فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 367
مشاہدے: 198518
ڈاؤنلوڈ: 5548


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 198518 / ڈاؤنلوڈ: 5548
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)(1)

ترجمہ آیت:وہ قوم جس کے پاس اللہ اور روز آخرت پر ایمان کی دولت ہے اس کو تم ان لوگوں سےمحبت کرتا ہوا نہیں پاؤگے جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ سے دشمنی کرتے ہیں چاہے وہ لوگ ان صاحبان ایمان کے باپ ہوں،بیٹے ہوں،بھائی ہوں یا قبیلہ والے ہوں،یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل میں ایمان بیٹھ چکا ہے اور روح ایمان ان کی مدد کررہی ہے(یا خدا اپنی طرف سے ایک روح بھیج کے ان کی مدد کرتا ہے)اللہ انھیں ان باغوں میں داخل کرےگا جن میں نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،وہی لوگ اللہ کے لشکر ہیں اور سن لو کہ اللہ کا لشکر ہی فلاح پانےوالا ہے.

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:( إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ٭ جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ (2)

ترجمہ آیت:(بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے کام کرتے ہیں دنیا میں سب سے بہتر ہیں،ان کی جزا خدا کے نزدیک عدن کے باغات ہیں جس کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،یہ شرف اس کو ملتا ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا ہے))۔

بلکہ دونوں مذکورہ آیروں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب مومنین آخرت میں خدا کی خدمت میں جائیں گے اور اس سے ملاقات کریں گے تو اللہ کی رضا انہیں حاصل ہوچکی ہوگی،پھر علما اہل سنت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ مجادلہ آیت22

(2)سورہ بینہ آیت:8،7

۱۰۱

رضا کے لئے استقامت کی قید کیوں نہیں لگاتے اور اگر ان کے لئے خدا کی رضا استقامت سے مقید ہے تو پھر انہوں نے دلیل دینے کے وقت استقامت کی قید کیوں نہیں لگائی؟

رضا بشرط استقامت ہے اور اس کی تائید باقی رہےگی

میری بات کو مندرجہ ذیل امور سے تقویت ملتی ہے۔

1۔پہلے سوال کے جواب میں میں نے عرض کیا تھا کہ صحابہ کے حالات و مقامات اور ان کے آپسی اختلافات کو دیکھتے ہوئے بیعت رضواں والوں کی یقینی نجات کے بارے میں فیصلہ غلط ہوگا۔

2۔اگر ان کی نجات قطعی اور یقینی مان لی جائے تو انہیں افعال قبیحہ کی چھوٹ مل جائےگی۔

3۔مذکورہ آیت سابقون اوّلوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ آیت تب نازل ہوئی ہے جب مسلمانوں کی کثرت ہوچکی تھی اور ان کے لئے نازل ہوئی جو بیعت رضواں میں شریک تھے۔

ان کثیر مسلمانوں میں مغیرہ بن شعبہ(زانی)ابوالعادیہ حضرت عمار یاسر کا قاتل(1) اور منافقون کاسردار عبداللہ ابن ابی تھا،یہ سب لوگ بیعت رضواں والےتھے۔(2)

امر ثانی۔آپ اپنے سوال میں فرماتے یں کہ ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ صحابہ(سابقون اوّلون)کو شخصی نزعات پر مجبور کردیا کرتے تھے،کسی پر کوئی مصلحت سوار ہوجاتی اور کبھی ایک دوسرے پر غبطہ کرنے لگتے،پھر شیعہ ابوبکر،عمر،اور عثمان کے قول کی تاویل کیوں نہیں کرلیتے اور حضرت علیؑ کی موجودگی میں ان لوگوں کی خلافت پر قبضہ جمالینے کی تاویل کیوں نہیں کرلیتے کہ خلفائے ثلاثہ کا یہ فعل انھیں ذاتی اور شخصی نزعات کا نتیجہ ہے،شرعاً ان غلطیوں پر کوئی شرعی مواخذہ نہیں کیا جاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الفصل فی الملل و النحل ج:4ص:منھاج السنۃ نبویہ ج:6ص:205)

(2)امتاع الاسماع ص:605مغازی للواقدی ج:2ص:610)

۱۰۲

غطبہ اور حسد میں فرق ہے

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ(پہلے غبطہ کی تعریف کردی جائے)غبطہ انسان کے اس جذبے کا نام ہےکہ دوسروں کے اس کسی چیز کو دیکھ کے اپنے پاس بھی اس کے ہونے کی تمنا کرے،نہ کہ دوسرے کے پاس کسی نعمت کو دیکھ کے،اس کے دل میں یہ جذبہ(یا تمنا)پیدا ہو کہ اس آدمی کے پاس سے وہ نعمت زائل ہوجائے دوسرے کے لئے زوال نعمت کی تمنا کا نام حسد ہے۔

لسان العرب کے مصنف نے غبطہ کے مادہ کی تشریح میں غبطہ کے معنی پر ایک طویل گفتگو کے بعد لکھا ہے،کہ ازھری کہتے ہیں(خداوند عالم نے اپنی کتاب میں صاحبان تدبر اور نگاہ اعتبار کے لئے غبطہ اور حسد میں واضح فرق بتادیا ہے)ارشاد ہوتا ہے:

وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ اللّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُواْ اللّهَ مِن فَضْلِهِ(1)

ترجمہ آیت:اس کی ہوس نہ کرو کیوں کہ فضیلت تو اعمال سے ہے مردوں کو اپنے کئے کا حصہ ہے اور عورتوں کو ان کے کئے کا حصہ ہے۔یہ اور بات ہے کہ تم خدا سے اس کے فضل و کرم کی خواہش کرو)۔

اس آیت میں واضح ہدایت دی گئی ہے کہ کسی مسلمان بھائی کے پاس کوئی نعمت دیکھ کے اس نعمت کے زوال کی تمنا کرنا جائز ہے،لیکن یہ تمنا کرنا کہ وہ نعمت میرے پاس بھی ہوجائے جائز ہے،تو یہ غبطہ میں مغبوط کو اچھی حالت میں دیکھنے کی خواہش کے ساتھ خود کو بھی انسان اسی حالت میں پہنچانا چاہتا ہے اس میں مغبوط کے زوال،نعمت کی خواہش نہیں ہوتی خدا سے مانگتا بھی ہے تو بس یہ کہ جس کا اس کو حکم دیا گیا ہے اور اللہ اپنی رضا سے اس کو جو کچھ دیتا ہے۔

لیکن حسد کا معاملہ دوسرا ہے حسد میں انسان دوسرے کی نعمت کا زوال اور اسی نعمت کا اپنے پاس ہونے کی خواہش کرتا ہے،مقصد یہ ہے کہ کسی کے زوال نعمت کے ساتھ اپنے پاس اسی نعمت کے ہونے کی تمنا غبطہ نہیں حسد ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ نساءآیت:32

۱۰۳

حسد اعظم محرمات میں سے ہے

ظاہر ہے کہ حسد جملہ صحیح نہیں ہے،نبیؐ اور اہل بیتؑ نبی کی حدیثیں اس کی حرمت کے تذکرے سے بھری پڑی ہیں،حضورؐ نے اکثر اپنے اصحاب سے فرمایا کہ ان کے اندر حسد رینگ رہا ہے،علی بن جعفرؑ اپنے بھائی موسیٰ بن جعفرؑ وہ اپنے والدہ وہ اپنے جد سے روایت کرتے ہیں ایک دن حضورؐ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ خبردار ہوجاؤ!گذشتہ امتوں کی بیماریاں اندر رینگ رہی ہیں،وہ بیماری حسد ہے،یہ بالوں کی تحلیق نہیں کرتی بلکہ دین کی تحلیق کرتی ہے،اس کا علاج یہ ہے کہ انسان اپنے ہاتھ اور زبان کو روکے رہے اور اپنے مومن بھائی پر طعنے نہیں مارے۔(1)

زبیر بن عوام سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا(تمہارے اندر گذشتہ امتوں کی بیماری رینگ رہی ہے وہ بیماری حسد اور بغض ہے،یہ بیماری مونڈنےوالی ہے،لیکن بالوں کو نہین دین کو مونڈتی ہے،اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے تم اس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو اور میں بتاؤں یہ محبت کیسے پیدا ہوگی،کھل کے(با آواز بلند سلام کیا کرو،(2)

ابوہریرہ کی حدیث میں فرمایا(دیکھو حسد سے بچو حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو یا جھاڑی کو کھا جاتی ہے(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وسائل الشیعہ ج:11ص:294باب:55باب جہاد النفس،حدیث:15

(2)مسند احمدج:1ص:164،مسند زبیر ابن عوام،سنن ترمذی،ج:4ص:663۔664،مجمع الزوائدج:8ص:30،السنن الکبری،بیھقی،ج:10ص:232،کتاب الشہادت،مسند البزار،ج:6ص:192،مسند الشاشی ج:1ص:114،مسند الطیالسی ج:1ص:27،زبیر ابن عوام کی احادیث میں اس کے علاوہ دیگر منابع اور ماخذ۔

(3)سنن ابی داودج:5ص:330،کتاب ادب و حسد کے باب میں سنن ابن ماجہ ج:2ص:1408،کتاب زہد،باب حسد،مصنف ابن ابی شیبۃ،ج:5ص:330،کتاب ادب وہ جو حسد کے باب میں آیا ہے مسند ابی یعلی،ج:6ص:330،اس چیز کے مورد میں جو روایت ابوزناد نے انس سے کی تھی،مسند عبد بن حمیدص:418،مسند الشھاب ج:2ص:136،ساتواں باب،حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے،جامع العلوم و الحکم،ص:327،شعب الایمان ج:5ص:266،تفسیر القرطبی ج:5ص:251،مصباح الزجاجۃ ج:4ص:238،کتاب زہد باب حسد اس کے علاوہ بہت سے مصادر ہیں،

۱۰۴

ابوبصیر ابوعبداللہ جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں،کفر کی تین جڑیں ہیں حرص،استکبار(خود کو بڑا سمجھنا)اور حسد۔(1)

اس مضمون کی دوسری حدیثیں بھی ہیں۔

اب حسد کے ساتھ دوسرے سے نعمت کا چھین لینا اور اس کا حق غصب کرنا صرف گفتگو پر اقتصار نہ کرنا(بلکہ ہاتھ اور تلوار کا بھی استعمال کرنا)حسد تو ناقابل معانی جرم ہے ہی،اس کے ساتھ مندرجہ بالا جرائم کا اضافہ کرنے سے دو گناہ ہوتے ہیں،ایک گناہ حسد اور دوسرا گناہ ظلم،تعدی اور غصب کی ہوئی چیز کی اہمیت کےساتھ ہی عمل غصب کی اہمیت بھی بڑھ جائےگی،پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ آپ کے(سابقون اوّلون)صحابہ کا غصب(خلافت و فدک)ایسا گناہ ہے جن کا شرعی طور پر کوئی مواخذہ نہیں ہے،جب آپ نے خود ہی یہ فرمایا ہے کہ غبطہ کی وجہ سے انہوں نے خدا کے اس بلند منصب کو ان سے چھین لیا جو شیعوں کے نزدیک اس منصب کے شرعی مالک تھے،اب ایک بات رہ جاتی ہے وہ یہ کہ شیعہ اس فعل غصب کی یہ تاویل کیوں نہیں کرلیتے کہ ان لوگوں نے آپس کی رضامندی کی وجہ سے خلافت دوسروں کے حوالے کردی،دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب حقدار ہی اس بات پر راضی ہوگیا کہ دوسرا اس کا حق لے لے تو پھر دوسروں کے لئے اس کا حق لینا جائز ہوگیا اور اس کا فعل نافذ ہوگیا،سوال کے اس ٹکڑے کا جواب ہم آپ کے تیسرے سوال کے ذیل میں دیں گے۔انشااللہ۔

اپنے اماموں کے بارے میں شیعوں کا نظریہ سنیوں کے اماموں کے بارے میں سنیوں کا نظریہ ان دونوں میں بہت فرق ہے

امر ثالث:آپ کے سابقہ بیان سے ظاہر ہے کہ شیعوں کا اپنے ائمہ اہل بیتؑ کے بارے میں جو نظریہ ہے وہ اہل سنت کے اپنے اماموں کے متعلق نظریہ سے بالکل الگ ہے،آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وسائل الشیعہ ج:11ص:294باب94باب جہاد النفس:حدیث:1

۱۰۵

ہی کے بیان کے مطابق اپنے نفس کی محبت اور ہوس کاری کے جذبات نے اہل سنت کے اماموں کا اتنا گرادیا کہ وہ حصول سلطنت کے لئے ٹوٹ پڑے ایک دوسرے پر سبقت کرنے لگے اور حق دار پر زیادتی کر کے آخرت سلطنت پر قبضہ جمالیا یہ عمل شیعوں کے مطابق نص شرع کے خلاف تھا اور اگر سنیوں کے مطابق مانا جائے جب بھی یہ عمل ہوس اور حسد کا نتیجہ ہے

لیکن شیعہ اپنے ائمہ اہل بیتؑ کا ایسا حقدار سمجھتے ہیں جن کی امامت پر نص ہے،مگر ان(ائمہ اہل بیتؑ)نے یہ کبھی نہ چاہا کہ وہ اپنے اس حق کو اقتدار کی محبت اور حکومت کی ہوس کے لئے استعمال کریں،بلکہ وہ امام اس لئے ہونا چاہتے تھے کہ حق کو قائم کردیں دین کو مضبوط کریں اور عدل کا بول بالا ہوجائے خود ان حضرات کے خطبہ اور حدیثیں اس بات کی شاہد ہیں۔

حضرت امیرالمومنینؑ کی گفتگو کا ایک حصہ ملاحظہ ہو(پالنےوالے تو جانتا ہے کہ ہم اہل بیتؑ نہ حکومت کی ہوس رکھتے ہیں اور نہ اس کچرے(دنیا)کے طلب گار ہیں لیکن ہم تو تیرے دین کا علم چاہتے ہیں،تیرے شہروں میں عدل اور اصلاح کا ظہور چاہتے ہیں کہ تیرے مظلوم بندوں کو امن ملے اور تیرے معطل حدود قائم ہوجائیں۔(1)

دوسری جگہ خطبہ شقشقیہ میں ارشاد فرماتے ہیں(لیکن اس کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور کائنات کو پیدا کیا اگر حاضر کا حضور نہ ہوتا اور ناصر کی موجودگی میں حجت کا قیام واجب نہ ہوتا اور خدا اس خلافت کی اونٹنی کی مہار اس کی پیٹھ پر ڈال دیتا(یعنی آزاد چھوڑ دیتا)اور اس کے آکر کو اس کے اول ہی کے پیالے سے پلاتا تم دیکھتےکہ میرے لئے یہ دنیا بکری کی ناک سے نکلتی ہوئی گندگی سے بھی زیادہ قابل پرہیز ہوں(2) جب عمر نے شوریٰ کے افراد معین کردئے تو آپ نے ایک گفتگو میں اپنے چچا عباس سے فرمایا(خدا کی قسم مجھے سلطنت کی ہوس نہیں ہےنہ دنیا کی محبت ہے ہاں اگر عدل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:8ص:263

(2)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:202،کتاب نہایۃ اور کتاب لسان العرب مادہ عفظ میں آخری عبارت ذکر ہوئی ہے

۱۰۶

کو ظاہر کرنے کا موقعہ ملے اور کتاب و سنت پر عمل کرنے کرانے کا موقعہ ملے تو اس کے بارے میں سوچنا چاہتا ہوں)(1)

مقام ذیقار میں ابن عباس سے آپ انی جوتی کی قیمت پوچھتے ہیں(اس وقت آپ اپنی جوتیوں کو اپنے دست مبارک سے ہی رہے تھے)ابن عباس نے کہا اس جوتی کی کوئی قیمت نہیں آپ نے فرمایا خدا کی قسم مجھے یہ میری جوتی!تمہاری اس حکومت سے زیادہ محبوب ہے مگر یہ کہ حق کو قائم کرسکوں اور باطل کو دفع کرسکوں۔(2)

امام حسینؑ کربال کے لئے نکلے ہیں آپ کے بھائی محمد حنفیہ ملنے آتے ہیں آپ ان سے وصیت کرتے ہیں وصیت میں اپنے ہدف کی وضاحت بھی کرتے ہیں(میں سرکشی ار اتاہٹ میں نہیں نکلا ہوں ظالم اور مفسدین بن کے نہیں نکلا ہوں،میں نےتو اپنے جد کی امت میں اصلاح کے لئے خروج کیا ہے،میرا مقصد ہے،امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا اپنے جد محمد مصطفیٰؐ اور اپنے والد علی مرتضیٰؑ کی سیرت پر عمل کرنا اور کرانا ہے تو جو مجھے حق سمجھ کے قبول کرے تو اللہ حق ہونے کا زیادہ مستحق ہے اور جو میری باتوں کو نہیں مانےگا تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ اللہ میرا اور اس قوم کا حق کے ذریعہ فیصلہ کردے اور اللہ سب سے بہترین فیصلہ کرنےوالا ہے)(3)

ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے اپنی حکومت کی غرض اور اقتدار کا ہدف اس طرح کی دوسری حدیثوں میں بھی بتادیا ہے،انشااللہ میں ایسی حدیثوں کے بعض حصے آئندہ بھی پیش کروں گا خدا را فیصلہ کیجئے مسلمانوں کی امانت کا حقدار کون ہے؟جب کہ ہم جانتے ہیں کہ منصب امامت ایک بلند اور مقدس مرتبہ ہے امام دین اسلام کی عظمت کا امانت دار ہوتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:9ص:51

(2)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:80

(3)بحار الانوارج:44ص:329

۱۰۷

اسلامی تشریعات اس کی عزت اور اس کے دینی ماحول کا امین ہوتا ہے،مسلمانوں کے جان و مال اور ناموس کا پاسدار ہوتا ہے،اس لئے مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ امام کی خیرخواہی میں اخلاص برتیں اس کی اطاعت کریں اور اس کی نصرت کرتے رہیں۔

اس تفصیل کے بعد میں آپ کے دینی شعور اور ضمیر کو آواز دیتا ہوں اور بس(آپ کو امامت کے بارے میں)جو نظریہ اچھا لگے اسے اختیار کرلیں(مگر یہ یاد رکھیں)کہ خدا کی شہادت اس کی سرپرستی اور اس کا فیصلہ کافی ہے۔

۱۰۸

سوال نمبر۔3

ہم اہل سنت اور آپ شیعہ حضرات کیوں نہیں ایسا کرتے کہ صدر اسلام میں جو بھی(تلخ و شیرین)واقعات ہوئے ہیں ان میں ہم علیؑ کی سیرت اور خاص کر امام حسنؑ کی سیرت پر عمل کریں یعنی ان حضرات نےجن باتوں کا اقرار کیا ہم بھی اقرار کریں اور ان حضرات نے جن باتوں کا انکار کیا ہم بھی انکار کریں لہٰذا ذیل کے امور پر پابندی سے عمل کریں۔

1۔علی علیہ السلام نے ابوبکر کی خلافت کا اقرار کیا۔

2۔آپ نے عمر کے لئے ابوبکر کی تنصیب خلافت کا اقرار کیا۔

3۔آپ نے شوریٰ کی ایک فرد ہونے کا اقرار کیا۔

4۔معاویہ کی شام پر حکومت کا انکار کیا،اس لئے کہ آپ اس کو حکومت کے لئے نااہل سمجھتے تھے،اس کے علاوہ اس کی حکومت کی وجہ سے اسلامی سماج میں فتنہ و فساد پھیل رہا تھا۔

جواب:مجھے اس بات کا حق حاصل کہ آپ سے پوچھوں اقرار کا کیا مطلب ہے؟آپ اقرار سے کیا مراد لیتے ہیں؟

۱۰۹

جو ہورہا ہے اس کو ہونے دینا

1 ۔ اگر اقرار سے آپ کی مراد یہ ہے کہ جیسی چل رہی ہے چلنے دینا اس میں مدد دینا اس کے بازو کو مضبوط کرنا اور مقصد یہ ہو کہ اسلام کی مصالح کا تحفظ ہوتا رہے اسلام میں اختلاف کی خلیج نہ پیدا ہو،کلمہ اسلام میں پھوٹ نہ پڑے،ان تمام باتوں کے علاوہ حالات ابھی انقلاب کی اجازت نہٰں دیتے یا انقلاب کی ذرا سی کوشش کی جائے تو ڈ ر ہو کہ اسلام کی اس انقلاب سے جو حاصل ہوگا اس سے زیادہ نقصان پہنچ جائےگا،تو یقیناً اس طرح کا اقرار تو ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے کیا ہے لیکن اس اقرار سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ زبردستی خلیفہ بن بیٹھنےوالوں کی خلافت شرعی تھی یہ بات تو واضح ہے کہ حقدار اگر اس امید میں خاموش ہوجائے کہ اس کا حق کبھی نہ کبھی اس کو ملےگا تو یہ خاموشی اس کے استحقاق کو باطل نہیں کرتی،یہ خاموشی(اگر آپ کے بیان کے مطابق اقرار ہے)تو اس طرح کا سکوت تو امام حسن ؑ نے بہرحال کیا،جب آپ نے اپنے والد ماجد کی پیروی کرتے ہوئے معاویہ سے دوسری بار جنگ کی کوشش کی اور پھر(ماحول سازگار نہیں پایا تو)خاموش ہوگئے،اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام اور آپ کی اولاد طاہرہ نے بھی خلفائے جور کے دور میں خاموشی اختیار کی اور یزید کے دور میں اور یزید کے بعد دوسرے غاصبوں کے دور میں ائمہ اہل بیت ؑ نے عملی احتجاج نہیں کیا اور آپ حضرات کے شیعہ بھی اپنے اماموں کی پیروی میں اسی خاموشی اور سکوت کی سیرت پر عمل کرتے رہے،ائمہ اہل بیت ؑ کی یہ خاموشی آپ کے خلفائے ثلاثہ سے ہی مخصوص نہیں ہے جیسا کہ آپ کے سوال سے ظاہر ہوتا ہے اور اگر کہیں عملی احتجاج ہوا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اماموں کی سیرت میں اختلاف تھا ہمارا ہر امام اپنے ماحول کے اعتبار سے عمل کرنے کا مکلّف ہے جیسا کہ ظاہر ہے ۔

حالات حاضرہ کو جاری رکھنا اور شرعی شکل دینا

2 ۔ اور اگر آپ اقرار سے یہ مراد لیتے ہیں کہ دونوں خلیفہ نے جو حالات پیدا کئے تھے اس سے مولائے کائنات ؑ راضی تھے اور آپ ان کے افعال کو شرعی جواز دینا چاہتے ہیں اس حیثیت سے کہ شریعت کی

۱۱۰

نظر میں وہ غصب اور زیادتی کی حدوں میں نہیں آتے،یعنی آپ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ حقدار اپنی ملکیت اور حق سے دوسرے کے حق میں دست بردار ہوگیا اور جس کے حق میں دست بردار ہوا ہے حق ملکیت اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق اب اس کی طرف منتقل ہوگیا تو یہ بات غلط ہے اس کے دو اسباب ہیں ۔

خلافت کا تعین خدا کرتا ہے خلیفہ کو حق(نہیں کہ وہ دوسرے کے حق میں دست بردار ہوجائے)

1 ۔ شیعہ مذہب کی دلیلوں کی بیناد پر خلیفہ یا امام کو صرف اللہ ہی معّین کرتا ہے اور اسی کی طرف سے نص ہوتی ہے،کسی امام کو یہ حق نہیں ہے وہ اپنے بجائے کسی اور کو خلیفہ بنادے یہ حق تو نبی کو بھی حاصل نہیں(کہ وہ خدا کے معین کردہ امام سے امامت و خلافت لیکے)کسی اور کو خلیفہ اور امام بنادے اگر نبی ؐ نے بھی ایسا کیا تو یہ امر الہٰی کی تردید اور اس کے فرائض سے کھلواڑ ہوگا ۔

(مندرجہ بالا بات کی شہادت تاریخ سے ملتی ہے)جب حضور سرور عالم ؐ نے عربوں کے سامنے اپنی نبوت پیش کی کہ وہ نبی کو نبی سمجھ کے آپ کی مدد کریں،یہ بات ہجرت کے پہلے کی ہے تو حضور ؐ نے جب اپنی نبوت پیش کی تو جن لوگوں کے سامنے نبوت پیش کی گئی تھی ان میں بنوعامر بھی تھے تو ان میں سے ایک شخص نے سرکار ؐ سے یہ سوال کیا کہ ہم آپ کی اطاعت کریں اور خدا آپ کو اپنے مخالفوں پر غالب کردے تو کیا آپ کے بعد ہمیں حکومت ملےگی،آپ نے صاف فرمایا،یہ حق تو اللہ کو ہے جس کو چاہےگا دےگا ۔(1) عبادہ کی حدیث ہے کہ ہم نے پیغمبر ؐ کی اس بات پر بیعت کی کہ آپ کی بات سنیں گے اور آپ کا حکم مانیں گے صاحبان امر سے(ان کی خلافت کے معاملے میں)جگھڑا نہیں کریں گے حق جہاں بھی ہوگا ہم حق ہی کا ساتھ دیں گے اور خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنےوالے کی پرواہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الثقات ج:1ص:90،89خود کو رسول خداؐ نے قبائل کے سامنے پیش کیا،تاریخ طبری،ج:1ص:556،السیرۃ النبویۃ،ابن ہشام ج:2ص:272،البدایۃ و النہایۃ،ج:3ص:139،السیرۃ الحلبیۃج:2ص:3،الکامل فی التاریخ،ج:1ص:609،ابوطالب اور خدیجہ کے ذکر وفات کے بیان میں نیز رسول اللہؐ کا عرب کے سامنے خود کو پیش کرنا،کتاب الاکتفا،بما تضمنہ من مغازی رسول اللہ الثلاثۃ الخلفاءص:304،

۱۱۱

نہیں کریں گے(1) اس حدیث سے ظاہر ہے کہ امامت و خلافت کے کچھ حق دار ہیں جن سے لڑنا حرام ہے،عمرو بن اشعث کی حدیث ہے کہ میں نے سرکار صادق آل محمد علیھم السلام کو فرماتے سنا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم اہل بیت ؑ میں سے کوئی امام آزاد ہے کہ جس کے حق میں چاہے امامت کی وصیت کردے،نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اپنے نبی ؐ سے آپ کے ہر جانشین کے لئے عہد لیا ہے،یہاں تک اسی معاہدے کے تحت ہر امام اپنے بعد والے امام پر نص کرتا اور امر صاحبت امر تک پہنچتا ہے ۔(2)

محمد بن فضیل ابوالحسن رضا علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمایا بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو صاحب امانت کے حوالے کردو امام نے فرمایا باری تعالیٰ کا یہ خطاب ائمہ اہل بیت ؑ سے ہے کہ امامت اپنے بعد والے کے حوالے کردو اور دوسروں کو اس سے مخصوص نہ کرو اور حق دار کو امامت سے الگ نہ کرو ۔(3)

یزید بن سُلیط ابوابراہیم موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں،اسی حدیث میں ساتویں امام کے صاحبزادے علی بن موسیٰ کی امامت پر نص بھی ہے،فرماتے ہیں کہ اے ابوعمارہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ میں اپنے گھر سے نکلنے والا ہوں(نکلتا ہوں)تو میں اپنے فلاں بیٹے کو اپنا وصی بنا رہا ہوں اور دوسرے بیٹوں کو بظاہر اس کا شریک بنا رہا ہوں لیکن باطنی طور پر وہی میرا وصی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسند احمدج:3ص:441مسند احمدج:3ص:441،عبادۃ بن ولید کے حدیث میں،یہی عبارت السنن الکبریٰ،بیھقی،ج:8ص:145،السنن الکبریٰ،ج:4،کتاب البیعۃ،ص:421،سمعاً و طاعۃ بیعت کے بیان میں،ص:422،مسند ابن جعد،ص:261،سیر اعلام النبلاء،ج:2ص:7عبادۃ بن صامت کے حالات میں،تذکرۃ الحفاظ،ج:3ص:1131،ابن عبدالبر کے باب میں،تاریخ دمشق،ج:26،ص:196،عبادۃ بن صامت کی سوانح حیات میں،صحیح ابن حبان،ج:10،ص:413،مسند ابی عوانۃ،ج:4ص:407،

(2)الکافی ج:1ص:278باب:اللہ سے امامت کا عہد،حدیث2،

(3)الکافی ج:1ص:277،276،اس باب میں کہ امام اپنے بعدوالے کا تعارف کراتا ہے اور خداوند عالم کا قول(کہ امانتیں ان کے اہل تک پہنچادو)ان ائمہؑ کے بارے میں آیت کا نزول ہوا ہے،حدیث3،

۱۱۲

پس میری وصیت تنہا اسی لئے ہے،اگر مجھے(وصی بنانے کا)اختیار ہوتا تو میں اپنے بیٹے قاسم کو وصی بناتا اس لئے کہ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں اور اس پر بہت مہربان ہوں،لیکن وصی اور امام کا معاملہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے جو کو چاہتا ہے بناتا ہے ۔(1) ائمہ اہل بیت ؑ سے اس سلسلے میں کثیر تعداد میں حدیثیں وارد ہوئی ہیں ۔(2)

منصب(امامت)کی اہلیت صرف اسی میں ہوتی ہے جس کو اللہ منصب کے لئے معین کرتا ہے

حسن تو یہ ہے کہ اللہ نے بھی صرف اسی کو صاحب منصب قرار دیا ہے جس کے اندر اس منصب کی اہلیت دیکھی ہے اور اس کے علاوہ ہر کسی کے اندر صلاحیتِ منصوب کو معدوم پایا ہے،ثبوت کے لئے مشاہدہ کافی ہے ہم ان فوائد و آثار پر غور کریں،جو امیرالمومنین ؑ کے خلیفہ ہونے سے امت کو حاصل ہوئے،امیرالمومنین ؑ کی خلافت پر شیعوں کے دعوے کے مطانق نص وارد ہوئی ہے،اگر مولا علی ؑ کو پیغمبر ؐ کے بعد خلافت حاصل ہوجاتی اور صاحب اقتدار ہوجاتےتو اس سے کیا فائدے حاصل ہوتے خود حدیث نبی ؐ سے معلوم کیجئے ۔

1 ۔ حدیث ثقلین ملاحظہ فرمایئے،حضور سرور ؐ کائنات کا ارادہ ہے کہ اس دنیا کو چھوڑنے سے پہلے ایک ایسی تحریر لکھ دیں کہ امت گمراہی سے محفوظ رہے آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں اس حدیث کے بارے میں کافی گفتگو ہوچکی ہے شواہد کا فیصلہ ہے کہ حضور کائنات ؐ اس تحریر کے ذریعہ مولائے کائنات علی بن ابی طالب ؑ کی خلافت کا اعلان کرنا چاہتے تھے اور آپ کی خلافت کو اس انداز میں پیش کرنا چاہتے تھے کہ آپ کے مخالفوں کے لئے راستے بند ہوجائیں،اس بات کا اعتراف عمر نے بھی کیا ہے،یہ واقعہ آئندہ کے صفحات میں آئےگا،سرکار دو عالم ؐ امت کو گمراہی سے بچانا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الکافی ج:1ص:314باب اشارہ و نص علی ابی الحسن الرضؑا حدیث14،

(2)الکافی ج:1ص:281،276،وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں

۱۱۳

چاہتے تھے اور امت کے لئے اس سے بڑی بات کیا ہوگی کہ وہ گمراہی سے محفوظ رہے ۔

2 ۔ معصومہ کونین صدیقہ طاہرہ ؑ کا ایک خطبہ شاہد ہے کہ علی ؑ کی خلافت سے کیا فائدے حاصل ہوئے،معصومہ نے یہ خطبہ دیکے کہ مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی خلافت سے عدول کرکے دوسرے کو خلیفہ بنا کے کیا کیا نقصانات نہیں اٹھائے!معصومہ اپنے چھوٹےوالے خطبے میں فرماتی ہیں:خدا کی قسم ابوالحسن سے انھیں کوئی دشمنی نہیں تھی،مگر دشمنی تھی آپ کی تلوار کی دھار سے اور آپ کی صراط مستقیم پر تیز روی آپ ؑ کی وقعت سے جو لوگوں کے لئے قابل پیروی ہے اور ذات خدا میں آپ ؑ کے خلوص سے پیغمبر ؐ نے زمام حکومت جن ہاتھوں میں دی تھی اگر یہ اسی ہاتھ میں رہنے دیتے تو خدا کی قسم وہ انھیں باندھ کے رکھتا اور ان کے ساتھ نرم روی سے چلتا کہ چلنے میں پسلیاں نہ بجتیں اور راکب کو جرکنگ( Jarking )نہیں ہوتی وہ انہیں ایسے گھاٹ پر پہنچاتا(اپنے حوض پر پہنچاتا)جو کنارے تک لبالب بھرا ہوا ہے اور ان لوگوں کو سیراب کردیتا وہ لوگ حیرت میں پڑجاتے بغیر کسی بیکار کوشش کے پیاسا سیراب ہوجاتا اور بھوک مٹ جاتی ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں نازل ہوتیں اور اللہ ان کے اعمال کو قبول کرتا،سنو خبردار ہوجاؤ جب تک زندہ رہوگے دنیا اپنے عجائب تمہیں دکھاتی رہےگی اور اگر تم تعجب ہی کرنا چاہتے ہو تو سب سے زیادہ تعجب خیز یہ حادثہ ہے دیکھ لو انہوں نے کس کا سہارا لیا ہے اور کس سہارے کو پکڑا ہے جسے ولی بنایا گیا ہے وہ بھی برا ہے اور وہ معاشرہ بھی جس نے ولی بنایا اور ظالموں کو برا بدلا ملےگا ۔

خدا کی قسم انہوں نے اگلے حصّے کو چھوڑ کے دم پکڑی(افضل کو چھوڑ کے ادنیٰ کے پیچھے بھاگے)چاق و چوبند اور تجربہ کار آدمی کو چھوڑ کے ب ڈ ھے کی بیعت کرلی،اس قوم کی جلد ہی ناک کٹےگی،جس کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہم بہت اچھا کام کررہے ہیں،حالانکہ خبردار رہنا یہی لوگ فسادی ہیں لیکن نہیں سمجھ رہے ہیں،ان پروائے ہو جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ پیروی کا زیادہ حقدار ہے یا وہ جو رہنمائی نہیں کرتا مگر جن کی رہنمائی کی جاتی ہے انھیں کیا ہوا ہے یہ کیسے فیصلے کرتے ہیں اونٹنی حاملہ ہوئی

۱۱۴

اور ابھی وضع حمل کا انتظار ہی کر رہی تھی کہ ان لوگوں نے دوہنا شروع کردیا نتیجہ میں انہیں خون اور بدبودار پانی ملا جس میں تلخی ہے یہیں پر باطل گروہ کو نقصان اٹھانا پڑا اور بعدوالوں کو معلوم ہوگیا کہ ان کے پہلےوالوں نے جو بنیاد رکھی تھی وہ تہہ نشین ہوچکی ہے،پھر تم اپنے نفس کی تعریف کرو اور اطمینان سے بیٹھ کے ایک جو شلیے فتنے کا انتظار کرو تمہیں چمکتی ہوئی تلواروں کی بشارت ہوا ورتمہارے حالات کے اضطراب کی بشارت ہو،ظالموں کے ظلم و استبداد کی خوشخبری ہو،جو تمہارے مال غنیمت پر قبضہ جمالیں گے اور تمہارے بوئے ہوئے کو کاٹ لے جائیں گے(1) معصومہ ؐ کا ایک دوسرا خطبہ بھی ہے انشااللہ مناسب مقام پر اسے بھی پیش کیا جائےگا ۔

3 ۔ ابوعمر جونی کہتے ہیں جب ابوبکر کی بیعت ہوئی تو سلمان فارسی نے کہا کرداذونا کرداذ تمہاری سمجھ میں جو آیا وہ تم نے کیا لیکن اگر یہ لوگ حضرت علی ؑ کی بیعت کئے ہوتے تو آسمانوں سے بھی کھاتے اور زمین سے بھی پاتے ۔(2)

4 ۔ حبیب بن ثابت کہتے ہیں سلمان فارسی نے بیعت والےدن فرمایا تم ب ڈ ھے کو خلیفہ بنا کے سمجھے کہ تم نے صحیح کیا اور اپنے نبی ؐ کے اہل بیت ؑ کو ولایت نہ دے کے تم نے غلطی کی اگر تم خلافت اہل بیت نبی ؐ میں قرار دیتے تو دو آدمی بھی اختلاف نہیں کرتے اور تم پیٹ بھر کھاتے(3) سلمان کے یہ جملے حروف ردہ والی حدیث کے موقعہ پر آنا چاہیں جو میں نے آپ کے چوتھے سوال کے جواب میں پیش کیا ہے ۔

5 ۔ اسی طرح کی حدیث ابوالھیعہ سے بھی ہے،کہتے ہیں جب سرکار ؐ کی وفات ہوئی تو ابوذر نہیں تھے،ابوذر آئےتو(سقیفہ کا ڈ رامہ ختم ہوچکا تھا)ابوبکر خلیفہ بن چکے تھے،ابوذر نے تبصرہ کیا فرمایا:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغہ ج: 16 ص: 333 ۔ 334 ،بلاغات النسا ابن طیفور ص: 20 ،اقوال فاطمہ بنت رسول اللہؐ،جواہر المطالب فضائل امام علیؑ،ابن دمشقی ج: 1 ص: 165 ۔ 169 ،

( 2) انساب الاشراف ج: 2 ص: 274 ،امر سقیفہ)

( 3) شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 49 ،اور اسی طرح ج: 6 ص: 43

۱۱۵

تم نے قناعت(تھوڑے)کو صحیح سمجھا اور قرابت پیغمبر کو چھوڑ دیا،اگر اس امر خلافت کو تم اپنے نبی کے اہل بیت ؑ میں قرار دیتے تو تمہارے یہاں دو آدمی آپس میں اختلاف نہیں کرتے(1)

دوسری جگہ آپ نے عثمان کے دور میں ایک معرکۃ الآرا خطبہ دیا ہے ملاحظہ ہو:کہتے ہیں جو مجھے پہچانتا ہے پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں رَبذہ کا رہنےوالا ابوذر غفاری ہوں میں جندب بن جاندہ ربذی ہوں بیشک اللہ نے منتخب کیا آدم کو،نوح کو،آل ابراہیم کو اور آل عمران کو،ساری کائنات میں ایک ذریت سے دوسرے سے افضل ہے اور اللہ سننےوالا اور جاننےوالا ہے،محمد ؐ اولاد نوح ؑ میں منخب کئے گئے،جو ابراہیم ؑ کے وارث اور اسماعیل ؑ کے خاندان سے ہیں اور محمد ؐ کی وہ عترت جو رہنما ہے،ان کے شرف بلند کئے گئے اور انہیں پوری قوم پر حق فضیلت دیا گیا،وہ ہمارے درمیان ایسے ہیں جیسے بلند آسمان یا پردہ وار کعبہ یا منصوب قبلہ یا بلند ہوتا ہوا سورج یا سفر کرتا ہوا چاند یا رہبری کرتے ہوئے ستارے،یا زیتون کا درخت جس کا تیل روشنی دیتا ہے اور جس کی زیادتی میں برکت دی گئی ہے محمد ؐ آدم کے وارث ہیں اور تمام انبیا ماسلف کو جو فضیلت دی گئی محمد ؐ ان تمام فضائل کے وارث ہیں اور علی بن ابی طالب ؑ محمد ؐ کے وصی اور ان کے علم کے وارث ہیں اے وہ امت جو اپنے نبی کے بعد حیرت میں پڑگئی اگر تم نے اسے آگے بڑھایا ہوتا جس کو اللہ نے بڑھا رکھا ہے اور اسے پیچھے ہوتا تو تم آسمانوں سے بھی پاتے اور زمین سے بھی کھاتے اور خدا کے دوست کمزور نہ ہوتے اور فرائض خدا کو معطل نہیں کیا جاتا اور تمہارے درمیان اگر دو آدمی بھی اختلاف کرتے تو ان کے مسائل کا حل تم کتاب خدا ور سنت نبی ؐ میں پالیتے لیکن اب تو تم جو کیا وہ کردیا اب اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتو!عنقریب ظالم جان جائیں گے کہ کس ٹھکانے پر پہنچنےوالے ہیں ۔(2)

6 ۔ عمر اصحاب شوریٰ کو معین کررہے ہیں کہتے ہیں اگر تم نے حضرت علی ؑ کو اپنا ولی بنایا تو خدا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:13

(2)تاریخ یعقوبی ج:2ص:171،زمانہ عثمان میں

۱۱۶

کی قسم وہ تمہیں واضح حق کے راستے پر ڈ ال دیں گے اور روشن حجت تمہارے سامنے پیش کردیں گے ۔(1)

میں پوچھتا ہوں مسلمان اور عالم اسلام کے لئے اس سے بہتر بات کیا ہوگی؟(کہ انہیں حق کے راستے پر چلایا جائے)بہرحال گذشتہ مضمون کی کثیر حدیثیں ہیں جو نبی ؐ اور اہل بیت نبی ؐ کی طاہر زبانوں پر ہمہ وقت جاری رہتی تھیں ۔ ان حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ منصب امامت و خلافت کے لئے منصوص افراد پر کفایت کرنا ضروری ہے اور ان منصوص کا قائم مقام دوسرا ہو ہی نہیں سکتا کہ شریعت اس کی جانب داری کرے اور منصوص علیہ کو معزول کردے(اگر چہ منصوص علیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غاصبوں کو معزول کردے)کاش یہ حق اسے دیا گیا ہوتا ۔

عثمان کی خلافت پر کوئی نص نہیں تھی مگر وہ معزول ہونے پر تیار نہیں تھے

لطیفہ یہ ہے کہ جب عوام نے عثمان سے(ان کی بدکرداریوں کی بنا پر)مطالبہ کیا کہ وہ خلافت سے معزول ہوجائیں تو عثمان نے احتجاجاً ایک جملہ کہا کہنے لگے اللہ نے جو قمیص مجھے پہنائی ہے اس کو نہیں اتاروں گا ۔(2) حالانکہ وہ عوام کی بیعت کی بنیاد پر خلیفہ بنے تھے ۔ اللہ نے کوئی نص نہیں فرمائی تھی،اس کے باوجود لوگ اہل بیت ؑ کے بارے میں یہ جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ منصوص من اللہ تو تھے ان کے علاوہ کوئی منصوص علیہ نہیں تھا مگر انہوں نے خود کو معزول کرلیا تھا اور اپنا حق دوسروں کو دیدیا تھا اور ان کی حکومت پر راضی تھے،باب کو مزید واضح کرنے کے لئے ملاحظہ ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ،ج:1ص:186،انھیں الفاظ اور مختلف تعبیر میں نہج البلاغہ کی ج:6ص:326،پر بھی ہے المستدرک علی صحیحین،ج:3ص:101،والامامۃ و السیاسۃ،ج:1ص:26،والطبقاب الکبریٰ،ج:3ص:342،تاریخ یعقوبی،ج:2ص:158،عمر بن خطاب کے زمانے میں،المصنف،عبدالرزاق،ج:5ص:447،446،ابوبکر کی بیعت کے بارے میں،الادب المفرد،بخاری،ص:204،انساب الاشراف،ج:3ص:14،حضرت علی بن ابی طالبؑ کی بیعت کے بارے میں،اورج:6ص:120،امر شوریٰ اور عثمان کی بیعت سے متعلق،والعقد الفرید،ج:4ص:255،الفتوح،ابن اعثم،ج:1ص:324،عمر بن خطاب کے قتل کے بارے میں،تاریخ مدینۃ،ابن شیبۃ،ج:3ص:882،

(2)تاریخ طبری،ج:2ص:35،675سنہ کے واقعات میں،الکامل فی التاریخ،ج:3ص:35،67سنہ کے واقعات میں،المنتظم،ج:5ص:35،55سنہ کے واقعات میں،اہل مصر اور ان کے موافقین کا عثمان کے خلاف خروج،تاریخ دمشق،ج:39،ص:438،عثمان بن عفان کے سوانح عمری میں۔

۱۱۷

دورخلافت کے جاری رکھنے سے معالم حق کی بربادی لازم آتی ہے

اوّلا۔عمر اور ابوبکر زبردستی خلیفہ بنے تھے لیکن یہ غلط فہمی نہ ہو کہ دونوں حقدار کی حقیقت کا اعتراف بھی کر رہے تھے بلکہ وہ سرے سے(اہل بیتؑ کو)خلافت کا حقدار ہی نہیں سمجھتے تھے اس لئے کہ وہ نص سے تجاہل عارفانہ کر رہے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ خلافت عام قریش کا حق ہے یا یہ کہ بنوہاشم کا حق بہرحال نہیں ہے باقی چاہے جس کا حق ہو،دلیل یہ تھی کہ خلافت اور نبوت ایک ہی گھر میں جمع نہیں ہوسکتی(دوسری دلیلیں بھی ہیں)اس صورت مین اہل بیت کا ان دونوں کی خلافتوں پر جہاد کرنا اور خود ساختہ خلیفہ کی خلافت کا اقرار کرنا حکم الٰہی میں تحریف اور معالم کو ضائع کرنا ہے وہ معالم حق جس کو لوگوں تک پہنچانا لازمہے یہ کیسے کہا جائے کہ اس اقرار سے صرف اس دور کے لوگوں کے لئے خدا کی نشانیاں ضائع ہوں گی،میں کہتا ہوں کہ جمہور عالم اسلام کے لئے تو وہ نشانیاں ضائع ہو ہی گئیں اس لئے کہ جمہور اہل سنت منصب خلافت کے لئے نص کے قائل نہیں ہیں سب یہ ہے کہ خودساختہ خلفا نے خود بنا کے پیش کیا اور ان حضرات کو نص سے تغافل رکھایا یہ کہ خود غافل کیا حالانکہ نص موجود تھی اور ایک بڑا گروہ نص کا قائل تھا نص کا اعلان اور اس کی تاکید کر رہا تھا اس نص کے ذریعہ لوگوں کے سامنے حجت پیش کر رہا تھا پھر آپ خود سونچیں کیا ہوتا ہے اگر آپ کی طرح اہل بیت ؑ اور ان کے شیعہ بھی غاصبوں کی خلافت کا اقرار کر لیتے اس کی شرعی حیثیت کا اعلان کردیتے اور اہل بیت اطہار ؑ اور ان کے شیعہ ان کا انکار کرنے کے بجائے خاموش رہتے؟مجلسی علیہ الرحمہ نے کتاب استدارک کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے لکھتے ہیں کہ عیسیٰ بن مہران نے اپنی کتاب((الوفاۃ))(1) میں اپنی اسناد سے حسن بن حسین عرنی سے انہوں نے کہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شیخ ابوجعفر محمد بن حسن طوسی نے کتاب فہرست میں کہا:عیسی بن مہران جو مستعطف کے نام سے مشہور تھا جس کی ابوموسیٰ کنیت تھی اس کی تصنیف میں کتاب الوفاۃ میں تلعکبری نے ایک جماعت سے اور انھوں نے ابن ہمام سے اور انھوں نے احمد بن محمد بن موسیٰ نوفلی سے ہمیں خبر دی اور ابن ندیم نے اسے کتابوں میں ذکر کیا،مقتل عثمان سے متعلق کتاب میں،الفہرست باب عیسیٰ،ص:142،نجاشی نے کہا(عیسیٰ بن مہران مستعطف جس کی نیت ابوموسیٰ تھی اس کی چند کتابیں ہیں انھیں میں سے ایک کتاب مقتل عثمان نامی بھی ہے،کتاب الوفاۃ)کتاب الکشف الرجال باب عیسیٰ ص:297،

۱۱۸

مجھ سے مصبح العجلی نے ان سے ابوعوانہ نے ان سے اعمش نے ان سے مجاہد نے ان سے عمر کے صاحبزادے نے وہ کہتے ہیں کہ جب میرے باپ عمر پر سخت وقت آیا یعنی موت کا وقت تو انہوں نے مجھے حکم دیا کہ ذرا علی ؑ کو بلا لو میں علی ؑ کو بلا کے لایا تو میرے باپ کہنے لگے ابوالحسن میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنھوں نے آپ سے منھ پھیر لیا تھا اور میں نے ہی سب سے پہلے آپ سے جھگڑا کیا لیکن میں آپ کا ساتھی ہوں آپ مجھے معاف کردیں،مولا نے کہا معاف تو کردوں گا لیکن تم بھی اعتراف جرم دو آدمیوں کے سامنے کرو!یہ سن کے میرے باپ نے دیوار کی طرف منھ موڑ لیا اور کچھ دیر تک خاموش رہے پھر فرمایا ابوالحسن آپ کیا کہہ رہے ہیں مولا علی ؑ نے کہا مجھے جو کچھ کہنا تھا کہدیا،شرط وہی کہ دو آدمیوں کی موجودگی میں یہ بات کہو،عمر نے پھر دیوار کی طرف منھ پھیر لیا اور بہت دیر تک خاموش رہے یہاں تک کہ مولائے کائنات ؑ اٹھے اور باہر نکل گئے،ابن عمر کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے کہا،علی ؑ نے تو آپ کے ساتھ انصاف کیا تھا،کاش آپ صرف دو آدمیوں کو گواہ بناکے یہ بات کہہ دیتے عمر نے کہا بیٹا تم کو نہیں معلوم ہے علی ؑ چاہتے ہیں کہ دو آدمی بھی میرے لئے استغفار نہ کریں ۔(1) اگر چہ میں اس روایت کی صحت پر مکمل یقین نہیں رکھتا لیکن قصہ شوریٰ کے حوالے سے مورخین کا بیان اس روایت سے بہت کچھ ملتا جلتا ہے،عمر اصحاب شوریٰ کو نامزد کررہے ہیں اور ہر ایک کی کمزوری بھی بیان کرتے جارہے ہیں تا کہ ارکان شوریٰ کو خلافت سے دور رکھنے کی وجہ لوگوں کی سمجھ میں آجائے(2) انہوں نے سب پر بڑے بڑے عیب لگائے لیکن جب مولا علی ؑ کا نام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)بحارالانوارج:30،ص:142،ابوبکر اور عمر نے غضب خلافت سے متعلق جو موت کے وقت ندامت و شرمندگی کا اظہار کیا ہے کے باب میں،حدیث10،اسی الفاظ میں،ج:8ص:206،

(2)الاستیعاب ج:3ص:1119،علی بن ابی طالب علیہ السلام کی سوانح حیات میں،الامامۃ و السیاسۃ،ج:1ص:26،کتاب الآثار،ص:217،الانساب الاشراف ج:6ص:221،تاریخ المدینۃ،ابن شیبۃج:3،شوریٰ اور قتل عثمان سے متعلق بیان میں،ص:880۔881۔882۔883،شرح نہج البلاغہ ج:6ص:226،کنزالعمال،ج:5ص:740،حدیث:14266،ص:742،حدیث1426،الفائق فی غریب الحدیث،ج:3ص:168،غریب الحدیث،ابن سلام،ج:3ص:331،مادہ قنب میں،الفتوح،ابن اعثم،ج:1ص:324،عمر ابن خطاب کے قتل کے بیان کے آغاز میں۔

۱۱۹

لیا تو صرف یہ کہا کہ علی ؑ بہت خوش مزاج اور پر مذاق ہیں ۔(1)

پھر فوراً یہ بھی صراحت سے کہہ دیا کہ اگر تم ان کو حاکم بناؤگے تو وہ تمہیں حق پر چلاکے چھوڑیں گے اور روشن حجت قائم کریں گے،یہ بات پہلے بھی گذرچکے ہے،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عمر مولا علی ؑ کو خلافت سے قریب کرنا چاہتے تھے اور انھیں کی طرف اشارہ کررہے تھے،

بلکہ طبری کہتے ہیں کہ لوگ نکلے اور عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے اے امیرالمومنین آپ کسی کو خلیفہ تو بنادیں پر عمر نے کہا میں نے اپنے قول کے بعد تمہارے بارے میں اپنی رائے کو جمع کیا تو میں اس حکومت کا دلی ایک ایسے آدمی کو بنا رہا ہوں جو اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم کو حق کے راستے پر ڈ ال دے اس کے بعد انہوں نے حضرت علی ؑ کی طرف اشارہ کیا پھر مجھے غش آگیا اور میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص باغ میں داخل ہوا جو اس نے خود لگایا تھا اور ہر ڈ الی سے تازہ پھل توڑے اور انہیں نچوڑ نچوڑ کر اپنے سر پر ڈ النےلگا،میں سمجھ گیا کہ خدا کا امر غالب ہے اور عمر مرنےوالا ہے تو میں مروں یا زندہ رہوں خلافت کا بار اب نہیں اٹھاؤں گا تم پر واجب ہے کہ اس گروہ(شوریٰ)کی بات مانو!پھر طبری نے عمر کی طرف سے شوریٰ کے تانے بانے پیش کئے ہیں،جو مشہور ہے اور جانا پہچانا ہے ۔(2)

عمری کی گفتگو کے الٹ پھیر سے تو یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ انہوں نے بہت چالاکی سے گوٹی بٹھا کے شوریٰ کو امت پر اس انداز میں لاددیا کہ سوائے عثمان کے کوئی خلیفہ بن ہی نہیں سکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الاستیعاب ج:3ص:1119،علی بن ابی طالب علیہ السلام کی سوانح حیات میں،الانساب والاشراف ج:6ص:221،تاریخ المدینۃ،ابن شیبۃج:3ص:880،شرح نہج البلاغہ ج:3ص:326۔327،کنزالعمال ج:5ص:740،حدیث:14266،ص:742،حدیث:1426،الفائق فی غریب الحدیث،ج:3ص:168،غریب الحدیث،ابن سلام،ج:3ص:331،مادہ قنب میں،الفتوح،ابن اعثم،ج:1ص:324،عمر ابن خطاب کے قتل کے بیان کے آغاز میں۔

(2)تاریخ طبری،ج:2ص:580،اس کے بعد شوریٰ کا قصہ ہے،کلمہ(رہقتنی)تاریخ طبری سے الفیہ کے پروگراموں میں حذف ہوگیا ہے لہذا ہم نے موجودہ نسخہ پر اعتماد کرتے ہوئے جو معجم فقہی کے پروگرام میں درج ہے ملحق کردیا ہے۔

۱۲۰