پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 325666 / ڈاؤنلوڈ: 8654
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

بالصواب عرض کرتا۔ گذارش ہے کہ اب بھی میری درخواست قبول کیجئے اور اس موضوع پر علانیہ گفتگو نہ کیجئے۔ ایک روز صبح کو میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائوں گا اور ہم دونوں اس مسئلے کو حل کر لیں گے۔

حافظ : میں بے قصور ہوں، چونکہ حضرات اہل جلسہ کئی راتوں سے مجھ پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ یہ موضوع زیر بحث لایا جائے۔ لہذا انہیں کی خواہش پر میں نے یہ سوال اٹھایا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کی گفتگو سنجیدہ ہوتی ہے۔ لہذا اگر ان کی تسکین خاطر کے لیے کوئی مسکت جواب دے دیجئے تو کوئی ضرر نہ ہوگا یا پھر تصدیق کیجئے کہ حق ہمارے ساتھ ہے۔

نواب : صحیح ہے۔ ہم سب منتظر ہیں کہ معمہ حل ہو۔

خیر طلب :چونکہ آپ حکم دے رہے ہیں لہذا تعمیل کرتا ہوں لیکن آپ کے ایسے محترم فاضل سے مجھ کو یہ امید نہیں تھی کہ ان مفصل تشریحات کے بعد جو میں گذشتہ شبوں میں پیش کرچکا اور کفر کے پہلو واضح کرچکا پھر بھی ملت شیعہ سے کفر کو نسبت دیجئے گا۔ حالانکہ میں آپ کے سامنے پورا ثبوت دے چکا کہ شیعہ اثناعشری محمد و آل محمد صلوات اللہ علیہم اجمعین کے پیرو ہیں لہذا ہرگز کافر نہیں ہوسکتے چونکہ آپ نے چند مخلوط جملے بیان فرمائے ہیں۔ لہذا میں مجبور ہوں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے علیحدہ جواب عرض کروں تاکہ جملہ حضرات حاضرین و غائبین خود ہی انصاف کے ساتھ فیصلہ کر کے اپنے دلوں سے شبہات کو دور کریں اور جان لیں کہ نہ شیعہ کافر ہیں نہ کفر کے وہ طریقے ہیں جو آپ نے بیان فرمائے۔

صحابہ پر طعن و ایراد موجب کفر نہیں

اوّل آپ نے فرمایا ہے کہ شیعہ صحابہ اور بعض ازواج رسول(ص) پر جو طعن اور تنقید کرتے ہیں وہ موجب کفر ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ بیان کس دلیل و برہان کے رو سے دیا گیا۔ اگر طعن اور تنقید دلیل و برہان سے مضبوط ہو تو قطعا مذموم بھی نہیں ہے۔ نہ یہ کہ اس کو کفر کا سبب بتایا جائے، بلکہ اگر بغیر کسی ثبوت کے محض تہمت ہی تہمت ہو جب بھی باعث کفر نہیں۔

مثلا کسی مومن پر چاہے وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو کوئی شخص بلا وجہ بھی طعن اور تنقید یا لعنت کرے۔ تو وہ کافر نہ ہوگا، بلکہ فاسق ہوگا۔ جیسے کہ شراب پینے والا یا زنا کرنے والا۔ بدیہی چیز ہے کہ ہر فسق اور گناہ معافی اور در گذر کے قابل ہوتا ہے۔

چنانچہ ابن حزم ظاہری اندلسی متولد سنہ۴۵۶ہجری کتاب الفصل فی الملل والنحل جز سوم ص۲۲۷ میں کہتے ہیں کہ جو شخص جہالت اور نادانی کی وجہ سے اصحاب رسول(ص) کو گالی دے تو وہ معذور ہے اور اگر جان بوجھ کر دے تو فاسق

۲۱

ہوگا جس طرح کوئی زنا اور چوری جیسے گناہوں میں مشغول ہو۔ البتہ جب اس نیت سے دشنام دے کہ یہ رسول خدا(ص) کے اصحاب ہیں توکافر ہوجائے گا۔ کیوں کہ اس کی انتہا خدا و رسول(ص) کی عداوت اور اہانت پر ہوگی۔

ورنہ صرف صحابہ کو دشنام دینا موجب کفر نہیں ہے، چنانچہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے پیغمبر سےعرض کیا کہ آپ اجازت دیجئے میں حاطب منافق کی گردن ماردوں( باوجودیکہ یہ بزرگان صحابہ، مہاجرین اور اصحاب بدر میں سے تھا) پھر بھی وہ اس گالی اور نفاق کی نسبت دینے سے کافر نہیں ہوئے۔ انتہی کلامہ۔

پس کیونکر ممکن ہے کہ شیعوں کو اس لیے کافر کہہ دیا جائے کہ وہ بعض افراد صحابہ کو دشنام دیتے ہیں۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آپ سچ کہتے ہیں؟ در آنحالیکہ آپ کے اکابر علماء متقدمین اپنی معتبر کتابوں میں از روئے انصاف آپ کے عقیدے کے بر خلاف حق اور حقیقت کی کافی حمایت کرچکے ہیں۔ من جملہ ان کے قاضی عبدالرحمن ریجی شافعی نے مواقف میں ان وجوہ کو تعصب و عناد کا نتیجہ بتاتے ہوئے رد کیا ہے جن کو آپ کے متعصب علماء نے شیعوں کے کفر میں بیان کیا ہے۔

امام محمد غزالی صریحا لکھتے ہیں کہ صحابہ کا سب و شتم ہرگز کفر نہیں ہے، یہاں تک کہ سب شیخین بھی باعث کفر نہیں ملا سعد تفتازانی شرح عقائد نسفی میں کہتے ہیں کہ متعصب لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ صحابہ کو سب وشتم کرنے والے کافر ہیں، تو اس میں اشکال ہے اور ان کا کفر ثابت نہیں، اس لیے کہ بعض علماء نے جو صحابہ سے حسن ظن رکھتے تھے ان کی بد اعمالیوں سے چشم پوشی کی بلکہ ان کی مہمل تاویلیں کیں اور کہا کہ رسول اللہ(ص) کے صحابہ گمراہی اور فسق وفجور سے محفوظ تھے۔ حالانکہ ایسا نہ تھا اور اس کی دلیل وہ لڑائیاں ہیں جو ان کے درمیان واقع ہوئیں۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ گمراہ فاسق اور گنہگار تھے بغض و حسد، اور جاہ طلبی ان کو رے افعال پر مجور کرتی تھی اور یہ حق سے منحرف ہوجاتے تھے۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے بزرگ صحابہ بھی اعمال بد سے پاک نہ تھے۔ پس اگر کوئی شخص دلیل کے ساتھ ان کی گرفت اور تنقید کرے تو موجب کفر نہ ہوگا کیونکہ بعض نے محض حسن و ظن کی وجہ سے ان چیزوں پر پردہ ڈالا ہے اور نقل نہیں کیا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ان کی حرکتوں کو نقل کر کے ان پر نکتہ چینی کرتے ہیں، ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کافر ہیں اس لیے کہ ہر وہ صحابی جس نے رسول اللہ(ص) کو دیکھا معصوم اور بے گناہ نہیں تھا۔ انتہی۔

ان باتوں کے علاوہ ابن اثیر جزری صاحب جامع الاصول نے شیعوں کو اسلامی فرقوں میں شمار کیا ہے لہذا آپ کیوںکر ان پر کفر عائد کرتے ہیں؟ بعض صحابہ کے اعمال کی وجہ سے ان کو برا کہنے والوں کے عدم کفر کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خلفاء کی زندگی میں کچھ لوگ ان کو سب وشتم کرتے تھے اور رکیک گالیاں دیتے تھے۔ پھر بھی خلفاء انکے کفر اور قتل کا حکم نہیں دیتے تھے۔

چنانچہ حاکم نیشاپوری مستدرک جز چہارم ص۳۳۵ و ص۳۵۴ میں، احمد بن حنبل مسند جز اول ص۹ میں، ذہبی تلخیص مستدرک میں، قاضی عیاض کتاب شفاء جز چہارم باب اول میں اور امام غزالی احیاء العلوم جلد دوم میں نقل کرتے ہیں کہ زمانہ خلافت ابوبکر میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور انکو اس طرح سےفحش باتیں کہیں اور گالیاں دیں کہ حاضرین کو غصہ آگیا، ابوبرزہ سلمی نے کہا کہ خلیفہ کی اجازت ہو تو اس کو قتل کردوں۔ اس لیے کہ یہ کافر ہوگیا ہے۔ ابوبکر نے کہا نہیں ایسا نہیں سوا پیغمبر(ص)

۲۲

کے ایسا حکم نہیں لگا سکتا۔

واقعی حضرت اہل تسنن مدعی سست گواہ چست کے مصداق ہیں۔ خود خلیفہ سب و شتم اور گالیاںسنتے ہیں اور کفر کا فتوی یا قتل کا حکم نہیں دیتے لیکن آپ حضرات ( اپنی فرضی خیالات کی بنا پر) بے خبر عوام کو بہکاتے ہیںکہ شیعہ صحابہ کو سب و شتم کرتے ہیں لہذا کافر ہیں اور ان کا خون حلال ہے۔

اگر سب صحابہ موجب کفر ہے تو آپ حضرات معاویہ اور ان کے پیروئوں کو کس لیے کافرنہیں کہتے ہیں جنہوں نے صحابہ کی فرد اکمل اور خلفاء میں سے افضل امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر سب وشتم اور لعنت کی؟

پس معلوم ہوا کہ آپ کا مقصد کچھ اورہی ہے اور وہ ہے اہل بیت و عترت طاہرہ(ع) اور ان کی پیروی کرنے والوں سے جنگ۔

اگر صحابہ بالخصوص خلفاء راشدین پر سب وشتم کرنا کفر ہے تو آپ حضرات ام المومنین عائشہ پر کس لیے کفر کا فتوی نہیں دیتے جن کے لیے آپ کے تمام علماء و مئورخین نے لکھا ہے کہ ہمیشہ خلیفہ عثمان پر سب وشتم کیا کرتی تھیں اور علانیہ کہتی تھیں۔"اقتلوا انعثلا فقد کفر " یعنی اس فاتر العقل بوڑھے (یعنی عثمان ) کو قتل کر ڈالو کیوںکہ فی الحقیقت یہ کافرہوگیا ہے۔

اگر مظلوم شیعوں میں سے کوئی شخص کہدے کہ اچھا ہوا کہ عثمان مار دالے گئے اس لیے کہ وہ کافر تھے تو آپ حضرات اس کو کافر اور واجب القتل کہدیں گے۔ لیکن خود عثمان کے منہ پر عائشہ ان کو نعثل اور کافر کہتی تھیں تو نہ خلیفہ ان کو منع کرتے تھے نہ صحابہ کی طرف سے کوئی تنبیہ ہوتی تھی اور نہ آپ ہی ان کی ندامت کرتے ہیں۔

نواب : قبلہ صاحب اس نعثل کے کیا معنی ہیں جس کی طرف نسبت دی گئی؟

خیر طلب : فیروز آبادی جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں۔ " قاموس اللغہ" میں اس کے معنی بیان کرتے ہیں۔ نعثل بے وقوف بوڑھے کو کہتے ہیں، نیز مدینے میں ایک بڑی داڑھی والا یہودی تھا جس سے عثمان کو تشبیہ دیتے تھے اور شارح قاموس علامہ قزوینی یہی معنی بیان کرنے کے بعد مزید کہتے ہیں کہ ابن حجر نے تبصرۃ المنتبہ میں ذکر کیا ہے کہ :

"اننعثليهوديكانبالمدينةهورجللحيانيكانيشبه‏ به‏ عثمان‏ "

یعنی نعثل مدینہ میں ایک لمبی داڑھی والا یہودی تھا جس سے عثمان کو مشابہت تھی۔

سب سے بالاتر یہ کہ اگر صحابہ کو دشنام دینا برا کام ہے اور دشنام دینے والا کافر ہے تو خلیفہ ابوبکر بالائے منبر صحابہ اور جماعت مسلمین کے سامنے سب سے بلند و برتر صحابی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو کیوں گالی دی؟ اس پر آپ کو غصہ نہیں آتا ہے بلکہ ابوبکر کی توصیف و تقدیس ہوتی ہے۔ حالانکہ مذمت ہونا چاہئیے۔

حافظ : کیوں تہمت لگا رہے ہیں؟ کہاں خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ علی کرم اللہ وجہہ کا گالی دی؟

خیر طلب : معاف کیجئے گا ہم تہمت لگانے والوں میں سے نہیں۔ جب تک کسی چیز کی جانچ نہیں کر لیتے نقل

۲۳

نہیں کرتے۔ بہتر ہوگا کہ شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۸۰ میں ملاحظہ فرمائیے کہ ابوبکر نے مسجد میں بر سر منبر امیرالمومنین علیہ السلام پر طعن کرتے ہوئے کہا :

"إنماهوثعالةشهيده‏ ذنبه،مربّلكلفتنة،هوالذييقول: كروهاجذعةبعدماهرمت،يستعينونبالضعفة،ويستنصرونبالنساء،كأمطحالأحبأهله االيهاالبغي"

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ وہ (علی علیہ السلام) ایک لومڑی ہے۔ جس کی گواہ اس کی دم ہے۔ طرح طرح کے نکتے اٹھاتا ہے بڑے بڑے فتنوں کو گھٹا کے بیان کرتا ہے اور لوگوں کو فتنہ و فساد کی ترغیب دیتا ہے۔ ضعیوں سے کمک مانگتا ہے۔ اور عورتوں سے امداد حاصل کرتا ہے وہ ام طحال کے مانند ہے(ابن ابی الحدید تشریح کرتے ہیں کہ یہ زنانہ جاہلیت میں ایک زنا کار عورت تھی) جس سے اس کے گھر والے زنا کرنے کے شائق تھے) ( لیکن دوسری تاریخوں میں اس عبارت کے ساتھ ہے کہ ابوبکر نے کہا "إنماهی ثعالةشهيدهاذنبها "

اب ذرا آپ حضرات موازنہ کیجئے کہ خلیفہ ابوبکر نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں جو فحش باتیں کہیں، ان سے اور اس طعن و اعتقاد سے کتنا تفاوت ہے جو ایک شیعہ ان لوگوں کے لیے کرے۔

پس اگر کسی صحابی کو دشنامدینا باعث کفر ہے تو ابوبکر ان کی بیٹی عائشہ معاویہ اور ان کے پیروئوں کو سب سے پہلے کافر ہونا چاہیئے اور اگر سبب کفر نہیں ہے تو آپ اسی بنا پر شیعوں کو بھی کافر نہیں کہہ سکتے۔

آپ کےبڑے بڑے فقہاء اور خلفاء کے فتاوی اور احکام کے مطابق دشنام دینے والے کافر اور واجب القتل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ امام احمد حنبل نے مسند جلد سوم میں، ابن سعد کاتب نے کتاب طبقات جزء پنجم ص۶۷۰ میں اور قاضی عیاض نے شفاء جز چہارم باب اول میں نقل کیا ہے کہ خلیفہ عمر ابن عبدالعزیز کے عامل نے کوفے سے ان کو لکھا کہ ایک شخص نے خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب کو سب کیا ہے اور گالی دی ہے، اجازت دیجئے کہ ہم اس کو قتل کردیں۔ انہوں نے جواب میں لکھا کسی مسلمان کو سب و شتم کرنے کی وجہ سے ایک مسلمان کا خون مباح نہیں ہوتا، سوا اس کے کہ کوئی شخص رسول خدا(ص) کو دشنام دے ۔ ان اقوال کے علاوہ خود آپ کے اکابر علماء جیسے ابوالحسن اشعری اور ان کے پیروئوں کے عقائد یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص دل سے مومن ہو اور کفر کا اظہار کرے ( مثلا یہودیت اور نصرانیت وغیرہ) یا رسول اللہ (ص) سے جنگ کرنے اٹھے یا خدا و رسول(ص) کو بلاعذر سخت گالی دے۔ تب بھی وہ کافر نہیں ہوتا اور اس پر کفر کا جاری نہیں کیا جاسکتا، اس لیےکہ ایمان عقیدہ قلبی ہے اور چونکہ کوئی کسی کے قلب سے واقف نہیں ہے لہذا یہ نہیں جان سکتا کہ کفر کا اظہار دل سے تھا یا فقط ظاہری حیثیت سے اور ان مراتب کو دیگر علماء اشعری نے بھی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ خصوصا ابن حزم اندلسی نے کتاب الفضل جز چہارم ص۲۰۴ و ص۴۰۶ میں ان عقائد کو تفصیل سے نقل کیا ہے۔

پس ایسی صورت میں آپ حضرات موحد، پاک نفس، مطیع خدا و رسول(ص) اور شرع انور کے تمام واجب و مستحب احکام پر عمل کرنے والے شیعوں پر کفر کا حکم لگانے کا کیا حق رکھتے ہیں؟ فرض کر لیجئے کہ ( جیسا آپ کا خیال ہے) کوئی شیعہ بعض

۲۴

اصحاب کو دلیل و برہان کےساتھ سب و شتم ہی کرے یا دشنام دے جب بھی تو آپ اپنے بڑے بڑے پیشوائوں کے عقائد اور بیانات کے مطابق اس پر کفر کا حکم نہیں لگا سکتے۔

حالت تو یہ ہے کہ آپ کی معتبر کتابوں میں مثلا مسند احمد حنبل جلد دوم ص۲۳۶ سیر حلبیہ جلد دوم ص۱۰۷ صحیح بخاری جلد دوم ص۷۴ ، صحیح مسلم کتاب جہاد اور اسباب النزول واحدی ص۱۰۸ وغیرہ میں بکثرت روایتیں موجود ہیں کہ پیغمبر(ص) کے سامنے اکثر اصحاب جیسے ابوبکر وغیرہ آپس میں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے تھے بلکہ مار پیٹ بھی کرتے تھے اور رسول(ص) مشاہد فرماتے تھے لیکن ان کو کافر نہیں کہتے تھے بلکہ نصیحت فرماتے تھے( البتہ رسول اللہ(ص) کے روبرو اصحاب کی اس قسم کی باہمی جنگ اور نزاع کی روایتیں علماء اہل تسنن ہی کیکتابوں میں ہیں، شیعوں کی کتابوں میں نہیں۔

اس مختصر بیان کے ساتھ آپ نے اپنے پہلے ایراد کا جواب سن لیا کہ کسی صحابی پر لعنت یا دشنام موجب کفر نہیں ہوا کرتی۔

اگر بغیر کسی دلیل و برہان کے سب ولعن کریں تو فاسق ہوجائیں گے، کافر نہ ہوں گے۔ اور ہر عمل بد عفو و مغفرت کے قابل ہوتا ہے۔

صحابہ کے نیک و بد اعمال رسول اللہ(ص) کے پیش نظر تھے

دوسرے آپ نے فرمایا ہے کہ رسول خدا(ص) اصحاب کی توقیر اور تعظیم و تکریم فرماتے تھے تو یہ صحیح ہے میں بھی تصدیق کرتا ہوں اور تمام مسلمان اور صاحبان علم و فضل اس پر متفق ہیں کہ لوگوں کے سارے نیک و بد اعمال پر آنحضرت(ص) کی نظر رہتی تھی اور آپ ہر شخص کے اچھے عمل کی قدر فرماتے تھے۔ چنانچہ نوشیرواں کی عدالت اور حاتم طائی کی سخاوت کا بھی احترام فرماتے تھے۔ لیکن یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ اگر کسی فرد یا جماعت کی توقیر و تکریم فرماتے تھے تومحض اسی نیک عمل کی بنا پر جو اس سے ظاہر ہوتا تھا۔

بدیہی چیز ہے کہ کسی مخصوص عمل پر کسی فرد یا جماعت کی قدر و منزلت قبل اس کے کہ اس سے اس ک برعکس فعل صادر ہو اس کی نیک بختی اور خوش انجامی پر دلالت نہیں کرتی ؟؟؟ ؟؟؟؟ صدور گناہ سے قبل قہر و عقوبت جائز نہیں ہے چاہے یہ معلوم بھی ہو کہ آئندہ اس کی مرتکب ہوگا۔

چنانچہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام باوجودیکہ عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کے عمل و شقاوت اور انجام بد سے آگاہ تھے اور بار بار اس سے فرماتے بھی تھے کہ تو میرا قاتل ہے بلکہ ایک موقع پر صریحا فرمایا کہ

اريدحياته‏ ويريدقتلى‏عذيرك من خليلك من مراد

۲۵
۲۶

۲۷

خیر طلب : یہ آپ نے بے لطفی کی بات کی کہ چند خارجی اور ناصبی ذہنیت والوں کے عقائد کو اپنی بحث کا ماخذ بنایا یہ واقعہ تو اتنا مشہور اور واضح و آشکار ہے کہ خود آپ کے علماء نے اس کی تصدیق کی ہے۔

ملاحظہ فرمائیے حافظ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی شافعی نے جو آپ کے اکابر علماء و فقہاء میں سے ہیں، اپنی کتاب دلائل نبوۃ میں داستان بطن عقبہ کو معتبر سلسلہ روات کے ساتھ، امام احمد بن حنبل نے مسند آخر جلد پنجم میں ابو طفیل سے اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے اور علماء میں مشہور ہے۔ کہ آنحضرت(ص) نے اس رات اصحاب کی ایک جماعت پر لعنت فرمائی۔

واقعہ عقبہ اور قتل رسول(ص) کا ارادہ

نواب : قبلہ صاحب واقعہ کیا تھا اور کون سے لوگ رسول اللہ(ص) کو قتل کرنا چاہتے تھے، گذارش ہے کہ مختصر ہی بیان فرما دیجئے۔

خیر طلب : اکابر فریقین نے لکھا ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی میں چودہ منافقین نے خفیہ طور پر عقبہ کی گھاٹی میں جو پہاڑ کے دامن میں ایک تنگ راستہ تھا اور جس سے فقط ایک ایک آدمی گذر سکتا تھا رسول خدا(ص) کو قتل کرنے کی سازش کی۔ جب انہوں نے اپنی تجویز کو عملی جامہ پہنانا چاہا تو جبرئیل نے رسول اللہ(ص) کو اس کی خبر دی، آں حضرت(ص) نے حذیفہ نخعی کو بھیجا اور وہ جاکر دامن کوہ میں پوشیدہ ہوگئے۔ جس وقت وہ لوگ آئے اور آپس میں گفتگو کی تو انہوں نے سب کو پہچان لیا۔ چنانچہ ان میں سات نفر بنی امیہ میں سے تھے۔ حذیفہ آں حضرت(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سب کے نام بتائے۔ آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ یہ بات راز میں رکھو خدا ہمارا نگہبان ہے۔ اول شب آں حضرت(ص) لشکر کے آگے آگے روانہ ہوئے عمار یاسر اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے تھے۔ اور حذیفہ اس کو پیچھے سے ہانک رہے تھے، جب اس تنگ راستے میں پہنچے تو منافقوں نے اپنے چمڑے کے تھیلے بالوں سے بھر کے ( یا تیل کے کپے) شور مچا کر اونٹ کے سامنے پھینگے تاکہ اونٹ بھڑک کے بھاگے اور آں حضرت(ص) کو گہرے درے میں گرادے لیکن خدائے تعالی نے آپ کی حفاظت فرمائی اور وہ لوگ بھاگ کر مجمع میں چھپ گئے۔

کیا یہ لوگ اصحاب میں سے نہیں تھے؟ تو کیا ان کا یہ عمل نیک تھا اور ان کی پیروی راہ ہدایت تھی۔ آیا یہ مناسب ہے کہ انسان کی خوش عقیدگی اس حد تک بڑھ جائے کہ جس وقت کہا جائے اصحاب رسول(ص) یعنی وہ لوگ جنہوں نے پیغمبر(ص) کو دیکھا ہے یا آں حضرت(ص) سے حدیث نقل کی ہے، تو اپنی آنکھیں بند کر لے، ان کےعیوب اور برائیوں پر نظر نہ ڈالے اور کہے کہ سب کے سب نجات یافتہ ہیں۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک کے پیروئوں کو بھی ناجی بتائے؟

۲۸

پیغمبر(ص) نے جھوٹوں کی پیروی کا حکم نہیں دیا ہے

آیا ابوہریرہ جن کے حالات کی طرف میں پچھلی شبوں میں اشارہ کرچکا ہوں کہ خلیفہ عمر نے ان کو تازیانہ مارا اور کہا کہ یہ پیغمبر(ص) سے جھوٹی حدیثیں بہت نقل کرتا ہے، اصحاب میں سے نہیں تھے اور انہوں نے کثرت سے احادیث نقل نہیں کی ہیں؟ اسی طرح دوسرے اصحاب جیسے سمرۃ بن جندب وغیرہ جو حدیث گڑھتے تھے اصحاب میں سے نہیں تھے؟ آیا رسول خدا(ص) امت کو حکم دے سکتے ہیں کہ جھوٹے اور جعل ساز لوگوں کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پائو؟ اگر یہ حدیث جس کو آپ نے عظمت اصحاب کا سرچشمہ قرار دیا ہے صحیح ہے کہ اصحاب میں سے چاہے جس کی پیروی کریں ہدایت پا جائیں گے تو فرمائیے اگر دو صحابی ایک دوسرے کے خلاف راستہ چلیں تو ہم کس کی پیروی کریں تاکہ ہدایت حاصل ہو؟ یا اگر اصحاب کے دو گروہ باہم ایک دوسرے سے جنگ کریں یا عقیدے میں ایک دوسرے کے مخالف ہوں تو ہم کس گروہ کا ساتھ دیں۔ تاکہ نجات حاصل ہو؟

حافظ : اول تو رسول اللہ(ص) کے اصحاب پاک آپس میں کوئی مخالفت اور جنگ ہرگز کرتے ہی نہیں تھے۔ اور اگر مخالفت کی بھی تو آپ غور و فکر کیجئے ان میں سے جو شخص زیادہ پاک اور جس کی گفتگو زیادہ مدلل ہو اس کیپیروی کیجئے۔

خیر طلب : آپ کے اس بیان کے بنا پر اگر ہم نے غور کیا اور تحقیق کر کے دونوں میں سے ایک کو پاک و برحق سمجھ لیا تو قطعا اصحاب کا مخالف گروہ ناپاک اور باطل پر ہوگا۔

پس یہ حدیث اپنی جگہ پر خود ہی درجہ اعتبار سے گر جاتی ہے۔ کیوںکہ صحابہ میں سے ہر ایک کی اقتدا کر کے ہدایت پا جانا ممکن ہی نہیں۔

سقیفہ میں اصحاب کی مخالفت

اگر یہ حدیث صحیح ہے تو آپ کو شیعوں پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے کیوںکہ انہوں نے اصحاب ہی کے ایک گروہ کی پیروی کی ہے جیسے سلمان، ابوذر، مقداد، عمار یاسر، ابو ایوب اںصاری، حذیفہ نخعی، اور خزیمہ ذوالشہادتین وغیرہ جن کے متعلق میں گذشتہ شبوں میں اشارہ کر چکا ہوں کہ انہوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی بلکہ مخالفت اور احتجاج بھی کرتے رہے؟

پس اصحاب کی ان دونوں جماعتوں میں سے جو ایک دوسرے کے مقابلے پر کھڑی تھیں کونسی حق پر تھی؟ قطعی طور پر ایک باطل پر تھی، حالانکہ جو حدیث آپ نے نقل کی ہے وہ بتا رہی ہے کہ اصحاب میں سے جس کی بھی اقتدا کرو ہدایت پا جائو گے۔

۲۹

ابوبکر و عمر سے سعد بن عبادہ کی مخالفت

کیا سعد بن عبادہ انصاری اصحاب میں سے نہیں تھے جنہوں نے ابوبکر و عمر کی بیعت نہیں کی؟ تمام شیعہ و سنی مورخین اسلام کا اتفاق ہے کہ یہ جاکر شام میں رہنے لگے یہاں تک کہ اواسط خلافت عمر میں قتل ہوئے۔

پس ان کی اقتدا کرنا اور ابوبکر کی مخالفت اس حدیث کے حکم سے راہ ہدایت ٹھہری۔

بصرے میں علیعلیہ السلام سے طلحہ و زبیر کا مقابلہ

آیا طلحہ و زبیر اصحاب اور تحت شجرہ بیعت کرنے والوں میں سے نہیں تھے؟ آیا ان کا مقابلہ پیغمبر کے خلیفہ برحق سے نہیں تھا۔ ( جو آپ کے عقیدے میں بھی چوتھے خلیفہ مسلم ہیں) اور یہ دونوں صحابی بے شمار مسلمانوں کا خون بہانے کے باعث نہیں ہوئے؟ اب بتائیے کہ اصحاب کے ان دونوں گروہوں میں سے جو ایک دوسرے کے مقابلے پر آئے کس کی پیروی اور اقتدا سبب ہدایت تھی؟ اگر آپ کہیں کہ دونوں گروہ چونکہ اصحاب کے تابع تھے لہذا حق پر تھے تو آپ غلط راستے پر جا پڑیں گے۔ اس لیے کہ جمع بین الضدین محال ہے یعنی یہ ممکن نہیں کہ ایک دوسرے سے لڑنے والے دوںوں فرقے ہدایت یافتہ اہل جنت ہوں لہذا قطعی طور پر جو اصحاب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف تھے وہ ہدایت یافتہ تھے اور فریق مخالف باطل پر اور یہ خود دوسری دلیل ہے آپ کا یہ قول باطل ہونے کی کہ جتنے اصحاب تحت شجرہ بیعت رضوان میں حاضر تھے وہ سب نجات یافتہ ہیں، کیوںکہ تحت شجرہ بیعت کرنے والوں میں سے دو نفر طلحہ و زبیر بھی تھے جو امام و خلیفہ برحق سے لڑنے کو اٹھے۔ آیا ان کا یہ عمل یعنی خلیفہ رسول(ص) کے مقابلہ پر آنا اور ایسے شخص سے جنگ کرنا جس کے لیے رسول اللہ(ص) نے فرمایا تھا کہحربک حربی ( یعنی اے علی(ع) تم سے جنگ کرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے۔ بہت بڑا ننگ اور رسول خدا (ص) سے جنگ نہیں تھی؟ پس آپ کیوںکر کہہ سکتے ہیں کہ لفظ اصحاب یا بیعت رضوان میں حاضری مکمل نجات کی ضامن ہے؟

معاویہ اور عمرو عاص علی علیہ السلام کو سب و شتم کرتے تھے

آیا معاویہ اور عمرو بن عاص اصحا بمیں سے نہیں تھے جنہوں نے خلیفہ رسول سے جنگ کی۔ اس کے علاوہ منبروں اور جلسوں میں یہاں تک خطبہ نماز جمعہ میں علی علیہ السلام پر سب و شتم اور لعنت کرتے تھے؟

۳۰

باوجودیکہ آپ ہی کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بار بار فرمایا :

"من‏ سبّ‏ عليافقدسبني،ومنسبنيفقدسبّاللّهعزوجل. "

یعنی جو شخص علی(ع) کو دشنام دے در حقیقت اس نے مجھ کو دشنام دی اور جو شخص مجھ کو سب و دشنام دے در حقیقت اس نے خدا کو سب و دشنام دیا۔

پس اس حدیث کے قاعدے سے جس پر آپ کا دارو مدار ہے، بقول رسول(ص)، ملعون ابن ملعون اشخاص اور علی علیہ السلام کو سب وشتم کرنے والوں کی جو حقیقتا خدا و رسول(ص) کو سب وشتم ( جیسا کہ خود آپ کے علماء نے لکھا ہے) پیروی کرنے والے ہدایت یافتہ اور اہل بہشت ٹھہرے۔ فاضل تفتازانی نے شرح مقاصد میں اس موضوع پر ایک مفصل بیان دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ صحابہ کے درمیان چونکہ سخت لڑائیاں اور عداوتیں واقع ہوئیں لہذا پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ راہ حق سے منحرف ہوگئے اور بعض بغض و حسد، عناد، حب ریاست، اور لذات شہوانی کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے ہر قسم کا ظلم و تعدی کیا۔ بدیہی چیز ہے کہ بہت سے اصحاب چونکہ معصوم نہیں تھے افسوسناک حرکات کے مرتکب ہوئے لیکن بعض علماء نے اپنے حسن ظن کی وجہ سے ان کی بد اعمالیوں کےلیے فضول تاویلیں کی ہیں۔

آپ کی نقل کی ہوئی اس حدیث کی رد میں اس طرح کی واضح دلیلیں بہت ہیں لیکن اس سے زیادہ تفصیل کی وقت میں گنجائش نہیں۔ پس قطعا یہ حدیث گڑھی ہوئی ہے جیسا کہ آپ ہی کے بہت سے علماء نے کتاب الموضوعات میں اس کے سلسلہ اسناد کو مشتبہ بتایا ہے۔

اصحابی کالنجوم کے اسناد ضعیف ہیں

چنانچہ قاضی عیاض شرح الشفاء جلد دوم ص۹۱ میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ دار قطنی نے فضائل میں اور ابن عبدالبر نے انہیں کے طریق سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے اسناد میں کوئی مضبوطی نہیں۔ نیز عبد بن حمید سے اور انہوں نے اپنی مسند میں عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے کہ بزار اس حدیث کی صحت کا منکر تھا۔

نیز کہتے ہیں کہ ابن عدی نے کامل میں اپنے اسناد کے ساتھ نافع سے اور انہوں نے عبداللہ ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے اسناد ضعیف ہیں۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ بیہقی نے روایت کی ہے کہ اس حدیث کا متن مشہور ہے لیکن اس کے اسناد ضعیف ہیں۔ انتہی۔

چونکہ اس حدیث کے اسناد میں حارث بن غفین مجہول الحال اور حمزہ ابن ابی حمزہ نصیری جو کذب و دروغ گوئی سے متہم ہے موجود ہیں لہذا حدیث کا ضعف ثابت ہے۔

نیز ابن حزم نے کہا ہے کہ یہ حدیث جھوٹی، گڑھی ہوئی اور باطل ہے۔ پس ایسی ضعیف سلسلہ اسناد کی حدیث

۳۱

قابل اعتماد نہیںاور اس کے استدلال کا سہارا نہیں لیا جاسکتا۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تب بھی قطعا اس کی عمومیت منظور نظر نہیں تھی بلکہ نیک بخت اور نیکوکار اصحاب کی اقتدا مراد تھی جنہوں نے حکم رسول(ص) سے کتاب خدا اور عترت طاہرہ(ع) کی اطاعت کی۔

صحابہ معصوم نہیں تھے

اب ان مقدمات کے بعد عرض کئے گئے اگر بعض صحابہ پر تنقید اور نکتہ چینی کی جائے تو قابل مذمت نہ ہوگی۔ اس لیے کہ صحابہ بشری عادتوں کے حامل اور غیر معصوم تھے۔ پس جب وہ معصوم نہ تھے تو ان سے خطا بھی ہوسکتی ہے۔

حافظ : ہم بھی قائل ہیں کہ صحابہ معصوم نہیں تھے لیکن یہ بھی مسلم ہے کہ سب کے سب عدول تھے اور ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا تھا۔

خیر طلب : یہ آپ کی زیادتی ہے کہ حتمی طور سے ان کو عادل اور گناہوں سے مبرا سمجھ لیا۔ اس لیے کہ خود آپ کے علماء کی معتبر کتابوں میں جو روایتیںمروی ہیں اور اس کے برخلاف حکم دے رہی ہیں کہ بہت سے اکابر صحابہ بھی اپنی پرانی عادت کی بنا پر کبھی کبھی گناہوں کا ارتکاب کیا کرتے تھے۔

حافظ : ہم کو ایسی روایتوں کا علم نہیں ہے۔ اگر آپ کے پیش نظر ہوں تو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : قطع نظر ان باتوں سے جو زمانہ جاہلیت میں سرزد ہوئیں تھیں اسلام کی حالت میں بھی اکثر گناہوں کے مرتکب ہوتے تھے جن سے بطور نمونہ میں صرف ایک روایت پر اکتفا کرتا ہوں۔

آپ کے بڑے علماء اپنی معتبر کتابوں میں نقل کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال ( سنہ۸ ہجری میں) کبار صحابہ میں سے کچھ لوگ ایک بزم عشرت قائم کئے ہوئے تھے جس میں پوشیدہ طور سے شراب نوشی ہوتی تھی۔

حافظ : قطعی طور پر یہ روایت مخالفین کی گڑھی ہوئی ہے۔ کیونکہ حرام ہوجانے کے بعد شراب پینا تو در کنار، بزرگ صحابہ تو ایسی گندی محفلوں میں شریک بھی نہیں ہوتے تھے۔

خیر طلب : قعطا مخالفین کی گڑھی ہوئی نہیں ہے بلکہ اگر اس کو وضع کیاہے تو آپ ہی کے علماء نے کیا ہے۔

نواب : قبلہ صاحب اگر کوئی ایسی بزم تھی تو یقینا صاحب خانہ اور مدعو اشخاص کے نام بھی ذکر کئے گئے ہوں گے کیا آپ ہم لوگوں کے لیے اس کی وضاحت فرما سکتے ہیں؟

خیر طلب : جی ہاں یہ مطلب آپ کے علماء کے یہاں تشریح سے بیان ہوا ہے۔

نواب : گذارش ہے کہ بیان فرمائیے تاکہ معمہ حل ہو۔

۳۲

خفیہ جلسے میں دس(۱۰) نفر صحابہ کی شراب نوشی

خیر طلب : ابن حجر فتح الباری جلد دہم ص۳۰ میں لکھتے ہیں کہ ابوطلحہ زید بن سہل نے اپنے مکان میں ایک محفل شراب تشکیل دی اور اس میں دس افراد کو دعوت دی، ان سب نے شراب پی اور ابوبکر نے کفار و مشرکین اور کشتگان بدر کے لیے مرثیے کے چند شعر کہے۔

نواب : آیا مدعو اشخاص کے نام بھی ذکر کئے گئے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو بیان فرمائیے تاکہ حقیقت ظاہر ہو۔

خیر طلب : ۱۔ ابوبکر بن ابی قحافہ۔ ۲۔ عمر ابن خطاب۔ ۳۔ ابوعبیدہ جراح۔ ۴۔ ابی بن کعب۔ ۵۔ سہل بن سفیاء۔ ۶۔ ابوایوب اںصاری۔ ۷۔ ابوطلحہ ( دعوت کرنے والا اور صاحب خانہ۔ ۸۔ ابو دجاتہ سماک بن حرشہ ۔ ۹۔ ابوبکر بن شغوب۔ ۱۰۔ و انس بن مالک جو اس وقت ۱۸ سال کے اور ساقی محفل تھے۔ چنانچہ بیہقی نے سنن جلد ہشتم ص۲۹ میں خود انس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں اس وقت سب سے کم سن اور ساقی محفل تھا(جلسہ میں سخت ہمہمہ)

شیخ : ( غصے کےساتھ) قسم پروردگار کی یہ روایت دشمنوں کی بنائی ہوئی ہے۔

خیر طلب : ( تبسم کے ساتھ) آپ تو بہت تیز پڑگئے اور جھوٹی قسم بھی کھالی۔ خطا آپ کی بھی نہیں ہے، آپ کا مطالعہ ہی کم ہے اگر کتابیں دیکھنے کی زحمت برداشت کرتے تو نظر آتا کہ خود آپ ہی کے علماء نے لکھا ہے۔ پس آپ کو استغفار کرنا چاہیئے۔ اب میں آپ حضرات کے سامنے وضاحت کرنے پر مجبور ہوں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ آپ ہی کے علماء کا بیان ہے۔اس واقعہ کے بعض اسناد جو میرے پیش نظر ہیں عرض کرتا ہوں۔

محمد بن اسمعیل بخاری نے اپنی صحیح تفسیر آیہ خمر سورہ مائدہ میں، مسلم ابن حجاج نے اپنی صحیح کتاب اشربہ باب تحریم الخمر میں، امام احمد بن حنبل نے مسند جلد سوم ص۱۸۱ و ص۲۲۷ میں، ابن کثیر نے اپنی تفسیر جلد دوم ص۹۳ و ص۹۴ میں، جلال الدین سیوطی نے درالمنثور جلد دوم ص۳۲۱ میں، طبری نے اپنی تفسیر جلد ہفتم ص۲۴ میں< ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد چہارم ص۲۲ اور فتح الباری جلد دہم ص۳۰ میں، بدر الدین حنفی نے عمدۃ القاری جلد دہم ص۸۴ میں، بیہقی نے سنن ص۲۸۶ وص۲۹۰ میں اور دوسروں نے بھی ان حالات کو شرح و بسط سے نقل کیا ہے۔

شیخ : شاید حرام ہونے کے بعد نہیں بلکہ پہلے ایسا ہوا ہو۔

خیر طلب : تفسیر و تاریخ کی کتابوں میں جو قواعد درج ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات تحریم نازل ہونے کے بعد بھی بعض مسلمان اور صحابہ شراب حرام استعمال کرتے تھے۔

چنانچہ محمد بن جریر طبری نے اپنی تفسیر کبیر جلد دوم ص۲۰۳ میں ابی القموس زید بن علی کی سند سے نقل کیا ہے کہ انہوں

۳۳

نے کہا ، خدا نے تین مرتبہ آیات خمر یہ نازل فرمائیں۔ پہلی مرتبہ آیت نمبر۲۱۹ سورہ بقرہ:

"يَسْئَلُونَكَ‏ عَنِ‏ الْخَمْرِوَالْمَيْسِرِقُلْفِيهِماإِثْمٌكَبِيرٌوَمَنافِعُلِلنَّاسِوَإِثْمُهُماأَكْبَرُمِنْنَفْعِهِما"

یعنی اے پیغمبر(ص) تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں تو کہہ دو کہ ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے فوائد بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ ہے۔

نازل ہوئی لیکن مسلمان متبہ نہ ہوئے اور شراب پیتے رہے، یہاں تک کہ دو آدمی شراب پی کر مستی کی حالات میں مشغول نماز ہوئے اور بیہودہ باتیں بکیں تو خداوند عالم نے آیت نمبر۴۳ سورہ نمبر۴( نساء) نازل فرمائی کہ :

"ياأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوالاتَقْرَبُواالصَّلاةَوَأَنْتُمْسُكارى‏ حَتَی تَعْلَمُوا مَا تقُولُون"

یعنی اے ایمان لانے والوں نشے کی حالت میں نماز کے پاس نہ جائو یہاں تک کہ اپنی باتیں سمجھنے لگو۔

لیکن پھر بھی شراب نوشی جاری رہی، البتہ نشے کی حالت میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ حتی کہ ایک روز ایک شخص نے شراب پی ( جو روایت بزرو ابن حجر و ابن مردویہ کی بنا پر ابوبکر تھے) اور جنگ بدر میں قتل ہونے والے کافروں کے لیے مرثیےکے چند اشعار کہے، رسول اللہ(ص) نے سنا تو غصے کے عالم میں تشریف لائے اور جو چیز دست مبارک میں لیے ہوئے تھے اس سے مارنا چاہا تو اس نے کہا کہ میں خدا و رسول(ص) کے غصے سے پناہ مانگتا ہوں۔ خدا کی قسم اب نہیں پئیوں گا۔ اس وقت یہ آیت نمبر۹۱ سورہ نمبر۵ ( مائدہ) نازل ہوئی کہ :

"ياأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُواإِنَّمَاالْخَمْرُوَالْمَيْسِرُوَالْأَنْصابُوَالْأَزْلامُرِجْسٌمِنْعَمَلِالشَّيْطانِفَاجْتَنِبُوهُلَعَلَّكُمْتُفْلِحُونَ‏"

یعنی اے ایمان لانے والو شراب ، قمار بازی، بت پرستی اور جوئے کے تیر ( زمانہ جاہلیت کی ایک رسم) یہ سب نجاست و گندگی اور عمل شیطان ہے لہذا اس سے دور رہو تاکہ شاید نجات پائو۔

جو کچھ عرض کیا گیا اس کا مقصد آپ حضرات کو یہ بتانا تھا کہ صحابہ میں بھی دوسرے مومنین ومسلمان کی طرح اچھے اور برے لوگ تھے۔ یعنی ان میں سے جو لوگ احکام خدا و رسول(ص) کی اطاعت میں سعی کرتے تھے وہ سعادتکی بلند منزل پر پہنچے اور جنہوں نے خواہش نفسانی اور فریب شیطانی کا اتباع کیا وہ پست و حقیر ہوئے۔ پس جو لوگ صحابہ پر طعن اور تنقید کرتے ہیں وہ جو کچھ کہتے ہیں منطقی دلائل کے ساتھ کہتے ہیں، صحابہ کے زشت و ناپسندیدہ حالات علاوہ اس کے کہ خود آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں، آیات قرآنی کے شواہد سے بھی قابل مذمت قرار پاتے ہیں اور شیعہ بھی اسی وجہ سے ان کی گرفت کرتے ہیں۔ لہذا ان منطقی اعتراضات کا اگر کوئی منطقی ہی جواب ہو تو قابل قبول ہوسکتا ہے۔ مذموم صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان بے جا محبت اور دشمنی کا برتائو کرے، یعنی کسی فرد یا افراد سے اپنی محبت اور تعلقات کی بنا پر ان کے سارے حرکات وسکنات اور اقوال و افعال کو نگاہتحسین سے دیکھے اور کہے کہ ان سے ہرگز کوئی بدی عالم وجود میں نہیں آئی۔

حافظ : بہت بہتر، فرمائیے اصحاب کے زشت و ناپسندیدہ اعمال و افعال کس قسم کے تھے؟ اگر دلیل و برہان سے منطبق ہو تو ہم بھی مان لیں گے۔

۳۴

صحابہ کی عہد شکنی

خیر طلب : تعجب ہے کہ ان ساری مذموم صفتوں کے بعد ( جن میں سے مشتے نمونہ از خردار نے پیش کیا گیا) پھر آپ فرماتے ہیں کہ ان کی مذموم صفتیں کیا تھیں۔ اب میں اپنی گذارش کی تائید میں ان زشت و زبوں اعمال میں سے جو ان سے سرزد ہوئے اور فریقین کی تمام کتابوں میں درج ہیں ایک اور نمونہ پیش کرتا ہوں اور وہ ہے ان کی عہد شکنی اور بیعت کی خلاف ورزی کیونکہ خدائے تعالی نے آیت نمبر۲۹ سورہ نمبر۱۶ ( نحل) میں ایفائے وعدہ اور تکمیل عہد کو واجب فرمایا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے :

"وَأَوْفُوابِعَهْدِاللَّهِ‏إِذاعاهَدْتُمْوَلاتَنْقُضُواالْأَيْمانَبَعْدَتَوْكِيدِها"

یعنی تم پر واجب ہے کہ جب تم خدا و رسول(ص) سے کوئی عہد و پیمان کرچکے تو اس کو پورا کرو اور قسموں کو مستحکم کرنے کے بعد نہ توڑو۔

اور آیت نمبر۲۵ سورہ نمبر۱۳( رعد) میں عہد توڑنے والوں کو ملعون فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

"وَالَّذِينَ‏ يَنْقُضُونَ‏ عَهْدَاللَّهِ‏مِنْبَعْدِمِيثاقِهِوَيَقْطَعُونَماأَمَرَاللَّهُبِهِأَنْيُوصَلَوَيُفْسِدُونَفِيالْأَرْضِأُولئِكَلَهُمُاللَّعْنَةُوَلَهُمْسُوءُالدَّارِ."

یعنی جو لوگ خدا و رسول(ص) سے عہد و پیمان مضبوط کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور جن رشتوں کو ملانے کے لیے اللہ نے حکم دیا ہے( جیسے صلہ رحم اور محبتو ولایت امیرالمومنین علیہ السلام) ان کو قطع کرتے ہیں اور روئے زمین پر فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں ان کے لیے خاص طور پر لعنت وغضب الہی ہے اور انہیں کے لیے عذاب جہنم ہے۔)

پس آیات الہی اور ان کثیر اخبار و احادیث کے حکم سے جو ہماری اور آپ کی کتابوں میں وارد ہیں عہد توڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ خصوصا خدا اور حکم خدا و رسول(ص) کے ساتھ عہد شکنی جو قطعا آن حضرت(ص) کے اصحاب و اقربا کے لیے تو بد سے بدتر تھی۔

حافظ : کونسا عہد اور کونسی بیعت تھی جو خدا و رسول(ص) کے حکم سے قائم ہوئی اور اصحاب و یاران پیغمبر(ص) نے اس میں عہد شکنی کی جس سے ہم ان کو آیات قراںی کی زد میں لا سکیں؟

میرا خیال ہے کہ اگر آپ توجہ کیجئے تو تصدیق کیجئے گا کہ یہ سب شیعہ عوام کی من گڑہت باتیں ہیں ورنہ صحابہ رسول(ص) ایسی حرکتوں سے مبرا تھے۔

قرآن میں صادقین سے مراد محمد(ص) و علی(ع) ہیں

خیر طلب: میں بار بار عرض کرچکا ہوں کہ شیعہ چونکہ اپنے صادق و مصدق پیشوائوں کی پیروی پر مجبور ہیں ورنہ شیعہ ہی نہیں رہ سکتے لہذا ان کے خواص یا عوام ہرگز کوئی حدیث و روایت نہیں گڑھتے اور جھوٹ نہیں کہتے، اس لئے کہ ان کے ائمہ

۳۵

ہر حیثیت سے صادق ومصدق تھے، چنانچہ قرآن مجید کی سچائی پر گواہی دی ہے۔ جیسا کہ آپ کے بڑے بڑے علماء مثلا امام ثعلبی اور جلال الدین سیوطی نے تفسیر میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے مانزل من القرآن فی علی میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، شیخ سلمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۳۹ میں خوارزمی و حافظ ابونعیم اور حموینی سے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۶۲ میں پوری سند کے ساتھ نیز تاریخ محدث شام سے، سب نے نقل کیا ہے کہ آیت نمبر۱۲۰ سورہ نمبر۹ ( توبہ) :

"ياأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُوااتَّقُوااللَّهَوَكُونُوامَعَ‏ الصَّادِقِينَ‏"

یعنی اے ایمان والو خدا ترس بنو اور سچے لوگوں کی پیروی اختیار کرو۔( جو محمد(ص) و علی(ع) اورع ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں) میں صادقین سے مراد محمد(ص) و علی علیہم سلام ہیں، اور ان روایات میں سے بعض میں ہے کہ پیغمبر(ص) اور ائم اہل بیت علیہم السلام والصلوۃ مراد ہیں۔ پس اس جلیل القدر خاندان کے پیرو چاہے عالم ہوں یا جاہل، جھوٹے اور جعل ساز نہیں ہوسکتے۔ کیوںکہ غلط اور من گھڑت باتیں کہنے کی ضرورت تو اسی کو ہوگی جو اپنی حقانیت پر سچے اور مضبوط دلائل نہ رکھتا ہو۔ شیعہ تو وہی کہتے ہیں جو خود آپ کے علماء مورخین تحریر کرچکے ہیں۔ اگر کوئی ایراد ہے تو سب سے پہلے اپنے علماء پر وارد کیجئے کہ انہوں نے لکھا کیوں۔ اگر آپ کے اکابر علماء صحابہ کی عہد شکنی کو اپنی معتبر کتابوں میں درج نہ کرچکے ہوں تو میں ایسے جلسے میں ان باتوں کو ہرگز پیش نہ کرتا۔

حافظ : علماء اہل سنت میں سے کس نے اور کہاں لکھا ہے کہ صحابہ نے عہد شکنی کی اور کیا عہد شکنی کی؟ صرف لفاظی سے تو بات نہیں بنے گی۔

خیر طلب: یہ لفاظی نہیں بلکہ برہان و منطق اور حقیقت ہے اکثر مقامات پر صحابہ نے عہد شکنی کی ہے اورجس بیعت کا حکم رسول اللہ(ص) نے دیا تھا اس کو توڑا ہے چنانچہ ان میں سب سے اہم غدیر کا عہد اور بیعت تھی۔

حدیث غدیر اور اس کی نوعیت

فریقین ( شیعہ و سنی) کےجمہور علماء معترف ہیں کہ ہجرت کے دسویں سال حجتہ الوداع میں مکہ معظمہ سے واپسی کے وقت اٹھارویں ذی حجہ کو رسول اللہ(ص) نے غدیر خم کے میدان میں اپنے تماماصحاب کو جمع کیا، یہاں تک کہ آں حضرت(ص) کے حکم آگے جانے والے لوگ واپس بلائے گئے اور پیچھے رہ جانے والوں کا انتطار کیا گیا۔ چنانچہ آپ کے اکثر بڑے بڑے علماء و مورخین اور شیعوں کی سند سے ستر ہزار اور آپ کے بعض دوسرے علماء کی سند سے جیسا کہ امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ فی معرفۃ الائمہ میں نیز اورروں نے لکھا ہے، ایک لاکھ بیس ہزار مسلمان اکٹھا ہوگئے تھَ۔

حضرت رسول خدا(ص) کے لیے ایک منبر مرتب کیا گیا جس پر آں حضرت تشریف لے گئے اور ایک بہت طولانی خطبہ ارشاد فرمایا جس کا زیادہ تر حصہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب پر مشتمل تھا، جو آیتیں حضرت علی(ع)

۳۶

کی شان میں نازل ہوئی تھیں ان میں سے اکثر کی تلاوت اور یاد دہانی فرمائی اور ساری امت کو ولایت امیرالمومنین علیہ السلام کے مقدس مرتبے کی طرف بخوبی متوجہ فرمایا۔ اس کے بعد فرمایا :

" معاشر الناسألست‏ أولى‏ بكم‏منأنفسكم؟قالوا: بلى؛قال: منكنتمولاهفهذا عليّمولاه"

یعنی اے جماعت انسانی آیا میںتمہاری جانوں سے زیادہ تم پر اولی بہ تصرف نہیں ہوں؟ ( یہ آیہ شریفہ "النَّبِيُ‏ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ‏" ( یعنی رسول اللہ(ص) تمام مومنین کی جانوں سے زیادہ ان پر تصرف کا حق رکھتے ہیں ۱۲ مترجم، کی طرف اشارہ تھا) لوگوں نے عرض کیا ضرور ایسا ہی ہے۔ اس وقت آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں ( یعنی اس کے امور میں اولی بہ تصرف ہوں) پس یہ علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں)

پھر ہاتھوں کا بلند کر کے دعا فرمائی:

"اللهمّوالمنوالاه،وعادمنعاداه،وانصرمننصره،واخذلمنخذله"

یعنی خداوند دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے، اور مدد کر اس کی جو علی(ع) کی مدد کرے اور چھوڑ دے اس کو جو علی(ع) کو چھوڑ دے۔

اس کے بعد رسول اللہ(ص) کے حکم سے ایک خیمہ نصب کیا گیا اور آنحضرت(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو حکم دیا کہ خیمہ کے اندر بیٹھیں اور جتنی امت وہاں موجود تھی سب کو مامور فرمایا کہ جا کر علی(ع) کی بیعت کرو کیونکہ مجھ کو خدا کی طرف سے تاکید ہے کہ میں تم سے علی(ع) کے لیے بیعت لوں۔

"من بايع ذالک اليوم عليا کان عمر ثم ابابکر ثم عثمان ثم طلحة ثم زبير و کانوايبايعون ثلاثةايام متواترة"

یعنی اس روز سب سے پہلے جس شخص نے بیعت علی(ع) کی وہ عمر تھے پھر ابوبکر پھر عثمان پھر طلحہ پھر زبیر اور یہ پانچوں اشخاص متواتر تین روز تک ( جب تک پیغمبر(ص) وہاں فروکش رہے) بیعت کرتے رہے۔

حافظ : بھلا اس بات کا یقین کیا جاسکتا ہے کہ جیسا کہ آپ نے بیان کیا اس قدر اہمیت کے ساتھ حکم دیا گیا ہو اور بڑے بڑے علماء نے اسے نقل نہ کیا ہو۔

خیر طلب : مجھ کو بالکل توقع نہیں تھی کہ آپ ایسی بات کہیں گے۔ در آنحالیکہ غدیر خم کا یہ واقعہ آفتاب نصف النہار کی طرح ظاہر اور روشن ہے اور اس حقیقت سے سوا متعصب اور ہٹ دھرم انسان کے اور کوئی شخص انکار کر کے اپنی فضیحت و رسوائی مول نہیں لے سکتا۔ اس لیے کہ اس اہم واقعہ کو آپکے سارے ثقہ علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے، جن میں سے چند نام جو اس وقت میری نظر میں ہیں پیش کرتا ہوں تاکہ مطلب واضح ہوجائے اور آپ جان لیں کہ آپ کے جمہور اکابر علماء نے اس پر یقین و اعتماد کیا ہے۔

۳۷

علمائے عامہ میں سے حدیث غدیر کے معتبر راوی

۱۔ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر مفاتیح الغیب میں۔ ۲۔ امام احمد ثعلبی تفسیر کشف البیان میں۔

۳۔ جلال الدین سیوطی تفسیردر المنثور میں۔ ۴۔ ابو الحسن علی بن احمد واحدی نیشاپوری اسباب النزول میں۔۵۔ محمد بن جریر طبری تفسیر کبیر میں۔۶۔ حافظ ابونعیم اصفہانی کتاب ما نزل من القرآن فی علی اور حلیتہ الاولیاء میں۔۷۔ محمدبن اسماعیل بخاری اپنی تاریخ جلد اول ص۳۷۵ م میں۔ ۸۔ مسلم بن حجاج نیشاپوری اپنی صحیح جلد دوم ص۳۲۵ میں۔ ۹۔ ابو دائود سجستانی سنن میں۔ ۱۰۔ محمدبن عیسی ترمذی سنن میں۔ ۱۱۔ حافظ ابن عبدہ کتاب الولایہ میں۔ ۱۲۔ ابن کثیر شافعی دمشقی اپنی تاریخ میں۔ ۱۳۔ امام ائمہ حدیث احمد ابن حنبل مسند جلد چہارم ص۲۸۱، ۳۷۱ میں۔ ۱۴۔ ابو حامد محمد بن بن محمد الغزال سر العالمین میں۔ ۱۵۔ ابن عبدالبر الاستیعاب میں۔ ۱۶۔ محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص۱۶ میں۔ ۱۷۔ ابن مغازلی فقیہ شافعی مناقب میں۔ ۱۸ ۔ نور الدین بن صباغ مالکی فصول المہمہ ص۲۴ میں۔ ۱۹۔ حسین بن مسعود نجومی مصابیح السنہ میں۔ ۲۰۔ ابو الموئد موفق بن احمد خطیب خوارزمی مناقب میں۔۲۱۔ مجدد الدین اثیر محمد بن محمد شیبانی جامع الاصول میں۔ ۲۲۔ حافظ ابو عبدالرحمن احمد بن علی نسائی خصائص العلوی اور سنن میں۔ ۲۳۔ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب۴ میں۔ ۲۴۔ شہاب الدین احمد بن حجر مکی صواعق محرقہ اور کتاب المخ الملکیہ میں، بالخصوص صواعق باب اول ص۲۵ میں اپنے انتہائی تعصب کے باوجود کہتے ہیں :

"إنه‏ حديث‏ صحيح‏ لامريةفيه،وقدأخرجه جماعةكالترمذي،والنسائي،وأحمد،وطرقه كثيرةجدا"

یعنی یہ ایک صحیح حدیث ہے جس کی صحت میں کوئی شک نہیں، بتحقیق کہ اس کو ایک جماعت نے مثلا ترمذی، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ اور اگر تلاش کی جائے تو اس کے طرق کثرت سے ہیں۔

۲۵۔ محمد بن یزید حافظ ابن ماجہ قزوینی سنن میں۔ ۲۶۔ حافظ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری مستدرک میں۔ ۲۷۔ حافظ سلیمان بن احمد طبرانی اوسط میں۔ ۲۸۔ ابن اثیر جذری اسد الغابہ میں۔ ۲۹۔ یوسف سبط ابن جوزی تذکرہ خواص الائمہ ص۱۷ میں۔ ۳۰۔ ابو عمر احمد بن عبدریہ عقد الفرید میں۔ ۳۱۔ علامہ سمہودی جواہر العقدین میں۔ ۳۲۔ ابن تیمیہ احمد ابن عبدالحلیم منہاج السنتہ میں۔ ۳۳۔ ابن حجر عسقلانی فتح الباری اور تہذیب التہذیب میں۔ ۳۴۔ ابوالقاسم محمد بن عمر جار اللہ زمخشری ربیع الابرار میں۔

۳۸

۳۵۔ ابو سعید سجستانی کتاب الدرایہ فی حدیث الولایتہ میں۔ ۳۶۔ عبید اللہبن عبداللہ حسکانی دعاۃ الہدی الی ادا حق الموالات میں۔ ۳۷۔ زرین بن معاویتہ العبدری جمع بین الصحاح الستہ میں۔ ۳۸۔ امام فخر الدین رازی کتاب الاربعین میں کہتے ہیں کہ اس حدیث شریف پر تمام امت نے اجماع کیا ہے۔ ۳۹۔ مقبلی احادیث المتواترہ میں۔ ۴۰۔ جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء میں۔ ۴۱۔ میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی میں۔ ۴۲۔ ابوالفتح نظری خصائص العلوی میں۔۴۳۔ خواجہ پارسائے نجاری فصل الخطاب میں۔ ۴۴۔ جماالدین شیرازی کتاب الاربعین میں۔۴۵۔ عبدالرئوف المنادی فیض القدیر فی شرح جامع الصغیر میں۔ ۴۶۔ محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب میں۔ ۴۷۔ یحیی بن شرف النووی کتاب تہذیب الاسماء واللغات میں۔ ۴۸۔ ابراہیم بن محمد حموینی فرائد السمطین میں۔ ۴۹۔ قاضی فضل اللہ بن روز بہمان البطال الباطل میں۔ ۵۰۔ شمس الدین محمد بن احمد شربینی سراج المنیر میں۔ ۵۱۔ ابو الفتح شہرستانی شافعی ملل و نحل میں۔ ۵۲۔ حافظ ابوبکر خطیب بغدادی اپنی تاریخ میں۔ ۵۳۔ حافظ ابن عساکر ابوالقاسم دمشقی تاریخ کبیر میں۔ ۵۴۔ ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ میں۔ ۵۵۔ علائو الدین سمنانی عروۃ الوثقی میں۔ ۵۶۔ ابن خلدون اپنی تاریخ کے مقدمے میں۔ ۵۷۔ مولوی علی متقی ہندی کنزالعمال میں۔۵۸۔ شمس الدین ابوالخیر دمشقی اسنی المطالب میں۔ ۵۹۔ سید شریف جرجانی حنفی شرح مواقف میں۔ ۶۰۔ نظام الدین نیشاپوری تفسیر غرائب القرآن میں۔

طبری، ابن عقدہ اور ابن حداد

غرض کہ جس میرے حافظے میں محفوظ تھا عرض کردیا ورنہ آپ کے تین سو سے زائد اکابر علماء نے مختلف طریقوں سے حدیث غدیر، آیات تبلیغ و اکمال دین اور صحن مسجد کی گفتگو کو سو نفر سے زیادہ اصحاب رسول(ص) کے اسناد سے نقل کیا ہے۔ اگر میں تمام روات اور ان کے اسماء کی فہرست پیش کرنا چاہوں تو ایک مستقل کتاب تیار ہوجائے گی۔ لہذا میرا خیال ہے کہ تواتر کو ثابت کرنے کے لیے نمونےکے طور پر اسی قدر نام کافی ہوں گے۔

آپ کے بعض اکابر علماء نے اس موضوع پر پوری پوری کتابیں لکھی ہیں، جیسے چوتھی صدی کے مشہور مفسر و مورخ جعفر محمد بن جریر طبری متوفی سنہ۳۱۰ہجری نے کتاب الولایتہ میں جو مستقل طور پر حدیث غدیر کے بارے میں لکھی ہے۔ پچھتر طریقوں سے اس کی روایت کی ہے۔

حافظ ابوالعباس احمد بن سعید بن عبدالرحمن الکوفی معروف بابن عقدہ متوفی سنہ۳۳۳ھ نے کتاب الولایتہ میں اس حدیث

۳۹

شریف کو ایک سو پچیس طریقوں سے ایک سو پچیس صحابہ رسول(ص) کے اسناد سے پوری تحقیقات کے ساتھ نقل کیا ہے۔

اور ابن حداد حافظ ابوالقاسم حسکانی متوفی سنہ۴۹۲ ہجری نے کتاب الولایتہ میں واقعہ غدیر کو نزول آیات کے ساتھ تفصیل سے نقل کیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ( سوا تھوڑے سے متعصب مخالفین کے)آپ کے سبھی محققین علماء فضلاء نے سلسلہ روایت کے ساتھ حضرت رسول خدا(ص) سے نقل کیا ہے کہ اس روز ( ۱۸ ذی الحجہ کو) حجتہ الووداع کے سال آنحضرت نے علی علیہ السلام کو منصب ولایت پر نصب فرمایا۔

یہاں تک کہ خلیفہ عمر ابن الخطاب نے تمام اصحاب سے پہلے مسرت کا اظہار فرمایا اور حضرت کا ہاتھ پکڑ کر کہا :

"بخ‏ بخ‏ ياعلي‏أصبحتمولايوم ولى كل مؤمن ومؤمنة."

مبارک ہو۔ مبارک ہو( بخ بخ اسم فعل ہے جو کسی موقع پر مدح اور اظہار مسرت کے لیے کہا جاتا ہے اور اس کی تکرار مبالغے کے لیے ہے) اے علی تم نے ایسی حالت میں صبح کی کہ میرے آقا و مولا اور ہر مومن ومومنہ کے آقا ومولا ہوگئے۔

امور مسلمہ میں سے ہے کہ یہ حدیث شریف فریقین کے نزدیک متواترات میں سے ہے۔

عمر کو جبرئیل کی نصیحت

فقیہ شافعی میر سید علی ہمدانی میں آپ کے موثق فضلا و فقہاء اور علماء میں سے تھے۔ کتاب مودۃ القربی کی مودت پنجم میں لکھتے ہیں کہ صحابہ کی بہت بڑی جماعت نے مختلف مقامات پر خلیفہ عمر ابن خطاب سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا "نصب رسول اللهعليا علما " یعنی رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو بزرگ و سردار اور رہنمائے قوم مقرر فرمایا مجمع عام میں ان کی مولائیت کا اعلان فرمایا اور ان کے دوستوں اور دشمنوں کے حق میں دعا و بد دعا کرنے کے بعد عرض کیا"اللهم انت شهيدی عليهم " خداوند تو ان لوگوں پر میرا گواہ ہے( یعنی میں نے تبلیغ رسالت کردی) اس موقع پر ایک جوان رعنا حسن صورت اور لوئے خوش کے ساتھ میرے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔اس نے مجھ سے کہا :"لقد عقد رسول الله عقد الايحله الا المنافق فاحذر ان تحله " ( یعنی بتحقیق رسول اللہ(ص) نے ایسا عہد باندھا ہے کہ سوا منافق کے اور کوئی نہیں توڑے گا۔ پس اے عمر تم بچو اس سے کہ اس کے توڑنے یا کھولنے والے بنو۔ ( مطلب یہ کہ اگر ایسا ہوا تو تمہارا شمار منافقین میں ہوگا۔)

میں نے رسول اللہ(ص) سے عرض کیا کہ جس وقت آپ علی(ع) کے بارے میں تقریر فرمارہے تھے اس وقت میرے پہلو میں ایک خوش رو اور خوشبو جوان بیٹھا ہوا تھا جس نے مجھ سے ایسی بات کہی آں حضرت(ص) نے فرمایا :

"انه ليس من له آدم لکنه جبرئيل اراد ان يوکد عليکم ما قلته فی علی (عليه السلام )

یعنی وہ اولاد آدم میں سے نہیں تھا۔ بلکہ

۴۰

جبرئیل امین تھے ( جو اس صورت میں ظاہر ہوئے) اور انہوں نے اس کی تاکید کرنا اہی جو میں نے علی کے بارے میں کہا تھا۔

اب میں آپ حضرات سے انصاف چاہتا ہوں کہ آیا یہ مناسب تھا کہ دو ہی مہینے کی مدت میں ایسے مضبوط عہد و پیمان کو توڑ دیا جائے جو رسول اللہ(ص) نے بحکم خدا ان لوگوں کے ساتھ باندھا تھا، بیعت سے انحراف کریں ہوا و ہوس میں پھنس کے حق کو پس پشت ڈال دیں اور وہ کچھ کریں جو نہ کرنا چاہیئے تھا ان کے دروازے پر آگ لے جائیں ان کے اوپر تلوار اٹھائیں۔ اہانتیں کریں اور بجبر و اکراہ ایک ہنگامہ اور فساد برپا کر کے توہین و تذلیل کے ساتح ڈرا دھمکا کر بیعت کے لیے مسجد میں لے جائیں؟

حافظ : مجھ کو آپ کے ایسے جلیل القدر مہذب سید سے یہ توقع نہیں تھی کہ اصحاب رسول(ص) کی طرف ہوا پرستی کی نسبت دیں گے حالانکہ آنحضرت(ص) نے اصحاب کو قوم کی ہدایت کا ذریعہ قرار دیا تھا جیسا کہ ارشاد ہے : "اصحابی کالنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم" ( یعنی میرے اصحاب ستاروں کے مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کرو گے ہدایت پائو گے۔

اقتدائے اصحاب کی حدیث غیر معتبر ہے

خیر طلب : پہلی درخواست تو میری یہ ہے کہ بار بار ایک ہی بات نہ دہرائیے ۔ ابھی بھی آپ اس حدیث سے استدلال کرچکے ہیں اور میں جواب عرض کرچکا ہوں کہ اصحاب بھی دوسرے لوگوں کی طرح جائز الخطا تھے، پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ معصوم نہیں تھے تو اگر دلیل کے ساتھ ان میں سے کسی کی طرف ہوا پرستی کی نسبت دی جائے تو کونسی حیرت کی بات ہے؟ دوسرے آپ کے خیالات کو صاف کرنے اور یاد دہانی کے لیے چاہتا ہوں کہ پھر جواب عرض کردوں تاکہ اس کے بعد آپ ایسی کمزور حدیثوں کا سہارا نہ لیں۔ چونکہ آپ نے تجدید کلام فرمائی ہے لہذا میں بھی تکرار جواب کررہا ہوں۔ خود آپ کے اکابر علماء کی بحث و تحقیق کی بنا پر یہ حدیث قابل اعتبار نہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں۔ قاضی عیاض مالکی نے آپ کے اجلہ علماء سے نقل کیا ہے کہ اس کے سلسلے روایات میں چونکہ مجہول الحال راوی حارث بن قضین اور حمزہ نصیبی کا نام بھی شامل ہے جس پر کذب و دروغ گوئی کا الزام ہے لہذا یہ قابل نقل نہیں ہے۔ نیز قاضی عیاض نے شرح شفاء میں اور تعدیل احادیث کے نقاد بیہقی نے اپنی کتاب میں خود حدیث کو موضوع بنایا ہے اور اس کی سند کو ضعیف و مردود شمار کیا ہے۔

بعض صحابہ ہوائے نفس کے تابع اور حق سے منحرف ہوگئے

تیسرے میں تہذیب و ادب سے ہٹ کے ہرگز کوئی بات نہیں کہتا میں تو وہی کہتا ہوں جو خود آپ کے علماء لکھ چکے ہیں بہتر ہوگا آپ حضرات فاضل تفتازانی کی شرح مقاصد ملاحظہ فرمائیے جس میں وہ جیسا میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں

۴۱

صاف صاف لکھتے ہیں کہ صحابہ کے درمیان چونکہ کثرت سے اختلافات ، عداوتیں اور لڑائیاں رونما ہوئیں۔لہذا پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ راہ حق سے منحرف ہو کر ہوائے نفس کے تابع ہوگئے تھے بلکہ ظالم اور فاسق تھے۔

پس ہر فرد یا جماعتقابل احترام نہیں سمجھی جاسکتی۔ جس نے رسول اکرم (ص) کی مصاحبت پالی بلکہ احترام انکے اعمال و کردار کا ہے اگر وہ اہل نفاق نہیں تھے بلکہ رسول اللہ(ص) کے مطیع و فرمانبردار تھے اور آں حضرت(ص) کے احکام و ہدایات کے برخلاف عمل نہیں کرتے تھے تو یقینا بزرگ و محترم ہوں گے اور ان کی خاک قدم ہمارے لیے سرمہ چشم ہوگی۔

صاحبان انصاف یا تو آپ کو یہ کہنا چاہئیے کہ آپ کی معتبر کتابوں میں کثرت کے ساتھ جو اخبار و واحادیث امیرالمومنین علی علیہ السلام سے جنگ کرنے کے بارے میں وارد ہوئے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا علی(ع) جنگ کرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے یہ سب بے بنیاد ہیں۔ یا اگر تصدیق کیجئے گا کہ اس طرح کی حدیثیں اور روایتیں انتہائی معتبر ہیں اس لیے سلسلہ اسناد صحیحہ کے ساتھ آپ اکابر علماء کی کتابوں میں منقول ہیں( علاوہ اس تواتر کے جو علماء شیعہ کی معتبر کتابوں میں موجود ہے) تو آپ کو یہ ماننے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ متعدد اصحاب فاسد، کھوٹے اور باطل پرست تھے۔ مثلا معاویہ، عمرو عاص، ابوہریرہ ،ثمرہ بن جندب، طلحہ اور زبیروغیرہ جو علی(ع) سے جنگ کرنے اٹھے ، کیونکہ علی(ع) سے جنگ کرنا رسول خدا(ص) سے جنگ کرنا تھا۔

اور چونکہ انہوں نے رسول اللہ(ص) سے جنگ کی لہذا قطعا حق سے برگشتہ تھے۔ پس اگر ہم نے کہہ دیا کہ بعض صحابہ ہوا و ہوس کے تابع ہوگئے تو غلط نہیں کہا بلکہ دلیل و برہان کے ساتھ کہا ہے۔ علاوہ اس کے ہم اس دعوے میں تنہا نہیں ہیں کہ بعض صحابہ فاسق و ظالم تھے اور حق سے منحرف ہوکر منافقین میں شامل تھے، بلکہ آپکے اکابر علماء سے اس کی سند لیتے ہیں۔

صحابہ کی عہد شکنی پر امام غزالی کا قول

آپ اگر کتاب سر العالمین مولفہ حجتہ الاسلام ابو حامد محمد بن حمد غزالی ؟؟؟؟ کا مطالعہ کریں تو ہرگز ہم پ؛ر ایراد نہ کریں۔ مجبورا میں اس کے چوتھے مقالے کا ایک حصہ اثبات حق کے لیے پیش کرتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں:

"أسفرت‏ الحجّةوجهه اوأجمعالجماهيرعلى متن الحديث من خطبته- صلى اللّه عليه وآله وسلم- في يوم غديرخمّ باتّفاق الجميع وهويقول: «من كنت مولاه فعليّ مولاه»فقالعمر: «بخ بخ لك ياأباالحسن لقدأصبحتم ولايوم ولى كلّ مؤمن ومؤمنة»فهذاتسليم ورضىوتحكيم؛ثمّ بعدهذاغلب الهوى بحبّ الرّئاسةوحمل عمودالخلافةوعقودالبنودوخفقانالهواءفيقع قعةالرايات واشتباك ازدحامالخيول وفتح الأمصارسقاهم كأسالهوى،فعادواإلى الخلاف الأوّل،فنبذواالحقّ وراءظهورهم واشتروابه ثمناقليلافبئس مايشترون و لما مات رسول الله قال قبل وفاته ايتونی بدوات و بياض

۴۲

روبيضا نسخة) لا زيل عنکم اشکال الامر و اذکر لکم من الستحق لو ابعدی قال عمرو عوا الرجل فانه لبهجر. و قيل بهذا فاذا بطل تعلقکم بتاويل النصوص فعدتم الی الاجماع و هذا منقوص ايفا فان العباس و اولاده و عليا و زوجته و اولاده لم يحضروا حلقة البية و خالقکم اصحاب السفية فی مبايعة الخزرجی ثم خالفهم الانصار"

یعنی جہت و برہان کا چہرہ روشن ہوگیا اور خطبہ روز غدیر کے متن حدیث پر متفقہ حیثیت سے جمہور مسلمین کا اجماع ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا جس کا مولا و آقا میں ہوں علی(ع) بھی اس کے مولا و آقا ہیں، پس فورا عمر نے کہا مبارک ہو مبارک ہو تم کو اے ابو الحسن( علی) کو تم میرے مولا و آقا اور سردار اور ہر مومن و مومنہ کے مولا و آقا ہوگئے اس قسم کی مبارک باد کا کھلا ہوا مطلب فرمان رسول(ص) کا مان لینا اور حکومت و خلافت علی(ع) کو بہ رضا و رغبت قبول کرنا ہے) لیکن اس کے بعد ان پر نفس امارہ غالب آگیا، مسند ریاست خلافت کی عمارت بلند کرنے، حکومت کا سہارا باندھنے، پھڑپھڑاتے پھریروں میں، ہوا کی سنناہٹ، کی طرف پلٹ گئے، خدا و رسول(ص) کے کم کو پس پشت ڈال دیا اور دین کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالا اور ان لوگوں نے خدا کے ساتھ کیا برا معاملہ کیا جب رسول(ص) کی موت کا وقت قریب آیا تو آں حضرت(ص) نے اپنی وفات سے قبل فرمایا کہ کاغذ و قلم دوات لائو تاکہ میں تمہاری مشکل رفع کردوں اور اپنے امر خلافت کا مستحق بتا جائوں ؟ لیکن عمر نے کہا کہ اس شخص کو چھوڑو یہ ( معاذ اللہ) ہذیان بک رہا ہے۔ پس جب قرآن و حدیث کی تاویل سے تمہارا کام نہیں چلا تو تم نے اجماع کا سہارا لیا حالانکہ اسی طرح سقیفہ والوں نے بھی خزرجی کی بیعت سے اختلاف کیا پھر انصار نے بھی مخالفت کی۔

پس حضرات یاد رکھئے کہ جو کچھ آپ کے بڑے بڑے انصاف پسند علماء کہتے ہیں وہی بات شیعہ بھی کہتے ہیں لیکن چونکہ آپ ہم لوگوں سے بدگمانی رکھتے ہیں لہذا ہماری باقاعدہ باتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اپنے علماء پر کوئی گرفت نہیں کرتے کہ انہوں نےلکھا کیوں، بلکہ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے از روئے علم و انصاف حق کو ظاہر کیا اور واقعات کی حقیقت کو صفحات تاریخ کے حوالے کرگئے۔

شیخ : کتاب سرالعالمین امام غزالی کی تصنیف نہیں ہے اور ان کی منزل اس سے بلند ہے کہ ایسی کتاب لکھیں۔ چنانچہ خاص خاص علماء بھی اس کے قائل ہیں کہ یہ کتاب ان بزرگوار عالی مقام کی نہیں ہے۔

۴۳

سرّ العالمین امام غزالی کی کتاب ہے

خیر طلب : آپ کے متعدد علماء نے تصدیق کی ہے کہ یہ کتاب امام غزالی کی لکھی ہوئی ہے۔ اس وقت جو کچھ میرے پیش نظر ہے عرض کرتا ہوں کہ یوسف سبط ابن جوزی نے جو بہت نکتہ رس تھے اور نقل مطالب میں بہت احتیاط سےقلم اٹھاتے تھے اس کے علاوہ نیت میں بھی متعصب تھے تذکرۃ خواص الامہ میں اسی موضوع پر بحوالہ سر العالمین امام غزالی کے قول سے استدلال کیا ہے اور یہی عبارتیں نقل کی ہیں جو میں نے پیش کیں اور چونکہ ان باتوں پر کوئی تنقید نہیں کی ہے لہذا ثابت ہوتا ہے کہ اول تو وہ اس چیز کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ کتاب امام غزالی ہی کی ہے، دوسرے موصوف کے ان اقوال سےبھی موافقت کرتے ہیں جو میں نے وقت کے لحاظ سے مختصر طور پر عرض کئے ہیں لیکن انہوں نے تفصیل اور زیادتی کے ساتھ نقل کئے ہیں ورنہ ان پر نقد و تبصرہ ضرور کرتے البتہ آپ کے متعصب علماء جب اس قسم کے حقائق اور کابر علماء کے بیانات سے دوچار ہوتے ہیں اور کوئی منطقی جواب دینے سے عاجز ہوتے ہیں تو یا یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ کتاب اس عالم کی تالیف ہی نہیں ہے یا ان کی طرف تشیع کی نسبت دینے لگتے ہیں۔ بلکہ اگر ممکن ہو تو ان صاحبان انصاف کو فاسق اور کافر کہہ کر بالکل جڑ ہی کاٹ دیتے ہیں کہ انہوں نے انصاف کی بات کیوں کہی اور حق و حقیقت کا انکشاف کیوں کیا؟ اس لیے کہ

مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتدرازورنہ مجلس رنداں خبرے نیست کہ نیست

ابن عقدہ کی حالت

چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ آپ کے بہت سے اکابر علماء حق گوئی اور حق نگاری کی وجہ سے اپنی زندگی ہی میں حیران و پریشان اور حقیر بے بس ہوگئے اور ان کی کتابوں کا پڑھنا متعصب علماء اور بے خبر عوام نے حرام سمجھ لیا۔ یہاں تک کہ اس خطا میں ان کو قتل کر دیا گیا۔

مثلا حافظ ابن عقدہ ابوالعباس احمد بن محمد بن سعید ہمدانی متوفی سنہ333ہجری جو آپ کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں۔ اور آپ کے علماء رجال جیسے ذہبی اور یافعی وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے اور ان کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کو مع اسناد تین لاکھ حدیثیں یاد تھیں اور بہت ثقہ اور سچے تھے۔ لیکن چونکہ تیسری صدی ہجری میں کوفہ اور بغداد کے اندر عام مجمعوں میں شیخیں ( ابوبکر و عمر) کے عیوب اور برائیاں بیان کر دیتے تھے لہذا لوگ ان کو رافضی کہتے تھے اور ان کی روایتیں نقل کرنے

۴۴

سے پرہیز کرتے تھے۔ چنانچہ ابن کثیر ، ذہبی اور یافعی نے ان کے بارے میں لکھا ہے۔

"ان هذا الشيخ کان يجلس فی جامع براثا و يحدث الناس بمثالب الشيخين و لذا ترکت روايته فلا کلام لاحد فی صدقه و ثقته"

یعنی شیخ ابن عقدہ جامع براثا میں(مسجد براثا بغداد اور کاظمین کے درمیان مشہور جگہ ہے) بیٹھ کر لوگوں کے سامنے شیخین ( ابوبکر و عمر) کے معائب نقل کرتے تھے اسی وجہ سے ان کی روایتیں ترک کردی گئیں ورنہ ان کےسچے اور معتبر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے)

اور خطیب بغداد نے بھی اپنی تاریخ میں ان کی تعریف کی ہے لیکن آخر میں کہتے ہیں کہ "انه کان خرج مثالب الشيخين "( یعنی یہ شیخین کے معائب و مثالب بیان کرتے تھے لہذا رافضی تھے) پس آپ حضرات اس خیال میں نہ رہیں کہ صرف شیعہ ہی ان حقائق کو بیان کرتے ہیں بلکہ خود آپ کے اکابر علماء جیسے امام غزالی اور ابن عقدہ وغیرہ بھی کبار صحابہ کے عیوب و نقائص نقل کرتے تھے۔

طبری کی موت

تاریخ کے ہر دور میں کثرت سے اس قسم کے علماء و دانشمندان گزرے ہیں جو حق کہنے اور حق لکھنے کے جرم میں متروک و مردود قرار دئے گئے یا قتل ہوئے جیسے تیسری صدی ہجری کے مشہور معروف مفسر و مورخ محمد بن جریر طبری جو آپ کے اکابر علماء کے اندر مایہ ناز تھے جب سنہ310 ہجری میں چھیاسی سال کی عمر میں بغداد کے اندر فوت ہوئے تو لوگوں نے دن کو ان کا جنازہ ہی نہیں اٹھنے دیا اور فساد پر آمادہ ہوئے لہذا مجبورا ان کی میت رات کے وقت انہیں کے گھر میں دفن کی گئی۔

امام نسائی کا قتل

تمام واقعات سے عجیب تر امام ابو عبدالرحمن احمد بن علی نسائی کے قتل کا واقعہ ہے جو بہت جلیل القدر اور ائمہ صحابہ ستہ میں سے تھے اور جو تیسری صدی ہجری کے اواخر میں آپ کے سرمایہ افتخار اکابر علماء میں سے تھے۔ اس واقعہ کی مختصر کیفیت کے بعد حتی کہ ہر نماز جمعہ کے خطبے میں امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر علانیہ سب و شتم اور لعنت کرتے ہیں، ان کو بہت صدمہ ہوا اور انہوں نے طے کر لیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل میں رسول خدا(ص) کی جو معتبر حدیثیں اپنے سلسلہ اسناد کے ساتھ ان کو یاد ہیں ان کو جمع کریں گے۔

چنانچہ حضرت کے مراتب عالیہ اور فضائل کاملہ کے اثبات میں کتاب خصائص العلوی لکھی اور برسر منبر اس کتاب کو

۴۵

اور اس کی حدیثوں کو پڑھ کے آپ کے فضائل و مناقب نشر کرتے تھے۔

ایک روز منبر پر یہ فضیلتیں بیان کر رہے تھے کہ جاہل اور متعصب لوگوں نے ہجوم کر کے ان کو منبر سے نیچے کھینچ لیا، سخت زد و کوب کی، ان کے انیثیں کو کوٹا اور آلہ تناسل کو پکڑ کے کھینچتے ہوئے مسجد کے باہر لے جاکر ڈال دیا۔ چنانچہ انہیں سخت ضربات اور لاتوں گھونسوں کی چوٹ سے چند روز کے بعد وفات پائی اور حسب وصیتان کی میت مکہ معظمہ لے جا کر دفن کر دی گئی۔

اسی طرح کے حرکات اس قوم کے بغض و عناد ،جہل مرکب اور احمقانہ تعصبات کے نتائج ہیں جو اپنے بزرگان ملت کو اس جرم ذلیل و رسوا اور تفس کرتے ہیں کہ انہوں نے سچی بات کیوں کہی اور حقائق کو بے نقاب کیوں کیا؟ حالانکہ اتنا نہیں سمجھتے کہ حق کو جس قدر چھپایا جائے گا اسی قدر آفتاب کی طرح چمکے گا اور باطل کے پردے چاک ہوں گے۔

خلاصہ یہ کہ میں معذرت چاہتا ہوں کہ مطلب سے دور ہوگیا ورنہ مقصد یہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے مقام ولایت کو صرف علمائے شیعہ ہی نے تحریر نہیں کیا ہے بلکہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے ستر ہزار یا ایک لاکھ بیس ہزار کے سامنے علی(ع) کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے امت کی امامت کے لیے نامزد فرمایا۔

لفظ مولیٰ میں اشکال

حافظ : اس قضیئے کے محل وقوع اور اصل حدیث میں کوئی حدیث میں کوئی شک و شبہ اور اشکال نہیں ہے لیکن اس اہمیت اور آب و تاب کے ساتھ نہیں جس طرح آپ نے بیان فرمایا۔

اس کے علاوہ متن حدیث بعض ایسے اشکال موجود ہیں جو آپ کے نقطہ نظر اور مقصد سے مطابقت نہیں کرتے۔ من جملہ ان کے لفظ مولا کے اندر بھی یہی بات ہے جس کے لیے اپنی تقریر کےسلسلے میں آپ نے ثابت کرنا چاہا ہے کہ مولی اولی بتصرف کے معنی میں ہے حالانکہ یہ طے ہوچکا ہے کہ اس حدیث میں مولی کے معنی محب و ناصر اور دوست کے ہیں، کیونکہ پیغمبر جانتے تھے کہ علی کرم اللہ وجہہ کے دشمن بہت میں لہذا آپ نے چاہا کہ وصیت کر کے امت کو بتادیں کہ جس کا محب و دوست اور ناصر میں ہوں، علی(ع) بھی اس کے محب و دوست اور ناصر ہیں اور اگر لوگوں سے کوئی بیعت لی ہے تو محض اس لیے کہ آں حضرت(ص) کے بعد علی کرم اللہ وجہہ کو اذیت نہ پہنچائیں۔

خیر طلب : میرا خیال ہے کہ کبھی کبھی آپ زبردستی اور خواہ مخواہ اپنے اسلاف و عادات کی پیروی کرنے لگتے ہیں، ورنہ اگر تھوڑا سا غور کریں، اپنے علم و اںصاف سے کام لیں اور قرائن پر توجہ کریں تو حق و حقیقت پوری طرح ظاہر و آشکار ہوجائے۔

حافظ : کون سے قرائن کے ساتھ آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ مہربانی کر کے بیان فرمائیے۔

۴۶

اولی بہ تصرف کے معنی اور آیہ بلغ

خیر طلب : سب سے پہلا قرینہ قرآن مجید اور آیہ نمبر17 سورہ نمبر5( مائدہ) ہے:

"ياأَيُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ماأُنْزِلَ‏إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمابَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ"

یعنی اے رسول(ص) جو کچھ تم پر خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو امت تک پہنچا دو! کیونکہ ایسا نہ کروگے تو گویا تم نے تبلیغ رسالت کا فرض ہی انجام نہیں دیا۔ اور اللہ تم کو لوگوں کے شر سے محفوط رکھے گا۔

حافظ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ یہ آیت اس روز اور اس مقصد کے لیے نازل ہوئی؟

خیر طلب : آپ کے فحول علماء جیسے جلال الدین سیوطی نے در منثور جلد دوم ص298 میں، حافظ ابن ابی حاتم رازی نے تفسیر غدیر میں، حافظ ابو جعفر طبری نے کتاب الولایہ میں، حافظ ابو عبداللہ محاملی نے امالی میں، حافظ ابوبکر شیرازی نے مانزل من القرآن فی امیرالمومنین میں، حافظ ابوسعید سجستانی نے کتاب الولایہ میں، حافظ ابن مردویہ نے آیت کی تفسیر میں، حافظ ابوقاسم حسکانی نے شواہد التنزیل میں، ابو الفتح نطتری نے خصائص العلوی میں، معین الدین میبدینے شرح دیوان میں، قاضی شوکانی نے فتح القدیر جلد سوم ص57 میں، سید جمال الدین شیرازی نے اربعین میں، بدالدین حنفی نے عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری جلد ہشتم ص584 میں، امام اصحاب حدیث احمد ثعلبی نے تفسیر کشف البیان میں، امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر جلد سیم ص636 میں،حافظ ابو نعیم اصفہانی نے ما نزل من القرآن فی علی میں، ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد السمطین میں، نظام الدین نیشاوپوری نے اپنی تفسیر جلد ششم ص170 میں، سید شہاب الدین آلوسی بغدادی نے روح المعانی جلد دوم ص348 میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص37 میں، علی بن احمد واحدی نے اسباب النزول ص150 میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص16 میں، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب39 میں، خلاصہ یہ کہ جہاں تک میں نے دیکھا ہے خود آپ کے تقریبا تیس علماء اعلام نے اپنی معتبر ترین کتب و تفاسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیہ شریفہ روز غدیر خم امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی یہاں تک کہ قاضی روز بہان بھی باوجود اپنے انتہائی عناد و ضد اور تعصب کے لکھتے ہیں کہ "فقد ثبت هذا فی الصحاح " یعنی بتحققی کی یہ قضیہ ہماری صحاح معتبر میں ثابت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کا بازو تھام کر فرمایا:"منكنتمولاهفعليّمولاه " اور تعجب یہ ہے کہ انہیں متعصب قاضی صاحب نے کشف الغمہ میں رزین بن عبداللہ سے ایک عجیب روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا ہم لوگ رسول خدا(ص) کے زمانہ میں اس آیت کو یوں پڑھتے تھے:

"ياأَيُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ماأُنْزِلَ‏ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ انَّ عَلياََ مُولَی المُومِنِينَ فانَ لَمْ تَفْعَلْ فَمابَلَّغْتَ رِسالَتَهُ "

یعنی اے پیغمبر(ص) جو کچھ خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے یعنی یہ کہ علی علیہ السلام مومنین کے امور میں اولی بتصرف ہیں اس کو

۴۷

لوگوں تک پہنچا دو۔ پس اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تبلیغ رسالت کا فریضہ ہی پورا نہیں کیا۔

نیز سیوطی نے درالمنثور میں ابن مردویہ سے، ابن عساکر اور ابن ابی حاتم نے ابوسعید خدری اور عبداللہ ابن مسعود (کاتب وحی) سے اور قاضی شوکانی نے تفسیر فتح القدیر میں نقل کیا ہے کہ زمانہ رسول(ص) میںہم بھی اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے۔

غرضیکہ آیہ مبارکہ میں اس تاکید بلکہ تہدید سے کہ اگر اس امر کی تبلیغ نہ کرو گے تو گویا رسالت کا کوئی کام ہی انجام نہیں دیا صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ آں حضرت جس اہم اور عظیم امر کی تبلیغ پر مامور ہوئے تھے وہ مقام رسالت ہی کے قدم بہ قدم تھا اور قطعا وہ امامت و وصایت اور اولی بتصرف ہونے کا معاملہ تھا جو رسول خدا(ص) کے بعد دین و احکام الہی کا محافظ اور نگہبان ہے۔

غدیر خم میں

آیہ اکملت لکم دینکم

دوسرا قرینہ آیت نمبر5 سورہ نمبر5(مائدہ) کا نزول ہے جس میںتکمیل دین کے لیے ارشاد ہے :

"الْيَوْمَ‏ أَكْمَلْتُ‏ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً"

یعنی آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا، تم اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو ایک پاکیزہ دین قرار دیا۔

حافظ: مسلم تو یہ ہے کہ آیت روز عرفہ نازل ہوئی ہے اور کسی عالم نے اس کا نزول روز غدیر میں نہیں بتایا ہے۔

خیر طلب : میری درخواست ہے کہتقریر کے وقت انکار میں جلدی نہ فرمایا کیجئے کیونکہ شاید اثبات کا کوئی راستہ موجود ہی ہو۔ بلکہ مطالب کے بیان میں احتیاط کو مد نظر رکھا کیجئے تاکہ جواب ملنے پر ندامت کی زحمت نہ ہو۔

میں مانتا ہوں کہ آپ بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ آیت عرفہ میں نازل ہوئی لیکن آپ ہی کے اکابر علماء کی ایک بڑی جماعت نے روز غدیر میں اس کا نازل ہونا نقل کیا ہے۔ نیز کے چند علماء کا قول ہے کہ غالبا یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی، ایک مرتبہ غروب عرفہ کے وقت اور ایک مرتبہ غدیر میں۔ چنانچہ سبط ابن جوزی، تذکرہ خواص الامہ آخر ص18 میں کہتے ہیں کہ:

"احتمل ان الآية نزلت مرتين مرة بعرفة و مرة يوم الغدير کما نزلت بسم الله الرحمن الرحيم مرتين مرة بمکة و مرة بالمدينة"

یعنی احتمال ہے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ایک مرتبہ عرفہ میں، اور ایک مرتبہ روز غدیر، جیسے بسم اللہ الرحمن الرحیم دو مرتبہ نازل ہوئی ایک مرتبہ مکہ میں اور ایک مرتبہ مدینہ میں۔

ورنہ آپ کے موثق اکابر علماء جیسے جلال الدین سیوطی نے در المنثور جلد دوم ص256 اور اتقان جلد اول ص31 میں، العلوی میںامام المفسرین ثعلبی نے کشف البیان میں ، حافظ ابو نعیم اصفہانی نے ما نزل من القرآن فی علی میں ، ابوالفتح نطززی نے خصائص العلوی میں ابن کثیر شامی نے اپنی تفسیر جلد دوم ص14 میں، حافظ ابن مردویہ کے طریق سے، تیسری صدی ہجری کے مفسر اور مورخ عالم

۴۸

محمد بن جریر طبری نے تفسیر کتاب الولایہ میں، حافظ ابوالقاسم حسکانی نے شواہد التنزیل میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامۃ ص18 میں، ابو اسحاق حموینی نے فرائد السمطین باب دوازدہم میں، ابوسعید سجستانی نے کتاب الولایہ میں، خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد جلد ہشتم ص290 میں، ابن مغازلی فقییہ شافعی نے مناقب میں، ابوالموئد موفق بن احمد خورزمی نے مناقب فصل چہاردہم اور مقتل الحسین فصل چہارم میں نیز آپ کے دوسرے علماء نے لکھا ہے کہ غدیر خم کے روز جب رسول اللہ(ص) بحکم الہی علی علیہ السلام کو لوگوں کے سامنے نمایاں کر کے منصب ولایت پر معین فرمایا۔

علی(ع) کے بارے میں جس امر پر مامور تھے اس کی تبلیغ فرمائی اور آپ کو اپنے ہاتھوں پر اس قدر بلند فرمایا کہ دونوں بغلوں کی سفیدی نمودار ہوگئی تو اس وقت امت سے ارشاد فرمایا کہسلموا علی علیّ بامرة المومنین " یعنی امارت مومنین کے ساتھ علی(ع) پر سلام کرو اور ساری امت نے اس کی تعمیل کی۔ ابھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوئے تھے کہ مذکورہ آیہ شریفہ نازل ہوئی۔

خاتم الانبیاء اس آیت کے نازل ہونے سے بہت خوش ہوئے لہذا حاضرین کی طرف متوجہ ہو کر :

" الله اکبر علی اکمال الدين و اتمام النعمة و رضا الرب برسالتی والولايه لعلی ابن ابی طالب بعدی "

یعنی اللہ بزرگ ہے جس نے دین کا کامل اور نعمت کو تمام کیا اور میری رسالت اورمیرے بعد علی(ع) کی ولایت پر راضی ہوا۔

امام حسکانی اور امام احمد ابن حنبل نے تو اس قضیے کو پوری تفصیل سے نقل کیا ہے اگر آپ حضرات تھوڑی دیر کے لیے اپنی عادت سے الگ ہو کر چشم انصاف اور حقیقت بین نگاہوں سے دیکھیں تو آیات کریمہ کے نزول اور حدیث شریف سے آپ پر بخوبی واضح ہوجائے گا کہ لفظ مولی، امامت و ولایت اور اولی بہ تصرف کے معنی میں ہے۔

اگر مولی اور ولی اولی بہ تصرف کے معنی میں نہ ہوتا تو بعدی کا فقرہ بے معنی ہو جاتا۔ یہ جملہ جو بار بار رسول خدا(ص) کی زبان مبارک پر جاری ہوا ہے ثابت کرتا ہے کہ مولی اور ولی اولی بہ تصرف کے معنی میں ہے کیونکہ فرماتے ہیں میرے بعد یہ منصب علی علیہ السلام کے لیے مخصوص ہے۔

تیسرے ذرا گہری نظر سے جائزہ لیجئے اور اںصاف کیجئے کہ اس گرم ہوا اور بے گیاہ میدان میں جہاں پہلے سے مسافروں کی کوئی منزل نہیں تھی پیغمبر تمام امت کو جمع کریں۔ آگے جانے والوں کو پلٹانے کا حکم دیں، اس دیکتی ہوئی دھوپ میں جب لوگ اپنے پائوں کو دامنوں سے لپیٹے ہوئے اونٹوں کے سائے میں بیٹھے تھے منبر پر تشریف لے جائیں اور فضائل و مقامات امیرالمومنین کے اثبات میں وہ طولانی خطبہ ارشاد فرمائیں جس کو خوارزمی و ابن مردویہ نے مناقب میں طبری نے کتاب الولایتہ میں نیز دوسروں نے نقل کیا ہے، تین روز تک لوگوں کا وقت لے کر اسی گرم وخشک صحرا میں ٹھہرائے رکھیں اور حکم دیں کہ تمام اعلی اونی اشخاص کر فردا فردا علی علیہ السلام کی بیعت کرنا چاہیئے اور نتیجہ صرف اتنا ہی ہو کہ علی (ع) کو دوست رکھو یا یہ کہ علی(ع) تمہارے دوست اور ناصر ہیں؟ ایسی صورت میں کہ افراد امت میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو علی(ع) کے ساتھ آنحضرت(ص) کے انتہائی ربط کو نہ جانتا

۴۹

ہو اور بار بار آپ کی وصیت اور سفارش کو نہ سن چکا ہو( جیسا کہ ان میں سے بعض کی طرف میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں) دوبارہ خاص طور پر ایسے سخت گرم مقام پر نزول آیات اور اس قدر شدید تاکید کی کیا ضرورت تھی کہ اگر زحمت اور تعطل میں پڑ جائیں اور نتیجہ فقط یہ ہو کہ علی کودوست رکھو؟ بلکہ اگر آپ اچھی طرح سے غور کریں تو یہ عمل جب کہ اس کا کوئی اہم مقصد اور خاص پہلو نہ ہو۔ صاحبان عقل کی نظر میں لغو ٹھہرے گا۔ اور رسول اکرم(ص) سے کوئی لغو کام ہرگز صادر نہیں ہوتا۔

پس عند العقلاء ثابت ہے کہ یہ سارا ارضی و سماوی اہتمام و انتظام محض محبت و دوستی کے لیے نہ تھا بلکہ منصب رسالت کے قدم بہ قدم کوئی اہم کام تھا اور وہ وہی امر ولایت و امامت تھا اور مسلمانوں کے امور اولی بہ تصرف ہونا تھا۔

مولی کے معنی میں سبط ابن جوزی کا عقیدہ

چنانچہ آپ کے اکابر علماء کے ایک گروہ نے از روئے غور و اںصاف اس بات کی تصدیق کی ہے۔ من جملہ ان کے سبط ابن جوزی تذکرۃ خواص الامہ باب دوم میں کلمہ مولیٰ کے دس مطلب ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان معانی میں سے کوئی بھی رسول اللہ(ص) کے کلام سے مطابقت نہیں کرتا :

"و المراد من‏ الحديث‏، الطاعة المحضة المخصوصة، فتعيّن الوجه العاشر و هوالأولى، و معناه: من كنت أولى به من نفسه، فعليّ أولى به."

یعنی حدیث سے خالص اور مخصوص اطاعت مراد ہے پس دسواں مطلب صحیح ٹھہرتا ہے اور وہ اولی بہ تصرف ہونا ہے لہذا معنی یہ ہوئے کہ جس شخص کے لیے میں اس کے نفس سے زیادہ اولی بہ تصرف ہوں علی(ع) بھی اس کے لیے اولی بہ تصرف ہیں۔

اور کتاب مرج البحرین میں حافظ ابوالفرج یحیی بن سعید ثقفی اصفہانی کا قول بھی اس معنی کی صراحت کرتا ہے جنہوں نے اس حدیث کی اپنے اسناد کے ساتھ اپنے مشایخ سے روایت کی ہے اور کہا ہے کہ پیغمبر(ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کے فرمایا "من كنت وليه وأولى به من نفسه فعلي‏ وليه‏." یعنی جس کا میں ولی اور اس کے نفس سے اولی بہ تصرف ہوں۔ پس علی(ع) بھی اس کے ولی یعنی اولیٰ بہ تصرف ہیں۔

پھر سبط ابن جوزی کہتے ہیں:

"ودل‏ عليه‏ أيضاقوله‏عليهالسلام«الست أولى بالمؤمنين منأنفسهم»وهذانص صريح في إثباتامامته وقبول طاعته"

یعنی آں حضرت (ص) کا قول الست اولی بالمومنین من انفسہم بھی اس پر دلالت کرتا ہے اور یہ علی علیہ السلام کی امامت اور ان کی اطاعت قبول کرنے کے اثبات میں ایک کھلی ہوئی نص ہے۔ انتہی کلامہ۔

۵۰

مولیٰ کے معنی میں

ابن طلحہ شافعی کا نظریّہ

نیز محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول باب اول اواسط پنجم ص16 میں کہتے ہیں کہ لفظ مولی کے متعدد معنی ہیں مثلا اولیٰ بہ تصرف، ناصر، وارث، صدیق اور سید، اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ حدیث اسرار آیہ مباہلہ میں سے ہے اس لیے کہ خدائے تعالی نے علی علیہ السلام بمنزلہ نفس پیغمبر(ص) فرمایا ہے اور نفس علی(ع) کے درمیان کوئی جدائی نہیں تھی کیونکہ ان دونوں کو رسول اللہ(ص) کی طرف ضمیر مضاف کے ذریعے باہم جمع فرمایا ہے۔

"أثبت‏ رسول‏ اللّه‏ لنفس‏ علي‏ بهذاالحديث ماهوثابت لنفسه على المؤمنين عموما،فإنه أولى بالمؤمنين،وفاءالمؤمنين،وسيدالمؤمنين،وكل معنى أمكن إثباتهم مايدل عليه لفظ المولى لرسول اللّه فقدجعله لعلي (ع)،وهي مرتبةسامية،ومنزلةسامقة،ودرجةعلية،ومكانةرفيعة،خصصه بهادونغيره،فلهذاصارذلكاليوميومعيده وموسمسرورلأوليائه."

یعنی رسول اللہ(ص) اس حدیث کے ذریعے نفس علی(ع) کے لیے بالعموم ہر وہ چیز ثابت فرمادی جو مومنین پر ان کے نفس کے لیے ثابت ہے، پس آں حضرت یقینا مومنین کے امور میں اولی بہ تصرف ، مومنین کے مددگار اور مومنین کے سید و آقا ہیں اور ہر وہ معنی جس پر رسول خدا(ص) کے لیے لفظ مولا دلالت کرتا ہے اور اس کا اثبات ممکن ہے علی(ع) کے لیے بھی قرار دیا، اور یہ ایک مرتبہ عالیہ، منزلت بزرگ ، درجہ بلند اور مقام رفیع ہے۔ جس سے بلاشرکت غیرے صرف آپ کو مخصوص فرمایا چنانچہ اسی وجہ سے روز غدیر آپ کے دوستوں کے لیے عید اور موسم سرور بن گیا۔

حافظ : آپ کے ارشاد کے پیش نظر لفظ مولی چونکہ متعدد معانی میں استعمال ہوا ہے لہذا اس کو تمام معانی کے درمیان سے بغیر کسی مختص کے صرف اولی بہ تصرف کے معنی سے مخصوص کردینا باطل ہوگا۔

خیر طلب : آپ محققین علم اصول کے اس قول سے تو یقینا بخوبی واقف ہیں کہ حیثیت سے جس لفظ کے متعدد معانی آئے ہیں ان میں سے ایک حقیقی ہے اور باقی مجازی، اور یہبدیہی چیز ہے کہ ہر جگہ حقیقت مجاز پر مقدم ہوتی ہے۔ پس اس اصول کی بنا پر لفظ مولی و ولی ہیں حقیقی معنی مولی بہ تصرف کے ہوتے ہیں۔ جیسے ولی نکاح یعنی امر نکاح کا متولی، عورت کا دل اس کا شوہر اور بچے کا ولی اس کا باپ یعنی اس پر اولی بہ تصرف اور بادشاہ کا ولی عہد یعنی بادشاہ کے بعد اس کے امور سلطنت میں متصرف اسی قبیل سے دوسرے تمام معنی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اعتراض تو خود آپ ہی پر وارد ہوتا ہے کہ لفظ ولی و مولی کو جس کے متعدد معنی ہیں صرف محب و ناصر کے معنی سے مخصوص کرتے ہیں لہذا یہ تخصیص بلا مخصص قطعا باطل ہے۔ اور یہ ایراد زیادہ تر آپ ہی پر وارد ہے نہ کہ ہم پر اس لیے کہ ہم نے اگر تخصیص کی ہے تو بلا مخصص نہیں ہےبلکہ آیات و اخبار اور بزرگان قوم

۵۱

کے اقوال کے ان کثیر قرائن و دلائل کے روسے ہے جو اس مفہوم پر قائم ہیں۔

من جملہ ان کے وہ دلیلیں بھی ہیں جو آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے سبط ابن جوزی اور محمد بن ابی طلحہ شافعی نے بیان کی ہیں۔ اور سب سے بڑی دلیل وہ ظاہیر و باطنی قرینے ہیں جو اس کے معنی کی تخصیص کرتے ہیں۔ اور جن میں سے بعض کی طرف میں اشارہ بھی کرچکا ہوں کہ ہمارے اور آپ کے طرق سے بکثرت احادیث میں سے ایک یہ ہے کہ اس آیہ مبارکہ کو اس طرح نقل کیا ہے:

"ياأَيُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ماأُنْزِلَ‏ إِلَيْكَ فی و لاية علی و امامةاميرالمومنين"

چنانچہ جلال الدین سیوطی نے جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں در المنثور میں ان حدیثوں کو جمع کیا ہے۔

رحبہ میں حدیث غدیر سے علی(ع) کا احتجاج

الرحبہ حدیث اور لفظ مولی امامت اور خلافت اولی پر نص نہ ہوتی تو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اس سے بار بار احتجاج نہ فرماتے اور بالخصوص شوری کے جلسوں میں اس سے استدلال نہ کرتے۔ جیسا کہ خطیب خوارزمی نے مناقب میں، ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد باب58 میں، حافظ ابن عقدہ نے کتاب الولایہ میں، ابن حاتم دمشقی نے وراء النظم میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص61 میں تفصیل سے نقل کیا ہے اور خالص طور پر یہ کہ رحبہ میں تیس عدد اصحاب نے اس کی گواہی دی۔

چنانچہ امام احمد بن حنبل نے مسند جز اول ص119 وجزء چہارم ص370 میں، ابن اثیر جزری نے اسد الغابہ جلد سوم ص307 و جلد پنجم ص205، ص276 میں، ابن قتیبہ نے معارف ص194 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص362 میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاء جلد پنجم ص26 میں، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد دوم ص408 میں، محب الدین طبری نے ذخائر العقبی ص67 میں، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی ص26 میں، علامہ سمہودی نے جواہر العقدین میں، شمس الدین جزری نے اسنی المطالب ص3 میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب4 میں، حافظ ابن عقدہ نے کتاب الولایہ میں اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے رحبہ کوفہ (یعنی مسجد کوفہ کے صحن) میں مسلمانوں سے علی علیہ السلام کا احتجاج نقل کیا ہے کہ حضرت نے لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ جس شخص نے غدیر خم میں اپنے کانوں سے میرے بارے میں رسول اللہ(ص) سے کچھ سنا ہو وہ اٹھ کر گواہی دے! اصحاب میں سے تیس نفر اٹھے جن میں بارہ عدد بدری صحابی تھے اور کہا کہ ہم نے غدیر خم کے روز دیکھا کہ رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کے لوگوں سے فرمایا:

"اتعلمون‏ اني‏ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ‏؟قالوا: نعم،قال من كنت مولاه فهذامولاه- الخ"

یعنی آیا تم جانتے ہو کہ میں مومنین کے جانوں سے زیادہ ان پر حق رکھتا ہوں؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں ، تو فرمایا جس شخص کا میں مولا ہوں پس یہ علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں۔

اس مجمعمیں سے تین افراد نے شہادت نہیں دی جن میں ایک انس بن مالک بھی تھے جنہوں نے کہا مجھ پر بڑھاپا غالب

۵۲

آگیا ہے اس وجہ سے بھول گیا ہوں۔ حضرت نے ان لوگوں پر نفرین اور بد دعا فرمائی اور خصوصیت سے انس کے لیے فرمایا کہ اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو خدا تم کو جذام اور برص میں مبتلا کرے جس کو عمامہ چھپا نہ سکے! پس انس ابھی اپنی جگہ سے اٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ ان کے جسم میں کوڑھ اور سفید داغ پیدا ہوگئے( بعض روایتوں میں ہے کہ اندھے اور کوڑھی ہوگئے)

بدیہی چیز ہے کہ اس حدیث کو حجت قرار دینا اور اس سے استشہاد کرنا اس کی مکمل دلیل ہے کہ آپ نے سب سے بڑھے حق یعنی امارت و خلافت مںصوصہ کو ثابت فرمایا۔

( اس موقع پر مئوذن کی آواز بلند ہوئی اور مولوی صاحبان نماز عشاء پڑھنے کے لیے اٹھ گئے ۔ ادائے فریضہ تھوڑی استراحت اور چائے نوشی کے بعد پھر گفتگو شروع ہوئی۔)

چوتھا قرینہ

الست اولی بکم من انفسکم

خیر طلب : چوتھے حدیث کا قرینہ کلام خود اس مقصد کو ثابت کررہا ہے کہ مولی سے مراد اولی بہ تصرف ہے کیونکہ خطبہ غدیر اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ(ص) نے اظہار مطلب سے قبل فرمایا "الست اولی بکم من انفسکم " یعنی آیا میں تمہارے نفوس سے زیادہ تم پر اولی بہ تصرف نہیں ہوں؟( اشارہ سورہ نمبر33 ( احزاب) کے آیہ نمبر6 کی طرف جس میں ارشاد ہے "النبی أنّي أولى بالمؤمنين من أنفسهم" ( یعنی پیغمبر(ص) مومنین کی جانوں سے زیادہ ان کے لیے اولی بہ تصرف اور حقدار ہیں)

اور کتب فریقین میں یہ حدیث صحیح بھی وارد ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا " ما من مومن الا انا اولی به فی الدنيا والآخرة " یعنی کوئی مومن ایسا نہیں ہے جس پر میں دنیا و آخرت میں اولی بہ تصرف ہوں۔

سب نے کہا ہاں، آپ ہمارے نفوس سے زیادہ ہم پر اولی بہ تصرف ہیں، تب آں حضرت(ص) نے فرمایا"من كنت مولاه فهذا عليّ مولاه" پس سباق کلام بتاتا ہے کہ مولی سے وہی اولیت مراد ہے جو رسول خدا(ص) کو امت پر حاصل تھی۔

حافظ : بہت سی کتابوں میں اس قرینے کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ فرمایا ہو" الست اولی بکم من انفسکم "

خیر طلب : حدیث غدیر کے سلسلہ میں عبارات و الفاظ اور نقل کرنے والوں کے اقوال مختلف ہیں۔ اخبار امامیہ میں تو عمومیت ہے اور جمہور علماء شیعہ نے اپنی معتبر کتابوں میں اسی قرینے کے ساتھ نقل کیا ہے۔ لیکن آپ کی معتبر کتابوں میں بھی کثرت سے موجود ہے۔ چنانچہ اس وقت جہاں تک میرے پیش نظر ہے، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص18 میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے امام احمد وزہری اور حافظ ابوبکر بیہقی سے نقل کرتے ہوئے فصول المہمہ میں، ابوالفتوح اسعد بن ابی الفضائل بن خلف العجلی نے اپنی کتاب الموجز فی الفضائل الخلفاء الاربعہ میں، خطیب خوارزمی نے مناقب فصل چہاردہم

۵۳

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب اول میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب4 میں، مسند احمد حنبل مشکوۃ ال؟؟؟؟ سنن ابن ماجہ، حلیتہ الاولیاء حافظ ابو نعیم اصفہانی، مناقب ابن مغازلی شافعی اور کتاب الموالات ابن عقدہ کے حوالوں سے اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے الفاظ اور انداز بیان کے معمولی فرق کے ساتھ حدیث غدیر کو نقل کیا ہے اور ہر ایک کے یہاں جملہ "الست اولی بکم من انفسکم " موجود ہے۔ تیمنا و تبرکا میں اس حدیث کا ترجمہ عرض کرتا ہوں جو اصحاب حدیث کے امام احمد بن حنبل نے مسند جلد چہارم ص481 میں، براء بن عازب کی سند سے نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا میں ایک سفر میں رسول خدا(ص) کے ساتھ تھا، یہاں تک کہ ہم لوگ غدیر میں پہنچے۔ آں حضرت(ص) نے منادی کرائی " الصلوۃ جامعۃ " ( عادت اور رسم یہی تھی کہ جب کوئی اہم مسئلہ در پیش ہوتا تھا تو آں حضرت(ص) حکم دیتے تھے کہ " الصلوۃ جامعۃ " کی ندا دی جائے جب امت جمع ہوجاتی تھی تو ادائے نماز کے بعد اس امر خاص کی تبلیغ فرماتے تھے) اس کے بعد دو درختوں کے درمیان پیغمبر(ص) کی قیام گاہ بنائی گئی اور ادائے نماز کے بعد آں حضرت(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر مجمع کے سامنے ارشاد فرمایا :

"ألستم تعلمون أنّي أولى بالمؤمنين من أنفسهم قالوا: بلى.قال: ألستم‏ تعلمون‏ أنّي‏ أولى‏ بكلّ مؤمن من نفسه؟!قالوا: بلى.قال: من كنت مولاه فعليّ مولاه، اللّهمّ وال من والاه، و عاد من عاداه. فلقيه عمر بن الخطاب بعد ذلك، فقال له: هنيئا يا بن أبي طالب! أصبحت و أمسيت مولى كلّ مؤمن و مؤمنة"

یعنی آیا تم لوگ نہیں جانتے ہو کہ میں مومنین کے نفسوں سے زیادہ ان پر تصرف کا حق رکھتا ہوں؟ لوگوں نے کہا ہاں ہم واقف ہیں۔ پھر فرمایا آیا تم لوگ نہیں جانتے ہو کہ میں ہر مومن پر اس کی جان سے بڑھ کے اولی بتصرف ہوں؟ پھر دعا فرمائی کہ خداوند دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے۔ اس کے بعد فورا عمر ابن خطاب نے علی علیہ السلام سے ملاقات کی اور کہا مبارک ہو تم کو اے ابوطالب کے فرزند کہ تم ہر مومن ومومنہ کے مولا ہوگئے۔

نیز میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں ، سلیمان بلخی حنفی نے یبابیع میں اور حافظ ابو نعیم نے حلیہ میں مختصر لفظی تفاوت کے ساتھ اسی حدیث کو درج کیا ہے۔

بالخصوص حافظ ابو الفتح نے جن سے ابن صباغ نے بھی فصول المہمہ میں نقل کیا ہے اس عبارت کے ساتھ لکھا ہے، کہ خاتم الانبیاء(ص) نے فرمایا :

"ايهاالناس ان الله تبارک و تعالی مولای و انا اولی بکم من انفسکم الا ومن کنت مولاه فعلی مولاه"

یعنی اے لوگو خدائے تبارک و تعالی میرا مولا ہے اور میں تمہارے نفوس سے زیادہ تم پر اولی بہ تصرف ہوں۔ آگاہ ہو کہ جس کے لیے میں اولی بہ تصرف ہوں پس علی(ع) بھی اس کے لیے اسی طرح اولویت رکھتے ہیں۔

ابن ماجہ قزوینی نے سنن میں اور امام ابو عبدالرحمن نسائی نے احادیث ص81،83، و ص92، 94، میں بھی اسی قرینے کو نقل کیا ہے اور حدیث نمبر84 میں

۵۴

زید بن ارقم سے اس عبارت کے ساتھ روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے خطبے کے ضمن میں فرمایا :

"ألستم‏ تعلمون‏ أنّي‏ أولى‏ بكلّ مؤمن من نفسه؟!قالوا: بلى. نشهد لانت اولی بکل مومن من نفسه قال: فانی من كنت مولاه فعليّ مولاه و اخذ بيد علی عليه السلام"

یعنی آیاتم نہیں جانتے ہو کہ میں ہر مومن و مومنہ پر اس کے نفس سے زیادہ تصرف کا حق رکھتا ہوں؟ سب نے کہا ہاں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہر مومن کے نفس سے زیادہ اس پر اولی بہ تصرف ہیں اس وقت فرمایا کہ جس پر میں اولی بہ تصرف ہوں یہ بھی اس پر اولی بہ تصرف ہیں۔ اور علی(ع) کا ہاتھ پکڑ لیا اس کے علاوہ ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی متوفی سنہ463 ہجری نے تاریخ بغداد جلد ہشتم ص290 میں ابوہریرہ سے ایک مفصل حدیث نقل کی ہے کہ جو شخص اٹھارہویں ذی حجہ ( روز غدیر) کو روزہ رکھے تو اس کو ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب حاصل ہوگا۔ پھر مذکورہ حدیث غدیر کو اسی قرینے کے ساتھ نقل کیا ہے۔

میرے خیال میں نمونے کے لیے اسی قدر روایتوں کا نقل کردینا کافی ہوگا تاکہ آپ دوبارہ یہ نہ فرمائیں کہ اخبار و احادیث میں قرینہ "الست اولی بکم من انفسکم " کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

رسول اللہ(ص) کے سامنے حسان کے اشعار

پانچوان قرینہ حسان بن ثابت اںصاری کے وہ اشعار ہیں جو انہوں نے رسول اللہ(ص) کے سامنے خود آنحضرت(ص) کی اجازت سے اسی جلسے میں پڑھے جس میں علی(ع) کے منصب ولایت کا اعلان فرمایا گیا تھا۔ سبط ابن جوزی وغیرہ لکھتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے جس وقت یہ اشعار سنے تو فرمایا :

"ياحسان‏ لاتزال‏ مؤيدابروح القدس مانصرتناأونافحت عنابلسانك."

یعنی اے حسان جب تک تم ہماری نصرت یا اپنی زبان سے ہماری تعریف و توصیف کرتے رہے ہوگے روح القدس برابر تمہاری تائید کرتا رہے گا۔ یعنی تمہارے یہ اشعاد روح القدس کی تائید میں سے ہیں٫

چنانچہ چوتھی صدی ہجری کے مشہور مفسر و محدث حافظ ابن مردویہ احمد بن موسی متوفی سنہ352 ہجری مناقب میں، صدر الائمہ موفق بن احمد خوارزمی مناقب اور مقتل الحسین فصل چہارم میں، جلال الددن سیوطی رسالہ الازہار فیما عقدہ الشعراء میں، حافظ ابوسعید خرگوشی شرف المصطفی میں، حافظ ابوالفتح نطتری خصائص العلویہ میں، حافظ جمال الدین زرندی نظم دار السمطین میں، حافظ ابونعیم اصفہانی مانزل من القرآن فی علی میں، ابراہیم بن محمد حمیونی فرائد السمطین باب 12 میں، حافظ ابوسعید سجستانی کتاب الولایہ میں، یوسف ابن جوزی ت تذکرۃ خواص الامہ ص20 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب اول میں، اور آپ کے دوسرے علماء و محدثین و مورخین ابو سعید خدزی سے نقل کرتے ہیں کہ روز غدیر خم خطبہ رسول(ص) اور نصب امیرالمومنین نیز گر تشریحات کے بعد جن کا مختصر ذکر ہوچکا ہے حسان بن ثابت نے عرض کیا:

"أَتَأْذَنُ لِي أَنْ‏ أَقُولَ‏ أَبْيَاتاً فَقَالَ صلی الله عليه ،سلم

۵۵

قُلْ بىبَرَكَةِاللَّهِ"

یعنی کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں اس بارے میں کچھ اشعار کہوں؟آنحضرت(ص) نے فرمایا کہو یہ برکتِ خداوندی یعنی لطف و عنایت پروردگار۔ پس وہ ایک بلند قدم پر کھڑے ہوئے اور فی البدیہ یہ اشعار شروع کئے۔

يُنَادِيهِمْ يَوْمَ الْغَدِيرِنَبِيُّهُمْ‏بِخُمٍّ وَأَسْمِعْ بِالنَّبِيِّ مُنَادِياً

أَلَسْتُ أَنَامَوْلَاكُمْ وَوَلِيَّكُمْ‏فَقَالُواوَلَمْ يَبْدُواهُنَاكَ التَّعَامِيَا

إِلَهُكَ مَوْلَانَاوَأَنْتَ وَلِيُّنَاوَلَاتَجِدَنْ فِي الْخَلْقِ لِلْأَمْرِعَاصِياً

فَقَالَ لَه ُقُمْ يَاعَلِيُّ فَإِنَّنِي‏رَضِيتُكَ مِنْ بَعْدِي إِمَاماًوَهَادِياً

فمن کنت مولاه فهذا وليهفکونوا لهانصار صدق مواليا

هناک دعا اللخم وال وليهو کن الذی عادی عليا معاديا

یعنی غدیر خم کے روز نبی اکرم(ص) نے امت کو آواز دی اور میں نے آں حضرت(ص) کے منادی کی ندا سنی۔ آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ تمہارا مولا اور ولی ( یعنی اولی بہ تصرف ) کون ہے ؟ تو لوگوں نے صاف صاف کہا کہ خدا ہمارا مولی اور آپ ہمارے ولی ہیں اور کسی کو اس حقیقت سے انکار نہیں ہے۔ پس آں حضرت (ص) نے علی(ع) سے فرمایا کہ اٹھو میں اپنے بعد تمہارے امام اور ہادی ہونے پر راضی ہوں پس میں جس کے امور میں ولی اور اولی بہ تصرف ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے امور میں ولی اور اولی بہ تصرف ہیں، لہذا اے امت والو سچائی اور وفادار کے ساتھ ان کے یار و مددگار بنو پھر دعا فرمائی کہ خداوندا جو علی(ع) کا دوست ہو اس کو دوست رکھ اور جو ان کا دشمن ہو اس کو دشمن رکھ۔

یہ اشعار بہت واضح دلیل ہیں اس بات کی کہ اس روز اور اس موقع پر اصحاب نے لفظ مولی سے علی علیہ السلام کی امامت و خلافت کے سوا اور کوئی مطلب نہیں نکلا۔ اگر مولا امام ہادی اور اولی بہ تصرف کے معنی میں نہ ہوتا تو قطعا جس وقت حضرت نے حسان کے اشعار میں مصرع "رَضِيتُ كَمِنْ بَعْدِيإ ِمَام اًوَهَادِياً " سنا تھا فوراارشاد فرماتے کہ حسان تم نے دھوکا کھایا اور میرا مقصد نہیں سمجھے اس لیے کہ اس بیان سے میرا مقصود امام و ہادی اور اولی بہ تصرف قائم مقام منصب نبوت نہیں بلکہ دوست و ناصر کا مفہوم مراد تھا۔ لیکن قطع نظر اس سے کہ ان کی تکذیب نہیں کی، الفاظ "لاتزال‏ مؤيدابروح القدس " سے ان کی تصدیق بھی فرما دی ۔ اس کے علاوہ خطبے کی ضمن میں بھی پوری وضاحت کے ساتھ آپ کی امامت و خلافت کا اعلان فرمایا آپ حضرات کو لازم ہے کہ خطبہ ولایت کا مطالعہ کیجئے جو رسول خدا(ص) نے غدیر کے روز بیان فرمایا تھا اور جس کو ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی سنہ310 ہجری نے کتاب الولایہ میں تمام و کمال نقل کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

"اسمعواوأطيعوافإن‏ الله‏ مولاكم‏وعلي إمامكم ثم الإمامةفي ولدي من صلبه إلى يوم القيامة. معاشر الناس هذا اخی و وصيی و داعی علمی و خليفتی علی من آمن بی و علی تفسير کتاب ربی"

یعنی سنو اور اطاعت کرو پس یقینا اللہ تمہارا مولا اور علی(ع) تمہارے امام ہیں۔ پھر قیامت تک امامت علی(ع) کی نسل سے میری اولاد ہی میں رہے گی۔ اے گروہ ناس یہ(علی(ع)) میرے بھائی،

۵۶

میرے وصی میرے علم کے محافظ اور میرے خلیفہ ہیں ہر اس شخص پر جو مجھ پر اور کتاب الہی کی تفسیر پر ایمان لایا ہے۔

حضرات ! اگر انصاف سے دیکھئے تو خود آں حضرت(ص) کے بیانات کے علاوہ یہ اشعار سننے کےبعد آپ کی خاموشی دلیل قاطع ہے اس چیز پر کہ آں حضرت(ص) کی مراد محب و ناصر نہیں تھی بلکہ وہی تھی جس کو حسان نے نظم کیا ہے یعنی امام و ہادی امور مسلمین میں اولی بہ تصرف۔ چنانچہ فرمایا کہ حسان ! یہ حقیقت تمہاری زبان پر روح القدس کی تائید سے جاری ہوئی ہے۔

صحابہ کی وعدہ شکنی

بہر حال آں حضرت(ص) کے حسب الارشاد و لایت مطلقہ کے حقیقی معنی لیے جائیں یا آپ کے عقیدے کے مطابق محب و ناصر کے معنی، یہ مسلم ہے کہ اس روز اصحاب نے حکم رسول(ص) سے کچھ وعدہ کیا تھا، ایک بیعت کی تھی اور کوئی عہد و پیمان کیا تھا۔ جس پر علمائے فریقین ( شیعہ و سنی) کا اتفاق ہے، پس آخر اس عہد و پیمان کو کیوں توڑا؟ اگر آپ ہی کا فرمانا صحیح فرض کر لیا جائے کہ آنحضرت(ص) کا مقصود دوستی اور یاوری تھا تو خدا کے لیے انصاف سے بتائیے کہ جس دوستی کا اور نصرت و یاری کا عہد باندھا تھا کیا اس کا مطلب اور نتیجہ یہی ہونا چاہئیے تھا کہ ان کے دروازے پر آگ لے جائیں، ان کی بیوی بچوں کو جو اولاد رسول(ص) تھے آزار پہنچائیں اور خوف زدہ کریں ان کو جبرا کھینچتے ہوئے مسجد میں لے جائیں، اور ننگی تلواریں لیے ہوئے ان کو قتل کردینے کی دھمکی دیں، رسول خدا(ص) کا پارہ جگر جناب فاطمہ(ع) کو خوفزدہ اور اذیت میں مبتلا کریں اور حمل ساقط کریں؟

آیا اس خاص تاریخ میں اس قدر عظیم الشان انتظامات اور اتنے سخت تاکیدات کے ساتھ رسول(ص) کی سفارشوں کا یہی مقصد تھا؟ آیا آں حضرت(ص) کی وفات کے بعد اس قسم کے حرکات خدا و رسول(ص) سے عہد شکنی نہیں تھی؟ آیا جن لوگوں نے یہ عہد توڑٰا یا ( آپ کے خیال سے ) دوستی کا پیمان آخر تک نہیں نبھایا۔ انہوں نے سورہ نمبر13 ( رعد) کی آیت نمبر25 نہیں پڑھی تھی؟ اگر ہم جاہلانہ محبت اور بغض کو الگ رکھیں تو حق و حقیقت بالکل ظاہر ہے۔

گرپردہ زروئے کار ہا بردارندمعلوم شود کہ درجہ کار ہمہ

احد حنین اور حدیبہ میں صحابہ کی عہد شکنی

غزوہ احد اور حنین میں جب رسول اللہ(ص) نے تمام اصحاب سے عہد لیا تھا کہ آج کے روز فرار نہ کرنا تو کیا ان لوگوں نے فرار نہیں کیا؟ آیا یہ میدان جنگ سے بھاگنا اور دشمنوں کے مقابلہ میں پیغمبر(ص) کو تنہا چھوڑ کر چل دینا، جس کو خود آپ کے مورخین طبری، ابن ابی الحدید اور ابن عثم کوفی وغیرہ نے بھی لکھا ہے، عہد شکنی نہیں تھی؟

۵۷

قسم خدا کی آپ لوگ بلا وجہ ہم پر اعتراض کرتے ہیں۔ شیعہ بھی وہی کہتے ہیں جو آپ کے بڑے بڑے علماء نے کہا ہے اور کتابوں میں وہی لکھتے ہیں جو خود آپ کے علماء ومورخین لکھ چکے ہیں۔

اگر علماء شیعہ نے صحابہ پر کچھ تنقیدیں کی ہیں تو وہ وہی ہیں جو آپ کے علماء نے لکھی ہیں۔

اںصاف سے فیصلہ کرنا چاہئیے

پس آخر آپ لوگ نسلا بعد نسل ہم پر کس لیے حملے کرتے چلے آرہے ہیں؟ آپ لوگ لکھیں تو کوئی عیب نہیں اور نہ قابل گرفت ہے۔ لیکن جو کچھ سنی اکابر علماء نے لکھا ہے اگر وہی ہم کہہ دیں تو کافر ہوجاتے ہیں، ہمارا قتل واجب ہوجاتا ہے محض اس جر م میں کہ بعض صحابہ کے افعال زشت اور اعمال قبیحہ پر تبصرہ اور نکتہ چینی کرتے ہیں۔

حالانکہ اگر صحابہ پر طعن و تشنیع مذموم اور موجب رفض ہے تو قطعا تمام صحابہ بھی رافضی تھے کیونکہ عام طور پر سب نے ایک دوسرے کو لعنت ملامت کی ہے اور اعمال کی مذمت کی ہے یہاں تک کہ ابوبکر و عمر نے بھی۔

اگر تنگی وقت کا خیال نہ ہوتا تو تفصیل سے ان کے اقوال بیان کرتا۔ اگر آپ بخوبی اس کی جانچ کرنا چاہتےہوں کہ اصحاب رسول(ص) بھی دوسرے لوگوں کی طرح جائز الخطا تھے۔ ان میں سے جنہوں نے پرہیزگاری اختیار کی وہ مومنین یا پاکباز اور قابل احترام ٹھہرے اور جو لوگ ہوا و ہوس کے بندے بنے اور ان سے بری حرکتیں سر زد ہوئیں وہ مطعون مذموم قرار پائے تو شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد چہارم کے ص454 سے ص462 تک صحابہ کے بارے میں ابوالمعانی جوینی کے اعتراض پر زیدی کا مفصل جواب ملاحظہ فرمائیے۔ جس کو ابوجعفر نقیب نے نقل کیا ہے تاکہ آپ کومعلوم ہو کہ صحابہ کس قدر اختلاف و افتراق تھا اور کس طرح ایک دوسرے کی تفسیق و تکفیر اور لعنت و ملامت کرتے تھے۔

شیعوں اور آپ کے منصف علماء اور عام حضرات اہل سنت وجماعت کے درمیان جو خاص فرق ہے وہ محبت اور بغض کے مسئلے میں ہے، آپ لوگ چونکہ بعض صحابہ سے اندھادھند عقیدت اور خلوص و محبت رکھتے ہیں لہذابمصداق حب الشی يعمی و يعصم ( یعنی کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرا بنادیتی ہے 12مترجم ) ان کے اندر برائی نظر ہی نہیں آتی بلکہ اگر نگاہ محبت سے دیکھنے کے باوجود بھی ان کے دامن داغدار نظر آتے ہیں تو ان کو تمام مطاعن سے مبرا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور کھلے ہوئے معائب کے مقابلہ میں ایسے پھسپھسے جوابات دیتے ہیں کہ ان پر ہنسی آجاتی ہے۔

لیکن ہم خدا کو گواہ کر کے کہتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول(ص) کو بغض و عناد اور عداوت کی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ متفقہ حالات و واقعات کا عقل وبرہان کی نگاہ سے جائزہ لیتے ہیں، اچھائیوں کو اچھا اور برائیوں کو برا دیکھتے ہیں اور حق فیصلہ کرتے ہیں٫

محترم حضرات! ہم اور آپ قیامت اور روز جزا پر ایمان رکھتے ہیں، دنیا کی اس چند روز زندگی میں کیا رکھا ہے جو عنقریب

۵۸

ختم ہوجائے گی۔ فکر تو اس روز کی کرنا چاہئے۔

قسم خدا کی ہم شیعہ مظلوم ہیں، بے خبر عوام کو بلاوجہ دھوکا نہ دیجئے اور موحد شیعوں کو کافر اور رافضی نہ کہئے۔ آیا یہ مناسب ہے کہ محمد(ص) و آل محمد صلوۃ اللہ علیہم اجمعین کے پیرئوں کو خواہ مخواہ بہانہ بنا کے رافضی اور خطا وار قرار دیجئے؟ در آنحالیکہ اگر اس تنقید اور اظہار حقیقت کی وجہ سے آپ شیعوں کر برا کہتے اور کافر سمجھتے ہیں تو ان سے پہلے اپنے بڑے بڑے علماء کو برا کہئے جن کے قلم سے اس قسم کی تنقیدیں نکلی ہیں اور آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں۔

حدیبیہ میں صحابہ کا فرار

مثلا قضیہ حدیبیہ کے سلسلے میں ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور آپ کے دوسرے مورخین لکھتے ہیں کہ قرار داد صلح کے بعد عمر ابن خطاب کے ساتھ اکثر صحابہ بگڑے ہوئے تھے اور رسول اللہ(ص) کو تائو دکھا رہے تھے کہ ہم صلح پر راضی نہیں تھے جنگ کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے کیوں صلح کر لی؟ آنحضرت(ص) نے فرمایا اگر تم لڑائی کا شوق ہے تو جائو میں منع نہیں کرتا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے حملہ کیا، لیکن قریش بھی تیار تھے انہوں نےمنہ توڑ جواب دیا اور ان کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ اب جو بھاگے تو پیغمبر(ص) کے پاس بھی نہیں ٹھہر سکے بلکہ صحرا کی طرف نکل گئے۔ آں حضرت(ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ تلوار اٹھائو اور قریش کی روک تھام کرو۔ قریش نے جونہی علی(ع) کو مقابلے پر دیکھا پیچھے ہٹ گئے۔ اس کے بعدبھاگے ہوئے اصحاب تھوڑے تھوڑے کر کے واپس آئے اور اپنی حرکت سے شرمندہ ہوکر معذرت کرنے لگے۔ رسول اللہ(ص) نے فرمایا کہ میں تم کو پہنچانتا نہیں ہوں ؟ کیا تم لوگ وہی نہیں ہو جو غزوہ بدر کبری میں دشمنوں کے سامنے کانپ رہے تھے یہاں تک کہ خدا نے ہماری مدد کے لیے فرشتے بھیجے؟ آیا تمہیں لوگ میرے وہ اصحاب نہیں ہو جو احد کے روز بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھ گئے تھے اور مجھ کو اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ میں ہر چند پکارتا رہا لیکن تم لوگ نہیں پلٹے؟ خلاصہ یہ کہ آںحضرت(ص) ان کی تمام کمزوریان اور بے ثباتیاں گنواتے رہے اور وہ لوگ برابر عذار خواہی کرتے رہے بالآخر ابن ابی الحدید اس مقام پر لکھتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے یہ ساری زجرو توبیخ عمر کے اوپر کی جب وہ آں حضرت(ص) کے وعدوں کو جھٹلا چکے تھے۔ پھر لکھتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ احد میں ضرور بھاگے ہوں گے کیونکہ آں حضرت(ص) نے عتاب فرماتے ہوئے اس کا بھی ذکر فرمایا ہے آپ حضرات ملاحظہ فرمائیے کہ یہی قضیہ جس کو ابن ابی الحدید وغیرہ کے ایسے بزرگ علماء لکھ چکے ہیں اگر ہم بیاں کریں تو آپ فورا دھر پکڑ کرنے اور ہم کو رافضی و کافر کہنے لگتے ہیں کہ ایسا کیوں کہتے ہو اور خلیفہ کی توہین کیوں کرتے ہو، لیکن ابن ابی الحدید اور انہیں جیسے دوسرے علماء پر کوئی اعتراض نہیں، یاد رکھئیے ہم جو کچھ کہتے ہیں توہین کی غرض سے نہیں کہتے بلکہ تاریخی واقعات کو نقل کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ آپ ہماری طرف سے بد گمانی رکھتے ہیں لہذا اس کا کوئی اثر نہیں لیتے۔

۵۹

اس موقع کے لحاظ سے عرب کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

وعين‏ الرضاعنك لعيبك ليلةكماأن عين السخط تبديالمساويا

یعنی عقیدت مند کی آںکھ ہر عیب سے چشم پوشی کرتی ہے لیکن چشم غضب خطائوں کو ڈھونڈ نکالتی ہے۔

قیامت کے روز آپ کے علماء پر ہمارے بہت سے استغاثے ہیں ضیا تو گزر جائے گی لیکن اللہ کے دربار عدالت میں آپ کو ہماری مظلومانہ فریاد کی جواب دہی کے لیے حاضری دینا ہوگی۔

حافظ : آپ پر کون سا ظلم ہوا ہے کہ قیامت کے روز داد خواہی کیجئے گا؟

خیر طلب: مظالم بہت اور ہتک حرمت کے واقعات کثرت سے ہیں۔ لیکن اگر سب سے چشم پوشی کر لی جائے تب بھی چونکہ میں صدیقہ مظلومہ جناب فاطمہ صلوات اللہ علیہا کی اولاد میں ہونے کا فخر رکھتا ہوں لہذا اپنے حق سے ہرگز دست بردار نہ ہوں گا اور جس روز محکمہ عدل الہی قائم ہوگا جس پر ہمارا اعتقاد ہے تو میں بہت سے ظلموں و زیادتیوں کو داد خواہی کروں گا اور یقین رکھتا ہوں کہ انصاف کیا جائے گا۔

حافظ : گذارش ہے کہ جذبات کو نہ ابھاریئے آپ کا کون سا حق مارا گیا ہے اور آپ پر کیا ظلم ہوا ہے یہ بیان کیجئے؟

خیر طلب : ظلم و تعدی اور ہماری حق تلفی کوئی آج ہی کے دن سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہمارے جد بزرگوار حضرت خاتم الانبیاء(ص) کی وفات کے بعد ہی سے اس کی بنا قائم کی گئی کیونکہ خدا ورسول(ص) نے ہماری جدہ مظلومہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ان کے بچوں کی پرورش کے لیے جو واجبی حق عطا کیا تھا اس کو غصب کر لیا گیا اور ان معصومہ(ع) کے نالہ وفریاد کا کوئی اثر نہیں لیا گیا، یہاں تک کہ وہ پیغمبر(ص) کی یادگار عفوان شباب ہی میں درد بھرے دل کے ساتھ دنیا سے اٹھ گئی۔

حافظ : میں عرض کرتا ہوں کہ جناب عالی بہت تیزی دکھا رہے ہیں اور جوشیلے جملے استعمال کر کے لوگوں میں بلاوجہ ہیجان پیدا کرتے ہیں۔ آخر فاطمہ رضی اللہ عنہا کا واجبی حق کیا تھا جو زبردستی چھین لیا گیا؟ اگر آپ اپنے برادران مومن کے سامنے اپنا دعوی ثابت نہ کرسکے تو محکمہ عدل الہی میں درجہ اولی ہرگز کامیاب نہ ہوسکتیں گے آپ سمجھئے کہ آجہی محکمہ عدل الہی قائم ہے لہذا اپنا دعوی ثابت کیجئے۔

خیر طلب: وہاں خدائی عدالت ہے ذاتی اغراض اور تعصب وغیرہ کی گنجائش نہیں لہذا سچا اور بے لوث فیصلہ ہوگا۔ اگر آپ حضرات بھی نگاہ انصاف سے رکھتے ہوں تو قاضی عادل کی طرح غیر جانبداری کے ساتھ میرے معروضات سنیئے یقین ہے کہ ہماری حقانیت کی تصدیق کیجئے گا۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394