جمع بین الصلاتین (قرآن وسنّت کی روشنی میں)

جمع بین الصلاتین (قرآن وسنّت کی روشنی میں)0%

جمع بین الصلاتین (قرآن وسنّت کی روشنی میں) مؤلف:
زمرہ جات: فقہ مقارن
صفحے: 43

جمع بین الصلاتین (قرآن وسنّت کی روشنی میں)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: صفحے: 43
مشاہدے: 18565
ڈاؤنلوڈ: 3200

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 43 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18565 / ڈاؤنلوڈ: 3200
سائز سائز سائز
جمع بین الصلاتین (قرآن وسنّت کی روشنی میں)

جمع بین الصلاتین (قرآن وسنّت کی روشنی میں)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جمع بین الصلاتین

(قرآن وسنّت کی روشنی میں)

تحقیق وتالیف

س ی ّدنسیم حیدر زیدی

زیر نظر:

استاد معظّم آیت اللّہ محسن غرویان (مدّظلّہ العاٰلی)

انوار القرآن اکیڈمی(پاکستان)

۱

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

۲

مشخّصات

نام کتاب: جمع بین الصلاتین(قرآن و سنّت کی روشنی میں)

تحقیق و تالیف: سید نسیم حیدر زیدی

کمپوزنگ: سید مبارک حسنین زیدی

طبع اول: 1429

تعداد: ایک ہزار

قیمت: 30 روپے

زیر اہتمام: انوار القرآن اکیڈمی (پاکستان)

۳

انتساب

میں اپنی اس ناچیزخدمت کو اپنے جدّاعلیٰ

حکیم مولانا سےّدخورشید حسن زیدی بارہوی(قدس سرہ شریف)

کے نام معنون کرتا ہوں.

نسیم حیدر زیدی

۴

(تقریظ)

از

آیت اللّہ محسن غرویان

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

أَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰالِمیْنَ الصلاة والسّلام عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرینَ

امّا بعد

رسالہ '' جمع بین الصّلاتین'' ایک عملی ،فقہی ،اوراستدلالی رسالہ ہے جوفاضل مؤلف جناب سےّد نسیم حیدر زیدی کی تألیفات میں سے ایک ہے میری نظر میں یہ رسالہ صاحبان علم وتحقیق کے لیئے رہ گُشاہے ۔خدا سے امید کرتا ہوں کہ وہ موصوف کی توفیقات میں روز بروز اضافہ فرمائے اور اس شائستہ عمل کوانکی آخرت کاذخیرہ قراردے ۔ آمین

محسن غرویان

قم المقدّسہ

1429

۵

(مقدمہ)

أَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰالِمیْنَ و صَلّٰی اللّٰهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرینَ وَ لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلٰی أَعْدائِهِمْ أَجْمَعِیْنَ

نماز خدا کی بارگاہ میں باریاب ہونے کا ذریعہ ہے، مادی دنیا کو چھوڑے اور انسان کو مشغول کرنے والی چیزوں کو پس پشت ڈالنے اور پروردگار کی عظمت کی طرف متوجہ ہونے اور عالم ناسوت کی تاریکیوں سے نکل کر عالم نور میں پہنچنے کا وسیلہ یہی نماز ہے، اہل صفا اور سالکان طریقت نماز ہی کے ذریعہ قرب الٰہی کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ نماز کے بغیر ان روحانی مہمات کو سر کرنا نہ صرف ناممکن ہے بلکہ اس کا تصور ہی سرے سے محال ہے، وہ عبادت جو اللہ کے رسول (ص) کی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار پائی ہو اس کا اسلام میں سب سے افضل، پسندیدہ اور اہم ہونا کسی دلیل کا محتاج نہیں ہے۔

آنحضرت ( (ص)) نماز کی اہمیت اور عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہر چیز کے لیے ایک زینت ہے۔ اسلام کی زینت نماز پنجگانہ ہے. ہر چیز کا ایک رکن ہے. ایمان کا رکن نماز پنجگانہ ہے. ہر چیز کے لیے ایک چراغ ہے مؤمن کے دل کا چراغ نماز پنجگانہ ہے. ہر چیز کی ایک قیمت ہے جنت کی قیمت نماز پنجگانہ ہے. توجہ کرنے والے کی توبہ، مال میں برکت، رزق میں وسعت، چہرہ کی

۶

رونق، مومن کی عزت، رحمت کا نزول دعا کی قبولیت اور گناہوں کا کفارہ یہی نماز ہے۔

اس مقالہ میں نماز سے متعلق جو بحث مورد نظر ہے وہ یہ ہے کہ کیا نماز پنجگانہ کو پانچ مختلف اوقات میںجدا جدا ادا کرنا واجب ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو نماز باطل ہوجائے گی. جس طرح اہل سنت کی اکثریت خواہ مسافر ہی کیوں نہ ہو پانچ وقت کی نماز کو پانچ مختلف اوقات میں ادا کرتی ہے یا یہ کہ نماز پنجگانہ کو تین مختلف اوقات میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ اہل تشیع حضرات کا نظریہ یہی ہے۔

اس مقالہ میں مذکورہ بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم قرآن و سنت کی روشنی میں وسیع النظری کے ساتھ نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کے اوقات کے بارے میں گفتگو کریں گے. تاکہ یہ بات ثابت ہوجائے کہ ''جمع بین الصلاتین'' اہل سنت کی نظر میں معتبر احادیث کی رو سے بھی ہر حالت میں جائز ہے اور نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کے مشترک اوقات بھی ہیں۔

وما التوفیق الا باللّٰہ

سید نسیم حیدر زیدی

قم المقدسہ

۷

( باب أوّل : بیان مسئلہ)

اس بحث کی وضاحت کے لیے سب سے ہم یہاں فقہائِ اسلام کی آراء پیش کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔

تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق ہے کہ مقام ''عرفات'' میں ظہر کے وقت دونوں نمازوں یعنی ظہر و عصر کو ایک ساتھ پڑھ سکتے ہیں. اسی طرح ''مزدلفہ'' میں بھی عشاء کے وقت، نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ بجا لاسکتے ہیں۔

اہل سنّت کے نظریے کی وضاحت:

1۔حنفی کہتے ہیں کہ نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو صرف مقام عرفات اور مزدلفہ میں ایک ساتھ پڑھنا جائز ہے. اور ان مقامات کے علاوہ نہ سفر میں اور نہ حضر میں بلکہ کسی عذر کی وجہ سے بھی ایک ساتھ پڑھنا جائز نہیں ہے۔

2۔ حنبلی، مالکی اور شافعی کہتے ہیں کہ نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو عرفات اور مزدلفہ کے علاوہ سفر میں بھی ایک ساتھ پڑھنا جائز ہے ان میں سے بعض فرقے اضطراری صورت مثلاً بارش، بیمار ی یادشمن سے خوف کے موقع پر دونوں نمازوں کو ایک ساتھ ملا کر پڑھنا جائز سمجھتے ہیں۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ ان اقوال کے لیے رجوع کریں: الفقہ علی المذاہب الاربعہ، المغنی، الشرح الکبیر، المجموع، حلیہ الاولیاء وغیرہ۔

۸

شیعوں کے نظریے کی وضاحت :

شیعوں کا نظریہ یہ ہے کہ نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء میں سے ہر ایک کے لیے ایک مخصوص وقت ہے اور ایک مشترک۔

الف: نماز ظہر کا مخصوص وقت ظہر شرعی، یعنی زوال آفتاب سے شروع ہوکر اسوقت تک رہتا ہیکہ جس وقت میں چار رکعت نماز پڑھی جاسکتی ہے، اس محدود وقت میں صرف نماز ظہر ہی پڑھی جاسکتی ہے۔

ب: نماز عصر کا مخصوص وقت غروب آفتاب سے اتنی دیر پہلے شروع ہوکر غروب تک اسوقت تک ہے،جس وقت میں چار رکعت نماز پڑھی جاسکے، اس محدود وقت میں صرف نماز عصر ہی پڑھی جاسکتی ہے۔

ج: نماز ظہر کے خاص وقت کی انتہاء سے لے کر نماز عصر کے خاص وقت کی ابتداء تک کا درمیانی وقت نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت ہوتا ہے۔

شیعوں کا کہنا ہے کہ اس مشترک وقت میں ہم کسی بھی وقت نماز ظہر و عصر کو بلافاصلہ پڑھ سکتے ہیں. جبکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ ظہر شرعی یعنی اول زوال آفتاب ہر چیز کے سایہ کا اس کے برابر ہوجانے تک کا وقت نماز ظہر سے مخصوص ہے. اس مدت میں نماز عصر نہیں پڑھی جاسکتی اس کے بعد سے مغرب تک کا وقت نماز عصر سے مخصوص ہے اس میں نماز ظہر نہیں پڑھی جاسکتی۔

۹

د: نماز مغرب کا خاص وقت مغرب شرعی سے شروع ہوکر اتنی دیر تک رہتا ہے جتنی دیر میں تین رکعت نماز ادا کی جاسکے. اس محدود وقت میں صرف نماز مغرب ہی ادا کی جاسکتی ہے۔

ھ: عشاء کا مخصوص وقت آدھی رات سے پہلے اس وقت تک رہتا ہے جس وقت میں چار رکعت نماز عشاء پڑھی جاسکے. اس مختصر مدت میں صرف نماز عشاء ہی پڑھی جاسکتی ہے۔

و: نماز مغرب کے مخصوص وقت کی انتہاء سے نماز عشاء کے مخصوص وقت کی ابتداء تک مغرب و عشاء کا مشترک وقت ہوتا ہے۔

شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اس مشترک وقت میں کسی وقت بھی بلافاصلہ نماز مغرب و عشاء پڑھی جاسکتی ہے. لیکن اہل سنت کا کہنا یہ ہے کہ اول مغرب سے لے کر مغرب کی سرخی کے زائل ہونے تک کی مدت نماز مغرب سے مخصوص ہے. اس میں نماز عشاء نہیں پڑھی جاسکتی اور مغرب کی سرخی کے زوال سے لے کر آدھی رات تک نماز عشاء کا مخصوص وقت ہے اس میں مغرب کی نماز نہیں ہوسکتی۔

نتیجہ بحث:

نتیجہ یہ نکلا کہ شیعہ نقطہ نظر کے مطابق ہم ظہر شرعی کے بعد نماز ظہر پڑھ سکتے ہیں. اور پھر اس کے بعد بلا فاصلہ نماز عصر بھی ادا کرسکتے ہیں. یا پھر نماز ظہر کے پڑھنے میں نماز عصر کے وقت ِ خاص تک تأخیر کرسکتے ہیں۔ اور نماز عصر کا وقت خاص آنے سے پہلے اسے ادا کرکے نماز عصر پڑھ سکتے ہیں اس طرح

۱۰

نماز ظہر و عصر کو جمع کرسکتے ہیں. اگرچہ مستحب یہ ہے کہ زوال آفتاب کے بعد نماز ظہر ادا کی جائے اور عصر کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے۔

اِسی طرح مغرب شرعی کے بعد ہم نماز مغرب اور پھر اس کے بعد بلافاصلہ نمازِ عشاء پڑھ سکتے ہیں. یا پھر نماز عشاء کے وقت خاص آنے سے پہلے تک ہم نماز مغرب میں تأخیر کرسکتے ہیں. اس کو ادا کرنے کی صورت یہ ہوگی کہ نماز عشاء کا مخصوص وقت آنے سے پہلے ہم نماز مغرب پڑھ لیں. اس کے بعد نماز عشاء ادا کریں اس طرح مغرب اور عشاء میں جمع کی صورت پیدا ہوجاتی ہے. اگرچہ نماز مغرب کو مغرب شرعی کے بعد اور نماز عشاء مغرب کی سرخی زائل ہونے کے بعد پڑھنا مستحب ہے۔ البتہ یہ شیعوں کا نظریہ ہے۔

اہل سنت حضرات ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نماز کو ہر مقام اور ہر زمانے میں مطلقاً ملا کر پڑھنا جائز نہیں سمجھتے ہیں اس بنا پر مورد بحث چیز یہ ہے کہ دو نمازیں ہر زمانہ میں اور ہر جگہ پر جمع کرکے پڑھی جاسکتی ہیں یا نہیں؟

۱۱

(باب دوم)

نماز کے اوقات قرآن کریم کی روشنی میں

خداوند حکیم نے قرآن کریم میں نماز پنجگانہ کے لیے صرف تین ہی اوقات بیان کیے ہیں لہٰذا باعث تعجب ہے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ نمازِ پنجگانہ کو پانچ مختلف اوقات میں ادا کرنے کو واجب سمجھتا ہے اور تین اوقات میں نماز ادا کرنے پر اعتراض کرتا ہے۔

آیت نمبر1:

(وََقِمْ الصَّلَاةَ طَرَفِی النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنْ اللَّیْلِ ) (1)

'' اور پیغمبر (ص) آپ دن کے دونوں حصوں میں اور کچھ رات گئے نماز پڑھا کریں''۔

ظاہراًآیت میں''طَرَفَیِ النَّهٰار'' (دن کے دونوں طرف) کی عبارت نماز فجر (جو دن کے ایک طرف پڑھی جاتی ہے) اور نماز ظہر و عصر (جو دن کے دوسری طرف پڑھی جاتی ہیں) کی طرف اشارہ ہے۔(2) دوسرے الفاظ میںیوںکہا جائے کہ اس آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ نماز ظہروعصرکاوقت غروب تک رہتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ ہود ، آیت 114

(2)۔اًیات الاحکام:استراًبادی ج1 ص125،احکام القراًن:جصاص ج3 ص249،اطیب البیان فی تفسیرالقراًن ج10ص481، شیعہ پاسخ می گوید: آیت اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی ص 169

۱۲

''زُلْفًا من الیل'' اہل لغت(1) کے نزدیک'''زُلْفًا' ،'''زُلْفه' کی جمع ہے جس کے معنی رات کا ابتدائی حصہ ہے. لہٰذا یہ عبارت نماز مغرب و عشاء کی طرف اشارہ ہے. جیسا کہ عبد اللہ بن عباس، حسن، مجاہد، قتادہ، مقاتل اور زجاج سے بھی یہی قول نقل ہوا ہے۔(2)

اسی بنا پر اگر پیغمبر اسلام (ص) نے نماز پنجگانہ کو پانچ مختلف اوقات میں ادا کیا ہے تو وہ محض اس لیے تھا کہ اُن اوقات میں نماز کو ادا کرنا باعث فضیلت ہے جس سے کسی بھی مسلمان کو انکار نہیں ہے۔

آیت نمبر 2:(َقِمْ الصَّلَاةَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ ِلَی غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْهُودًا ) (3)

''آپ زوال آفتاب سے رات کی تاریکی تک نماز قائم کریں اور نماز صبح بھی کہ نماز صبح کے لیے گواہی کا انتظا م کیا گیا ہے''

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ''دلُوکِ شمس'' سے لے کر ''غَسَقِ الَّیل'' تک نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے. اسی طرح نماز صبح کا بھی حکم دیا ہے لغت، حدیث، اور تفسیر کی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نماز پنجگانہ کا حکم فرمایا ہے. اور اس کے اوقات کو اجمالی طور پر بیان کیا ہے۔ َ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) ۔ مفردات الفاظ، راغب (2) ۔ زاد المیسر فی علم التفسیر، امام جوزی ج 4 ، ص 12 9

(3) ۔ سورہ اسرائ، آیت 78

۱۳

''دلوک'' کے معنی کے بارے میں صاحب معجم المقاییس اللغة کا کہنا ہے۔''ذَلِک َ أَصْل وَاحِد یَدُل عَلٰی زَوَالِ شَیئٍ عَنْ شَیئٍ ---'' یُقَالُ دَلَکَتِ الشَّمْسُ: زَالَتْ و یُقٰالُ دَلَکَتْ، غَابَتْ.

لفظ ''دلوک'' کی ایک اصل ہے. جو کسی چیز کے کسی سے زائل ہونے پر دلالت کرتی ہے. جیسا کہ کہا جاتا ہے، دَلَکَتُ الشّمس، یعنی سورج کا زوال ہوگیا. اور اسی طرح ''دلوک'' غائب کے معنی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کہ جب کہا جائے ''دَلَکَت'' یعنی وہ غائب ہوگیا.(1)

اسی طرح ''صاحب النّھایہ'' لکھتے ہیں''دلوک الشَّمس فی غَیْرِ مَوْضِعٍ مِنَ الحَدِیْث، و یُرادُ بِه زَوَالُهٰا عَن وَسَطِ السَّمَائِ وَ غَرُوبُهٰا ایضاً واصل الدُلوک الیل'' ''دلوک الشمس'' روایات میں کئی مقامات پر اس کا ذکر ہوا ہے اور اس سے مراد آسمان کے وسط سے سورج کا زوال ہونا ہے اسی طرح اس کے غروب ہونے کو بھی کہتے ہیں. اصل میں ''دلوک'' ٹیڑھا ہونا ہے۔(2)

ازھری کہتے ہیں میری نظر میں ''دلوک'' سے مراد دوپہر کو سورج کا وسط آسمان سے مڑنا ہے تاکہ آیہ شریفہ میں تمام پنجگانہ نمازوںکو جمع کیا جا سکے اور آیہ کا معنیٰ یہ ہے۔(واللہ اعلم)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) ۔ معجم مقاییس الغہ۔ ابن فارس ج 2 ، ص 2 98

(2) ۔النھایہ، ابن کثیر، حرف الدال باب الدال مع اللام، ص 130

۱۴

''اقم الصّلاة''یا محمّدصلی الله علیه و آله وسلم ای ادمها من وقت زوال الشّمس الی غسق اللّیل،فیدخل فیها الاو لیٰ والعصر،وصلاتا غسق اللّیل هما العشاء اٰن،فهٰذه اربع صلوٰت، والخا مسة قوله (عزّوجل)''قرآن الفجر ' ' ١ لمعنی ٰ واقم صلاةالفجر،فهٰذه خمس صلوٰت فرضها اللّه تعالیٰ علیٰ نبيّه صلّی اللّه علیه وآله وسلّم وعلیٰ امّته-واذجعلت الدلوک الغروب کان الامر فی هذه الآیه مقصوراً علیٰ ثلاث صلواٰتٍ فان قیل :ما معنیٰ الدّلوک فی کلام العرب ؟قیل الدلوک الزّوال ولذٰلک قیل للشّمس اذا زالت نصف النهاٰر دالکة وقیل لهااذاافلت دالکة لانّها فی الحالتین زائلة.....وفی نوادر الاعراب:دمکت الشّمس ودلکت وعلت اواعتلت،کلّ هذا ارتفاعها (1) '' اے محمّد:نماز قائم کرو'' یعنی اس کو سورج کے زوال سے لیکر تاریکی تک جاری رکھو پس آیت کے اس حصے تک نماز ظہر و عصراورمغرب و عشاء شامل ہے پانچویں نمازکا وقت آیت کے اس حصے سے پتہ چلتا ہے کہ فرمایا ''و قرآن الفجر''جس کا مطلب یہ ہے کہ ''نماز صبح پڑھا کرو''اس طرح یہ پانچ نمازیں ہیں جنھیں خداوند عالم نے پیغمبر اسلام (ص) اور آپ کی امّت پر واجب قرار دیا ہے ۔ اگر'' دلوک ''سے مراد غروب لیا جائے تواس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ اس آیت میں فقط تین نمازوں کے اوقات بیان ہوئے

ہیں (نماز مغرب و عشاء اور نماز صبح)اگر کہا جائے عربی زبان میں ''دلوک ''سے مراد کیا ہے ؟تو کہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)لسان العرب مادہ دلک

۱۵

جائے گا: کہ''دلوک''وہی زوال ہے ۔اور اسی طرح جب سورج غروب ہوجاتا ہے تو کہتے ہیں ''دلوک ''کیوں کہ دونوںحالتوں میںسورج کی روشنی زائل ہوجاتی ہے''نوادرالاعراب ''میں ''دمکت الشمس ''کے بارے میںلکھتے ہیں کہ ''دلکت ،علت، اعتلت '' سب سورج کے بلند ہونے کے معنیٰ میں استعمال ہوتے ہیں ۔

مُبَرّد کہتے ہیں''دُلوک الشمس مِنْ لَدُنْ زَوَالها اِلٰی غُروبِهٰا'' ''دلوک الشمس'' سے وہی زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک کا وقت مراد ہے۔(1)

اس بنا پر اگرچہ ''دلوک'' کبھی سورج کے غروب کے معنی میں بھی آیا ہے. لیکن ماہرین لغت کی ترجیحات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس آیت میںمناسب معنی وہی ہیں جو ''أزھری'' اور ''مبرد'' سے نقل ہوئے ہیں. یعنی آسمان کے وسط سے سورج کا ڈھلنا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی احادیث بھی اس بارے میں نقل ہوئی ہیں. جن میں سے ہم فقط دو حدیث نمونہ کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔

1- عَنْ اِبْنِ مَسْعُود رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی اللّٰهُ علیه (وآله) وسلم،

أَتَانِی جِبْرَائِیل لِدُلُوکِ الشمسِ حِیْنَ زَالتَ فَصَلّی بِی الظُّهرَ،(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ نقل از مجموع البیان، ج6، ص 433 (2)۔ الدر المنثور؛ رجال الدین سیوطی، ج4، ص 195 والکشاف زمخشری، ج2، ص 686

۱۶

عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: سورج کے ''دلوک'' کے وقت جب زوال ہوا تو جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور میرے ساتھ نماز ظہر ادا کی۔

عبداللہ ابن مسعود کی طرح کچھ دوسرے افراد جیسے عبداللہ ابن عباس، انس، عمر، ابن عمر اور ابی برزہ

وغیرہ سے بھی اسی قسم کے مضمون کی روایت نقل ہوئی ہے۔

اہل بیت اطہار علیہم السلام سے بھی متعدد طریقوں سے روایت ہے کہ ''دلوک'' سے مراد زوال ہے نہ غروب۔

٢- عن أبی عبداللّٰه (علیه السلام) فی قوله تعالٰی ''وَ أَقِمِ الصّلوٰةَ لِدُلوکِ الشَّمْسِ اِلی غسَقِ الَّیلِ و قُرْآنَ الفَجْرِ اِنَّ قُرْآنَ الفَجْرِ کَانَ مَشْهُودًا، قَالَ دُلُوکَ الشَّمْسُ زوالهٰا، و غَسَقِ اللَّیلِ اِنْتِصٰافُه وَ قُرآنِ الفَجْرِ رَکْعَتَ الْفَجْرِ؛ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آیت'' أَقِمِ الصّلوٰةَ لِدُلوکِ الشَّمْسِ اِلی غَسَقِ الَّیل'' میں ''دلوک'' سے مراد سورج کا زوال ہے ''غسق الیل'' سے مراد رات کا نصف ہونا ہے اور قرآن الفجر سے مراد فجر کی دو رکعت نماز ہے۔(1) ان روایات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آیت میں ''دلوک الشمس'' سے مراد سورج کا زوال ہے اسی لیے امام شافعی بھی صریحاً کہتے ہیں دلوک الشمس زَوَالُھٰا ،دلوک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ وسایل الشیعہ۔ ابواب المواقیت ج9، ص 479،آیات احکام ۔استر آبادی ج1 ص25

۱۷

الشمس سے مراد سورج کا زوال ہے۔(1) اس آیت میں غسق اللیل کے بارے میں صاحب معجم مقاییس اللغة اور صاحب ''معجم الوسیط'' لکھتے ہیں کہ غِسق اللّیل سے مراد رات کی تاریکی ہے۔(2) راغب ''کتاب مفردات'' اور طریحی ''کتاب مجمع البحرین'' میں لکھتے ہیں:غَسَق اللّیل؛شِدّةُ ظُلْمَتِه: (3) غسق اللّیل سے مراد وہی رات کی تاریکی کا شدید ہونا ہے ۔ عبداللہ ابن عباس سے منقول ہے کہ غَسَق اللَّیل؛ اجتماعُ اللیل، رات اور اس کی تاریکی کا اکھٹا ہونا۔(4)

بہرحال ہماری نظر میں غسق اللّیل سے مراد عشاء کا آخری وقت ہے اور یہ مطلب جو راغب نے مفردات میں اور طریحی نے مجمع البحرین میں ذکر کیا ہے اس سے زیادہ نزدیک ہے انہوں نے غسق اللّیل کو تاریکی کی شدت کے معنی میں جانا ہے اس بنا پر یہ احتمال مورد قبول نہیں کہ کہا جائے کہ ''غسق اللّیل'' سے سورج کا غروب ہونا یا رات کا ابتدائی حصہ مراد ہے. کیونکہ سورج کے غروب ہونے میں نہ تاریکی میں شدت ہے اور نہ رات اور اس کی تاریکی کا اجتماع ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ السنن الکبریٰ، ج1، ص 394

(2) معجم المقاییس اللغہ، ابن فارس ج4، ص 425 و المعجم الوسط، ابراہیم مصطفیٰ وغیرہ، ''مادہ غسق''

(3۔ مفردات راغب، مادہ غَسَقَ ؛ مجمع البحرین مادہ غسق، ص 310

(4)۔ الدر المنثور، جلال الدین سیوطی. ج4، ص 195

۱۸

تفسیر آیہ:

''دلوک'' ،''غسق'' اور'' قرآن الفجر'' کے الفاظ کے معانی روشن ہونے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خداوند عالم نے اس آیت میں نماز پنجگانہ کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے اوقات کو بھی معین فرمایا ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے ظہر کی ابتداء سے لیکر رات کے آدھے حصے تک نماز قائم کرو اور نماز فجر بھی پڑھو۔

اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ ظہر کی ابتداء سے لے کر آدھی رات تک چار نمازوں کا وقت ہے۔ اگر کسی اور دلیل شرعی کے ذریعہ معلوم نہ ہوتا کہ نماز ظہر و عصر کو غروب سے پہلے اور نماز مغرب و عشاء کو غروب کے بعد پڑھنا ہے۔ ہم اس آیت کے اطلاق کو سامنے رکھتے ہوئے کہتے کہ ظہر کی ابتداء سے لے کر آدھی رات تک ان چاروں نمازوں کا مشترک وقت ہے۔

لیکن دلیل قطعی اور شرعی کے پیش نظر نماز ظہر و عصر کو غروب سے پہلے ادا کیا جانا ضروری ہے. اورنماز مغرب و عشاء کو غروب کے بعد ادا کیا جائے. اس بنا ء پر آیت کو مقید کیا جاتا ہے (ظہرین کی نماز غروب سے پہلے ہو اور مغربین کی نماز، غروب کے بعد ادا کی جائے) لیکن باقی موارد میں آیت اپنے اطلاق پر باقی ہے. اور اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ ظہر کی ابتداء سے کر غروب تک ظہرین کا مشترک وقت ہے۔

غروب سے لے کر آدھی رات تک نماز مغرب و عشاء کا مشترک وقت ہے۔

اسی بنا پر زرارہ نے جب حضرت امام محمد باقر (ع) سے واجب نمازوں کے بارے میں سوال کیا تو

۱۹

آپ (ع) نے فرمایا: روزانہ پانچ نمازیں واجب ہیں ، زرارہ نے سوال کیا کہ خداوند متعال نے اپنے کلام پاک میں ان کا تذکرہ فرمایا ہے اور ان کا نام لیا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:

''نعم،قال اللّه تبارک و تعالیٰ لنبيه :''اقم الصّلاة لدلوک الشّمس الیٰ غسق اللّیل''و''دلوکها'' ''زوالها ففیما بین دلوک الشّمس الیٰ غسق اللّیل اربع صلوٰت سمّاهن اللّه و بینهنّ ووقتهنّ و ''غسق اللّیل'' هو انتصافه ثمّ قال:'' وقرآن الفجر انّ قرآن الفجر کان مشهودا''

ہاں خداوند متعال نے اپنے نبی سے فرمایا: دلوک شمس سے لے کر غسق لیل، تک نماز قائم کرو۔ دلوک شمس سے مراد زوال ہے پس دلوک شمس اور غسق لیل کے درمیان چار نمازیں واجب فرمائی ان تمام کا نام لیا اور انہیں بیان کیا اور ان کے اوقات معین کیے ''غسق اللیل'' وہی آدھی رات ہے ، پھر فرمایا: اور نماز فجر کیونکہ نماز فجر پر گواہی ہوتی ہے۔

اسی مضمون کی حدیث امام جعفر صادق (ع) سے بھی نقل ہوئی ہے۔(1)

اسی بنا پر فخر رازی اپنی تفسیر میں اعتراف کرتے ہیں کہ اس آیت سے نماز کے مشترک اوقات کا پتہ چلتا ہے ، وہ کہتے ہیں:

'' ان فسّرنا الغسق بالظّلمة المتراکمه ،فنقول :الظّلمة المتراکة انّهاتحصل عند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ تفسیر عیاشی، ج3، ص 308؛ مجمع البیان، ج6، ص 283

۲۰