لوگوں کی تعریف یا مذمت میں جناب سیدہ کی دعائیں
۴۱ ۔ اپنے شوہر نامدار کیلئے
اپنی وصیت میں جناب سیدہ نے جناب امیر سے کہا، جب میں دنیا سے چلی جاؤں تو اپنے ہاتھوں سے مجھے غسل دینا، حنوط کرنا، کفن دینا اور رات کی تاریکی میں مجھے دفن کرنا، اور فلاں اور فلاں میرے جنازے میں شریک نہ ہوں، اور میرے وصیت نامے میں کسی چیز کا اضافہ نہ کرنا۔ دوبارہ ملاقات تک آپ کو خدا کے حوالے کرتی ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو بہشت میں اپنے جوار میں ملائے۔
۴۲ ۔ اسماء بنت عمیس کیلئے
روایت ہے کہ حضرت زہرا نے اسماء بنت عمیس سے کہا، میں کمزور ہو گئی ہوں اور میرا گوشت ختم ہو گیا ہے کیامجھے کوئی ایسی چیز نہیں دیں گی جو مجھے ڈھانپ لے، کہاجاتا ہے کہ اسماء لکڑیوں سے بنا ہوا تختہ لائیں اور زمین پر رکھ دیا اور پھر لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو میخوں سے تختہ کے اطراف میں کھڑا کردیا اور ایک کپڑے سے اس کو ڈھانپ دیا۔ جناب زہرا نے اس تختے کو دیکھا تو فرمایا کہ یونہی میرے لئے درست کرو اور مجھے چھپا دو، خداوند تجھے آتش جہنم سے چھپائے۔
۴۳ ۔ اپنے اوپر ستم کرنے والوں کے متعلق فرمایا
اے پروردگار: میں تیری بارگاہ میں شکایت کرتی ہوں، تیرے برگزیدہ رسول اور پیغمبر کے چلے جانے پر اور اس کی امت کے پلٹ جانے پر اور ہمارے حق کے غضب کرنے پر، وہ حق جو ہمارے لئے اپنے نبی پر نازل شدہ کتاب میں ہمارے لئے قرار دیا ہے۔
قیامت کے متعلق جناب سیدہ کی دعائیں
۴۷ ۔ روز قیامت اپنے پیروکاروں سے عذاب کی برطرفی کیلئے محمد بن مسلم ثقفی روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر کو فرماتے سنا کہ فرما رہے تھے، کہ فاطمہ زہرا جہنم کے پاس کچھ دیر توقف کریں گی جبکہ اس دن ہر ایک کی پیشانی پر کفر و ایمان نقش ہوں گے، تو اس وقت حکم دیا جائے گا کہ وہ محب جس نے زیادہ گناہ انجام دیئے ہیں اور اس کو جہنم میں ڈالو، جیسے ہی جناب زہرا اس کی پیشانی پر محمد و آل محمد کے خاندان سے محبت لکھی دیکھیں گی۔ تو یوں فرمائیں گی۔
اے میرے پروردگار،اے میرے مولا تو نے میرا نام فاطمہ رکھا ہے، تو نے میرے محبوں اور میرے فرزند کے محبوں کو جہنم کی آگ سے نجات دی ہے جبکہ تیرا وعدہ ہے اور تو اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔ تو اس وقت اللہ عزوجل فرمائیں گے۔ اے فاطمہ سچ کہا ہے۔ میں نے تیرا نام فاطمہ رکھا، اور جو بھی تجھ سے عقیدت رکھتا ہو اور تیری پیروی کرے اور تیرے فرزندوں کو دوست رکھتا ہو اور ان کی پیروی کرے ، وہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا اور میرا وعدہ حق ہے اور میں اپنے وعدہ کے خلاف بھی نہیں کرتا۔
پھر فرمایا۔ جس کے چہرے پر ایمان دیکھو، اس کو بازو سے پکڑ کر بہشت میں داخل کردو۔
۴۸ ۔ محشر میں اپنے محبین کی شفاعت کیلئے دعا
روایت ہے کہ روز قیامت میں ایک فرشتہ جناب زہرا کی خدت میں آئے گا، جو اس سے پہلے کسی کے پاس نہیں گیا ہو گا اور بعد میں بھی کسی کے پاس نہیں جائے گا اور آکر کہے گا، آپ کے پروردگار نے آپ کو سلام بھیجا ہے، فرمایا ہے مجھ سے مانگو تاکہ تجھے عطا کروں، تو پھر جناب زہرا نے یوں فرمایا۔
اپنی نعمتوں کومجھ پر تمام کیا، اورکرامت و عزت کو میرے لئے متبرک کیا، اوراپنی جنت سے مجھے نوازا میں اپنے فرزندان اور انکی اولادوں اور ان سے محبت کرنے والوں کی لئے جنت کی طلب گار ہوں۔
ایک اور روایت میں ہے۔
اپنی نعمتوں کو مجھ پر تمام کیا ،اور اپنی بہشت سے مجھے نوازا، اور مجھے اپنی کرامت سے عزت بخشی، اور تمام عورتوں پر مجھے فضیلت دی، لہذا آپ سے سوال کرتی ہوں کہ اپنے فرزندوں اور ان کی نسل اور ان سے محبت کرنے والوں کیلئے مجھے شفیع قرار دے۔
پھر اللہ تعالیٰ عزوجل نے آپ کے فرزندان اور ان کی اولادوں اور ان سے محبت کرنے والوں کی حفاظت حضرت زہرا کے سپرد کردی،
تو پھرحضرت زہرا نے فرمایا تمام تعریفیں اس ذات کیلئے خاص ہیں جس نے ہم سے دکھ، درد کو روکا اورمیری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا کی۔
۴۹ ۔ اپنے محبین کی شفاعت کرتے ہوئے
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن پیغمبر اسلام(ص) حضرت زہرا کے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ حضرت زہرا مفموم اور غمزوہ تھیں، پیغمبر نے فرمایا، بیٹی کس چیز سے پریشان ہو؟ آپ نے کہا اے میرے بابا، محشر اور اس میں لوگوں کی بے بسی سے پریشان ہوں، تو پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا، اے بیٹی وہ دن بہت عظیم ہے۔
اس وقت فرمایا پھر جبرائیل کہیں گے کہ اے فاطمہ اپنی حاجت کہو تو اس وقت کہنا۔
پروردگار، مجھے حسن وحسین کو دکھاؤ،
تو اس وقت وہ دونوں آپ کے پاس لائے جائیں گے، اس حال میں کہ سید الشہداء کے گلہ مبارک سے خون بہہ رہاہو گا۔
پھر جبرئیل بولیں گے، اے زہرا اپنی حاجت بیان کرو تو اس وقت کہنا، "اے پروردگار، میرے شیعہ تو اس وقت ارشاد قدرت ہو گا ان کو بخش دیا ہے، پھر کہنا میرے فرزندوں کے شیعہ، پروردگار عالم کہے گا، ان کو بھی بخش دیا، پھر کہنا پروردگار، میرے شیعوں کے شیعہ تو ارشاد پروردگار ہوگا کہ انہیں آزاد کیا، جو بھی آپ سے عقیدت رکھتا ہوگا وہ جنت میں آپ کے ساتھ ہو گا۔
۵۰ ۔ محشر مین اپنے شیعوں کے گناہ بخشوانے کیلئے جناب سیدہ کی دعا
امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ قیامت کے دن منادی ندا دے گا، آج آپ پر غم اور ملال نہیں، پھر ندا دے گا، یہ فاطمہ پیغمبر اسلام(ص) کی بیٹی ہیں، وہ اور جو بھی ان کے ساتھ ہے جنت میں جائے گا، -پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرشتے کو بیھجے گا، کہ اے فاطمہ اپنی حاجت کو بیان کرو، تو وہ یوں فرمائیں گی۔
اے پروردگار: میری حاجت یہ ہے کہ مجھے اور میری اولاد کی مدد کرنے والوں کو بخشش دے۔
۵۱ ۔ قیامت کے دن میں اپنے پیروکاروں کی شفاعت کیلئے اور سید الشہداء کے قاتلوں کی مذمت میں
امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے، فرماتے ہیں میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے سنا ہے کہہ رہے تھے، کہ پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا کہ قیامت کے دن حضرت فاطمہ عرش الہی کے سامنے آکر یوں فرمائیں گی۔ اے میرے پروردگار اے میرے مولا، میرے اورمجھ پر ظلم کرنے والوں کے درمیان فیصلہ فرما۔ پروردگار، میرے اور میرے حسین کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما، اتنے میں خداوند تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ندا آئے گی، اے میری حبیبہ، اور میرے حبیب کی حبیبہ، مجھ سے مانگو تاکہ میں تجھے عطا کروں، تم شفاعت کرو تاکہ میں قبول کروں، مجھے اپنی عزت و جلالت کی قسم، ظلم کرنے والے میری نگاہوں سے مخفی نہیں رہیں گے، تو پھر حضرت زہرا یوں فرمائیں گی، اے میرے پروردگار اور میرے آقا و مولا، میرے بیٹوں اور میرے پیروکاروں اور میرے فرزندوں کے پیروکاروں اور میرے محبین اور میرں فرزندوں کے محبین کو بخش دے۔
پس اسی دوران اللہ تعالیٰ کی جانب سے ندا آئے گی، کہاں ہیں فرزندان فاطمہ اور ان کے پیروکار اور محبین اور ان کے فرزندوں کے محبین، اتنے میں وہ فرشتگانِ رحمت الہی جو ان کے اطراف میں کھڑے ہوں گے حرکت میں آئیں گے، جبکہ فاطمہّ ان کے آگے آگے چلیں گی، یہاں تک وہ بہشت میں داخل ہوں گے۔
۵۲ ۔ محشر میں سید الشہداء کے قاتلوں کے بارے میں
حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) سے روایت کرتے ہیں، کہ قیامت کے دن عرش الہیٰ سے منادی ندا کرے گا، اے اہل محشر، اپنی آنکھیں بند کر لو کیونکہ فاطمہ بنت محمد اپنے حسین کی خون آلود قمیض لے کر گذر رہی ہیں۔ پھر فاطمہ عرش الہی کا پایا پکڑ کر کہیں گی۔
تو قدرت والا اور عادل ہے، میرے اور میرے بیٹے کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما،
رب کعبہ کی قسم، اللہ تعالیٰ میری بیٹی کے حق میں فیصلہ دیں گے، پھر حضرت زہرا یوں فرمائیں گی، اے پروردگارمجھے ان لوگوں کے لئے شفیع قرار دے جو میرے فرزند کے غم میں روتے تھے، پس اللہ تعالیٰ انہیں شفیع قرار دیں گے۔
۵۳ ۔ محشر میں امام حسین کے قاتلوں کے بار ے میں
امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت ہے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اول سے آخر تک تمام مخلوقات کو ایک اونچی جگہ جمع کریں گے، اتنے میں فاطمہ زہرا امام حسین کا خون آلود قمیض لے کر کہیں گی۔
اے پروردگار یہ میرے فرزند کی قمیض ہے، اور تو جانتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا کیا ظلم کئے گئے،اتنے میں خدائے بزرگ کی جانب سے ندا آئے گی، اے فاطمہ میری رضا تیرے لئے ہے تو پس حضرت زہرا عرض کریں گے، پروردگار، اس کے قاتلوں سے انتقام لینے میں میری مددد فرما، تو پھر بارگاہ ایزدی سے حکم آئے گا، کہ ایک گروہ جہنم سے باہر نکالو، پس امام حسین کے قاتلوں کو جہنم سے اس طرح باہر لایا جائے گا، جس طرح پرندے، دانے کو اٹھاتے ہیں پھر انہیں جہنم کی طرف لوٹا دیا جائے گا اور اس میں انہیں طرح طرح کے عذاب دیئے جائیں گے۔
۵۴ ۔ محشر میں اپنے بیٹے کے قاتلوں کے متعلق فرمایا
پیغمبر اسلام(ص) سے روایت ہے۔ میری بیٹی فاطمہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی کہ خون آلود قمیض ہاتھ میں ہو گی، عرش الہی ایک ستون کے ساتھ کھڑے ہو کر کہیں گیں، اے عادل، میرے اور میرے فرزند کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما۔
ایک اور روایت میں یوں ہے اے عادل، قادر میرے اور میرے فرزند کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما۔
اسی طرح ایک اور روایت میں یوں ہے۔
اے حاکم، میرے اور میرے فرزند کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما، ربِ کعبہ کی قسم، خدا میری بیٹی کے حق میں فیصلہ کریں گے۔
۵۵ ۔ قیامت کے دن میں اپنے حق کی پہچان کیلئے
روایت میں ہے کہ حضرت جابر نے امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا، اے فرزند رسول آپ پر فدا اپنی جدہ حضرت فاطمہ زہرا کے فضائل کے بارے میں کوئی ایسی حدیث بیان فرمائیں کہ اگر اسے میں شیعوں میں بیان کروں، تو وہ خوش ہوجائیں، پھر امام علیہ السلام نے فرمایا، خداوند تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے اے اہل محشر میں نے محمد، علی، حسن، حسین اور فاطمہ کو کیسے باعزت قرار دیا ہے اے اہل بہشت اپنے سروں کو جھکالو اور آنکھیں بند کرلو، یہ فاطمہ ہے جو بہشت کی طرف جارہی ہیں پھر وہ جنت کے کنارے پہنچ کر توقف کریں گی، آواز پروردگار آئے گی اے میرے حبیب کی بیٹی کیوں رک گئی ہو جبکہ میں نے حکم دیا ہے کہ جنت میں داخل ہو جاؤ، اتنے میں حضرت زہرا عرض کریں گی، پروردگار میں چاہتی ہوں کہ آج کے دن میری قدر و قیمت پہچانی جائے، پھر بارگاہ ایزدی سے آواز آئے گی، اے میرے حبیب کی بیٹی، واپس آؤ اور جس جس دل میں تیری محبت یا تیرے فرزندوں میں سے کسی کی بھی محبت ہو، اس کو بازو سے پکڑو اور بہشت میں داخل کرو۔
۵۶ ۔ اپنے والد کی امت کی شفاعت کرتے ہوئے فرمایا
روایت ہے کہ حضرت زہرا نے جو وصیتیں اپنے شوہر نامدار سے کیں ان میں سے ایک ہے کہ جب مجھے دفن کریں، تو فلاں برتن میں رکھے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے کو میرے ہمراہ دفن کرنا، پھر جب حضرت جبرئیل اس کاغذ کے ٹکڑے کو لے آئے، جس میں حضرت فاطمہ کا (حق مہر) پیغمبر اسلام(ص) کی امت کی شفاعت لکھا پس قیامت کے دن میں کہوں گی۔
الہی یہ پیغمبر اسلام(ص) کی امت کی شفاعت کی قرار داد ہے۔
مختلف امور میں جناب سیدہ کی دعائیں
۵۷ ۔ جنت میں داخل ہوتے وقت
روایت ہے جب حضرت زہرا بہشت میں جائیں گی، تو وہاں پراللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے لئے تیار شدہ کرامات کا مشاہدہ کریں گی فرمائیں گی، اللہ تعالیٰ کے بابرکت نام کے ساتھ جو بخشنے والا رحم کرنے والا ہے، تمام تعریفیں اس ذات کے ساتھ مخصوص ہیں، جس نے غم و اندوہ کو ہم سے دور کیا، بیشک ہمارا پروردگار بخشنے والا، شکر قبول کرنے والا ہے، وہ ذات جس نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے بہشت میں جگہ دی، جس میں ہمیں نہ غم پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی دکھ اس اثناء میں اللہ تعالیٰ حضرت زہرا پر وحی کریں گے کہ اے فاطمہ مجھ سے سوال کرو تاکہ تمہیں عطا کروں، اپنی آرزو بیان کرو تاکہ میں تمہیں خوشحال کروں، پس پھر حضرت زہرا یوں عرض کریں گی، پروردگار، تو ہی میری سب سے بڑی آرزو ہے، میں تجھ سے سوال کتی ہوں کہ میرے محبین اور میرے فرزندوں کے محبین کو عذاب جہنم سے بچا، اس وقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی آئے گی۔ اے فاطمہ مجھے اپنی عزت و جلال اور بلند مقام کی قسم زمین و آسمان کی خلقت میں دو ہزار سال قبل اپنی ذات کی قسم کھائی ہے۔ میں تیرے اور تیرے خاندان کے دوستوں کو جہنم کا عذاب نہیں دوں گا۔
۵۸ ۔ آسمان سے مائدہ طلب کرتے ہوئے
ابن عباس نے ایک طویل حدیث میں روایت کی ہے۔
ایک دن نبی اکرم حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لائے تودیکھا کہ آپ کا چہرہ زرد ہے۔ آنحضرت(ص) نے سبب دریافت کیا تو عرض کیا کہ تین دنوں سے کوئی غذا نہیں کھائی۔ اس وقت ایک کمرے میں گئیں اور جائے نماز بچھائی اور دو رکعت نماز ادا فرمائی اور ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو آسمان کی طرف بلند کیا، اور عرض کیا۔
اے پروردگار ، اے میرے مولا، یہ آپ کے نبی محمد ہیں اور یہ علی آپ کے نبی کے چچا زاد بھائی ہیں یہ حسن اور حسین ہیں جو آپ کے نبی کے نواسے ہیں۔
پروردگار ہم پر مائدہ نازل فرما جس طرح بنی اسرائیل پر نازل فرمایا تھا ان لوگوں نے اسے کھایا اور کفران نعمت کی۔ پیروردگار تو اسے ہم پر نازل فرما ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔
دوسری روایت میں ہے۔
پروردگار بیشک فاطمہ تیرے نبی کی بیٹی بھوک سے پریشان ہے۔ یہ علی تیرے نبی کے چچا زاد بھائی بھوک سے نڈھال ہے۔ پس ہم پر آسمان سے مائدہ نازل فرما۔ جس طرح بنی اسرائیل پر فرمایا تو انہوں نے انکار کیا اور ہم اقرار کرنے والے ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! ابھی جناب زہرا کی دعا ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ بہشت سے ان کے لئے خوان نازل ہوا۔ تا آخر خدمت۔
۵۹ ۔ خدا اور رسول کے غضب سے خدا کی پناہ مانگتے ہوئے
اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں
۶۰ ۔ دوستوں کی کمی سے پناہ مانگتے ہوئے
پروردگار میں دوستوں کی کثرت و فراوانی کے بعد ان کی قلت سے تیری پناہ مانگتی ہوں۔
۶۱ ۔ آپ کی دعا طلب مغفرت کیلئے
جناب فاطمہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ رسول اکرم(ص) نے مجھے بدھ کی رات نماز کی تعلیم فرمائی اور فرمایا جو چھ رکعت نماز اس طرح پڑھے جس کی ہر رکعت میں سورہ الحمد کے ساتھ قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء بغیر حساب۔ تک پڑھے جب نماز سے فارغ ہو تو کہے۔
اے اللہ حضرت محمد کو اس کی اتنی جزا دے جس کا وہ حقدار ہیں تو خداوند عالم اس کے ستر سال کے گناہ معاف فرمائے گا اور بے حساب ثواب عطا کرے گا۔
۶۲ ۔ بیماری کے وقت رحمت الہی طلب کرتے ہوئے
امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے ساٹھ دن بعد بیمار ہوئیں۔ اور بیماری شدت اختیارکر گئی ۔ تو اس وقت یہ دعا مانگی۔
اے زندہ اے ہمیشہ رہنے والے میں تیری رحمت کی پناہ ہوں، پس مجھے پناہ میں لے لو، پروردگار مجھے آگ سے دور رکھ۔ مجھے جنت میں داخل فرما مجھے اپنے پدر بزرگوار محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملحق فرما۔
۶۳ ۔ اپنی وفات کی رات میں طلب رحمت کرتے ہوئے
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے جس رات میں حضرت زہرا رحلت فرماتی ہیں اور اپنے پروردگار کی طرف بلالی لی جاتی ہیں۔ فرمایاآپ پر سلام ہو، اور پھر مجھے کہا، اے میرے چچا زاد جبرئیل سلام کے انداز میں میرے پاس آئے ہیں، یہاں تک کہ ہم نے سنا کہ کہہ رہی تھی اے روحوں کے قبض کرنے والے آپ پر سلام، جلدی سے میری روح قبض کرو، اور مجھے اذیت نہ دو، پھر ہم نے سنا تو کہہ رہی تھیں۔
اے میرے پروردگار، تیری طرف آرہی ہوں نہ کہ جہنم کی طرف پھر آنکھیں بند کرلیں اور ہاتھوں اور پاؤں کو پھیلا دیا، گویا کبھی بھی زندہ نہ تھیں۔
۶۴ ۔ شیعوں کے گناہوں کی بخشش کیلئے
اسماء بنت عمیس سے روایت ہے، کہ میں نے دیکھا، حضرت زہرا بیماری کی حالت میں، رو بقبلہ بیٹھ کر اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر کہہ رہی ہیں، پروردگار میرے مولا و آقا تجھے اپنی برگزیدہ ہستیوں کی قسم دے کے کہتی ہوں، اور اپنے فراق میں اپنی اولاد کے رونے کا واسطہ دیتی ہوں کہ میرے شیعوں کے گناہوں، اور میرے فرزندوں کے شیعوں کے گناہوں سے درگذر فرما۔
۶۵ ۔ اپنے اوپر واقع شدہ مظالم سے تنگ آکر موت کی تمنا کرتے ہوئے فرمایا
پروردگار: زندگی سے تنگ آچکی ہوں، اور میں دنیا والوں سے بیزار ہوچکی ہوں، پس مجھے اپنے والد گرامی سے ملحق فرما۔
۶۶ ۔ اپنی وفات میں تعجیل کیلئے دعا
پروردگار: میری وفات میں جلدی فرما، کیونکہ زندگی میرے لئے تنگ اور مشکل ہو گئی ہے۔
۶۷ ۔ وفات کے وقت
پروردگار: محمد مصطفےٰ اور ان کے مجھ سے اشتیاق اور پیار کے واسطے اورمیرے شوہر علی المرتضےٰ اور ان کے غم کھانے کا واسطہ حسن مجتبیٰ کے مجھ پر گریہ کرنے کا واسطہ،حسین شہید اور ان کے غمگین ہونے کا واسطہ اور میرے فرزندوں اور ان کے مجھ پر حسرت کرنے کا واسطہ کہ پیغمبر اسلام(ص) کی امت کے گناہوں سے درگذر فرما، اور ان پر رحم فرما، اور ان کو داخل بہشت فرما، اور میری بیٹیوں کا واسطہ اور ان کے پرحسرت ہونے کا واسطہ کہ پیغمبر اسلام(ص) کی امت کے گناہگاروں کی مغفرت فرما اور ان پر رحم کر اور ان کو جنت میں داخل فرما، کیونکہ توسب سے بڑا مسئول اور بہترین رحم کرنے والا ہے۔
۶۸ ۔ وقت وفات میں رحمت الہی کے حصول کیلئے
عبداللہ بن حسن، اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہنگام وفات جناب زہرا نے ایک جانب توجہ کرتے ہوئے یوں فرمایا، حضرت جبرئیل پر سلام، رسول خدا پر سلام، اے پروردگار، مجھے اپنے پیغمبر کی ہمراہی نصیب فرما، اے پروردگار تیرے رضوان میں، تیرے جوار میں، اور اپنے پرامن بہشتی گھر میں ساکن قرار دے۔ پھر فرمایا کیا جو میں دیکھ رہی ہوں آپ بھی دیکھ رہے ہیں؟ پوچھا کیا دیکھ رہی ہیں، فرمایا یہ اہل آسمان کے دستے ہیں، یہ جبرئیل اور یہ پیغمبر ہیں جو فرما رہے ہیں اے میری بیٹی آؤ جو کچھ تیرے لئے آگے ہے تیرے لئے بہتر ہے۔
جناب سیدہ کے خطبات
۱ ۔ فدک کے غصب ہونی کے بعد روایت ہے جب ابو بکر، اور عمر نے فدک غصب کر لینے کا فیصلہ کیا، اور یہ خبر جناب زہرا کے پاس پہنچی، تو آپ نے برقعہ سر پر لیا اور اپنی رشتہ دار اور گھرمیں کام کرنے والی خواتین کے ہمراہ اس انداز میں مسجد نبوی کی جانب بڑھیں کہ آپ کا برقعہ زمین پر کھنچا جا رہا تھا اور پیغمبر اسلام(ص) کی طرح چلتی ہوئی ابو بکر کے پاس گئیں جو مہاجرین، و انصار اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان بیٹھے تھے، اس دوران لوگوں اور آپ کے درمیان پردہ لگا دیا گیا، آپ نے دلخراش آہ بھری جس پر لوگ رونے لگے اور مسجد اور محفل میں ہیجان پیدا ہو گیا، کچھ دیر خاموش رہیں، یہاں تک کہ دوبارہ ولوگوں پر سکوت طاری ہوا، تو تب حمد باری تعالیٰ سے اپنے کلام کا آغاز ہو گیا، اور رسول خدا پر درود و سلام بھیجا، دوبارہ رونے کی آوازیں بلند ہوئیں، پھر جب سکوت طاری ہوا تو اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا۔
نعمتیں عطا کرنے پر اس کی حمد وثنا کرتی ہوں، اور الہام کرنے پر اس کی شکر گذار ہوں، مخلوق پر نعمتوں کی کثرت اور وسیع و عریض عطاؤں پر اس کی ثنا گواہوں، ان گنت احسانات جن کو شمار کرنے سے عاجز ہیں اور اجر و ثواب دینے کی حد اور انتہا کہیں زیادہ ہے اور ہمیشہ کے لئے ادراک اور شعور سے وسیع تر ہے اس نے لوگوں کو دعوت دی کہ اس سے زیادہ شکر گذار کریں تاکہ وہ نعمتوں میں اضافہ فرمائے، اور اس طرح نعمتوں میں وسعت سے لوگوں کو اپنی شکر گذاری کی طرف متوجہ کیا اور شکر گذار ہونے پر ان نعمتوں میں دوگنا اضافہ فرمایا۔
اور میں گواہی دیتی ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں، یہ بہت بڑی بات ہے کہ اخلاص کو لوگوں کی عاقبت بخیر ہونے اور دلوں کو اپنے سے ملنے کا ظرف قرار دیا ہے اور تفکر اور سوچنے کے لئے اپنی پہچان کو آسان بنایا، وہ ذات جسے آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہیں، زبانیں اس کی توصیف کرنے سے ناتواں ہیں، خیالات اس کو درک کرنے سے عاجز ہیں۔
بغیر کسی پیشگی چیزوں کے موجودات کو خلق کیا، اور پہلے سے کسی سانچے کی اتباع کیے بغیر موجودات کو پیدا کیا، بلکہ انہیں اپنی قدرت اور ارادے سے وجود بخشا، ان کے بنانے اور پیدا کرنے میں اسے کوئی حاجت نہیں اور نہ ہی اس کیلئے تصویر کشی میں کوئی فائدہ ہے۔ سوائے اس کے کہ اس کی حکمت ثابت ہوجائے اور اس کی اطاعت پر آگاہی ہوجائے اور اپنی قدرت پر اظہار کے لئے اور اپنی عبودیت سے آگاہی اور اپنی دعوت کو گرامی بنانے کے لئے پھر اپنی اطاعت کرنے پر ثواب اور معصیت انجام دینے پر عذاب مقرر کیا تاکہ بندوں کو پستیوں سے محفوظ بنا کر بہشت کی جانب رہنمائی کرے۔
اور میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے باپ حضرت محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ ان کو بھیجنے سے پہلے منتخب کیا اور انتخاب سے پہلے نام پیغمبر ہی رکھا، اور مبعوث کرنے سے پہلے چن لیا، انہیں اس وقت چنا جب مخلوقات پردہ غیب میں تھیں، انتہائی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھیں، بلکہ عدم نیستی کی سرحد پر کھڑی تھیں، اس کے کاموں کے انجام سے آگاہی کی خاطر اور حادثات زمانہ پر محیط ہونے کی وجہ سے قضا و قدر کے واقع ہونے پر مکمل پہچان کیلئے حضرت محمد کوبھیجا تاکہ اس کا امر کامل، حکم قطعی اور فضا و قدر عملی صورت پیدا کریں، انہوں نے مختلف امتوں کو دیکھا جو ادیان کی پیروکار تھیں، کچھ آتش پرست تھیں اور کچھ تراشے گئے بتوں کی پرستش کرنے والی تھیں جبکہ خداوند قدوس کی طرف سے فطرت میں رکھی گئی شناخت کے باوجود اس کے منکر تھے۔
پس میرے باپ حضرت محمد کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ نے تاریکیوں کوروشن کیا اور دلوں سے مشکلات کو برطرف کیا، اور دیدار کرنے والوں کی نگاہوں سے پردے اٹھادیئے، اور انہوں نے ہدایت کے لئے لوگوں میں قیام کیا، اور انہیں گمراہی سے رہائی عطا کی۔ اور لوگوں کوبینائی عطا کی، اور انہیں دین پر مضبوطی اور محکم انداز میں کھڑے رہنے کی راہنمائی کی اور راہ راست کی طرف دعوت دی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی جانب بلا لیا۔ البتہ یہ بلانا ازروئے مہربانی آزادی اور ذاتی رغبت اور میلان سے تھا،پس حضرت محمد اس دنیا کے رنج والم سے نجات پا گئے جبکہ پاکیزہ فرشتوں نے اطراف سے انہیں گھیر رکھا ہے اور بخشش والے پروردگار کی خوشنودی ان کے شامل حال ہے اور جوار رحمت حق میں داخل ہوئے ہیں پس میرے باپ پر خدا کے درود و سلام ہوں۔ ان پر سلام، اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔
پھر حضرت زہرا لوگوں کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا۔
اے بندگان خدا ہم اس کے امر و نہی کے علمبردار ہیں اور اس کے دین اور وحی کے حامل اور ایک دوسرے پر خدا کے امین ہیں اور دوسری امتوں کے لئے اس کے مبلغ ہیں حق کا رہنما آپ کے درمیان تھا اور وہ عہد جو سب سے پہلے آپ نے باندھا تھا اس میں سے کچھ باقی ہے جو آپ نے انجام دینا ہے اور سچا قرآن جو کتاب ناطق خدا ہے، جو واضح نور اور روشن چراغ ہے، اس کا بیان اور اس کی دلیلیں روشن اور اس کے اسرار باطنی آشکار اور اسکے ظاہر بہت واضح ہیں۔ اس پر عمل کرنے والے دوسروں کے لئے قابل رشک اور حضرت محمد کا اتباع خوشنودی الہی کا سبب بنتا ہے اس کے فرامین کی سماعت راہ نجات ہے۔
اسی کے ذریعے سے اللہ کی نورانی دلیلوں کو، اور بیان کردہ واجبات کو ادا کیا اور محرمات سے بچا جا سکتا ہے اور مزید بڑی واضح گواہیوں اور کفالت کرنے والے براہین کو، اور پسندیدہ فضائل کو، بخشے گئے امور اور واجب قوانین کو پایا جاسکتا ہے۔
پس خدائے عزوجل نے ایمان کو شرک سے پاکیزگی کا سبب، اور تکبر سے بچنے کے لئے نماز، اور تزکیہ نفس اور فراوانی رزق کے لئے زکوٰة، تثبیت اخلاص کے لئے روزہ، اور دین حنیف اسلام کے استحکام کے لئے حج، اور دلوں کے مرہم کے لئے عدالت اور ملتوں کی تنظیم سازی کے لئے ہمارے خاندان کی اطاعت اور تفرقہ سے رہائی کے لئے ہماری امامت اور جہاد کو عزت اسلام کے لئے اور صبر کو اجر و ثواب کے لئے مدد کے طور پر قرار دیاہے۔
اور امر بالمعروف کو معاشرہ کی مصلحت کے لئے قرار دیا، اور والدین سے اچھے انداز میں پیش آنے کو غضب الہی سے نجات کا ذریعہ بنایا، صلہ رحمی، درازی عمر اور کثرت اولاد کا سبب ہے جبکہ قصاص سے زندگیوں کی حفاظت فرمائی، منت و نذر کی بجا آوری مغفرت الہی کا ذریعہ ہے، اور ناپ تول کے اوزاروں کو کم فروشی سے بچنے کے لئے قرار دیا ہے۔
شراب خوری سے بچنے کو پلیدی سے پاکیزگی کا ذریعہ قرار دیا اور کسی طرف ناروا نسبت نہ دینا تعصب سے بچنے کا سبب ہے، جبکہ چوری نہ کرنے کو پاک دامنی کا ذریعہ قرار دیا ہے اور شرک کو حرام قرار دیا تاکہ توحید پرستی خالص ہو۔
پس جس طرح ڈرنے کا حق ہے اللہ سے ڈرو، اور دنیا سے مسلمان ہو کر مرو اور خدائے کریم نے جن چیزوں کا حکم دیا اور جن چیزوں سے اللہ نے روکا ہے ایسے ہی اطاعت کرو، سوائے اس کے کہ فقط علماء ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ پھر کہا۔
اے لوگو !جان لو کہ میں فاطمہ ہوں اور میرے باپ حضرت محمد ہیں۔ جو چیز ابتدا میں بیان کروں گی آخر میں بھی وہی کہوں گی۔ میں نے غلط نہیں کہا تھا میں نے کوئی ظلم نہیں کیا آپ کے درمیان سے پیغمبر مبعوث ہوئے۔ آپ کے رنج ان پر گراں ہوئے وہ آپ سے دلسوز تھے اور وہ مومنین پر مہربان اور لطف کرنے والے تھے۔
پس اگر ان کو جانتے ہو تو جان لو کہ وہ تمہاری عورتوں میں سے فقط میرے باپ ہیں اور اور تمہارے مردوں میں سے صرف میرے شوہر کے چچا زاد بھائی ہیں، یہ کتنی اچھی تکریم اور عزت ہے کہ میں ان سے نسبت رکھتی ہوں۔ انہوں نے اپنی رسالت کا آغاز ڈرانے سے کیا، اور مشرکین سے دوری اختیار کی اور ان کے سروں پر تلوار چلائی اور ان کو گردن سے پکڑا اور حکمت اور موعظ حسنہ سے اپنے پروردگار کی طرف دعوت دی۔ بتوں کو نابود کیا، کینہ سے کام لینے والوں کے سر کچل دیئے، یہاں تک کہ ان کی جمعیت پرگندہ ہو کر میدان سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئی۔
پھر رات کے پردوں سے صبح کی روشنی نمودار ہوئی اور حق کے چہرے پر پڑی نقاب کھینچ لی گئی پھر حکومت اسلامی کے سربراہ سخن طراز ہوئے جبکہ شیاطین کی فریادیں دب کر رہ گئیں۔ منافقت کے کانٹے راست سے ہٹا دیئے گئے، کفر و الحاد کی گرہیں کھل گئیں، اور آپ کے منہ کلمہ اخلاص سے گنگنا اٹھے۔ ایسے گروہ کہ جن کے چہرے روشن اور شکم پشت کے ساتھ لگے تھے۔
آپ لوگ بڑھکتی ہوئی آگ کے گھڑے سے بہت قریب تھے اور تعداد میں ایک گھونٹ کی مانند تھے اور بیرونی خطروں کی زد میں تھے، آپ آگ کی اس چنگاری کی طرح تھے جو فوراً بجھ جاتی ہے، گذرنے والوں کے قدموں میں کچلے جارہے تھے، اونٹوں کے آلودہ کئے ہوئے پانی کو پیتے تھے، درختوں کے پتوں کو بطور غذا استعمال کرتے تھے تم ذلیل و خوار مسترد شدہ لوگ تھے تم ڈرتے تھے کہ اطراف کے لوگ تمہیں اپنا غلام نہ بنا لیں۔ جب تم بھیڑیا نما عربوں اور اہل کتاب کے سرکشوں سے حزیمت اٹھا چکے تو تب اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات میں حضرت محمد کے ذریعے سے نجات دی۔
جب کبھی وہ جنگ کی آگ بھڑکاتے اللہ تعالیٰ خاموش کردیتا، یا جب بھی شیطان نے سر اٹھایا یا مشرکین کے اژدھاؤں نے منہ کھولے تو پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے بھائی کو آگے کیا۔ اور وہ بھی جب تک ان کے سر زمین پر نہ پٹختے، اور اپنی تلوار سے ان کی آگ گل نہ کردیتے واپس نہ آتے، وہ راہ خدا میں ہمیشہ کام کرنے والے، اور اس کے امور میں کوشش کرنے والے، پیغمبر اسلام(ص) کے قریبی اولیاء کے سردار، ہمہ وقت آمادہ ، نصیحت کرنے والے، محنت کرنے والے، جدوجہد کرنے والے اور راہ خدامیں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرنے والے ہیں۔
یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب تم پر سکون زندگی گذار رہے تھے، امن کے گہوارے میں نعمتوں سے محفوظ ہو رہے تھے، اس انتظار میں رہتے تھے کہ مشکلات تمہیں اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں، تم ہر روز نئی خبر سننے کے چکر میں رہتے تھے اور جنگ کے وقت منہ موڑ لیتے تھے، اور میدان جنگ سے فرار اختیار کر لیتے تھے، پھر جب اللہ نے اپنے پیغمبر کیلئے انبیاء کاگھر اور اوصیاء کی آرام گاہ منتخب کرلی، تو تم میں نفاق کی علامتیں ظاہر ہونا شروع ہو گئیں، اور دین کالباس کہنہ نظر آنے لگا، اور گمراہوں کی خاموشیاں ٹوٹ گئیں، کمینے لوگ عزت دار بنے اور اہل باطل کا نازوں پلا اونٹ تمہارے دروازں تک پہنچ گیا، اور شیطان نے کمین گاہ سے اپنا سر باہر نکال کر تمہیں دعوت دی جب اس نے دیکھا کہ اس کی دعوت پر مثبت جواب دینے والے ہو، اور دھوکہ کھانے کیلئے آمادہ ہو تو اس وقت اس نے آپ سے چاہا کہ قیام کرو، ور جب دیکھا کہ آپ آسانی سے یہ کام انجام دینگے، تو آپ کو غصے میں لے آیا، اور جب دیکھا کہ آپ غضبناک ہیں تو آپ نے غیروں کے اونٹوں پر پلان لگائے اور ایسے پانی میں داخل ہوئے جو آپ کا حصہ نہ تھا۔
یہ سب کچھ ماضی قریب کی باتیں ہیں، اور ابھی تک زخموں کے نشان واضح تھے اور زخم بھرے نہیں تھے اورپیغمبر اسلام(ص) دفن نہیں ہوئے تھے، تم نے بہانہ کیا کہ فتنہ سے ڈرتے ہو، آگاہ رہو کہ اب فتنہ میں پڑے ہو، حقیقت ہے کہ جہنم نے کافروں کا احاطہ کر رکھا ہے۔
تم سے یہ کام بعید تھا کس طرح یہ کام انجام دیا، کہاں جارہے ہو حالانکہ کتاب خدا تمہارے پاس ہے، جس کے امور روشن، اور احکام واضح، اور ہدایت کی علامتیں ظاہر اور محرمات ہویدا اور اس کے امور اظہر من الشمس ہیں، لیکن اس کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا، بغیر توجہ کیے اس کو پڑھتے ہو، یا بغیر قرآن کے حکم کرتے ہو؟ اور یہ ظالموں کے لئے بہت برا بدلہ ہے، اور اگرکوئی اسلام کے علاوہ دین کو چاہتا ہو تو وہ اسے قابل قبول نہیں ہے، اور ایسے لوگ قیامت میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔
پھر تم نے اتنا بھی خیال نہیں کیا کہ یہ پریشان دل آرام پاجائے، تاکہ ان کا نکالنا آسان ہوجائے بلکہ تم نے بھی جلتی آگ پرتیل چھڑکا، آگ کے قریب ہو گئے تاکہ اس کو مزید بھڑکا سکو، اور شیطان کی آواز پر لبیک کہنے کیلئے تیار، اور خدا کے دین کے نور کو خاموش کرنے کے لئے اور برگزدیدہ پیغمبر کی سنتوں کو تباہ کرنے کیلئے آمادہ تھے، کف شیر پینے کے بہانے زیر لب چھپ کر پیتے ہو، اور پیغمبر اسلام(ص) کے خاندان اور بیٹوں کیلئے ٹیلے کے پیچھے اور درختوں میں کمین لگا کر راہ چل رہے تھے، اب ہمیں چاہیے کہ خنجر سے کٹے ہوئے کی طرح اورپیٹ میں لگے نیزے کے ساتھ، صبر کریں۔
اب تم گمان کرتے ہو کہ ہمارے لئے کوئی وراثت نہیں ہے کیا جاہلیت کے طریقوں کے خواہش مندہو؟ اہل یقین کے لئے خدا کے حکم سے بڑھ کر کیا حکم ہے، کیاتم نہیں جانتے؟ حالانکہ آپ کیلئے اظہر من الشمن ہے کہ میں ان کی بیٹی ہوں۔
اے مسلمانو!کیا یہ درست ہے کہ مجھ سے اپنے باپ کی میراث چھین لیں، اے ابی قحافہ کے بیٹے کیا کتاب خدا میں ہے کہ تم تو اپنے باپ سے وراثت لو لیکن میں اپنے باپ کی وراثت سے محروم کردی جاؤں؟ نئی بات اور بڑی گھٹیا چیز لائے ہو، کیا شعوری طور پر کتاب خدا کو ترک کرکے پس پشت نہیں ڈال رہے ہو، کیا قرآن نہیں کہتا کہ حضرت سلیمان نے حضرت داؤد سے وراثت پائی اور حضرت زکریا کے واقعہ میں جب انہوں نے کہا، پروردگار!مجھے فرزند عطا فرما جو مجھ سے اور خاندان یعقوب سے وراثت پائے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ قرابت دار اور دوسروں سے زیادہ حق دار ہیں اور اولیت رکھتے ہیں۔ (الاحزاب ۶)
ارشاد خداوندی ہے اللہ آپ کو وصیت کرتا ہے کہ بیٹوں کو بیٹی سے دوگنا دو۔ (النساء: ۱۱)
مزید ارشاد ہے اگر تم سے کوئی مال چھوڑ کر مرے تو تم پر لازم ہے کہ اپنے والدین اور رشتے داروں کیلئے وصیت کرو اور یہ حکم ہے پرہیزگاروں کیلئے۔ (البقرہ : ۱۸۰)
اور آپ گمان کرتے ہیں کہ میرے لئے کوئی حصہ نہیں اور باپ کی میراث سے کوئی حق نہیں رکھتی، کیا خداوند عالم نے کوئی آیت نازل کی ہے جس سے میرے باپ کو خارج کردیا گیا ہے؟ تم یہ کہتے ہو کہ دو الگ الگ ادیان والے ایک دوسرے سے ارث نہیں لے سکتے؟ کیا مجھے اور میرے باپ کو ایک دین پر نہیں سمجھتے، یا میرے باپ اور میرے چچا کے بیٹے سے زیادہ قرآن کے عام و خاص سے واقف ہو؟ تم یہ مہار زدہ پلان والا اونٹ پکڑو اور لے چلو، روز حساب تم سے ملاقات کروں گی۔
خداوند کریم کیا اچھا داورہے اور اچھے فریاد رس حضرت محمد ہیں اور قیامت کتنی اچھی وعدہ گاہ ہے، اس گھڑی میں اور اس دن میں اہل باطن ہی نقصان اٹھانے والے ہیں، تو اس وقت کی پشیمانی تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی، ہر بات کا اپنا محل ہوتا ہے، پس ضرور جان لو گے کہ ذلیل و خوار کرنے والا عذاب اور ہمیشہ رہنے والا عذاب کس کے شامل حال ہوتا ہے۔
پھر انصار کی طرف رخ کرکے یوں ارشاد فرمایا اے نقیبوں کے گروہ اور ملت کے دست و بازوو اے اسلام کے محافظو، میرے حق کے بارے میں یوں کمزوری اور غفلت اور میری داد رسی کرنے میں اس طرح سہل انگاری سے کیوں کام لے رہے ہو؟ کیا میرے باپ حضرت محمد نے فرمایا نہیں ہے کہ ہر ایک کا احترام اس کے فرزندوں سے محفوظ ہوتا ہے کتنی جلدی ان اعمال کے مرتکب ہوئے ہو، اور کتنی جلدی اس لاغر بکرے کے منہ اور دماغ سے پانی بہہ گیا، جبکہ تمہارے پاس میری مدد کرنے کی قوت اور طاقت ہے۔
اب تم کہتے ہو کہ محمد وفات پا چکے ہیں، یہ بہت بڑی اور بہت زیادہ مصیبت ہے اس کا شگاف بہت گہرا ہے اور اس کے سلے ہوئے دھاگے پھٹ گئے ہیں اور زمین اس کی غیبت میں تاریک ہو گئی ہے سورج اور چاند گھنا گئے ہیں اور ستارے بکھر چکے ہیں اور آرزوئیں ناامیدی میں بدل گئی ہیں اور پہاڑوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی ہے حرمتیں پائمال ہو گئی ہیں اور ان کی وفات کے بعد کسی کیلئے احترام باقی نہیں رہا۔
خدا کی قسم یہ مصیبت بہت زیادہ اور بہت بڑی آفت ہے کہ آج تک اس جیسی مصیبت نہ تھی اوردنیا میں کوئی بھی آفت اس کے برابر نہیں ہے۔ کتاب خدا نے اس کو آشکار کیا ہے ، وہ کتاب خدا جسے اپنے گھروں میں اپنی شب و روز کی محفلوں میں آہستہ اور بلند آواز میں تلاوت اور ہمہمے کے ساتھ پڑھتے ہو۔ یہ ایسی بلا اور مصیبت ہے جو انبیاء ما سلف اور رسولوں پر گذر چکی ہے یہ ایک حتمی حکم ہے اور قضاء قطعی ہے، ارشاد خداوندی ہے۔
اور محمد فقط رسول ہیں، ان سے پہلے بھی پیغمبر گذر چکے ہیں، پس اگر وہ وفات پاجائیں یا قتل ہوجائیں تو واپس پلٹ جاؤ گے اور جو واپس لوٹ جائے خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور خدا کا شکر کرنے والوں کو اجر اور صلہ دے گا۔ (آل عمران: ۱۴۴)
اے قبلہ کے فرزندو یعنی گروہ انصار، کیا میں اپنے والد کی میراث کے حوالے سے ظلم برداشت کروں جبکہ تم مجھے دیکھ رہے ہو او میری باتیں سن رہے ہو۔ تم ایک انجمن اور جماعت رکھتے ہو میری دعوت کی آواز سب نے سنی، اور میرے حالات سے آگاہی بھی رکھتے ہو اور پھر تمہاری افرادی قوت اور اجتماعی حیثیت بھی ہے، وسائل اور طاقت بھی رکھتے ہو۔ تمہارے پاس اسلحہ، ذرہ اور ڈھال بھی ہے، میری دعوت کی آواز تم تک پہنچ رہی ہے، لیکن تم جواب نہیں دے رہے، میری حق طلبی کی داد وفریاد کو سن رہے ہو، لیکن میری فریاد رسی نہیں کر رہے جبکہ تم شجاع اور معروف بہادر ہو اور اچھائی سے تمہیں یاد کیا جاتا ہے، تم برگزیدہ تھے جو انتخاب ہوئے اور تم ہمارے اہل بیت کیلئے منتخب ہوئے ہو۔
عرب سے جنگ و جدال میں تم نے مصیبتیں اور سختیاں برداشت کی ہیں، امتوں سے جنگیں کی ہیں ،اور پہلوانوں سے مقابلہ کیلئے اٹھے ہو، ہم ہمیشہ فرماں روا تھے اور تم فرمانبردار، یہاں تک اسلام کی چکی گھومنے لگی اور روزمرہ کے حالات درست ہونا شروع ہوئے، اور شرک آمیز نعرے خاموش ہوئے، اور طمع اور تہمت کی دیگیں ٹھنڈی ہوئیں، اور ہرج و مرج اور بد نظمی کی دعوتیں آرام پا گئیں اور پھردین کانظام مکمل طور پر مربوط ہو گیا، پھر کیوں اپنے اقرار کے بعد اپنے ایمان میں حیران و پریشان ہوئے ہو، اور ظاہر ہونے کے بعد خود کو کیوں مخفی کرتے ہو، اور پیش قدمی کے بعد پیچھے کیوں ہٹتے ہو، اور ایمان کے بعد شرک کرتے ہو؟
افسوس ایسے گروہ پر جو قول دینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پیغمبر کو عملی میدان سے باہر کردیں، اسی لئے انہوں نے جنگ کا آغاز کیا، کیا تم ان سے ڈرتے ہو حالانکہ خدا سزاوار ہے کہ اس سے ڈرو اگر مومن ہو تو۔
آگاہ رہو میں دیکھ رہی ہوں کہ ہمیشہ رہنے والی تن آسانی سے دل لگا رکھا ہے اورجو سربراہی کا حق دار تھا اس کو دور کر رکھا ہے، راحت طلبی کے عادی ہوگئے ہو۔ زندگی کی تلخیوں سے گذر کر آسائشوں تک پہنچ گئے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جس کو یاد کیا تھا بھلا دیا ہے جن کو بھلا دیا ہے ان کو پھر سے یاد کیا ہے (یعنی ایمان کو بھلایا اور شرک کو یاد کیا ہے) پس جان لو کہ اگر تم اور تمام اہل زمین کافر بھی ہوجائیں تو پھر بھی خدائے بزرگ سب سے بے نیاز ہے۔
آگاہ رہو جو کچھ کہا مکمل آگاہی سے کہا تمہارے اخلاق میں سستی پیدا ہو گئی ہے، تمہارے دلوں میں بے فائی اور دھوکہ پیدا ہو گیا ہے، لیکن یہ سب کچھ غمگین دل کا ابال اور غم و غصہ کا ہلکا کرتا ہے اور جو چیز میرے لئے قابل تحمل نہیں ہے، وہ میرے سینے کا ابال اور دلیل برہان کا بیان ہے، پس خلافت کو لے لو،لیکن جان لوکہ اس شتر خلافت کی پشت پر زخم ہے اور اس کے پاؤں میں سوراخ ہے، جلد آبلہ دار ہے، جس پر ننگ و عار کے نشان باقی ہیں اور غضب خدا اور ہمیشہ کی بدنامی نمایں ہیں۔ جہنم کی آگ کے شعلوں سے جو دلوں پر احاطہ کئے ہیں متصل ہے۔
جو کچھ کرو گے وہ اللہ شانہ کے سامنے ہے اور جنہوں نے ستم کئے ہیں بہت جلد جان جائیں گے۔ کہ کس عدالت میں بلا لئے گئے ہیں اور میں اس کی بیٹی ہوں جس نے تمہیں دردناک عذاب کی خبر دی، پس اب جو چاہتے ہو انجام دو اور ہم بھی اپنا کام کرتے ہیں تم بھی منتظر رہو اور ہم بھی انتظار میں ہیں۔ پھر ابو بکر جواب دیتے ہیں۔
اے دختر رسول آپ کے باپ مومنین پر مہربان اورکرم کرنے والے شفیق اور رحیم تھے، اور کافروں کیلئے دردناک عذاب اور عقاب تھے، اگر نبی کو رشتوں کے حوالے سے دیکھیں تو وہ ہماری عورتوں میں آپ کے باپ، اور مردوں اور دوستوں میں آپ کے شوہر کے بھائی تھے، جس کی وجہ سے وہ ہم سب سے برتری رکھتے ہیں اور وہ بھی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ ہر بڑے کام میں شریک رہے ہیں، آپ کو دوست نہیں رکھتے مگر نیک لوگ، اور دشمن نہیں رکھتے مگر بدکار لوگ۔
پس آپ خاندان پیغمبر ہیں پاک اور برگزیدہ ہیں اور ہمیں بھلائی کی طرف اور بہشت کی طرف راہنمائی فرماتی ہیں اور آپ تمام عورتوں سے اور تمام انبیاء کی بیٹیوں سے افضل ہیں پیغمبر اپنے کردار و گفتار میں سچے اور دانائی میں بہت آگے تھے اور آپ کو آپ کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گا اور آپ کی سچی باتوں سے کوئی مانع نہیں ہے۔
خدا کی قسم، ہم پیغمبر اسلام(ص) کی رائے سے ایک قدم بھی آگے نہیں گئے اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی اقدام نہیں کیا، اور قوم کا حاکم ان سے جھوٹ نہیں بولتا اور میں خدا کوگواہ قرار دیتا ہوں اور جو بہترین گواہ ہے، میں نے پیغمبر اسلام(ص) سے سنا ہے جو فرما رہے تھے۔
ہم گروہ پیغمبر دینار و درہم اورگھر اور زمین ارث کے طور پر نہیں چھوڑتے، فقط کتاب، حکمت، علم اور نبوت کو وراثت کے طور پر چھوڑتے ہیں اور جو چیز ہم سے باقی رہ جائے ہم سے بعد والے ولی امر کے اختیار میں ہے۔ جسے وہ جس طرح چاہے انجام دے۔
اور ہم چاہتے ہیں کہ گھوڑے اور اسلحہ خریدیں تاکہ مسلمان خود کو آمادہ کرکے کفار سے جہاد کریں اور بدکار سرکشوں سے مقابلہ کریں اور یہ فیصلہ تمام مسلمانوں کی مرضی اور اتفاق رائے سے ہوا اور میں نے الگ سے یہ فیصلہ نہیں کیا اور اپنی شخصی رائے پر عمل نہیں کیا، اب یہ میرا حال ہے اور یہ میرا مال ہے، جو آپ کیلئے اور آپ کے اختیار میں ہے، آپ سے کسی چیز سے دریغ نہیں کیا، اور آپ کا حق کسی اور کو نہیں دیا گیا اور آپ اپنے باپ کی امت کی عورتوں کی سردار ہیں، اور اپنی اولاد کیلئے پاکیزہ ثمرآور درخت ہیں، آپ کے فضائل سے انکار نہیں کیا اور آپ کی بنیادوں اور شاخوں سے چشم پوشی نہیں برتی گئی، جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں آپ کا حکم نافذ ہے، کیا آپ پسند کرتی ہیں کہ آپ کے باپ کی فرمائش کے مطابق عمل نہ کروں؟
جناب فاطمہ نے فرمایا۔
اللہ تعالیٰ پاک ومنزہ ہے، میرے باپ نے کتاب خدا سے منہ نہیں موڑا اور اس کے احکام کی مخالفت نہیں کی، بلکہ وہ اس کے پیروکار اور اس کی آیات پر عمل کرتے تھے، کیا چاہتے ہو کہ دھوکہ اور مکرو فریب سے جبراً ان کو ان کی وفات کے بعد ایسے لگتا ہے کہ یہ چال ان کی زندگی میں ہی تیار کر لی گئی تھی، یہ کتاب خدا ہے جو ایک عادل حاکم ہے اور بولنے والا حق و باطل کے درمیان جدائی ڈالنے والا ہے، جو فرما رہا ہے۔
ارشاد رب العزت ہے۔ پروردگار!مجھے فرزند دے جو مجھ سے اور یعقوب کے خاندان سے وارث قرار پائے۔ حضرت سلیمان نے حضرت داؤد سے وراثت پائی۔ خداوند کریم نے جو حصے مقرر کیے ہیں اور جو مقدار میراث میں معین فرمائی ہے اور مردوں اور عورتوں کے لئے حصے قرار دیئے ہیں سب کچھ واضح طور پر بیان فرمادیئے ہیں۔ لہذا اہل باطل کے بہانوں اور وہم و گمان کو روز قیامت تک زائل کردیا ہے، اس طرح نہیں ہے کہ بلکہ تمہاری خواہشات نفسانیہ نے تمہیں ایک راہ پر لگا دیا ہے اور مجھے صبر زیبا کے علاوہ چارہ بھی نہیں ہے، اور جو کچھ تم ہمارے ساتھ کر رہے ہو۔ اس میں خدا ہمارا مددگار ہے۔
ابوبکرنے کہا، خدا اور اس کے رسول نے سچ کہاہے اور ان کی بیٹی بھی جو حکمت کی کان اور ہدایت و رحمت کی جگہ اور دین کا رکن اور حجت و دلیل کا سرچشمہ ہیں، سچ فرما رہی ہیں اور آپ کی حق بات کو دور نہیں پھینکا، اور آپ کے ارشادات سے انکار نہیں کیا، یہ مسلمان میرے اور آپ کے درمیان منصف ہیں، انہوں نے یہ حکومت اور خلافت مجھے دی ہے، ان کے فیصلے کے مطابق میں نے یہ منصب قبول کیا ہے ، میں نہ متکبر ہوں اور نہ ہی اپنی رائے ٹھونس رہا ہوں اور نہ کسی چیز کو اپنے لئے اٹھایا ہے، یہ سب لوگ گواہ ہیں۔
پھر جناب زہرا نے عورتوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا
اے مسلمانو!بے ہودہ باتیں سننے کیلئے بڑے بے قرار ہو، جبکہ پست اور گھٹیا کردار سے چشم پوشی کر رہے ہو، کیا قرآن میں غور و خوض نہیں کرتے یا دلوں پر مہریں لگادی گئی ہیں، یہ ایسے نہیں ہے بلکہ تمہارے برے اعمال نے تمہارے دلوں پر پردہ ڈال رکھا ہے، جس نے تمہارے کانوں اور آنکھوں کو گھیر رکھا ہے، اور بہت برے انداز میں آیات قرآن کی تاویل کرتے ہو اس کو بری راہ دکھائی ہے اور بری چیز کا معاوضہ کیا ہے؟ خدا کی قسم اس کا وزن اٹھانا تمہارے لئے سنگین ہوگا اور اس کا انجام اور بوجھ تمہارے لئے وبال جان ہے۔ جب صحاب ہٹائے جائیں گے تو اس کے نقصانات واضح ہوں گے اور جس کی توقع نہیں رکھتے تمہارے لئے آشکار ہو گئی، وہ ایسی جگہ ہے جہاں اہل باطل نقصان اٹھانے والے ہیں۔
پھر جناب سیدہ پیغمبر اسلام(ص) کی قبر کی طرف متوجہ ہوئیں اور چند اشعار فرمائے جن کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
آپ کے بعد ایسے ایسے مسائل پیدا ہوئے کہ اگر آپ ہوتے تو اتنے بڑے دکھائی نہ دیتے۔
ہم آپ کے بعد گویا بارش سے محروم زمین کی طرح ہیں اور آپ کی امت متفرق ہو گئی ہے آئیں اور دیکھیں کہ کس طرح منحرف ہو گئی ہے۔
ہر وہ خاندان جو بارگاہ احدیت میں عزیز و محترم ہو وہ دوسروں کے نزدیک بھی محترم و مکرم ہوتا ہے سوائے ہمارے۔
آپ کی امت سے چند لوگوں نے آپ کے جاتے ہی اور تدفین کے بعد سینے اندر چھپے رازوں کو آشکار کر دیا ہے۔
آپ کے جانے بعد مزید لوگوں نے ہم سے منہ موڑ لیا ہے، اور ہمیں اہمیت نہیں دی اور ہماری میراث چھین لی ہے۔
آپ چودہویں کے چاند اور نور پھیلانے والے چراغ تھے، خدا کی جانب سے آپ پر کتاب نازل ہوتی تھی۔
حضرت جبرئیل آیات الہی کے ساتھ ہمارے مونس تھے، اور آپ کے جانے کے بعد تمام اچھائیاں بھی پوشیدہ ہو گئیں۔
اے کاش ہم آپ سے پہلے مر چکے ہوتے آپ کو تو مٹی نے اپنے اندر چھپا لیا ہے۔
پھر حضرت زہرا اپنے گھر لوٹ آئیں، حضرت امام علی ان کے انتظار میں تھے جناب سیدہ جب گھر آکر ذرا پرسکون ہوئیں تو فرمانے لگیں۔ اے ابو طالب کے بیٹے، جس طرح جنین ماں کے پیٹ میں چھپ جاتا ہے چھپ گئے ہو اور تہمتوں کی کثرت کی وجہ سے زمین گیر ہوگئے ہو۔ ہاں! شاہیں کے پر ٹوٹ گئے جبکہ چھوٹے پر بھی آپ کے ساتھ پرواز کے دوران خیانت کریں گے۔ یہ پسرابی قصافہ ہے، جس نے میرے باپ کا ہدیہ اور میرے دو بچوں کی زندگی کا تمام سرمایہ مجھ سے چھین لیا ہے، واضح طور پر مجھ سے دشمنی کی ہے، گفتگو کے دوران میں اس کو بہت جھگڑالو پایاہے، انصار نے میری حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا جبکہ مہاجرین نے بھی میری مدد نہیں کی اور لوگوں نے بھی میری مدد سے چشم پوشی کی ہے، نہ کوئی دفاع کرنے والا رکھتی ہوں اور نہ کوئی ایسا آدمی جوان کو یہ کام کرنے سے روکے، میں اس حال میں گھر سے نکلی کہ بہت پریشان تھی اور یونہی خالی ہاتھ واپس آگئی۔
جس دن سے آپ نے اپنی تلوار زمین پر رکھی اس دن سے خود کو خانہ نشین کر لیا ہے، آپ وہ بہادر تھے جو گیدڑوں کو قتل کرتے تھے، لیکن آج زمین پر آرام کر رہے ہیں، مجھ سے بولنے والے کو کوئی جواب نہیں دیا اور باطل کو بھی مجھ سے دور نہیں کیا جبکہ میں خود سے اختیار نہیں رکھتی، کاش اس کام سے پہلے اور اس طرح ذلیل و خوار ہونے سے قبل ہی مر چکی ہوتی، یہ جو اس طرح گفتگو کر رہی ہوں۔ پروردگار مغفرت چاہتی ہوں جبکہ مدد اور کمک آپ کی جانب سے ہے۔
اس کے بعد ہر صبح و شام میں مجھ پر افسوس ہو، میری پناہ دنیا سے چلی گئی ہے اور میرے بازو بے سکت ہوگئے ہیں، میری شکایت اپنے باپ سے تھی اور خدا سے مدد کی طلب گار ہوں۔
اے پروردگار: تیری قدرت اور توانائی سب سے بڑھ کر تیرا عقاب اور عذاب دردناک ہے۔
پھر حضرت امام علی نے فرمایا۔
افسوس آپ کے لئے نہیں، بلک آپ کا سمتگار دشمن افسوس کا حقدار ہے اے خدا کی برگزیدہ اورنبوت کی نشانی، ظلم اور پریشانی سے چشم پوشی فرمائیں، میں اپنے دین میں سست نہیں ہوا، اور جو کچھ میری طاقت میں ہے اس میں دریغ نہیں برتوں گا، اگر آپ روزی اور رزق سے پریشان ہیں، تو جان لو کہ روزی خدا کے پاس محفوظ ہے اور وہ بہترین امین ہے، جو چیز آپ سے لی گئی ہے اس سے جو چیز آگے آپ کیلئے تیار ہے وہ اس سے بہتر ہے۔ پس خدا کیلئے صبر کریں۔
پھر حضرت زہرا نے کہا ،میرے لئے خدا کافی ہے، پھر خاموش ہوگئیں۔
۲ ۔ مہاجرین و انصار کی خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب
سوید بن غفلہ کہتے ہیں۔ جب جناب فاطمہ بیمار ہوئیں اور اسی بیماری میں دنیا سے کُوچ کرگئیں‘ مہاجرین و انصار کی عورتیں آپ کی عیادت کیلئے آئیں اور کہنے لگیں اے دختر پیغمبر آپ کی حالت کیسی ہے تو حضرت زہرا نے حمد باری تعالیٰ بجا لائی، پھر اپنے باپ پر درود بھیجا اور کہا خدا کی قسم اس حال میں صبح کی ہے کہ تمہاری دنیا سے کوئی سروکار نہیں اور تمہارے مردوں سے ناراض ہوں، ان کو خود سے دور کردیا اور ان کو پہچان لینے کے بعد ان سے ناراض ہوں، پس کس قدر پست ہے تلواروں کا کندہونا اور کوشش کے بعد سست ہوجانا اور نوک دار پتھر پر اپنا سر پٹخنا اور اپنی صفوں میں شگاف پیدا ہونا، غلط آراء دینا اور اغراض میں منحرف ہونا، کس قدر گھٹیا زادِ راہ کو اپنے لئے آگے روانہ کیا ہے، خداوند کریم ان سے ناراض ہے اور ہمیشگی عذاب میں ہوں گے۔ اس عمل کی مسئولیت اور ذمہ داری انہی کی گردن پر ہے اور اس کا وزن ان کے کندھوں پر ہے اورننگ و عار ان کے دامن گیر ہو گی، یہ اونٹ ناک کٹا اور زخم خوردہ ہے اور ستم کار لوگ رحمت الہی سے دور ہیں۔
ان پر افسوس، ان لوگوں نے خلافت کو اس کے مضبوط مرکز سے جدا کیوں کیا، ان لوگوں نے نبوت اور راہنمائی کی اساس سے خلافت کو کیوں دور کیا؟ ان لوگوں نے خلافت کو اس گھر سے کیوں نکالا جہاں روح الامین اترا کرتے تھے۔ ان لوگوں پر افسوس!جنہوں نے دنیا و آخرت کے امور جاننے والوں کو خلافت سے علیحدہ کیا آگاہ رہنا یہ سراسرگھاٹے کا سودا ہے۔ علی علیہ السلام میں کون سا عیب دیکھا ہے؟ خدا کی قسم فقط ان میں یہ عیب ہے کہ ان کی تلوار کاٹنے والی ہے، وہ موت سے ڈرنے والے نہیں۔ معاملات میں سخت گیر ہیں اور ان کا محاسبہ سخت ہے اور ان کا غضبناک ہونا رضائے الہی کے لئے ہے۔
خدا کی قسم جن امور کی باگ ڈور رسول خدانے علی کے حوالے کی تھی اگر لوگ ان امور کے سنبھالنے سے باز رہتے تو علی ان کو اچھی طرح سنبھال سکتے تھے۔ علی انہیں بڑی ملائمت سے لیکر چلتے۔ علی خلافت کے شتر کو زخمی کئے بغیر صیح و سالم منزل پر پہنچا دیتے۔ اس کا سوار رنج وعلم نہ اٹھاتا۔ علی لوگوں کو ایسے صاف ستھرے ٹھنڈے میٹھے پانی کے تالاب پر لاکھڑا کرتے جس کا پانی دونوں کناروں سے چھلک رہا ہوتا اور اس کے دونوں اطراف رنگِ کدورت سے گدلے نہ ہوتے۔ اور حضرت امام علی لوگوں کو اس شیریں چشمہ سے سیراب کرکے لوٹاتے۔ علی ظاہر و باطن میں لوگوں کی خیر خواہی کرتے۔ اگر زمام اقدار حضرت امام علی کے پاس ہوتی توبیت المال سے زیادہ دولت نہ لیتے۔ اپنی ضرورت سے زیادہ ہرگز نہ لیتے اگر علی احتیاج بھی محسوس کرتے تو بیت المال سے بس اتنا ہی حصہ لیتے جتنا کہ پیاسے کو اپنی پیاس بجھانے کے لئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اتنے ہی لقموں پر قناعت کرتے جو کسی بھوکے کی زندگی کا سہارا بن سکیں تب لوگوں کو معلوم ہوتا کہ زاہد کون ہے؟ اور مال دنیا کا حریص کون ہے دنیا جان لیتی کہ سچا کون ہے اور جھوٹاکون ہے۔
اگر آبادیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان کے لئے آسمان و زمین کی برکتوں کو کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی اور ہم نے ان کے کردار کی وجہ سے انہیں پکڑلیا۔
اگر قریہ والے ایمان اور تقویٰ کو اپنا لیتے تو زمین و آسمان کی برکتیں ان پر اتاری جاتیں، لیکن آیات الہی کو جھٹلاتے ہیں، "لہذا اہم نے انہیں اپنے اعمال کی زد میں جکڑ لیا ہے اور اس گروہ میں سے زیادتی کرنے والوں کو اپنے کاموں کے نتائج بھگتنا ہوں گے اور وہ کسی صورت میں ہم پر غالب نہیں آسکتے۔"
آگاہ رہو، آؤاور سنو جب تک زندہ رہوں گی حالات نئی نئی چیزیں تمہیں دکھائیں گے اگر تعجب کرو تو ان کی گفتار تعجب آمیز ہے، اے کاش جان لیتی، انہوں نے کس پناہ گاہ میں پناہ لی ہے اور کس ستون پر تکیہ کیا ہے؟ کس رسی کو تھاما ہے؟ کن فرزندوں پر تجاوز کیا ہے اور کس پر ناجائز قبضہ کیا ہے؟ کس قدر برے انسان کو رہبر اور دوست منتخب کیا ہے، اور ستم کاروں کیلئے بہت برا بدلا ہے۔
خدا کی قسم، بڑے پروں کی بجائے دم کے بالوں کا انتخاب کیا ہے، اور پشت کے بجائے دم کو چن لیا ہے، وہ قوم ذلیل و خوار ہوجاتی ہے جو یہ خیال نہیں کرتی کہ اس طرح کے کام اچھے کام ہیں۔ جان لو کہ یہ فاسد ہیں لیکن جانتے نہیں ہیں، افسوس ہے ان پر، کیا جو ہدایت یافتہ ہے وہ پیروی کا مستحق ہے یا وہ جو ہدایت یافتہ نہیں ہے بلکہ ہدایت کا محتاج ہے، وہ پیروی کے مستحق ہیں؟ افسوس ہو تم پر کہ کس طرح فیصلے کرتے ہو۔
مجھے میری جان کی قسم، اس فتنہ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اس انتظار میں رہو کہ اس مرض کا فساد معاشرے میں پھیل جائے، تو اس وقت دودھ والی جگہوں سے تازہ خون اور ہلاک کرنے والی زہر دوھیا کرو گے، یہی وہ جگہ ہے جب باطل کی راہ چلنے والے نقصان اٹھاتے ہیں، اور آنے والی نسلیں ان کے اعمال کے نقصانات دیکھیں گے، اس وقت آپ کی دنیا ہی آپ کی جان ہو گی اور فتنوں سے آپ کے دلوں کو آرام آئے گا، اور میں خبر دیتی ہوں کہ ہمیشہ تلواروں اور ظلم کرنے والے حملہ آوروں کی زد میں رہو گے اور عمومی طور پر بد نظمی اور طاقتوروں کے استبداد کا شکار رہو گے اور وہ لوگ بہت کم حقوق تمہیں دیں گے اور تلواروں کے زور پر تمہارے اتحاد کو پارا پارا کریں گے، اس وقت تم کف افسوس ملو گے کہ معاملات کہاں تک پہنچ چکے ہیں، آیا جس کام سے صرف نظر کر چکے ہو کیا میں اس کام پر تم کو آمادہ کر سکتی ہوں؟
سوید بن غفلہ کہتے ہیں، پس عورتوں نے یہ باتیں اپنے شوہروں کو بتائیں تو مہاجرین و انصار میں سے بعض لوگ معذرت خواہی کیلئے آکر کہتے تھے، اے سیدة النساء اگر حضرت امام علی ابوبکر کی بیعت کرنے سے پہلے ہمیں بتا دیتے تو ہم ان پر کسی اور کو ترجیح نہ دیتے۔ پھر حضرت زہرانے فرمایا۔ مجھ سے دوررہو، ارتکاب گناہ اور اس سہل انگاری کے بعد بہانہ سازی کا تو کوئی مطلب نہیں بنتا۔
۳ ۔ خلافت کے غصب کرنے والوں کے بار ے میں
روایت ہے پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کے بعد امیر المومنین سے خلافت غصب کر لینے کے بعد عمر ہمیشہ تلوار اپنی کمر سے لگا کر مدینہ میں چکر لگاتا تھا کہ ابو بکر سے بیعت کرو، اس سے بیعت کرنے میں جلدی کرو، ہر طرف سے لوگ اس کی بیعت کرنے کیلئے آتے تھے، چند دن گذرنے کے بعد عمر کچھ لوگوں کے ہمراہ حضرت امام علی کے دروازے پر آکر کہتا ہے کہ علی باہر آئیں۔ جب علی باہر نہیں آئے تو عمر نے لکڑیاں اور آگ منگوا کر کہا اس کی قسم جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے، یا گھر سے باہر آؤ یا تمام اہل خانہ کو آگ لگا دوں گا، اس کے بعد حضرت فاطمہ دروازے کے پاس آئیں اور کہا تمہاری طرح کی ملت میں نے نہیں دیکھی جو بے وفا اور معاملات میں بری ہو، رسول خدا کا جنازہ ہمارے ہاتھوں میں چھوڑ کر اپنے قول و قرار اور وعدوں کو پھاڑ دیا ہے اور بھول گئے ہو ہمیں خلافت سے تو محروم کرہی دیا کیا ہمارے لئے کسی قسم کے حق کے بھی قائل نہیں ہو گویا غدیرخم والے واقعہ سے آگاہی نہیں رکھتے۔
خدا کی قسم اس دن پیغمبر اسلام(ص) نے امیر المومنین کی ولایت کو نہ فقط بتایا بلکہ لوگوں سے بیعت بھی لی تاکہ تم جیسے موقع پرست لوگوں کی امیدوں کو ختم کریں لیکن تم نے پیغمبر اسلام(ص) سے تعلقات کے رشتوں کو پارہ پارہ کردیا، تو جان لو کہ دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کردے گا۔