فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 367
مشاہدے: 199161
ڈاؤنلوڈ: 5569


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 199161 / ڈاؤنلوڈ: 5569
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جائے کہ آپ کا استحقاق نص کی وجہ سے ہے تو اس سے بڑے بڑے مہاجرین کافر یا فاسق قرار پاتے ہیں(یعنی معتزلی فرقہ کی نظر میں آپ کی خلافت منصوص نہیں ہے اگر چہ حقیقت میں منصوص ہی ہے لیکن اگر منصوص مان لیا جائے تو پھر بڑے بڑے لوگ بڑے بڑے کافر و فاسق اور ظالم قرار پائیں گے)

بہرحال علامہ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ ہم لوگ آپ کی خلافت کو منصوص نہیں مانتے وجہ اوپر بیان کی جاچکی ہے لیکن امامیہ اور زیدیہ نے جناب امیرؑ کے اقوال کے ظاہری معنیٰ لئے ہیں اور اس طرح وہ دونوں فرقے سرکش اونٹنی پر سوار ہوگئے ہیں(یعنی مشکل میں گرفتار ہوگئے ہیں)میری جان کی قسم جناب امیرؑ کے یہ الفاظ محض وہم کی وجہ سے ہیں اور زیدیہ اور امامیہ نے محض ظن کے غلبہ کی وجہ سے حکم لگایا ہے حالانکہ حالات و واقعات ایسے ظن کو باطل قرار دیتے ہیں اور وہم کو ختم کرتے ہیں کلام ابن ابی الحدید کا اختتام۔(1)

میں کہتا ہوں وہ کون سے حالات ہیں؟اور وہ حالات کیسے اس نظریہ کو باطل کرتے ہیں؟بلکہ حالات تو(شیعوں کے نظریہ کی)تاکید و تائید کرتے ہیں،ان کی بنیاد کو مضبوط کرتے ہیں اور ان کی دلیلوں کو محکم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام سے رضا ظاہر نہیں ہوتی

بہرحال یہاں موضوع گفتگو اثبات نص نہیں ہے اس کے بارے میں ہم دوسری جگہ گفتگو کریں گے،نص کے بارے میں تو آپ فرمارہے ہیں کہ اگر شیعوں کے قول کے مطابق نص مان لی جائے تو(ہمارے مہاجرین و انصار کافر ہوجائیں گے)یہاں گفتگو تو اس موضوع پر ہورہی ہے کہ ائمہ اہل بیتؑ غاصب خلفا کا اقرار بھی کرتے تھے اور ان کی خلافت پر راضی بھی تھے جب کہ امیرالمومنینؑ کا کلام جو کچھ بھی پیش کیا گیا اس سے اقرار ہوتا ہے نہ رضا البتہ ناراضگی اور اختلاف ظاہر ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:9ص:307

۱۶۱

خلافت کے بارے میں صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کا موقف

صدیقہ طاہرہ صلوات اللہ علیہا نے ایک خطبہ میں غصب فدک کو ایک غاصبانہ اقدام بتایا ہے اور غصب فدک کے بارے میں آپ کا اظہار ناراضگی درحقیقت خلافت کے سلسلے میں رونما ہونےوالے حادثات کا شدّت سے انکار ہے ورنہ اسی خطبہ میں آپ نے غصب کو ایک جرم بتایا اور غاصبوں کی پول کھول دی ہے۔اسی خطبہ کے کچھ اجزا ملاحظہ ہوں،آپؐ فرماتی ہیں:یہاں تک کہ اللہ نے اپنے نبیؐ کو انبیا کی منزل میں(وفات پیغمبرؐ)پہنچایا اب نفاق کا راز ظاہر ہونےلگا اور دین کی نقاب بوسیدہ ہو کے پھٹ گئی،گونگے لگے اور گمنام نابغہ دہر ہوگئے،باطل پرست طاقتیں ابھرنے لگیں،شیطان نےاپنے گھونسلے سے ابھارا اور تمہارے آنکھوں میں رینگنےلگا اور تمہیں اٹھانے کی کوشش کی تو بہت ہلکا پایا اور تمہیں دوہنےلگا تو دودھ کے بدلے میں تمہیں غیظ و غضب دیدیا،اس نے تمہیں پکارا تو تمہیں اپنا جواب دینےوالا اور اپنے مکر و فریب اور دھوکےکا لحاظ کرنےوالا پایا،پس تم نے اُس اونٹ کو داغ لگایا جو تہمارا نہیں تھا اور تم اس گھاٹ پر اترے جو تمہارا گھاٹ نہیں تھا،یہ سب کچھ ہوگیا لیکن عہد قریب ہے،زخم گہرا ہے جو ابھی بھرا نہیں ہے تم فتنوں سے خوف زدہ ہو:( أَلَافِيالْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ) (1)

ترجمہ آیت:((حالانکہ وہ لوگ فتنے میں گرچکے ہیں اور جہنم نے کافروں کو گھیر رکھا ہے))۔

تمہارے حال پر افسوس ہے!تم کہاں بہکے جا رہے ہو تمہارے سامنے یہ خدا کی کتاب موجود ہے جس میں بالاعلان ڈانٹا گیا ہے جس کے شواہد چمک رہے ہیں اور اوامر واضح ہیں،کیا تم اس کو چھوڑ کے منھ موڑچکے ہو یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز کو بنیاد بنا کے فیصلہ کررہے ہو۔

(بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا)(2)

ترجمہ آیت:((ظالموں کو بدلے میں کیا بری چیز ملی ہے))۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ توبہ آیت:49 (2)سورہ کہف آیت:50

۱۶۲

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِيناً فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ترجمہ آیت:(اورج و اسلام کے علاوہ کسی دین کو لیکے آئےگا تو وہ ہرگز قبول نہ کیا جائےگا آخرت میں وہ نقصان اٹھانےوالں سے ہوجائےگا)۔(1)

پھر آپ نے فدک کا معاملہ اٹھایا اور اس پر طویل گفتگو اور شدت سے غصب فدک کی مخالفت کی پھر خطبہ ختم کیا۔(2)

ایک روایت میں ہے کہ آپؑ قبر نبیؐ کی طرف متوجہ ہوئیں اور مندرجہ ذیل اشعار پڑھے جس میں صرف شکایت ہی شکایت ہے یہ اشعار ہند بنت اثاثہ کے ہیں۔

ترجمہ اشعار:آپ کے بعد بہت سی چیزیں بارش کے قطروں کی طرح پھیلیں اگر آپ ان کو دیکھتے ہوتے تو مصیبتں زیادہ نہ ہوتیں،جب آپ کی وفات ہوگئی اور زمانہ ہمارے اور آپ کے درمیان حائل ہوگیا تو ہماری طرف سے لوگوں کے دلوں میں جو راز تھے ظاہر ہوگئے،لوگ ہم پر حملہ آور ہوگئے اور ہمارا استخفاف کردیا،آپ نے جیسے ہی غیبت اختیار کی تو لوگوں نے ہمارا حق غصب کرلیا۔(3)

آپ کا خطبہ صغیرہ ہی کے موضوع پر ہے اور آپ نے غاصبان خلافت کی واضح طور سے مخالفت کی ہے اور اپنے حق مغصوبہ پر احتجاج کیا ہے تاریخ شاہد ہے کہ جب آپ بیمار پڑیں تو عورتیں آپ کی عیادت کو آئیں آپ سے پوچھنے لگیں،بنت رسولؐ آپ کی بیماری کا کیا حال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ آل عمران آیت:85

(2)بلاغات النساء ابن طیفورص:13۔14خطبہ فاطمہ زہراؑ،شرح نہج البلاغہ ج:6ص:251جواہرالمطالب فی مناقب امام علیؑ،ابن دمشقی ج:1ص:159

(3)شرح نہج البلاغہ ج:16ص:212غریب الحدیث،ابن سلام ج:4ص:116۔و شرح نہج البلاغہ ج:2ص:50ج:6ص:43،غریب الحدیث ابن قتیبہ ج:1ص:267،اسی طرح کتاب البدءو التاریخ،ج:5ص:68۔69

۱۶۳

ہے؟آپ نے فرمایا میں نے اس حال میں صبح کی ہے کہ میں تمہارے دنیا سے تنگ آچکی ہوں،تمہارے مردوں سے بیزار ہوں،میں نے ان کو گونگا کرنے کے بعد ان سے گفتگو کی ہے،میں نے انھیں آزمانے کے بعد برا سمجھا ہے،برا ہودھار کے مڑجانے،قناتوں کے گرجانے اور نظریات کے مفلوج ہوجانے کا((انھوں نے بہت برے اعمال اپنے لئے بھیجے ہیں کہ خدا ان سے ناراض ہے اور وہ ہمیشہ عذاب ہی میں رہیں گے))میں نے ان کے گلے میں دنیا کا پھندا ڈال دیا اور بےپناہ کرکے غارت کردیا،بےعزتی،کاہلی اور رحمت خدا سے ظالم قوم کے لئے دوری ہو اور ان پر وائے ہو انھوں نے رسالت کی بلندیوں کو کہاں لا پٹکا؟نبوت کی دیواروں کو کہاں گراویا؟روح امین کی منزل ھبوط کو کیا ذلیل کیا؟اور دین و دنیا کے امور پر نظر رکھنےوالے کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟خبردار ہوجاؤ یہی کھلا ہوا گھاٹا ہے))انھوں نے ابولحسنؑ سےکس چیز کا بدلہ لیا ہے؟(1) اس خطبہ کو مولائے کائناتؑ کے خلیفہ ہونے سے جو فوائد مرتب ہوئے اس سلسلے میں لکھا جاچکا ہے۔

ابن ابی الحدید فدک کے بارے میں جو واقعات ہوئے ان کو لکھنے کے بعد اسی سلسلہ میں دونوں خطبہ بھی لکھتے ہیں،اس کے بعد لکھتے ہیں!یہ جان لو کہ میں نے اس فصل میں وہ تمام باتیں لکھ دی ہیں جس کی روایت رجال حدیث اور ان کے معتبر افراد نے کی ہیں اور احمد بن عبدالعزیز جوہری نے جو کچھ اپنی کتاب میں لکھا ہے اس لئے کہ جوہری اصحاب حدیث کے نزدیک ثقہ بھی ہیں اور امین بھی،لیکن شیعوں کے علما اور ان کے اخباریوں نے جو کچھ اپنی کتابوں میں لکھا ہے اس کو اصحاب حدیث روایت کرتے ہیں نہ نقل کرتے ہیں۔(2) خدارا مجھے کوئی بتائے کہ اخباری شیعہ اصحاب حدیث کیوں نہیں ہوسکتے؟کیا اصحاب حدیث راویاں اخبار کے علاوہ افراد ہیں؟یا اصحاب حدیث کے لئے شرط ہے کہ وہ شیعہ نہ ہوں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:16ص:233،بلاغات النساء ابن طیفور ص:19خطبہ فاطمہ زہراؑ،جواہر المطالب،ابن دمشقی ج:1ص:165۔166۔

(2)شرح نہج البلاغہ ج:16ص:234۔235

۱۶۴

خلافت کے معاملے میں امام حسن علیہ السلام کا موقف

یہ امام حسن علیہ السلام ہیں اگر چہ آپ کا صبر،حلم اور صلح پسندی مشہور ہے لیکن خلافت جو اہل بیتؑ کا حق تھا وہ جب غصب کرلیا گیا تو آپ غافل نہیں رہے اور دنیا کو متنبہ کرنے کے ساتھ تاریخ میں اپنا انکار درج کرادیا،آپ کے کچھ ارشادات ملاحظہ ہوں۔

1۔آپؑ ہی کے لئے مشہور ہے کہ ابوبکر منبر پر خطبہ دے رہے تھے تو آپ اٹھے اور فرمایا میرے باپ کے منبر سے اترجا!(1)

2۔جب موالئے کائناتؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی بیعت کی گئی تو آپؑ نے معاویہ کو لکھا اما بعد!اللہ نے حضور سرور کائناتؐ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا،جب آپ کی وفات ہوگئی تو خلافت کے لئے عرب زورآزمائی کرنے لگے قریش کہنے لگے ہم نبیؐ کے قبیلہ والے اور آپؐ کے ولی ہیں ہم سے پیغمبرؐ کی سلطنت مت چھینو!عربوں نےقریش کے اس دعویٰ کو مان لیا لیکن قریش نے ہمارے دعوے کو رد کردیا جب کہ ہم نے وہی دعویٰ کیا تھا جو انھوں نے عربوں کے مقابلہ میں کیا تھا،عرب نے ان کے دعوے کو مانا لیکن انھوں نے ہمارے اس دعوے کو رد کردیا،افسوس قریش نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا۔(2)

معاویہ کو اس نے امام حسن علیہ السلام کے حق میں نقطہ ضعف خیال کیا اس لئے اس نے جواب میں لکھا((آپ نے نبیؐ کو جن لفظوں سے ہمیں یاد دلایا ہے،میں اس میں کوئی شک نہیں کرتا اس لئے کہ سرکار دو عالمؐ سارے عالمین میں فضیلت کے حقدار ہیں))لیکن آپ نے امر خلافت میں مسلمانوں کے جھگڑے کا جو تذکرہ کیا ہے تو آپ نے اس بیان میں عمر اور ابوبکر صدیق اور امانتدار ابوعبیدہ اور باکردار مہاجرین پر صریحی تہمت لگائی ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ آپ کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)ریاض النضرہ ج:2ص:148،پہلا باب واقعہ خلافت ابوبکر،تاریخ دمشق ج:30ص:307حالات ابوبکر،المنتظم ج:4ص:70،ذکر خلافت ابوبکر،کنزالعمال ج:5ص:616حدیث:14084

(2)شرح نہج البلاغہ ج:16ص:24

۱۶۵

شایان شان نہیں ہے۔(1)

3۔معاویہ کو ایک دوسرے خط میں آپ نے لکھا((اما بعد!خداوند عالم نے حضور سرور کائناتؑ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا جب آپ کی وفات ہوگئی تو عرب امر خلافت میں لڑنے لگے،قریش نے کہا ہم نبیؐ کے قبیلہ سے آپؐ کے خاندان سے ہیں اور آپ کے ولی ہیں،تمہارے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ تم محمدؐ کی سلطنت اور ان کا حق ہم سے چھین لو،عربوں نے دیکھا کہ قریش کی باتوں میں وزن ہے اور جانشینی پیغمبرؐ میں جو جھگڑا کر رہا ہے اس کے خلاف قریش کے پاس یہ محکم دلیل ہے،پس عرب نے تسلیم کرلیا اور حکومت ان کے حوالے کردی پھر ہم(اہل بیت پیغمبرؐ)وہی دعویٰ جو قریش نے عربوں کے خلاف کیا تھا قریش کے سامنے لیکے گئے لیکن قریش نے عربوں کی طرح ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا،انھوں نے قرابت پیغمبرؐ اور قربت خاندان کا واسطہ دیکےعربوں سے حکومت حاصل کرلی لیکن ہم اہل بیت نبوتؐ نے جب وہی دلیل قریش کے خلاف استعمال کی تو انھوں نے اس کو ماننے سے انکار کردیا ہمیں خلافت سے دور کردیا اور اجماعی طور پر ہم سے ولایت پیغمبرؐ چھین لی اور ہمارا مال کھا گئے،ہم ان سے دور ہیں وعدہ گاہ تو اللہ ہے وہی سرپرست اور مددگار ہے۔

ہمیں حیرت ہورہی ہے کہ ان لوگوں پر جو ہمارے خلاف ہمارے حق کے بارے میں اچھل کود کرتے رہے حالانکہ وہ لوگ صاحبان فضیلت تھے اور سابق الاسلام ہم تو ان کے خلاف اس لئے کچھ نہیں کرسکے کہ ہمیں خوف تھا کہ کہیں دین برباد ہوجائے یا منافقین اور دشمن کے گروہ دیوار اسلام میں رخنہ نہ ڈال دیں یا ہمارا جہاد انھیں ان کے مفسد ارادوں میں کامیاب نہ کردے اور معاویہ!اس سے بڑا تعجب مجھے تیری اچھل کود پر ہورہا ہے تو وہ طلب کر رہا ہے جس کا تو اہل نہیں ہے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:16ص:25

(2)شرح نہج البلاغہ ج:16ص:33۔34

۱۶۶

معاویہ نے بھی اس خط کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑا وہ لکھتا ہے((آپؑ نے وفات پیغمبرؐ کا تذکرہ کیا پھر آپ کی وفات کے بعد امر خلافت کے لئے مسلمانوں کے جھگڑے کا تذکرہ کیا اور یہ کہ لوگ آپ کے والد پر تغلب کرگئے تو اس بیان میں آپ نے ابوبکر صدیق،عمر فاروق،ابوعبیدہ امین،حواری پیغمبرؐ اور انصار مہاجرین کے صالح لوگوں پر تہمت لگائی ہے،میں آپ کی طرف سے ایسی باتوں کو ناگوار سمجھتا ہوں،آپ میرے نزدیک اور دوسرے لوگوں کے نزدیک بھی ان افراد میں ہیں جن کے بارے میں بدگمانی نہیں کی جاتی اور برا نہیں سمجھا جاتا نہ آپ کمینے لوگوں میں ہیں(معاذ اللہ)آپ سے تو میں قول سدید اور اچھی اچھی باتوں کی امید رکھتا ہوں(سننا چاہتا ہوں)(1)

4۔ابن اثیر لکھتے ہیں کہ!جب امام حسنؑ نے حکومت معاویہ کے حوالہ کرنے کا ارادہ کیا تو آپ منبر پر گئے اور خطبہ دیا:فرمایا((اے لوگو!ہم ہی تمہارے امیر اور تمہارے مہمان ہیں ہم ہی تمہارے نبیؐ کے وہ اہل بیتؑ ہیں جنھیں اللہ نے برائیوں سے دور رکھا اور ایسا پاک و پاکیزہ رکھا ہ جو پاک رکھنے کا حق ہے،آپ اس آیت کی تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ مجسل میں کوئی نہیں تھا مگر یہ کہ رو رہا ہو اور لوگ اتنا روئے کہ ہچکیوں کی آواز بلند ہوگئی۔(2)

آپ دیکھیں!امام حسنؑ نے کس طرح یہ بات پکی کردی کہ حکومت و خلافت صرف اہل بیتؑ نبیؐ کا حق ہے آپ نے لوگوں کے ہمدردانہ جذبات اس طرح ابھارے کہ لوگ اہل بیتؑ کی مظلومیت پر ہچکیوں سے روئے۔

خلافت کے معاملے میں امام حسین علیہ السلام کا موقف

حضرت امام ابوعبداللہ الحسین الشہیدؑ نے اپنے بزرگوں کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اکثر یاد دلایا کہ پیغمبرؐ کے بعد اہل بیتؑ کے علاوہ جس کے ہاتھ میں بھی خلافت رہی وہ غاصب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:16ص:35

(2)الکامل فی التاریخ ج:3ص:41،273 سنہکے واقعات،تاریخ طبری ج:3ص:41169 سنہکے واقعات

۱۶۷

1۔منبر پر عمر کو ٹوک دیا فرمایا:میرے باپ کے منبر سے اتر اور اپنےباپ کے منبر پر جا۔عمر نے کہا میرے باپ کا کوئی منبر نہیں ہے۔(1)

بلکہ پورا واقعہ عبداللہ بن کعب سے سنئے،وہ کہتے ہیں جمعہ کے دن عمر پیغمبرؐ کے منبر پر خطبہ دے رہے تھے حسین بن علیؑ اٹھے آپ ابھی بہت کمسن تھے آپ نے فرمایا میرے جد کے منبر سے اترجا،عمر نے کہا بھتیجے رک جاؤ لیکن امام حسین ان کی روا پکڑ کر کھینچتے رہے اور بار بار کہتے رہے میرے جد کے منبر سے اترجا،آخر عمر کو خطبہ روکنا پڑا اور منبر سے اترے اور نماز کا حکم دیا۔(2)

2۔آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں امام حسین علیہ السلام کی وصیت کا تذکرہ کیا ہے جو آپ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ سے کی تھی آپ نے فرمایا تھا میں صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں،میرا ارادہ ہے کہ میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کروں اور اپنے جد اور اپنے والد ماجد علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت پر عمل کروں۔

آپ کی اس وصیت سے یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ وہ سیرت جو قابل پیروی(بلکہ واجب الاتباع)ہے وہ صرف حضور سرور کائناتؐ اور مولائے کائناتؑ کی سیرت ہے اس کے علاوہ کوئی سیرت قابل پیروی نہیں ہے۔

----------------

(1)سیراعلام النبلاءج:3ص:285حالات امام حسینؑ سیراعلام النبلاءحسین شہیدؑ کے حالات میں بعینہ الاصابۃج:2ص:77پر حسین بن علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،معرفۃ الثقات،ج:1ص:301حسین بن علی بن ابی طالب کے حالات میں تہذیب التہذیب ج:2ص:300،حسین بن علیؑ کے حالات میں،تہذیب الکمال ج:6ص:404،حسین بن علیؑ کے حالات میں،تاریخ واسط،ج:1ص:302،ابوالحسین سعد بن وہب بن مناف سلمی کے حالات میں،تاریخ الخلفاءج:1ص:203،عمر بن خطاب کے حالات میں،تاریخ بغدادج:1ص:141،حسین بن علیؑ کے حالات میں بغیۃ الطلب فی تاریخ الحلب ج:6ص:2584۔2585،حسین بن علی بن عبد مناف ابی طالب کے حالات میں،التحفۃ اللطیفۃ فی تاریخ المدینۃ الشریفہ ج:1ص:295،حسین بن علی کے حالات میں علل الدار قطنی،ج:2ص:125،تاریخ دمشق ج:14ص:175،حسین بن علیؑ کے حالات میں،کنزالعمال ج:13ص:654،حدیث:37662،تاریخ مدینہ منورہ ج:3ص:799،

(2)تاریخ مدینہ منورہ ج:3ص:798

۱۶۸

یہی وجہ ہے کہ آپ مادی اعتبار سے کمزور پڑگئے،جو لوگ ابوبکر اور عمر کے چاہنےوالے تھے ان کی ہمدردیاں آپ سے مفقود ہوگئیں اور جس وقت آپ نے قیام کیا تھا اس وقت دونوں خلیفہ کے چاہنےوالے زیادہ تھے یعنی حکومت بنوامیہ کے ہاتھ میں تھی اور آپ دیکھ چکے ہیں کہ معاویہ نے اپنے دو خطوں میں جو امام حسنؑ کو بھیجے تھے یہ لکھا تھا کہ آپ ان دونوں کا انکار نہ کریں بنوامیہ ابوبکر و عمر کی مخالفت کو اہل بیتؑ کا سب سے کمزور پہلو سمجھتے تھے،ابھی مقام شہادت میں معاویہ کے وہ خطوط بھی پیش کئے جائیں گے جو اس حقیقت کو زیادہ ثابت کریں گے،امام حسینؑ اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ ابوبکر و عمر کا انکار آپ کی مادّی قوت کو کم کردے گا اور آپ کا ساتھ صرف اسی وجہ سے نہیں دیں گے لیکن آپ یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ مادّی قوت اور فوجی طاقت حاصل کرنے سے اہم بات اظہار حق ہے،اہل بیتؑ کے مذہب کا اظہار اور اپنے استحقاق پر اصرار آپ کی نظر میں مادّی فتح اور فوجی غلبہ سے زیادہ اہم تھا اس لئے آپ نے جہاں جو بات کہی دو ٹوک کہی اور کھل کے اعلان کیا۔3۔آپ نے مکہ والوں اور اہل بصرہ کو ایک ہی طرح کا خط لکھا لیکن اس خط کا مضمون بھی صرف اظہار حق اور اعلان مظلومیت پر مشتمل تھا،آپ نے اس خط میں لکھا خداوند عالم نے حضرت محمد مصطفیٰﷺکو اپنی تمام مخلوقات سے منتخب کیا آپ کو نبوت سے عزت بخشی اور رسالت کے لئے اختیار کیا پھر اللہ نے آپ کو نبوت سے عزت بخشی اور رسالت کے لئے اختیار کیا پھر اللہ نے آپ کو اپنے پاس بلالیا،حضور سرور کائناتؐ نے اس کے بندوں کی خیرخواہی کی اور اللہ کا پیغام پہنچادیا،اہل بیتؑ آپ کے وارث اور ولی ہیں اور آپ کی جگہ لینے کے سب سے زیادہ مستحق ہم ہی ہیں لیکن ہماری قوم نے ہم پر دوسروں کو ترجیح دی تو ہم راضی رہے اور تفرقہ پردازی سے پرہیز کیا اور عافیت کو پسند کیا،حالانکہ ہمیں یقین ہے کہ ہم خلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں جنہیں ولی امر بنایا گیا ہے وہ ہمارے حق کے غاصب ہیں۔(1) آپ کا مندرجہ بالا کلام پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ امام حسینؑ صرف اہل بیتؑ کو مستحق خلافت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:3ص:280کوفیوں کی طرف سے امام حسینؑ کو دعوت جانا اور مسلم ابن عقیلؑ کی روانگی۔بدایہ و نہایۃ ج:8ص:158،157 امام حسینؑ کے مکہ سے نکلنے کی وجہ اور دارالمارہ میں طلب کرنا ار مقتل کے حالات،

۱۶۹

سمجھتے ہیں اور جو کچھ اس سلسلے میں تشدد ہوا اس پر اگر یہ لوگ راضی بھی رہے تو محض اس لئے کہ فرقہ بندی نہ ہو اور عافیت برقرار رہے اس لئے نہیں کہ وہ دوسروں کے لئے اپنے حق سے دست بردار ہوگئے تھے،ان کی ولایت پر راضی تھے اور ان کے حکم پر دستخط کررہے تھے بلکہ امام حسینؑ انھیں خلافت کا اہل ہی نہیں سمجھتے تھے۔

خلافت کے معاملے میں امام زین العابدین علیہ السلام کا موقف

1۔حضرت ابومحمد علی بن حسینؑ زین العابدین علیہ السلام بھی اپنے آبا و اجداد طاہرینؑ کے طریقے پر چلتے ہوئے اپنے حق کا اظہار دعاؤں میں کرتے ہیں اور اپنی معنی خیز دعاؤں میں ان لوگوں سے کھل کے اظہار ناراض گی کرتے ہیں جنہوں نے آپ کا حق غصب کیا آپ اللہ سے شکایت کرتے ہیں کہ آپ کے اہل بیتؑ پر ظلم کیا گیا،صحیفہ کاملہ کی اڑتالیسویں دعا کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو،آپ یہ دعا یوم الاضحیٰ اور یوم جمعہ کو پڑھا کرتے تھے اس مٰں فرماتے ہیں پالنےوالے یہ مقام تیرے منتخب بندوں کا ہے اور تیرے خلفا اور تیرے امانتداروں کی یہ جگہ ہے،وہ بلند درجہ تو نے ان خاص بندوں کو جس سے مخصوص کیا ہے یہاں تک کہ تیرے چنے ہوئے بندے مغلوب و مقہور اور گمنام ہوگئے وہ تیرے حکم کو بدلتا ہوا تیری کتاب کو تقسیم ہوتا ہوا اور تیری شریعت کی سمت سے تیرے فرائض کو تحریف ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور تیرے نبی کی سنت کو متروک دیکھ رہے ہیں پالنےوالے لعنت کر ان کے دشمنوں پر(اولین و آخرین پر جو دشمن اہل بیتؑ ہیں)اور ان پر جو ان کے اس فعل سے راضی ہیں اور ان کے مطیع ار فرمابردار ہیں۔

مندرجہ بالا دعا کے فقروں میں امام نے صراحت سے اپنی مظلومت کا زکر کیا ہے وہ مظلومیت جو حق کے چھن جانے اور منصب کے غصب ہوجانے کی وجہ سے اہل بیتؑ کو جھیلنی پڑی،یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ چونکہ حق،حقدار کو نہیں مل سکا اس کی وجہ سے دین میں تحریف ہوگئی اور احکام دین میں رکاوٹ آئی،آپ نے اس ظلم سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا ہے بلکہ آخری فقرے تو تعمیم

۱۷۰

کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

2۔چبیسویں دعا میں آپ اپنے پڑوسی اور اپنے چاہنےوالوں کے لئے دعا کررہے ہیں جب ان کا تذکرہ کرتے ہیں تو فرماتے ہیں پالنےوالے!محمدؐ و آل محمد پر درود بھیج اور میرے پڑوسیوں کو اور ان کو جو ہمارے چاہنےوالے ہیں اور ہمارے حق کو پہچانتے ہیں اپنی افضل ولایت سے سرفراز فرما اور انھیں بھی جو ہمارے دشمنوں سے دور رہتے ہیں،مالک تو انھیں اپنی سنت قائم کرنے کی توفیق عنایت فرما۔

3۔صحیفہ کاملہ کی سیتالیسویں دعا ملاحظہ فرمائیں:جو آپ یوم عرفہ میں پڑھتے تھے،آپ فرماتے ہیں پالنےوالے تو نے ہر دور میں اپنے دین کی تائید ایسے امام سے کی جو تیرے بندوں کے لئے ایک نشانی،تیرے شہروں کے لئے منارہ نور ہوا کرتا ہے،تو نے اس کی رسی اپنی محبت سے باندھ دی اور اس کو اپنی مرضی تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا تو نے اس کی اطاعت فرض کی اور اس کی نافرمانی سے ڈرایا تو نے حکم دیا تو نے اس کی اطاعت فرض کی اور اس کی نافرمانی سے ڈرایا تونے حکم دیا کہ اس کے امر کا امتثال کیا جائے اور اس کے نواہی سے باز رہا جائے کوئی آگے بڑھنےوالا اس سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے نہ کوئی پیچھے رہنےوالا اس سے پیچھے رہنے کی کوشش کرے،پس وہ امام صاحبان خلوص کے لئے پناہ اور مومنین کے لئے گوشہ عافیت ہے،وہ امام تمسک کرنےوالوں کے لئے عروہ اور عالمین کی شان ہوا کرتا ہے۔

پالنےوالے درود بھیج ان کے چاہنےوالوں پر جو ان کے مقام کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کے راستے کی پیروی کرتے ہیں،ان کے آثار کو تلاش کرتے ہیں اور ان کے سہارے سے متمسک ہیں،ان کی ولا کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں،ان کی امامت اور ان کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنےوالے ہیں اور ان کی اطاعت کے لئے بھرپور کوشش کرنےوالے ہیں،ان کے ایام فرج کے منتظر ہیں،انھوں نے اپنی آنکھیں ان کی طرف لگا رکھی ہیں،ان پر صلوٰت بھیج ایسی صلوات جو مبارک ہو اور ان کو پاک کرنےوالی ہو اور ان میں قوت نمو پیدا کرنےوالی ہو صبح و شام صلوت بھیج۔

مندرجہ بالا دعاؤں ہی ٹکڑے اگر چہ غصب منصب اور اظہار مظلومیت سے خالی ہیں

۱۷۱

لیکن دونوں ہی ٹکڑوں میں آپ نے اپنا چاہنےوالوں کے لئے دعا کی ہے اور ان دعاؤں میں ان کے لئے دنیا و آخرت دونوں ہی کے لئے فلاح طلب کی ہے،آپ نے اپنے چاہنےوالوں کے جو صفات بیان کئے ہیں وہ صرف شیعیان امامیہ پر منطبق ہوتے ہیں،اگر تھوڑا غور کر کے سمجھیں تو پتہ چلےگا کہ ان دعاؤں میں امامؑ نے شیعوں کے عقائد کا اقرار کیا ہے اور ان کی تصدیق کی ہے اور اس عقیدے کی بھی تقریر فرمائی جو شیعہ ابوبکر و عمر کی خلافت کے سلسلہ میں رکھتے ہیں۔

جیسے دوسری دعا کا یہ فقرہ((اور تو نے اس(امام)کی طاعت فرض کی اور یہ کہ کوئی بڑھنےوالا اس سے آگے نہ بڑھے اور پیچھے رہنےوالا اس سے تاخر نہ کرے))یہ فقرے غاصبان خلافت پر کھلے ہوئے اعتراض ہیں آپ نے وضاحت کے ساتھ بتادیا کہ خلافت غصب کرنے والے اہل بیتؑ سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے تھے۔

خلافت کے معاملے میں امام محمد باقر علیہ السلام کا موقف

امام محمد باقر علیہ السلام کا موقف تو آپ کے پہلے سوال کے جواب میں بتادیا گیا ہے،جب اہل بدروالی حدیث پیش کی گئی تھی اور جمہور صحابہ کی نظروں کی وضاحت کے ساتھ حدیثوں کے جعلی(من گھڑت)ہونے کے سلسلے میں امام ابوجعفر محمد باقرؑ کا کلام پیش کیا گیا تھا،اس کلام کا ذکر ابن ابی الحدید نے بھی کیا ہے اور آپ کا یہ کلام اعلان کررہا ہے کہ خلافت اہل بیتؑ کا حق ہے اس کے ساتھ ہی آپ نے غصب خلافت کا شکوا بھی کیا ہے،آپ سوال اول کا جواب ملاحظہ کریں۔اصل بات یہ ہے کہ امام محمد باقرؑ کے کلام کے ساتھ دوسرے ائمہ اہل بیتؑ کا اس موضوع پر کلام اس کثرت سے وارد ہوا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں ہے،اسی طرح شیعیان علیؑ کا کلام بھی ہے،لیکن ہم یہاں صرف ان باتوں پر اختصار کررہے ہیں جن کا تذکرہ علما جمہور نے بھی اپنی کتابوں میں کیا ہے اور جس کی دشہرت اس پائے کو پہنچی ہے کہ تجاہل یا انکار ممکن ہی نہیں ہے۔

۱۷۲

خلافت کے مسئلہ میں محمد بن حنفیہ کا موقف

عبداللہ بن زبیر اپنے خطبہ میں مولائے کائناتؑ کی ذات پر رکیک حملہ کررہا تھا یہ خبر محمد بن حنفیہ تک پہنچی،آپ اسی وقت وہاں پہنچے،ابھی وہ خطبہ دے ہی رہا تھا لیکن آپ کے لئے ایک کرسی رکھ دی گئی،آپ اس پر بیٹھے اور اس کے خطبہ کو روک دیا پھر فرمایا اے گروہ عرب!تمہارے چہرے سیاہ ہوں،علیؑ کو برا کہا جارہا ہے اور تم سن رہے ہو!علیؑ دشمنان خدا کے خلاف اللہ کے ہاتھ ہیں اور اس کے حکم سے گرائی ہوئی ایک بجلی ہیں،خدا نے کافروں پر اور حق اللہ کا انکار کرنےوالوں پر علیؑ کو بجلی بنا کر گرایا تھا اور علیؑ نے کافروں کے کفر کی وجہ سے انھیں قتل کیا تو وہ انھیں برا کہنے لگے ان سے بغض رکھنے لگے اور کینہ و حسد اپنے دل میں چھپالیا،اس لئے کہ پیغمبرؐ زندہ تھے اور ابھی آپ کی وفات نہیں ہوئی تھی،پس جب اللہ نے پیغمبرؐ کو اپنے جوار میں منتقل کر لیا اور اپنے پاس موجود نعمتوں سے انھیں ملا دینا پسند کیا تو لوگوں کے دلوں کے کینے ظاہر ہوگئے،دل کا میل ظاہر ہوگیا،(لوگ علیؑ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے)کسی نے آپ کا حق چھیں لیا،کوئی آپ کو قتل کرنے کے لئے مشورے کرنے لگا اور کوئی آپ کو گالیاں دینے لگا اور جھوٹے عیب لگانے لگا۔۔۔۔(1)

دیکھا آپ نے جناب محمد بن حنفیہ نے دشمنان علیؑ سے تبرّا کیا،اپنی ناراض گی کا اظہار بھی کیا اور اس طرح یہ سب کچھ کیا کہ جس سے ثابت ہوجائے کہ وہ خلافت مغصوبہ پر راضی نہیں تھے اور غاصبوں کی خلافت،شرعی بنیاد پر نہیں تھی کہ وہ حق کے غصب سے بری الذمہ قرار پائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:4ص:62،مروج الذھب ج:3ص:90،معاویہ بن یزید بن معاویہ کے دور حکومت کا ذکر اور مروان بن حکم اور مختار بن ابی عبید و عبداللہ بن زبیر

۱۷۳

خلافت کے بارے میں عباس بن عبدالمطلب کا موقف

جب ابوبکر نے عباس بن عبدالمطلب کو پیش کش کی کہ وہ اور ان کی اولاد خلافت میں سے کچھ حصہ لےلیں،سازش یہ تھی کہ یہ پیشکش بنوہاشم میں پھوٹ کا سبب بن جائے اور عباس بن عبدالمطلب اور ان کی اولاد علیؑ سے ٹوٹ کر علیٰیحدہ ہوجائیں لیکن عباس نے بہت جچا تلا جواب دیا،انھوں نے کہا:اگر تم پیغمبر کی وجہ سے خلافت کے طالب ہو تو تم نے ہمارا حق غصب کیا ہے اور اگر تم مومنین کے ذریعہ خلیفہ بنے ہو تو ہم بھی مومن ہیں لیکن ہم تمہاری خلافت سے راضی نہیں ہیں اور تمہاری باتوں میں کتنا اختلاف ہے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مومنین تم پر طعن کررہے ہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ مومنین تمہاری طرف مائل ہوئے ہیں،بہرحال جو کچھ تم ہمیں دے رہے ہو اگر تمہارا حق ہے توا پنے پاس ہی رکھو اور اگر مومنین کا حق ہے تو تم فیصلہ کرنےوالے کون ہو اور اگر ہمارا حق ہے تو ہم اپنے حصے تقسیم نہیں کریں گے۔

تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ پیغمبرؐ ہم میں سے بھی ہیں اور تم میں سے بھی تو پیغمبرؐ اس درخت سے ہیں جس کی ہم شاخیں ہیں لیکن تم پڑوسی ہو،(1)

امر خلافت میں فضل بن عباس کا نظریہ

فضل بن عباس نے قریش پر احتجاج کرتے ہوئے فرمایا((اے قریش کے لوگو!خصوصاً اے بنی تمیم!اس میں کوئی شک نہیں کہ تم نے نبی کی خلافت ہتھیا لی لیکن ہم لوگ تم سے زیادہ مستحق ہیں اگر ہم جو خلافت اہل ہیں خلافت طلب کرتے تو لوگوں کو دوسروں کے مطالبہ سے زیادہ ہمارا مطالبہ ناگوار گذرتا اس لئے کہ لوگ ہم سے حسد کرتے ہیں اور کینہ رکھتے ہیں۔لیکن ہم خلافت کا مطالبہ جو نہیں کر رہے ہیں اس کی ایک وجہ ہے وہ یہ کہ:ہمارا قائد نے ایک عہد کیا ہوا ہے جو انھیں طلبِ خلافت سے روک رہا ہے))(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:221،الامامت و السیاست ج:1ص:18علی بن ابی طالبؑ کی بیت کیسے ہوئی تھی،تاریخ یعقوبی ج:2ص:126،125 واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ اور ابوبکر کی بیعت

(2)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:21

۱۷۴

امر خلافت میں عبداللہ بن عباس کا موقف

اس موضوع پر عبداللہ بن عباس اور عمر بن خطاب سے اکثر گفتگو ہوئی ہے ان میں سے ایک مکالمہ حاضر ہے:

1۔طبری،ابن عباس سے وہ عمر سے روایت کرتے ہیں کہ عمر نے ان سے پوچھا اے ابن عباس تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری قوم کو تم سے محمدؐ کے بعد کس چیز نے روکا ابن عباس کہتے ہیں کہ مجھے اس سوال کا جواب دینا گوارہ نہ ہوا،میں نے کہا کہ اگر میں نہیں جانتا تو امیرالمومنین مجھے بتادیں عمر نے کہا:لوگوں کو یہ بات پسند نہ آئی کہ ایک ہی خاندان میں نبوت اور خلافت جمع ہو اور تم اپنی قوم کے سامنے فخر کرنے لگو اس لئے قریش نے خلافت اپنے لئے چن لی پس انھوں نے صحیح کیا اور ٹہر گئے،ابن عباس کہتے ہیں مٰں نے جواب دیا امیرالمومنین کو قیش نے اپنے لئے چن لیا اور انھوں نے صحیح کیا لیکن اگر اس کا انتخاب کیا ہوتا جسے اللہ نے اختیار کیا ہے تو زیادہ بہتر ہوتا نہ کوئی رد کرتا نہ حسد کرتا آپ نے جو یہ فرمایا کہ انھوں نے یعنی قریش نے کراہت محسوس کی کہ نبوت و خلافت ایک ہی خاندان میں جمع ہو تو اللہ نے کراہت کرنےوالوں کا تعارف بھی کرادیا ہے اور انجام بھی بتادیا ہے،ارشاد ہوتا ہے کہ((یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نازل کی ہوئی باتوں کو مکروہ سمجھتے ہیں اس لئے ان کے اعمال حبط کردئے گئے))۔

عمر بولے میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو،لوگوں نے ہم سے خلافت حسد اور ظلم سے چھین لی،ابن عباس نے کہا اے امیرالمومنین ظلم کے بارے میں تو عالم جاہل سب جانتے ہیں حسد کے بارے میں کہنا ہے کہ ابلیس نے ہمارے جد آدم پر حسد کیا اور ہم لوگ آدم کی اولاد میں سے ہیں اگر ہم بھی محسود ہوئے تو کیا ہوا؟(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:3ص:289،موسسہ اعلمی بیروت،اس جگہ پر تاریخ طبری کے کمپیوٹری پروگرامؐ الالفیۃ))میں حذف ہے۔

۱۷۵

2۔ابن ابی حدید نے عبداللہ بن عمر سے اس گفتگو کی حکایت کی ہے جو ابن عباس اور عمر کے درمیان ہوئی تھی دونوں بیانوں میں تھوڑا سا اختلاف بھی ہے اور کچھ اضافہ بھی،اضافہ یہ ہے کہ عمر نے تنگ آکر کہا کہ ابن عباس ہوش میں آؤ تم بنوہاشم کے دلوں نے قریش کی حکومت سے کینہ اور حسد کا بیڑا اٹھایا ہے تمہارے دل کینہ و حسد سے خالی ہو ہی نہیں سکتے،ابن عباس نے کہا امیرالمومنین ذرا زبان سنبھال کے اس لئے کہ بنوہاشم کے دلوں میں پیغمبرؐ خدا کابھی دل شامل ہے جسے اللہ نے پاک و پاکیزہ بنایا ہے اور بنوہاشم میں وہ اہل بیتؑ بھی ہیں جن کے بارے میں اللہ نے ارادہ کیا ہے کہ انھیں پاک رکھے اور ان سے ہر رجس کو دور رکھے اور ایسا پاک رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ہے اور آپ نے جو کینہ پروری والی بات کہی ہے تو اس کا دل کینے سے کیسے پاک رہےگا دیکھ رہا ہے کہ اس کی چیز دوسرے کے قبضہ میں ہے اور اس سے غصب کرلی گئی ہے؟

عمر نے کہا:ابن عباس تمہارے بارے میں کچھ سن رہا ہوں تم یہ کہتے پھر رہے ہو کہ یہ تمہارا حق تھا جو تم پر ظلم و جور کر کے چھین لیا گیا،ابن عباس نے جواب دیا کہ آپ جو حسد والی بات کہہ رہے ہیں تو ہم آدمؑ کی اولاد ہیں آدمؑ سے ابلیس نے حسد کیا حسد نے اس کو جنت سے نکال دیا گیا ہم آدمؑ کی اولاد ہیں محسود ہونا ہماری میراث ہے رہ گیا ظلم کا سوال تو امیرالمومنین آپ جانتے ہیں کہ حقدار کون ہے؟(1)

3۔دوسری حدیث میں ابن عباس اور عمر کی گفتگو کو ابن ابی الحدید نے مالی ابوجعفر محمد بن حبیب سے نقل کیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن میں عمر کے پاس پہنچا تو عمر کہنے لگے اے ابن عباس یہ شخص عبادت میں اتنی کوشش کررہا ہے کہ لگتا ہے کہ ریا کاری کررہا ہے میں نے پوچھا وہ کون ہے؟کہنے لگے تمہارا چچازاد بھائی یعنی علیؑ،میں نے کہا وہ ریا کاری نہیں کرتے اے امیرالمومنین عمر نے کہا وہ لوگوں کے سامنے خود کو سزاوار خلافت تو ظاہر کررہے ہیں میں نے کہا ظاہر کرنا کیا مطلب؟اور ان کو ظاہر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟پیغمبرؐ تو ان کو خلافت دے کر ہی گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:12ص:54

۱۷۶

تھے لیکن آپ نے ان سے چھین لیا عمر نے کہا:اصل بات یہ ہے کہ وہ ابھی جوان اور کم عمر تھے عرب نے ان کے سن کو چھوٹا سمجھا اب وہ کامل ہوچکے ہیں کیا تم جانتے نہیں کہ اللہ نے کسی نبیؐ کو مبعوث نہیں کیا مگر چالیس سال کا ہونے کے بعد میں نے کہا اے امیرالمومنین لیکن جو لوگ صاحبان عقل و فہم ہیں وہ تو علیؑ کو اس دن سے کامل سمجھ رہے ہیں،جب اسلام کا منارہ بلند ہوا لیکن علیؑ کو محروم بھی سمجھتے ہیں(1) اس کے علاوہ بھی کئی بار عمر بن خطاب اور عبدالہ بن عباس سے گفتگو ہوئی جس کو عمر کی رائے پیش کرنے کے وقت لکھا جائےگا۔4۔عتبیٰ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ جب سفر کربلا میں امام حسینؑ مکہ پہنچے اور وہاں حج کو عمرہ سے بدل کر کوفہ جانے لگے تو اس وقت ابن زبیر اور ابن عباس ایک دن اکھٹا ہوئے ابن عباس نے ابن زبیر کے پہلو میں ٹہوکا مارا اور یہ شعر مقام مثال میں پڑھا۔ترجمہ شعر:اے چنڈول(قنبرہ)اپنے گھوسلے میں خوشی سے بیٹھ کہ اب فضا خالی ہوگئی،خوب چہہ چہہ کر اور جتنا چاہے چونچ مار اطمینان سے انڈے دے۔اے ابن زبیر!خدا کی قسم امام حسینؑ چلے گئے اور مکہ تمہارے لئے خالی ہوگیا،ابن زبیر نے کہا،خدا کی قسم تم(بنی ہاشم)کچھ نہیں سوچتے مگر یہ کہ خلافت صرف تم لوگوں کا حق ہے،ابن عباس نے کہا سنو!سوچتا وہ ہے جس کو شک ہو ہم لوگ تو یقین رکھتے ہیں۔(2)

5۔یہ ابن عباس ہی تھے جو خطبہ شقشقیہ کے ناتمام رہ جانے پر بول اٹھے تھے کہ مجھے کسی کلام کے نامکمل رہ جانے پر اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس کلام کے نامکمل رہنے پر افسوس ہے،امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس خطبہ میں بات کو وہاں تک نہیں پہنچا سکے جہاں تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے تھے۔(3) یہ بات سب کو معلوم ہے کہ خطبہ شقشقیہ میں عمر اور ابوبکر کی بھرپور شکایت کی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:12ص:80

(2)سیرہ اعلام النبلاءج:3ص:354،حالات عبداللہ ابن عباس شرح نہج البلاغہ ج:20ص:134

(3)نہج البلاغہ ج:1ص:37

۱۷۷

خطبہ شقشقیہ مقام تنقید میں

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے استاد ابوالخیر مصدق بن شبیب واسطی نے 603سنہمیں کہا کہ میں نے شیخ ابومحمد عبداللہ بن احمد جو ابن خشاب کے نام سے مشہور ہیں ان کے سامنے یہ خطبہ پڑھا تو جب میں اس منزل پر پہنچا(کہ ابن عباس کو خطبہ نامکمل رہنے کا افسوس رہا)ابن خشاب نے کہا اگر میں ہوتا اور ابن عباس کو یہ کہتے ہوئے سنتا تو یہ ضرور پوچھتا کہ کیا تمہارے چچازاد بھائی کے دلم یں کچھ اور بھی باقی تھا جو اس خطبہ مٰں نہیں کہہ سکے؟(کہ تم کو افسوس ہورہا ہے کہ جس منزل تک علیؑ خطبہ کو پہنچانا چاہتے تھے نہیں پہنچاسکے؟)خدا کی قسم انھوں نے اولین کو چھوڑا نہ آخرین کو اور ان کے دل میں جس کے بارے میں جو کچھ تھا وہ کہہ ڈالا سوائے پیغمبرؐ کے تذکرہ کے۔

مصدق کہتے ہیں کہ ابن خشاب پر مذاق اور مسخرے قسم کے آدمی تھے،مصدق کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ خطبہ امیرالمومنینؑ کا نہیں ہے؟بلکہ من گھڑت ہے،ابن خشاب بولے مجھے اسی طرح اس کے کلام علیؑ ہونے کا یقین ہے جیسے تمہارے مصدق ہونے کا،میں نے کہا لوگ کہتے ہیں یہ سید رضیؒ کا کلام ہے،وہ کہنے لگے اچھا بس خاموش رہو!رضی ہوں یا غیر رضی،کسی کا اتنا بڑا کلیجہ نہیں نہ کسی کو یہ اسلوب میسّر ہے))ہم نے رضی کے رسائل بھی پڑھے ہیں اور ان کے کلام منشور کا لہجہ ار طیرقہ ایراد بھی خوب پہچانتا ہوں اس کلام سے اس کا کوئی میل نہیں،پھر بولے میں نے اس خطبہ کو ان کتابوں میں دیکھا ہے جو رضی کی پیدائش سے دو سو سال پہلے لکھی گئی ہیں میں نے اس انداز تحریر میں اس کو دیکھا ہے جس کو میں خوب پہچانتا ہوں میں اس دور کے علم اور اہل ادب کے انداز تحریر سے بھی واقف ہوں جو رضی کے والد ابواحمد نقیب کی پیداےش کے پہلے موجود تھے۔

مصدق کہتے ہیں میں نے کہا کہ میں نے اس خطبہ کو اپنے استاد ابوالقاسم بلخی کی تصنیفات میں دیکھا،یہ ابوالقاسم بغدادی معتزلیوں کے امام ہیں یہ معتمد عباسی کے دور حکومت میں تھے،وہ دور علامہ رضی کے بہت پہلے کا زمانہ تھا،اس خطبہ کو میں نے شیعوں کے مناظر ابوجعفر بن قبہ کی کتاب میں بھی

۱۷۸

دیکھا ہے ان کی یہ کتاب بہت مشہور ہے اور اس کا نام کتاب الانصاف ہے،یہ ابوجعفر،ابوالقاسم بلخی کے شاگرد تھے اور علامہ رضی کی پیدائش کے بہت پہلے انھوں نے دنیا کو چھوڑ دیا تھا۔(1)

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے خاص اصحاب اور امر خلافت

امیرالمومنین علیہ السلام کے خاص اصحاب جو گروہ صحابہ کے بھی نمایاں لوگ تھے انھوں نے سقیفہ کے دن بھی اور سقیفہ کے بعد بھی اکثر فرمایا کہ خلافت صرف علیؑ کا حق ہے۔

اس سوال کے جواب کی ابتدائی عبارتوں میں کچھ کلام گذرچکا ہے،چوتھے سوال کے جواب میں بھی کچھ باتیں عرض کی جائیں گی اس وقت ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ کلام پیش کیا جائے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب خاص خلافت سے راضی تھے نہ اس کو صحیح سمجھتے تھے۔

صادق اللہجہ ابوذر اور امر خلافت

حافظ ابن مردویہ اپنی کتاب(جو عبداللہ شافعی کے مناقب کی رد میں لکھی گئی ہے اس کے صفحہ 87پر مرفوعاً اپنی سند کے ساتھ داؤد بن ابی عوف سے،انھوں نے معاویہ بن ثعلبہ لیثی سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا:کیا میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں جس سے تم اختلاف نہ کرو؟میں نے کہا:بسم اللہ،تو انھوں نے کہا ابوذرؒ جب بیمار ہوئے تو علیؑ کو وصی بنایا،ایک آدمی ابوذرؒ کی عیادت کو پہنچا،اس نے کہا آپؒ نے امیرالمومنین عمر سے کیوں نہ وصیّت کی،علیؑ سے وصیّت کرنے سے تو بہتر ہی ہوتا،ابوذرؒ کہنے لگے(تم ہی تو کہتے ہو کہ امیرالمومنین سے وصیّت کرنی چاہئے تھی تو)جو حقیقت میں امیرالمومنین ہے اس سے میں نے وصیّت کردی،خدا کی قسم وہی امیرالمومنینؑ ہیں اور وہی وہ بہار ہیں.جہاں سکون ملاتا ہے،اگر وہ تم سے جدا ہوجائیں تو لوگ بھی تمہارا انکار کردیں گے اور زم تمہارا انکار کردےگی،اس آدمی نے کہا:ابوذر!میں جانتا ہوں کہ جو پیغمبرؐ کا محبوب تر ہے وہی آپ کا بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:205۔206

۱۷۹

محبوب تر ہے ابوذر نے کہا:تم نے بالکل صحیح سنا ہے،میں نے پوچھا کہ پھر اس وقت آپ کا سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟آپ نے فرمایا:یہی بزرگ جو مظلوم اور خانہ نشین ہے اور جس کا حق چھین لیا گیا یعنی علیؑ ابن ابی طالب۔(1)

حذیفہ اور امر خلافت

ابوشریح سے روایت ہے کہ:حذیفہ مدائن میں تھے ہم لوگ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ امام حسنؑ اور عمار کوفہ سے آئے اور لوگوں کو علیؑ کے لشکر میں شامل ہو کر جنگ کرنے پر ابھارنے لگے،حذیفہ نے کہا اے لوگو!امام حسنؑ اور عمار تمہیں علیؑ کے لشکر میں شامل ہو کر جنگ کرنے پر ابھارنے لگے،حذیفہ نے کہا اے لوگو!امام حسنؑ اور عمار تمہیں علیؑ کے حق میں لڑنے کے لئے بلانے آئے ہیں،سنو!جو حقیقی امیرالمومنین سے ملاقات کرنا چاہتا ہے وہ علیؑ کے ساتھ ہوجائے۔(2)

شوریٰ کے متعلق بعض صحابہ کا موقف

شعبی کی کتاب شوریٰ و مقتل عثمان کے حوالہ سے ابن ابی الحدید نے شوریٰ کے بارے میں لکھا ہے،شعبی کہتے ہیں اس کی روایت ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری نے اپنی کتاب((السقیفہ))کے زیادات میں کی ہے۔

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ عثمان کی بیعت کئے بعد جو واقعات ہوئے ان میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے((عوانہ نے یزید بن جریر سے انھوں نے شعبی سے انھوں نے شقیق بن مسلمہ سے روایت کی ہے کہ بیعت عثمان کے بعد مولائے کائناتؑ جب اپنے قافلے میں پہنچے تو آپ نے قبیلہ بنوہاشم کو خطاب کر کے فرمایا:اے عبدالمطلب کے بیٹو!تمہاری قوم نے تم پر اسی طرح زیادتی کی جس طرح نبیؐ کی حیات میں کرتے تھے اگر تمہاری قوم اطاعت بھی کرےگی تو تمہیں امیر ہرگز نہیں بناسکتی،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)ملحقات احقاق ج:8ص:679،الباب المتم للعشرین:الثالث مارواہ ابوذر

(2)انساب الاشراف ج:2ص:366،حالات امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام میں۔

۱۸۰