسی طرح ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے ارشادات بھی آپ کے فقہائ کے بیانات سے الگ ہیں۔ اگر فقہائ کے فتاوی اور اختلاف آراء پر اعتراض کیا جاسکتا ہے تو یہی اعتراضات آخر اہل سنت کے مختلف فرقوں پر کیوں وارد نہیں ہوتے؟

باوجودیکہ یہ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ زیادہ تر فتوےٰ قرآن کی نص صریح کے خلاف دیتے ہیں۔ واضح نصوص کی پھسپھسی کرتے ہیں اور دوسرے فقہاء ان کے برعکس راۓ دیتے ہیں جیسا کہ میں ایک نمونہ پیش کرچکا ہوں،پھر بھی ان کے فتوی اور عمل کو ان کے شرک اور کفر کی دلیل نہیں سمجھتے۔ لیکن عمل سجدہ کے سلسلے میں دیگر فروعی اختلافات کے مانند ہمارے اور آپ کے درمیان فتوی اور راۓ میں جو اختلاف ہے اس پر آپ یہ شور و غل اور ہنگامہ برپا کرتے ہیں کہ شیعہ بت پرست ہیں۔ ساتھ ہی اپنے یہاں کے اس فتوے کو باکل ںظر انداز کردیتے ہیں کہ سوکھے ہوۓ فضلے اور غلیظ پر سجدہ کرنا جائز ہے۔ حالانکہ اگر نگاہِ انصاف سے جائزہ لیجئے تو ائمہ طاہرین علیہم السلام کی پیروی میں شیعہ فقہا کے فتوی فقہاۓ اہل سنت کے فتاوی سے کہیں زیادہ قرآن مجید کے صریحی نصوص سے قریب ہیں۔ مثلا آپ کے فقہاء اونی، سوتی، ریشمی، چرمی اور موم جامہ وغیرہ کے فروش کو جو زمین پر بچھے ہوۓ ہوں جزئ زمین سمجھتے ہیں، ان پر سجدہ کرتے ہیں اور ان کے جواز کا فتوی دیتے ہیں، حالانکہ کسی قوم و ملت کے صاحبان عقل وعلم سے پوچھئے کہ آیا اون، سوت اور ریشم وغیرہ سے بنے ہوۓ فرش جزئ زمین ہیں اور ان پر زمین کا اطلاق ہوتا ہے؟ تو ان کا جواب نفی میں ہوگا، بلکہ ایسا کہنے والوں کی عقل پر ہنس دیں گے لیکن جب شیعہ قوم ائمہ اہل بیت طاہرین علیہم السلام کے اتباع میں کہتی ہے کہ:

" لا يجوز السجود إلّا على الأرض او على ما انبته الأرضبما لایؤكل ولایلبس‏"

یعنی سوا زمین کے یا اس چیز کے جو زمین سے روئیدہ ہوئی ہو اور کھانے یا پہننے کے کام میں نہ آتی ہو اور کسی چیز پر سجدہ جائزہ نہیں) تو آپ اس پر حملے کرتے ہیں اور اس کو مشرک کہتے ہیں اور دوسری طرف خشک نجاست کے اوپر بھی سجدہ کرنے کو نہیں سمجھتے۔ بدیہی چیز ہے کہ زمین پر سجدہ کرنا( جیسا کہ خدا کا حکم ہے) اور فروش کے اوپر سجدہ کرنا ایک دوسرے سے الگ چیزیں ہیں۔

شیخ: آپ لوگ سجدے کو خاک کربلا کے ٹکڑوں سے مخصوص قرار دیتے ہیں، اس خاک سے بتوں کے مانند تختیاں بناکر اپنی بغلوں میں دباۓ رہتے ہیں اور ان پر سجدہ کرنا واجب جانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ عمل مسلمانوں کے دستور اور طریقے کے خلاف ہے۔

خیر طلب: آپ نے یہ جملہ قطعا اپنی اسی عادت کی بنا پر جو بچپن سے آپ کے دماغ میں راسخ کردی گئی ہے اور وہ آپ کی طبیعت بن چکی ہے بغیر کسی دلیل و برہان کے محض اپنے اسلاف کی پیروی میں فرماۓ ہیں۔ حالانکہ آپ

۲۷۲

جیسے منصف مزاج اور روشن خیال عالم کے اوپر ایسا بیان باکل زیب نہیں دیتا کہ خاک پاک کو بت سے تعبیر کرے یقین رکھیئے کہ آپ کو عدلِ الہی کے دربار میں اس زبردست تہمت اور اہانت کی جواب دہی کرنا پڑے گی اور خاک پاک کو بت اور خدا پرست موحدین کو مشرک و بت پرست کہنے پر سخت باز پرس کی جاۓ گی۔

جناب من! کسی عقیدے پر تنقید اور تبصرہ سند اور دلیل کے ساتھ ہونا چاہیئے، صرف اپنے جذبات کی بنا پر نہیں اگر آپ شیعوں کی فقہی اور استدلالی کتابیں اور عملیہ رسائل کا مطالعہ کیجئے جو عام طور پر ہرجگہ دستیاب ہوتے ہیں تو آپ کو اپنا جواب مل جاۓ گا اور آئندہ ایسے غلط اعتراضات کر کے نا واقف برادران اہل سنت کو بہکا کر شیعہ بھائیوں سے بد ظن نہ کریں گے۔

شیعہ خاک کربلا پر سجدہ کرنا واجب نہیں سمجھتے

اگر تمام استدلالی کتابوں اور عملیہ رسالوں میں آپ ایک روایت یا ایک فتوی بھی ایسا دکھا دیں کہ فقہاۓ امامیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خاک کربلا پر سجدہ کرنے کو واجب قرار دیا ہو تو ہم آپ کے سارے بیانات تسلیم کر لیں گے کیونکہ جملہ فقہی اور استدلال کتابوں اور عملیہ رسائل میں سارے فقہاۓ امامیہ کے یہ احکام و ہدایات موجود ہیں کہ حکم قرآنی کے مطابق سجدہ پاک زمین پر ہونا چاہیئے۔ جس میں خاک، پتھر، ریت، بالو اور گھاس شامل ہے بشرطیکہ کوئی چیز معدنیات میں سے نہ ہو۔ نیز ہر اس چیز پر سجدہ کرسکتے ہیں جو زمین سے اگتی ہے بشرطیکہ وہ کھانے یا پینے کے کام میں نہ آتی ہو ان میں سے اگر ایک چیز نہ ہو تو دوسری پر سجدہ کریں۔

شیخ: پھر آپ کس لئے تختوں کی صورت میں خاک کربلا کے ٹکڑے پابندی سے اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور نماز کے وقت انہیں پر سجدہ کرتے ہیں؟

شیعوں کا سجدہ گاہیں ساتھ رکھنا

خیر طلب: خاک کے ٹکڑے ساتھ رکھنے کا سبب یہ ہے کہ سجدہ پاک زمین پر کرنا واجب ہے اور نماز اکثر گھروں میں اور ایسے مقامات پر پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے جہاں قالین، رومال وغیرہ مختلف قسم کے فرش بچھے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے زمین پر سجدہ نہیں ہوسکتا، اور نماز کے وقت ان کو اٹھانا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ اگر ان کو ہٹایا بھی جاۓ تو ان کے نیچے زیادہ تر گچ یا دوسری ایسیچیزوں کا فرش بنا ہوا ہوتا ہے جن پر سجدہ جائز نہیں ہے لہذا اگر ہم پاک مٹی کے ٹکڑے اپنے

۲۷۳

ساتھ رکھتے ہیں تو اس غرض سے کہ نماز کے وقت خاک پر سجدہ کرسکیں۔ ا س کے علاوہ ہم مجبور ہیں کہ فقہاء کی ہدایت کے مطابق پاک زمین پر سجدہ کریں اور ہر موقع پر طاہر زمین نہیں ملتی اس وجہ سے ہم پاک مٹی کے ٹکڑے اپنے پاس رکھتے ہیںتاکہ جس مقام پر یہ زحمت پیش آۓ ہم اس طاہر مٹی سجدہ کرلیں۔

شیخ: ہم دیکھتے ہیں کہ تمام شیعہ مہر کی صورت میں خاکِ کربلا کی تختیاں بنا کر رکھتے ہیں اور انہیں پر سجدہ کرنا واجب و لازم سمجھتے ہیں۔

خاکِ کربلا پر سجدہ کرنے کا سبب

خیر طلب: یہ صحیح ہے کہ ہم کربلا کی خاک پاک پر سجدہ کرتے ہیں لیکن واجب سمجھ کے نہیں جیسا میں پہلے عرض کرچکا ہوں ہم لوگ ان احکام کے مطابق جو فقہی کتابوں میں دئیے گئے ہیں صرف پاک زمین پر سجدہ واجب سمجھتے ہیں۔لیکن ان روایتوں کی بنائ پر جو اہل بیت طاہرین علیہم السلام سے مروی ہیں۔ حسینی تربت پاک پر سجدہ کرنا بہتر اور فضیلت و ثواب کثیر کا باعث ہے، اور وہ حضرات اشیائ کے خصوصیات کو سب سے زیادہ جانتے تھے کتنے افسوس کی بات ہے کہ خوارج و نواصب کے پیرو بازی گروں کی ایک جماعت نے یہ مشہور کر رکھا ہے اور اب بھی برابر کہتے رہتے ہیں کہ شیعہ حسین (ع) پرست ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کیقبر مطہر کی خاک پر سجدہ کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ باتیں ہمارے نزدیک کفر ہیں کیونکہ ہم ہرگز حسین(ع) پرست نہیں ہیں بلکہ علی(ع) پرست اور محمد پرست بھی نہیں ہیں( اور جس شخص کا یہ عقیدہ ہوا اس کو کافر جانتے ہیں) ہم صرف خدا پرست ہیں اور قرآن مجید کے حکم سے فقط پاک مٹی پر سجدہ کرتے ہیں۔ ہمارا سجدہ حسین علیہ السلام کے لئے نہیں ہوتا بلکہ ائمہ عترت طاہرہ کے ارشاد کے مطابق کربلا کی خاک پاک پر سجدہ کرنا زیادتی ثواب اور فضیلت کا سبب ہے، واجب کی حیثیت سے نہیں۔

شیخ: یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ کربلا کی خاک کچھ خصوصیات کی حامل ہے جن کی وجہ سے اس پر خاص توجہ کی جاۓ یہاں تک کہ سجدہ کرنے میں بھی اس کو دوسری ہرخاک پر فوقیت دی جاۓ۔

خاک کربلا کے خصوصیات اور پیغمبر(ص) کے ارشادات

خیر طلب: اولا یہ کہ اشیائ اور زمینوں کے اختلاف اور اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ہر خاک کے کچھ آثار و خصوصیات ہیں جن کو ماہرین فن کے علاوہ عام لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔

دوسرے خاک کربلا ائمہ طاہرین علیہم السلام ہی کے زمانے سے نہیں بلکہ خود رسول اللہ صلعم کے عہد میں بھی حضرت(ص) کے لئے بھی مرکز توجہ تھی، جیسا کہ آپ کے اکابر علمائکی معتبر کتابوں میں درج ہے۔ مثلا خصائص الکبری مولفہ جلال الدین سیوطی مطبوعہ حیدر آباد دکن سنہ1320ھ میں ابونعیم اصفہانی، بیہقی اور حاکم وغیرہ کے ایسے آپ کے اکابر علمائ اور موثق راویوں سے

۲۷۴

خاکِ کربلا کے بارے میں ام المومنین ام سلمہ، ام المومنین عائشہ، ام الفضل، ابن عباس اور انس ابن مالک وغیرہ کی کافی روایتیں نقل ہوئی ہیں، من جملہ ان کے راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا حسین(ع) اپنے نانا رسول خدا(ص) کی گود میں بیٹھے ہوۓ تھے اور آںحضرت(ص) کے ہاتھ میں ایک سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو آپ چوم رہے تھے اور روتے جاتے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کیسی خاک ہے تو فرمایا کہ جبرئیل نے مجھ کو خبر دی ہے کہ میرا یہ حسین(ع) زمین عراق پر قتل کیا جاۓ گا اور اسی زمین سے یہ خاک میرے واسطے لاۓ ہیں۔ لہذا میں اپنے حسین(ع) کے اوپر پڑنے والی مصیبتوں پر گریہ کررہا ہوں۔ پھر وہ خاک ام سلمہ کے سپرد کی اور فرمایا کہ جب تم دیکھنا کہ یہ مٹی خون ہوگئے ہے تو سمجھ لینا کہ میرا حسین(ع) قتل کردیا گیا۔ چنانچہ ام سلمہ نے وہ مٹی ایک شیشی میں رکھی اور اس کی نگرانی کرتی رہیں یہاں تک کہ سنہ61ہجری میں عاشورہ کے روز دیکھا کہ وہ خاک خون آلود ہوگئی ہے اور جان لیا کہ حسین ابن علی علیہما السلام شہید ہوگئے۔ آپ کے اکابر علمائ اور فقہاۓ شیعہ کی معتبر کتابوں میں تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ اس خاک پاک پر حضرت رسولِ خدا صلعم اور عدیل قرآن ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی خاص توجہ تھی اور ریحانہ رسول حضرت سید الشہدائ کی شہادت کے بعد جس نے سب سے پہلے اس خاک کو تبرک سمجھ کر اٹھایا وہ امام چہارم سید الساجدین حضرت زین العابدین علی بن الحسین علیہما السلام تھے۔ جنہوں نے اس خاک پاک کو ایک تھیلی میں محفوظ کیا، آپ اس کے اوپر سجدہ بھی کرتے تھے اور اسی کی تسبیح بنا کر اس پر ذکرِ خدا بھی فرماتے تھے۔

آپ کے بعد تمام ائمہ طاہرین اس خاک کو تبرک سمجھتے رہے، اس کی تسبیح اور سجدہ گاہ بناتے رہے، خود اس پر سجدہ کرتے رہے اورواجب کی نیت سے نہیں بلکہ ثواب عظیم پر فائز ہونے کے لئے شیعوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے رہے یہ حضرات پوری تاکید کے ساتھ حکم دیتے تھے کہ خدا کے لئے صرف پاک زمین پر سجدہ ہونا چاہیئے لیکن حضرت سید الشہدائ کی تربت پر افضل اور زیادتی ثواب کا باعث ہے۔

چنانچہ شیخ الطائفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسی علیہ الرحمہ مصباح المتہجد میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تھوڑی تربت امام حسین(ع) ایک زرد کپڑے میں رکھے ہوۓ تھے جس کو نماز کے وقت کھول کر سامنے رکھ لیتے تھے اور اسی پر سجدہکرتے تھے۔

شیعہ ایک مدت تک اسی طریقے سے یہ مٹی اپنے پاس رکھتے رہے، پھر اس خیال سے کہ ب ادبی نہ ہو اس کو پانی میں گوندھ کر تختیوں اور ٹکڑوں کی شکل میں لے آۓ جس کو آج مہر کہا جاتا ہے، ہم لوگ اس کو محض تبرکا اور تیمنا اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور نماز کے موقع پر بقصد وجوب نہیں بلکہ زیادتی فضیلت کے لئے اس پر سجدہ کرتے ہیں ورنہ اکثر اوقات جب وہ خاک پاک کی مہر ہمارے ساتھ نہیں تھی ہم نے زمین یا پاک پتھر پر سجدہ کیا ہے۔ اور عمل واجب بھی ادا ہوگیا ہے۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ سنہ1384ہجری میں جب مجھ کو حج بیت اللہ کیتوفیق حاصل ہوئی اور میں ہوائی جہاز کے ذریعے بیروت سے (باقی برصفحہ 276)

۲۷۵

آیا یہ مناسب ہے کہ اتنی سادہ اور صاف بات کے لئے آپ لوگ اس قدر طوفان کھڑا کریں، یہاں تک کہ ہم کو کافر و مشرک اور بت پرست بھی بنائیں اور بیچارے ناواقف عوام کو دھوکے میں ڈالیں؟ جس طرح سے کہ آپ لوگ اپنے ائمہ اور فقہائ کے فتاوی پر ( جو اکثر حقیقت سے دور بلکہ آیات قرآن کی صراحت کے برخلاف بھی ہوتے ہیں) عمل کرتے ہیں اور ان کے قول و فعل کو حجت اور اپنا لائحہ عمل قرار دیتے ہیں اسی طرح ہم بھی عترت طاہرہ اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے احکام و ہدایات پر عمل کرتے ہیں البتہ فرق یہ ہے کہ آپ کے پاس پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک حکم بھی ایسا نہیں ہے کہ نعمانی یا محمد یا احمد یا مالک کی

ہدایتوں اور فتوؤں پر عمل کرنا تمہارا فرض ہے، سوا اس کے کہ آپ ان کو فقہاۓ اہل سنت میں سے ایک فقیہ سمجھ سکے ان کی پیروی کرتے ہیں۔

لیکن ہم خود رسول اللہ صلعم کی ہدایت پر عمل کر رہے ہیں کیونکہ آں حضرت(ص) نے باربار ارشاد فرمایا ہے کہ ہمارے ائمہ عترت اوراہل بیت عدیل قرآن، سفینۃ نجات اور باب حطہ ہیں۔ ان کی اطاعت و پیروی ذریعہ نجات اور ان سے دوری و

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ صفحہ قبل) مدینہ منورہ پہنچا تو غروب آفتاب میں ایک ساعت باقی تھی اور نماز کا وقت تنگ تھا لہذا میں اسی میدان میں نماز کے لئے کھڑا ہوگیا۔ ملا زمین وغیرہ کا ایک بڑا

مجمع میرے قریب اکٹھا ہوگیا اور سب میرے سجدے کرنے کو غور سے دیکھنے لگے۔جب انہوں نے دیکھا کہ میرے پاس سجدہ گاہ نہیں ہے اور میں زمین پر سجدہ کررہا ہوں تو ان کو بہت تعجب ہوا اور جب میں سلام پڑھ چکا تو ان کے بڑے بوڑھے لوگ میرےچاروں طرف جمع ہو کر پوچھنے لگے کہ کیاتم بت پرست شیعوں میں سے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ شیعہ ہونے کا فخر حاصل ہے لیکن ہم لوگ بت پرست ہرگز نہیں ہیں بلکہ موحد اور خدا پرست ہیں آپ لوگوں کا یہ کہنا شیعوں کے اوپر ایک تہمت ہے کیونکہ یہ لوگ سب اہل توحید اور پاک دل ہیں۔ انہوں نے کہا ہم نے اکثر اسی مقام پر ان کیبغلوں سے بتوں کا نکال کر توڑا ہے، تم کیسے شیعہ ہوکہ بت اپنے ساتھ نہیں رکھتے؟ میں نے کہا یہ الفاظ محض اشتباہ اور ایک بہت بڑی تہمت ہیں شیعہ بت اور بت پرستی سے بیزار ہیں، لیکن چونکہ بحکم قرآن ہم اس کے پابند ہیں کہ پاک زمین پر سجدہ کریں لہذا خاک کے ٹکڑے اپنے ساتھ رکھتے ہیں تاکہ جس مقام پر پاک زمین ممکن نہ ہو وہاں اس خاک پر سجدہ کرلیں چنانچہ اس وقت جب کہ اس میدان کی ساری زمین پاک ہی ہے ہم کو اس خاک پاک کی کوئی احتیاج نہیں ہے اور آپ لوگوں نے دیکھ لیا کہ میں نے اسی زمین پر سجدہ کیا ہے، اس قسم کی تمہتیں صدیوں سے خوارج اور نواصب کی زبانوں پر جاری ہوئیں جو مسلمانوں کے اندر پھوٹ اور تفرقہ ڈالنا چاہتے تھے، یہاں تک کہ آج آپ جیسے براداران اہل سنت بھی ان کے فریب میں مبتلا ہیں اور اور اپنے شیعہ بھائیوں کو مشرک و بت پرست کہتے ہیں۔ غرضیکہ میں نے غروب تک اس بڑے مجمع سے جس میں زیادہ تر وہابی تھے اس طرح گفتگو کیکہ سب کے سب کافی متاثر ہوۓ اور انہوں نے استغفار کیا اس کے بعد مجھ سے مصافحہ اور معانقہ کر کے رخصت ہوۓ۔ فاعتبروا یا اولی الالباب۔

۲۷۶

سرکشی موجب ہلاکت ہے، جیساکہ ہم گذشتہ راتوں میں بعض احادیث کی طرف اشارہ بھی کرچکے ہیں۔ پس ان مقدس ہستیوں کا قول وفعل بحکم رسول(ص) ہمارے لئے حجت ہے اور اسی بنا پر ہم ان کی ہدایتوں کی پیروی کرتے ہوۓ استجابا یہ عمل کرتے ہیں۔

علمائ اہلِ سنت کا عمل تعجب خیز ہے

البتہ تعجب تو آپ کے علمائ پر ہے کہ ائمہ اربعہ اور دوسرے فقہاء کے عجیب و غریب فتوؤں پر قطعا کوئی اعتراض نہیں کرتے یعنی اگر امام اعظم اگر کہہ دییں کہ پانی نہ ملنے پر نبیذ سے وضو کرنا چاہیئے تو شافعی، مالکی اور حنبلی حضرات کو کوئی اعتراض نہیں، اگر امام احمد حنبل خداۓ تعالیٰ کی رؤیت کے قائل ہوجائیں اور عمامے پر مسح کرنے کو جائز سمجھیں تو دوسرے فرقے اس پر کوئی گرفت نہ کریں اور اسی طرح کے دوسرے حیرت انگیز اور نئے نئے فتاوی پر جیسے سفر میں نا بالغ لڑکوں سے نکاح کرنے یا فضلے اور نجاست پر سجدہ کرنے یا کپڑا لپیٹ کر ماؤں سے ہمبستری کرنے اور اسی قسم کے دوسرے مسائل پر کسی کو رد و قدح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔(1)

لیکن جس وقت یہ کہہ دیا جاۓ کہ ائمہ عترت رسول (ص) نے فرمایا ہے کہ کربلا کی خاک پاک پر سجدہ کرنا

دوسری زمینوں پر سجدہ کرنے سے افضل باعث اضافہ ثواب اور مستحب ہے تو آپ حضرات داد و فریاد اور شور وہنگامہ برپا کردیتے ہیں کہ شیعہ مشرک اور بت پرست ہیں۔ اور اس طرح باہمی نفاق کا بیج بوکر برادر کشی کا فتنہ ابھارتے ہیں اور غیروں کے غلبے اور تسلط کا راستہ کھول دیتے ہیں۔

درد دل بہت ہے جس کو چھوڑ کر آگے بڑھتا ہوں اور پھر اصل مطلب کی طرف آکر آپ کو جواب شروع کرتا ہوں ہماری یہ مظلومانہ فریاد روز قیامت رسول اللہ(ص) کے سامنے اثر دکھاۓ گی۔

پانچویں آپ نے بڑھاپے اور اجماع کے سلسلے میں بیان فرمایا ہے کہ پیرانہ سالی کی وجہ سے ابوبکر کو فوقیت اور تقدم کا حق حاصل تھا۔ تو یہ بھی آپ کی بہت بے لطفی کی بات ہے کہ دس راتوں کے بعد جب کہ میں قطعی طور پر عقلی اور نقلی دلائل سے اجماع او بڑھاپے کی دلیلوں کو باطل ثابت کرچکا، اب پھر آپ از سرِ نو وہی بات دھرا رہےہیں اور چاہتے ہیں کہ مطلب کی تکرار کر کے جلسہ کا وقت لیں۔ باوجودیکہ میں گزشتہ شبوں میں کافی اور مسکت جوابات دے چکا ہوں لیکن اس وقت بھی آپ کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑوں گا۔ آپ نے خلیفہ اول ابوبکر کے حق تقدم کے اوپر سیاسی سوجھ بوجھ اور ورازی سن کی جو دلیل قائم کی ہے اس کےبارے میں عرض ہے کہ یہ کیسی بات ہے کہ اور لوگ تو اس بات کی تہ تک پہنچ گئے کہ بڑے کام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ ملاحظہ ہوں کتب فقیہہ اہل سنت، فتاوی قاضی خان، ہدایتہ اور بحر الرائق شرح کنز الدقائق وغیرہ12۔

۲۷۷

کے لئے انسان کو بوڑھا اور سیاسی ہونا ضروری ہے لیکن خدا اور اس کےرسول(ص) کی سمجھ میں یہ معاملہ نہ آیا اور انہوں نے سورہ برائت کی ابتدائی آیتوں کی تبلیغ میں ابوبکر جیسے بوڑھے اور سیاسی آدمی کو معزول کر کے علی(ع) جیسے جوان شخص کو مقررفرمایا؟

نواب : قبلہ صاحب! معاف فرمائیےگا میں آپ کی گفتگو میں دخل دے رہا ہوں۔ اس قضیے کو مبہم نہ چھوڑیئے پہلے بھی ایک شب میں آپ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ کہاں اور کس کام کےسلسلے میں خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ معزول اور علی کرم اللہ وجہہ معین کئے گئے؟ جب ہم نے ان حضرات ( اپنے علمائ کی طرف اشارہ) سے دریافت کیا تو انہوں نے گول جواب دے دیا کہ کوئی اہم معاملہ نہیں تھا۔ گذارش ہے کہ اس کی وضاحت فرمادیجئے تاکہ یہ معما حل ہوجاۓ۔

تبلیغ سورہ برائت میں ابوبکر کی معزول اور علی(ع) کا تقرر

خیر طلب: جمہور امت اور فریقین (شیعہ و سنی) کے علمائ و مئورخین اس کے قائل ہیں کہ جب سورہ برائت کی ابتدائی آیتیں مشرکین کی مذمت میں نازل ہوئیں تو رسول اللہ(ص) نے ابوبکر کو بلا کر دس (10) آیتیں ان کے سپرد کیں اور ان کو مکہ معظمہ لے جائیں اور موسم حج میں اہل مکہ کے سامنے پڑھیں ابھی یہ چند ہی منزلیں طے کرنے پاۓ تھے کہ جبرئیل امین نازل ہوۓ اور عرض کیا یا رسول اللہ(ص) :

"ان الله یقرئکالسلامیقوللن‏ يؤدّي‏ عنك‏ إلّا أنت أو رجل منك"

یعنی خداۓ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپ کی طرف سے ہرگز کوئی شخص تبلیغ رسالت نہیں کرسکتا، سوا آپ کے یا اس مرد کے جو آپ سے ہو۔

چنانچہ پیغمبر(ص) نے علی علیہ السلام کو بلایا اور اس خاص مہم پر مقرر کر کے فرمایا کہ جاؤ جس مقام پر ابوبکر مل جائیں ان سے آیات برائت واپس لے لو۔ اور خود جاکر مشرکین اہل مکہ کے سامنے ان کی تلاوت کرو، علی علیہ السلام فورا روانہ ہوگئے۔ منزل ذوالحلیفہ میں ابوبکر سے ملاقات ہوئی، ان کو رسول اللہ(ص) کا پیغام پہنچایا، ان سے آیتیں واپس لیں اور مکہ معظمہ پہنچ کے مجمع عام کے سامنےان آیات کو پڑھ کے پیغمبر(ص) کی طرف سے تبلیغ رسالت کا فرض انجام دیا۔ اس کے بعد آں حضرت(ص) کی خدمت میں مدینہ منورہ واپس آۓ۔

نواب: کیا ہماری معتبر کتابوں میں بھی یہ واقعہ درج ہے؟

خیر طلب: میں نے تو عرض کیا کہ اس پر امت کا اجماع ہے اور تمام شیعہ وسنی علمائ و مورخین اسلام نے بالاتفاق لکھا ہے کہ یہ واقعہ اسی طرح سے پیش آیا۔ لیکن آپ کے اطمینان قلب کے لئے چند کتابوں کے حوالے جو اس وقت میرے پیش نظر ہیں۔ عرض کئے دیتا ہوں تاکہ جب آپ ان پرغور کریں تو معلوم ہوجاۓ کہ یہ ایک اہم معاملہ تھا۔

بخاری نے اپنی صحیح جزئ چہارم و پنجم میں، عبدی نے جمع بین الصحاص الستہ جزئ دوم میں، بیہقی نے سنن ص9 ، ص224 میں، ترمذی نے جامع جلد دوم ص135 میں، ابوداؤد نے سنن میں، خوارزمی نے مناقب میں، شوکانی نے اپنیتفسیر جلد دوم ص219میں، ابن مغازلی فقیہہ شافعی نے فضائل میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص17 میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے

۲۷۸

ینابیع المودت باب18 میں، روایت و اکابر علماۓ اہل سنت کے مختلف طریقوں سے، محب الدین طبری نے ریاض النضرہ ص147 اور ذخائر العقبی ص69 میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ خواص الامہ ص32 میں ( ائمہ صحاح میں سے ایک رکن) امام عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی ص14 میں اس سلسلے کی چھ حدیثیں، ابن کثیر نے تاریخ کبیر جلد پنجم ص38 اور جلد ہفتم ص357 میں، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد دوم ص509 میں، جلال الدین سیوطی نے در المنثور جلد سوم ص208 تفسیر آیت اول سورہ برائت میں طبری نے جامع البیان جلد دوم ص323 میں، آلوسی نے روح المعانی جلد سوم ص268 میں، ابن حجر مکی متعصب نے صواعق محرقہ ص19 میں،ہیثمی نے مجمع الزوائد جلد ہفتم ص29 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب62 ص125 میں ابوبکر اور حافظ ابونعیم کی سند سے اور یہ روایت ابونعیم مسند حافظ دمشقی سے مختلف طریقوں کے ساتھ، امام احمد ابن حنبل نے مسند جلد اول ص3، ص151 جلد سوم میں ص283 اور جلد چہارم ص164، ص165 میں، حاکم نے مستدرک جلد دوم کتاب مغازی ص51ٍ اور اسی کتاب کی جلد دوم ص331 میں، اور مولوی علی نقی نے کنز العمال جلد اول ص246 تا ص249 اور جلد ششم ص154 فضائل علی علیہ السلام میں، غرضیکہ سبھی نے اس قضیے کو تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے اور عام طور سے اس کی صحت کی تصدیق کی ہے۔

سید عبدالحی : جس پیغمبر(ص) کا ہر قول و فعل خدا کی جانب سے تھا اس نے یہ منصب پہلے ہی سے علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کیوں نہیں کیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تبلیغ پر مامور کردیا تاکہ بعد کو خدا کا پیغام پہنچے، علی روانہ ہوں اور بوڑھے ابوبکر کو بیچ راستے سے پلٹائیں۔

ابوبکر کی معزولی اور علی(ع) کے تقرر کا ظاہری سبب

خیر طلب: چونکہ ہماری اور آپ کی کتابوں میں اس کا کوئی اصلی سبب منقول نہیں ہے لہذا ہم اس سے کماحقہ واقفیت نہیں رکھتے، لیکن عقلی طور پر میرا اندازہ ہے کہ اس تبدیلی کا مقصد دوسروں کے اوپر علی علیہ السلام کی برتری اور بزرگ منزلت کو ثابت کرنا تھا کہ تقریبا تیرہ سو چالیس برس کے بعد آج کی رات آپ کے لئے جواب موجود رہے اور آپ یہ نہ کہیں کہ پیرانہ سالی اور سیاسی مہارت کی وجہ سے خلات ابوبکر کو حق تقدم حاصل تھا، اگر ابتدا ہی میں یہ منصب علی علیہ السلام کو دے دیا گیا ہوتا تو یہ ایک معمولی سا معاملہ معلوم ہوتا اور ظاہری طور پر ہمارے لئے ممکن نہ ہوتا کہ اس حدیث کے ذریعے آپ کے مقابلے میں علی علیہ السلام کی فضیلت و کرامت ثابت کرسکیں، کیونکہ آپ نے اپنی یہ عادت بنا رکھی ہے کہ ہر اس حدیث کے لئے جو حضرت کی فضیلت اور منصب خلافت کا اثبات کرتی ہو کوئی نہ کوئی فضول سی تاویل ضرور کرتے ہیں چاہے وہ تاویل دوسری اکثر تاویلات کےمانند مضحکہ خیز ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اس طرح سے علی علیہ السلام کی اعلی حیثیت اور باوجود کمسنی کے بوڑھے صحابہ کے اوپر آپ کی ترجیح اور حق تقدم ساری امت پر آج تک مکمل طور پر واضح ہو رہا ہے۔

۲۷۹

پہلے آں حضرت(ص) مذکورہ آیتیں ابوبکر کو دیتے ہیں، پھر ان کے چند منزل آگے بڑھ جانے کے بعد علی علیہ السلام کو اس وضاحت کےساتھ معین فرماتے ہیں کہ جبرئیل نے من جانب خدا مجھ کو مامور کیا ہے اور صاف صاف کہا ہے کہ "لن‏ يؤدّي‏ عنك‏ إلّا أنت أو رجل منك " (یعنی تمہاری طرف سے پیغام رسالت سوا تمہارے یا اس مرد کے جو تم سے ہو اور کوئی ہرگز نہیں پہنچا سکتا۔

پس ابوبکر کا جانا اور درمیان راہ سے واپس آنا دوسروں پر علی علیہ السلام کی برتری اور فوقیت کا ایک بڑا ثبوت بن جاتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ امر خداوندی کی تبلیغ یعنی نبوت و خلافت کو بڑھاپے اور جوانی سے کوئی ربط نہیں ہے۔ع

ہزار نکتہ باریک ترزمو اینجاست

اگر ابوبکر کا بوڑھا اور سیاسی ہونا ان کی فوقیت اور حق تقدم کو ثابت کرتا تھا تو ان کو ایسے مقدس کام سے قطعا معزول نہ ہونا چاہیئے تھا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پیغام رسالت کا پہنچانا پیغمبر(ص) اور خلیفہ پیغمبر(ص) ہی کا کام ہے۔

سید : بعض روایتوں میں ابوہریرہ سے منقول ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ مکے جائیں، ابوبکر لوگوں کو مناسک حج کی تعلیم دیں اور علی آیات سورہ برائت کی تلاوت کریں، پس اس صورت سے پیغام رسالت پہنچانے میں دونوں باہم مساوی تھے۔

خیر طلب: اول تو یہ روایت بکرئین کی گڑھی ہوئی ہے اس لئے کہ دوسروں نے اس کو نقل نہیں کیا ہے۔ دوسرے ابوبکر کی معزول اور ابلاغ رسالت کے لئے علی علیہ السلام کے تنہا مکے بھیجا جانے پر ساری امت کا اجماع ہے اور یہ مخالف وموافق مذاہب کی صحاح و مسانید میں معتبر اسناد کے ساتھ تواتر کی حد ثابت ہے۔ دیہی چیز ہے کہ کثیر التعداد صحیح ومستند احادیث سے تمسک کرنے پر جمہور امت کا اتفاق ہے اور اگر کوئی خبر واحد ان صحاح کثیرہ کے خلاف ہو تو آپ خود بہتر جانتے ہیں، کہ محدثین اور اصولیین کے قاعدے سے اس کو ترک اور رد کردینا واجب ہے۔ اگر وہ خبر واحد صحیح بھی ہو تو مظنون ہے اور مظنون کے لئے معلوم کا ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ پس ابوبکر کی معزولی، علی علیہ السلام کی تعیین، ابوبکر کا رنج وغم کی حالت میں مدینے پلٹنا، ان سے پیغمبر(ص) کی گفتگو اور آں حضرت(ص) کا یہ کہہ کے مطمئن فرمانا کہ حکم خدا اسی طرح سے تھا، یہ سب روایئی مسلمات میں سے ہیں۔ نیز اپنی جگہ پر اس کی ایک مکمل دلیل ہے کہ حق تقدم کا کہنہ سالی اور پیری سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ عقلی و نقلی دلائل سے ثابت ہے کہ امت اور جماعت انسانی کے اندر تقدم اور فوقیت کا حق علم و دانش اور تقوی سے حاصل ہوتا ہے۔ افراد بشر میں سے جو فرد علم وفضل اور تقوی کے حیثیت سے برتری رکھتی ہو، قوم کے اندر اسی کو ترجیح اور تقدم کا حق ہوگا کیوں کہ آپ کا ارشاد ہے"الناس موتیٰ واهلالعلماحیائ "( یعنی تمام لوگ مردہ ہیں اور صاحبان علم زندہ ہیں)

اسی بنا پر رسول خدا صلعم نے علی علیہ السلام کو دوسرے صحابہ پر مقدم رکھا اور فرمایا علی میرے علم کا دروازہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ(ص) کا باب علم دوسروں سے مقدم ہوگا اگر چہ پیغمبر(ص) کے جو اصحاب آں حضرت(ص) کی اطاعت پر ثابت قدم رہے وہ بھی

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394