آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)0%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام محسن قرائتی
زمرہ جات: صفحے: 160
مشاہدے: 123972
ڈاؤنلوڈ: 4851

تبصرے:

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123972 / ڈاؤنلوڈ: 4851
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

''آمنوا'' کے ساتھ''واتقوا '' کا بھی ذکر ہے)۔

10۔ جو چیز جملے کی خوبصورتی کا باعث ہے وہ یہ کہ امر اور نہی کو ایک ساتھ ہونا چاہیے (آیت میں نہی کا ذکر بھی ہے لا تقدموا۔ اور امر بھی ہے۔واتَّقُوا)-

11۔ حکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حکم خدا ہے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے احترامی خدا کی بے احترامی ہے۔ اور دونوں سے سبقت لے جانے کی ممانعت ہے۔(لاتُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ اﷲِ وَرَسُولِهِ---)

12۔ عمل کے لیے تقوے کا ہونا ضروری ہے۔لا تقدموا --- و اتقوا اللّٰه-

13۔ وہ لوگ جو اپنی خواہشات یا دیگر وجوہات کی بنا پر خدا اور رسول پر سبقت کرتے ہیں۔ نہ صاحب ایمان ہیں اور نہ پرہیز گار۔

15۔اپنی تند روی اور سست روی کی توجیہ نہ کریں۔''انّ اللّٰه سمیع علیم''

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سبقت اور پیش قدمی کی چند مثالیں:

O اب ہم خدا اور رسول پر سبقت اور پیش قدمی کے چند ایسے موارد پیش کرتے ہیں جن کا ذکر تفاسیر اور روایات میں موجود ہے۔

1۔ بعض افراد نے عید قربان کے دن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے قربانی کرلی۔ لہٰذا ان سے کہا گیا''لا تقدّموا بین یدی اللّٰه و رسوله' '' (1)

2۔ بعض لوگوں نے ماہ مبارک رمضان کا پہلا روزہ ثابت ہونے سے پہلے ہی روزہ رکھ لیا اِنہیں کہا گیا''لا تقدّموا بین یدی اللّٰه و رسوله' ''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ کشاف۔ ج5، ص 350

۲۱

3۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک گروہ کو کفار کے پاس اسلام کی تبلیغ کی غرض سے بھیجا۔ کفار نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھیجے ہوئے مبلغین کو قتل کردیا مگر اُن میں سے تین افراد جان بچا کر بھاگ آئے۔

راستے میں انہیں کفار کے قبیلے (بنی عامر) کے دو افراد نظر آئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے دوستوں کا انتقام لینے کے لیے انہیں قتل کردیا (جبکہ اُن دونوں کا کوئی قصور نہ تھا) قرآن کریم نے ان افراد کو اس من مانی پر تنبیہ کی۔ کہ کیوں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے بغیر انہوں نے ایسا کیا؟''لا تقدّموا بین یدی اللّٰه و رسوله' '' (1)

5۔ امام ـ نے ایک شخص کو یہ ہدایت کی کہ وہ یہ دعا پڑھا کرے۔''یا مقلّب القلوب'' اس شخص نے اس دعا کو اس طرح پڑھا'' یا مقلب القلوب والابصار'' امام ـ نے فرمایا: کہ میں نے کلمہ ''ابصار'' نہیں کہا تھا قرآن مجید فرماتا ہے کہ خدا اور رسول سے سبقت نہ کرو۔''لا تقدّموا بین یدی اللّٰه و رسوله' '' (2)

5۔ قوم بنی تمیم نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنے لیے ایک امیر کے تعین کا مطالبہ کیا خلیفہ اول و دوم نے اپنے اپنے امیدوار کا نام پیش کیا اور اُس پر بحث و مباحثہ بھی کرتے رہے کہ ان میں سے کس کا امیدوار بہتر ہے یہ آیت نازل ہوئی۔''لا تقدّموا بین یدی اللّٰه و رسوله'، ولا ترفعوا اصواتکم '' (3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ کشاف۔ ج5، ص 350 (2)۔ کمال الدین صدوق۔ ص 201

(3)۔ صحیح بخاری، ج3، ص 123

۲۲

6۔ امام ـ نے ایک شخص کو دعا کی تعلیم دی اور فرمایا کہ یہ دعا پڑھو۔''لا اِله الّا اللّٰه--- یُحْیِی ویُمِیْتُ '' سننے والے نے اپنی طرف سے اس جملے کا اضافہ کردیا۔''و یُمیت و یُحْیِی'' آپ نے فرمایا کہ تمہارا جملہ تو صحیح لیکن جو میں نے کہا ہے وہ کہو اور اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی۔''لا تقدّموا بین یدی اللّٰه و رسوله'--- ''(1)

7۔ جب بعض صحابہ کرام نے کھانا پینا اور اپنی ازواج کے ساتھ مباشرت چھوڑ دی تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: میں کھانا کھاتا ہوں اور اپنی ازواج کے ساتھ رہتا ہوں اور یہ میری سنت ہے اور جو میری سنت سے سرپیچی کرے وہ مجھ سے نہیں ہے۔فَمَنْ رَغِبَ عن سنتی فلیس مِنّی-

8۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے متعہ کو حلال قرار دیا تھا مگر خلیفہ دوم نے اسے حرام قرار دے دیا یہ بھی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سبقت کرنے کے مترادف ہے کہ جس کی آیت میں ممانعت ہے۔''لا تقدّموا بین یدی اللّٰه و رسوله' ''

9۔ سن 8 ہجری کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ سے فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو دوران سفر بعض لوگوں نے روزہ افطار نہ کیا۔ جبکہ اس بات کو جانتے تھے کہ سفر میں ہیں اور مسافر پر روزہ نہیں ہے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے روزہ افطار کرلیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو پیغمبر اسلام سے آگے بڑھ گئے۔''لا تقدّموا بین یدی اللّٰه و رسوله' ''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ خصال صدوق، ج2، ص 62

۲۳

10۔ اسلام سے پہلے بھی بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں لوگ انبیاء سے آگے بڑھ جاتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ ـ، جناب مریم کے بیٹے اور عبد خدا تھے۔ لیکن لوگوں نے انہیں خدا کہنا شروع کردیا تو قرآن نے انہیں دین میں غلو کرنے سے منع کیا ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پیچھے رہ جانے اور مخالفت کی چند مثالیں:

O جس طرح خدا اور رسول سے سبقت کرنا منع ہے۔ اسی طرح ان کے حکم کی خلاف ورزی اور اس سے عقب نشینی بھی منع ہے جب خدا، رسول اور رسول کے جانشین برحق لوگوں کو کسی بات کا حکم دیں تو معرفت و آگاہی کے ساتھ عاشقانہ انداز میں دوسروں پر سبقت لیتے ہوئے اُن کی آواز پر لبیک کہنا چاہیے۔

جو لوگ بلانے کے وقت سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں قرآن نے ان پر شدید تنقید کی ہے'' اثَّاقَلتُم ِلَی الرض '' (1) اس سلسلہ میں چند مثالوں پر غور کریں۔

الف: پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رحلت کے دنوں میں ایک اسامہ نامی جوان کی سپہ سالاری میں مسلم خطّے کی حفاظت اور دفاع کے لیے ایک لشکر تیار کیا اور فرمایا: جو بھی اسامہ کے لشکر میں شامل نہ ہوگا اُس پر خدا کی لعنت ہو اِس کے باوجود بعض افراد نے اس امر کی خلاف ورزی کی۔

ب: قرآن کریم نے بعض اُن افراد کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جوپیغمبراسلام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ توبہ، آیت38

۲۴

صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نافرمانی کرتے ہوئے محاذ جنگ پر نہیں گئے اور اُس امرپر بہت خوش تھے۔''فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اﷲ '' (1)

ج: جنگ اُحد میں پہلے حملے میںمسلمان کامیاب ہوگئے تھے۔ لیکن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جن 150 آدمیوں کو پہاڑوں کے شگاف پر کھڑا کیا ہو تھا انہوں نے غنائم لوٹنے کی غرض سے پیغمبر کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑ دی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان جیتی ہوئی جنگ ہار گئے، حضرت حمزہ اور بہت سے اصحاب باوفا شہید ہوگئے۔ قرآن کریم نے جنگ اُحد کی شکست کے تین سبب بیان کیے ہیں۔ سستی، اختلاف اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کی نافرمانی۔'' حَتّٰی ِذَا فَشِلْتُم وَتَنَازَعتُم فِی الَمرِ وَعَصَیتُم '' (2)

د: نہج البلاغہ میں حضرت علی ـ نے بارہا سنگدل، ڈرپوک اور سست افراد کی شدید سرزنش کی ہے اور فرمایا ہے کہ تم لوگ بے جان لاش ہو، تم شکلوں میں مرد ہو لیکن تم میں مردانگی نہیں ہے۔(3)

اور اس طرح کی دوسری مثالیں بھی موجود ہیں۔

اسی بنا پر خداوند عالم ہم سے یہ چاہتا ہے کہ نہ تجاوز کریں اور نہ پیچھے رہیں بلکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ ہم فکر اور ان کے معاون رہیں'' والّذین مَعَهُمْ---''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ توبہ ،آیت 81

(2)۔سورئہ آل عمران، 152

(3)۔ نہج البلاغہ، خ 27

۲۵

تقویٰ اور پرہیز گاری کے بارے میں ایک بحث:

O ہم جملہ''واتّقوا اللّٰه'' کی مناسبت سے یہاں تقویٰ کے بارے میں چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

1۔ الٰہی احکامات کا ہدف یہ ہے کہ انسان میں تقویٰ اور پرہیز گاری کا جذبہ پیدا ہو۔ مثال کے طور پر قرآن میں ارشاد ہے کہ اپنے پروردگار کی عبادت کرو شاید تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔(1) اور پھر فرمایا: تمہارے اوپر روزے اسی طرح واجب ہیں جس طرح تم سے پہلے والی امتوں پر واجب تھے۔ شاید تم متقی ہوجاؤ۔(2)

2۔ تقویٰ ہدایت قبول کرنے کا پیش خیمہ ہے۔هُدیً للمتقین ۔(3)

3۔ خداوند عالم صاحبان تقویٰ کو علم عطا کرتا ہے۔واتقوا للّٰه و یُعَلمکم اللّٰهُ- (4)

5۔ تقویٰ رحمت الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔واتقو اللّٰه لَعَلْکم تُرْحمون- (5)

5۔ تقویٰ اعمال کے قبول ہونے کا وسیلہ ہے ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں کہ خداوند عالم فقط صاحبان تقویٰ کے اعمال قبول کرتا ہے۔انّما یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ- (6)

6۔ تقویٰ کے باعث انسان کو ایسی جگہ سے رزق ملتا ہے جس کا اُسے خیال بھی نہیں ہوتا۔ویَرْزُقُه' من حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ ۔(7)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ بقرہ، آیت 21 (2)۔ سورئہ بقرہ ،آیت 183

(3)۔ سورئہ بقرہ، آیت 2 (5)۔سورئہ بقرہ، آیت 282

(5)۔ سورئہ انعام، آیت 155 (6)۔ سورئہ مائدہ، آیت 27 (7)۔ سورئہ طلاق، آیت 6

۲۶

7۔ اللہ تعالیٰ نے صاحبان تقویٰ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ بے یار ومددگار نہیں رہیں گے۔وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَه' مَخْرَجًا- (1)

8۔ اللہ تعالیٰ اپنی حمایت اور غیبی امداد صاحبان تقویٰ پر نثار کردیتا ہے۔وَ اعْلَمُوا انّ اللّٰهَ مَعَ المتقینَ- (2)

9۔ تقویٰ قیامت کے خطرات سے محفوظ رہنے (3) اور عاقبت بالخیر کا ذریعہ ہے۔والعاقبة للمتقین- (4)

تقویٰ میں مؤثر عوامل:

تقویٰ کے آثار و برکات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اب ہم ان عوامل کا ذکر کرتے ہیں جو متقی اور پرہیز گار بننے میں انسان کی مدد کرتے ہیں۔

1۔ مبدأ و معاد پر ایمان رکھنے سے انسان کا گناہوں کے مقابلے میں بیمہ ہوجاتا ہے۔ جس قدر اس کا ایمان قوی ہوگا، تقویٰ بھی اتنا ہی پائیدار ہوگا۔

2۔ عمومی نظارت (امر بالمعروف اور نہی از منکر) معاشرے میں تقویٰ کے رشد کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ طلاق، آیت 2

(2)۔ سورئہ توبہ آیت 36 اور 123

(3)۔ سورئہ مریم، آیت 72

(5)۔ سورئہ اعراف ، آیت 128

۲۷

باعث بنتی ہے۔

3۔ خاندان کی تربیت، 5۔ لقمہ حلال کا حصول، 5۔ اپنی ذمہ داری کو دیانتداری سے ادا کرنا۔

6۔ دوستوں (بیوی، ہم پیشہ، ہمسایہ، اور ہم جماعت افراد) کے ساتھ اچھا برتاؤ۔

7۔ صحیح پیشہ کا انتخاب، (8)۔ با تقویٰ افراد کو دوست رکھنا

یہ سب ایسے عوامل ہیں جو تقویٰ میں مؤثر ہیں۔

کیا تقویٰ محدودیت ہے؟

بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ تقویٰ محدودیت اور قید خانہ ہے ۔ جبکہ تقویٰ تو ایک قلعہ اور حصار ہے۔ قید خانے اور قلعے کے درمیان فرق یہ ہے کہ قید خانے کو باہر سے تالا لگایا جاتا ہے جو ایک زبردستی کی محدودیت ہے۔ جو انسان کی آزادی سے سازگار نہیں ہے لیکن قلعے کا انتخاب انسان خود کرتا ہے۔ اور پھر خود اُسے اندر سے تالا لگاتا ہے۔ تاکہ حوادث روزگار سے محفوظ رہ سکے۔ آپ خود بتائیں جب ہم پاؤں میں جوتا پہنتے ہیں تو ہم پاؤں کو محدود کرتے ہیں یا محفوظ؟ پس ہر محدودیت بری نہیں ہوتی اور ہر آزادی اہم نہیں ہوتی۔

اسی طرح ہر وسعت کی اہمیت نہیں جیسا کہ سرطان کے جراثیم جو بدن میں پھیل جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر عقب نشینی، اور پہلے والی حالت پر واپس پلٹنا برا نہیں۔ مریض ڈاکٹر کے پاس اس لیے جاتا ہے کہ وہ اسے پہلے والی حالت پر واپس لے آئے۔ اس کا

۲۸

ہدف بیماری سے پہلے والی حالت کی طرف پلٹنا ہے۔ اس کا یہ واپس آنا اہمیت رکھتا ہے۔ تقویٰ امن و امان کے حصول کا نام ہے۔ جو عورتیں اور لڑکیاں آزادی کے نام پر مختلف انداز میں لوگوں کی نظروں کے سامنے جلوہ گر ہوتی ہیں اگر چند منٹ (فقط چند منٹ) کے لیے غور وفکر کریں چاہے وہ مسلمان نہ بھی ہوں تب بھی علم و عقل ان کو عفت و پاکیزگی کی دعوت دے گی۔

بدحجابی یا بے حجابی مندرجہ ذیل مسائل کو ایجاد کرتی ہے۔

1۔ لوگ بے حجاب خواتین کی نسبت سوء ظن رکھتے ہیں۔

2۔ لوگ بے حجاب خواتین کو اغوا کرنے کی سازشیں کرتے ہیں۔

3۔ بے پردہ خواتین کی وجہ سے خاندانی نظام تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔

5۔ نوجوان نسل کو روحی طور پر بد اندیشی اور کج فکری کی کھلی دعوت ملتی ہے۔

5۔ بے پردگی سے خواتین خود نمائی اور فضول خرچی کی طرف راغب ہوجاتی ہیں۔

6۔ بے پردگی طالب علموں کے درس و مطالعہ میں فکری تمرکز کو ختم کردیتی ہے۔

7۔ بے بضاعت افراد کو شرمندہ کرتی ہے ۔ جو اس قسم کے لباس خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

8۔ بے پردگی اقتصادی حالت کو ابتر بنادیتی ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں کام محنت سے انجام نہیں دیئے جاتے اور ہمیشہ ہوس بازی کا بازار گرم رہتا ہے۔

9۔ ایسی خواتین اور لڑکیوں کو ناکام کرنا جو اپنی شکل و صورت پر زیادہ توجہ نہیں دیتیں۔

10۔ والدین کو حیران و پریشان رکھنا۔

۲۹

11۔ بد قماش افراد کو راضی کرنا۔

12۔ منفی رقابت کا پیدا ہونا۔

13۔ گھر سے فرار کرنا۔

15۔ ناجائز اولاد کا دنیا میں آنا۔

15۔ ایڈز جیسے امراض کا پیدا ہونا۔

16۔ روحی اور نفسیاتی امراض کا زیادہ ہونا۔

17۔ سقط حمل، خودکشی، قتل وکشتار، حادثات وغیرہ جیسے مسائل کا وجود میں آنا اور یہ سب عدم تقویٰ اور بے حجابی کے مسائل ہیں۔

اسی لیے شاید قرآن میں تقویٰ کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اور امام جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر خطبہ میں تقویٰ کے مسائل بیان کرے۔

قرآن کریم کم مقدار تقویٰ پر قناعت نہیں کرتا اور فرماتا ہے:فَا تَّقُوا اللّٰه مَا اسْتَطَعتُمْ ۔(1) جہاں تک ممکن ہو تقویٰ اختیار کرو۔

ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے:وَ اتّقُوا اللّٰه حَقَّ تُقٰاتِه جس طرح تقویٰ کا حق ہے اُسی طرح اُسے اختیار کرو۔

البتہ مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ جب بھی ہم کسی گناہ میں گرفتار ہوجائیں تو ہم نماز، توبہ اور اپنے پروردگار سے مدد طلب کرکے گناہوں کی دلدل سے نکل سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ تغابن، آیت 16

۳۰

آیت نمبر 2

یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَرْفَعُوا َصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَتَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ َنْ تَحْبَطَ َعْمَالُکُمْ وََنْتُمْ لاَتَشْعُرُونَ -

ترجمہ:

اے ایمان والو خبردار اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرنا اور ان کو بلند آواز سے نہ پکارنا جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو کہیں ایسا نہ ہو تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کا شعور بھی نہ ہو۔

نکات:

Oپہلی آیت میدان عمل میں پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سبقت اور پیش قدمی کرنے سے منع کررہی ہے اور یہ آیت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ گفتگو کا طریقہ بیان کررہی ہے کہ گفتگو کے دوران پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احترام کو ملحوظ نظر رکھا جائے۔

سورئہ نور کی آیت نمبر 63 میں بھی اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام کو اپنے ناموں کی طرح نہ پکارا کرو بلکہ مؤدبانہ انداز میں نام پکارا کرو۔

O عمل کی حفاظت خود عمل سے زیادہ اہم ہے ہمارے اعمال کبھی شروع سے ہی خراب ہوتے ہیں کیونکہ خودنمائی اور ریا کاری سے اس کا آغاز کرتے ہیں، کبھی عمل کے

۳۱

دوران عُجب اور غرور اِسے ضایع کردیتا ہے۔ کبھی ہمارے اعمال آخرکار بعض دوسرے اعمال کی وجہ سے حبط ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے قرآن مجید نے فرمایا: کہ جو بھی اپنے عمل کو با حفاظت ہر آفت سے بچا کر قیامت تک لائے گا اُسے دس گناہ اجر ملے گا۔۔ مَن جَاء بالحسنة۔۔۔۔ یہ نہیں فرمایاکہ جو بھی کوئی عمل انجام دے گا اُسے دس گناہ اجر ملے گا۔ کیونکہ دنیا میں عمل انجام دینے کے بعد اُسے روز قیامت حوالے کردینے کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ہر ذکر پر بہشت میں ایک درخت بہشت میں لگادیا جاتاہے۔ ایک شخص نے کہا تو پھر ہماری بہشت میں درختوں کی تعداد تو بہت زیادہ ہوگی؟ حضرت نے فرمایا: ہاں لیکن کبھی کبھی تم ایسے اعمال انجام دیتے ہو جو اِن درختوں کو جلا کر راکھ کردیتے ہیں۔ پھر آپ نے اِسی آیت کی تلاوت فرمائی۔(1)

Oقرآن کریم نے اعمال کی تباہی وبربادی کو ایک جگہ کفر و شرک کے مقابلے میں بیان کیا ہے۔ اور دوسری جگہ پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور بے ادبی سے اعمال کے ضائع ہونے کا ذکر ہے۔ پس معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور بے ادبی، کفر و شرک کے برابر ہے۔ کیونکہ دونوں کا نتیجہ اعمال کا حبط ہونا ہے۔

Oبعض اصحاب، پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور بلند آواز سے بات کرتے تھے۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس لیے کہ کہیں بلند آواز کے سبب ان کے اعمال ضائع نہ ہوجائیں خود اُن سے زیادہ بلند آواز میں بات کرتے تھے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار الانوار، ج8، ص 186 (2)۔ بحار الانوار، ج9، ص 332

۳۲

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی بلند آواز سے بات کرتے تھے جیسے ہی انہیں یہ پتا چلا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے بلند آواز سے بات کرنا اعمال کو ضائع کردیتا ہے تو بہت پریشان اور رنجیدہ خاطر ہوئے۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ تمہاری آواز خطاب کرتے ہوئے بلند ہوتی تھی لہٰذا تمہارا حساب دوسروں سے جدا ہے۔(1)

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے مومنین کا بلند آواز سے بات کرنا اعمال کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ اگر وہ حضرت کو نہ جانتے ہوں یا پہچان نہ سکے ہوں تو ایسے افراد کا حساب جدا ہے کیونکہ توہین کے مسئلے میں علم و آگاہی اور قصد اہانت شرط ہے۔ اگر ہم اخبار کو استعمال کریں اور یہ نہ جانتے ہوں کہ اس میں قرآنی آیات درج ہیں۔ کیونکہ نہیں جانتے اور اہانت کا قصد بھی نہیں تھا۔ تو اِسے توہین نہیں کہا جائے گا۔

Oأنْ تحبط أعْمٰالُکُمْ وَ أنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ- تمہارے اعمال نا دانستہ ضائع ہوجائیں گے۔ اس میں ایک نکتہ ہے اور وہ یہ کہ آفات اور آثارِ سوء کا واسطہ ہمارے جاننے یا نہ جاننے سے نہیں ہے۔اگر انسان شراب پی لے تو مست ہوجائے گا اگرچہ اس کے خیال میں یہ پانی تھا اگر بجلی کی تار کو ہاتھ لگائیں گے کرنٹ تو لگے گا۔ اگرچہ ہمارا خیال یہ ہو کہ بجلی نہیں ہے۔ یہ گناہوں کے آثار ہی ہیں کہ ہمیں قحط سالی، زلزلہ، عمر کا کم ہونا، اور ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔ چاہے انسان ان کے آثار سے بے خبر ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نسبت بے ادبی کرنا اعمال کی تباہی کا سبب ہے۔ اگرچہ انسان اس کے منفی آثار سے بے خبر ہی کیوں نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ تفسیر مجمع البیان

۳۳

پیغامات:

1۔ لوگوں کو ادب سکھاتے وقت خود ہمیں بھی مؤدبانہ انداز میں انہیں پکارنا چاہیے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لوگوں کو اس جملے''یا ایها الَّذین ئَ امنوا'' سے پکا را ہے۔

2۔ امت اسلامی کا رہبر معنوی اعتبار سے لوگوں پر حق رکھتا ہے لہٰذا اس کی رعایت کرنی چاہیے۔ یہاں تک کہ جب وہ گفتگو کررہا ہو تب بھی اس کی آواز سے ہماری آواز بلند نہ ہو اور اگر رہبر خاموش ہو اور ہم ان سے بات کررہے ہیں اس وقت بھی بلند آواز میں بات نہ کریں۔لا تَرْفَعُوا اصواتکم فوقَ صَوْتِ النَّبِیْ-

مقام نبوت ہمارے لیے مسئولیت آور ہے۔

3۔ کسی دوسرے کی زبان سے بزرگوں کے احترام کی تاکید کرنے کا انداز زیادہ خوبصورت ہوتا ہے۔ اس آیت میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ نہیں کہا کہ میری آواز سے زیادہ اپنی آواز بلند نہ کریں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ پیغمبر سے بلند آواز میں بات نہ کریں۔لا تَرْفَعُوا اصواتکم-

5۔ افراد کا مقام و منصب لوگوں کے عمل پر اثر انداز ہوتا ہے (ایک مومن کی رسول اللہ کی شان میں جسارت اور بے ادبی کا حساب ہی جدا ہے)۔یا ایها الذین آمنو --- أنْ تحبط اعمالکم-

5۔ کبھی انسان خود نادانستہ طور پر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لیتا ہے۔

'' َنْ تَحْبَطَ َعْمَالُکُمْ وََنْتُمْ لاَتَشْعُرُونَ ''

۳۴

نمونے:

الف: رحلت کے نزدیک پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قلم و دوات کا تقاضا کیا اور فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں کہ اس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہیں ہوسکو گے! خلیفہ دوم نے کہا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بیماری کا غلبہ ہے لہٰذا ان کی بات کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی۔ ہمارے پاس تو قرآن ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی تحریر کی ضرورت نہیں ہے۔ شور شرابہ ہونے لگا تب حضرت نے فرمایا: سب یہاں سے چلے جاؤ اور میرے پاس شورو غُل نہ کرو۔(1)

علامہ سید شرف الدین موسوی (المراجعات کے مصنف) فرماتے ہیں۔ کہ اگرچہ آپ کو قلم اور کاغذ نہ دیا گیا اور کچھ بھی تحریر نہ ہوسکا لیکن اُس نہ لکھی گئی تحریر کو ہم پڑھ سکتے ہیں۔ اس لیے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ تحریر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ تم میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوسکو گے۔(لَنْ تضلّوا ---) اگر ہم ذرا سی توجہ کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ آپ نے اس کلمے کو قرآن مجید اور اہل بیت ٪ کے بارے میں بیان کیا ہے۔ فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر ان سے تمسک رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوسکو گے۔ اور یہ دو چیزیں قرآن اور میرے اہل بیت ٪ ہیں۔ کیونکہ آپ نے چند مرتبہ اس کلمہ(لَنْ تضلّوا ---) کو قرآن اور اہل بیت ٪کے بارے میں استعمال کیا ہے۔ یہاں پر بھی جب یہ فرمایا کہ تمہارے لیے کچھ لکھنا چاہتا ہوں کہ جس سے تم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ صحیح مسلم ،ج3، ص 1259

۳۵

گمراہ نہ ہو سکو گے اس سے مراد قرآن اور اہل بیت٪ ہی ہیں۔

ب: جب امام حسن مجتبیٰ ـ شہید ہوئے اور آپ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلو میں دفن کیا جانے لگا تو حضرت عائشہ نے ایسا نہ کرنے دیا جس سے شور وغل ہوا ،آوازیں بلند ہوئیں۔ تو حضرت امام حسین ـ نے اس آیت(لا ترفعوا اصواتکم---) کی تلاوت فرما کر لوگوں کو خاموش رہنے کا حکم دیا، اور فرمایا: پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا احترام بعد از رحلت اُسی طرح واجب ہے جس طرح اُن کی حیات میں تھا۔(1)

اسلامی مقدسات:

پوری دنیا میں مختلف عقاید کے تحت سب لوگ اپنے بزرگوں کا خاص احترام کرتے ہیں۔ شہروں، سڑکوں، تعلیمی اداروں، ائیر پورٹس، مدارس اور دیگر اداروں کے نام ان کے نام پر رکھتے ہیں۔ اسی طرح اسلام میں بھی بعض افراد، اوقات، مقامات، حتیٰ کہ بعض نباتات اور جمادات بھی مقدس ہیں۔

اسلام میں ان تمام چیزوں کا احترام اور تقدس کا سبب اللہ تعالیٰ سے وابستگی ہے جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ قریب ہے اس کا احترام اور تقدس زیادہ ہے۔ پس چاہیے کہ اس خصوصی احترام کی حفاظت کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ تفسیر نمونہ

۳۶

مقدسات:

1۔ اللہ تعالیٰ کی ذات، تقدس کا سرچشمہ ہے۔ مشرکین جو خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں قیامت کے دن اپنے اس انحراف کا اقرار کریں گے اور اپنے خیالی معبودوں کے بارے میں کہیں گے کہ ہماری بدبختی یہی تھی کہ ہم انہیں اللہ تعالیٰ کے برابر سمجھتے رہے(اذ نُسوّیکم بِربّ العٰالمین) (1)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور ذکر کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیس اور احترام اس طرح کریں کہ جس میں کسی قسم کے عیب اور نقص کا تصور بھی نہ ہو۔ نہ فقط اس کی ذات بلکہ اسماء الٰہی بھی ہر چیز سے منزہ ہوں۔سبح اسمَ رَبِّکَ الاعلٰی- (2)

2۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب بھی ایک خاص تقدس اور احترام کی مالک ہے۔ جب قرآن مجید خود کو عظیم سمجھتا ہے۔(3) تو پھر ہمیں اُس کی تعظیم کرنی چاہیے۔ جب قرآن خود کو کریم سمجھتا ہے۔(4) تو ہمیں بھی اس کی تکریم کرنی چاہیے۔ جب قرآن خود کو مجید سمجھتا ہے۔(5) تو ہمیں بھی اس کی تمجید کرنی چاہیے۔

3۔ الٰہی رہبر، تمام انبیاء اور ان کے برحق جانشین خاص طور پر حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ٪ ایک خاص مقام کے مالک ہیں۔ سورئہ حجرات میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ شعرائ، 98 (2)۔ اعلیٰ ،1 (3)۔ حجر، 87

(5)۔ واقعہ، 77 (5)۔ ق، 1

۳۷

گفتگو کے چند آداب بیان ہوئے ہیں۔ کہ ان سے آگے نہ بڑھیں اور نہ ہی بلند آواز سے بات کریں۔

قرآن مجید نے انسان کو یہ فرمان دیا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود بھیجیں۔(1)

البتہ ہمیں اس نکتے کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ اب جبکہ آنحضرت اس دنیا سے رحلت فرما چکے ہیں تو ایسے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت(2) ، آپ کے جانشین علمائ، عادل، فقہاء مراجع تقلید (روایات کی روشنی میں یہ بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین ہیں) کا احترام ہم پر لازم ہے۔حدیث میں ہے کہ اگر کوئی عادل فقیہ کی بات رد کردے تو گویا اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت٪ کی بات کو رد کیا ہے، اور جو ان کی بات کو رد کرے تو گویا اس نے اللہ تعالیٰ کی بات کو رد کیا ہے۔(3) یہ احترام فقط پیغمبر سے نہیں بلکہ تمام انبیاء سے مربوط ہے۔ ان کا احترام بھی اُسی طرح ہے۔ قرآن مجید میں ہم پڑھتے ہیں کہ جس صندوق میں جناب موسیٰ ـ کو رکھ کر دریا کے حوالے کیا گیا تھا بعد میں جناب موسیٰ ـ اور آل موسیٰ کی چھوڑی ہوئی نشانیاں اس میں موجود تھیں۔ جس کی وجہ سے وہ بنی اسرائیل کی امت کے لیے آرام و سکون کا وسیلہ بن گیا اور فرشتے اُسے نقل و حمل کرتے تھے۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔احزاب، 56

(2)۔متعدد کتابوں میں جیسے تبرک الصحابہ از آیت اللہ احمد میانجی نے اصحاب پیغمبر کے صدھا ایسے نمونے ذکر کیے ہیں جس کے مطابق آپ کے اصحاب آپ کی زندگی اور آپ کی رحلت کے بھی آپ کا احترام کرتے تھے۔

(3)۔ بحار الانوار، ج27، ص 238 (5)۔سورئہ مبارکہ بقرہ ، آیت 258

۳۸

5۔ اسلام میں والدین ایک خاص احترام کے لائق ہیں قرآن مجید میں پانچ مرتبہ توحید

کے بعد والدین کے ساتھ احسان کرنے کو کہا گیا ہے۔(1) ان کا شکر ادا کرنا دراصل اللہ کا شکر ادا کرنا ہے۔(2)

والدین کا احترام یہاں تک ہے کہ محبت سے فقط ان کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے اور ہمیں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ ان کی آواز سے زیادہ بلند آواز میں ان سے بات نہ کریں۔ ایسا سفر جو ان کی اذیت کا باعث ہو نہ کیا جائے کہ وہ حرام ہے اُس سفر میں نماز بھی قصر نہیں ہوگی۔ والدین کے ساتھ حمام میں نہ جائیں۔ اسی طرح سوتیلی ماں سے شادی بھی نہ کی جائے۔

5۔ اسلام میں بعض، اوقات جیسے شب قدر، بعض مقامات جیسے مسجد، بعض پتھر جیسے حجر اسود، بعض پانی جیسے آب زمزم، بعض مٹی جیسے خاک شفائ، بعض نباتات جیسے زیتون، بعض سفر جیسے سفرِ معراج، نیز علم و عبادت، جہاد اور کسی کی امداد کی خاطر پیش آنے والے سفر، بعض لباس جیسے احرام کعبہ وغیرہ مقدس ہیں۔ لہٰذا ان کا خاص احترام کیا جائے۔ مثلاً قرآن مجید میں ہے کہ حضرت موسیٰ ـ نے مقدس وادی کے احترام میں اپنے جوتے اتار دیئے تھے۔فاخلع نَعْلَیْک اِنّکَ بِالوادِ المقدس طُوٰی- (3) مشرک کو مسجد حرام میں داخل ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بقرہ، 83۔ نسائ، 38۔ انعام، 151۔ بنی اسرائیل، 23۔ احقاف، 15

(2)۔ لقمان، 15 (3)۔ طہ، 12

۳۹

( اِنَّمٰاالْمُشْرِکُونَ نَجَس فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الحَرَام) (1)

وقت ِ عبادت زینت کی تاکید کی گئی ہے(خُذوا زینتکم عند کل مسجد) (2) مجنب کو مسجد میں ٹھہرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔( وَلَا جُنُبًا الّا عابِرِی سبیل) (3) اسلام میں مسجد کو اس قدر بلند مقام حاصل ہے کہ حضرت ابراہیم اسماعیل ، ذکریا، مریم ، جیسے افراد مسجد کو پاک و صاف کرنے کیلئے اس کے خادم اور متولی رہے۔(طَهِرّ بیتی) (4) یہاں تک کہ حضرت مریم ـ کی والدہ نے دوران حمل یہ خیال کرتے ہوئے کہ وہ ایک لڑکے کی ماں بننے والی ہیں یہ نذر مان لی کی وہ ولادت کے بعد اُس فرزند کو مسجد اقصیٰ کا خادم بنائیں گی(اِنّی نذرت لَکَ ما فی بطنِی مُحَرّرًا) (5)

6۔ با ایمان انسان بھی تقدس اور کرامت کا حامل ہوتا ہے یہاں تک کہ مومن کی آبرو کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔ اُسے اذیت دینا، اس کی غیبت کرنا حرام ہے۔ اس کے حقوق کا دفاع واجب ہے یہاں تک کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر کھودنا حرام ہے۔

اگر فرادیٰ نماز ایسی جگہ ادا کی جائے جہاں جماعت ہورہی ہو اور اس فرادیٰ نماز سے امام جماعت کا نا اہل ہونا ثابت ہوتا ہو تو ایسے میں فرادیٰ نماز باطل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ توبہ، 28 (2)۔ اعراف، 31 (3)۔ نسائ، 53

(5) بقرہ، 125 (5) آل عمران 35

۴۰