آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)0%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام محسن قرائتی
زمرہ جات: صفحے: 160
مشاہدے: 124023
ڈاؤنلوڈ: 4851

تبصرے:

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 124023 / ڈاؤنلوڈ: 4851
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

7۔ اسلام تو بعض غیر مسلمانوں کے لیے بھی خاص احترام کا قائل ہے۔ جیسے ہی کسی قبیلے کا سردار اسلام قبول کرتا تھا تو آپ اس کے احترام کو ملحوظ نظر رکھتے، اور اسے اس قبیلے کی سرداری پر باقی رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ایسے اسیر جن کا تعلق محترم خاندان سے ہوتا تھا ان کا جداگانہ حساب ہوتا تھا، مثلاً شہر بانو (ایران کے بادشاہ کی بیٹی) اور حاتم طائی ( جو ایک مرد سخی تھا) کے فرزند جب اسیر کرلیے گئے تو ان کے ساتھ جداگانہ برتاؤ کیا گیا۔جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ ہر ملت کی ثقافت میں کچھ چیزیں مقدس ہوتی ہیں جیسے۔ آئین، قومی پرچم، علمی شخصیات، انقلابی اور ہنرمند افراد وغیرہ۔ یہ تمام افراد ہر قوم و ملت کے نزدیک محترم سمجھے جاتے ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں کجروی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کیونکہ طول تاریخ میں لا اُبالی اور فریب کار افراد موجود رہے ہیں جیسے سامری جادوگر جس نے گوسالہ بنا کر اُسے جعلی تقدس کا رنگ دیا۔ اور کتنے ہی بادشاہ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے بہت سے دانشوروں اور شعراء کو خرید کر اپنی ثنا خوانی اور خود کو مقدس بنا کر پیش کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

اولیاء الٰہی کا احترام:

اولیاء خدا سب سے زیادہ احترام اور تقدس کے پابند تھے۔ ان میں سے چند نمونہ پیش خدمت ہیں۔

الف: جب تک پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ رہے حضرت علی ـ نے آپ کے احترام میں خطبہ نہیں دیا۔

۴۱

ب: ایک روز دوران نماز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگاہ سامنے والی دیوار پر پڑی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا کہ دیوار پر آب دہن (تھوک) ہے۔ آپ خاموش ہوگئے اور (قبلہ سے منحرف ہوئے بغیر) وہاں تک گئے اور وہاں درخت کی پڑی ہوئی ٹہنی سے اسے کھرچ ڈالا پھر پلٹ آئے اور نماز جاری رکھی۔

ج: حضرت امام حسین ـ نے جیسے ہی دیکھا بڑے بھائی امام حسن ـ نے ایک سو دینار سے فقیر کی مدد کی ہے آپ نے اپنے بھائی کے احترام کو پیش نظر رکھتے ہوئے 99 درہم سے فقیر کی مدد کی۔

د: امام رضا ـ جیسے ہی حضرت امام مہدی ـ کا نام سنتے تھے (جبکہ حضرت مہدی ـ کی اس وقت تک ولادت نہیں ہوئی تھی) تو آپ کے احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے۔

ھ: آیت العظمیٰ بروجردی جنکا شمار شیعوں کے بڑے مجتہدین میں سے ہوتا ہے۔ کے گھر میں ایک شخص نے یہ کہہ دیا کہ امام زمان ـ اور آیت اللہ بروجردی کی سلامتی کے لیے درود بھیجیں۔ تو یہ سن کر آپ بہت ناراض ہوئے کہ تم لوگوں نے میرے نام کو ولی عصر ـ کے نام کے ساتھ کیوں لیا ہے؟

اس لیے ہمیں توجہ رکھنی چاہیے کہ احترام و تقدس کے درجات مختلف ہیں۔ ہر شخص اور ہر چیز اپنے اپنے رتبہ کے اعتبار سے لائق احترام ہے۔

۴۲

اعمال کا حبط اور ضایع ہونا:

سورئہ حجرات کی دوسری آیت میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور میں بلند آواز سے بولنے کو اعمال کی نابودی اور حبط کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ: تمہارے نیک اور اچھے اعمال کا اجر اس طرح تباہ و برباد ہوجائے گا کہ تمہیں اس کی خبر بھی نہیں ہوگی لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حبط اعمال کے بارے میں کچھ گفتگو کی جائے۔

''حبط'' لغت میں حبط کے معنی فاسد اور تباہ ہونا ہے۔ جس طرح غذائیں، دوائیاں ، سردی، گرمی، پانی اور آگ ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح انسان کے اعمال بھی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان دو مثالوں پر غور کیجئے۔

الف: اگر ایک مزدور کارخانے میں بیس سال مفید اور سود مند کام کرنے کے بعد اپنے مالک کے بیٹے کو قتل کردے، اس کا یہ قتل کرنا، اس کی بیس سالہ کارکردگی پر پانی پھیر دے گا۔ اسے حبط کہتے ہیں۔

ب: اگر ایک مزدور اپنے مالک کو بیس سال رنج و اذیت پہنچائے،لیکن ایک دن یہی مزدور اپنے مالک کے ڈوبتے ہوئے بچے کو بچالے تو اس مزدور کی یہ خدمت اس کی سابقہ بیس سالہ بری کارگردگی کو یکسر ختم کر دے گی اور یہ خدمت جو اس کی برائیوں کا ازالہ کررہی ہے اسے کفارہ کہتے ہیں۔

ان مثالوں پر توجہ دینے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ معنوی وسائل اور انسان کے اعمال ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ چند قرآنی نمونوں پر توجہ کیجئے۔

۴۳

1۔ کفر و ارتداد اور لوگوں پر خدائی راستے بند کرنا، رسول خدا سے مقابلہ کرنا اعمال کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔(1)

2۔ جو لوگ ایسے اعمال انجام دیتے ہیں جو خدا کو غضبناک کرتے ہیں۔ اور ایسے اعمال سے نفرت کرتے ہیں جن میں خدا کی رضا شامل ہوتی ہے تو ان کے تمام اعمال تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔(2)

3۔ شرک و نفاق، دنیا طلبی، انبیاء کا قتل ، اور ظلم کرنے والوں کے اعمال نابود ہوجائیں گے۔(3)

5۔ منت گزاری عمل کی نابودی کا سبب ہے۔(4)

5۔ ریاکاری اور عُجب انسان کے اعمال کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔

حبط اعمال روایات کی روشنی میں:

اب ہم روایات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے اعمال ہیں جو انسان کے نیک اعمال کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔

روایات میں، اعتقادی ، عبادی، خاندانی، معاشرتی ، سیاسی اور بہت سے ایسے نفسیاتی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے جو انسان کے نیک اعمال کی تباہی کا باعث بنتے ہیں ہم یہاں ان موارد میں سے ہر ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ محمد، آیت 25

(2)۔سورئہ محمد، 28 (3)۔ زمر، 65۔ توبہ، 68۔ ھود، 16۔ آل عمران، 25

(5)۔ بقرہ، 26

۴۴

1۔ اعتقادی: آئمہ معصومین ٪ اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ٪ سے کینہ اور دشمنی رکھنا۔(1)

2۔ عبادی: نماز کو بغیر کسی عذر کے ترک کرنا۔(2) امام ـ سے پوچھا گیا کہ ترک نماز کو گناہان کبیرہ میں سے کیوں شمار نہیں کیا گیا جبکہ یتیم کا مال کھانا گناہِ کبیرہ ہے؟ حضرت نے فرمایا: کہ کفر گناہِ کبیرہ ہے۔ جبکہ ترک نماز کفر عملی ہے۔(3)

3۔ خاندانی: امام صادق ـنے فرمایا:اگر بیوی یا شوہر ایک دوسرے سے یہ کہہ دیں کہ میں نے تمہارے اندر کوئی خوبی نہیں دیکھی۔ اور میں تم سے ناراض ہوں تو اس کے اعمال تباہ ہوجائیں گے۔(4)

5۔ معاشرتی: رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اگر کوئی مردے کو اس کی امانت کی حفاظت کرتے ہوئے غسل دے تو اُسے میت کے ہر بال کے بدلے میں ایک غلام کو آزاد کرنے کا اجر ملے گا اور صد درجات عطا کرے گا۔ پوچھا گیا: غسل دیتے وقت امانت کی حفاظت سے کیا مراد ہے؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اس کے پوشیدہ جسمانی اعضاء کو

چھپائے وگرنہ اس کا اجر تباہ اور دنیا و آخرت میں اس کو عزت نہیں ملے گی۔(5) (یہ تو مردہ شخص کی عزت و آبرو کا مسئلہ ہے زندہ شخص کی عزت، و آبرو تو اس سے کہیں زیادہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار، ج28، ص 198

(2)۔ کافی، ج2، ص 385 (3)۔کافی، ج2، ص 278

(5)۔ من لا یحضر، ج3، ص 550 (5)۔ وسایل الشیعہ، ج2، ص 527

ہے)۔

۴۵

سیاسی: وَمَن یّکْفُرُ بِالْاِیْمٰانِ فَقَطْ حَبِطَ عَمَلُهُ (1) جو بھی اپنے ایمان سے پھر جائے (مرتد ہوجائے) اس کے اعمال تباہ ہوجائیں گے۔

امام محمد باقر ـ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ ایمان سے مراد علی ابن ابی طالب ـ ہیں۔ جو بھی آپ کی ولایت کا منکر ہو اس کا عمل تباہ ہے۔(2)

جی ہاں! امام معصوم کو رہبر ماننا اور ان کی اطاعت کرنا اسلام کے سیاسی مسائل کے ارکان میں سے ہے۔

6۔ نفسیاتی: امام صادق ـ نے فرمایا: جو شخص اپنے خیال اور شک کی بنیا د پر (علم یا شرعی حجت کے بغیر ) کوئی عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل تباہ ہے۔

٭ اب تک ہم نے بعض اعمال کے منفی اثرات بیان کیے ہیں۔ اب مثبت اثرات کے بارے میں آپ کو بتاتے ہیں کہ انسان کس طرح اپنے اعمال کے ذریعہ اپنے برے کاموں کو چھپا سکتا ہے یا یہ کہ انہیں اچھے کاموں میںکیسے تبدیل کرسکتا ہے۔

قرآن مجید میں ایمان ، نیک عمل، تقویٰ، فقرا کی مخفی طور پر مدد کرنا، توبہ کرنا ، گناہ کبیرہ سے دوری کرنا، نماز پڑھنا، زکات دینا، قرض الحسنہ دینا ، ہجرت اور جہاد کو عفو،

گناہوں کی بخشش اور انسانی لغزشوں کی تلافی کا سبب قرار دیا ہے۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مائدہ، آیت 5

(2)۔ بحار، ج35، ص 358 (3)۔ بقرہ: 215۔ طلاق:5۔ تغابن: 9۔ تحریم:8۔ نسائ: 31۔ ہود :115۔ مائدہ:12۔ آل عمران: 195۔ فرقان: آیت 70 کی طرف رجوع کریں۔

۴۶

قرآن مجید نے فرمایا: دن کے دونوں طرف نماز ادا کرو کیونکہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں۔وَ أَقِم الصَّلوٰةَ --- اِنَّ الحَسَنَاتِ یُذْهِبْنَ السَّیَّاٰتِ (1)

٭ واضح ہوچکا ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عظمت کی وجہ سے ان کے حضور بے ادبی تمام سابقہ اعمال کی تباہی کا باعثت بن سکتی ہے۔ قرآن مجید نے اس کے باوجود یہ تاکید کی ہے کہ سب لوگوں سے اچھے (مؤدبانہ) انداز میں بات کی جائے۔ لقمان ـ نے اپنے بیٹے سے کہا(وَاغضُضْ مِنْ صوتِکَ) اپنی آواز میں دھیما پن اختیار کرو۔ اس لیے کہ اس کے علاوہ غیر مناسب آواز کو گدھے کی آواز سے تشبیہ دی ہےاِنَّ أَنْکَرَ الاصوات لَصَوْتُ الحَمِیْر (2) بلند آواز میں بات کرنا (اسپیکر کا بیجا استعمال) آج کے دور میں (جدید تمدن کے دور میں) معاشرتی مشکلات میں سے ایک مشکل ہے۔ کبھی شادی کے نام پر، کبھی مجلس عزا کے نام پر، کبھی مسجد میں کبھی کھیل اور ورزش کے عنوان سے، اور کبھی خرید و فروخت کی غرض سے لوگوں کا آرام سلب کرلیا گیا ہے۔

جبکہ اسلام نے فقط چند ایسے موارد بیان کیے ہیں جہاں آواز بلند کی جاسکتی ہے، مثلاً اذان کے وقت وہ بھی مناسب انداز میں بغیر کسی اضافے یا مقدمے کے یا بیت

اللہ کے زائرین کے لیے کہ جب وہ صحرائِ مکہ میں کسی دوسرے قافلہ کو دیکھیں تو بلند آواز سے'' لبّیکَ اللّهمَ لبّیک'' کا تکرار کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ ہود، آیت 115

(2)۔ سورئہ لقمان، آیت 19

۴۷

بہرحال چند استثنائی موارد کے علاوہ ہمیں بلند آواز میں گفتگو کرنے کا حق نہیں ہے۔ دوسروں سے بلند آواز میں رعب اور دبدبہ سے بات کرنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ کیونکہ اس صورت میں بے ادبی کے علاوہ مومن کو ڈرانا ایک سخت عذاب کا پیش خیمہ ہے۔

۴۸

آیت نمبر 3

ِنَّ الَّذِینَ یَغُضُّونَ َصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اﷲِ ُوْلَئِکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اﷲُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَی لَهُمْ مَغْفِرَة وََجْر عَظِیم -

ترجمہ:

بیشک جو لوگ رسول اللہ کے سامنے اپنی آوازوں کو دھیما رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے تقویٰ کے لیے آزما لیا ہے اور انہیں کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔

نکات:

O کلمہ''غَضْ'' کے معنی اوپر سے نیچے کی طرف آنا اور آہستہ لہجہ میں بات کرنا ہے۔ جو ادب ، تواضع، وقار، آرام و نشاط کی علامت ہے۔

O قرآن مجید نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤدب افراد کے دلوں کی آزمایش کرتا ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آزمائش سے شناخت کرنا نہیں چاہتا ہے کیوں کہ وہ ہر چیز سے آگاہ ہے۔ بلکہ اس آزمائش کا مقصد یہ ہے کہ انسان مسائل کے مقابلے میں اپنی استعداد اور صحیح عکس العمل کا مظاہرہ کرے تاکہ اُسے اجر الٰہی عطا ہوسکے۔ کیونکہ جزا اور سزا کا ملنا اللہ تعالیٰ کے علم کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسان کے

۴۹

عمل کی بنیاد پر ہے۔ یعنی اگرچہ اللہ تعالیٰ یہ علم رکھتا ہے کہ فلاں شخص آئندہ یہ گناہ کرے گا لیکن اسے سزا نہیں دیتا بلکہ پہلے اُس سے گناہ سرزد ہو تب اُسے اس کی سزا ملے گی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ انسان بھی اسی روش پر چلتا ہے اور صرف اپنے علم کی بنیاد پر کسی کو اجرت نہیں دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہمیں یہ علم ہو کہ فلاں درزی میرا لباس سی دے گا تب بھی ہم اُسے اس وقت تک مزدوری نہیں دیتے جب تک کہ وہ لباس تیار نہ کردے۔

آیات و روایات میں امتحان اور آزمائش کا ذکر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسان پہلے عمل انجام دے گا اور پھر اس کے بعد سزا یا جزاء کا مستحق قرار پائے۔

البتہ یہاں امتحان کا تعلق قلب سے ہے کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ادب اور تواضع کے اظہار میں ریاکاری سے کام لیتے ہیں لیکن اندورنی طور پر تکبر اور غرور سے بھرے ہوتے ہیں۔

O اجر الٰہی کا ہمیشہ ان صفات کریم، عظیم ، کبیر، غیر ممنون (پیوستہ)نِعَمْ اجر (اچھا)کے ساتھ ذکر ہوا ہے کیونکہ اجر الٰہی اس کی رحمت اور بے نہایت لطف کے سرچشمے سے تعلق رکھتا ہے۔

پیغامات:

1۔ہمیں برے کام کرنے والوں کی مذمت اور اچھے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اس سے پہلی آیت میں ان لوگوں کی خدمت کی گئی ہے جو پیغمبر کے حضور بلند آواز میں بات کرتے تھے اس آیت میں اور بعد والی آیات میں مودّب افراد

۵۰

کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔اِنَّ الّذینَ یَغُضُّون --- لهم مَغْفِرَة ۔۔۔ اگر برے کاموں پر سرزنش کی جائے تو اچھے کاموں پر حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے۔

2۔ ظاہری ادب باطنی تقویٰ کی علامت ہے ۔الّذین یَغُضُّونَ --- اِمتَحَنَ اللّٰه قُلُوبَهُمْ لِلتّقوٰی (یعنی جو دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں وہ با تقویٰ دل کے مالک ہیں)۔

3۔ اب جبکہ ہم پیغمبر اسلام کی بارگاہ میں تو نہیں ہیں لیکن حضرت کے مرقد کی زیارت کے آداب اور حضرت کے برحق جانشینوں کا ادب اپنی جگہ باقی ہے۔

5۔ عارضی اور چند لمحوں کا ادب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابھی تقویٰ کی گہرائی حاصل نہیں ہوئی ہے۔

5۔ قرآن میںجہاں پر بھی کلمہ ''مغفرت'' اور ''اجر''آیا ہے، پہلے مغفرت کی بات کی گئی ہے کیونکہ جب تک ہم گناہوں سے پاک نہیں ہوں گے تب تک لطف الٰہی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ولَهُمْ مَغْفِرَة و أجر عَظِیْم-

گفتگو کے آداب:

اس آیت میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گفتگو کے آداب بیان کیے گئے ہیں ۔اب ہم اسلام کے ان بنیادی اصول کا ذکر کرتے ہیں جن کا تعلق گفتگو کے آداب سے ہے۔

1۔ گفتار کو کردار کے ساتھ ہونا چاہیے وگرنہ یہ قابل سرزنش ہے-(لِمَ تَقُولُونَ مَا

۵۱

لَا تَفْعَلُونَ) (1)

2۔ گفتار کو تحقیق کے ہمراہ ہونا چاہے۔ (ہدہد نے حضرت سلیمان ـ سے کہا کہ میں تحقیق شدہ اور یقینی خبر لایا ہوں۔(بنبائٍ یقین) (2)

3۔ گفتار کو دلپسند ہونا چاہیے۔(الطّیّب مِنَ الْقَول) (3)

5۔ گفتار کو رسا اور شفاف ہوناچاہیے۔(قولاً بَلِیْغًا) (4)

5۔ گفتار کو نرم لہجے میں بیان کیا جائے۔(قولاً لَیّنًا) (5)

6۔ گفتار کا انداز بزرگوارانہ ہو۔(قولاً کریماً) (6)

7۔ گفتار کو قابل عمل ہونا چاہیے-(قولاً میسورًا) (7)

8۔ سب کے لیے اچھی بات کی جائے نہ کہ فقط خاص گروہ کے لیے-(قولاً للنّاس حُسنًا) (8)

9۔ اپنی گفتار میں بہترین انداز اور مطالب کا انتخاب کیا جائے۔(یقولوا الّتی هی احسن) (9)

10۔ گفتار میں لغویات اور باطل کی آمیزش نہ ہو۔(اجتنبوا قَوْلَ الزُّور) (10)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ صف، آیت 2 (2)۔ سورئہ نمل، آیت 22

(3)۔ سورئہ حج، 25 (5)۔ سورئہ نسائ، آیت 63

(5)۔ سورہ طہ، آیت 55 (6)۔سورئہ بنی اسرائیل ، آیت 23

(7)۔ سورئہ بنی اسرائیل، آیت 28 (8)۔ سورئہ بقرہ، 83

(9)۔ سورئہ اسرائ، آیت 53 (10)۔ سورہ حج، آیت 30

۵۲

اور(عن اللغّوِ مُعْرِضون) (1)

عمل کے چند نمونے:

٭ اس آیت میں ایسے افراد کی تعریف کی گئی ہے جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور ادب کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی آواز دھیمی رکھتے تھے۔ ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم مقرر کیا گیا ہے۔

قرآن مجید میں ادب اور بے ادبی کے ذکر شدہ نمونوں میں سے دو کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

1۔ جب حضرت آدم ـ اور ان کی اہلیہ نے ممنوعہ درخت سے پھل کھالیا تب ان کی سرزنش کی گئی۔ جس پر وہ شرمندہ ہوئے، توبہ کی اور معذرت طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ یہ معذرت کرنا خود ایک ادب ہے جس کی وجہ سے آدم ـ اور ان کی اہلیہ کو نجات ملی۔

کربلا میں حضرت حر ـ نے امام حسین ـ کا ادب کیا جبکہ شروع میں وہ یزیدی لشکر میں تھے۔ لیکن نماز جماعت میں امام حسین ـ کی اقتداء میں ادا کی اور کہا کیونکہ آپ کی والدہ حضرت زہرا٭ ہیں اس لیے میں آپ کا احترام کرتا ہوں۔ شاید اُن کا یہی ادب ان کی عاقبت بالخیر کا باعث بن گیا ہو۔

2۔ ابلیس نے حضرت آدم ـ کو سجدہ نہیں کیاتو اس کی سرزنش کی گئی، توبہ اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(10)۔ سورئہ مومنون، آیت 3

۵۳

معذوت کرنے کی بجائے اُس نے بے ادبی کی اور کہا: میں اُسے سجدہ نہیں کروں گا، میں آگ سے خلق ہوا ہوں اور آگ خاک سے افضل ہے۔ درحقیقت اس نے فرمان الٰہی کو ٹھکرایا تھا اِسی بے ادبی نے اُسے ہمیشہ کے لیے لعنت و ملامت کا مستحق قرار دے دیا۔

اجر خداوندی کا امتیاز:

لوگوں کے دیئے ہوئے اجر کی مدت کم، معمولی اور سطحی ہوتی ہے اور یہ اجر احسان جتا کر دیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سے نقائص پائے جاتے ہیں اس بات سے صرف نظر کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ (بیوی ، شوہر ، فرزند ،شریک ، دوست، ہمسایہ، حکومت اور) دوسرے افراد ہمارے بہت سے کاموں سے آگاہ نہیں ہوتے کہ وہ ہمیں اس کا اجر دے سکیں۔کبھی حسد کی بنا پر اور کبھی بخل کے باعث جانتے ہوئے بھی أجر نہیں دیا جاتا یا پھر کبھی غربت و ناداری آڑے آجاتی ہے جس کے باعث اجر دینے کی طاقت نہیں ہوتی۔ خدا کے علاوہ کوئی بھی انسان کے معیوب اور کم مقدار کام کو قبول نہیں کرتا۔

بعض اوقات یہ اجر ایک تالی، سیٹی، یا درود بھیجنے تک محدود ہوجاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ معمولی سا کام بھی قبول کرلیتا۔فمن یعمل مثقال ذرّةٍ خیراً یَرَه ۔ ناقص اعمال بھی مقبول ہوجاتے ہیں جیسا کہ ہم نماز کی تعقیبات میں یہ پڑھتے ہیں: اے پروردگار! اگر میری نماز کے رکوع اور سجود میں نقص رہ گیا ہو تو میری اُس ناقص نماز کو قبول فرما۔

۵۴

اللہ تعالیٰ عیب کو پوشیدہ رکھتا ہے اور خوبیوں کو ظاہر کرتا ہے ۔یَا مَنْ أَظْهر الجمیل وَسَتَرَ القبیح ۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہشت جاویدان کے بدلے خرید لیا ہے۔ جب کہ دوسرے ہمارے کاموں کو فراموش کربیٹھتے ہیں۔

۵۵

آیت نمبر 5اور 5

ِنَّ الَّذِینَ یُنَادُونَکَ مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ َکْثَرُهُمْ لاَیَعْقِلُونَ-

بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان کی اکثریت کچھ نہیں سمجھتی ہے۔

وَلَوْ َنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّی تَخْرُجَ ِلَیْهِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَهُمْ وَاﷲُ غَفُور رَحِیم -

اور اگر یہ اتنا صبر کرلیتے کہ آپ نکل کر باہر آجاتے تو یہ ان کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔

نکات:

Oاگرچہ پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حجروں کے پیچھے سے آواز دینا ایک گذشتہ واقعہ ہے لیکن ہم سب کیلئے درس ہے۔

جیسا کہ ہم تفسیر روح المعانی میں پڑھتے ہیں کہ جب ابن عباس اپنے استاد کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ تو دروازے پر دستک دیئے بغیر استاد کے باہر آنے تک کھڑے رہتے تھے۔ اور جب آپ سے کوئی اس چیز کا سبب پوچھتا تھا تو آپ قرآن کی اس آیت( وَلَو َنَّهُم صَبَرُوا حَتَّی تَخرُجَ ِلَیهِم لَکَانَ خَیرًا لَهُم) کی تلاوت فرماتے تھے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح ابن عباس اس آیت سے جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں نازل ہوئی تھی درس لے رہے ہیں لہٰذا کوئی یہ نہ کہے کہ آج تو دنیا میں ''ابو لہب''

۵۶

موجود نہیں ہے اس آیت ''تبت ید أبی لھب'' کے کیا معنی ہوں گے؟ اگرچہ آیت میں خاص شخص کا نام ہے لیکن اس کا ہدف اس شخص کی فکر اور اعمال ہیں ابو لہب ایک کافر اور بدعمل شخص تھا۔ اگر آج اس آیت کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں ''اے مسلمانوں کے خلاف سازش اور سوء قصد کرنے والوں، اے الٰہی نمائندوں کی نافرمانی کرنے والو تمہارے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور تم ہلاک ہوجاؤ۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حجروں کی تعداد نو تھی جو کھجور کی شاخوں سے بنے ہوئے تھے۔ اور ہر دروازے پر بکرے کے بالوں کا بنا ہوا پردہ آویزاں تھا۔ ہر حجرہ کی لمبائی دس ذراع (تقریباً پانچ میٹر) اور اونچائی سات سے آٹھ ذراع (تقریباً چار میٹر) تھی۔عبدالملک کے دوران حکومت میں ان حجروں کو توڑ کر مسجد میں شامل کردیا گیا تھا۔ جب ان حجروں کو توڑا گیا تو لوگوں کے گریہ و زاری کی آوازیں بلند تھیں۔ سعید بن مسیّب کا کہنا ہے کہ میں یہ چاہتا تھا کہ یہ تمام حجرے اُسی طرح باقی رہیں تاکہ لوگ انہیں دیکھ کر سادگی کا درس لیتے۔

پیغامات:

1۔لوگوں کی اجتماعی اور فردی حیثیت کو ملحوظ نظر رکھنا چاہیے۔ (گلی کوچہ میں سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آواز دینا اور پنی بات منوانا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان کی خلاف ہے)(یُنَادُونَکَ مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ)

2۔ اگر کوئی شخص ایک مرتبہ غیر مؤدبانہ حرکت کرے تو اُسے کم عقل نہیں سمجھنا چاہیے وہ لوگ کم عقل ہیں جو ہمیشہ حجروں کے پیچھے سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آواز دے کر آپ کے

۵۷

باہر نکلنے کے منتظر رہتے تھے۔ ینادونک فعل مضارع ہے جو فعل کے استمرار پر دلالت کرتا ہے۔

3۔ کم عقل وہ لوگ ہیں جو اہانت کی غرض سے اس طرح آواز دیتے ہیں لیکن جو لوگ عادتاً یہ کام کرتے ہیں وہ اس حکم میں شامل نہیں ہیں۔(َکْثَرُهُمْ لاَیَعْقِلُونَ) (جیسا کہ کبھی کبھی والدین اپنے بچے کو ایک معمولی نام سے پکارتے ہیں ان کا مقصد ہرگز اہانت نہیں ہوتا۔ جبکہ کوئی دوسرا اگر اہانت کی غرض سے پکارے تو اس کا حکم اُن سے جدا ہے)

5۔گلی کوچہ میں چیخ و پکار اور خدائی نمائندہ کے ساتھ بے ادبی سے پیش آنا کم عقلی پر دلیل ہے۔(ینادونک لا یعقلون)

5۔ مودّب ہونا عقلمندی کی دلیل ہے(الَّذِینَ یُنَادُونَکَ ---لاَیَعْقِلُونَ) امام علی ـ سے نقل ہے جو مودّب نہیں ہے وہ عقلمند نہیں ہے۔

6۔ تربیت اور اصلاح کی ایک راہ یہ ہے کہ غیر مودّب افراد کو تنبیہ کی جائے۔(الَّذِینَ یُنَادُونَکَ ---)

7۔ اگر کسی برے عمل کی تکرار ہو تو سرزنش ضرور کرنی چاہیے۔(یُنَادُونَکَ ---لاَیَعْقِلُونَ)

8۔ دوسروں کے آرام و سکون کا خیال رکھنا چاہے۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی آرام و سکون چاہیے اور انہیں اپنے گھر کے مسائل کے لیے بھی وقت درکار ہے۔ ہر وقت ان کے مزاحم نہیں ہونا چاہیے۔( لَوْ َنَّهُمْ صَبَرُوا)

۵۸

مزاحمت، بے جا توقع، اور کسی پر بے جا دباؤ ڈالنا صحیح نہیں ہے۔

9۔ صبر ادب کی نشانی ہے۔(صَبَرُوا حَتَّی تَخْرُج)

10۔ لوگوں سے ملاقات کیلئے وقت کا تعین رہبر کو کرنا ہے۔(حَتَّی تَخْرُجَ ِلَیْهِمْ)

11۔ پیغمبر اسلام نے لوگوں سے ملاقات کا وقت معین کیا ہوا تھا لہٰذا گلی میں بلند آواز سے بلانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔(حَتَّی تَخْرُجَ ِلَیْهِمْ)

12۔ بے ادب، غیر مودّب افراد کے ساتھ درگذشت اور مہربانی کے ساتھ پیش آنا چاہیے، تاکہ وہ مایوس نہ ہوں اور اپنی اصلاح کریں۔ خدا نے ایسا ہی کیا ہے۔( وَلَوْ َنَّهُمْ صَبَرُوا --- وَاﷲُ غَفُور رَحِیم )

۵۹

آیت نمبر 6

یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِنْ جَائَ کُمْ فَاسِق بِنَبٍَ فَتَبَیَّنُوا َنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِینَ -

ترجمہ:

اے ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے۔

نکات:

O سوال۔ اس آیت میں خبر کی تحقیق کا حکم آیا ہے۔ جبکہ اسی سورہ کی بارھویں آیت میں لوگوں کے امورمیں تجسس سے منع فرمایا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ تجسس حرام ہو اور تحقیق کرنا واجب؟

جواب: کسی شخص کی فردی زندگی کے بارے میں تجسس کرنا جس کا معاشرہ سے کوئی تعلق نہ ہو حرام ہے۔ لیکن اگر انسان کے فعل کا تعلق معاشرتی زندگی سے ہو تو ایسی صورت میں تحقیق ضروری ہے۔ اس لیے کہ اگر بغیر تحقیق کے خبر لانے والے پر اعتماد کرتے ہوئے، کوئی اقدام کیا جائے تو ممکن ہے کہ پورا معاشرہ فتنہ و فساد میں مبتلا

۶۰