پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 394
مشاہدے: 301606
ڈاؤنلوڈ: 7183

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 301606 / ڈاؤنلوڈ: 7183
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کو (کیPDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=379&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=375&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ

خورشید خاور ترجمہشبہائے پشاور

جلددوم

مصنف

حجة الاسلام وسلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی

مترجم

الحاج مولانا سید محمد باقر صاحب باقری رئیس جوارس ضلع بارہ نیکی

تجدید نظر

سید اعجاز محمد ( فاضل)

۱

شروع حصہ دوم

آٹھویں نشست

شب جمعہ یکم شعبان المعظم سنہ1345ھ

اول شب میں ابھی نماز عشا میں مشغول تھا کہ حضرات تشریف لے آئے۔ نماز اور چائے نوشی کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔

سید عبدالحی : قبلہ صاحب! گذشتہ شب آپ نے کچھ ایسی باتیں بیان فرمائیں جو آپ جیسے انسان کو زیب نہیں دیتیں کیوںکہ ان سے مسلمانوں کے درمیان باہمی رنجش اور منافرت پھیلتی ہے۔ آپ خود بہتر جانتے ہیں کہ آپس کی پھوٹ اور نفرت ہی کے سبب سے مسلمان فنا ہورہے ہیں جس طرح کبھی اتفاق اور یگانگی کی وجہ سے غالب تھے۔

خیر طلب : (انتہائیتعجب کے ساتھ) مہربانی کر کے بیان فرمائیے کہ میری تقریر کا کون سا حصہ مسلمانوں میں جدائی اور افتراق پیدا کرنے والا ہے؟ اگر آپ کا اعتراض درست ہے اور واقعی مجھ سے کوئی غفلت ہوئی ہے تو میں متنبہ ہوجائوں گا۔

سید : کس و ناکس کی توضیح اور تعریف کے موقع پر آپ نے مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے مسلم و مومن سے تعبیر فرمایا تھا در آنحالیکہ مسلمان سب ایک ہیں اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کہنے والے آپس میں بھائی بھائی ہیں ان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دو گروہوں میں تقسیم نہ کرنا چاہیئے اس سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے آپ ہی جیسے حضرات کے بیانات کا یہ اثر ہے کہ خاص و عام پیدا ہوگئے اور شیعہ اپنے کو مومن اور ہم کو مسلم کہنے لگے چنانچہ آپ نے ہندوستان میں دیکھا ہے کہ شیعہ کو مومن اور سنی کو مسلم کہتے ہیں۔ حالانکہ اسلام و ایمان ایک چیز ہے اس لیے کہ اسلام در اصل احکام کی اطاعت و قبولیت اور ان کو تسلیم کرنے کا نام ہے اور یہی تصدیق کا مطلب اور ایمان کی حقیقت ہے ساری امت نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ اسلام عین ایمان اور ایمان حقیقت اسلام ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔لیکن آپ نے جمہور کے برخلاف بیان دے کر اسلام اور ایمان کو ایک دوسرے سے الگ قرار دیا۔

۲

اسلام اور ایمان میں فرق

خیر طلب : ( تھوڑے سکوت اور تبسم کے بعد) مجھ کو حیرت ہے کہ کس صورت سے جواب عرض کروں۔ اولا جو جمہور آپ کے پیش نظر ہے اور جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے وہ عام امت کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس جمہور سے چند اہل سنت وجماعت مراد ہیں۔

دوسرے افسوس ہے کہ اسلام اور ایمان کے بارے میں آپ کا بیان کافی نہیں ہے اس لیے کہ اس موضوع میں نہ صرف شیعوں کو اہل سنت وجماعت کے عقیدے سے اختلاف ہے بلکہ اشعری،معتزلی، حنفی اور شافعی فرقے بھی عقائد میں الگ ہیں۔ لیکن اتنا وقت نہیں ہے کہ مختلف فرقوں کے تمام اقوال نقل کئے جائیں۔

تیسرے آپ حضرات جو عالم و اہل قرآن ہیں اور آیات قرآنی پر نظر رکھتے ہیں ایسے عامیانہ اشکالات قائم کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ غالبا آپ حضرات کا مقصد یہ ے کہ جلسے کا وقت ضائع کیا جائے ورنہ اس سے کہیں اہم اصولی مطالب موجود ہیں جن سے ہم پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایسے طفلانہ اعتراضات تو آپ جیسے انسان سے میل نہیں کھاتے کہ تم نے اسلام و ایمان کو الگ الگ کر کے دو مختلف گروہ قائم کرنے کے اسباب فراہم کئے ہیں۔

حالاکہ ( بقول آپ کے) یہ دو گروہوں کی تقسیم خود خداوند حکیم نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں فرمائی ہے، غالبا آپ حضرات نے قرآن مجید کے اندر اصحاب یمین و اصحاب شمال کے ذکر کو فراموش کردیا ہے۔ کیا ایسا نہیں کہ سورہ نمبر49 (حجرات) آیت نمبر14 میں صریحا فرماتا ہے۔

"قالَتِ‏ الْأَعْرابُ‏آمَنَّاقُلْ لَمْ تُؤْمِنُواوَلكِنْ قُولُواأَسْلَمْناوَلَمَّايَدْخُل ِالْإِيمانُ فِي قُلُوبِكُمْ‏"

یقینا آپ جانتے ہیں کہ یہ آیہ شریفہ حجاز کے اعراب بنی اسد کے مذمت میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے قحط کے سال مدینہ منورہ میں آکر اسلام و ایمان کا اظہار کیا اور کلمہ شہادتین زبان پر جاری کیا لیکن چونکہ نعمات سے مستفید ہونے کے لیے ظاہری اسلام لائے تھے لہذا خدا نے اس آیت میں کو اس طریقہ سے جھٹلایا ہے کہ ( اے رسول (ص) اعراب و بنی اسد وغیرہ ) نے جو تم پر احسان رکھا ہے اور کہا ہے کہ ہم ایمان لے آئے تو ان سے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائےالبتہ یہ کہو کہ اسلام لائے ( جس سے مسلم میں داخل ہونا اظہار شہادت اور اطاعت احکام مراد ہے تاکہ قتل و اسیری سے تحفظ اور مالی حقوق حاصل ہوں اور ابھی تو تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا ہے یہ آیت شریفہ صاف صاف کہہ رہی ہے کہ مسلمانوں میں دو گروہ ہیں، ایک فرقہ حقیقی مسلمانوں کا ہے جو قلب اور عقیدے کے روسے حقائق پر ایمان لائے ہوئے ہیں اور انہیں کو مومن کہتے ہیں۔ اور دوسرا فرقہ ظاہری مسلمانوں کا ہےجو اپنے اغراض و مقاصد کے لیے خوف یا طمع کی بنا پر ( قبیلہ بنی اسد وغیرہ کی طرح) فقط کلمہ شہادتین زبان پر جاری کر کے اپنے کو مسلمان کہتے ہیں لیکن اسلام کی حقیقت و معنویت یعنی باطنی ایمان کا ان کے دل و دماغ میں کوئی اثر نہیں، اگرچہ ظاہر کی بنا پر ان کے ساتھ معاشرت کی اجازت دی گئی ہے لیکن بحکم قرآن

۳

" لیس لهم فی الآخرة من خلاق" آخرت میں ان کے لیے کوئی ثواب نہیں ہے، پس صرف کلمہ شہادتین کے اقرار اور اسلام کے مظاہرے سے معنوی نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔

سید : یہ آپ کا بیان صحیح ہے لیکن بغیر ایمان کے اسلام کا قطعا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ جیسا کہ بغیر اسلام کے ایمان کا کوئی نتیجہ نہیں کیا سورہ نمبر4 (نساء) آیت نمبر96 میں ارشاد نہیں ہے کہ" وَلاتَقُولُوالِمَنْ‏ أَلْقى‏ إِلَيْكُمُ السَّلام َلَسْتَ مُؤْمِناً" ( یعنی جو شخص تم پر سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو۔) یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس کی کہ ہم ظاہر پر مامور ہیں کہ جو شخص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ دے اس کو پاک و طاہر مقدس اور اپنا بھائی سمجھیں اور اس کے ایمان کا انکار نہ کریں۔ یہ بات اس کی بہترین دلیل ہے کہ اسلام و ایمان ایک حکم میں ہیں۔

خیر طلب : اول تو یہ آیت ایک معین شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے ( جو اسامہ بن زید یا محلم بن جثامہ لیثی تھا) جس نے میدان جنگ میں ایک لا الہ الا اللہ کہنے والے کو اس خیال سے قتل کردیا تھا کہ اس نے محض خوف کی بنا پر کلمہ پڑھا ہے اور مسلمان ہوا ہے۔ لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ عموم کا فائدہ دیتی ہے تو اس پہلو سے بھی ہم تمام مسلمانوں کو تا وقتیکہ ان سے کھلم کھلا کوئی عمل نہ دیکھا جائے، ضروریات دین کے منکر نہ ہوجائیں اور کفر و ارتداد کا اظہار نہ کریں، مسلمان اور پاک جانتے ہیں ان کے ساتھ اسلامی معاشرت رکھتے ہیں۔ ظاہر کے حدود سے تجاوز نہیں کرتے، ان کے باطن سے کوئی مطلب نہیں رکھتے اور نہ لوگوں کے باطنی حالات کی جستجو کرنے کا حق ہی رکھتے ہیں۔

مراتب ایمان

البتہ انکشاف حقیقت کے لیے عرض کرتا ہوں کہ اسلام و ایمان کے درمیان مورد اور محل کے لحاظ سے عموم مطلق اور عموم من وجہ کا فرق ہے۔ اس لیے کہ ایمان کے لیے کچھ درجات ہیں اور اس سلسلہ میں اہل بیت طہارت(ع) کے اخبار و احادیث اختلاف اقوال کو ختم کر کے حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ چنانچہ امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے عمرو زبیری کی روایت میں فرمایا ہے۔

"أنّ‏ للإيمان‏ حالات‏ ودرجاتوطبقات و منازل فمنه الناقص البين نقصانه ومن الراجح الزائل رجحانه و منهالتام المنتهی تمامه"

یعنی ایمان کے لیے حالات و درجات اور طبقات و منازل ہیں۔ ان میں سے بعض ناقص ہیں جن کا نقصان ظاہر ہے بعض راجح ہیں جن کا رجحان زاید ہے، اور بعض ان میں سے مکمل ہیں جو انتہائے کمال پر پہنچے ہوئے ہیں۔)

ایمان ناقص ایمان کا وہی پہلا درجہ ہے جس کے ذریعے انسان کفر کے دائرے سے خارج ہوکر جماعت مسلمین میں شامل ہوتا ہے اور اس کی جان، مال، خون اور عزت مسلمانوں کی امان میں آجاتی ہے۔

ایمان راجح سے حدیث میں اس شخص کا ایمان مراد ہے جو ایمانی صفات کا حامل ہونے کی وجہ سے ایمان میں اس آدمی پر فوقیت حاصل کرے جو ان صفتوں سے محروم ہو۔ جن کی طرف بعض روایتوں میں ارشاہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ کتاب مستطاب کافی و

۴

نہج البلاغہ میں حضرت امیرالمومنین(ع) اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ فرمایا :

"إِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ وَضَعَ الْإِيمَانَ‏ عَلَى‏ سَبْعَةِأَسْهُمٍ‏ عَلَى الْبِرِّوَالصِّدْقِ وَالْيَقِينِ وَالرِّضَاوَالْوَفَاءِوَالْعِلْمِ وَالْحِلْمِ ثُمَّ قَسَمَ ذَلِكَ بَيْنَ النَّاسِ فَمَنْ جَعَلَ فِيهِ هَذِهِ السَّبْعَةَالْأَسْهُمِ فَهُوَكَامِلٌ مُحْتَمِلٌ"

یعنی در حقیقت خدائے تعالی نے ایمان کو سات حصوں میں تقسیم کیا ہے مطلب یہ ہے کہ مومن کے اندر سات صفتیں ہونا چاہیئے ، جن سے مراد نیکی ، راست بازی، یقین قلبی، رضاء وفاء علم اور بردباری ہے۔ یہ ساتوں صفات انسانوں کے درمیان تقسیم ہوگئے۔ جو شخص پوری طرح سے ان سب کا حامل ہو وہی مومن کامل ہے۔ پس جس کے اندر ان میں سے بعض موجود ہوں اور بعض نہ ہوں اس کا ایمان اس شخص کے ایمان سے بلند ہے جو سب ہی صفتوں سے خالی ہو۔

اور ایمان کامل اس شخص کا ایمان ہے جو تمام صفات حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ کا حامل ہو۔ چنانچہ اسلامسے ایمان کا وہ پہلا درجہ مراد ہے جہاں صرف قول اور وحدانیت خدا و نبوت خاتم الانبیاء(ص) کا اقرار ہو۔ لیکن حقیقت دین، ایمان اس کے قلب میں داخل نہ ہوئی ہو، جیسا کہ رسول اللہ(ص) نے امت کے ایک گروہ سے فرمایا ہے۔"يا معشر من اسلم بلسانه و لم يخلص الايمان بقلبه " (یعنی اے وہ جماعت جس نے اپنی زبان سے اسلام قبول کیا ہے لیکن اس کے قلب میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے) بدیہی چیز ہے کہ اسلام و ایمان کے درمیان کھلا ہوا فرق ہے لیکن ہم لوگوں کے اندرونی کیفیات پر مامور نہیں ہیں اور شب گذشتہ ہم نے یہ نہیں کہا ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا اور ان کے درمیان تفرقہ اور جدائی ڈالنا چاہیئے۔ ہم نے فقط اتنا کہا تھا کہ مومن کی علامت اس کا عمل ہے، لیکن ہم کو اعمال مسلمین کے کھوج کرنے کا حق نہیں ہے۔ البتہ ہم مجبور ہیں کہ ایمان کی علامتیں بیان کریں تاکہ جو لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور عمل کی کوشش کر کے ظاہر سے باطن اور صورت سے سیرت کی طرف آئیں جس سے حقیقت ایمان کا اظہار ہو اور وہ سمجھ لیں کہ آخرت کی نجات صرف عمل سے ہے، اس لیے کہ حدیث میں ارشاد ہے "الايمان هو الاقرار باللسان والعقد الجنان والعمل بالارکان " ( یعنی ایمان زبان سے اقرار، قلب سے عقیدہ اور اعضاء و جوارح سے عمل کا نما ہے، ( یعنی اس کے تین رکن ہیں) پس زبان سے اقرار اور دل سے عقیدہ عمل کا مقدمہ ہے، چنانچہ اگر کوئی مسلمانلا اله الا الله محمد رسول الله کا قائل اور اسلامی شکل و صورت میں بھی ہو لیکن واجبات کا تارک اور حرام افعال کا مرتکب ہو تو ہم اس کو مومن نہیں سمجھتے، ہرچند کہ بظاہر اس سے قطع تعلق نہیں کرتے بلکہ اسلامی معاشرت رکھتے ہیں۔ البتہ یہ جانتے ہیں کہ عالم آخرت میں جس کا مقدمہ یہ دنیا ہے ایسے شخص کے لیے راہ نجات مسدود ہے جب تک نیک اور خالص عمل کا حامل نہ بن جاوے جیسا کہ سورہ والعصر میں صاف اشارہ ہے "وَالْعَصْرِإِنَ‏ الْإِنْسانَ‏ لَفِي خُسْرٍإِلَّاالَّذِينَ آمَنُواوَعَمِلُواالصَّالِحاتِ‏ "( یعنی قسم عصر کی نوع انسان بڑے خطرے اور نقصان میں ہے سوا ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے) غرضیکہ بحکم قرآن ایمان کی جڑ عمل صالح ہے اور بس۔ اور اگر کوئی شخص عمل نہیں رکھتا تو چاہے قلب و زبان سے اقرار بھی کرتا ہو ایمان سے دور ہے۔

۵

اہل سنت قرآنی قواعد کے خلاف شیعوں کو مطعون کرتے ہیں

اس سلسلے میں آپ کا قول سامنے رکھتے ہوئے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر آپ کا یہ فرمانا صحیح ہے اور آپ اس عقیدے میں مضبوط ہیں کہ صرف ظاہر پر حکم کیا جائے اورلا اله الا الله محمد رسول الله کہنے والے کو مسلمان و مومن اور بھائی سمجھیں تو پھر آپ حضرات شیعوں اور اہل بیت رسالت(ع) کے پیروئوں کو جو وحدانیت پروردگار اور نبوت خاتم الانبیاء کا اقرار کرتے ہیں۔ سب ایک قبلہ اور ایک کتاب کے ماننے والے ہیں، تمام احکام و واجبات بلکہ مستحبات پر بھی عمل کرتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، حج بیت اللہ کے لیے جاتے ہیں، محرمات کو ترک کرتےہیں۔ خمس و زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ اور معاد جسمانی کے معتقد ہیں، کس لیے کافر و مشرک اور رافضی کہتے ہیں اور اپنے سے الگ رکھتے ہیں؟ تعجب ہے کہ خوارج و نواصب اور بنی امیہ کے پروپیگنڈوں کا اثر اب تکآپ حضرات میں نمایاں ہے۔

پس آپ کو تصدیق کرنا چاہئیے کہ باہمی افتراق و نفاق اور علیحدگی کے باعث آپ ہی حضرات ہیں جو دس کروڑٰ سے زیادہ موحد ومومن مسلمانوں کو اپنے سے جدا، کافر ومشرک اور رافضی کہتے ہیں۔ در آنحالیکہ ان کے کفر و شرک پر کوئی چھوٹی سی دلیل بھی آپ کے پاس نہیں ہے جو کچھ کہا جاتا ہے محض تہمت، خلط مبحث اور مغالطہ بازی ہے۔ یقین کیجئے کہ یہ سب غیروں کے تحرکات ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان باتوں سے مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کے پارٹیاں قائم کردیں تاکہ ان کا الو سیدھا ہو اور مسلمان ان سے مغلوب اور ذلیل و خوار رہیں۔ ہمارے درمیان امامت و ولایت کے سوا اصول و قواعد و احکام میں کوئی اختلاف نہیں ہے اگر فروعی احکام میں اختلاف ہے تو آپ کے چاروں مذاہب کے درمیان ہم سے کہیں زیادہ سخت اختلافات موجود ہیں لیکن اس وقت اتنا موقع نہیں کہ مالکیوں کے ساتھ حنفیوں کے یا حنبلیوں کے ساتھ شافعیوں کے اختلافات بیان کئے جائیں۔

میں جتنا بھی غور کرتا ہوں سوا تہمت و افترا اور نرے تعصب کے کوئی ایک دلیل بھی نظر نہیں آتی جو محکمہ عدل الہی میں آپ شیعوں کے کفر وشرک پر قائم کرسکیں۔

شیعوں کا ناقابل معافی گناہ جو خوارج و نواصب اور بنی امیہ کے ہوا خواہوں نے اپنے پروپیگنڈے سے برادران اہل سنت کے سامنے ہوا بنا کے پیش کیا ہے صرف یہ ہے کہ ہم رسول اللہ(ص) کے اوامر و احکام اور احادیث میں اپنی خواہش اور مطلب کے مطابق خود رائے اور قیاس کے ذریعے تغیر و تبدلنہیں کرتے اور رسول خدا(ص) کے درمیان ابوہریرہ، انس اور سمرہ جیسے کو واسطہ نہیں بناتے جن کو آپ کے علماء یہاں تک کہ بڑے بڑے خلفاء نے بھی مردود اور جھوٹا کہا ہے۔

۶

شیعہ علی(ع) اور اہلبیت(ع) کی پیروی کیوں کرتے ہیں اور ائمہ اربعہ کی تقلید کیوں نہیں کرتے

بلکہ ہم خود پیغمبر کے حکم و ہدایت کے مطابق آںحضرت(ص) کے اہل بیت (ع) کی پیروی کرتے ہیں، رسول اللہ(ص) نے امت کے سامنے جو باب علم کھولا ہے اس کو بند کر کے حسب خواہش دوسرا دروازہ کھولتے، سب سے بڑا گناہ جو حضرات شیعوں پر عائد کرتے ہیں یہ ہے کہ عترت و اہل بیت رسول(ص) میں سے علی(ع) اور ائمہ اثنا عشری کی پیروی کیوں کرتے ہیں اور ائمہ اربعہ اور چاروں فقہاء کی تقلید کیوں نہیں کرتے۔ حالانکہ آپ کے ہاتھ میں رسول خدا(ص) کی طرف سے قطعا اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ مسلمانوں کو لازمی طور پر اصول میں اشعری یا معتزلی اور فروع میں مالکی یا حنبلی یا حنفی یا شافعی ہونا چاہئیے۔

البتہ اس کے برعکس رسول اللہ(ص) سے بکثرت احکام و ہدایات علاوہ ان کے جو ہمارے یہاں تواتر کے ساتھ موجود ہیں پوری تاکید کے ساتھ خود آپ کے رواۃ وعلماء کے طرق سے ہم تک پہنچے ہیں جن میں عترت طاہرہ اور اہل بیت (ع) کو عدیل قرآن قرار دیا گیا ہے اور امت والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ان حضرات سے تمسک رکھیں اور ان کی پیروی کریں۔ من جملہ ان کے حدیث ثقلین ، حدیث سفینہ، حدیث باب حط اور دوسرے احادیث ہیں جن کو موقع موقع سے ہم نے گذشتہ شبوں میں مع اسناد کے ذکر کیا ہے۔ یہ ہم شیعوں کی بزرگترین مضبوط سندیں ہیں جو آپ کے علماء کی معتبر کتابوں میں بھی درج ہیں۔

اب ذرا آپ ایک ہی حدیث ایسی بیان کردیجئے چاہے وہ یک طرفہ اور صرف آپ ہی کی کتابوں سے ہو ۔ جن میں آنحضرت(ص) نے فرمایا ہو کہ میری امت کو میرے بعد اصول میں ابوالحسن اشعری اور واصل بن عطا وغیرہ کی اور فروع میں چاروں نفر مالک بن انس، احمد بن حنبل ، ابوحنیفہ اور محمد بن ادریس شافعی میں سے کسی ایک کی پیروی کرنا چاہیئے۔

حضرات! عادت اور تعصب کو ذرا الگ رکھ کے دیکھئے کہ شیعوں کا آخر کیا گناہ ہے۔ آپ کی معتبر کتابوں میں جو اخبار و احادیث عترت طاہرہ(ع) اور ان کی پیروی کے بارے میں منقول ہیں، اگر ان کے مقابلہ میں فی صدی ایک حدیث بھی آپ کے کسی مذہبی پیشوا کے لیے وارد ہوتی تو ہم قبول کر لیتے۔

بحکم رسول(ص) امت کو عترت کا اتباع کرنا چاہیئے

لیکن ہم کیا کریں کہ آپ کی معتبر کتابیں ان بے شمار اخبار و احادیث سے چھلک رہی ہیں جو ہمارے مقصد اور عقیدے کا مکمل ثبوت ہیں اور جن سب کو پیش کرنے کے لیے کئی مہینے درکار ہیں۔ پھر بھی نمونہ کے طور پر ایک حدیث جو نظر کے سامنے آگئی ہے عرض کئے دیتاہوں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ شیعوں نے جو راستہ اختیار کیا ہے اس کے

۷

علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ہے۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب نمبر4 میں فرائد حموینی سے بروایت ابن عباس ( جرامتہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے امیرالمومنین علیہ السلام سے فرمایا :

"يَاعَلِيُ‏ أَنَامَدِينَةُالْعِلْمِ‏وَأَنْتَ بَابُهَاوَلَنْ تُؤْتَى الْمَدِينَةُإِلَّامِنْ قِبَل ِالْبَابِ وَكَذَبَ مَنْ زَعَمَ أَنَّه ُيُحِبُّنِي وَيُبْغِضُكَ لِأَنَّكَ مِنِّي وَأَنَامِنْكَ لَحْمُكَ مِنْ لَحْمِي وَدَمُكَ مِنْ دَمِي وَرُوحُكَ مِنْ رُوحِي وَسَرِيرَتُكَ سَرِيرَتِي وَعَلَانِيَتُ كَعَلَانِيَتِي سَعِدَمَنْ أَطَاعَكَ وَشَقِيَ مَنْ عَصَاكَ وَرَبِحَ مَن ْتَوَلَّاكَ وَخَسِرَمَنْ عَادَاكَ وَفَازَمَنْ لَزِمَكَ وَهَلَكَ مَنْ فَارَقَكَ مَثَلُكَ وَمَثَل ُالْأَئِمَّةِمِنْ وُلْدِكَ بَعْدِي مَثَلُ سَفِينَةِنُوحٍ مَنْرَ كِبَهَانَجَاوَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَاغَرِقَ وَمَثَلُكُمْ مَثَل ُالنُّجُومِ كُلَّمَاغَابَ نَجْمٌ طَلَعَ نَجْمٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ."

اس حدیث شریف میں صاف صاف ارشاد ہے کہ اے علی میں شہر علم اور تم اس کے دروازہ ہو اورکوئی شخص بغیر دروازے کے شہر میں داخل نہیں ہوسکتا جھوٹا ہے وہ شخص جو میری محبت کا دعوی کرےاور تم سے دشمنی رکھے کیونکہ تم مجھ سے اورمیں تجھ سے ہوں۔ تمہارا گوشت میرا گوشت، تمہارا خون میرا خون، تمہارا باطن میرے باطن اور تمہارا ظاہر میرے ظاہر سے ہے۔ جو تمہاری اطاعت کرے وہ نیک بخت اور جو تمہاری مخالفت کرے وہ بدبخت ہے۔ تمہارا دوست فائدے میں اور تمہارا دشمن گھاٹےمیں ہے۔ جو تمہارے ساتھ ہے وہ کامیاب اور جو تم سے الگ ہے وہ تباہیمیں ہے۔ میرے بعد تمہاری اور تمہاری اولاد میں سے سارے ائمہ کی مثال سفینہ نوح کے مانند ہے، جو اس پر بیٹھا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ غرق ہوگیا۔

ان کی مثال ستاروں کی طرح ہے کہ جب ایک ستارہ ڈوب ا تو دوسرا طالع ہوگیا اور یہ سلسلہ روز قیامت تک رہے گا۔ ہماری اور آپ کی متفق علیہ حدیث ثقلین میں کھلا ہوا ارشاد ہے کہ اگر عترت اور اہل بیت(ع) سے تمسک رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ یہ وہ حدیث ہے جو آپ کے معتبر راویوں کے مختلف طرق سے نقل کی گئی ہے۔ چنانچہ پچھلی راتوں میں آپ کی معتبر کتابوں اور روایات و سلسلہ اسناد کے ایک جز کی طرف اشارہ کرچکا ہوں و ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص؟؟؟؟و ص؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اس وقت موقع اور اثبات حقیقت کے خیال سے مزید تاکید کے لیے عرض کرتا ہوں کہ ابن حجر مکی جیسے متعصب نے بھی صواعق محرقہ باب11 فصل اول ص92 میں "وقفوهم‏ إنّهم‏ مسئولون" (یعنی موقف حساب میں حکم ہوگا کہ ان کو ٹھہرائو کیونکہ ابھی ان سے سخت بازپرس کی جائے گی۔ سورہ نمبر37 (الصافات) آیت نمبر24(1) کے ذیل میں اپنی تحقیقات اس بارے میں درج کی ہے جس کو شیخ سلیمان بلخی حنفی نے بھی ینابیع المودۃ باب59 ص296 مطبوعہ اسلام بول میں اس سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث مختلف طریقوں سے

مروی ہے۔ یہاں تک کہ ابن حجر کہتے ہیں۔"ان الحديث التمسک بالثقلين طرقا کثيرة وردت من نيف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ۔ شیعہ وسنی متفق علیہ روایات ہیں چنانچہ ابن حجر سے بھی منقول ہے کہ روز قیامت امت سے ولایت علی و اہلبیت(ع) کو سوال ہوگا۔

۸

و عشرين صحابيا" ( یعنی ثقلین ( قرآن و عترت رسول(ص)) سے تمسک کی حدیث کے طرق بکثرت ہیں۔ یہ پچیس سے زیادہ اصحاب رسول(ص) سے منقول ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض طرق میں عرفہ، بعض میں پیغمبر(ص) کے مرض الموت کا موقع جب کہ حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا اور بعض میں خطبہ وداع بتایا گیا ہے پھر ابن حجر اپنا عقیدہ بیان کرتے ہیں کہ

" ولا تنافی اذا لا مانع من انه کرر عليهم ذالک فی تلک المواطن و غيرها اهتماما بشان الکتاب العزيز والعترة الطاهرة "

یعنی اس میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ بہت ممکن ہے پیغمبر(ص) نے قرآن مجید اور عترت طاہرہ کی شان ظاہر کرنے کے لیے ان سب مواقع نیز دیگر اوقات میں اس حدیث کی تکرار فرمائی ہو۔

نیز اسی صفحے کے شروع میں کہتے ہیں:

" إِنِّي‏ تَارِكٌ‏ فِيكُمْ‏ أَمْرَيْنِ‏لَنْ تَضِلُّواإِنْ أَتبعتُمُوهُمَا وهُمَاكِتَابُ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَبَيْتِي؛ و زَادَ طَبرَانِی اِنِی سَئَلتُ ذَالِک لهَُما فَلا تُقدِمُوهُما؛فَتَهْلِكُوا،و لا تّقصُرُوا عّنهُم فَتَهْلِكُوا ولَاتُعَلِّمُوهُمْ؛فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ."

یعنی روایت صحیحہ میں ہے کہ فرمایا میں تمہارے درمیان دو امر چھوڑتا ہوں کہ اگر ان دونوں کی پیروی کرو گے تو گمراہ نہ ہوگےاور وہ دونوں کتاب خدا اور میری عترت و اہل بیت ہیں۔ طبرانی نے اس حدیث کو اتنی زیادتی کے ساتھ نقل کیا ہے کہ میں ان دوںوں (قرآن و اہلبیت) کے لیے تم سے اس بات کا سوال کرتا ہوں۔ پس ان دونوں سے سبقت اور پیش قدمی نہ کرو ورنہ ہلاک ہوجائو گے ان سے تقصیر و کوتاہی نہ کرو ورنہ تباہ ہوجائو گے، اور ان کو سکھانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔

پھر اپنے انتہائی تعصب کے باوجود اسی ص92 کے آخر میں طبرانی وغیرہ سے حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے قرآن و عترت ثقلین اس لیے فرمایا کہ یہ دونوں ہر حیثیت سے گرانقدر اور با وقار ہیں۔ اس وجہ سے کہ ثقل سے مراد وہ چیز ہے جو پاکیزہ، پسندیدہ، گران قیمت، نفع بخش اور ہر پستی و ذلت سے منزہ ہو۔ اور حق یہ ہے کہ قرآن و عترت ایسے ہی ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر ایک علم دین، علم اسرار و حکم اور شرعی احکام و قوانین کا خزانہ ہے۔ لہذا ان دونوں (قرآن و عترت ، میں سے ہر ایک پیروی و تمسک اور ان سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے رسول اللہ(ص) کی وصیت وارد ہوئی ہے جیسا کہ فرمایا ہے۔"الحمدللّه الذي جعل‏ الحكمةفيناأهل البيت." ( یعنی میں حمد کرتا ہوں اس خدا کی جس نے ہم اہل بیت کے اندر حکمت قرار دی۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ قرآن وعترت کو اس سبب سے ثقلین فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک کے حقوق کی رعایت لازمی ہے۔ اور اہل بیت کے حق میں آنحضرت کی غیر معمولی سفارش کا باعث یہ ہے کہیہ حضرات علم کتاب(قرآن) وسنت رسول(ص) کے لیے مخصوص ہیں۔ کیونکہ یہ دوںوں یعنی قرآنو عترت کسی وقت بھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے آں حضرت کے پاس وارد ہوں۔

اس بیان کی موئد وہ حدیث ہے جو پہلے گذر چکی کہ فرمایا "ولَاتُعَلِّمُوهُمْ؛فَإِنَّهُمْأَعْلَمُ مِنْكُمْ ."( یعنی کسی وقت عترت کو کوئی تعلیم نہ دو کیونکہ وہ تم سب سے زیادہ عالم و دانا ہیں اور ان کو ان صفتوں کے پیش نظر اپنے دوسرے علماء سے ممتاز سمجھو۔ اس لیے کہ خدائے تعالی نے ان کو پاک و پاکیزہ پیدا کیا ہے اور کرامات باہرہ اور بے شمار فضائل و کمالات کے ساتھ ان کو امت

۹

کے سامنے روشناس کرایا ہے۔ جن احادیث کے ذریعے عترت واہلبیت اطہار(ع) سے تمسک رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے ان میں ایک باریک نکتہ یہ بھی ہے کہ روز قیامت تک کسی وقت بھی دنیا میں افراد اہل بیت(ع) کا سلسلہ منقطع نہ ہوگا جو خدا کی جانب سے احکام دین کو نشر کرنے پر مامور ہیں ابتہی تعجب تو یہ ہے کجہ باجودیکہ خود ہی اقرار کرتے ہیں کہ عترت و اہل بیت(ع) رسول(ص) میں سے جو فرد علمی درجات عالیہ اور عملی فرائض دینیہ کی حامل ہو وہ ان تمام لوگوں سے مقدم ہے جو آںحضرت کی عترت طاہرہ اور اہلبیت(ع) میں سے نہ ہوں لیکن پھر بھی عملی طور پر حکم رسول(ص) کےبرخلاف ان اشخاص کو آگے بڑھایا جن کو فوقیت کا کوئی حق حاصل نہ تھا اور اس جلیل القدر خاندان کو نظر انداز کردیا۔

فاعتبروا يا اولی الابصارنعوذ بالله من الفتن والتعصب

اب میں آپ حضرات سے انصاف چاہتا ہوں کہ انسخت تاکیدات اور ہدایات کے بعد کہ امت کی نجات قرآن مجید اور عترت طاہرہ(ع) کی ایک ساتھ تقلید اور پیروی کرنے میں منحصر ہے۔ ہماری ذمہ داری کیا ہے۔

حضرات ! راستہ بہت باریک اور خطرناک ہے، اپنے اسلاف کی عادت چھوڑیے اور علم و عقل اور انصاف سے فیصلہ کیجئے۔ آیا ہم اور آپ قرآن کو بدل سکتے ہیں اور زبان و مکان کی مصلحت دیکھتے ہوئے دوسری کتاب کا انتخاب کرسکتے ہیں؟

سید : ایسی کوئی بات ہرگز نہیں ہوسکتی، کیونکہ یہ رسول اللہ(ص) کی امانت، مضبوط آسمانی سند اور بزرگ رہنما ہے۔

جزاک اللہ حقیقت یہی ہے۔ پس جب ہم قرآن کو بدل کے ملک و قوم کی مصلحت پر اس کی جگہ دوسری کتاب منتخب کرسکتے تو عدیل شریک قرآن کے لیے بھی یہی حکم جاری ہوگا۔لہذا اس قاعدے کے رو سے وہ لوگ عترت پر مقدم رکھے گئے جو عترت سے نہیں تھے؟ میرے اس سادہ سوال کا جواب ارشاد فرمائیے تاکہ ہم بھی دیکھین کہ کیا خلفاء ثلثہابوبکر و عمرو عثمان عترت اور اہل بیت(ع) پیغمبر(ص) میں سے ہیں۔ جس سے یہ آیات و اخبار کثیرہ ( ثقلین و سفینہ و باب حطہ وغیرہ) کے مصداق قرار پائیں اور ہم مجبور ہوںکہ رسول اللہ(ص) کے حکم سے ان لوگوں کی اطاعت کریں؟

سید : ہرگز کسی نے ایسا دعوی نہیں کیا ہے کہ علی کرم اللہ وجہ کے علاوہ دوسرے خلفاء رضی اللہ عنہما عترت و اہل بیت پیغمبر(ص) میں سے تھے۔ البتہ رسول اللہ(ص) کے نیک صحابہ میں سے تھے۔

خیر طلب : یہ فرمائیے کہ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی فرد یا قوم کی اطاعت کا حکم دیں اور امت کی ایک جماعت کہے کہ نہیں مصلحت اس میں ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کی پیروی کریں ( چاہے وہ دوسرے بڑے مومن اور صالح کیوں نہ ہوں، تو آیا حکم رسول(ص) کی اطاعت واجب ہے یا امت کی رائے پر عمل کرنا۔

سید : یہی چیز ہے کہ پیغمبر(ص) کی اطاعت واجب ہے۔

۱۰

انسان کو اندھی تقلید مناسب نہیں

خیر طلب : پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد کہ قرآن وعترت کی ایک ساتھ پیروی کرو اور دوسروں کو ان پر مقدم نہ کرو، دوسروں کو آخر کس لیے ترجیح دی گئی در آنحالیکہ اہلبیت(ع) علم و فضل میں ساری امت سے بہتر تھے؟ آیا ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری، واصل بن عطا، مالک بن انس، ابوحنیفہ، محمد بن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل عترت واہلبیت پیغمبر(ص) ہیں یا حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام اور آپ کی اولاد میں سے گیارہ امام جیسے امام جعفر صادق علیہ السلام وغیرہ؟ اںصاف کے ساتھ واضح جواب دیجئے۔

سید : ظاہر ہے کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ اشخاص عترت اور اہل بیت پیغمبر(ص) ہیں۔ البتہ امت کے سر برآوردہ صلحاء فقہاء تھے۔

خیر طلب : لیکن جمہور امت کا اتفاق ہے کہ ہمارے بارہ امام سب کے سب عترت صحیح النسب اور پیغمبر کے اہل بیت(ع) خاص ہیں خود آپ کے بڑے بڑے علماء کے اقرار کے مطابق رسول(ص) نے عدیل وشریک قرآن اور ان کی اطاعت کو ذریعہ نجات قرار دیا ہے اور صاف صاف فرماتے ہیں کہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں ان پر سبقت نہ کرنا۔ اتنی پر زور ہدایات کی موجودگی میں جس وقت رسول اللہ(ص) لوگوں سے سوال کریں گے کہ تم نے میرے حکم سے سرتابی کیوں کی اور دوسروں کو میرے ان اہل بیت پر جو تم سے زیادہ عالم تھے ترجیح کیوں دی حالانکہ میں حکم دے چکا تھا کہ ان پر سبقت نہ کرنا؟ تو اس کا کیا جواب دیں گے؟ چنانچہ شیعوں نے آں حضرت کے حسب الحکم اپنا مذہب باب علم پیغمبر حضرت امیرالمومنین(ع) اور عترت واہل بیت طاہرین علیہم السلام سے حاصل کیا اور زمانہ حضرت علی و حسن و حسین علیہم السلام سے ( جنہوں نے براہ راست آں حضرت سے فیض حاصل کیا تھا ، سلسلہ بہ سلسلہ اس پر قائم رہے، لیکن دوسرے لوگ جو اصول مذہب میں اشعری یا معتزلی اور فروعات میں مالکی، حنبلی، حنفی اور شافعی ہیں ان اشخاص کی پیروی میں رسول خدا(ص) کی کونسی تاکید اپنے پاس رکھتے ہیں؟

علاوہ اس کے کہ یہ اشخاص عترت طاہرہ میں سے نہیں ہیں اور ان کی پیروی کے لیے آنحضرت(ص) کا کوئی حکم نافذ نہیں ہوا ہے۔

بعد رسول(ص) بھی تقریبا تین سو سال تک جو صحابہ اور تابعین کو دور تھا یہ کسی شمار میں نہیں تھے۔ البتہ بعد کو سیاست یا معلوم نہیں اور کس وجہ کی بنا پر میدان میں آگئے۔

لیکن عترت واہل بیت رسول(ص) میں سے ائمہ معصومین خود آں حضرت کے زمانہ سے نمایاں تھے۔ بالخصوص علی(ع) اور حسن حسین علیہم السلام جزء اصحاب کساء اور آیہ تطہیر میں شامل تھے۔

۱۱

آیا یہ مناسب ہے کہ علی، حسن وحسین اور ائمہ عترت و اہل بیت اطہار پیغمبر صلوۃ اللہ علیہم اجمعین کے پروئوں کو جنہوں نے آں حضرت کے حکم سے ان معصوم و منصوص ائمہ کی پیروی کی ہے مشرک و کافر اور گردن زدنی سمجھائے؟ آپ نے کام وہ کیا جو نہ کرنا چاہئیے تھا اور فقہائے عترت عدیل قرآن پر ایسے اشخاص کو مقدم کیا جو نہ اس کی اہلیت رکھتے تھے، نہ عترت رسول(ص) میں سے تھے پھر بھی ہم نہ آپ سے جھگڑتے ہیں نہ آپ حضرات کو مشرک و کافر کہتے ہیں بلکہ اسلامی بھائی سمجھتے ہیں لیکن محکمہ عدالت الہی میں آپ اس کا کیا جواب دیجئے گا کہ بے چارے عوام کو غلط فہمی میں مبتلا کرتے ہیں اور عترت واہل بیت رسول اللہ(ص) کے شیعوں اور پیروئوں کو جو آں حضرت(ص) کے حکم پر عمل کرتے ہوئے عترت طاہرہ کا اتباع کرتے ہیں کافر و مشرک، رافضی اور بدعتی مشہور کرتے ہیں؟

انسان کو علم و عقل کا پیرو ہونا چاہئیے

یہ سب محض اس لیے ہے کہ ہم نے اپنے مذہب کا نام حنفی یا مالکی یا حنبلی یا شافعی کیوں نہیں رکھا اور عترت طاہرہ میں سے امام جعفر صادق علیہ السلام کا طریقہ کیوں اختیار کیا؟ ہم شیعہ کسی کے ساتھ کینہ اور عداوت نہیں رکھتے۔ لیکن چونکہ عقل وخرد اور علم ہم کو حکم دیتا ہے کہ آنکھ بند کر کے کوئی راستہ نہ پکڑیں اور کتاب آسمانی قرآن مجید نے بھی سورہ 39 ( زمر) آیت نمبر19 میں ہماری رہنمائی کی ہے کہ:

"فَبَشِّرْعِبادِالَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ‏ أَحْسَنَهُ‏"

یعنی اے رسول(ص) میرےلطف وکرم کی ان بندوں کو بشارت دے دو جو بات سنتے ہیں اور اس میں سے بہتر کا انتخاب کر کے اس کی پیروی کرتے ہیں۔

لہذا بغیر دلیل کسی کی متابعت نہیں کرتے، ہمارے ہادی اور راہنما خدائے عزوجل اور رسول خدا(ص) ہیں، خدا و رسول نے جو راستہ ہمارے سامنے رکھا ہے ہم اسی پر چلتے ہیں، چنانچہ آیات قرآن مجید اور ارشادات رسول(ص) کے اندر جیسا کہ ( علاوہ روات شیعہ میں تواتر کے) آپ کی معتبر کتابوں میں بھی درج ہیں بے شمار دلائل و براہین ایسے ہیں جو ہم کو ہدایت دے رہے ہیں کہ احق اور صراط مستقیم آل محمد(ص) اور عترت و اہل بیت آنحضرت(ص) کی پیروی میں منحصر ہے۔

اگر آپ قرآن مجید کی ایک آیت یا رسول اللہ(ص) کی ایک حدیث بھی ایسی دکھا دیجئے جو بتاتی ہو کہ اصول میں اشعری یا معتزلی اور فروع میں چاروں امام پ ابوحنیفہ، مالک، احمد حنبل اور شافعی، میں سے کسی ایک کا پیرو ہوناضروری ہے۔ تو چاہے وہ آپ ہی کے یہاں کی حدیث ہو میں مان لوںگا اور ابھی اپنا مذہب بدل دوں گا۔

لیکن آپ کے پاس قطعا کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے سوا کے کہ کہدیجئے یہ اسلامی فقہا تھے اور سنہ666ھ میں ایک ظاہربیبرس نےلوگوں کو مجبور کیا کہ ان چاروں مذاہب میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا لازمی ہے۔ ان واقعات کی تفصیل بیان کرنے کی اس وقت گنجائش نہیں، لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ بغیر کسی نص اور خاص ہدایت کے ان چاروں اماموں کی تقلید پر انحصار کردینا

۱۲

اسلام کے سارے فقہاء و علماء پر کھلا ہو، ظلم اور ان کی حق تلفی ہے۔ در آنحالیکہ تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام کے اندر اور بالخصوص آپ کے مذہب میں کثرت سے فقہاء و علماء پیدا ہوئے جو اپنے کارناموں کے پیش نظر قطعا ان چاروں اماموں سے زیادہ عالم اور فقیہ تھے اور جن کا حق پوری طرح ضائع کیا گیا۔

واقعا تعجب کا مقام ہے کہ آپ باوجود اس قدر نصوص اور واضح دلائل کے جن کا خدا و رسول(ص) کے کثیر آیات و احادیث میں اعلان فرمایا ہے اور جن کو خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی پیروی پر تو مجبور نہیں ہوتے لیکن کسی دلیل و نص کے آنکھ بند کر کے ان چار اماموں کی تقلید و متابعت پر انحصار کر رکھا ہے اور ہمیشہ کے لیے اجتہاد و تقلید کا دروازہ ہی بند کردیا ہے۔

سید : جس دلیل و برہان کی روسے آپ نے بارہاماموں کے اتباع پر انحصار کیا ہےہم نے بھی چار اماموں پر اںحصار کیا۔

خیر طلب : خوب خوب ، ماشاء اللہ! آپ نے تو بہت عمدہ بات کہی، میں بھی آپ کے قاعدے پر آپ کی دلیل و برہان کے سامنے سرجھکانے کو تیار ہوں اگر کچھ ہوتو بیان فرمائیے ۔ خدا سورہ نمبر2( بقرہ) آیت نمبر2 میں فرماتا ہے۔"قُلْ‏ هاتُوابُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ ‏" ( یعنی ( مخالفین سے ) کہدو کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔)

اول تو بارہ اماموں کو شیعوں نے یا ان کے علماء نے سینکڑوں برس بعد اس تعداد میں منحصر نہیں کیا ہے بلکہ نصوص و احادیث کثیرہ جو ہمارے آپ کے طریق سے منقول ہیں ثابت کرتی ہیں کہ خود صاحب شریعت حضرت خاتم الانبیاء(ص) نے ائمہ(ع) کی تعداد بارہ قرار دی ہے۔

پیغمبر(ص) نے خلفا کی تعداد بارہ بتائی ہے

چنانچہ آپ کے اکابر علماء نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ من جملہ ان کے شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے ینابیع المودۃ باب77 ص444 مطبوعہ اسلام بول میں اس عبارت کے ساتھ لکھا ہے۔" فی تحقیق حدیث بعدی اثنا عشر خلیفہ " یعنی اس حدیث کی تحقیق میں کہ میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے) پھر ایک حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :

"ذكريحيى بن الحسن في كتاب العمدةمن عشرين طريقافي أنّ‏ الخلفاءبعدالنبي‏صلّى اللّه عليه وآله اثناعشرخليفةكلّهم من قريش،في البخاري من ثلاثةطرق وفي مسلم من تسعةطرق،وفي أبي داودمن ثلاثةطرق،وفي الترمذي من طريق واحد،وفي الحميدي من ثلاثةطرق."

یعنی یحییٰ بن حسن نے کتاب عمدہ میں بیس(20) طریقوں سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(ص) کے بعد خلفاء برہ عدد ہوں گے اور یہ سب قریش سے ہوں گے صحیح بخاری میں تین(3) طریقوں سے صحیح مسلم میں نو طریقوں سے ، سنن ابی دائود میں تین طریقوں سے، سنن ترمذی میں ایک طریقہ سے اور جمع بین الصحیحین حمیدی میں تین طریقوں سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے۔

۱۳

علاوہ ان کے آپ کے دوسرے علماء جیسے حموینی نے فرائد میں، خوارزمی اور ابن مغازلی نے مناقب میں، امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور بالخصوص میرسید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودۃ دہم میں بارہ حدیثیں عبداللہ ابن مسعود، جابر بن سمرہ، سلمان فارسی، عبداللہ ابن عباس، عبایہ بن ربعی، زید بن حارثہ، ابوہریرہ اور امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے اور ان سب نے مختلف طریقوں سے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نقل کیا ہے کہ فرمایا میرے بعد خلفاء اور ائمہ کی تعداد بارہ ہوگی اور یہ سب قریش سے ہوں گے۔ ان میں سے بعض روایات میں ہے کہ بنی ہاشم سے ہوں گے، بعض میں ان کے نام معین کئے گئے ہیں اور بعض میں صرف عدد کا شمار بتایا گیا ہے۔ یہ ان اخبار و احادیث میں سے صرف ایک نمونہ ہےجو آپ کی کتابوں میں کثرت سے درج ہیں۔ اب یہ ذمہ داری آپ کے سر ہے کہ اگر چار اماموں کے لیے بھی کوئی حدیث آپ کے پاسہو تو بیان کیجئے چاہے وہ ایک ہی ہو۔ ہم اسی ایک حدیث کو تسلیم کر لیں گے۔

قطع نظر اس سے کہ آپ ائمہ اربعہ کے لیے ایک حدیث بھی پیش نہیں کرسکتے۔ شیعوں کے اور آپ کے اماموں کے درمیان بڑا فرق بھی ہے، چنانچہ گذشتہ شبوں میں حسب موقع ہم نے اسکی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ ہمارے ائمہ اثنا عشر اوصیاء رسول(ص) اور من جانب خدا منصوص ہیں۔

آپ کے ائمہ اربعہ کے ساتھ ہرگز ان کا موازنہ نہیں ہوسکتا اس لیے کہ آپ کے امام صرف فقہ اور اجتہاد کا جذبہ رکھتے بلکہ بعض ان میں سے جیسے ابوحنیفہ آپ ہی کے علماء کے اقرار و اعتراف کے مطابق حدیث اور فقہ و اجتہاد سے بھی عاری تھے اور قیاس پر عملکرتے تھے جو خود اپنی جگہ پر ایک کم علمی کی دلیل ہے(ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص--- لیکن ہمارے ائمہ اثنا عشر حجج الہہ اور رسول اللہ(ص) کے اوصیاء و خلفاء منصوص ہیں۔ ہم ان کی تقلید نہیں کرتے بلکہ پیغمبر(ص) کے حسب الحکم ان کے طریقے کے پیرو ہیں۔ البتہ ہر زمانے میں شیعوں کے کچھ فقہاء و مجتہدین ہوتے ہیں جو کتاب وسنت اور عقل و اجماع کے قاعدوں سے احکام الہی کا استنباط کر کے فتاوی صادر کرتے ہیں جن پر ہم ان کی تقلید کرتے ہوئے عمل پیرا ہوتے ہیں۔ باوجودیکہ آپ کے فقہاء ائمہ اہلبیت(ع) کے خرمن علم سے خوشہ چینی کرنے والوں میں تھے۔ لیکن آپ حضرات اپنی عادت اور اسلاف کی تقلید میں علم و عمل کے اساتذہ کو چھوڑ کر ایسے شاگردوں کے پیرو بن گئے جنہوں نے علمی بنیادوں سے ہٹ کے رائے اور قیاس پر عمل کیا۔

سید : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ ہمارے امام آپ کے اماموں سے فیض حاصل کرتے تھے؟

۱۴

امام جعفر صادق علیہ السلام کے مراتب

خیر طلب : یہ تاریخ کا بیان ہے کتابوں میں درج ہے اور خود آپ کے اکابر علماء نے لکھا ہے، ملاحظہ ہو کتاب فصول المہمہ جلیل القدر عالم نور الدین بن صباغ مالکی نے فصل حالات امام بحق ناطق کاشف اسرار حقائق جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام میں اقرار کیا ہے کہ حضرت علم وفضل میں مشہور اورممتاز تھے، یہاں تک کہ کہتے ہیں:

"ونقل الناس عنه من العلوم ماسارت به الركبان،وانتشر صيته و ذكره في سائر البلدان،ولم‏ ينقل‏ العلماءعن أحدمن أهلبيته مانقل عنه من الحديث"

یعنی حضرت سے اس قدر علوم نقل کئے گئے ہیں کہ طالبان فیض اپنی اپنی سواریوں پر روانہ ہوئے، آپ کا شہر اور ذکر خیر تمام شہروں میں پھیل گیا اور علماء نے اہل بیت کی کسی فرد سے اتنی حدیثیں نقل نہیں کیں جتنی آپ سے نقل کیں۔

اس کے بعد کہتے ہیں کہ اکابر امت کی بہت بڑی جماعت جیسے یحییٰ بن سعید، ابن جریح، مالک ابن انس( مالکوں کے امام) سفیان ثوری، ابوعینیہ، ابوایوب سجستانی ، ابوحنیفہ( حنفیوں کے امام) اور شعبہ وغیرہ نے حضرت سے روایت کی ہے۔ انتہی۔

کمال الدین ابن ابی طلحہ اپنے مناقب میں لکھتے ہیں کہ بڑے بڑے بزرگ علماء اور ائمہ دین نے حضرت سے حدیثیں نقل کی ہیں اور آپ کے علم و کمال سے بہرہ اندوز ہوئے ہیں، من جملہ انکے انہیں اقرار کا ذکر کیا ہے جن کے نام صاحب فصول المہمہ نے بتائے ہیں۔

حضرت کے ظاہری و باطنی فضائل و کمالات کے دوست و دشمن سبھی قائل تھے، چنانچہ خود آپ کے منصف اور غیر متعصب اکابر علماء نے اپنی خاص کتابوں میں اس کو درج کیا ہے۔ مثلا شہرستانی ملل و نحل میں، مالکی فصول المہمہ میں اور خصوصیت سے شیخ ابوعبدالرحمن سلمی طبقات المشائخ میں کہتے ہیں۔

"ان الامام جعفرالصادق فاق‏ جميع‏ أقرانه‏،وهوذوعلم غزيرفي الدين،وزهدبالغفي الدنيا،وورع تامّ عن الشهوات،وأدبكاملفيالحكمة"

در حقیقت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے تمام ہمعصروں سے بالاتر تھے، آپ کے دین میں فطری علم و مہارت ، دنیا میں پورا زہد، شہوات سےکامل ورع پرہیز گاری اور حکمت میں مکمل ادب حاصل تھا۔

محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول شروع باب6 ص81 میں ان سارے مطالب کو نقل کیا ہے۔ کہتے ہیں

"هومن عظماءأهل البيت وساداتهم(عليهمالسّلام)ذوعلوم جمّةوعبادةموفورةوأورادمواصلةوزهادةبيّنةوتلاوةكثيرةتتبع معاني القرآن الكريم واستخرج من بحرجواهره واستنتج عجائبه وقسم أوقاته على انواع الطاعات بحيث يحاسب عليهانفسه،رؤيته‏ تذكرةالاخرة،واستماع كلامه تزهدفي الدنيا،والاقتداءبهديه يورث الجنّة،نورقسماته شاهدأنّه من سلالةالنّبوّة،وطهارةأفعالهتصدعبأنهمنذريةالرسالة،نقلالحديثواستفادمنهالعلم

۱۵

جماعةمنأعيانالأئمةوأعلامهممثليحيىبنسعيدالأنصارى،وابنجريح،ومالكبنأنس،والثورى،وابنعيينة،وأبيحنيفة،وشعبة،وأيّوبالسجستانيوغيرهموعدواأخذهمعنهعليهالسّلاممنقبةشرّفوابها،وفضيلةاكتسبوها."

یعنی یہ بزرگوار سادات و بزرگان اہل بیت میں سے ہر طرح کے علم جملہ عبادات ، مسلسل اور راد و وظائف اور نمایاں زہد کے حامل تھے کثرت سے تلاوت فرماتے تھے اور ساتھ ہی آیات قرآنی کی تفسیر بیان فرماتے تھے، اصحاب آپ کے بحر علم سے جواہرات حاصل کرتے اور عجیب و غریب نتائج اخذ کرتے تھے، اپنے اوقات شب و روز کو مختلف عبادتوں پر تقسیم کر دیا تھا گویا اس طرح اپنے نفس کا محاسبہ فرماتے تھے، آپ کی زیارت آخرت کی یاد دلانے والی آپ کلام سننا اس دنیا میں زہد اور آپ کے ہدایات پر عمل کرنا حصول جنت کا باعث تھا، آپ کی نورانی شکل گواہی دیتی تھی کہ خاندان نبوت سے ہیں اور اعمال کی پاکیزگی بتاتی تھی کہ نسل رسول(ص) سےہیں۔ آپ سے ائمہ اور علماء اعلام کی ایک جماعت نے حدیثیں نقل کی ہیں اور علوم حاصل کئے ہیں۔ جیسے یحیٰ بن سعید انصاری، ابن جریح، مالک ابن انس، سفیان ثوری، ابن عینیہ، شعبہ اور ایوب سجستانی وغیرہ جو اپنے اس شرف استفادہ اور کسب فضیلت پرفخر کرتے تھے۔

اگرمیں حضرت کے بارے میں آپ ہی کے علماء کے اقوال اور نظریات و عقائد نقل کرنا چاہوں تو سلسلہ بیان بہت طولانی ہوجائے گا، خلاصہ یہ کہ آپ کے منصف علماء نے عام طور پر اس کا اقرار کیا ہےکہ آپ علم، زہد، ورع و تقوی اور اخلاق حمیدہ میں یگانہ روز گار تھے۔ بدیہی چیز ہے کہ یہ آفتاب کی تعریف و توصیف ہے جس میں زبانیں گنگ ہیں کہ حضرت کے درجات عالیہ میں سے عشر عشیر بلکہ ہزار میں سے ایک بھی بیان کرسکیں۔

نواب : قبلہ صاحب میں آپ کے سلسلہ کلام میں دخل دینے کی معافی چاہتا ہوں لیکن چونکہ میں جلد بھول جاتا ہوں لہذا اگر اجازت ہو تو کچھ دریافت کرلوں؟

خیر طلب : کوئی حرج نہیں فرمائیے! میری درخواست ہے کہ کسی وقت بھی سوال کرنے میں پس وپیش نہ کیجئے۔ مجھ کو ہرگز ناگوار نہیں ہوتا۔

نواب : باوجودیکہ جیسا آپ ن ان راتوں میں بیان فرمایا مذہب تشیع دوازدہ امامی اور اثنا عشری ہے یہ مذہب امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے نام سے کیوں منسوب ہوا اور اس کو مذہب جعفری کس لیے کہا جاتا ہے؟

مذہب جعفری کا ظہور

خیر طلب : حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نبوت کے اس بنیادی دستور کے مطابق کہ ہر پیغمبر اپنی وفات سے قبل من جانب خدا اپنے لیے ایک وصی اور جانشین مقرر کرتا ہے۔امیرالمومنین علی علیہ السلام کو اپنا باب علم

۱۶

وصی، خلیفہ اور جانشین بتایا اور امت کو آپ کی اطاعت کا حکم دیا، لیکن وفات رسول (ص) کے بعد چند وجوہ کی بناء پر جو ارباب ہوش سے مخفی نہیں ہیں سیاسی تدبیروں سے امر خلافت ابوبکر، عمر اور عثمان کے تصرف میں آیا، پھر بھی ابتدائی دور کو چھوڑ کے) سارے زمانہ خلافت میں ابوبکر و عمر جملہ امور میں برابر حضرت سے مشورہ کرتے تھے اور آپ کے ارشادات پر عمل کرتے تھے۔ اس کے علاوہ غیر مذاہب کے بڑے بڑے علماء اور دانشمند بھی جب تحقیق حقائق کے لیے مدینے آتے تھے، تو مباحثات و مناظرات میں حضرت علی(ع) ہی ان کو قائل و معقول فرماتے تھے۔ غرض کہ جب تک آپ زندہ رہے مختلف طریقوں سے مقدس دین اسلام کی اپنی شایان شان خدمات انجام دیتے رہیے لیکن حضرت کی شہادت کے بعد جب لجام حکومت بنی امیہ کے ہاتھوں میں آئی تو ولایت و امامت کی منزلت بالکل اندھیرے میں پڑ گئی اور عترت و اہل بیت رسول(ص) کے ساتھ انتہائی قساوت اور ظلم وتعدی کا برتائو کیاگیا۔ امام برحق حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام سید الشہداء حضرت امام حسین حضرت امام زین العابدین اور حضرت امام محمد باقر علیہم السلام بنی امیہ کی شدید عداوت اور ظلم و ایذا رسانی کے شکار رہےان حضرات کے لیے تمام راہیں مسدود کر دی گئی تھیں اور سوا چند خالص شیعوں کے لوگوں کو ان کے دیدار اور ان سے علوم و حقائق حاصل کرنے کی توفیق نہیں تھی۔ یہاں تک کہ ہر ایک امام کو کسی نہ کسی طریقے سے شہید کردیا گیا۔

بالآخر دوسری صدی ہجری کے اوائل میں جب لوگ بنی امیہ کے ظلم و تعدی اور بد اعمالیوں سے بہت تنگ آگئے تو ان کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لیے ہر طرف سے اٹھ کھڑے ہوئے اور خصوصیت کے ساتھ بنی عباس اور بنی امیہ کے درمیان خون ریز لڑائیاں ہوئیں۔

اس موقع پر جب کی بنی امیہ اپنی حکومت بچانے کی فکر میں تھےکچھ اطمیانی صورت پیدا ہوئی کیوںکہ وہ لوگ اتنے مشغول تھے کہ عترت و اہل بیت رسول(ص) پر اپنی شدید سخت گیری کو قائم نہ رکھ سکے۔

لہذا امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس فرصت سے پورا فائدہ اٹھایا، امیوں کےفشار اور مظالم کی وجہ سے جس گوشہ نشینی پر مجبور تھے اس کو ترک کر کے اپنے گھر کا دروازہ کھول دیا اور مسجد رسول(ص) میں آزادانہ برسر منبر دین کے احکام و قواعد اور علوم نشر فرمانے لگے، چار ہزار علم و دانش اور حدیث کے شائقین بے روک ٹوک زیر منبر یک جا ہوتے تھے۔ اصحاب خاص اور چنے ہوئے طالبان علم نے آپ کے پائین منبر بیٹھ کر جو علمی فیوض و برکات حاصل کئے تھے ان سے انہوں نے چار سو اصول لکھے جو اصول اربعماۃ کے نام سے مشہور ہوئے۔

امامیافعی یمنی نے اپنی تاریخ میں حضرتکی تعریف کی ہے کہ کثرت علم اور وسعت فضل میں کوئی آپ کے قدم بہ قدم نہیں تھا اور آپ کی بلندی علوم و دانش کی کوئی حد نہیں تھی۔ حضرت کے شاگردوں میں سے ایک شخص جابر ابن حیان صوفی نے آپ کے تعلیم کئے ہوئے علوم سے ہزار ورق کی ایک کتاب لکھی اور پانچ سو رسالے تالیف کئے۔ انتہی

اہل سنت کے اکابرفقہائے اسلام اور ائمہ عظام آپ کی بزم فیض کے شاگردوں اور طالب علموں میں سے تھے۔

۱۷

مثلا ابوحنیفہ، مالک ابن انس، یحییٰ بن سعیدانصاری، ابن جریح ، محمد بن اسحاق، یحییٰ ابن سعید قطان، سفیان بن عینیہ، اور سفیان ثوری وغیرہ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا جن میں سے ہر ایک اپنی استعداد کے مطابق حضرت کی خدمت سے بہرہ اندوز ہوتا تھا۔

آپ کے آبائے کرام اور ابنائے ذوی الاحترام میں سے کسی بزرگوار کو ظاہری طور پر ایسی ریاست علمی حاصل نہیں ہوئی کہ بغیر کسی مانع کےدین کے احکام و قواعد،آیات قرآنی کی تفسیر، اصول علم و حدیث اور اسرار و حقائق کو علانیہ اور کھلم کھلا بیان کرسکتے۔

اس لیے کہ بنی امیہ تو آپ کے آباء کو مانع رہے اور بنی عباس نے انتہائی بے حیائی کے ساتھ آپ کی اولاد میں سے کل ائمہ پر سخت قدغن رکھا۔

در حقیقت شیعیت کی اصلیت کا مکمل ظہور اور معارف آل محمد(ص) کی با لاعلان اشاعت ( جس کا سرچشمہ ذات رسول(ص) تھی) حضرت ہی کے ذریعے انجام پذیر ہوئی۔ لہذا یہ مذہب آپ کے نام سے مشہور ہوا اور مذہب جعفری کہا گیا۔ ورنہ امام جعفر صادق علیہ السلام، آپ کے آبائے میں سے چار اور اولاد میں سے چھ امام نیز عم بزرگوار حضرت امام حسن علیہ السلام سب کے سب ائمہ برحق تھے اور ان میں باہم کوئی فرق نہیں تھا۔

عظیم درد دل اور عترت سے بے اعتنائی

لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ایسے عظیم المرتبت امام کو جن کی اعلمیت اور اکملیت کا اقرار دوست و دشمن سبھی نے کیا ہے آپ کے اسلاف سب سے زیادہ عالم و فقیہ اور کامل ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے بلکہ اتنی رواداری بھی نہیں برتی کہ آپکا نام گرامی ائمہ اربعہ کی فہرست میں شامل کر لیں۔ حالانکہ حضرت علم و فضل، زہد و ورع اور تقوی و کمال کے ان تمام مراتب کے ساتھ ساتھ( جن کی خود آپ کے علماء بھی تصدیق کرتے ہیں) چونکہ رسول اللہ (ص) کی عترت اور اہل بیت پاک میں سے تھے لہذا دوسروں پر تقدم کا حق رکھتے تھے۔

اگر ہم پیروی کرنے والوں کی حیثیت سے اندازہ کریں تب بھی آپ کے ائمہ اربعہ میں سے کسی کے پیرو غالبا پیروان امام جعفر صادق علیہ السلام کے برابر نہیں نکلیں گے۔

آپ کے متعصب علماء نے ( اتنی سفارشوں کے باوجود) اپنے پیغمبر(ص) کی عترت کے ساتھ اس قدر بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا کہ آپ کے بڑے بڑے فقہاء جیسے بخاری اور مسلم تو اس پر بھی راضی نہیں ہوئے کہ اس فقیہہ اہل بیت طہارت(ع) کی روایتیں اپنی کتابوں میں نقل کریں۔ بلکہ عترت طاہرہ(ع) میں سے کسی امام اور سادات علوی و حسینی و عابدی و موسوی و رضوی میں سے بڑے

۱۸

بڑے علماء و صفحاء جیسے زید بن علی بن الحسین( شہید) یحییٰ بن زید، محمد بن عبداللہ، ( نفس زکیہ) حسین بن علی مدفون بہ فخ، یحییٰ بن عبداللہ بن حسن اور ان کے بھائی ادریس، محمد بن جعفر الصادق، محمد بن ابراہیم(معروف بہ ابن طباطبا) محمد بن زید، عبداللہ بن حسن اور علی بن جعفر ( عریضی) وغیرہ سے جو سب کے سب خاندان رسالت کے اکابر علماء و فقہا میں سے تھے کوئی حدیث یا روایت نقل نہیں کیا ہے۔

لیکن معلوم الحال ابوہریرہ اور بے مثال جھوٹے جعلساز اور خارجی عکرمہ کو جن کے صفات کی، آپ کے علماء نے بھی تصدیق کی ہے ( اور ہم بھی گذشتہ شبوں میں ان کے حالات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں) جان و دل سے قبول کر کے ان سے روایتیں نقل کی ہیں۔

یہاں تک کہ ابن البیع نے لکھا ہے کہ بخاری نے خوارج و نواصب میں سے عمران ابن حطان ( عبدالرحمن ابن ملجم مرادی قاتل امیرالمومنین علیہ السلام کا مداح) جیسے بارہ سو اشخاص سے روایت کی ہے۔

تاثر بالائے تاثر

بڑی حیرت کی بات ہے کہ امام اعظم ، امام مالک، امام شافعی اور امام حنبل کو جن میں سے کوئی بھی عترت اور اہل بیت رسول(ص) سے نہیں تھا مسلمان پاک سمجھیں اور ہرفرقے والا اپنے طریقے میں آزاد ہو باوجودیکہ باہم اصول و فروع میں شدید اختلافات بھی رکھتے ہیں، لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام کے پروئوں کو کافر و مشرک اور رافضی کہیں۔ اور سنی ممالک میں یہاں تک کہ مکہ معظمہ کے اندر جس کے بارے میں خدا فرماتا ہے " من دخلہ کان آمنا" ( یعنی جو اس میں داخل ہوگیا وہ بے خوف ہے۔ ان کو اپنے عقیدے اور اعمال میں آزادی میسر نہ ہو۔

کیا خوب کہا ہے حافظ شیرازی نے

گرمسلمانی ہمیں اس کہ حافظ دارد وائے گر از پس امروز بود فردائے

پاس آپ حضرات یہ جان لیجئے کہ ہم شیعہ لوگ اسلام میں افتراق کے باعث نہیں ہیں، باہمی نفرت اور جدائی ہم نہیں پیدا کرتے بلکہ جو کچھ ہوتا ہے آپ ہی کی طرف سے ہوتا ہے کہ دس کروڑ سے زائد مسلمان، موحد اور مومن جماعت کو جو قبلہ، نماز، روزہ، حج اور دوسرے احکام دین میں آپ کے ساتھ شریک ہے۔ آپ اسے بیگانہ اور کافر و مشرک سمجھتے ہیں ( اس موقع پر موذن نے نماز کی اطلاع دی اور مولوی صاحبان نماز عشاء میں مشغول ہوئے۔ ادائے فریضہ اور چائے سےفراغت کے بعد جناب حافظ صاحب نے سلسلہ کلام شروع کیا۔

حافظ : حقیقت امر یہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا میں بے اںصاف اور حق کش آدمی نہیں ہوں، آپ کے بیان کے ان

۱۹

خاص مقامات میں مجھ کو اعتراف ہے متعصبانہ زیادتیاں بہت ہوئی ہیں اور بغیر کسی دنیا سازی اور چاپلوسی کے کہتا ہوں، کہ بالخصوص ان راتوں میں میں نے بذاب خود آپ کی صحبت سے کافی فائدہ اٹھایا ہے، اور پوری طرح متنبہ ہوچکا ہوں لیکن اس وقت آپ کی اجازت سے ایک جملہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جو شکوہ بھی ہے اور حریم اہل تسنن کی طرف سے دفاع بھی اور وہ یہ کہ آپ جیسے شیعہ مبلغین اور علماء اپنے عوام کو ایسی رفتار و گفتار سے منع کیوں نہیں کرتے جس کا انجام کفر ہے تاکہ دوسروں کو لفظ کفر زبان پر جاری کرنے کا موقع ہی نہ ملے؟

چونکہ انسان اکثر کسی ایک بیجا بات یا بے محل گفتگو کی وجہ سے بھی حملوں کی زد میں آجاتا ہے۔ لہذا آپ حضرات بھی اہل سنت والجماعت کو اعتراضات کا نشانہ نہ بنائیے ، کیونکہ خود شیعہ ہی اس کا موقع دیتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جن سے قلوب متاثر ہوتے ہیں اور اسی بنا پر ان کی طرف کفر کی نسبت دی جاتی ہے۔

خیر طلب: وہ کون سی رفتار و گفتار ہے جس کا انجام کفر ہے؟گزارش ہے کہ ذرا وضاحت کیجئے تاکہ معمہ حل ہو۔

شیعہ صحابہ اور ازواج رسول(ص) پر طعن کیوں کرتے ہیں؟

حافظ : ان کا بد کلامی اس قسم کی ہے کہ رسول اللہ(ص) کے خاص صحابہ اور آنحضرت(ص) کے بعض ازواج طاہرات پر طعن و تشنیع اور نکتہ چینی کرتے ہیں جو یقینا کھلا ہوا کفر ہے۔

چونکہ ان حضرات نے اعلائے کلمہ توحید کے لیے آن حضرت(ص) کی رکاب میں محضر انتساب میں کافروں سے کافی جہاد کئے ہیں۔ لہذا بدیہی چیز ہے کہ ان کے خدمات مفاسد اور نقائص سے خالی تھے اور یہ قطعا جنت کے مستحق ہوں گے۔ خصوصا وہ حضرات جو بمقضائے آیت نمبر18 سورہ نمبر48 ) فتح):

"لَقَدْرَضِيَ‏ اللَّهُ‏عَنِالْمُؤْمِنِينَإِذْيُبايِعُونَكتَحْتَالشَّجَرَةِ"

یعنی خدا یقینا مومنین سے خوش ہوا جب کہ وہ ( حدیبیہ میں) درخت کے نیچے تمہاری بیعت کر رہے تھے رضائے الہی کے شرف سے مشرف ہوئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ(ص) قولا و فعلا ان کی توقیر فرماتے تھے،ان کے کمال کا منکر لازمی طورپر ذلت و گمراہی میں مبتلا ہوا اور وہ در حقیقت بمقتضائے آیہ شریفہ سورہ نجم "وَمايَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْ هُوَإِلَّاوَحْيٌ يُوحى ‏"( یعنی آپ ہرگز اپنی خواہش نفس سے کوئی بات نہیں کہتے بلکہ آپ ہر قول سوا وحی خدا کے اور کچھ نہیں) پیغمبر اور قرآن کا منکر ٹھہرا اور جو شخص پیغمبر اور قرآن کا انکار کرے وہ بلا شبہ کافر ہے۔

خیر طلب : میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ جناب عالی اس قسم کے موضوعات کو اس کھلے ہوئے جلسے میں زیر بحث لائیں یا بقول خود شکوہ قرار دیں تاکہ میں بھی جواب دینے پر مجبور ہوں اور بات عوام کے جاہل و متعصب گروہ تک پہنچے جس سے ان کو مخالف پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ہاتھ آئے۔ بہتر تو یہ تھا کہ ہمارے درمیان تنہائی میں ان مطالب پر رد و بدل ہوتی تاکہ میں جواب

۲۰