معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۲

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )0%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 204

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: صفحے: 204
مشاہدے: 32119
ڈاؤنلوڈ: 2744


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32119 / ڈاؤنلوڈ: 2744
سائز سائز سائز
معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

معارف اسلامی کورس

( عقائد، احکام،اخلاق )

( 2 )

ترتیب و تدوین

سیّد نسیم حیدر زیدی

۱

بسم الله الرحمن الرحیم

۲

فہرست

پیشگفتار 5

حصہ اوّل ( عقائد ) 8

درس نمبر 1 ( توحید اور شرک کی پہچان ) 9

درس نمبر 2 ( کیا غیر خدا کو پکارنا شرک ہے ؟ ) 16

درس نمبر 3 ( غیرخدا سے مدد مانگنا کیسا ہے؟ ) 22

درس نمبر4 ( بدأ ) 25

درس نمبر 5 ( توسل ) 30

درس نمبر 6 ( اولیائے خدا کی ولادت کے دن جشن منانا ) 35

درس نمبر 7 ( عدم تحریف قرآن ) 40

درس نمبر 8 ( منصب امامت ) 47

درس نمبر 9 ( صحابہ کرام ) 52

درس نمبر 10 60

( شفاعت ) 60

دوسرا حصہ ( احکام ) 63

سبق نمبر11 ( تقلید ) 64

درس نمبر12 ( طہارت و نجاست ) 69

درس نمبر13 ( وضو ) 75

درس نمبر 14 ( حصہ اول ۔غسل ) 81

حصہ دوم ( تیمم ) 87

درس نمبر15 ( نماز ) 90

۳

درس نمبر16 ( واجبات نماز ) 94

درس نمبر18 ( روزہ کی قضا اور اس کا کفارہ ) 107

درس نمبر19 ( خمس ) 111

حصہ سؤم ( آداب واخلاق ) 123

درس نمبر 21 ( عبادت اور عبودیت ) 124

درس نمبر 22 131

درس نمبر 23 ( نعمتیں اور انسان کی ذمہ داری ) 138

درس نمبر24 ( صلہ رحم ) 155

درس 25 ( مذاق اڑانا اور استہزاء کرنا ) 161

درس نمبر6 2 ( سوئِ ظن ) 167

درس نمبر27 ( غیبت ) 171

درس نمبر28 ( غیبت کے آثار ) 176

درس نمبر29 ( گناہ اور اس کے آثار ) 182

درس نمبر30 ( توبہ ) 191

۴

پیشگفتار

انسان کی عقل ہمیشہ اور ہر وقت کچھ سوالات کے جواب کی تلاش میں رہتی ہے،اگر یہ سوالات واضح اور حل ہوجائیں تو اس کے ضمن میں سیکڑوں سوالات سے خود بخود نجات مل جائے گی ، انسان کی عقل اچھے اور برے ، غلط اور صحیح ، حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے پر قادر ہے اور جب تک ان سوالات کو حل نہ کرلے ،اس وقت تک اپنی جگہ پر آرام و اطمینان سے نہیں بیٹھ سکتی، لہٰذا ان کا حل دل و دماغ کے لئے سکون کا باعث ہے ۔ ان سوالات میں سے کچھ کا تعلق ''اصول دین ''سے ہوتا ہے ،کچھ کا تعلق ''فروع دین ''سے اور کچھ کا تعلق'' اخلاق '' سے ہوتا ہے

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں صحیح تعلیم و تربیت کے فقدان کے سبب نوجوان ''معارف اسلامی ''سے نا آگاہ ہیں جسکی وجہ سے بعض ایسے خرافاتی اور بے بنیاد مسائل کو دین اسلام کا جز اور عقائدکا حصہ سمجھتے ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا اور پھر وہ ان ہی باطل عقیدوں کے ساتھ پرائمری ،پھر ہائی اسکول اور انٹر کالج اور اس کے بعد یونیورسٹی میں تعلیم کے لئے چلے جاتے ہیں اور یہاں پروہ مختلف افراد، متفرق عقائد کے لوگوں سے سروکار رکھتے ہیں ، چونکہ ان کے عقیدہ کی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی اور خرافاتی چیزوں کو مذہب کا رکن سمجھتے ہیں اس لئے مختصر سے ہی اعتراضات اور شبہات میں پریشان و متحیر ہوجاتے ہیں ، علمی معیار و عقائدی معلومات کی کمی کی وجہ سے حق و باطل، اچھے اور برے ، غلط و صحیح میں تمیز نہیں دے پاتے جس کے نتیجہ میں اصل دین اور روح اسلام سے بد ظن ہو جاتے ہیں، حیران و سرگردان زندگی

۵

بسر کرتے ہیں ، یا کلی طور پر اسلام سے منھ موڑ لیتے ہیں ، یا کم از کم ان کے اخلاق و رفتار اور اعمال پر اتنا گہرا اثر پڑتا ہے کہ اب ان کے اعمال کی پہلی کیفیت باقی نہیں رہتی ہے اور احکام و عقائد سے لاپروا ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح کی غلط تربیت اور اس کے اثر کو آپ معاشرے میں بخوبی مشاہدہ کر سکتے ہیں اور کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو ان بے چاروں کو ذلت و گمراہی کے اندھیرے سے نکالنے کی فکر کرے ۔

ہمیں چاہیے کہ ایک منظم اور صحیح پروگرام کے تحت نوجوانوں کو صحیح معارف اسلامی سے آگاہ کریں اور بے بنیاد، غلط ماحول اور رسم و رسومات کے خرافاتی عقائد کی بیخ کنی اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں ، ان کے لئے آسان اور علمی کتابیں فراہم کریں ، لائبریری بنائیں اور کم قیمت یا بغیر قیمت کے کتابیں ان کے اختیار میں قرار دیں ، ہر ممکن طریقہ سے پڑھنے لکھنے کی طرف شوق و رغبت دلائیں ۔

سر دست یہ کتاب معارف اسلامی کورس کے عنوان سے نوجوانوں کی دینی معلومات میں اضافہ کیلئے ترتیب دی گئی ہے ، اور اس کے لکھنے میں مندرجہ ذیل نکات کی طرف بھرپور توجہ رکھی گئی ہے ۔

1۔ کتاب کے مطالب دلیل و برہان کی روشنی میں نہایت سادہ اور آسان انداز میں بیان کئے گئے ہیں اور اختصار کے سبب صرف ضروری حوالوں پر اکتفا ء کیا گیا ہے ۔

2۔حتیٰ الامکان لکھنے میں علمی اصطلاحوں سے گریز کیا گیا ہے تاکہ کتاب کا مطالعہ لوگوں کے لئے تھکاو ٹ کا سبب نہ بنے ۔

4۔ مشکوک و مخدوش ، بے فائدہ اور ضعیف مطالب سے اجتناب کیا گیا ہے ۔

5۔ اس کتاب میں ان مہم مطالب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا جاننا ہر مسلمان پر

۶

واجب ہے ، تاکہ قارئین دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور پھر تفصیلی کتابوں کی طرف مائل ہوں۔

قارئین کرام اس مختصر سی کتاب میں عقائد ،احکام اور اخلاق کے تمام مسائل کو بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ اختصارکے پیش نظر صرف چیدہ چیدہ مطالب کو بیان کیا گیا ہے ۔تاکہ قارئین دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور پھر تفصیلی کتابوں کی طرف مائل ہوں۔

موجودہ کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے

پہلا حصہ، عقائد : اس حصہ میں عقیدہ سے متعلق بعض مخالفین کی طرف سے کیے گئے اعتراضات کے نہایت ہی مختصر اور سادہ انداز میں عقلی اور نقلی جوابات دے گئے ہیں ۔

دوسرا حصہ، احکام:جن پر عمل کرنا مکلّف کے لئے ضروری و واجب ہے ۔ اس حصہ میں تمام احکامات کو'' حضرت آیت اللہ العظمیٰ حاج سیّد علی خامنہ ای ''مدّظلّہ العالی کے فتوے کے مطابق بیان کیا گیا ہے ۔

تیسرا حصہ، اخلاق : اس حصہ میںبعض وہ چیزیں بیان ہوئی ہیں جو انسان کی باطنی حالت اور خواہشات سے تعلق رکھتی ہیں ،اور اس کی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتی ہیں ۔جن پر عمل کرکے وہ دنیاو آخرت کی سعادت حاصل کرسکتا ہے۔

آخر میں ہم بارگاہ خداوندی میں دست بدعا ہیں کہ وہ اس ناچیزکوشش کو قبول فرمائے۔ اور تمام ان حضرات کو اجر عظیم عطا فرمائے جھنوں نے اس کوشش میں کسی بھی قسم کا تعاون فرمایا۔ طالب دعا

سید نسیم حیدر زیدی

قم المقدسہ

۷

حصہ اوّل ( عقائد )

۸

درس نمبر 1 ( توحید اور شرک کی پہچان )

توحید اور شرک کی بحث میں سب سے اہم مسئلہ دونوں کے معیار کی شناخت ہے۔ اگر کلیدی طور پر اس مسئلہ کو حل نہ کیا گیا تو بہت سے بنیادی مسائل کا حل ہونا مشکل ہے لہٰذا ہم مختصرطور پریہاں عبادت کے مرحلہ میں توحید اور شرک کے معیار پر بحث کرتے ہیں ۔

عبادت میں توحید کی بحث کا اہم جزو یہ ہے کہ عبادت کے معنی کا تعین ہوجائے کیونکہ اس مسئلہ میں ہر مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ عبادت صرف خدا کی ذات سے مخصوص ہے اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں ہوسکتی۔ یہ اتفاقی مسئلہ ہے۔ قرآن مجید میں اس سلسلہ میں ارشاد ہوتا ہے:(ایّاک نعبد و ایّاک نستعین) (1)

'' ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ''

قرآن مجید کی آیتوں سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ تمام انبیاء اور سفر اء الٰہی کی دعوت میں یہ بات مشترک تھی اور تمام انبیاء کا یہی پیغام تھا۔ خداوند عالم قرآن مجید میں اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:(وَ لَقد بَعثْنٰا فی کل أمّة رسولا ان اعبدوا اللّٰه واجتنبوا الطَّاغوت) (2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ حمد، آیت 4۔ (2)۔ سورہ مبارکہ نمل، آیت 36۔

۹

'' ہم نے ہر اُمت میں ایک پیغمبر بھیجا تاکہ تم خدا کی عبادت کرو اور طاغوت سے دور رہو۔ ''

اس سے یہ معلوم ہوا کہ بنیادی بات یہی ہے کہ عبادت خدا کی ذات سے مخصوص ہے۔ اگر اس کے خلاف کسی کا عقیدہ ہو تو اس کو موحد نہیں کہا جائے گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''عبادت'' اور ''غیر عبادت'' کے پہچاننے کا معیار کیا ہے؟

کیا ماں باپ، معلم ، علماء کا ہاتھ چومنا ،یا جو احترام کا مستحق ہو، اس کا احترام کرنا عبادت ہے؟ یا مطلق خضوع اور احترام کا نام عبادت نہیں ہے بلکہ اس خضوع اور احترام میں کسی ایک عنصر کا ہونا لازمی ہے جب تک وہ عنصر نہ پایا جائے اس وقت تک اس فعل کو عبادت نہیں کہا جائے گا۔

اب اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ وہ کون سا عنصر ہے جس کے بغیر خضوع اور احترام عبادت نہیں بنتا؟ اور یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔

عبادت کا غلط مفہوم :

بعض مصنفین نے ''خضوع'' یا ''غیر معمولی خضوع'' کو عبادت قرار دیا ہے۔ ایسے افراد قرآن مجید کی بعض آیتوں کو حل کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ قرآن مجید نے بہت ہی واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو۔

(وَإذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَم) (1) ''ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کو سجدہ کرو۔ ''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ بقرہ، آیت 24۔

۱۰

یہ صحیح ہے کہ آدم ـ کو سجدہ کرنے کا وہی طریقہ تھا جو خدا کو سجدہ کرنے کا ہے لیکن آدم کو کیا جانے والا سجدہ تواضع اور فروتنی کی بنیاد پر انجام پا رہا تھا اور خداکا سجدہ عبادت اور پرستش کی نیت سے ادا ہوتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی چیز ہے جس نے ایک ہی طرح کے دو سجدوں کی حقیقت اور ماہیت بدل دی؟

قرآن مجید نے ایک دوسرے مقام پر جناب یعقوب کا قصہ یوں بیان کیا ہے کہ جناب یعقوب اور ان کے بیٹوں نے جناب یوسف ـ کو سجدہ کیا۔

( وَرَفَعَ أبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاَبَتِ هَذَا تَاْوِیلُ رُؤْیَای مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّی حَقًّا) (1)

حضرت یوسف ـ نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور سب نے ان کا سجدہ کیا اور یوسف ـ نے کہا باباجان! یہ اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے دیکھا تھا۔ خدا نے اس کی حقانیت ثابت کردی۔

حضرت یوسف ـ نے خواب میں دیکھا تھا :

(إِنّی رَأیْتُ أحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رأیْتُهُمْ لِی سَاجِدِینَ) (2)

میں نے گیارہ ستاروں اور سورج و چاند کو دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔

چونکہ جناب یوسف اپنے وابستگان کے سجدہ کو اپنے خواب کی تعبیر بتا رہے ہیں۔

اس لیے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گیارہ ستاروں سے مراد آپ کے گیارہ بھائی اور

چاند سورج سے مراد آپ کے ماں باپ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ یوسف، آیت 100۔ (2)۔ سورہ مبارکہ یوسف، آیت 4۔

۱۱

بیان گزشتہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ صرف جناب یوسف ـ کے بھائیوں نے سجدہ نہیں کیا تھا بلکہ آپ کے ماں باپ نے بھی سجدہ کیا تھا۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے سجدہ کو جس میں حد درجہ کا خضوع اور فروتنی شامل ہے۔ عبادت کا نام کیوں نہیں دیا گیا؟

عذرِ گناہ بدتر از گناہ :

مذکورہ مصنفین کا وہ گروہ جو جواب دینے سے عاجز ہے یہ کہتا ہے کہ چونکہ خضوع ، خدا کے حکم سے تھا اس لیے شرک نہیں ہے۔

ظاہر ہے یہ جواب درست نہیں ہے کیونکہ اگر کسی عمل کی حقیقت وماہیت، شرک ہو تو خدا اس کا کبھی حکم ہی نہیں دے سکتا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

(قُلْ إنَّ اﷲَ لاَیأمُرُ بِالْفَحْشَائِ أتَقُولُونَ عَلَی اﷲِ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) (1)

'' کہہ دیجئے کہ بے شک خدا تم کو برائی کا حکم نہیں دے سکتا کیا تم جو نہیں جانتے خدا کی طرف اس بات کی نسبت دیتے ہو۔ ''

اصولی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ صرف خدا کا حکم کسی چیز کی ماہیت کو نہیں بدلتا اگر ایک انسان کے سامنے خضوع سے پیش آنے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ عبادت ہے تو اگر خدا بھی حکم دے تو یہی ماہیت رہے گی، یعنی اس انسان کی عبادت ہی ہوگی۔

اس مسئلہ کا جواب اور عبادت کے حقیقی معنیٰ کی وضاحت :

یہاں تک اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ ''غیر خدا کی پرستش'' غلط اور ممنوع ہے اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ اعراف، آیت 28۔

۱۲

اس پر تمام موحدین کا اتفاق ہے اور دوسری بات یہ بھی معلوم ہوگئی کہ جناب آدم ـ کے لیے فرشتوں کا سجدہ اور جناب یوسف ـ کے لیے حضرت یعقوب اور ان کے بیٹوں کا سجدہ عبادت نہیں ہے۔

اب اس بات کی تحقیق کا وقت ہے کہ ایک ہی عمل کبھی عبادت کیسے بن جاتا ہے اور وہی عمل عبادت کے زمرہ سے خارج کیسے ہوجاتا ہے۔

قرآن کی آیتوں کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کسی موجود کے سامنے خدا سمجھ کر خضوع سے پیش آیا جائے یا اس کی طرف خدائی کاموں کی نسبت دی جائے اور خضوع اختیار کیا جائے تو یہ عبادت ہے اس بیان سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ کسی موجود کے سامنے اس کے خدا ہونے کا عقیدہ رکھ کر یا خدائی کاموں کی انجام دہی کی توانائی کے عقیدہ کے ساتھ خضوع کیا جائے تو یہی عنصر وہ ہے جو خضوع کو عبادت کا رنگ دے دیتا ہے۔

جزیرة العرب اور دوسرے علاقوں کے مشرکین، بلکہ ساری دنیا کے مشرکین اس چیز کے سامنے خضوع و خشوع کا مظاہرہ کرتے تھے جس کو مخلوقِ خدا سمجھتے ہوئے کچھ خدائی کاموں کا مالک سمجھتے تھے اور کم سے کم ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ گناہ بخشنے کا حق رکھتے ہیں اور مقام ِ شفاعت کے مالک ہیں۔

بابل کے مشرکین اجرامِ آسمانی کی پرستش کرتے تھے وہ ان کو اپنا خالق نہیں بلکہ رب مانتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ کائنات اور انسانوں کے انتظام کی ذمہ داری ان کو سونپ دی گئی ہے۔ جناب ابراہیم ـ نے ان سے اسی عقیدہ کی بنا پر مناظرہ کی تھا، کیوں کہ بابل کے مشرکین ستاروں اور آفتاب و ماہتاب کو پیدا کرنے والا خدا نہیں سمجھتے تھے، وہ تو

۱۳

ان کی ربوبیت کے قائل تھے۔

قرآن مجید نے بابل کے مشرکین سے حضرت ابراہیم ـ کے مناظرہ کے ذکر میں لفظ ''رب''(1) کو محور بنایا ہے۔ اور رب کے معنی مالک اور اپنے مملوک کے مدبر کے ہیں۔

عرب، گھر کے مالک کو ''رب البیت'' اور کھیتی کے مالک کو ''رب الضیعہ'' کہتے ہیں کیوں کہ گھر کا مالک گھر کے امور کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اور کھیت کا مالک کھیت کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتا ہے۔

قرآن مجید نے مدبر اور اور پروردگارِ کائنات کے عنوان سے خدا کا تعارف کرایا ہے۔ پھر دنیا کے سارے مشرکین سے مبارزہ کرتے ہوئے ان کو ایک خدا کی پرستش کی دعوت دی ہے۔

(ِإنَّ اﷲَ رَبِّی وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاط مُسْتَقِیم ) (2)

'' بیشک ہمارا اور تمہارا رب خدا ہے اسی کی عبادت کرو، یہی صراط مستقیم ہے۔ ''

(ذَلِکُمْ اﷲُ رَبُّکُمْ لاَإلَهَ إلاَّ هُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ فَاعْبُدُوهُ) (3)

'' وہی خدا تمہارا رب ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہ تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو۔ ''

قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ کی حکایت کرتے ہوئے کہا :

( وَقَالَ الْمَسِیحُ یَابَنِی إسْرَائِیلَ اعْبُدُوا اﷲَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ) (4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ انعام، آیت 78۔ 86۔ (2)۔ سورہ مبارکہ آل عمران: آیت 51۔ (3)۔ سورہ مبارکہ انعام، آیت 102۔ (4)۔ سورہ مبارکہ مائدہ، آیت 72۔

۱۴

'' حضرت عیسیٰ ـ نے فرمایا:اے بنی اسرائیل تم خدا کی پرستش کرو وہ ہمارا اور تمہارا رب ہے۔ ''

بہرحال بیان گزشتہ کی روشنی میں یہ معلوم ہوگیا کہ ربوبیت کے عقیدہ یا کسی موجود کی طرف خدائی کاموں کی نسبت دیئے بغیر عبادت کا عنوان پیدا نہیں ہوتا،چاہے خضوع اور فروتنی اپنی انتہا تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے۔

اسی وجہ سے ماں باپ کے سامنے اولاد کا خضوع، انبیاء کے سامنے امت کا خضوع جو مذکورہ بالا قید سے خالی ہو، عبادت نہیں ہے۔

اس بنا پر وہ سارے کام غیر خدا کی عبادت سے خارج ہیں جن کو کچھ نا واقف افراد غیر خدا کی پرستش اور شرک قرار دیتے ہیں۔ مثلاً۔ آثار اولیاء کو متبرک سمجھنا، ضریح کو بوسہ دینا، حرم کی در و دیوار کو چومنا، خدا کے مقرب بندوں کو وسیلہ بنانا، اس کے صالح بندوں کو پکارنا، اولیاء خدا کی ولادت اور شہادت کی تاریخوں کی یادگار منانا وغیرہ۔

سوالات :

1۔ سورہ مبارکہ نمل، آیت نمبر 36 کاپیغام کیا ہے ؟

2۔قرآن کی کوئی آیت پیش کیجئے جو یہ بیان کرتی ہوکہ عبادت، خدا کی ذات سے مخصوص ہے ؟

3۔ عبادت کے غلط مفہوم کی وضاحت کیجئے ؟

4۔قرآن کی وہ کونسی آیتیںہیں جن میں جناب حضرت آدم (ع) اور جناب حضرت یوسف (ع) کو کیے جانے والے سجدہ ذکر ہے ؟

5۔ عبادت اور غیر عبادت کے معیارکی وضاحت کیجئے ؟

۱۵

درس نمبر 2 ( کیا غیر خدا کو پکارنا شرک ہے ؟ )

ایک اعتراض یہ کیا جاتاہے کہ کیا خدا کے علاوہ دوسروں کو پکارنا ان کی پرستش کا لازمہ اور شرک نہیںہے؟

اس اعتراض کے اٹھنے کا سبب بعض وہ آیتیں ہیں جن کے ظاہر سے غیر خدا کو پکارنے کی نفی ہوتی ہے۔ ارشاد رب ّ العزت ہے :

'' و أن المَسٰاجد لِلّهِ فَلا تَدْعُوا مع اللّٰهِ أَحَدًا'' (1)

مسجدیں خدا کی ہیں پس خدا کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔

'' وَلا تَدْعُ مِنْ دون اللّٰهِ مَا لَا یَنفعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ '' (2)

خدا کو چھوڑ کر ایسی چیز کو نہ پکارنا جو نہ تم کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان کچھ لوگوں نے ان آیات کو بنیاد بناکر اولیاء خدا اور صالحین کے دنیا سے چلے جانے کے بعد انہیں پکارنے کو شرک اور ان کی پرستش سمجھ لیا ہے۔

اس سوال کے جواب کے لیے لفظ ''دعا'' اور'' عبادت'' کی وضاحت اور تشریح ضروری ہے۔

عربی زبان میں ''دعا'' کے معنی پکارنے اور بلانے کے اور ''عبادت'' کے معنی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ جن، آیت نمبر 18 (2)۔ سورہ مبارکہ یونس، آیت نمبر 106

۱۶

پرستش کے ہیں اور ان دونوں الفاظ کو کسی صورت مترادف اور ہم معنی نہیں سمجھنا چاہیے۔

یعنی ہر'' ندا ''اور درخواست کرنے کو عبادت اور پرستش نہیں کہا جاسکتا ۔ کیونکہ

پہلی بات تو یہ کہ قرآن کریم نے لفظ ''دعوت'' کو ان جگہوں پر استعمال کیا ہے جہاں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سے مراد عبادت ہے۔ جیسے(قَالَ ربّ انّی دعوت قومی لیلاً ونهارا) (1)

''( حضرت نوح نے فرمایا) پالنے والے میں نے (تیری طرف) اپنی قوم کو شب و روز بلایا۔ ''

کیا یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت نوح کا مقصد یہ ہے کہ میں نے اپنی قوم کی شب و روز عبادت کی ہے۔

اس بنا پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دعوت اور عبادت ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔ اور اگر کسی نے پیغمبر یا کسی صالح بندہ سے مدد طلب کی اور انہیں پکارا تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے ان کی عبادت کی ہے۔ کیونکہ دعوت ایک ندائِ عام ہے اور پرستش خاص ہے۔

دوسری بات یہ کہ ان تمام آیتوں میں لفظ ''دعا'' مطلقاً پکارنے کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ایک خاص دعوت کے لیے استعمال ہوا ہے جو پرستش اور عبادات کے ساتھ ہوا کرتی ہے کیوں کہ مجموعی طور پر یہ آیتیں ان بت پرستوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو اپنے بتوں کو چھوٹا خدا سمجھتے تھے۔اور یہ بات واضح ہے کہ بت پرستوں کا بتوں کے سامنے خضوع ، دعا اوراستغاثہ اِس لیے ہوا کرتا تھا کہ وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ نوح، آیت نمبر 5

۱۷

ان کو حق شفاعت و مغفرت و۔۔۔ کا مالک کہتے تھیاور ان کو دنیا و آخرت کے امور میں

مستقل تصرف کرنے والا سمجھتے تھے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں ان حضرات کو دعوت اور اُن سے ہر طرح کی درخواست عبادت اور پرستش ہوگی اور اس بات کا بیّن ثبوت کے بت پرستوں کی دعوت اور پکار میں الوہیت کا عقیدہ شامل تھا قرآن مجید کی یہ آیت ہے(فَما اغنتُ عنهم آلهَتُهُم التی یدعونَ من دون اللّٰه من شیٔ) (1)

خدا کے علاوہ جن (خودساختہ) خداؤں کو وہ لوگ پکارتے تھے (عبادت کرتے تھے) انہوں نے بے نیاز نہیں بنایا۔

اس بنا پر مذکورہ آیت ہماری بحث سے الگ ہے کیونکہ ہماری بحث اس درخواست سے ہے جو ایک بندہ دوسرے بندہ سے کرتا ہے اس طرح کہ جس بندہ سے درخواست کی جاتی ہے نہ اُسے اللہ نہ رب نہ مالک اور نہ ہی دنیا وآخرت کے امور میں متصرف تام الاختیار سمجھتاہے بلکہ درخواست کرنے والا بندہ اس بندہ کے بارے میں جس سے درخواست کررہا ہے یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اللہ کا محترم اور معزز بندہ ہے جسے خداوند عالم نے رسالت اور امامت کا عہدہ عطا کیا ہے اور خدا نے اپنے بندوں کے لیے اس کی دعا کو قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :

(وَلَوْ أَنَّهُمْ اذ ظَلَمُوا أنفسهم جاؤکَ فاستغفرو اللّٰهَ واستغفر لَهُمْ الرسولُ لَوَجَدوا اللّٰه توابًّا رَحیمًا) (2)

'' جب ان لوگوں نے نافرمانی کرکے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر تمہارے پاس چلے

آتے اور خدا سے معافی مانگتے اور رسول تم بھی ان کی مغفرت چاہتے تو بیشک وہ لوگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ ھود، آیت نمبر 101 (2)۔ سورہ مبارکہ نسائ، 64

۱۸

خدا کو بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے۔ ''

اور تیسری بات یہ کہ خود مذکورہ آیتوں میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ مطلق درخواست اور مطلق دعوت سے منع نہیں کیا گیا بلکہ اس دعوت سے منع کیا گیا ہے جو پرستش کا عنوان رکھتی ہو اِسی وجہ سے ایک آیت میں لفظ دعوت کے ساتھ بلافاصلہ اسی معنی کے لفظ عبادت سے تعبیر پیش کردی گئی ہے۔

( وَ قَالَ ربّکم ادعونی استجب لکم انّ الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جَهَنَّمَ داخِریْنَ) (1)

'' تمہارے پروردگار نے یہ کہا کہ مجھے پکارو تاکہ میں تمہاری دعا کو قبول کروں جو لوگ ہماری عبادت سے سرکشی اختیار کرتے ہیں وہ جلد ہی نہایت ذلیل و رسوا کرکے دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا آیت کے شروع میں ''أُدعونی'' اور بعد میں لفظ ''عبادتی'' استعمال ہوا ہے۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ دعوت ایسی چیز کے سامنے خاص درخواست یا استغاثہ کی شکل میں تھی جس کو وہ لوگ صفات الٰہی کا حامل سمجھتے تھے۔

نتیجہ :

ان تینوں مقدمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان تینوں آیتوں میں قرآن کا بنیادی مقصد بت پرستوں کی دعوت کی نہی تھی۔ جو بتوں کو خدا کا شریک، مدبر کائنات،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ غافر، آیت نمبر 60

۱۹

اور مالک شفاعت سمجھتے تھے ان کے سامنے ہر طلب ، ہرنالہ، استغاثہ ، خضوع، طلب شفا

اور درخواست یہ سمجھ کر ہوا کرتی تھی کہ وہ بت چھوٹے خدا ہیں اور خدائی کام انجام دیتے ہیں۔ وہ اس بات کا عقیدہ رکھتے تھے کہ دنیا و آخرت کے بعض کام اُن کے سپرد کردیئے گئے ہیں۔ ان آیات کا ان بندوں سے مدد مانگنے سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ جو مدد مانگنے والے یا دعوت کرنے والے کی نظر میں ذرہ برابر بھی بندگی کی سرحدوں سے باہر نہیں نکلے بلکہ وہ خدا کے محبوب اور محترم بندے تھے۔

اگر قرآن یہ کہتا ہے:( وَأنّ المساجدَ لِلّه فلا تدعوا مع اللّٰه أَحَدًا) (1)

'' مساجد خدا کے لیے ہیں لہٰذا خدا کے ساتھ کسی کو نہ پکارو'' تو اس کا مقصد وہ دعوت ہے جو جاہل عرب بتوں کی یا اجرام سماوی کی یا فرشتہ یا جن کی پرستش کیا کرتے تھے۔ اس آیت میں یا اس طرح کی دوسری آیتوں میں جو دعوت کی ممانعت ہے وہ کسی شخص یا شیٔ کو معبود سمجھ کر پکارنے یا دعوت دینے کی ممانعت ہے۔

لیکن ان آیتوں کا اُس دعوت یا پکارنے سے کیا تعلق ہوسکتا ہے جس میں پکارنے والا اور درخواست کرنے والا جسے پکار رہا ہے نہ تو اُسے رب مانتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے اس بات کا قائل ہے کہ خدا نے سب کچھ اس کے سپرد کردیا ۔ بلکہ وہ تو اس کو خدا کا لائق اور محبوب بندہ سمجھ رہا ہے۔ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ اولیاء خدا سے اُن کی زندگی میں تو مدد مانگنا جائز ہے مگر ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ان سے کچھ طلب کرنا اور مانگنا شرک ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ جن، آیت نمبر 18

۲۰