فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 367
مشاہدے: 198554
ڈاؤنلوڈ: 5548


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 198554 / ڈاؤنلوڈ: 5548
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سوال نمبر1

قرآن مجید کے متعلق شیعوں کا کیا نظریہ ہے کہ قرآن کریم جب امت محمد ؐ یہ کے حالات پر نظر ڈ التا ہے اور اللہ کے نزدیک ان کے درجات اور مقام و منزلت کو تعین کرتا ہے اور انھیں دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے!

ایک قسم وہ جو زمانے سے محدود ہے یہ وہ لوگ ہیں جن پر سابقون،اوّلون کا اطلاق ہوتا ہے چاہے وہ انصار میں سے ہوں یا مہاجتیں میں سے اور عام طور سے صحابہ و غیرہ کا لفظ قرآن اور حدیث میں جہاں بھی آیا ہے اس سے یہی سابقون اوّلون مراد ہیں چاہے یہ لوگ احسان کی پیروی کریں یا نہ کریں،اللہ بہرحال ان سے راضی ہے.

دوسری قسم وہ ہے جن کے لئے اتباع بالاحسان کی شرط رکھی گئی ہے،حالانکہ ان میں بھی اکثر افراد پر قرآن مجید کی زیر نظر آیت کے دوسرے حصے میں((صحابہ،لفظ کا اطلاق ہوتا ہے ارشاد ہوتا ہے کہ:((اور سابقوں اوّلون کے مہاجر و انصار اور وہ لوگ جنھوں نے نیکی میں ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،ان کے لئے ایسے باغات تیار کئے گئے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے))

(سورہ توبہ آیت 100)

۲۱

تو پھر اگر ان سابقون اوّلون میں سے کسی کے بارے میں کوئی ایسی بات منقول ہو جس میں ان کا گناہ،نافرمانی،حق کی مخالفت،یا بدبختی ثابت ہو تو کیا ہم متاخرین کے لئے یہ صحیح ہے کہ ہم اپنی زبان کو ان کے بارے میں آزاد چھوڑدیں؟(اور جو منھ میں آئے کہہ ڈ الیں)جب کہ سنّت نبوی ؐ کا فیصلہ ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس صحابہ کی اس فعل قبیح میں پیروی کرسکتے ہیں جس کی برائی ظاہر ہے بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس صحابی کی منزلت جو اللہ کے نزدیک ہے اس کا مسئلہ اللہ پر چھوڑدیں اس لئے کہ اللہ ہی ان کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے جیسا کہ حاطب ابن ابی ہلتعہ کے واقعہ سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے،جب پیغمبر ؐ نے حاطب کو برا کہنےوالے کو یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ:

اللہ اصحاب بدر سے اچھی طرح واقف ہے))اس نے فرما دیا ہے کہ میں نے تمہیں معاف کردیا ہے اب تم جو چاہو کرو.

سوال نمبر۔ 2

ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ صحابہ کے اندر کچھ کمزوریاں پائی جاتی تھیں،مثلاً ذاتی تنازعہ،کسی مصلحت کی بنا پر ایک صحابی کا دوسرے صحابی پر تشدد بلکہ ایک صحابی دوسرے صحابی سے رشک و حسد میں بھی گرفتار تھا اور یہی حالات اس قول کو محال قرار دیتے ہیں کہ صحابہ بشری کمزوریوں سے پاک تھے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ ان سے راضی ہے جبکہ وہ بہت سی غلطیان کرچکے ہیں اور خدا کی رضا کسی وقت سے مخصوص نہیں ہے ۔ مثلاً صرف نبی ؐ کے زمانے ہی میں انھیں یہ رضا حاصل نہیں تھی بلکہ یہ حصول رضا مطلق اور عام ہے اور بغیر کسی نص شرعی کے اس رضا کی حدوں سے کسی کو باہر نہیں کیا جاسکتا،پھر شیعہ علما اس بات کے قائل کیوں نہیں ہوجاتے کہ عمر و ابوبکر اور عثمان کا خلافت پر علی ؑ کی موجودگی میں قبضہ کرنا انھیں بشری کمزوریوں کا تقاضا تھا جن کا مواخذہ شرعی طور پر ضروری نہیں ہے یا اس وجہ سے تھا کہ کچھ دوسرے امور تھے جن کی بنیاد پر خلافت کے معاملے میں یہ آپس میں راضی ہوگئے تھے جب کہ شیعوں کا یہ اعتقاد ہے کہ مولائے کائنات ؑ کلافت کے زیادہ مستحق تھے،(وہ اپنے اس عقیدہ پر باقی رہیں تو کوئی حرج نہیں لیکن خلفائے ثلاثہ کے فعل کی مندرجہ بالا توجیہ کر کے انہیں قبول کرلیں ۔ )

۲۲

سوال نمبر۔ 3

شیعہ و سنی دونوں فرقے ان معاملات میں جو صدر اسلام میں واقع ہوئے مولائے کائنات اور اہلبیت ؑ امام حسن ؑ کی سیرت پر کیوں نہیں عمل کرتے یعنی ہم ان باتوں کا اقرار کریں جن کا ان حضرات نے اقرار کیا اور ان باتوں کا انکار کریں جن کا ان حضرات نے انکار کیا تھا اور اس طرز عمل کو ضرور سمجھیں:

1 ۔ ابوبکر کی خلافت کا امام علی ؑ کی جانت سے اقرار ۔ 2 ۔ ابوبکر کے ذریعہ خلافت کے لئے عمر کی تنصیب کا اقرار ۔ 3 ۔ شوریٰ کا اقرار اور شوریٰ کی ایک فرد ہونے پر رضایت ۔ 4 ۔ معاویہ کا شام کی ولایت پر عدم اقرار ۔ اس لئے کہ حضرت علی ؑ اسے اس کام کے لئے نااہل سمجھتے تھے باوجودیکہ اسے برطرف کرنے سے اسلامی سماج میں بہت سی خرابیان پیدا ہورہی تھیں ۔

سوال نمبر۔ 4

کیا جمہور کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ مولائے کائنات ؑ کی بیعت پر واضح نص شرعی کی موجودگی میں(اگر وہ موجود ہو)اس سے غافل رہے ہوں جبکہ ان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے معین کئے گئے ہو کہ انھیں اچھی باتوں کا حکم دو اور برائیوں سے روکو(1)

سوال نمبر۔ 5

کیا آپ نہیں دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام اس دن سے غمگین ہے جب سے اسلامی خلافت کا انہدام ہوا اور اس غم میں دونوں برابر کے شریک ہیں،چاہے سنی ہوں یا شیعہ،تو پھر کیوں نہ کسی ایسے شخص کی تنصیب،خلافت کے لئے واجب قرار دی جائے جو امت کے مصالح کے مطابق کام کرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(آل عمران آیت110)

۲۳

خصوصاً اہل سنت تو آج کل خلافت سے محروم ہیں لیکن آپ شیعہ حضرات بھی اس دور غیبت میں سنیوں کی طرح قیادت سے محرومی کا احساس کررہے ہیں اور ایسے شخص کی ضرورت محسوس کررہے ہیں جو امت کے مصالح کو قائم اور باقی رکھے کیا آپ کی نظر میں اس کا حصول ممکن ہے اور اس امر کے حصول کے لئے کوشش کی جانی چاہئے؟

سوال نمبر۔ 6

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوبکر کو اس وقت امامت کا حکم دیا جب آپ خود مرض کی شدت کی وجہ سے لوگوں کی امامت نہیں کرسکتے تھے،اس سلسلہ میں آپ کا کیا خیال ہے کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضور ؐ اپنے بعد خلافت ابوبکر پر راضی تھے؟

سوال نمبر ۔ 7

کیا یہ صحیح ہے کہ انسانی زندگی کے مسائل اور ضروریات دین کا علم صرف ائمہ ؑ سے مختص ہے حالانکہ خدا کہتا ہے((آج ہم نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر نعمتوں کو منزل کمال تک پہنچا دیا اور تمہارے لئے دین اسلام سے راضی ہوگیا))(سورہ مائدہ:آیت 3)

سوال نمبر۔ 8

اہل سنّت اور شیعہ دونوں فرقے قرآن کی حجیت اور اس کی قطعیت صدور پر متفق ہیں اختلافات سنّت میں ہے اس لئے کہ دونوں کےنزدیک سنّت کا مصدر مختلف ہے ۔

سنی صرف ان حدیثوں کو لیتے ہیں جو ثقہ راویوں کے ذریعہ پیغمبر ؐ سے روایت کی گئی ہیں اور بس،جب کہ شیعہ ائمہ اہلبیت ؑ سے بھی حدیثیں لیتے ہیں چاہے ان کا زمانہ رسول خدا ؐ سے کتنی ہی دور ہو اس لئے کہ وہ اماموں کی عصمت کے دعویدار ہیں حالانکہ جو لوگ اماموں سے روایت لینےوالے ہیں وہ

۲۴

سب کے سب سنیوں کے راویوں کی طرح غیر معصوم ہیں،پھر شیعہ حضرات سنیوں کی کتابوں کو قابل اعتماد کیوں نہیں سمجھتے خصوصاً وہ شیعہ رواۃ جو ثقہ سے روایت لینے کے قائل ہیں چاہے وہ ان کے مذہب کا مخالف ہی کیوں نہ ہو یا اس کی روایت شیعہ مذہب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ بات کہ سنی بھی شیعہ راویوں کی طرف کیوں نہیں رجوع کرتے؟مناسب نہیں ہے اس لئے کہ سنی صرف پیغمبر ؐ سے روایت اخذ کرتے ہیں اور وہ عصمت ائمہ ؑ کے قائل بھی نہیں ہیں؟

سوال نمبر ۔ 9

شیعوں کے اصول دین میں خبر آحاد پر عمل نہیں کیا جاتا جب کہ اماموں کی تشخیص تواتر سے ثابت نہیں ہے پس اگر امام کی تشخیص خبر آحاد کے ذریعہ ہو تو اس پر عمل واجب نہیں ہوگا اور غیر مشخص امام کی پیروی جائز نہیں ہے

(عبدالکریم)

عمان،اردن

7 / دستمبر 2000 سنہ

۲۵

۲۶

بسم الله الرحمٰن الرحیم

خدا کی تعریف اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی آل پاک پر درود و سلام اور روز قیامت تک ان کے تمام دشمنوں پر لعنت کے بعد:

السلام علیکم

محترم کریم بھائی.........خدا آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے میری دعا ہے کہ خداوند عالم آپ کو اور آپ کے تمام دینی بھائیوں کو توفیقات عنایت فرمائے اور آپ حضرات کو اپنے پرہیزگاروں میں قرار دے ۔

الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُوْلَئِكَ هُمْ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ

ترجمہ آیت:(وہ لوگ جو تمام باتیں سن کے ان میں سے سب سے بہترین بات کی پیروی کرتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جن کی اللہ نے ہدایت کی ہے اور یہی لوگ سمجھدار ہیں)) ۔(1)

میری دعا ہے کہ خداوند عالم اپنی رحمت کے فیضان سے آپ کی دین و دنیا میں اصلاح کرے اور آخرت اور معاد میں بھی بھلائی عنایت فرمائے بے شک وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور مومنین کا سرپرست ہے ۔

آپ کا گرامی نامہ ملا اور مجھے پڑھکے بہت خوشی ہوئی جب یہ معلوم ہوا کہ ہماری گفتگو حقیقت کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورۂ زمر آیت 18.

۲۷

پردہ کشائی میں نفع بخش ہے اور غموض(اگر ہے)تو چھٹ رہا ہے اور مجھے بہرحال امید و اطمینان ہے کہ میں نے جواب میں بہت وضاحت سے کام لیا ہے اور صاف گوئی کا جو اہتمام کیا ہے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہےیہ بات ہماری سابقہ گفتگو سے آپ پر ظاہر ہوچکی ہوگی اور اس گفتگو سے بھی انشااللہ تعالی یہ بات سمجھ میں آجائے گی ۔

تلاش حقیقت کے وقت جستجو کے حق کو ادا کرنا ضروری ہے

ہم لوگ اس وقت ایک ایسے مسئلہ کو موضوع گفتگو بنانے جارہے ہیں جس میں دھیرے دھیرے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تا کہ حقیقت معلوم ہوجائے اور حقیقت تک پہنچا جاسکے ہمیں چاہیئے کہ سختی سے اس بات کی پابندی کریں کہ ہر حال میں بحث و تمحیص کا حق ادا ہوتا رہے اور ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآسکیں اس لئے کہ جو بات معلوم نہیں ہے اس کے مقابلے میں معلومات پر عمل کرنا کافی ہے(1) اور علم بغیر عمل کے ایسا ہے جیسے درخت بغیر ثمر کے(2) جیسا کہ رسول ؐ و آل رسول ؐ سے وارد احادیث میں آیا ہے ۔ معرفت اگر عمل سے خالی ہو تو صاحبت معرفت کو نقصان پہنچاسکتی ہے،اس لئے کہ معرفت یا تو اس پر حجت تمام کردیتی ہے یا اتمام حجت کو مزید پختہ کردیتی ہے دونوں ہی صورت میں اسکی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ جس حقیقت کو اس نے سمجھ لیا ہے اس پر سختی سے عمل کرے اور خدا کی طرف سے جو فرض ہے وہ اس کا مطالبہ بھی کرےگا اس کا حساب بھی ہوگا

(لَايَنفَعُنَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا) (3)

ترجمہ آیت:(جو شخص پہلے سے ایمان نہیں لائےگا یا مومن ہونے کی حالت میں نیک کام نہیں کئے ہوگا تو اس کا ایمان اس کے لئے مفید نہیں ہوگا)) ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) توحید شیخ صدوق،ص 416 اوربحارالانوار،ج 2 ص 281 اور نورالبراہین،ج 2 ص 447

( 2) عیون الحکمہ و الواعظ،ص 340 اور محاسبۃ النفس،ص 166 (3) سورہ انعام آیت: 158

۲۸

حساب کا دن تو اچانک آئےگا پہلے سے خبر نہیں دی جائےگی اس لئے حساب کے لئے تیار رہنا اور اس کے خطروں سے حفاظت کا انتظام کرنا بہت ضروری ہے،خدا کے سامنے بری الذمہ ہونے کے لئے کوئی عذر ہونا ہی چاہئے ۔

اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ میں آپ کو بغیر بصیرت اور دلیل کے کسی خاص مسلک کو اختیار کرنے کی دعوت دے رہاہوں اس لئے کہ ارشاد ہوتا ہے:

وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً

ترجمہ آیت:((جس چیز کے بارے میں نہیں جانتے اس کے پیچھے مت پڑا کرو اس لئے کہ کان آنکھ اور دل سب سے سوال کیا جائےگا،سب کے بارے میں پوچھا جائےگا)) ۔(1)

بلکہ میرا مطلب یہ ہےکہ بحث کرنےوالا جذباتیت سے آزاد رہے اور ہٹ دھرمی اور بیکار کی بحث سے پرہیز کرے،جس حقیقت کے بارے میں بحث کر رہا ہے اس کے لئے اپنی بصیرت اور اپنے ضمیر کو حاکم بنائے جب وہ اس حقیقت تک پہنچ جائے اور بات اس کے سامنے واضح ہوجائے تو اس کے حق کو ادا کردے تا کہ خدا کے سامنے اپنی ذمَہ داری سے عہدہ برآ ہوسکے ۔

لیکن حق کب اور کیسے واضح ہوگا؟تو اس کی ذمہ داری خود بحث کرنےوالے پر عائد ہوتی ہے کہ پہلے وہ اپنے وجدان سے حق کی صحیح تعریف کرے اس لئے کہ

بَلِ الْإِنسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ

ترجمہ آیت:((انسان تو اپنے آپ سے خوب واقف ہے)) ۔(2)

اس کے بعد خداوند عالم،حاکم و عادل ہے چاہے انسان کے حق میں فیصلہ دے چاہے اس کے خلاف ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ اسراءآیت 36

( 2) سورہ قیامت آیت 14

۲۹

میں خدا سے اپنے لئے اور آپ کے لئے توفیق و تسدید کا سوال کرتا ہوں اور ہراس آدمی کے لئے یہی دعا ہے جو حق کو پہچاننے کا اور اس تک پہنچنے کا حوصلہ رکھتا ہے اور حق کو پہچان کر اس کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہے ۔

آخر کلام میں ایک خاص بات کی طرف آپ کو متوجہ کرانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ غدیر کے متعلق سوال میں ایک لفظ رہ گیا تھا وہ ہے واقعۂ بیعت غدیر،اصل میں اشکال واقعۂ بیعت پر ہے نہ کہ واقعہ غدیر پر،اس لئے کہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ واقعۂ غدیر کے تذکرہ سے تو اہل سنّت کی کتابیں بھری پھڑی ہیں میں امید کرتا ہوں کہ آپ آئندہ خط میں اس موضوع پر روشنی ڈ الیں گے،خدا کا شکر ہے کہ آپ کی کوششیں ضائع نہیں ہو رہی ہیں بلکہ اس کے فوائد دیکھنے میں آرہے ہیں،اس لئے کہ آپ کے اس جواب کا طریقہ اور ترتیب اس شخص کے لئے نادرالوجود ہے جو اس طرح کے سوالوں کا جواب دیتا ہو ۔

آخر میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ میرے لئے خدا سے دعا کریں گے مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ ہمیں اپنے محبوب اور پسندیدہ اور مسلمانوں کے لئے خیر کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

و آخر دعوانا ان الحمدلله ربّ العالمین

۳۰

اگر آپ بیعت سے یہ سمجھتے ہیں کہ غدیر میں لوگ نبی ؐ کی خدمت موجود تھے اور آپ کا خطبہ سن رہے تھے انھوں نے اپنے ہاتھ کو علی ؑ کے ہاتھ سے مس کرتے ہوئے مضمون خطبہ کے اقرار کا ثبوت دیا یعنی بیعت سے مراد غدیر میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ہے تو اس بات کو نہ شہرت حاصل ہے اور نہ اس کے لئے دعوائے تواتر کیا گیا ہے،سنّیوں کی بات تو چھوڑیئے شیعوں کے یہاں بھی اس کے تواتر کا دعویٰ نہیں پایا جاتا ہے ۔

سنّی اور شیعہ روایتوں میں ہاتھ میں ہاتھ دینے کے معنی میں بیعت کا تذکرہ

واقعۂ بیعت کو شیعوں نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے علامہ مجلسی ؒ نے ان میں سے کچھ لوگوں کا ذکر کیا ہے(1) جیسے علامہ طبری حضرت امام ابوجعفر محمد بن علی باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں اور سلسلۂ نبی تک پہنچتا ہے کہ اس موقعہ پر حضور ؐ نے ایک طویل خطبہ دیا اور مولائے کائنات ؑ کی ولایت پر نص کرنے کے بعد فرمایا(اے لوگو تم بہت زیادہ ہو اور میرے لئے ایک ہاتھ پر بیعت کثرت افراد کی وجہ سے ممکن نہیں ہے مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تمہاری زبانوں سے علی ؑ کے بارے میں مومنین پر جو امارت طے ہوئی ہے اس کا اقرار اور ان لوگوں کی امامت کا اقرار لےلوں جو مجھ سے اور علی ؑ کے بارے میں مومنین پر جو امارت طے ہوئی ہے اس کا اقرار اور ان لوگوں کی امامت کا اقرار لےلوں جو مجھ سے اور علی ؑ سے آئندہ زمانے میں امام ہونےوالے ہیں اس لئے کہ میں تمہیں پہلے بتاچکا ہوں کہ میری ذریت علی ؑ کی صلب میں ہے تو تم سب مل کر کہو کہ ہم لوگ سننے والے،اطاعت کرنےوالے،راضی رہنےوالے اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) بحارالانوار،ج 37 باب 52 ص 119،133،138

۳۱

پیروی کرنےوالے ہیں اس چیز کے بارے میں جو آپ نے علی ؑ کے بارے میں اور ان کی صلب سے ہونےوالے اماموں کے بارے میں اپنے اور ہمارے رب کی طرف سے ہم تک پہنچائی ہے ہم اس بات پر دل،جان،زبان اور ہاتھ سے آپ کی بیعت کرتے ہیں،اے لوگو!ایسی بات کہو جس سے خدا تم سے راضی ہو اور یاد رکھو کہ اگر تم اور روئے زمین کے تمام لوگ سب کے سب کافر ہوجاؤ تو اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچےگا،پروردگارا!تمام اہل ایمان کو معاف کردے اور کافرین پر غضب نازل فرما ۔

(والحمدلله ربّ العالمین)

امام ابوجعفر ؑ فرماتے ہیں کہ(خطبہ سن کے)لوگوں نے آواز دی ہم نے سنا ہم اللہ اور رسول اللہ ؐ کے امر کی اپنے ہاتھ زبان اور دل سے اطاعت کا عہد کرتے ہیں پھر لوگوں نے پیغمبر ؐ اور علی ؑ کے پاس ہجوم کیا اور اپنے ہاتھ سے بیعت کرنے لگے....)(1)

علّامہ مجلسی ؒ نے مذکورہ بالا روایت کو علامہ طبرسی ؒ سے لیا ہے پھر فرمایا ہے کہ مخالفین کے علما میں احمد بن محمد طبری نے اس روایت کو لکھا ہے اور ہم نے انہیں سے اپنی کتاب کشف الیقین میں یہ روایت نقل کی ہے(2) اسی طرح علامہ شیخ امینی ؒ نے بھی جہاں مبارک بادی کا تذکرہ کیا ہے اور مبارک بادی کو بعض علما جمہور سے نقل کیا ہے وہیں یہ بھی(3) کہا ہے کہ بیعت کی بات بھی ان لوگوں نے روایت کی ہے ۔

مگر یہ تمام باتیں حد تواتر تو نہیں پہنچی اور میرا خیال ہے کہ کسی نے تواتر کا دعویٰ بھی نہیں کیا ہے مگر یہ کہ وہ ہم سے مخفی معلومات پر مطلع ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) احتجاج، ج 1 ص 82 سے 84 تک،یوم الغدیر علی الخلق کلهم و فی غیره من الایام بولایة علی بن ابی طالب علیه السلام اور اس کے بعد

( 2)( بحارالانوار،ج 37 ص 218 باب 52 نصوص کے باب میں جو دلالت کرتی ہیں اور بعض وہ دلیلیں جو اس پر قائم ہیں،امیرالمومنینؑ کی امامت پر عام و خاص طریقہ سے)

( 3) الغدیر،ج: 1 ص: 270 ۔ 271

۳۲

اقرار ولایت اور قبول ولایت کے معنی میں بیعت ثابت ہے

یہ بات بعید از فہم نہیں ہے کہ بیعت سے مراد شاہدین خطبہ کی طرف سے قبول ولایت کا اعلان اور اذعان ہو،کیوں کہ خطبہ میں ولایت امیرالمومنین ؑ فرض کی گئی ہے،سابقہ حدیث بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے،اس لئے کہ اکثر لوگ بیعت کا یہی مطلب سمجھتے ہیں ۔ ہر دور میں مسلمانوں کی سیرت رہی ہے کہ خلیفہ جدید کے لئے عام انسانوں کی بیعت محض اس کی خلافت کو تسلیم کر لینا ہے اور اس کی قیادت کو مان لینا ہے بیعت کا شرف تو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے،وہ لوگ جو صاحب مرتبہ ہوتے ہیں انھیں کو یہ شرف حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقرار کا اعلان خلیفہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کریں،ورنہ مذکورہ بالا معنیٰ میں بیعت تو واقعۂ غدیر میں حاصل ہوچکی تھی ۔

اس لئے کہ جو لوگ نبی ؐ کے خطبہ میں حاضر تھے اور علی ؑ کے بارے میں اعلان ولایت کے شاہد تھے اگر ان میں سے کسی نبی ؐ کی تردید کی ہوتی یا نبی ؐ پر اعتراض کیا ہوتا تو بات چھپی نہیں رہتی ظاہر اور واضح ہوجاتی،یہ امر طبیعی ہے تاریخ اس کو نقل کرتی ہے،جیسا کہ حارث ابن نعمان فہری کے معاملے میں ہوا جس کا ذکر میں نے آپ کے ساتویں سوال کے جواب میں حدیث غدیر کے ذیل میں کیا ہے یا جیسا کہ تہنیت ے بارے میں حدیثوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے کہ حاضرین نے امیرالمومنین علیہ السلام کو ولایت کی تہنیت دی،علامہ شیخ امینی ؒ نے اہل سنّت کی ساٹھ 60 کتابوں سے اس کا حوالہ دیا ہے ۔

خاص طور سے وہ حدیثیں جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور نے امیرالمومنین ؑ کو ایک الگ خیمے مٰں بٹھایا اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس خیمے میں جا کے امیرالمومنین علیہ السلام کو ولایت کی مبارک باد دیں(1) اس لئے کہ یہ معلوم ہے کہ اس طرح سے تہنیت دینے کا مطلب ہی ہے کہ مسلمان آپ کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب،ج 1 ص 271.

۳۳

ولایت کا اقرار کررہے ہیں آپ کی ولایت کو تسلیم کررہے ہیں اور یہ دونوں ہی باتیں معنائے بیعت کو ادا کرتی ہیں،حاصل گفتگو یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت کا قبول اور اقرار کا تلازم عادتاً خطبہ غدیر کے ساتھ ہے اور خطبہ کا تواتر یہ ہے کہ معنائے مذکور میں بیعت کو بھی تواتر حاصل ہے ۔

حدیث غدیر سے استدلال بیعت پر موقوف نہیں ہے

اس کے علاوہ حدیث غدیر سے استدلال بیعت پر موقوف نہیں ہے اس لئے کہ جب خدا نے امیرالمومنین ؑ کی ولایت فرض کردی اور نبی ؐ نے پہنچا بھی دیا تو اب لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اس کو تسلیم کریں،اس کو مانیں بیعت تو صرف اس کے توابع میں سے ہے چاہے ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس لئے کہ ولایت کا اذعان و اعلان اور اس پر عمل کا وجوب بیعت پر موقوف نہیں ہے اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بیعت کا تحقق نہیں ہے یا نبی ؐ نے بیعت کا مطالبہ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی ؐ کی زندگی میں بیعت کا کوئی اثر بھی تو ظاہر نہیں ہوتا،وفات نبی ؐ سے پہلے بیعت کی ضرورت بھی کیا تھی بیعت کی ضرورت تو وفات پیغمبر ؐ کے بعد تھی اس لئے کہ وفات نبی ؐ کے بعد بیعت کا مطلب ہے کہ خدا کے حکم کو مسلمان مان رہا ہے اور اس پر عمل کر رہا ہے،حالانکہ اس وقت بھی بیعت،امیرالمومنین کی ولایت کا ثبوت نہیں ہوتی اور نہ ہی ولایت امیرالمونین ؑ پر عمل کا وجود آپ کی قیادت اور اطاعت و بیعت پر موقوف ہوتا جیسا کہ میں عرض کیا،البتہ اہل سنّت کے نزدیک ولایت و خلافت بیعت اور اس کے بعد پر موقوف ہوتی ہے،اس لئے کہ ان کے یہاں خلافت نص سے ثابت نہیں ہوتی جب تک لوگ اس کی بیعت نہ کرلیں اس لئے کہ ان کے یہاں بیعت کا کردار بہت اہم ہے اور خلافت اپنے ثبوت میں بیعت کی محتاج ہے ۔

۳۴

حدیث غدیر سے امامت و خلافت پر مزید تاکید کے لئے شیعہ بیعت پر زور دیتے ہیں

میرا خیال ہے کہ بعض شیعہ بیعت پر اس لئے زور دیتے ہیں کہ امیرالمومنین ؑ کی ولایت پر حدیث شریف کی دلالت موکد ہوجائے اور یہ بات پکی ہوجائے کہ مولائے کائنات ؑ نبی ؐ کے بعد مومنین کے ولی،ان کے امام اور خلیفہ ہیں ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جمہور مسلمین بلکہ تمام مخالفین نے بھرپور کوشش کی کہ امر ولایت کو مقام تشکیک میں ڈ ال دیا جائے،پہلے تو سند حدیث پر طعن کی کوشش کی لیکن حدیث غدیر اپنے اسناد و طرق کی وجہ سے تواتر سے بھی کچھ آگے تھی اس لئے کہ سند حدیث پر سوائے چند بے حیثیت افراد کے کوئی بھی طعن کرنے کی ہمّت نہیں کرسکا،تب انھوں نے لفظ مولیٰ کے اجمال کا دعویٰ کر ڈ الا،اس لئے کہ مولیٰ کے بہت سے معنی ہیں،مولیٰ یعنی محبّ،مولیٰ یعنی ناصر،مولیٰ یعنی ابن عم،و غیری یعنی مولیٰ کا مطلب خاص طور سے اولیٰ بالامر نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ بعض شیعہ بیعت پر تاکید کرتے ہیں تا کہ بیعت کے ذریعہ یہ ثابت ہو کہ مولیٰ بہ معنیٰ اولیٰ استعمال ہوا ہے اس لئے کہ مولیٰ بہ معنی اولیٰ بیعت کی مناسبت سے ہی ثابت ہوتا ہے کسی دوسرے معنیٰ سے نہیں ۔

یہ بات اگر چہ بہت عمدہ ہے لیکن پہلے یہ دیکھئے کہ آپ بات کس سے کررہے ہیں؟اگر آپ کی گفتگو کسی متعصب آدمی سے ہورہی ہے جو آپ سے عناد رکھتا ہے اور بات سے بات نکال کے شک پیدا کرتا ہے تو پھر بیعت والی بات بےفائدہ ہے،کیونکہ دنیا کی کوئی حقیقت ایسی نہیں ہے جس کے گرد دشمنوں نے شبہ کے تانے بانے نہ پھیلائے ہوں آپ اس سے بات ہی مت کیجئے اس لئے کہ وہ بات جھگڑے تک پہنچ جائےگی اور جھگڑے کے بارے میں حدیثوں میں نہی وارد ہوئی ہے بہتر یہ ہے کہ اس کے معاملات کو اللہ پر چھوڑ دیجئے اس لئے کہ اللہ سے جھگڑا کر کے وہ کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکےگا

ہاں اگر آپ کی بات کسی حق پرست اور انصاف پسند آدمی سے ہورہی ہے جو حقیقت تک پہنچنا

۳۵

چاہتا ہے،چاہے جس صورت میں بھی ہو تو یہ امر اس کے سامنے بہت واضح ہے،اس لئے کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مولا کے بہت سے معنیٰ ہیں اور سارے معانی اولیٰ میں نہیں پائے جاتے تو کافی ہے کہ مولا کو اولیٰ پر حمل کیا جائے اس لئے کہ متن حدیث میں دونوں دلیلیں موجود ہیں ۔

حدیث غدیر سے امامت پر دلالت کو بعض قرینے ثابت کرتے ہیں

1 ۔ جس طرح یہ حدیث مولا کی لفظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے،یعنی جس کا میں مولا ہوں اس کے علی ؑ مولیٰ ہیں،اسی طرح ولی کا بھی لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی حضور ؐ نے فرمایا جس کا میں ولی ہوں اس کے علی ؑ ولی ہیں،ظاہر ہے کہ دونوں حدیثوں میں اختلاف کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کو جھٹلا رہی ہیں اور نہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک غلط ہے بلکہ دونوں حدیثوں کا مقصد بغیر الفاظ نص کی پابندی کے محض معنیٰ کو نقل کرنا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مولیٰ بہ معنیٰ ولی استعمال کیا گیا ہے اور ولی اس صاحب اقدار کو کہتے ہیں جو امر ولایت کا ذمّہ دار ہو ۔

2 ۔ حدیث غدیر کے جو سلسلے تواتر تک پہنچے ہوئے ہیں یا تواتر سے بھی آگے ہیں ان میں ولایت پر نص کے پہلے پیغمبر اعظم ؐ کا ایک سوال بھی وارد ہوا ہے(کیا میں مومنین پر ان سے زیادہ اولیٰ نہیں ہوں؟)اور پھر فوراً ہی جملہ ارشاد ہوا کہ(میں جس کا مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں)اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مقدمۃُ اولیٰ کی لفظ آئی ہے بعد میں مولیٰ کی لفظ ہے جیسے کہ اولیٰ سے مولیٰ کی تفسیر کی جارہی ہو،پس لزوم ذہنی یہ کہتا ہے کہ مولیٰ کو اولیٰ ہی کے معنی میں لیا جائے چاہے مولیٰ کے جتنے بھی معنی ہوں لیکن دوسرے معانی کا امکان اور اولیٰ کے معنیٰ کا لزوم پایا جاتا ہے،اس کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے داخلی اور خارجی قرینے ہیں اور ہمارے علما نے اس پر لمبی بحثیں کی ہیں شاید کہ علامہ امینی ؒ نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر بحث فرمائی ہے(1) اور مجھے خوش ہوگی اگر کوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب۔ج 1 ص 340 تا 399

۳۶

حدیثوں کی تاویل کرنےوالا اس حدیث کی تاویل اس کے مخالف معنی میں کرے پھر وہ متن حدیث کی مذکورہ معنی میں تاویل کرے،پھر دونوں کا تقابل کرکے تمام قرینوں کا احاطہ کرے اور اس کے بعد فیصلے کا اختیار اپنے وجدان اور ضمیر کو دیدے اور یہ دیکھے کہ اسکا وجدان کون سے معنی اختیار کرتا ہے ۔

جو ولی ہے وہی امام ہے اور اس کی اطاعت واجب ہے

جب یہ بات مان لی گئی کہ حدیث غدیر میں امیرالمومنین ؑ کے ولایت کی ضمانت لی گئی ہے اور یہ کہ آپ تمام مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ آپ کی امامت اور خلافت ثابت ہے اور آپ کی طاعت واجب ہے اس لئے کہ ولایت کا مطلب سوائے امامت کے کچھ نہیں ہوتا اور امامت بالولایۃ مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت کا وجوب نہ ہو،پھر یہ دیکھیں کہ مسلمانوں پر نبی ؐ کی امامت کیسے ثابت ہوئی ہے؟ظاہر ہے احادیث اور آیتوں کے ذریعہ وہی احادیث اور آیا الٰہیہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور کی طاعت واجب ہے،حضور مومنین کے ولی ہیں،حضور ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ اولیٰ ہیں،(تو پھر آپ ولایت امیرالمومنین ؑ کے لئے نشان بیعت کیوں تلاش کررہے ہیں کیا صرف آیتیں اور حدیثیں کافی نہیں ہیں؟)پس خدا ہی عالم ہے وہی بچانے والا ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے اور اچھا وکیل ہے ۔

۳۷

۳۸

سوال نمبر ۔ 1

شیعوں کا اس قرآنی فیصلے کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟

قرآن جن امت محمدیہ کی حالت کو پیش کرتے ہوئے ان کے درجہ بندی کرتا ہے تو انہیں دو قسموں میں تقسیم کرتا ہے ۔

ایک قسم جو زمانے سے محدود ہے،یہ وہ لوگ ہیں جن پر قرآن کی زبان میں سابقون اوّلون کا اطلاق ہوتا ہے،چاہے وہ مہاجر ہوں یا انصار،عام طور پر قرآن یا حدیثوں میں جہاں صحابہ یا اس کے مثل کوئی لفظ استعمال کی گئی ہے اس سے مراد یہی سابقون اوّلون ہیں،یہ وہ قسم ہے جس سے اللہ نے اپنے راضی ہونے کا اعلان کیا ہے اور اتباع بالاحسان کی شرط نہیں لگائی ہے جبکہ قسم ثانی کے ساتھ ایسا نہیں ہے ۔

قسم ثانی وہ ہے جس میں اتباع بالاحسان کی شرط لگائی گئی ہے،یاد رہے کہ قسم ثانی میں بہت سے افراد پر صحابہ کی لفظ کا اطلاق ہوتا ہے،آیت مذکورہ کے دوسرے حصہ میں شامل ہیں:

ارشاد ہوتا ہے:(وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) (1)

ترجمہ آیت:(مہاجرین اور انصار میں جو سابقون اوّلون ہیں اور وہ لوگ جو نیکی میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ توبہ:آیت 100

۳۹

ان کی پیروی کرتے ہیں خدا ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں،ان کے لئے باغات تیار کئے گئے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے) ۔

تو اب سابقون اوّلون میں سے چاہے وہ انصار ہوں یا مہاجرین اگر کوئی ایسی بات منقول ہوتی ہے،(جس میں ان کے کردار کی کمزوری ظاہر ہو)جیسے گناہ،نافرمانی،آپس کی رسّہ کشی،بدبختی تو کیا یہ مناسب ہے کہ ہم جو متاخرین میں ہیں اپنی زبان کو آزاد چھوڑیں دیں(اور جو منھ میں آئے کہتے چلے جائیں)جب کہ سنّت نبی کا فیصلہ ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے اور ایسے عمل کی پیروی بھی نہیں کرسکتے جس کا فساد ظاہر ہے اور ایسے صحابی کے بارے میں منھ کھولنے سے پہلے ہم یہ دیکھ لیں کہ اللہ نے ان کو ایک خاص منزلت دی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہم باز رہیں،جیسا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کے معاملہ سے ظاہر ہوتا ہے،سرکار دو عالم ؐ نے اس شخص پر جو حاطب ابن ابی بلتعہ کو برا کہہ رہا تھا یہ کہہ کر احتجاج کیا کہ خدا اہل بدر کے حالات سے تم سے زیادہ واقف ہے اور اس نے کہہ دیا ہے،جو چاہو کرو ہم نے تمہیں معاف کردیا ہے ۔

جواب:آپ کے اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل باتیں عرض ہیں!

امر اول:قرآن مجید میں سابقون اوّلون اور نیکی میں ان کی پیروی کرنےوالوں کا تذکرہ صرف اس ایک آیت میں کیا گیا ہے ۔

(سابقون اوّلون چاہے مہاجر ہوں یا انصار اور نیکی میں ان کی پیروی کرنے والے خدا ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں ان کے لئے باغات تیار کئے گئے ہیں جن میں نہریں بہتی ہیں،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی عظیم کامیابی ہے)(1) ظاہر ہے کہ اس آیت شریفہ میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں ۔

الف:سابقون اوّلون سے خدا کی رضایت کا اعلان ۔

ب:اللہ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا ہےا ور فوز عظیم کا حکم لگایا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ توبہ:آیت: 100

۴۰