فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 367
مشاہدے: 198581
ڈاؤنلوڈ: 5548


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 198581 / ڈاؤنلوڈ: 5548
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

الگ ہوا وہ مجھ سے الگ ہوا،(1) اور فرمایا:جو میری اطاعت کرے و اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور جو میری نافرمانی کرے وہ اللہ کی نافرمانی کرتا ہے جو علیؑ کی اطاعت کرے وہ میری اطاعت کرتا ہے اور جو علیؑ کی نافرمانی کرے وہ میری نافرمانی کرتا ہے۔(2) اور فرمایا:شب معراج میں مجھ پر وحی آئی کہ علیؑ کی تین صفتیں ہیں،1۔علیؑ سیدالمومنین ہے،2۔علیؑ امام المتقین ہے۔3۔اور علیؑ روشن پیشانی والوں کا قائد ہے))(3) آپ نے اکثر علیؑ کا تعارف امیرالمومنین(4) کہہ کے کرایا ہے،بلکہ مسلمانوں کی ایک جماعت کو حکم دیا کہ علیؑ کو امیرالمومنین کہہ کے سلام کریں(5) آپ جنگ تبوک میں جانے لگے تو علیؑ ہی کو اہل مدینہ پر خلیفہ مقرر کیا اور فرمایا:مناسب نہیں ہے کہ میں چلا جاؤں مگر یہ کہ تم(علیؑ)میرے خلیفہ رہو،(6) اور یہ کہ مدینہ کی اصلاح ہو ہی نہیں سکتی مگر مجھ سے یا تم(علیؑ)(7) سے،دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا((تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے ہاروں موسیٰ کے لئے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبیؐ نہ ہوگا۔(8)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)المستدرک علی صحیحین ج:3ص:133،کتاب معرفۃ الصحابہ،مجمع الزوائد ج:9ص:135،کتاب مناقب،باب الحق مع علی،مسند البراز ج:9ص:455،معجم شیوخ ابی بکر الاسماعیلی ج:3ص:800،المعجم الکبیر ج:12،ص:423،فضائل صحابۃ ج:2ص:570،فیض القدیر ج:4ص:357،میزان الاعتدال ج:3ص:30،داود بن عوف کے حالات میں،ص:75،رزین بن عقبہ کے حالات میں،تاریخ دمشق ج:42،ص:307،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،و غیرہ

(2)المستدرک علی صحیحین ج:3ص:131،کتاب معرفۃ الصحابہ معجم شیوخ ابی بکر اسماعیلی ج:1ص:485،الکامل فی ضعفا الرجال ج:4ص:349،عبادۃ بن زیاد کے حالات میں،تاریخ دمشق ج:42،ص:307،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،و غیرہ

(3)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

(4)اس کا حوالہ چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے (5)تاریخ دمشق ج:42ص:303

(6)المستدرک علی صحیحین ج:3ص:143،کتاب معرفت صحابہ امیرالمومنینؑ کے اسلام کا ذکر،مجمع الزوائد ج:9ص:120،کتاب مناقب باب مناقب علی بن ابی طالبؑ میں،مسند احمد ج:1ص:330،مسند عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب،المعجم الکبیر ج:12،ص:98،السنۃ لابن ابی عاصم ج:2ص:566۔565،الاصابۃ ج:4ص:568،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،ریاض النضرۃ ج:2ص:190،تیسری فصل میں،فضائل صحابہ لابن حنبل ج:2ص:648،

(7)المستدرک علی صحیحین ج:2ص:367،کتاب تفسیر،تفسیر سورہ توبہ،کنزالعمال ج:11ص:607،حدیث32933،ج:13ص:172،حدیث:36517،ینابیع المودۃ ج:1ص:344،میزان الاعتدال ج:2ص:324،حفص بن عمر الابلی کے حالات میں،لسان المیزان ج:2ص:324،حفض بن عمر الابلی کے حالات میں،و غیرہ

(8)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

۳۴۱

ابن عباس سے روایت ہے:وہ امیرالمومنین ؑ کے حوالے سے کہتے ہیں جب نبی ؐ پر یہ آیت نازل ہوئی((وانذر عشیرتک الاقربین))اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے)) تو بنی عبدالمطلب سے نبی ؐ سے گفتگو ہونے لگی پھر نبی ؐ نے خطبہ دیا اور فرمایا:اے بنوعبدالمطلب!میں تمہارے پاس دنیا آخرت کی بھلائی لیکر آیا ہوں،مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اس کی طرف بلاؤں،پس تم میں سے کون ہے جو اس شرط پر میرا ہاتھ بٹائے کہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی،وصی اور خلیفہ قرار پائے))ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ سن کے لوگ آپ کو چھوڑ ک چلے گئے ۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ نے فرمایا:میں اس وقت بہت کمسن تھا میری آنکھیں چھوٹی اور پن ڈ لیاں پتلی تھیں،لیکن میں نے آواز دی یا رسول اللہ ؐ میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں گا اور اس امر میں آپ کی وزارت کروں گا سرکار دو عالم ؐ نے یہ سن کے میری گردن پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:بےشک یہ میرا بھائی میرا وصی اور تم لوگوں میں میرا خلیفہ ہے ۔ اس کی باتیں سنو اور اس کا حکم مانو!علی ؑ فرماتے ہیں یہ سن کے لوگ ہنسنے لگے اور(میرے والد)ابوطالب ؑ سے کہنے لگے کہ یہ)حضور اکرم ؐ )تو کو حکم دیتے ہیں کہ اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کا حکم مانو!(1)

اللہ نے ولایت علی ؑ کو یہ کہہ کے ثابت کیا کہ((بےشک تمہارا ولی تو اللہ ہے اور اس کا رسول ؐ ہے اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں))(2) حدیثیں بتاتی ہیں کہ یہ آیت امیرالمومنین ؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تاریخ طبری ج: 1 ص: 542 ۔ 543 ، ،شرح نہج البلاغہ ج:3 ص210 ،تفسیر ابن کثیر ج:3 ص 352 البدایہ والنہایہ ج :3ص:40 تفسیر طبری ج9ص:122

(2)سورہ مائدہآیت :55

(1)تفسیر قرطبی ج: 6 ص: 288 ،تفسیر ابن کثیر ج: 2 ص: 72 مجمع الزوائد ج: 7 ص: 17 ،کتاب التفسیر، ،کتاب المعجم الاوسط ج: 6 ص: 218 ۔فتح القدیر ج: 2 ص: 3 ،زاد المسیر ج: 2 ص: 382 ،احکام القرآن جصاص،ج: 4 ص: 102 ،باب نماز میں معمولی فعل،روح المعانی ج: 6 ص: 167 ،شواہد التزیل،حسکانی ج: 1 ص: 211 ۔ 210 ۔ 209 ،تاریخ دمشق ج: 42 ،ص: 357 ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں اور ج: 5 ص: 303 ،عمر بن علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،کنز العمال ج: 13 ،ص: 108 ،حدیث: 36354 ،و غیرہ منابع،

۳۴۲

اسی طرح پیغمبر ؐ نے بھی ولایت علی ؑ یہ کہہ کے ثابت کی ہے کہ((میرے بعد علی ہی تمہارے ولی ہیں))(1) بلکہ نبی ؐ نے علی ؑ کو مومنین پر ان کے نفوس سے بھی اولیٰ قرار دیا ہے،حدیث غدیر آپ کے سابقہ سوالوں کے ساتویں سوال کے جواب میں گذرچکی ہے،حدیث غدیر کے سیاق سے امیرالمومنین ؑ کی امامت ثابت ہوتی ہے اس لئے کہ اولیٰ بالمومنین صرف وہی ہوسکتا ہے جس کے اندر مومنین کی قیادت کی صلاحیت ہو پس ثابت ہوا کہ امامت مکمل ہو ہی نہیں سکتی جب تک امام کو ماموم پر اولیت نہ حاصل ہو،اس کتاب کے مقدمہ میں اس سلسلے میں گفتگو ہوچکی ہے،اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو خاص طور سے علی ؑ اور عام طور سے اہل بیت ؑ کے حق میں وارد ہوئی ہیں ۔

فضائل علی ؑ و اہل بیت ؑ میں،میں نے یہ آیتیں اور حدیثیں پیش کردی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان تمام آیات و احادیث کے حوالہ اسناد بھی پیش کروں گا اور یہ کہ ہر حدیث و آیت کا مدلول کیا ہے؟اور ان آیات و احادیث پر کیا اعتراضات ہوئے ہیں؟دشمنان اہل بیت ؑ نے جو ان حدیثوں کے رخ کو موڑنا چاہا ہے اس کے مفہوم میں تحریف کی ہے اور شیعوں نے جو اس کے جوابات دیئے ہیں ان تمام باتوں کو میں اس وقت عرض کرنے کی حالت(پوزیشن)میں نہین ہوں،اگر چہ یہ سب کچھ لکھا جائے تو کئی جلد کتابیں تیار ہوجائیں گی اور گفتگو بہت طویل ہوجائے گی،اس سلسلے میں ہمارے علمائے ابرار ؓ نے جو کتابیں تحریر فرمائی ہیں اور ان آیات و احادیث کی جو چھان بین کی ہے وہی کافی ہے،میں نے بہت اختصار و اجمال سے کام لیا ہے اور جو کچھ بھی عرض کیا ہے وہ سند اور حوالے کا محتاج نہیں ہے ۔

----------------

( 1) مجمع الزوائد ج: 9 ص: 128 ،سنن کبری نسائی ج: 5 ص: 133 ،کتاب خصائص خصوصیت علی بن ابی طالبؑ میں،المعجم الاوسط ج: 6 ص: 163 ،مسند احمد ج: 5 ص: 356 ،برید اسلمی کی حدیث میں،الفردوس بما ثور الخطاب ج: 5 ص: 392 ،فتح الباری ج: 8 ص: 67 ،تحفۃ الاحوذی ج: 10 ،ص: 147 ۔ 146 ،فیض القدیر ج: 4 ص: 357 ،الاصابۃ ج: 6 ص: 623 ،وہب بن حمزہ کے حالات میں،الریاض النضرۃ ج: 2 ص: 187 ،تاریخ دمشق ج: 42 ص: 189 ،حالات علی بن ابی طالب،فضائل الصحابہ لابن حنبل ج: 2 ص: 688 ،البدایۃ و النہایۃ ج: 7 ص: 346 ۔ 344 ،

۳۴۳

اسی طرح میرا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ ہر حدیث کے مدلول کی کوئی تعریف کروں کہ کونسی حدیث علی ؑ اور اہل بیت ؑ کی کس فضیلت پر دلالت کرتی ہے،بلکہ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک انصاف پسند کو یقین آجائے کہ ایک طرف اہل بیت ؑ اور علی ؑ کے فضائل میں احادیث و آیات کا ذخیرہ موجود ہے جو متفق علیہ اور ناقبال انکار ہے،ان مضبوط دلیلوں کے مقابلے میں ابوبکر کی فضیلت میں ایک لولی لنگڑی اور مریض حدیث حادثہ صلوٰۃ کی ہے،کیا ان مضبوط دلائل کو چھوڑ کے اس اپاہج حدیث کی بنیاد پر ایک صاحب انصاف کی نظر میں علی ؑ کو محروم اور ابوبکر کو خلیفہ تسلیم کرلینا صحیح ہے؟انصاف آپ کے ہاتھ میں ہے ۔

ان تمام باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ حقائق آپ کے سامنے ہیں اور ہر انسان کو اختیار ہے کہ جو اسے اچھا لگے وہ اپنالے اور آثار و قرائن کی بنیاد جو واقعیت سے قریب معلوم ہو اسے اختیار کر لے،البتہ مقصد رضائے پروردگار ہونا چاہئے اور خدا کے سامنے معقول عذر پیش کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے اس لئے کہ ہم سب کو اسی کے سامنے پیش ہونا ہے اور اس کے سامنے کھڑے ہونا ہے،ارشاد ہوتا ہے((ایک دن آئے گا جب ہر نفس پنی انجام دی ہوئی نیکیوں کو اپنے سامنے موجود پائے گا اور جس نے برائیاں انجام دی ہیں وہ تمنا کریں گے کہ کاش ان کے اور ان کے اعمال کے درمیان ایک لمبا فاصلہ ہوتا،اللہ اپنے آپ سے تمہیں ڈ راتا ہے اور اللہ تو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے))(1) غالباً گذشتہ صفحات میں اور ابھی تھوڑی دیر پہلے بھی یہ بات عرض کی جاچکی ہے کہ بعض مورخین کے مطابق عام مہاجرین و انصار کو اس معاملے میں ذرا بھی شک نہیں تھا کہ خلافت علی ؑ کا حق ہے اور علی ؑ ہی پیغمبر ؐ کے بعد صاحب امر ہیں،جیسا کہ اہل بیت ؑ اور ایک بڑی جماعت بھی یہ سمجھ رہی تھی کہ خلافت اہل بیت ؑ کا حق ہے اور اہل بیت ؑ میں بھی خاص طور سے علی ؑ کا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ آل عمران آیت 30

۳۴۴

خلافت ایک اہم منصب ہے،اس کی طرف صرف اشار کرنا کافی نہیں ہے

4 ۔ خلافت کی اہمیت کے پیش نظر صرف اس کی طرف اشارہ و تلمیح سے کام لے کر خلیفہ کا معین کرنا کافی نہیں ہے،خصوصاً اس لئے بھی کہ یہ منصب اپنے اندر اتنی چمک اور کشش رکھتا ہے کہ ہر ایک کے دل میں اس کی خواہش پیدا ہوسکتی ہے اور کوئی بھی اس کی طمع کرسکتا ہے ۔

یہاں تو لوگ نصوص صریحہ کی تاویل کرنے سے باز نہیں آتے بلکہ ان کو اپنے مقصد کے مطابق توڑ مروڑ کے تحریف کرکے ان کے رخ کو اپنی طرف موڑ دیتے ہیں اور اصل منصوص بالخلافۃ کو محروم کردے رہے ہیں پھر اشارے کنائے کی کیا حیثیت ہے؟اشاروں سے غافل رہنا تو آسان ہے،جس طرح اشاروں سے کھیلنا آسان ہے،بلکہ اس طرح کے اہم امور میں اشاروں پر اکتفا کرنا تو فتنوں کو جنم دیتا ہے امت میں اختلاف کا سبب بنتا ہے،امت کو وادی حیرت و ضلال میں ڈ ال دیتا ہے،حالانکہ اسلام کی مضبوط شریعت ان کمزوریوں سے پاک ہے اور اسلام کا عظیم نبی ؐ ان نقائص سے منزّہ ہے ۔

حقیقت کا شبہات سے پاک ہونا ضروری ہے

سابقہ سوالوں کے جواب میں یہ بات عرض کی جاچکی ہے کہ حقیقت روشن ہوتی ہے،اس میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہوتی،اس لئے کہ خداوند عالم نے اس کے لئے حجت کا فیہ کا انتظام کیا ہے،جس سے انکار وہی کرےا جس کو حق سے دشمنی ہوگی یا پھر وہ انکار کرے گا جو حق کو محض غفلت اور سستی کی وجہ سے ٹالنا چاہتا ہے اور خدا کے نزدیک ان دونوں کے پاس کوئی عذر نہیں ہے ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ اس سلسلے میں کافی وقت نظر کے ساتھ حقیقت کا یقین اور اس کی حد بندی کرلیں گذشتہ باتوں کی بنیاد پر ہم اس حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں،لیکن اس کے ان مضامین کا بلکہ اکثر مضامین کا تذکرہ کرنا بہتر ہے ۔

۳۴۵

دعوتِ اصلاح کے راستے میں رکاوٹیں

اصلاحی دوتوں کو بہت سی رکاوٹوں اور مشکلوں کا سامان کرنا پڑتا ہے،یہ مشکلات دعوت کی نشر و اشاعت کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں اور سماج کے ہر طبقہ تک نہیں پہنچنے دیتی ہیں یہ مشکلیں دعوت کے اوامر و نواہی میں مانع ہوتی ہیں اور ان کی تنقید نہیں ہوپاتی،ایسا یا تو دعوت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے یا وہ خارجی عوامل ہیں جن کی وجہ سے دعوت کے پھیلنے میں تاخیر،بلکہ تعویق ہوتی ہے۔

سب سے بڑی رکاوٹ خود اہل دعوت کا داخلی اختلافات ہوتا ہے

دعوت اصلاح کے سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ اہل دعوت کا داخلی اختلافات ہوتا ہے جو ان کے ذاتی اجتھاد کا نتیجہ ہوتا ہے یا پھر یہ کہ لوگ جان بوجھ کے اپنے اغراض و اھداف کے مطابق ان کی تحریف کرلیتے ہیں اور دعوت کو اس کی حدوں سے باہر نکال دیتے ہیں تا کہ اس تحریف سے وہ مقاصد حاصل ہوسکیں جو دعوت کے خلاف یا اس کو نقصان پہنچانے والے ہیں،اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ داخلی اختلافات اور ذاتی اجتھاد کی وجہ سے خود دعوت کا چہر مسخ ہوجاتا ہے اور اصلاح کی دعوت کو موت آجاتی ہے ۔

اختلاف و افتراق ہی کے درمیان آسمانی مذہب کی جانچ ہوجاتی ہے

آسمانی مذہب کی جانچ پرکھ تو اسی اختلاف و افتراق پر منحصر ہے،اس لئے آسمانی مذہب کسی بھی کمی یا نقص سے پاک ہوتا ہے،کیونکہ آسمانی مذہب اس خدائے واحد و عادل کی طرف سے صادر ہوتا ہے،جو مدیر،لطیف خبیر،علیم اور حکیم ہے ۔(1) (( گوشہ چشم کے اشاروں کے ساتھ دلوں کے حالات بھی جانتا ہے))اس کی نظر سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے(2) اور وہ ہر چیز پر محیط ہے اس پروردگار کی طرف سے جو بھی نظام آئے گا وہ اسکا مشروع کیا ہوا ہوگا،سب سے کامل نظام ہوگا اور جہاں بھی وہ نظام بھیجا جائے گا وہاں کے ماحول کے مطابق ہوگا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ غافر آیت: 19 (2) سورہ سبا آیت: 3

۳۴۶

قرآن مجید،اختلاف سے بچنے کی سخت ہدایت کرتا ہے

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اختلاف و افتراق سے بچنے کی سخت تاکید کرتا ہے اور وحدت اور اتفاق کی پر زور دعوت دیتا ہے ارشاد ہوتا ہے((اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور اختلاف نہ کرو)(1) دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے:ان کے جیسے نہ ہوجاؤ جنہوں نے آپس میں اختلاف کیا اور روشن نشانیاں آنے بعد متفرق ہوگئے،ان کے لئے بڑا عذاب ہے ۔(2)

پھر ارشاد ہوتا ہے : وہ لوگ جو اپنے دین میں تفرقہ پیدا کرکے ایک الگ گروہ بناتے ہیں آپ ان سے کوئی مطلب نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ، پھر انھیں بتایا جائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں(3)

نبی کا اعلان کہ امت میں فرقے ہوں گے

اس کے ساتھ ہی پیغِمبر اعظم ؐ نے بھی بارہا اعلان کیا کہ امت میں اختلاف ہوگا اور فرقے پیدا ہوجائیں گےٹھیک اسی طرح جیسے سابقہ امتوں میں اختلاف ہوچکا ہے،آپ نے فرمایا:یہودیوں کے اکہتر فرقے ہوئے ایک جنتی بقیہ جہنمی ہیں،نصرانیوں کے بہتر فرقے ہوئے ایک جنتی اور اکہتر جہنمی ہیں اور یہ(میری)امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی،بہتر جہنمی اور ایک جہنمی اور ایک جنتی ہوگا ۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ آل عمران آیت:103

(2)سورہ آل عمران آیت:105

(3)سورہ نعام آیت:159

(4)مجمع الزوائد ج:6ص:233،کتاب قتال اہل بغی باب خوارج اور ج:7ص:258،کتاب فتن،باب امتوں کا مختلف فرقوں میں بٹ جانا،اور سنتوں کی پیروی کرنا،تفسیر قرطبی ج:4ص:160،تفسیر ابن کثیر ج:2ص:78،سنن درامی ج:2ص:314،کتاب سیر باب امتوں کا آپس میں فرقہ فرقہ ہونا،مصابح الزجاجۃ ج:4ص:179،کتاب فتن،امتوں کا آپس میں بٹ جانا،مسند ابی یعلی ج:6ص:341،وہ روایات جو ابونضرہ بن انس سے کی ہے،معجم الکبیر ج:8ص:273،اعتقاد اہل سنت ج:1ص:103،السنۃ لابن عاصم ج:1ص:32،الترغیب و الترھیب ج:1ص:44،حلیۃ الاولیاء ج:3ص:227)

۳۴۷

یہ روایت ان حدیثوں کے مطابق ہے جو سرکار دو عالم ؐ سے تواتر کے ساتھ وارد ہوئی ہیں(کہ امت مسلمہ سابقہ امتوں کے راستے پر چلے گی)حدیث میں ہے کہ(بیشک تم ضرور پیروی کروگے اپنے پہلے والوں کے قدم بہ قدم اور دست بہ دست،اگر وہ بجوکے سوراخ میں بھی داخل ہوتے تھے تو تم بھی داخل ہوگے)راوی نے پوچھا کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد گذشتہ لوگوں سے یہود و نصاریٰ ہیں؟آپ نے فرمایا پھر کون؟(1)

اس لئے سابقہ امتوں کے افتراق میں شک کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے،قرآن مجید بہت وضاحت سے ان کے اختلاف پر روشنی ڈ التا ہے ۔

مسلمانوں کو فتنوں سے ڈرایا گیا اور انہیں خوف دلایا گیا

افتراق امت کی پیش گوئی کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو اکثر فتنوں سے ڈ رایا گیا اور ان کے برے انجام سے آگاہ کیا گیا،انہیں بتایا گیا کہ ان کا امتحان لازمی ہے اور آزمائش حتمی ہے،ارشاد ہوتا ہے کہ:((وہ لوگ جو امر الٰہی کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈ رنا چاہئے کہ انہیں یا تو کوئی فتنہ دبوچ لے گا یا وہ عذاب الیم سے دوچار ہوجائیں گے)) ۔(2) ایک مقام پر ارشاد ہوا ہے کہ:اس فتنہ سے ڈ رو جو خاص ان لوگوں کو نہیں پہنچے گا جنھوں نے ظلم کیا ہے اور یہ جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے(3) اور پھر ارشاد ہوا:محمد نہیں ہیں مگر رسول ان کے پہلے بھی رسول گذرچکے ہیں،پس اگر وہ مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم اپنے پچھلے مذہب پر واپس ہوجاؤگے؟اور جو اپنے پچھلے پیروں واپس ہوگا اس سے خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا،خدا عنقریب شکرگذاروں کو جزا دے گا ۔(4) ارشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح بخاری ج: 6 ص: 2269 ،اور ج: 3 ص: 1274 ،سنن ابن ماجہ ج: 2 ص: 1322 ،کتاب فتن،امتوں کا آپس میں فرقہ فرقہ ہونا،مجمع الزوائد ج: 7 ص: 261 ،مستدرک علی صحیحین ج: 1 ص: 93 ،صحیح ابن جبان ج: 15 ص: 95 ،مسند احمد ج: 2 ص: 511 ۔ 327 ،مسند ابی ہریرہ ج: 3 ص: 89 ،مسند طیالسی ج: 2 ص: 289 ،

( 2) سورہ نور آیت: 63 (3) سورہ انفال آیت: 25 (4) سورہ آل عمران آیت: 144

۳۴۸

خداوند ہوا کہ((کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انھیں یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا اور آزمایا نہیں جائے گا؟اس سے پہلے بھی ہم لوگوں کو آزماچکے ہیں اور اللہ تو جانتا ہی ہے کہ ان میں جھوٹا کون ہے اور سچا کون ہے؟(1) ایک مقام پر خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے((اللہ مومنین کو اسی حال میں نہیں چھوڑ دےگا جیسے تم ہو یہاں تک کہ خبیث اور طیب الگ الگ ہوجائے اللہ تمہیں غیب کی خبر نہیں دینے جارہا ہے ۔(2)

سرکار دو عالم ؐ نے فرمایا:ہمارے بعد کا فرمت ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو))اور حدیث حوض میں آپ نے ارشاد فرمایا:

لیکن تم نے میرے بعد بہت سے حرکتیں انجام دیں اور پچھلے مذہب پر رجعت قہری کر بیٹھے))اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو آپ کے سابقہ سوالوں میں سے دوسرے سوال کے جواب میں پیش کی جاچکی ہیں ۔

اختلاف کے نتائج سے آگاہ کیا گیا اور اس کے خطروں سے خبردار کیا گیا

کسی بھی حقیقت پسند انسان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ فتنوں سے بچنے کے لئے اور اختلاف سے پرہیز کی ہدایت کے لئے جو آیتیں اور احادیث وارد ہوئی ہیں ان کے مضامین بہت سخت ہیں اور ان میں بھیانک نتائج سے متنبہ کیا گیا ہے مثلاً جو لوگ اس فتنے میں ملوث ہوں گے انھیں انقلاب پذیر،مرتد،خبیث اور کافر جیسے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے،یہ فیصلہ کردیا گیا ہے کہ جو حق کی مخالفت کرکے کوئی فرقہ بنائے گا وہ اپنے فرقہ کے ساتھ جہنم میں جائے گا اس لئے کہ فرقہ حق سے خروج کے بعد کفر سے الحاق لازمی ہے،جو خسران اور ہلاکت کا سبب ہے،صرف اسلام کی ظاہری صورت اور اس کا اعلان دعوت کسی بھی طرح نفع بخش نہیں ہوگا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ عنکبوت آیت: 2 ۔ 3

( 2) سورہ آل عمران آیت: 179

۳۴۹

قرآن مجید نے سابقہ امتوں کے کردار کو مقام مثال میں رکھ کے سمجھایا ہے ارشاد ہوا:اور ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤ جنھوں نے فرقے بنائے اور روشن آیتیں آنے کے بعد بھی اختلاف کر بیٹھے،ان کے لئے تو بڑا عذاب ہے،اس دن کچھ چہرے نورانی اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے اب اپنے کفر کا مزہ چکھو اور جن کے چہرےنورانی ہوں گے وہ تو اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوں گے اور ہمیشہ رحمت میں ہی رہیں گے ۔(1)

ارشاد خداوندی ہوا کہ:((اللہ چاہتا تو وہ لوگ جنھوں نے دلیلیں آنے کے بعد بھی آپس میں قتال کیا نہ کرتے لیکن انھوں نے اختلاف کیا پس ان میں سے کچھ تو مومن ہی رہے اور کچھ کافی ہوگئے)) ۔(2)

ایک اور مقام پر ارشاد ہوا:((اس سے اختلاف کرنے والے تو صرف بغاوت کی بنا پر اختلاف کر رہے ہیں اس لئے کہ یہ اختلاف،ان کے پاس نشانیاں آنے کے بعد شروع ہوا ہے،پس صاحبان ایمان کو تو اللہ نے ہدایت پر باقی رکھا اور اس اختلاف سے انھیں اپنی اجازت سے بچائے رکھا اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ مستقیم کی ہدایت کرتا ہے))(3)

خطرناک اختلاف کے پیش نظر واضح و آشکار حجت کا ہونا لازم ہے

دین میں اختلاف،ایک خطرناک اختلاف ہے،دین میں فرقہ بندی ایک بہت ہی نقصان دہ عمل ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کے خلاف واضح حجت اور کافی مواد موجود ہوتا کہ اگر کوئی دین سے خارج ہوجائے تو روز قیامت یہ عذر نہ پیش کرسکے کہ ہم کیا کریں؟سمجھ نہیں پائے بلکہ دلیلیں اتنی واضح ہونی چاہئیں کہ جو دین سے خارج ہوتا ہے وہ صرف اپنے دل کی گندگی و شقاوت ہی کی بنیاد پر نکلے یا پھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ آل عمران آیت: 105 ۔ 107

( 2) سورہ بقری آیت: 253

( 3) سورہ بقری آیت: 213

۳۵۰

پھر اس وجہ سے کہ وہ چمگادڑ کی طرح اندھا ہی رہنا چاہتا ہے اور حق کو دیکھنا ہی نہیں چاہتا اس کے سامنے سورج موجود ہے لیکن آنکھوں کو بند کئے پڑا ہے،سچائی سے غفلت یا تو اندھی تقلید کی وجہ سے ہے یا بےجا تعصب کی وجہ سے یا کوئی ایسا سبب ہے جسے کوئی معقول عذر نہیں کہا جاسکتا ۔ ارشاد درب العزت ہوتا ہے((ہم نے جہنم کے لئے بہت سے ایسےانسان و جنّات پیدا کئے ہیں جن کے پاس آنکھیں ہیں لیکن وہ دیکھ نہیں سکتے،کان ہے لیکن وہ سنتے نہیں ہیں،دل رکھتے ہیں لیکن سمجھاتے نہیں،وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ،اصل میں وہ غافل لوگ ہیں ۔(1)

آپ جانتے ہیں کہ انبیا کی بیعثت کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ حق پر حجۃ کا فیہ قائم ہوجائے،ہدایت کی علامتیں اور ایمان کے راستے واضح ہوجائیں تا کہ انسان جہنم سے بچنے اور جنت کے حاصل کرنے کا طریقہ جان لے،((تا کہ جو ہلاکت ہو وہ بغیر دلیل کے ہلاک نہ ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے))(2) (( اور تا کہ پیغمبروں کے بھیجنے کے بعد لوگوں کو خدا کے خلاف کوئی حجت میسر نہ ہو))(3) ارشاد خدائے تعالیٰ ہوتا ہے:((خدا کسی قوم کی ہدایت کرنے کے بعد گمراہ نہیں کیا کرتا،جب تک ان چیزوں کو واضح نہ کردے جن سے انھیں ڈ رنا ہے،اللہ تو ہر چیز سے واقف ہے))(4)

اسی طرح کے مضامین آیات کریمہ اور احادیث شریفہ سے مستفاد ہوتے ہیں جب اللہ یہ کہہ چکا ہے،خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور فرقے نہ بناؤ(5) اور یہ بھی ارشاد ہوا کہ((بیشک یہ میرا راستہ ہے جو بالکل سیدھا ہے،پس اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو،ورنہ تم خدا کے راستہ سے الگ ہوجاؤگے،اللہ اسی بات کی تم سے سفارش کرتا ہے تا کہ تم صاحب تقویٰ ہوجاؤ)) ۔(6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ اعراف آیت:179 (2)سورہ انفال آیت:42

(3)سورہ نسائ آیت:165

(4)سورہ توبہ آیت:115

(5)سورہ آل عمران آیت:103

(6)سورہ انعام آیت:153

۳۵۱

تو جب فرقہ بنانا اور اختلاف پیدا کرنا اتنا بڑا گناہ اور خطرناک عمل ہے تو کیا رفع اختلاف کے لئے یہ کافی ہے کہ حق کو مبہم چھوڑ دیا جائے کہ حبل متین کو شک کے تانے بانے میں الجھا دیا جائے یہ نہ بتایا جائے کہ حبل متین سے اعتصام کیسے ہوگا؟صراط مستقیم کیا ہے؟اور اس کی پیروی کرنے والوں کے لئے کیسے تحقق ہوگا؟سب کچھ تشنہ تفسیر رہے اور لوگوں کو اپنے طور پر اجتھاد کرنے کی کھلی چھوٹ مل جائے اس کے بعد پھر ہر فرقہ یہ دعویٰ کرنے لگے کہ حق تو فقط اسی کے پاس ہے اور دوسرے افراد باطل والے ہیں نہیں:بلکہ حق یہ ہے کہ خداوند عالم عادل اور کریم ہے،وہ کبھی نہیں چاہتا کہ اس کے بندے جہنم کے ایندھن بنیں،وہ یہ نہیں چاہتا کہ بندوں کے پاس جہالت کو رفع کرنے کے لئے واضح حجت نہ ہو اور قطعی عذر نہ ہو،خدا نہیں چاہتا ہے کہ حق کے بارے میں شک کی تھوڑی سی بھی گنجائش باقی رہ جائے اور نہ اتنا پیچیدہ ہوجائے کہ اصول کے بارے میں اجتھاد،تلاش،غور و فکر کی ضرورت محسوس کی جائے ۔

یہ تمام باتیں اس لئے عرض کررہا ہوں تا کہ آپ کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ جب لوگ حقیقت سے اختلاف کی کوشش کرتے ہیں اور حق کو شک کے گھیرے میں لیکر بحث و مناظرہ کرتے ہیں تو حق کے پاس اپنے ثبوت کے لئے بہت ہی محکم دلیلیں اورروشن نشانیاں ہوتی ہین جن سے انکار کی بنیاد صرف دشمنی یا سیاہ بختی ہی ہوسکتی ہے ۔

اس بات کی مزید تائید خداوند عالم کے اس قول سے ہوتی ہے ارشاد ہوا((ان کے جیسے نہ ہوجانا جو دلیلیں آنے کے بعد بھی فرقہ بن گئے اور اختلاف کر بیٹھے(1) اس لئے کہ اختلاف و فرقہ بندی سے روکنے کے لئے کافی دلیلیں موجود تھیں اگر وہ لوگ اس کی پیروی کرتے اور عمداً ان دلیلوں کو نظرانداز نہ کرتے تو حق تک بہرحال پہنچ سکتے تھے ۔

خود سرور کائنات ؑ نے ارشاد فرمایا کہ:میں نے تمہیں روشنی میں کھڑا کردیا ہے،اس(روشنی)میں لا کے چھوڑا ہے جس کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں،اس کے باجود بھی گمراہ نہیں ہوگا مگر وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ آل عمران آیت:105

۳۵۲

جس کے مقدر میں ہلاکت ہے ۔(1)

اس لئے کہ حق واضح اور روشن ہے اگر امت خلوص دل سے طلب کرنے کی کوشش کرے تو ہرگز محروم نہیں رہے گی،فتنہ پرور راتیں اور امتحان کے اندھرے شبہ کی تاریکیاں،حق پر پردہ نہیں ڈ ال سکتی ہیں اور حق کی علامتوں کو ضائع کرسکتی ہیں نہ اس کے آثار مٹاسکتی ہیں،بشرطیکہ چشم بینا اور گوش شنوا ہو ۔

اختلاف کا سب سے بڑا سبب ریاست طلبی ہے

حق تو یہ ہے کہ اختلاف اور فرقہ بندی کا سب سے بڑا سبب اقتدار و حکومت ہے،لوگوں پر حکومت کرنے کی خواہش اور انسانوں پر تسلّط حاصل کرنے کا جذبہ وہ ہے جس کی وجہ سے دعوت اصلاح دینے والوں کے درمیان اختلاف اور انتشار پیدا ہوتا ہے

1 ۔ ہر انسان میں فطری پر حکومت و اقتدار کی خواہش ہوتی ہے اور کبھی کبھی یہ جذبہ بہت شدید ہوجاتا ہے،نتیجہ میں انسان حکومت وقت سے اختلاف کر کے اپنا ایک الگ گروہ بنا لیتا ہے

2 ۔ حق بہرحال تلخ ہوتا ہے اور حق کی حکومت کو عام انسان برداشت کرنے میں مشکل محسوس کرتا ہے حالانکہ دعوت اصلاح کا پہلا اصول حکومت حقّہ کا قیام اور حق کا نفاذ ہے،ظاہر ہے کہ حق کو اکثریت برداشت نہیں کر پاتی اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند کردیتی ہے چونکہ اصول پرست افراد جو حکومت حقہ کے ذمہ دار ہوتے ہیں،وہ حرف بہ حرف قانون کے پابند ہوتے ہیں اور قانون کی پابندی کرنا چاہتے ہیں،یہ بات بھی عام لوگوں پر گراں گذرتی ہے ۔

اسی کی طرف عمر بن خطاب نے اشارہ کیا تھا،جب امر خلافت کے سلسلے میں ابن عباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مسند احمد ج: 4 ص: 126 ،تفسیر قرطبی ج: 7 ص: 138 ،مستدرک علی صحیحین ج: 1 ص: 175 ،السنۃ لابن ابی عاصم ج: 1 ص: 19 ،معجم الکبیر ج: 18 ص: 247 ۔ 257 ،مصباح الزجاجۃ ج: 1 ص: 5 ۔

۳۵۳

سے ان کی گفتگو ہورہی تھی تو عمر نے کہا تھا:خدا کی قسم اے ابن عباس!بے شک تمہارے چچازاد بھائی علی ؑ خلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں لیکن قریش ان کو برداشت نہیں کرپائیں گے،اس لئے کہ اگر انھیں حاکم بنادیا جائے تو وہ قریش کو حق کی تلخی کا مزہ چکھا کے رہیں گے،ان کی حکومت میں رخصت کی گنجائش نہیں ہوگی،نتیجہ میں لوگ ان کی بیعت توڑ دیں گے اور ان سے جنگ کرنا شروع کردیں گے ۔(1) امام جماعت ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس آدمی کے اندر امامت عامّہ کی بھی صلاحیت ہے ۔

اسلام میں پہلا اختلاف سلطنت ہی کے لئے ہوا اور یہ سب سے خطرناک اختلاف تھا

یہاں یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ سب سے بڑا اور سب سے پہلا اختلاف جو امت اسلامیہ میں پیدا ہوا وہ خلافت و امامت کے سلسلے میں ہوا اور مصیبت یہ ہے کہ جیسے ہی حضور اکرم ؐ کی وفات ہوئی اس عظیم اختلاف میں امت مبتلا ہوگئی ۔

امامت اور خلافت کے موضوع پر صدر اسلام میں اتنے فتنے پیدا ہوئے،وہ چیخ پکار مچی اور اتنا ہنگامہ ہوا کہ جو بیان کے لائق نہیں ہے،یہاں تک کہ مخالفین اسلام بھی مسلمانوں پر طعن و تشنیع کرنے لگے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔

لٰہذا ہمیں اس بات پر غور کرنا بہت ضروری ہے کہ جب امامت اسلام کا سب سے اختلافی مسئلہ ہے تو اللہ نے اسے تشنہ تفسیر نہیں چھوڑا ہوگا بلکہ اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اور اس میں گنجائش اختلاف ہونے کی وجہ سے اللہ نے سب سے زیادہ اسی کی وضاحت پر زور دیا ہوگا،اس مسئلہ کی شرعی حیثیت اور قانونی اہمیت کے پیش نظر اس کو سب سے زیادہ روشن،واضع صاف اور کھلا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ یعقوبی ج:2ص:159،عمر بن خطاب کے ایام میں

۳۵۴

ہوا ہونا چاہئے کہ یہ فتنہ انگیز راتوں میں بھی سورج کی طرح چمکتا ہوا نظر آئے تا کہ اتمام حجت کے بعد بھی اگر کوئی اختلاف کرے،روشن دلیلوں کے بعد بھی اگر کوئی ہٹ دھرمی سے کام لے،حجتوں کے غلبے کے باوجود اگر کوئی اختلاف پر اصرار کرے تو نگاہ اعتبار فوراً یہ فیصلہ کرلے کہ اس اختلاف کے نتیجہ میں مخالف کو صرف گمراہی،ہلاکت،ہمیشہ کا نقصان اور جہنم کا ٹھکانہ نصیب ہوگا ۔

اسلام،معرفتِ امام کو سختی سے واجب اور اس کی اطاعت فرض قرار دیتا ہے

مندرجہ بالا مضمون کی تائید میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جیسے((جو مرجائے اور اپنے امام وقت کو نہ پہچانے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے))یا((جو بغیر امام کے مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے))اسی طرح کی بہت سی حدیثیں جو سابقہ سوالوں کے چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکی ہیں ۔

ان احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ امام کو نہ پہنچاننے والا سخت سزا کا مستحق ہے،بلکہ ہلاکت کا حقدار ہے اور امام وقت کو امام تسلیم نہ کرنے سے اور اس کا یقین نہ رکھنے سے مخالف امام کے خلاف حجت واضحہ قائم ہوجاتی ہے،جس حجت سے نکلنانا ممکن ہے اور جہالت کا عذر ناقابل قبول ہے ۔

حاکم برحق کی مادی کمزوری یہ ہے کہ وہ قانون شرع میں رعایت نہیں کرتا

خصوصاً حاکم صالح کی اصول پسندی جس کی وجہ سے وہ نظام الٰہی کو چلانے کی ذمہ داری کا حامل ہوا،اس کو اجازت نہیں دیتی کہ حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے اور اپنی سلطنت کو چلانے کے لئے شریعت کے معاملے میں نرم پالیسی اختیار کرے اور سیاست سے کام لے اور یہی اس کی مادّی کمزوری ہے جسے اگر وہ دور کرنا چاہے تو اسے دین سے سودے بازی کرنی پڑے گی اور اس کے بدلے میں قانون الٰہی کو اس کی تمام وضاحتوں کے ساتھ چھوڑ دینا پڑے گا،دین کی سختی اور تیزی جس کے اوپر عمل کے مطابق وعد و وعید کا ترتب ہوتا ہے اسے چھوڑنی پڑے گی،لیکن اس کی اصول پسندی اس بات کو گوارہ

۳۵۵

نہیں کرے گی بلکہ وہ تو نفاذ قانون میں اتنا سخت ہوتا ہے کہ اہل دین تقویٰ اور اپنے خاص لوگوں کو بھی شریعت کے حدود سے آگے نہیں بڑھنے دیتا،اگر چہ وہ لوگ اس کی دعوت کا اعلان کرنا چاہتے ہیں اور حق سے متمسک بھی رہتے ہیں،لیکن وہ انھیں دین کی حدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتا،تا کہ ان کے ذریعہ وہ دوسروں پر حجت قائم کرے اور انہیں اہل دین کو ایک نمونہ بنا کے پیش کرسکے ۔

ناممکن ہے کہ نبیؐ نے امامت کی طرف صرف اشارے پر اکتفا کی ہو

اسی وجہ سے یہ بات عقل میں نہیں آتی اور عام آدمی اسے ناممکن سمجھتا ہے کہ نبی ؐ نے امر خلافت کی وضاحت کے لئے صرف تلمیحات،اشارات اور کنایات پر اکتفا کیا ہے،صورت مسئلہ کا تو تقاضا یہ ہے کہ یہاں بیان صریح ہونا چاہئے اور ایسی وضاحت ہونا چاہئے جس میں شک کی کوئی گنجائش اور اشتباہ کا کوئ شائبہ بھی نہ رہ جائے کہ اگر کوئی حد سے نکلے بھی تو محض اپنے عناد اور دشمنی کی وجہ سے یا پھر وہ ایسا جاہل ہو جس کی جہالت کا عذر ناقابل قبول ہو،آپ نے ابھی جو فرمایا کہ حادثہ صلواۃ میں امامتِ ابوبکر کی طرف اشارہ ملتا ہے تو آپ کو یہ جاننا چاہئے کہ مسئلہ امامت،اشارات و کنایات سے حل ہونے والا نہیں ہے،اس کے لئے تو واضح اور روشن دلیل چاہئے ۔

اسلام کے پاس ایسے نظام کا ہونا ضروری ہے جو خلافت کی تکمیل کرتا ہو!

5 ۔ پانچویں بات یہ ہے کہ امر خلافت اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بھی ہے اور سب سے زیادہ الجھا ہوا مسئلہ بھی ہے،یہ ناممکن ہے کہ نبی ؐ نے صرف ابوبکر کی امامت کی طرف اشارہ کو کافی سمجھا ہو یا کسی دوسرے شخص کی طرف اشارہ کردیا ہو،بلکہ کسی ایک شخص کو امام معیّن کرنا بھی کافی نہیں ہوگا چاہے کتنی ہی وضاحت کے ذریعہ معیّن کیا جائے ۔

یہاں تو ضرورت ایک ایسے نظام کام کی ہے،ایک ایسے پیمانے کی ہے کہ جو پیمانہ ہمیشہ ہمیشہ تک قائم رہے کہ جب بھی کوئی امام دنیا سے اٹھے دوسرے امام اسی اصول و ضوابط کے معیار پر معیّن

۳۵۶

ہوجائے یعنی ایک معیار ہونا چاہئے جس کے مطابق امام کی شناخت ہوسکے،نظام بھی ایسا ہو جو واضح دلیلوں اور روشن حجتوں کا حامل ہو جس سے مسلمان کسی بھی دور میں اختلاف نہ کرسکے اور جس کی مخالفت کے لئے کوئی عذر نہ پیش کرسکے،چونکہ اسلام رہتی دنیا تک باقی رہے گا اس لئے وہ نظام جس کے معیار پر خلیفہ کا تعّین ہوتا ہے،اسے بھی اتنا پائدار ہونا چاہئے کہ وہ رہتی دنیا تک قائم رہے ۔

آپ کے سابقہ سوالوں کے چوتھے سوال کے جواب میں یہ تمام باتیں عرض کی جاچکی ہیں،ظاہر ہے کہ انہیں دُہرانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے،جو حق کو پہچاننا چاہتا ہے،حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ ان عبارتوں کا مطالعہ کرے ۔

آپ کے سوالوں کا یہی جواب ممکن ہوسکا ہے،میں اللہ سے مدد اور توفیق،تسدید اور تائید کا سوال کرتا ہوں،وہی ہمارے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے ۔

۳۵۷
۳۵۸

سوال نمبر ۔ 7

کیا یہ صحیح ہے کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام ہی معاملات زندگی اور ضروریات دین کے علم سے مخصوص ہیں،دوسرے لوگ نہیں،جب کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ((آج میں نے تمہارے دین کو کامل کیا،تم پر نعمتیں تمام کیں اور میں تمہارے لئے دین اسلام سے راضی ہوا،(1)

جواب: ۔ اس سوال کے جواب میں چند باتیں عرض کی جارہی ہیں

ائمہؑ کا علم دین سے اختصاص اکمال دین کے منافی نہیں ہے

1 ۔ پہلی بات یہ کہ ائمہ ہدی علیہم السلام کا اختصاص بالعلم،اکمال دین کے منافی نہیں ہے اس لئے کہ اکمال دین کا مطلب ہے اس کے تمام احکام کی تشریع ہونا اور امت کے حق میں اسے صحیح قرار دینا،لیکن لوگوں تک اس دین کا پہنچنا اور اس کی تبلیغ معنائے اکمال سے خارج ہے،یہ تو ایک الحاقی مرحلہ ہے جو قانون بننے اور اس قانون کو صحیح قرار دینے کے بعد کی ضرورت ہے ۔

مثلاً ہمارے اس دور میں بھی قانون ساز اسمبلی یا کونسل قانون بناتی ہے اور تا امکان ایسے قوانین(جو ضروریات انسانی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کامل صلاحیت رکھتے ہیں)وضع کرتی ہے،پھر اس قانون کو می ڈ یا کے حوالے کرتی ہے تا کہ اس کا اعلان سرکاری جریدوں میں یا ری ڈ یو و غیرہ پر ہوجائے کیونکہ قانون بنانے کا فائدہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک قانون لوگوں تک پہنچا نہ دیا جائے تا کہ لوگ اس پر عمل کرنا شروع کردیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں،اب دین اسلام کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ مائدہ آیت 3

۳۵۹

طرف آئیں،اللہ نے اسلام کا قانون وضع کیا،لیکن صرف قانون وضع کردینے سے لوگوں کو کای فائدہ ہوا؟اس لئے لطف الٰہی کے قاعدہ کو تسلیم کرتے ہوئے فرقہ امامیہ کہتا ہے کہ اس کی حکمت اور لطف و کرم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پیغمبروں اور اماموں کو بھیجے،یہ ارسال(انبیا و ائمہ علیہم السلام کا خدا کی طرف بھیجا جانا)اس پر واجب ہے،لیکن یہ ایک دوسری بات ہے اس کا اکمال دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یعنی دین کا کامل ہونا اس کی تبلیغ پر موقوف نہیں ہے ۔

اتنا ہی بتا دینا کافی ہے کہ احکام دین کا مرجع کون ہے؟

لیکن اکمال دین کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امت کہ ہر فرد کو احکام دین سے واقف کرادیا جائے اور دین کا ہر فرعی حکم ان تک بلکہ ان میں سے ہر ایک تک پہنچا دیا جائے،بلکہ حصول علم کا امکان پیدا کردینا کافی ہے اور یہ امکان اس وقت بہرحال حاصل ہوجاتا ہے جب ائمہ ؑ کے بارے میں یہ مان لیا جاے کہ وہ اللہ سے علم حاصل کرتے ہیں اور ان کے پاس علم حاصل کرنے کا طریقہ اور ذریعہ موجود ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ امت پر امام نصب کیے گئے ہیں،انھیں اللہ نے حلال اور حرام کی دلیل بنایا ہے،تشریع و احکام کی معرفت کا مرجع قرار دیا ہے،انھیں کو امت کے اوپر حجت کافیہ بنایا ہے تا کہ امت دین کے معاملات میں ان کی طرف رجوع کرے اور ان سے دین کو سمجھے ۔

اسے یوں سمجھ لیجئے کہ دور نبی ؐ میں بھی امت کے تمام افراد تو دین کے قوانین اور اس کے تمام احکام سے واقف نہیں تھے،دین کے تمام احکام کا علم تو صرف نبی ؐ سے مخصوص تھا البتہ امت کے لئے یہ ممکن تھا کہ نبی ؐ کی طرف رجوع کرکے دین کے احکام و قوانین کو حاصل کرلے،اس لئے امت کو نبی ؐ کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا اور یہ کہ نبی ؐ سے دین حاصل کریں ۔

بلکہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جمہور اہل سنت کے نزدیک بھی عام مسلمان ہر دور میں احکام دین سے جاہل رہتا ہے وہ احکام جو کتاب و سنت میں بیان کردئے گئے ہیں اگر چہ سنت کے تعین میں اختلاف ہے،مگر بہرحال مسلمان ان احکام سے ناواقف رہتا ہے اور جب تک ان فقیہوں کی طرف

۳۶۰