معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۱

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )0%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 104

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: صفحے: 104
مشاہدے: 30268
ڈاؤنلوڈ: 2898


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30268 / ڈاؤنلوڈ: 2898
سائز سائز سائز
معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سوالات:

1۔امام کسے کہتے ہیں ؟

2۔امام کی صفات بیان کریں ؟

3۔امام کو کیسے پہچانا جاتا ہے ؟

4۔امام اور نبی کا فرق بیان کیجئے ؟

5۔امام کتنے ہیں کوئی حدیث بیان کیجئے َ؟

۴۱

درس نمبر10

( قیامت )

انبیاء و اولیاء اور تمام آسمانی کتابوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسان کی زندگی فقط مرنے سے ختم نہیں ہوتی بلکہ اس دنیا کے بعد بھی دنیا پائی جاتی ہے جہاں پر انسان کو اپنے کئے (اعمال و کردار ) کا بدلہ ملے گا ۔

اچھے لوگ وہاں پر تمام نعمتوں کے ساتھ خوشی خوشی زندگی بسر کریں گے اور بدکردار اور خطاکار افراد سخت دردناک عذاب میں گرفتار رہیں گے قیامت آسمانی تمام ادیان کی ضروریات میں سے ہے اور اصل قیامت مرنے کے بعد کی دنیا کو کہا جاتا ہے جو شخص بھی انبیاء کو مانتا اور ان کی بتائی ہوئی چیزوں پر ایمان رکھتا ہے اس کامعاد پر یقین و اعتقاد رکھنا ضروری ہے ،۔

قرآن مجید میں قیامت کے سلسلہ میں سیکڑوں آیات بیان ہوئی ہیں، ان کے علاوہ قیامت کے بارے میں بہت سی عقلی دلیلیں بھی موجود ہیں ہم ان میں سے صرف ایک کو خلاصہ کے طور پر بیان کررہے ہیں :

برہانِ حکمت: اگر قیامت کے بغیر اس زندگی کا تصور کریں تو بے معنی اور فضول دکھائی دیتی ہے، بالکل اسی طرح کہ شکم مادر میں بچہ کو اس دنیاوی زندگی کے بغیر تصور کریں۔

اگر قانون خلقت یہ ہوتا کہ بچہ شکم مادر میں پیدا ہوتے ہی مرجایا کرتا تو پھر تصور کریں کہ کسی ماں کاحاملہ ہونا کتنا بے مفہوم تھا؟ اسی طرح اگر قیامت کے بغیر اس دنیا کا تصور

۴۲

کریں تو یہی پریشانی دکھائی دے گی۔

کیونکہ کیا ضرورت ہے کہ ہم کم و بیش 70 سال تک اس دنیا کی سختیوں کو برداشت کریں؟ اور ایک مدت تک بے تجربہ رہیں، اور جب تجربات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو عمر تمام ہوجائے ؟ اور اسی طرح سونا اور بیدار ہونا، دسیوں سال تک ہر روز یہی تھکادینے والے کام انجام دینا ان سب چیزوں کی کیا ضرورت تھی ؟ !

یہ عظیم الشان آسمان، وسیع و عریض زمین، اور ان میں پائی جانے والی تمام چیزیں، یہ اساتید، مربیّ، یہ بڑے بڑے کتب خانے اور ہماری اور دوسری موجودات کی خلقت میں یہ باریک بینی، اورظرافت کیا واقعاً یہ سب کچھ کھانے پینے، پہننے اور مادی زندگی بسر کرنے کے لئے ہیں؟

اس سوال کی بنا پر معاد اور قیامت کا انکار کرنے والے اس زندگی کے عبث ہونے کا اقرار کرتے ہیں، اور ان میں سے بعض لوگ اس بے معنی زندگی سے نجات پانے کے لئے خود کشی کو اپنے لئے افتخار سمجھتے ہیں !

کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص خداوندعالم اور اس کی بے نہایت حکمت پر ایمان رکھتا ہولیکن اس دنیا کو عالم آخرت کے لئے مقدمہ شمار نہ کرے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( َفَحَسِبْتُمْ َنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وََنَّکُمْ ِلَیْنَا لاَتُرْجَعُونَ ) (1) ''کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جائو گے''۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورۂ مؤمنون ، آیت 115.

۴۳

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر عالم آخرت نہ ہو تو اس دنیا کا خلق کرنا فضول ہے ۔

جی ہاں! یہ دنیوی زندگی اسی صورت میں با معنی اور حکمت خداوندی سے ہم آہنگ ہوتی ہے کہ جب اس دنیا کو عالم آخرت کی کھیتی قرار دیں''الدُّنْیَا مَزْرَعَةُ الآخِرَةِ'' ،یا اس کوعالم ِآخرت کے لئے پل قراردیں'' الدنیاقنطرة'' یا اس عالم کے لئے یونیورسٹی اور تجارت خانہ تصور کریں ، جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے عظیم کلام میں فرماتے ہیں: ''یاد رکھو کہ دنیا یقین کرنے والے کے لئے سچائی کا گھر ہے، سمجھ دار کے لئے امن و عافیت کی منزل ہے، اور نصیحت حاصل کرنے والے کے لئے نصیحت کا مقام ہے، یہ دوستان خدا کے سجود کی منزل اور آسمان کے فرشتوں کا مصلیٰ ہے، یہیںوحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور یہیں اولیاء خدا آخرت کا سودا کرتے ہیں، اوررحمت الٰہی حاصل کرلیتے ہیں اور جنت کے مستحق قرار پاتے ہیں''۔(1)

خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ اس جہان کے حالات کا مطالعہ اور تحقیق کے بعدیہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے بعد ایک دوسراجہان بھی موجود ہے

سوالات :

1۔قیامت کے بارے میں کوئی دلیل پیش کریں ؟

2۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے عظیم کلام میں دنیا کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟

الدُّنْیَا مَزْرَعَةُ الآخِرَةِ'' سے کیا مراد ہے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) نہج البلاغہ ،کلمات قصار کلمہ 131.

۴۴

( حصہ دوم )

( احکام)

۴۵

درس نمبر11

( تقلید )

تقلید کے معنی پیروی کرنا اور نقش قدم پر چلنا ہے ،یہاں تقلید کے معنی ''فقیہ'' کی پیروی کرنا ہے یعنی اپنے کاموں کو مجتہد کے فتویٰ کے مطابق انجام دینا۔

u ۔ جوشخص خود مجتہد نہیں اوراحکام ودستورات الٰہی کو حاصل بھی نہیں کرسکتا تواُسے مجتہد کی تقلید کرنا چاہئے ۔

u ۔ جس مجتہد کی تقلید کی جاتی ہے اسے ''مرجع تقلید'' کہتے ہیں۔

u ۔ جس مجتہد کی انسان تقلید کرے، اس میں مندرجہ ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے :

٭ مرد ہو۔ ٭ بالغ ہو

٭ عاقل ہو ٭ عادل ہو

٭ حلال زادہ ہو ٭ شیعہ اثنا عشری ہو ۔

٭ احتیاط واجب کی بناپرزندہ ،اعلم ہو اور دنیا طلب نہ ہو۔

u ۔ مجتہد اوراعلم کو پہچاننے کے طریقے :

الف: انسان خود اہل علم ہواور مجتہد اعلم کی شناخت کرسکتا ہو ۔یا ایسی شہرت ہو جس سے انسان کو اطمینان ہو جائے ۔

ب: دو عالم وعادل افراد جو مجتہد واعلم کی تشخیص کرسکیں، کسی کے مجتہدیا اعلم ہونے

۴۶

کی تصدیق کردیں

ج: اہل علم کی ایک جماعت، جو مجتہد واعلم کی تشخیص دے سکتی ہو اور ان کے کہنے پر اطمینان پیدا ہوسکتا ہو، کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کرے۔

u ۔ مجتہد کے فتویٰ کو حاصل کرنے کے طریقے :

٭ خود مجتہد سے سننا۔

٭ دویا ایک عادل شخص سے سننا۔

٭ ایک سچے اور قابل وثوق انسان سے سننا۔

٭مجتہد کے رسالہ عملیہ (توضیح المسائل )میں دیکھنا جبکہ ہر طرح کی غلطی اور اشتباہ سے مبرّاہو۔

u ۔ اگر مجتہد اعلم نے کسی مسئلہ میں فتویٰ نہ دیا ہو، تو اس کا مقلد دوسرے مجتہد کی طرف

اس مسئلہ میں رجوع کرسکتا ہے، بشرطیکہ دوسرے مجتہد کا اس مسئلہ میں فتویٰ پایا جاتا ہو، اور احتیاط واجب کی بناء پر جس کی طرف رجوع کیا جارہا ہے وہ مجتہد دوسرے مجتہدوں سے اعلم ہو۔

u ۔ اگر مجتہد کافتویٰ بدل جائے،تو مقلد کا اس کے نئے فتویٰ پر عمل کرنا چاہئے اور اس کے پہلے فتویٰ پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔

u روز مرہ پیش آنے والے مسائل کا یاد کرنا واجب ہے۔

مکلف کون ہے؟

عاقل ،بالغ اور وہ افرادجواحکام کو بجالانے کی قدرت رکھتے ہوں،مکلف ہیں، یعنی احکام کو انجام دینا ان پر واجب ہے، لہٰذا (نابالغ) بچے ،دیوانے (غیر عاقل) اور

۴۷

وہافراد جو احکام کو بجالانے کی قدرت نہیں رکھتے ،مکلف نہیں ہیں

بلوغ :

بلوغ کا مطلب ہے درج ذیل شرائط میں سے کسی ایک کا پایا جانا۔

1۔شکم کے نیچے اور اورشرمگاہ کے اوپر سخت بالوں کا نکل آنا

2۔احتلام (منی کا خارج ہونا )

3۔لڑکوں میں پندرہ سال اور لڑکیوں میں 9 سا ل قمری کے پورے ہونا

لڑکا یا لڑکی جب سن بلوغ کو پہنچ جائیں تو انھیں تمام شرعی فرائض کو انجام دینا چاہئے ، اگر اس سن سے کمتر بچے بھی نیک کام، جیسے نماز کو صحیح طریقے پر انجام دیں، تو ثواب پائیں گے ۔ توجہ رہے کہ سن بلوغ قمری سال سے حساب ہوتا ہے، چونکہ قمری سال 4 5 3 دن اور 6 گھنٹے کا ہوتا ہے اس لئے شمسی سال سے دس دن اور 18 گھنٹے کم ہوتا ہے ، اس طرح 9سال شمسی سے 96 دن اور 18 گھنٹے کم کرنے پر 9 سال قمری بن جاتے ہیں اور 15 سال شمسی سے 61 1 دن اور 6 گھنٹے کم کرنے پر 15 سال قمری بن جاتے ہیں ۔

سوالات :

1۔تقلید کے کیا معنیٰ ہیں ؟

2۔مرجع تقلید کے شرائط کیا ہیں؟

3۔مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کے طریقے بیان کیجئے؟

4۔مجتہد کے فتوے کو حاصل کرنے کے طریقے کیا ہیں ؟

5۔مکلف کون ہے؟

۴۸

درس نمبر 12

( نجاسات )

اسلام کچھ چیزوں کو نجس جانتا ہے ، اور مسلمانوں کو ان سے اجتناب کا حکم دیتا ہے :

1۔2۔ پیشاب و پاخانہ : خواہ انسان کا ہو یا ہر اس حرام گوشت حیوان کا جو خون جہندہ رکھتا ہو یعنی اگر اس کی رگ کو کاٹ دیں تو خون اچھل کر نکلتا ہے۔

3۔منی :اہر انسان اور خون جہندہ رکھنے والے حیوان کی منی نجس ہے ۔

4۔ مردار :انسان اور ہر خون جہندہ رکھنے والے حیوان کا مردہ نجس ہے ۔

5۔خون : انسان اور ہرخون جہندہ رکھنے والے حیوان کا خون نجس ہے ۔

6۔ خشکی کا کتا۔

7۔ خشکی کاسور۔

8۔ کافر جو خدا و رسول(ص) کا منکر ہے ۔

9۔ شراب ۔

10۔ فقاع (بیئر) جو، جو سے بنائی جاتی ہے ۔

( مطہرات )

1۔ پانی : مطلق اور پاک پانی ،ہر چیز کی نجاست کو پاک کر تا ہے ۔

2۔ زمین: اگر زمین پاک اور خشک ہے تو انسان کے پیر ، جوتے کے تلے اور ، گاڑی

۴۹

کے پہیہ وغیرہ کو پاک کردیتی ہے شرط یہ ہے کہ چلنے کی وجہ سے ان چیزوں کی نجاست زائل ہو گئی ہو ۔

3۔ آفتاب : سورج ،زمین ،چھت ، دیوار ، دروازہ ، کھڑکی اور درخت وغیرہ کو پاک کرتا ہے شرط یہ ہے کہ عین نجاست بر طرف ہوگئی ہو اور نجاست کی تری آفتاب کی گرمی سے خشک ہو جائے ۔

4۔ عین نجاست کا دور ہونا : اگر حیوان کا بدن نجس ہوجائے تو عین نجاست کے دور ہوتے ہی اس کا بدن پاک ہوجاتا ہے ، اور پانی سے دھونے کی ضرورت نہیں ہے ۔

5۔ استحالہ : اگر عین نجس اس طرح متغیر ہوجائے کہ اس پر اس کے سابقہ نام کا اطلاق نہ ہو بلکہ اسے کچھ اور کہا جانے لگے تو وہ نجاست پاک ہوجاتی ہے، جیسے کتا نمک کی کان میں گر کر نمک بن جائے تو پاک ہو جائے گا یا نجس لکڑی کو آگ جلا کر خاکستر کر دے تووہ خاکستر پاک ہوجائیگی۔

سوالات :

1۔ کوئی بھی پانچ نجاسات بیان کیجئے ؟

2۔ کیا سانپ کا خون نجس ہے ؟

3۔ زمین کن چیزوں کو پاک کرتی ہے ؟

4۔ استحالہ سے کیا مراد ہے ؟

۵۰

درس نمبر 13

( وضو )

وضو کا طریقہ :

پہلے نیت کرے کہ خدا کی خوشنودی کے لئے وضو انجام دیتا ہوں ''قربةً الی اللہ ''

پھرچہرے پر بال اگنے کی جگہ سے ٹھڈی کے آخری حصے تک دھوئے ،چہرہ دھونے کے بعد داہنے ہاتھ کو کہنی سے لے کر انگلیوں کے آخری سرے تک ( یعنی اوپر سے نیچے کی طرف) دھوئے اور پھر بائیں ہاتھ کو کہنی سے لے کر انگلیوں کے آخری سرے تک یعنی اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے اس کے بعد داہنے ہاتھ کی تری سے سر کے اگلے حصہ پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرے ۔ پھر داہنے ہاتھ کی بچی ہوئی تری سے داہنے پیر کی انگلیوں سے لے کر پیر کے ابھار تک مسح کرے ۔اسکے بعد بائیں ہاتھ سے بائیں پیر کی انگلیوں سے لے کر پیر کے ابھار کی جگہ تکمسح کرے ۔

( غسل )

چھ غسل واجب ہیں :

( 1 ) غسل جنابت (2)غسل میت (3) غسل مس میت (4) غسل حیض(5) غسل نفاس (6) غسل استحاضہ

( 1 ) غسل جنابت: اگر انسان جماع کرے ،یا اس سے منی نکل آئے تو اسے غسل

۵۱

جنابت کرنا چاہیے ۔

( 2 ) غسل میت: ہر مسلمان کو مرنے کے بعد اور دفن کرنے سے پہلے غسل دینا واجب ہے اسے غسل میّت کہتے ہیں ۔

( 3 ) غسل مس میت: اگر کوئی شخص کسی میت کو سرد ہونے کے بعد اور غسل میت سے پہلے مس کرلے تو اس پر غسل مس میت واجب ہوجاتا ہے ۔

( 4،5،6 ) غسل حیض،غسل نفاس،غسل استحاضہ،یہ تین غسل خواتین کے ساتھ مخصوص ہیں جنکی تفصیل کے لیے ہماری کتاب ''خواتین کے اہم مسائل '' کی طرف رجوع فرمائیں ۔

غسل کا طریقہ :

غسل میں چند چیزیں واجب ہیں :

1۔ نیت : غسل کو خدا کے لئے بجالائے اور معلوم ہونا چاہیے کہ کون سا غسل انجام دے رہا ہے ( یا دے رہی ہے )

2۔ نیت کے بعد پورے سر و گردن کو دھوئے اس طریقے سے کہ ایک ذرہ کہیں چھوٹنے نہ پائے ۔

3۔ سر و گردن کے بعد داہنے طرف کے پورے بدن کو دھوئے ۔

4۔ اس کے بعد بائیں طرف کے پورے بدن کو دھوئے ۔

مجنب پر چند چیزیں حرام ہیں :

1۔ خط قرآن ، اسم خدا ، اور اسماء انبیاء ، اسماء ائمہ طاہرین کو بدن کے کسی حصہ سے مس کرنا ۔

2۔ مساجد اور ائمہ علیہم السلام کے حرم میں ٹھہرنا ۔

3۔ کسی چیز کو رکھنے کے لئے مسجد میں داخل ہونا ۔

4۔ وہ سورہ جن میں سجدہ واجب ہے ان کی سجدہ والی آیت کا پڑھنا ۔

5۔ مسجد الحرام اور مسجد النبوی میں جانا ۔

۵۲

( تیمم کا طریقہ )

تیمم میں پانچ چیزیں واجب ہیں :

1۔ نیت ۔

2۔ دونوں ہاتھوں کو ملا کر ہتھیلیوں کو زمین پر مارے ۔

3۔ دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کوپوری پیشانی اور اس کے دونوں طرف جہاں سے سر کے بال اُگتے ہیں ابرو ئوں تک اور ناک کے اوپر تک کھینچے

4۔ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو داہنے ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرے ۔

5۔ داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرے ۔

نکتہ 1: جب انسان کے لئے پانی ضرر رکھتا ہو یا پانی تک رسائی ممکن نہ ہو یا نماز کا وقت تنگ ہو تو چاہیے کہ نماز کے لئے تیمم کرے ۔

نکتہ 2: مٹی ، کنکر ، ریت ، ڈھیلہ ، پتھر ، پر تیمم کرنا صحیح ہے ۔

۵۳

سوالات :

1۔ وضو کا طریقہ بیان کیجئے ؟

2۔غسل کا طریقہ بیان کیجئے ؟

3۔کتنے غسل واجب ہیں ؟

4۔ تیمم کا طریقہ بیان کیجئے ؟

5۔ تیمم کن چیزوں پر جائز ہے ؟

۵۴

درس نمبر 14

( نماز )

نماز دین کا ستون ہے، آنحضرت (ص) نے فرمایا : خدا کی قسم نماز کو حقیر سمجھنے والے اور ترک کرنے والے کومیری شفاعت نصیب نہیں گی۔(1)

٭واجب نمازیں چھ ہیں :

1۔ نماز پنجگانہ ۔

2۔ نماز آیات (سورج گہن و چاند گہن )

3۔ نماز میت۔

4۔ نماز طواف۔

5۔ نمازقسم و نذر وغیرہ

6۔ نماز قضاء والدین

تمام مسلمانوں کو پانچ وقت کی نماز پڑھنا واجب ہے ، صبح کی دورکعت ، ظہر کی چار رکعت ، عصر کی چار رکعت ، مغرب کی تین رکعت ، اور عشا کی چار رکعت ۔

٭اوقات نماز :

نماز صبح کا وقت ،صبح صادق سے لے کر سورج نکلنے کے وقت تک ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ وافی ۔ج2 ، جزء پنجم، ص 13 ۔

۵۵

نمازظہر و عصر کا وقت سورج کے زوال سے لے کر غروب آفتاب تک ہے۔نماز مغرب و عشا سورج ڈوبنے (مغرب ) سے لے کر آدھی رات تک ہے

( اذان )

نماز سے پہلے اذان کہنا مستحب ہے ، اس کی ترتیب یہ ہے :

اَللّٰهُ اَکبَرُ ''اللہ سب سے بڑا ہے '' 4 مرتبہاَشهَدُ اَن لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُُ ''میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ۔'' 2مرتبہ

اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰهِ ''میں گواہی دیتا ہوں کی محمد(ص) بن عبد اللہ ، اللہ کے رسول ہیں'' 2 مرتبہ

اَشهَدُ اَنَّ عَلِیّاً ولی الله (1) '' میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی تمام لوگوں پر اللہ کے ولی ہیں'' 2 مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ الصَّلٰوةِ ''نماز کے لئے جلدی کرو '' 2مرتبہحَیَّ عَلیٰ الفَلَاحِ ''کامیابی کے لئے جلدی کرو '' 2 مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمَلِ ''بہترین عمل کے لئے جلدی کر و '' 2 مرتبہ

اَللّٰهُ اَکبَرُ ''اللہ سب سے بڑا ہے '' 2مرتبہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔مراجع تقلید کے مطابق'' اَشهَدُ اَنَّ عَلِیّاً وَلِیُ اللّٰهِ '' ( میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی تمام لوگوں پر اللہ کے ولی ہیں) اذان و اقامت کا (جز) حصہ نہیں ہے ، لیکن'' اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰهِ '' کے بعد'' اَشهَدُ اَنَّ عَلِیاً وَلِیُّ اﷲِ '' بقصد تبرک و تیمن کہنا بہتر ہے ۔

۵۶

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ''خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے '' 2مرتبہ

( اقامت )

نماز کے لئے اذان کے بعداقامت کہنا مستحب ہے،اس کی ترتیب یہ ہے :

اَللّٰهُ اَکبَرُ ''اللہ سب سے بڑا ہے '' 2 مرتبہاَشهَدُ اَن لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُُ ''میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ۔'' 2مرتبہ

اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰهِ ''میں گواہی دیتا ہوں کی محمد(ص) بن عبد اللہ ، اللہ کے رسول ہیں'' 2 مرتبہ

اَشهَدُ اَنَّ عَلِیّاً ولی الله (1) '' میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی تمام لوگوں پر اللہ کے ولی ہیں'' 2 مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ الصَّلٰوةِ ''نماز کے لئے جلدی کرو '' 2مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ الفَلَاحِ ''کامیابی کے لئے جلدی کرو '' 2 مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمَلِ ''بہترین عمل کے لئے جلدی کر و '' 2 مرتبہ

قَد قَا مَتِ الصَّلَوٰةُ '' نماز قائم ہوگئی '' 2مرتبہ

لَااِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ '' خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے '' 1 مرتبہ

۵۷

سوالات:

1۔واجب نمازوں کے کے نام بتائیں ؟

2 ۔اذان کی ترتیب بیان کیجئے ؟

3۔اذان اور اقامت کا فرق بیان کیجئے ؟

4۔مراجع تقلیداذان و اقامت میں'' اَشهَدُ اَنَّ عَلِیّاً وَلِیُ اللّٰهِ '' کے بارے میں کیا فرماتے ہیں

۵۸

درس نمبر51

( نماز پڑھنے کا طریقہ )

نماز میں چند چیزوں کا انجام دینا ضروری ہے :

1۔ نیت : قبلہ رخ کھڑے ہونے کے بعد نیت کرے کہ میں دو رکعت نماز صبح پڑھتا ہوں(یا پڑھتی ہوں ) واجب قربة ً الی اللہ ۔

2۔تکبیرة الاحرام : نیت کے بعد ہاتھوں کو کان کی لو تک لیجا کر کہے'' اللہ اکبر'' پھر ہاتھوں کو نیچے لائے۔

3۔ قرائت : تکبیرة الاحرام کے بعد سورہ حمد کی تلاوت کرے۔ :

بِسمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

اَلحَمدُ لِلّٰهِ رَبِّ العٰالَمِینَ- الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ - مَالِکِ یَومِ الدِّینِ- اِیَّاکَ نَعبُدُ وَاِیَّاکَ نَستَعِینُ- اِهدِنَاالصِّرَاطَ المُستَقِیمَ - صِرَاطَ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیهِم غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیهِم وَلَا الضَّالِّینَ -

ترجمہ :

خداوند رحمن و رحیم کے نام سے (شروع کرتا ہوں )

ساری تعریفیں اس خدا کے لئے مخصوص ہیں جو جہانوں کا پالنے والا ہے ، جوبڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے جوجزا کے دن کا مالک ہے ، (پروردگار)ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں ، اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں، ہم کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ ،

۵۹

ایسے لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اپنی نعمتیں نازل کی ہیں ، ان لوگوں کا راستہ نہیں ، جن پر تو نے غصب نازل کیا ہے اور گمراہوں کا راستہ ۔

٭سورہ حمد پڑھنے کے بعد قرآن مجید سے کوئی ایک سورہ پڑھے مثلا سورہ توحید اس طرح :

بِسمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

قُل هُوَ اللّٰهُ اَحَد - اَللّٰهُ الصَّمَدُ - لَم یَلِد وَلَم یُولَد - وَلَم یَکُن لَّه کُفُواً اَحَد-

ترجمہ :

اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو رحمن و رحیم ہے۔

اے پیغمبر ! کہہ دیجئے وہ خدا یکتا ہے ، وہ خدا سب سے بے نیاز ہے،اس سے، کوئی پیدا نہیںہواہے اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور کوئی اس کا مثل و نظیر نہیں ہے ۔

٭مردوں پر واجب ہے کہ نماز صبح و مغرب و عشا میں سورہ حمد اور دوسرا سورہ بلند آواز سے پڑھیں ۔

٭ تکبیرة الاحرام(الله اکبر) کہتے وقت ہاتھوں کا کان کی لو تک اٹھانا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے ۔

4۔ رکوع : سورہ حمد اور دوسرے سورہ کے بعد رکوع میں جائے یعنی اس انداز میں جھکے کہ ہاتھ دونوں گھٹنوں تک پہنچ جائیں اور پھر پڑھے ،

'' سُبحَانَ رَبِّیَ العَظِیمِ وَ بِحَمدِه ''

یا تین مرتبہ کہے''سُبحَانَ اللّٰه''ِ یعنی میرا عظیم پروردگار ہر عیب و نقص سے پاک و

۶۰