پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 394
مشاہدے: 302330
ڈاؤنلوڈ: 7233

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302330 / ڈاؤنلوڈ: 7233
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=379&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=375&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں

مثلا اگر کسی عالم اور فقیہ کا انتقال ہوجاۓ اور چند بازاری لوگ جمع ہوکر ایک جاہل محض یا لسان آدمی کو اس کی جگہ بٹھا کر اس کے علم وفقہ کا ڈنکا پیٹنے لگیں تو کیا تمام انسانوں کا فرض ہوجاۓ گا کہ اس فقیہ نما جاہل یا لسان شخص کی تقلید کریں؟ خصوصا اگر تحقیق اور امتحان کے موقع پر یہ ثابت ہوجاۓ کہ فقاہت کے مسند پر بیٹھنے والا اس علم سے بالکل کورا ہے تو عقل و نقل کے حکم سے اس کی تقلید قطعا حرام ہے، کیونکہ عالم کی موجودگی میں جاہل کو مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔

پس جب علاوہ صریحی نصوص کے آپ کے اکابر علمائ کی روایتوں اور قاعدوں کیروسے علی علیہ السلام کا علمی حق ثابت ہوگیا تو امر خلافت میں بھی آپ کا حق محفوظ اور عقل و نقل کے نزدیک مسلم ہے اور باب علم رسول ہونے کے بعد آپ سے انحراف عقلی و نقلی دونوں حیثیتوں سے مذموم ہے۔

البتہ تاریخی واقعات کی حیثیت سے ہم تصدیق کرتے ہیں کہ وفاتِ رسول(ص) کے بعد ابوبکر دو سال تین ماہ پھر عمر دس سال اور ان کے بعد عثمان بارہ سال کی مدت تک مسند خلافت پربیٹھے اور ہر ایک نے اپنے اپنے وقت میں کچھ کام انجام دیئے لیکن یہ تمام باتیں عقل و نقل اور دلیل و برہان کو منسوخ نہیں کرتی ہیں جس سے ہم باب علم رسول(ص) حضرت علی علیہ السلام کو واقعی اور حقیقی طور پر ان سے موخر سمجھ لیں۔ کیونکہ اکابر علمائ جیسے شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب37 ص112 میں سورہ نمبر37(صافات) کی آیت 24"وَ قِفُوهُمْ‏ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ " ( یعنی ان لوگوں کو ( موقف حساب میں) ٹھہراؤ کیونکہ یقینا ان سے باز پرس کی جاۓ گی) کے ذیل میں فردوس دیلمی، ابونعیم اصفہانی، محمدابن اسحاق مطلبی صاحب کتاب مغازلی، حاکم، حموینی، خطیب خوارزمی اور ابن مغازلی سے جن میں سے بعض نے ابن عباس سے بعض نے ابو سعید خدری سے اور بعض نے ابن مسعود سے اور ان سب نے حضرت رسول اکرم صلعم سے نقل کیا ہے کہ:

" إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ‏ عَنْ وَلَايَةِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ"(یعنی ان لوگوں سے ولایت علی علیہ السلام کا سوال کیا جاۓ)

نیز سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص10 میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب62 میں ابن جریر سے اور انہوں نے ابن عباس سے اسی آیت کے ذیل میں روایت کی ہے کہ اس سے علی علیہ السلام کی ولایت مراد ہے۔

اطاعت علی(ع) کے لئے پیغمبر(ص) کا حکم

علاوہ ان چیزوں کے خداوند عالم آیت7 سورہ 59 ( حشر) میں حکم دے رہا ہے کہ"و ما أتاكم‏ الرسول‏ فخذوه و ما نهاكم عنه فانتهوا "(یعنی جو کچھ رسول اللہ نے تمہارے سپرد کیا ہے بلاتاخیر اس کو قبول کرو اور جس چیز سے منع کیا ہے اس سے بلاپس و پیش باز رہو۔)

۲۶۱

لہذا مسلمان مجبور ہیں کہ رسول خدا(ص9 نے جو حکم دیا ہے اس کی اطاعت کریں اور جب ہم آں حضرت(ص) کی ہدایات کی طرف توجہ کرتے ہیں تو( جیسا کہ آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہے) ہم کو نظر آتا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے ساری امت میں سے صرف علی علیہ السلام کو اپنا باب علم فرمایا ہے اور آپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ بلکہ آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے وابستہ قرار دیا ہے۔

چنانچہ امام احمد بن حنبل نے مسند میں، امام الحرم نے ذخائر العقبیٰ میں، خوارزمی نے مناقب میں، سلیمان حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، نیز دیگر علمائ نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"معشر الانصار ألا أدلكم على ما إن تمسکتم عليه لم تضلوا،بعدی ابدا قالوا بلیٰ قالهذا عليّ بن أبي طالب فاحبوه و اکرموه واتبعوه انه مع القرآن والقرآن معه انه یهدیکم الی الهدی ولایدلکم علی الردی، فان‏ جبرئيل‏ أخبرنى‏ بالذی قلته"

یعنی اے جماعت انصار کیا میں تم کو ایسی چیز کی طرف ہدایت نہ کروں کہ اگرتم اسسے تمسک اختیار کرو تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں فرمایئے آں حضرت(ص) نے فرمایا۔ یہ علی(ع) ہیں پس ان کو دوست رکھو، ان کی تعظیم و تکریم کرو اور ان کی پیروی کرو۔ کیونکہ یقینا یہ قرآن کے ساتھ اور قرآن ان کے ساتھ ہے۔ لازمی طور پر یہ تم کو راہ ہدایت کی طرف لے جائیں گے اور ہلاکت میں نہ پھنسائیں گے۔ اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے، حقیقتا جبریل نے مجھ کو اس کی خبر دی ہے۔

نیز آپ ہی کے اکابر علمائ نے یہ روایت ہم تک پہنچائی ہے، جیسا کہ گذشتہ کسی شب میں نے مع اسناد کے عرض کرچکا ہوں کہ رسول اکرم صلعم نے عمار یاسر سے فرمایا:

ان سلک الناس کلهم وادیا وسلک علی وادیا فاسلک وادی علی و خل عن الناس"

یعنی اگر سارے انسان ایک طرف جائیں اور علی(ع) ایک طرف، تو علی(ع) کے راستے پر چلواور لوگوں کا ساتھ چھوڑ دو۔

اور مختلف مقامات اور مختلف اوقات میں بارہاارشاد فرمایا ہے:

" ومن اطاع علیا فقد اطاعنی و من اطاعنی فقد اطاع الله"( یعنی جس نے علی(ع) کی اطاعت کی اس نے درحقیقت میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ہے۔) جو کو میں گذشتہ راتوں میں اسناد کے ساتھ تفصیل سے پیش کرچکا ہوں۔

اس قسم کی حدیثیں آپ کی معتبر کتابوں میں بھری پڑی ہیں اورتواتر معنوی کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں کہ آں حضرت(ص) نے اس کا حکم دیا ہے کہ علی(ع) کے پیرو بنو، علی(ع) کے راستے پر چلو اور دوسروں کا راستہ ترک کرو۔ لیکن اس کے برعکس آپ کی کتابوں میں ایک حدیث بھی ایسی نظر نہیں آئی جسمیں رسول خدا(ص) نے فرمایا ہو کہ میرے بعد راہ ہدایت کے رہبر یا میرے باب علم اور میرے وصی و خلیفہ ابوبکر یا عمر یاعثمان ہیں۔ اگر آپ نے کچھ حدیثیں ایسی دیکھی ہوں جو موضوع ( یک طرفہ اور بکری واموی گروہوں کی گڑھی ہوئی نہ ہوں تو مہربانی کر کے ان کا پتہ دیجئے میں انتہائی ممنون ہوں گا۔

اس صورتِ حال کے باوجود آپ کہتے ہیں کہ ہم علی علیہ السلام کو جو بارشاد رسول(ص) آں حضرت(ص) کے باب علم، ہادی برحق

۲۶۲

اور پیغمبر(ص) کے وصی وخلیفہ ہیں چوتھے درجے میں رکھیں آں حضرت(ص) نے آپ کی اطاعت و متابعت اور پیروی کے لئے جس قدر تاکید احکام صادر فرماۓ ہیں اور جن سے آپ کی کتابیں پر ہیں ان سب سے چشم پوشی کر کے بھیڑیا دھسان تاریخی عمل در آمد کر کے پیچھے لگ جائیں، اور ان اشخاص کی پیروی کریں جن کے بارے میں متفق علیہ احادیث کے اندر رسول اللہ(ص) کی کوئی ہدایت موجود نہیں ہے۔ آیا یہ ہر ممکن ہے؟ اور اگر ہم اس راستے پر چلیں تو کیا عقل و نقل کے سامنے ہمارا مضحکہ نہ اڑےگا؟ اور خدا کے یہاں ہم سے باز پرس نہ ہوگی؟ آیا آپ کی بات پر عمل کر کے ہم رسول اللہ(ص) اور آں حضرت(ص) کے احکام کی مخالفت میں گرفتار نہ ہوجائیں گے؟ ان امور کا فیصلہ ہم آپ حضرات کے شعور اورجذبہ انصاف پر چھوڑتے ہیں۔

علماۓ اہلِ سنت ہم سے ہم آہنگی نہیں چاہتے

چوتھے آپ نے فرمایا ہے کہ مذاہب اربعہ ( حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی) کے مانند ہم بھی آپ کے ساتھ مل کے رہیں، تو یہ بھی ہونے والا نہیں ہے کیوںکہ آپ لوگ بغیر کسی برہان و دلیل کے شیعوں اور عترت اور اہل بیت رسول(ص) کے پیروؤں پر تہمت و افترا کر کے ان کو رافضی، مشرک اور کافر کہتے ہیں اور بدیہی چیز ہے کہ مشرک اور مومن کے درمیان حقیقی اتحاد ممکن نہیں ورنہ تمام حنفی، حنبلی اور شافعی برادران اہل سنت کےساتھ اتحاد و اتفاق رکھنے اور عملی تعاون کرنے کے لئے ہم دل سے تیار ہیں۔ البتہ شرط یہ ہے کہ استدلال کے ساتھ مذہبی عقائد اور حقائق کو واضح کرنے میں ہم اور آپ سب آزاد ہیں اور ایک دوسرے کی کوئی مزاحمت نہ کریں۔ جس طرح چاروں مذاہب کے پیرو اپنے عمل میں آزاد ہیں اسی طرح عترت پیغمبر(ص) کا اتباع کرنے والے شیعہ بھی اپنے اعمال میں آزاد رہیں لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے مذاہب اربعہ کے اندر اس قدر شدید اختلاف موجود ہیں کہ بعض لوگ ایک دوسرے کو کافر و فاسق تک کہتے ہیں، پھر بھی آپ ان سب کو مسلمان سمجھتے اور عمل کی آزادی دیتے ہیں، لیکن بیچارے شیعوں کو مشرک اور کافر کہہ کے جماعت مسلمین سے نکال باہر کرتے اور عمل و عبادت کی آزادی ان سے چھین لیتے ہیں۔ ایسی صورت میں اتحاد و موافقت کی کیا امید ہوسکتی ہے؟

خاک پر سجدہ کرنےسے اختلاف

اب یہی دیکھئے کہ خاک پر سجدہ کرنے کے سلسلے میں آپ کس قدر ہنگامہ اور انقلاب برپا کرتے ہیں کہ خاک اور تربت کو عوام کی نگاہوں میں بت ثابت کرتے ہیں اور موحد و خدا پرست شیعوں کو بت پرست کہتے ہیں حالانکہ ہم خدا و رسول(ص) کے حکم اور اجازت سے خاک پر سجدہ کرتے ہیں، اس لئے کہ قرآن مجید کی آیتوں میں سجدے کا حکم دیا گیا ہے اور آپ خود

۲۶۳

جانتے ہیں کہ سجدے کا مطلب ہے پیشانی زمین پر رکھنا۔ البتہ ہمارے اور آپ کے درمیان سجدے کے طریقے میں اختلاف ہے کہ کس چیز پر سجدہ کرنا چاہیئے۔

شیخ: پھر آپ تمام مسلمانوں کے مانند کس لئے سجدہ نہیں کرتے تاکہ اختلاف پیدا نہ ہو اور یہ بدظنی ختم ہوجاۓ۔

خیر طلب: سب سے پہلے تو یہی بتائیے کہ آپ یعنی حنفی حضرات فروعات بلکہ اصول میں بھی شافعیوں، مالکیوں اور حنبلیوں سے آخر اس قدر اختلاف کیوں رکھتے ہیں کہ کبھی کبھی ایک دوسرے کو فاسق فاجر اور کافر کہنے کی بھی نوبت آجاتی ہے؟ بہتر ہوگا کہ سب مل کر آپس میں ایک عقیدہ پیدا کیجئے تاکہ یہ اختلافات پیدا نہ ہوں۔

شیخ: بات یہ ہے کہ فقہائ کے فتاوی میں اختلاف ہے اور ہم میں سے جو فرقہ امام شافعی، امام اعظم، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم میں سے جس فقیہ کی پیروی کرے اس کو اجر و ثواب حاصل ہوگا۔

تاثر کے ساتھ اعلان حقیقت

خیر طلب: آپ خدا کی قسم اںصاف کیجئے کہ جن فقہاۓ اربعہ کی پیروی پرسوا علم و دانش اور احکام "بلیبرس" کی کورکورانہ" تقلید کے ( جیسا کہ علامہ مقریزی نے خطط میں نقل کیا ہے) اور کوئی دلیل موجود نہ ہو ان کا اتباع تو اجر و ثواب رکھتا ہو( چاہے اصول وفروع میں ان کے درمیان کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو) لیکن وہ ائمہ عترت طاہرہ اور اہل بیت رسالت(ع) جن کے علم و دانش اور فقہ وتقویٰ کے اعلیٰ مدارج پر خود آپ کے اکابر علمائ بھی ایمان رکھتے ہیں اور علاوہ اسکے ان مقدس ہستیوں کے بارے میں حضرت رسول خدا صلعم کے صریحی نصوص و احادیث یہ ثابت کرچکے ہیں کہ یہ حضرات عدیل قرآن ہیں اور ان کی متابعت میں نجات اور مخالفت میں ہلاکت ہے، ان کی اطاعت و پیروی شرک اور کفر بن جاۓ؟ پس آپ کو تصدیق کرنا چاہیئے کہ یہ مخالفتیں باہمی اختلافات کی بنا پر نہیں ہیں بلکہ عترت و اہل بیت طاہرین علیہم السلام سے بغض و نفرت رکھنے کی وجہ سے ہیں اور یہ اس وقت تک دور نہیں ہوسکتیں جب تک نفس کو اخلاق رذیلہ اور صفات ذمیمہ سے پاک اور دل کو بغض حسد اور کینے سے صاف کر کے اس میں اںصاف کا جذبہ پیدا کیا جاۓ ورنہ آپ کے مذاہب اربعہ کے درمیان تو اصول اور طہارت سے لے کر تا دان و قصاص تک جملہ فروعی احکام کے اندر اس قسم کے اختلافات کثرت سے موجود ہیں، باوجودیکہ آپ کے فقہائ اور ائمہ اربعہ کے اکثر فتوے قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ہیں پھر بھی آپ ان فتوے دینے والوں اور ان پر عمل کرنے والوں سے کوئی بدظنی نہیں رکھتے، لیکن جماعت شیعہ کو جو بحکم قرآن مجید پاک مٹی پر سجدہ کرتی ہے مشرک، کافر اور بت پرست کہتے ہیں۔

شیخ: کس مقام پر فقہاۓ اہل سنت اور ائمہ اربعہ رضی اللہ عنہم نے قرآن مجید کے خلاف فتوی دیا ہے؟ اگر یہ محض زبانی

۲۶۴

باتیں نہیں ہیں بلکہ کچھ حقیقت ہے تو مہربانی کر کے بیان فرمائیے۔

خیر طلب: اکثر مسائل میں ںص صریح بلکہ جمہور امت کے برخلاف حکم دیا گیا ہے جن کی پوری تفصیل پیش کرنے کا وقت نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ خود آپ ہی کے علمائ نے چاروں مذاہب کے درمیان اختلافی مسائل پر کافی کتابیں لکھی ہیں، بہتر ہوگا کہ آپ شیخ الطائفہ ابوجعفر محمد ابن حسن ابن علی ابن طوسی قدس سرہ کی عظیم المرتبت کتاب "مسائل الخلاف فی الفقہ" کا مطالعہ فرمائیے جس میں انہوں نےفقہاۓ اسلام کے سارے اختلافات کو باتطہارت سے لے کر باب دیات تک بغیر کسی تعصب اور جانب داری کے جمع کر کے اہل علم کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ان سب کو نقل کرنا تو ممکن نہیں ہے لیکن نمونے اور مطلب کو صاف کرنے کے لئے تاکہ حضرات اہل جلسہ کو یہ معلوم ہوجاۓ کہ نہ ہم زبانی باتیں کرتے ہیں اور نہ غلط الزامات عائد کرتے ہیں مختصر طور پر ایک مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہوں، جس سے ظاہر ہوجاۓ گا کہ اسی کے اندر قرآن مجید کی نص صریح کےبرخلاف فتوی دیا گیا ہے۔

شیخ: فرمائیے، کون سا مسئلہ ہے جس میں برعکس فتوی دیا گیا ہے؟

پانی نہ ہو تو غسل و وضو کے بدلے تیمم کرنا چاہیئے

خیرطلب: آپ حضرات خود جانتے ہیں کہ باب طہارت کا یہ ایک مسلمہ مسئلہ ہے کہ غسل اور وضو سنتی ہو یا واجب، خالص پانی سے ہونا چاہیئے۔ آیت نمبر8 سورہ نمبر5( مائدہ) میں ارشاد ہے:

"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ‏ إِلَى‏ الصَّلاةِ- فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرافِقِ"

یعنی جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے چہروں کو اور ہاتھوں کو مع کہنیوں کے دھوؤ۔

مطلب یہ کہ پاک وخالص پانی سے وضو کرو، اورجس موقع پر ایسا پانی دستیاب نہ ہوتو آیت نمبر46 سورہ نمبر4 ( نسائ) میں حکم ہوتا ہے:

" فَلَمْ‏ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ‏"

یعنی اگرپانی نہ پاؤتو پاک مٹی پر تیمم کرو پس اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرو۔

لہذا خاک پاک سے تیمم کرنا چاہیئے ان دونوں صورتوں کے علاوہ کوئی تیسرا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ پہلے درجے میں وضو کے لئے پانی ضروری ہے اور دوسرے درجے میں جب پانی نہ ملے یا کوئی اور مانع ہو تو سفر میں ہو یا حضر میں اس کے عوض پاک مٹی سے تیمم فرض ہے۔ اور اس حکم میں سارے فقہاۓ اہل اسلام متفق ہیں چاہے وہ شیعہ اثنا عشری جماعت کے ہوں یا مالکی، شافعی اور حنبلی۔

۲۶۵

ابوحنیفہ کا فتویٰ کہ مسافر کو پانی نہ ملے تو نبیذ سے غسل و وضو کرے

لیکن آپ کے امام اعظم ابوحنیفہ ( جن کے اکثر فتوے قیاس یعنی بے سوادی کی بنیاد پر ہیں) حکم دیتے ہیں کہ سفر میں اگر پانی نہ ملے تو نبیذ خرما سے غسل اور وضو کیا جاۓ۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیںکہ نبیذ ایک ایسی رقیق چیز ہے جس میں خرمے وغیرہ کا عرق شامل ہوتا ہے اور مضاف شئی سے وضو کرنا چائز نہیں ہے پس یہ دیکھتے ہوۓ کہ قرآن مجید نے نماز کے لئے خالص اور پاک پانی کو اور پانی نہ ملنے کی صورت میں پاک مٹی سے تیمم کو ذریعہ طہارت قرار دیا ہے، جب امام اعظم ابوحنیفہ نے نبیذ سے غسل و وضو کا فتوی دیا تو یہ یقینا ایک حکم صریح اور کھلی ہوئی نص قرآنی کی مخالفت ٹھہری۔ در آںحالیکہ بخاری نے اپنی صحیح میں ایک باب کا عنوان ہی یہ رکھا ہے کہ"لا یجوز الوضوء بالنبیذ والمسکر " ( یعنی نبیذ اور نشے والی چیز سے وضو جائز نہیں)

حافظ : باوجودیکہ میں امام شافعی رضی اللہ عنہ کے مذہب پر ہوں اور آپ کے بیان سے پورے طور پر متفق ہوں کہ اگر پانی نہ ہوتو تیمم کرنا چاہیئے اور ہمارے مذہب میں نبیذ سے طہارت جائز نہیں ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ فتوے صرف شہرت کی بنا پر امام ابوحنیفہ رضی اللہ سے منسوب ہوگیا ہے۔

خیر طلب: قطعا جناب عالی نے اصل حقیقت سے واقف ہونے کے بعد یہ عذر بارز پیش کیا ہے ورنہ یہفتوی امام ابو حنیفہ سے تواتر کے ساتھ منقول ہے چنانچہ فی الحال اس قدر میرے پیش نظر ہے کہ فخرالدین رازیتفسیر مفاتیح الغیب جلد سوم ص553 میں بسلسلہ آیت تیمم ( سورہ مائدہ) مسئلہ پنجم میں کہتے ہیں:

" قال الشافعی رحمه الله لایجوزالوضوءبنبیذالتمر و قال ابوحنیفه رحمه الله یجوزذالک فی السفر"

( یعنی شافعی نے کہا ہے کہ وضو نبیذ سے جائز نہیں اور ابوحنیفہ کا قول ہے کہ یہ سفر میں جائز ہے۔)

نیز بہت بڑے فلسفی ابن رشد نے ہدایتہ المجتہد میں ابو حنیفہ کے اس فتوے کو نقل کیا ہے۔

شیخ: آپ کیونکر فرما رہے ہیں کہ نص کے خلاف فتوی دیا ہے، حالانکہ بعض روایتیں صراحت کے ساتھ رسول خدا(ص) کے عمل سے اس کو ثابت کرتی ہیں؟

خیر طلب: ہوسکتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی روایت نظر میں ہوتو بیان فرمائیے۔

شیخ: من جملہ ان کے ایک روایت ہے جس کو عمرو بن حریث کا غلام ابوزید عبداللہ ابن مسعود سے نقل کرتا ہے کہ:

" أنرسول الله (صلّى اللّه عليه و آله) قال فی ليلة الجن عندک طهور قال لا الا شئی من نبیذ فی اداوة قال تمرة طيبة و ماء طهور فتوضا"

یعنی رسول خدا صلعم نے لیلتہ الجن میں اس سے فرمایا کہ تمہارے پاس پانی

۲۶۶

ہے؟ اس نے کہا نہیں، البتہ ظرف آب میں صرف تھوڑی سی نبیذ ہے۔ آں حضرت(ص)نے فرمایا خرما بھی پاک اور پانی بھی پاک یہ کہہ کر آپ نے وضو فرما لیا۔

اور ایک دوسری روایت ہے کہ عباس ابن ولید ابن صبیح الحلال دمشقی نے مران بن محمد طاہری دمشقی سے، اس نے عبیداللہ بن لہیعہ سے، اس نے قیس بن حجاج سے، اس نے خش صنعانی سے، اس نے عبداللہ بن ولید سے اور انہوں نے عبداللہ ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

" أن رسول الله (صلّى اللّه عليه و آله) قال له ليلة الجن معک ماء قال لا الا نبیذا فیسطحة قال رسول الله تمرة طيبة و ماء طهور صب علی قال فصبت علیه فتوضا به"

یعنی رسول اللہ(ص) نے لیلتہ الجن میں ان سے فرمایا کہ تمہارے ساتھ پانی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں، البتہ توشہ دان میں نبیذ موجود ہے، رسول اللہ(ص) نے فرمایا کہ پاکیزہ خرما اور پاک پانی ہے، اس کو میرے اوپر گراؤ، پس میں نے آں حضرت(ص) کے اوپر اس کو گرایا اور آپ نے اس سے وضو فرمایا۔

بدیہی چیز ہے کہ رسول خدا(ص) کا عمل ہمارے لئے حجت ہے اور کون سی نص اور دلیل آں حضرت(ص) کے عمل سے بہتر ہوسکتی ہے؟ یہی سبب ہے کہ ہمارے امام اعظم نے عمل پیغمبر(ص) کےروسے اس کے جواز کا فتوی دیاہے۔

خیر طلب: میرا خیال ہے کہ آپ خاموش رہے ہوتے تو ایسا بیان دینے سے بہتر ہوتا۔ اگرچہ میں شکرگذار ہوں کہ آپ نے دلیل قائم فرما دی تاکہ مطلب زیادہ بہتر طریقے سے صاف ہوسکے اور برادران اہل سنت اچھی طرح جان لیں کہ ان کے پیشوا غلط فہمی کے شکار ہیں اور ا نہوں نے بغیر تحقیق کے صرف قیاس کے روسے حکم دیا ہے۔نیز یہ کہ حق ہمارے ساتھ ہے مناسب ہوگا کہ پہلے ہم حدیث کے روات و اسناد کے بارے میں بحث کریں پھر اصل موضوع کے اوپر آئیں۔ اولا ابوزید غلام عمرو بن حریث کا حال معلوم نہیں اور یہ محدثین کے نزدیک مردود ہے جیسا کہ ترمذی وغیرہنے نقل کیا ہے، بالخصوص ذہبی میزان الاعتدال میں کہتے ہیں کہ یہ شخص پہچانا نہیں گیا اور یہ حدیث جو عبداللہ ابن مسعود سے مروی ہے صحیح نہیں ہے۔ حاکم کہتے ہیں کہ اس مجہول آدمی سے سوا اس کے اور کوئی حدیث منقول نہیں ہے، اور بخاری نے اس کو غیر معتبر راویوں میں شمار کیا ہے اسی وجہ سے قسطلاانی اور شیخ زکریا اںصاری جیسے آپ کے اکابر علمائ نے اپنی صحیح بخاری کی شرحوں میں باب لا یجوز الوضوء بالنبیذ ولا المسکر کے ذیل میں اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اور دوسری حدیث بھی کئی طریقوں سے مردود ہے۔

اول یہ کہ اس حدیث کو اس طریق سے سوا ابن ماجہ کے اور کسی عالم نے نقل نہیں کیا ہے۔

دوسرے اس کو اکابر علمائ نے اس وجہ سے اپنے سنن میں نقل نہیں کیا ہے کہ اس کے راویوں کا سلسلہ مجروح و مخدوش اور ناقابل اعتبار ہے۔ چنانچہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں متعدد اقوال نقل کئے ہیں کہ عباس ابن ولید قابل اعتماد نہیں ہے، اسی وجہ سے ارباب جرح ، تعدیل نے اس کو ترک کردیا ہے۔ نیز مروان بن محمد طاہری فرقہ مرجیہ کے گمراہوں میں سے

۲۶۷

تھا۔ جس کو ابن حزم اور ذہبی نے ضعیف ثابت کیا ہے۔ اور اسی طرح عبداللہ بن لہیعہ کو بھی بڑے بڑے علمائ جرح و تعدیل نے ضعیف قرار دیا ہے۔ پس جب کسی حدیث کے سلسلہ روات میں اس قدر ضعف اور فساد موجود ہو کہ خود آپ ہی کے اکابر علمائ اس کو متروک قرار دیں توقطعی طور پر خود بخود وہ حدیث درجہ اعتبار سے ساقط ہوجاتی ہے۔

تیسرے آپ کے علمائ نے جو روایتیں عبداللہ ابن مسعود سے نقل کی ہیں، ان کی بنا پر لیلتہ الجن میں کوئی شخص آں حضرت(ص) کےساتھ تھا ہی نہیں۔ چنانچہ ابوداؤد نے اپنی سنن ( باب الوضوء) میں اور ترمذی نے اپنی صحیح میں علقمہ سے نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود سے پوچھا گیا:

" من كان منكم مع النبي صلى الله عليه و آله ليلة الجن‏؟ فقال: ما كانمعه أحد منا "

یعنی لیلتہ الجن میں رسول اللہ(ص) کے ساتھ آپ لوگوں میں سے کون تھا؟ انہوں نے کہا ہم میں سے کوئی بھی آں حضرت کے ساتھ نہیں تھا۔

چوتھے لیلتہ الجن مکے میں ہجرت سے قبل گزری ہے اور جملہ مفسرین کا اتفاق ہے کہ آیت تیمم مدینے میں نازل ہوئی پس یہ حکم یقینا سابق حکم منسوخ کرتا ہے، اور اسی بنا پر آپ کے بڑے بڑے فقہائ جیسے امام شافعی اور امام مالک وغیرہ نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے۔

اس کے برعکس مدینے میں اس آیت کے نازل ہونے اور یہ حکم آنے کے بعدکہ سفر ہو یا حضر اگر پانی دستیاب نہ ہو تو حتمی طور پر تیمم کرنا چاہیئے، ایک ایسی جعلی حدیث کی بنیاد پر جس کے راویوں کا سلسلہ بھی مجہول الحال اور ضعیف ہو نبیذ سے وضو کرنے کا فتوی انتہائی تعجب خیز ہے اور اس سے زیادہ عجیب جناب شیخ صاحب کا ارشاد ہے کہ مجہول و ضعیف روایتوں کو قرآن مجید کے مقابلہ میں نص قرار دیتے ہیں اور اسی قاعدے کے روسے نص قرآنی کے خلاف ابوحنیفہ کے اجتہاد کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

نواب: قبل صاحب ! کیا نبیذ خرما سے وہی نشہ آور شراب مراد ہے جس کا پینا حرام ہے؟

خیر طلب: نبیذ دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک قسم حلال ہے جس میں نشہ نہیں ہوتا اور یہ وہ پانی ہے جس میں خرمے ڈال دۓ جاتے ہیں تاکہ خوش مزا ہوجاۓ۔ جب وہ تہ نشین ہوجاتے ہیں تو اوپر صاف پانی رہ جاتا ہے جو ایک طرح کا آپ مضاف ہوتا ہے اور اسی کو نبیذ کہتے ہیں یعنی خرمے کا نچوڑا ہوا شربت۔ اور دوسری قسم حرام ہے جس میں نشہ ہوتا ہے اسوقت ہمارا موضوع بحث جس کے جواز کا امام ابوحنیفہ نے فتوی دیا ہے وہ نبیذ جو نشہ آور اور پکائی ہوئی نہ ہو۔ ورنہ نشہ آور شراب سے وضو کرنا تو بالاتفاق حرام ہے۔

چنانچہ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ بخاری نے اپنی صحیحین میں ایک باب ہی اس عنوان سے قائم کیا ہے کہ "لایجوز الوضوء بالنبیذ ولا المسکر " ( یعنی نبیذ اور نشہ آور چیز سے وضو کرنا جائز نہیں۔)

۲۶۸

وضو میں نص کے خلاف پاؤں دھونے کا فتویٰ

من جملہ ان مسلمہ قواعد کے جن کو مذکورہ بالا آیت وضو میں ہدایت کی گئی ہے چہرہ اور ہاتھوں کو دھونے کے بعد سر اور کعبین یعنی پشت قدم کی بلندی تک پاؤں کا مسح کرنا ہے۔ چنانچہ صاف طور پر ارشاد ہے:

" وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلَى‏ الْكَعْبَيْنِ"

یعنی مسح کرو اپنے سروں کا اور پشت قدم کی بلندی تک پاؤں کا۔

لیکن آپ کے سارے فقہائ اس نص صریح کے برخلاف پاؤں دھونے کا فتوی دیتے ہیں۔ حالانکہ دھونے اور مسح کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔

شیخ: بہت سی روایتیں پاؤں کے دھونے پر دلالت کرتی ہیں۔

خیر طلب: اول تو روایتیں اسی وقت قابل قبول ہیں جب نص کے موافق ہوں۔ ورنہ اگر نص کی مخالف ہوں تو قطعا مردود ہیں، بدیہی چیز ہے کہ آیت قرآنی کی نص صریح کو خبر واحد سے منسوخ کرنا جائز نہیں ہے۔ اور آیہ شریفہ کی نص صریح دھونے کا نہیں بلکہ مسح کرنے کا حکم دے رہی ہے۔ ا گر آپ حضرات تھوڑی توجہ سے کام لیں تو سمجھ میں آجاۓ کہ اس آیت کا مضمون خود ہی اس مطلب پر دلالت کر رہا ہے، کیونکہ شروع میں فرماتا ہے"فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ "(یعنی دھوؤ اپنے چہروں اور ہاتھوں کو ۔ پس جس طرح آپ واو عطف کی وجہ سے ایدیکم میں حکم لگاتے ہیں کہ چہرہ دھونے کے بعد ہاتھوں کو بھی دھونا چاہیئے، اسی طرح حکم ثانی میں ارشاد ہے"وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ " جس میں"أَرْجُلَكُمْ "کو "بِرُؤُسِكُمْ " کا معطوف قرار دیا گیا۔ یعنی سر کے مسح کے بعد اپنے پاؤں کا بھی مسح کرو۔ ظاہر ہے کہ دھونا ہرگز مسح کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ پس جس صورت سے وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو دھونا واجب ہے اسی صورت سے سر اور پاؤں کا مسح کرنا بھی واجب ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک مسح کریں اور دوسرے کو دھوئیں کیوں کہ ایسا کرنے سے واو عطف بے کار و بے معنی ہوجاۓ گا۔

علاوہان کھلے ہوۓ، مطالب کے عرف عام کے قاعدے سے اسلام کی شریعت مقدسہ انتہائی سہولتیں لے کر آئی ہے اور اس کے احکام سختی اور مشقت سے محفوظ رکھے گئے ہیں اور ہر عقلمند بہ خوبی سمجھتا ہے کہ پاؤں کو دھونے میں جو مشقت ہے وہ مسح کرنے میں نہیں ہے۔ لہذا قطعی طور پر عمل مسح کے آسان تر ہونے کی وجہ سے شریعت کا حکم اسی کے اوپر جاری ہوا ہے، جیسا کہ آیت کا انداز کلام بھی یہی بتا رہا ہے۔ اور امام فخرالدین رازی نے بھی جو آپ کے اکابر مفسرین میں سے ہیں اسی آیہ شریفہ کے ذیل میں ظاہر کلام کے مطابق مسح کے واجب ہونے پر ایک مفصل بیان دیا ہے۔ جس کو تفصیل سے پیش کرنے کی وقت میں گنجائش نہیں، آپ خود اس کی طرف رجوع فرمائیں تاکہ آپ کے سامنے حقیقت واضح ہوجاۓ۔

۲۶۹

نص صریح کے خلاف موزے پر مسح کرنے کا فتویٰ

اور پاؤں دھونے سے بھی زیادہ عجیب باختلاف فقہاۓ اہل سنت سفر میں یا حضر میں یا صرف سفر میں موزے اور جراب پر مسح کرنے کا فتوی ہے، یہ حکم علاوہ اس کے کہ قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ہے( کیونکہ قرآن نے موزے اور جراب پر نہیں بلکہ پاؤں پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے)آپ کے پہلے حکم یعنی پاؤں دھونے کے بھی خلاف ہے، اس لئے کہ جب خود پاؤں کا مسح جائز نہیں ہے اور دھونا ضروری ہے تو اس مقام پر کیوں تخفیف کی گئی کہ بجاۓ دھونے کے موزے اورجراب پر مسح کرنا جائز کردیا گیا ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ موزے اور جراب کا مسح پاؤں کا مسح نہیں بن سکتافاعتبروا یا اولی الابصار

شیخ : بہت سی روایتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے موزوں کے اوپر مسح فرمایا ہے لہذا فقہاء نے اسی عمل کو جواز کی دلیل سمجھا۔

خیر طلب: میں باربار اس حقیقت کی طرف اشارہ کرچکا ہوں کہ ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق جو روایت آں حضرت(ص) سے منقول ہو اور قرآن مجید سے مطابقت نہ کرتی ہو وہ مردود ہے، اس لئے کہ جعلساز اور شعبدہ باز لوگوں نے دین میں خلل ڈالنے کے لئے بکثرت روایتیں گڑھ کے آں حضرت سے منسوب کی ہیں، چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علمائ نے بھی ایسی بہت سی روایتوں کو رد کردیا ہے جو پیغمبر(ص) کے نام سے منقول ہیں لیکن معیار پر پوری نہیں اترتیں۔

علاوہ اس کے کہ یہ روایتیں نص صریح کے خلاف ہیں ان کے درمیان غیر معمولی تضاد بھی موجود ہے جس کا اقرار خود آپ کے اکابر علمائ نے بھی کیا ہے۔مثلا حکیم دانش مند ابن رشد اندلسی بدایتہ المجتہد و نہایتہ المقتصد جلد اول ص15،16 میں اختلاف کا تذکرہ کرتے ہوۓ کہتے ہیں:

"سبب اختلافه متعارض الاخبارفی ذالک " ( یعنی ان کے اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اس بارے میں روایتیں ایک دوسرے کی معارض ہیں) نیز کہتے ہیں: "السبب فی اختلافهم اختلاف الاثار فی ذالک " ( یعنی ان کے اختلاف کا سبب اسبارے میں روایات کا اختلاف ہے) پس ایسے اخبار و احادیث کے ذریعے استدلال و استناد جو آپس میں ایک دوسرے کی ضد بھی ہوں اور قرآن کی نص صریح کے خلاف بھی، عقلی اور نقلی دونوں حیثیتوں سے مرودو اور ناقابل قبول ہے، کیونکہ آپ خود بہتر جانتے ہیں کہ جو روایتیں آپس میں ایک دوسرے کی مخالف ہوں ان میں سے صرف وہی روایت قابل قبول ہوتی ہے جو قرآن مجید سے موافقت کرتی ہو، اور اگر ان میں سے کوئی روایت بھی قرآن سے مطابقت نہ رکھتی ہو بلکہ نص صریح کے خلاف ہو تو سب ساقط اور متروک ہیں۔

۲۷۰

نص صریح کے خلاف عمامے پر مسخ کرنے کا حکم

نیز اسی آیہ شریفہ میں صاف طور پر ارشاد ہے" وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ " ( یعنی چہرہ اور ہاتھ دھونے کے بعد) اپنے سروں کا مسح کرو) اسی قرآن اصول کی بنیاد پر ائمہ عترت طاہرہ کی پیروی کرتے ہوۓ فقہا شیعہ امامیہ نے اور اسی طرح فقہاۓ شافعی و مالکی و حنفی وغیرہ نے فتوی دیا ہے کہ مسح سر پر ہونا چاہیئے۔ لیکن امام احمد بن حنبل، اسحق،ثوری اور اوزاعی کا فتوی ہےکہ عمامے اور مسح کرنا جائز ہے،جیسا کہ امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں نقل کیا ہے حالانکہ ہر عقلمند سمجھتا ہے کہ عمامے کے اوپر مسح کرنا دوسری شے ہے اور سر کے اوپر مسح کرنا دوسری، کیونکہ سر سے مراد اس کا گوشت وپوست، استخوان اور وہ بال ہیں جو اس سے متصل ہوں اور عمامہ ایک بنا ہوا کپڑا ہے جو سر پر رکھا جاتا ہے۔ ع

ببین تفاوت رہ از کجاست تابہ کجا

خاص توجہ اور منصفانہ فیصلے کی ضرورت ہے

اسی طریقے سے طہارت سے دیات تک جملہ احکام شروع میں آپ کے فقہائ اور ائمہ اربعہ کے درمیان سخت اختلافات موجود ہیں جن میں سے اکثر آیات قرآن کی نص صریح کے خلاف ہیں پھر بھی آپ ایک دوسرے کے شاکی نہیں ہیں اور سب اپنے اپنے اعمال میں پوری طرح آزاد ہیں۔

نہ آپ ابوحنیفہ اور حںفیوں کو مشرک کہتے ہیں جو اصول شرع کے برخلاف نبیذ سے طہارت اور وضو کا فتوی دیتے ہیں اور نہ دیگر فقہا کے ان فتاوی کو مردود سمجھتے ہیں جوآپس میں ایک دوسرے کے مخالف اور نصوص قرآن کے برعکس ہیں لیکن شیعہ کے اعمال پر جو عترت طاہرہ اور اہل بیت رسالت علیہم السلام سے صادر ہوۓ ہیں نکتہ چینی اور اعتراض کرتے ہیں بلکہ اس جلیل القدر اور عدیل قرآن خاندان کے پیروؤں کو رافضی، مشرک اور کافر بھی کہتے ہیں۔

چنانچہ اسی جلسہ کے اندر گذشتہ راتوں میں آپ نے باربار فرمایا ہے کہ شیعوں کے اعمال ان کے شرک کی دلیل ہیں۔

فرمارہے ہیں کہ مسلمانوں کی طرح نماز کیوں نہیں پڑھتے ہو؟ حالانکہ ہم آپ کے اور تمام مسلمانوں کے ساتھ اصل نماز میں جو صبح کی دو رکعت مغرب کی تین رکعت اور ظہر و عصر و عشائ کی چار رکعت ہے۔ یعنی شب و روز میں کل سترہ(17) رکعتیں فرض ہیں، یکساں طور پر شریک عمل ہیں۔ رہے فروعی اختلافات تو یہ مسلمانوں کے سبھی فرقوں کے درمیان کثرت سے پاۓ جاتے ہیں۔

۲۷۱

جس طرح سے ابوالحسن اشعری اور واصل بن عطا کے درمیان اصول و فروغ میں کھلا ہوا اختلاف موجود ہے نیز آپ کے ائمہ اربعہ( ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل) اور دوسرے بڑے بڑے فقہائ جیسے حسن، داؤد، کثیر، اوزاعی، سفیان ثوری، حسنبصری اور قاسم بن سلام وغیرہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں اسی طرح ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے ارشادات بھی آپ کے فقہائ کے بیانات سے الگ ہیں۔ اگر فقہائ کے فتاوی اور اختلاف آراء پر اعتراض کیا جاسکتا ہے تو یہی اعتراضات آخر اہل سنت کے مختلف فرقوں پر کیوں وارد نہیں ہوتے؟

باوجودیکہ یہ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ زیادہ تر فتوےٰ قرآن کی نص صریح کے خلاف دیتے ہیں۔ واضح نصوص کی پھسپھسی کرتے ہیں اور دوسرے فقہاء ان کے برعکس راۓ دیتے ہیں جیسا کہ میں ایک نمونہ پیش کرچکا ہوں،پھر بھی ان کے فتوی اور عمل کو ان کے شرک اور کفر کی دلیل نہیں سمجھتے۔ لیکن عمل سجدہ کے سلسلے میں دیگر فروعی اختلافات کے مانند ہمارے اور آپ کے درمیان فتوی اور راۓ میں جو اختلاف ہے اس پر آپ یہ شور و غل اور ہنگامہ برپا کرتے ہیں کہ شیعہ بت پرست ہیں۔ ساتھ ہی اپنے یہاں کے اس فتوے کو باکل ںظر انداز کردیتے ہیں کہ سوکھے ہوۓ فضلے اور غلیظ پر سجدہ کرنا جائز ہے۔ حالانکہ اگر نگاہِ انصاف سے جائزہ لیجئے تو ائمہ طاہرین علیہم السلام کی پیروی میں شیعہ فقہا کے فتوی فقہاۓ اہل سنت کے فتاوی سے کہیں زیادہ قرآن مجید کے صریحی نصوص سے قریب ہیں۔ مثلا آپ کے فقہاء اونی، سوتی، ریشمی، چرمی اور موم جامہ وغیرہ کے فروش کو جو زمین پر بچھے ہوۓ ہوں جزئ زمین سمجھتے ہیں، ان پر سجدہ کرتے ہیں اور ان کے جواز کا فتوی دیتے ہیں، حالانکہ کسی قوم و ملت کے صاحبان عقل وعلم سے پوچھئے کہ آیا اون، سوت اور ریشم وغیرہ سے بنے ہوۓ فرش جزئ زمین ہیں اور ان پر زمین کا اطلاق ہوتا ہے؟ تو ان کا جواب نفی میں ہوگا، بلکہ ایسا کہنے والوں کی عقل پر ہنس دیں گے لیکن جب شیعہ قوم ائمہ اہل بیت طاہرین علیہم السلام کے اتباع میں کہتی ہے کہ:

" لا يجوز السجود إلّا على الأرض او على ما انبته الأرضبما لایؤكل ولایلبس‏"

یعنی سوا زمین کے یا اس چیز کے جو زمین سے روئیدہ ہوئی ہو اور کھانے یا پہننے کے کام میں نہ آتی ہو اور کسی چیز پر سجدہ جائزہ نہیں) تو آپ اس پر حملے کرتے ہیں اور اس کو مشرک کہتے ہیں اور دوسری طرف خشک نجاست کے اوپر بھی سجدہ کرنے کو نہیں سمجھتے۔ بدیہی چیز ہے کہ زمین پر سجدہ کرنا( جیسا کہ خدا کا حکم ہے) اور فروش کے اوپر سجدہ کرنا ایک دوسرے سے الگ چیزیں ہیں۔

شیخ: آپ لوگ سجدے کو خاک کربلا کے ٹکڑوں سے مخصوص قرار دیتے ہیں، اس خاک سے بتوں کے مانند تختیاں بناکر اپنی بغلوں میں دباۓ رہتے ہیں اور ان پر سجدہ کرنا واجب جانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ عمل مسلمانوں کے دستور اور طریقے کے خلاف ہے۔

خیر طلب: آپ نے یہ جملہ قطعا اپنی اسی عادت کی بنا پر جو بچپن سے آپ کے دماغ میں راسخ کردی گئی ہے اور وہ آپ کی طبیعت بن چکی ہے بغیر کسی دلیل و برہان کے محض اپنے اسلاف کی پیروی میں فرماۓ ہیں۔ حالانکہ آپ

۲۷۲

جیسے منصف مزاج اور روشن خیال عالم کے اوپر ایسا بیان باکل زیب نہیں دیتا کہ خاک پاک کو بت سے تعبیر کرے یقین رکھیئے کہ آپ کو عدلِ الہی کے دربار میں اس زبردست تہمت اور اہانت کی جواب دہی کرنا پڑے گی اور خاک پاک کو بت اور خدا پرست موحدین کو مشرک و بت پرست کہنے پر سخت باز پرس کی جاۓ گی۔

جناب من! کسی عقیدے پر تنقید اور تبصرہ سند اور دلیل کے ساتھ ہونا چاہیئے، صرف اپنے جذبات کی بنا پر نہیں اگر آپ شیعوں کی فقہی اور استدلالی کتابیں اور عملیہ رسائل کا مطالعہ کیجئے جو عام طور پر ہرجگہ دستیاب ہوتے ہیں تو آپ کو اپنا جواب مل جاۓ گا اور آئندہ ایسے غلط اعتراضات کر کے نا واقف برادران اہل سنت کو بہکا کر شیعہ بھائیوں سے بد ظن نہ کریں گے۔

شیعہ خاک کربلا پر سجدہ کرنا واجب نہیں سمجھتے

اگر تمام استدلالی کتابوں اور عملیہ رسالوں میں آپ ایک روایت یا ایک فتوی بھی ایسا دکھا دیں کہ فقہاۓ امامیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خاک کربلا پر سجدہ کرنے کو واجب قرار دیا ہو تو ہم آپ کے سارے بیانات تسلیم کر لیں گے کیونکہ جملہ فقہی اور استدلال کتابوں اور عملیہ رسائل میں سارے فقہاۓ امامیہ کے یہ احکام و ہدایات موجود ہیں کہ حکم قرآنی کے مطابق سجدہ پاک زمین پر ہونا چاہیئے۔ جس میں خاک، پتھر، ریت، بالو اور گھاس شامل ہے بشرطیکہ کوئی چیز معدنیات میں سے نہ ہو۔ نیز ہر اس چیز پر سجدہ کرسکتے ہیں جو زمین سے اگتی ہے بشرطیکہ وہ کھانے یا پینے کے کام میں نہ آتی ہو ان میں سے اگر ایک چیز نہ ہو تو دوسری پر سجدہ کریں۔

شیخ: پھر آپ کس لئے تختوں کی صورت میں خاک کربلا کے ٹکڑے پابندی سے اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور نماز کے وقت انہیں پر سجدہ کرتے ہیں؟

شیعوں کا سجدہ گاہیں ساتھ رکھنا

خیر طلب: خاک کے ٹکڑے ساتھ رکھنے کا سبب یہ ہے کہ سجدہ پاک زمین پر کرنا واجب ہے اور نماز اکثر گھروں میں اور ایسے مقامات پر پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے جہاں قالین، رومال وغیرہ مختلف قسم کے فرش بچھے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے زمین پر سجدہ نہیں ہوسکتا، اور نماز کے وقت ان کو اٹھانا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ اگر ان کو ہٹایا بھی جاۓ تو ان کے نیچے زیادہ تر گچ یا دوسری ایسیچیزوں کا فرش بنا ہوا ہوتا ہے جن پر سجدہ جائز نہیں ہے لہذا اگر ہم پاک مٹی کے ٹکڑے اپنے

۲۷۳

ساتھ رکھتے ہیں تو اس غرض سے کہ نماز کے وقت خاک پر سجدہ کرسکیں۔ ا س کے علاوہ ہم مجبور ہیں کہ فقہاء کی ہدایت کے مطابق پاک زمین پر سجدہ کریں اور ہر موقع پر طاہر زمین نہیں ملتی اس وجہ سے ہم پاک مٹی کے ٹکڑے اپنے پاس رکھتے ہیںتاکہ جس مقام پر یہ زحمت پیش آۓ ہم اس طاہر مٹی سجدہ کرلیں۔

شیخ: ہم دیکھتے ہیں کہ تمام شیعہ مہر کی صورت میں خاکِ کربلا کی تختیاں بنا کر رکھتے ہیں اور انہیں پر سجدہ کرنا واجب و لازم سمجھتے ہیں۔

خاکِ کربلا پر سجدہ کرنے کا سبب

خیر طلب: یہ صحیح ہے کہ ہم کربلا کی خاک پاک پر سجدہ کرتے ہیں لیکن واجب سمجھ کے نہیں جیسا میں پہلے عرض کرچکا ہوں ہم لوگ ان احکام کے مطابق جو فقہی کتابوں میں دئیے گئے ہیں صرف پاک زمین پر سجدہ واجب سمجھتے ہیں۔لیکن ان روایتوں کی بنائ پر جو اہل بیت طاہرین علیہم السلام سے مروی ہیں۔ حسینی تربت پاک پر سجدہ کرنا بہتر اور فضیلت و ثواب کثیر کا باعث ہے، اور وہ حضرات اشیائ کے خصوصیات کو سب سے زیادہ جانتے تھے کتنے افسوس کی بات ہے کہ خوارج و نواصب کے پیرو بازی گروں کی ایک جماعت نے یہ مشہور کر رکھا ہے اور اب بھی برابر کہتے رہتے ہیں کہ شیعہ حسین (ع) پرست ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کیقبر مطہر کی خاک پر سجدہ کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ باتیں ہمارے نزدیک کفر ہیں کیونکہ ہم ہرگز حسین(ع) پرست نہیں ہیں بلکہ علی(ع) پرست اور محمد پرست بھی نہیں ہیں( اور جس شخص کا یہ عقیدہ ہوا اس کو کافر جانتے ہیں) ہم صرف خدا پرست ہیں اور قرآن مجید کے حکم سے فقط پاک مٹی پر سجدہ کرتے ہیں۔ ہمارا سجدہ حسین علیہ السلام کے لئے نہیں ہوتا بلکہ ائمہ عترت طاہرہ کے ارشاد کے مطابق کربلا کی خاک پاک پر سجدہ کرنا زیادتی ثواب اور فضیلت کا سبب ہے، واجب کی حیثیت سے نہیں۔

شیخ: یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ کربلا کی خاک کچھ خصوصیات کی حامل ہے جن کی وجہ سے اس پر خاص توجہ کی جاۓ یہاں تک کہ سجدہ کرنے میں بھی اس کو دوسری ہرخاک پر فوقیت دی جاۓ۔

خاک کربلا کے خصوصیات اور پیغمبر(ص) کے ارشادات

خیر طلب: اولا یہ کہ اشیائ اور زمینوں کے اختلاف اور اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ہر خاک کے کچھ آثار و خصوصیات ہیں جن کو ماہرین فن کے علاوہ عام لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔

دوسرے خاک کربلا ائمہ طاہرین علیہم السلام ہی کے زمانے سے نہیں بلکہ خود رسول اللہ صلعم کے عہد میں بھی حضرت(ص) کے لئے بھی مرکز توجہ تھی، جیسا کہ آپ کے اکابر علمائکی معتبر کتابوں میں درج ہے۔ مثلا خصائص الکبری مولفہ جلال الدین سیوطی مطبوعہ حیدر آباد دکن سنہ1320ھ میں ابونعیم اصفہانی، بیہقی اور حاکم وغیرہ کے ایسے آپ کے اکابر علمائ اور موثق راویوں سے

۲۷۴

خاکِ کربلا کے بارے میں ام المومنین ام سلمہ، ام المومنین عائشہ، ام الفضل، ابن عباس اور انس ابن مالک وغیرہ کی کافی روایتیں نقل ہوئی ہیں، من جملہ ان کے راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا حسین(ع) اپنے نانا رسول خدا(ص) کی گود میں بیٹھے ہوۓ تھے اور آںحضرت(ص) کے ہاتھ میں ایک سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو آپ چوم رہے تھے اور روتے جاتے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کیسی خاک ہے تو فرمایا کہ جبرئیل نے مجھ کو خبر دی ہے کہ میرا یہ حسین(ع) زمین عراق پر قتل کیا جاۓ گا اور اسی زمین سے یہ خاک میرے واسطے لاۓ ہیں۔ لہذا میں اپنے حسین(ع) کے اوپر پڑنے والی مصیبتوں پر گریہ کررہا ہوں۔ پھر وہ خاک ام سلمہ کے سپرد کی اور فرمایا کہ جب تم دیکھنا کہ یہ مٹی خون ہوگئے ہے تو سمجھ لینا کہ میرا حسین(ع) قتل کردیا گیا۔ چنانچہ ام سلمہ نے وہ مٹی ایک شیشی میں رکھی اور اس کی نگرانی کرتی رہیں یہاں تک کہ سنہ61ہجری میں عاشورہ کے روز دیکھا کہ وہ خاک خون آلود ہوگئی ہے اور جان لیا کہ حسین ابن علی علیہما السلام شہید ہوگئے۔ آپ کے اکابر علمائ اور فقہاۓ شیعہ کی معتبر کتابوں میں تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ اس خاک پاک پر حضرت رسولِ خدا صلعم اور عدیل قرآن ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی خاص توجہ تھی اور ریحانہ رسول حضرت سید الشہدائ کی شہادت کے بعد جس نے سب سے پہلے اس خاک کو تبرک سمجھ کر اٹھایا وہ امام چہارم سید الساجدین حضرت زین العابدین علی بن الحسین علیہما السلام تھے۔ جنہوں نے اس خاک پاک کو ایک تھیلی میں محفوظ کیا، آپ اس کے اوپر سجدہ بھی کرتے تھے اور اسی کی تسبیح بنا کر اس پر ذکرِ خدا بھی فرماتے تھے۔

آپ کے بعد تمام ائمہ طاہرین اس خاک کو تبرک سمجھتے رہے، اس کی تسبیح اور سجدہ گاہ بناتے رہے، خود اس پر سجدہ کرتے رہے اورواجب کی نیت سے نہیں بلکہ ثواب عظیم پر فائز ہونے کے لئے شیعوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے رہے یہ حضرات پوری تاکید کے ساتھ حکم دیتے تھے کہ خدا کے لئے صرف پاک زمین پر سجدہ ہونا چاہیئے لیکن حضرت سید الشہدائ کی تربت پر افضل اور زیادتی ثواب کا باعث ہے۔

چنانچہ شیخ الطائفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسی علیہ الرحمہ مصباح المتہجد میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تھوڑی تربت امام حسین(ع) ایک زرد کپڑے میں رکھے ہوۓ تھے جس کو نماز کے وقت کھول کر سامنے رکھ لیتے تھے اور اسی پر سجدہکرتے تھے۔

شیعہ ایک مدت تک اسی طریقے سے یہ مٹی اپنے پاس رکھتے رہے، پھر اس خیال سے کہ ب ادبی نہ ہو اس کو پانی میں گوندھ کر تختیوں اور ٹکڑوں کی شکل میں لے آۓ جس کو آج مہر کہا جاتا ہے، ہم لوگ اس کو محض تبرکا اور تیمنا اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور نماز کے موقع پر بقصد وجوب نہیں بلکہ زیادتی فضیلت کے لئے اس پر سجدہ کرتے ہیں ورنہ اکثر اوقات جب وہ خاک پاک کی مہر ہمارے ساتھ نہیں تھی ہم نے زمین یا پاک پتھر پر سجدہ کیا ہے۔ اور عمل واجب بھی ادا ہوگیا ہے۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ سنہ1384ہجری میں جب مجھ کو حج بیت اللہ کیتوفیق حاصل ہوئی اور میں ہوائی جہاز کے ذریعے بیروت سے (باقی برصفحہ 276)

۲۷۵

آیا یہ مناسب ہے کہ اتنی سادہ اور صاف بات کے لئے آپ لوگ اس قدر طوفان کھڑا کریں، یہاں تک کہ ہم کو کافر و مشرک اور بت پرست بھی بنائیں اور بیچارے ناواقف عوام کو دھوکے میں ڈالیں؟ جس طرح سے کہ آپ لوگ اپنے ائمہ اور فقہائ کے فتاوی پر ( جو اکثر حقیقت سے دور بلکہ آیات قرآن کی صراحت کے برخلاف بھی ہوتے ہیں) عمل کرتے ہیں اور ان کے قول و فعل کو حجت اور اپنا لائحہ عمل قرار دیتے ہیں اسی طرح ہم بھی عترت طاہرہ اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے احکام و ہدایات پر عمل کرتے ہیں البتہ فرق یہ ہے کہ آپ کے پاس پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک حکم بھی ایسا نہیں ہے کہ نعمانی یا محمد یا احمد یا مالک کی

ہدایتوں اور فتوؤں پر عمل کرنا تمہارا فرض ہے، سوا اس کے کہ آپ ان کو فقہاۓ اہل سنت میں سے ایک فقیہ سمجھ سکے ان کی پیروی کرتے ہیں۔

لیکن ہم خود رسول اللہ صلعم کی ہدایت پر عمل کر رہے ہیں کیونکہ آں حضرت(ص) نے باربار ارشاد فرمایا ہے کہ ہمارے ائمہ عترت اوراہل بیت عدیل قرآن، سفینۃ نجات اور باب حطہ ہیں۔ ان کی اطاعت و پیروی ذریعہ نجات اور ان سے دوری و

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ صفحہ قبل) مدینہ منورہ پہنچا تو غروب آفتاب میں ایک ساعت باقی تھی اور نماز کا وقت تنگ تھا لہذا میں اسی میدان میں نماز کے لئے کھڑا ہوگیا۔ ملا زمین وغیرہ کا ایک بڑا

مجمع میرے قریب اکٹھا ہوگیا اور سب میرے سجدے کرنے کو غور سے دیکھنے لگے۔جب انہوں نے دیکھا کہ میرے پاس سجدہ گاہ نہیں ہے اور میں زمین پر سجدہ کررہا ہوں تو ان کو بہت تعجب ہوا اور جب میں سلام پڑھ چکا تو ان کے بڑے بوڑھے لوگ میرےچاروں طرف جمع ہو کر پوچھنے لگے کہ کیاتم بت پرست شیعوں میں سے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ شیعہ ہونے کا فخر حاصل ہے لیکن ہم لوگ بت پرست ہرگز نہیں ہیں بلکہ موحد اور خدا پرست ہیں آپ لوگوں کا یہ کہنا شیعوں کے اوپر ایک تہمت ہے کیونکہ یہ لوگ سب اہل توحید اور پاک دل ہیں۔ انہوں نے کہا ہم نے اکثر اسی مقام پر ان کیبغلوں سے بتوں کا نکال کر توڑا ہے، تم کیسے شیعہ ہوکہ بت اپنے ساتھ نہیں رکھتے؟ میں نے کہا یہ الفاظ محض اشتباہ اور ایک بہت بڑی تہمت ہیں شیعہ بت اور بت پرستی سے بیزار ہیں، لیکن چونکہ بحکم قرآن ہم اس کے پابند ہیں کہ پاک زمین پر سجدہ کریں لہذا خاک کے ٹکڑے اپنے ساتھ رکھتے ہیں تاکہ جس مقام پر پاک زمین ممکن نہ ہو وہاں اس خاک پر سجدہ کرلیں چنانچہ اس وقت جب کہ اس میدان کی ساری زمین پاک ہی ہے ہم کو اس خاک پاک کی کوئی احتیاج نہیں ہے اور آپ لوگوں نے دیکھ لیا کہ میں نے اسی زمین پر سجدہ کیا ہے، اس قسم کی تمہتیں صدیوں سے خوارج اور نواصب کی زبانوں پر جاری ہوئیں جو مسلمانوں کے اندر پھوٹ اور تفرقہ ڈالنا چاہتے تھے، یہاں تک کہ آج آپ جیسے براداران اہل سنت بھی ان کے فریب میں مبتلا ہیں اور اور اپنے شیعہ بھائیوں کو مشرک و بت پرست کہتے ہیں۔ غرضیکہ میں نے غروب تک اس بڑے مجمع سے جس میں زیادہ تر وہابی تھے اس طرح گفتگو کیکہ سب کے سب کافی متاثر ہوۓ اور انہوں نے استغفار کیا اس کے بعد مجھ سے مصافحہ اور معانقہ کر کے رخصت ہوۓ۔ فاعتبروا یا اولی الالباب۔

۲۷۶

سرکشی موجب ہلاکت ہے، جیساکہ ہم گذشتہ راتوں میں بعض احادیث کی طرف اشارہ بھی کرچکے ہیں۔ پس ان مقدس ہستیوں کا قول وفعل بحکم رسول(ص) ہمارے لئے حجت ہے اور اسی بنا پر ہم ان کی ہدایتوں کی پیروی کرتے ہوۓ استجابا یہ عمل کرتے ہیں۔

علمائ اہلِ سنت کا عمل تعجب خیز ہے

البتہ تعجب تو آپ کے علمائ پر ہے کہ ائمہ اربعہ اور دوسرے فقہاء کے عجیب و غریب فتوؤں پر قطعا کوئی اعتراض نہیں کرتے یعنی اگر امام اعظم اگر کہہ دییں کہ پانی نہ ملنے پر نبیذ سے وضو کرنا چاہیئے تو شافعی، مالکی اور حنبلی حضرات کو کوئی اعتراض نہیں، اگر امام احمد حنبل خداۓ تعالیٰ کی رؤیت کے قائل ہوجائیں اور عمامے پر مسح کرنے کو جائز سمجھیں تو دوسرے فرقے اس پر کوئی گرفت نہ کریں اور اسی طرح کے دوسرے حیرت انگیز اور نئے نئے فتاوی پر جیسے سفر میں نا بالغ لڑکوں سے نکاح کرنے یا فضلے اور نجاست پر سجدہ کرنے یا کپڑا لپیٹ کر ماؤں سے ہمبستری کرنے اور اسی قسم کے دوسرے مسائل پر کسی کو رد و قدح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔(1)

لیکن جس وقت یہ کہہ دیا جاۓ کہ ائمہ عترت رسول (ص) نے فرمایا ہے کہ کربلا کی خاک پاک پر سجدہ کرنا

دوسری زمینوں پر سجدہ کرنے سے افضل باعث اضافہ ثواب اور مستحب ہے تو آپ حضرات داد و فریاد اور شور وہنگامہ برپا کردیتے ہیں کہ شیعہ مشرک اور بت پرست ہیں۔ اور اس طرح باہمی نفاق کا بیج بوکر برادر کشی کا فتنہ ابھارتے ہیں اور غیروں کے غلبے اور تسلط کا راستہ کھول دیتے ہیں۔

درد دل بہت ہے جس کو چھوڑ کر آگے بڑھتا ہوں اور پھر اصل مطلب کی طرف آکر آپ کو جواب شروع کرتا ہوں ہماری یہ مظلومانہ فریاد روز قیامت رسول اللہ(ص) کے سامنے اثر دکھاۓ گی۔

پانچویں آپ نے بڑھاپے اور اجماع کے سلسلے میں بیان فرمایا ہے کہ پیرانہ سالی کی وجہ سے ابوبکر کو فوقیت اور تقدم کا حق حاصل تھا۔ تو یہ بھی آپ کی بہت بے لطفی کی بات ہے کہ دس راتوں کے بعد جب کہ میں قطعی طور پر عقلی اور نقلی دلائل سے اجماع او بڑھاپے کی دلیلوں کو باطل ثابت کرچکا، اب پھر آپ از سرِ نو وہی بات دھرا رہےہیں اور چاہتے ہیں کہ مطلب کی تکرار کر کے جلسہ کا وقت لیں۔ باوجودیکہ میں گزشتہ شبوں میں کافی اور مسکت جوابات دے چکا ہوں لیکن اس وقت بھی آپ کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑوں گا۔ آپ نے خلیفہ اول ابوبکر کے حق تقدم کے اوپر سیاسی سوجھ بوجھ اور ورازی سن کی جو دلیل قائم کی ہے اس کےبارے میں عرض ہے کہ یہ کیسی بات ہے کہ اور لوگ تو اس بات کی تہ تک پہنچ گئے کہ بڑے کام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ ملاحظہ ہوں کتب فقیہہ اہل سنت، فتاوی قاضی خان، ہدایتہ اور بحر الرائق شرح کنز الدقائق وغیرہ12۔

۲۷۷

کے لئے انسان کو بوڑھا اور سیاسی ہونا ضروری ہے لیکن خدا اور اس کےرسول(ص) کی سمجھ میں یہ معاملہ نہ آیا اور انہوں نے سورہ برائت کی ابتدائی آیتوں کی تبلیغ میں ابوبکر جیسے بوڑھے اور سیاسی آدمی کو معزول کر کے علی(ع) جیسے جوان شخص کو مقررفرمایا؟

نواب : قبلہ صاحب! معاف فرمائیےگا میں آپ کی گفتگو میں دخل دے رہا ہوں۔ اس قضیے کو مبہم نہ چھوڑیئے پہلے بھی ایک شب میں آپ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ کہاں اور کس کام کےسلسلے میں خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ معزول اور علی کرم اللہ وجہہ معین کئے گئے؟ جب ہم نے ان حضرات ( اپنے علمائ کی طرف اشارہ) سے دریافت کیا تو انہوں نے گول جواب دے دیا کہ کوئی اہم معاملہ نہیں تھا۔ گذارش ہے کہ اس کی وضاحت فرمادیجئے تاکہ یہ معما حل ہوجاۓ۔

تبلیغ سورہ برائت میں ابوبکر کی معزول اور علی(ع) کا تقرر

خیر طلب: جمہور امت اور فریقین (شیعہ و سنی) کے علمائ و مئورخین اس کے قائل ہیں کہ جب سورہ برائت کی ابتدائی آیتیں مشرکین کی مذمت میں نازل ہوئیں تو رسول اللہ(ص) نے ابوبکر کو بلا کر دس (10) آیتیں ان کے سپرد کیں اور ان کو مکہ معظمہ لے جائیں اور موسم حج میں اہل مکہ کے سامنے پڑھیں ابھی یہ چند ہی منزلیں طے کرنے پاۓ تھے کہ جبرئیل امین نازل ہوۓ اور عرض کیا یا رسول اللہ(ص) :

"ان الله یقرئکالسلامیقوللن‏ يؤدّي‏ عنك‏ إلّا أنت أو رجل منك"

یعنی خداۓ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپ کی طرف سے ہرگز کوئی شخص تبلیغ رسالت نہیں کرسکتا، سوا آپ کے یا اس مرد کے جو آپ سے ہو۔

چنانچہ پیغمبر(ص) نے علی علیہ السلام کو بلایا اور اس خاص مہم پر مقرر کر کے فرمایا کہ جاؤ جس مقام پر ابوبکر مل جائیں ان سے آیات برائت واپس لے لو۔ اور خود جاکر مشرکین اہل مکہ کے سامنے ان کی تلاوت کرو، علی علیہ السلام فورا روانہ ہوگئے۔ منزل ذوالحلیفہ میں ابوبکر سے ملاقات ہوئی، ان کو رسول اللہ(ص) کا پیغام پہنچایا، ان سے آیتیں واپس لیں اور مکہ معظمہ پہنچ کے مجمع عام کے سامنےان آیات کو پڑھ کے پیغمبر(ص) کی طرف سے تبلیغ رسالت کا فرض انجام دیا۔ اس کے بعد آں حضرت(ص) کی خدمت میں مدینہ منورہ واپس آۓ۔

نواب: کیا ہماری معتبر کتابوں میں بھی یہ واقعہ درج ہے؟

خیر طلب: میں نے تو عرض کیا کہ اس پر امت کا اجماع ہے اور تمام شیعہ وسنی علمائ و مورخین اسلام نے بالاتفاق لکھا ہے کہ یہ واقعہ اسی طرح سے پیش آیا۔ لیکن آپ کے اطمینان قلب کے لئے چند کتابوں کے حوالے جو اس وقت میرے پیش نظر ہیں۔ عرض کئے دیتا ہوں تاکہ جب آپ ان پرغور کریں تو معلوم ہوجاۓ کہ یہ ایک اہم معاملہ تھا۔

بخاری نے اپنی صحیح جزئ چہارم و پنجم میں، عبدی نے جمع بین الصحاص الستہ جزئ دوم میں، بیہقی نے سنن ص9 ، ص224 میں، ترمذی نے جامع جلد دوم ص135 میں، ابوداؤد نے سنن میں، خوارزمی نے مناقب میں، شوکانی نے اپنیتفسیر جلد دوم ص219میں، ابن مغازلی فقیہہ شافعی نے فضائل میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص17 میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے

۲۷۸

ینابیع المودت باب18 میں، روایت و اکابر علماۓ اہل سنت کے مختلف طریقوں سے، محب الدین طبری نے ریاض النضرہ ص147 اور ذخائر العقبی ص69 میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ خواص الامہ ص32 میں ( ائمہ صحاح میں سے ایک رکن) امام عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی ص14 میں اس سلسلے کی چھ حدیثیں، ابن کثیر نے تاریخ کبیر جلد پنجم ص38 اور جلد ہفتم ص357 میں، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد دوم ص509 میں، جلال الدین سیوطی نے در المنثور جلد سوم ص208 تفسیر آیت اول سورہ برائت میں طبری نے جامع البیان جلد دوم ص323 میں، آلوسی نے روح المعانی جلد سوم ص268 میں، ابن حجر مکی متعصب نے صواعق محرقہ ص19 میں،ہیثمی نے مجمع الزوائد جلد ہفتم ص29 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب62 ص125 میں ابوبکر اور حافظ ابونعیم کی سند سے اور یہ روایت ابونعیم مسند حافظ دمشقی سے مختلف طریقوں کے ساتھ، امام احمد ابن حنبل نے مسند جلد اول ص3، ص151 جلد سوم میں ص283 اور جلد چہارم ص164، ص165 میں، حاکم نے مستدرک جلد دوم کتاب مغازی ص51ٍ اور اسی کتاب کی جلد دوم ص331 میں، اور مولوی علی نقی نے کنز العمال جلد اول ص246 تا ص249 اور جلد ششم ص154 فضائل علی علیہ السلام میں، غرضیکہ سبھی نے اس قضیے کو تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے اور عام طور سے اس کی صحت کی تصدیق کی ہے۔

سید عبدالحی : جس پیغمبر(ص) کا ہر قول و فعل خدا کی جانب سے تھا اس نے یہ منصب پہلے ہی سے علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کیوں نہیں کیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تبلیغ پر مامور کردیا تاکہ بعد کو خدا کا پیغام پہنچے، علی روانہ ہوں اور بوڑھے ابوبکر کو بیچ راستے سے پلٹائیں۔

ابوبکر کی معزولی اور علی(ع) کے تقرر کا ظاہری سبب

خیر طلب: چونکہ ہماری اور آپ کی کتابوں میں اس کا کوئی اصلی سبب منقول نہیں ہے لہذا ہم اس سے کماحقہ واقفیت نہیں رکھتے، لیکن عقلی طور پر میرا اندازہ ہے کہ اس تبدیلی کا مقصد دوسروں کے اوپر علی علیہ السلام کی برتری اور بزرگ منزلت کو ثابت کرنا تھا کہ تقریبا تیرہ سو چالیس برس کے بعد آج کی رات آپ کے لئے جواب موجود رہے اور آپ یہ نہ کہیں کہ پیرانہ سالی اور سیاسی مہارت کی وجہ سے خلات ابوبکر کو حق تقدم حاصل تھا، اگر ابتدا ہی میں یہ منصب علی علیہ السلام کو دے دیا گیا ہوتا تو یہ ایک معمولی سا معاملہ معلوم ہوتا اور ظاہری طور پر ہمارے لئے ممکن نہ ہوتا کہ اس حدیث کے ذریعے آپ کے مقابلے میں علی علیہ السلام کی فضیلت و کرامت ثابت کرسکیں، کیونکہ آپ نے اپنی یہ عادت بنا رکھی ہے کہ ہر اس حدیث کے لئے جو حضرت کی فضیلت اور منصب خلافت کا اثبات کرتی ہو کوئی نہ کوئی فضول سی تاویل ضرور کرتے ہیں چاہے وہ تاویل دوسری اکثر تاویلات کےمانند مضحکہ خیز ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اس طرح سے علی علیہ السلام کی اعلی حیثیت اور باوجود کمسنی کے بوڑھے صحابہ کے اوپر آپ کی ترجیح اور حق تقدم ساری امت پر آج تک مکمل طور پر واضح ہو رہا ہے۔

۲۷۹

پہلے آں حضرت(ص) مذکورہ آیتیں ابوبکر کو دیتے ہیں، پھر ان کے چند منزل آگے بڑھ جانے کے بعد علی علیہ السلام کو اس وضاحت کےساتھ معین فرماتے ہیں کہ جبرئیل نے من جانب خدا مجھ کو مامور کیا ہے اور صاف صاف کہا ہے کہ "لن‏ يؤدّي‏ عنك‏ إلّا أنت أو رجل منك " (یعنی تمہاری طرف سے پیغام رسالت سوا تمہارے یا اس مرد کے جو تم سے ہو اور کوئی ہرگز نہیں پہنچا سکتا۔

پس ابوبکر کا جانا اور درمیان راہ سے واپس آنا دوسروں پر علی علیہ السلام کی برتری اور فوقیت کا ایک بڑا ثبوت بن جاتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ امر خداوندی کی تبلیغ یعنی نبوت و خلافت کو بڑھاپے اور جوانی سے کوئی ربط نہیں ہے۔ع

ہزار نکتہ باریک ترزمو اینجاست

اگر ابوبکر کا بوڑھا اور سیاسی ہونا ان کی فوقیت اور حق تقدم کو ثابت کرتا تھا تو ان کو ایسے مقدس کام سے قطعا معزول نہ ہونا چاہیئے تھا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پیغام رسالت کا پہنچانا پیغمبر(ص) اور خلیفہ پیغمبر(ص) ہی کا کام ہے۔

سید : بعض روایتوں میں ابوہریرہ سے منقول ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ مکے جائیں، ابوبکر لوگوں کو مناسک حج کی تعلیم دیں اور علی آیات سورہ برائت کی تلاوت کریں، پس اس صورت سے پیغام رسالت پہنچانے میں دونوں باہم مساوی تھے۔

خیر طلب: اول تو یہ روایت بکرئین کی گڑھی ہوئی ہے اس لئے کہ دوسروں نے اس کو نقل نہیں کیا ہے۔ دوسرے ابوبکر کی معزول اور ابلاغ رسالت کے لئے علی علیہ السلام کے تنہا مکے بھیجا جانے پر ساری امت کا اجماع ہے اور یہ مخالف وموافق مذاہب کی صحاح و مسانید میں معتبر اسناد کے ساتھ تواتر کی حد ثابت ہے۔ دیہی چیز ہے کہ کثیر التعداد صحیح ومستند احادیث سے تمسک کرنے پر جمہور امت کا اتفاق ہے اور اگر کوئی خبر واحد ان صحاح کثیرہ کے خلاف ہو تو آپ خود بہتر جانتے ہیں، کہ محدثین اور اصولیین کے قاعدے سے اس کو ترک اور رد کردینا واجب ہے۔ اگر وہ خبر واحد صحیح بھی ہو تو مظنون ہے اور مظنون کے لئے معلوم کا ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ پس ابوبکر کی معزولی، علی علیہ السلام کی تعیین، ابوبکر کا رنج وغم کی حالت میں مدینے پلٹنا، ان سے پیغمبر(ص) کی گفتگو اور آں حضرت(ص) کا یہ کہہ کے مطمئن فرمانا کہ حکم خدا اسی طرح سے تھا، یہ سب روایئی مسلمات میں سے ہیں۔ نیز اپنی جگہ پر اس کی ایک مکمل دلیل ہے کہ حق تقدم کا کہنہ سالی اور پیری سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ عقلی و نقلی دلائل سے ثابت ہے کہ امت اور جماعت انسانی کے اندر تقدم اور فوقیت کا حق علم و دانش اور تقوی سے حاصل ہوتا ہے۔ افراد بشر میں سے جو فرد علم وفضل اور تقوی کے حیثیت سے برتری رکھتی ہو، قوم کے اندر اسی کو ترجیح اور تقدم کا حق ہوگا کیوں کہ آپ کا ارشاد ہے"الناس موتیٰ واهلالعلماحیائ "( یعنی تمام لوگ مردہ ہیں اور صاحبان علم زندہ ہیں)

اسی بنا پر رسول خدا صلعم نے علی علیہ السلام کو دوسرے صحابہ پر مقدم رکھا اور فرمایا علی میرے علم کا دروازہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ(ص) کا باب علم دوسروں سے مقدم ہوگا اگر چہ پیغمبر(ص) کے جو اصحاب آں حضرت(ص) کی اطاعت پر ثابت قدم رہے وہ بھی

۲۸۰