پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 325677 / ڈاؤنلوڈ: 8655
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

طيبات:طيبات سے استفادہ ۲۴

ظالمين: ۳۰

ظلم:ظلم كے موارد ،۳۱

كفران:كفران نعمت ۳۱

گناہ:گناہ كے آثار ۳۲

گناہ گار:گناہ گاروں كا خسارہ ۳۲

منّ:نعمت منّ ۱۸، ۱۹، ۲۶;نعمت منّ سے استفادہ ۲۲;نعمت منّ كا باعث ۲۰

موسىعليه‌السلام :عصائے موسىعليه‌السلام ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲ ;موسىعليه‌السلام كا پتھر سے پانى نكالنا ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲ ;موسىعليه‌السلام كا قصہ ۹، ۱۰، ۱۲;موسىعليه‌السلام كو وحى ۱۱;موسىعليه‌السلام كے معجزات كا متعدد ہونا ۲۶

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كے فرزند ۳

آیت ۱۶۱

( وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ اسْكُنُواْ هَـذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُواْ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُواْ حِطَّةٌ وَادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّداً نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِيئَاتِكُمْ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ )

اور اس وقت كو ياد كرو جب ان سے كہا گيا كہ اس قريہ ميں داخل ہوجاؤ اور جو چاہو كھاؤ ليكن حطّہ كہہ كر داخل خونا ہوتے وقت سجدہ كرتے ہوئے داخل ہونا تا كہ ہم تمھارى خطاؤں كو معاف كرديں كہ ہم عنقريب نيك عمل والوں كے اجر ميں اضافہ بھى كرديں گے(۱۶۱)

۱_ بنى اسرائیل كو حكم ملا كہ بيابانى زندگى كے بعد اب تم بيت المقدس كى آبادى ميں سكونت اختيار كرو_

۳۲۱

و إذ قيل لهم اسكنوا هذه القرية

كلمہ ''قرية'' لغت ميں گاؤں اور شہر دونوں كيلئے استعمال ہوا ہے اور قرآن ميں بھى دونوں كيلئے بروئے كار لايا گيا ہے اور كسى ايك معنى پر قرينہ نہ ملنے كى وجہ سے فوق الذكر مفہوم ميں كلمہ ''آبادي'' لايا گيا ہے ''القرية'' كا ''ال'' عہد حضورى ہے اور كسى خاص بستى كى طرف اشارہ ہے، بہت سے مفسرين كى يہ رائے ہے كہ اس سے مراد بيت المقدس ہے_

۲_ بيت المقدس كى آبادى ميں سكونت اختيار كرنے كا فرمان ايك ايسا فرمان تھا كہ جو خدا كى طرف سے بنى اسرائیل كو ملاتھا_و إذ قيل لهم اسكنوا هذه القرية

كلمہ ''قيل'' كو بصورت مجہول لايا گيا ہے اور فرمان دينے والے كو ذكر نہيں كيا گيا ليكن جملہ ''نغفر لكم ...'' سے معلوم ہوتاہے كہ فرمان دينے والا خدا ہے_

۳_ بنى اسرائیل كو جب بيت المقدس ميں رہنے كا حكم ملا اس وقت وہ اس آبادى كے نزديك كسى جگہ رہتے تھے_

و إذ قيل لهم اسكنوا هذه القرية

فوق الذكر مفہوم كلمہ ''ھذہ'' كو مد نظر ركھتے ہوئے اخذ كيا گيا ہے_

۴_ عصر موسىعليه‌السلام ميں بيت المقدس كى سرزمين ايك آباد ، نعمات سے مالامال اور غذاؤں سے پُر علاقوں پر مشتمل تھي_

و كلوا منها حيث شئتم

۵_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كيلئے بيت المقدس ميں ہر جگہ سے غذائیں مہيا كرنے كو، حلال اور مباح كر ركھا تھا_

و كلوا منها حيث شئتم

۶_ بنى اسرائیل كو خدا كا حكم تھا كہ بيت المقدس كو تصرف ميں لاتے وقت گناہوں سے استغفار كريں _و قولوا حطة

كلمہ ''حطة'' كلمہ''مسألتنا'' كى مانند ايك محذوف مبتدا كيلئے خبر ہے، يہ كلمہ مصدر ہے اور ركھنے اور نيچے لانے كے معنى ميں آتاہے چنانچہ يہاں بعد والے جملے (نغفر لكم) كے قرينے كى روشنى ميں اس سے مراد گناہوں كا بوجھ برطرف كرنا اور ان كى مغفرت ہے_ بنابرايں ''قولوا حطة'' يعنى كہو خدايا ہمارى درخواست ،گناہوں كى بخشش ہے_

۷_ بيت المقدس كو تصرف ميں لانے كے دوران خداوند كى طرف سے بنى اسرائیل كو خشوع و خضوع كا اظہار كرنے كا حكم ملا تھا_''سُجّداً'' كلمہ ''ساجد'' كى جمع ہے اور ''ادخلوا'' كے فاعل كيلئے حال ہے اور چونكہ ورود كى حالت ميں سجدہ اس كے اصطلاحى معنى (يعنى زمين پيشانى ركھنا) كے ساتھ سازگار نہيں لہذا كہا جاسكتا ہے كہ يہاں اس كا لغوى معنى

۳۲۲

(خضوع و خشوع) مراد ليا گيا ہے_

۸_ بيت المقدس كا دروازہ، اس سرزمين ميں داخل ہونے اوراس پر قبضہ كرنے كيلئے خدا كى جانب سے راہ كے طور پر معين كيا گيا تھا_و ادخلوا الباب

۹_ بيت المقدس ميں داخل ہونے اور وہاں سكونت اختيار كرنے كيلئے معين كئے گئے آداب كى رعايت كى صورت ميں ، خدا كى طرف سے بنى اسرائیل كو گناہوں كى معافى كى بشارت_اسكنوا ...و ادخلوا الباب سُجّداً نغفر لكم خطيئتكم

ظاہر يہ ہے كہ جملہ''نغفر لكم'' آيت مذكور تمام اوامر كيلئے جواب ہے، بنابرايں تقدير يوں ہوگي:''ان تسكنوا و تاكلوا و تقولوا و تدخلوا الباب سُجّداً نغفر لكم'' _

۱۰_ بيت المقدس ميں داخل ہونے سے پہلے بنى اسرائیل پر بہت زيادہ گناہوں كا بوجھ تھا_نغفر لكم خطيئتكم

فوق الذكر مفہوم كلمہ ''خطيئات'' كہ جسے بصورت جمع لايا گياہے ،كومد نظر ركھتے ہوئے اخذ كيا گياہے_

۱۱_ انسان كے گناہوں كى معافى خدا كے اختيار ميں ہے_نغفر لكم خطيئتكم

۱۲_ بارگاہ خدا ميں استغفار، گناہوں كى بخشش كا باعث بنتاہے_و قولوا حطة ...نغفر لكم خطيئتكم

۱۳_ قوم موسى ميں نيك كردار اور پاك دامن افراد كى موجودگي_سنريد المحسنين

كلمہ ''المحسنين'' اس گروہ كے مقابل ميں ہوسكتاہے كہ جو جملہ''نغفر لكم خطيئتكم'' سے سمجھا جاتاہے يعنى بنى اسرائیل كے دو گروہ تھے ايك گروہ گنہگار كہ جس كى طرف جملہ''نغفر لكم خطيئتكم'' ميں اشارہ پايا جاتاہے اور دوسرا گروہ پاكدامنوں كا كہ جسے كلمہ ''المحسنين'' بيان كرتاہے_

۱۴_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كے محسنين كو بيت المقدس ميں وارد ہونے كيلئے معين كيئےئے آداب كى پابندى كرنے كى صورت ميں ، ان كے احسان سے بڑھ كر جزا دينے كى بشارت دي_سنزيد المحسنين

۱۵_ فرامين الہى كى اطاعت، احسان اور نيك كردار شمار ہوتى ہے_اسكنوا ...و قولوا حطة و ادخلوا الباب سُجّداً ...سنزيد المحسنين

۳۲۳

فوق الذكر مفہوم، كلمہ''المحسنين'' كے بارے ميں ديئے گئے ايك اور احتمال كى اساس پر اخذ ہوا ہے يعنى يہ كلمہ ''ضمير ''كم'' كے جانشين كے طور پر ليا گيا تا كہ اس معنى كى طرف اشارہ ہوپائے كہ مذكورہ فرامين كى اطاعت احسان ہے اور ان اوامر كى اطاعت كرنے والے محسنين ہيں _

۱۶_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كے نيك كردار لوگوں كو فرامين الہى كى اطاعت كرنے كى صورت ميں گناہوں كى بخشش كے علاوہ اور مزيد جزا كى بشارت دي_سنزيد المحسنين

فوق الذكر مفہوم ميں محسنين كوگناہ گاروں كے مقابلے ميں قرار نہيں ديا گيا ہے بلكہ اس كے لغوى معنى (نيك كام كرنے والے) ہى كو مد نظر ركھا گيا ہے اس بنأپر آيت كريمہ بنى اسرائیل كى دو گروہوں ميں تقسيم كى طرف ناظر نہيں ہے بلكہ انہيں دو گروہوں يعنى محسنين اور غير محسنين كى طرف تقسيم كيا گيا ہے اور جملہ''نغفر لكم ...'' يہ معنى فراہم كرتاہے كہ خدا سب كے (محسنين اور غير محسنين كے) گناہوں كو معاف كردے گا البتہ محسنين كو زيادہ جزا عنايت كرے گا_

۱۷_ خدا كے فرامين كى اطاعت كرنے والے نيكوكار ہونے كى صورت ميں دوسرے مطيع افرادكى نسبت زيادہ جزا سے بہرہ مند ہوں گے_سنزيد المحسنين

۱۸_ دعا و استغفار كے حكم سے پہلے محل سكونت اور اسباب معيشت فراہم كرنا، خدا كے سامنے خضوع و خشوع كرنے اور اس سے بخشش چاہنے كى طرف لوگوں كو مائل كرنے كيلئے ايك اچھى روش ہے_

و إذ قيل لهم اسكنوا ...ادخلوا الباب سجدا نغفر لكم خطيئتكم

بيت المقدس ميں بنى اسرائیل كے داخل ہونے كى داستان كے عادى بيان كا تقاضا يہ تھا كہ جملہ ''ادخلوا الباب سُجّداً'' اور جملہ ''قولوا حطة'' كو جملہ ''اسكنوا ...'' اور ''كلوا ...'' سے پہلے لايا جائیے اسلئے كہ تصرف ميں لانا پہلے ہے اور سكونت اختيار كرنا بعد ميں ہے لہذا اس تقديم اور تاخير ميں مندرجہ بالا مفہوم كى طرف اشارہ پايا جاتاہے_

۱۹_ بيت المقدس ميں بنى اسرائیل كے داخل ہونے كى داستان ايك عبرت آموز اور ياد ركھنے كے لائق داستان ہے_

و إذ قيل لهم اسكنوا ...سنزيد المحسنين

كلمہ ''إذ'' ''اذكرو'' (ياد كرو) كى طرح كے كسى فعل كے متعلق ہے_

احسان:احسان كى جزاء ۱۴;احسان كے موارد ۱۵

۳۲۴

استغفار:استغفار كى اہميت ۶;استغفار كے آثار ۱۲;استغفار كے اسباب ۱۸; گناہوں سے استغفار ۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى اطاعت ۱۵; اللہ تعالى كى اطاعت كى جزا ئ،۱۷; اللہ تعالى كى اطاعت كے آثار ۱۶;اللہ تعالى كى بشارت ۹، ۱۴ ;اللہ تعالى كے اختصاصات ۱۱;اللہ تعالى كے اوامر ۲، ۶، ۷

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل بيت المقدس ميں ۱، ۲، ۵، ۱۰، ۱۹ ; بنى اسرائیل پر امتنان ۵; بنى اسرائیل كو بشارت ۹، ۱۶; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۳، ۸، ۱۳، ۱۹; بنى اسرائیل كى سكونت ۱، ۲، ۹ ; بنى اسرائیل كى مغفرت ۹; بنى اسرائیل كى نعمات ۵; بنى اسرائیل كے بے گناہ افراد ۱۳; بنى اسرائیل كے محسنين كى اطاعت ۱۶; بنى اسرائیل كے محسنين كى جزاء، ۱۶; بنى اسرائیل كے محسنين كى مغفرت ۱۶ ; بيت المقدس ميں بنى اسرائیل كا ورود ۳، ۶، ۷، ۸، ۱۴، ۱۹

بيت المقدس:بيت المقدس كا آباد ہونا ۴;بيت المقدس كا دروازہ ۸;بيت المقدس كى فضيلت ۷; بيت المقدس ميں داخل ہونے كے آداب ۶، ۷، ۹; عصر موسىعليه‌السلام ميں بيت المقدس كى تاريخ ۴

تاريخ:تاريخ سے عبرت حاصل كرنا ۱۹

جزاء:جزاء كے مراتب ۱۴، ۱۶، ۱۹

خشوع:خشوع كے اسباب ۱۸

خضوع:خضوع كى روش ۱۸

ذكر:تاريخ كا ذكر ۱۹

گناہ:مغفرت گناہ كا سبب ۱۱

محسنين:محسنين كى جزاء ۱۷

مسكن:مسكن فراہم كرنے كى اہميت ۱۸

معاش:معاش فراہم كرنے كى اہميت ۱۸

مغفرت :مغفرت كے اسباب ۱۲

۳۲۵

آیت ۱۶۲

( فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ قَوْلاً غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزاً مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُواْ يَظْلِمُونَ ) .

ليكن ظالموں نے جو انھيں بتايا گيا تھا اس كو بدل كر كچھ اور كہنا شروع كرديا تو ہم نے ان كے اوپر آسمان سے عذاب نازل كرديا كہ يہ فسق اور نافرمانى كر رہے تھے(۱۶۲)

۱_ قوم موسى ميں سے ايك گروہ كا اعمالنامہ، بيت المقدس ميں داخل ہونے سے پہلے ظلم اور گناہ سے آلودہ تھا_

فبدل الذين ظلموا ...بما كانوا يظلمون

۲_ قوم موسى كے حرام خوروں نے بيت المقدس ميں داخل ہوتے وقت خدا سے طلب مغفرت كى بجائیے ايك دوسرا كلام زبان پر جارى كرليا_فبدل الذين ظلموا منهم قولًا غير الذى قيل لهم

كہا جاسكتاہے كہ آيت ۱۶۰ ميں مذكور جملہ ''و لكن كانوا أنفسھم يظلمون'' كى روشنى ميں مورد بحث آيت كے جملے ''الذين ظلموا'' سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جنہوں نے غير پاكيزہ غذاؤں سے استفادہ كرتے ہوئے حرام خورى كا مظاہرہ كيا_

۳_ حرام خوري، فرامين خدا سے سرپيچى اور دوسرے گناہوں كے ارتكاب كا راستہ ہموار كرتى ہے_

فبدل الذين ظلموا منهم قولاً غير الذى قيل لهم

۴_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كے ايك گروہ كو ان كے تمرد (طلب مغفرت نہ كرنے اور اس كى بجائیے دوسرى بات كہنے) كى وجہ سے آسمانى عذاب ميں مبتلاء كيا_فارسلنا عليهم رجزاً من السماء بما كانوا يظلمون

۵_ بنى اسرائیل كے متمردين (نافرمانوں ) پر نازل كيا جانے والا عذاب، ان كے گزشتہ گناہوں نيز بيت المقدس ميں ورود كيلئے مقرر كيئےئے آداب كى رعايت نہ كرنے كے گناہ كى سزا تھا_

فبدل الذين ظلموا منهم ...فأرسلنا عليهم رجزا من السماء بما كانوا يظلمون

فوق الذكر مفہوم كى اساس يہ ہے كہ ''بما كانوا يظلمون'' ميں ظلم اور گناہ سے مراد وہ گناہ نہ ہو كہ جسے جملہ ''فبدل ...'' بيان كرتاہے_ بنابريں ''فبدل ...'' پر ''فارسلنا ...'' كى تفريع سے يہ مطلب سمجھ ميں آتا ہے كہ وہ عذاب ،فرمان الہى ميں تبديلى كرنے كى وجہ سے تھا،

۳۲۶

اور ''بما كانوا ...'' ميں باء سببيہ يہ مطلب فراہم كرتى ہے كہ اس عذاب كى وجہ، بنى اسرائیل كا گزشتہ ظلم اور گناہ تھا يعنى تبديل كرنے كے گناہ كے علاوہ گزشتہ گناہ بھى عذاب نازل ہونے كا باعث بنے_

۶_ گنہگار اور ستم پيشہ لوگ، دنيوى عذاب ميں گرفتار ہونے كے خطرے سے دوچار ہيں _

فأرسلنا عليهم رجزا من السماء بما كانوا يظلمون

۷_ فرامين الہى سے سرپيچى ظلم ہے_فبدل الذين ظلموا

۸_ بدعت اور دينى حقائق كى تحريف، ظلم ہیفبدل الذين ظلموا منهم قولًا غير الذى قيل لهم فأرسلنا ...بما كانوا يظلمون

''ما كانوا يظلمون'' كے مصاديق ميں سے ايك مصداق اس كلام كى تحريف اور تبديلى ہے كہ جو خداوند نے بنى اسرائیل كو سكھايا تھا تاكہ بيت المقدس ميں ورود كے وقت زبان پر جارى كريں (قولوا حطة) خدا نے اس تبديلى اور تحريف كو ظلم شمار كيا ہے، بنابريں خدا كے كلام (كہ وہى دينى حقائق ہيں ) كى تحريف ظلم كے مصاديق ميں سے ہے_

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى نافرمانى كا ظلم ہونا۷; اللہ تعالى كى نافرمانى كے اسباب ۳;اللہ تعالى كے عذاب ۴

بدعت:بدعت كا ظلم ۸

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كا عذاب ۴; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲;بنى اسرائیل كے حرام خور ۲;بنى اسرائیل كے ظالمين ۱;بنى اسرائیل كے گنہگار ۱;بنى اسرائیل كے متمردين كا عذاب ۴، ۵ ;بيت المقدس ميں بنى اسرائیل كا ورود ۲

بيت المقدس:بيت المقدس ميں ورود كے آداب ۵;

حرام خوري:حرام خورى كے اثرات ۳

دين:تحريف دين كا ظلم ہونا۸

۳۲۷

ظالمين:ظالمين كا دنيوى عذاب ۶

ظلم:ظلم كے موارد ۷،۸

گذشتگان:گذشتہ لوگوں كے گناہ كے اثرات ۵

گناہ:گناہ كے اسباب ۳

گناہگار:گناہگاروں كا دنيوى عذاب ۶

آیت ۱۶۳

( واَسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً وَيَوْمَ لاَ يَسْبِتُونَ لاَ تَأْتِيهِمْ كَذَلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ )

اور ان سے اس قريہ كے بارے ميں پوچھو جو سمندر كے كنارے تھا اور جس كے باشندے شنبہ كے بارے ميں زيادتى سے كام ليتے تھے كہ ان كى مچھلياں شنبہ كے دن سطح آب تك آجاتى تھيں اور دوسرے دن نہيں آتى تھيں تو انھوں نے حيلہ گرى كرنا شروع كردي_ ہم اسى طرح ان كا امتحان ليتے تھے كہ يہ لوگ فسق اور نافرمانى سے كام لے رہے تھے(۱۶۳)

۱_ خداوند متعال نے يہود پر ہفتہ كے دن كام اور دوسرى سرگرمياں حرام كر ركھى تھيں _

اذ يعدون فى السبت ...و يوم لا يسبتون

كلمہ ''سبت'' قطع عمل اور سكون و استراحت كے بنابرايں ''يوم السبت'' يعنى چھٹى اور استراحت معنى ميں ہے كہ جسے تعطيل سے تعبير كيا جاتاہے،كا دن اور''يوم لا يسبتون'' يعنى جس دن چھٹى نہيں كرتے تھے بلكہ وہ دن كام كا دن تھا، يعدون كا مصدر ''عدوان'' تخلف اور تجاوز كے معنى ميں آتاہے چھٹى كے دن تجاوز سے مراد چھٹى (تعطيل) ختم كرناہے، بنابرايں اس دن ہر طرح كا كام حرام تھا اور ماہى گيرى كو حرمت كے

۳۲۸

انجام پانے والے ايك مصداق كے عنوان كے طور پر بيان كيا گيا ہے_

۲_ بحيرہ احمر كے ساحل پر واقع ايلہ كى بستى ميں ساكن يہودى روز شنبہ كى تعطيل كے دن ماہى گيرى كركے اس حكم كى خلاف ورزى كرتے تھے_و سئلهم عن القرية التى كانت حاضرة البحر اذ يعدون ...اذ تاتيهم حيتانهم

''البحر'' ميں ''ال'' عہد ذہنى كا ہے اور مفسرين نے كہا ہے كہ اس سے احمر كى طرف اشارہ ہے ''القرية'' سے مراد جيسا كہ اہل تفسير كے ہاں مشہور ہے'' ايلہ'' كى بستى ہے (كہ جو شام اور مصر كے درميان ايك شہر ہے)_

۳_ خداوند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كہا كہ يہوديوں سے ''ايلہ'' كے لوگوں كى داستان كے بارے ميں سوال كرو_

و سئلهم عن القرية التى كانت حاضرة البحر

۴_ عصر بعثت كے يہودي، ايلہ كے اپنے ہم مذہب يہوديوں كى خلاف ورزى اور ان كى رويداد سے آگاہ تھے_

و سئلهم عن القرية التى كانت حاضرة البحر

۵_'' ايلہ'' كے رہنے والوں كے بارے ميں يہوديوں سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سوال كا مقصد، فرمان الہى كى مخالفت كے برے انجام كى طرف يہوديوں كى توجہ دلانا تھا_و سئلهم عن القرية التى حاضرة البحر

۶_ ہفتہ كے دن (ائین يہود كے مطابق چھٹى كے دن) ايلہ كے قريب والے سمندر كے ساحل كى طرف مچھلياں ہلہ بول ديتيں اور پانى كى سطح پر ظاہر ہوتى تھيںإذ تاتيهم حيتانهم يوم سبتهم شرعاً

''شرع'' شارع كى جمع ہے، لسان العرب ميں آياہے كہ ''حيتان شرع'' يعني: وہ مچھلياں كہ جو پانى كى گہرائی سے ساحل كى طرف آتى ہيں _ بعض اہل لغت كا كہنا ہے كہ ''حيتان شرع'' يعنى وہ مچھلياں كہ جو پانى سے سرباہر نكالتى ہیں _

۷_'' ايلہ'' كے ساحل سمندر پر ظاہر ہونے والى مچھلياں وہاں كے لوگوں كى دل پسند تھيں _اذ تاتيهم حيتانهم

''ايلہ ''كے لوگوں كى طرف مچھليوں كى نسبت دينے ميں (حيتانھم) ميں ہوسكتاہے فوق الذكر مفہوم كى طرف اشارہ ہو يعنى ان مچھليوں كو ايلہ كے لوگوں كى مچھلياں كہنے كى وجہ يہ ہے كہ وہ لوگ ان مچھليوں كے ساتھ بہت لگاؤكھتے تھے_

۸_ بحيرہ احمر كى مچھلياں كام كے دنوں ميں ''ايلہ'' كے سواحل كى طرف نہيں آتى تھيں يوں وہ ماہى گيروں كو دكھائی نہ ديتيں _

يوم لا يسبتون لا تأتيهم

۳۲۹

۹_ ہفتہ كے دن (يہوديوں پر شكار كے حرام ہونے كے دن) مچھليوں كا وافر مقدار ميں ظاہر ہونا، خدا كى طرف سے ''ايلہ'' كے لوگوں كى آزماءش كا ذريعہ تھا_كذلك نبلوهم

۱۰_ ہفتہ كے دن مچھليوں كى بہتات اور سطح سمندر پر ان كا ظہور ايلہ كے يہوديوں كيلئے حكم خداكى خلاف ورزى كرنے كا محرّ ك تھا_إذ يعدون فى السبت إذ تأتيهم حيتانهم يوم سبتهم شرعا

۱۱_ خداوند متعال ايلہ كے يہوديوں كے امتحان كيلئے ہفتہ كے دن مچھليوں كو ساحل كى طرف بھيجتا اور باقى دنوں ميں ساحل سے دور ركھتا_إذ تأتيهم حيتانهم يوم سبتهم شرعا و يوم لا يسبتون لا تاتيهم كذلك نبلوهم

چونكہ ہفتہ كے دن تعطيل كا حكم صرف ''ايلہ ''والوں كيلئے نہ تھا بلكہ سب يہوديوں كيلئے تھا، اس سے معلوم ہوتاہے كہ خدا نے وہاں كے لوگوں كيلئے جو كچھ پيش كيا تا كہ انہيں آزمائے ،وہى شنبہ كے دن مچھليوں كا آنا اور باقى دنوں ميں كمياب ہوجانا تھا نہ يہ كہ شنبہ كے دن خود كام كا حرام ہونا مراد ہو لہذا ''ذلك'' كا مشاراليہ مچھليوں كى بيان كى جانے والى صورتحال ہے_

۱۲_ مچھليوں كى حركت اور سمندر ميں ان كى حركت كى سمت كا معين كرنا، خدا كے اختيار ميں ہے_

إذ تأتيهم ...لا تأتيهم كذلك نبلوهم بما كانوا يفسقون

۱۳_'' ايلہ'' كے يہوديوں كا گزشتہ اعمالنامہ فسق و فساد سے سياہ تھابما كانوا يفسقون

فوق الذكر مفہوم اسى بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''بما كانوا'' كا ''ما'' مصدريہ ہو يعني: ان كے سابقہ فسق و فساد كے سبب سے ہم نے انہيں اس طرح آزمايا_

۱۴_'' ايلہ ''كے رہنے والوں كا ديرينہ فسق و فساد، شكار كے حكم تحريم سے سرپيچى كرنے كيلئے مناسب موقع (شنبہ كے دن مچھليوں كا ظاہر ہونا اور باقى دنوں ميں ناياب ہوجانا) فراہم كرنے كے ذريعے ان كى آزماءش كا سبب بنا تھا_

كذلك نبلوهم بما كانوا يفسقون

''كذلك'' جملہ ''اذ تاتيھم حيتانھم ...'' سے حاصل ہونے والے معنى كى طرف اشارہ ہے_

۱۵_ انسان كا فسق اور فساد، خدا كے فرامين سے سرپيچى كرنے اور آزماءش ميں ناكام رہنے كى راہ ہموار كرتاہے_

كذلك نبلوهم بما كانوا يفسقون

۱۶_ خداوند متعال نے ''ايلہ'' كے يہوديوں كو ايسى آزماءش ميں مبتلا كيا كہ جس ميں ناكامى انہيں

۳۳۰

ہميشہ كى نافرمانى اور انحراف كى طرف لے جاتى تھي_كذلك نبلوهم بما كانوا يفسقون

مندرجہ بالا مفہوم اس اساس پر اخذ كيا گيا ہے كہ ''بما كانوا'' ميں ''ما'' موصول اسمى ہو، يعنى ''بالذى كانوا يفسقون بہ'' (ايسى چيز كے ذريعے انہيں آزمايا كہ جو ان كے فسق كا موجب بنتى تھي) واضح ہے كہ اس معنى كا پورا ہونا ان كى آزمايش ميں ناكامى كے باعث ہے_

۱۷_ خدا كے فرامين سے سرپيچى كرنے والے فاسق ہيں _كذلك نبلوهم بما كانوا يفسقون

۱۸_عن امير المؤمنين عليه‌السلام (فى قصة اصحاب السبت): ...إن الشيطان أوحى إلى طائفة منهم انما نهيتم عن أكلها يوم السبت و لم تنهوا عن صيدها فاصطادوا يوم السبت و كلوها فى ما سوى ذلك من الايام فقالت طائفة منهم الان نصطادها فعتت .(۱)

حضرت امير المؤمنينعليه‌السلام سے اصحاب سبت كى داستان كے ضمن ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ: ...شيطان نے ان ميں سے ايك گروہ كو وسوسہ كيا كہ تمہيں شنبہ كے دن مچھلى كھانے سے نہى كى گئي ہے نہ كہ اس كے شكار سے، پس ہفتہ كے دن شكار كرو اور باقى ايام ميں كھاؤ ،ايك گروہ نے شيطان كے وسوسے كو قبول كيا اورہفتہ كے دن خدا كے قانون كى خلاف ورزى كي

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا امتحان ۱۵، ۱۶; اللہ تعالى كى نافرمانى ۱۷; اللہ تعالى كے افعال ۱۱، ۱۲، ۱۶;اللہ تعالى كے اوامر ۳

امتحان:امتحان ميں ناكامى ۱۵، ۱۶;شكار كا امتحان ۹

انجام :برا انجام ۵

ايلہ:اہل ايلہ كا قصہ ۳; اہل ايلہ كى خواہشات ۷;اہل ايلہ كے قصہ سے عبرت ۵;ايلہ كے سواحل كى مچھلياں ۶، ۷، ۸، ۹

بحيرہ احمر :بحيرہ احمر كى مچھلياں ۶

دين:دين كے ساتھ مخالفت كا انجام ۵

عصيان:عصيان كے اسباب ۱۵، ۱۶

فاسقين: ۱۷

____________________

۱_تفسير قمى ج/۱ ص ۲۴۴، تفسير برھان ج/۲ ص ۴۲ ح ۲_

۳۳۱

فسق:فسق كے اثرات ۱۵

مچھلياں :مچھليوں كى حركت كا منشاء ۱۱، ۱۲

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور يہود ۵;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مسؤوليت ۳;يہود سے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا سوال ۵

ہفتہ:ہفتہ كى تعطيل ۱، ۲، ۶

يہود:ايلہ كے يہود ۸، ۱۰; ايلہ كے يہود كا امتحان ۹، ۱۱; ايلہ كے يہود كا انجام ۵;ايلہ كے يہود كا تجاوز ۴; ايلہ كے يہود كا عصيان ۲، ۱۶ ; ايلہ كے يہود كا فسق ۱۳، ۱۴; ايلہ كے يہود كا قصّہ ۴; ايلہ ميں شنبہ كا دن ۱، ۲، ۶، ۹، ۱۰ ;بحيرہ احمر كے ساحل كے يہود ۲; صدر اسلام كے يہود كى آگاہى ۴، ۸; فاسق يہود ۱۳; ہفتہ كے دن يہود كى ماہى گيرى ۲، ۱۴;يہود پر حرام شكار ۹، ۱۴;يہود كى تاريخ ۱، ۸، ۱۱ ;يہود كے محرمات ۱

آیت ۱۶۴

( وَإِذَ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْماً اللّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَاباً شَدِيداً قَالُواْ مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ )

اور جب ان كى ايك جماعت نے مصلحين سے كہا كہ تم كيوں ايسى قوم كو نصيحت كرتے ہو جسے اللہ ہلاك كرنے والا ہے يا اس پر شديد عذاب كرنے والا ہے تو انھوں نے كہا كہ ہم پروردگار بارگاہ ميں عذر چاہتے ہيں اور شايد يہ لروگ متقى بن ہى جائیں (۱۶۴)

۱_ ايلہ ميں ساكن يہوديوں كے تين گروہ تھے، فاسق متجاوزين، نصيحت كرنے والے يعنى منكرات سے روكنے والے صالحين، اور نھى عن المنكر كو ترك كرنے والے_إذ قالت أمة منهم لمَ تعظون قوماً

بعد والى آيت كے حصے''الذين ينهون عن السوئ'' كى روشنى ميں مذكورہ آيت ميں موعظہ سے مراد نہى عن المنكر ہے_

۳۳۲

۲_ ايلہ كے ساكنين كى اكثريت ہفتہ كے دن مچھلى كے شكار كے گناہ ميں آلودہ ہوگئي تھي_إذ قالت أمة منهم لم تعظون قوماً

ہوسكتاہے كہ متجاوزين كو كلمہ ''قوماً'' كے ساتھ تعبير كرنے سے مذكورہ بالا مفہوم كى طرف اشارہ مراد ہو_

۳_ ايلہ ميں ساكن يہود ميں سے نصيحت كرنے والوں نے اپنے ہم مذہب لوگوں كو خدا كى نافرمانى (ہفتہ كے دن كے احكام كى مخالفت) سے روكا_لمَ تعظون قوماً

۴_ ايلہ كے يہوديوں ميں سے نھى عن المنكر كو ترك كرنے والے گروہ نے نصيحت كرنے والوں پر اعتراض كيا اور ان كے عمل (نھى عن المنكر) كو بے جا شمار كيا_لمَ تعظون قوماً

۵_ ايلہ كے يہوديوں ميں سے مچھلى كے شكار سے اجتناب كرنے والے (خواہ نصيحت كرنے والے ہوں يا نھى از منكر كو ترك كرنے والے) متجاوزين پر عذاب الہى نازل ہونے يا خدا كى طرف سے ان كى ہلاكت كے بارے ميں مطمئن تھے_

الله مھلكھم أو معذبھم عذاباً شديداً

۶_ ايلہ كے متجاوزين كى ہلاكت يا ايك سخت عذاب ميں ان كى گرفتار ہونے كے بارے ميں اطمينان، ان كے مقابلے ميں سكوت اختيار كرنے اور نصيحت كو ترك كرنے والوں كا ايك بہانہ تھا_

لمَ تعظون قوماً الله مهلكهم أو معذبهم عذاباً شديداً

۷_ ہفتہ كے دن كى تعطيل كى حرمت كو توڑنا، ائین يہود ميں ايك عظيم گناہ ہے اور شديد عذاب كا باعث ہے_

اللّه مهلكهم أو معذبهم عذاباً شديداًعذاب كى شدت، گناہ كے عظيم ہونے پر دالّ ہے_

۸_ نصيحت كرنے والے يہوديوں كا نہى عن المنكر كو ترك كرنے والوں كے اعتراض كے مقابلے ميں يہ جواب تھا كہ ہمارے اس عمل (نھى عن المنكر) كا سبب ،بارگاہ خدا ميں عذر قائم كرنا، اور متجاوزين كے تجاوز سے اجتناب كے بارے ميں اميد ہے_قالوا معذرة إلى ربكم و لعلّهم يتقون

كلمہ ''معذرة'' مصدر ہے اور عذر ركھنے كے معنى ميں استعمال كيا گيا ہے اور ايك مقدر فعل ''نعظھم'' كيلئے مفعول لہ ہے يعني: ہم انہيں موعظة كرتے ہيں تا كہ بارگاہ خدا ميں عذر پيش كرسكيں _

۹_ ايلہ كے مصلحين گناہ كے مقابلے ميں سكوت اختيار كرنے كو ناروا شمار كرتے ہوئے نھى عن المنكر كے

۳۳۳

تاركيں كو بارگاہ خدا ميں معذور نہيں سمجھتے تھے_قالوا معذرة إلى ربكم و لعلهم يتقون

موعظہ كرنے والوں كو ظاہراً ''ربنا'' (ہمارا پروردگار) كہنا چاہيے تھا ليكن انہوں نے ''ربّكم'' (تمہارا پروردگار) كہا، اس ميں اس حقيقت كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ خداوند متعال تمہارا پروردگار بھى ہے لہذا اس كے حضور تمہارے پاس كوئي عذر ہونا چاہئے البتہ جان لو كہ اگر تم نے نھى عن المنكر كو ترك كيا تو اس كے سامنے معذور نہيں ہوگے_

۱۰_ بندوں پر خدا كى ربوبيت كے بارے ميں يہود كے مصلحين كا يقين ہى معاشرے كى اصلاح اور منحرفين كو گناہ اور تجاوز سے روكنے كيلئے ان كى جد و جہد كا باعث تھا_قالوا معذرة إلى ربكم

فوق الذكر مفہوم اسم ''رب'' كو مد نظر ركھتے ہوئے اخذ كيا گيا ہے_

۱۱_ مچھلى كے شكار سے اجتناب كرنے والے دو گروہوں (نصيحت كرنے والوں اور نھى عن المنكر كو ترك كرنے والوں ) كے درميان مناظرے كى داستان، ياد ركھنے كے لائق ايك عبرت آموز داستان ہے_

إذ قالت أمة منهم لمَ تعظون ...قالوا معذرة إلى ربكم

فوق الذكر مفہوم اس اساس پر مبتنى ہے كہ جب ''إذ قالت ...'' محذوف فعل ''اذكر'' كے متعلق ہو_

۱۲_ نھى عن المنكر، لوگوں كو گناہ سے روكنے كا ايك ذريعہ ہے_و لعلهم يتقون

۱۳_ معاشرے كى اصلاح اور نھى عن المنكر كيلئے جد و جہد كرنا سب پر فرض ہے_قالوا معذرة الى ربكم و لعلهم يتقون

۱۴_ بُرائی كے حامل معاشروں ميں صرف مصلحين اور نھى عن المنكر كرنے والے ہى بارگاہ خدا ميں ايك قابل قبول عذر ركھتے ہيں _لم تعظون قوماً ...قالوا معذرة إلى ربكم

۱۵_ بُرائی سے پرہيز كرنے والے جب تك معاشرے كو گناہ سے روكنے كيلئے كوشش نہ كريں ، خدا كے سامنے ذمہ دار ہيں _

قالوا معذرة إلى ربكم و لعلهم يتقون

۱۶_ فاسق لوگوں كا حق كو قبول نہ كرنا، نھى عن المنكر كو ترك كرنے كا جواز فراہم نہيں كرتا_

لمَ تعظون قوماً اللّه مهلكهم ...قالوا معذرة إلى ربكم و لعلهم يتقون

يہود كے ناصحين نے نہى از منكر كيلئے دو دليليں قائم كيں ، ايك بارگاہ خدا ميں عذر ركھنا (معذرة الى ربكم) او دوسرا احتمال تاثير (لعلهم يتقون ) ان كے كلام كا تقاضا يہ ہے كہ احتمال تاثير كا نہ ہونا،نہى عن المنكر كو ترك كرنے كا جواز فراہم نہيں كرتا اور

۳۳۴

ايك قابل قبول عذر نہيں ہوگا_

۱۷_ خدا كے فرامين سے سرپيچى كرنے والے فاسقين ، ہلاك ہونے يا پھر خدا كى طرف سے ايك سخت عذاب ميں مبتلا ہونے كے خطرے سے دوچار ہيں _اللّه مهلكهم أو معذبهم عذاباً شديداً

اديان:اديان ميں امر بالمعروف ۱، ۳

اللہ تعالي:اللہ تعالى كى بارگاہ ميں عذر ۸، ۱۴ ;اللہ تعالى كى طرف سے عذاب ۵، ۱۷ ;اللہ تعالى كى نافرمانى ۳، ۱۷

ايلہ:اہل ايلہ كا عصيان ۲; اہل ايلہ كا قصّہ ۲، ۳، ۴، ۸ ; اہل ايلہ كى اكثريت ۲; اہل ايلہ كے قصّے سے عبرت حاصل كرنا ۱۱; ايلہ كے امربالمعروف كرنے والے ۴، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱; ايلہ كے صالحين۱ ; ايلہ كے فاسقين ۱; ايلہ كے متجاوزين ; ايلہ كے متجاوزين كا عذاب ۵، ۶ ; ايلہ كے متجاوزين كى ہلاكت ۵، ۶; ايلہ كے مصلحين ۱، ۳، ۵، ۸، ۹، ۱۰ ; ايلہ كے نہى عن المنكركرنے والے ۱، ۳، ۱۰ ;ايلہ كے نھى عن المنكر كو ترك كرنے والے ۱، ۴، ۶، ۸، ۱۱ ; ايلہ ميں مچھلى كا شكار ۵;ايلہ ميں نھى عن المنكر ۳، ۴

ايمان:ايمان كے آثار ۱۱۰;ربوبيت خدا پر ايمان ۱۰

تاريخ:تاريخ سے عبرت حاصل كرنا ۱۱

تجاوز:تجاوز كى ممانعت ۸

ترغيب:ترغيب كے عوامل ۱۰

ذكر:حوادث تاريخ كا ذكر ۱۱

شكار:مچھلى كے شكار سے اجتناب ۱۱

عذاب:عذاب كے اسباب۷

فاسقين:فاسقين كا حق كو قبول نہ كرنا ۱۶; فاسقين كا عذاب ۱۷;فاسقين كى آزماءش ۱۷

فريضہ:ترك فريضہ كے اسباب ۶

گناہ:گناہ سے اجتناب ۱۵;گناہ كى ممانعت ۱۰، ۱۲، ۱۵; گناہ كے مقابلے ميں سكوت ۶، ۹

۳۳۵

مسؤوليت:عمومى مسؤوليت ۱۳

مصلحين:مصلحين كا عذر ۱۴

معاشرتى نظم و ضبط كے ذراءع :۱۰، ۱۲،۱۳، ۱۵

معاشرہ:اصلاح معاشرہ ۱۳;فاسد معاشرہ كا عذر ۱۴

نھى عن المنكر:اديان ميں نھى عن المنكر ۱، ۳;نھى عن المنكر ترك كرنے والوں كا گناہ ۹;نھى عن المنكر كا فلسفہ ۸،۱۲

;نھى عن المنكر كو ترك كرنا ۱۶;نھى عن المنكر كى اہميت ۱۵;نھى عن المنكر كى عموميت ۱۳

نھى عن المنكركرنے والے:نھى عن المنكر كرنے والوں كا عذر۱۴

ہفتہ:ہفتہ كى چھٹى ۷;ہفتہ كے دن مچھلى كا شكار ۲

يہود:ايلہ كے يہود ۴، ۵،۶;يہود كى تاريخ ۱;يہود كے محرمات ۷ ; يہود كے ہاں ہفتہ كا دن ۷، ۲ ;يہود ميں گناہان كبيرہ ۷;يہود ميں مچھلى كا شكار ۱۱

آیت ۱۶۵

( فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُواْ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ )

اس كے بعد جب انھوں نے ياد دہانى كو فراموش كرديا تو ہم نے برائی وں سے روكنے والوں كو بچاليا اور ظالموں كو ان كے فسق اور بدكردارى كى بنا پر سخت ترين عذاب كى گرفتار ميں لے ليا(۱۶۵)

۱_ ايلہ كى بستى ميں مجرم يہوديوں نے مصلحين اور نھى عن المنكر كرنے والوں كے نصائح اور مواعظ كى پرواہ نہ كرتے ہوئے انہيں فراموش كرديا_فلما نسوا ما ذكّروا به

۲_ خداوند متعال نے ايلہ كى بستى ميں نافرمان يہوديوں كو ہفتہ كے دن، مچھلى كا شكار جارى ركھنے اور مصلحين كے مواعظ كى پرواہ نہ كرنے كى وجہ سے ايك سخت عذاب ميں مبتلاء كرديا_

فلما نسوا ما ذكّروا به ا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس

''بئيس ''يعنى شديد

۳۳۶

۳_ خداوند متعال نے ايلہ كے يہوديوں ميں سے صرف نھى عن المنكر كرنے والے مصلحين كو عذاب ميں مبتلاء ہونے سے نجات بخشي_ا نجينا الذين ينهون عن السوئ

۴_ خداوند متعال نے ايلہ كے يہوديوں ميں سے ان لوگوں كو بھى عذاب ميں گرفتار كيا كہ جو خود تو صالح تھے ليكن متجاوزين كو نصيحت نہيں كرتے تھے_ا نجينا الذين ينهون عن السوء وا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس

گزشتہ آيت ميں ايلہ كے يہوديوں كو ان كى كاركردگى كے لحاظ سے تين گروہوں ميں تقسيم كيا گيا اور موجودہ آيت ميں ان كے انجام كو بيان كيا گيا ہے اور انہيں دوگروہوں ميں قرار ديا ہے اس موازنہ سے معلوم ہوتا ہے كہ خدا نے نھى عن المنكر ترك كرنے والوں كو بھى ظالموں ميں شمار كيا ہے (الذين ظلموا )

۵_ ايلہ كے يہوديوں ميں سے نہى عن المنكر ترك كرنے والے، ناصحين كى ياد دہانى (نھى عن المنكر كى ضرورت) سے بے اعتنا ء تھے _فلما نسوا ما ذكروا به ''نسوا'' اور ''ذكّروا'' كى ضميريں متجاوزين اور نہى عن المنكر ترك كرنے والوں كى طرف پلٹتى ہيں ،نہى عن المنكر ترك كرنے والوں كو جو تذكّر ديا گيا وہ وہى ہے كہ جو جملہ ''معذرة الى ربكم'' سے سمجھا جاتاہے يعنى مصلحين نے انہيں سمجھايا كہ تم بھى نہى عن المنكر كا فريضہ انجام دو ورنہ جوابدہ ہوگے ليكن انہوں نے اس كى پرواہ نہ كي_

۶_ ہفتہ كے دن كے حكم (كسب مال اور مچھلى كے شكار كى حرمت) كى خلاف ورزى كرنے والے يہودي، خدا كے نزديك ظالم اور فاسق تھے_و ا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس بما كانوا يفسقون

۷_ ايلہ كے يہوديوں كا فسق اور ظلم ان پر عذاب الہى كے نزول كا باعث بنا_ا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس بما كانوا يفسقون

''بما كانوا'' ميں ''ما'' مصدريہ ہے اور ''باء'' سببيہ ہے يعنىا خذنا هم بسبب فسقهم _

۸_ احكام الہى كى خلاف ورزى اور پھر اس خلاف ورزى پر اصرار ،فسق اور ظلم ہے كہ جس كيلئے خدا كى طرف سے سخت سزا ہے_و ا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس بما كانوا يفسقون

۹_ نھى عن المنكر كو ترك كرنے اور منحرفين كے فسق اور ظلم كے سامنے سكوت اختيار كرنے كى بہت سخت سزا ہے_

۳۳۷

ا نجينا الذين ينهون عن السوء و ا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس

۱۰_ نہى عن المنكر، موعظہ كے مصاديق ميں سے ہے_لمَ تعظون ...الذين ينهون عن السوئ

۱۱_ نہى عن المنكر كوترك كرنے والے ،گنہگاروں كے جرم ميں شريك ہوتے ہيں اور ان ہى كى طرح كے انجام سے دوچار ہوتے ہيں _ا نجيناالذين ينهون عن السوء و ا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس

۱۲_ نہى عن المنكر، گنہگاروں كيلئے معين كيئےئے عذاب سے نجات حاصل كرنے كا باعث ہے_

ا نجينا الذين ينهون عن السوء و اخذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس

اللہ تعالى :اللہ تعالى كے افعال ۳، ۴;اللہ تعالى كے عذاب ۸

ايلہ:اہل ايلہ كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵ ;ايلہ كے صالحين كا عذاب ۴; ايلہ كے مصلحين كى نجات ۳;ايلہ كے نھى عن المنكر كرنے والے ۱;ايلہ كے نھى عن المنكر كرنے والوں كى نجات ۳

ظالمين: ۶

ظلم:ظلم كى سزا ،۹;ظلم كے آثار ۷ ; ظلم كے موارد ۸

عذاب:دنيوى عذاب ۲، ۳، ۴;دنيوى عذاب كے عوامل۷;عذاب سے نجات ۳;عذاب سے نجات كے عوامل۱۲;عذاب كے مراتب ۸، ۹

عصيان:عصيان پر اصرار ۸;عصيان كى سزا ،۸;عصيان كے آثار ۸

فاسقين: ۶فسق:فسق كى سزا ،۹;فسق كے اثرات ۷; فسق كے موارد ۸

گناہ:گناہ كے مقابلے ميں سكوت ۹

گنہگار:گنہگاروں كے گناہ ميں شريك ۱۱

مصلحين:مصلحين سے بے اعتنائی ۵

معاشرہ:فاسق معاشرے كا عذاب ۱۲

موعظہ:

۳۳۸

موعظہ سے بے اعتنائی ۲;موعظہ كے موارد ۱۰

نہى عن المنكر:نہى عن المنكر ترك كرنے والوں كا انجام ۱۱;نہى عن المنكر ترك كرنے والوں كا عذاب ۴;نہى عن المنكر ترك كرنے كا گناہ ۱۱;نہى عن المنكر ترك كرنے والوں كى سزا ،۹;نہى عن المنكر ترك كرنے والے ۵;نہى عن المنكر كى اہميت ۱۰; نہى عن المنكر كے نتائج ۱۲

ہفتہ:ہفتہ كے دن مچھلى كا شكار ۲، ۶

يہود:ايلہ كے يہود ۵;ايلہ كے يہود كا ظلم ۷;ايلہ كے يہود كا عذاب ۲، ۳، ۴، ۷ ;ايلہ كے يہود كا فسق ۷;ايلہ كے نافرمان يہود ۱، ۲، ۶ ;يہود اور ايلہ كے مصلحين ۱، ۲;يہود كے محرمات ۶;يہود ميں ہفتہ كا دن ۶

آیت ۱۶۶

( فَلَمَّا عَتَوْاْ عَن مَّا نُهُواْ عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُواْ قِرَدَةً خَاسِئِينَ )

پھر جب دوبارہ ممانعت كے باوجود سركشى كى تو ہم نے حكم دے ديتا كہ اب ذلت كے ساتھ بندر بن جاؤ (۱۶۶)

۱_ خداوند متعال نے ايلہ كے يہوديوں كو مچھلى كے شكار كے ذريعے ہفتہ كے دن كا قانون توڑنے كى وجہ سے راندے ہوئے بندروں ميں تبديل كرديا_فلما عتوا عن ما نهوا عنه قلنا لهم كونوا قردة خسئين

''عتوا'' كا مصدر ''عتّو'' عصيان اور سركشى كے معنى ميں آتاہے ''ما نھوا عنہ'' سے مراد ہفتہ كے دن مچھلى كا شكار ہے_

۲_ محرمات الہى كو انجام دينے پر اصرار كرنے والے لوگ، ذليل ہونے اور بارگاہ خدا سے راندے جانے كے خطرے سے دوچار ہوتے ہيں _كونوا قردة خسئين

''خاسي'' يعنى راندہ ہوا نيز حقير اور ذليل كے معنى ميں بھى آتاہے_ ''خاسئين'' ''كونوا'' كيلئے خبر دوم ہے_

۳_ خداوند متعال نے ايلہ كے يہوديوں كو نازل كيے گئے عذاب سے عبرت حاصل نہ كرنے اور مچھلى كے شكار پر مصّر رہنے كى وجہ سے بندروں ميں تبديل كردياو ا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس ...فلما عتوا عن ما نهوا عنه

جملہ ''ا خذنا الذين ظلموا ...'' كے بعد جملہ

''فلما عتوا'' كا واقع ہونا اس مطلب كو بيان كرتاہے كہ متجاوزين دنيوى عذاب ميں مبتلا ہونے كے بعد بھى اسى طرح مچھلى كے شكار پر مصّر رہے _

۳۳۹

۴_ خداوند متعال كا حكم دينا اور چاہنا ہى ايك موجود كے دوسرے موجود ميں تبديل ہونے كيلئے كافى ہے_

قلنا لهم كونوا قردة خسئين

۵_ خداوند متعال، عالم خلقت پر على الاطلاق حاكميت ركھتاہے_قلنا لهم كونوا قردة خسئين

آيت شريفہ ميں نہيں آيا كہ متجاوزين بندر بن گئے بلكہ صرف بندر ہوجانے كے بارے ميں حكم ذكر ہوا ہے، اس معنى ميں (يعنى حكم كے عملى ہونے كى تصريح نہ كرنے ميں ) اس حقيقت كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ فرمان الہى اٹل ہے اور كوئي چيز بھى اس كے مانع نہيں بن سكتى ادھر سے حكم دينا اور اُدھر سے اسكا عملى ہونا يعنى حاكميت على الاطلاق

۶_ ايلہ كے لوگوں ميں سے نھى عن المنكر ترك كرنے والے بندروں ميں تبديل نہيں ہوئے_

فلما عتوا عن ما نهوا عنه قلنا لهم كونوا قردة

''ما نھو عنہ'' كا عنوان نھى عن المنكر كے ترك كرنے كو شامل نہيں ہے اس كے برعكس ''ما ذكروا بہ'' كا عنوان گزشتہ آيت ميں نھى عن المنكر كے ترك كرنے كو بھى شامل ہے_

۷_ ايلہ كے نافرمان يہوديوں كا مسخ ہوكر راندے ہوئے بندروں ميں تبديل ہوجانا، ان كيلئے ايك سخت عذاب الہى تھا_

قلنا لهم كونوا قردة خسئين

بعض كاكہناہے كہ ''قلنا لهم '' گزشتہ آيت ميں مذكور اسى ''عذاب بئيس'' كا بيان ہے _يہ بات قابل ذكر ہے كہ اس بناء پر''الذين ظلموا'' نہى عن المنكر كو ترك كرنے والوں كو شامل نہ ہوگا اس لئے كہ انہوں نے شكار كى حرمت كے قانون كو نہيں توڑا اور بندروں ميں تبديل نہيں ہوئے_

۸_ عالم مادہ ميں ايك موجود كے كسى دوسرے موجود ميں تبديل ہوجانے كا امكان موجود ہے_قلنا لهم كونوا قردة خسئين

آفرينش:حاكم آفرينش ۵

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا عذاب ۷; اللہ تعالى كى حاكميت ۵; اللہ تعالى كے افعال ۳; اللہ تعالى كے اوامر ۴

انواع ميں تبديلي: ۸ايلہ:اہل ايلہ كا دنيوى عذاب ۷;اہل ايلہ كا قصّہ ۱، ۳، ۶; اہل ايلہ كا گناہ پر اصرار ۳;ايلہ كے نہى عن المنكر ترك كرنے والے ۶

ذلت:

۳۴۰

دینا چاہتا۔

در خانہ اگر کس است یک حرف بس است

میرے خیال میں نمونے کے طور پر اور دماغوں کو روشن کرنے کے لئے ذیل کا ایک ہی واقعہ کافی ہوگا۔ جس سے آپ حضرات سمجھ لیں گے کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں دلیل و برہان کے ساتھ کہتے ہیں۔

جن مواقع پر حضرت کے علم سے پردہ اٹھا ہے اور امت کو معلوم ہوا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام غیب کے عالم ہیں ان میں سے ایک آئیندہ کل کی تاریخ بھی ہے جس میں بعض صحیح اور مشہور روایات کی بنا پر ریحانہ رسول الثقلین حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی ہے۔

ولادت امام حسین(ع) اور تہنیت ملائکہ کی خبر

" إِنَّ النَّاسَ دَخَلُوا عَلَى النَّبِيِّ وَ هَنَّوْهُ‏ بِمَوْلُودِهِ‏ الحُسَيْنِ"

لوگ حضرات رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور آں حضرت کو ولادت حسین علیہ السلام کی تہنیت دی۔

مجمع میں سے ایک شخص نے عرض کیا "بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ " (میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں یا رسول اللہ(ص) ، ہم لوگوں نے آج علی(ع) سے ایک عجیب امر مشاہدہ کیا۔ فرمایا تم نے کیا دیکھا؟ جب ہم تہنیت کے لئے آۓ تو ہم کو یہ عذر بیان کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے سے روک دیا کہ ایک لاکھ بیس ہزار فرشتے تہنیت و مبارکباد کے لئے آسمان سے نازل ہوۓ ہیں اور رسول اللہ(ص) کی خدمت میں موجود ہیں۔ ہم نے تعجب کیا کہعلی کیونکر آگاہ ہوۓ اور کہان سے شمار کر لیا آیا آپ نے ان کو اطلاع دی ہے؟ آں حضرت(ص) نے تبسم فرمایا اور علی سے دریافت کیا کہ تم نے کہاں سے جانا کہ اتنے فرشتے میرے پاس آۓ ہیں؟ آپ نے عرض کیا:بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي" جوفرشتہ آپ کے اوپر نازل ہوتا تھا اور سلام عرض کرتا تھا وہ ایک نئی زبان میں آپ سے گفتگو کرتا تھا۔ جب میں نے شمار کیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک لاکھ بیس ہزار زبانوں میں گفتگو کی ہے۔ لہذا میں نے سمجھ لیا کہ ایک لاکھ بیس ہزار ملائکہ حاضر خدمت ہوۓہیں۔

آں حضرت(ص) نے فرمایا" زَادَكَ اللَّهُ عِلْماً وَ حِلْماً يَا أَبَا الْحَسَنِ. " خدا تمہارے علم و حلم کو اور زیادہ کرے ابوالحسن(علی(ع)) پھر امت کی طرف رخ کر کے فرمایا:

"انا مدینة العلم و علی بابهاوماالله نباءاعظم منه ومالله آیةاکبرمنه هوامام البریةوخیرالخلیفةامین الله وخازن علم الله وهوالراسخ فی العلم وهواهل الذکرالذی

۳۴۱

قال الله تعالی فاسئلوااهل الذکران کنتم لاتعلمون اناخزانةالعلم وعلی مفتاحهافمن ارادالخزانةفلیات المفتاح"

یعنی میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، خدا کے لئے ان سے بڑی کوئی خبر اور ان سے بڑی کوئی آیت نہیں۔ یہ امام ناس، بہترین خلق، خدا کے امین اور اس کے علم کے خزینہ دار ہیں۔ یہ علم میں راسخ اور وہ اہل ذکر ہیں جس کے لئے خدا نے فرمایا کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔ میں علم کا خزانہ ہوں اور علی(ع) اس کی کنجی ہیں۔ پس جو شخص خزانہ چاہتا ہے اس کو کنجی کے پاس آنا چاہیئے۔

منصفانہ فیصلہ

حضرات محترم! اگر آپ اںصاف سے کام لیں، تھوڑی دیر کے لئے اپنی عادت کو چھوڑ دیں اور عادلانہ فیصلہ کریں تو بلا ارادہ فطری طور پر آپ کا دل تصدیقکرے گا کہ ایسی بزرگ شخصیت جو تمام علوم انبیاء اور اسرارغیب کی جامع صفات مرسلین کا مکمل آئینہ، جملہ صفات حمیدہاور اخلاق پسندیدہ کی حامل اور عدالت وتقوی اور عصمت کے مرتبے پر فائز تھی جس کے لئے خود رسول اللہ(ص) نے بھی حکم دیا ہے کہ اس کے دروازے پر جاؤ، نیز اس کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور اس کی مخالفت کو اپنی مخالفت قرار دیا ہے اور جو زہد ورع، پرہیزگاری اور نسل کے لحاظ سے ساری خلقت اور کل کائنات سے اسطرح فائق و برتر تھی کہ رسول اللہ(ص) نے اس کو امام المتقین اور سیدالمرسلین کہہ کے خطاب فرمایا چنانچہ اس سلسلے میں بعض احادیث کی طرف میں گزشتہ شبوں میں اشارہ بھی کرچکا ہوں۔ وہ یقینا منصب خلافت و امامت کے لئے دیگر صحابہ سے اولی و احق تھی۔ اگرچہ یہ بھی اپنی جگہ پر کچھ خصوصیات رکھتے تھے لیکن ہماری بحث تو افضل و اکمل کے بارے میں ہے جو دوسروں پر فوقیت اور حق تقدم رکھتا ہو۔

اگر آپ رسول خدا صلعم کے اصحاب و اقارب میں سے ایسے کسی ایک فرد کا بھی پتہ دے دیجئے۔ جو فضائل و کمالات اور ظاہری وباطنی صفات میں حضرت علی علیہ السلام کیبرابری کرسکتا ہو تو میں سر تسلیم خم کردوں گا اور اگر ایسا کوئی فرد آپ پیش نہ کرسکیں( کیونکہ ایسی ممتاز ہستیصحابہ میں سوا آپ کے اور کوئی تھی ہی نہیں، تو آپ کا ایمانی فریضہ ہوگا کہ حقیقت کو تسلیم کیجئے اور ساری دنیا سے چشم پوشی کر کے حق سےرشتہ قائم کیجئے،( پھر میں نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے عرض کیا) خداوندا! میں تجھ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے حق کا راستہ دکھادیا ہے، بغیر کسی جذبہ محبت کے و عداوت کے اپنا دینی فرض انجام دے دیا ہے۔ حریم تشیع کی طرف سے دفاع کردیا ہے اور دشمنوں کی تہمتوں کے مقابلے میں حقیقت کو ظاہر کردیا ہے) اب تجھ ہی سے اس کا

۳۴۲

اجر اور توفیق چاہتا ہوں اور بس۔

قبول تشیع میں نواب کے بیانات

نواب: قبلہ صاحب! دس راتیں ہو رہی ہیں کہ ہم اس مجلس مذاکرہ کے حاشیہ نشین ہیں ہم نے مقدس انوار ایمانی سے روشنی حاصل کی، بلند علمی اصول و قواعد سے استفادہ کیا اور طرفین کے دلائل کو غور سے سنا۔ ہم چند افراد ایسے ہیں جو تمام راتوں میں انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ جلسے میں حاضر رہے اور ہر روز آپس میں شب کی گفتگوؤں پر بحث و تبصرہ کر کے پوری چھان بین کرتے رہے ہیں خداۓ وحدہ لاشریک کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آپ کے ذریعہہماری ہدایت کے اسباب مہیا فرمادیئے جس سے ہم لوگوں نے حق کو پہچان لیا اور وہ دلائل سنے جو اب تک کبھی نہیں سنے تھے۔ مخالفین کے غلط اور گندے پروپیگنڈے کے خلاف جیسا کہ انہوں نے ہم کو بتا رکھا تھا کہ شیعہ مشرک غالی، رافضی اور حق سے منحرف ہیں ہمارے اوپر صد فی صد اور باکل یقینی طور سے ثابت ہوگیا ہے کہ فرقہ شیعہ امامیہ اثناء عشریہ کا مذہب حق اور ان کا طریقہ سچا ہے اور ہم نے اچھی طرح سے جان لیا ہے کہ حقیقی اسلام کے حامل یہی لوگہیں۔ صرف ہم چند حاضرین جلسہ ہی نہیں بلکہ اس شہر کے بہت سے بے لوث اور بے غرض اشخاص جو حق اور حقیقت کے طلب گارہیں روزنامہ اخبارات اور رسائل کو پڑھنے اور طرفین کےدلائل کو جانچنے کے بعد حق سے روشناس ہوچکے ہیں۔ البتہ عام مجمعوں میں آمد و رفت اور اپنے خاص مشاغل نیز مخالفین کے ساتھ ربط و ضبطکی وجہ سے اپنے عقائد کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے لہذا انہوں نے خفیہ طور سے ہمارے سامنے شیعیت کا اظہار کیا ہے، اس لئے کہ آپ نے کوئی بات مشکوک نہیں چھوڑی ہے، اور اپنی سادہ اور عام فہم تقریر سےہم سب کے دماغوں میں حقائق کو واضح کر دیا ہے۔

لیکن ہم چند اشخاص جو اس وقت حاضر ہیں چونکہ کسی کا خوفنہیں رکھتے لہذا پوری جرائت کے ساتھ اعلان کرنے کے لئے تیار ہیں، ہم کئی راتوں سے چاہتے تھے کہ درمیان سے پردہ ہٹادیں اور اپنے کو ظاہر کردیں لیکن موقع نہیں ملا اور حسن اتفاق سے ہر شب ہماری بصیرت میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ہم نے مضبوط سے مضبوط تر دلائل سنے اور اپنے عقیدے میں اور زیادہ راسخ و ثابت قدم ہوگئے۔ وقت گذر رہا ہے لہذا اجازت دیجئے کہ یہ پردہ بر طرف کیا جاۓ ہمارے اقرار و اعتراف کو سن کر ہم کو سر فراز فرمائیے، ہمارے نام مولاۓ کائنات امیرالمومنین علی(ع) اور ائمہ اثناعشریہ علیہم السلام کے شیعوں کی فہرست میں درج فرمائیے اور شیعوں کی جماعت میں اعلان فرما دیجئے کہ وہ ہم کو اپنی برادری میں قبول کریں۔ نیز قیامت کے روز عدل الہی کے دربار میں اور اپ نے جد بزرگوار کے سامنے شہادت

۳۴۳

دیجئے کہ ہم لوگ علم ویقین کے ساتھ آئمہ اثنا عشر اور رسول خدا(ص) کے اوصیائ وخلفاء کی ولایت پر ایمان لاۓ ہیں۔

خیر طلب: مجھ کو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہے کہ چند نمایاں اور ممتاز ہستیوں نے چشم بصیرت اور گوش حقیقت کے ساتھ حقائق پر توجہ کی اور نور عقل کی روشنی میں منزول حق کو پہچان کر راہ راست اور صراط مستقیم پر گامزن ہوگئے۔

وہی راستہ جس کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے، چنانچہ اکابر علماۓ اہلِ سنت والجماعت جیسے امام احمد بن حنبل نے مسند میں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول میں، ابن مغازلی نے فضائل میں، خوارزمی نے مناقب میں، سلیمان حنفی نے ینابیع المودت میں اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایاصراط علی حق نمسک ه یعنی علی(ع) کا راستہ حق ہے جس سے ہمتمسک کرتے ہیں۔

میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوسرے اسلامی بھائی بھی عادت اور تعصب سے ہٹ کے غور کریں گے تاکہ ان کی نگاہوں سے پردے ہٹ جائیں اور حق و حقیقت ان پر ظاہر ہوجاۓ۔

نواب: قبلہ صاحب ہم آپ کے الطاف و عنایات کے ممنون ہیں کہ آپ نے خندہ پیشانی اور حسن اخلاق کے ساتھ ہمارے سوالات کے جوابات دے، البتہ ہمارے گوشہ دل میں ابھی ایک مختصر سا اشکال موجود ہے، گذارش ہے کہ اس کو ابھی حل فرمادیجئے تاکہ ہمارے بھائیوں کے لئے مسرت و امتنان اور بصیرت کا باعث ہو نیز ہمارے عقیدے اور ایمان میں مزید استحکام پیدا ہو۔

خیر طلب: میں حاضر ہوں۔ فرمائیے کس چیز میں اشکال ہے تاکہ اس کا جواب عرض کروں۔

نواب: ہمارا اشکال آئمہ اثنا عشر کی امامت اور ان کے ناموں کے بارے میں ہے چونکہ ان راتوں میں صرف امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شخصیت زیربحث رہی، لہذا متمنی ہوں کہ ہم کو بتائیے کہ اولا قرآن مجید میں کوئیایسی آیت ہے جو ہم کو آئمہ اثنا عشر کی امامت کا ثبوت دے یا نہیں؟ دوسرے ہماری کتابوں میں شیعوں کے بارہ اماموں کے نام درج ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو ہمارے اطمینان قلب کے لئےبیان فرمائیے۔

خیرطلب: آپ کا سوال بہت مناسب اور با محل ہے اور اس کا جواب بھی موجود ہے۔ لیکن چونکہ وقت تنگ ہےاور صبح ہونے والی ہے اور اس سوال کا جواب بھی ممکن ہے کچھ طول کھینچے لہذا اگر آپ بھی متفق ہوں تو یا کل شب میںتشریف لے آئیے تاکہ جواب عرض کردوں یا کل صبح بھی ممکن ہے۔

چونکہ کل ریحانہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عید ولادت با سعادت ہے اور اس سلسلے میں ہمارے قزلباش بھائیوں کی طرف سے رسالدارکے امام باڑے میں صبح سے ظہر تک ایک شاندار جشن کا انتظام ہے لہذا یہ بھی ممکن ہے کہ اس موقع پر عیدی کے عنوان سے اس کا جواب پیش کر کے آپ کا

۳۴۴

اشکال حل کردوں۔ انشائ اللہ تعالی۔

نواب: میں انتہا فخر کے ساتھ آپ کی راۓ سے موافقت کرتا ہوں اور اس سے زیادہ آپ کا وقت نہیں لینا چاہتا۔ پس اب اجازت دیجئے کہ جن محترم حضرات نے اس نورانی جلسے کی ضیا پاشیوں سے روشنی حاصل کی ہے ان کا تعارف کرادوں۔

خیر طلب: میں پورے شوق اور مسرتکے ساتھ تیار ہوں کہ ان عزیزان گرامی کو اپنے آغوش محبت میں قبول کروں۔

چھ افراد اہلِ تسنن کا قبول ت تشیع

نواب: اتنےحضرات آج کی شب لواۓ"لا إله‏ إلّا اللّه‏، محمّد رسول اللّه" کے نیچے حضرت علی(ع) اور آپ کی اولاد میں سےگیارہ اماموں کی خلافت وامامت کے اقرار کا شرف حاصل کررہے ہیں۔

۱۔ حقیر آپ کا مخلص عبدالقیوم۔ ۲۔ سید احمد علی شاہ صاحب۔ ۳۔ سیٹھ غلام امامین صاحب۔۴۔ سرحد کے سردار غلام حیدر خان صاحب۔۵۔ پنجاپ کےبڑے تاجر عبدالاحد خان صاحب۔۶۔مشہور رئیس عبدالصمد خان صاحب ( اصل کتاب میں کافی مجمع کے ساتھ ان حضرات کے فوٹوبھی موجود ہیں۔ ۱۲ مترجم)

( یہ حضرات میرے پاس تشریف لاۓ میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور تمام حاضرین جلسہ بھی کھڑے ہوگئے، میں نے ہر ایک سے محبت کے ساتھ بغل گیر ہوکر پیشانی پر بوسہ دیا اس کے بعد سارےاہل مجلس نے ان سے معانقہ کیا۔

میں نے دیکھا کہ برادران اہل سنت بہت اداس ہوگئے چنانچہ ان کی دلجوئی کے لئے کہا کہ آج عید کی شب ہے جس میں اسلامی ہدایات کے مطابق مسلمانوں کے ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ کرنے میں بہت بڑا ثواب ہے لہذا بہتر ہوگا کہ ہم سب آپس میں مصافحہ و معانقہ کریں، اس کےبعد میں نے پہلے جناب حافظ صاحب اور شیخ عبدالسلام صاحب سے پھر دوسرے حضرات سےبغل گیر ہوکر سب کی پیشانیوں پربوسہ دیا۔ بعد اس کے جلسے میں شربت اور مختلف قسم کی شیرینی لائی گئی اور ہم نے پرلطف و شیرین باتوں سے مجمع میں ایک تازہ مسرت کی لہر دوڑاکر ان کے چہروں سے افسردگی دور کی۔)

حافظ: صاحب ہم نے ان راتوں میں آپ کی ملاقات سے کافی فیض حاصل کیا جس کی لذتیں آخر عمر تک بھلائی نہیں جاسکتیں بالخصوص میری ذات پر تو بڑا احسان ہے جس کا عوض آپ کو آپ کے جد بزرگوار سے

۳۴۵

ملے گا۔ کیونکہ آپ نے بہت حقیقتوں کا انکشاف فرما دیا جیسا کہ پہلے بھی عرض کرچکا ہوں۔ آپ نے میری آنکھیں کھول دیں میں قطعا وہ پہلی رات والا آدمی نہیں ہوں اور جو بھی عقلمند اور انصاف پسند انسان آپ کے شک و شبہ سے بالاتر دلائل کو سنے گا وہ یقینا خوابِ غفلت سے بیدار ہوجاۓ گا۔ چنانچہ یہ حقیر امیدوار ہے کہ عترت و اہل بیت رسالت کے طریقہ ولایت پر دینا سے اٹھے اور ر سول اللہ(ص)کے سامنے سرخرو حاضر ہو۔

میری بڑی خواہش تھی کہ اس سے زیادہ مدت تک آپ کے ساتھ رہتا لیکن ہمارے پاس وقت نہیں ہے اور بہت ذاتی کام در پیش ہیں کیونکہ ہم صرف دو روز کے خیال سے آۓ تھے، یہاں اتفاق سے کافی وقت صرف ہوگیا لہذا اس رات کو ہم آپ حضرات کی اجازت سے شب وداع قرار دیتے ہیں، کل شب کو ہم ریل گاڑی کی ذریعے روانہ ہوجائیں گے۔ اور آپ کو دعوت دۓ جاتے ہیں کہ ہمارے وطن تشریف لائیے۔ تاکہ ہم آپ کی صحبت سے خصوصی فوائد حاصل کرسکیں۔

خیر طلب: آپ حضرات یقین فرمائیے کہ پہلی شب سے جب کہ آپ کی زیارت ہوئی ہے اس وقت تک میں بغیر تعصب و عناد کے پورے خلوص کے ساتھ سرگرم محبت رہا اور آپ حضرات سے ایک خصوصی ربط و انس قائم ہوگیا ہے۔ باوجودیکہ میری جانب سے آپ حضرات کی روانگی میں کوئی مانع نہیں تھا لیکن اب یہ سن کے آپ حضرات واپسی کا قصد رکھتے ہیں اپنے اندر ایک عجیب سا تاثر محسوس کررہا ہوں۔

ایک بزرگ عارف کا قول ہے کہ میں زعام جذبات کے برعکس، انس و ملاقات کا مخالف ہوں۔ کیونکہ وصال کےبعد فراق آتا ہے اور دیوان امیرالمومنین علیہ السلام میں آپ کا ارشاد ہے۔

یقولون ان الموت علی الفتیمفارقه الاحباب والله اصعب

یعنی لوگ کہتے ہیں کہ جوان کے اوپر موت سخت ہوتی ہے، حالانکہ خدا کی قسم دوستوں کی جدائی اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔

حق یہ ہے کہ میں نے ان دس راتوں میں بالعموم آپ حضرات کے اور بالخصوص جناب عالی کے دیدار سے بہت فائدہ اٹھایا ہے جس کو کبھی نہ بھولوں گااگرچہ ان دس راتوں میں بمصداق الکلام یجر الکلام( یعنیبات میں بات نکلتی ہے سلسلہ گفتگو بہت طولانی رہا اور ہر شب میں نے بلا ارادہ چھ سات گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ محترم حاضرین جلسہ کا وقت لیا لیکن چونکہ ہماری نشستوں میں اول سے آخر تک آیات شریفہ قرآنی اور احادیث حضرت رسول خدا صلعم کاتذکرہ رہا اور ہم جاہلانہ تعصب وعناد اور لہو و لعب سے الگ رہے۔ لہذا ہم نے اپنی جگہ خدا کی ایک عبادت انجام دی۔ البتہ اس لحاظ سے کہ انسان سہو دلسان اور غلطی کا مرکز ہے اگر دورانِ گفتگو میں میری طرف سے عمدا نہیں بلکہ سہوا کوئی بے ادبی یا طول کلام کی غلطی سرزد ہوگئی ہو یا آپ حضرات کی نظر میں کوئی بری بات معلوم ہوئی ہو تو عفو و چشم پوشی فرمائیں اور استجابت دعا کر مواقع

۳۴۶

پر اس حقیر و فقیر خیر طلب کو دعا خیر سے فراموش نہ فرمائیں۔

حافظ: آپ کے حسن بیان اور لطف و عنایت کے برتاؤ سے ہم بہت ممنون ہیں اور ہم میں سے کسی کو آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے جس کے لئے آپ معذرت کررہےہیں، کیونکہ جناب عالی کا حسنِ اخلاق اور ادب و لحاظ اس منزل پر ہے کہ اس نے ہمکو مفتون( گرویدہ بنالیا ہے اور طول بیان سے بھی ہرگز ہم کو کوئی افسردگی نہیں ہے بلکہ آپ کی شیرین کلامی اور فصاحت و بلاغت اتنی زبردست ہے کہ میرا خیال ہے چاہے جتنی طولانی تقریر ہو بار خاطر نہ ہوگی۔

خیر طلب: میں آپ حضرات کے مراحم و الطاف کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ اپنے معروضات کے خاتمے پر ایک مطلب عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کل چونکہ حامی امت فرزند رسول الثقلین حضرت امام حسین علیہ السلام کی عید ولادت با سعادت ہے اور محترم حضرات قزلباش نیز آپ کے دیگر شیعہ بھائیوں کی طرف سے رسالدار کے امام باڑے میں ایک شان دار محفل مسرت کی تشکیل کی گئی ہے، لہذا میں جناب عالی اور دیگر حضرات حاضرین جلسہ کو اور آپ کے توسط سے جملہ برادران اہل سنت کو پرخلوص دعودت دیتا ہوں کہ پیغمبر(ص) کی ذات مبارک سے اپنے مخصوص تعلق کے پیش نظر آں حضرت کی روح پرفتوح کی خوشنودی کے لئے ایک بڑے مجمع کے ساتھ کل صبح اس جشن ولادت میں تشریف لائیں، کیونکہ شیعوں کی اس محفل میں اپنی شرکت سے علاوہ اس کے کہ آپ ہم سب کو ممنون و متشکر کریں گے۔ مجھ کو امید ہے کہآپ میرے اس مقصد سے بھی اتفاق کریں گے۔ اس جشن عام میں برادرانِ ایمانی و اسلامی کے دونوں فرقوں کی شرکت سے ہم ایک ایسا متحدہ اسلامی محاذ قائم کریں کہ دشمنان اسلام کو ( جو مسلمانوں میں تفرقہ اور جدائی چاہتے ہیں) حیرت وعبرت میں ڈال دیں۔

( جمادی الثانیہ سنہ۱۳۷۴ہجری میں ترتیب و کتابت سے فراغت ہوئی)

( العبد الفانی محمد الموسوی( سلطان الواعظین شیرازی)

عید میلاد حسینی(ع)

فدت شهر شعبانهاالافهمفمن بنیهایمنه الاشهر

طوی الهمعناوزوالالعناوبشرائهنابیتناینشر

لثالثه فیرقابالانامایادلعمرکلاتنکر

۳۴۷

فصبح الولاء بمیلاد سبطهادیالانام بهم سفر

و باب النجاةالامام الذیذنوب العبادبه تغفر

و غصن الامامةفیه سماجنی هدایته اثمم

و روض النبوةمننورهسن یومن نوره مزهم

لتهنب میلاده شیعهلهم طاب فی حبه عنصر

(یعنی شعبان پر دوسرے مہینے قربان ہیں کیونکہ اس کے اندر سے نمایاں خیر وبرکت حاصل ہوئی ہے ہمارے سارے رنج و غم دور ہوگئے اور ہمارے درمیان خوش خبری پھیل گئی۔ اس کی تیسری تاریخ لوگوں پر پسندیدہ انعام و احسانات کا نزول ہوا، پس صبح دلایت نواسہ رسول(ص) کی ولادت سے روشن ہوئی یہ وہ امام ہے جو نجات کا دروازہ ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ سے بندوں کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ اس سے امامت کی وہ شاخ بلند ہوئی ہے جو ہدایت کے ترو تازہ پھل دیتی ہے۔ نبوت کا باغ اس کے نور سے روشن اور پھلا پھولا ہوا ہے۔ شیعوں کو اس کی پیدائش کی تہنیت دو جو اس کی محبت میں ہر عیب و ریب سے پاک ہیں۔)

جب تیسری شعبان المعظم سنہ۱۳۴۵ہجری یعنی عید سعید ولادت با سعادت امام سیم حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ الصلوۃ والسلام کی صبح ہوئی تو محترم حضرات قزلباش کی جانب سے رسالدار کے امام باڑے میں ایک محفل مسرت بہت شان و شکوہ کے ساتھ منعقد ہوئی جس میں مختلف طبقوں کے لوگ سویرے ہی سے کثرت کے ساتھ جمع ہوگئے میںبھی ظہر سے چار گھنٹے قبل ان شیعہ علماء اور رؤسا کے ایک بڑے مجمع کے ہمراہ جو میری قیام گاہ پر آگئے تھے جشن میں شرکت کے لئے امام باڑے گیا۔ حق یہ ہے کہ جلسہ کافی شاندار تھا۔

ہر طبقے کے شیعہ اور سنی افراد کااتنا کثیر مجمع تھا کہ اس قدر طویل و عریض امام باڑے کی کافی وسیع فضا اور دونوں طرف کے تمام بڑے بڑے ووہرے کمرے، یہاں تک کہ شاہراہ عاماور مکانوں کے کوٹھے بھی بھر گئے تھے۔ حضرات علماۓاہل سنت مع جناب حافظ رشید و شیخ عبدالسلام صاحبان بھی تشریف فرما تھے۔ میرے پہنچنےسے محفل میں ایک عجیب جوش وخروش پیدا ہوگیا۔ باوجودیکہ میرے بیٹھنے کے لئے ایک خوبصورت اسٹیج تیار کیا گیا تھا لیکن میں اہل تسنن کے بڑے بڑے علماء کا احترام ملحوظ رکھتے ہوۓ اپنی جگہ سے کترا کے سیدھا انہیں کے پاس چلا گیا میرے اس اکرام و احترام اور پر خلوص انکسارسے وہ حضرات بہت خوش ہوۓ ؟؟؟؟؟ سائقے اور بیٹھ جانے

۳۴۸

کے بعد شربت اور طرح طرح کی شیرینی لائی گئی، اس خاطر تواضعکے بعد دو مداحوں نے اردو اور فارسی زبان میں بہترین قصیدے پڑھے، اس کے بعد سردار عبدالصمد خان صاحب جو پشاور کے نامی شیعہ رئیسوں میں سے تھے۔ چند محترم قزلباش حضرات کے ساتھ آۓ اور مجھ سے فرمائش کی کہ آج چونکہ عید کا دن ہے لہذا اہلِ جلسہ منتظر ہیں کہ آپ اپنی تقریر سے ان کو مسرور و شاد کام فرمائیں۔ میں نے ہر چند انکار کیا لیکن ان کا اصرار بڑھتا گیا۔ بالآخر حافظ صاحب واسطہ بنے اور کہا کہ آج چونکہ یہاں میرے قیام کا آخری دن ہے لہذا میں چاہتا ہوں کہ آپ کی تقریر کی یاد گار اپنے دل میں لے جاؤں مجھ کو بھی چونکہ موصوف سے کافی انسیت ہوگئی تھی۔ لہذا ان کی بات رد نہیں کرسکا اور فرمائش کیتعمیل کرتے ہوۓ منبر پر گیا۔ ظہر کے قریب اپنا بیان ختم کیا۔ پھر نماز جماعت کے بعد سر برآوردہ شیعہ و سنی مخصوصین اور مذہب شیعہ قبول کرنے والے حضرات کا متفقہ طور پر فوٹو لیا گیا۔

( یہ فوٹو اصل کتاب میں موجود ہے۔ ۱۲مترجم)

اس کے بعد ان چھہ عدد جدید شیعوں کے اعزاز میں کھانے کی ایک عام دعوت دی گئی۔

اب اپنیتقریر کے متن کو بھی جسے اخبارات و رسائل کے نامہ نگاروں نے نوٹ کر کے شائع کرایا تھا۔ اصل کتاب میں شامل کرتا ہوں کیونکہ یہ فائدے سے خالی نہیں تھا، بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے دس راتوں کے مناظرے اور بیانات کاتکملہ اور تتمہ یہی ہے۔

۳۴۹

آغازِ بیان

(سلطان الواعظین مدظلہ نے ایک فصیح و بلیغ خطبے کے بعد فرمایا :باسم الل ه الرحمنالرحیم قالاللهالحکیمفیکتابهالکریم :"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْ‏ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَ الرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ ذلِكَ خَيْرٌ وَ أَحْسَنُ‏ تَأْوِيلًا"

یعنی خداۓ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ پس اگر تم آپس میں کسی چیز میں نزاع کرو تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پلٹاؤ اگر تم اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ طریقہ کار تمہارے لئے بہت عمدہ اور نتیجے کے لحاظ سے بہترین ہے۔

مجازی اور حقیقی آزادی

ایک اہم موضوع جو مدتوں سے عمومیت کے ساتھ زیر بحث چلا آرہا ہے اور ہر قوم و فرقہ اپنی مطلب براری کے لئے اس کا سہارا لیتا ہے وہ حریتاور آزادی کا موضوع ہے اور جوبالآخر کج فہم و کوتاہ نظر لوگوں کی ایک جماعت کا آلہ کار بن گیا ہے۔ چنانچہ اسی حریت و آزادی کو بنیاد قرار دے کر وہ انبیاۓ کرام کے الہی احکام سے باغی ہو کر دین و شریعت کے دائرے سے خارج ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اتنا ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ پروردگار عالم کی بندگی اس کے شرائع حقہ کے قیود اور مقدس قوانین سے آزادی علم و عقل سے پوری مخالفت رکھتی ہے اور ایسی حریت و آزادی نوع بشر کے سکون و آسائش میں مخل و تباہی اور فتنہ وفساد کا باعث نظام فطرت کی مخالفت اور محققین علمائ و صاحبان عقل کے نزدیک مردود و ناقابل عمل ہے۔ البتہ جو حریت و آزادی بہتر اور ممدوح ہے اس سے مراد ہے مخلوق کی عبودیت، ابنا بشر کی تعظیم و پرستش اور اپنے ہی جیسے ہم جنسوں کی اندھی تقلید سے آزادی، ایسی آزادی انسانیت کا لازمی جز ہے، کیونکہ ای سنجیدہ فہمیدہ انسان جو زیور عقل سے آراستہ اور علم و معرفت کا حامل ہو اس کا فرض ہے کہ اپنے جیسے افراد بشر کی بندگی اور غلامی سے الگ رہے اور کسی ایسے شخص کی کور کورانہ پیروی نہ کرے

۳۵۰

جو اس کو وادی حیرت و ضلالت میں سرگردان بنادے۔ البتہ انسان اشرف المخلوقات کو ایسی ہستی کے سامنے سر اطاعت خم کرنا چاہیئے حواس کی لیاقت و قابلیت رکھتی ہو اور اس پر عقلی و نقلی دلائل قائم ہوں۔

بدیہی چیز ہے کہ ستائش و بندگی صرف خداۓ عزوجل کی ذات لازوال کے لئے مخصوص ہے جو ہمارا آپ کا اور ساری کائنات کا خالق ہے، اور عقلی دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ مخلوق عاجز کو اس خالقِ قادر کے سامنے خاضع و خاشع اور ہمہ تن مطیع و فرمانبردار رہنا چاہیئے جس نے ہر چیز اسی کے لئے پیدا کی ہے اور مخلوقات میں سے کسی کی اطاعت انسان کے لئے جائز نہیں ہے سوا اس شخص کے جس کی اطاعت کا خداۓ تعالی نے حکم دیا ہو۔

اور اشخاص کی اطاعت و فرمانبرداری میں ہماری سند محکم قرآن مجید ہے۔ جب ہم قرآن مجید اور اس مضبوط آسمانی سند کی طرف رجوع کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ متعدد آیات میں ہم کو اطاعت کی مکمل ہدایت دی گئی ہے کہ عقلی قواعد کے روسے ہم کن اشخاص کی اطاعت و پیروی کریں اور کن افراد کے سامنے سر تعظیم خم کریں۔

خدا اور رسول(ص) اور اولی الامر کی اطاعت واجب ہے

من جملہ ان کے اسی آیہ شریفہ میں جس کو میں نے عنوان کلام قرار دیا ہے۔ صاف طور سے ارشاد ہے:

" أَطِيعُوا اللَّهَ‏ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ‏"

یعنی اطاعت کرو خدا کی اور اطاعت کرو پیغمبر(ص) اور صاحبان امر کی۔

پس بحکم آیت اللہ کی اطاعت کے بعد نوع بشر میں پیغمبر(ص) اور صاحبان امر کی اطاعت واجب ہے۔

پیغمبر خاتم النبیین(ص) کے احکام کی اطاعت میں تو تمام مسلمان بالعموم متفق ہیں اور کسی کو اس حقیقت سے انکار نہیں ہے البتہ اہل اسلام کے اندر جو اختلاف پیدا کیا گیا وہ صرف اولی الامر کے معنی میں ہے، کیونکہ خداۓ تعالی نے اس آیت میں اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کے بعد اولی الامر کی اطاعت واجب قرار دی ہے۔

اولی الامر کے معنی میں اہل سنت کا عقیدہ

براداران عامہ اور اہل تسنن کا عقیدہ ہے کہ آیت میں اولی الامر ےس امراؤ حکام اور افسران لشکر مراد ہیں۔ لہذا سلاطین اور صاحبان حکومت ( ظاہری) اس کے ماتحت آتے ہیں۔

چنانچہ حضرات اہل تسنن بادشاہوں کے احکام کی اطاعت اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں(؟؟؟؟؟؟ وہ علانیہ فسق وفجور اور ظلم و جور کے مرتکب ہی کیوں نہ ہوں) اس دلیل سے کہ یہ لوگ آیہ اولی الامر میں داخل ہیں۔ لہذا ان

۳۵۱

کی اطاعت فرض ہے۔

حالانکہ ایسا عقیدہ عقلی و نقلی دلیلوں سے باطل ہے۔ تنگئی وقت کی وجہ سے یہ مختصر محفل اس کی مقتضی نہیں ہے کہ اس عقیدہ کے بطلان پر سارے دلائل عرض کروں، اس لئے کہ تفصیل پیش کرنے کے لئے کم سے کم ایک مہینے کا موقع درکار ہے پھر بھی بمصداقما لا یدرک کل ه لایترککله " یعنی جو سب کا سب حاصل نہ ہوسکے وہ سب کا سب ترک بھی نہیں کیا جاتا۔

آپ دریا را گر نتواں کشید لیک بہر تشنگی باید چشید

وضاحت مطلب اور اثبات مقصد کے لئے آپ حضرات کی اجازت سے اس موضوع پر مختصر بحث پیش کر رہا ہوں تاکہ اہل انصاف عادلانہ فیصلہ کرسکیں اور حقیقت منکشف ہوسکے۔

صاحبانِ امر کی تین قسمیں

ظاہر ہے کہ اہل عالم پر حکمرانی کرنے والے امراء و سلاطین تین حال سے خالی نہیں ہیں، یا اجماع سے مقرر ہوۓ ہیں، یا طاقت و قدرت سے غالب ہوۓ ہیں یا خدا کی طرف سے منسوب ہیں۔

چنانچہ پہلا طریقہ یعنی یہ کہ اگر مسلمان کسی ایک شخص پر اجماع کر لیں اور اس کو منصب امارت پر مقرر کردیں، تو اس کی اطاعت خدا و رسول کی اطاعت کے مانند واجب ہے، اپنے ثبوت میں کوئی عقلی دلیل نہیں رکھتا جس سے تمام مسلمان کسی ایک کامل اور پاکباز ہستی پر اتفاق کر کے اس کو مسند امارت پر بٹھا سکیں، کیونکہ مسلمان چاہے جس قدر عالی دماغ اور ہوشمند ہوں وہ فقط ظاہری حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں اور لوگوں کے باطنی کیفیات اور دلی عقائدسے با خبر نہیں ہوسکتے۔

جناب موسی(ع) کے چنے ہوۓ بنی اسرائیل نا اہل ٹھہرے

مسلمان چاہے جس قدر عاقل و دانا ہوں اصول اور قاعدے کی بناء پر امر انتخاب میں حضرت موسی کلیم اللہ علی نبینا و آلہ وعلیہ السلام سے جو انبیاۓ اولوالعزم میں سے تھے قطعا زیادہ واقف کار نہیں ہوسکتے اور ان سب کی عقلیں خدا کے بھیجے ہوۓ رسول(ص) کی عقل سے بالاتر نہیں ہوسکتیں۔ حضرت موسی(ع) نے بنی اسرائیل ؟؟ ؟؟؟؟؟؟ ہزاروں عقلا اور دانشمندوں میں سے ظاہری حالات کی بنا پر ستر افراد منتخب فرماۓ( چونکہ انبیاء صرف ظاہری چیزوں پر

۳۵۲

مامور تھے اور اشخاص کےباطنی امور کے پابند نہیں تھے لہذا ان کی ظاہری خوبیوں کو معتبر قرار دیتے تھے) اور ان کو طورسینا پر ساتھ لے گئے لیکن امتحان کے موقع پر سب کے سب ناکارہ ثابت ہوۓ اور ہلاک ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ ان کا دلی عقیدہ پہلے ہے سے درست اور مضبوط نہیں تھا، یہاں تک کہ امتحان کے موقع پر جب پردہ اٹھا تو جو کچھ اندرونی کیفیت تھی وہ ظاہر ہوگئی۔ چنانچہ قرآن مجید کی آیت نمبر۱۵۴ سورہ نمبر۷( اعراف) میں اس کی طرف اشارہ ہے۔

انسان صالح و کامل امیر کے انتخاب پر قادر نہیں

پس جب کلیم اللہ پیغمبر(ص۹ کے چنے ہوۓ لوگ اندر سے فاسد اور کافر نکلیں اور صاعقے کے ذریعے عذاب الہی میں گرفتار ہوں تو ظاہر ہے کہ دوسرے افراد بشر بدرجہ اولی صالح و کامل فرماں رواؤں کے انتخاب پر قادر نہیں ہیں اس لئے کہ بہت ممکن ہے ظاہری صلاح و تقوی کی بنا پر منتخب ہونے والے اشخاص حقیقی اور باطنی طور پر کافر یا فاسق ہوں جن کے دکھانے کے دانت اور ہوں کھانے کے اور چنانچہ جب سلطنت و امارت کی مسند پر بیٹھ جائیں، تو ریا کاری کا لبادہ اتار پھینکیں اور اپنے ضمیر کو بروۓ کار لاتے ہوۓ دھیرے دھیرے اپنے ناجائز مقاصد کی تکمیل شروع کردیں۔ جیساکہ بہت سے امراء و سلاطین میں( حتی کہ قومی اسمبلی کے نمائیندوں میں بھی) ایسا دیکھا گیا ہے اور اس طرح کے امیر و بادشاہ کی اطاعت قطعا دین کو مضمحل، حقوق انسانی کو ضائع اورآثار اسلام کو برباد کردے گی۔

سلاطین و امراء اولی الامر نہیں ہوتے

ہرگز عقل قبول نہیں کرتی کہ خداۓ تعالی فاسق و فاجر اور ظالم سلاطین و صاحبان امر کی اطاعت کو اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت میں شامل کرے، پس اس عقیدے کا باطل ہونا ظاہر و آشکار ہے۔ اس کے علاوہ اگر اجماع وقت کو شرعا یہ حق حاصل ہے تو ہر زمانے میں اولی الامر کو تمام ملل اسلامی کے حقیقی انتخاب سے معین ہونا چاہیئے یہ نہیں کہ ایک ملت کو تو موقع دیا جاۓ اور دوسری نطر انداز ہوجاۓ یہ شرعی حق مسلمان قوم کے تمام افراد کے لئے ہے چاہے وہ دنیا کے کسی گوشے اورکنارے پر ہوں، وہ ایک مسلمان ہو یا بہت سے اور شہر میں رہتے ہوں یا دیہات میں ان سب کو اس انتخاب میں راۓ دینا اور صاحب امر کی تعین میں شرکت کرنا چاہیئے نہ یہ کہ کسی ایک شہر یا مملکت میں چند لوگ راۓدے دیں تو ان کو راۓ واجب العمل بن جاۓ اور باقی تمام صاحبان عقل و تمیز اور سربرآوردہ مسلمان اس کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں۔ اگر کسی جماعت کو کچھ اختلاف ہو تو اس کو

۳۵۳

رافضی اورمشرک کہیں اور گردن زدنی سمجھیں۔

چنانچہ جب ہم تیرہ سو سال کی تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء(ص) کے بعد کسی زمانے میں بھی ایسا اجماع واقع نہیں ہوا جس میں دنیا کے تمام مسلمانوں نے یا ان کے حقیقی نمایئندوں نے اجتماعی حیثیت سے اپنی راۓ دی ہو۔ پس یہ اجماع کا عقیدہ نہ کسی دور میں عملی پہن سکا ہے اور نہ پہن سکے گا، بالخصوص آج کے زمانے میں جب کہ بلاد مسلمین ٹکڑے ٹکڑے ہوچکے ہیں متعدد اسلامی ممالک ہیں اور ہرایک کا اپنا بادشاہ اور حکمران الگ ہے۔

اگر یہ طے کیا جاۓ کہ ہر ملک کے باشندے اپنے لئے ایک مستقل بادشاہ اور صاحب امر کا انتخاب کریں، تو قطع نظر اس سے کہ ہر زمانے میں متعدد اولی الامر ہوجائیں گے اور کوئی مملکت دوسرے ملک کے بادشاہ یا صاحب امر کی فرمانبرداری نہیں کرے گی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاۓ اور آپس میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں( جیسا کہ تاریخ اسلام میں بارہا ایسے واقعات ہوۓ ہیں) اس وقت مسلمانوں پر کیا ذمہ داری ہوگی؟ کیونکہ مسلمانوں کے دونوں گروہ اپنے اپنے صاحب امر کی اطاعت میں مجبور ہوں گے کہ ایک دوسرے سے دست وگریبان ہوجائیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کریں تو کیا یہ دونوں مسلمان فریق برادر کشی میں ماجور و حق بجانب اور قاتل و مقتول دونوں جنتی ہوں گے؟

خدا جانتا ہے کہ اسلام اور شارع مقدس نے قطعا ایسی کوئی ہدایت نہیں دی ہے اوراسلام جیسا جامع و کامل اور عقلی دین ہرگز ایسا حکم نہیں دیتا جو صاحبان عقل کے نزدیک ناقابل قبول اور ناقابل عمل ہو، نیز اس کی وجہ سے مسلمانوں میں باہمی نزاع اور پھوٹ پیدا ہو۔ پس وہ اولی الامر جن کی اطاعت کے لئے خداوند عالم نے حکم دیا ہے۔ اجماع کے پابند نہیں ہوسکتے، چنانچہ گزشتہ راتوں میں مجلس مناطرہ کے اندر فریقین(شیعہ و سنی) کے علماء اور دانشمندوں کے سامنے عقلی و نقلی حیثیت سے اجماع کا باطل ہونا ثابت ہوچکے ہیں اور اخبارات و رسائل کے صفحات پر اس کی اشاعت بھی ہوچکی ہے۔ یقینا ان حضرات کی نگاہوں سے بھی گزری ہوگی جو ان مجلسوں میں موجود نہیں۔(۱)

ہربادشاہ اقتدار کی وجہ سے صاحب امر نہیں ہوجاتا

اور دوسری قسم جو طاقت و اقتدار سے متعلق ہے یعنی جو خونخوار و سفاک اور فاسق و فاجر امیر و سلطان یا خلیفہ قہر و غلبہ، نیزہ و شمشیر اور حیلہ سازی کے ذریعے لوگوں پر مسلط اور حکومت پر قابض ہوجاۓ اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ ص۱ ملاحظہ ہوں اسی کتاب کے صفحات۔

۳۵۴

کوئی عقل سلیم کیونکر اس کی ہم آہنگ ہوسکتی ہے اور اس لا یعنی عقیدے کو تسلیم کرسکتی ہے کہ سفاک و بے باک اور فاسق و فاجر امراؤ سلاطین یا خلفائ کی اطاعت خدا و رسول کی اطاعت کے مانند واجب ہو۔ اگر حقیقت اسی طرح ہے تو اہل سنت کے اکابر علماء و مورخین اور ناقدین اپنی کتابوں اور تحریروں میں ظالم و سفاک امراء خلفاء کی مذمت آخر کس لئے کرتے ہیں؟ جیسے معاویہ یزید پلید، زیاد ابن ابیہ، عبیداللہ، حجاج، ابوسلمہ اور مسلم وغیرہ کے لئے۔

اگر واقعا کوئی شخص ہٹ دھرمی کی بناء پر کہنا چاہے کہ اس قسم کے اشخاص جب مسلمانوں پر امیر و حاکم اور سلطان وخلیفہ بن جائیں تو ان کی اطاعت واجب ہے( چنانچہ بعض علماۓ عامہ نے کہا بھی ے تو ایسی اطاعت قطعا قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ہوگی، کیونکہ خداۓ تعالی نے متعدد آیات میں کافروں، فاسقوں اور ظالموں پر لعنت فرمائی ہے اور مسلمانوں کو ان کی اطاعت سے منع فرمایا ہے۔ پس یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اس آیہ مبارکہمیں فاسق و فاجر اور ظالم بلکہ کافر صاحبان امر کی اطاعت کا حکم دے بدیہی چیز ہے کہ پروردگار عالم کی پاک و منزہ ذات سے دو متضاد باتوں کو نسبت دینا انتہائی بری حرکت ہے در آنحالیکہ امام فخرالدین رازی جو اکابر علماۓ عامہ میں سے ہیں اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں صاف صاف کہتے ہیں کہ اولی الامر کوقطعا گناہ سے معصوم ہونا چاہیئےورنہ خداوند عالم ان کی اطاعت کو اپنی اور اپنے پیغمبر(ص) کی اطاعت سے ملحق نہ کرتا۔

اولی الامر کو منجانب اللہ منصوب و منصوص ہونا چاہیئے

جب انہیں مختصر دلیلوں سے ان دونوں عقیدوں کا بطلان ثابت ہوگیا کہ اولی الامر کا اجماع یا غلبے اور اقتدار سے معین ہونا ممکن نہیں ہے تو اب تیسری قسم ثابت ہوگئی کہ حتمی طور سے اولی الامر کو خدا کی طرف سے منصوب ومنصوص ہونا چاہیئے وہو المطلوب۔

یہی ہے شیعہ امامیہ اثناعشریہ فرقے کا عقیدہ جو یہ کہتا ہے کہ جب اولی الامر کو پیغمبر(ص) کے مانند مہذب، جملہ صفات رذیلہ اور اخلاق فاسدہ سے پاک اور ظاہری و باطنی حیثیت سے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معصوم ہونا ضروری ہے اور جب با طنی حالات کا ذاتی اور مستقل علم بھی سوا خداۓ تعالی کےاورکسی کو حاصل نہیں ہے تو لازمہ ہوجاتا ہے کہ اولی الامر کو خدا ہی مقرر فرماۓ جو خدا رسول کو تمام مخلوق سے منتخب کر کے رسالت پر مبعوث فرماتا ہے اسی کی ذاتِ اقدس پر اس کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اولی الامر کا انتخاب کر کے انکو امت سے روشناس کراۓ۔ علاوہ اس قسم کی دلیلوں کے جو الگ سے اس مقصد کو ثابت کرتی ہیں خود آیت کی ظاہری صراحت حکم دے رہی ہے کہ اولی الامر وہی ہوسکتے ہیں جو سوا ان خصوصیات کے جو دلیل سے مستثنی ہیں، یعنی مقام وحی و رسالت کے علاوہ رسول اللہ(ص) کی جملہ صفتوں کے

۳۵۵

حامل ہوں، اور چونکہ تمام انسانی صفات کا عالم سوا ذات پرردگار کے اور کوئی نہیں ہے لہذا حق انتخاب بھی اسی کے لئے مخصوص ہے۔

چنانچہ آیہ شریفہ میں واجب اور ممکن کا فرق بتانے کے لئے دو اطیعوا لاۓ گئے ہیں۔" اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول" اطاعت کرو خدا کی اس حیثیت سے کہ اس کو واجب الوجود بالذات جانتے ہو کیونکہ اس کی ہستی جن صفات کی مالک ہے جیسے حیات، علم، حکمت اور قدرت وغیرہ وہ خود اسی کی طرف سے اور عین ذات ہیں اور اطاعت کرو پیغمبر(ص) کی اس حیثیت سے کہ ان کو ممکن الوجود عبد صالح اور تمام صفات حمیدہ و اخلاق پسندیدہ کا حامل سمجھتے ہو جو سب کے سب واجب الوجود کی جانب سے ان کو تفویض ہوۓ ہیں لیکن جس وقت اولی الامر کے تذکرے پر پہنچا ہےتو پھر کلمہ اطیعوا نہیں لاتا بلکہ صرف واو عطف کے ساتھ اولی الامر کو پہچنواتا ہے۔ اس داؤ میں نکتہ یہ ہے کہ خداوند عالم روشن ضمیر اور خوش فکر لوگوں کو سمجھانا چاہتا ہے کہ صاحب امر وہی شخص ہے جو ہر اسصفت کا حامل ہو جس کے حامل رسول خدا(ص) تھے۔ سوا ان چیزوں کے جو بالدلیل مستثنی ہیں جیسے نزول وحی اور عہدہ تبلیغ رسالت وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ جو کچھ رسول اللہ(ص) کے پاس تھا وہی سب اولی الامر کے پاس بھی ہونا چاہیئے سوا مرتبہ نبوت ورسالت کے پس اطاعت اولی الامر اور اطاعت پیغمبر(ص) کی ایک بنیاد ہے۔

بس اولی الامر کی شان یہ ہے کہ احکام دین اور قوانین شرع سید المرسلین(ص) کے نافذ کرنے والے اور ان کے محافظ ہوں لہذا اسی بنا پر جماعت امامیہ کا اعتقاد ہے کہ اولی الامر سے اوہ ائمہ اثنا عشر مراد ہیں جو پیغمبر(ص) کی نسل اور آں حضرت(ص) کی عترت طاہرہ میں سے ہیں یعنی امیرالمومنین علی علیہ السلام اور آپ کی اولاد میں سے گیارہ بزرگوار اور یہ آیہ مبارکہ دوازدہ امام علیہم الصلوۃ والسلام کی امامت کے اثبات میں مذہب شیعہ اور فرقہ امامیہ کی بہت بڑی دلیل ہے۔

علاوہ اس کے اور بہت سی آیتیں ایسی ہیں جن سے ہم استدلال کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی رخ سے ہمارے مطلب کو ثابت کرتی ہے۔

مثلا سورہ نمبر۲ (بقرہ) آیت نمبر۱۱۸"قالَ‏ إِنِّي‏ جاعِلُكَ‏ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ‏."

یعنی خداۓ تعالی نے ( ابراہیم سے) فرمایا میں تم کو تمام انسانوں کا امام قرار دیتا ہوں، ابراہیم نے عرض کیا یہ امامت میری اولاد میں بھی رہے گی؟ فرمایا( ہاں لیکن) جو ظالم ہیں ان کو میرا یہعہد نہیں پہنچے گا۔)

سورہ نمبر۳۳ ( احزاب) آیت نمبر۶"النَّبِيُ‏ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ أَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ وَ أُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى‏ بِبَعْضٍ فِي كِتابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُهاجِرِينَ "

یعنی پیغمبر(ص) مومنین کے لئے اولی اور سزاوارتر ہیں خود ان کے نفوس سے اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اور نسبی قرابتدار ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں کتاب خدا میں مومنین و مہاجرین سے)

۳۵۶

سورہ نمبر۹(توبہ) آیت نمبر۱۲۰"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ‏ الصَّادِقِينَ‏"

یعنی اے ایمان لانے والو اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ۔

سورہ نمبر۱۳ (رعد) آیت نمبر۸ "إِنَّما أَنْتَ‏ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ " یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تم عذاب الہی سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے( ہماری طرف سے) ایک ہدایت کرنے والا بھی مقرر ہے۔

سور ہنمبر۶ ( انعام) آیت نمبر۱۵۴ " وَ أَنَّ هذا صِراطِي‏ مُسْتَقِيماً فَاتَّبِعُوهُ وَ لا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ‏."

(یعنی یہ ہے میرا سیدھا راستہ پس اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کا اتباع نہ کرو جس سے خدا کی راہ ےس بھٹک کر متفرق ہوجاؤ۔)

سورہ نمبر۷( اعراف) آیت نمبر۱۸۰" مِمَّنْ خَلَقْنا أُمَّةٌ يَهْدُونَ‏ بِالْحَقِّ وَ بِهِ يَعْدِلُونَ‏"

یعنی ہماری مخلوق میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو حق کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل سے کام لیتے ہیں( یعنی پیشوایان دین و ائمہ معصومین علیہم السلام۔)

سورہ نمبر۳ ( آل عمران) آیت نمبر۹۸"وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَ لا تَفَرَّقُوا"

یعنی سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور ادھر ادھر متفرق نہ ہو۔

سورہ نمبر۱۶( نحل) آیت نمبر۴۵ "فَسْئَلُوا أَهْلَ‏ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ"

(یعنی اہل ذکر ( حاملان قرآن) سے پوچھ لو اگر تم کو نہیں معلوم ہے)

سورہ نمبر۳۳( احزاب) آیت نمبر۳۳ "إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ‏ عَنْكُمُ‏ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً. "

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ اللہ کا یہی ارادہ ہے کہ اے اہل بیت رسالت تم سے ہر رجس گندیگی کو دور رککھے اور تم کو ہر عیب سے کما حقہ پاک و پاکیزہ قرار دے۔

سورہ نمبر۳(آل عمران) آیت نمبر۳۰ "إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى‏ آدَمَ‏ وَ نُوحاً وَ آلَ إِبْراهِيمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَى الْعالَمِينَ‏ذریة بعضها من بعض"

یعنی در حقیقت اللہ نے آدم، نوح اولاد ابراہیم اور اولاد عمران کو تمام اہل عالم پر بگرزیدہ فرمایا ہے، اس نسل کے بعض کو بعض سے۔

سورہ نمبر۳۵( فاطر) آیت نمبر۲۹" ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ‏ الَّذِينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا"

یعنی پھر ہم نے اپنے ان بندوں کو کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے چن لیا ہے۔

سورہ نمبر۲۴( نور) آیت نمبر۳۵ "اللَّهُ نُورُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ الزُّجاجَةُ كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَ لا غَرْبِيَّةٍ يَكادُ زَيْتُها يُضِي‏ءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نارٌ نُورٌ عَلى‏ نُورٍ

۳۵۷

يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشاءُ ...."

یعنی اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال اس قندیل کے مانند ہے جس میں ایک چراغ روشن ہو وہ چراغ ایک شیشے کے اندر ہو اور وہ شیشہ اس طرح چمکتا ہوگویا ایک بہت درخشان ستارہ ہے۔ وہ زیتون کے اس مبارک درخت سے روشن ہوتا ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی۔ اس کا زیت ہر وقت ضو دینے کے لئے تیار ہے بغیر اس کے کہ آگ اس کو مس کرے، نور بالاۓ نور، خدا جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔

اور بہت سی آیتیں ہیں لیکن محفل کا وقت ان سب کو ذکر کرنے کی گنجائش نہیں رکھتا حتی کہ خطیب خوارزمی کے مناقب میں امام احمد بن حنبل نے مسند میں، حافظ ابونعیم نے مانزل من القرآن فی علی میں اور حافظ ابوبکر شیرازی نے نزول القرآن فی امیرالمومنین میں روایت کی ہے کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا قرآن کا چوتھائی حصہ ہم اہل بیت کے حق میں نازل ہوا ہے۔

نیز حافظ ابونعیم ما نزل من القرآن فی علی میں، احمد بن حنبل مسند میں، واحدی اسباب النزول میں محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول میں، ابن عساکر اور محدث شام ا پنی اپنی تاریخ میں، حافظ ابوبکر شیرازی نزول القرآن فی امیرالمومنین میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب شروع باب۶۲ میں اور خواجہ بزرگ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب۴۲ میں طبرانی سے اور وہ ابن عباس( جرامت) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا "نزلت‏ في‏ على‏ أكثر من ثلاث مائة آية في مدحه." (یعنی علی علیہ السلام کی مدح میں تین سو سے زیادہ آیتیں نازل ہوئیں۔)

یقینا ان میں سے ہر ایک آیت ک بارے میں کم سے کم کئی کئی گھنٹے تقریر کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن وقت نہ ہونے کی وجہ سے میں نے فہرست کے طور پر ان میں سے بعض کی تلاوت کردی ہے تاکہ صاحبان علم و فن اکابر علماۓ عامہ کی معتبر کتب مثلا تفسیر امام فخر الدین رازی، تفسیر امام ثعلبی، تفسیر زمخشری، تفسیر جلال الدین سیوطی، تفسیر طبری، تفسیر نیشاپوری، تفسیر واحدی، کتاب فرائد السمطینحموینی صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، جمع بین الصحیحین حمیدی، مسند امام احمد بن حنبل، صواعق ابن حجر، شرف المصطفی خرگوشی، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، حلیتہ الاولیاء حافظ ابونعیم، مفاتیح الاسرار شہرستانی، مناقب خوارزمی، فصول المہمہ مالکی، شواہد التنزیل حاکم ابوالقاسم، استیعاب ابن عبدالبر، سقیفہ جوہری، ینابیع المودۃ خواجہ بزرگ حنفی، مودۃ القربی ہمدانی، مانزل من القرآن فی علی اصفہانی، مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی، نہایہ ابن اثیر، کفایت الطالب گنجی شافعی، نزول القرآن فی امیرالمومنین ابوبکر شیرازی، اور رشفتہ الصادی سید ابوبکر بن شہاب الدین علوی، وغیرہ کی طرف رجوع کر کے نگاہ تحقیق سے جائزہلیں جس سے ان پر حقیقت کا انکشاف ہوسکے۔

بہتر ہوگا کہ بیان کو زیادہ طول نہ دوں اور اسی آیت کا تذکرہ کروں جس کو عنوان کلام قرار دیا ہے اور سب سے بڑی دلیل بتایا ہے۔

میں نے عرض کیا تھا کہ شیعہ امامیہ فرقے کا عقیدہ یہ ہے کہ آیہ مبارکہ میں عقلی و نقلی دلائل و براہین کی روشنی میں اولی الامر سے آئمہ عشر سلام اللہ علہیم اجمعین مراد ہیں۔

۳۵۸

چنانچہ اس مطلب پر عقلی دلیلیں اتنی زیادہ ہیں کہ محفل کا وقت ان سب کو بیان کرنے کے لئے کافی نہیں ہے لیکن قرینہ خود ثابت کررہا ہے کہ ان اولی الامر کو یقینا گناہ و خطا سے معصوم ہونا چاہیئے جن کی اطاعت خدا و رسول کی اطاعت سے وابستہ ہے۔

چنانچہ امام فخرالدین رازی نے بھی اپنی تفسیر میں اس مفہوم کا اقرار کیا ہے کہ اگر کہا جاۓ اولی الامر معصوم نہیں ہیں تو اجتماع ضدین لازم آۓ گا اور یہ محال ہے۔

دوسرےیہ کہ اولی الامر کو ہر فرد بشر سے اعلم و افضل، اورع و اثقی اور اکمل ہونا چاہیے تاکہ وہ صفات پیغمبر(ص) کے حامل بنیں اور ہر حیثیت سے ان کی اطاعت واجب ٹھہرے۔

یہ صفات ساری امت میں(بتصدیق اکابر علماء اہل سنت) سوا آئمہ اثناء عشر علیہم السلام ک اور کسی کے لئے بیان نہیں کئے گئے ہیں۔ ان کا درجہ عصمت اس قدر بلند ہے کہ خدا نے آیت تطہیر میں اس کی شہادت دی ہے۔ اس جلیل القدر خاندان کی عصمت کے بارے میں اکابر علماۓ اہل تسنن کی معتبر کتابوں کے اندر کثرت سے حدیثیں مروی ہیں جن میں سے چند خبریں نمونے ک طور پر پیش کررہا ہوں۔

طرق عامہ سے آئمہ کے لئے اخبارِ عصمت

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب ۷۷ ص۳۴۵ میں اور شیخ الاسلام حموینی نے فرائد السمطین میں ابن عباس سے روایت کیہے کہ انہوں نے کہا:

"سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ‏ أَنَا وَ عَلِيٌّ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ تِسْعَةٌ مِنْ‏ وُلْدِ الْحُسَيْنِ‏ مُطَهَّرُونَ‏ مَعْصُومُونَ."

یعنی میں نے سنا کہ رسول اللہ صلعم فرماتے تھے میں اور علی اور حسن و حسین اور حسین کی اولاد میں سے نو افراد سب کے سب پاک و پاکیزہ اور معصوم ہیں۔

سلمان فارسی نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلعم نے حسین علیہ السلام کے شانے پر ہاتھ رکھ کے فرمایا:

" الإمام ابن الإمام تسعة من صلبه أئمّة أبرار امناء معصومون‏"

یعنی قطعی طور پر یہ امام اور امام کے فرزند ہیں، ان کی نسل سے نو عدد امام، نیکوکار، امین اور معصوم ہوں گے۔

زید ابن ثابت سے روایت کی ہے کہ آں حضرت نے فرمایا:

"‏ وَ إِنَّهُ لَيَخْرُجُ مِنْ صُلْبِ الْحُسَيْنِ ع أَئِمَّةٌ أَبْرَارٌ أُمَنَاءُ مَعْصُومُونَ‏ قَوَّامُونَ بِالْقِسْطِ "

یعنی یقینا حسین(ع) کے صلب سے نیکوکار، امین، معصوم اور عدل و انصاف کو قائم رکھنے والے امام پیدا ہوں گے۔

اور عمران ابن حصین سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں نے رسول خدا صلعم سے سنا کہ آں حضرت نے

۳۵۹

علی علیہ السلام سے فرمایا:

" أَنْتَ‏ وَارِثُ‏ عِلْمِي‏ وَ أَنْتَ الْإِمَامُ وَ الْخَلِيفَةُ بَعْدِي تُعَلِّمُ النَّاسَ بَعْدِي مَا لَا يَعْلَمُونَ وَ أَنْتَ أَبُو سِبْطَيَّ وَ زَوْجُ ابْنَتِي مِنْ ذُرِّيَّتِكُمُ الْعِتْرَةُ الْأَئِمَّةُ الْمَعْصُومِينَ "

یعنی تم میرے علم کے وارث ہو اور تم امام اور میرے بعد خلیفہ ہو۔ تم لوگوں کو وہ باتیں بتاؤ گے جو وہ نہیں جانتے، تم میرے نواسوں کے باپ اور میری بیٹی کے شوہر ہو، اور تمہاری اولاد میں سے عترت اور معصوم امام ہیں۔

اس قسم کے اخبار و احادیث اکابر علماۓ اہل سنت کے طرق سے بکثرت مروی ہیں جن میں سے اس مختصر وقت میں نمونے کے لئے اسی قدر کافی ہیں۔

ان حضرات کے علم کے بارے میں بھی طرق اہل سنت سے بکثرت اخبار منقول ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ راتوں کی خصوصی نشستوں میں ہم اس موضوع پر تفصیلی بحث کرچکے ہیں اور جو یقینا رسائل و اخبارات میں آپ حضرات کی نظر سے گزری ہوگی۔ نمونے کے طور پر آج بھی چند حدیثیں نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

عترت و اہلِ بیت(ع) کا علم

ابواسحق شیخ الاسلام حموینی فرائد السمطین میں، حافظ ابونعیم اصفہانی حلیتہ الاولیاء میں اور ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا میری عترت میری طینت سے پیدا کی گئی ہے اور خداۓ تعالی نے ان افراد کو علم وفہم کرامت فرمایا ہے راۓ ہو اس شخص پر جو ان کو جھٹلاۓ۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور صاحب کتاب سیر الصحابہ نے حذیفہ ابن اسید سے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلعم نے ایک مفصل خطبہ اور حمد و ثناۓ الہی فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا:

"إنّي‏ تارك‏ فيكم‏ الثّقلين كتاب اللّه و عترتي ان تمسکتم بهما فقد نجوتم"اور طبرانی اتنے اضافے کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ فرمایا: " فلا تقدموهما فتهلكوا و لا تقصروا عنهما فتهلكوا و لا تعلموهم فانهم أعلم منكم. "

یعنی میں تمہارے اندر دو نفس وبزرگ چیزیں چھوڑتا ہوں، خدا کی کتاب اور میری عترت، اگر تم ان دونوں سے تمسک رکھو گے تو ضرور نجات پاؤ گے۔

پھر فرمایا کہ ان سے پیش قدمی نہ کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے، ان افراد سے تقصیر و کوتاہی نہ کرو ورنہ ہلاک ہوگے اور ان کو سکھانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ یقینا یہ تم سے زیادہ عالم ہیں۔

نیز دوسری روایت میں حذیفہ بن اسید سے نقل کرتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

" الْأَئِمَّةُ بَعْدِي‏ مِنْ‏

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394