پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 325349 / ڈاؤنلوڈ: 8639
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

حکم رسول(ص) کی اطاعت واجب ہے

شیخ : میں سوچتا ہوں کہ آپ کا یہ بیان حقیقت نہ رکھتا ہوگا اس لیے کہ عقل اس کو نہیں مانتی کہ کوئی شخص رسول خدا(ص) کو روکنے کی طاعت رکھتا ہو جب کہ قرآن کریم صاف صاف کہہ رہا ہے"وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوه ومانهاكم عنه فانتهوا" ( یعنی رسول خدا(ص) تم کو جس چیز کی ہدایت کریں اس کو قبول کرو اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہو) نیز اور متعدد آیتوں میں آںحضرت(ص) کے احکام کی اطاعت لازمی قرار دی گئی ہے جیسے"أَطِيعُوااللَّهَ‏ وَأَطِيعُواالرَّسُولَ" ( یعنی اللہ اور رسول(ص) کی اطاعت کرو) بدیہی چیز ہے کہ رسول اللہ(ص) کی اطاعت سے انکار کرنا کفر ہے لہذا صحابہ اور آںحضرت(ص) کے ماننے والے ایسا عمل نہیں کرسکتے تھے کہ آپ کو وصیت سے منع کریں۔ ممکن ہے کہ یہ گڑھی ہوئی روایت ہو جس کو امت کی بے اعتنائی ثابت کرنے کے لیے ملحدین کی طرف سے مشہور کردیا گیا ہو۔

پیغمبر(ص) کو وصیت سے روکنا

خیر طلب: میں التماس کرتا ہوں کہ انجان بننے کی کوشش نہ کیجئے! یہ گڑھی ہوئی روایتوں میں سے نہیں ہے بلکہ مسلم الثبوت اخبار صحیح میں سے ہے جس کی صحت پر جملہ اسلامی فرقوں کو اتفاق ہے یہاں تک کہ شیخین بخاری و مسلم نے بھی نقل روایت میں اس قدر سخت احتیاط کے باوجود کہ کوئی ایسی روایت درج نہ ہونے پائے جس سے مخالفین کو گرفت اور استدلال کا موقع ملنے اپنی صحیحین میں اس دردناک واقعے کو نقل کیا ہےکہ رسول اللہ(ص) نے موت کے وقت فرمایا کہ دوات اور کاغذ لائو تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔ حاضرین مجلس میں سے کچھ لوگ ایک (سیاسی ) آدمی کے بہکانے میں آکر مانع ہوئے اور اس قدر ہنگامہ برپا کیا کہ آں حضرت بہت دل شکستہ ہوئے اور ناراض ہو کر ان کو اپنے پاس سے نکال دیا۔

شیخ : میں ہرگز اس بات کا یقین نہیں کرسکتا۔ بھلاکون شخص ایسی جرات کرسکتا تھا کہ رسول خدا(ص) کا مد مقابل بنے؟ اگرا یک معمولی انسان بھی وصیت کرنا چاہتا ہے تو کوئی اس کو منع نہیں کرسکتا نہ کہ خدا کے رسول(ص) کو جس کی اطاعت واجب اور جس سے مخالفت و سرکشی باعث کفر ہے۔

چونکہ بزرگحوں کی وصیت ذریعہ ہدایت ہوتی ہے لہذا کوئی اس کی ممانعت نہیں کرتا، چنانچہ خلیفہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے وصیت کی اور کسی نے روک ٹوک نہیں کی۔

میں پھر عرض کرتا ہوں کہ ایسی روایت کو تسلیم نہیں کرسکتا۔

۸۱

خیر طلب: آپ حق رکھتے ہیںکہ یقین نہ کریں۔ اس پر آپ ہی نہیں ہرمسلمان تعجب کرتا ہے بلکہ اس سے بالاتر میں کہتا ہوں کہ ہر قوم وملت کا سننے والا اس قضیہ سے حیرت میں ہے کہ اگر ایک واجب الاطاعت پیغمبر(ص) آخری وقت میں ایسی وصیت کرنا چاہے جس کا مقصد امت کو گمراہی سے بچانا اور راہ سعادت پر لگانا ہو تو کیونکر اس کو منع کریں گے لیکن کیا کیا جائے کہ ایسی حرکت کی گئی ہے اور اس نے مسلمانوںکے غم و مصیبت کو بڑھا دیا ہے۔

پیغمبر(ص) کو وصیت سے باز رکھنے پر ابن عباس(رض) کا گریہ

یہ صدمہ صرف ہمارے ہی اور آپ کے لیے نہیں ہے بلکہ اصحاب رسول(ص) بھی اس غم انگیز حادثے پر گریہ کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری و مسلم اور آپکے دوسرے اکابر علماء نے روایت کی ہے کہ عبداللہ ابن عباس ( حبر امت) اکثر روتے تھے اور کہتے تھے" يوم الخميس ما يو الخميس" (۱) اس کے بعد اس قدر گریہ کرتے تھے کہ زمین آںسوئوں سےبھیگ جاتی تھی۔

جب لوگ پوچھتے تھے کہ پنچ شنبے کے روز کیا واقعہ ہوا ہے جس پر آپ اس قدر روتے ہیں؟ تو کہتے تھے کہ جب رسول اللہ(ص) پر مرض الموت طاری ہوا تو آپنے حکم دیا کہ دوات اور کاغذ لے آئو تاکہ تمہارے لیے ایسا نوشتہ لکھ دوں جس سے تم لوگ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔ بعض حاضرین بزم مانع ہوئے اور مزید بر آں یہ کہا کہ محمد(ص) ہذہانبکتے ہیں( معاذ اللہ) وہ جمعرات کا دن تھا جو فراموش نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ قطع نظر اس سے کہ

آں حضرت(ص) کو وصیت نہیں کرنے دی زبان سے بھی تکلیف پہنچائی۔

شیخ : رسول خدا(ص) کو وصیت کرنے سے کس نے منع کیا؟

خیر طلب: یہ خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب تھے جنہوں نے آں حضرت(ص)کو وصیت سے روکا۔

شیخ : میں بہت ممنون ہوں کہ آپ نے جلد ہی میری الجھن رفع کردی۔ چونکہ ان بیانات سے میں بہت پریشان تھا اور یہ کہنا چاہتا تھا کہ اس قسم کی روایتیں شیعہ عوام کی گڑھی ہوئی ہیں لیکن آپ کے لحاظ سے خاموش تھا، اب دل کی بات ظاہر کرتا ہوں اور آپ کو سمجھاتا ہوں کہ اس طرح کے جعلی روایات سے کام نہ لیجئے۔

خیر طلب : میں بھی آپ کو سمجھاتا ہوں کہ بغیر سوچے سمجھے انکار یا اقرار نہ کیا کیجئے کہ حقیقت کھلنے کے بعد (پچھتانا پڑے۔ چنانچہ اس موضوع میں بھی آپ جلدی کر گئے اور اپنی پرانی عادت اور بدگمانی کی بنا پر بغیر سمجھے بوجھے پاکدامن شیعوں پر جعلسازی کی تہمت لگادی۔ حالانکہ میں بار بار عرض کرچکا ہوں کہ ہم شیعوں کو گڑھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیونکہ خود آپ ہی کی کتابوں میں ہمارے موافق اور ہمارے عقیدے کے ثبوت میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ یعنی جمعرات کا دن، کیسا تھا جمعرات کا دن۔

۸۲

حدیث منع وصیت کے ماخذ

اس زیر بحث موضوع میں اگر آپ اپنے علماء کی معتبر کتابیں دیکھئیے تو معلوم ہوگا کہ آپ ہی کےاکابر علماء نے اس قضیہ کو نقل کیا ہے مثلا بخاری نے صحیح بخاری جلد دوم ص۱۱۸ میں، مسلم نے اپنی صحیح مسلم آخر کتاب وصیت میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، امام احمد بن حنبل نے مسند جلد اول ص۲۲۲ میں، ابن ابی الحدید نہج البلاغہ جلد دوم ص۵۶۳ میں، کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں، نودی نے شرح صحیح مسلم میں، ابن حجر نے صواعق میں نیز قاضی ابو علی قاضی روز بہان، قاضی عیاض، امام غزالی، قطب الدین شافعی، محمد ابن عبدالکریم شہرستانی، ابن اثیر، حافظ ابونعیم اصفہانی، سبط ابن جوزی، غرض کہ بالعموم آپ کے علماء نے اس المناک وقوعے کی تصدیق کی ہے۔ کہ حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد رسول اللہ(ص) بیمار ہوئے اور اصحاب کی ایک جماعت عیادت کے لیے حاضر ہوئی تو آں حضرت(ص) نے فرمایا"ايتونى‏ بدوات‏ وبياض لاكتب لكم كتابالن تضلوابعدي" ( یعنی میرے پاس دوات اور سادہ کاغذ لےآئو میں تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد تم لوگ ہرگز گمراہ نہ ہو۔)

امام غزالی نے سر العالمین مقالہ چہارم میں لکھا ہے۔ جس سے سبط ابن جوزی نے بھی تذکرہ ص۳۶ میں نقل کیا ہے نیز آپ کے بعض دوسرے بزرگ علماء نے اس طرح روایت کی ہے کہ فرمایا دوات اور ایک سادہ کاغذ لے آئو" لازيل عنکم اشکال الامر واذکر لکم من المستحق لها بعدی "( اور بعض روایتوں میں ہے کہ فرمایا:)

"لأكتب‏ لكم‏ كتابالاتختلفون فيهبعدي)فقالعمر: عوا الرجل فإنهليهجر،حسبناكتاباللّه"

یعنی تاکہ تم سے (امر خلافت) کا اشکال دفع کردوں، یہ بتادوں کہ میرے بعد اس خلافت کا مستحق کون ہے یا یہ کہ تمہارے لیے ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ جس سے تم لوگ میرے بعد اس معاملہ میں اختلاف پیدا نہ کرو۔ پس عمر نے کہا کہ اس شخص ( یعنی رسول اللہ(ص)، کو چھوڑو کیونکہ در حقیقت یہ ہذیان بک رہا ہے( معاذاللہ) کتاب خدا ہمارے لیے کافی ہے۔

اصحاب کا مجمع دو گروہوں میں بٹ گیا، کچھ عمر کے طرفدار ہوگئے ادر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور کچھ لوگ رسول اللہ(ص) کے حامی رہے یہاں تک کہ آپس میں اس قدر تھکا فضیحتی شور و غوغا ہوا کہ آںحضرت(ص) نے ( جو خلق عظیم کے مجسمہ تھے) غصے میں بھر کر فرمایا "قوموا عنی ولا ينبغی عندی التنازع" ( یعنی میرے پاس سے اٹھ جائو کیونکہ میرے پاس لڑنا جھگڑنا ٹھیک نہیں ہے) یہ وہ پہلا فتنہ و فساد تھا جو پیغمبر(ص) کی تیس سال کیجانگاہ محنتوں کے بعد مسلمانوں کے درمیان خود آنحضرت(ص) کے سامنے رونما ہوا اور اس فتنے اور گروہ بندی کے باعث خلیفہ عمر تھے جنہوں نے اپنی باتوں سے نفاق و اختلاف کا بیج بویا اور در پارٹیاں قائم کر دیں، یہاں تک کہ آجکی رات بھی ہماور آپ دونوں اسلامی بھائیوں کو دو گروہوں میں بانٹ کے ایک دوسرے کے مقابلے پر لا کھڑا کیا۔

شیخ : آپ جیسے مہذب اور با اخلاق آدمی سے ایسی جرات اور جسارت کی امید نہیں تھی کہ خلیفہ کی ایسی بزرگ ہستی پر ایسا الزام لگائیے گا۔

۸۳

خیر طلب : آپ کو خدا کا واسطہ کہ محبت و عداوت کو الگ رکھ کے اور بدگمانی سے ہٹ کے ذرا اںصاف سے بتائیے کہ آپکے انکار کے جواب میں آپ ہی کی کتابوں سے تاریخی واقعات نقلکر کے میں نے جرات و جسارت کی یا خلیفہ عمر نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت با عظمت میں انتہائی درجے کی گستاخی کی کہ علاوہ وصیت سے روکنے، فتنہ و فساد پیدا کرنے اور بیماری کی حالت میں رسول اللہ(ص) کی ایسی بلند شخصیت کے سرہانے شور و ہنگامہ برپا کرنے کے منہ کے اوپر گالی بھی دی اور کہا کہ یہ شخص ہذیان یعنی پاگل پن کی باتیں بک رہا ہے( معاذ اللہ)؟

اس موقع کی مناسبت سے عرب کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے

وتبصرفيالعينمني‏ القذى‏وفيعينكالجذعلاتبصره‏

یعنی میری آنکھ کا تنکا تو ڈھونڈتے ہو اور اپنی آںکھ کا شہتیر تم کو نظر نہیں آتا ( مطلب یہ کہ آپ میرے چھوٹے چھوٹے عیوب کی تاک میں تو رہتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں لیکن اپنے بڑے بڑے عیب نہیں دیکھتے) آیا خدائے تعالی آیت نمبر۴۰ سورہ نمبر۳۳( احزاب) میں ارشاد نہیں فرماتا ہے کہ :

"ماكانَ‏ مُحَمَّدٌأَباأَحَدٍمِنْرِجالِكُمْوَلكِنْرَسُولَاللَّهِوَخاتَمَالنَّبِيِّينَ‏"

یعنی محمد(ص) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول(ص) اور خاتم النبیین ہیں۔

اشارہ یہ ہے کہ آں حضرت(ص) کا ذکر ہمیشہ ادب اور احترام کے ساتھ کرنا چاہئیے اور رسول اللہ(ص) یا خاتم النبیین کہنا چاہئیے۔ یعنی آن حضرت(ص) کو نام لے کر نہ پکارو بلکہ رسول اللہ(ص) کہو۔

لیکن اس موقع پر عمر نے بغیر ادب اور فرمان الہی کا لحاظ کئے ہوئے نام کے ساتھ بھی نہیں بلکہ یہ شخص کہہ کے آں حضرت(ص) کی طرف اشارہ کیا۔

خدا کے لیے انصاف سے کہئے کہ گستاخی میں نے کی یا خلیفہ نے؟

شیخ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ ہجر کے معنی ہذیان کے ہیں جس سے بے ادبی اور جسارت کا شبہ کیا جائے؟

تعصب آدمی کو اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے

خیر طلب : تمام اہل لغت و تفسیر اور بالخصوص آپ کے اکابرعلماء جیسے ابن اثیر جامع الاصول میں ابن حجر شرح صحیح بخاری میں اور صاحبان صحاح وغیرہ کہتے ہیں کہ ہجر ہذیان کے معنی میں ہے۔ محترم ! انسان کو تعصب وعناد کا لباس اتار دینا چاہئیے تاکہ حقائق بے نقاب ہو کر سامنے آئیں۔جس پیغمبر(ص) کے حق قرآن مجید ہدایتدے رہا ہے کہ ان کو رسول اللہ(ص) اور خاتم النبیین کہو اگر کوئی شخص ان الرجل لیہجرکہہ کے عمدا ان بزرگوار کی شان اس قدر گھٹائے کہ کہے یہ شخص ہذیان بک رہا ہے( معاذ اللہ) تو کیا اس نے ادب اور حکم قرآن کے خلاف بات نہیں کہی؟

اور جس رسول(ص)کی نبوت و عصمت تا دم مرگ زائل نہ ہوئی ہو بالخصوص اس موقع پر جب کہ قوم کی ہدایت اور تبلیغ کی منزل میں ہو

۸۴

اگر کوئی شخص اس کی طرف ہذیان گوئی کی نسبت دے تو کیا یہ اس کی عدم معرفت اور آں حضرت پر ایمان نہ لانے کی دلیل نہیں ہے؟

شیخ : آیا مقام خلافت کے مقابلہ میں ایسا الزام مناسب ہے کہ وہ معرفت اور مرتبہ رسالت پر ایمان نہرکھتے تھے؟

خیر طلب: اول جناب عالی نے جس وقت یہ سنا کہ رسول اللہ(ص) کی طرف ہذیان کی نسبت دی گئی تو کیوں متاثر نہیں ہوئے؟ حالانکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ آںحضرت کو رو دررو دشنام دینے اور ہذیان سے منسوب کرنے والے سے بیزازی اختیار کرے۔ لیکن جس وقت ایک معمولی آدمی کے لیے جس کا زیادہ سے زیادہ درجہ یہ ہے کہ اصحاب رسول کی ایک فرد ہو افور بعد کو چند اشخاص کے بل پر مسند خلافت تک پہنچ گیا ہو، اس قسم کا اشارہ کیا گیا تو آپ کو نا گوار ہوا۔ در آنحالیکہ یہ خیالات صرف میرے ہی نہیں تھے بلکہ ہر صاحب علم اور معقول انسان ان واقعات کے سننے کے بعد فطری طور پر یہی سوچتا ہے کہ ایک مومن شخص کیا رسول اللہ(ص) کی طرف ایسی نسبت دے گا؟ لہذا ظاہر ہے کہ ایک خوش عقیدہ اور پاک نفس مسلمان کے جذبات کیا ہوں گے۔

علمائے عامہ کا اعتراف کہ لفظ ہذیان کہنے والے کو معرفتِ رسول(ص) نہ تھی

چنانچہ آپ کے منصف اور با فہم علماء جیسے قاضی عیاض شافعی نے کتاب شفاء میں، کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں اور نودی نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ ایسی بات کہنے والا چاہے جو بھی تھا وہ قطعا رسول اللہ(ص) پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور آں حضرت(ص) کی منزل اور مرتبے کو پہچاننے سے عاجز تھا، اس لیے کہ ارباب مذاہب کے نزدیک ثابت ہے کہ انبیاء عظام ارشاد و ہدایت خلق کی منزل میں عالم غیب سے اتصال رکھتے ہیں اور تندرستی کا زمانہ ہو یا بیماری کی حالت بہر حال ان کے احکام کی تعمیل واجب ہے پس آں حضرت(ص) کی مخالفت بالخصوص جسارت و دشنام اور کلمہ ہذیان کے ساتھ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو رسول(ص) کی معرفت حاصل نہ تھی۔ انتہی کلامہم۔

پیغمبر(ص) کے روبرو اسلام کے اندر پہلا فتنہ

دوسرے آپ نے جو یہ فرمایا تھا کہ میں نے فتنہ اور نفاق پیدا کرنے کا الزام کیوں لگایا تو یہ بات بھی میری تنہا میری ہی جانب سے نہیں ہے بلکہ آپ کے انصاف پسند علماء نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

عالم جلیل حسین میبذی شرح دیوان میں کہتے ہیں کہ پہلا فتنہ جو اسلام کے اندر برپا ہوا وہ مرض الموت میں خود رسول اللہ(ص) کے روبرو ہوا جب کہ آں حضرت(ص) نے وصیت کرنا چاہا اور عمر مانع ہوئے۔ نتیجہ کے طور پر مسلمانوں میں فتنہ، فساد فرقہ بندی اور مذہبی اختلاف پیدا ہوگیا۔

شہرستانی اپنی کتاب ملل و نحل کے مقدمہ چہارم میں کہتے ہیں کہ پہلی مخالفت جو اسلام کے اندر واقع ہوئی وہ رسول اللہ(ص) کے حکم سے وصیت لکھنے کے لیے دوات اور کاغذ لانے سے عمر کا منع کرنا تھا۔

۸۵

اورع ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۵۶۳ میں اسی مقصد کی طرف اشارہ کیا ہے۔

شیخ : اگر خلیفہ عمر رضی اللہ نے یہ الفاظ کہے ہوں تو میں اس میں کوئی بے ادبی نہیں سمجھتا بلکہ ایسے امور انسان کے جسمانی عوارض میں سے ہیں۔ جس وقت کسی شخص پر مرض کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ بے تک جملہ بولنے لگتا ہے جن کو ہذیان سے تعبیر کرتے ہیں اور جسم کے ان فطری کیفیات میں پیغمبر(ص) اور دوسرے لوگوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہو گا۔

خیر طلب : آپ بخوبیجانتے ہیں کہ نبوت کی ایک خاص صفت عصمت بھی ہے جو نبی سے مرتے دمتک سلب نہیں ہوتی، خصوصا جب کہ ارشاد اور ہدایت خلق کی منزل میں ہو اور فرمائے کہ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھنا چاہتا ہوں تاکہ تم گمراہ نہ ہو۔

پس چونکہ آں حضرت(ص) مقام ارشاد و ہدایت میں تھے لہذا قطعا با عصمت اور حق سے متصل تھے۔ اگر آپ آیہ شریفہ "وَمايَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْهُوَإِلَّاوَحْيٌيُوحى‏" و آیہ مبارکہ" وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوهومانهاكمعنهفانتهوا" اور آیت " أَطِيعُوااللَّهَ‏ وَأَطِيعُواالرَّسُولَوَأُولِيالْأَمْرِمِنْكُمْ‏" پیغمبر(ص) اپنی خواہش نفس سے نہیںبولتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف خدا کی وحی ہوتی ہے۔ اور تم کو رسول جس چیز کی ہدایت کریں اس کو اختیار کرو۔ اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول(ص) کی۔ کی طرف توجہ کریں تو خود ہی حقیقت آپ کے اوپر ظاہر ہوجائے گی اور معلوم ہوجائے گا کہ دوات اور کاغذ لانے سے روکنا اور آںحضرت(ص) کو امت کی ہدایت کے لیے وصیت نامہ لکھنے سے مانع ہونا در حقیقت خدا کی مخالفت تھی۔ طے شدہ چیز ہے کہ لفظ ہذیان کھلی ہوئی گالی تھی، پھر اس کے ساتھ رجل کہہ کے اشارہ کرنا اور بھی سخت توہین ہے۔

حضرات ! اںصاف سے بتائیے گا کہ اگر اس جلسہ میں سے کوئی شخص آپ کی طرف اشارہ کر کے کہے کہ یہ شخص ہذیان بکتا ہے تو آپ کو کیسا معلوم ہوگا؟ حالانکہ ہم اور آپ معصوم نہیں ہیں۔ ہذیان بھی بک سکتے ہیں۔ آیا آپ اس کلام کو ادب و احترام کی کوئی قسم سمجھیں گے یا بے ادبی توہین اور گستاخی؟

اگر یہ گفتگو ادب و احترام کے خلاف ہے تو ماننا پڑے گا کہ حضرت خاتم النبییین (ص) کی شان میں یہ اور زیادہ اہانت و جسارت ہے۔

اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ رسول خدا(ص) کی خدمت میں ایسی توہین آمیز بات کہنے والے سے بیزاری اختیار کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ جب کہ خدائے تعالی نے قرآن مجید میں آں حضرت کو صاف طور سے رسول(ص) اور خاتم النبیین(ص) کہا ہے۔ اگر جانبداری اور تعصب کو الگ رکھئیے تو آپ کی عقل و حق شناسی ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتی ہے جو آں حضرت(ص) کو رسول اللہ(ص) اور خاتم النبیین(ص) کہنے کے عوض کہے یہ شخص ہذیان بک رہا ہے۔

شیخ : فرض کیجئے کہ ہم غلطی کے قابل بھی ہوجائیں تو چونکہ یہ خلیفہ رسول(ص) تھے اور دین و شریعت کی حفاظت کے لیے اجتہاد کیا تھا لہذا قطعا بری الذمہ اور قابل درگزر ہیں۔

خیر طلب : اول تو آپ نے یہی بے محل بات کہی کہ چونکہ خلیفہ رسول(ص) تھے لہذا اجتہاد کیا، کیونکہ جس روز عمر نے یہ الفاظ کہے اس روز وہ

۸۶

خلیفہ تھے ہی نہیں بلکہ شاید خلافت کا خواب بھی نہ دیکھا ہوگا۔ وفات رسول(ص) کے بعد جیسا کہ آپ خود بہتر جانتے ہیں۔ ہنگامی طور پر چند لوگوں نے جلد بازی کر کے ابوبکر کو خلیفہ بنادیا اور بعد کو بھی جبر و تشدد، قتل و اہانت اور دروازےمیں آگ لگانے کے ذرائع سے دوسروں کو قابو میںلائے۔ پھر دو سال تین ماہ کے بعد اپنے مرنے کے وقت ابوبکر نے عمر کو خلافت کی گدی سونپ دی۔

دوسرے آپ کا فرمانا بھی بہت تعجب خیز ہے کہ اجتہاد کیا، کیا آپ نے اتنا بھی غور نہیں کیا کہ ںص اور صریحی حکم کے مقابلہ میں اجتہاد کی کوئی حقیقت ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی خطا ہے جو معافی اور درگذر کے قابل نہیں۔

تیسرے آپ نے فرمایا ہے کہ دین و شریعت کی حفاظت کے لیے ایسا کیا آپ جیسے علماء سے ایسی غلط بات سن کر سخت حیرت ہوتی ہے کہ آپ کے عدل و اںصاف پر تعصب کس طرح سے غالب آگیا ہے۔

جناب محترم ! دین و شریعت کی حفااظت رسول خدا(ص) کے ذمے تھی یا عمر ابن خطاب کے ؟ آیا آپ کی عقل قبول کرتی ہے کہ رسول اللہ(ص) کو تو اس قید کے باوجود کہ اس تحریر کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ، یہ پتہ نہ ہو کہ امت کے لیے وصیت نامہ لکھنا دین و شریعت کے خلاف ہے لیکن عمر ابن خطاب کو معلوم ہو اور وہ حفاظت دین و شریعت کے لیے آںحضرت(ص) کو وصیت سے روک دیں؟"فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏ الْأَبْصارِ"

آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ضروریات دین میں خطا کرنا بہت بڑا جرم ہے اور ہرگز اس سے عفو و چشم پوشی نہیں ہوسکتی۔

شیخ : اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے دینکے حالات و کیفیات سے اندازہ لگایا تھا کہ اگر رسول خدا(ص) کوئی چیز لکھیں گے تو اختلاف پیدا ہوجائے گا اور فتنہ بر پا ہوگا لہذا از روئے خیر خواہی خود پیغمبر(ص) کے فائدے کے لیے دوات اور کاغذ نہیں لانے دیا۔

عذر گناہ بدتر از گناہ

خیر طلب: جو کچھ آپ نے فرمایا ہے، عذر گناہ بدتر از گناہ اسی کو کہتے ہیں مجھ کو یاد ہے کہ طالب العلمی کے زمانہ میں میرے ایک استاد جامع منقول و معقول فاضل قزوینی الحاج شیخ محمد علی تھے جو فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایک غلطی کو نبھانے کی کوشش کی جائے تو ہوسکتا ہے کہ ایک کے بجائے سو غلطیان ہوجائیں۔ بعینہ مین اسی طرح دیکھ رہا ہوں کہ آپ خلیفہ کی طرف سے خواہ مخواہ جو دفاع کررہے ہیں وہ ایک خطا اور فاحش غلطی کو بہت سی غلطیوں کا مجموعہ بنا رہا ہے۔

آپ کی اس تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ(ص) درجہ عصمت ( یعنی خطا سے محفوظ ہونے) اور عالم غیت سے اتصال کے باوجود امت کے ارشاد و ہدایت کے موقع پر خیر و اصلاح اور فتنہ و فساد کیطرف کوئی توجہ نہیں رکھتے تھے لہذا خلیفہ عمر نے آںحضرت(ص) کی خیر خواہی اور رہنمائی کی۔

۸۷

اگر آپ آیت نمبر۳۶ سور نمبر۳۳( احزاب) پر تھوڑا غور کیجئے جس میں ارشاد ہے:

"وَماكانَلِمُؤْمِنٍوَلامُؤْمِنَةٍإِذاقَضَىاللَّهُوَرَسُولُهُأَمْراًأَنْيَكُونَلَهُمُالْخِيَرَةُمِنْأَمْرِهِمْوَمَنْ‏ يَعْصِ‏ اللَّهَ‏وَرَسُولَهُفَقَدْضَلَّضَلالًامُبِيناً"

یعنی جب خدا و رسول(ص) کسی کام کا حکم دیں تو کسی مرد یا عورت کو اس میں اپنے ارادے اور اختیار سے کوئی دخل حاصل نہیں ( یعنی اپنے قول و فعل سے آں حضرت(ص) کو روکنے یا اختلاف رائے کا حق نہیں رکھتے) اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانیکرے تو یقینا کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوا۔

تو یقینا اپنے الفاظ واپس لیجئے گا اور خلیفہ عمر کے اس عمل کی حقیقت سمجھ میں آجائے گی کہ آں حضرت کے حکم سے سرتابی، وصیت سے روکنا اور لفظ ہذیان کے ذریعہ گستاخی کرنا انتہائی شنیع فعل تھا اور اس نے پیغمبر(ص) کو اتنا متاثر کیا کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔

شیخ : خلیفہ کی نیک نیتی تو ان کے آخری جملے سے ظاہر ہے کہا "حسبنا کتاب اللہ" یعنی خداکی کتاب قرآن کریم ہمارے لیے کافی ہے ہم کو رسول خدا(ص) کے نوشتہ کی ضرورت نہیں ہے۔

خیر طلب: اتفاق سے خود یہی جملے ان کے عدم معرفت اور قرآن مجید پر توجہ نہ ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے یا پھر عمدا رسول اللہ(ص) کو رنج پہنچانا اور اس عمل سے روکنا مقصود تھا جو ان لوگوں کے جذبات کےخلاف تھا کیوںکہ اگر قرآن مجید کی پوری معرفت ہوتی تو یہ بھی معلوم ہوتا کہ جملہ امور میں قرآن تنہا کفایت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ یہ وہ یکتا کتاب محکم ہے جو مجمل اور مختصر ہے۔ اس نے کلیات احکام تو بیان کر دیے ہیں لیکن ان کے جزئیات کو شارح اور مفسر کی توضیح پر چھوڑ دیا ہے۔کیونکہ ممکن ہے کہ ایک معمولی انسان بغیر فیضان الہی اور بیان عالم ربانی کے اس جمل اور جامع قرآن سے پورا فائدہ اٹھا سکے؟ علاوہ ان باتوں کے اگر تنہا قرآن امت کے امور میں کافی ہوتا تو یہ آیت کیوں نازل ہوتی کہ

"وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوهومانهاكمعنهفانتهوا"

(یعنی رسول اللہ(ص) جس چیز کی ہدایت کریں اس کو اختیار کرو اور جس سے منع کریں اس سےباز رہو) نیز کیا آیت نمبر۸۵ سورہ نمبر۴(نساء) میں یہ ارشاد نہیں ہے:

"وَلَوْرَدُّوهُ‏ إِلَى‏ الرَّسُولِ وَإِلى‏ أُولِي الْأَمْرِمِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ‏"

یعنی اگر رسول(ص) اور صاحبان حکم و رسول کے بعد پیشوایان اسلام کی طرف رجوع کرتے تو یقینا جو اہل معرفت ہیں وہ صحیح تدبیر معلوم کر لیتے۔

پر ثابت ہوا کہ قرآن مجید تنہا مفید طلب نہیں ہے جب تک شارحین قرآن یعنی محمد و آل محمد صلواۃ اللہ علیہم اجمعین کی تفسیر بھی ساتھ ساتھ نہ ہو۔

چنانچہ فریقین کی متواتر حدیث میں ( جس کے چنداسناد گذشتہ شبوں میں پیش کرچکا ہوں)(۱) وارد ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء نے بار بار یہاں تک کہ وفات کے وقت بھی فرمایا :

"إني‏ تارك‏ فيکم الثقلين كتاباللّهوعترتياهلبيتي لنيتفرّقاحتىيرداعليّالحوض أنتمسكتمبهما فقد نجوتملنتضلواابدا"

یعنی میں ( رسول خدا(ص)) تمہارے درمیان یقینا دو گرانقدر چیزیں چھوڑتا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت و اہل بیت، یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص----

۸۸

کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں۔ اگر تم لوگ ان دوںوں سے تمسک رکھو گے تو ضرور نجات پائو گے اور کبھی ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

صاحبان عقل کی فہم و فراست سے تعجب ہے کہ وہ اس پرغور کیوں نہیں کرتے کہ رسول اللہ(ص) تو ( جن کا ہر قول بحکم آیہ"وَمايَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْهُ وَإِلَّاوَحْيٌ يُوحى‏" خدا کی طرفسے ہوتا ہے، ہدایت و نجات امت کے لیے تنہا قرآن کافی نہ سمجھیں اور اس کو اپنی عترت طاہرہ سے وابستہکرتے ہوئے صاف صاف فرمائیں کہ اگر دونوں ( یعنی قرآن و عترت) سے تمسک رکھو گے تب نجات پائو گے اور ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ لیکن خلیفہ عمر یہ کہیں کہ نہیں اکیلا قرآن ہی کافی ہے؟

اب ذرا آپ حضرات اںصاف سے کام لیں اور سچا فیصلہ کریں کہ ایک طرف تو خدا کے بھیجے ہوئے بر حق پیغمبر(ص) کا یہ ارشاد ہے کہ قرآن و اہل بیت(ع) دونوں سے تمسک کرو کیونکہ یہ دونوں تا قیامت ایک دوسرے سے وابستہ ایک دوسرے کی ںظیر اور ایک ساتھ ذریعہ ہدایت ہیں اورکا یہ قول کہ ہم کو صرف قرآن کافی ہے جس کا مطلب یہ کہ انہوں نے فقط عترت ہی کو نہیں ٹھکرایا بلکہ رسول اللہ(ص) کے حکم اور وصیت کو بھی قبول نہیں کیا۔

ایسی صورت میں ہم پر ان دونوں میں سے کس کی اطاعت واجب ہے؟ ہرگز کوئی عقلمند انسان یہ نہیں کہے گا کہ بارگاہ خداوندی سے الحاق رکھنے والے اللہ کے رسول(ص) کا فرمان چھوڑ کے عمر کی بات ماننا چاہئیے۔ تو پھر آپ نے کیوں عمر کا قول لے لیا اور آںحضرت(ص) کا قول پس پشت ڈال دیا؟ اگر فقط کتاب خدا کافی تھی تو آیت نمبر۳۵ سورہ نمبر۱۶ (نحل):"فَسْئَلُواأَهْلَ‏ الذِّكْرِإِنْكُنْتُمْ لاتَعْلَمُونَ‏" (یعنی اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر( یعنی اہل بیت رسول(ص) ہیں) سے دریافت کرو۔) میں ہم کو کیوں حکم دیا گیا ہے کہ اہل ذکر سے سوال کرو؟ ظاہر ہے کہ ذکر سے مراد قرآن یا رسول خدا(ص) ہیں اور اہل ذکر آںحضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت ہیں۔

چنانچہ پچھلی راتون میں دلائل اور اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں کہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے سیوطی وغیرہ نے درج کیا ہے کہ اہل ذکر سے رسول اللہ(ص) کے اہل بیت پاک (ع) مراد ہیں جو عدیل قرآن ہیں۔

آپ ہماری باتوں کو بدگمانی کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور یہ نہ سمجھیں کہ صرف ہمیں ان چیزوں کی گرفت کرتے ہیں کیوں کہ آپ کے اکابر علماء بھی محل انصاف میں خلیفہ عمر کے اس قول پر مضحکہ کرتے ہیں۔

عمر کے قول پر قطب الدین شیرازی کا اعتراض

آپ کے اکابر علماء میں سے قطب الدین شافعی شیرازی کشف الغیوب میں کہتے ہیں یہ امر مسلم ہے کہ بغیر راہنما کے راستہ طے نہیں کیا جاسکتا ہم کو خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول پر تعجب ہے کہ چونکہ ہمارے درمیان قرآن موجود ہے لہذا ہم کو کسی رہنما کی احتیاج نہیں ہے یہ بات تو ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کہے چونکہ ہمارے پاس طب کی کتابیں موجود ہیں لہذا ہم کو کسی طبیب کی ضرورت نہیں ---- کہ یہ بات ناقابل قبول اور بالکل غلط ہے اس لیے کہ جو شخص طبی کتابوں سے مطلب حل نہ کرسکے اس گو قطعی طور پر کسی ہوشیار طبیب کی طرف

۸۹

رجوع کرنا چاہئیے۔ یہی صورت قرآن کریم کی ہے کہ جو شخص اپنی عقل کے ذریعے اس سے پورا فائدہ نہ اٹھا سکے اس کو مجبورا ان ہستیوں کی طرف جھکنا پڑے گا جو عالم قرآن ہیں۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے :

"وَلَوْرَدُّوهُ‏ إِلَىالرَّسُولِوَإِلى‏ أُولِيالْأَمْرِمِنْهُمْلَعَلِمَهُالَّذِينَيَسْتَنْبِطُونَهُمِنْهُمْ‏"

یعنی اگر یہ لوگ رسول(ص) اور صاحبان امر( پیشوایان اسلام) کی طرف رجوع کرتے تو جو لوگ اہل معرفت ہیں وہ صحیح نتیجے تک پہنچ جاتے۔

آیت نمبر۸۳ سورہ نمبر۴(نساء) حقیقی کتاب تو اہل علم کے سینے ہیں جیسا کہ آیت نمبر۴۸ سورہ نمبر۲۹( عنکبوب) میں ارشاد ہے:"هُوَآياتٌ‏ بَيِّناتٌ‏ فِيصُدُورِالَّذِينَأُوتُواالْعِلْمَ‏" ( یعنی بلکہ یہ قرآن و روشن آیتیں ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جن کو( من جانب خدا) علم خدا دیا گیا ہے) اسی وجہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے:"أَنَاكِتَابُ‏ اللَّهِ النَّاطِقُ هوالصَّامِتُ." ( یعنی میں خدا کی بولتی ہوئی کتاب ہوں اور یہ قرآن خاموش کتاب ہے۔ انتہی۔

پس خلیفہ کے کلام کے اول و آخر دونوں حصے نا قابل اعتبار اور علم و عمل اور اںصاف رکھنے والے کے نزدیک لائق نفرت ہیں لہذا آپ بھی تصدیق کیجئے کہ انہوں نے رسول اللہ(ص) پر بہت بڑا ظلم کیا جو وصیت نہیں لکھنے دی۔

ابوبکر کو مرتے دم وصیت لکھنے سے نہ روکنا

رہا آپ کا بار بار یہ فرمانا کہ لوگوں نے ابوبکر و عمر کو صیت کرنے سے نہیں روکا تو یہ درست ہے اور یہی چیز انتہائی حیرت اور تعجب کا باعث ہے جس کو آپ کے تمام مورخین و محدثین نے اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے کہ خلیفہ ابوبکر نے اپنے مرنے کے وقت عثمان ابن عفان سےکہا کہ جو کچھ میں کہتا ہوں اس کو لکھ کیوں کہ یہ لوگوں کی طرف میرا وصیت نامہ ہے۔ چنانچہ جو کچھ ابوبکر نے کہا انہوں نے لکھ لیا۔ خلیفہ عمر وغیرہ بھی موجود تھے لیکن کسی نے اس سے انکار نہیں کیا۔

بالخصوص عمر نے اس وقت یہ نہیں کہا " حسبنا کتاب اللہ" ہم کو ابوبکر کے وصیت نامے کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے کہ قرآن ہمارے لیے کافی ہے۔ لیکن خاتم الانبیاء کو اسی بہانے سے کہ ہمارے لیے خدا کافی ہے وصیت نہ لکھنے دی۔"فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏ الْأَبْصارِ"

اگر اس سازش کے آگےسرنیا زخم کرنے سے ہم کو اور کوئی دلیل مانع نہ ہو تو صرف یہی توہین و جسارت، رسول اکرم(ص) کو دشنام دینا اور اس وصیت سے منع کرنا جو امت کے لیے ہدایت اور ضلالت و گمراہی سے حفاظت کا ذریعہ بنتی، ہر عالم و عاقل اور نکتہ رس منصف کو یہ سمجھا دینے کےلیے کافی ہے کہ اس روز کی یہ کار روائی کسی دلیل و برہان کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ محض دھاندلی، ہنگامہ سازی اور سیاسی چالا کی تھی۔

۹۰

مصیبت عظیم وقت آخر اہانت رسول(ص) اور ممانعت ہدایت

ابن عباس گریہ کرنے میں حق بجانب تھے بلکہ میں تو کہتا ہوں سارے مسلمانوں کو خون کے آنسوئوں سے رونا چاہئیے کو خاتم المرسلین کو اتنی مہلت بھی دی کہ وصیت کر کے امت کے لیے دستور العمل معین کر جائیں، اور زندگی کے آخری لمحون میں آںحضرت(ص) کو توہین و دشنام کے ذریعے تبلیغ رسالت کو عوض دیا۔ اگر وصیت کا موقع دے دیا ہوتا تو یقینا امر خلافت بالکل واضح ہوجاتا اور آں حضرت کے پچھلے ارشادات کی تائید ہوجاتی۔ لیکن سیاسی دائو پیچ جاننے والے بغاوت کر کے سد راہ بن گئے۔

شیخ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ آں حضرت(ص) خلافت کے بارے میں کچھ فرمانا چاہتے تھے؟

خیر طلب: اولا مطلب بالکل ظاہر ہے کہ وقت وفات تک دین کے احکام و قواعد میں سے کوئی چیز باقی ہی رہ گئی تھی کہ امت کی ہدایت کے لیے اس کی یاد دہانی ضروری ہوتی، کیونکہ آیت اکمال دین نازل ہوچکی تھی، البتہ خلافت کا معاملہ ایسا تھا آں حضرت(ص) نے تئیس سال کی مدت میں اس کے لیے جو کچھ فرمایا تھا چاہتے تھے کہ اس کی تائید میں مزید وضاحت فرمادیں، چنانچہ میں عرض کرچکا ہوں کہ امام غزالی نے سرالعالمین کے مقالہ چہارم میں نقل کیا ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا :

"ايتونى‏ بدوات‏ وبياضلاكتبلكمكتابالنتضلوابعدي لازيل عنکم اشکال الامر واذکر لکم من المستحق لها بعدی"

یعنی دوات و کاغذ لے آئو تاکہ تم سے امر خلافت کا اشکال دور کر دوں اور اپنے بعدکے لیے اس کے مستحق کی یاد دہانی کر جائو۔

پھر جملہ"لنتضلوابعدی" بھیثابت کرتا ہے کہ وصیت کا موضوع ہدایت امت تھا۔ اور طرق ہدایت میں سوا امر خلافت و امامت کے اور کسی چیز کی تاکید باقی نہ تھی۔ اس کے علاوہ ہم کو اصرار بھی نہیں ہے کہ آں حضرت(ص) خلافت و امامت کے لیے کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن اتنا تو قطعا چاہتے تھے کہ امت کی ہدایت و رہنمئی کے لیے کوئی تحریر دے دیں۔ تاکہ ضلالت و گمراہی نہ پھیلے تو پھر کیوں ممانعت کی؟ فرض کر لیا جائے کہ ممانعت ہی مناسب تھی تو کیا اس کے لیے فحش و دشنام اور اہانت بھی ضروری تھی؟

چشم باز و گوش باز وایں عمی حیرتم از چشم بندی خدا

فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏الْأَبْصارِ

صاف فرمائیے گا سلسلہ کلام ذرا طولانی ہوگیا لیکن یہ میرے اختیار سے نہیں تھا بلکہ درد و دل کا ایک مختصر سا نمونہ تھا جو آپ کی توجہ کے لیے بے ساختہ زبان پر آگیا۔

پس ان مقدمات سے معلوم ہوگیا کہ علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے وصی تھے اور باوجودیکہ آن حضرت(ص) بارہا ہدایات جاری فرماچکے تھےلیکن آخری منزل پر تکمیل وصیت کے لیے چاہا کہ یہ حقائق تحریر کر کے امت کی ذمہ داری کو پختہ فرمادیں سیاسی بازیگر سمجھ رہے تھے لہ کیا لکھنا چاہتے ہیں لہذا شور و غوغا اور اہانت کر کے روک دیا۔

۹۱

اںحضرت(ص) نے اتمام حجت اور رفع شبہات کے لیے بعض احادیث میں خصوصیت کے ساتھ فرمایا ہے کہ جس خدا نے دیگر انبیائے کرام آدم(ع)، نوح(ع)، موسی(ع)، اور عیسی(ع) وغیرہ کے لیے وصی معین فرمائے اس نے میرے لیے بھی علی(ع) کو وصی قرار دیا۔

نیز فرمایا ہے کہ علی میرے اہل بیت اور میری امت میں میرے بعد میرے وصی ہیں۔ اور یہ خود ایک مضبوط دلیل ہے اس بات کی کہ وصایت اس مقام پر خلافت کے معنی میں ہے۔ لہذا علی وصی و خلیفہ رسول(ص) ہیں۔

شیخ : یہ اخبار اگر صحیح بھی ہوں تو متواتر نہیں ہیں لہذا آپ کیونکر ان سے سند لے رہے ہیں؟

خیر طلب : تواتر وصیت کا مسئلہ ہمارے نزدیک تو اہل بیت عترت و طہارت کے طریق سے جو عدیل قرآن ہیں ثابت و مسلم ہے۔ لیکن آپ کو یاد ہوگا میں نے پچھلی راتوں میں عرض کیا ہے کہ آپ کے علماء اپنے علمی بیانات میں خبر واحد کو بحث سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان اخبار میں اگر تواتر لفظی نہ ہو تو تواتر معنوی قطعا موجود ہے۔

ان بے شمار روایتوں سے ( جن کی پوری تفصیل سے اس وقت معذور ہوں کیونکہ اتنا وقت ہے نہ سب حافظے میں محفوظ ہیں لہذا موقع کے لحاظ سے ان میں سے بعض کو جو اس وقت یاد تھیں پیش کر دیا) معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے لیے ایسی وصایت پر نص فرمائی ہے جس سے صاف صاف خلافت کے معنی نکلتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ جو تواتر کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں اور جس وقت ہمارے مقابل کوئی حربہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں یا جس مقام پر لا جواب ہوجاتے ہیں تواتر کی آڑ لینے لگتے ہیں۔ ذرا یہ فرمائیے کہ حدیث لا نورث کا تواتر کہاں سے ثابت کیجئے گا؟ در آنحالیکہ اس حدیث کے راوی بقول آپ کے ابوبکر یا اوس بن حدثانتھے اور چند معلوم الحال مطلبی اشخاص نے ہاں میں ہاں ملادی لیکن ہر زمانے میں کروڑوں موحد اور پاک نفس مسلمان اس حدیث کے منکر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کے باب علم رسول علی علیہ السلام اور تمام عترت و اہل بیت پیغمبر(ص) کا انکار جو عدیل قرآن ہیں اس کے باطل ہونے پر ایک بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ ان حضرات نے منطقی دلائل کے ساتھ اس کے غلط اور مصنوعی ہونے کو ثابت کیا ہے، جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا چکا۔ اور ان ساری دلیلوں سے اہم خود ابوبکر کے سامنے صدیق و صدیقہ علی و فاطمہ علیہما السلام کی مخالفت اور انکار تھا۔ اس لیے کہ جس وقت رسول اللہ(ص) کا باب علم اور آں حضرت(ص) کے ارشاد کے مطابق اہل تقوی کا امام کسی حدیث کو جھٹلا دے تو قطعا یہ اس کے مصنوعی او جھوٹ ہونے پر کامل حجت ہوگی۔

اگر تمام انبیاء بالعموم اور خاتم الانبیء بالخصوص اپنا کوئی وارث نہیںرکھتے تھے تو وصی اور وارث کیونکر بنایا؟ جیساکہ عرض کر چکا ہوں کہ آں حضرت نے فرمایا " لکل نبی وصیووارث و ان علیا وصیی ووارثی" ( یعنی ہر پیغمبر کے لیے ایک وصی و وارث ہے اور یقینا علی میرے وصی اور وارث ہیں۔)اور ظاہر ہے کہ بغیر مال و جائداد کی میراث کے وصی اور وارث کے کوئی معنی نہیں۔ اگر آپ کہئے کہ مالی نہیں بلکہ علمی وراثت مراد ہے( حالانکہ عقلی و نقلی اور علمی دلائل و براہین سے ثابت ہے کہ مالی وراثت مراد تھی) تو میرا مطلب اور زیادہ ثابت ہوجاتا ہے کہ سب سے پہلے تو پیغمبر(ص) کے وارث منصب خلافت کے لیے اولی اور حقدار ہوگا تب کہیں ان لوگوں کا نام لیا جاسکتا ہے جو آں حضرت(ص) کے علم سے کورے تھے۔

۹۲

دوسرے یہ کہ یہ ثابت ہوجانے کے بعد کہ رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو اپنا وصی اور وارث قرار دیا ہے بلکہ ان احادیث کے حکم سے جو آپ کے علماء نے نقل کئے ہیں( جن میں سے بعض کی طرف اشارہ بھی ہوچکا ہے) خدا ہی نے آپ کو اس درجے پر معین فرمایا ہے یہ کیونکر ممکن ہے ہے اس حدیث کو اپنے وصی اور وارث ( یا بقول آپ کے وارث علمی) سے تو نہ فرمایا ہوتا کہ بعد کو اختلاف نہ پیدا ہو لیکن اس شخص سے فرما دیا جو نہ وصی تھا نہوارث؟

شخت تعجبہے کہ جب دینی احکام میں علی علیہ السلام کوئی فیصلہ فرماتے تھے تو ابوبکر و عمر چونکہ خود ناواقف تھے لہذا آپ کے قول کو حجت سمجھ کے فورا تصدیق کرتے تھے کہ آپ کا فرمانا صیحی ہے اور اسی کے مطابق عمل کرتے تھے چنانچہ آپ کے علماء و مورخین نے ابوبکر عمر او عثمان کے زمانہ خلافت میں حضرت کے فیصلے نقل کئے ہیں۔ لیکن خاص طور سے اس موقع پر حضرت(ع) کے قول کو قبول نہیں کیا بلکہ ایسی رکیک مثالوں کےساتھ اہانت بھی کی کہ ہر عقلمند انسان ان کو نقل کرتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے۔

حافظ : سخت تعجب ہے کہ آپ فرماتے ہیں خلفاء رضی اللہ عنہم دینی احکام نہیں جانتے تھے اور علی کرم اللہ وجہہ ان کو یاد دلاتے تھے۔

خیر طلب : اس میںتعجب کی کوئی بات نہیں ہے اس لیے کہ سارے احکام و قواعد کا جاننا بہت مشکل کام ہے اور سوا اس کے جو پیغمبر(ص) یا باب علم ہو کسی معمولیانسان کے لیے اتنا مکمل علم ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ تنہا میں ہی اس عقیدے کا قائل نہیں ہوں بلکہ آپ کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں اس کو نقل کیا ہے۔ مطلب واضح کرنے کے لیے ایسے اتفاقات میں سے ایک نمونہ پیس کئے دیتا ہوں تاکہ نا واقف لوگوں کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم توہیں کے مقصد سے ایسا کہتے ہیں۔

چھ مہینے کا بچہ جننے والی عورت کے حق میں علی(ع) کا حکم

امام احمد بن حنبل مسند میں، امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی ذخائر العقبی می، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور شیخ سلیمان حنفی ینابیع المودۃ باب۵۶ میں احمد بن عبداللہ ، اور احمد بن حنبل، قلعی اور ابن سمان سے روایت کرتے ہیں:

"أنعمرأرادرجمامرأةالتی ولدت لستةأشهرفقاللهعليعليه السلام فیكتاباللهوَحَمْلُهُوَفِصالُهُثَلاثُونَشَهْراً ثمقالو فصاله فی عامين فالحمل ستةأشهرفترکها وقاللولاعلي‏ لهلك‏ عمر"

یعنی عمر نے ایک ایسی عورت کو سنگسار کرنا چاہا جس کے یہاں چھ مہینے کا بچہ پیدا ہوا تھا، تو علی علیہ السلام نے فرمایا خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ حمل و رضاعت سے دودھ بڑھائی تک تیس (۳۰) مہینوں کی مدت ہے اور چونکہ دودھ چھڑا نے تک رضاعت کا زمانہ دو سال ہے لہذا حمل کا زمانہ چھ ماہ رہ جاتا ہے ( خلاصہ یہ کہ چھ ماہ میں ولادت

۹۳

ممکن ہے کیونکہ حمل کی کم سےکم مدت چھ ہی مہینے ہے) پس عمر نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور کہا کہ علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا نیز اسی باب میں مناقب احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں۔

"ان عمر بن الخطاب اذا اشکل عليه شئی اخذ من علی رضی الله عنه."

یعنی جس وقت عمر کو کوئی مشکل مرحلہ پیش آتا تھا( اور بات سمجھ میں نہیں آتی تھی) تو علی علیہ السلام سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔

اس قسم کے قضیے ابوبکر، عمر اور عثمان کے دور خلافت میں کثرت سے پیش آئے کہ جب یہ لوگ مشکل میں پھنس جاتے تھے تو علی علیہ السلام اصلی حکم بتاتے تھے اور یہ بھی اس کو تسلیم کر کے عمل کرتے تھے۔

ابآپ حضرات غور کیجئے کہ آخر اس مقام پر علی علیہ السلام کی بات کیوں نہیں مانی بلکہ جسارت و اہانت شور و غل اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے جناب فاطمہ مظلومہ صلوات اللہ علیہا کا بنیادی حق بھی چھینلیا؟ بات در اصل یہ ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں دکھانے کے اور

تیسری دلیل اس حدیث کے بطلان پر خود خلیفہ ابوبکر کا قول و فعل ہے کیونکہ اگر حدیث صحیح ہے تو جو کچھ رسول اللہ(ص) نے چھوڑا تھا، سب ضبط کر لینا چاہئیے تھا۔ وارثوں کو آں حضرت کی کسی چیز پر تصرف کا حق نہیں تھا لیکن ابوبکر نے حجرہ فاطمہ ان کو دے دیا، اور ازواج رسول عائشہ و حفصہ وغیرہ کے حجرے بھی میراث کے طور پر ان سب کے عطا کئے۔ یک بامو دو ہوا کی مثل اسی موقع کے لیے ہے ۔يومن ببعض و يکفر ببعض ۔

علاوہ ان چیزوں کے اگر یہ حدیث صحیح تھی اور اس پر ان کا ایمانتھا کہ یہ آل رسول(ص) ہے تو فدک کو ضبط کرنے کےبعد جو ( ان کے خیال میں) صدقہ مسلمین تھا، ابوبکر نے یہتحریر کیوں دی کہ میں نے فدک فاطمہ(ع) کو واپس دیا جس کے بعد عمر مانع ہوئے اور وہ سند لے کر چاک کر ڈالی؟

حافظ ؟ آپ کا یہ بیان انوکھا ہے میں نے تو نہیں سنا کہ خلیفہ نے فدک واپس کیا ہو۔ آخر اس مضمون کی سند کہاں سے ہے؟

ابوبکر کا فاطمہ(ع) کو فدک واپس کرنا اور عمر کا مانع ہونا

خیر طلب : غالبا آپ میرے اس اصول سے واقف ہوں گے کہ بغیر سند کے میں کوئی بات عرض نہیں کرتا۔ نیز میرا اندازہ ہے کہ آپ کے پاس مطالعہ کتب کا وقت بہت کم ہے۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور علی بن برہان الدین شافعی ، تاریخ سیرۃ اطلبیہ جلد سوم ص۳۹۱ میں لکھتے ہیں کہ ابوبکر فاطمہ(ع) کی گفتگو سے متاثر ہو کر رونے لگے ( در اصل یہ واقعہ چند روز کے بعد ابوبکر کے مکان پر پیش آیا۔)

"فاستعيرو بکی و کتب لها برد فدک"

۹۴

یعنی حال فاطمہ(ع) پر گریہ کیا اور لکھ دیا کہ میںنے فدک فاطمہ(ع) کو واپس کیا، لیکن عمر نے وہ پروانہ لے کر پھاڑ ٰڈالا۔

تعجب یہ ہے کہ انہیں عمر نے جنہوں نے اس روز تحریر چاک کر ڈالی تھی اور فدک واپس کر نے پر اعتراض کیا تھا خود انے زمانہ خلافت میں اس کو واپس دیا اور اسی طرح بعد کے ( اموی اور عباسی) خلفا نے بھی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے وارثوں کو فدک لوٹایا۔

حافظ : آپ کی اس تقریر تو بہت ہی تعجب ہے یہ کیونکر ممکن ہے کہ خلیفہ عمر جو بقول آپ کے فاطمہ(ع) کو فدک واپس دینے میں سختی سے مانع ہوئے تھے کیونکہ یہ صدقہ مسلمین تھا، یہاں تک کہ تحریر کو بھی پھاڑ کے پھینک دیا تھا خود ہی فاطمہ(ع) کے وارثوں کو اسے واپس کردیں؟

خیر طلب : تعجب ہونا بھی چاہئیے۔ ممکن ہے آپ نے نہ دیکھا ہو لہذا اب میں آپ کی اجازت سے ذکر اسناد کے ساتھ آپ کے اکابر علماء سے ان خلفاء کے حوالے نقل کرتا ہوں جنہوں نے واپس دیا اور واپس لیا، تاکہ تعجب نہ کریں اور سمجھ لیں کہ حق ہمارے ساتھ ہے۔

خلفاءکا اولاد فاطمہ(ع) کو فدک لوٹانا

مدینہ منورہ کے مشہور محدث و مورخ علامہ سمہودی متوفی سنہ۹۱۱ھ تاریخ المدینہ میں اور یاقوت بن عبداللہ رومی حسمومی معجم البلدان میں نقل کرتے ہیں کہ ابوبکر نے اپنے زمانہ خلافت میں فدک پر تصرف کیا اور عمر نے اپنے دور خلافت میں علی علیہ السلام اور عباس کے حق میں واگزار کردیا۔ اگر ابوبکر نے رسول اللہ(ص) کے حکم سے مسلمانوں کا حق سمجھ کے فدک پر قبضہ کیا تھا تو عمر نے کس دلیل سے سارے مسلمانوں کی جائداد کسی ایک فرد کے سپرد کردی؟

شیخ : شاید اس نیت سے ایک مسلمان فرد کے حق میں واگزار کیا ہو کہ مسلمانوں ہی کے تصرف میں رہے۔

خیر طلب : آپ کی توضیح پر تو مدعی سست گواہ چست کی مثل صادق آتی ہے کیونکہ خود خلیفہ کا یہ مقصد نہیں تھا۔ اگر مسلمانوں کے خرچ کے لیے واپس کیا ہوتا توتاریخ میں اس کا تذکرہ ہونا چاہئیے تھا، حالانکہ آپ کے بڑے بڑے مورخین لکھتے ہیں کہ عمر نے علی علیہ السلام اور عباس کے حق میں واگزار کیا۔ اور علی علیہ السلام نے بھی میراث کے طور پر فدک کو قبول کیا تھا نہ کہ ایک مسلمان فرد کی حیثیت سے، ورنہ ایک مسلمان تمام مسلمانوں کے حق پر قابض و متصرف نہیں ہوسکتا ۔

شیخ : شاید عمر ابن عبدالعزیز مراد ہوں۔

عمر ابن عبدالعزیز کا فدک واپس کرنا

خیر طلب : ( مسکراتے ہوئے) علی علیہ السلام اور عباس عمر ابن عبدالعزیز اموی کے زمانے میں نہیں تھے۔ عمر ابن عبدالعزیز کا حکم اس کے علاوہ ہے،چنانچہ علامہ سمہودی تاریخ المدینہ میں اور ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۱۸ میں ابوبکر جوہری سے نقل کرتے ہیں کہ

۹۵

عوام عمر ابن عبدالعزیز کو خلافت حاصل ہوئی تو مدینے میں اپنے عامل کو لکھا کہ فدک اولاد فاطمہ کو واپس کر دو لہذا اس نے حسن ابن حسن مجتبی اوربعض کا قول ہے کہ حضرت کا قول ہے کہ حضرت علی بن الحسین علیہما السلام کو بلا کر ان کے پسرد کردیا۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم مطبوعہ مصر کے ص۸۱ سطر اول میں یہ عبارت لکھی ہے کہ کانت اول ظلامہ ردہا ( یعنی یہ وہ پہلی بجز وظلم چھنی ہوئی جائداد تھی جو عمر ابن عبدالعزیز نے اولاد فاطمہ(ع) کو دی، اور یہ ایک مدت تک ان حضرات کے تصرف میں رہی، یہاں تک کہ خلیفہ یزید ابن عبدالملک نے پھر اس کو غصب کر لیا اور اس پر بنی امیہ کا قبضہرہا۔ جب خلافت بنی عباس کا زمانہآیا تو پہلے عباسی خلیفہ عبداللہ سفاح نے اولاد امام حسن علیہ السلام کے سپرد کیا اور وہ حقوق وارثت کی صورت میں آمدنی کو بنی فاطمہ کے درمیان تقسیم کردیتے تھے۔

عبداللہ مہدی، اور مامون عباسی کا نسل فاطمہ(ع) کو فدک واپس دینا

جب اولاد امام حسن(ع) پر مںصور نے خروج کیا تو فدک ان سے چھین لیا، جب اس کا بیٹا مہدی خلیفہہوا تو ان کو لوٹا دیا، موسی بن ہادی خلیفہ ہوا تو اس نے پھر ضبط کر لیا، یہاں تک کہ مامون الرشید عباسی نے اپنی خلافت کے دور میں حکم دیا کہ اس کو اولاد علی اور بنی فاطمہ(ع) کے حق واگزار کر دیا جائے۔

یاقوت حمومی نے معجم البلدان طبع اول ذیل حرف" ف، و" میں مامون کے پروانے کی عبارت درج ہے کہ اس نے اپنے عامل قثم بن جعفر کو لکھا:

انه کان رسول الله صلی اللهعليه وسلم اعطی ابنته فاطمه رضی الله عنها فدک و تصدق عليها بها و ان ذالک کا امرا ظاهرا معروفا عند آلهعليه الصلوة والسلام"

یعنی بتحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک اپنی بیٹی فاطمہ(ع) کو عطا فرما دیا تھا اور یہ امر آں حضرت کی اولاد کے نزدیک ظاہر اور معروف تھا۔

مشہور شاعر دعبل خزاعی بھی موجود تھے انہوں نے اٹھ کر کچھ اشعار پڑھے جن کا مطلع یہ تھا

اصبح وجه الزمان قد ضحکا برد مامون هاشم فدکا

یعنی آج زمانہ شاد و خنداں ہے کہ مامون نے بنی ہاشم کو فدک لوٹا دیا۔

۹۶

فدک کے عطیہ ہونے کا ثبوت

یہ قطعی دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے پاس رسول(ص) کا عطیہ تھا جس کو روز اول ہی بغیر کسی شرعی جواز کے غصب کر لیا گیا، لہذا بعض خلفاء نے انصاف یا سیاست کی بنا پر اس کو ان مظلوم بی بی کی اولاد کی طرف پلٹا دیا۔

حافظ : اگرفدک فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بخش دیا گیا تھا تو انہوں نے وراثت کا دعوی کیوں کیا اور ہبہ کے بارے میں کوئی لفظ کیوں نہیں کیا؟

خیر طلب: پہلی مرتبہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ہبہ ہی کا دعوی کیا لیکن جب شارع مقدس اسلام کی ہدایت کے خلاف قابض و متصرف سے گواہ طلب کئے گئے اور انہوں نے گواہ پیش کردئے تو شرع انور کے برخلاف ان شہادتوں کو رد کردیا گیا، لہذا آپ نے مجبورا وراثت کا راستہ اختیار کیا تاکہ احقاق حق ہوجائے۔

حافظ : میراخیال ہے کہ آپ کو دھوکا ہو رہا ہے اس لیے کہ کسی مقام پر یہ نہیں دیکھا گیا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ہبہ کے سلسلے میں ایک حرف بھی کہا ہو۔

خیر طلب: مجھ کو دھوکا نہیں ہوا بلکہ یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ فقط شیعہ میں نہیں بلکہ خود آپ کےاکابر علماء کی کتابوں میں بھی درج ہے چنانچہ سیرۃ الحلبیہ مولفہ علی بن برہان الدین حلبی شافعی متوفی سنہ۱۰۴۴ھ کے ص۳۹ پر لکھا ہوا ہے کہ پہلے فاطمہ(ع) نے ابوبکر سے اس عنوان پر مناظرہ کیا کہ فدک پر ان کا مالکانہ قبضہ ہے اور رسول خدا(ص) نے ان کو عطا کردیا تھا، لیکن چونکہ شرعی گواہ نہیں مل سکے لہذا مجبورا وراثت کے قاعدے سے دعوی کیا پس وراثت کا دعوی ہبہ کےبعد تھا۔

نیز امام فخر الدین تفسیر کبیر ضمن ادعائے فاطمہ(ع) میں ، یاقوب حموی، معجم البلدان میں، ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۸۰ میں ابوبکر جوہری سے اور ابن حجر متعصب صواعق محرقہ میں آخر صہ۲۱ میں شہبہ ہفتم از شبہات رفضہ کے ضمن میں کلام کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا پہلا دعوی ہبہ کے متعلق تھا لیکن جب ان کی گواہیاں مسترد کردی گئیں تو رنجیدہ اور ناراض ہو کر فرمایا کہ اب میں آئیندہ تم سے بات نہیں کروں گی۔(۱)

اور ہوا بھی یہی کہ پھر نہ ان لوگوں سے ملاقات کی نہ ان سے ہمکلام ہوئیں، یہاں تک کہ آپ کی وفات کا زمانہ آیا تو وصیت کردی کہ ان میں سے کوئی بھی میرے جنازے پر نماز نہ پڑھے۔ آپ کے چچا عباس نے نماز پڑھی اور رات کے وقت دفن کی گئیں۔

(لیکن پر بنائے روایات شیعہ و بیانات ائمہ عترت طاہر حضرت علی علیہ السلام نے جناب معصومہ پر نماز پڑھی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ یہاں تک ابن تیمیہ اور ابن قیم وغیرہ اکابر علمائے اہل سنت نے بھی اقرار کیا ہے کہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے دعوی کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک مجھ کو بخش دیا ہے۔

۹۷

مخالفین کا قول کہ ابوبکر نے آیہ شہادت پر عمل کیا اور اس کا جواب

حافظ : اس میں کوئی شک نہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت دل تنگ اور رنجیدہ خاطر ہوئیں لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی زیادہ قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ بھی شرع کی ظاہری صورت پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے۔ چونکہ آیت شہادت کا عام حکم ہے کہ مدعی کو اپنے ثبوت میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں یا چار عورتیں جو دو مردوں کے برابر ہیں گواہی میں پیش کرنا چاہئیے اور یہاں گواہوں کی تعداد مکمل نہیں ہوسکی لہذا وہ بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے موافق کوئی قطعی فیصلہ نہیں دے سکے۔

خیر طلب: ممکن ہے اس مقام پر سلسلہ کلام طولانی ہوجائے اور حضرات حاضرین جلسہ کے لیے باعث زحمت ہو لہذا آگر آپ بھی مناسب سمجھیں تو بہتر ہوگا کہ بقیہ گفتگو کل شب کے لیے اٹھا رکھی جائے؟

نواب : قبلہ صاحب! ہمارے درمیان ایک اہم موضوع یہ بھی زیر بحث تھا اور ہم اس کی حقیقت معلوم کرنے کے از حد مشتاق ہیں، حسن اتفاق سے آج یہ مسئلہ معرض تحقیق میں آگیا ہے لہذا التجا ہے کہ اگر آپ خستگی اور تکان محسوس نہ کر رہے ہوں تو مطلب ادھورا نہ چھوڑئیے کیونکہ بات کٹ جانے سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔یہ گفتگو اگر صبح تک طول کھینچے تب بھی ہم سامعین کی جانب سے کوئی عذر نہیں بلکہ سب اتنہائی شوق و ذوق سے سننے کے لیے تیار ہیں، اور جب تک یہ قضیہ حل نہ ہوجائے یہاں سے واپس نہ جائیں گے۔ آپ پوری وضاحت کےساتھ تقریر فرمائیں۔ البتہ اگر آپ ہی تھک گئے ہوں تو ایسی صورت میں ہم تکلیف نہ دیں گے۔

خیر طلب: مجھ کو علمی اور دینی مباحث میں کبھی زحمت یا خستگی نہیں ہوتی، میں تو صرف آپ حضرات کا خیال کررہا ہوں کیونکہ سبھی کی رعایت ملحوظ رکھنا چاہئیے۔

( سارے اہل جلسہ نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کے بیانات باعثِ زحمت نہیں ہیں، خصوصا فدک کے موضوع پر جو بہت اہم اور قابل سماعت ہے اور ہم سب اس کے لیے بے چین ہیں۔)

خیر طلب: حافظ صاحب نے فرمایا ہے کہ خلیفہ شرعی قانون پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے۔ چونکہ گواہ پورے نہیں تھے اس لیے حکم صادر نہیں ہوا۔ اس مقام پر چند جملے عرض کرنا ضروری ہیں۔ آپ حضرات انصاف سے فیصلہ کریں۔

قابض و متصرف سے گواہ مانگنا خلافِ شرع تھا

اولا بقول آپ کے حضرات ابوبکر قانون شرع سے مجبور تھے تو یہ فرمائیے کہ شرع میں یہ حکم کہاں پر ہے کہ قبضہ وار سے گواہ طلب کئے جائیں؟ بالاتفاق ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا قابض و متصرف تھیں لہذا ابوبکر کا یہ عمل جس کو آپ کے

۹۸

تمام علماء نے لکھا ہے کہ ان مظومہ بی بی سے گواہ طلب کئے آخر دین و شریعت کے کس قانون کے مطابق تھا؟ کیا شریعت کا دستور یہ نہیں ہے کہ گواہ مدعی کو پیش کرنا چاہئیے متصرف کو نہیں؟ آیا یہ طریقہ انور کے خلاف تھا یا نہیں؟ ذرا انصاف سے فیصلہ کیجئے۔

ثانیا آیہ شہادت کی عمومیت سے کسی کا انکار نہیں ہے، اس کی عمومیت اپنی جگہ پر باقی ہے لیکن بمقتضائے قاعدہ مسلمہ ما من عام الا و قد خص ، یعنی ہر عام کا ایک خاص ہوتا ہے ۱۲ مترجم) قابل استثناء اور تخصیص کی حامل ضرور ہے۔

حافظ : آپ کس دلیل سے کہتے ہیں کہ آیہ شہادت تخصیص کی حامل ہے؟

خزیمہ ذوالشہادتین

خیر طلب : اس مقصد کی دلیل وہ روایت ہے جو آپ کی معتبر صحاح کے اندر بھی نقل ہوئی ہے کہ جس وقت خزیمہ ابن ثابت نے گھوڑے کی فروخت کے معاملے میں ایک عرب کے مقابل جس نے رسول اللہ(ص) کے خلاف دعوی کیا تھا آں حضرت(ص) کے موافق شہادت دی تو تنہا انہیں کی گواہی کافی سمجھی گئی اور پیغمبر(ص) نے ان کا لقب ذوالشہادتین مقرر فرمایا کیونکہ ان کی ایک شہادت دو عادل گواہوں کے برابر قرار دی گئی پس معلوم ہوا کہ آیہ شہادت کی تخصیص موجود ہے۔ جہاں پر امت کی ایک مومن اور صحابی ذوخزیمہ آیت کے مخصص بن جائیں وہاں علی(ع) و فاطمہ علیہما السلامجو نبض آیہ تطہیر درجہ عصمت پر فائز ہیں بدرجہ اولی مستثنی ہوں گے۔ معصوم و معصومہ اور صدیق و صدیقہ قطعا کذب و دروغ سے مبرا ہیں اور ان کی تردید یقینا خدا کی تردید ہے۔

فاطمہ(ع) کے گواہوں کی تردید

صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ(ع) نے دعوی کیا کہ فدک میرا نحلہ ہے اور میرے باپ نے مجھ کو بخش دیا تھا اور میں خود آں حضرت(ص) کی حیات ہی میں اس پر متصرف تھی۔ اس دستور شرع کے خلاف جناب معصومہ سےگواہ مانگے گئے۔ آپ نے امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، ام ایمن اور حسنین علیہا السلام کو شہادت میں پیش کیا لیکن ان کو رد کردیا گیا۔ آیا یہ عمل حقیقت اور قواعد شرع کے بر خلاف نہیں تھا اگر فاطمہ کے پاس سوا قبضے کے اور کوئی گواہ نہ ہوتا تب بھی قانون شریعت کے مطابق آپ کی حقانیت کے لیے کافی تھا۔ علاوہ اس کے کہ خدائے تعالی نے آیہ تطہیر میں ان معظمہ کی پاکیزگی کی شہادت دی ہے کہ آپ ہر رجس اور گندگی سے مبرا ہیں جس میں جھوٹ بولنا اور غلط ادعا کرنا بھی شامل ہے۔ بالخصوص ایسی صورت میں کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام جیسے کامل گواہ نے ان طاہرہ بی بی کی صداقت پر شہادت دی، جن کی گواہی کو جھٹلانا قطعا خدا کو جھٹلانا ہے، کیونکہ خدائے اعلی نے علی علیہ السلام کو آیات قرآنی میں صادق و صدیق فرمایا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس کی تصدیق خدا کرے اس کی بات کو رد کرنے کی جرائت کیونکہ ہوئی؟ حالانکہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ

۹۹

علی کے ساتھ رہو یعنی ان کی پیروی کرو، اور جیسے زید" عدل" اپنی اتنہائی سچائی کی وجہ سے مجسمہ صدق بن گئے تھے آپ کو بھی صادق فرمایا چنانچہ آیت نمبر۱۲۰ سورہ نمبر۹(توبہ) میں ارشاد ہے۔

"ياأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوااتَّقُوااللَّهَوَكُونُوامَعَ‏ الصَّادِقِينَ‏"

یعنی اے مومنین خدا سے ڈرو اور سچوں کے( جن سے محمدج(ص) و علی(ع) اور اہل رسولی مراد ہیں، ساتھ رہو۔

جیسا کہ اسی کتاب کے ص؟؟؟؟ میں اشارہ ہوچکا ہے۔

حافظ : یہ آیت آپ کے مقصد پر کیونکر دلالت کرتی ہے جس سے علی کرم اللہ وجہہ کی پیروی فرض ہوجائے؟

صادقین سے محمد(ص) و علی(ع) مراد ہیں

خیر طلب : آپ کے اکابر علماء اپنی کتابوں اور تفسیروں میں کہتے ہیں کہ یہ آیت محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام کی شان میں نازل ہوئی ہے کہ صادقین سے یہی دونوں بزرگوار اور بعض اخبار کی بنا پر علی علیہ السلام مراد ہیں، نیز دوسری بعض روایتوں میں ہے کہ عترت رسول(ص) مراد ہے۔

امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی درالمنثور میں ابن عباس سے، حافظ ابوسعید عبدالملک بن محمد خرگوشی کتاب شرف المصطفے میں اصمعی سے اور حافظ ابو نعیم اصفہانی حلیتہ الاولیاء میں روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا " ہو محمد و علی علیہا السلام " ( یعنی یہ صادق محمد و علی علیہما السلام ہیں ۱۲ مترجم)

شیخ سلمان حنفی ینابیع المودۃ باب ۲۹ ص۱۱۹ مطبوعہ اسلام بول میں موفق بن احمد خوارزمی۔ حافظ ابونعیم اصفہانی اور حموینی سے بروایت ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ

" الصادقون فی هذه الايةمحمد صلی الله عليه و سلم و اهلبيته"

یعنی اس آیت میں صادقین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور ان کے اہل بیت طاہرین ہیں۔

اور شیخ الاسلام ابراہیم بن محمد حموینی جو آپ کے اجلہ علماء میں سے ہیں فرائد السمطین میں، محمد بن یوسف گنجی کفایت الطالب باب ۶۲ میں، نیز محدث شام اپنی تاریخ میں سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ:

"مع الصادقين ای مع علی ابن ابی طالب " (یعنی صادقین کے ساتھ یعنی علی ابن ابی طالب کے ساتھ۱۲ مترجم)

(۲) آیت نمبر۳۴ سورہ نمبر۳۹ ( زمر) میں فرماتا ہے۔

"وَالَّذِيجاءَبِالصِّدْقِ‏وَصَدَّقَبِهِأُولئِكَهُمُالْمُتَّقُونَ."

یعنی جو شخص سچی بات لے کر آیا ( پیغمبر(ص)) اور جس نے اس کی تصدیق کی( علی ابن ابی طالب)

۱۰۰

یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔

جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں، حافظ ابن مردوویہ نے مناقب میں، حافظ ابونعیم نےحلیتہ الاولیاء میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب62 میں اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اہل تفسیر کی ایک جماعت سے ابن عباس اور مجاہد کی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ:

" الّذيجاءبالصدق‏رسولاللّهصلّىاللّهعليهوآلهوالّذيصدّقبه علی ابن ابی طالب"

یعنی جو شخص سچائی کے ساتھ آیا وہ محمد صلعم ہیں اور جس نے ان کی تصدیق کی وہ علی ابنابی طالب ہیں۔

(3) آیت نمبر18 سورہ نمبر75( حدید) میں ہے۔

"الَّذِينَآمَنُوابِاللَّهِوَرُسُلِهِأُولئِكَهُمُ‏ الصِّدِّيقُونَ‏ وَالشُّهَداءُعِنْدَرَبِّهِمْ،لَهُمْأَجْرُهُمْوَنُورُهُمْ"

یعنی جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے اور حقیقت میں ہی سب سے سچے اور خدا کے نزدیک شہید ہیں جن کے واسطے ان کے؟؟؟؟؟؟؟؟

احمد ابن حنبل نے مسند میں اور حافظ ابونعیم اصفہانی نے مانزل من القرآن فی علی میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیہ شریفہ علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے کہ آپ صدیقین میں سے ہیں۔

(4) اور آیت نمبر71 سورہ نمبر4( نساء) میں ارشاد ہوتا ہے

"وَمَنْ‏ يُطِعِ‏ اللَّهَ‏وَالرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَأَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ- وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِوَالصَّالِحِينَ- وَحَسُنَأُولئِكَ رَفِيقاً"

یعنی جو لوگ اللہ و رسول(ص) کی اطاعت کریں پس وہ انبیاء و صدیقین، شہداء اور صالحین میں سے جن پر خدا نے پوری عنایت و مرحمت فرمائی ہے ان کے ہمراہ محشور ہوں گے، اور یہ لوگ( جنت میں) اچھے رفیق ہوں گے۔

اس آیہ مبارکہ میں بھی صدیقین ہے مراد علی علیہ السلام ہیں جیسا کہ ہمارے اور آپ کے طریقوں سے بکثرت روایتیں وارد ہیں کہ علی علیہ السلام اس امت کے صدیق اور سچےبلکہ صدیقین میں سب سے افضل ہیں۔

علی(ع) افضل صدیقین ہیں

چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں امام ثعلبی نے کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، ابن شیرویہ نے فردوس میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص351 میں،

۱۰۱

ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں اور ابن حجر مکی نے ان چالیس حدیثوں میں سے جو انہوں نے صواعق محرقہ کے اندر فضائل علی علیہ السلام میں نقل کی ہیں تیسویں حدیث میں بخاری سے اور انہوں نے ابن عباس سے باستثنائے جملہ آخر روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"الصِّدِّيقُونَ‏ ثَلَاثَةٌحِزْقِيلُمُؤْمِنُآلِفِرْعَوْنَوَحَبِيبٌالنَّجَّارُمُؤْمِنُآلِيسوَعَلِيُّبْنُأَبِيطَالِبٍوَهُوَأَفْضَلُهُمْ."

یعنی بہت بڑے سچے تین شخص ہیں حزقیل مومن آل فرعون، حبیب نجار صاحب یس اور علی ابن ابی طالب جو ان سب میں سے افضل ہیں۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ شروع باب42 میں مسند امام احمد بن حنبل، ابونعیم اور مغازلی شافعی سے، اخطب خوارزمی نے مناقب میں، ابو لیلی اور ابو ایوب انصاری سے ، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ کی چالیس حدیثوں میں اکتیسویں حدیث میں، ابو نعیم و ابن عساکر سے اور انہوں نے ابو لیلی سے ، اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب24 میں ابو لیلی کی سند سے نقل کیا ہے اور آخر خبر میں کہتے ہیں کہ محدث شام نے اپنی تاریخ میں اور حافظ ابونعیم نے حلیتہ الاولیاء میں علی علیہ السلام کے حالات بیان کرتے ہوئے رسول خدا(ص) سے روایت کی ہے کہ فرمایا:

"الصِّدِّيقُونَ‏ ثَلَاثَةٌحَبِيبٌ النَّجَّارُمُؤْمِنُ آلِيس الَّذِي ‏قالَ ياقَوْمِ اتَّبِعُواالْمُرْسَلِينَ‏ وَحِزْقِيلُ مُؤْمِنُ آلِ فِرْعَوْنَ الَّذِي قَالَ ‏أَتَقْتُلُونَرَجُلًاأَنْيَقُولَرَبِّيَاللَّهُ ‏ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِيطَالِبٍ [ع‏] الثَّالِثُ وَهُوَأَفْضَلُهُمْ."

یعنی سچے تین شخص ہیں، حبیب نجار مومن آل یاسین جنہوں نے کہا" اے قوم پیغمبروں کی پیروی کرو" حزقیل مومن آل فرعون جنہوںنے کہا۔ آیا تم ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو خدا پرست ہے۔ اور علی ابن ابی طالب جو ان سب سے افضل ہیں۔

واقعی ہر عقلمند انسان حیران رہ جاتا ہے کہ آپ حضرات کے علم و انصاف پر عادت اور تعصب کیونکر غالب آگیا ہے باوجودیکہ خود آپ ہی آیات قرآنی کے مطابق متعدد روایتوں سے ثابت کرتے ہیں کہ علی علیہ السلام افضل الصدیقین تھے پھر بھی دوسروں کو صدیق کہتے ہیں در آںحالیکہ انکے صدیق ہونے پر ایک آیت بھی نقل نہیں کی گئی ہے۔

حضرات! خدا کے لیے اپنی عادت سے ہٹ کر ذرا انصاف سے کام لیجئے کہ خدائے تعالی نے جسبزرگوار کو قرآن مجید صدیق فرمایا ہو کہ وہ ہرگز جھوٹ نہیں بول سکتا، نیز قرآن میں حکم دیا ہو کہ اس کی پیروی کرو( جیسا کہ خود آپ کے علماء کا اقرار ہے)اس کی گواہی مسترد کردیں بلکہ اہانت بھی کریں؟ آیا عقل باور کرتی ہے کہ جس کو رسول خدا(ص) نے اس امت کا صدیق فرمایا ہو بلکہ صدیقین سے افضل بنایا ہو اور آیات قرآنی اس کی صداقت رپ شہادت دے رہی ہوں وہ ہوائے نفسانی کی بنا پر جھوٹ بولے گا یہاں تک کہ جھوٹی گواہی بھی دے گا؟

۱۰۲

علی(ع) حق اور قرآن کے ساتھ ہیں

آیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ علی(ع) حق کے ساتھ اور حق علی(ع) کے ساتھ گردش کرتا ہے؟ چنانچہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ جلد چہارم ص321 میں، حافظ ابن مردویہ نے مناقب میں، دیلمی نے فردوس میں، حافظ میثمی نے مجمع الزوائد جلد ہفتم ص236 میں، ابن قتیبہ نے الامامہ والسیاسہ جلد اول ص68 میں، حاکم ابو عبداللہ نیشاپوری نے مستدرک جلد سوم ص124 میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، طبرانی نے اوسط میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر جلد اول ص111 میں، ابن حجر مکی نے جامع الصغیر جلد دوم ص74، 75، 140 میں، اور صواعق محرقہ باب9 فصل دوم حدیث بیست ویکم درفضائل مولانا امیرالمومنین علیہ السلام میں بروایت ام سلمہ اوسط سے نقل کرتے ہوئے شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب20 میں جمع الفوائد و اوسط صغیر طبرانی ، فرائد حموینی، مناقب خوارزمی اور ربیع الاول الابرار زمخشری سے بروایت ام سلمہ و ابن عباس نیز ینابیع المودت مطبوعہ اسلامبول باب 65 ص185 میں جامع الصغیر جلال الدین سیوطی سے، ان کے علاوہ تاریخ الخلفاء ص116 میں، فیض القدیر جلد 4 ص358 میں ابن عباس سے مناقبالسبعین ص237حدیث نمبر44 صاحب فردوس سے، صواعق محرقہ باب 59 فصل دوم ص283 میں ام سلمہ سے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، بعض نے ام سلمہ سے بعض نے عائشہ سے اور بعض نے محمد بن ابوبکر سے اور انہوں نے رسول خدا(ص) سے روایت کیہے کہ فرمایا:

"عليّ‏ مع‏ القرآن‏ والقرآنمععليلايفترقانحتّىيرداعليالحوض"

یعنی علی(ع) قرآن کے ساتھ اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں۔

چند حضرات نے اس عبارت کےساتھ نقل کیا ہے کہ:

"الحقّ‏ لن‏ يزال‏مععلىّوعلىّمعالحقّلنيختلفاولنيفترقا"

یعنی حق ہمیشہ کے لیے علی(ع) کے ساتھ اور علی(ع) حق کے ساتھ ہیں، ان دونوں میں ہرگز کبھی کوئی اختلاف نہ ہوگا اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔

ابن حجر صواعق محرقہ باب9 اواخر فصل دوم ص77 میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے مرض الموت میں فرمایا:

"انی مخلف فيکم کتاب الله و عترتی اهل بيتی ثم اخذ بيد علی فرفعها فقال الحقمععليوعلي‏مع‏الحق‏لايفترقانحتىيرداعليّالحوض فاسئلهما ما خلفت فيهما."

یعنی میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑ رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت اور میرے اہل بیت، پھر علی(ع)

۱۰۳

کا ہاتھ پکڑ کے بلند کیا اور فرمایا یہ علی(ع) قرآن کے ساتھ اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کبارے میرے پاس پہنچ جائیں، میں ان دونوں سے اپنی قائم مقامی کے بارے میں سوال کروں گا۔

نیز بالعموم نقل کرتے ہیں کہ فرمایا:

"علىّ‏ مع‏ الحقّ‏ والحقّمععلىّيدورمعهحيثمادار"

یعنی علی(ع) حق کےساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے جدھر وہ گردش کرتے ہیں ادھر یہ بھی گردش کرتا ہے۔

سبط ابن جوزی تذکرۃ خواص الامہ ص20 ضمن حدیث غدیر میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"وأدرالحقمعهحيثماداروكيف‏ مادار"

یعنی حق کو علی(ع) کےساتھ گردش دے جہاں اور جس طرح یہ گردش کریں۔

اس کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

"فيهدليلعلىأنهماجرىخلافبينعليعليهالسلاموبينأحدمنالصحابةإلاوالحقمععلي"

یعنی اس حدیث میں دلیل ہے اس بات پرکہ اگر علی(ع) اور کسی صحابی کے درمیان کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو حق یقینا علی(ع) کےساتھ ہوگا۔

علی(ع) کی اطاعت خدا و رسول(ص) کی اطاعت ہے

جن کتابوں کا ذکر کیا گیا ان میں آپ کی دوسری معتبر کتابوں میں منقول ہے کہ خاتم الانبیاء اکثر مقامات اور مختلف عبارتوں کے ساتھ فرماتے رہے۔

"من اطاع عليا فقد اطاعنی ومن اطاعنی فقد اطاع الله و من انکر عليا فقد انکرنی و من انکرنی فقد انکر الله"

یعنی جو شخص علی(ع) کی اطاعت کرے اس نے یقینا میری اطاعت کی اور جو شخص میری اطاعت کرے اس نے در حقیقت خدا کی اطاعت کی، او جو شخص علی(ع) سے انکار کرے اس نے در اصل مجھ سے انکار کیا اور جو شخص مجھ سے انکار کرے قطعی طور پر اس نے خدا سے انکار کیا۔

ابوالفتح محمد بن عبدالکریم شہرستانی ملل و نحل میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم}ص) نے فرمایا:

"لقد کان علی علی الحق فی جميع احواله يدور الحق معه حيث دار"

۱۰۴

یعنی حق یہ ہے کہ علی(ع) ہر حال میں حق پر ہیں اور جس طرف یہ گردش کرتے ہیں حق بھی ان کے ساتھ گردش کرتا ہے۔

آیا باوجود اتنے اخبار صریحہ کے جو خود آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں علی علیہ السلام کی تردید، آپ سے انکار کے اوپر اعتراض کرنا خدا و رسول(ص) کی شان میں تردید و انکار اور اعتراض کرنا نہیں تھا؟ اور کیا یہ حق و حقیقت سے روگردانی نہیں تھی؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ابوالموید موفق بن احمد خوارزمی نے مناقب میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں اور ابن الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے صاف صاف فرمایا ہے:

"من اکرم عليا فقد اکرمنی و من اکرمنی فقد اکرم الله و من اهان عليا فقد اهاننی و من اهاننی فقد اهان الله؟

یعنی جس نے علی(ع) کی عزت کی اس نے میری عزت کی اور جس نے میری عزت کی اس نے خدا کی عزت کی، اور جس شخص نے علی(ع) کی توہین کی اس نے میری توہین کی اور جس نےمیری توہین کی اس نے خدا کی توہین کی۔

عدل و اںصاف سے فیصلہ کیجئے

صاحبان اںصاف! مذکورہ واقعات کو ان اخبار احادیث سے جو آپ کی معتبر کتابوں میں بھی منقول ہیں مطابق کر کے ذرا عادلانہ فیصلہ کیجئے اور بے خطا شیعوں سے اس قدر بدظنی اختیار نہ کیجئے!

اور دوسری بات آپ نے یہ فرمائی ہے کہ خلیفہ شریعت کے ظاہری دستور پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے اس لیے کہ آیت شہادت اپنی عمومیت پر باقی تھی اور شرعی معیار پر گواہ پیش نہ ہونے کی وجہ سے صرف دعوی کی بنیاد پر مسلمانوں کا مال فاطمہ سلام اللہ علیہا کو نہیں دے سکتے تھے ( بلکہ اتنے محتاط تھے کہ خلافِ شرع آپ نے متصرف اور قابض سے گواہ مانگے)

اولا میں پہلے ہی عرض کرچکا کہ یہ مسلمانوں کا مال نہیں بلکہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نحلہ اور زیر تصرف ملکیت تھی۔

دوسرے اگر خلیفہ واقعی قانون شرع کا نفاذ کرنے والے تھے تو ان کا فرض تھا کہ سرمواس کے خلاف نہ کریں۔

پس آخر دو رنگی سے کس لیے کام لیتے تھے کہ دوسرے اشخاص کو تو بغیر اکسی گواہ کے صرف زبانی دعوے پر مسلمانوں کا مال دے دیتے تھے لیکن خاص طور سے امانت رسول(ص) جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا کے بارے میں اس قدر شدید اور سخت گیری کے ساتھ حکم دینا ضروری سمجھتے تھے؟

چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص25 میں درج کیا ہے کہ میں نے علی ابن ابی الفارقی مدرس مدرسہ عربیبغداد سے سوال کیا کہ" اکانت فاطمہ صادقہ قال نعم" ( آیا فاطمہ صادقہ اور راست گو تھیں ( اپنے دعوی میں)انہوں نے کہا میں نے کہا کہ جب وہ صادقہ اور سچی تھیں تو خلیفہ نے ان کو فدک کیوں واگزار نہیں کیا؟ وہ مسکرائے( حالانکہ کوئی شوخ طبیعت آدمی نہیں تھے اور ایک

۱۰۵

لطیف و دلچسپ بات کہی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر اس روز فاطمہ(ع) کے دعوے پر فدک واگزار کردیتے تو وہ دوسرے روز آکر اپنے شوہر کے لیے خلافت کا دعوی کرتیں اور اس وقت خلیفہ مجبور ہوتے کہ یہ حق بھی واپس کریں کیونکہ اس سے قبل ان کی صداقت تسلیم کرچکے ہوتے۔ انتہی کلامہ

معلوم ہوا کہ آپ کے بڑے بڑے علماء کے نزدیک اصلیت واضح و آشکار تھی اور انہوں نے از روئے اںصاف و حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے کہ روز اول ہی سے حق جناب فاطمہ مظلومہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ تھا لیکن در اصل اپنا منصب بچانے کے لیے سیاست کا تقاضا یہی تھا کہ جان بوجھ کر جناب معصومہ کو ان کے یقینی حق سے محروم کردیں۔

حافظ : کس شخص کو خلیفہ نے بغیر گواہ کے مسلمانوں کا مال دے دیا؟

جابر(رض) کا واقعہ اور ان کو مال عطا کرنا باعث عبرت ہے

خیر طلب : جس وقت جابر نے دعوی کیا کہ پیغمبر(ص) نے نجرین کے مال سے مجھ کو عطا کرنے کا وعدہ کیا تھا تو بغیر کسی تردید اور گواہ طلب کرنے کے ان کو مسلمانوں کے مال میں سے یعنی بیت المال سے پندرہ سو دینار دے دیئے۔

حافظ : اول تو میں نے یہ روایت دیکھی ہی نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ آپ کی کتابوں میں ہو۔ دوسرے یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ گواہ نہیں مانگے تھے؟

خیر طلب: بہت تعجب ہے کہ آپ نے نہیں دیکھا کیونکہ آپ کے علماء ن اس بات کے ثبوت میں کہ عادل صحابی کو خبر واحد قابل قبول ہے جو دلائل قائم کئے ہیں ان میں سے جابر ابن عبداللہ انصاری کی یہ روایت بھی ہے۔

چنانچہ شیخ الاسلام حافظ ابوالفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی فتح الباری فی شرح صحیح البخاری"باب يکفل عن ميت دينا " میں کہتے ہیں:

"ان هذا الخير فيه دلالة علی قبول خير العدل من الصحابة و لو حر ذالک نفعا نفسه لان ابابکر لم يلتمس من جابر شاهد اعلی صحة دعواه"

یعنی یہ خبر عادل صحابی کی روایت قابل قبول ہونے پر دلالت کرتی ہے چاہے اسی کی ذات کو نفع پہنچاتی ہو، اس لیے کہ ابوبکر نے جابر سے ان کے دعوے کی صحت پر گواہ نہیں مانگے۔

اسی روایت کو بخاری نے اپنی صحیح میں مزید تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ باب من یکفل عن میت دینا اور کتاب الخمس فی باب ما قطع النبی من البحرین میں لکھا ہے کہ جس وقت بحرین کا مال مدینہ لایا گیا تو ابوبکر کے منادی نے اعلان کیا کہ جس شخص سے رسول اللہ(ص) نے وعدہ کیا ہو یا آں حضرت(ص) پر کسی کا مطالبہ ہو تو وہ آکر لے جائے۔ جابر آئے اور کہا کہ رسول اکرم(ص) نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب بحرین فتح ہو کر مسلمانوں کے تصرف میں آجائے گا تو وہاں کے مال سے تمہیں دوں گا۔ پس فورا بغیر کسی شاہد کے محض ادعا پر ان کو پندرہ سو دینار دے دیئے۔

۱۰۶

نیز جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء کی فصل خلافت ابوبکر اور اس کے واقعات میں جابر کے اسی قضیے کو نقل کیا ہے۔ صاحبان انصاف !خدا کے لیے بتائیے کیا یہ دو رنگی کا برتائو نہیں تھا؟

اگر کوئی خاص جذبہ کار فرما نہیں تھا تو ابوبکر کے لیے جس طرح یہ جائز ہوگیا تھا کہ آیہ شہادت کے خلاف عمل کر کے بغیر کسی گواہ کے محض ادعا پر جابر کو مسلمانوں کے مال میں سے عطا کردیں اسی طرح ( بقول ان کے ) اگر فرض کر لیا جائے کہ فدک مسلمانوں ہی کا مال تھا( حالانکہ یہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی مقبوضہ ملکیت تھی) تب بھی لازم تھاکہ رسالت کی رعایت کرتے ہوئے ودیعہ رسول خدا(ص) جناب فاطمہ صدیقہ(ع) کا دل نہ توڑیں اور ان کا دعوی تسلیم کر کے فدک واپس دے دیں۔

علاوہ اس کے بخاری اپنی صحیح میں اور آپ کے دوسرے علماء وفقہاء عادل صحابی کیخبر واحد کو قبول کرتے ہیں چاہے اس سے ذاتی فائدہ ہی مقصود رہا ہو لیکن علی علیہ السلام کے ادعا اور آپ کے بیان کو اس عذر کے ساتھ نا قابل قبول جانتے ہیں کہ حر النفع الی نفسہ ( یعنی وہ اپنا ذاتی نفع چاہتے تھے 12 مترجم) تو کیا علی علیہ السلام اصحاب کی ایک کامل فرد نہیں تھے؟ اگر آپ اںصاف کے ساتھ غور کیجئے تو تصدیق کیجئے گا کہ یہ حق اور حقیقت کا نفاذ نہیں بلکہ محض دھاندلی تھی۔

حافظ : میرا خیال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جابر سے گواہ اس لیے نہیں مانگے کہ یہ رسول اللہ(ص) کے مقرب اور تربیت یافتہ اصحاب میں سے تھے اور قطعا آں حضرت(ص) سے سن چکے تھے کہ:

"من کذب علی متعمدا فليتبئو مقعده من النار"

جو شخص عمدا مجھ پر جھوٹ باندھے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

لہذا اتنی شدید وعید کے بعد ظاہر ہے کہ ایک مقرب وتربیت یافتہ مومن صحابی ہرگز ایسا غلط اقدام نہیں کرے گا اور اس پست وحقیر دینائے فانی کے لیے رسول اللہ(ص) ی طرفجھوٹا قول منسوب کر کے اپنی عاقبت برباد نہیں کرےگا۔

خیر طلب : آیا جابر رسول اللہ(ص) سے زیادہ قریب تھے یا علی وفاطمہ علیہا السلام، جن کی آں حضرت(ص) نے خاص طورپر تربیت فرمائی تھی۔

حافظ : ظاہر ہے کہ علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما ہر شخص سے زیادہ رسول اللہ(ص) سے قریب تھے کیونکہ بچپن ہی سے آں حضرت (ص) کے زیر تربیت رہے۔

خیر طلب : پس آپ کو ماننا پڑے گا کہ علی و فاطمہ علیہما السلام سب سے بڑھ کے اس کے پابند تھے کہ اس وعید کے بعد قول رسول(ص) کی بنیاد پر کوئی جھوٹا دعوی نہ کریں، اور ان لوگوں پر فرض تھا کہ جناب فاطمہ صدیقہ(ع) کا دعوی تسلیم کریں اس لیے کہ قطعا اور یقینا ان دونوں بزرگواروں کی منزل جابر سے بالاتر تھی( جیسا کہ خود آپ ہی کو بھی اعتراف ہے) بلکہ سارےاصحاب سے بلند۔ کیونکہ آیہ تطہیر کے مصداق اور معصوم تھے۔ اور ان پانچ افراد یعنی محمد(ص)، علی(ع)، فاطمہ(ع)، حسن(ع) اور حسین علیہم الصلوۃ والسلام کے لیے جو آیت تطہیر میں داخل ہے، یہ آیت عصمت و پاکیزگی کی صراحت کر رہی ہے۔

۱۰۷

اس کے علاوہ آپ کے اکابر علماء نے بھی ان حضرات کی صداقت درست گوئی کی تصدیق کی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع) کے متعلق تومیں پہلے ہی عرض کرچکا کہ رسول اکرم(ص) نے آپ کو اس امت کا صدیق اور راست گو فرمایا ہے اور خدا نے بھی قرآن مجید میں آپ کو صادق بتایا ہے۔ لیکن صدیقہ کبری جناب فاطمہ زہر صلوات اللہ علیہا کے بارے میں بھی ایسی روایتیں کثرت سے ہیں۔ من جملہ ان کے حافظ ابونعیم اصفہانی حلیتہ الالیاء، جلد دوم ص42 میں عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

"ما رائيت احدا قط اصدق من فاطمة غير ابيها"

یعنی میں نے ہرگز کسی کو فاطمہ(ع) سے زیادہ سچا نہیں دیکھا سوا ان کے باپ کے۔

آیہتطہیر کی شانِ نزول میں اشکال

حافظ : ان پانچ بزرگوارون کی شان میں آیہ تطہیر نازل ہونے کے بارے میں آپ کا دعوی مسلم نہیں ہے۔ چونکہ ان جلسوں میں ہم لوگوں پر واضح ہوچکا ہے کہ آپ ہماری کتابوں سے پوری واقفیت رکھتے ہیں لہذا تصدیق فرمائیے کہ اس موضوع میں آپ کو دھوکا ہوا۔ اس لیے کہ قاضی بیضاوی اور زمخشری جیسے مفسرین کا عقیدہ ہے کہ یہ آیہ شریفہ ازواج رسول(ص) میں نازل ہوئی ہے اور اگر کوئی قول ان پانچوں حضرات کے حق میں نازل ہونے کے لیے ہو بھی تو وہقطعا ضعیف ہوگا سبب یہ ہے کہ آیت خود ہی اس مفہوم کے خلاف دلالت کررہی ہے کیونکہ آیہ تطہیر کا سیاق و سباق ازواج سے مربوط ہے اور درمیان حصے کو الگ کر کے دوسرون سے ملحق نہیں کیا جاسکتا۔

جواب اشکال اور اس کا ثبوت کہ آیت ازواج کے حق میں نہیں ہے

خیر طلب: جناب عالی کا یہ ادعا کئی پہلوئوں سے باطل ہے۔ اول یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ سیاق و سباق آیت ازواج سے مربوط ہے لہذا علی(ع) و فاطمہ علیہما السلام شمول آیہ شریفہ سے خارج ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ عرف عام اکثر ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ اثنائے کلام میں روئے سخن کسی دوسرے کی طرف کر کے خطاب کرتے ہیں اس کے بعد پھر پہلی گفتگو پر آجاتے ہیں عرب کے فصحاء و بلغاء اور ادیبوں کے اشعار میں تو اس کی کافی مثالیں ملتی ہی ہیں۔ خود قرآن کریم میں بھی ایسی نظیر یں بہت ہیں۔ خصوصا اسی سورہ احزاب میں غور فرمائیے کہ ازواج سے خطاب کرتےہوئے روئے سخن مومنین کی طرف موڑ دیا گیا اس کے بعد پھر ان کو مخاطب کیا گیا ہے ، لیکن وقت کے اندر اتنی گنجائش نہیں کہ مزید وضاحت کے لیے مفصل شواہد پیش کئے جائیں۔

دوسرے اگر یہ آیت ازواج رسول کے بارے میں ہوتی تو ان کے لیے ضمیر تانیت استعمال ہوتی۔ اور ارشاد ہوتا ہے " لیذہب

۱۰۸

عنکن الرجس و یطہرکن تطہیرا" لیکن چونکہ ضمیر مذکور ہے لہذا معلوم ہوا کہ ازواج کے لیے نہیں بلکہ عترت و اہل بیت پیغمبر(ص) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

نواب : جب بقول آپ کے فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی اس جماعت میں داخل ہیں تو ان کا لحاظ کیوں نہیں کیا گیا اور تانیث کے ساتھ ان کا ذکر کیوں نہیں ہوا؟

خیر طلب : ( علماء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آپ حضرات جانتے ہیں اس آیہ شریفہ میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کے باوجود صیغہ تذکیر باعتبار تغلب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس جماعت میں مذکور ومونث دونوں صنفوں کے افراد شامل ہوں وہاں مذکر کو مونث پر غالب قرار دیتے ہیں، اور اس آیت میں صیغہ تذکیر خود دلیل قاطعی ہے کہ یہ قول ضعیف نہیں ہے بلکہ مکمل قوت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ غلبہ تعداد کے لحاظ سے بھی ضمیر مذکر ہونا چاہئیےکیونکہ پنچ تن میں ایک عورت اور چار مرد ہیں۔

اگر یہ آیت ازواج رسول(ص) کے حق میں نازل ہوتی تو جمع مونث میں مذکر کا لفظ بالکل ہی غلط ہوتال۔ علاوہ اس کے خود آپ کی معتبر کتابوں میں روایات صحیحہ کا یہی فیصلہ ہے کہ یہ آیہ مبارکہ آں حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت کے بارے میں ازواج کے واسطے نہیں۔

چنانچہ ابن حجر مکی اپنے انتہائی تعصب کے باوجود صواعق محرقہ میں لکھتے ہیں کہ زیادہ تر مفسرین کا عقیدہ یہی ہے کہ یہ آیت علی(ع) وفاطمہ(ع) اور حسن و حسین ( علیہم السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہےلتذکر منمير عنکم ويطهرکم اس لحاظ سے کہعنکم اوريطهرکم میں جمع مذکر کی ضمیریں ہیں۔

ازواج رسول اہل بیت(ع) میں داخل نہیں

ان روشن دلیلوں سے قطع نظر ازواج رسول(ص) تو اہل بیت میں داخل بھی نہیں ہیں۔

چنانچہ صحیح مسلم اور جامع الاصول میں روایت ہے کہ حصین بن سمرہ نے زید ابن ارقم سے پوچھا کہ آیا رسول اللہ(ص) کی بیویاں اہل بیت میں سے ہیں؟ زید نے کہا کہ خدا کی قسم نہیں، اس لیے کہ عورت ایک مدت تک اپنے شوہر کے گھر رہتی ہے لیکن جب وہ طلاق دے دیتا ہے تو یہ اپنے باپ کے گھر جا کر اپنے میکے والوں سے ملحق ہوجاتی ہے اور شوہر سے بالکل الگ ہوجاتی ہے۔

اہلبیت (ع) تو در اصل آں حضرت(ص) کے وہگھر والے ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور چاہے جہاں چلے جائیں اہل بیت(ع) سے جدا نہیں ہوتے ۔

تیسرے عترت و اہل بیت طہارت کی روایتوں پر مذہب شیعہ امامیہ کا جو اجماع ہے اس سے ہٹ کے خود آپ کے طریقوں سے بکثرت روایتیں اس نظریے کے خلاف وارد ہیں۔

۱۰۹

اخبار عامہ اس بارے میں کہ آیت تطہیر پنجتن کی شان میں آئی ہے

چنانچہ امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد ششم ص783 میں، جلال الدین سیوطی در المنثور جلد پنجم ص199 اور خصائص الکبری جلد دوم ص264 میں نیشاپوری اپنی تفسیر جلد سوم میں، امام عبدالرزاق الرسعنی تفسیر رموز الکنوز میں، ابن حجر عسقلانی اصابہ جلد چہارم ص207 میں، ابن عساکر اپنی تاریخ جلد چہارم ص204 و ص206 میں، امام احمد بن حنبل مسند جلد اول ص32 میں، محب الدین البری ریاض النفرہ جلد دوم ص188 میں، مسلم بن حجاج اپنی صحیح جلد دوم ص1331 اور جلد ہفتم ص140 میں، پنہائی شرف المئوید مطبوعہ بیروت ص10 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب 10 میں چھ مسند اخبارکے ساتھ اور شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب33 میں صحیح مسلم اور شواہد حاکم سے بسند ام المومنین عائشہ اور دس (10) روایتیں ترمذی، حاکم علاء الدولہ سمہانی، بیہقی، طبرانی، محمد بن جریر، احمد بن حنبل، ابن ابی شیبہ، ابن منذر، ابن ؟؟؟؟ ، حافظ زرندی اور حافظ ابن مردویہ سے ام المومنین ام سلمہ، عمر بن ابی سلمہ ( ربیب رسول(ص))انس بن مالک، سعد بن ابی وقاص، واثلہ بن اسقع اور ابو سعید خدری کی سندوں کےساتھنقل کرتے ہیں کہ آیت تطہیر پنجتن پاک و آل عبا کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ ابن حجر مکی جیسے سخت و متعصب عالم نے بھی صواعق محرقہ ص85، ص86 سات طریقوں سے ان کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے اس اہم حقیقت کو نقل کیا ہے کہ یہ آیت محمد(ص)، علی(ع)، فاطمہ(ع)، حسن(ع) اور حسین(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے اور صرف یہی پانچ مقدس ہستیاں اس آیہ شریفہ کی طہارت سے مخصوص کی گئی ہیں۔

سید ابوبکر بن شہاب الدین علوی نے کتاب رشفتہ الصادی من بحر فضائل بنی النبی الہادی مطبوعہ اعلامیہ مصرسنہ1303ھ کے باب ص؟؟؟ ص14تا ص19 میں ترمذی ، ابن جریر، ابن منذر، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی ابن ابی حاتم، طبرانی، احمد بن حنبل، ابن کثیر، مسلم بن حجاج، ابن ابی شیبہ اور سہودی سے آپ کے اکابر علماء کی گہری تحقیقات کے ساتھروایت کی ہے کہ یہ آیہ شریفہ مقدس آل عبا اور پنجتن پاک کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ استدلال کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ تمام اولاد اہل بیت رسول(ص) جن پر صدقہ حرام ہے۔ قیام قیامت تک اس آیہ شریفہ کے مصداق رہیں گے۔

جمع بین الصحاح الستہ موطا امام مالک بن انس الاصبحی و صحاح بخاری ومسلم و سنن ابی دائود رسجستانی و ترمذی، اور جامع الاصول میں، یہاں تک کہ بالعموم آپ کے علماء و فقہاء اور مورخین و محدثین اقرار کرتے ہیں کہ یہ آیت انہیں پنج تن آل عبا(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور یہ آپ کے یہاں تقریبا تواتر کی حد میں ہے۔ اگر بعض اشخاص نے حق کشی اور بعض وعناد کے جذبے میں اس روایت کو ضعیف کہہ دیا ہے تو اس سے اتنی کثیر التعداد اور معتبر روایات پر جو آپ ہی کے اکابر علماء کی معتبر کتب میں درج ہیں کوئی اثر نہیں پڑسکتا ۔

نیست خفاشک عدرے آفتاب او عدوے خویش آمد ور حجاب

۱۱۰

حریرہ فاطمہ(ع) کے بارے میں ام سلمہ (رض) اور نزول آیہ تطہیر

مختصر یہ کہ بعض نے حریرہ والی روایت کےساتھ ذرا تفصیل سے اور بعض نے اختیار کےساتھ نقل کیا ہے۔ من جملہ ان کے انام ثطبی نے اپنی تفسیر میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، اور ابن اثیر نے جامع الاصول میں ترمذی و مسلم سے الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ زوجہ رسول ام المومنین ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ(ص) میرے یہاں صفے میں بیٹھے ہوئے تھے جو آں حضرت(ص) کی خوابگاہ تھی اور پائے مبارک کے نیچے خیبری عبا بچھی ہوئی تھی، میں حجرے میں نماز پڑھ رہی تھی کہ اتنے میں فاطمہ سلام اللہ علیہا آں حضرت(ص)کے لیے ایک ظرف میں حریر لائیں، پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ جائو اپنے شوہر اور اپنے فرزندوں کو بلا لائو! ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ علی اور حسنین علیہم السلام آئے اور حریرہ کھانے میں مشغول ہوئے، اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور آں حضرت(ص) کے سامنے یہ آیت پڑھی۔

"إِنَّمايُرِيدُاللَّهُلِيُذْهِبَعَنْكُمُالرِّجْسَأَهْلَالْبَيْتِوَيُطَهِّرَكُمْتَطْهِيراً"

یعنی سوئے اس کے نہیں ہے کہ خدا یہ ارادہ رکھتا ہے کہ اہل بیت رسول(ص) تم سے ہر گندگی کو دور رکھے اور تم کو اس طرح پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

( آیت نمبر33 سورہ نمبر33 ( احزاب)

ام سلمہ کہتی ہیں میں نے عبا کے اندر اپنا سر بڑھا کر عرض کیا:

"أَنَامَعَكُمْ‏ يَارَسُولَ‏اللَّهِقَالَ: إِنَّكِإِلَىخَيْرٍ،إِنَّكِإِلَىخَيْرٍ."

یا رسول اللہ(ص) میں بھی آپ حضرات کے ساتھ ہوں تو آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ تم نیکی پر ہو( مطلب یہ ہے کہ تم کو میرے اہل بیت(ع) کا درجہ حاصل نہیں ہے اور تم ان میں شامل نہیں ہو البتہ تمہارا انجام بخیر ہے)

پس یہ آیہ مبارکہ اس بات پر پوری دلالت کرتی ہے کہ یہ پانچوں بزرگوار کفر و شقاق، شرک و نفاق، شک و شبہہکذب و ریا اور ہر گناہ صغیرہ و کبیرہ سے معصوم اور پاک ہیں۔

چنانچہ امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں "لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ " یعنی تم سے تمام گناہوں کو زائل کردیا۔ "وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً " یعنی تم کو اپنی کرامت کی خلعتیں پہنائیں۔

واقعی ان بے انصاف علماء پر سخت تعجب ہوتا ہے جو اپنی معتبر کتابوں میں یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ علی(ع) و فاطمہ علیہا السلام آیہ تطہیر میں شامل اور ہر رجس و پلیدی سے معرا و مبرا تھے اور سب سے بڑا رجس جھوٹ بولنا ہے، اور پھر حضرت کے دعوی الامت کی تکذیب بھی کرتے ہیں، جناب فاطمہ(ع) کے حق میں آپ کی شہادت کو غلط قرار دیتے ہیں اور فدک کے بارے میں طاہرہ اور معصومہ بی بی کے بیان کو جھٹلاتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ مدعیان انصاف اس مقام پر کس قاعدے سے فیصلہ کرتے ہیں؟

اب میں اصل مقصد کی طرف آتا ہوں، ذرا اںصاف سے فیصلہ کیجئے کہ آیا یہ مناسب تھا کہ علی(ع) و فاطمہ(ع) کے بیانات کو تو مسترد

۱۱۱

کردیں جن کے لیے خدا گواہی دے رہا ہے کہ تمام ظاہری وباطنی رجس وگندگی سے پاک و منزہ یعنی جملہ صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں، اور اس جلیل القدر خاندان کا مقررہ حقسرے سے غائب ہی کردیں، لیکن جابر کا دعوی بے چون وچرا تسلیم کر لیں جو صرف ایک مرد مسلمان اور معمولی مومن تھے؟

حافظ : یہ ہرگز با ور نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفہ رسول(ص) اور مومن صحابی جن کو پیغمبر(ص) سے انتہائی قربت حاصل ہو جان بوجھ کر فدک کو غصب کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ انسان جو کام کرتا ہے قطعا اس کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہے، جس خلیفہ کے تصرف میں مسلمانوں کا سارا بیت المال تھا اس کو فدک کے ایک باغ یا گائوں کی کیا ضرورت تھی جو اس کو غصب کرتا ؟

خیر طلب : کھلی ہوئی بات ہے کہ کسی احتیاج کا سوال نہیں تھا بلکہ اس وقت کے سیاسی طبقے کی نظر میں خاندان رسول اور آں حضرت کی عترت طاہرہ کو تباہ کرنا ضروری تھا۔ مقصد یہ تھا کہ یہ حضرات چونکہ منصب خلافت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں لہذا ان کو اس قدر پریشانی اور فقر و تہی دستی میں مبتلا کر دیا جائے کہ خلافت کا خیال ہی دل میں نہ لائیں اس لیے کہ دنیا طلب لوگ اسی کی طرف جاتے ہیں جس سے ان کی دنیا سنورتی ہو۔

یہ لوگ سمجھتے تھے کہ جو خاندان جلیل علم و فضل اور ادب و تقوی کے زیور سے مکمل طور پر آراستہ ہے اگر اس کا ہاتھمال دنیا سے بھی پر ہوگا تو یقینا لوگ اس کی طرف رجوع کریں گے۔ لہذا بر بنائے سیاست تنہا فدک ہی غصب نہیں کیا بلکہ ان حضرات پر تمام وہ راستے مسدود کر دیے جن کے ذریعے کوئی مالی منفعت پہنچ سکتی تھی۔

عترتِ رسول(ص) پر خمس کی بندش

من جملہ ان کے ایک مستقل حق خمس کا تھا جس کی قرآن مجید میں بھی تاکید کی گئی تھی۔ چونکہ خدا نے صدقات کو رسول(ص) اور آل علیہم الصلوۃ و السلام پر حرام قرار دیا تھا لہذا باجماع جمہور امت ان کے لیے خمس کا دروازہ کھول دیا۔

چنانچہ آیت نمبر42 سورہ نمبر8 (ا نفال) میں صریحا فرمایا:

"وَاعْلَمُواأَنَّماغَنِمْتُمْ‏مِنْشَيْ‏ءٍفَأَنَّلِلَّهِخُمُسَهُوَلِلرَّسُولِوَلِذِيالْقُرْبى‏ وَالْيَتامى‏ وَالْمَساكِينِ‏"

یعنی جان لو کہ تم کو جو کچھ غنیمت اور فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ و رسول(ص) ، آنحضرت(ص) کے اقرباء یتیموں مسکینوں اور مجبور مسافروں کے لیے مخصوص ہے( تاکہ پیغمبر(ص) کی عترت قیامت تک خوش حالی اور آسائش میں رہے، اور اپنی رعایا کی محتاج نہ ہو۔

لیکن آں حضرت(ص) کی آنکھ بند ہوتے ہی اس رخ سے بھی عترت و اہل بیت(ع) رسول(ص) کو فشار کیا گیا۔ خلیفہ ابوبکر نے اپنے جتھے

۱۱۲

والوں کے اتفاق رائے سے یہ واجبی حق ان حضرات سے سلب کر لیا اور کہا کہ خمس جنگی ساز وسامان ، خریداری اسلحہ اور دیگر ضروریات حرب میں صرف ہونا چاہئیے غرضیکہ ان کو ہر صورت سے بے دست و پا کر دیا گیا ، کیونکہ صدقات تو ان پر حرام تھے ہی خمس کا کھلا ہوا حق بھی روک دیا گیا۔

چنانچہ امام شافعی محمد بن ادریس کتاب الام کے اس بات میں ص69 پر کہتے ہیں۔

"و اما آل محمد الذين جعل لهم الخمس عوضا من الصدقة فلا يعطون من الصدقات المفروضات شيئا قل او کثر لا يحل لهم ان ياخذوها ولا يجزی عمن يعطيهم ؟؟؟ اذا عرفهم "یہاں تک کہ کہتے ہیں"وليس منهم حقهم فی الخمس يحل لهم ماحرم عليهم من الصدقة "

یعنی آلمحمد(ص)کو جن کے لیے خدا نے صدقے کے عوض خمس متعین کیا ہے صدقات واجبہ میں سے کم یا زیادہ کچھ بھی نہیں دیا جاسکتا اور ان کے لیے اس کا لینا جائز نہیں ہے اور جو لوگ جان بوجھ کر ان کو دیں وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوں گے اور ان کے اوپر ان کا حق خمس بند کردینے سے صدقہ جو ان پر حرام ہوچکا ہے حلال نہیں ہوگا۔

عمر ابن خطاب کے دور خلافت میں بھی اس بہانے سے کہ خمس زیادہ ہوچکا ہے لہذا یہ سب ذوی القربی کو نہیں دیا جاسکتا بلکہ سامان جنگ کی تیاری میں صرف ہونا چاہئیے ان کو اپنے اس مسلم اور خدا داد حق سے محروم کیا گیا اور آج تک محروم کئے جاتے ہیں۔

حافظ : امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ خمس پانچ حصوں پر تقسیم ہونا چاہئیے سہم پیغمبر(ص) جو مسلمانوں کے مصارف اور ضروریات میں خرچ ہو، دوسرا حصہ ذوی القربی کے لیے ہو اوربقیہ تین حصے یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے صرف میں آئیں۔

خیر طلب : جمہور مفسرین کا اتفاق ہے کہ زمانہ رسول(ص) میں یہ آیت آں حضرت(ص) کی اولاد و اقارب کی اعانت کے لیے نازل ہوئی تھی اور خمس انہیں حضرات کے صرف میں دیا جاتا تھا پس فقہائے امامیہ کے نزدیک عترت اور ائمہ اطہار کی پیروی میں نیز صراحت آیہ شریفہ کے مطابق خمس چھ حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ سہم خدا، سہم رسول اور سہم ذوی القربی امام کو پہنچتا ہے اور غیبت امام میں نائب امام یعنی مجتہد فقیہ و عادل کو دیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے مناسب ضروریات میں جہاں مصلحت ہوتی ہے صرف کرتا ہے اور بقیہ تین حصے بنی ہاشم اور اولاد رسول(ص) میں سے یتیموں ، محتاجوں اور مسافروں کے لیے مخصوص ہو، لیکن وفات پیغمبر(ص) کے بعد اس حق کو سادات سے سلب کر لیا گیا، چنانچہ آپ کے اکابر علماءجیسے جلال الدین سیوطی درالمنثور جلد سوم میں طبری ، امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، جار اللہ زمخشری کشاف میں، قوشجی شرح تجرید میں، نسائی کتاب الفے میں اور دوسرے حضرات بالاتفاق اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ بدعت رسول خدا(ص) کے بعد چالاک سیاسی لوگوں نے اپنے مقاصد پر قابو پانے کے لیے قائم کی۔

حافظ : آیا آپ کے نزدیک مجتہد کو رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے؟ خلیفہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے قطعا مسلمانوں کی امداد کے لیے اجتہاد کر کے یہ فیصلہ کیا۔

۱۱۳

خیر طلب : ہاں مجتہد کو اپنی رائے قائم کرنے کا حق حاصل ہے لیکن نص کے مقابلے میں نہیں۔ کیا آپ خلیفہ ابوبکر و عمر کی رائے اور فیصلے کو آیت اور عمل رسول(ص) کے مقابلے لاتے ہیں؟ آیا انصافا یہ جائز ہے کہ خدا و رسول(ص) تو کوئی حکم نافذ کریں لیکن خلیفہ پیغمبر(ص) امت کی مصلحت کو ان سے بہتر سمجھتا ہو اور نص کے مقابلے میں اپنے اجتہاد سے کام لے ؟ خدا کے لیے حق و اںصاف سے کہئیے کہ ان کاموں کا کوئی خاص مقصد تھا یا نہیں؟ اگر کوئی عقل مند انسان غیر جانبدار انسان گہری توجہ کے ساتھ نتیجہ نکالے گا تو اس کو اس ترکیب عمل سے قطعی طور سخت سوء ظن پیدا ہوگا اور وہ سمجھ لے گا کہ یہ معاملات معمولی نہیں تھے بلکہ خاندان رسول(ص) کو بے بس بنانا تھا۔

خدا نے علی(ع) کو پیغمبر(ص) کا شاہد قرار دیا ہے

ان چیزوں کے علاوہ خدا نے علی علیہ السلام کو پیغمبر(ص) کا شاہد و گواہ قرار دیا ہےاور آیت نمبر20 سورہ نمبر11 ( ہود) میں صاف طور سے فرماتا ہے :

"أفمن‏ كان‏ على‏بيّنةمنربّهويتلوهشاهدمنه"

یعنی آیا وہ پیغمبر(ص) جو اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل (قرآن ) رکھتا ہے اور اس کے ہمراہ اس کا سچا گواہ ہے۔ (یعنی علیعلیہ السلام جو ہمہ تن صداقت رسالت کے گواہ ہیں۔)

حافظ: جہاں تک مجھ کو علم ہے صاحب بینہ سے مراد رسول خدا(ص) ہیں اور ان کا شاہد قرآن کریم ہے آپ نے کس دلیل و برہان سے شاہد کو علی کرم اللہ وجہہ سے تعبیر کیا ہے۔

خیر طلب : مجھ میں اتنی طاقت و جرات نہیں کہ آیات قرآنی میں تصرف یا تفسیر بالائے کرسکوں۔ ہم کو عترت و اہل بیت(ع) رسول(ص) سے جو عدیل قرآن ہیں یہی تعلیم پہنچی ہے ک شاہد سے مراد علی علیہ السلام ہیں، اور علماء و مفسرین نے اسی طرح نقل کیا ہے۔ چنانچہ تقریبا تیس حدیثیں آپ کے اکابر علماء میں سے امام ابو اسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں تین حدیثین جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں ابن مردویہ ، ابن ابی حاتم اور ابونعیم سے ، ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد السمطین میں تین سندوں کے ساتھ، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب22 میں ثعلبی ، حموینی ، خوارزمی ، ابونعیم، واقدی اور ابن مغازلی سے ابن عباس اور جابر ابن عبداللہ اںصاری وغیرہ کی سندوں کے ساتھ ، حافظ ابونعیم اصفہانی نے تین طریقوں سے ، طبری نے ابن مغازلی فقیہ شافعی نے، ابن ابی الحدید معتزلی نے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب62 میں نقل کی ہیں۔ اور آپ کے دوسرے بہت سے علماء یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور الفاظ و عبارت کے مختصر سے فرق کے ساتھ لکھتے ہیں کہ اس آیت میں شاہد سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

خطیب خوارزمی مناقب میں کہتے ہیں کہ لوگوں نے ابن عباس سے پوچھا شاہد سے کون مراد ہے؟ انہوں نے کہا : "هو علی يشهد للنبی وهو منه " وہ علی(ع) ہیں جنہوں نے پیغمبر(ص) کی گواہی دی اور وہ پیغمبر(ص) سے ہیں پس ان دلائل و اخبار معتبرہ کی بنا پر جن کی خود آپ کے اکابر علماءتصدیق کرتے ہیں امت پر حضرت کی شہادت قبول کرنا واجب تھا۔ کیونکہ خدا نے آپ کو پیغمبر(ص) پر گواہ قرار دیا ہے۔

۱۱۴

اس طرح سے رسول اکرم(ص) ن خزیمہ بن ثابت کی خصوصیت کا اقرار فرمایا تھا کہ ان کی شہادت دو مسلمانوں کے برابر قرار دی ، اور ذوالشہادتین کا لقب عطا فرمایا، اسی طرح خدائے تعالی نے بھی اس آیت میں مسلمانوں کے درمیان حضرت علی(ع) کی فضیلت کا اظہار فرمایا کہ آپ کو پیغمبر(ص) پر شاہد اورگواہ قرار دیا قطع نظر اس سے کہ بحکم آیہ تطہیر آپ معصوم اور ہر خطا سے مبرا تھے اور اپنی نفع اندوزی کے لیے ہرگز جھوٹی گواہی نہیں دے سکتے تھے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں نے کیونکہ نے اتنی جرات کی اور شرع کے کس اصول سے آپ کی شہادت رد کی بلکہ توہین بھی کی اور گواہی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ علی شہادت قابل قبول نہیں ہے " لانہ یجر النفع الی نفسہ" یعنی چونکہ علی(ع) اس قضیے میں خود کسب منفعت کررہے ہیں لہذا ان کی گواہی مردویہ ہے، علاوہ ان اہانتوں اور بہت سے اشارات و کنایات کے جو مجمع کے اندر آپ کے منہ پر اور پیٹھ پیچھے زبان پرلائے ، اور جن میں سے بعض کی طرف میں بھی اشارہ کرچکا ہوں۔ اب اس سے زیادہ میںاس مطلب کے خزئیات میں نہیں پڑنا چاہتا، البتہ اتنا عرض کروں کہ آیا آپ سننے کے لیے رضامند ہیں کہ مولائے متقیان امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسی بزرگ شخصیت کو جس نے دینا کو تین طلاقین دی ہوں ، جو تمام انسانوں سے زیادہ دولت دنیا کی طرف سے بے پروا ہو اور جس کی رفتار و کردار کو دوست و دشمن بھی مانتے ہوں، دنیا طلب بلکہ اس سے بھیزیادہ سخت الفاظ کہے جائیں جن کو ادا کرنے کی میری زبان میں طاقت نہیں اور جو خود آپ کی کتابوں میں درج ہیں؟

خلاصہ یہ کہ جملہ یجر النفع الی نفسہ استعمال کر کے لوگوں کو یہ فریب دیں کہ علی(ع) چونکہ اس معاملے صاحب نفع ہیں لہذا ممکن ہے کہ اپنے اہل وعیال کے فائدے کے لیے(معاذ اللہ) جھوٹی شہادت دے دیں، اس وجہ سے ان کی گواہی قابل قبول نہیں ہے خدائے تعالی تو آپ کو معتبر قرار دے لیکن چند ترکیبی لوگ اس کو رد کردیں؟

علی علیہ السلام کا دردِ دل

آیا علی(ع) کے بارے میں نزول آیات قرآنی ، منصب ولایت کی توثیق اور رسول اللہ(ص) کی وصیت و سفارش کا یہی نتیجہ تھا کہ آپ کو اس قدر آزاد و آذیت پہنچائیں کہ آپ خطبہ شقشقیہ میں اپنے درد دل کا اس طرح اظہار فرمائیں "صبرت وفی العین قذی و فی الحق شجی "( یعنی میں صبر کیا اس حال میں کہ ؟؟؟؟ میری آنکھ میں خس و خاشاک اور حلق میں ہڈی پھنسی ہوئی ہو۔) حضرت کے یہ جملے شدیدغم وغصہ اندوہ والم اور تلخی صبر کی ترجمانی کررہے ہیں۔

آپ یہ بے خودی میں نہیں فرماتے تھے کہ:

"وَاللَّهِلَابْنُأَبِيطَالِبٍآنَسُبِالْمَوْتِمِنَالطِّفْلِبِثَدْيِ‏ أُمِّهِ‏"

یعنی قسم خدا کی ایک شیر خوار بچے کو جس قدر اپنی اپنی ماں کے پستان سے انس ہوتا ہے اس سے زیادہ فرزند ابوطالب کو موت کا شوق ہے۔

آپ کا قلب اس قدر مجروح اور زندگانی دنیا سے سیر تھا کہ جس وقت اولین و آخرین کے شقی ترین آدمی عبدالرحمان ابن ملجم مرادی

۱۱۵

نے زہر میں بجھائی ہوئی تلوار فرق مبارک پر لگا تو محراب عبادت کے اندر آپ فرماتے تھے فزت و رب الکعبۃ یعنی رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا۔

حضرات تاریخ کی شہادت اور آپ کے بزرگ مورخین کے قول کے مطابق ہوا جو نہ ہونا چاہئیے تھا، کیا گیا جو نہ کرنا چاہئیے تھا اور کہا گیا جو نہ کہنا چاہئیے تھا۔ لیکن اب آج کے روز مناسب نہیں ہے کہ آپ جیسے دانشمند علماء خدا و رسول(ص) کے عزیز و محبوب کو مزید اذیت پہنچائیں اور بے خبر لوگوں میں غلط فہمی پھیلائیں در آنحالیکہ خوب واقف ہیں کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ایذا دنیا در حقیقت رسول خدا(ص) کو ایذا دینا ہے۔

علی(ع) کو اذیت دینے والوں کی مذمت میں احادیث

جیسا کہ آپ کے اکابر علماء مثلا امام احمد بن حبنل نے اپنی مسند میں کسی و طریقوں سے امام ثعلبی نے تفسیر میں اور شیخ الاسلام حموینی نے فرائد میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) فرمایا:

"من‏ آذى‏ عليافقدآذاني! ياأيهاالناسمن‏ آذى‏ عليابعثيومالقيامةيهوديّاًأونصرانياً."

یعنی جس نے علی(ع) کو ایذا دی اس نے یقینا مجھ کو ایذا دی۔ ایہا الناس! جو شخص علی کو اذیت دے وہ قیامت کے دن یہودی یا نصرانی اٹھے گا۔

ابن حجر مکی باب9 فصل دوم ص76 حدیث نمبر16 میں سعد ابن ابی وقاص سے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب68 میں سند کے ساتھ رسول اللہ(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا:

"من‏ آذى‏ عليافقدآذاني"

یعنی جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے در حقیقت محمد(ص) کو اذیت دی۔

مجھ کو اس وقت ایک اور حدیث یاد آگئی، اجازت ہو تو عرض کروں اس لیے کہ حدیث رسول(ص) کا بیان کرنا اور سننا عبادت ہے۔ اس حدیث کا بخاری نے اپنی صحیح میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے کتاب ما نزل من القرآن فی علی میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں اور حاکم ابوالقاسم حسکانی نے حاکم ابو عبداللہ حافظ سے انہوں نے احمد بن محمد بن ابی دائود حافظ سے انہوں نے علی بن احمد عجلی سے انہوں نے ؟؟؟؟ یعقوبسے انہوں نے ارطاۃ بن حبیب سے انہوں نے ابوخالد واسطی سے انہوں نے زید بن علی علیہ السلام سے ، انہوں نے اپنے باپ علی ابن الحسین علیہما السلام سے آپ نے اپنے باپ حسین بن علی علیہما السلام سے اور آپ نے اپنے پدر بزرگوار علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک راوینے اپنی داڑھی کا بال پکڑ کے کہا کہ رسول اللہ(ص) نے اس

۱۱۶

طرح سے اپنا موئے مبارک ہاتھ میں لے کر فرمایا:

"ياعلي‏ من‏ آذى‏شعرةمنكفقدآذانيومنآذانيفقدآذىاللهومنآذىاللهفعليه لعنة الله"

یعنی اے علی(ع) جو شخص تمہارے ایک بال کو بھی تکلیف پہنچائے اس نے در حقیقت مجھ کو تکلیف پہنچائی۔ اور جو شخص مجھ کو تکلیف پہنچائے اس نے حقیقتا خدا کو تکلیف پہنچائی اور جو خدا کو تکلیف پہنچائے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔

سید ابوبکر بن شہاب الدین علوی نے کتاب رشفتہ الصاری من بحر فضائل بنی النبی الہادی مطبوعہ مطبع اعلامیہ مصر سنہ1303 باب4 ص60 میں کبیر طبرانی، صحیح ابن حبان اور حاکم سے صحت حدیث کی تصدیق کے ساتھ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ :

"مَنْ‏ آذَانِي‏ فِي‏ عِتْرَتِي‏فَعَلَيْهِلَعْنَةُاللَّهِ."

یعنی جو شخص مجھ کو میری عترت کے بارے میں اذیت پہنچائے پس اس پر خدا کی لعنت ہو۔

امید ہے کہ میرے سچے معروضات بے اثر نہ ثابت ہوں گےے اور آپ حضرات اب اس سے زیادہ آں حضرت(ص) کی مقدس روح کو آزردہ کرنے پر رضا مند نہ ہوں گے ، کیوںکہ محکمہ عدل الہی میں جواب دہی بہت مشکل ہے۔

( جیسے ک اس ساری مدت میں میں خود بھی رو رو کر بیان کرتا رہا اور اکثر حاضرین کی آںکھوں میں بھی آنسو بھرے رہے بلکہ بعض کے رخساروں پر جاری ہوگئے تھے، یہاں تک کہ جناب حافظ صاحب بھی کبھی کبھی اشکبار ہوجاتے تھے۔)

حضرات! ذرا غائر نظر ڈالئے اور اپنے معرض عمل میں قرار دیجئے تو معلوم ہو کہ جماعت امت کے درمیان ( وہی امت جو دو مہینے قبل حضرت علی علیہ السلام کے پائیں پا بیٹھی ہوتی تھی اور آپ کو پیغمبر(ص) اپنے ہاتھوں پر بلند کئے ہوئے، سب نے آپ کی بیعت کی تھی اور خدا و رسول (ص) کے حکم سے آپ کے سامنےسر تسلیم خم کیا تھا) جس وقت امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت رد کی گئی اور قطعی حکم دے دیا گیا کہ صدیقہ مظلومہ جناب فاطمہ (ع) کی زیر تصرف جائداد اور آپ کے بچوں کی پرورش کا ذریعہ ضبط کر لیا جائے تو اتنی سخت اہانتوں سے پیغمبر(ص) کی ان دوںوں امانتوں پر کیا گزری ہوگی؟ یہاں تک کہ دشمن مسجد رسول سے خوش ہو کر اٹھے۔

یہ غیظ و غضب جناب معصومہ پر ایسا موثر اور مستول ہوا کہ عین عالم شباب میں انتہائی غصے اور درد و الم کے ساتھ دنیا سے اٹھ گئیں۔

حافظ : بدہی چیز ہے کہ بی بی فاطمہ(ع) شروع شروع میں ضرور دل تنگ اور غضب ناک ہوئیں لیکن آخر کار جب دیکھا کہ خلیفہ نے حکم صحیح دیا ہے تو ناراضگی جاتی رہی اور ان لوگوں سے خوش ہوگئیں۔ یہاں تک کہ انتہائی رضا و خوشنودی کے ساتھ دنیا سے گئیں۔

۱۱۷

فاطمہ (ع) مرتے دم تک ابوبکر و عمر سے خوش نہیں تھیں

خیر طلب: اگر یہی بات ہے تو آپ کے بڑے بڑے علماء اس کے برعکس کیوں لکھتے ہیں؟ مثلا دو موثق عالم بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحین میں لکھا ہے۔

"فوجدت(1) ای فغضبت‏ فاطمةعلى أبى بكرفهجرته فلم تكلمه حتّى توفيت فلماتوفيت دفنهازوجهاعليّ بن أبي طالب ليلاولم يؤذنبهاأبابكريصلى عليها"

یعنی فاطمہ(ع) نے غیظ و غضب کے عالم میں ابوبکر کو ترک کر دیا اور ناراضگی کی وجہ سے مرتے دم تک ان سے بات نہیں کی یہاں تک کہ جب وفات پائی تو ان کے شوہر علی(ع) نے رات کے وقت دفن کیا اور ابوبکر کو اس کی اجازت نہیں دی کی جنازے میں شریک ہوں اور ان پر نماز پڑھیں۔

چنانچہ بخاری نے اپنی صحیح جلد پنجم باب غزوۃ خیبر ص9 نیز جلد ہفتم باب قول النبی ، لا نورث ما ترکناہ صدقہ ، ص87 میں نقل کیا ہے کہ :

"فهجرته‏ فاطمةفلم تكلمه حتى ماتت."

یعنی فاطمہ(ع) نے ابوبکر کو چھوڑ دیا اور ان سے کلام نہیں کیا یہاں تک کہ وفات پائی۔(12 مترجم)

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب99 میں بھی اسی روایت کو نقل کیا ہے۔ ابومحمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری نے الامامۃ والسیاستہ ص14 میں روایت کی ہے کہفاطمہ سلام اللہ علیہا نے بستر بیماری پر ابوبکر و عمر سے فرمایا:

"انّي اشهداللَّه وملائكته انّكمااسخطانى‏وماارضيتمانى لئن لقيت النّبىّ لأشكون كما"

یعنی میں خدا اور فرشتون کو گواہ کر کے کہتی ہوں کہ تم دونوں ( ابوبکر و عمر) نے مجھ کو غضبناک کیا ہے اور مجھ کو راضی نہیں کیا۔ اگر پیغمبر(ص) سے ملاقات کروں گی تو ضرور بالضرور تم دونوں کی شکایت کروں گی۔

نیز اسی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔

"غضبت‏ فاطمةمن ابی بکر وهجرتهالیماتت"

یعنی فاطمہ(ع) ابوبکر پر خشمناک ہوئیں اور ان کو ترک کردیا یہاں تک کہ اسی حالت میں وفات پائی۔

ان روایتوں کے مقابل آپ کی معتبر کتابوں میں اور بھی بہت سے اخبار و احادیث درج ہیں خیر ذرا آپ حضرات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ وجد لغت میں جیسا کہ فیروز آبادی نے قاموس میں لکھا ہے خشم و غضب کے معنی میں ہے۔ 12

۱۱۸

غیر جانبداری اور عدل و اںصاف کی نظر ڈالیں اور مجھ س ان روایات کے درمیان جمع کرنے کا طریقہ بیان فرمائیں۔

فاطمہ(ع) کی اذیت خدا و رسول(ص) کی اذیت ہے

من جملہ ان کے وہ مشہور حدیث ہے جس کو بالعموم آپ کے علماء جیسے امام احمد بن حنبل مسند میں سلیمان قندوزی ینابیع المودۃ میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی اور بن حجر نے صواعق میں ترمذی اور حاکم وغیرہ سے نقل کرتے ہوئے الفاظ و عبارات کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ درجکیا ہے کہ رسول اللہ(ص) مکرر فرماتے تھے۔

" فاطمة بضعة منی وهی نور عينی و ثمرة فئوادی و روحی التی بين جنبی من آذاها فقد آذانیو من آذانی فقد اذی الله و من اغضبها فقد اغضبنی يوذينی ما اذاها"

یعنی فاطمہ(ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے، یہ میری آنکھوں کا نور، میرا میوہ دل اور میرے دونوں پہلوئون کے درمیان میری روح ہے، جس نے فاطمہ(ع) کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی جس نے فاطمہ(ع) کو غضب ناک کیا اس نے مجھ کو غضب ناک کیا، جس چیز سے فاطمہ(ع) کو تکلیف پہنچتیہے اس سے مجھ کو تکلیف پہنچتی ہے۔

ابن حجر عسقلانی نے اصابہ میں فاطمہ سلام اللہ علیہا ک حالات بیان کرتے ہوئے صحیحین بخاری و مسلم سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

"فاطمة بضعة منیيوذينیمن اذاهاو يريبنی ما ازا بها"

یعنی فاطمہ(ع) میرا پارہ تن ہے جو چیز اس کو اذیت پہنچائے وہ مجھ کو بھی اذیت پہنچاتی ہے اور جو چیز اس کی بزرگی قائم رکھے وہ میری بزرگی بھی قائم رکھتی ہے۔

محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص6 میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاءجلد دوم ص40 میں اور امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص)نے فرمایا:

"انما فاطمة ابنتی بضعة منی يريبنی ما ارا بها و يوذينی ما آذاها "

یعنیسوائے اس کے نہیں ہے کہ فاطمہ(ع)میری بیٹی میرے بدن کا ٹکڑا ہے، جو اس لیے باعث عزت ہے وہ میرے لیے بھی باعث عزت ہے اور جو اس کے لیے ایذا رساں رہے وہ میرے لیے بھی ایذا رساں ہے۔

ابوالقاسم حسین بن محمد ( راغب اصفہانی) محاضرات الادباء جلد دوم ص204 میں نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

۱۱۹

"فاطمة بضعة منیفمن اغضبها فقد اغضبنی"

یعنی فاطمہ(ع) میرے جسم کا حصہ ہے پس جس نے اس کو غصہ دلایا اس نے مجھ کو غصہ دلایا۔

حافظ ابوموسی بن المثنی بصری متوفی س252ہجری نے اپنی معجم میں، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد 4 ص375 میں، ابویعلی موصلی نے سنن میں، طبرانی نے معجم میں حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد سیم ص154 میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے فضائل الصحابہ میں، حافظ ابن عساکر نے تاریخ شام میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص175 میں، محب الدین طبری نے ذخائر ص39 میں، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ ص105 میں اور ابوالعرفان الصبان نے اسعاف الراغبین ص171 میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے اپنی دختر سلام اللہ علیہا سے فرمایا:

" يا فاطمه ان اللهيغضب لغضبک و يرضی لرضاک"

یعنی اے فاطمہ(ع) یقینا تم ناراض ہو تو اللہ بھی ناراض ہوتا ہے اور تم راضی ہوتو خدا بھی راضی ہوتا ہے۔

اور محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح باب مناقب قرابہ رسول اللہ(ع) ص71 میں مسور بنمخزومہ سے نیز ص75 میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

"فاطمة بضعة منیفمن اغضبها فقد اغضبنی"

یعنی فاطمہ(ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے پس جو شخص فاطمہ(ع) کو غصہ میں لایا در حقیقت وہ مجھ کو غصہ میں لایا۔

اسی قسم کی حدیثیں صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابو دائود، ترمذی، مسند امام احمد بن حنبل، صواعق محرقہ ابن حجر اور ینابیع المودت شیخ سلیمان بلخی حنفی وغیرہ جیسی آپ کی معتبر کتابوں میں بکثرت سے مروی ہیں، پس ان اخبار کو ان روایات کےساتھ کیونکر جمع کیجئے گا کہ جناب فاطمہ(ع) ان لوگوں سے غضبناک اور ناراج دنیا سے نہ اٹھیں؟

شیخ : یہ روایتیں صحیح ہیں لیکن علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ جب انہوں نے ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ عقد کا پیغام دینا چاہا تو رسول خدا(ص) ان پر غضبناک ہوئے فرمایا کہ جو شخص فاطمہ(ع) کو آزار دے اس نے مجھ کو آزار دیا اور جو شخص مجھ کو آزار دے وہ مغضوب خدا ہے اور اس سے مراد علی(ع) تھے۔

دختر ابوجہل کے لیے پیغام دینے کا جواب

خیر طلب : انسان اور دوسرے حیوانات میں بہت فرق ہے۔ انسان کو جو امتیازی خصوصیات حاصل ہیں ان میں سب سے اہم عقل و غور و فکر کی قوت ہے جو اس کے دماغ میں ودیعت کی گئی ہے یعنی حیوان پر اسی آدمی کو برتری حاصل ہے جو زندگی کی تمام منزلوں میں عقل کیہدایت پر عمل کر لے۔ اس طریقے سے کہ جو کچھ سنے اس فورا آنکھ بند کر کے قبول نہ کر لے بلکہ اس کے ہر پہلو پر گہری نظر ڈالے ، اگر عقل اس کیو قبول کرے تو مان لے ورنہ رد کردے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394