فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 367
مشاہدے: 199163
ڈاؤنلوڈ: 5571


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 199163 / ڈاؤنلوڈ: 5571
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نبی ؐ سے ملاقات کرو ۔(1)

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر معاویہ کے پاس آئے،معاویہ نے ان کا خیر مقدم کیا،اور اپنے قریب بلا کر اپنے تخت پر بٹھایا پھر معاویہ نے کہا:اے ابوخبیب!اپنی حاجتیں بیان کرو انہوں نے معاویہ سے کچھ مانگا،پر معاویہ نے کہا:اس کے علاوہ بھی کچھ مانگو،انہوں نے کہا:ہاں،مہاجرین و انصار کا وظیفہ انھیں واپس دیدو اور ان کے بارے میں وصیتِ پیغمبر ؐ کی پابندی کرو،ان کے نیکوکاروں کو قبول کر اور ان میں جو غلط ہیں انہیں معاف کردو،معاویہ نے کہا:افسوس،بھیڑیں،بھیڑیوں سے نہیں بچ سکتیں وہ تو ان کی آنتیں بھی کھاچکا ہے ۔(2)

بنوامیہ،صحابہ کی اسلامی خدمات سے لوگوں کو بےخبر رکھنا چاہتے تھے

بنوامیہ کے دور میں بات یہاں تک پہنچی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ صحابہ کے گذشتہ اسلامی خدمات سے لوگوں کو واقف کرایا جائے بلکہ کوشش یہ تھی کہ صحابہ کے کارناموں کا تذکرہ ہی نہ ہو ۔

ایک مرتبہ انصار کا وفد معاویہ کے دروازے پر حاضر ہوا،معاویہ کا حاجب ابودرّہ ان کے پاس آیا،انصار نے کہا:معاویہ سے ہمارے لئے اجازت لیکر آؤ،وہ معاویہ کے پاس واپس گیا،اس وقت اس کے پاس عمروعاص بیٹھا تھا،عمروعاص وہی شخص ہے جسے سقیفہ کے بعد انصار سے تکلیف پہنچی تھی اور انصار نے امیرالمومنین ؑ کی نصرت کی تھی جس کی وجہ سے عمروعاص کو مدینہ چھوڑنا پڑا تھا،بہرحال حاجب نے آکے کہا کہ معاویہ صاحب آپ کے دروازے پر انصار آئے ہیں،عمروعاص نے جب سنا کہ معاویہ کے ہاں انصار آئے ہیں،انصار کا لقب تو مدینہ والوں کو قران مجید اور سنتِ شریفہ سے ملا تھا اور مسلمانوں کے درمیان یہ لوگ انصار ہی کے لقب سے مشہور تھے،عمروعاص کو یہ بات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الاستیعاب ج:3ص:1421سیراعلام نبلاء ج:2ص:453۔454،شعب الایمان ج:6ص:56۔57،الجامع المعمر بن راشد ج:11ص:60۔61،تاریخ دمشق ج:34ص:295۔296،حالات عبدالرحمٰن بن حسان ج:67ص:151،تاریخ الخلفاء ج:1ص:201 (2)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:141

۲۸۱

کیسے برداشت ہوتی کہ انصار کو انصار کو کہا جائے،اس سے کتابِ خدا اور سنتِ پیغمبر ؐ کی پیروی ہورہی تھی،اس لئے جب حاجب نے انھیں ملقب کرکے معاویہ کو خبر دی تو عمروعاص نے کہا:یہ کیا لقب ہے جس کو وہ لوگ نسب کے طور پر استعمال کر رہے ہیں انھیں ان کے نسب کی طرف پلٹاؤ،معاویہ نے اس کو سمجھایا کہ اس سے ہمیں پر الزام آئے گا،اس نے کہا:الزام کیا آئے گا یہ تو ایک بات کی جگہ دوسری بات ہے،اس کو پلٹانا ناممکن نہیں،معاویہ نے عمروعاص کی بات مان لی اور اپنے حاجب سے کہا کہ جا کے آواز دو کہ عمرو بن عامر کے بیٹوں کو بلایا گیا ہے،حاجب گیا اور اس نے آواز دی عمرو بن عامر کے بیٹوں کے لئے اجازت ہے،پس عمرو بن عامر کی اولاد داخل ہوئی لیکن ان میں جو انصار تھے وہ نہیں گئے،معاویہ نے حاجب سے کہا:اب جا کے آواز دو کہ اوس و خزرج کی اولاد کو بھی بلایا گیا ہے،پس اسنے باہر نکل کر یہی آواز لگائی،یہ سن کر نعمان بن بشیر انصاری کو بہت برا لگا،وہ آگے بڑھے اور یہ اشعار پڑھنے لگے ۔

ترجمہ اشعار اے سعد!ہمیں بار بار مت پکارو ہمارا سب سے نجیب نسب صرف یہ ہے کہ ہم انصار ہیں،یہ وہ نسب ہے جو ہماری قوم کے لئے اللہ نے اختیار کیا ہے اور یہ نسب کافروں پربہت بھاری ہے،تم لوگوں میں جو بدر کے میدان میں ہمارے ہاتھوں موت کی نیند سلا دیئے گئے،وہ قیامت کے دن جہنم کا ایندھن ہوں گے،یہ اشعار پڑھنے کے بعد نعمان بن بشیر غصہ میں کھڑے ہوگئے اور جانے لگے معاویہ نے انھیں واپس بلایا اور خوشامد کر کے راضی کرلیا،پھر ان کی اور ان کے ساتھ انصاریوں کی حاجتیں پوری کیں ۔(1)

امویوں کے دل میں بغض صحابہ جڑ پکڑ چکا تھا،مروان بن حکم کو یہ بھی گوارہ نہیں تھا کہ سرکار دو عالم ؐ نے جو پتھر عثمان بن مظعون کی قبر پر رکھا تھا اس کو وہ برقرار رکھتا،عثمان بن مظعون وہ پہلے مہاجر تھے جن کی وفات مدینہ میں ہوئی تھی،انھیں سرکار دو عالم ؐ نے جن البقیع میں دفن کرایا اور اپنے ہاتھوں سے اس قبر پر نشانی کے لئے پتھر رکھ دیا،اہل بیت ؑ پیغمبر ؐ میں سے جو بھی مرتا تھا انھیں کی قبر کے پاس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الاغانی،ج: 16 ص: 56 ،اور ص: 50 ۔ 51

۲۸۲

دفن کیا جاتا تھا،جب مروان بن حکم معاویہ کی طرف سے مدینہ کا گورنر ہوا اس پتھر کے پاس سے گذرا اور اسے اپنے ہاتھ اٹھا کے پھینک دیا اور کہنے لگا،عثمان بن مظعون کی قبر پر کوئی ایسا پتھر نہیں ہونا چاہئے جس کی وجہ سے ان کی پہچان ہو،بنوامیہ اس کے پاس آئے اور کہا کہ تو نے برا کیا ہےہ تو نے اس پتھر کو اٹھا کر پھینک دیا ہے جسے نبی ؐ نے اپنے ہاتھ سے رکھا تھا،تو نے بہت برا کام کیا،حکم دے کہ وہ پتھر وہاں واپس رکھ دیا جائے اس نے کہا،خدا کی قسم جس کو میں نے پھینک دیا وہ واپس نہیں ہوسکتا(1)

زبیر بن بکار کہتے ہیں کہ جب سلیمان بن عبدالملک ولی عہد سلطنت تھا تو ایک دن وہ مدینہ آیا اور ابان بن عثمان کو حکم دیا کہ وہ نبی ؐ کی سیرت اور آپ کے غزوات پر ایک کتاب لکھے،ابان نے کہا کہ ہمارے پاس ایک ایسی کتاب پہلے سے موجود ہے جسے ہم نے جن لوگوں کو قابل اعتبار سمجھا ہے ان سے تصحیح بھی کرالی ہے سلیمان بن عبدالملک نے کہا کہ ٹھیک ہے اسی کو لے آؤ سلیمان نے اس کام کے لئے دس کاتب مقرر کئے اور انھوں نے بہت محنت سے وہ کتاب لکھی،جب سلیمان کے سامنے وہ کتاب لائی گئی تو اسنے دیکھا کہ اس کتاب میں دونوں وادیوں(عقبی اولیٰ و عقبہ ثانیہ)میں انصار کے کارناموں کے بارے میں لکھا ہوا ہے پھر بدر میں انصار ہی کی نصرت کا تذکرہ ہے،سلیمان بن عبدالملک نے جب یہ دیکھا تو بھڑک اٹھا اور کہنے لگا یہ لوگ میری نظر میں اتنے صاحب فضیلت تو نہیں تھے اگر ان میں سے کچھ لوگ ہمارے گھر والے بھی ہیں تو ان کو ہلکا کر کے دکھایا ہے حالانکہ وہ لوگ ایسے ہیں نہیں،سنو!مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ میں یہ کتاب لکھواؤں اور امیرالمومنین(عبدالملک مروان)سے اس کا تذکرہ کروں،وہ تو اس کتاب کی مخالفت کریں گے بس اس نے اس کتاب کو جلا دینے کا حککم دیا اور وہ جلا دی گئی پھر سلیمان اپنے باپ کے پاس واپس ہوا اور اس واقعہ کے بارے میں اسے بتایا،عبدالملک نے کہا:ایسی کتاب جس میں ہم لوگوں کی کوئی فضیلت ہی نہیں لکھی ہے اس کو آگے بڑھانے کی تمہیں کیا ضرورت ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ المدینہ ج:1ص:101۔102

۲۸۳

اس کتاب کو پڑھ کر تو اہل شام وہ سب جان جائیں گے جس سے ہم ان کو ناواقف رکھا چاہتے ہیں،سلیمان نے کہا:اے امیرالمومنین یہی وجہ ہے کہ میں نے اس کو جلانے کا حکم دیا،جتنا بھی لکھا جاچکا تھا سب جلادیا گیا عبدالملک نے یہ سن

کے اس کی رائے کو صحیح قرار دیا(1)

اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑدی تھی جس کی وجہ سے واقعہ حرہ ہوا مدینہ کو تباہ کیا گیا اور لوٹا گیا،خلع بیعت کا سبب ہی یہی تھا کہ اہل مدینہ اپنے بزرگوں کی پیروی میں امویوں کے مخالف تھے اور بنوامیہ کے دلوں میں اہل مدینہ کے خلاف شدید بغض تھا ۔

بنوامیہ اور حقیقتوں کو بدلنے کی کامیاب کوشش

یہ عجیب بات ہے کہ بنوامیہ حقائق کو بدلنے کی کوشش میں کامیاب رہے جس کے نتیجہ میں آج اہل سنت معاویہ اور عمروعاص جیسے مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں،ان کی حمایت میں کتاب لکھتے ہیں،تقریریں کرتے ہیں اور اسی طرح ان کا احترام کرتے ہیں جیسے ایک صحابہ کا احترام ہونا چاہئے،شیعہ جب ان جیسے لوگوں پر اعتراض کرتے ہیں تو اہل سنت احتجاجاً ان کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحابی کو برا نہیں کہنا چاہئے بلکہ شیعوں کو یہ کہہ کر بدنام کرتے ہیں کہ یہ لوگ صحابہ کا احترام نہیں کرتے اور انھیں لعن و طعن کرتے ہیں،وجہ صرف یہ ہے کہ امویوں نے حقائق کو بگاڑ کے پیش کیا ہے،اور اپنے دور میں صحابیت کی جو تعریف بتائی ہے وہ صرف انھیں پر صادق آتی ہے،اہل سنت بھائیوں کو اموی پروپیگن ڈ ے نے یہ جاننے کی مہلت ہی نہیں دی کہ حقیقت کیا ہے؟اور صحابہ بنوامیہ کے کتنے مخالفت دشمنی کی حد تک پہنچی ہوئی تھی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الموفقیات ص: 331 ۔ 334

۲۸۴

معاویہ کی ہلاکت کے بعد اہل بیتؑ کے بارے میں صحابہ کا نظریہ

ہم اپنے سلسلہ بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے اب یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ صحابہ کرام کا نظریہ معاویہ کی ہلاکت کے بعد کیا تھا؟تاریخ کا مطالعہ کریں تو صحابہ کو اہل بیت ؑ کے ساتھ ساتھ پائیں گے،(معاویہ کے مرنے کے بعد اب وہ سیاست مرچکی تھی،جسے اخلاقیات کے علما صاف لفظوں میں مکاری اور روباہی کہتے ہیں نتیجہ میں صحابہ کو اپنا موقف بیان کرنے کی کچھ آزادی ملی اور صحابہ اہل بیت ؑ کے ساتھ ہوگئے،ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو ابوعبداللہ الحسین ؑ کے ساتھ عراق چلے گئے اور امام حسین ؑ مظلوم کی نصرت میں ؤپ کے سامنے جام شہادت سے سیراب ہوئے،ان میں انصاریوں کا ایک گروہ بھی تھا،انھیں میں انس بن مالک کاہلی بھی تھے جنھوں نے بدر سے حنین تک ہر جہاد میں نبی ؐ کی نصرت کی تھی،اور انھیں سے یہ حدیث بھی ہے جو کربلا کی طرف اشارہ کتی ہے،حضور سرور کائنات ؐ نے انھیں سے یہ فرمایا تھا کہ میرا یہ بیٹا حسین ؑ اس جگہ شہید کیا جائےگا جس کا نام کربالا ہے جو تم میں اسے اس وقت موجود ہوا سے چاہئے کہ اس کی(حسین ؑ کی)نصرت کرے ۔(1)

جب کربلا کا واقعہ پیش آیا تو اس وقت انس بن مالک بہت بوڑھے ہوچکے تھے آنکھوں پر لٹکی ہوئی بھنووں کو عمامہ کے نیچے ایک عصابہ(پٹی)سے باندھ رکھا تھا جب امام حسین ؑ مظلوم نے آپ کو اس حال میں دیکھا تو رونے لگے،اور فرمایا اے شیخ!خدا آپ کی کوششوں کو مشکور قرار دے انس بن مالک نے اس بڑھاپے میں اٹھارہ یزیدیوں کو جہنم واصل کیا،پھر آپ شہید ہوگئے،رضوان اللہ علیہ ۔(2) اس طرح بہت سے صحابہ تھے جنھوں نے اہل بیت ؑ کا دامن تھام لیا تھا،اہل بیت ؑ کے لئے قربانیاں دے رہے تھے،اور اہل بیت ؑ کے دشمنوں سے کھلی ہوئی دشمنی کررہے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الاصابہ ج: 1 ص: 121 تاریخ دمشق ج: 14 ص: 224 ،بدایہ و النہایہ ج: 8 ص: 199 ،ینابیع المودۃ ج: 3 ص: 8

( 2) مقتل الحسین للمقرم ص: 313

۲۸۵

مناقب اہل بیتؑ بیان کرنے اور نص کی روایت کرنے میں صحابہ کی کوشش

صحابہ کی کثیر تعداد نے تو اپنا یہ فرضیہ بنالیا تھا کہ وہ امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں نصوص نبوی ؐ کی تبلیغ کرتے رہیں اور مسلمانوں کے درمیان نص کے ساتھ ہی فضائل و مناقب اہل بیت ؑ کی نشر و اشاعت کرتے رہیں،وہ مسلسل امت کو اہل بیت ؑ کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے اور اہل بیت ؑ سے کسی بھی لمحہ غلفت نہیں کرتے تھے ۔

آپ کے سابقہ چوتھے سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے کہ ابوایوب انصاری کے ساتھ انصار کی ایک جماعت نے امیرالمومنین ؑ کو مولا کہہ کے سلام کیا تا کہ حدیث غدیر کی تجدید ہوسکے،جس حدیث غدیر کو شیعہ،امیرالمومنین ؑ کی خلافت پر نص صریح مانتے ہیں،یہ اقدام شاید اس لئے بھی کیا گیا تھا کہ امیرالمومنین ؑ نے لوگوں کو قسم دی تھی کہ جو واقعہ غدیر میں موجود تھا وہ کھڑا ہوا اور جو کچھ سنا اور دیکھا تھا بیان کرے،صحابہ کی ایک جماعت نے اس آواز پر لبیک کہا اور کھڑے ہوکے گواہی دی ایک چھوٹی سی جماعت نے شہادت سے گریز بھی کیا لیکن اتنی بڑی جماعت کی گواہی کا یہ فائدہ ہوا کہ حدیث غدیر کی نشر و اشاعت اور شہرت ہوگئی کتابوں میں نقل کی گئی اور صحابہ نے کثرت سے اس کی روایت کی ۔

امام حسینؑ نے صحابہ کو اہل بیتؑ کا حق ثابت کرنے کے لئے جمع کیا

سلیم بن قیس ہلالی کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ معاویہ کے آخری اوقات میں حج کے لئے تشریف لائے اس وقت مہاجرین و انصار کے نمایاں افراد جو باقی بچ رہے تھے وہ بھی آئے ہوئے تھے وہ لوگ بھی تھے جنہیں صالح اور عبادت گذار سمجھا جاتا تھا اور زمین کے مختلف گوشوں سے سمٹ کے مکہ میں آگئے تھے،یہ تھا مجمع یعنی سامعین اور خطیب تھے امام حسین ؑ آپ نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:مسلمانو!اس سرکش(معاویہ)نے ہمارے ساتھ اور ہمارے شیعوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور کررہا ہے اسے

۲۸۶

آپ دیکھ رہے ہیں اور شاہد ہیں،میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں اگر میں سچ کہوں تو آپ میری تصدیق کریں گے اور اگر میں جھوٹ بولوں تو آپ میری تکذیب کردیجئے گا،میں آپ سے اللہ کا اور اللہ کے رسول ؐ کا اور پیغمبر ؐ سے اپنی قرابت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جب آپ یہاں سے جائیں تو میری باتیں لیتے جائیں اور ان لوگوں کو میری طرف سے دعوت دین جو آپ کے قبیلہ میں آپ کے ناصر ہیں اور جن پر آپ اعتماد کرتے ہیں،آپ ہمارے حق کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں انھیں جاکے بتائیں کیوں کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ اَمر مٹ نہ جائے،حق تباہ اور مغلوب نہ ہوجائے حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہےگا چاہے کافروں کو ناگوار گذرے))پھر قرآن میں اہل بیت ؑ کے بارے میں جتنی آیتیں نازل ہوئیں تھیں آپ نے ایک ایک آیت کی تلاوت کی اور سرکار دو عالم ؐ نے آپ کے والد ماجد آپ کی مادر گرامی آپ کے بھائی اور خود آپ کے بارے میں جو حدیثیں ارشاد فرمائی تھیں سب کو دہرایا،صحابہ کو جو مجمع وہاں موجود تھا آپ کے ہر جملہ پر کہہ رہا تھا،اللہ(برائے خدا)ہاں ہم نے سنا اور ہم گواہ ہیں اور جو تابعی تھے وہ کہہ رہے تھے بخدا ہم سے یہ حدیثیں صحابہ کے اس گروہ نے بیان کی ہیں جن کی صداقت و امانتداری کے ہم معترف ہیں ۔

پھر آپ نے فرمایا:میں آپ لوگوں کو خدا کی قسم دے کے کہتا ہوں یہ باتیں صرف ان لوگوں سے بیان کیجئے گا جن کے اوپر اور جن کے دین پر آپ بھروسہ کرتے ہیں پھر سب متفرق ہوگئے(1) جابر بن عبداللہ انصاری حدیث لوح کے راوی ہیں اللہ نے اپنے نبی ؐ پر ایک تختی نازل کی تھی جس میں بارہ اماموں کے نام لکھے ہوئے تھے ۔(2)

حق تو یہ ہے کہ اگر صحابہ نہیں ہوتے تو ہم تک اس وافر مقدار میں نصوص نبی نہیں پہنچتی،یہ تمام فضائل و مناقب اہل بیت ؑ اور مولائے کائنات ؑ کی امامت پر متواتر نصوص صحابہ کی ہی فیضان ہے،صحابہ نے صرف فضائل اہل بیت ؑ ہی پہنچانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دشمنان اہل بیت ؑ کی مذمت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)کتاب سلیم بن قیس الہلالی ص:320۔323

(2)بحارالانوار ج:36ص:201۔202

۲۸۷

میں حدیثیں اور ان کی گذری سیرت کی نقاب کشائی بھی انھیں صحابہ کرام کے ہاتھوں ہوئی،خاص طور سے صحابہ کرام اس وقت کھل کے سامنے آگئے جب حکومت کی طرف سے سنت نبوی ؐ کی نشر و اشاعت پر عائد کردہ پابندیاں ہٹ گئیں،ان پابندیوں کی طرف ہم آپ کے ساتویں سابقہ سوال کے جواب میں اشارہ کرچکے ہیں ۔

آخر ابوبکر اور عمر نے سنت نبوی کی اشاعت پر پابندی کیوں لگادی تھی؟

کبھی آپ نے غور فرمایا ہے کہ آخر عمر اور ابوبکر سنت نبوی ؐ کا شیاع کیوں نہیں چاہتے تھے؟حدیث پیغمبر ؐ کی روایت کرنے سے کیوں منع کرتے تھے؟عمر نے اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مدینہ سے نکلنے پر پابندی کیوں عائد کردی تھی؟صرف اس خوف سے کہ اگر حدیث نبوی کی روایت کی اجازت دیدی گئی تو صحابہ مولا کی خلافت پر نص کرنے والی حدیثیں بھی بیان کرجائیں گے،اگر صحابہ مختلف شہروں میں آنے جانے لگے تو مسلمانوں کو مناقب و فضائل اہل بیت ؑ سے واقف کردیں گے،نتیجہ ہماری حکومت کے لئے بہت خراب ہوگا اور ہماری حکومت کا نگاہ عوام میں اعتبار شرعی مجروح ہوجائےگا حکومت یہ اچھی طرح سمجھ رہی تھی کہ صحابہ کی اکثریت کے دل اہل بیت ؑ کی طرف متوجہ ہیں،وہ علی ؑ کی خلافت منصوصہ پر ایمان رکھتے ہیں،وہ اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ اور اہل بیت ؑ ہی حکومت اور خلافت کے حق دار ہیں،جیسا کہ میں نے ابھی کچھ صفات پہلے شواہد کے ساتھ یہ بات عرض کی ہے ۔

حاصل گفتگو یہ کہ صحابہ کی اکثریت جن میں مہاجرین و انصار کے سابقون اولون بھی شامل ہیں،اہل بیت ؑ اور امیرالمومنین علی ؑ کے ساتھ تھی یہ لوگ اس وقت بھی امیرالمومنین ؑ کو حقدار خلافت سمجھتے تھے،جب آپ کی عام بیعت نہیں ہوئی تھی اور آپ کی ظاہری خلافت کے دور میں بھی ان کا نظریہ یہی تھا اور آپ کی شہادت کے بعد بھی وہ اسی نظریہ پر باقی رہے ۔

۲۸۸

اکثر صحابہ کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ مولائے کاتناتؑ کی امامت کے حق ہونے کا اعتراف کرتے تھے

چونکہ اکثر صحابہ اس بات کے معترف تھے کہ امامت امیرالمومنین ؑ کا حق ہے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ روز اول ہی سے امام برحق مولائے کائنات ؑ ہیں اسی لئے وہ اپنے نظریہ کا اعلان مختلف موقعوں پر کرتے رہے تھے،ظاہر ہے کہ مولائے کائنات ؑ سے ان کی یہ یگانگت اور مولائے کائنات ؑ کو حقدار سمجھنا،دوسروں کو مولائے کائنات ؑ پر مقدم نہ کرنا،یہ تمام باتیں بےبنیاد تو نہیں تھیں،بلکہ مولائے کائنات ؑ کی ذات پر اس لئے متفق تھے کہ وہ اس نص سے واقف تھے جو مولیٰ علی علیہ السلام کی خلافت پر قائم ہوچکی تھی ۔

حضرت علیؑ کی بیعت ہوئی تو اکثر صحابہ نے یہ سمجھا کہ اب حق،حقدار تک پہنچا

میرے مندرجہ بالا دورے پر اگر کسی کو ذرا بھی شبہ ہو تو اسے تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے،میری بات تاریخ سے ثابت ہوجائے گی کہ جب امیرالمومنین ؑ کی بیعت ہوچکی تو صحابہ کی اکثریت اور عام لوگوں نے یہی سمجھا کہ گذشتہ حکومت کے مقابلے میں مولائے کائنات ؑ اولی بالامر ہیں اور آج حق،حقدار تک پہنچ گیا ہے،جیسا کہ خود امیرالمومنین ؑ کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے اور ابوجعفر اسکافی کا قول بھی اس دعوے کی دلیل میں گذشتہ صفحات میں پیش بھی کیا جاچکا ہے،جہاں اسکافی لکھتے ہیں کہ عثمان کے قتل کے بعد صحابہ مسجد نبوی میں جمع ہوئے تو خلافت کے بارے میں مشورہ ہونے لگا اور انھوں نے امیرالمومنین ؑ کے فضائل کا ذکر کیا،کچھ تو یہ کہہ رہے تھے کہ امیرالمومنین ؑ اپنے اہل زمانہ سے افضل ہیں اور کچھ کیا یہ خیال تھا کہ امیرالمومنین ؑ ہر دور کے مسلمانوں سے افضل ہیں،ظاہر ہے کہ صحابہ کی موخَرُ الذکر جماعت،جس کا خیال تھا کہ آپ تمام مسلمانوں سے افضل ہیں اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھی کہ امیرالمومنین ؑ ہی ولی امر اور اولیٰ بالامر ہیں ۔

۲۸۹

آپ کے تیسرے سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے کہ امیرالمومنین ؑ کی جب بیعت ہوچکی تو آپ نے پہلا خطبہ جو بیعت کے بعد دیا ہے اس میں اپنے حق کو ثابت کرتے ہوئے کچھ ایسے کلمات ارشاد فرمائے ہیں جو میرے دعوے پر دلیل ہیں،آپ فرماتے ہیں تم نے توبہ کو پس پشت ڈ ال دیا تم نے وہ امور انجام دیئے جو میرے خلاف ہے،میرے نزدیک ان غلطیوں کی وجہ سے تم نہ قابل تعریف تھے نہ صحیح راستے پر تھے ۔

جناب حذیفہ کا بیان بھی گذرچکا ہے،جب آپ نے سنا کہ امیرالمومنین ؑ اہل بصرہ کے خلاف مدد چاہتے ہیں تو حذیفہ نے اعلان کردیا((بے شک حسن ؑ اور عمار ؑ آئے ہیں کہ تمہیں نصرت پر تیار کریں،تو سنو!جو برحق اور حقیقی امیرالمومنین ؑ کی نصرت کرنا چاہتا ہے وہ جا کر علی ؑ کے لشکر میں شامل ہوجائے ۔(1)

یعقوبی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ جب امیرالمومنین ؑ کی بیعت ہوگئی تو انصار کی ایک قوم نے تقریریں کیں ان میں سب سے پہلے ثابت ابن فقیس بن شماس انصاری نے تقریر کی،وہ انصار کے مشہور خطیب تھے،انھوں نے کہا:اے امیرالمومنین ؑ خدا کی قسم آپ سے پہلے جنھوں نے حکومت حاصل کی وہ حکومت میں آپ سے مقدم ہیں لیکن دین میں نہیں،اگر انھوں نے آپ سے سبقت کی تو آج آپ نے انھیں پیچھے چھوڑدیا حالانکہ خود آپ اور وہ لوگ بھی آپ کے مرتبہ سے ناواقف نہیں تھے اور آپ کی منزلت سے جاہل بھی نہیں تھے،وہ لوگ اپنی جہالت(لاعلمی)کی وجہ سے آپ کے محتاج تھے،لیکن آپ اپنے علم کی وجہ سے کسی کے محتاج نہیں ہیں ۔(2)

حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں کہ خزیمہ بن ثابت انصاری نے امیرالمومنین ؑ کی بیعت کے وقت یہ اشعار پڑھے:

ترجمہ اشعار:جب ہم نے ابوالحسن ؑ کی بیعت کرلی تو وہ دہشت ناک فتنوں میں ہمارے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) انساب الاشراف ج: 2 ص: 366

( 2) تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 179 ،خلافت امیرالمومنینؑ کے بیان میں

۲۹۰

لئے کافی ہے،ہم نے علی ؑ کو سب سے زیادہ کتاب و سنت کا پابند پایا،جس دن اونٹوں کی دوڑ کا مقابلہ ہوگا اس دن قریش اس کے اٹھائے ہوئے غبار کو شق نہیں کرسکیں گے،علی ؑ تو وہ ہیں کے جن کے اندر غیروں کی نیکیاں بھی پائی جاتی ہیں،لیکن غیروں میں علی ؑ کی نیکیاں نہیں پائی جاتی ہیں(غیروں میں جتنا بھی حسن عمل ہے وہ سب علی ؑ میں پایا جاتا ہے لیکن علی ؑ کا حسن عمل غیروں میں نہیں پایا جاتا ۔(1)

ظاہر ہے کہ قریش کے لوگ اگر چہ امیرالمومنین ؑ کی بیعت سے زیادہ خوش نہیں تھے لیکن بیعت کے وقت کسی نے آپ سے نزاع بھی نہیں کیا اس لئے خذیمہ بن ثابت نے یہ اشعار))قریش کے فیصلہ پر(جس میں انھوں نے نااہل لوگوں کو مولائے کائنات ؑ کے مقابلے میں مقدم کرکے ان کی بیعت کرلی تھی)اعتراض کے طور پر پڑھے ہیں بلکہ خذیمہ کے اشعار یہ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ شاعر مقام ولایت میں مولائے کائنات ؑ کو گذشتہ حاکموں پر بھی مقدم سمجھتے ہیں اور مولائے کائنات ؑ کے علاوہ کسی کی بھی(عمر،ابوبکر کی)حکومت کو ناجائز اور غلط سمجھتے ہیں ان اشعار میں جس عقیدے کا اعلان کیا گیا ہے اس کا زیادہ واضح اعلان ان اشعار میں ملتا ہے جو ہیں تو خذیمہ بن ثابت ہی کے لیکن جناب سید مرتضی ؒ نے ان کی روایت کی ہے ملاحظہ ہو ۔

ترجمہ اشعار:پیغمبر ؐ کے اہل بیت ؑ میں پیغمبر ؐ کا وصی اور آپ کا زمانہ گذشتہ میں شہسوار،سوائے خیرالنسا خدیجہ الکبری ؐ کے نبی ؐ کے ساتھ سب سے پہلے نماز پڑھنے والا نعمتوں والے خدا کی قسم علی ؑ جس کے سینہ میں ایک شجاع دل ہے اور ہر جنگ میں جس کو قوم کی سرداری حاصل رہی یہی وہ ہے جس کا نام امام سمجھ کے انگلیوں میں پڑھا جاتا رہے گا،یہاں تک کہ میں کفن میں منھ چھپالوں ۔(2)

اور حسن بن سلمہ کی حدیث میں ہے کہ((جب مولائے کائنات ؑ کو یہ معلوم ہوا کہ طلحہ زبیر اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 124 ،کتاب معرفت صحابہ مناقب امیرالمومنینؑ،الاصابۃ ج: 2 ص: 278 ،حالات خزیمہ بنت ثابت بن فاکہ میں۔( 2) الفصول المختارۃ،ص: 267

۲۹۱

عائشہ مکہ سے بصرہ کی طرف(فساد کی نیت سے)چل پڑی ہیں تو آپ نے حکم دیا کہ نماز جماعت کا اعلان کردیا جائے،جب لوگ جمع ہوئے تو آپ نے خدا کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا:اما بعد جب خداوند عالم نے اپنے نبی ؐ کو اپنے پاس بلالیا تو ہم نے((جو آپ کے اہل بیت اہل خاندان،وارث آپ کےاولیا اور مخلوقات خدا میں آپ کے سب سے زیادہ حقدار تھے))یہ سونچا کہ لوگ ہم سے نبی کا حق نہیں چھینیں گے ابھی ہم یہ سونچ ہی رہے تھے کہ منافقین اپنی سازش میں کامیاب ہوگئے اور ہمارے نبی ؐ کا اقتدار ہم سے غصب کرکے ہمارے غیر کو سونپ دیا،خدا کی قسم ہم سب کی آنکھیں اس واقعہ پر بہت روئیں اور ہمارے دل اس ظلم کی وجہ سے ٹوٹ گئے،بہرحال لوگ حاکم ہوئے اور اپنی موت مرگئے آخر خدا نے حکومت ہمیں واپس دلادی یہ دونوں آدمی یعنی طلحہ اور زبیر بھی جب ہماری بیعت ہورہی تھی تو بیعت کرنے والوں میں تھے پھر بصرہ جا کے ہمارےخلاف اٹھ کھڑےہوئے تا کہ جماعت میں تفرتقہ پیدا کریں اور تمہاری طاقت کو آپس میں لڑا کے تقسیم کردیں،پالنے والے ان دونوں سے مواخذہ کر اس لئے کہ انھوں نے اس امت کو دھوکا دیا ہے اور عامۃ المسلمین پر بری نظر ڈ الی ہے ۔

یہ سن کر ابوھیثم بن تیہان کھڑے ہوئے اور کہنے لگے((امیرالمومنین ؑ قریش کے لوگ آپ سے دو وجہوں سے حسد کرتے ہیں،قریش کے منتخب افراد تو اس لئے آپ سے حسد کرتے ہیں کہ آپ درجے میں ان سے بلند ہیں اور قریش کے اشرار آپ سے حسد کرتے ہیں جس کی وجہ سے خدا نےان کے اعمال حبط کر لئے ہیں اور ان کے پشت پر گناہوں کا بار کچھ اور بڑھادیا ہے وہ تو آپ سے برابری کا برتاؤ کرنے پر تیار نہیں تھے اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ آپ ان سے آگے بڑھ گئے ہیں اس وجہ سے وہ اپنے مقاصد میں ناکام ہوگئے ہیں اور کشتی ہار گئے ہیں آپ قریش پر قریش سے زیادہ حق رکھتے ہیں پھر انھوں نے چند اشعار پڑھے جن کا ترجمہ حاضر ہے ۔

ترجمہ اشعار:(اے امیرالمومنین ؑ )بےشک اس قوم نے آپ سے بغاوت کی اور آپ پر عیب لگانے کی کوشش کی انھوں نے امور قبیحہ آپ کی طرف منسوب کرنے چاہے حالانکہ وہ بے پرکی اڑاتے ہیں ایسی باتیں جن کے پاس اڑنے کے لئے مچھر کے برابر بھی پر نہیں بلکہ پرکا دسواں حصہ بھی نہیں،

۲۹۲

روا بھی نہیں ہے کہ باتیں پھیل سکیں(آپ پر حملے کی وجہ یہ ہے کہ)انھوں نے آپ کے اوپر اللہ کی نعمتوں کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا آپ کو انھوں نے ایک شاندار پر گوشت صاحب نعمت سمجھا انھوں نے دیکھا کہ آپ ایسے امام ہیں جن کے دامن میں تمام امور پناہ لیتے ہیں اور ایسی لجام ہیں کہ جن سے منھ زور گھوڑ بھی رام ہوجاتے ہیں ایسے حاکم ہیں جن کے اندر امامت،ہاشمیت اور بطحا کی عزت مرتکز ہے،اے نبی ؐ کے وصی ہم آپ کی سرکردگی میں حق کے ساتھ اسی طرح متصل ہیں جیسے چراغ سے چراغ کی روشنی متصل ہوتی ہے)) ۔(1)

آپ دیکھ رہے ہیں کہ امیرالمومنین ؑ کا خطبہ اور اس کے بعد ابن تیھان کے اشعار،یہ تمام چیزیں میرے دعوے پر دلیل ہیں،ابن تیھان کے مندرجہ ذیل اشعار بھی میرے دعوے پر دلیل ہیں

ترجمہ اشعار:جاکے طلحہ اور زبیر سے کہہ دو کہ ہم انصار ہیں انصار ہمارا نام ہی نہیں طریقہ عمل بھی ہے ہم وہ لوگ ہیں کہ جن کے کارنامے جنگ بدر کے میدان میں قریش دیکھ چکے ہیں،جب وہ کافر تھے،ہم اپنے نبی ؐ کے شعار اور ان کا اوڑھنا بچھونا ہیں(یعنی خدا کے بعد پیغمبر اسلام ؐ کو ہمارے اوپر بھروسہ تھا اور ہم ہی ان کے مددگار تھے)ہم اپنی آنکھیں اور اپنی جانیں نبی ؐ پر قربان کرتے رہے ہیں بے شک وصی پیغمبر ؐ ،علی ؑ ہمارے امام اور ولی امر ہیں اب تو پردے اٹھ چکے ہیں اور راز ظاہر ہوچکے ہیں))(2)

مولائے کائنات ؑ کی جب بیعت ہورہی تھی تو عبدالرحمٰن بن جعیل نے یہ اشعار پڑھے ۔

ترجمہ اشعار:میری جان کی قسم آج تم نے اس کی بیعت کی جو دین کا زبردست محافظ،صاحب عفت اور توفیقات کا مرکز ہے اس علی ؑ کی بیعت کی جو محمد مصطفیٰ ؐ کا وصی،ان کا چچازاد بھائی،دین اور تقویٰ کا بھائی سب سے پہلا نمازی ہے))(3) ان قصائد کے اشعار یہ اعلان کررہے ہیں کہ مسلمان شروع ہی سے مولائے کائنات ؑ کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) امالی شیخ مفید ص: 154 ۔ 156 (2) شرح نہج البلاغہ ج: 1 ص: 143 ۔ 144 ( 3) شرح نہج البلاغہ ج: 1 ص: 143

۲۹۳

غیروں پر مقدم سمجھتے تھے ابوبکر اور عمر کس شمار میں ہیں ۔

ایک واقعہ اور ملاحظہ فرمائیے،مولائے کائنات ؑ نے شریح بن ہانی کو عمرو بن عاص کے پاس بھیجا کہ وہ جا کر اس کو سمجھائیں اور ہدایت کریں شریح کہتے ہیں میں نے مولائے کائنات ؑ کا پیغام عمروعاص کو سنایا اس کے چہرے کا رنگ سیاہ ہوگیا اور وہ کہنے لگا میں نے علی ؑ کا مشورہ قبول کب کیا ہے جو آج قبول کروں میں ان کی رائے کو کسی شمار میں نہیں رکھتا شریح کہتے ہیں میں نے کہا اے نابغہ کے بیٹے تجھ سے بہتر تھے(یعنی ابوبکر و عمر)وہ ہی ان سے مشورہ لیتے تھے اور اس پر عمل بھی کرتےتھے کہنے گا میرے جیسے تجھ جیسے سے بات نہیں کرتے میں نے کہا اچھا یہ بتا تو اپنے ماں باپ میں سے کس کی وجہ سے میری بات میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے،اپنے کمینہ باپ کی وجہ سے یا نابغہ ماں کی وجہ سے وہ یہ سن کر اٹھا اور چلا گیا ۔(1)

صحابہ کو پختہ یقین تھا کہ امیرالمومنینؑ ہی وصی پیغمبرؐ ہیں

بہت سے صحابہ جن کی تعداد بیس سے کچھ زیادہ ہے اور تابعین جو مولائے کائنات ؑ کے دور میں تھے ان کے اشعار خطبہ اور حدیثیں اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ انھیں علی ؑ کے وصی پیغمبر ؐ ہونے کا پختہ(پکا)یقین تھا اور وصی کا مطلب ہے امت میں نبی ؐ کا قائم مقام،جس طرح ہر نبی ؐ کا وصی اس کا قائم مقام ہوتا ہے،اس لئے کہ مولا علی ؑ کا وصی پیغمبر ؐ ہونا خود سرکار دو عالم ؐ کی بہت سی حدیثوں میں وارد ہوا ہے ۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وقعۃ صفین ص:543،ینابیع المودۃج:2ص:23

(2)فتح الباری ج:8ص:150،مجمع الزوائد ج:7ص:237،اور،ج:8ص:253،کتاب علامات نبوۃج:9ص:165،معجم الکبیر ج:3ص:57،ج:4ص:171،ج:6ص:221،معجم الاوسط ج:6ص:327،فضائل الصحابہ ج:2ص:615،الفردوس بما ثور الخطاب ج:3ص:336،کنز العمال ج:11ص:605،حدیث:32923 الکامل فی الضعفاء الرجال ج:4ص:14،الموضوعات ج:1ص:369۔374،تاریخ دمشق ج:42ص:130،392،حالات علی بن ابی طالبؑ،شرح نہج البلاغہ ج:13ص:210،المناقب للخوارزمی ص:147۔58،ینابیع المودۃ ج:1ص:235۔239۔241،ج:2ص:79۔163۔280۔279۔267۔232،ج:3ص:264۔291۔384

۲۹۴

میری مراد وصایت سے ذاتی امور میں وصایت نہیں ہے بلکہ وصی بمعنی جانشین ہے اگر چہ وصایت کے اس معنی میں بھی شخصی امور میں وصایت آہی جاتی ہے ۔

وہ لوگ جن کا عقیدہ ہے کہ حقدار خلافت ابوبکر و عمر تھے،اس دعویٰ وصایت کو خفیف(ہلکا)سمجھتے ہیں

یہی وجہ ہے کہ جو لوگ شیخین کو خلیفہ مانتے ہیں انکے سامنے وصایت کا دعویٰ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا اور وہ ایسی حدیثوں کا انکار کرتے ہیں ۔

ملاحظہ ہو،اسود سے روایت ہے عائشہ کے سامنے یہ ذکر آیا کہ نبی ؐ نے مولائے کائنات علی ؑ کو اپنا وصی بنایا تھا،عائشہ نے کہا کون کہتا ہے میں نبی ؐ کے پاس تھی اور میرے سینہ سے آپ ٹیک لگائے بیٹھے تھے پھر آپ نے ایک تشت منگایا پھر جھک گئے اور وفات پاگئے،میری سمجھ میں نہیں آتا کہ نبی ؐ نے علی ؑ کو وصی کب بنایا تھا؟(1)

آپ کے آٹھویں سوال کے جواب میں اس موضوع پر بھی گفتگو کی جائے گی انشااللہ تعالی ۔

طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن اوفیٰ سے پوچھا:کیا نبی ؐ نے وصیت کی تھی کہنے لگے کہ نہیں میں نے کہا پھر رسول ؐ نے لوگوں پر وصیت کیسے واجب کردی؟اور خود وصیت نہیں کی؟کہنے لگے حضور ؐ نے کتاب خدا کے بارے میں وصیت کی تھی،(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:4ص:1619،کتاب المغازی،باب علالت و وفات نبیؐ(انک میت و انھم میتون ثم انکم یوم القیامۃ عند ربکم تختصمون)صحیح مسلم ج:3ص:1257،مسند احمد ج:6ص:32)اور اسی طرح دوسرے مدارک

(2)صحیح بخاری ج:4ص:1918،کتاب فضائل قرآن،باب وصیت،اور اسی طرح ج:3ص:1006،کتاب وصایا،باب وصیت،ج:4ص:1619،کتاب المغازی،باب نبیؐ کا علیل ہونا اور ان کی وفات و قول پروردگار(انکم میت و انھم میتوں ثم انکم یوم القیامۃ عند ربکم تختصمون)السنن الکبریٰ للبیھقی ج:6ص:266،کتاب الوھایا،مسند ابی عوانہ ج:3ص:475

۲۹۵

مالک بن معول نے کہا:مجھ سے طلحہ نے کہا میں نے عبداللہ بن اوفیٰ سے سوال کیا،کیا رسول خدا ؐ نے وصیت کی تھی؟کہنے لگےنہیں میں نے پوچھا پھر دوسروں پر وصیت کیوں واجب کردی جب خود وصیت نہیں کی،کہنے لگے قرآن کے بارے میں وصیت کی تھی ۔ ہزیل بن شرحبیل نے کہا:ابوبکر خلیفہ پیغمبر ؐ پر حاکم بن بیٹھے وہ سمجھتے تھے گویا رسول خدا ؐ کی طرف سے انھیں یہ عہدہ ملا ہے اور وہی ان کی ناک میں خلافت کا موتی(بیر) ڈ ال گئے ہیں ۔(1)

اب ابن کثیر نے جو تحریر کیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں،حالانکہ ان کی تحریر محض تعصب اور جذباتیت کا نتیجہ ہے لکھتے ہیں کہ:اور شیعوں کی جاہل اکثریت غلط گو قصہ خوان جو یہ کہتے ہیں کہ سرکار دو عالم ؐ نے علی ؑ خلافت کے بارے میں وصیت کی تھی،یہ جھوٹ،بہتان اور عظیم افترا ہے،اس سے بڑی غلطی لازم آتی ہے یعنی صحابہ خائن قرار پاتے ہیں اور یہ الزام بھی آتا ہے کہ انھوں نے پیغمبر ؐ کی وصیت کا نفاذ ترک کردیا،نبی ؐ کے بعد آپ کی وصیت کو نہیں تسلیم کیا،معمولی قصہ گو،جو یہ کہانیاں بازاروں میں اور عوام کے درمیان گڑھ کے بیان کرتے رہتے ہیں کہ نبی ؐ نے آداب و اخلاق میں علی ؑ کو اپنا وصی قرار دیا تھا یہ بھی من گھڑت ہی ہے،بلکہ بعض کمینے جاہلوں کی ایجاد ہے،اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا اور اس سے دھوکا نہیں کھایا جاسکتا مگر جو بالکل ہی جاہل اور غبی ہو ۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسند ابی عوانہ ج:3ص:476،اور اسی طرح،ص:475،پر کتاب وصیت کے آغاز میں اس واضح خبر کے بیان میں کہ نبیؐ نے کسی کے لئے کوئی بات بعنوان وصیت نہیں کی ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ انھوں نے مال میں کوئی وصیت نہیں کی ہے اس لئے کہ آپ نے بعنوان میراث کوئی مال نہیں چھوڑا ہے بلکہ واجبات کا بیان کیا ہے،سنن دارامی،ج:2ص:496،کتاب الوصایا میں باب من لم یوص،مسند البراز،ج:8ص:297۔298،جو کچھ عبداللہ بن ابی اوفیٰ نے روایت کی ہے م فتح الباری،ج:5ص:361،البدایۃ و النہایۃ ج:5ص:251،طلحہ بن مصرف کے حالات میں الریاض النضرۃ،ج:2ص:197،تیرہویں فصل خلافت اور جو صحابہ سے متعلق ہے کے بیان میں،تاریخ الخلفاءج:1ص:7الفائق فی غریب الحدیث،ج:2ص:29،خزم کے مادہ میں،ج:5ص:149،وثب کے مادہ میں لسان العرب مادہ وثب اور مادہ خزم،غریب الحدیث،ابن سلام،ج:3ص:212۔213،ابوبکر صدیق کی حدیث کے ضمن میں

(2)البدایۃ و النہایۃ ج:7ص:225۔226

۲۹۶

حاصل کلام یہ کہ بیعت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے بعد وصیت کی حدیثوں کا شائع ہونا اور صحابہ کی ایک بڑی جماعت کا اس حدیث کی تاکید و تائید کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ صحابہ نص کے معترف تھے اور اس پر یقین رکھتے تھے ۔

عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ دنوں تک ضرور مغلوب رہے اور حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر بیٹھے لیکن یہ دوسری بات ہے ورنہ صحابہ نص سے نہ تو جاہل تھے اور نہ تجاہل کر رہے تھے ۔

اہل بیتؑ کو جو بھی شکایتیں ہیں قریش سے ہیں نہ کہ صحابہ سے

یہی بات ہے کہ امیرالمومنین ؑ یا اہل بیت علیھم السلام نے جو بھی شکوے کئے ہیں وہ عام صحابہ سے نہیں ہیں بلکہ ان کی شکایتیں قریش اور ان کی پیروی کرنے والوں سے ہیں یہ بات گذشتہ صفحات میں ثابت ہوکی ہے اور گنجائش ہوتی تو میں دوسرے ثبوت بھی پیش کرتا ۔

بلکہ سقیفہ اور اس کے بعد کے جو بھی واقعات تاریخ پیش کرتی ہے ان میں اھل بیت ؑ کے خلاف جو اقدامات پائے جاتے ہیں وہ صرف قریش کی حرکتوں کا نتیجہ ہیں ان واقعات میں نہ مسلم عوام کا دخل ہے نہ صحابہ کا،یہاں تک کہ عُمر و عثمان کا بھی نام کہیں نہیں ملتا،جیسا کہ تیسرے سوال کے جواب میں عرض کیا گیا ۔

البتہ یہ واقعات ان مسلمانوں اور صحابیوں سے منسوب ضرور ہیں جو غصب خلافت کو شرعیت کی سند دینا چاہتے ہیں جیسے ابوبکر اور عباس کا مکالمہ اور امام حسن ؑ کے پاس بھیجے گئے معاویہ کے دو خط کے مضمون جیسا کہ تیسرے سوال کے جواب میں ان دونوں خطوط کی نقل پیش کی گئی ہے.

بہت سے صحابہ بلند مرتبہ پر فائز تھے

(اہل بیت اطہار ؑ سے خلوص اور قلبی لگاؤ کا نتیجہ تھا کہ)وہ صحابہ جو نبی ؐ کے بعد زندہ تھے،بلند مرتبوں پر فائز ہوئے،اور اعلیٰ فضیلتیں،اونچی منزلیں اور اجر عظیم حاصل کیا،جس طرح وہ صحابہ جو نبی ؐ کے دور میں

۲۹۷

تھے انھوں نے نبی ؐ کی تصدیق کی،آپ کی نصرت کی اور آپ کی ہدایتوں سے مستفید ہوئے آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلے اور گذر گئے،یہ اس وقت کی بات ہے جب مسلمانوں میں شقاق و نفاق نہیں پیدا ہوا تھا،یہ لوگ مہاجرین و انصار کے نمایاں اراد تھے اور انھوں نے اسلام میں قابل تعریف نمونہ عمل چھوڑا ۔

ائمہ ہدی علیہم الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کی بہت تعریف کی ہے

یہی وجہ سے کہ ائمہ اہل بیت ؑ نے صحابہ کی بہت تعریف ہے،ان کا شکریہ ادا کیا ہے،ان کی مدح کی ہے اور ان کے جہاد اور کوششوں کو سراہا ہے،امیرالمومنین ؑ علیہ السلام اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں ۔

ہم پیغمبر ؐ کے ساتھ تھے،جنگوں میں ہم اپنے باپ،بیٹے بھائی اور چچاؤں کو قتل کرتے تھے اور اس سے ہمارے ایمان اور تسلیم میں اضافہ ہی ہوتا تھا،ہم سختیوں کو جھیل جاتے تھے اور رنج کو برداشت کرتے تھے،اپنے دشمن سے جہاد میں کوشاں تھے،ایک آدمی ہمارا ہوتا تھا اور ایک دشمن کا،دونوں ایک دوسرے پر بپھرے ہوئے سان ڈ وں کی طرح ٹوٹ پڑتے تھے اور ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے ہوجاتے تھے،ہم دونوں میں کوئی ایک اپنے سامنے والے کو موت کا پیالہ پلا دیتا تھا،کبھی ہم غالب آتے کبھی ہمارا دشمن،جب خدا نے ہمارے ایمان کی صداقت دیکھ لی تو ہمارے لئے نصرت اور ہمارے دشمن کے لئے شکست نازل کردی)) ۔(1)

مولائے کائنات ؑ ایک دوسرے خطبہ میں اصحاب کی مدح میں رطب اللسان ہیں،آپ فرماتے ہیں((میں نے نبی ؐ کے صحابہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ان کے جیسا تو اب کوئی دکھائی نہیں دیتا،وہ صبح کو خاک آلود اٹھتے تھے،اس لئے کہ ان کی راتیں یا مسجدوں میں گذرتی تھیں یا حالت قیام میں،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) نہج البلاغہ ج: 1 ص: 104 ۔ 105

۲۹۸

کبھی زمین پر پیشانیاں رکھتے تھے،کبھی رخسار،جب قیامت کا ذکر آتا تو یوں تڑپتے جیسے آتش زیر پا ہو،ان کی پیشانی پر آنکھوں کے درمیان اونٹ کے گٹھنے کے نشان جیسا گھٹہ ہوتا تھا اس لئے کہ ان کے سجدے طویل ہوتے تھے،جب خدا کا ذکر ان کے سامنے ہوتا تو اس قدر روتے کہ آنسو ان کے جیب و گریبان کو تر کر دیتا اور خوف عقاب اور امید ثواب میں یوں کانپنے لگتے جیسے سخت آندھی میں درخت ہلنے لگتے ہیں ۔(1)

ایک دن عمروعاص نے انصار کے خلاف تقریر کی اور سقیفہ میں انصار نے جو باتیں کہی تھیں ان کی وجہ سے انھیں برا بھلا کہا ان کی مذمت میں کچھ اشعار بھی نظم کئے،اس سلسلہ میں قریش کے سادہ لوح افراد اور حدیث الاسلام لوگ اس کی تائید کر رہے تھے اور اس کی ہمت افزائی کررہے تھے،نتیجہ میں اس نے دوبارہ بھی یہ حرکت کی یہ دیکھ کر مولائے کائنات امیرالمومنین ؑ نے سختی سے اس کی مخالفت کی اور انصار کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے،آپ نے بہت غصہ میں فرمایا:اے قریش کے لوگو!انصار کی محبت ایمان اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے،ان پر جو واجب تھا انھوں نے ادا کردیا،تم پر جو واجب تھا وہ ابھی ادا نہیں ہوا بلکہ باقی ہے))پھر آپ نے طویل تقریر فرمائی اور فضل بن عباس کو بلا کے فرمایا کہ اپنے اشعار سے انصار کی مدح کریں،اس سلسلہ میں فضل بن عباس نے چند اشعار نظم کئے،آخر کار قریش کے لوگ عمروعاص کے پاس گئے اور کہنے لگے اے شخص علی ؑ کو غصہ آگیا ہے،اب تو رک جا!لیکن امیرالمومنین ؑ نے دوبارہ ایک تقریر فرمائی اور انصار کی صفائی پیش کی ان پر جو عیب لگائے تھے ان کی تکذیب کی،تمام مسلمانوں نے مولا علی ؑ کی تصدیق کی،بات یہاں تک پہنچی کہ عمروعاص کو مدینہ چھوڑنا پڑا اور جب تک امیرالمومنین ؑ اور مہاجرین اس سے راضی ہوئے وہ مدینہ میں واپس نہیں آسکا ۔(2) مولائے کائنات ؑ نے اپنے آخر کلام میں انصار کی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:1ص:189۔190،کنز العمال ج:16ص:200،حدیث:4422،صفوۃ الصفوۃ ج:1ص:331۔332،تاریخ دمشق ج:42ص:492،حالات امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ میں۔(2)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:29۔36

۲۹۹

کہ:((خدا کی قسم انھوں نے اسلام کی پرورش اس طرح کی جس طرح گھوڑے کا ایک سالہ کمزور بچہ پرورش کیا جاتا ہے حلانکہ وہ بےنیاز تھے پھر بھی انھوں نے اپنے لمبے چوڑے ہاتھوں سے اور اپنی چلتی ہوئی زبانوں سے اسلام کا دفاع کیا)) ۔(1)

زرارہ بن اعین حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:تلواریں نہیں کھینچیں،نماز کی صفیں نہیں قائم ہوئیں،جنگ کی صفیں نہیں قائم ہوئیں،علیٰ الاعلان اذان نہیں دی گئیں اور قرآن میں((اے ایمان والو))کہہ کے نہیں پکارا گیا جب تک ابناقیلہ یعنی اوس و خزرج والے مسلمان نہیں ہوگئے))(2) اس کے علاوہ بھی امام ؑ نے کئی جگہوں پر صحابہ(انصار مدینہ)کی بہت تعریف کی ہے ۔

اسی طرح امام سجاد علی ابن الحسین علیہ السلام اپنے صحیفے کی چوتھی دعا میں اصحاب پیغمبر ؐ کے لئے مخصوص فقروں سے دعا فرماتے ہیں اور پیغمبر ؐ کی پیروی کرنے والوں اور آپ کی تصدیق کرنے والوں پر درود بھیجتے ہیں پالنے والے محمد ؐ کے خاص اصحاب جنھوں نے نبی ؐ کی صحابیت کو اچھے طریقہ سے نبھایا اور نبی ؐ کی نصرت میں ہر بلا کو بہتر خیال کیا نبی ؐ کی آواز پر لبیک کہا جب نبی ؐ نے اپنی رسالت پر دلیلیں ان کے سامنے پیش کیں انھوں نے نبی ؐ کے کلمہ کے اظہار کے لئے اپنی ازواج و اولاد سے مفارقت گوارا کی اور اپنے ہی باپ،بیٹوں سے جنگ کی تا کہ نبی ؐ کی نبوت ثابت ہوسکے،انھوں نے نبی ؐ کی مدد کی اور وہ لوگ جن کے دل محبت پیغمبر ؐ سے بندھے ہوئے تھے اور نبی ؐ کی مودّت میں ایسی تجارت کررہے تھے جو کبھی برباد نہیں ہوئی،ان سب پر سلام بھیج...تا آخر دعا ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) نہج البلاغہ ج: 4 ص: 106

( 2) بحارالانوار ج: 22 ص: 312

( 3) ینابیع المودۃ ج: 3 ص: 428 ۔ 429

۳۰۰