توحید مفضل

توحید مفضل0%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علّامہ ملّا محمّد باقر مجلسی (رح)
زمرہ جات: صفحے: 175
مشاہدے: 121727
ڈاؤنلوڈ: 5530

توحید مفضل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121727 / ڈاؤنلوڈ: 5530
سائز سائز سائز

کرتی ہیں۔ اگر اس قسم کی آفات و بلیات ختم ہوجائیں تو لوگ سرکشی، معصیت، اور غلو میں غرق ہوکر رہ جائیں گے، جیسا کہ پہلے زمانہ میں ہو اکہ انہیں طوفان کے ذریعہ ہلاک کرکے زمین کو ان کے وجود سے پاک کیا گیا، ایک چیز اور کہ جس کا لوگ انکار کرتے ہیں ، وہ موت و فنا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بشر ہمیشہ دنیا میں رہتا اور کسی بھی قسم کی آفت و بلاء میں گرفتار نہ ہوتا، اور آخر تک اسی حالت پر باقی رہتا۔

تو اس بات کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر کوئی دنیامیں آتا اور ہمیشہ باقی رہتا اور نہ مرتا تو کیا زمین خدا کی مخلوق پر تنگ نہ ہوجاتی؟ اور انکے رہنے کے لئے کوئی جگہ میسر نہ ہوتی، اور کاروبار اور زراعت وغیرہ ختم ہوکر رہ جاتی کیا تم لوگوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ اس بات کو جانتے ہیں ، اوریقین رکھتے ہیں کہ انہیں تدریجاً فنا اور موت سے ہم کنار ہونا ہے اس کے باوجود وہ مسکن اور زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اسی کش مکش میں آپس میں جنگ چھڑ جاتی ہے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوجاتا ہے ، تو پھر اس وقت انسانوں کی کیا حالت و کیفیت ہوتی جبکہ وہ موت و فنا سے بری ہوتے، حرص ، آرزو و طمع اور مختلف فسادات ان پر غلبہ کرلیتے کہ جب یہ اس بات کا یقین کرلیتے کہ ان کے لئے موت و فنا نہیں ، ایسی صورت میں کوئی بھی حاصل شدہ اشیاء پر قانع نہ ہوتا اور کوئی بھی اپنی مصیبت اور رنج و الم سے نجات نہ پاتا ، اس لئے کہ موت و فناء نہیں، اس کے علاوہ ایسا شخص زندگی کا مارا ہوجاتا اور دنیا کی ہرچیز سے تنگ آجاتا، جیسا کہ وہ شخص زندگی سے تنگ آجاتا ہے۔کہ جس کی عمر حیات طولانی ہو، تو وہ موت کی آرزو کرتا ہے تاکہ دنیا کی مصیبتوں سے راحت و آرام پائے، اب اگر کوئی یہ کہے کہ خدا کو چاہیے کہ وہ اپنے بندوں سے ہر قسم کے مرض و مصیبت کو برطرف کردے، تاکہ وہ موت کی آرزو نہ کرے اوراس کا مشتاق نہ ہو، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر ایسا ہوجائے تو لوگ سرکشی اور شرارت کی طرف کھینچے چلے جائیں گے جس سے

۱۶۱

انکی دنیا اور دین دونوں برباد ہوجائیں گے اور اب اگر کوئی یہ کہے کہ انسانوں کے درمیان تناسل و تولد کا سلسلہ نہ ہوتا ،تاکہ لوگ اپنی کثرت و زیادتی کی وجہ سے مسکن ومعیشت کیلئے پریشان نہ ہوتے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں دوسری صدی کے لوگ نعمت حیات، نعمت دنیاوی و أخروی اور اُن چیزوں سے جو خداوند متعال نے اپنے بندوں کو دیں ہیں ، محروم رہ جاتے ایسی صورت میں ایک صدی سے زیادہ صدی وجود میں نہ آتی ، اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا ہی اچھا تھا کہ سب لوگ ایک دفعہ خلق ہوجاتے اور پھر بعد میں کوئی خلق نہ ہوتا؟ تو اس کے جواب کے لئے ہم پھر دوبارہ اپنے پہلے والے سوال کے جواب کو دہرائینگے، کہ اگر ایسا ہوتا تو اس سے معیشت و مسکن کی تنگی واقع ہوجاتی اور اسکے علاوہ اگر سب ایک ہی ساتھ خلق ہوجاتے اور ان میں تناسل و تولد کا سلسلہ نہ ہوتا تو وہ محبت و اُنسیت جو لوگوں میں اس وقت دیکھائی دیتی ہے باقی نہ رہتی اور نہ ہی وہ ایک دوسرے سے پریشانی ومجبوری میں مدد مانگ سکتے تھے اور وہ لذت و خوشی جو تربیت اولاد سے حاصل ہوتی ہے سب ختم ہوجاتی لہٰذا یہ جواب اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو بھی فکروں میں آتا ہے ، وہ اس کے علاوہ ہے کہ جس میں تدبیر ہے اور وہ سب خطا ہے۔

( خالق و مبدأ جہاں پر طعنہ زنی کرنے والے لوگ کیا کہتے ہیں )

شاید اب کوئی دوسری جہت سے خالق دوجہان کی تدبیر پر طعنہ زنی کرے اور کہے کہ یہ کس قسم کی تدبیر ہے کہ جو عالم کے اندر دیکھنے میں آتی ہے اور وہ یہ کہ جو بھی قدرت مند و قوی ہے وہ بہت زیادہ ظلم کرتاہے اور وہ لوگ جو ضعیف و کمزورہیں وہی ذلیل و خوار ہوتے ہیں ، نیک اور اچھے لوگ مصیبتوں میں مبتلاء ہوتے ہیں ، جبکہ فاجر و فاسق چین و سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں، اور اگر کوئی برا کام کرتا ہے تو اُس پر جلد ہی عذاب نازل بھی نہیں ہوتا ،لہٰذا یہ بات تدبیر کے نہ ہونے پر دلیل ہے اس لئے اگر

۱۶۲

تدبیر شامل حال ہوتی تو مسلماً تمام کام ایک اندازہ کے تحت انجام پاتے کہ جس کے نتیجے میں وہ لوگ جو صالح اور نیک ہیں اپنی روزی وسعت کے ساتھ پاتے اور ظالم افراد اس سے محروم رہ جاتے اور کوئی قوی و طاقتور کسی کمزور اور ضعیف پر ہرگز ظلم نہ کرتا اور وہ شخص جو برے کام انجام دیتا، جلد ہی اپنے برے انجام کو پہنچ جاتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ نظریہ درست ہو اور اسے عملی جامہ پہنا دیا جائے، تو وہ فضیلت جو خداوند عالم نے انسان کو تمام حیوانات پر عطا کی ختم ہوجاتی، اس کے علاوہ یہ کہ وہ امید بھی محو ہوجاتی کہ انسان اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ نیک اور اچھے اعمال انجام دے گا تاکہ آخرت میں اس کے اجر وثواب سے بہرہ مند ہو کہ جس کا خداوند متعال نے اس سے وعدہ کیا ہے۔ تو گویا انسان بھی چوپاؤں کی طرح ہوکر رہ جاتا کہ جو عصاء کے خوف اور گھاس کی طلب میں کام کو صحیح طور پر انجام دیتے ہیں پس انسان کسی بھی کام کو آخرت کے عقاب یا ثواب کی خاطر انجام نہ دیتا پس یہی معنی بشر کو انسانیت سے نکال کر حیوانیت کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں کہ وہ اپنے اردگرد کی چیزوں کے بارے میں فکر مند نہ ہوتا اور کسی بھی کام کو بغیر کسی حاضر یا نقدی چیز کے علاوہ بجا نہ لاتا پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ صالح اور نیک افراد کسی کام کو اس لئے انجام دیتے تاکہ ان کی روزی میں وسعت ہو، اور اگر کوئی برائیوں اور گناہوں سے بچتا تو فقط اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس پر عذاب الٰہی نازل ہوجائے ، نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگوں کے تمام کام حاضر اور نقدی چیزوں کے لئے ہوتے، ایسی صورت میں قیامت پر یقین ثابت نہ ہوتا اور لوگ ہرگز آخرت کے ثواب اور اسکی نعمتوں کے مستحق نہ ہوتے اب وہ شخص جو طعنہ زنی کرتے ہوئے جن امور کا ذکر کرتا ہے (جیسے ۔توانگری وفقیری ، موت وحیات، سلامتی وگرفتاری) یہ سب اس کے خیال وقیاس اور اندازے کے خلاف ہیں تو اسکی یہ فکر خطا ہے جبکہ بعض اوقات تم مشاہدہ کروگے، کہ اس کے قیاس و قاعدہ کے مطابق ، نیکو کار و صالح افراد خوشحال و خوشگوار زندگی بسر کرتے ہیں ایسا اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے درمیان یہ خیال پیدا

۱۶۳

ہوجائے کہ فقط کفار ہی دولت مند ہیں اور صالح و نیک افراد ہمیشہ فقیری اورغربت کی زندگی گذارتے ہیں اور یہ خیال انہیں اس بات پر مجبور کرتا کہ وہ غلط راستے کو صحیح پر ترجیح دیں، اور اسی طرح تم بہت سے فاسقوں کو دیکھو گے کہ جب ان کا ظلم اور سرکشی حد سے بڑھ جائے اور لوگ کسی بھی صورت ان کے شر سے محفوظ نہ ہوں تو ان پر جلدی ہی عذاب الٰہی نازل ہوجاتا ہے چنانچہ ''فرعون'' دریا میں غرق ہوگیا ''بخت نصر'' کو حیرانی و سرگردانی میں ہلاک کردیا ''بلبیس'' کو قتل کردیا گیا۔

اگر بہت سے ظالموں کے عذاب ہونے میں تاخیر ہو، یا اسی طرح نیک اور اچھے لوگوں کے اجروثواب میں دیر ہو تو یہ بعض ایسی وجوہات کی بناء پر ہے کہ جسے بندے نہیں جانتے اور یہ موارد کسی بھی صورت تدبیر کے نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتے جیسا کہ بادشاہ وغیرہ بھی اس قسم کے کام کرتے ہیںاور کوئی بھی ان کے کاموں کو تدبیر سے خالی نہیں کہتا بلکہ اس کی تاخیر اور عجلت کو حسن تدبیر سے تعبیر کیا جاتا ہے تمام چیزوں کا قواعد و ضوابط کے تحت انجام پانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا بنانے والا حکیم ہے۔ اور کوئی بھی چیز اس کی تدبیر کے سامنے رُکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس لیے کہ کسی بھی خالق کو اپنی مخلوق کے مہمل چھوڑنے کی تین وجوہات میں سے کوئی ایک ہوسکتی ہے۔(1)عاجز (2)جاہل (3)شریر۔ اور یہ سب باتیں خداوند متعال کی ذات میں محال ہیں ، اس لئے کہ کوئی بھی عاجز اس قسم کی عجیب و غریب مخلوق خلق نہیں کرسکتا، اور جاہل کے پاس تدبیر نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی، جبکہ کائنات میں کوئی بھی چیز تدبیر و حکمت سے خالی دکھائی نہیں دیتی ۔ اور شریر کبھی بھی اپنی مخلوق پر احسان نہیں کرتا ، اور نہ اس کے لئے بھلائی چاہتا ہے ، خالق پر واجب ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو تدبیر کے ساتھ پیدا کرے اگرچہ وہ تدبیر اسکی مخلوق سے پوشیدہ ہو جیسا کہ بادشاہ کے بہت سے کاموں کے علل و اسباب اسکی رعایا نہیں جانتی کیونکہ وہ بادشاہ کے امور میں کسی قسم کا کوئی دخل نہیں رکھتی، کہ وہ جانے کہ اس کے اس کام میں کیا راز پوشیدہ ہے لیکن جب وہ کسی کام کی علت جان لیتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر

۱۶۴

کام بہتر انداز سے انجام پایاہے۔ ملوک کے بعض اعمال کی مدد سے ملک الملوک کے اعمال پر استدلال کیا جاتا ہے۔

اگر تم کچھ دواؤں یا غذاؤں کے بارے میں یہ خیال کرو کہ ان میں سے ہر ایک اپنے لئے کچھ نا کچھ خاصیتیں رکھتی ہے اور پھر تمہیں دو تین راہوں سے یہ بات پتہ چل جائے کہ انکا مزاج گرم یا سرد ہے تو کیا تم فقط اس مقدار کو جاننے کے بعد یہ حکم نہیں لگا سکتے کہ یہ گرم یا سرد مزاج رکھتی ہے (یقینا تم ایسا کروگے) اور س کے بعد تم اپنے خیال کو اس یقین میں بدل دو گے یہ دوائیں اور غذائیں سرد اور گرم مزاج رکھتی ہیں تو جب دو، تین گواہوں اور شواہد کے بعد انسان کسی چیز پر یقین کر لیتا ہے تو پھرکس طرح اُس ذات کو جھٹلاتاہے جس کے وجو د پر اس قدر شواہد و گواہ موجود ہیں کہ جن کوشمار نہیں کیا جاسکتا، کیا وہ ان شواہد کا مشاہدہ نہیں کرتے؟! اگر ان لوگوں کو فقط نصف عالم کی وجوہات کے بارے میں معلومات نہ ہوتی، تو تب بھی یہ فیصلہ کرنا کہ عالم اتفاق کا نتیجہ ہے ، عدل و انصاف سے خالی ہوتا اس لئے کہ دوسری نصف مخلوق میں تو حسن تدبیر کے وہ عظیم اور ظاہری دلائل موجو دہیں کہ جو انہیں اس قسم کے فکر سے روکتے ہیں کہ محض عجلت میں عالم کو اتفاق کا نتیجہ کہا جائے، جب کہ وہ کائنات کی جس چیز کے بارے میں بھی تحقیق و تجربہ کرتے ہیں تو وہ اس میں حسن تدبیر و حسن کمال پاتے ہیں۔

( عالم کا نام یونانی زبان میں )

اے مفضل جان لو کہ اہل یونان کے درمیان عالم کا نام ''قوسموس'' مشہور ہے کہ جس کا مطلب زینت و خوبصورتی ہے اور حکماء اور فلاسفہ نے بھی اس عالم کو اس قسم کے ناموں سے یاد کیا ہے ، کیا یہ بات اس چیز پر دلالت نہیں کرتی کہ انہوں نے اس عالم میں تدبیر و نظام کے علاوہ دوسری کوئی چیز نہیں دیکھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عالم کوا س قسم کے ناموں سے یاد کیا ہے یہاں تک کہ وہ اس بات پر بھی

۱۶۵

راضی نہ تھے کہ وہ عالم کا نام نظام اور اندازہ رکھیں، بلکہ انہوں نے اس کا نام زینت رکھا تاکہ وہ یہ بتاسکیں کہ عالم کی ہرچیز کے اندر حسن تدبیر و استحکام اور زیبائی موجود ہے۔

( تعجب اس قوم پر جو حکمت پر یقین رکھ کر حکیم کو جھٹلاتی ہے )

اے مفضل۔ ذرا تعجب کرواُس قوم پر کہ جو حکمت کو خطا نہیں کہتی مگر حکیم کو جھٹلاتی ہے، اور اس کائنات کو محض اتفاقات کا نتیجہ کہتی ہے ، جب کہ وہ اس میں کوئی مہمل چیز نہیں دیکھتی اور تعجب کرو کہ جو حکمت کا دعویدار ہے اوروہ اُس حکمت کو جھٹلاتا ہے جو اس عالم میں جاری ہے اور اپنی تند وتیز زبان کو خالق دوجہاں کے بارے میں دراز کرتا ہے، اور تعجب تو بدبخت فرقہ مانویہ پر ہے کہ جو علم اسرار کے جاننے کا دعویدار ہے مگر وہ اُن دلائل حکمت کو مخلوق میں دیکھنے سے اندھا ہے کہ جو مخلوق میں مشاہدہ کئے جاتے ہیں اوراپنے جہل و نادانی کی وجہ سے مخلوق اور خالق کی طرف خطا کی نسبت دیتا ہے جس کی ذات حکیم و کریم اور بلند و بالا ہے۔

( عقل اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتی )

( اے مفضل) ان سب میں سب سے زیادہ تعجب فرقہ معطلہ پر ہے ، جو اس چیز کا دعویدار ہے کہ جس چیز کو عقل درک نہیں کرسکتی اُسے حس سے درک ہونا چاہیے اورکیونکہ یہ چیز خداوندعالم کے بارے میں امکان پذیر نہیں لہٰذا وہ اسی چیز کو دلیل بناکر اپنے خالق کا انکار کر بیٹھتا ہے اور اُس کی طرف جھوٹی نسبت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر خالق وجود رکھتا ہے تو وہ عقل سے درک کیوں نہیں ہوتا؟ تو اسکے جواب میں کہا جائے گا کہ خالق دوجہاں عقل سے بھی بلند وبرتر ہے لہٰذا عقل اُسے درک کرنے سے قاصر

۱۶۶

وعاجز ہے ، جیسا کہ وہ چیز جو آنکھوں سے زیادہ بلند مرتبہ رکھتی ہے ، آنکھوں سے درک نہیں ہوسکتی جیسا کہ جب تم کسی پتھر کو ہوا میں بلند دیکھتے ہو تو فوراً جان لیتے ہو کہ اُسے کوئی اُچھال رہا ہے ، اور تمہارا یہ جان لینا آنکھوں کے ذریعہ نہیں بلکہ عقل کے ذریعہ ہے ، اس لئے کہ اس قسم کے فیصلے عقل کرتی ہے اور وہ اس بات کو جانتی ہے کہ پتھر خودبخود ہوا میں بلند نہیں ہوسکتا ۔ توتم نے دیکھا کہ آنکھ کس طرح اپنی حد سے تجاوز نہ کرسکی، بالکل اسی طرح عقل بھی اپنی حد پر ٹھہر جاتی ہے اور ہرگز اس سے تجاوز نہیں کرتی ، اس کے باوجود وہ جانتی ہے کہ ایک صانع ہے کہ جس نے اُسے بنایا ہے لیکن وہ اس کی ذات وصفات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے اور اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ تو پھر یہ ضعیف انسان اپنی عقل لطیف کے ذریعہ کس طرح مکلف ہے کہ وہ خداوندمتعال کو جانے ، جب کہ اسکی عقل اسکا احاطہ کرنے سے قاصروعاجز ہے؟ تو اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ بندگان کو اس قدر مکلف بنایا ہے کہ جتنی وہ طاقت رکھتے ہیں اور ان کی طاقت یہ ہے کہ وہ اس کے وجود پر یقین رکھیں، اور اس کے أمرونہی کے پابندرہیں کبھی بھی خداوند عالم نے بندوں کو اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا کہ وہ جانیں کہ اسکی ذات و صفات کی حقیقت کیا ہے ، جس طرح سے کوئی بھی بادشاہ اپنی رعایا کو اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا کہ وہ جانے کہ انکا بادشاہ بلند قامت کا ہے یا کوتاہ، سفید ہے یا گندمی ، بلکہ وہ انہیں اس بات کا مکلف بناتا ہے کہ وہ اسکی سلطنت کا اقرار کریں اور اسکے فرمان کے آگے اپنی گردنوں کو جھکائے رکھیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی بادشاہ کے دربار میں جاکر یہ کہے کہ جب تک تم اپنے آپ کو میرے حوالے نہ کروگے، کہ میں اچھی طرح تمہیں جان لو، تو میں اس وقت تک تمہاری اطاعت نہ کرونگا تو اس شخص نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو عقوبت اور خطرہ میں ڈال دیا، پس اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ میں اس وقت تک اپنے خالق کی اطاعت نہ کروں گا جب تک کہ اچھی طرح اس کی حقیقت اور اس کا کامل احاطہ نہ کرلوں ، تویقینا اُس نے اپنے آپ کو معرض غضب الٰہی قراردیا، اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا بعض دفعہ

۱۶۷

اسکی تعریف و توصیف بیان نہیں کی جاتی ،اور نہیں کہا جاتا کہ وہ عزیز ہے ، حکیم و جوادوکریم ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ تمام صفتیں اسکا اقرار ہیں نہ یہ کہ اس کا احاطہ اور درک حقیقت ، اس لئے کہ ہم کہتے ہیں کہ وہ حکیم ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس کے حکیم ہونے کی حقیقت کیا ہے اور اسی طرح دوسری تمام صفتیں ، اسکی مثال ایسی ہے کہ ہم آسمان کو تو دیکھتے ہیں ، لیکن اس بات سے ابھی تک آگاہ نہیں ہوئے کہ وہ کس مادہ کا بنا ہے، دریا، دیکھتے ہیں مگر یہ نہیں معلوم کہ اس کی انتہاء کہاں ہے، تو پس اس خداوندعالم کا امر تو ان تمام چیزوں سے بھی بلند و بالا ہے کہ جس کے لئے کوئی انتہاء نہیں ، اس لئے کہ مثال کیسی بھی ہو، اس کے امر کے مقابلے میں کوتاہ ہے ،لیکن عقل اس کی معرفت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

( خدا کے بارے میں اس قدر اختلاف کیوں؟ )

( اے مفضل) اب اگر کوئی یہ کہے کہ خدا کے بارے میں اس قدر اختلاف کیوں ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کے بارے میں اختلاف لوگوں کے کم عقل ہونے پر دلیل ہے کہ ان میں سے بعض نے یہ چاہا کہ وہ اسکی معرفت حاصل کرنے کے لئے اور اسکی ذات و صفات کے احاطہ کے لئے اپنی حد سے تجاوز کریں ، جب کہ اوہام ا س کام سے عاجز ہیں بلکہ وہ اس سے بھی چھوٹی چیز کو سمجھنے سے قاصر ہیں جیسے سورج کہ جو تمام عالم پر تابانی کرتا ہے، مگر کوئی بھی اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا، اس بات کی دلیل اسکے بارے میں مختلف اقوال ہیں ، فلسفیوںنے اسکے بارے میں مختلف نظریے پیش کئے ہیں ، بعض نے کہا کہ وہ ایک ستارہ ہے ، اور آگ سے بھرا ہوا ہے، اور یہ اپنے لئے منھ رکھتا ہے کہ جس کے ذریعہ حرارت و شعاعیں ہم تک پہنچتی ہیں۔ بعض نے کہا کہ وہ ایک أبر ہے، بعض نے کہا کہ وہ ایک شفاف جسم ہے ، شیشہ کی مانند جو عالم سے حرارت کو جذب کرنے کے بعد اپنی

۱۶۸

شعاعوں کو عالم کی طرف ارسال کرتا ہے ، بعض نے کہا کہ وہ ایک لطیف و صاف چیز ہے کہ جو دریا کے پانی سے بنا ہے ، بعض نے کہا کہ وہ آگ کے ذرات ہیں جو ایک جگہ جمع ہوگئے ہیں ،ا ور بعض نے کہا کہ وہ چار عنصروں کے علاوہ پانچواں عنصر ہے، اس کے علاوہ اس کی شکل میں بھی اختلاف ہے، بعض نے کہا کہ وہ ایک صفحہ کی مانند پھیلا ہوا ہے، اور بعض نے کہا کہ وہ گیند کی مانند ہے کہ جو حالت گردش میں ہے، اور اسی طرح اسکی مقدار اور اسکے وزن میں بھی اختلاف ہے ، بعض نے کہا کہ وہ زمین کے برابر ہے، بعض نے کہا کہ وہ زمین سے چھوٹا ہے، بعض نے کہا کہ وہ بزرگ ترین جزیروں میں سے ایک جزیرہ ہے، ریاضی دان لوگوں نے کہا کہ وہ ایک سو ستر برابر زمین کے ہے ۔ پس یہی اختلاف اس بات پر دلیل ہے کہ وہ سورج کی حقیقت سے واقف نہیں ہوئے، وہ سورج جو آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے، اور حس جسے درک کرتی ہے لیکن عقول اسکی حقیقت کو پانے سے قاصر وعاجز دکھائی دیتی ہیں تو اب ذرا بتاؤ کہ پھر کس طرح عقول اُس ذات مقدس کو در ک کرلیں کہ جو احساسات کے ادراک سے بھی باہر ہے اور لطیف و پوشیدہ ہے، اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ وہ پوشیدہ کیوں ہے؟ تو اسکے جواب میں کہا جائے گا کہ خداوندمتعال نے اپنی حکمت و تدبیر سے خود کو پوشیدہ کر رکھا ہے جیسا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو پردہ یا دروازہ کے پیچھے پوشیدہ کرلے، یہ جو کہا جاتا ہے کہ خداوندعالم پوشیدہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند عالم اس قدر لطیف ہے کہ عقل و فہم میں نہیں آتا، اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ لطیف و برتر کیوں ہے؟ تو یہ کہنا تو خودبخود غلط ہے ، اس لئے کہ وہ ذات جو سب کی خالق ہے ، اس کے لئے ضروری و لازم ہے کہ وہ ہر چیز سے جدا اور ہرچیز سے برترہو، وہ منزہ وپاک وپاکیزہ ہے، اور اگر کوئی یہ کہے کہ یہ کیسے معقول ہے کہ وہ ہر چیز سے جدا اور ہرچیز سے برتر ہو، تو انہیں جواب دیا جائے گا کہ کسی بھی چیز کی اطلاع ومعرفت کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں ۔ (1)یہ جانا جائے کہ اس چیز کا وجود ہے یا نہیں ۔ (2)یہ جانا جائے کہ اس کا جوہر ومادہ کیا ہے۔ (3)یہ جانا جائے کہ اسکی کیفیت و صفت کیا

۱۶۹

ہے۔ (4)وہ کس علت کے تحت وجود میں آیا، اور اس کا سبب کیا ہے ۔ لیکن ان چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے ذریعہ بھی مخلوق اپنے خالق کی حقیقت کو نہیں پہچان سکتی فقط یہ کہ وہ جانے کے وہ موجود ہے، لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ وہ کیسا ہے اور کیا ہے؟ تو یہ وہ منزل ہے کہ جہاں پہنچنا ناممکن ومحال ہے ، کہ اسکی ذات کی حقیقت کو پالیا جائے ، یا یہ کہ اسکی معرفت میں کمال پیدا کرلیا جائے، اور اگر کہا جائے کہ وہ کیوں موجود ہے؟ اور اسکی علت کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ دونوں چیز خداوندمتعال کی ذات سے ساقط ہیں اس لئے کہ خداوندعالم ہرچیز کی علت ہے، مگر کائنات کی کوئی چیز اس کی علت نہیں ،اور پھر یہ کہ انسان کا یہ جاننا کہ وہ موجود ہے، اس بات کا موجب نہیں بنتا وہ جانے کہ وہ کیسا ہے ، جیسا کہ اس کے خود اپنے نفس کو جاننا کہ وہ موجود ہے اس بات کا موجب نہیں بنتا ، کہ وہ جانے کہ وہ کیسا ہے، اور اسی طرح دوسرے لطیف اور معنوی امور، اب اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے اپنے کوتاہ علم کی روشنی میں جس لحاظ سے خداوند متعال کی وصف و تعریف بیان کی ہے اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ وہ کسی بھی طریقہ سے پہچانا نہیں جاسکتا، تو جواب میں کہا جائے گا کہ یقینا فقط وہاں تک جہاں تک کہ عقل کی رسائی ممکن ہو، اور اسکا احاطہ کرنے کی کوشش کرے، لیکن دوسری جہت سے وہ ہم سب سے بہت نزدیک اور اس کے آثار تمام چیزوں سے زیادہ روشن ہیں وہ اس قدر واضح ہے کہ کسی بھی چیز سے پوشیدہ نہیں اور دوسری جہت سے وہ اس قدر لطیف ہے کہ کوئی بھی اُسے درک نہیں کرسکتا، جس طرح سے عقل کہ اس کے دلائل تو ظاہر ہیں ، مگر اس کی ذات پوشیدہ ہے۔

۱۷۰

( طبیعت حکم خدا کے تحت )

اور اب دہریوں کے اس سوال کا جواب جو یہ کہتے ہیں کہ طبیعت وہ کام جو بے معنی ہوں انجام نہیں دیتی، اور نہ ہی وہ کسی بھی چیز کے مقابلے میں اپنی حد سے تجاوز کرتی ہے اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے اس عقیدہ کی دلیل حکمت ہے تو ان سے کہا جائے گا کہ وہ کون ہے جس نے طبیعت کو یہ حکمت عطا کی کہ کوئی بھی چیز اپنی حدود سے تجاوز نہ کرے۔ اور یہ وہ چیز ہے کہ جس تک عقل انسان طویل تجربوں کے بعد بھی نہیں پہنچ سکتی اگر وہ کہیں کہ طبیعت ان کاموںکو خود اپنی حکمت اور قدرت سے انجام دیتی ہے تو درحقیقت وہ اس صورت میں اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ جس چیز کا وہ انکار کرچکے ہیں، اس لئے کہ بالکل یہی صفات خالق ہیں، اور اگر وہ اس بات کا انکار کریں تو ایسی صورت میں کائنات کا ہر ذرہ ایک آواز ہو کر یہ صدا بلند کریگا، کہ یہ تمام امور خالق حکیم کی طرف سے ہیں۔

( انسان کا ناقص الخلقت ہونا اس کے اتفاقاً پیدا ہونے پر دلیل نہیں )

گذشتہ زمانے میں بعض افراد اشیاء میں کار فرما قصد و ارادہ اور تدبیر کے منکرتھے، اور وہ خیال کرتے تھے کہ تمام چیزیں محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں اور انکی دلیل وہ آفتیں تھیں کہ جو زمانے میں رونما ہوتی ہیں ، مثلاً انسان کا ناقص الخلقت پیدا ہونا، انگلیوں کا زیادہ ہونا، بدشکل و بدقیافہ ہوناوغیرہ وہ لوگ ان تمام باتوں کو دلیل بنا کراس بات پر متفق تھے کہ یہ تمام چیزیں بغیر قصد و ارادہ اور تدبیر سے وجود میں آتی ہیں ۔ حکیم ارسطو ، انکے کلام کو اس طرح رد کرتا ہے کہ جو چیز اتفاق سے وجود میں آتی ہے وہ ہر لحاظ سے نقصان میں ہے ،کائنات میں حادثات رونما ہونے کا سبب ایک ایسی چیز ہے جو طبیعت کو اپنی اصلی

۱۷۱

راہ سے منحرف کردیتی ہے ، اور اُن حادثات کا واقعہ ہونا امور طبیعی کی طرح نہیں ہے کہ جو ہمیشہ پیش آتے ہیں (بلکہ کبھی کبھی رونما ہوتے ہیں)۔

اے مفضل۔ تم اکثر حیوانات کو دیکھتے ہو کہ وہ ایک ہی حالت پر اور ایک ہی جیسے پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ انسان، کہ جب وہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دوہاتھ، دوپاؤں، اور ہر ہاتھ اور پیر میں پانچ پانچ انگلیاں ہوتی ہیں، اور ایسے ہی پیدا ہوتا ہے جیسا کہ اس کے علاوہ دوسرے انسان ، لیکن وہ شخص جو اس حالت کے برخلاف پیدا ہو تو اس کا سبب وہ علت ہے کہ جو رحم مادر میں موجود بچہ کو پہنچی ، جیسا کہ بالکل اسی چیز کا مشاہدہ تم صنعت میں بھی کرتے ہو کہ صنعت کار ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ چیز صحیح وسالم وجود میں آئے ، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی دوسری چیز کے مانع ہونے کی وجہ سے صنعت کار کی بنائی ہوئی چیز ناقص وجود میں آتی ہے ، اب چاہے وہ چیز جو مانع ہوئی وہ صنعت کار کے قصد و ارادہ سے تھی یا پھر ان آلات کی وجہ سے کہ جو اس چیز کو بنانے کا کام انجام دے رہے ہیں، اور بالکل اسی چیز کا مشاہدہ کبھی تم حیوانات میں بھی کرتے ہو، مختصر یہ کہ کسی چیز کے عارض ومانع ہونے کہ وجہ سے بچہ ناقص الخلقت پیدا ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات بالکل صحیح وسالم پیدا ہوتے ہیں پس اکثر امور کے ناقص ہونے کی علت وہ مانع ہے کہ جو کبھی کسی وجہ سے عارض ہوجاتا ہے ، اور یہ چیز اس بات کا ہرگز موجب نہیں بنتی کہ اُسے اتفاق کا نتیجہ کہاجائے، پس بالکل یہی امر خلقت میں بھی ہے اور اس شخص کا یہ کہنا کہ ہر چیز اتفاق کا نتیجہ ہے اس چیز کی مانند ہے کہ جو صنعتگر کی چاہت و طلب کے خلاف مانع کے عارض ہونے کی وجہ سے وجود میں آتی ہے ۔

اب اگر کوئی یہ کہے کہ آخر اس قسم کے غیر عادی واقعات رونما ہی کیوں ہوتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے، تاکہ جان لیا جائے کہ چیزوں کا طبیعت پر ہونا اضطراری نہیں ، بلکہ خداوندمتعال کے قصد و ارادہ اور اسکی تدبیر کے تحت ہے اور خالق دوجہاں نے اُسے اس طرح قرار دیا کہ وہ ہمیشہ اپنی معین روش اور خاص

۱۷۲

طریقہ کے تحت کام انجام دے اور کسی علت کے مانع ہونے کی بناء پر اپنی روش کے خلاف عمل کرے پس یہ تمام چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کائنات کی ہرچیزاپنے کمال پر پہنچنے کے لئے اپنے پیدا کرنے والے کی قدرت کی نیاز مند ومحتاج ہے، کہ وہ بابرکت اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔

اے مفضل۔ جو کچھ میں نے عطا کیا اسے لے لو،اور جو کچھ میری بخشیشیں تمہارے ساتھ ہیں انکی حفاظت کرو اور خداوندمتعال کااس کے احسانات پر شکر ادا کرو ، اسکی اور اسکے اولیاء کی توصیف بیان کرو، اور اُن کے فرماںبردار ہوجاؤ، یقینا کہ میں نے تمہارے لئے بہت میں سے کچھ اور کل میں سے جزء کے ذریعہ کائنات کی صحیح تدبیر اور قصد و ارادہ پر محکم دلیلیں بیان کیں ، اب تمہیں چاہیے کہ تم اس میں تدبر اور تفکر کرو، اور اس سے عبرت حاصل کرو، مفضل کابیان ہے کہ میں نے عرض کی ، کہ اے میرے آقاو مولا میں آپ کی مدد سے ان مطالب میں مزید بصیرت پیدا کروں گا، اور اپنے مطلوب تک

پہنچ جاؤں گا، پس اس مقام پر میرے آقا ومولا نے اپنے دست مبارک کو میرے سینہ پر رکھا، اور ارشاد فرمایا:حْفِظ بمشیة اللّٰه وَلا تنس انشاء اللّٰه

'' مشیّت خدا کے ذریعہ حفاظت کر اور اسے ہرگز فراموش نہ کر ''

یہ سنتے ہی میں گرگیا اور مجھ پر غشی طاری ہوگئی اور جب غشی سے افاقہ ہوا تو امام نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے مفضل اپنے نفس کو کیسا پاتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں اپنے آقا ومولا کی مدد سے بے نیاز ہوگیا، اور اس کتاب (توحید مفضل) کے مطالب جو میں نے لکھے اس طرح میرے سامنے ہیں جیسا کہ کفِ دست اور میں ان سب کو پڑھ رہا ہوں، اور اپنے آقاومولا کا اس قدر شکر گزار ہوں کہ جس کے وہ مستحق ہیں۔

پھر آپ نے ارشاد فرمایا: کہ اے مفضل، اپنے دل ودماغ، ذہن و عقل کو آمادہ اور اس کے سکون کی حفاظت کرو، میں بہت ہی جلد تمہارے لئے علم ملکوتِ سماوی وأرضی اور ان اشیاء کا علم کہ جنہیں

۱۷۳

خداوندمتعال نے زمین و آسمان کے درمیان خلق کیا ہے ، کہ جن میں عجائبات ، ِ ملائکہ کی خلقت صفتیں ، ان کے مراتب، سدرة المنتہیٰ، اور تمام جن وانس کے اوصاف اور جو کچھ تحت الثریٰ میں ہے، یہ سب اس مقدار میں بیان کروں گا کہ جو مقدار کل میں سے جزء کی میں تمہارے پاس بطور امانت رکھ چکا ہوں، اب اگر تم چاہو، تو جاسکتے ہو، میں اُمید رکھتا ہوں کہ تم ہمارے صحابی، محافظ، اور حامی بنو، تمہاری میرے نزدیک بہت بلند منزلت ہے اور تمہاری قدروقیمت مومنین کے دلوں میں ایسی ہے جیسے پیاس کے مقابلے میںپانی۔

اے مفضل۔ جو کچھ میں نے تم سے وعدہ کیا اس کے بارے میں اس وقت تک مجھ سے سوال نہ کرنا جب تک میں خود اُسے تمہارے لئے بیان نہ کردوں۔

مفضل کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں اپنے آقا ومولا کی خدمت میں سے ایسی کرامت کے ساتھ

پلٹا کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔

تمّت بالخیر

سید نسیم حیدر زیدی

۱۷۴

۱۷۵