معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۲

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )0%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 204

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: صفحے: 204
مشاہدے: 32113
ڈاؤنلوڈ: 2744


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32113 / ڈاؤنلوڈ: 2744
سائز سائز سائز
معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نہیں کیا گیا تو یہ حلال روزی ہے اور اگر غیر شرعی طریقہ سے حاصل ہونے والی روزی اگرچہ وہ ذاتی طور پر حلال ہو جیسے کھانے

پینے کی چیزیں؛ تو وہ حرام ہے اور ان کا اپنے پاس محفوظ رکھنا منع ہے اور ان کے اصلی مالک کی طرف پلٹانا واجب ہے۔

3۔ نعمت پر توجہ :

کسی بھی نعمت سے بغیر توجہ کئے فائدہ اٹھانا، چوپائوں، غافلوں اور پاگلوں کاکام ہے ، انسان کم از کم یہ تو سوچے کہ یہ نعمت کیسے وجود میں آئی ہے یا اسے ہمارے لئے کس مقصد کی خاطر پیدا کیا گیا؟ اس کے رنگ، بو اور ذائقہ میں کتنے اسباب و عوامل پائے گئے ہیں، المختصر یہ کہ بغیر غور و فکر کئے ایک لقمہ روٹی یا ایک لباس، یا زراعت کے لائق

زمین، یا بہتا ہوا چشمہ، یا بہتی ہوئی نہر، یا مفید درختوں سے بھرا جنگل، اور یہ کہ کتنے کروڑ یا کتنے ارب عوامل و اسباب کی بنا پر کوئی چیز وجود میں آئی تاکہ انسان زندگی کے لئے مفید واقع ہو ؟ !!

صاحبان عقل و فہم اور دانشور اپنے پاس موجود تمام نعمتوں کو عقل کی آنکھ اور دل کی بینائی سے دیکھتے ہیں تاکہ نعمت کے ساتھ ساتھ،نعمت عطا کرنے والے کے وجود کا احساس کریں اور نعمتوںکے فوائد تک پہنچ جائیں، نیز نعمت سے اس طرح فائدہ حاصل کریں جس طرح نعمت کے پیدا کرنے والے کی مرضی ہو۔

قرآن مجید جو کتاب ہدایت ہے ؛اس نے لوگوں کوخداوندعالم کی نعمتوں پر اس طرح متوجہ کیاہے :

( یَاَیُّهَاالنَّاسُ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اﷲِ عَلَیْکُمْ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُاﷲِ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَائِ

۱۴۱

وَالْأرْضِ لاَإلَهَ إلاَّ هُوَ فَأنَّی تُؤْفَکُونَ) .(1)

'' اے لوگو! اپنے اوپر ]نازل ہونے والی[ اللہ کی نعمت کو یاد کرو کیا ، ]کیا[ اس کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے ؟وہی تو تمھیں آسمان اور زمین سے روزی دیتا ہے اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ، پس تم کس طرف بہکے چلے جارہے ہو ''.

4۔نعمت پر شکر :

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت سے فائدہ اٹھانے کے بعد ''شکر ﷲ '' ]الٰہی تیرا شکر[ یا ''الحمد ﷲ'' کہہ دیا جائے ، یا اس سے بڑھ کر ''الحمد ﷲ رب العالمین'' زبان پر جاری کردیا جائے۔

یاد رہے کہ ان بے شمار مادی اور معنوی نعمتوں کے مقابلہ میں اردو یا عربی میں ایک جملہ

کہہ دینے سے حقیقی معنی میں شکر نہیں ہوتا، بلکہ شکر ، نعمت عطا کرنے والی ذات کے مقام اور نعمت سے ہم آہنگ ہونا چاہئے ، اور یہ معنی اس وقت تک متحقق نہیں ہوں گے، جب تک انسان اپنے اعضاء و اجوارح کے ذریعہ خداوندمتعال کا شکر ادا کرنے کے لئے ان افعال و اقدامات کو انجام نہ دے جن سے پتہ چل جائے کہ وہ پروردگارعالم کا اطاعت گزار بندہ ہے ، پس شکر خدا کے لئے ضروری ہے کہ انسان ایسے امور کو انجام دے جو خدا کی رضایت کا سبب قرار پائیں اور اس کی یاد سے غافل نہ ہونے دیں۔

کیا خداوندعالم کے اس عظیم لطف و کرم کے مقابلہ میں صرف زبانی طور پر''الٰہی تیرا شکر

'' یا ''الحمد للہ'' کہہ دینے سے کسی کوشاکر کہا جاسکتا ہے؟ !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ فاطر آیت 3

۱۴۲

خواجہ نصیر الدین طوسی ،علامہ مجلسی کی روایت کی بنا پر شکر کے معنی اس طرح فرماتے ہیں :

'' شکر، شریف ترین اور بہترین عمل ہے، معلوم ہونا چاہئے کہ شکر کے معنی قول و فعل اور نیت کے ذریعہ نعمتوں کے مدّمقابل قرار پانا ہے، اور شکر کے لئے تین رکن ہیں :

ا۔ نعمت عطا کرنے والے کی معرفت ، اوراس کے صفات کی پہچان، نیز نعمتوں کی شناخت کرنا ضروری ہے، اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں سب اسی کی طرف سے ہیں، اس کے علاوہ کوئی حقیقی منعم نہیں ہے، انسان اور نعمتوں کے درمیان تمام واسطے اسی کے فرمان کے سامنے سرِتسلیم خم کئے ہیں۔

2۔ ایک خاص حالت کا پیدا ہونا، اور وہ یہ ہے کہ انسان عطا کرنے والے کے سامنے خشوع و خضوع اور انکساری کے ساتھ پیش آئے اور نعمتوں پر خوش رہے، اور اس بات

پر یقین رکھے کہ یہ تمام نعمتیں خدا وندعالم کی طرف سے انسان کے لئے تحفے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ خداوندعالم انسان پر عنایت و توجہ رکھتا ہے، اس خاص حالت کی نشانی یہ ہے کہ انسان مادی چیزوں پر خوش نہ ہو مگر یہ کہ جن کے بارے میں خداوندعالم کا قرب حاصل ہو۔

3۔ عمل، اور عمل بھی دل، زبان اور اعضاء سے ظاہر ہونا چاہئے۔

دل سے خداوندعالم کی ذات پر توجہ رکھے اس کی تعظیم اور حمدو ثناکرے، اور اس کی مخلوقات اور اس لطف و کرم کے بارے میں غور و فکر کرے، نیز اس کے تمام بندوں تک خیر و نیکی پہنچانے کا ارادہ کرے۔

زبان سے اس کا شکر و سپاس، اس کی تسبیح و تہلیل اور لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے۔

۱۴۳

تمام ظاہری و باطنی نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے اس کی عبادت و اطاعت میںاعضاء کو کام میں لائے، اور اعضاء کو خدا کی معصیت و مخالفت سے روکے رکھے''۔

لہٰذا شکر کے اس حقیقی معنی کی بنا پر یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ شکر ،صفات کمال کے اصول میں سے ایک ہے، جو صاحبان نعمت میں بہت ہی کم ظاہر ہوتے ہیں، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( وَقَلِیل مِنْ عِبَادِی الشَّکُورُ) .(1)

'' اور ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ہیں ''.

5۔نعمت پر ناشکری سے پرہیز :

بعض لوگ ،حقیقی منعم سے بے خبر اورخداداد نعمتوں میں بغیر غور و فکر کئے اپنے پاس

موجودتمام نعمتوں کو مفت تصور کرتے ہیں، اور خودکو ان کا اصلی مالک تصورکرتے ہیں اور جو بھی ان کا دل اور ہوائے نفس چاہتا ہے ویسے ہی ان نعمتوں کو استعمال کرتے ہیں۔

یہ لوگ جہل و غفلت اور بے خبری اور نادانی میں گرفتار ہیں ،خدائی نعمتوں کو شیطانی کاموں اور ناجائز شہوتوں میں استعمال کرتے ہیں، اور اس سے بدتر یہ ہے کہ ان تمام خداداد نعمتوں کو اپنے اہل و عیال، اہل خاندان، دوستوں او ردیگر لوگوں کو گمراہ کرنے پر بھی خرچ کرڈالتے ہیں۔

اعضاء و جوارح جیسی عظیم نعمت کو گناہوں میں، مال و دولت جیسی نعمت کو معصیت و خطا میں ، علم و دانش جیسی نعمت کو طاغوت و ظالموں کی خدمت میںاور بیان جیسی نعمت کو

بندگان خدا کو گمراہ کرنے میں خرچ کرڈالتے ہیں !!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ سباء ،آیت 13.

۱۴۴

یہ لوگ خدا ئی نعمتوں کی زیبائی اور خوبصورتی کو شیطانی پلیدگی اور برائی میں تبدیل کردیتے ہیں، اور اپنے ان پست کاموں کے ذریعہ خود کو بھی اور اپنے دوستوں کو بھی جہنم کے ابدی عذاب کی طرف ڈھکیلے جاتے ہیں !

( َلَمْ تَرَی إلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اﷲِ کُفْرًا وَأحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَالْبَوَارِ٭جَهَنَّمَ یَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ) .(1)

'' کیاتم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے اللہ کی نعمت کو کفران نعمت سے بدل دیا اور اپنے قوم کو ہلاکت کی منزل تک پہنچا دیا۔یہ لوگ واصل جہنم ہوں گے اور جہنم کتنا بُرا ٹھکانہ ہے ''.

6۔نعمتوں کا بے شمار ہونا :

اگر ہم نے قرآن کریم کی ایک آیت پر بھی توجہ کی ہو تی تو یہ بات واضح ہوجاتی کہ خداوندعالم کی مخلوق اور اس کی نعمتوں کا شمار ممکن نہیں ہے، اور شمار کرنے والے چاہے کتنی بھی قدرت رکھتے ہوں ان کے شمار کرنے سے عاجز رہے ہیں. جیسا کہ قر آن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَلَوْ أنَّمَا فِی الْأرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أقْلَام وَالْبَحْرُ یَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اﷲِ إنَّ اﷲَ عَزِیز حَکِیم) (2)

'' اور اگر روئے زمین کے تمام درخت ،قلم بن جائیں اور سمندر میں مزید سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الٰہی تمام ہونے والے نہیں ہیں ،بیشک اللہ صاحب عزت بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ ابراہیم آیت ،28۔29.

(2)سورۂ لقمان آیت ،27.

۱۴۵

ہے اور صاحب حکمت بھی ''.

ہمیں اپنی پیدائش کے سلسلے میں غور و فکر کرنا چاہئے اور اپنے جسم کے ظاہری حصہ کو عقل کی آنکھوں سے دیکھنا چاہئے تاکہ یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ خداوندعالم کی نعمتوں کا شمار کرنا ہمارے امکان سے باہر ہے۔جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :

( وَإنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اﷲِ لاَتُحْصُوهَا إنَّ اﷲَ لَغَفُور رَحِیم ) .(1)

'' اور تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے ، بیشک اللہ بڑا مہربان اور بخشنے والا ہے ''.

7۔نعمتوںکی قدر شناسی :

جن افراد نے اس کائنات ، زمین و آسمان اور مخلوقات میں صحیح غور و فکر کرنے کے بعد خالق کائنات، نظام عالم ،انسان اور قیامت کو پہچان لیا ہے وہ لوگ اپنے نفس کا تذکیہ ، اخلاق کو سنوارنے، عبادت و بندگی کے راستہ کو طے کرنے اور خدا کے بندوں پر نیکی و احسان کرنے میں سعی و کوشش کرتے ہیں، درحقیقت یہی افراد خداوندعالم کی نعمتوں کے قدر شناس ہیں۔

جی ہاں ، یہی افراد خداکی تمام ظاہری و باطنی نعمتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں اور اس طریقہ سے خود اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے افراد دنیا و آخرت کی سعادت و خوش بختی تک پہنچ جاتے ہیں، اس پاک قافلہ کے قافلہ سالار اور اس قوم کے ممتاز رہبر انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں ، تمام مومنین شب و روز کے فریضہ الٰہی یعنی نماز میں انھیں کے راستہ پر برقرار رہنے کی دعا کرتے ہیں :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ نحل آیت ،18.

۱۴۶

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ ٭صِرَاطَ الَّذِینَ أنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلاَالضَّالِّینَ). (1)

'' ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ ۔جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تونے نعمتیں نازل کی ہیں ،ان کا راستہ نہیں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہیں ''.

جی ہاں، انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام خداوندعالم کی تمام مادی و معنوی نعمتوں کا صحیح

استعمال کیا کرتے تھے، اور شکر نعمت کرتے ہوئے اس عظیم مقام اور بلند مقام و مرتبت پر پہنچے ہوئے ہیں کہ انسان کی عقل درک کرنے سے عاجز ہے۔

خداوندمہربان نے قرآن مجید میں ان افراد سے وعدہ کیا ہے جو اپنی زندگی کے تمام مراحل میں خدا و رسول (ص)کے مطیع و فرمانبردار رہے ہیں، ان لوگوں کو قیامت کے دن نعمت شناس حضرات کے ساتھ محشور فرمائے گا۔

( وَمَنْ یُطِعْ اﷲَ وَالرَّسُولَ فَاُوْلَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أنْعَمَ اﷲُ عَلَیْهِمْ مِنْ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّهَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ اُوْلَئِکَ رَفِیقًا) .(2)

'' اور جو شخص بھی اللہ اوررسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیائ،صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اور یہی لوگ بہترین رفقاء ہیں ''.

8۔نعمتوں کا بیجا استعمال :

مسرف ]فضول خرچی کرنے والا[ قرآن مجید کی رُوسے اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنے

مال، مقام، شہوت اور تقاضوں کو شیطانی کاموں ، غیر منطقی اور بے ہودہ کاموں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ حمد آیت ،6۔7. (2)سورۂ نساء آیت69.

۱۴۷

خرچ کرتا ہے۔

خداکے عطا کردہ مال و ثروت اور فصل کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :

(... وَآتُوا حَقَّهُ یَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَتُسْرِفُوا إنَّهُ لاَیُحِب الْمُسْرِفِینَ) .(1)

'' اور جب فصل ]گندم، جو خرما اور کشمش[ کاٹنے کا دن آئے تو ان ]غریبوں، مسکینوں، زکوٰة جمع کرنے والوں، غیر مسلم لوگوں کو اسلام کی طرف رغبت دلانے کے لئے، مقروض، فی سبیل اللہ اور راستہ میں بے خرچ ہوجانے والوں[ کا حق ادا کردو اور

خبردار اسراف نہ کرنا کہ خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے ''.

جو لوگ اپنے مقام و منصب اور جاہ و جلال کو لوگوں پر ظلم و ستم ڈھانے، ان کے حقوق کو ضائع کرنے، معاشرہ میں رعب ودہشت پھیلانے اور قوم و ملت کو اسیر کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں، ان لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

(وَإنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْأرْضِ وَإنَّهُ لَمِنْ الْمُسْرِفِینَ) .(2)

'' اور یہ فرعون ]اپنے کو[ بہت اونچا ]خیال کرنے لگا[ہے اور وہ اسراف اور زیادتی کرنے والا بھی ہے ''.

اسی طرح جو لوگ عفت نفس نہیں رکھتے یا جولوگ اپنے کو حرام شہوت سے نہیں بچاتے اور صرف مادی و جسمانی لذت کے علاوہ کسی لذت کو نہیں پہچانتے اور ہر طرح کے ظلم سے اپنے ہاتھوں کو آلودہ کرلیتے ہیںنیز ہر قسم کی آلودگی ، ذلت اور جنسی شہوات سے پرہیز نہیں کرتے ، ان کے بارے میں بھی قرآن مجید فرماتا ہے :

( ِنَّکُمْ لَتَاْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَائِ بَلْ أنْتُمْ قَوْم مُسْرِفُونَ) .(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ انعام آیت ،141. (2)سورۂ یونس آیت83 (3)سورۂ اعراف آیت81.

۱۴۸

تم از راہ شہوت عورتوں کے بجائے مردوں سے تعلقات پیدا کرتے ہو اور تم یقینا اسراف اور زیادتی کرنے والے ہو ''.

قرآن مجیدان لوگوں کے بارے میں بھی فرماتا ہے جو انبیاء علیہم السلام اور ان کے معجزات کے مقابلہ میں تواضع و انکساری اور خاکساری نہیں کرتے اور قرآن ،اس کے دلائل اور خدا کے واضح براہین کا انکار کرتے ہیں اور کبر و نخوت، غرور و تکبر و خودبینی کا راستہ چلتے ہوئے خداوندعالم کے مقابل صف آرا نظر آتے ہیں، ارشاد ہوتا ہے :

(ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ فَأَنْجَیْنٰاهُمْ وَ مَن نَّشَآئُ وَ أَهْلَکْنٰا الْمُسْرِفِینَ) (1)

پھر ہم نے ان کے وعدہ کو سچ کر دکھایا اور انھیں اورا ن کے ساتھ جن کو چاہا بچالیا اور زیادتی کرنے والوں کو تباہ و بر باد کر دیا ''.

9۔نعمتوں کے استعمال میں بخل کرنا :

بخل اور اضافی نعمت کو مستحقین پر خرچ نہ کرنے کی برائی کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔

( وَلاَیَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمْ اﷲُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَیْرًا لَهُمْ بَلْ هُوَ شَرّ لَهُمْ سَیُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلِلَّهِ مِیرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضِ وَاﷲُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیر) (2)

'' اور خبردار جو لوگ خدا کے دیئے ہوئے میں مال میں بخل کرتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ سوچنا کہ اس بخل میں کچھ بھلائی ہے ۔یہ بہت برا ہے، اور عنقریب جس مال میں بخل کیا ہے وہ روز قیامت ان کی گردن میں طوق بنادیا جائے گا، اوراللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کی ملکیت ہے اور وہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے ''.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ انبیاء آیت9.(2)سورۂ آل عمران آیت180.

۱۴۹

10۔نعمت ، زائل ہونے کے اسباب و علل :

قرآن مجید کی حسب ذیل آیتوں (سورہ اسراء آیت 83،سورہ قصص آیت 76تا79، سورہ فجرآیت 17 تا 20، سورہ لیل آیت 8تا10) سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ درج ذیل چیزیں، نعمتوں کے زائل ہونے، فقر و فاقہ ، معاشی تنگ دستی اور ذلت و رسوائی کے اسباب ہیں :

نعمت میں مست ہونا، غفلت کا شکار ہونا، نعمت عطا کرنے والے کو بھول جانا، خداوندعالم سے منھ موڑلینا، احکام الٰہی سے مقابلہ کرنا اور خدا ، قرآن و نبوت اور امامت کے مقابل آجانا، چنانچہ اسی معنی کی طرف درج ذیل آیہ شریفہ اشارہ کرتی ہے :

( وَإذَا أَنْعَمْنَا عَلَی الْإنسَانِ أعْرَضَ وَنَأی بِجَانِبِهِ وَإذَا مَسَّهُ الشَّرُّ کَانَ یَئُوسًا) .(1)

اور ہم جب انسان پر کوئی نعمت نازل کرتے ہیں تو وہ پہلو بچاکر کنارہ کش ہوجاتا ہے اور جب تکلیف ہوتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے ''.

نعمت پر مغرور ہونا، مال و دولت پر حد سے زیادہ خوش ہونا ، غریبوں اور مستحقوں کا حق نہ دے کر آخرت کی زادہ راہ سے بے خبر ہونا، نیکی اور احسان میں بخل سے کام لینا، نعمتوں کے ذریعہ شروفساد پھیلانا، اوریہ تصور کرنا کہ میں نے اپنی محنت ، زحمت اور ہوشیاری سے یہ مال و دولت حاصل کی ہے، لوگوں کے سامنے مال و دولت ، اور زر و زینت پر فخر کرنا اور اسی طرح کے دوسرے کام، یہ تمام باتیں سورہ قصص کی آیات 76 تا 83 میں بیا ن ہوئی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ اسراء آیت83.

۱۵۰

یتیموں کا خیال نہ رکھنا، محتاج لوگوں کے بارے میں بے توجہ ہونا، کمزور وارثوں کی میراث کو ہڑپ لینا، نیز مال و دولت کا بجاری بن جانا، یہ سب باتیں حسب ذیل آیات میں بیان ہوئی ہیں، ارشاد ہوتا ہے :

( کَلاَّ بَلْ لاَّ تُکْرِمُونَ الْیَتِیمَ ٭وَلَا تَحٰاضُونَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِینَ٭وَتَأْکُلُونَ التُّرَاثَ أَکْلاً لَمَّا٭وَ تُحِبُّونَ الْمٰالَ حُبًّا جَمًّا).(1)

'' ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ تم یتیموں کا احترام نہیں کرتے ہو،اور لوگوں کو مسکینوں کے طعام دینے پر آمادہ نہیں کرتے ہو،اور میراث کے مال کو اکھٹا کرکے حلال و حرام سب کھالیتے ہو، اور مال دنیا کو بہت دوست رکھتے ہو''۔

اسی طرح خمس و زکوٰة ،صدقہ اور راہ خدا میں انفاق کرنے میں بخل سے کام لینے یا تھوڑا سا مال و دولت حاصل کرنے کے بعد خداوندعالم کے مقابل میں بے نیازی کا ڈنکا بجانے اورروز قیامت کو جھٹلانے، کے بارے میں بھی درج آیت اشارہ کرتی ہے :

(وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَ اسْتَغْنیٰ ٭وَکَذَّبَ بِالْحُسْنیٰ٭فَسَنُیَسِّرُهُ لِلْعُسْریٰ) (2)

'' اور جس نے بخل کیا اور لا پرواہی برتی اور نیکی کو جھٹلایا ہے ، ہم اس کے لئے سختی کی راہ ہموار کردیں گے ''

جس وقت انسان نعمتوں سے مالامال ہوجائے تو اس کو خداوندعالم اور اس کے بندوں کی بابت نیکی و احسان کرنے پر مزید توجہ کرنا چاہئے، خداوندعالم کی عطاکردہ نعمتوں کے شکرانہ میں اس کی عبادت اور اس کے بندوں کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا چاہئے، تاکہ اس کی نعمتیں باقی رہیںاور خداوندعالم کی طرف سے نعمت او رلطف و

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ فجر آیت ،17۔20. (2)سورۂ لیل آیت 8۔10

۱۵۱

کرم میں اور اضافہ ہو۔

11۔اتمام ِنعمت :

تمام مکتب تشیّع اور اہل سنّت کی معتبرکلامی کتب میں بیان کیا ہے(1) کہ جس وقت پیغمبر

اکرم (ص) ہدایت کے تداوم اور و دین کے تحفظ نیز دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کے لئے خداوندعالم کے حکم سے امام و رہبر اور فکر و عقیدہ اور اخلاق و عمل میں گناہوں سے پاک شخصیت حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام جیسی عظیم شخصیت کو 18 ذی الحجہ کو غدیر خم کے میدان میں اپنے بعد خلافت و ولایت اور

امت کی رہبری کے لئے منصوب فرمایا، اس وقت خداوندعالم نے اکمال دین اور اتمام نعمت اور دین اسلام سے اپنی رضایت کا اعلان فرمایا کہ یہی دین قیامت تک باقی رہے گا، ارشاد ہوا :

(...الْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الْإسْلاَمَ دِینًا...) (2

'' آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے''۔

جی ہاں، حضرت علی علیہ السلام کی ولایت ،حکومت ،رہبری اوردین و دنیا کے امور

میںآپ کی اطاعت کرنا اکمال دین اور اتمام نعمت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الغدیر ،ج1،ص6۔8. (2)سورۂ مائدہ آیت ،3.

۱۵۲

12۔نعمت سے صحیح فائدہ اٹھانے کا انعام :

وہ مومنین و مومنات جن کے دل ایمان سے آراستہ اور نفس برائیوں سے پاک ہیں اور وہ اعمال صالحہ بجالانے والے، حق بات کہنے والے، اپنے مال سے جود و کرم اور سخاوت

کرنے والے ، صدقہ دینے والے اور بندگان خدا کی مدد کرنے والے ہیں ؛ان کے لئے اجر و ثواب اور رضوان و جنت اور ہمیشہ کے لئے عیش و آرام کا وعدہ دیا گیا ہے۔

قرآن مجید نے اپنی نورانی آیات میں یہ اعلان کردیا ہے کہ اہل ایمان کے اعمال کا اجر و ثواب ضائع نہیں کیا جائے گا۔

کتاب الٰہی بلند آواز میں یہ اعلان کرتی ہے کہ خداوندعالم کا وعدہ سچا اور حق ہے اور اس کا وعدہ خلاف نہیں ہوتا۔

قرآن مجید، اہل ایمان اور اعمال صالحہ بجالانے والے افراد یا یوں کہا جائے کہ قرآن نے مومنین، محسنین، مصلحین، متقین اورمجاہدین کے لئے کئی قسم کا اجر بیان کیا ہے :

اجر عظیم، اجر کبیر، اجر کریم، اجر غیر ممنون، اجر حسن۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :

(وَعَدَ اﷲُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ مَغْفِرَة وَأجْر عَظِیم). (1)

'' اللہ نے صاحبان ایمان اور عمل صالح بجالانے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے ''۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ مائدہ آیت9.

۱۵۳

سوالات :

1۔قرآن مجید نے خدا کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کے بارے میں جن12اہم نکات کی طرف

توجہ دلائی ہے وہ کیا ہے ؟

2۔حصول نعمت کا راستہ کیا ہے ؟

3۔نعمتوں پر کس طرح شکر کیا جائے ؟

4۔نعمتوں کے استعمال میں بخل کرنے کے بارے میں کیا کہا گیا ہے ؟

5۔نعمت ، زائل ہونے کے اسباب و علل کیا ہیں ؟

6۔کونسی سورہ مبارکہ میں اتمام نعمت کا ذکر ہے اور اس سے کیا مراد ہے ؟

7۔نعمت سے صحیح فائدہ اٹھانے کا انعام کیا ہے ؟

۱۵۴

درس نمبر24 ( صلہ رحم )

دین اسلا م نے جن معاشرتی اور سماجی حقوق کی تاکید کی ہے ۔ اور مسلمانوں کو انکی پابندی کا حکم دیا ہے ۔ان میں سے ایک اپنے ا عزاء و اقرباء کے ساتھ ہمیشہ اچھے روابط قائم رکھنا ہے اسی کو صلہ رحم کہا جاتا ہے ۔لہذا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اعزوء اقرباء سے ملاقات کرتا رہے ان کی مزاج پرسی کرے ،ان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے ،اگر غریب ہوں تو ان کی امداد کرے ،پریشان حال ہوں تو ان کی پریشانیوں کو دور کرے اور ان کے ساتھ گھل مل کر رہے ،تقوی ٰالھی اور نیک اعمال کی انجام دھی میں ان کے ساتھ تعاون کرے ، اگر کسی کو کوئی مشکل درپیش ہو تو اسے حل کرنے کی کوشش کرے ،اگر ان کی طرف سے کوئی غلط رویہ یا کوئی ناروا کام دیکھے تو خوبصورت طریقے سے انہیں نصیحت کرے۔

یقیناًہرخاندان ، قبیلے اور سماج میں بہت سارے افراد پائے جاتے ہیں جن کی صلاحیتیں ،امکانات اور قابلیتیں مختلف ہوتی ہیں آپ کو ان کے اندر عالم ،جاہل ،مالدار ،غریب ۔تندرست وتوانا ،کمزور گویا ہر قسم کے افراد مل جائیں گے ۔

آخر وہ کونسی چیز ہے جو اس سماج اور معاشرہ کو ترقی یافتہ اور بالکل معتدل سماج بنا سکتی ہے؟ آپس کے تعلقات ،مستحکم روابط ،اور ایک دوسرے کی نسبت احساس ذمہ داری ہی

۱۵۵

وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے ہم اس نیک مقصد تک پہنچ سکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے مسلمانوں کو بھائی چارہ اور اخوت و برادری کو مستحکم سے مستحکم تر بنانے کی تاکید کی ہے اور کسی بھی حال میں ان روابط کو توڑنے یا کمزور کرنے کی اجازت نہیں دی ہے ۔

صلہ رحم روایات کی روشنی میں :

روایات اہل بیت (ع) میں صلہ رحم کی بے حد اہمیت بیان کی گئی ہے ۔ دین اور ایمان سے اسکے گہرے تعلق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ حضرت امام محمّد باقر (ع) نے

اپنے اجداد طاہرین کے ذریعہ رسول خدا (ص) سے یہ حدیث نقل فرمائی ہے ۔کہ آپ (ص) نے فرمایا : ''اپنی امت کے موجود ہ اور غیر موجود حتی ٰ مردوں کے صلبوں اور عورتوں کے ارحام میں موجود اور قیامت تک آنے والے ہر شخص سے میری وصیت ہے کہ اپنے اعزاء واقرباء کے ساتھ صلہ رحم کرے چاہے وہ اس سے ایک سال کی مسافت کے فاصلے پر کیوں نہ رہتے ہوں کیوں کہ یہ دین کا حصہ ہے ۔نیز حضرت امام علی رضا (ع) رسول خدا سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ(ص) نے فرمایا : ''جو شخص مجھ سے ایک بات کا وعدہ کرلے تو میں اسے چار چیزوں کی ضمانت دیتا ہوں ۔اور وہ یہ کہ وہ مجھ سے وعدہ کرے کہ اپنے اعزاء و اقرباء سے صلہ رحم کرے گا تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ خدا اسے محبوب رکھے گا ،اس کے رزق میں وسعت عطا کریگا ،اسکی عمر میں اضافہ فرمائیگا ،اور اس کواس جنّت میں داخل کردیگا ۔جس کا اس سے وعدہ کیا ہے۔(1) آپ (ص) نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) بحارالانوار ج74باب صلہ رحم

۱۵۶

اپنے ایک خطبہ کے دوران فرمایا :'' اس میں دین و ایمان ،طول عمر ،کثرت رزق ،خدا کی

محبت و رضا،جنّت اور کیا کچھ موجود نہیں ہے ۔ یہ صلہ رحم ہی تو ہے جو دنیا میں انسان کی ثروت مندی اور آخرت میں اس کی جنّت کا ضامن ہے ۔اور خدا کی مرضی تو سب سے

بڑی ہے جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ صلہ رحم کرنے والا دنیا میں حیات طیّبہ اور آخرت میں روشن اور تابناک مقدّر کا مالک ہے ۔ '' صلہ رحمی کی اتنی اہمیت اور عظمت کو پہچانے کے بعد کیا اب بھی یہ عذر صحیح ہے کہ اعزّاء و اقرباء سے ہم بہت زیادہ فاصلہ پر ہیں یا کام کی زیادتی کی بنا پر بہت زیادہ مصروف رہتے ہیں لہذا ان سے رابطہ نہیں رکھ پاتے ؟اور اگر کسی کا کوئی عزیز کسی کے ظلم کا شکار ہوتو کیا اس کے ساتھ یہ طریقہ کار واقعاًجائزہے؟

پیغمبر اسلام (ص) نے ہر مومن کے لئے ایک ایسا روشن اور واضح راستہ بتا دیا ہے جس پر چلنے والے ہر شخص سے خدا راضی رہے گا ۔روایات میں ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) سے کسی نے یہ شکایت کی کہ مجھے میری قوم والے اذیت دیتے ہیں لہذا میں نے یہی بہتر سمجھا کہ ان سے قطع تعلق کرلوں تو آپ (ص) نے فرمایا : '' خدا وند عالم تم سے ناڑاض ہوجائے گا اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول پھر میں کیا کروں ؟ آپ (ص) نے فرمایا : جو تمھیں محروم کرے اسے عطا کروجو تم سے رابطہ توڑے اس سے رابطہ قائم رکھو جو تمھارے اوپر ظلم کرے اسے معاف کردو اگر تم ایسا کرو گے تو ان کے مقابلہ کے لئے خدا وندمتعال تمھارا یارو مددگار ہے(1) مؤلاے کائنات نے فرمایا ہے : ''اپنے اعزّاء و اقرباء سے صلہ رحم کرو چاہے وہ تم سے قطع تعلق کرلیں ۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) احیاء العلوم کتاب الصحبہ والمعاشرہ

(2) بحار الانوار ج71 ص88 ،103تا 117

۱۵۷

قطع رحم (اعزاء واقرباء سے قطع تعلق ):

ہمیں بخوبی معلوم ہوچکا ہے کہ دین اسلام میں صلہ رحم اور اعزاء و اقرباء سے تعلقات استوار رکھنے کی کیا اہمیت ہے ۔ لہذااب یہ جاننا بھی مناسب ہوگا کہ ان لوگوں سے تعلقات توڑلینے کے بعد ایک مسلمان کی زندگی میں کتنے خطرناک اور بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہے :(فَهَل عَسَیتْم اِن تَوَلَّیتْم اَن تْفسِدْوا فِی الاَرض إوتْقَطِّعْوا اَرحاَمَکم) ' (1) 'تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحب اختیار بن جاؤتو زمین میں فساد برپا کرو اور قرابت داروں سے قطع تعلق کرلو .''

یا دوسری آیت میں ارشادہے :(اَلَّذِینَ یَنقْضْونَ عَهدَاللهِ من بعدِمیثاقهِ و یقطعون أما اَمَرَاللهْ به اَن یْوصل أوَیْفسِدون فی الارضِ اولئک هم الخاسرْون ) (2) ''جو خدا کے ساتھ مظبوط عہد کرنے کے بعداسے توڑدیتے ہیں اور جسے خدانے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقتاًخسارہ اٹھانے والے ہیں ''

درج بالا آیات میں خداوند عالم نے قطع رحم کو زمین میں فساد بر پا کرنے کے برابر قرار دیا ہے اور اس کی طرف متوجہ کیا ہے کہ ایک دوسرے سے تعلق توڑلینے کے بعد اور زمین میں فتنہ و فساد پھیلانے کے بعد بھی کیا تم کسی سعادت کے امیدوار ہو ؟ جبکہ خداوند متعال نے تم کو حکم دیا ہے کہ ہمیشہ آپسی بھائی چارگی اور صلہ رحم کو زیادہ سے زیادہ مستحکم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورہ مبارکہ محمّد آیت 22 (2)سورہ مبارکہ بقرہ آیت 27

۱۵۸

اور پائیدار بنائے رکھو

قطع رحم کے کیا خطرناک نتائج اور نقصانات ہوسکتے ہیں ان کو احادیث کی روشنی میںملاحظہ فرمائیں ۔

پیغمبراسلام (ص) کا ارشاد گرامی ہے ۔''جس قوم میں کوئی رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا موجود ہو اس پر رحمت نازل نہیں ہوسکتی(1)

مؤلائے کائنات (ع) سے مروی ہے : تین چیزیں ایسی ہیں جن کو انجام دینے والا اس وقت تک نہیں مرتا جب تک خود اس کا نتیجہ نہ بھگت لے ۔1۔ بغاوت 2۔ قطع رحم 3۔ جھوٹی قسم

احادیث کے مطابق جو اعزا ئواقرباء ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیتے ہیں ان پر رحمت الٰہی نازل نہیں ہوتی اور یہ کہ قطع رحم ان اعمال میں سے ہے جن کا بھیانک نتیجہ انسان دنیا میں ہی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے کیونکہ تعلقات اورروابط میں دوری اور آپسی رنجش ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے خطرناک آثار بہت جلد کھل کر سامنے آجاتے ہیں ۔اور قطع رحم کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنے ہاتھوں سے کانٹے بورہا ہو کہ کل اسے کانٹے ہی کانٹناپڑیں گے اسی طرح شرّاور برائی کے بیج بونے سے ندامت اور گھاٹیکے سوا کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)کنز العما ل ج8 ص796

۱۵۹

سوالات :

1۔صلہ رحم سے کیا مراد ہے ؟

2۔صلہ رحم کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) کی روایت بیان کیجئے ؟

3۔صلہ رحم کے بارے میں حضرت امام علی رضا(ع) کی روایت بیان کیجئے ؟

4۔قطع رحم کے بارے میں کوئی آیت بیان کیجئے ؟

5۔قطع رحم کرنیوالے کے بارے میں مولائے کائنا ت سے نقل شدہ روایت بیان کیجئے ؟

۱۶۰