جناب فاطمۃ الزہرا کی شادی
جب سے آسمان رسالت سے خورشید رخ "زہرا" نمودار ہوا اور پھر جلالت و عظمت کے افق پر کامل ہوا، تو تمام لوگوں کی فکریں اور نگاہیں آپ کی طرف تھیں۔
اصحاب پیغمبر چونکہ آپ کی اہمیت سے واقف تھے اور جانتے تھے اس لئے دروازہ رسالت پر شادی کے پیغام بھیجے، لیکن پیغمبر ہر بار ٹال جاتے تھے۔کفو کی تشخیص کوئی معمولی کام نہیں بلکہ انسان اس کو سمجھنے سے عاجز ہے فقط وہ ذات جو لوگوں کے ضمیروں سے آگاہ ہے جانتا ہے کہ کون کس کا کفو ہے اور موجودات عالم میں کون کس کے برابر ہے۔ اس حوالے سے حضرت فاطمہ کا انتخاب امیر المومنین کے لئے ایک الٰہی انتخاب ہے، زہرا کیلئے شوہر اور کفو خود ذات احدیث نے چنا، اس آسمانی نکاح کاخطبہ خود پروردگار نے پڑھا، اور اس ازدواج مقدس کے گواہ ذات پیغمبر گرامی اور حضرت جبرئیل اور خود فرشتے ہیں۔
آپ کے مقام و مرتبہ سے جہالت اور ناواقفی کی وجہ سے عمر اور ابوبکر جیسے لوگ رشتے کے پیغام بھیجتے تھے۔ لیکن پیغمبر اسلام(ص) سب کے جواب میں یوں فرماتے کہ فاطمہ کنیز خدا ہے۔ لہذا میں اس میں کسی قسم کا اختیار نہیں رکھتا، تنہا خداوند قدوس جانتا ہے کہ زہرا کیلئے کفو اور ہمسر کون ہے۔ چھٹے امام فرماتے ہیں۔ لو لا ان امیر المومنین تروجھا لھا کاان لہا کفو الی یوم القیامۃ علی وجہ الار ض ادم فمن دونہ
ترجمہ: اگر حضرت علی علیہ السلام حضرت زہرا سے عقد نہ کرتے تو حضرت آدم سے لے کر قیامت تک آنحضرت(ص)(ص) کے لئے کفو پیدا نہ ہوتا۔
جناب فاطمہ کی ازدواجی زندگی
جس طرح آنحضرت(ص)(ص) کی پوری زندگی نمونہ ہے شوہر کے گھر میں بھی بے نظیر زندگی گزاری۔ بعینہ اسی طرح ان کے شوہر باپ، اور فرزند نمونہ تھے۔
حضرت امام علی اور حضرت زہرا کی باہمی زندگی پیغمبراسلام کے ارشادات کے سائے میں گزری۔ وہ دونوں زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے تھے۔ معمولاً معاشی مشکلات ان کے دامن گیر رہیں۔ حتی کہ خدمت گذار اور نوکر رکھنے کے لئے مالی وسائل نہ تھے۔ جو حضرت امام علی کو مشکل اور سخت کاموں میں مدد دے، ایسا بہت کم ہوا ہے کہ یہ شفیق اور مہربان میاں بیوی خنک اور چھوٹے بستر پر سردی کی وجہ سے چین سے سو سکے، اگر اوڑھنی کو پاؤں پر ڈالیں تو سر خالی اور اگر سر کو چادر میں کریں تو پاؤں ننگے ہو جاتے، حضرت زہرا طبیعتاً بے نیاز اور پرسکون تھیں۔ انہوں نے اپنے والد گرامی سے سن رکھاتھا کہ حقیقت میں بے نیازی ثروت سے نہیں ہوتی بلکہ بے نیازی انسان کی طبیعت اور نفس کے غنی ہونے میں مضمر ہے۔
اسی طرح اپنے والد گرامی سے سن رکھا تھاکہ خداوند قدوس چاہتا تھا کہ مکہ کے بیابانوں کو سونے سے بھر کر مجھے دے، لیکن میں نے عرض کیا، پروردگار میں پسند کرتا ہوں کہ ایک دن خالی پیٹ رہوں تو دوسرے دن سیر ہو کر کھاؤں، تاکہ جس دن خالی پیٹ رہوں تیری بارگاہ میں تضرع اور عرض نیاز کروں اور جس دن سیر ہوں تیری حمد و ثنا اور نعمتوں پر شکر بجالاؤں۔
انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک دن پیغمبر اسلام(ص) نے ہم سے پوچھا؟ کہ عورتوں کیلئے سب سے اچھی چیز کیاہے؟ کوئی بھی اس کا جواب نہیں جانتا تھا، حضرت علی علیہ السلام فوراً حضرت فاطمہ کے پاس آئے، اور ان سے سارا ماجرا بیان کیا، آنحضرت(ص)(ص) نے فرمایا کہہ کیوں نہیں دیا عورتوں کے لئے بہترین چیز یہ ہے کہ وہ نامحرم کو نہ دیکھے اور نامحرم اس کو نہ دیکھ سکیں۔
حضرت امام علی نے واپس آکر پیغمبر اسلام(ص) کے سوال کا جواب عرض کردیا، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا کہ اے علی کس نے آپ کو اس کا جواب بتلایا ہے؟ فرمایا حضرت فاطمہ نے، اس وقت پیغمبر نے فرمایا حقیقتاً فاطمہ میرے بدن کا ٹکڑا ہے۔
کچھ ہی عرصے بعد ا س معمولی سے گھر کو انتہائی پیارے اور روح افزا بچوں نے روشن کردیا، لہذا یہ نیک میاں بیوی حسن، حسین اور محسن اور زینب و ام کلثوم جیسی اولاد کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں۔
تینوں بیٹوں کے نام پیغمبر اسلام(ص) نے رکھے جبکہ دونوں صابزادیوں کے نام حضرت زہرا نے رکھے۔
سایہ پدری سے محروم ہونا
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے ابھی زندگی سے کچھ ہی بہاریں گذاریں تھیں کہ وقوع پذیر ہونے والے واقعہ نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے اور وہ واقعہ پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت ہے۔
حضرت زہرا پیغمبر اسلام(ص) کی بیماری کے دوران ہمیشہ ان کی خدمت میں رہیں، جیسے ہی دھن مبارک پیغمبر سے یہ فرماتے ہوئے سنا، تمہارے غم و دکھ، تو دکھ بھرے لہجے میں فریاد بلند کی کیسے غم و دکھ؟
پیغمبر اسلام(ص) حضرت فاطمہ کی حالت زار پر پریشان ہوئے، تو اپنی بیٹی کے دل کو آرام پہنچانے کیلئے فرمایا، اے بیٹی آج کے بعد باپ کیلئے پریشان نہ ہونا۔
حضرت فاطمہ زہرا کو یاد آنے لگا کہ باپ نے بڑے رازدارانہ اندا زمیں فرمایا تھا کہ بیٹی تیری موت کا وقت بھی نزدیک ہے، اور اہل بیت علیھم السلام سے سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کرے گی، اور مزید یاد آیا کہ پیغمبر نے مجھے بشارت دی تھی کہ اے فاطمہ جان کیا اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ سید النساء العالمین ہیں، حضرت زہر اباپ کی وفات کے بعد کبھی ہنسی نہیں، بلکہ اس قدر زیادہ ہوئی کہ تاریخ کے ان زیادہ چھ رونے والے افراد میں شمار ہونے لگیں، اور اس قدر زیادہ روتیں کہ اہل مدینہ تنگ آکر مطالبہ کرتے ہیں کہ یا دن میں روئیں یا رات میں روئیں، آخر کار جناب سیدہ رونے کیلئے جنت البقیع جاتیں، ایک مرتبہ اپنے باپ کے غم میں یوں اشعار پڑھے۔
ماذا علی من شم تربة احمد
ان لا یشم مدی الزمان غوالینا
قل للمغیب تحت اطباق الشری
ان کنت تسمع صرختی ندائیٰا
صبت علی مصائب لوانها
صبت علی الایام صرن لیالیٰا
قد کنت ذات رحمی بظل محمد
لا اخش من ضیم و کان حما لیٰا
فا لیوم اخضع للذلیل واتقی
ضیمی، وادفع ظالمی بردائیٰا
فاذا بکت قمریة فی لیلها
شجنا علی غصنٍ بکیت صباحیٰا
فلا جعلن الحزن بعدک مونسی
ولا جعلن الدمع فیک و شاحیٰا
ترجمہ:۔
کیا پرواہ ہے اس کو جو پیغمبر کی مٹی سے ایسی خوشبو سونگھے
گویا تمام عمر میں ایسی خوشبو نہیں سونگھی۔
اے خاک کے نیچے اپنے رخ کوچھپانے والے
بولو کیا میرے نالہ فریاد کی آوازیں سن رہے ہو
مجھ پر ایسی مصیبتیں آئیں اگراگریہ مصیبتیں روشن دنوں پرآتیں تووہ اندھیری راتوں میں بدل جاتےمیں جب تک پیغمبر کے سایہ اور ان کی حمائیت و تائید میں تھی کسی دشمن اور کینہ پرور سے نہیں ڈرتی تھی لیکن آج ذلیل لوگوں کے سامنے عاجز ہوں اور ڈر رہی ہوں کہ مجھ پر ظلم کیا جائے جبکہ اکیلی خود دفاع کررہی ہوں
جب پرندے ہنگامہ رات میں اپنے اپنے آشیانوں سے گریہ و نالہ بلند کرتے ہیں، تو میں بھی بار بار آہ و فغاں کرتی ہوں اے پدر جان تیرے غموں کو اپنے لئے مونس قرار دیا ہےاور تیرے سوگ میں غم میرے دامن سے متصل ہو گیاہے۔
فاطمہ زہرا اپنے شفیق اور مہربان والد کی وفات پر بہت زیادہ روتی تھیں، دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی حسرتیں اور آہیں کھلی فضا میں بکھر جاتیں ۔ جب پیغمبر اسلام(ص) کے جنازے کو قبر میں اتار چکے تو کسی ایک صحابی سے یوں کہا، کہ کس طرح تیرا دل پیغمبر اسلام(ص) کو منوں مٹی تلے اتارنے کے لئے راضی ہوا۔ اور ایک دم اس طرح فریاد بلند کی۔
اغیرآفاق السماء و کورت
شمس النهار والظلم العصران
والارض من بعدی النبی
اسفاعلیه کثیرة الرجفان
ترجمہ:۔
آسمان کے کنارے بکھر سے گئے ہیں، اور سورج دن کو تاریکی میں ڈوب گیا ہے اور دنوں نے اندھیری راتوں کا سماں ڈھال لیا ہے۔ اور زمین ان کی وفات کے بعد ان پر اظہار تاسف کے لئے غمگین تھی اور لرز رہی تھی۔
جناب سیدہ کی شھادت
حضرت فاطمہ علیھا السلام پیغمبر اسلام(ص) کے بعد نوے دن یا پچھتر دن زندہ رہ سکیں۔ اور اس عرصے میں کسی نے ان کو خوش نہیں دیکھا، کہتے ہیں کہ اپنی زندگی کے آخری روز اپنے معمولی سے بستر پر دراز ہوئیں تو کئی گھنٹوں تک سوتی رہیں، اس دوران میں اپنے والد گرامی کو خواب میں فرماتے سنا، اے پیاری بیٹی میری طرف آؤ میں تجھ سے ملنے کا مشتاق ہوں۔ تو میں نے عرض کی کہ میں آپ کے دیدار کیلئے بہت زیادہ مشتاق ہوں، تو پھر پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا تو آج رات میرے پاس ہو گی، حضرت زہرا جب نیند سے بیدار ہوئیں، اور آنکھیں کھولیں تو طبیعت میں تازگی لوٹ آئی، گویا آپ کیلئے بہترین زندگی موت سے کچھ دیر پہلے تھی، وہ اس وجہ سے کہ بہت جلد غموں اور دنیا کے دکھوں سے نجات پا کر اپنے والد گرامی سے ملاقات میں خوشی کا احساس کر رہی تھی، تو دوسری جانب ان کے دل کو آگ لگی تھی کہ انتہائی مہربان اور شفیق شوہر کو چھوڑنے والی ہیں۔ وہ شوہر جو دشمنوں اور قسادتوں سے بھری دنیا میں سوائے خدا کے اور حضرت زہرا کے کوئی ہمدم و غمگسار نہیں رکھتا تھا، ان سنگین حالات میں حضرت زہرا مرضیہ ان کی حامی و ناصر اور دفاع کرنے والی تھیں، آج اگر وہ دنیا سے چلی جائیں تو ان کی جگہ کون لے گا؟ اپنی چھوٹی چھوٹی اولاد کا مسئلہ ذہن میں تھا، آپ کے ناموں میں ایک نام "حانیہ" ہے کیونکہ آپ اپنے شوہر اور اولاد کے متعلق بہت مہربان اور شفیق ہے اور وہ بہت جلدی اپنے دل کے ٹکڑوں سے علیحدہ ہونے والی ہیں۔ اور اس کی رضاعت کے ساتھ راضی تھیں۔
وہ اب قریب المرگ تھیں لیکن کینہ پرور لوگوں کے کینے، حسد، قسادتوں اور سنگدلیوں سے خصوصاً وہ لوگ جو منافقانہ انداز میں کہ دائرہ ایمان میں داخل ہوئے اور اسلام پر پشت سے خنجر گھونپنے والوں سے دل پارہ پارہ ہو چکا تھا۔
وہ زہرا جو صبر و بردباری کا مجسمہ ہیں آج موت کی آرزو کر رہی ہیں، اور لقاء اللہ کی امید لئے بیٹھی ہیں، انہوں نے اپنے باپ کی رحلت کے بعد ایک بھی خوشی کا لمحہ نہیں دیکھا، بلکہ جب سے پیغمبر اسلام(ص) بستر بیماری پر تھے، آنحضرت(ص) نے دیو سیرت انسان نما چہروں کو دیکھا تھا جن کے خیالات سے خیانت جھلک رہی تھی کہ وہ پیغمبر اسلام(ص) کی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق وصیتوں کو روندتے ہوئے اسلام کو اپنے صحیح راستے سے منحرف کردیں گے۔ ان کا دل اس بات سے بوجھل تھا کہ مسلمانوں نے اپنی بیٹی اور داماد کی حمایت میں آواز بلند نہیں کی، وہ بستر بیماری پر ایسی موت کے استقبال میں ہیں جو اپنے وقت کے امام اور شوہر اور بیٹیوں کی حمایت میں آرہی ہے۔ اور وہ ایسی موت کا استقبال کر رہی ہیں جو پیغمبر اسلام(ص) کی فریاد قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربی کے مقابل میں مسلمان اپنے ربہر اور مقتداء کو کیسے جواب دتیے ہیں، ہاں وہ وراثت جو پیغمبر اپنے بدن کے ٹکڑے کے لئے چھوڑتے ہیں غصب کر لیتے ہیں، اور اہل بیت کے گھر کو آگ لگا دیتے ہیں اور حضر ت زہرا کو دروازے اور دیوار کے درمیان دبا دیتے ہیں، حتی کہ چھ ماہ کے محسن کی موت کا سبب بنتے ہیں، اس بے کسی کی حالت میں اپنی کنیز حضرت فضہ کو اپنی پناہ گاہ سمجھ کر کہتی ہیں اے فضہ مجھے اٹھاؤ میرا محسن شہید ہو گیا ہے۔
وہ بستر پر ایسی موت کے استقبال میں ہیں، جو ایسے لوگوں کی طرف سے آرہی تھی جنہوں نے اپنے دونوں کانوں سے پیغمبر کی زبانی سن رکھا تھا جس نے فاطمہ کو اذیت دی گویا اس نے مجھے اذیت دی اور حضرت زہرا کی ناراضگی گویا خدا کی ناراضگی ہے۔
وہ لوگ جن کی آنکھوں کو دنیا کی چند روزہ زندگی نے پر کر رکھا تھا اور دنیاوی مقام و منصب سے عشق نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھ، گویا اپنے رب کو بھی بھول گئے، وہ لوگ اپنے آپ کو مسلمانوں کے امور کا ناخدا سمجھ بیٹھے ہیں حقیقت میں ابھی تک کفر کی زنجیر ان کی گردونوں میں آویزاں ہے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دین الہی کو ایسے لوگوں کے حوالے کیا جائے جو کفر و بت کی پرستی کے گرداب میں غوطہ زن رہے ہوں، اور پتھروں اور لکڑی سے بنے بتوں کے سامنے سر بسجود رہے ہوں، اور ان کا اعمال نامہ ہر قسم کی نجاست اور غلط کاریوں سے پر ہو؟
کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دین خدا کو ایسے لوگوں کے حوالے کردیا جائے جن کی پوری زندگی میں روشنی کا نشان تک نہ ہو؟ پردے کے پیچھے تو عورتیں بھی اپنے آپ کو دانا سمجھتی ہیں، جنگوں میں انتہائی ذلت کے ساتھ فرار کرتے تھے اور اپنے پیغمبر پر انتہائی ناروا کاموں کی وجہ سے الزام لگاتے تھے اور معارف قرآن سے ناواقف تھے گویا قرآن پڑھا ہی نہیں ہے۔
وہ ایسی موت کے استقبال میں ہیں کہ گویا اپنے شوہر نامدار اور اپنی پیاری اولاد سے جدائی کا وقت آن پہنچا ہے۔ جیسے ہی اٹھنے کی سکت ختم ہوتی نظر آئی، تو اپنے بستر بیماری سے اٹھتی ہیں اور گھر کے کام کاج میں مشغول ہوجاتی ہیں، اتنے میں امیر المومنین علی علیہ السلام گھر میں آتے ہیں اور کام کرنے کی وجہ پوچھتے ہیں۔ بی بی اپنا خواب نقل کردیتی ہیں۔
اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ بی بی تمام مدت سے دل میں رکھے ان تمام واقعات سے اپنے شوہر نامدار کو آگاہ کریں اور اپنی وصیتیں کریں۔ حضرت امام علی سب کو کمرے سے باہر بھیج دیتے ہیں اور خود اپنی شفیق رفیقہ حیات کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں۔ اے چچا کے بیٹے پوری زندگی میں مجھ سے جھوٹ اور خیات نہیں دیکھی ہو گی اور مزید یہ کہ اس عرصے میں کسی بھی وقت آپ کی مخالفت نہیں کی۔ حضرت نے فرمایا آپ اس سے کہیں زیادہ دانا، متقی اور عزت دار ہیں کہ میں آپ کو اپنی مخالفت کرنے پر سرزنش کروں۔ آپ سے جدائی میرے لئے بہت سخت اور دشوار ہو گی لیکن کیاکریں کہ موت سے کسی کو گریز نہیں۔ خدا کی قسم آپ کے جانے سے رسول خدا کی مصیبت دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔ اس مصیبت میں کوئی مددگار نہیں ہے اور ایسا غم ہے جو اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا، میں آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ میرے جنازے میں جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا شریک نہ ہوں۔ ہرگز ایسے لوگوں میں سے کوئی مجھ پر نماز جنازہ نہ پڑھے۔ مجھے آدھی رات میں جب آنکھیں بند ہوجائیں اور لوگ سو جائیں دفن کرنا۔
بعض روایات سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ وقت احتضار میں امیر المومنین گھر میں نہیں تھے۔ فقط حضرت اسماء گھر میں تھیں اور دنیا سے چلے جانے کے بعد امام حسن اور امام حسین علیھما السلام گھر میں آئے۔ اور حضرت اسماء سے کہتے ہیں کہ ہماری ماں پہلے تو اس وقت میں نہیں سوتی تھیں۔ وہ جواب دیتی ہیں اے فرزندان رسول خدا آپ کی ماں سوئی نہیں بلکہ دنیا سے جا چکی ہیں۔
یہ بات سنتے ہی بچوں نے فریاد بلندکی اور ماں کے جنازے پر گر پڑے۔ اور اپنی ماں سے گفتگو کی۔ اتنے میں حضرت اسماء بچوں سے امیر المومنین کو مسجد سے بلانے کے لئے کہتی ہیں۔ حضرت امام علی اپنی وفادار رفیقہ حیات کے پاس بیٹھ کر کہتے ہیں کہ آج کے بعد کس سے دل کی بات کروں گا؟ پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کی طرح آج پھر مدینہ کے لوگوں نے رونے اور بینوں کی آوازیں سنیں، لوگ اس انتظار مییں تھے کہ تشیع جنازہ میں شریک ہوکر نماز جنازہ پڑھیں گے۔ لیکن امیر المومنین نے تشیع جنازہ میں تاخیر کردی تاکہ وصیت کے مطابق عمل کیا جائے۔
جب مدینے والے سو گئے اور خاموشی چھا گئی۔ امام علیہ السلام نے اس نحیف سے بدن کو جو چاند کی طرح کمرخمیدہ تھیں غسل و کفن دیا۔ اور پیغمبر اسلام(ص) کے دیئے ہوئے بہشتی حنوط سے حنوط کیا۔ ان مراحل کے بعد امیر المومنین نے اپنی اولاد کو آواز دی اے حسن، حسین، اے زینب، اے کلثوم، آؤ اور اپنی ماں سے الوداع کر لو کیونکہ جدائی کا وقت آن پہنچا ہے پھر اس کے بعد جنت میں ان سے ملاقات کرو گے۔ بچے گویا اسی انتظار میں تھے جلدی سے آئے اور خود کو ماں کے جنازے پر گرادیا۔ پھر آہستہ آہستہ رونا شروع کیا یہاں تک کہ ماں کے کفن کو آنسوؤں سے تر کردیا۔
بہرحال حضرت زہرا کے لئے قبر تیار کی گئی جس کی جگہ کسی کو بھی معلوم نہیں۔ اور ایسے ہی امام زمانہ عجل اللہ کے ظہور تک مخفی رہے گی۔ فضائل و مناقب کے مجموعہ کو دفنانے کے بعد امیر المومنین یوں گویا ہوئے۔ اے زمین اپنی امانت تیرے حوالے کی۔ یہ رسول خدا کی بیٹی ہے۔ اے فاطمہ تجھے اس کے حوالے کرتا ہوں جو مجھ سے زیادہ شائستہ اور حق دار ہے۔ اور جس سے خدا راضی ہوتا ہے۔ میں بھی اسی سے راضی ہوں۔
امیر المومنین اپنی زندگی کے سخت ترین دور سے گذر رہے تھے۔ کیونکہ اپنی زندگی کی شروعات میں ہی قیمتی ترین متاع اپنے ہاتھ سے دے چکے تھے۔ ان دکھ بھرے لمحات میں حضرت امام علی قبر سے مٹی کو ہاتھ میں اس انداز میں مسل رہے ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور کہہ رہے ہیں۔
السلام علیک یا رسول اللّٰه عنی، السلام علیک عن ابتک وزائرتک ولبائتة فی الثری یقعتک، والمختاره اللّٰه لها سرعة اللحاق بک، قل یا رسول اللّٰه عن صفیتک صبری، وعفا عن سیده نساء العالمین تجلدی……،
بلی و فی کتاب اللّٰه یی انعم القبول، ان للّٰه وانا الیه راجعون، قد استرجعت الودیعة واخذت الرهینة واختلست الزهراء، فمااقبح الخضراء والغبراء یا رسول اللّٰه اما حزنی فسرمد، اما یسلی فمسهد وهم لا یبرح من قلبی، اویختار اللّٰه لی دارک التی انت فیها مقیم کمد مقیح و هم مهیح، سرعان مافزق اللّٰه بیننا، الی اللّٰه اشکو وستنبئک ابنتک بتضافر امتک علی، وعلی هضمها حقها، فاحفها السؤال واستخبرها الحال فکم عن غلیل متعلج بصدرها لم تجد الی بثه سبیلاً، وستقول و یحکم اللّٰه وهو خیر الحاکمین، والسلام علیکما یا رسول اللّٰه سلام مودع لا ولا قال، فان انصرف فلا عن ملالة، وان اقم فلا عن سوء ظن بما وعند اللّٰه الصابرین، واها واها، والصبر ایمن واجمل، ولو لا غلبة المستولین علینا لجعلت المقام عند قبرک الزاماً، والتلبت عنده عکونا ولا عولت اعوال الثکلی علی جلیل الرزیة، فبعین اللّٰه تدفن ابنتک سرا، ویهتضم حقها قهراً بیمنع ارثها جهراً، ولم یطل منک العهد، ولم یخلق منک الذکر فالی اللّٰه یا رسول اللّٰه المشتکی، وفیک یا رسول اللّٰه اجمل العزاء فصلوات اللّٰه علیها وعلیک ورحمة اللّٰه وبرکاته
ترجمہ: کلام امیر المومنین علیہ السلام
اے رسول خدا آپ پر سلام، آپ کی بیٹی اور آپ کی زیارت کرنے والی کی طرف سے سلام، جو آپ کی مقدس بارگاہ میں منوں مٹی تلے پر سکون سو رہی ہے۔ وہ جس کو خدا نے آپ سے ملاقات کے لئے سب سے پہلے چن لیا، ہم اس بات پر صابر ہیں کہ آپ کی محبوبہ حضرت زہرا کی آپ سے جدائی کم ہوگئی ہے لیکن سیدہ نساء العالمین کے فراق میں ہماری قوت برداشت ختم ہو رہی ہے۔
جی ہاں تقدیر الٰہی کے سامنے سرتسلیم خم کئے بغیر چارہ نہیں جب ہی تو کہہ رہے ہیں، ان لللّٰہ وانا الیہ راجعون، پس امانت لوٹالی گئی اور گروی شدہ چیز واپس لے لی گئی اور حضرت زہرا ان دکھوں سے نجات پا گئی۔
اے رسول خدا مجھے نیلا آسمان اور خاکی زمین بہت پست نظر آرہے ہیں میرے دکھ ہمیشہ رہنے والے ہیں، اور میری راتیں بیداری میں گزریں گی، اور غموں نے میرے دل میں آشیانہ بنا لیا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے لئے وہ گھر منتخب کر لے جس میں آپ مقیم ہیں گہرے دکھوں نے دل خون کردیا، اور ایسے غموں میں مبتلا ہوں جو ابل رہے ہیں، کتنی جلدی خدا نے ہمارے درمیان جدائی ڈال دی اور میں بارگاہ ایزدی میں اس کی شکایت کرتا ہوں۔
عنقریب آپ کی بیٹی آپ کو بتائیں گی کہ آپ کی امت میرے خلاف جمع ہو گئی ہے، اور فدک کے غصب ہونے کے متعلق پوچھنا، اور اپنی بیٹی سے بار بار پوچھنا کہ حالات سے پردہ اٹھائے۔
کیونکہ بعض دکھ ان کے سینے میں آگ کی طرح بھڑک رہے تھے جنہیں دنیا میں کسی سے بیان نہیں کر سکیں لیکن وہ جلد کہیں گی اور خدا فیصلہ کرے گا کیونکہ وہ بہترین قضاوت کرنے والا ہے،
اے رسول خدا آپ دونوں پر سلام، اس الوداع کہنے والے کو سلام جو نہ پریشان ہے اور نہ ناراض ہے، اور اگر یہاں سے چلاجاؤں تو یہ پریشانی کی وجہ سے نہیں، یا یہاں پر رک جاؤں تو اس وجہ سے نہیں کہ خدا کے صبر کرنے والوں سے کئے گئے وعدے سے بدگمان ہوں۔
صبر اور بردبادی مبارک اور سب سے پسندیدہ ہیں، اور اگر دشمنوں کے مخالف آجانے کا خوف نہ ہوتا تو آپ کی قبر کے پاس ہی اپنی قیام گاہ بنا لیتا اور بڑے سکون سے اعتکاف بیٹھنے والوں کی طرح یہی رک جاتا، اور اس ماں کی طرح بین کرتا رہت اجو اپنے جوان بیٹے کی موت پر بین کرتی ہے،
جی ہاں، پیغمبر آپ کی بیٹی خدا کے حضور میں رات کی تاریکی میں دفن کی گئی، جبراً اس کا حق چھینا گیا، واضح طور پر اس کو اپنی وراثت سے محروم کردیا گیا، حالانکہ آپ کے دنیا سے چلے جانے سے زیادہ عرصہ بھی نہ گذرا تھا، اور آپ کا نام بھی ذہنوں سے محو نہیں ہوا تھا،
پس رسول خدا میری شکایت فقط بارگاہ ایزدی سے ہے اور آپ بہترین دل جوئی کرنے والے ہیں، پس خداوند تبارک و تعالیٰ کا درود و سلام ہو رحمتیں اور برکتیں ہوں آپ پر اور حضرت فاطمہ پر۔
اس کتاب کے بار ے میں
جہاں ہستی کے بحربے کراں کی وسعتوں میں انسان ایک کمزور اور بھٹکا ہوا قطرہ ہے، روشن راہ کے باوجود بھٹکا ہوا اور حادثات اور ناکامیوں کے مقابل میں کمزور، لیکن فقط زندگی کے بحر بیکراں سے اتصال اور واقع اور حقیقی منبع فیض پر توکل اور تمسک اور فقر و ناتوانی کو توڑنا ہے جس کی وجہ سے انسان اطمینان قلب کے ساتھ پر اعتماد انداز میں بہتر مستقبل کے لئے کوشش کرتا چلا جا رہا ہے، یا قدم بڑھاتا جارہا ہے، جب انسان ہر طرف سے ناکام ہو کر تھک ہارجائے، جب امید کی کرنیں دم توڑ جائیں تو پھر بھی آرزوؤں کی پرواز کسی منزل کی جستجو میں ہے، جب انسان تمام عادی اور مادی ذرائع اور اسباب سے مایوس ہوجائے تو لاشعوری طور پر دست نیاز بارگاہ کی طرف اٹھتا ہے جو تمام قدرتوں کا منبع ہے، ہاں، اگر دعا نہ ہو، اور اگر بشر خدا کو نہ پکارے تو کس طرح حالات پر قابو پا سکتا ہے اور مشکلات اور سختیوں میں اس کے علاوہ کون سی پناہ گاہ رکھتا ہے، جی ہاں، دعا کی شمعیں لوگوں کے ضمیروں کو روشن، اور دل پر چھپائی گھٹاؤں کو برطرف کرتی ہیں اور بدن سے سختیوں کو دور کردیتی ہیں، اور مصائب و آلام کے بوجھ کو کم کرتیں ہیں، انسان جب سختیوں اور مشکلات سے گھرے معاشرے میں قدم رکھتا ہے جبکہ دنیا تو ہمیشہ مصیبتوں کی موجوں کی لپیٹ میں اور بڑے بڑے حادثات کے گرداب میں پھنسی رہتی ہے تو ایسی صور ت میں رحمت الہی کا بحر بیکر ان تقاضا کو پورا کرتا ہے کہ مضبوط پناہ گاہ رکھتا ہو، جب سے حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور حضرت جبرئیل کے ذریعے سے دعاکے قبول ہونے اور رفع مشکلات پنجتن پاک علیہم السلام کو وسیلہ اور بارگاہ ایزدی میں شفیع قرار دینے کی تعلیم دی گئی تو اس سے بنی آدم کی ذمہ داری واضح ہوجاتی ہے۔
اس کتاب سے دعائیں اور اہل بیت اطہار سے منقول آنحضرت(ص) کے راز ونیاز و خطبے اور احادیث پیش خدمت ہیں، ان منقولات کے مضامین خود بہترین گواہ ہیں کیونکہ ایک تو ان کی سطح علمی بہت بلند ہے اور آنحضرت(ص) کے افکار کی روشنی ہر مطالعہ کرنے والے کو حیران کردیتی ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ ان کا علم اور دانائی علم الہی کے بحر بیکراں سے حاصل شدہ ہے، اے زہرا یہ آپ کا صحیفہ ہے، یہ نور کا صحیفہ ہے۔
اے زہرا!اے جہانوں کے خدا کی برگزیدہ، اے رسولوں کے سردار کے بدن کا ٹکڑا، اے امیر المومنین کی رفیقہ حیات، معصومین کی پرورش کرنے والی، اے مظلومہ دوراں، اے ظالموں کے ظلم کے کا نشانہ بننے والی، اے دشمنوں کے ستم اٹھانے والی، اس معمولی سی کاوش کو آپ کی بارگاہ میں پش کرتا ہوں، تاکہ اپنی عنایات میں شامل قرار دے دیں اور ہمارے سلام اور آداب کو قبول فرمائیں، اب خلوص بھرے دل کے ساتھ بارگاہ ایزدی سے امیدوار ہوں اور آپ کے مقدس اور عزت دار وجود مسعود کو شفیع اور واسطہ فیض قرار دیتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ آپ کی شفاعت کے طلبگار ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں دعائیں اور حاجتیں
( ۱) اللہ سبحانہ کی تسبیح و تقدیس میں
پاک ہے وہ ذات جو صاحب عزت اور سر بلند و سرفراز ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو جلالت اور بزرگی کی مالک ہے۔
پاک ہے وہ ذات جس کی بادشاہی ہمیشہ رہنے والی ہے۔
پاک ہے وہ ہستی جس نے خود کو خوبصورت ترین لباس پہنا رکھا ہے۔
پاک ہے وہ ذات جس نے خود کو نور اور وقار کے ساتھ چھپا رکھا ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو چیونٹی کے قدموں کے نشان سخت پتھر پر دیکھتی ہے۔
پاک ہے وہ ذات گرامی جو ہوا میں تیرنے والے پرندوں کو دیکھتی ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو اس طرح ہے کہ کوئی بھی اس طرح نہیں۔
دوسری روایت میں نقل ہے
پاک ہے وہ ذات جس کی حکومت تمام تر افتخارات کے ساتھ ہمیشہ رہنے والی ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو جلالت و عظمت کی مالک ہے۔
پاک ہے وہ ذت جو خوبصورتی اور زیبائی کی مالک ہے۔
پاک ہے وہ ہستی جس نے خود کو نور اور وقار کے پردے میں چھپا رکھا ہے۔
پاک ہے وہ ذات گرامی جو چیونٹی کے قدوں کے نشان صاف پتھرپر اور ہوا میں محو پرواز پرندوں کو دیکھتی ہے۔
( ۲) ہر مہینے کے تیسرے دن میں تسبیح و تقدیس
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی قوت و قدرت کے ساتھ جہاں کو منور کیا۔
پاک ہے وہ ذات جو سات آسمانوں میں مخفی ہے اور اس طرف سے کہ کوئی آنکھ اس کو نہیں دیکھ سکتی۔
پاک ہے وہ ذات جس نے بندوں کو موت کے ساتھ ذلیل کیا اور خود کو زندہ جاوید کی صفت سے عزیز و گرامی بنایا۔
پاک ہے وہ ذات جو ہمیشہ زندہ رہے گی اور بقیہ سب کچھ فنا ہوجائے گا۔
پاک ہے وہ ذات جس نے حمد و ستائش کو اپنے ساتھ مخصوص قرار دیا۔ اور اس پر راضی ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو زندہ اور دانا ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو بردباد اور بزرگوار ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو حقیقی بادشاہ اور برائیوں سے مبرا ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو بزرگ و برتر ہے۔
پاک ہے وہ ذات کہ حمد و ستائش اسی کے ساتھ مخصوص ہے۔
۳۔ اچھے اخلاق اور پسندیدہ کاموں کے حصول میں آنحضرت(ص) کی دعا
پروردگارا!آپ غیب سے بھی واقف ہیں اور تمام موجودات پر قادر و توانا۔ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لئے مفید ہے اور مجھے اس وقت موت دے جب خیرو نیکی کو میری موت میں دیکھے۔
خداوند! خوشی و غمی میں اخلاص اور تجھ سے ڈرتے رہنے اور فقر و ثروت مندی سے میانہ روی کی خواستگاہوں اور تجھ سے ایسی نعمت مانگتی ہوں جو ختم نہ ہو۔ اور تم سے ایسی چیز کی طلبگار ہوں جو مجھے خوش کرے اور ختم نہ ہو۔
اے اللہ میں تیری بارگاہ میں دعا کرتی ہوں کہ اس دنیا میں تیری رضا پر راضی رہنے کی توفیق عنایت فرما اور مرنے کے بعد اجھی زندگی عطا فرما اور ملاقات کے شیدائی کو اپنا دیدار نصیب فرما۔ ایسا دیدار جس میں کسی قسم کا رنج و الم نہ ہو۔
اے پروردگارا!ہمیں ایمان کی زینت سے مزین فرما اور ہمیں ہدایت دینے والا قرار دے اور صحیح ہدایت کرنے والا قرار دے تاکہ تیری ہدایت ہمارے شامل حال ہو۔ اے دونوں جہاں کے پالنے والے۔
۴۔ دنیا و آخرت کی حاجات کے متعلق دعا
اے پالنے والے:جو کچھ تو نے دیا ہے اس پر قناعت کرنے کی توفیق عطا فرما اور میرے عیوب کو چھپا، اورمجھے سلامتی عطا فرما، اور میری موت سے پہلے مجھے بخش دے۔ میرے گناہ معاف فرما اور اپنی رحمت میرے شامل حال فرما۔
بارالھا: جو کچھ میرے لئے مقدر کر رکھا ہے اس میں مجھے آزمائش میں نہ ڈال اور جو کچھ میرے مقدر میں ہے اسے میرے لئے آسان کردے۔
پروردگار: والدین اور جو بھی مجھ پر حق رکھتا ہے اس کو بہترین جزا خیرسے نواز۔
بارالھا: جس مقصد کے لئے مجھے پیدا کیا ہے فقط اسی جانب مجھے مشغول رکھ اور وہ امور جن کی کفالت کی ذمہ داری خود تو نے لی ہے ان میں مشغول نہ فرما۔ مجھے عذاب نہ دے میں بخشش کی طلبگار ہوں۔ میں تجھ سے سوال کرتی ہوں مجھے محروم نہ رکھ۔
پروردگار: میرے نفس کو ذلیل و خوار، اپنے مقام و مرتبہ کو میرے نفس میں زیادہ فرما اور مزید یہ کہ اپنی اطاعت کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال جو تیرے پسندیدہ ہیں کرنے کی توفیق عطا فرما اور وہ اعمال جو تیرے لئے ناپسند ہیں ان سے مجھے دور رکھ، اے بہترین رحم کرنے والے۔