صحیفہ امام حسن علیہ السلام

صحیفہ امام حسن علیہ السلام0%

صحیفہ امام حسن علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امام حسن(علیہ السلام)

صحیفہ امام حسن علیہ السلام

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مشاہدے: 5439
ڈاؤنلوڈ: 3598

تبصرے:

صحیفہ امام حسن علیہ السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 14 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5439 / ڈاؤنلوڈ: 3598
سائز سائز سائز
صحیفہ امام حسن علیہ السلام

صحیفہ امام حسن علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تیسری فصل

آنحضرت کے مناظرے

معاویہ کے نزدیک اپنے والد کی فضیلت میں۔

اپنی شان اور مخالفوں کے عیوب میں۔

فضیلت اہل بیت میں اور اس بارے کہ خلافت کے صرف یہی سزاوار ہیں۔

عمروبن عاص اور ابن زیاد کے ساتھ۔

عبداللہ بن زبیر کے ساتھ۔

مروان بن حکم کے ساتھ۔

عمروبن عاص کے ساتھ۔

عمروبن عاص کے ساتھ۔

عمروبن عاص کے ساتھ۔

معاویہ ابن ابی سفیان کے ساتھ۔

معاویہ ابن ابی سفیان کے ساتھ۔

ولید بن عقبہ کے ساتھ۔

یزید بن معاویہ کے ساتھ۔

حبیب بن مسلمہ فہری کے ساتھ۔

حسن بصری کے ساتھ توحید کے متعلق۔

۱۔ آنحضرت کا مناظرہ معاویہ کے پاس اپنے والد بزرگوار کی شان میں

معاویہ کے پاس عمروبن عثمان بن عفان، عمروبن عاص، عتبہ بن ابی سفیان ، ولید بن عقبہ بن ابی معیط اور مغیرہ بن شعبہ جمع تھے اور سب کا ایک ہی مقصد تھا،(آنحضرت کو کمزور کرنا)۔عمروبن عاص نے معاویہ سے کہا کہ حسن بن علی کے پاس کسی کو کیوں نہیں بھیجتے تاکہ اُس کو بلاؤ کیونکہ اُس نے اپنے والد کی سنت کو زندہ کیا ہوا ہے اور بہت سے لوگ اُس کے اردگرد جمع ہیں۔ وہ حکم دیتا ہے اور اُس کا حکم مانا جاتا ہے۔ وہ بات کرتا ہے اور اُس کی بات قبول کی جاتی ہے۔ یہ دوباتیں اُسے بلند مقام پر لے گئی ہیں۔ اگر تو کسی کو بھیج کر اُسے بلائے تو ہم اُسے اور اُس کے باپ کو کمزور کریں اور اُسے اور اُس کے باپ کو گالیاں دیں اور اُس کی اور اُس کے باپ کی بے عزتی اور توہین کریں تاکہ وہ ہماری بات مان لے۔

معاویہ نے کہا کہ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں تمہارے گلے میں ایسا ہار نہ پہنا دے جو قبر تک تمہارے لئے شرم کا باعث بنارہے۔ خدا کی قسم! جب بھی اُسے دیکھتا ہوں تو ناپسند کرتا ہوں اور اُس سے مجھے ڈر لگتا ہے، اور اگر کسی کو اُس کے پاس بلانے کیلئے بھیجوں تو تمہارے درمیان انصاف سے پیش آؤں گا۔

پھر آنحضرت کی طرف کسی کو بھیجا۔ جب وہ آدمی حضرت کے پاس آیا تو اُس نے کہا کہ معاویہ نے آپ کو بلایا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اُس کے پاس کون کون ہیں؟آنے والے نے کہا کہ اُس کے نزدیک فلاں فلاں شخص ہیں اور اُن کے نام لئے۔ امام نے فرمایا کہ انہیں کیا ہوگیا؟ ان کے سروں پر دیوار کیوں نہیں گرتی اور ان کے سروں پر اُس جگہ سے عذابِ خدا کیوں نہیں آتا جہاں سے انہیں گمان تک نہ ہو۔

جب امام علیہ السلام معاویہ کے پاس پہنچے تو اس نے حضرت کا بڑا استقبال کیا، اور اُن کے ساتھ ہاتھ ملایا۔معاویہ نے کہا: اس گروہ نے میری بات نہیں مانی اور آپ کو بلانے کیلئے آدمی کو بھیج دیا تاکہ آپ سے اقرار کروائیں کہ عثمان مظلوم قتل ہوا ہے اور اُسے آپ کے باپ نے قتل کیا ہے۔ ان کی گفتگو سن کو اُس کے مطابق جواب دیں۔ میں آپ کوبات کرنے سے نہیں روکوں گا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ گھر تیرا گھر ہے اور اس میں اجازت بھی تیری طرف سے ہوگی۔ خدا کی قسم! اگر میں انہیں جواب دوں گا تو تجھے بُرا کہنے سے حیا کروں گا اور اگر یہ لوگ تیرے ارادے پر غالب آگئے تو تیری کمزوری سے مجھے شرم آئے گی۔ کس بات کا اقرار اور کس چیز سے معذرت چاہتے ہو؟ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اتنے سارے لوگ جمع ہیں تو میں بھی بنی ہاشم سے اتنے جوان اپنے ساتھ لے آتا۔ اگرچہ یہ لوگ مجھ اکیلے سے زیادہ خوف رکھتے ہیں اس سے ، جتنا میں ان سب سے رکھتا ہوں۔ خدا آج اور باقی دنوں میں میرا سرپرست ہوگا۔ ان سے کہو کہ جو کہنا چاہتے ہیں، کہیں، میں سنتا

ہوں اور عظمت و بلندی والے خدا کے علاوہ کسی کی طاقت و قوت نہیں ہے۔پھر اُن سب نے گفتگو کی، اور سب کی گفتگو اور کلام علی علیہ السلام کی برائی بیان کرنے کے متعلق تھی۔ پھر وہ سب خاموش ہوگئے اور امام علیہ السلام نے اپنی گفتگو شروع کی اور فرمایا:

تمام تعریفیں اُس خدا کیلئے ہیں کہ جس نے ہمارے بزرگوں کے ذریعے سے تمہارے بزرگوں کی ہدایت کی اور ہمارے بعد میں آنے والوں کے سبب تمہارے بعد والوں کی ہدایت کی، اور خدا کا درود ہو محمد اور اُن کی اہل بیت پر۔ میری بات سنو اور اُس میں غوروفکر کرو، اور اے معاویہ! میں تجھ سے شروع کرتا ہوں۔ خدا کی قسم! اے معاویہ! ان لوگوں نے مجھے گالیاں نہیں دیں بلکہ تو نے مجھے گالیاں دی ہیں۔ ان لوگوں نے مجھے بُرا بھلا نہیں کہا بلکہ تو نے کہا ہے، اور یہ سب کام تیری طرف سے ہوا ہے، اور یہ اس لئے ہے کہ تو پہلے سے اور اب بھی ہمارے ساتھ اور محمد کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے۔ تیرے دل میں بغض و حسد، ظلم و زیادتی اور برائی ہمارے اور محمد کے متعلق موجود ہے۔

خدا کی قسم! اگر میں اور یہ لوگ مسجد نبوی میں ہوتے اور وہاں مہاجرین اور انصار بھی موجود ہوتے تو ان کی جراءت نہ تھی کہ ایسی باتیں کرتے، اور ایسے مطالب کو بیان کرنے پر ان کی طاقت نہ تھی۔

اے اس جگہ میرے خلاف جمع ہونے والے گروہ کے افراد ! سنو! اور جس حق کو تم جانتے ہو، اُسے چھپانے کی کوشش نہ کرنا۔ اگر میں غلط بات کروں تو اُس کی تصدیق نہ کرنا اور اے معاویہ! میں تجھ سے شروع کرتا ہوں او ر میں کم ہی کہوں گا اُس سے جو تجھ میں ہے۔

تجھے خد اکی قسم دیتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ جس شخص کو تم نے گالیاں دی ہیں، اُس نے دو قبلوں(بیت المقدس، کعبہ) کی طرف نماز پڑھی ہے اور تو نے ان دونوں قبلوں کو اُس وقت دیکھا ہے جب تو کفر کی حالت میں تھا اور گمراہ تھا، اور لات و عزیٰ کی پوجاکرتا تھا، اور اُس نے دودفعہ بیعت کی یعنی بیعت رضوان اور بیعت فتح مکہ، جبکہ تو اے معاویہ! پہلی بیعت کے وقت کافر تھا اور دوسری بیعت کو تونے توڑ دیا۔پھر فرمایا:

تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ کیا جو میں کہہ رہا ہوں ، وہ حق ہے؟ اُس نے تیرے ساتھ اُس وقت ملاقات کی جب وہ پیغمبر کے ساتھ جنگ بدر میں تھا، اور وہ پیغمبر اور مومنون کے پرچم کو اٹھائے ہوئے تھا، اور اے معاویہ! تیرے ساتھ مشرکوں کا پرچم تھا اور تو لات و عزیٰ کی پوجا کرتا تھا، اور تو پیغمبر کے ساتھ جنگ ایک واجب و ضروری کام شمار کرتا تھا، اور اُس نے جنگ اُحد میں اُس وقت سامنا کیا جب اُس کے ساتھ رسولِ خدا کا پرچم تھا، اور اے معاویہ! تیرے ہاتھ میں مشرکین کا پرچم تھا، اور جنگ خندق میں اُس وقت تیرے سامنے آیا جب اُس کے ہاتھ میں رسولِ خدا کا پرچم تھا اور تیرے ہاتھ میں مشرکوں کا جھنڈا تھا۔

یہاں تک کہ خدا نے میرے والد کے دست مبارک سے مسلمانوں کو کامیاب کیا اور اپنی حجت کو واضح و روشن کیا، اور اپنے دین کی مدد کی، اور اُس کی بات کی تصدیق کی، اور ان سب موقعوں پر رسولِ خدا اُس سے راضی تھے، اور تجھ سے ناراض تھے۔

پھر تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسولِ خدا نے بنی قریظہ اور بنی نضیر کا محاصرہ کیا ہوا تھا، اوراُس وقت مہاجرین کا علم عمر بن خطاب کے ہاتھ میں تھااور انصار کا پرچم سعد بن معاذ کے ہاتھ میں تھا۔ ان کو جنگ کیلئے بھیجا۔ سعد بن معاذجنگ کیلئے گیا اور زخمی واپس آیا، اور عمر بھاگ کر واپس آگیا، اور حالت یہ تھی کہ اُس کے ساتھی اُسے ڈرا رہے تھے، اور وہ اپنے ساتھیوں کو ڈرا رہا تھا۔ رسولِ خدا نے فرمایا کہ کل میں اُس کو علم دوں گا جو خدا اور اُس کے رسول کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور اُس کا رسول اُسے دوست رکھتے ہیں۔جو بڑھ بڑھ کر حملے کرنے والاہے اور بھاگنے والانہیں ہے۔ وہ اُس وقت تک واپس نہ آئے گا جب تک خدا اُس کے ہاتھ پر فتح عطا نہ کردے۔

ابوبکر اور عمر اور دوسرے مہاجرین اور انصار اپنے آپ کو رسولِ خدا کے سامنے پیش کررہے تھے تاکہ وہ اس فضیلت کیلئے منتخب ہوجائیں۔ علی علیہ السلام اُس دن بیمار تھے۔ اُن کی آنکھوں میں درد تھا۔ رسولِ خدا نے انہیں اپنے پاس بلایا اور اُن کی آنکھوں میں لعابِ دہن لگایا۔ وہ ٹھیک ہوگئے۔ رسولِ خدا نے علَم دیا اور وہ اس وقت تک واپس نہ لوٹے جب تک خدا نے ان کے ہاتھ پر فتح عطا نہ کردی، اور تو اے معاویہ! اُس دن مکہ میں تھا۔

اور خدا و رسول کا دشمن شمار ہوتا تھا۔ کیا وہ شخص جو خدا اور رسولِ خدا کی مدد کرے اور وہ جو خدا کا اور رسولِ خدا کا دشمن ہو، برابر ہیں۔ پھر میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ ابھی بھی تیرا دل ایمان نہیں لایا لیکن تیری زبان ڈرتی ہے۔ اس لئے جو دل میں نہیں ہے ، وہ کہتا ہے۔

تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں ، کیا تم نہیں جانتے کہ رسولِ خدا نے اُسے جنگ تبوک میں اپنے جانشنین اور خلیفہ کے طور پر بس ٹھہرایا تھا ، اس حالت میں کہ نہ تو وہ اُسے دشمن رکھتا تھا، اور نہ ہی اُس سے ناراض تھا۔ منافقین نے اس بارے میں بڑی باتیں کیں ، اور اس چیز کو علی کیلئے ایک عیب کے طور پر پیش کیا۔علی علیہ السلام نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے شہر میں پیچھے نہ چھوڑئیے کیونکہ آج تک میں نے کسی جنگ میں بھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑا۔ رسولِ خدا نے فرمایا کہ تم میرے خاندان میں میرے خلیفہ اور میرے وصی ہوجیسے ہارون موسیٰ کیلئے تھے۔ اُس وقت علی کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:اے لوگو! جو بھی مجھے دوست رکھے گا وہ خدا کو دوست رکھے گا، او ر جو بھی علی کو دوست رکھے گا، وہ مجھے دوست رکھے گا،اور جس نے میری اطاعت کی، اُس نے خدا کی اطاعت کی، اور جس نے بھی علی کی اطاعت کی، اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے مجھے دوست رکھا، خدا کو دوست رکھا اور جس نے بھی علی کو دوست رکھا، اُس نے خدا کو دوست رکھا۔

پھر فرمایا:تمہیں خدا کی قسم ، کیا تم جانتے ہو کہ رسولِ خدا نے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا:اے لوگو! میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ اس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہونا، اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت ۔قرآن کے حلال کو حلال جانو اور قرآن کے حرام کو حرام سمجھو۔ اس کے واضح اور روشن احکام پر عمل کرو اور مشتبہ اور غیر واضح احکام پر ایمان لاؤ ، اور کہو کہ جو کچھ خدا نے قرآن میں نازل فرمایا ہے، اس پر ایمان لائے، اور میرے اہل بیت سے محبت کرو۔ جو ان سے محبت کرے گا، وہ مجھ سے محبت کرے گا، اور دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد کرو، اوریہ دوچیزیں تمہارے درمیان باقی رہیں گی، یہاں تک کہ قیامت کے دن حوضِ کوثر کے پاس مجھ پر وارد ہوں گی۔

پھر جبکہ رسولِ خدا منبر پر تھے، علی کو اپنے پاس بلایا، اور اُسے اپنے ہاتھوں کے ساتھ پکڑ کر فرمایا:اے اللہ! علی سے محبت کرنے والوں سے محبت رکھ، اور علی سے دشمنی رکھنے والے کو دشمن رکھ۔ اے اللہ! جو علی سے دشمنی رکھے، نہ زمین میں اُس کیلئے کوئی ٹھکانا ہو، اورنہ آسمان کی طرف بھاگنے کا کوئی راستہ، اور اُسے آگ کے بدترین درجات میں قرار دے۔

تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں ، کیا تم جانتے ہو کہ رسولِ خدا نے اُسے فرمایا کہ اے علی ! تو قیامت کے دن لوگوں کو حوضِ کوثر سے اس طرح دور کررہے ہوگے جیسے ایک اجنبی

اونٹ کو دوسرے اونٹوں سے دورکرتے ہو۔ تمہیں خداکی قسم ، کیا تم جانتے ہو کہ وہ جب رسولِ خدا کے پاس اُس وقت آیا جب وہ مرض الموت میں تھے تو پیغمبر رونے لگے۔

علی نے عرض کیا، یا رسول اللہ روتے کیوں ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ میری امت کے ایک گروہ کے دلوں میں کینہ موجود ہے۔جب میں اس دنیا سے چلاجاؤں گا تو یہ اُسے ظاہر کریں گے۔

تمہیں خدا کی قسم، کیا تم جانتے ہو کہ جب رسولِ خدا کی وفات کا وقت تھااور تمام اہل بیت اُن کے پاس جمع تھے تو آپ نے فرمایاکہ:اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ ان کے دوستوں کو دوست رکھ اور ان کے دشمنوں کو دشمن رکھ، اور فرمایا: میرے اہل بیت کی مثال نوح کی کشتی کی مانند ہے، جو بھی اس میں سوار ہوگیا، وہ نجات پاگیا اور جو بھی اس سے پیچھے رہ گیا، وہ ہلاک ہو گیا۔

تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں ، کیا تم جانتے ہو کہ رسولِ خدا کے اصحاب حضرت کے زمانے میں اور حضرت کی زندگی میں ولی اور رہبر کہہ کر سلام کرتے تھے۔

تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ علی اصحابِ پیغمبر میں سے سب سے پہلے شخص ہیں جس نے دنیا کی لذتوں کو اپنے اوپر حرام قرار دیا تھا، اور خدا نے یہ آیت نازل کی اور فرمایا:(اے ایمان والو! پاک چیزیں جو تم پر حلال ہیں ، انہیں اپنے اوپر حرام نہ کرو، اورتجاوز نہ کرو، بے شک خدا تجاوز کرنے والوں کوپسند نہیں کرتا،اور وہ

چیزیں جو خدا نے تم پر نازل کی ہیں، اور حلال و پاک ہیں، انہیں کھاؤ، اور جس خدا کے ساتھ تم ایمان رکھتے ہو، اُس سے ڈرو)، اور علی علیہ السلام کے پاس موت کے اوقات کا علم، احکامِ خدا کا علم، کتابِ خدا کا علم اور قرآن کے راسخ کا علم اور نازل ہونے والے قرآ ن کا علم رہتا تھا، اور ایک گروہ تھا جس کی تعداد تقریباً دس تک تھی، خدا نے خبر دی تھی کہ یہ مومن ہیں، اور تم بھی ایک گروہ ہو جس کی تعداد تقریباً اتنی ہی ہے اور اُن پر زبانِ پیغمبر میں لعنت ہوئی ہے۔ تمہیں گواہ قرار دیتا ہوں اور میں بھی تم پر گواہ ہوں کہ تم سب پر رسولِ خدا کی طرف سے لعنت ہوئی ہے۔

تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں ، کیا تم جانتے ہو کہ جب رسولِ خدا نے تمہارے پاس ایک آدمی کو بھیجا تاکہ بنی خزیمہ کیلئے ایک خط لکھے، یہ اُس وقت کی بات ہے جب خالد بن ولید بنی خزیمہ کے پاس پہنچا تھا۔ آدمی پیغمبر اسلام کے پاس واپس آیا اور کہا کہ وہ کھانا کھارہا ہے۔ تین مرتبہ وہ آدمی تیرے پاس گیا، اور ہر دفعہ واپس آکر کہا کہ وہ کھانا کھا رہا ہے، تو اُس وقت رسولِ خدا نے فرمایا کہ اے اللہ! اس کا پیٹ کبھی پُر نہ ہو۔ خدا کی قسم! یہ بات قیامت تک تیری غذا اور کھانے میں ثابت ہے۔پھر فرمایا:

تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ جو میں کہہ رہا ہوں، حق ہے۔ اے معاویہ! جنگ احزاب کے دن جب تیرا باپ سرخ بالوں والے اونٹ پر بیٹھا ہوا تھا، تو اُسے پیچھے سے اور تیرا بھائی اُسے آگے سے ہانک رہے تھے،اور رسولِ خدانے اُس اونٹ پر بیٹھنے والے اور آگے اور پیچھے سے ہانکنے والے پر لعنت کی تھی، اور تیرا باپ اُس وقت اونٹ پر سوار تھا، اور تو اور تیرا بھائی اُس اونٹ کو آگے اور پیچھے سے ہانک رہے تھے۔

تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں ، کیا تم جانتے ہو کہ رسولِ خدا نے سات مقامات پر ابوسفیان پر لعنت کی ہے۔

۱۔ جب آنحضرت نے مکہ سے مدینہ کی طرف حرکت کی اور ابوسفیان شام سے آگیا اور آنحضرت کو بُرا بھلا کہا، اور آنحضرت کو ڈرایا اور چاہتا تھا کہ آنحضرت کو گرفتار کرلے۔ خدا نے رسولِ خدا کو اُس کے شر سے محفوظ رکھا۔

۲۔ جس دن (قریش کے مشرکین کا قافلہ شام سے آیا اور رسولِ خدا اُسے روکنا چاہتے تھے) لیکن ابوسفیان کسی اجنبی راستے سے قافلہ کو مکہ لے گیا تاکہ پیغمبر کے ہاتھ نہ آئیں اور (جنگ بدر واقع ہوئی)۔

۳۔ جنگ اُحد کے دن۔ رسولِ خد انے فرمایا کہ خدامیرا مولا اور تمہارا کوئی مولا و سرپرست نہیں ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ ہمارے پاس عزیٰ ہے، تمہارے پاس عزیٰ نہیں ہے۔ پس اُس وقت خدا، فرشتے ،رسولوں اور تمام مومنوں نے اُس پر لعنت کی۔

۴۔ جنگ حنین کے دن، جب ابوسفیان نے قریش، ہوازن و عیینہ غطفان اور یہودیوں کوجمع کرکے رسولِ خدا کے خلاف تیار کیا۔پس یہ لوگ غصے کے ساتھ واپس چلے گئے اور یہ اچھائی اور خیر نہ پاسکے۔ یہ خدا تعالیٰ کاکلام ہے جو دوسورتوں میں نازل ہوا ہے، اور ابوسفیان اور اُس کے ساتھیوں کوکافر کہا ہے، اور اے معاویہ! تو اُس دن مکہ میں تھا، اور اپنے باپ کے دین یعنی شرک پر تھا اور مشرک تھا، اور اُس دن علی علیہ السلام رسولِ خدا کے ساتھ تھے اور اُن کے دینی عقیدہ پر تھے۔

۵۔ اللہ تعالیٰ کا قول ہے:( اور قربانی کو اُس کے مقام پر پہنچنے سے روکے ہوئے ہیں)، اور اے معاویہ! تو، تیرا باپ اور مشرکین قریش نے رسولِ خداکو روکا تھا۔ پس خدا نے اُن پرلعنت کی۔ ایسی لعنت جو اُس کیلئے اور اُس کی اولاد کیلئے قیامت تک باقی رہے گی۔

۶۔ جنگ خندق کے دن، جس دن ابوسفیان قریش اور عیینہ بن حصین بن بدرغطفان میں جمع ہوئے، رسولِ خدا نے ان کے رہبر، ان کے تابعین اور قیامت تک پیچھے چلنے والوں پر لعنت کی تھی۔ کسی نے کہا یا رسول اللہ! کیا اتباع کرنے والوں میں مومن نہیں ہوں گے ؟ تو آپ نے فرمایاکہ ان کے بعد آنے والے جو مومن ہوں گے، ان پر لعنت شامل نہیں ہوگی۔

بہرحال رہی بات خود ان کی تو ان میں مومن اور جس کی دعا قبول ہوتی ہو اور نجات پانے والا کوئی نہیں ہے۔

۷۔ اُس دن جب بارہ آدمیوں نے رسولِ خد اکے بارے میں برا ارادہ کیا ہوا تھا، اُن بارہ میں سے سات آدمی بنی اُمیہ سے اور پانچ دوسرے تھے۔ پس خدا اور اُس کے رسول نے گھاٹی سے گزرنے والوں پر لعنت کی، سوائے رسولِ خدا اور اُن کے جو حضرت کی سواری کو آگے اور پیچھے سے چلا رہے تھے۔

تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں، کیا تمہیں معلوم ہے کہ جس دن مسجد نبوی میں عثمان کی بیعت ہورہی تھی تو ابوسفیان آیا اور کہا: اے میرے بھائی کے بیٹے! کیا ہمیں کوئی اور دیکھ تو نہیں رہا؟ عثمان نے کہا کہ نہیں۔ ابوسفیان نے کہا کہ بنی اُمیہ کے نوجوانو! خلافت کو اپنے درمیان چکر دیتے رہو، اور خدا کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جنت اور دوزخ کا کوئی وجود نہیں ہے۔

تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ جب عثمان کی بیعت کی جارہی تھی تو ابوسفیان نے حسین بن علی علیہما السلام کا ہاتھ پکڑا اور کہا: اے بھتیجے! میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت البقیع(قبرستان) کی طرف لے چل۔ باہر نکلے اور قبروں کے درمیان پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر اپنا ہاتھ کھینچ کر اونچی آواز سے بولا: اے قبروں والو! جس حکومت کے متعلق کل تم ہمارے ساتھ جنگ کر رہے تھے،آج وہ ہمیں مل گئی ہے اور تم مٹی بن چکے ہو۔ امام حسین بن علی علیہما السلام نے فرمایا کہ خدا تیری داڑھی اور تیرے چہرے کو مسخ کردے اور پھر اپنا ہاتھ کھینچ کر اُسے چھوڑدیا، اور اگر نعمان بن بشیر اُسے پکڑ کر مدینہ نہ لاتا تو وہ ہلاک ہوجاتا۔

اے معاویہ یہ تو تھا تیرے لئے۔ کیا ان لعنتوں میں سے کوئی ایک بھی ہماری طرف پلٹائی جاسکتی ہے، اور تیرا باپ ابوسفیان مسلمان ہونا چاہتا تھا ، اور تو نے ایک مشہور ومعروف شعر جو قریش اور دوسرے قبائل کے درمیان مشہور تھا، اُس کے پاس بھیجا تاکہ اُسے مسلمان ہونے سے روکے، اور ایک یہ کہ عمر بن الخطاب نے تجھے شام کا والی بنادیا اور تو نے اُس کے ساتھ بھی خیانت کی، اور عثمان نے تجھے شام کا حاکم بنادیا، اور تو اس کی موت کے انتظار میں تھا۔ ا س سے بڑھ کر یہ کہ تو نے خدا اور اس کے رسول کے متعلق جراءت کی، اس طرح کہ علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ کی، حالانکہ تو اُنہیں پہچانتا تھا، اور اُن کے فضل و علم اور سبقت کو بھی پہچانتا ہے، جو اُنہیں خدا کے نزدیک اور لوگوں کے نزدیک حاصل ہے، اور خاص طور پر ان اور (خلافت) میں بھی تجھ سے اور دوسروں سے زیادہ لائق ہیں، یہ بھی تو جانتا ہے اور تو لوگوں کا حاکم بن گیا، اور فریب و مکر اور دھوکے سے بہت سے لوگوں کا خون بہایا، اور یہ کام وہ کرتا ہے جو آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو اور خدا کے عذاب سے نہ ڈرتا ہو۔اور جب موت کا وقت آئے گا تو بد ترین جگہ میں جائے گا، اور علی علیہ السلام سب سے اچھے مکان میں ہوں گے، اور خدا تیری انتظار میں ہے۔ اے معاویہ!یہ فقط تیرے لئے تھا اور جن برائیوں اور عیبوں کو میں نے بیان نہیں کیا، وہ اس لئے تاکہ بات لمبی نہ ہوجائے۔

بہرحال رہی بات تیری اے عمروبن عاص، تو تو احمق ہونے کی وجہ سے جواب دینے کے لائق نہیں ہے۔ ان چیزوں میں غوروفکر کرنا تیرے لئے اُس مکھی کی طرح ہے جو درخت سے کہتی ہے کہ رُک جا، میں تیرے اوپر بیٹھنا چاہتی ہوں، تو درخت اُس سے کہتا ہے کہ میں نے تیرے بیٹھنے کو محسوس ہی نہیں کیا، کس طرح تیرا بیٹھنا میرے لئے دشوار ہوگا۔خدا کی قسم! میرے خیال میں تیری اتنی طاقت نہیں کہ مجھ سے دشمنی رکھے جو میرے لئے دشوار ہو۔ بہرحال میں تجھے جواب دیتا ہوں۔

تو نے جو علی علیہ السلام کو گالیاں دی ہیں ، کیا تیرا یہ کام اُس کے مقام و مرتبہ کو کم کردے گا یا اُنہیں رسولِ خدا سے دور کر دیگا یا اُن کے اسلام میں کئے ہوئے اعمال کو ناپسندیدہ بنا دیگا یا وہ فیصلہ کرنے میں ظلم کے ساتھ متہم ہوجائے گا یا دنیا کی طرف مائل ہونے کیساتھ متہم ہوجائے گا۔ اگر ان چیزوں میں سے ایک بھی کہو تو جھوٹ کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

رہی تمہاری یہ بات کہ ہماری طرف سے تم پر اُنیس خون ہیں جو تم نے جنگ بدر میں بنی اُمیہ کے مشرکوں کو قتل کیا تھا، حالانکہ حقیقت میں ان کو خدا اور اُس کے رسول نے قتل کیا تھا۔

مجھے میری جان کی قسم! تم بنی ہاشم میں سے اُنیس آدمی اور اُنیس کے بعد تین آدمیوں کو قتل کروگے۔ پھر اُنیس آدمی اور اُنیس آدمی ایک مکان میں بنی اُمیہ سے قتل کئے جائیں گے۔ اُن کے علاوہ جو بنی اُمیہ سے قتل کئے جائیں گے، اور اُن کی تعداد صرف خدا ہی جانتا ہے۔

رسولِ خدا نے فرمایا کہ جب مینڈک کی اولادتیس آدمیوں تک پہنچ جائے گی تو وہ خداکے مال کو لوٹیں گے۔ لوگوں کو غلام بنائیں گے اور کتابِ خدا کو مکروفریب کے راستے میں قرار دیں گے۔

جب رسولِ خدا یہ گفتگو ارشاد فرمارہے تھے تواسی اثناء میں حکم بن ابی العاص آگیا۔ رسولِ خدا نے فرمایا کہ بات آہستہ کرو کیونکہ مینڈک سن لے گا اور یہ وہ زمانہ تھا جب رسولِ خدا نے خواب میں دیکھا تھا کہ یہ لوگ اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ آنحضرت کے بعد اس امت کی رہبری و رہنمائی کو اپنے ہاتھ میں لیں گے اور اس بات نے انہیں غمگین کردیا، اور یہ بات اُن پر بڑی سخت گزری۔

پس خدا نے یہ آیت نازل فرمائی(ہم نے تم کو جو خواب دکھلایا ہے، وہ صرف لوگوں کیلئے امتحان ہے، اور شجرہ ملعونہ ہے قرآن میں)۔اور شجرہ ملعونہ سے مراد بنی اُمیہ ہے ، اور اسی طرح نازل فرمائی(شب قدر ہزار رات سے بہتر ہے)، تمہیں گواہ قرار دیتا ہوں اور میں خود گواہ ہوں کہ علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد تمہاری حکومت ہزار مہینوں سے زیادہ نہ ہوگی جو قرآن میں معین و مقر ر ہے۔

اور بہرحال تو اے عمربن العاص ایک مذاق کرنے والا ملعون ہے جس کی نسل منقطع ہے، اور تو ابتداء ہی سے کتے کی طرح بھونکنے والا ہے، اور تیری ماں زانیہ تھی، اور تو اُس بستر پر پیدا ہواہے جس کے ساتھ چند آدمی تعلق رکھتے تھے، اورقریش کے آدمیوں نے تیرے متعلق اختلاف کیا۔ اختلاف کرنے والوں میں سے ایک ابوسفیان بن حرب ، ولید بن مغیرہ، عثمان بن حارث، نضر بن حارث بن کلدہ اور عاص بن وائل تھے۔ یہ سب کے سب تجھے اپنا بچہ جانتے تھے۔ان میں سے وہ کامیاب ہوا جو حسب کے لحاظ سے پست تر، مقام و مرتبہ کے اعتبار سے گرا ہوا اور زنا کرنے میں سب سے آگے تھا۔

پھر تو کھڑا ہوا اور کہا کہ میں محمد کا مذاق اڑاتا ہوں، اور عاص بن وائل نے کہا کہ محمد وہ آدمی ہے جس کا بیٹا نہیں ہے۔ اُس کی نسل منقطع ہے۔ اگر مرگیا تو اُس کا ذکر ختم ہوجائے گا۔ پس خدا نے یہ آیت نازل کی:( تیرا مذاق اڑانے والے کی نسل منقطع ہے)۔

تیری ماں عبد قیس کے قبیلے کے پاس جاکر زنا کرواتی تھی۔ اس قبیلے والوں کے گھروں میں ان کی مجلسوں اور محفلوں میں اور اُن کی وادیوں میں زنا کروانے کی خاطر اُن کے پیچھے جایا کرتی تھی۔ پھر تو اس مقام پر موجود ہوتا تھا، جہاں رسولِ خدا اپنے دشمنوں کے ساتھ آمنا سامنا کرتے،درآنحالیکہ تو اُن سب سے زیادہ دشمنی کرنے والا اور سب سے زیادہ جھٹلانے والا ہوا کرتا تھا۔

پھر تو اُن لوگوں میں موجود تھا جو کشتی میں تھے، اور نجاشی کے پاس جارہے تھے تاکہ جعفر بن ابی طالب اور اُس کے دوستوں کا خون بہائیں۔ لیکن تیرا فریب تیری ہی طرف لوٹ گیا، اورتیری تمنا ہوا میں اڑ گئی، اور تیری اُمید نااُمیدی میں بدل گئی۔ تیری کوشش ختم ہوئی اور بے نتیجہ رہی، اور خدا کا قول بلند ہوا اور کافروں کی بات پست ہوئی۔

بہر حال تیری بات عثمان کے بارے میں، تو اے کم حیا والے اور بے دین اُس کے خلاف تو نے خود ہی آگ بھڑکائی اور پھر خود فلسطین کی طرف بھاگ گیا، اور وہاں اس انتظار میں تھا کہ عثمان پر کون سی بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں۔ جب اُس کے قتل ہونے کی خبر تجھ تک پہنچی تو تو نے اپنے آپ کو معاویہ کے اختیار میں دیدیا۔ پس اے خبیث! تو نے اپنے دین کو دوسروں کی دنیا کے بدلے بیچ دیا اور ہم تمہیں اپنی دشمنی پر ملامت نہیں کرتے، اور نہ اپنی محبت پر تمہیں برا بھلا کہتے ہیں۔ تو تو جاہلیت اور اسلام کے زمانے میں بھی بنی ہاشم کا دشمن تھا، اور رسولِ خدا کے متعلق اُن کا مذاق اڑانے کیلئے تو نے ستر شعر کہے تو رسولِ خدا نے فرمایا: اے اللہ! میں شعر اچھی طرح نہیں جانتا، اور میں شعر کہنا نہیں چاہتا تو عمروبن عاص پر ہر شعر کے بدلے میں ہزار مرتبہ لعنت کر۔

پھر تو نے اے عمرو! اپنے دین پر دنیا کو ترجیح دی اور دوبارہ نجاشی کے پاس جاکر اُسے تحفے اور ہدیے دئیے۔ تیر اپہلی بار والا جانا تجھے دوبارہ جانے سے روک نہ سکا۔ ہر دفعہ نا امید اور شکست کھا کر واپس لوٹے۔ تیرا مقصد جعفر اور اُس کے ساتھیوں کو قتل کرنا تھا، اور جب تیری امید اور آرزو پوری نہ ہوئی تو اپنے معاملہ کو اپنے دوست عمارہ بن ولید کے سپرد کردیا۔

اور رہی بات تیری اے ولید بن عقبہ! خدا کی قسم! علی علیہ السلام کے متلعق تیرے بغض اور کینہ میں تجھے ملامت نہیں کرتا کیونکہ اُنہوں نے تجھے شراب پینے کی وجہ سے اسی کوڑے مارے تھے، اور بدر کے دن تیرے باپ کو قتل کیا تھا اور کیونکر تو انہیں گالیاں نہ دے ، جبکہ خدا نے اُنہیں قرآن کی دس آیات میں مومن اور تجھے فاسق کے نام سے یاد کیا ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ فرماتا ہے:( کیا جو مومن ہے وہ اُس کی طرح ہوسکتا ہے جو فاسق ہے)، اور فرمانِ خدا ہے:( اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اُس کی چھان بین کرلیا کرو تاکہ جہالت کی وجہ سے کسی گروہ کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوجاؤ اور اپنے کام کے مقابلے میں شرمندگی نہ اٹھانا پڑے)۔

اور تجھے قریش کے نام سے کیا سروکار؟ تو ایک سیاہ رنگ والے شخص جس کا نام ذکوان اور صفدریہ کے رہنے والے کا بیٹا ہے۔اور رہی یہ بات کہ تمہارا گمان ہے کہ ہم نے عثمان کو قتل کیا ہے، خدا کی قسم! یہ نسبت علی علیہ السلام کی طرف تو طلحہ، زبیر اور عائشہ بھی نہیں دے سکے تو کس طرح یہ نسبت اُس کی طرف دیتا ہے؟

اگر تو اپنی ماں سے سوال کرے کہ تیرا باپ کون ہے کیونکہ اُس نے ذکوان کو چھوڑ کر تجھے عقبہ بن ابی معیط کے ساتھ منسوب کیا اور اس وجہ سے اُسے اپنے نزدیک بہت بڑا مقام ملا، اور ساتھ اس کے کہ خدا نے تیرے باپ اور تیری ماں کیلئے دنیا وآخرت میں ذلت و رسوائی اور پستی تیار کی ہوئی ہے، اور خدا اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔

اور اے ولید تو بھی، اللہ اکبر، اپنے باپ کے متعلق سوال کر اُس سے جس کی طرف تو منسوب ہے۔ تو کس طرح علی علیہ السلام کو گالیاں دیتا ہے؟ اگر تو اس بات میں مشغول رہے اور کوشش کرے کہ اپنے نسب کو اپنے اصلی باپ کی طرف ثابت کرے ، نہ کہ اُس کی طرف جس کی طرف تیری نسبت ہے، اور تو نے اپنے آپ کو منسوب کرلیا ہے، اور تیری ماں نے تجھ سے کہا کہ اے بیٹے! خدا کی قسم! تیرا باپ عقبہ سے خبیث تر اور پست تر ہے۔اور اے عتبہ بن ابی سفیان! رہی بات تیری تو خدا کی قسم! تو اتنا علم نہیں رکھتا کہ تیرا جواب دوں اور تو عقل نہیں رکھتا کہ تجھے سرزنش کروں، اور تجھ سے کسی اچھائی کی توقع نہیں کی جاسکتی، اور تو نے جو علی علیہ السلام کو بُرا بھلا کہا، میں اُس بارے تجھے ملامت نہیں کرتا اور بُرابھلا نہیں کہتا کیونکہ تو میرے نزدیک علی علیہ السلام کے غلام اور نوکر کے ہم پلہ بھی نہیں ہے تاکہ میں تیرا جواب دوں اور تجھے ملامت کروں۔ لیکن خدا تیرے بھائی اور تیرے باپ کے انتظار میں ہے، اور تو اپنے اُن آباو اجداد کا بیٹا ہے جن کوخدانے اس طرح یاد کیا ہے:( کام کرنے والی، تکلیف و دکھ دینے والی اور جلانے والی آگ کو چکھیں گے۔ ابلتے ہوئے پانی کے چشمے سے اُن کو پلایا جائے گا، یہاں تک کہ فرماتا ہے، بھوک سے)۔

اور تیری یہ دھمکیاں کہ تو مجھے قتل کر دیاگا تو تو نے اُسے کیوں قتل نہ کیا جس کو تونے دیکھا کہ تیری بیوی کے ساتھ تیرے ہی بستر پر ہم بستری کررہا تھا اور بچے میں تیرے ساتھ وہ شریک ہوگیا۔ یہاں تک کہ بچے کو تیری طرف منسوب کردیا، حالانکہ وہ بچہ تیرا نہ تھا۔ ہلاکت ہے تیرے لئے۔ اگر تو مجھے ڈرانے اور قتل کی دھمکیاں دینے کی بجائے اُس سے اپنی رسوائی کا انتقام لیتا تو تیرے لئے زیادہ مناسب اور بہتر ہوتا۔

اور تو جو علی علیہ السلام کو گالیاں دیتا ہے تو میں تجھے ملامت نہیں کرتا کیونکہ اُنہوں نے جنگ میں تیرے بھائی کو قتل کیا تھا اور تیرے باپ کو اُنہوں نے اور حمزہ نے مل کر قتل کیا تھا۔یہاں تک کہ وہ ان دونوں کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے اور دردناک عذاب کامزہ چکھ رہے ہیں اور تیرا چچا رسولِ خدا کے حکم کے ساتھ شہر سے نکالا گیا۔

اور رہی بات یہ کہ میں خلافت کا آرزو مند ہوں تو خدا کی قسم! میں اس کے لائق بھی ہوں اور تیرے بھائی(معاویہ) جیسا نہیں ہوں اور نہ میں تیرے باپ کا جانشین و خلیفہ ہوں کیونکہ تیرا بھائی خدا کے بارے میں سرکشی میں اور مسلمانوں کا خون بہانے اور اُس چیز کے حاصل کرنے میں کہ جس کا حق نہیں رکھتا، بہت زیادہ لالچی ہے۔ وہ لوگوں کو فریب اور دھوکا دیتا ہے اور خدا بھی مکر کرتا ہے اور اللہ بہترین مکر کرنے والاہے۔

اور تیری یہ بات کہ علی علیہ السلام قبیلہ قریش سے ایک بد ترین قریشی تھا۔ خدا کی قسم! اُس نے نہ تو کسی محترم شخص کی تحقیروتوہین کی اور نہ کسی مظلوم شخص کو قتل کیا۔

اور اے مغیرہ بن شعبہ تو خدا کا دشمن، کتابِ خدا کو ترک کرنے والا اور رسولِ خدا کو جھٹلانے والا ہے۔ تو ایک زانی شخص ہے اور تجھے سنگسار کرنا واجب ہے۔ عادل، پاک اور متقی لوگوں نے تیرے زنا کی گواہی دی ہے۔ لیکن تیری سنگساری کو تاخیر میں ڈال دیا اور حق کو باطل کے ساتھ اور سچ کو جھوٹ کے ذریعے رد کردیا، اور یہ تو اُس کے علاوہ ہے جو دردناک عذاب اور دنیا کی پستی خدا نے تیرے لئے تیار کررکھی ہے، اور آخرت کا عذاب زیادہ رسواوذلیل کرنے والا ہے۔

اور تو وہ شخص ہے جس نے رسولِ خدا کی بیٹی فاطمہ کو مارا، یہاں تک کہ اُن کے جسم سے خون بہنے لگا اور محسن ساقط ہوگیا۔ یہ اس لئے تھا کہ تو رسولِ خدا کو ذلیل و رسوا رکرنا، اُن کے فرمان کی مخالفت کرنا اور اُن کے احترام کو زائل کرنا چاہتا تھا ، حالانکہ رسولِ خدا نے فرمایا تھا کہ" اے فاطمہ! تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو"۔خدا تجھے جہنم میں ڈالے گا، اور جو کچھ تو نے کیا ہے، اُس کا وبال تجھ پر ڈالے گا۔

پس تو ان تین چیزوں میں سے کس چیز پر علی علیہ السلام کو گالیاں دیتا ہے۔ کیا اُن کا نسب ناقص ہے؟ یا وہ پیغمبر سے دور ہیں؟ یا اُنہوں نے اسلام میں کوئی براکام انجام دیا ہے؟ یا اپنے فیصلے اور قضاوت میں ظلم و زیادتی کی ہے؟ یا دنیا کی طرف مائل اور رغبت رکھتے تھے؟ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی کہو گے تو جھوٹ ہوگا اور لوگ تجھے جھوٹا کہیں گے۔

کیا تیرے خیال میں علی علیہ السلام نے عثمان کو مظلومانہ طو رپر قتل کیا ہے؟ خدا کی قسم! علی اُس شخص سے جو اس بارے میں انہیں سرزنش کرتا ہے، متقی تر اور پاک تر ہے، اور خدا کی قسم! اگر علی نے عثمان کومظلومانہ قتل کیا ہے تو تیر ااس سے کیا سروکار؟تو نے تو اس کی زندگی میں اس کی مدد نہ کی، اور اُس کے مرنے کے بعد بھی اُس کی مدد نہ کی، اور ہمیشہ اپنے طائف والے گھر میں زناکاروں کو پالتے رہے۔ جاہلیت والے کام کو زندہ اور اسلام کومارتے رہے ہو، یہاں تک کہ جو ثابت ہونا تھا، ثابت ہوگیا۔

اور رہا تیرا اعتراض بنی ہاشم اور نبی اُمیہ کے متعلق، تو یہ صرف تیرا دعویٰ ہے۔ معاویہ کے نزدیک اور تیری بات امارت و رہبری کی شان کے متعلق اور تیرے دوستوں کی بات خلافت کے بارے میں جس کو تو نے حاصل کرلیا ہے، تو یہ کوئی شان و فخر کی بات نہیں ہے۔ فرعون بھی چار سوسال تک مصر پر حکومت کرتا رہا،جبکہ موسیٰ اور ہارون جو دو پیغمبر تھے، نے بہت زیادہ مصائب اور تکالیف اٹھائیں۔ یہ خدا کا ملک ہے۔ وہ نیک اور بُرے کو عطا کرتا ہے، اور خدافرماتا ہے:(تم نہیں جانتے تھے کہ یہ تمہارے لئے ایک امتحان و آزمائش اور اُن کیلئے تھوڑا سافائدہ ہو)، (اور جب ہم چاہتے ہیں کسی شہر کو تباہ کریں تو ہم حکم دیتے ہیں کہ سرمایہ دار اور امیر لوگ گناہ کریں تاکہ عذاب کا نازل ہونا ان پر ثابت ہوجائے، پھر ہم ختم کردیں)۔

پھر امام حسن علیہ السلام اٹھے، اپنی قمیص کو جھاڑ رہے تھے اوریہ فرمارہے تھے :(بُری عورتیں بُرے مردوں کیلئے اور بُرے مرد بُری عورتوں کیلئے ہیں)، اور خدا کی قسم! وہ تو اور تیرے دوست ہیں،(اور نیک مرد نیک عورتوں کیلئے ہیں اور وہ اُس سے جو وہ کہتے ہیں، پاک و پاکیزہ ہیں، اور اُن کیلئے بخشش و معافی اور عزت والی روزی ہے)، اور وہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے اصحاب اور اُس کے شیعہ ہیں۔

پھر امام علیہ السلام باہر چلے گئے جبکہ معاویہ سے یہ کہہ رہے تھے:

کہ جو کچھ تو نے کمایا ہے اور اپنے ہاتھ سے حاصل کیا ہے، اُس کے وبال کو چکھ، اور اُس کو جو خدا نے تیرے اور ان کیلئے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔

معاویہ نے اپنے اصحاب سے کہا کہ تم بھی اپنے اعمال کی سزا چکھو۔ ولید بن عقبہ نے کہا:خدا کی قسم! تو نے ہم سے پہلے چکھ لیا ہے، اور اُس نے صرف تیرے بارے یہ جراءت کی ہے۔

معاویہ نے کہا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم اُس کے مقام و مرتبہ کو کم نہیں کرسکتے۔ شروع ہی سے میری بات کو کیوں نہ مانا؟ تم نے اُس سے مدد لیناچاہی حالانکہ وہ تمہارا مذاق اڑاگیا ہے۔ خدا کی قسم! وہ نہیں اٹھا مگر یہ کہ گھر میرے لئے اندھیر ہوگیا۔میں اُسے گرفتا ر کرنا چاہتا تھا ۔ آج اور کل تم اُس سے اچھائی اور نیکی کی اُمید اپنے متعلق نہ رکھنا۔

مروان بن حکم نے جب اس واقعہ کو سنا تو اُن کے پاس آیا اور کہا: مجھے کیوں نہیں بلایا؟ خدا کی قسم!اُس کو اور اُس کے خاندان کو میں ایسی گالیاں دیتا کہ کنیزیں اور غلام اپنے رقص میں پڑتے۔ معاویہ نے امام حسن علیہ السلام کے پاس کسی کو بھیجا۔ جب وہ آدمی حضرت کے پاس آیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

یہ ظالم مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ خدا کی قسم! اگر وہی باتیں دوبارہ کرے گا تو اُن کے کان ایسے مطالب سے پُر کروں گا کہ ذلت و عیب قیامت تک کیلئے اُن پر باقی رہ جائے گا۔

جب امام حسن علیہ السلام اُن کے پاس پہنچے تو مروان نے کہا: خدا کی قسم! میں تجھے تیرے باپ اور تیرے خاندان کو ایسی گالیاں دوں گا کہ غلام اور کنیزیں اپنے رقص میں پڑھیں گی۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:

بہرحال تو اے مروان! میں تجھے اور تیرے باپ کو گالی نہیں دوں گا۔ مگر خدا نے تیرے باپ ، تیرے خاندان اور تیری اولاد پر اور جو بھی قیامت تک تیرے باپ کی صلب سے پیدا ہوگا، لعنت کی ہے۔ خدا کی قسم اے مروان! تو اور ان میں جو بھی رسولِ خدا کے لعنت کرنے کے وقت موجود تھا، تیرے اور تیرے باپ کے متعلق اس بارے میں انکار نہیں کریں گے۔ خدا کے ڈرانے کے مقابلے میں تیری زیادتی اور ظلم بڑھ گیا ہے۔ خدا اور اُس کے رسول نے سچ کہا ہے۔ خدا فرماتا ہے:(اور شجرہ ملعونہ قرآن میں اور ہم اُن کو ڈراتے ہیں لیکن صرف اُن کی زیادتی اور ظلم میں اضافہ ہوتا ہے)۔

اور تو اے مروان اور تیری اولاد قرآن میں شجرہ ملعونہ ہو اور یہ چیز خدا سے جبرائیل اور جبرائیل سے پیغمبر تک پہنچی ہے۔

معاویہ اٹھا اور امام حسن علیہ السلام کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا، اور کہا: اے ابومحمد! تو تو اس طرح برا بھلا کہنے والا اور اوچھا تو نہیں تھا۔ امام حسن علیہ السلام نے اپنا لباس جمع کیا، اٹھے اور باہر نکل گئے، اور باقی لوگ غم و غصہ اور دنیا و آخرت میں سیاہ چہرے کے ساتھ اِدھر اُدھر چلے گئے۔(احتجاج طبرسی، ج ۱ ،ص ۲۰۱) ۔

۲۔ آنحضرت کا مناظرہ اپنی تعریف اور مخالفوں کے عیوب کے متعلق

روایت ہے کہ امام حسن علیہ السلام معاویہ کے پاس آئے اور اُس کی مجلس میں تشریف لائے۔ اُس جگہ ایک گروہ معاویہ کے دوستوں میں سے موجود تھا۔ اُن میں سے ہر ایک بنی ہاشم پر فخر کررہا تھا اور اُن کے مرتبہ کو کم کر رہا تھا، اور ایسے مطالب بیان کئے جو امام حسن علیہ السلام پر دشوارگزرے، آپ کوناراحت کردیا۔ اس وقت انہوں نے کلام شروع کیا اور فرمایا:

میں بہترین قبائل سے ہوں اور میرے آباء و اجداد عرب کے بلند مرتبہ خاندان سے ہیں۔ محاسبہ کے وقت فخر و نسب و جوانمردی ہمارے لئے ہے، اور ہم اس بہترین درخت سے ہیں کہ جس کی شاخیں پھل دار اور جس نے پاکیزہ پھل اور قائم و دائم بدنوں کو اگایا ہے۔ اس درخت میں اسلام کی اصل و جڑ اور نبوت کا علم ہے۔ جب فخر کا مقام آیا تو بلند تر ہوا، اور جب ہماری برتری کو روکا گیا تو ہم بلند ہوئے، اور ہم ایسے گہرے سمندر ہیں جن کی تہہ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا، اور ہم ایسے مضبوط پہاڑ ہیں جن کو مغلوب نہیں کیا جاسکتا۔اس موقع پر مروان بن حکم اور مغیرہ بن شعبہ نے کچھ باتیں کیں، جن کے ذریعے آپ کو اور آپ کے والد کوکم مرتبہ ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ امام حسن علیہ السلام نے گفتگو کی اور فرمایا:

اے مروان ! بزدلی ، رسوائی، کمزوری اور عاجزی کے ساتھ بات کرتا ہے۔کیا تیرے خیال میں میں نے اپنی تعریف کی ہے، حالانکہ میں رسولِ خدا کا بیٹا ہوں اور تیرے خیال میں میں نے اپنے مقام و مرتبہ کو بلند کیا ہے؟ حالانکہ جوانانِ جنت کا سردار ہوں۔ ہلاکت ہو اس پر جو فخر و تکبر کے ذریعے سے اپنے آپ کو بلند ظاہر کرے، اور ہلاکت ہے اُس کیلئے جو اپنے آپ کو بڑا بنانے کی کوشش کرتا ہے، اور گردن لمبی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اور ہم رحمت کا خاندان، عزت و کرامت کی کان، اچھائی ونیکی کا مقام، ایمان کا خزانہ، اسلام کا نیزہ اور دین کی تلوار ہیں۔

تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے، خاموش کیوں نہیں ہوتے؟ قبل اس کے کہ میں ہولناک امور تیری طرف بھیجوں اور بیان کروں، اور تجھے ایسی علامتیں بتلاؤں کہ تو اپنے نام سے بے نیاز ہوجائے۔ بہرحال تیرا لوٹ مار کے ساتھ واپس آنا اُس دن تھا جب تو ناداری و غربت کی سرپرستی کرتا تھا، خوفناکی تیری پناہ میں تھی، اور تیری غنیمت تیرا بھاگنا تھا،اور تیرا طلحہ کو دھوکا دینا اُس دن کہ تو نے اُس کے ساتھ مکر کیا اور اُسے قتل کردیا ۱ ، بُرا ہو تیرا چہرہ کس قدر مکروہ اور ناپسندید ہے!

مروان نے اپنا سرنیچے کرلیا اور مغیرہ پریشان تھا۔ امام علیہ السلام نے مغیرہ کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا:

اے قبیلہ ثقیف کے اندھے! تیرا کیا تعلق قریش کے ساتھ کہ میں تیری نسبت پر فخر کروں؟ تجھ پر ہلاکت ہو، کیا تو مجھے نہیں پہچانتا؟ میں عورتوں میں سے بہترین عورت اور عورتوں کی سردار کا بیٹا ہوں۔ رسولِ خدا نے مجھے خدا کے علم کی غذا دی، قرآن کی تاویل اور احکام کی مشکل چیزوں کو میں نے سیکھا ہے۔ سب سے بڑی عزت اور سب سے بڑا فخر ہمارے لئے ہے، اور تو اُس قوم و گروہ سے ہے کہ جو زمانہ جاہلیت میں نسبت نہ رکھتے تھے، اور اسلام میں اُن کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ بھاگ جانے والے آدمی کا کیا کام کہ شیروں کے ساتھ پھرے ،بہادروں کا مقابلہ کرے اور فخر کی باتیں کرے؟ ہم سردار اور بلند ترین دفاع کرنے والے ہیں۔ ہم عہدوپیمان کی حمایت کرنے والے ہیں اور عیب و عار کو اپنے سے دور کرتے ہیں اور میں پاک عورتوں کا بیٹا ہوں۔اور تو نے اپنے خیال کے مطابق خیرالانبیاء کے وصی کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ تیرے عجزوناتوانی کو زیادہ جاننے والے اور تیری کمزوری سے زیادہ واقف و آگاہ تھے، اور تو اپنے باپ کو رد کرنے میں اُ س سے زیادہ لائق ہے۔اُس غصے کی وجہ

۱ ۔ابن اثیر اسدالغابہ میں کہتے ہیں کہ طلحہ کے قتل کا سبب یہ تھا کہ مروان نے طلحہ کو، جو کہ میدانِ جنگ میں کھڑا تھا، تیر کا نشانہ بنایا۔ اگر اس زخم کوباندھا جاتا تو اس کے پاؤں سوج جاتے تھے۔ اگر اسے کھلا چھوڑا جاتا تو اس میں سے خون بہنے لگتا۔ مروان نے کہا کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ یہ تیر اللہ تعالیٰ نے پھینکا تھا۔ طلحہ اسی سے ہلاک ہوگیا۔اس نے امان بن عثمان کی طرف منہ کرکے کہا: میں نے تیرے باپ کے قاتلوں میں سے بعض کو قتل کردیا۔سے جو تیرے دل میں ہے، اور اُس مکروفریب کی وجہ سے جو تیری آنکھوں سے ظاہر ہے، دور کی بات ہے، وہ گمراہ لوگوں کو اپنا دوست نہیں بناتے تھے ۱ ۔

تیرا خیال ہے کہ اگر تو صفین میں ہوتا تو قیس کی طاقت اور ثقیف کی مہارت سے تو سب سے لائق ترین ہوتا۔ تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ جبکہ جنگ کے میدانوں میں تیری کمزوری اور مشکل اوقات میں تیرا بھاگنا ثابت ہے۔ خدا کی قسم! اگر امیرالمومنین بہادر لوگوں کا علم تیرے سپرد کردیتے تو مشکلات اُس کو ہلا نہ سکتیں اور تیری دردناک آوازیں نکل رہی ہوتیں۔

رہی بات قیس کی دلیری کی، تو تیراکیا کام قیس کی دلیری اور بہادری کے ساتھ؟ تو تو ایک فرار ہونے والا آدمی ہے، اور کچھ علوم سیکھ لئے جس وجہ سے ثقیف کہلانے لگا، اور اس سبب سے تو نے کوشش کرکے اپنے آپ کو قبیلہ ثقیف سے شمارکرنا شروع کردیا، حالانکہ تو اُس قبیلے کے آدمیوں میں سے نہیں ہے، تو جنگ کرنے سے زیادہ شکار کے آلات بنانے اور بھیڑوں کے باڑے میں داخل ہونے سے زیادہ واقف ہے۔

اور رہی بات مہارت کی تو غلام لوگوں کی مہارت کوئی مہارت نہیں ہوتی۔ پھر تیری خواہش تھی کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ آمنا سامنا ہوجائے، پس وہ جیسے کہ تو جانتا ہے کہ جنگل کے شیر اور زہر قاتل تھے، جنگ کے موقعہ پر بڑے سورما اور بہادر اُن کا سامنا کرنے کی ہمت نہ رکھتے تھے، او رکہاں گیدڑ اُس کے سامنے آنے کا ارادہ کرسکتے ہیں، اور کہاں لال بیگ(سیاہ چہرے والا آدمی) اُسے پیچھے سے بلا سکتا ہے۔

۱ ۔ عثمان کے قتل کے بعد مغیرہ امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس آیا اور بولا: میں آپ کونصیحت کرتا ہوں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے معاملات صحیح طور پر چلتے رہیں تو طلحہ کو کوفہ، زبیر کو بصرہ اور معاویہ کو شام کا گورنر مقررکردیں۔ جب آپ کی خلافت مستحکم ہوجائے تو جیسے چاہیں ان کے ساتھ سلوک کریں۔امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:میں گمراہوں میں سے کسی کو اپنے مددگار کے طور پر نہیں لوں گا۔(استیعاب، ج ۳ ، ص ۳۷۱) ،(حاشیہ اصابہ)

بہرحال تیری نسبت نامعلوم اور تیرے رشتہ داروں کاکوئی علم نہیں ہے، اور تیری اس قبیلے کے ساتھ رشتہ داری ایسے ہے جیسے پانی کے حیوانات کی صحرا کے پرندوں کے ساتھ ہے بلکہ تیری رشتہ داری اس سے بھی دور تر ہے۔

مغیرہ اٹھ گیا اور امام حسن علیہ السلام معاویہ سے فرما رہے تھے کہ:

غلاموں کی گفتگو کے بعد اور نوکروں کے فخر کرنے کے بعد ہمیں بنی اُمیہ سے معاف رکھ۔

معاویہ نے کہا: اے مغیرہ !رک جا۔ یہ عبدمناف کے بیٹے ہیں۔ بڑے بڑے بہادر ان کا مقابلہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور بڑے بڑے لوگ ان کے مقابلے میں فخر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ پھر امام حسن علیہ السلام کو قسم دی کہ چُپ ہوجائیں، امام چپ ہوگئے۔(احتجاج طبرسی، ج ۱ ،ص ۴۱۶) ۔

۳۔ آنحضرت کا مناظرہ فضیلت اہل بےت کے متعلق اور اس بارے میں کہ خلافت کے صرف یہی لائق ہیں

سلیم بن قیس کہتا ہے کہ عبداللہ ابن جعفر بن ابی طالب علیہما السلام سے میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ معاویہ نے مجھ سے کہا کہ حسن اور حسین علیہما السلام کا اتنا زیادہ احترام کیوں کرتے ہو؟ وہ تجھ سے اور اُن کا باپ تیرے باپ سے بہتر نہ تھا؟اگر اُن کی ماں فاطمہ رسولِ خدا کی بیٹی نہ ہوں تو میں کہتا کہ اسماء بنت عمیس اُس سے کمتر نہیں ہے۔

وہ کہتا ہے کہ میں اُس کی بات سے بڑا رنجیدہ ہوا اور مجھ میں اپنے اوپر قابو کرنے کی طاقت نہ تھی ، یہاں تک کہ عبداللہ ابن جعفر اور عبداللہ بن عباس کی گفتگو جو امام حسن اور امام حسین علیہماالسلام کی فضیلت میں تھی، اور وہ جو رسولِ خدا سے ان کی فضیلت کے متعلق سن چکے تھے ، کو نقل کرتا ہے۔ یہاں تک کہ کہتا ہے کہ:

معاویہ نے کہا: اے حسن ! تو کیا کہتا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:

اے معاویہ!تو نے میری اور ابن عباس کی بات کو سنا۔ اے معاویہ! تجھ سے، تیری بے حیائی سے اور تیری خدا پر جراءت سے تعجب ہے۔ جب تو نے یہ کہا کہ خدا نے تمہارے طاغوت کو قتل کردیا اور خلافت کو اُس کے مقام (معاویہ) تک پہنچادیا۔ اے معاویہ ! کیا تو خلافت کا ٹھکانا ہے، ہم نہیں؟

ہلاکت ہے تیرے لئے اے معاویہ! اور اُن تین کیلئے جنہوں نے تجھے اس مقام پر بٹھایا، اور یہ طریقہ کار تیرے لئے مہیا کیا۔ ایک بات کہتا ہوں کہ تو اس کے لائق تو نہیں ہے لیکن اپنے باپ کی اولاد کیلئے جو یہاں موجود ہیں، اُن کیلئے کہتا ہوں ۔

بہت سے امور ایسے ہیں جن میں لوگ اتفاقِ نظر رکھتے ہیں، اور ان مسائل میں ان کے درمیان اختلاف ، کشمکش اور جدائی نہیں ہے۔ خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر گواہی دیتے ہیں پانچ وقت کی نمازوں میں، واجب زکوٰة میں، رمضان کے مہینے کے روزوں میں، خدا کے گھر کے حج میں اور بہت سی دوسری چیزیں جو واجباتِ الٰہی سے ہیں،جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا، صرف خداہی اُن کو شمار کرسکتا ہے۔اسی طرح دوسرے امور پر بھی لوگوں نے اجتماع کیا ہے جیسے زناکی حرمت پر،چوری اور جھوٹ، قطع رحم، خیانت اور بہت سے دوسرے موارد، محرماتِ الٰہی سے جن کو گنا نہیں جاسکتا، اُن کی تعداد صرف خداہی جانتاہے۔

لیکن سنتوں کے متعلق اختلاف کیا اور ان میں آپس میں جنگ کرتے ہیں،ا ور گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں، یہاں تک کہ ایک گروہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے، اور وہ ولایت و سرپرستی ہے، اور خلافت ہے۔ ایک گروہ دوسرے گروہ سے بیزاری چاہتا ہے، اور ایک گروہ دوسرے گروہ کو قتل کرتا ہے تاکہ یہ جتلائے کہ اس ولایت کے ساتھ کون زیادہ حق دارہے۔ سوائے اُس ایک گروہ کے جو خدا کی کتاب اور پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی کرتے ہیں۔

پس جس شخص نے اُن چیزوں کو پکڑ لیا جن میں مسلمان اختلاف نہیں کرتے اور اختلافی چیزوں کو خدا پر چھوڑ دیا تو وہ نجات پاگیا اور محفوظ رہا، اور جنت میں داخل ہوگا۔

ہر وہ شخص جس کو خدا توفیق عطا فرمائے اور اُس پر احسان کرے اور اُس پر حجت قائم کرے، اس طرح کہ اُس کے دل کو آئمہ میں سے صاحبانِ امر کی معرفت کے ساتھ نورانی کرے، اور یہ معرفت کروائے کہ علم کااصل ٹھکانا اور مقام کہاں ہے، تو وہ نیک ہے اور خدا کا دوست ہے۔ رسولِ خدا نے فرمایا: خدا رحمت کرے اُس شخص پر جس نے ہمارے حق کو جانا اور اُسے بیان کیا۔ پس نیک ہوایا خاموش ہوا تو محفوظ رہا۔

ہم اہل بیت کہتے ہیں کہ آئمہ اور رہنما ہم میں سے ہیں اور خلافت کی لیاقت صرف ہم میں ہے۔خد انے اپنی کتاب میں او ر اُس کے رسول کی سنت میں ہمیں اسکے لائق جانا ہے۔ علم ہم میں ہے اور ہم اہلِ علم ہیں، اور وہ علم ہمارے پاس تمام کا تمام اپنی کلیت کے ساتھ موجود ہے، اور قیامت کے دن تک کوئی بھی ایسا کام ہونے والا نہیں ہے ، حتیٰ کہ کسی کے چہرے پر مارنا، مگر یہ کہ اُسے رسولِ خدا نے لکھوایا اور علی علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے لکھا اور ہمارے حوالے کردیا۔

ایک گروہ خیال کرتا ہے کہ وہ ہم سے زیادہ خلافت کے لائق ہے، حتیٰ کہ تو بھی اے ہند کے بیٹے! یہ دعویٰ کرتا ہے اور گمان کرتا ہے کہ (عمر) نے میرے باپ کے پاس کسی کو

بھیجا ، اس لئے کہ میں چاہتا ہوں کہ قرآن کو ایک جگہ جمع کروں۔ پس جو کچھ قرآن سے تیرے پاس لکھا ہوا ہے، میرے پاس بھیج دو۔ بھیجا ہوا شخص آیا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم! قبل اس کے کہ وہ تیرے پاس پہنچے ، تو میری گردن مار ۔ عمر نے کہا کیوں؟ امام نے فرمایا: کیونکہ خدا فرماتا ہے:(وہ جو علم میں راسخ ہیں) ۔ امام نے فرمایا کہ آیت نے میراارادہ کیا ہے ۔ تو اور تیرے ساتھی آیت کے مقصود نہیں ہیں۔عمر کوغصہ آگیا اور کہا کہ ابوطالب کا بیٹا خیال کرتا ہے کہ جو علم اُس کے پاس ہے، کسی اور کے پاس نہیں ہے ۔ جو کوئی بھی قرآن سے کوئی آیت پڑھے تو وہ اُسے میرے پاس لے آئے۔ جب بھی کوئی ایک آیت لاتا اور اُس پر گواہ بھی قائم کرتا تو اُس آیت کو لکھ لیتا، اور اگر گواہ نہ ہوتا تو اُسے نہیں لکھتا تھا۔ پھر انہوں نے کہا کہ قرآن سے بہت سی آیات گم ہوگئی ہیں، حالانکہ یہ جھوٹ بولنے والے ہیں۔ خدا کی قسم! بلکہ قرآن اپنے اہل کے پاس جمع اور محفوظ ہے۔

پھر عمر نے قاضیوں اور شہروں کے گورنروں کو حکم دیا کہ فکر کرو اور اپنے عقائد کو بیان کرو کہ حق کیا ہے۔ عمر اور اُس کے بعض گورنر بہت بڑی مشکل میں پڑگئے اور میرے والد بزرگوار نے انہیں اس مشکل سے نکالا تاکہ اُس کے خلاف اُن پر دلیل وحجت قائم کرسکے۔ کبھی کبھی تو قاضی اپنے خلیفہ کے پاس آتے اور ایک ہی معاملہ کے متعلق اُن سب کا فیصلہ مختلف ہوتا۔ اس کے باوجود عمر اُن سب کے فیصلوں پر دستخط کردیتا کیونکہ خدا نے اُسے دانائی و حکمت و قضاوت کا طریقہ عطا نہیں کیا تھا۔

مسلمانوں میں سے ہمارے مخالفوں کا ہر گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ خلافت اور علم ہمارے علاوہ دوسروں کیلئے ہے۔ ہم خدا سے ان لوگوں کے خلاف مدد طلب کرتے ہیں جنہوں نے ہم پر ظلم کیا، ہمارے حق سے انکار کیا۔ لوگوں کو ہم پر مسلط کیا اور لوگوں کیلئے ہمارے خلاف راہ کھولی تاکہ تیرے وسیلہ سے ،اُس کے ذریعے دلیل و حجت لائی جائے۔

لوگ تین طرح کے ہیں، مومن جو ہمارے حق کو پہچانتے ہیں، ہمیں تسلیم کرتے ہیں اور ہماری پیروی کرتے ہیں۔ وہ نجات پانے والے ہیں، ہمارے دوست ہیں اور خدا کے حکم کی اتباع کرتے ہیں۔ ہمارے دشمن جو ہم سے بیزار ہیں، ہم پر لعنت کرتے ہیں اور ہمارے خون بہانے کو حلال جانتے ہیں اور ہمارے حق کا انکار کرتے ہیں۔ہم سے براة اور بیزاری کے ساتھ خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ ایسا شخص کافر، مشرک اور فاسق ہے ، اور جس کا اس کووہم وخیال بھی نہیں ،وہاں سے کافر اور مشرک ہوا ہے۔ جیسے کہ جہالت کی وجہ سے خدا کو گالیاں دیتا ہے، اسی طرح لاعلمی کی وجہ سے خدا کے ساتھ شرک کرتا ہے۔

اور ایک وہ شخص جو اُمت کی اتفاقی چیزوں کو پکڑے ہوئے ہے، اور مشتبہ چیزوں کے علم کو خدا کی طرف پلٹادیتا ہے۔ ساتھ ساتھ ہماری ولایت کو بھی خدا کی طرف پلٹا دیتا ہے۔ وہ ہماری پیروی نہیں کرتا اور ہمارے ساتھ دشمنی بھی نہیں کرتا، اور ہمارے حق کو نہیں پہچانتا۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ خدا اُسے بخش دے گا اور جنت میں داخل کرے گا۔ یہ کمزور مسلمان ہے۔(احتجاج طبرسی، ج ۲ ، ص ۳) ۔

۴۔ آنحضرت کا مناظرہ عمروبن عاص، مروان اور ابن زیاد کے ساتھ

روایت ہے کہ ایک دن معاویہ اپنے رازداروں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور سب ایک دوسرے پر فخر کررہے تھے۔ معاویہ نے ان سب کو ہنسانا چاہا، اس لئے کہا کہ تم نے ایک دوسرے پر بڑا فخر کیا ہے، اگر تمہارے پاس حسن بن علی علیہما السلام اور عبداللہ ابن عباس ہوتے تو تم کبھی بھی ایسا فخر نہ کرتے۔ معاویہ نے امام کے پاس کسی کو بھیجا، پھر اُن کی گفتگو کو راوی ذکر کرتا ہے۔ پھر امام علیہ السلام نے اُن کے جواب میں فرمایا:

اگر کوئی بحث ومباحثہ میں خاموش رہے تو یہ اُس کی کمزوری کی دلیل نہیں ہے۔بلکہ جو

جھوٹ بات کرے اور باطل کو حق کا لباس پہنائے، وہ خیانت کار ہے۔

اے عمرو! تو نے جھوٹ کے ساتھ فخر کیا ہے اور گستاخی میں بے حد آگے نکل چکا ہے۔ میں تیری تباہ کاریوں اور بربادیوں سے ہمیشہ واقف ہوں، اُن میں سے کچھ کو تو میں نے ظاہر کیا اور کچھ سے صرفِ نظر کی۔ تو ہمارے متعلق گمراہی میں پڑاہوا ہے۔ کیا میں تمہیں یاد دلاؤں کہ ہم کون ہیں؟ ہم تاریکی میں روشن چراغ، رہنمائی اور ہدایت کے علم، بہادرودلاور سوار، دشمنوں پر حملہ کرنے والے اور میدانِ جنگ میں پرورش پانے والے ہیں۔ دوستوں کیلئے خوش وخرم بہار ہیں۔ ہم نبوت کی کمان اور علم کے اترنے کی جگہ ہیں۔

تیرے خیال میں تیری نسل ہم سے زیادہ طاقتور ہے لیکن جنگ بدر میں ہماری طاقت سامنے آئی جس دن دلاور و بہادر زمین پر گر گئے۔ مد مقابل مصیبت میں پھنس گئے۔ شجاع مرد شکست کھا گئے۔ جس دن موت کا راج تھا اور وہ میدان کے ہر طرف گھومنے لگی، اور اپنے دانت نکالے ہوئے تھی۔ جنگ کی آگ کے شعلے بھڑکنے لگے۔ ایسا وقت تھا جب ہم نے تمہارے مردوں کو قتل کیا اور رسولِ خدا نے تیری نسل پر احسان کیا۔ میری جان کی قسم! اُس دن تم اولادِ عبدالمطلب سے برتر اور طاقتور نہ تھے۔

اور تو اے مروان! تجھے کیا ہوتا ہے کہ تو قریش کی بڑی باتیں کرتا ہے اور اُن کے ساتھ فخر کرتا ہے۔ تو آزاد کیا ہوا ہے اور تیرا باپ شہر بدر کیا ہوا ہے، اور تو ہرروز پستی سے بدی کی طرف مائل ہے اور ان دو میں گرفتار ہے۔ کیا تو نے وہ دن بھلا دیا ہے جس دن تجھے بندھے ہاتھ امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں لایا گیا۔ پس تو نے اُس شیر کو دیکھا جو اپنے پنجوں سے خون چاٹ رہا تھا اور اپنے دانتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ دبا رہا تھا اور اس شعر کے معنی میں فکر کررہے تھے۔ایسا شیر کہ جب دوسرے شیر اُس کی آواز کو سنتے ہیں تو خاموشی سے بھاگ جاتے ہیں اور گوبر گراتے ہیں۔

لیکن امیرالمومنین علیہ السلام نے تجھے معاف کردیا اور موت کے گلا گھونٹنے سے تجھے نجات ملی۔ سانس بند ہونے کی وجہ سے تیرا لعابِ دہن اندر نہیں جارہا تھا۔ اس سے تجھے رہائی ملی، اور تیری حالت ٹھیک ہوئی ۔ لیکن بجائے ہمارا شکرگزار ہونے کے ہماری برائی کرنے لگ گیا ہے، اور جسارت کررہا ہے جبکہ تو جانتا ہے کہ عیب و عار ہمارے دامن پر نہیں بیٹھی، اور ذلت و رسوائی ہماری طرف نہیں آئی۔اور تو اے زیاد! تیرا قریش کے ساتھ کیا کام؟ تجھے کوئی بھی صحیح نسب کے ساتھ نئی اگنے والی شاخ کے طور پر بہت اچھے، بے شک نیک اور بلند مرتبہ نام کے ساتھ نہیں آواز دیتا۔ تیری ماں ایک زانیہ عورت تھی جس کے ساتھ قریش کے مرد اور عرب کے بڑے لوگ رابطہ رکھتے تھے، اور جب تو پیدا ہوا تو تیرے باپ کا علم نہ تھا۔ یہاں تک کہ اس شخص نے (معاویہ کی طرف اشارہ کیا) اپنے باپ کے مرنے کے بعد تجھے اپنا بھائی بنانے کا دعویٰ کردیا۔اس حالت میں کس چیز پر فخر کرتے ہو۔ تیرے لئے تو تیری ماں کی ذلت و رسوائی کافی ہے، اور ہمارے فخر کیلئے اتنا کافی ہے کہ ہمارے نانا رسولِ خدا اور ہمارے والد علی ابن ابی طالب علیہما السلام مومنوں کے سردار ہیں۔جو کبھی بھی جاہلیت کی طرف نہیں گئے، اور ہمارے چچا ایک حمزہ سیدالشہداء اور جعفرطیار ہیں، اور میں اور میرا بھائی جوانانِ جنت کے سردا رہیں۔

پھر امام علیہ السلام نے ابن عباس کی طرف رخ کیا اور فرمایا: اے میرے چچا کے بیٹے! یہ کمزور پرندے ہیں۔ بحث و مباحثہ میں ان کے پروں کو توڑا جاسکتا ہے۔(حیاة الحسن، قرشی، ص ۳۲۱) ۔

۵۔ آنحضرت کا مناظرہ عبداللّٰہ بن زبیر کے ساتھ

روایت ہے کہ چند دن کیلئے امام علیہ السلام دمشق سے چلے گئے۔ پھر دمشق واپس آئے اور معاویہ کے پاس آئے۔ معاویہ کی مجلس میں عبداللہ بن زبیر بھی موجود تھا۔ جب معاویہ نے امام کو دیکھا تو اُن کا استقبال کیا اور جب مجلس آمادہ ہوگئی تو امام سے کہنے لگا کہ اے ابومحمد! میرے خیال میں آپ تھکے ہوئے ہیں، گھر جائیں اور آرام فرمائیں۔

امام اُس کے پاس سے باہر چلے گئے۔ معاویہ نے عبداللہ بن زبیر کی طرف منہ کیا اور کہا:اچھا ہے کہ تو حسن پر فخر کرے کیونکہ تو رسولِ خدا کے قریبیوں میں سے ایک کا بیٹا ہے اور اُس کے چچا کا بیٹا ہے، اور تیرے باپ نے اسلام میں بڑے کام انجام دئیے ہیں۔ یہاں تک کہ راویعبداللہ ابن زبیر کی گفتگو امام کی موجودگی میں ایک دوسری مجلس میں ذکر کرتا ہے۔ پھر امام نے فرمایا:

خدا کی قسم! اگر بنی اُمیہ مجھے گفتگو میں کمزور خیال نہ کرتے تو میں تجھے بات کرنے میں پست شمار کرنے سے اپنی زبان کو روکے رکھتا لیکن اب میں واضح کرتا ہوں کہ میں بے عقل اور بے زبان نہیں ہوں۔ کیا تو میرے عیب پکڑتا ہے اور مجھ پر فخر کرتا ہے؟حالانکہ تیرے دادے کا جاہلیت میں کوئی مشہور خاندان نہ تھا، یہاں تک کہ میری دادی صفیہ عبدالمطلب کی بیٹی کے ساتھ شادی کی، اور عربوں کے درمیان بلند مرتبہ ہوگیا اور میری دادی کی وجہ سے تجھے شرف ملا اور فخرکرنے لگا۔ پس تو اُس پر کس طرح فخر کرتا ہے جو گلے میں گردن بند ہے۔ ہم ہیں بلند ترین اور گرامی ترین لوگ زمین پر اور ہم ہی کامل شرافت اور کامیاب و کامران بزرگی رکھتے ہیں۔

تیرے خیال میں میں نے معاویہ کو تسلیم کرلیا ہے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ تجھ پر ہلاکت ہو۔ میں بہادر ترین عرب مردوں کا بیٹا ہوں اور میں نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کی گود میں آنکھ کھولی ہے جو کائنات کی عورتوں کی سردار اور خدا کی کنیزوں میں سے بہترین کنیز ہے۔ ہلاکت ہے تیرے لئے، میں نے یہ کام خوف اور کمزوری کی وجہ سے انجام نہیں دیا۔ اصل وجہ یہ تھی کہ میرے اطراف میں تجھ جیسے لوگ تھے جو بیہودہ طور پر میرے طرف دار بن گئے تھے، اور جھوٹا دوستی کا دعویٰ کرتے تھے۔ مجھے اُن پر اعتماد نہ تھا کیونکہ تم دھوکا دینے والا خاندان ہو۔اور اس طرح کیوں نہ ہو؟ تیرے باپ نے امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ بیعت کی۔ پھر اپنی بیعت کو توڑ دیااور جاہلیت کی طرف لوٹ گیا، اور علی جو وجودِ پیغمبرکاحصہ تھے، کو دھوکا دیا، اور لوگوں کو گمراہ کیا، اور جب جنگ کے معرکہ میں لشکر کے آگے والے دستے کا سامنا ہوا اور جنگجوؤں نے اپنے تیز نیزوں کے ساتھ اُسے پیس کر رکھ دیا تو بلاوجہ جان دے بیٹھا، اور کسی ساتھی و دوست کے بغیر زمین پر گرگیا، اور تجھے گرفتار کرلیا گیا۔ جبکہ تو تھکا ہوا ، زخمی ، پسا ہوا ، گھوڑوں کے سموں سے پامال او رسواروں کے حملے کو نہ روک سکنے والی حالت میں تھا، اور جب مالک اشتر نے تجھے امام کے سامنے پیش کیا تو تیرے منہ کا پانی خشک ہوچکا تھا، اور اپنی ایڑی پر گھوم رہا تھا ، اس طرح جیسے کتا شیروں سے ڈر کر بھاگ رہا ہو۔

ہلاکت ہو تجھ پر ، ہم کائنات کا نور ہیں اور اُمت سلمان ہم پر فخر کرتی ہے۔ ارادہ اور ایمان کی چابیاں ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ اب تو ہم پر حملہ کرتا ہے ۔ تو عورتوں کو فریب و دھوکا دینے والا ہے۔ اولادِ انبیا ء پر تو فخر کرتا ہے۔ ہماری باتوں کو لوگ قبول کرتے ہیں، تو اور تیرا باپ رد کرتا ہے۔

لوگوں نے شوق اور مجبوراً میرے نانا کے دین کو قبول کیا او ر بعد میں جب امیرالمومنین علیہ السلام سے بیعت کی تو طلحہ اور زبیر نے درمیان سے بیعت کو توڑ دیا۔ رسولِ خدا کی بیوی کو دھوکا دے کر میرے باپ کے مقابلے میں جنگ کیلئے کھڑاکیا اور خود قتل ہوگئے،

اور تجھے قید کرکے علی علیہ السلام کے پاس لایا گیا۔ انہوں نے تیرے گناہوں کو معاف کردیا۔ تیرے رشتہ داروں کی رعایت کی۔ تجھے قتل نہ کیا او ر معاف کردیا۔ اس لئے تو میرے باپ کا آزاد کیا ہوا ہے اور میں تیرا آقا و مولا اور باپ ہوں۔ اب اپنے گناہوں کی سنگینی کا احساس کر۔عبداللہ بن زبیر شرمسار ہوا۔ امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور کہا: اے ابو محمد! معذرت چاہتا ہوں ۔ اس شخص (معاویہ کی طرف اشارہ کیا) نے مجھے آپ کے خلاف بھڑکایا ہے ۔ اب مجھے میری بیوقوفی پر معاف کردو کیونکہ آپ کا خاندان وہ ہے جن کے وجود میں معافی اور مہربانی رچی بسی ہوئی ہے۔

امام علیہ السلام معاویہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

دیکھ رہے ہو کہ میں کسی کا بھی جواب دینے سے نہیں رکوں گا۔ تجھ پر ہلاکت ہو۔ کیا تو جانتا ہے کہ میں کس پھل دار درخت کی کونپل ہوں۔ ان حرکتوں سے باز آجا، وگرنہ تیرے چہر ے پر ایسا داغ لگاؤں گا کہ شہروں اور صحراؤں کے سوار اُس کے قصے سنائیں گے ۔(المحاسن والاضداد، جاحظ، ص ۹۲) ۔

۶۔ آنحضرت کا مناظرہ مروان بن حکم کے ساتھ

امام علیہ السلام معاویہ کے پاس تشریف لائے ۔ جب اُس نے حضرت کو دیکھا تو کھڑا ہوگیااور آنحضرت کا بڑا احترام کیا۔ یہ چیز مروان کو بُری لگی اور حضرت کے متعلق بدکلامی کی۔ امام نے فرمایا: اے مروان! تجھ پر ہلاکت ہو۔ تو نے ہمیشہ جنگ

کے میدانوں میں اور دشمن کے ساتھ آمنا سامنا کرتے وقت اپنے گلے میں ذلت و رسوائی کا پٹہ پہنا ہے۔تجھ پر عورتیں گریہ کریں۔ یہ ہم ہیں جو اپنے ساتھ روشن دلیلیں رکھتے ہیں اور اگر شکرگزار بنتے تو ہم تم پر ہدایت برساتے۔ ہم تمہیں نجات کی طرف بلاتے ہیں اور تو ہمیں آگ کی طرف بلاتا ہے، اور یہ دومقام ایک دوسرے سے کتنے دور ہیں!

تو بنی اُمیہ پر فخر کرتا ہے اور تیرے خیال میں یہ لوگ میدانِ جنگ میں ثابت قدم ہیں اور بہادرشیروں کی طرح ہیں۔ تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے، مگر کیا تو ہمیں جانتا ہے کہ عبدالمطلب کا خاندان بڑاپہلوان خاندان ہے۔ دوستوں کے محافظ، مہربان و کریم اور بلند مرتبہ مرد ہیں۔

خدا کی قسم! تو اس خاندان کے ہر شخص کو جانتا ہے اور دیکھا ہے کہ مشکلات اور خطرات نے ان کو خوفزدہ نہیں کیا، اور بہادرمیدان سے بھاگتے نہیں ہیں، اور یہ غضبناک شیر کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں، اور یہ تو تھا جو میدان سے بھاگ کھڑا ہوا اور قیدی بنالیا گیا، اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اور اپنی قوم کے ساتھ ذلت و رسوائی میں پڑگئے۔

تو خیال کرتا ہے کہ تو مجھے قتل کردے گا، اگر بڑے بہادر ہو تو اُن کا خون کیوں نہ بہایا جنہوں نے عثمان پر حملہ کیا تھا ، یہاں تک کہ اونٹ کی طرح عثمان کا سرکاٹ دیا اورتو اُس وقت بھیڑوں کی طرح چیخ رہے تھے اور کمینی عورتوں کی طرح آہ و بکا کررہے تھے۔ تو نے عثمان کا دفاع کیوں نہ کیا اور اُس کے قاتل کی طرف ایک تیر کیوں نہ مارا بلکہ اُس وقت تیرے بدن کے جوڑجوڑ کانپ رہے تھے، اور اپنی آنکھوں کو سخت خوف و وحشت کی وجہ سے بند کررہے تھے ، اور ڈر کی وجہ سے میری پناہ لے رہے تھے،جیسے غلام اپنے آقا کو چمٹتا ہے، اور میں نے تجھے موت سے بچایا اور اب معاویہ کو میرے قتل کیلئے بھڑکاتا ہے، اور اگر اُس دن معاویہ تیرے ساتھ ہوتا تو وہ بھی عثمان کی طرح قتل ہوجاتا۔ اس وقت بھی تو اور معاویہ یہ طاقت و قوت نہیں رکھتے کہ میرے ساتھ گستاخی کرسکو۔

اس وقت تمہارا خیال ہے کہ میں معاویہ کی مہربانی سے زندہ ہوں؟ خدا کی قسم!معاویہ اپنے کو باقی سب سے بہتر جانتا ہے اور ہم نے جو اُسے حکومت دیدی ہے تو وہ شکرگزار ہے اور اس وقت تیرا وجود اُس کی طرح ہے جس کی آنکھ میں کانٹا لگاہو اور اپنی آنکھ کو بند نہ کرسکتاہو ، اور اگر میں چاہوں تو شام والوں پر ایک ایسا لشکر حملہ کرنے کیلئے بھیجوں کہ دنیا اُن پر تنگ ہو جائے، اور سواروں کے رستے تنگ ہوجائیں، اور اُس وقت بھاگنا، دھوکا دینا اور تیری شاعری تجھے کوئی فائدہ نہ دے گی۔

ہم وہ نہیں ہیں جن کے بلند مرتبہ آباء و اجداد اور نیک اولاد کی پہچان نہ ہو۔ اگر تو سچا ہے تو جا ،تو آزاد ہے۔ معاویہ نے مروان کو آواز دی اور کہا: میں نے کہا ہے کہ اس شخص کے ساتھ گستاخی نہ کر لیکن تو نے میری بات نہ مانی اور اب اس ذلت و رسوائی میں گرفتار ہو۔ آخر کار تو اُس کی طرح نہیں ہے ۔ تیرا باپ اُس کے باپ تک نہیں پہنچ سکتا۔ تو شہر بدر کئے ہوئے کا بیٹا ہے۔ لیکن اُس کے باپ رسولِ خدا ہیں جو کریم ہیں ، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو اپنے پاؤں سے قبرستان کی طرف جاتے ہیں ، خود اپنی قبر کو کھودتے ہیں۔(المحاسن والمساوی، بیہقی، ج ۱ ، ص ۶۳) ۔

۷۔ آنحضرت کا مناظرہ عمروبن عاص کے ساتھ

ایک دن عمروبن عاص نے امام حسن علیہ السلام کو طواف کرتے ہوئے دیکھا، اور کہا کہ اے حسن ! تیرے خیال میں دین صرف تیرے اور تیرے باپ کی وجہ سے باقی اور قائم ہے۔ تو نے دیکھا کہ خدا نے معاویہ کو اتنی بڑی کمزوری کے بعد قوی اور پوشیدہ ہونے کے بعد ظاہر کیا۔ کیا خداعثمان کے قتل سے راضی ہے؟ کیا یہ مناسب ہے کہ خدا کے گھر کے اردگرد ایسے طواف کررہے ہو جیسے کوئی اونٹ چکی کے گرد گھومتا ہے؟ اور خوبصورت لباس پہنا ہوا ہے، حالانکہ توعثمان کا قاتل ہے۔ خدا کی قسم! امت کو اختلاف سے بچانے کیلئے مناسب ہے کہ معاویہ تجھے بھی تیرے باپ کی طرح قتل کردے۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:

جہنمیوں کی نشانیاں ہیں جو اُن نشانیوں کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں۔ خدا کے اولیاء کا انکار اور خدا کے دشمنوں سے دوستی۔ خدا کی قسم! تو جانتا ہے کہ علی علیہ السلام نے ایک لحظہ اور آنکھ کے جھپکنے کے برابر بھی دین میں شک نہیں کیا، اور خدا کے متعلق متردد نہیں ہوئے، اور خدا کی قسم! اے عمرو کے بیٹے! تو خود دورہوتا ہے یا تلوار سے تیز تر کلمات کے ذریعے سے تجھے دور کروں؟مجھ پر حملہ کرنے سے بچ،کیونکہ تو جانتا ہے کہ میں کون ہوں؟ میں کمزوروناتواں، بے قیمت اور شکم پرست نہیں ہوں۔ میں قریش کے درمیان گلے کے ہار کا درمیان والا دھاگا ہوں۔ میرا خاندان جانا پہچانا ہے، اور میرے ماں باپ کے علاوہ کسی کی طرف بھی منسوب نہیں ہے، اور تو وہ ہے کہ تو خود بھی جانتا ہے، اور لوگ بھی اس سے واقف ہیں۔ قریش کے آدمی تیرے بیٹے ہونے کے بارے میں اختلاف رکھتے تھے( اس کی ماں کے چند آدمیوں کے ساتھ زنا کروانے کی وجہ سے)، اور وہ کامیاب ہوا جس کا نسب پست تر اور بدترین تھا باقیوں کی نسبت، اور تو اس کا بیٹا مشہور ہوگیا۔ پس مجھ سے دور رہو کیونکہ تو نجس اور ہم پاک و پاکیزہ خاندان ہیں۔ خدا نے رجس کو ہم سے دور رکھا ہے، اور پاک و پاکیزہ کردیا ہے۔

عمرو نے جب اس جواب کو سنا تو اُس میں جواب دینے کی طاقت نہ رہی اور غصے کی حالت میں واپس لوٹ گیا۔(شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۶ ،ص ۲۷) ۔

۸۔ آنحضرت کا مناظرہ عمروبن عاص کے ساتھ

روایت ہے کہ جب امام حسن علیہ السلام معاویہ کے پاس تشریف لائے تو حضرت کی ہیبت و وقار اور عزت کو دیکھ کر غصے میں آگیا اورحسد و بغض سے بھر گیا، اور کہا کہ

بیوقوف اور کمزور شخص تمہارے پاس آیا ہے جس کی عقل اُس کی داڑھی کے درمیان ہے۔ عبداللہ بن جعفر وہاں موجود تھے۔ وہ اس بات کو برداشت نہ کرسکے اور اُسے آواز دی۔ پھر راوی عبداللہ ابن جعفر کی بات کو نقل کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ امام نے اُن کی باتوں کو سنا اور فرمایا:

اے معاویہ!ہمیشہ تیرے پاس ایسے آدمی رہتے ہیں جو لوگوں کے گوشت میں اپنے دانت داخل کرتے رہتے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر چاہوں تو ایسا کام کروں کہ تو مشکلات اور پریشانیوں میں گھر جائے اور تیرا سانس حلق میں تنگ ہوجائے۔

پھر امام علیہ السلام نے ان اشعار کو پڑھا:

اے معاویہ! کیا اس عبد سہم کو حکم دیتے ہو کہ لوگوں کے درمیان مجھے بُرا بھلا کہے، جب قریش مجالس برپاکرتے ہیں تو توجانتا ہے کہ اُن کا کیا ارادہ ہوتا ہے؟ تو بیوقوفی کی وجہ سے مجھے برا بھلا کہتا ہے۔ اُس بغض و کینہ کی وجہ سے جو ہمیشہ سے ہمارے بارے میں دل میں رکھتا ہے۔

کیا تیرا بھی میرے باپ کی طرح باپ ہے کہ اس پر فخر کرسکے ؟ یا مکروفریب کررہا ہے۔ اے حرب کے بیٹے! تیرا نانا میرے نانا کی طرح نہیں ہے جو خدا کے رسول ہیں۔ اگر چاہے تو اپنے اجداد کو یاد کر۔

میری والدہ کی طرح قریش میں کوئی ماں نہیں ہے کہ جس سے باکمال بچے پیدا ہوں۔

اے حرب کے بیٹے! کون ہے جو میری طرح اشعار پڑھے اور کوئی شخص بھی میری طرح کسی کو سرزنش کرنے کے لائق نہیں ہے۔

چپ رہو اور ایسا کام مت کرو جس کے خوف سے بچے بوڑھے ہو جائیں۔(المحاسن والاضداد، جاحظ، ص ۹۵) ۔

۹۔ آنحضرت کا مناظرہ عمروبن عاص کے ساتھ

امام علیہ السلام معاویہ کے پاس آئے اور فرمایا:

تمام قریش والے جانتے ہیں کہ میں غالب اور مہربان ہوں اور میں نے کبھی بھی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا، اور تاریکی میں نہیں پڑا کیونکہ میری پہچان واضح اور میرے والد بلند مرتبہ اور اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔

امام کی اس گفتگو نے عمروبن عاص کو غمگین کیا اور امام علیہ السلام کے متعلق نازیبا باتیں کرنے لگا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:

خدا کی قسم! اگر تو اپنے نسب کو یادکرے اور اپنے غلط عقیدے پر عمل کرے گا تو کبھی بھی کسی نیک مقصد تک نہیں پہنچ پائے گا، اور عزت و کامیابی تیرے ہاتھ نہیں آسکتی۔ خدا کی قسم! اگر معاویہ میری بات مان لے تو تجھے ایک فریب کار اور دھوکا باز دشمن قرار دے کیونکہ کنجوسی تیری پرانی عادت ہے۔ اپنے بغض و کینہ کو چھپاتی ہو، اور بلند و بالا مقام کی طمع و لالچ کرتے ہو، حالانکہ تو درخت کی ایسی شاخ ہے جو سرسبز ہونے اور پھل دینے سے قاصر ہے، اور تیرے وجود کی چراگاہ ایسے سبزہ کی لیاقت نہیں رکھتی۔

لیکن خدا کی قسم! یہ چیز قریب ہے کہ قریش کے شیروں کے تیز دانتوں کے درمیان نظر آؤ۔ ایسے شیر جو طاقتور ، بہادر اور قوی سوار ہیں، اور تجھے چکی کے دانے کی طرح پیس کررکھ دیں گے، اور جب وہ تیرے سامنے آئیں گے تو تیری فریب کاری تجھے فائدہ نہ دے گی۔(المحاسن والمساوی، بیہقی، ج ۱ ، ص ۶۵) ۔

۱۰۔ آنحضرت کا مناظرہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ

روایت ہے کہ ایک دن معاویہ نے امام علیہ السلام کے مقابلے میں فخر کیا اور کہا: میں بطحا اور مکہ کا بیٹا ہوں۔ میں اُس کا بیٹا ہوں جو زیادہ معاف کرنے والا اور بلند عزت والا ہے۔ میں اُس کا بیٹا ہوں جس نے قریش کو جوانی اور بڑھاپے میں بلند مقام بخشا۔امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:

اے معاویہ! میرے مقابلے میں فخر کرتے ہو؟ میں اُس کا بیٹا ہوں جو زمین کی رگوں میں اور تہہ میں موجود ہے۔ میں تقویٰ کے ٹھکانے کا بیٹا ہوں۔ میں اُس کا بیٹا ہوں جو ہدایت کو ساتھ لایا۔ میں اُس کا بیٹا ہوں جس کی لازوال فضیلتوں اور بلند وبالا مقام اوررتبے نے لوگوں کو سرداری کے مقام تک پہنچادیا۔ میں اُس کا بیٹا ہوں جس کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے، اور جس کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے۔ کیا تیرا باپ میرے والد کی طرح ہے کہ تو اُس پر فخر کرسکے؟ کیا تیرے نانا میرے نانا کی طرح ہے کہ تو میرے نانا سے اُس کا مقابلہ کر سکے؟ کہہ ہاں یا نہ!معاویہ نے کہا کہ میں کہتا ہوں "نہ"، اور آپ کی بات کی تصدیق ہے۔امام علیہ السلام نے فرمایا:

حق چمکنے والا ہے اور وہ بدلتا نہیں ہے، اور حق کو صرف عقل والے ہی پہچانتے ہیں۔(مناقب آل ابی طالب، ج ۴ ، ص ۲۲) ۔

۱۱۔ آنحضرت کا مناظرہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ

روایت ہے کہ ایک دن معاویہ نے امام علیہ السلام کے مقابلے میں فخر کیا اور کہا کہ اے حسن ! میں تجھ سے بہتر ہوں ۔ امام نے فرمایا: اے ہند کے بیٹے! یہ چیز کیسے ممکن ہے کیونکہ لوگ ہمارے اردگرد جمع ہیں، نہ کہ تیرے اردگرد۔

دور ہے ، دور ہے اے جگر کھانے والی ہند کے بیٹے! غلط اور بُرے راستے سے اپنے لئے مقام و مرتبہ کو حاصل کیا ہے۔ جن لوگوں نے تیری حکومت کو قبول کیا ہے، وہ دو طرح کے گروہ ہیں، یا آزادی کے ساتھ قبول کیا ہے یا مجبوراً۔ جس نے تیری اطاعت کی ہے، اُس نے خدا کی نافرمانی کی ہے اور جو مجبور ہیں ، وہ کتابِ خدا کے حکم کے مطابق عذر رکھتے ہیں۔

میں کبھی بھی یہ نہ کہتا کہ میں تجھ سے بہتر ہوں کیونکہ تیرے اندر کوئی اچھائی ہے ہی نہیں لیکن جس طرح خدا نے مجھے پستیوں سے دور رکھا تو اسی طرح تجھے بھی فضیلتوں سے دور رکھا۔(بحار، ج ۴۴ ،ص ۱۰۴) ۔

۱۲۔ آنحضرت کا مناظرہ ولید بن عقبہ کے ساتھ

امام علیہ السلام نے اُس سے فرمایا: تجھے علی علیہ السلام کو گالیاں دینے میں برابھلا نہیں کہتا کیونکہ انہوں نے شراب پینے کیوجہ سے تجھے اسی کوڑے لگائے تھے، اور تیرے باپ کو جنگ بدر میں رسولِ خدا کے حکم سے قتل کیا تھا، اور خدا تعالیٰ نے ایک سے زیادہ آیات میں علی کو مومن اور تجھے فاسق کے نام سے یاد کیا ہے۔ شاعر نے تیرے اور علی علیہ السلام کے بارے میں کہا ہے:

خدا نے اپنی کتاب میں علی علیہ السلام اور ولید کے متعلق آیت نازل کی ہے۔

ولید کا مقام و ٹھکانا کفر ہے اور علی علیہ السلام خدا کے ساتھ ایمان رکھنے والے کے مقام پرہیں۔ جو کوئی خدا کی عبادت کرتا ہے ، وہ فاسق اور جھوٹے کی طرح نہیں ہوسکتا۔

بہت جلد ولید اور علی علیہ السلام قیامت کے دن بدلہ لینے کیلئے بلائے جائیں گے۔ علی اُس جگہ بہشت کو پائیں گے اور ولید ذلت و پستی کو حاصل کرے گا۔(امالی، صدوق ،ص ۳۹۶) ۔

۱۳۔ آنحضرت کا مناظرہ یزید بن معاویہ کے ساتھ

امام حسن علیہ السلام اور یزید بن معاویہ بیٹھے کھجوریں کھا رہے تھے۔ یزید نے کہا کہ اے حسن ! میں تم سے دشمنی رکھتا ہوں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:

اے یزید! تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ تیرے نطفہ کے ٹھہرنے کے وقت شیطان تیرے باپ کے ساتھ شریک تھا۔اس وجہ سے تیرے اندر میرے متعلق دشمنی پائی جاتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:(اور مال و اولاد میں اُن کے ساتھ شریک ہوتا ہے)، اور شیطان صخر کے نطفہ کے ٹھہرنے کے وقت تیرے دادا کے ساتھ شریک تھا۔ اسی وجہ سے وہ میرے نانا رسولِ خدا کے ساتھ دشمنی رکھتا تھا۔(مناقب آل ابی طالب، ج ۳ ، ص ۱۸۶) ۔

۱۴۔ آنحضرت کا مناظرہ حبیب بن مسلمہ فھری کے ساتھ

امام علیہ السلام نے حبیب بن مسلمہ فہری سے فرمایا: بہت سی تیری حرکتیں راہِ خدا سے ہٹ کر ہیں۔ اُس نے کہا لیکن میری حرکت تیرے والد کی طرف اس طرح نہ تھی۔ امام نے فرمایا:

ہاں! لیکن معاویہ کی تونے تھوڑی سی دنیا کے بدلے میں اطاعت کی ہے۔ اگر وہ تیرے دنیا کے کام انجام دیتا ہے تو آخرت میں تجھے اکیلا چھوڑ دے گا۔ اگر برا کام انجام دیتے ہو تو کہتے ہو کہ اچھا کام بھی انجام دیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:( نیک اور برے کام کو آپس میں ملا دیتے ہیں)۔ لیکن تیرا کام اس آیت کے مطابق ہے کہ خدا فرماتا ہے:( اُن کے بُرے اعمال نے اُن کے دلوں کو زنگ آلود کردیا ہے)۔(مناقب آل ابی طالب، ج ۳ ، ص ۱۸۸) ۔

۱۵۔ آنحضرت کی گفتگو توحید کے متعلق حسن بصری کے ساتھ

حسن بصری نے امام علیہ السلام کو خط لکھا۔ اما بعد! آپ اہل بیت نبوت اور حکمت کی کان ہیں۔ خدا نے آپ کو ایسی کشتی قرار دیا ہیجو ڈرادینے والی موجوں میں حرکت کرتی ہے۔ آپ کی طرف پناہ لینے والا پناہ پاگیا ، اور غلو کرنے والاآپ کی رسی کو چونچیں مارتا ہے۔ جس نے بھی آپ کی پیروی کی، وہ ہدایت پاگیا اور نجات پاگیا، اور جو بھی پیچھے رہ گیا، وہ ہلاک ہوگیا اور گمراہ ہوگیا۔ قضاوقدر کے متعلق امت کی حیرت اور اختلاف کے زمانے میں آپ کی طرف خط لکھ رہا ہوں ۔ جو کچھ خدا نے آپ اہل بیت کے پاس نازل فرمایا ہے ، وہ ہماری طرف ارسال فرمائیے تاکہ ہم اُسے پکڑ سکیں۔امام علیہ السلام نے جواب میں لکھا:

اما بعد! پس جیسے تو نے کہا ہے کہ ہم خدا اور اُس کے اولیاء کے نزدیک اہل بیت ہیں۔ لیکن تیرے اور تیرے ساتھیوں کے نزدیک ایسے ہی ہوتے جیسا تو نے کہا ہے تو ہم پر کسی اور کو مقدم نہ کرتے اور ہمارے علاوہ کسی اور کا دامن نہ پکڑتے۔

میری جان کی قسم! آپ جیسے لوگوں کے متعلق خدا مثال دیتا ہے اور فرماتا ہے:(کیا تم تبدیل کرتے ہو اُس کو جو پست تر ہے، اُس کے ساتھ جو نیکی میں برتر ہے؟)۔ یہ تمہارے ساتھیوں کے لئے ہے، اس چیز میں جس کاتونے سوال کیا ہے اور تمہارے لئے ہے جو تم نے پیش کی ہے۔

اور اگر میرا ارادہ تجھ پر اور تیرے ساتھیوں پر حجت اور دلیل قائم کرنے کا نہ ہوتا تو میں تیرے خط کا جواب نہ دیتا، اور جو کچھ ہمارے پاس ہے، اُس سے آگاہ نہ کرتا۔ اگر میرا جوابی خط تیرے پاس پہنچ جائے تو سمجھ لینا کہ یہ تیرے اور تیرے دوستوں کے خلاف ایک تاکیدی دلیل کے طور پر ہے کیونکہ خدا فرماتا ہے:(کیا وہ جو حق کی طرف دعوت دیتا ہے،وہ اس لائق ہے کہ اُس کی پیروی کی جائے یاوہ جو خود ہدایت یافتہ نہیں ہے، مگر یہ کہ اُس کو ہدایت دی جائے، تمہیں کیا ہوگیا ہے، تم کیسا حکم کرتے ہو)۔

وہ جو کچھ میں قضا و قدر کے لئے لکھوں، اُس کی پیروی کرو کیونکہ جو کوئی بھی خیروشر کے متعلق قضا و قدر کے ساتھ ایمان نہ رکھتا ہو، وہ کافر ہوگیا، اور جو کوئی بھی گناہوں کی نسبت خدا کی طرف دے، وہ غلطی پر ہے۔

بے شک خدا کی اطاعت اجباراً نہیں کی جاتی ، اور اگر کوئی گناہ کرتا ہے تو وہ اُس پر غالب نہیں آگیا ہوتا، اور اُس نے اپنے بندوں کو بیکار اور ایسے ہی بیہودہ بھی نہیں چھوڑ رکھا بلکہ جو اُس نے اپنے بندوں کو دے رکھا ہے، اُس کا وہ مالک ہے، اور جس کی قدرت اُن کو دی ہوئی ہے، اُس پر وہ قدرت رکھتا ہے۔ اگر اُس کی اطاعت کریں تو وہ اُن کے لئے مانع اور سدراہ نہیں بنتا، اور اگر اُس کی نافرمانی کریں تو اگر وہ چاہے کہ گناہ کے انجام دینے میں کوئی رکاوٹ حائل ہوجائے تو ایسا کردیتا ہے، اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اُس نے ان کو گناہ کرنے پر نہیں اکسایا، اور اُن کو اس گناہ کے انجام دینے پر مجبور نہیں کیا بلکہ اُس نے ان کو اس گناہ کے انجام دینے اور گناہ سے بچنے پر قدرت دی ہے اور ان کیلئے گناہ کرنے اور گناہ سے رکنے کا راستہ کھول دیا ہے۔

پس جس چیز کا حکم فرمایا ہے اُس کی پیروی کرنے کیلئے اور جس چیز سے منع فرمایا ہے، اُس کو ترک کرنے کیلئے اُس نے ان لوگوں کے لئے راستہ قرار دیا ہے، اور تکلیف کو (یعنی احکام پر عمل کرنا) اُن لوگوں سے جو کم عقل یا بیمار ہیں، اٹھا لیا ہے۔(کنزالفوائد، جراجکی، ص ۱۷۰) ۔