جمع بین الصلاتین (قرآن وسنّت کی روشنی میں)

جمع بین الصلاتین (قرآن وسنّت کی روشنی میں)0%

جمع بین الصلاتین (قرآن وسنّت کی روشنی میں) مؤلف:
زمرہ جات: فقہ مقارن
صفحے: 43

جمع بین الصلاتین (قرآن وسنّت کی روشنی میں)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: صفحے: 43
مشاہدے: 18533
ڈاؤنلوڈ: 3191

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 43 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18533 / ڈاؤنلوڈ: 3191
سائز سائز سائز
جمع بین الصلاتین (قرآن وسنّت کی روشنی میں)

جمع بین الصلاتین (قرآن وسنّت کی روشنی میں)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

غیبوبة الشفق الابیض( الذی یحصل بعد غیبوبة الاحمرعلیٰ ماقالوا)و''کلمة الیٰ''لانتهاء انتهاء الغاية والحکم الممدودالیٰ غاية یکون مشروعاًقبل حصول تلک الغاية ،فوجب جواز اقامةالصّلوٰت کلّهاقبل غیبوبة الشفق الابیض- ''

اگر غسق کو تاریکی کی شدت کے معنی میں لیں تو تاریکی کی شدت اس وقت ہوتی ہے جب سفید شفق، جو خود سرخ شفق کے چلے جانے سے نمودار ہوتی ہے؛ ظاہر ہو۔ اس آیت میں ''الی'' غایت (انتہا) کے لیے آیا ہے۔ اور حکم ، غایت (انتہا) تک باقی ہے ، نتیجہ یہ ہوگا کہ سفید شفق کے ختم ہونے سے پہلے تمام نمازوں کا پڑھنا صحیح ہے۔

بلکہ فخر رازی کہتے ہیں کہ اگر غسق کو تاریکی کی ابتداء کے معنی میں بھی لیں تب بھی مشترکہ وقت سمجھا جاتا ہے، وہ کہتے ہیں:

'' ١ن فسّرناالغسق بظهور اوّل الظلمة-و حکاه عن ابن عبّاس و عطاء و النضر بن شمیل - کان الغسق عبارة عن اوّل المغرب و علیٰ هٰذا التقدیر یکون المذکور فی الآية ثلاث اوقات وقت الزوّال و وقت اول المغرب و وقت الفجر، وهٰذا یقتضی ان یکون الزوّال وقتاً للظّهر والعصر فیکون هٰذا الوقت مشترکاً بین هاتین الصّلاتین ،وان یکون اوّل المغرب وقتاً للمغرب والعشاء فیکون هٰذا الوقت مشترکاً ایضاًبین هاتین الصّلاتین ،فهٰذایقتضی جوازبین الظّهر والعصر وبین

۲۱

المغرب والعشاء مطلقاً ''

''اگر غسق کی تاریکی کی ابتداء سے تفسیر کریں جیسا کہ ابن عباّس،عطاء اورنضر بن شمیل نے یہی تفسیر کی ہے تو غسق سے مراد مغرب کی ابتداء ہوگی اس صورت میں جو کچھ آیت میں بیان ہوا ہے وہ تین قسم کے اوقات ہوں گے: زوال کا وقت، مغرب کا ابتدائی وقت اور فجر کا وقت، اس کا مطلب یہ ہے کہ۔

(1) زوال: نماز ظہر کا وقت ہو اور ان دونوں کا مشترک وقت ہو۔

(2)۔ مغرب کی ابتدا: نماز مغرب و عشاء کا وقت ہو اور دونوں کا مشترک وقت ہو۔

اس بناء پر غسق کو رات کی تاریکی کی ابتدا کے معنی میں بھی لیں تب بھی اس کا لازمہ یہ ہے کہ نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشا ء میں بطور مطلق جمع جائز ہے (خواہ سفر میں ہوں یا حضر میں)

پھر وہ لکھتے ہیں :

'' الّاانّه دلّ الدّلیل علیٰ انّ الجمع فی الحضرمن غیرعذر لا یجوز'' (1)

''لیکن دلیل خارجی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ حضر میں کسی عذر کے بغیر جمع کرنا جائز نہیں ہے۔''

لیکن بہت ہی جلد آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ احادیث بھی بطور مطلق جمع بین الصلاتین کے جواز کو ثابت کرتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ تفسیر کبیر، ج21، ص 27

۲۲

اب نہیں معلوم کہ جناب فخر رازی کی مراد دلیل خارجی سے کیا ہے۔اگر اس سے مراد قرآن مجید ہے تو قرآن مجید سے تو وہ خود''جمع بین الصّلاتین ''کے جوازکو ثابت کر چکے ہیں اور اگر اس سے مراد احادیث ہیں توبہت جلد آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ احادیث بھی بطور مطلق ''جمع بین الصّلاتین ''کے جوازکو ثابت کرتی ہے۔

جیسا کہ اہل سنت کے مشہور و معروف عالم دین اور مفسر قرآن آلوسی اپنی تفسیرروح المعانی میں اس آیت سے اس جمع کے جواز کے ثبوت کا ضمنی طور پر اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں:

''دونوں نمازوں میں جمع کے جواز کو صحیح احادیث ثابت کرتی ہیں''(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ تفسیر روح المعانی، ج15، ص 133 132

۲۳

(باب سوم)

جمع بین الصلاتین سنت کی روشنی میں

جمع بین الصلاتین کا مسئلہ احادیث کی رو سے اتنا واضح ہے کہ اہل سنت کی صحیح بخاری ، صحیح مسلم،سنن ترمذی،سنن نسائی،موطأمالک جیسی معروف ترین حدیث کی کتابوں میں کئی بار ذکر ہوا ہے احمد بن حنبل نے بھی اپنی مسند میں اس بارے میں متعدد احادیث نقل کی ہیں اسی طرح دوسری کتابوں میں بھی اس بات پر دلالت کرنے والی احادیث منقول ہیں۔صحیح السند اورصریح المتن احادیث(جن کا ذکر آئندہ آئیگا)کے باوجودباعث تعجب ہے کہ بعض افراد ان احادیث اورپیغمبر اسلام(ص) کی صریح سنت کی تاویل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

مثال کے طور پر کچھ لوگوں نے یوں تاویل کی ہے کہ جمع بین الصلاتین بارش کی وجہ سے تھا یہ تاویل متقدمین میں سے کچھ مشہور لوگوں کی طرف منسوب ہے، لیکن یہ تاویل مخدوش ہے کیونکہ بعض دوسری احادیث میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ جمع بین الصلاتین بارش، خوف یا سفر وغیرہ کی وجہ سے نہیں تھا۔

بعض لوگوں نے یوں تاویل کی ہے کہ جمع بین الصلاتین بادل کے وقت تھا آپ نے ظہر کی نماز پڑھی پھر بادل چھٹ گیا تو پتہ چلا کہ عصر کا وقت ہے تو آپ نے عصر کی نماز پڑھی ، یہ تاویل بھی باطل ہے کیونکہ یہ احتمال اگرچہ ظہر و عصر کی نمازوں میں دیا جاسکتا ہے لیکن مغرب و عشاء کی نمازوں میں یہ

۲۴

احتمال نہیں دیا جاسکتا

بعض لوگوں نے یوں تاویل کی ہے کہ پہلی نماز کو دیر سے پڑھتے تھے اور اس کے آخر وقت میں ادا کرتے تھے اور اس سے فارغ ہونے کے بعد دوسری نماز بجا لاتے تھے (یعنی پہلی نماز اس کے آخروقت میں اور دوسری نماز اس کے اول وقت میں بجالاتے تھے .اس طرح دونوں اپنے اپنے اوقات میں بجالاتے تھے) پس دونوں نمازوں میں ظاہراً جمع نظر آتا تھا مگر حقیقت میں جمع نہیں تھا یعنی دونوں کو ایک مشترک وقت میں ادا نہیں کیا جاتا تھا. یہ تاویل بھی باطل ہے کیونکہ حدیث کے ظاہری معنی کے مخالف ہے لہٰذا اس چیز کا بھی احتمال نہیں دیا جاسکتا ہے۔اب ہم مسئلہ کو واضح کرنے کے لیے روایات کی تحقیق کریں گے کہ دونوں نمازوں کو ایک ساتھ ادا کرنے کے بارے میں جوشیعہ نقطہ نظر ہے وہی صحیح ہے کہ جمع بین الصلاتین ہر حالت میں جائزہے جس پرقرآن اور احادیث صریح دلالت کرتی ہیں

۲۵

روایات کی تحقیق

1۔ احمد ابن حنبل۔ فرقہ حنبلی کے امام و پیشوا۔ اپنی کتاب مُسند میں جابر ابن زید سے اس طرح روایت کرتے ہیں۔

'' اخبرنی جابر ابن زید انّه سمع ابن عباس یقول: صلّیت مع رسول اللّٰه علیه ( وآله) وسلم ثمانیاً جمیعاً و سبعاً جمیعاً- قال قلت لَهُ یا أبا الشعثاء اظنّه اخّر الظّهرو عَجَّل العصرو اخّر المغرب و عَجَّل العشاء قال و أنا اظنُّ ذالِکَ''(1)

جابر بن زید کہتے ہیں کہ میں نے ابن عاس کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے رسول خدا (ص) کے ساتھ آٹھ رکعت (ظہر و عصر) اور سات رکعت نماز (مغرب و عشائ) ایک ساتھ پڑھی آپ فرماتے ہیں میں نے ابو شعثاء سے کہا: میرا خیال ہے کہ رسول خدا نے نماز ظہر تأخیر سے اور نماز عصر جلدی پڑھی اور نماز مغرب تاخیر سے اور نماز عشاء جلدی پڑھی۔ ابو شعثاء نے کہا میرا بھی یہی خیال ہے

اس روایت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو بلافاصلہ ادا کیا ہے۔

2۔ احمد ابن حنبل عبد اللہ ابن شقیق سے اس طرح روایت کرتے ہیں۔

''خطبنا ابن عباس یوماً بعد العصر حتّٰی غربت الشمس و بدت النجوم و عَلّق النّاس ینادونه الصّلوة و فی القوم رجل من بنی تمیم فجعل یقول: الصّلوة الصّلوة: قَال فغضب قال أَتعلّمنی بِالسّنَّة؟ شهدت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلّم جمع بین الظّهر و العصر، والمغرب و العشائ- قال عبد اللّٰه فوجدت فی نفسی من ذلک شیئاً فلقیت أبا هریره فسألته فوافقه'' (2)

ایک روز نماز عصر کے بعد ابن عباس نے خطبہ دیا یہاں تک سورج غروب ہوگیا اور آسمان پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ مُسند احمد ابن حنبل، ج1، ص 221۔

(2)۔ مُسند احمد ابن حنبل، ج1، ص 251

۲۶

ستارے نکل آئے۔ اور لوگ نماز کے لیے بلانے لگے تو ان میں سے قبیلہ بنی تمیم کے ایک شخص نے

''الصلوٰة، الصلوٰة'' کی تکرار کی اُس کی آواز سن کر ابن عباس غصہ ہوگئے۔ اور فرمایا کہ کیا تم مجھے رسول

اللہ کی سنت سکھانا چاہتے ہو۔ رسول خدا (ص) کو میں نے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔

عبداللہ کہتے ہیں کہ اس مسئلہ کو سن کر میرے دل میں کچھ سوال اُٹھا۔ میں نے ابو ہریرہ کے پاس پہنچ کر اس سلسلہ میں سوال کیا تو انہوں نے ابن عباس کی تائید کی ۔

اس حدیث میں ''عبد اللہ ابن عباس'' اور ''ابو ہریرہ'' جیسے دو صحابیوں نے پیغمبر (ص) کے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھنے کی گواہی دی اور ابنِ عباس نے پیغمبر (ص) کی سیرت کی پیروی کی۔

3۔ مالک ابن انس _ مالکی مسلک کے امام_ اپنی کتاب ''مؤطا'' میں اس طرح رقم طراز ہیں۔

''صلّی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله الظهّر و العصر جمعیاً- و المغرب و العشاء جمیعاً فی غیر خوف وَلا سفرٍ'' (1)

رسول خدا (ص) نے نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی جب کہ یہ موقع نہ دشمن سے خوف کا تھا اور نہ ہی آپ(ص) سفر میں تھے۔

4۔ مالک بن انس ،معاذ ابن جبل سے اس طرح روایت کرتے ہیں۔

'' فکان رسولُ اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله یجمعُ بین الظهر و العصر، والمغرب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ موطا مالک۔ کتاب الصلوٰة، ص 125، ح 178، صحیح مسلم، ج2، ص 151، باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر۔

۲۷

والعشائ'' (1)

رسول خدا (ص) ، نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا کرتے تھے۔

5۔ مالک ابن انس نافع اور عبداللہ ابن عمر سے اس طرح روایت نقل کرتے ہیں۔

''کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله اِذا عَجّل به السَّیر یجمع بین المغرب والعشائ'' (2)

جب بھی راستہ طے کرنے کی جلدی ہوتی تو رسول خدا (ص) مغرب و عشاء کی نماز ملاکر پڑھا کرتے تھے۔

6۔ مالک ابن انس نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے۔

''اِنّ رسول اللّٰه کان یجمع بین الظهر والعصر فی سفر الی تبوک'' (3) رسول خدا (ص) تبوک کے راستہ میں ظہر و عصر کی نمازیں ملا کر پڑھا کرتے تھے۔

7۔ مالک نے ''موطا'' میں نافع سے اس طرح روایت کی ہے۔

''اِنَّ عبد اللّٰه ابن عمر کان اذا جمع الامراء بین المغرب و العشاء فی المطر جمع معهم'' (4) بارش کے وقت جب امراء مغرب و عشاء کی نماز ملا کر پڑھتے تھے تو عبد اللہ ابن عمر بھی ان کے ساتھ دونوں نمازیں ملا کر پڑھا کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ موطا مالک۔ کتاب الصلوٰة، ص 134، ح 176، صحیح مسلم، جزئ2، ص 152۔

(2)۔ موطا مالک۔ کتاب الصلوٰة، ص 125، ح 177۔

(3)۔ موطا مالک، کتاب الصلوٰة، ص 124، ح 175۔

(4)موطا مالک۔ کتاب الصلوٰة، ص 125، ح 179۔

۲۸

8۔ مالک بن انس علی بن حسین سے نقل کرتے ہیں۔

'' کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلم- اذا أراد أنْ یسیر یومه جمع بین الظُّهر و العصر و اذا أَراد أَن یسیر لیلة جمع بین المغرب والعشاء ''(1)

رسول خدا (ص) جب دن کے وقت سفر جاری رکھنا چاہتے تھے تو نماز ظہر و عصر ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے اور جب رات کے وقت سفر جاری رکھنا چاہتے تھے تو نمازِ مغرب و عشاء ملا کر پڑھا کرتے تھے۔

9۔ مالک بن انس ''موطا'' میں لکھتے ہیں۔

''عن ابن شهاب انّه سأل سالم ابن عبد اللّٰه هل یجمع بین الظهر و العصر فی السفر؟ فقال نعم لا باس بذلک- ألَم تریٰ الی الصلوٰةِ الناس بعرفةٍ ؟ '' (2)

ابن شہاب نے سالم ابن عبد اللہ سے پوچھا: کیا سفر میں نماز ظہر و عصر ایک ساتھ پڑھی جاسکتی ہے؟ تو سالم نے کہاں ہاں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیا تم عرفہ کے دن (میدان عرفات میں) لوگوں کی نماز نہیں دیکھتے؟

قابل ذکر ہے کہ دنیا کے سارے مسلمان عرفہ کے دن میدان عرفات میں نماز ظہر و عصر ایک ساتھ بلافاصلہ ادا کرتے ہیں یہاں سالم بن عبد اللہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جس طرح عرفہ میں دونوں نمازیں

ایک ساتھ پڑھی جاتی ہے ویسے ہی عرفہ کے علاوہ بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) ۔موطا مالک، کتاب الصلوٰة، ص 125، ح 181۔

(2)۔ موطا امام مالک، ح 18، ص 125، طبع (3) بیروت۔

۲۹

10۔ محمد زرقانی نے ''موطا'' کی شرح میں ابو شعثاء سے روایت کی ہے۔

'' اِنّ ابن عباس صلّی بالبصرة الظّهر والعصر لیس بینهما شیئ والمغرب و العشاء لیس بینهما شی''(1)

عبد اللہ ابن عباس نے بصرہ میں نماز ظہر و عصر ایک ساتھ ملا کر پڑھی اور نماز مغرب و عشاء بھی یوں

ہی پڑھی۔

11۔ زرقانی نے طبرانی اور انہوں نے ابن مسعود سے روایت کی ہے۔

''جَمَعَ النَّبی صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلّم بین الظّهر والعصر و بین المغرب والعشائ فقیل له فی ذلک، فقال: صنعت هذا لئلّا تحرج أُمتّی'' (2)

پیغمبر اسلام (ص) نے ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ ادا کی اور اسی طرح نماز مغرب و عشاء بھی ایک ساتھ پڑھی جب اس سلسلہ میں آپ سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ اس لیے ہے کہ ''میری اُمت رنج اور سختی میں نہ پڑ جائے''۔

12۔ مسلم ابن حجاج نے ابو زبیر اور سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔

'' صلّی رسول اللّٰه علیه (وآله) وسلّم الظُهر و العصر جمیعاً بالمدینه فی غیر خوفٍ ولا سفر'' (3)

رسول خدا (ص) نے دشمن کے خوف اور سفر کے بغیر مدینہ میں ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ شرح زرقانی بر موطا مالک، ج1، ص 294۔

(1)۔ شرح زرقانی بر موطا مالک، ج1، ص 294۔

(2)۔ صحیح مسلم، جزئ2، ص 151۔ باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر۔

۳۰

اس کے بعد ابن عباس نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا '' پیغمبر اسلام (ص) یہ نہیں چاہتے

تھے کہ آپ کی امت میں سے کوئی بھی شخص زحمت میں مبتلا ہو''۔

13۔ مسلم نے اپنی صحیح میں سعید بن جبیر سے اور وہ عبد اللہ ابن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں۔

'' جَمع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم بین الظهر و العصر، المغرب و العشائ فی المدینه من غیر خوف ولامطرٍ''(1)

رسول خدا (ص) نے بغیر کسی خوف اور بارش کے مدینہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ ملا کر پڑھی۔

سعید ابن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے ایسا کیوں کیا؟

ابن عباس نے جواب دیا کہ ''آپ(ص) اپنی امت کو زحمت میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔

14۔ مسلم بن حجاج اپنی صحیح میں اس طرح رقم طراز ہیں:

'' قَالَ رَجُل لابن عباس الصلوٰة فسکت ثم قال: الصلوٰة فسکت ثم قال الصلوٰة فسکت، ثُم قال لا امّ لکَ أتُعلّمُنَا بالصلوٰة و کنّا نجمع بین الصلوٰة و علی عهدرسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه وسلم''(2)

ایک شخص نے ابن عباس سے کہا 'نماز' آپ نے کوئی جواب نہ دیا اس نے دوبارہ کہا، نماز، آپ

خاموش رہے۔ جب اُس نے تیسری بار نماز کہا تو آپ نے فرمایا:''لا اُمّ لک'' (تمہاری ماں نہ رہے) کیا تم مجھے نماز سکھانا چاہتے ہو؟ حالانکہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ہم لوگ دو نمازوں کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ صحیح مسلم، جزء 2، ص 152۔

(2)۔ صحیح مسلم، جزء 2، ص 153۔ باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر۔

۳۱

ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے۔

15۔ مسلم روایت نقل کرتے ہیں۔

'' اِنَّ رسول اللّٰهِ صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلم جمع بین الصَّلوٰة فی سفرة سافرها فی غزوة تبوک فجمع بین الظهر والعصر، والمغرب والعشائ قال سعید: قُلْتُ لاِبن عبّاس: ما حملهُ علی ذلک؟ قال أراد اَنْ لا یحرج أُمّته''(1) رسول خدا (ص) نے اپنے سفر غزوہ تبوک میں نمازِ ظہر و عصر اور نمازِ مغرب و عشاء ایک ساتھ

۔پڑھی۔سعید ابن جبیر نے کہا کہ میںنے ابن عبّاس سے اس کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا : کہ آنحضرت چاہتے تھے کہ آپ کی امّت سختی اور زحمت میں مبتلانہ ہو۔

16۔ مسلم بن حجاج معاذ کی زبانی نقل کرتے ہیں۔

''خَرَجنا مع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم فی غزوة تبوک فکان یُصلّی الظهر و العصر جمیعاً والمغرب والعشاء جمیعاً'' (2)

ہم رسول خدا (ص) کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو آنحضرت نے نماز ظہر و عصر ایک ساتھ پڑھی اور نماز مغرب و عشاء بھی بلافاصلہ پڑھی۔

17۔ ابو عبد اللہ بخاری نے اپنی صحیح میں ''باب تاخیر الظہر الی العصر'' کے نام سے ایک مخصوص باب قائم کیا ہے۔ یہ عنوان خود بتاتا ہے کہ نماز ظہر کو نماز عصر کے وقت میں دیر سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں

ہے۔ اور دونوں کو ایک ساتھ پڑھا جاسکتا ہے اس کے بعد بخاری اس باب میں مندرجہ ذیل روایت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ صحیح مسلم، جزء 2، ص 151، طبع مصر۔

(2)۔ صحیح مسلم، جزء 2، ص 151، طبع مصر۔

۳۲

نقل فرماتے ہیں۔

''انَّ النَّبِی صلی اللّٰه علیه وسلم صلّی بالمدینة سبعاً و ثمانیاً الظُّهر و العصر و المغرب و العشائ'' (1)

پیغمبر اسلام (ص) نے مدینہ میں سات رکعت (نماز مغرب و عشائ) اور آٹھ رکعت (نماز ظہر و عصر) پڑھی۔

اس روایت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ نماز ظہر کو تأخیر سے نماز عصر کے وقت پڑھنا درست

ہے بلکہ نماز مغرب کو بھی تاخیر سے نماز عشاء کے وقت پڑھنا صحیح ہے۔

18۔ بخاری اپنی صحیح میں ایک جگہ فرماتے ہیں:

'' قال ابن عمرو ابو ایوب و ابن عباس رضی اللّٰه عنهم: صلّی النَّبی صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلم المغرب و العِشائ''(2)

عبد اللہ ابن عمر، ابو ایوب انصاری، اور عبد اللہ ابن عباس نے کہا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے مغرب و عشاء کی دونوں نمازیں (بلا فاصلہ) پڑھیں۔

بخاری اس روایت سے یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ آنحضرت (ص)نے نماز مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی ورنہ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ آپ(ص) نماز ترک نہیں کرتے تھے۔

19۔ ملا علی متقی نے ''کنز العمال'' میں تحریر فرمایا ہے۔

'' قال عبد اللّٰه: جمع لَنیا رسول اللّٰه مقیماً غیر مسافرٍ بین الظهر و العصر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ صحیح بخاری، جزء اول، ص 110

(2)۔ صحیح بخاری، جز اول، ص 113، کتاب الصلوٰة۔

۳۳

والمغرب و العشاء فقال رجل لابن عمر: لم تری النبیّ (صلی اللّٰه علیه وآله وسلم) فعل ذلِک؟ قال لِأنْ لا یحرج امّتهُ ان جمع رجل''(1)

عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں رسول خدا (ص) نے حضر میں نمازِ ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی۔ ایک شخص نے عبد اللہ ابن عمر سے سوال کیا کہ حضور نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: آپ نے اپنی امت کو زحمت سے بچانے کے لیے ایسا کیا تاکہ اگر کوئی شخص دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا چاہے تو پڑھ لے۔

20۔ نیز ''کنز العمال'' میں ہے۔

''عن جابر ان النّبی جمع بین الظهر والعصر بأذان و اِقامَتین'' (2)

جابر کہتے ہیں کہ نبی اکرم (ص) نے ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھی۔

21۔ کنز العمال ہی میں مندرجہ ذیل روایت بھی درج ہے۔

''عن جابر أنّ رسول اللّٰه غربت له الشمس بِمَکَّةٍ فجمع بینهما بسرف'' (3)

جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں: رسول خدا (ص) مکہ میں تشریف فرما تھے کہ سورج غروب ہوگیا۔ جب آپ مقام ''سرف''(4) پر پہنچے تو آپ نے مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ کنز العمال، کتاب صلاة، الباب الرابع فی صلاة المسافر، باب جمع ج8، ص 246، ط 1، حلب 1391ھ۔

(2)۔ کنز العمال، کتاب صلاة، الباب الرابع فی صلاة المسافر، باب جمع، ج8، ص 247۔

(3)۔ کنز العمال، کتاب الصلوٰة، الباب الرابع، باب جمع، ج8۔

(4)۔ ایک ایسے مقام کا نام ہے جو مکہ سے 9 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے (کنز العمال ذیل روایت)

۳۴

22۔ ابن عباس کی روایت صاحبِ کنز العمال نے تحریر فرمائی ہے:

'' جمع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلم بین الظهر و العصر، والمغرب والعشاء بالمدینه فی غیر سفرٍ ولا مطرٍ قال: قلت لابن عباس لم تراه فعل ذلک؟قال: اراد التّوسعة علی امّته''(1)

رسول خدا (ص) نے مدینہ میں نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی۔ اس وقت نہ آپ(ص) سفر میں تھے اور نہ بارش کا عذر تھا۔ راوی کہتا ہے میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ پیغمبر (ص) نے دونوں نمازیں ایک ساتھ کیوں پڑھیں؟ آپ نے جواب دیا۔ آنحضر ت (ص) امت کے لیے آسانی اور وسعت فراہم کرنا چاہتے تھے۔

نتائج :

ان تمام روایتوں اور دلائل کی روشنی میں شیعہ نظریہ کی صحت واضح ہوجاتی ہے۔ اور مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں۔

1۔ دو نمازوں کا ایک ساتھ پڑھنا زحمت سے بچنے اور سہولت کے لیے تھا۔

بہت سی روایتوں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اگر دو نمازوں کا ایک ساتھ پڑھنا جائز نہ ہو تو مسلمانوں کو زحمت ہوسکتی ہے مسلمانوں کی سہولت کے لیے آنحضرت نے دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا جائز قرار دیا ہے۔ 11،15، 19، اور 20 نمبر کی حدیثوں میں اس حقیقت کا اظہار ہوا ہے۔

اگر روایتوں کا مطلب یہ ہوتا کہ اہل سنت کے نزدیک نماز ظہر کا جو آخری وقت ہے اُس وقت نمازِ

ظہر ادا کی جائے (جب ہر چیز کا سایہ اس کے قد کے برابر ہوجاتا ہے) اور عصر کی نماز اول وقت پڑھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ کنز العمال، کتاب الصلاة، الباب الرابع ، باب جمع ج8۔

۳۵

جائے اور اس طرح جمع بین الصلاتین ہو تو ایسے کام میں نہ صرف سہولت نہیں ہے بلکہ اور زیادہ زحمت ہے جبکہ جمع بین الصلاتین کا جواز اُمت کی سہولت کے لیے ہے زحمت کے لئے نہیں۔مذکورہ بیان سے یہ بات روشن ہوگئی کہ جمع بین الصلاتین کا مقصد یہ ہے کہ تمام مشترک وقت میں دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھی جائیں یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک آخر وقت میں ادا کی جائے اور ایک اول وقت میں۔

2۔ روز عرفہ جمع بین الصلاتین سے دو نمازوں کے ایک ساتھ ملا کرپڑھنے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے۔

روز عرفہ مقام عرفات میں دونوں نمازوں کو ملا کر پڑھنے پر تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق ہے۔(1)

ایسی روایتوں سے دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں نمازیں ملا کر پڑھنے کا طریقہ ہر جگہ وہی ہے جو میدان عرفات میں ہے اس میں روزِ عرفہ یا سر زمین عرفہ اور دوسرے دِنوں یا جگہوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں حدیث 9 میں جو مطالب بیان کیے گئے ہیں وہ اس مفہوم کو سمجھنے میں معاون ہیں ۔ لہٰذا جس طرح عرفہ کے دن ظہر و عصر کی نماز سارے مسلمان ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ اِسی طرح دوسرے دنوں میں بھی یہ طریقہ جائز ہے۔

3۔ سفر میں جمع بین الصلاتین سے دو نمازوں کے ایک ساتھ ملا کر پڑھنے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے۔

ایک طرف حنبلی، مالکی اور شافعی فقہاء نے سفر کی حالت میں دو نمازوں کو ایک ساتھ ملا کر پڑھنا جائز قرار دیا ہے اور دوسری طرف مذکورہ روایات یہ بتاتی ہیں کہ اس سلسلے میں سفر اور حضر میں کوئی فرق نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)- الفقه علی المذاهب الاربعه- کتاب الصلوٰة ''الجمع بین الصلاتین تقدیماً و تاخیراً''

۳۶

ہے۔ اس مطلب کو 3، 12، 17، 19 اور 20 نمبر کی روایتوں میں بیان کیا گیا ہے جن کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ جس طرح سفر میں (شیعوں کے طریقہ پر) ایک ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے ویسے ہی حضر میں بھی جائز ہے۔

4۔ اضطراری صورت میں جمع بین الصلاتین سے اختیاری صورت کی کیفیت کا پتہ چلتا ہے۔

صحاح اور مسانید کی بہت سی روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) اضطراری حالت مثلاً بارش خوفِ دشمن اور بیماری میں دونوں نمازیں (جس طرح شیعہ کہتے ہیں) ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے،

لہٰذا مختلف اسلامی فرقوں کے فقہاء نے بعض اضطراری حالت میں اُس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے حالانکہ مذکورہ رواتیوں میں یہ ملتا ہے کہ آنحضرت (ص) نے اضطراری اور غیر اضطراری حالت میں کوئی فرق قائم نہیں کیا اور آپ نے بارش ، خوفِ دشمن اور بیماری کے بغیر بھی دونوں نمازیں ایک ساتھ ادا کیں اس حقیقت کو روایت نمبر17،12،13 اور 22 میں واضح کیا گیا ہے۔

5۔ صحابہ کی سیرت میں جمع بین الصلاتین کا طریقہ۔

مندرجہ بالا روایتوں میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اصحاب پیغمبر دونوں نمازوں کو ایک ساتھ ملا کر پڑھا کرتے تھے، جیسا کہ عبد اللہ ابن عباس کے بارے میں ہم نے پڑھا کہ آپ نے نماز پڑھنے میں اتنی تاخیر کردی کہ تاریکی چھا گئی اور آسمان پر تارے نکل آئے دوسروں نے جب نماز، نماز کی آواز بلند کی تو آپ نے اس پر توجہ نہیں کی اور رات کا کچھ حصہ گزر جانے کے بعد مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کی اور اعتراض کرنے والوں کو یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ میں نے پیغمبر (ص) کو اسی طرح پڑھتے دیکھا

۳۷

ہے۔ اور اس کی تائید ابو ہریرہ نے بھی کی۔ دوسری، ساتویں ، دسویں اور چودہویں روایت میں اس کا بیان موجود ہے۔

مذکورہ روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ابنِ عباس نے شیعہ طریقہ کے مطابق ایک وقت میں دو نمازیں ایک ساتھ پڑھیں۔

6۔ سیرت پیغمبر (ص) میں جمع بین الصلاتین کا طریقہ۔

اکیسویں حدیث سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مغرب کے وقت آنحضرت مکہ میں تھے پھر بھی آپ نے مغرب کی نماز تاخیر سے نماز عشاء کے ساتھ ملا کر اُس وقت ادا کی جب آپ(ص) مقامِ ''سرف'' میں پہنچ گئے جو مکہ سے نو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اگر آپ مغرب کے وقت بھی مکہ سے نکلے ہوں گے تو اس وقت کی سواری سے مقام سرف تک پہنچتے پہنچتے رات کا کچھ حصہ گزر چکا ہوگا آپ

نے عشاء کے وقت نماز مغرب و عشاء دونوں ایک ساتھ ادا کی ہوں گی۔

جتنی بھی روایتیں اہل سنت کی صحاح اور مسانید سے نقل کی گئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جمع بین الصلاتین کا شیعہ نظریہ صحیح ہے۔ ہر جگہ اور ہر زمانہ میں ظہر و عصر اور مغرب وعشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کی جاسکتی ہے۔

یاد دہانی:

ہمیں اس بات کو قبول کرنا چاہیے کہ آج کے اس مصروف دور میں بہت سے محصّلین اور ملازمین کے لیے پانچ اوقات میں نماز ادا کرنا نہایت دشوار ہے لہٰذاایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ حضور اکرم(ص) کی آئندہ نگری اور آپکی دی ہوئی رخصت اوراجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نماز

۳۸

پنجگانہ کوتین اوقات میں ادا کریں تاکہ کسی کے پاس بھی نماز کو چھوڑنے کا کوئی عذر باقی نہ رہے۔

کیا سنّت پر اسقدر اصرار کہ وہ فریضہ الٰھی کے ترک کا موجب بنے صحیح ہے ؟!کم از کم اہل سنّت کے علماء اس بات کو قبول کریں کہ انکے نوجوان اس مسئلہ میں اہل بیت (ع)کے پیروکاروں کی پیروی کریں جیسا کہ'' جامعةالازھر''(مصر) کے سربراہ جناب محمود شلتوت نے مذھب جعفری کے مطابق عمل کو صحیح قرار دیا ہے .وہ فرماتے ہیں :جعفری مذہب ، مشہور اثنأعشری امامیہ مذہب ہے اور ان مذہبوں میں سے ہے کہ اہل سنت کے تمام مذہبوں کی طرح اسکی بھی تقلید کی جاسکتی ہے ۔

لہذابہتر ہے کہ تمام مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ہوں اور کسی خاص مذہب سے تعصب کرنے سے پرہیز کریں کیونکہ اللہ کا دین اور اس کا قانون کسی خاص مذہب کے تابع نہیں اورکسی معین و مخصوص مذہب میں منحصر نہیں ہے۔ (اسلامی مذاہب کے پیشوا) سب مجتہدین خداوند متعال کے نزدیک مقبول ہیں اور جو لوگ اہل نظر اور صاحب اجتہاد نہیں ہیں ان کے لیے جائز ہے کہ ان حضرات کی تقلیدکریں اور جو کچھ انہوں نے فقہ میں مقرر کیا ہے اس پر عمل کریں ۔اس سلسلے میں عبادات و معاملات میں کوئی فرق نہیں ہے۔(1)

وما التّوفیق الّا باللّہ

سےّد نسیم حیدر زیدی

قم المقدسہ

-----------------------------------

(1)رسالہ الاسلام ،طبع مصر ،شمارہ سوم ،گیارھواں سال

۳۹

فہرست منابع

1۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ۔ عبد الرَّحمٰان جزیری

2۔ المغنی، عبد اللہ ابن قدامہ

3۔ الشرح الکبیر

4۔ المجموع ۔ ابی ذکریا محیی الدین

5۔ حلیة الاولیائ۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی

6۔ شیعہ پاسخ میگوید ۔ آیة اللہ ناصر مکارم شیرازی

7۔ مفردات ۔ راغب

8۔ زاد المیسر فی علم التفسیر ۔ امام جوزی

9۔ معجم مقاییس اللغة ۔ ابن فارس

10۔ النھایہ ۔ ابن کثیر

11۔ مجمع البیان ۔ شیخ طبرسی

12۔ الدر المنثور ۔ جلال الدین سیوطی

13۔ الکشاف ۔ زمخشری

۴۰