توحید اور شرک (کے معیار کی شناخت)

توحید اور شرک (کے معیار کی شناخت)0%

توحید اور شرک (کے معیار کی شناخت) مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 33

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 33 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17961 / ڈاؤنلوڈ: 4195
سائز سائز سائز
توحید اور شرک (کے معیار کی شناخت)

توحید اور شرک (کے معیار کی شناخت)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

7۔ عبادت میں توحید

عبادت میں توحید کی بحث کا اہم جزو یہ ہے کہ عبادت کے معنی کا تعین ہوجائے کیونکہ توحید عبادی ایک اتفاقی مسئلہ ہے اور مسلمانوں کے تمام گروہ اس کے بارے میں ایک ہی نقطہ نظر رکھتے ہیں یہ صحیح ہے کہ معتزلہ(1) ''توحید افعالی''میںاور اشاعرہ ''تو حید صفاتی ''میںاختلاف نظر رکھتے ہیں مگر اس اصل میں وحدت نظر رکھتے ہیں اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اس اصل سے انکار کرے اور اگر کسی قسم کا اختلاف ہے بھی تو اس کا تعلّق مصادیق سے ہے یعنی مسلمانوں میں سے کچھ لوگ بعض افعال کو عبادت سمجھتے ہیں ،جبکہ بعض اسے تعظیم و تکریم کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ لہذا یہی وہ مناسب مقام ہے جہاں ہمیں ''عبادت '' کے معانی قرآن ااور لغت کے اعتبار سے مکمل واضح کرنے چاہئیں ،تاکہ ان موارد اور مصادیق کی صورت ِحال خود بخود روشن و آشکار ہوجائے ۔

مزید واضح الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ '' توحید عباد ی ''ایسی چیز نہیں ہے جو ایک مخصو ص گروہ سے وابستہ ہو بلکہ ہر وہ شخص جو ایک خدا کی پرستش کرتا ا سے یہ معلوم ہے کہ عبادت خدا کی ذات سے مخصوص ہے۔ اگر اس کے خلاف کسی کا عقیدہ ہو تو اس کو موحد نہیں کہا جائے گا۔ تاہم جو چیز محل نزاع ہے وہ کچھ ایسے اعمال ہیں جنہیں مسلمانوں کا ایک گروہ عبادت سمجھتا ہے ۔جبکہ دوسرے کے نزدیک ان کا عبادت سے دور کا بھی تعلق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) جس طرح اہل سنّت فقہی لحاظ سے چار فرقوں میں تقسیم ہوتے ہیں (حنفی ،مالکی ،شافعی ،حنبلی ) اسی طرح عقیدہ کے اعتبار سے دو بڑے فرقوں میں تقسیم ہوتے ہیں ، معتزلہ اور اشاعرہ

۲۱

نہیں ہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''عبادت'' اور ''غیر عبادت'' کے پہچاننے کا معیار کیا ہے؟

کیا ماں باپ، معلم ، علماء کا ہاتھ چومنا یا جو احترام کا مستحق ہو اس کا احترام کرنا عبادت ہے؟ یا مطلق خضوع اور احترام کا نام عبادت نہیں ہے بلکہ اس خضوع اور احترام میں کسی ایک عنصر کا ہونا لازمی ہے جب تک وہ عنصر نہ پایا جائے اس وقت تک اس فعل کو عبادت نہیں کہا جائے گا۔

اب اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ وہ کون سا عنصر ہے جس کے بغیر خضوع اور احترام عبادت نہیں بنتا؟ اور یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔

عبادت کا غلط مفہوم:

الف :عبادت بمعنی خضوع و تذلّل

بعض اہل لغت نے ''خضوع'' یا ''اظہار تذلّل'' کو عبادت قرار دیا ہے۔ اس قسم کی تفسیر لفظ عبادت کے صحیح اور کامل معنی ٰکو بیان نہیں کرسکتی کیونکہ :

1۔اگر ''عبادت''خضوع اور تذلّل کے مترادف ہو تو دنیا میں کسی شخص کو موحد نہیں کہا جاسکتا ہے ، کیونکہ یہ انسا نی فطرت ہے کہ وہ مادی و معنوی بالا و برتر کمالات کے حامل انسانوں کے مقابلے میں خاضع اور خاشع ہوتا ہے ۔مثلا شاگرد استاد کے مقابلے میں ، بیٹا ،ماں باپ کے مقابلے میں وغیرہ

2۔قرآن مجید اولاد کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ بصورت تذلّل اپنے شانوں کو والدین کے

۲۲

سامنے جھکائیں ،لہذا ارشاد ربّالعزت ہوتا ہے

(واخفض لهما جناح الذل من الّرحمةوقل ربّ ارحمهما کما ربّیانی صغیراً ) (1)

''ذلت کے شانوں کو محبت کی علامت کے طور پر ان کے سامنے جھکاؤ اور کہو :خداوندا!ان (والدین) پر رحم فرما جس طرح بچپن میںانہوں نے میری تربیت و پرورش کی ہے ۔

اگر خضوع اور تذلّل ہی عبادت کی علامت ہو تو پھر مطیع وفرما نبر دار اولاد کو مشرک اور عاق شدہ اولاد کو موحّد سمجھا جائے!

ب: عبادت بمعنیٰ ''بے انتہا خضوع''

بعض مفسرین جب اہل لغت کی تفسیر میں موجود نقص سے مطلع ہوئے تو اس کی کمی کو پورا کر نے اور نقص کو دور کرنے کے در پے ہوئے ، اور اس تفسیرکو ایک نئی شکل میں پیش کیا اور کہا: عبادت ، کمال و عظمت کے احساس کے ہمراہ بے انتہاخضوع ہے ۔تاہم اس تفسیر اور پہلی تفسیر میں کوئی خاص فرق نہیں ہے

ایسے افراد قرآن مجید کی بعض آیتوں کو حل کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ قرآن مجید نے بہت ہی واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو۔

(وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَم) (2)

-----------------

(1)(سورہ اسراء آیت 24) (2)۔ سورہ مبارکہ بقرہ، آیت30۔

۲۳

ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کو سجدہ کرو۔

اور محترم قارئین اس چیز کو بخوبی جانتے ہیں کہ''سجدہ ''تذلّل اور لامتناہی خضوع کے اظہار کا ایک مصداق ہے ۔اگر اس قسم کا فعل عبادت کی علامت ہو تو خداکے مطیع فرشتوں کو مشرک اور سرکش شیطان کو موحّد کہنا چاہئے ۔

قرآن مجید نے ایک دوسرے مقام پر جناب یعقوب کا قصہ یوں بیان کیا ہے کہ جناب یعقوب اور ان کے بیٹوں نے جناب یوسف ـ کو سجدہ کیا۔

( وَرَفَعَ أَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاَبَتِ هَذَا تَاْوِیلُ رُؤْیَای مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّی حَقًّا) (1)

حضرت یوسف ـ نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور سب نے ان کا سجدہ کیا اور یوسف ـ نے کہا باباجان! یہ اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے دیکھا تھا۔ خدا نے اس کی حقانیت ثابت کردی۔

حضرت یوسف ـ نے خواب میں دیکھا تھا:

نِّی رَأَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَیْتُهُمْ لِی سَاجِدِینَ) (2)

میں نے گیارہ ستاروں اور سورج و چاند کو دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔

چونکہ جناب یوسف اپنے وابستگان کے سجدہ کو اپنے خواب کی تعبیر بتا رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ یوسف، آیت 100۔

(2)۔ سورہ مبارکہ یوسف، آیت 4۔

۲۴

اس لیے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گیارہ ستاروں سے مراد آپ کے گیارہ بھائی اور چاند سورج سے مراد آپ کے ماں باپ ہیں۔

بیان گزشتہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ صرف جناب یوسف ـ کے بھائیوں نے سجدہ نہیں کیا تھا بلکہ آپ کے ماں باپ نے بھی سجدہ کیا تھا۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے سجدہ کو جس میں حد درجہ کا خضوع اور فروتنی شامل ہے۔

عبادت کا نام کیوں نہیں دیا گیا؟

عذرِ گناہ بدتر از گناہ

مذکورہ مصنفین کا وہ گروہ جو جواب دینے سے عاجز ہے یہ کہتا ہے کہ چونکہ خضوع ، خدا کے حکم سے تھا اس لیے شرک نہیں ہے۔

ظاہر ہے یہ جواب درست نہیں ہے کیونکہ اگر کسی عمل کی ماہیت، ماہیت شرک ہو تو خدا اس کا کبھی حکم ہی نہیں دے سکتا۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

(قُلْ إِنَّ اﷲَ لاَیَأَمُرُ بِالْفَحْشَائِ أَتَقُولُونَ عَلَی اﷲِ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) (1)

کہہ دیجئے کہ بے شک خدا تم کو برائی کا حکم نہیں دے سکتا کیا تم جو نہیں جانتے خدا کی طرف اس بات کی نسبت دیتے ہو۔

اصولی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ صرف خدا کا حکم کسی چیز کی ماہیت کو نہیں بدلتا اگر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ اعراف، آیت 28۔

۲۵

ایک انسان کے سامنے خضوع سے پیش آنے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ عبادت ہے تو اگر خدا بھی حکم دے تو یہی ماہیت رہے گی، یعنی اس انسان کی عبادت ہی ہوگی۔

اشکال کا حل اور عبادت کے حقیقی معنیٰ

یہاں تک اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ ''غیر خدا کی پرستش'' غلط اور ممنوع ہے اور اس پر تمام موحدین کا اتفاق ہے اور دوسری بات یہ بھی معلوم ہوگئی کہ جناب آدم ـ کے لیے فرشتوں کا سجدہ اور جناب یوسف ـ کے لیے حضرت یعقوب اور ان کے بیٹوں کا سجدہ عبادت نہیں ہے۔

اب اس بات کی تحقیق کا وقت ہے کہ ایک ہی عمل کبھی عبادت کیسے بن جاتا ہے اور وہی عمل عبادت کے زمرہ سے خارج کیسے ہوجاتا ہے۔

قرآن کی آیتوں کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کسی موجود کے سامنے خدا سمجھ کر خضوع سے پیش آیا جائے یا اس کی طرف خدائی کاموں کی نسبت دی جائے اور خضوع اختیار کیا جائے تو یہ عبادت ہے اس بیان سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ کسی موجود کے سامنے اس کے خدا ہونے کا عقیدہ رکھ کر یا خدائی کاموں کی انجام دہی کی توانائی کے عقیدہ کے ساتھ خضوع کیا جائے تو یہی عنصر وہ ہے جو خضوع کو عبادت کا رنگ دے دیتا ہے۔

جزیرة العرب اور دوسرے علاقوں کے مشرکین، بلکہ ساری دنیا کے مشرکین اس چیز کے سامنے خضوع و خشوع کا مظاہرہ کرتے تھے جس کو مخلوقِ خدا سمجھتے ہوئے کچھ خدائی

۲۶

کاموں کا مالک سمجھتے تھے اور کم سے کم ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ گناہ بخشنے کا حق رکھتے ہیں اور مقام ِ شفاعت کے مالک ہیں۔

بابل کے مشرکین اجرامِ آسمانی کی پرستش کرتے تھے وہ ان کو اپنا خالق نہیں بلکہ رب مانتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ کائنات اور انسانوں کے انتظام کی ذمہ داری ان کو سونپ دی گئی ہے۔ جناب ابراہیم ـ

نے ان سے اسی عقیدہ کی بنا پر مناظرہ کی تھا، کیوں کہ بابل کے مشرکین ستاروں اور آفتاب و ماہتاب کو پیدا کرنے والا خدا نہیں سمجھتے تھے، وہ تو ان کی ربوبیت کے قائل تھے۔

قرآن مجید نے بابل کے مشرکین سے حضرت ابراہیم ـ کے مناظرہ کے ذکر میں لفظ ''رب''(1) کومحور بنایا ہے۔ اور رب کے معنی مالک اور اپنے مملوک کے مدبر کے ہیں۔

عرب، گھر کے مالک کو ''رب البیت'' اور کھیتی کے مالک کو ''رب الضیعہ'' کہتے ہیں کیوں کہ گھر کا مالک گھر کے امور کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اور کھیت کا مالک کھیت کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتا ہے۔

قرآن مجید نے مدبر اور اور پروردگارِ کائنات کے عنوان سے خدا کا تعارف کرایا ہے۔ پھر دنیا کے سارے مشرکین سے مبارزہ کرتے ہوئے ان کو ایک خدا کی پرستش کی

دعوت دی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ انعام، آیت 78۔ 86۔

۲۷

(إِنَّ اﷲَ رَبِّی وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاط مُسْتَقِیم ) (1)

بیشک ہمارا اور تمہارا رب خدا ہے اسی کی عبادت کرو، یہی صراط مستقیم ہے۔

(ذَلِکُمْ اﷲُ رَبُّکُمْ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ فَاعْبُدُوهُ )(2)

وہی خدا تمہارا رب ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہ تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو۔

سورہ دخان میں خدا فرماتا ہے:

(لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ یُحْیِ وَیُمِیتُ رَبُّکُمْ وَرَبُّ آبَائِکُمْ الْأَوَّلِینَ ) (3)

ایک پروردگار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے وہ زندگی اور موت کا دینے والا ہے وہ تمہارا پروردگار ہے اور تمہارے آباء و اجداد کا پروردگار ہے۔

قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ کی حکایت کرتے ہوئے کہا:

( وَقَالَ الْمَسِیحُ یَابَنِی إِسْرَائِیلَ اعْبُدُوا اﷲَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ) (4)

حضرت عیسیٰ ـ نے فرمایا:اے بنی اسرائیل تم خدا کی پرستش کرو وہ ہمارا اور تمہارا رب ہے۔

بہرحال بیان گزشتہ کی روشنی میں یہ معلوم ہوگیا کہ ربوبیت کے عقیدہ یا کسی موجود کی طرف خدائی کاموں کی نسبت دیئے بغیر عبادت کا عنوان پیدا نہیں ہونا چاہے، خضوع اور فروتنی اپنی انتہا تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ آل عمران: آیت 51۔ (2)۔ سورہ مبارکہ انعام، آیت 102۔

(3)۔ سورہ مبارکہ دخان، آیت 8۔ (4)۔ سورہ مبارکہ مائدہ، آیت 72۔

۲۸

اسی وجہ سے ماں باپ کے سامنے اولاد کا خضوع، انبیاء کے سامنے امت کا خضوع جو مذکورہ بالا قید سے خالی ہو، عبادت نہیں ہے۔

اس بنا پر وہ سارے کام غیر خدا کی عبادت سے خارج ہیں جن کو کچھ نا واقف افراد غیر خدا کی پرستش اور شرک قرار دیتے ہیں۔ مثلاً۔ آثار اولیاء کو متبرک سمجھنا، ضریح کو بوسہ دینا، حرم کی در و دیوار کو چومنا، خدا کے مقرب بندوں کو وسیلہ بنانا، اس کے صالح بندوں کو پکارنا، اولیاء خدا کی ولادت اور شہادت کی تاریخوں کی یادگار منانا وغیرہ۔

ایک ضروری بات:

یہاں یہ امر بھی قابل ِذکر ہے کہ خدا کی ذات و صفات میں کسی اور کو اس کا شریک ٹھرانے کو شرک کہتے ہیں ۔ لیکن اگر کسی ہستی کے لئے ایک وصف ثابت ہو مگر کم اور مستعار درجے کا اور اس کی شان مخلوقیت کے لائق ہو اور خدا کے لئے وہی وصف ثابت ہو ،مگر کامل درجے کا اور اس کی شان خالقیت کے لائق تواحتمال شرک نہیں ہوسکتا ۔مظال کے طور پر قرآن مجید انسان کو سمیع و بصیر (دیکھنے اور سننے والا ) قرار دیتا ہے ۔

(فجعلناه سمیعاًبصیراً) (1) پس ہم نے اسے سننے والا اور دیکھنے والا بنایاہے

انسان میں بلا شبہ یہ اوصاف سماعت و بصارت موجود ہیں لیکن کم تر اور ناصق درجے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورہ مبارکہ دہر ،76:2

۲۹

کے ،جبکہ خداوند متعال کی ذات ان اوصاف سے بالذات متّصف ہے اور اس کے یہ اوصاف درجہ کمال پر متحقق ہیں ۔

ارشاد ربّالعزت ہوتا ہے ۔

( انّه هو السمیع البصیر ) (1) بیشک وہی خوب سننے والا اور خوب دیکھنے والا

ہے ۔

حضور اکرم (ص) کے بارے میں ارشاد ربّانی ہے ۔

( بالمومنین رئوف رّحیم ) (2) اور مومنوں کے لئے نہایت (ہی ) شفیق بے حد رحم کرنے والے ہیں

اور خداوند متعال نے خود اپنی نسبت ارشاد فرمایا:

(انّ اﷲ بالنّاس لرئوف رّحیم) (3) بے شک اﷲلوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا ہے۔

مذکورہ بالا صفات اور ان کے علاہ بھی متعدد اوصاف میں خالق و مخلوق شریک ہیں مگر مختلف درجات و حیثیات کے ساتھ ، اسی لئے ان تمام تقابلی صورتوں میں شرک کا احتمال پیدا نہیں ہوتا ۔ شرک اس وقت لازم آتا ہے جب مخلوق میں خالق کے مساوی یا اس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ مبارکہ بنی اسرائیل،107:1

(2)سورہ مبارکہ توبہ،9:128

(3) سورہ مبارکہ بقرہ ،2:143

۳۰

کے متوازی کوئی وصف تسلیم کیا جائے ۔

اس بیان کی روشنی میں اس اشکال کو رفع کرنا مقصود ہے کہ معصومین (ع) کے بارے میں علم

غیب کا عقیدہ رکھنے میں ہرگز ہرگز اس خیال کا شائبہ بھی نہیں ہوتا کہ اس وصف میں

معصومین(ع) خداوند متعال کے شریک و مساوی ہیں حاشا و کلّا ایسا اعتقاد کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ۔بلکہ اس کے برعکس عقیدہ یہی ہے کہ خدا کا علم ذاتی ،لافانی ، مستقل بالذات ،دائمی وابدی ہے جبکہ معصومین(ع) کا علم عطائی و وہبی ہے ۔ذہن میں اس اعتقاد

کی کار فرمائی سے شرک کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا ۔شرک تو جب ہوگا جب دونوں کے علم غیب کوہم پلّہ اور ہم مقدار قرار دیا جائے چنانچہ محض کسی وصف میں خالق ومخلوق کی شرکت موجب شرک نہیں بنتی۔

تمت بالخیر

سید نسیم حیدر زیدی

1429 ھ ق

انوار القرآن اکیڈمی (پاکستان)

۳۱

فہرست

توحید اور شرک 3

(کے معیار کی شناخت) 3

باب اوّل : توحید ودلائل توحید 4

(1)دلائل نظری 6

پہلی دلیل: 6

دو سری دلیل: 7

تیسری دلیل: 8

مشاہداتی دلائل: 9

پہلی دلیل: 10

دوسری دلیل: 10

تیسری دلیل : 11

باب دوم :توحید اور شرک کا معیار 14

1۔ توحید ذات 14

۳۲

2۔ توحید خالقیت 16

3۔ کائنات کی تنظیم میں توحید 18

4۔ توحیدِ حاکمیت 19

5۔ اطاعت میں توحید 20

6۔ قانون سازی کے مسئلہ میں توحید 20

7۔ عبادت میں توحید 21

عبادت کا غلط مفہوم: 22

الف :عبادت بمعنی خضوع و تذلّل 22

ب: عبادت بمعنیٰ ''بے انتہا خضوع'' 23

عبادت کا نام کیوں نہیں دیا گیا؟ 25

عذرِ گناہ بدتر از گناہ 25

اشکال کا حل اور عبادت کے حقیقی معنیٰ 26

ایک ضروری بات: 29

۳۳