فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 367
مشاہدے: 198828
ڈاؤنلوڈ: 5553


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 198828 / ڈاؤنلوڈ: 5553
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

رجوع نہیں کرتا جنہیں احکام دین میں دلیلوں کے ذریعہ صلاحیت استنباط حاصل ہے تو اسے دین کی معرفت نہیں ہو پاتی حالانکہ اس سے دین کے کامل ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔

اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ شیعوں کے نزدیک ائمہ اہل بیت ؑ ان فقیہوں سے زیادہ حقدار ہیں کہ امت ان کی طرف رجوع کرے،اس لئے کہ وہ معصوم عن الخطا ہیں اور ان پر بھروسہ کر کے امت کو کسی طرح کے نقصان کا امکان نہیں ہے جب کہ فقہا کی طرف رجوع کرنے سے بہت سے احکام میں امت نقصان اٹھاتی رہتی ہے،اس لئے کہ فقہا کا علم بہرحال ناقص ہے اور ان سے اکثر غلطیان سرزد ہوتی رہتی ہیں اور اختلاف ہوتا رہتا ہے،جیسا کہ ظاہر ہے ۔

البتہ اگر ائمہ اہل بیت علیہم السلام بھی(معاذ اللہ)علم دین کو(جو ان کے پاس ہے)چھپانا شروع کردیں اور اس کے افادہ میں امت کے ساتھ بخالت سے کام لیں تو چونکہ علم دین ان کے لئے مخصوص ہے اس لئے ایسی صورت میں امت نقصان سے دوچار ہوگی اور علم سے محروم رہ جائے گی ۔ لیکن یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ ائمہ اہل بیت ؑ نے افادہ علم میں کبھی کوتاہی نہیں کی اور طالبان علم سے کبھی اپنا علم نہیں چھپایا بلکہ وہ حضرات ؑ ہمیشہ امت کی رشد و ہدایت کے لئے تیار رہے اور ان کی خواہش رہی کہ امت کے اندر دین حقیقی کا طور و طریقہ اور مذہبی ماحول پیدا ہوسکے اس سلسلے میں دلیل کے طور پر مولائے کائنات ؑ کا وہ مشہور قول پیش کرتا ہوں کہ آپ نے فرمایا:مجھ سے جو پوچھنا چاہو پوچھ لو قبل اس کے کہ مجھے اپنے ہاتھوں سے کھودو!(1)

اور اسی طرح کا اعلان امام جعفر صادق ؑ نے بھی فرمایا جو آپ کے تیسرے سوال کے جواب میں تحریر کیا جاچکا ہے ۔

اب یہ الگ بات ہے کہ امت نے اپنے بادشاہوں اور سلاطین کے رعب و اثر میں آکے خود ہی ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے منھ موڑلیا،بلکہ ان پر زندگی تنگ کردی اور انہیں گوشہ نشین ہونے پر مجبور کردیا،نتیجہ میں امت ان کے خیر سے محروم رہی اور ان کے علوم و معارف سے فائدہ نہیں اٹھاسکی،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) اس کا مدرک گذشتہ سوال نمبر تین کے جواب میں گذرچکا ہے

۳۶۱

اس کے باوجود وہ حضرات اپنے پاکیزہ علم کو نشر کرتے رہے اور شیعہ ان سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ شیعوں کو ان کے علوم کا بہترین حصہ حاصل ہوا ۔

آپ کے تیسری سوال کے جواب میں یہ بات عرض کی جاچکی ہے ۔

جمہور اہل سنت کی روایتوں کے مطابق بھی بہت سے صحابہ علم میں ممتاز تھے

2 ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جمہور اہل سنت کا دعویٰ ہے کہ بہت سے صحابہ کو بعض علوم دینیہ میں خاص معرفت حاصل تھی اور شریعت کے کچھ احکام وہ انفرادی طور پر جانتے تھے،اہل سنت نے اس سلسلے میں حدیثیں بھی روایت کی ہیں ۔ مسروق سے روایت ہے کہ ہم عبداللہ بن عمر کے پاس بیٹھا کرتے تھے اور ان سے حدیثیں لیتے تھے مسروق کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک دن ابن نمیر بیٹھے تھے تو ہم نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا عبداللہ بن عمر نے کہا:تم نے ایسے شخص کو یاد کیا ہے کہ جب سے میں نے پیغمبر ؐ سے ان کے بارے میں ایک جملہ سنا ہے،اس وقت سے میں ان سےمحبت کرنے لگا ہوں حضور ؐ نے فرمایا کہ:قرآن کو چار افراد سے حاصل کرو!آپ نے ابن ام عبد کے نام سے ابتدا کی پھر فرمایا:معاذ بن جبل،ابی بن کعب اور ابوحذیفہ کے غلام سالم ۔(1)

(ابن ام عبد سے مراد عبداللہ بن مسعود ہیں)

ابن غنم کہتے ہیں کہ ہم نے ابوعبیدہ اور عبادہ ابن صامت سے سنا،جب ہم عبداللہ کے پاس بیٹھے تھے،وہ دونوں کہہ رہے تھے:معاذ بن جبل انبیا کے بعد اولین و آخرین میں سب سے بڑے عالم ہیں اور بیشک اللہ ان کے ذریعہ ملائکہ پر فخر کرتا ہے(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح مسلم ج: 3 ،ص: 1913 ،اور اسی طرح،ص: 1914 ،صحیح بخاری ج: 3 ،ص: 1372 ،ص: 1385 ،ج: 4 ص: 1912 ،المستدرک علیٰ صحیحین،ج: 3 ص: 250 ،سنن الترمذی،ج: 5 ص: 673 ،السنن الکبریٰ للنسائی،ج: 5 ص: 9 مسند احمد،ج: 2 ،ص: 189

( 2) المستدرک علیٰ صحیحین،ج: 3 ص: 304 ،سیر اعلام النبلاء،ج: 1 ص: 460 ،کشف الحثیث ج: 1 ،ص: 178 ،لسان المیزان ج: 4 ،ص: 118

۳۶۲

ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک دن عمر نے جابیہ میں خطبہ دیا اور کہا:اے لوگو!جو قرآن کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے وہ ابی ابن کعب کے پاس جائے،جو فرائض کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے وہ زید بن ثابت سے رجوع کرے،جو فقہ کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے وہ معاذ بن جبل کے پاس جائے،اور جو مال چاہتا ہے وہ میرے پاس آئے مجھے(عمر کے خیال کے مطابق)اللہ نے مال کا مالک اور اس کا تقسیم کرنے والا بنایا ہے ۔(1)

ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:عمر کے بارے میں یہ روایت صحیح ہے کہ انھوں نے کہا:جو فقہ چاہتا ہے وہ معاذ کے پاس جائے ۔(2)

یزید بن عمیر کہتے ہیں کہ جب معاذ ابن جبل مرنے لگے تو لوگوں نے ان سے کہا ابوعبدالرحمٰن ہمیں وصیت کرو،انھوں نے کہا مجھے بٹھادو،پھر بولے:علم اور ایمان کے مکانات ہیں جو انھیں تلاش کرے گا وہ حاصل کرلے گا یہ بات تین مرتبہ کہی،پس علم چار آدمیوں سے طلب کرو،عویمر ابودردا سے،سلمان فارسی سے،عبداللہ بن مسعود سے اور عبداللہ بن سلام سے،جو یہودی سے مسلمان ہوئے ہیں،میں نے پیغمبر ؐ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہ جنت میں داخل ہونے والے دس افراد میں دسویں ہیں ۔(3)

اب میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر ان لوگوں کے دعوائے اختصاص بالعلم پر آپ کو اعتراض کیوں نہیں ہے؟اور ائمہ اہل بیت ؑ کے بارے میں اعتراض کیوں ہے؟ ۔ ان لوگوں کا بعض علوم سے اختصاص کمال دین کے منافی کیوں نہیں ہے؟اور ائمہ اہل بیت ؑ کا اختصاص کمال دین کا منافی کیوں ہے؟جب کہ ائمہ اہل بیت ؑ کا علم ان کے جد امجد مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے میراث میں ملا ہے،وہ علی ؑ جن کے بارے میں سلونی کے دعویٰ کو آپ غلط نہیں کہہ سکتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع الزوائد ج:1ص:135،مستدرک علی صحیحین ج:3ص:306سنن کبری للبیھقی ج:6ص:210،سنن کبریٰ للنسائی ج:2ص:156،

(2)فتح الباری ج:7ص:126

(3)مستدرک علی صحیحین ج:3ص:304،صحیح ابن حبان ج:16ص:122،سنن کبریٰ للنسائی ج:5ص:70،مسند احمد ج:5ص:242

۳۶۳

وہ صحابہ کے علما اور ان کے سادات میں شمار ہوتے ہیں اگر آپ اہل بیتؑ کی ایک جماعت شیعوں کے اس دعوے کو قبول نہ کریں کہ علی صحابہ میں اعلم اور ان کے سردار ہیں۔

اہل سنت کو اہل بیتؑ کے ممتاز بالعلم ہونے کا اعتراف ہے

3۔ تیسری بات یہ ہے کہ صرف شیعہ ہی اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ ائمہ اہل بیتؑ علم میں امتیازی شان رکھتے ہیں،بلکہ اکثر اہل سنت بھی اس کے قائل ہیں۔ 1۔ پیغمبر کی مشہور حدیث ہے کہ علیؑ مسلمانوں میں اعلم یا صحابہ میں اعلم ہیں اور ان سب سے افضل ہیں))(1) اور سب سے بڑے قاضی ہیں۔ (2) -2۔ عبداللہ بن مسعود سے حدیث ہے کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا اور ہر حرف کا ظاہر اور باطل ہے اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی کو اس کے ظاہر و باطن کا علم ہے۔ (3)

3۔ ابن عباس کہتے ہیں علیؑ کے پاس ستّر ایسے عہد(مجموعہ علمی جسے رسول خداؐ نے عطا فرمایا تھا)ہیں جن میں سے ان کے غیر کو ایک بھی عہد حاصل نہیں ہے۔ (4)

4۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبیؐ نے علیؑ سے کہا کہ امت کے اختلاف کی میرے بعد تم ہی وضاحت کروگے(تمہارے ہی ذریعہ اختلاف ختم ہوگا)(5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مستدرک علی صحیحین ج:3ص:57،مجمع الزوائد ج:9ص:101۔102،فردوس بما ثور الخطاب ج:1ص:370،مسند احمد ج:5ص:26،معجم الکبیر ج:1ص:94،ج:20ص:229،المصنف لابن ابی شیبۃ ج:6ص:374۔371،المصنف لعبد الرزاق ج:5ص:490،الاحاد و المثانی ج:1ص:142،

(2)چھٹے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے

(3)تاریخ دمشق ج:42ص:400،فیض القدیر ج:3ص:46،حلیۃ الاولیاء ج:1ص:65،ینابیع المودۃ ج:1ص:215،ج:3ص:146

(4)تاریخ دمشق ج:42ص:391،السنۃ لابن ابی عاصم ج:2ص:564،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،مجمع الزوائد ج:9ص:113،معجم الصغیر ج:2ص:161،فیض القدیر ج:4ص:357،تھذیب التھذیب ج:1ص:173،تھذیب الکمال ج:2ص:311،ینابیع المودۃ ج:1ص:233،حلیۃ الاولیاء ج:1ص:68،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،

(5)چوتھے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے

۳۶۴

5 ۔ شافعی کہتے ہیں:علی ؑ نہ ہوتے تو باغیوں کے بارے میں حکم معلوم ہی نہ ہوتا ۔(1)

6 ۔ اور اب تمام باتوں سے اوپر امیرالمومنین ؑ کے بارے میں ایک قول مشہور اور متواتر ہے کہ آپ ؑ ہی شہر علم نبی ؐ کا در ہیں ۔(2)

نبی کی حکمت کے دروازہ ہیں ۔(3) علم نبی ؐ کے وارث ہیں،(4) علوم کے خزانہ ہیں،(5) خازن ہیں،(6) اور ظرف قابل ہیں ۔(7)

7 ۔ خود امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں کہ مجھے پیغمبر ؐ نے علم کے ہزار ابواب تعلیم فرمائے اور ہر باب سے مجھ پر علم کے ہزار باب کھلے ۔

اس حدیث کو جمہور اہل سنت نے روایت کیا ہے ۔(8)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صواعق محرقہ ص: 79

( 2) چھٹے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے،اور کتاب الغدیر میں بھی ہے ج: 6 ص: 61

( 3) سنن ترمذی ج: 5 ص: 637 ،حدیث خیثمہ ص: 200 ،حلیۃ الاولیاء ج: 1 ص: 64 فضائل الصحابہ ج: 2 ص: 31 ،تھذیب الاسماء ص: 319 ،علل ترمذی للقاضی ص: 375 ،فیض القدیر ج: 3 ص: 46 ،میزان الاعتدال ج: 5 ص: 53 ،ج: 6 ص: 31 ،ص: 279 ،المجروحین ج: 2 ص: 94 ،لسان المیزان ج: 4 ص: 144 ،ج: 5 ص: 19 ،الکامل فی الضعفاء الرجال ج: 5 ص: 177 ،الکشف الحثیث ص: 214 ،تھذیب الکمال ج: 21 ص: 277 ،تاریخ بغداد ج: 11 ص: 203 ،علل الدار قطنی ج: 3 ص: 247 ،سوالات البرذعی ص: 519 ،کشف الخفاء ج: 1 ص: 235 ،

( 4) چھٹے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے

( 5) تاریخ دمشق ج: 42 ص: 385 ،فیض القدیر ج: 4 ص: 356 ،میزان الاعتدال ج: 3 ص: 449 الکامل فی الضعفاء الرجال ج: 3 ص: 101 ،التدوین فی اخبار قزوین ج: 1 ص: 89 ،علل متناھیہ ج: 1 ص: 226 جامع الصغیر ج: 2 ص: 177 ،حدیث 5593 ،ینابیع المودۃ ج: 1 ص: 159 ۔ 389 ۔ 390 ،ج: 2 ص: 96 ۔ 77 ،مناقب للخوارزمی ص: 87 ،شرح نہج البلاغہ ج: 9 ص: 165

( 6) شرح نہج البلاغہ ج: 9 ص: 165 (7) کفایۃ الطالب ص: 167 ۔ 168 ،باب 37

( 8) کنزالعمال ج: 13 ص: 114 ۔ 115 ،حدیث: 36372 ،تاریخ دمشق ج: 42 ،ص: 385 ،سیر اعلام نبلاء ج: 8 ص: 24 ۔ 26 ،البدایۃ و النہایۃ،ج: 7 ص: 360 ،فتح الباری ج: 5 ص: 363 ،میزان الاعتدال ج: 2 ص: 401 ج: 4 ص: 174 ،الکامل فی الضعفاء ج: 2 ص: 450 ،کشف الحثیث ج: 1 ص: 160 ،المجروحین ج: 2 ص: 14 ،علل متناہیہ ج: 1 ص: 221 ،درر السمطین ص: 113 ،ینابیع المودۃ ج: 1 ص: 222 ۔ 231

۳۶۵

شیخ صدوق ؒ نے پانچ طریقوں سے امیرالمومنین ؑ سے روایت کیا ہے اور بیس سے زائد طریقوں سے آپ کی اولاد طاہرین میں سے ائمہ ؐ سے نقل کیا ہے،اس کے ساتھ ہی کچھ الفاظ بھی وارد کئے ہیں،جن سے اس مضمون کی تائید ہوتی ہے ۔(1)

بکیر کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے اس حدیث کی روایت کی ہے جس نے ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام سے یہ روایت سنی ہے پھر فرمایا:(ان ہزار ابواب میں سے)سوائے ایک باب کے،دوسروں کے لئے کوئی باب بھی نہیں کھلا صرف ایک باب یا دو باب اور جہاں تک میرا علم ساتھ دیتا ہے ایک ہی باب فرمایا تھا ۔(2)

ابوبصیر کی حدیث میں ہے کہ ان ابواب میں سے قیامت تک لوگوں کو صرف دو حرفوں کا علم حاصل ہوگا ۔(3)

یہ بھی مشہور ہے کہ عمر اور ابوبکر،خاص طور سے عمر پیچیدہ مسائل میں علی ؑ ہی کے در پر آتے تھے،ابھی چوتھے سوال کے جواب میں یہ بات گذرچکی ہے کہ ثاقب ابن شماس ابن قیس نے علی ؑ کی بیعت کے وقت کہا تھا کہ لوگوں سے نہ آپ کا مرتبہ پوشیدہ ہے نہ خود آپ سے آپ کا مرتبہ پوشیدہ ہے،آپ اپنی منزل سے خدا نخواستہ جاہل نہیں ہیں،لوگ جن باتوں کو نہیں جانتے ان کے لئے آپ کے محتاج ہیں اور آپ اپنے علم کی وجہ سے کسی کے محتاج نہیں ہیں ۔(4)

یہاں تک کہ خلیل ابن احمد فراہیدی سے علی ؑ کی امامت پر بھرپور دلیل مانگی گئی تو انھوں نے کہا:((احتیاج الکل الیہ و استغناء عن الکل))حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا ثبوت یہ ہے کہ سب علم میں علی ؑ کے محتاج ہیں اور علی سب سے بےنیاز ہیں(کسی کے محتاج نہیں)(5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الخصاص ص:164 (2)الخصاص ص:642۔252،

(2)الخصال ص:649

(4)تاریخ یعقوبی ج:2ص:179

(5)معجم رجال الحدیث ج:8ص:81،خلیل نحوی کی سوانح حیات

۳۶۶

تو علی ؑ کی معصوم اولاد یعنی ائمہ اہل بیت ؑ کو بھی علی ؑ کو بھی علی ؑ کا علم اسی طرح میراث میں ملا جس طرح علی ؑ کو علم پیغمبر ؐ میراث میں ملا ہے اور پیغمبر ؐ کو انبیائے ماسبق کا علم میراث میں ملا ہے،ائمہ ؑ علم علی ؑ کے وارث علی ؑ پیغمبر ؐ کے وارث اور پیغمبر ؐ علم انبیائے ماسلف کے وارث،اسی لئے شیعہ بھی علم دین کی روایت انھیں ائمہ اہل بیت ؑ سے نقل کرتے ہیں.

ائمہ اہل بیت ؑ کی برکت سے ہی شیعوں کا دینی ماحول اور ثقافت علمی پروان چڑھتی ہے ۔

آپ کے تیسرے سوال کے جواب میں بھی کچھ باتیں عرض کی گئیں جو یہاں پر نفع بخش ہیں ۔

والحمد لله رب العالمین

۳۶۷