فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 145987
ڈاؤنلوڈ: 3917


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145987 / ڈاؤنلوڈ: 3917
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ثبوت میں گذشتہ صفحات میں مسند احمد کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیں امام احمد کا کہنا ہے کہ اہل سنت جن حدیثوں پر اعتماد کرتے تھے میں نے ان(5700) حدیثوں میں سے بھی ان حدیثوں کو چھانٹ کے لکھا ہے تب ہماری مسند تیار ہوئی ہے یعنی روایتیں ہیں علما اس پر اعتماد بھی کرتے ہیں لیکن تدوین کے وقت ان روایتوں کو اپنی کتاب میں شامل کرنا صحیح نہیں سمجھتے.

اسی طرح ابو علی غسانی کہتے ہیں: میں نے چھ لاکھ حدیثوں میں سے صحیح حدیثوں کو نکال لیا ہے.(1)

اسماعیل کہتے ہیں: کہ غسانی نے کہا میں نے اپنی کتاب میں سوائے صحیح کے کوئی حدیث نہیں لکھی اور صحیح میں سے اکثر کو چھوڑ دیا ہے.(2)

ابراہیم بن معقل کہتے ہیں: میں نے سنا بخاری کہہ رہے تھے میں نے اپنی دونوں جامع کتابوں میں سوائے صحیح کے کوئی حدیث نہیں داخل کی اور صحیح حدیثوں میں اکثر کو چھوڑ دیا ہے تاکہ کتاب طویل نہ ہوجائے،(3) بخاری سے بھی وارد ہے کہ انہوں نے کہا مجھے ایک لاکھ صحیح حدیثیں یاد ہیں جب کہ ان کی کتاب میں محض نو ہزار دو سو اسی(9280) حدیثیں پائی جاتی ہیں.(4)

ابوبکر بن داسہ کہتے ہیں: میں نے سنا ابو دائود کہہ رہے تھے کہ میں نے پیغمبر(ص) کے حوالے سے پانچ لاکھ حدیثیں لکھی پھر ان میں سے چار ہزار آٹھ سو حدیثیں الگ کر کے اپنی کتاب میں درج کیا یعنی سنن ابن دائود میں.(5)

...............................................

1.مقدمہ فتح الباری، ج1، ص7.

2.سیراعلام النبلائ، ج12، ص471. تفلیق التعلیق، ج5، ص426؛ مقدمہ الباری، ج1،ص7.

3.مقدمہ فتح الباری، ج1، ص7، سیر اعلام النبلاء، ج10، ص96؛ تہذیب التہذیب، ج9، ص42. تہذیب الکمال، ج24، ص442. تاریخ بغداد، ج2، ص9 و غیرہ منابع.

4.التقید، ج33، ص45؛ تذکرة الحفاظ، ج2، ص556.سیر اعلام النبلاء، ج12، ص451؛ تاریخ بغداد، ج2، ص215.

5.مقدمہ فتح الباری، ج1، ص465.

۱۸۱

بیہقی کہتے ہیں کہ ابوزرعہ کو چھ لاکھ حدیثیں یاد تھیں(1) جن کی میں نے قرائت کی تھی صالح بن محمد نے ابوزرعہ سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا میں دس ہزار حدیث حفظ کروں گا.(2)

احمد بن حنبل کہتے ہیں: میرے نزدیک ساڑھے سات لاکھ حدیثیں صحیح ہیں جب کہ ان کی مسند میں جو حدیثیں ہیں ان کی تعداد ساڑھے سات لاکھ سے بہت کم ہے(3) دوسرے علماء حدیث نے بھی اسی طرح کے دعوے کئے ہیں لیکن صحیح حدیثیں بہت کم اپنی کتابوں میں لکھی ہیں ان کے اقوال کے حوالے کی گنجائش نہیں ہے.

معیار انتخاب کیا ہے؟

آپ یہ دیکھ رہے ہیں کہ علما جن حدیثوں کے صحیح ہونے کا دعوی کررہے ہیں انہیں میں سے کچھ حدیثیں لے رہے ہیں اور کچھ کو چھوڑ رہے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مقبول و متروک دونوں صحیح ہیں تو ایک صحیح کے لینے کی اور دوسرے چھوڑنے کی وجہ کیا ہے آخر، معیار انتخاب کیا ہے؟ کچھ تو معلوم ہوگیا وہ صحیح حدیثیں جنہیں ترک کردیا گیا ان کے ترک کرنے سے حق کا ترک کرنا لازم نہیں آتا اس طرح کا بیان پڑھ کے قاری یہ فیصلہ نہیں کرے گا کہ مولف کتاب نے ان حدیثوں کو لے لیا ہے جو اس کے مزاج کے مطابق ہیں اور انہیں چھوڑ دیا ہے جو اس کے خواہش نفس کے خلاف ہیں جب کہ مولفین حدیث خود ہی کہہ رہے ہیں کہ حدیثیں ساری کی ساری صحیح تھیں لیکن میں نے کچھ کو لے لیا ہے اور کچھ کو چھوڑ دیا ہے.

(اب اس ترک و قبول کے پیچھے راز کیا ہے؟ اس کو جاننے کے لئے محض ایک حدیث آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں آپ کی سمجھ میں بات آجائے گی کہ یہ ترک و قبول کا سلسلہ بے وجہ نہیں

...........................................

1.تہذیب التہذیب، ج7، ص29.

2.تہذیب التہذیب، ج7، ص30؛ سیر اعلام النبلاء، ج13،ص69؛ تہذیب الکمال، ج19، ص96.

3.تہذیب التہذیب، ج7، ص30.

۱۸۲

ہے اور نہ اس ترک و قبول کے پیچھے مولف کے مزاج کی سادگی یا سادہ لوحی ہے بلکہ یہ ایک منظم ضابطہ ہے جس کو اہل سنت کے محدثین نے شروع سے برتا ہے) مترجم غفرلہ.

صرف ایک مثال عرض کر رہا ہوں جس سے یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ مولفین کی خواہش نفس حدیث کو کھلونا بنا کے کس طرح کھیلتی رہی ہے؟ ملاحظہ ہو.

خلال کہتے ہیں: مجھے محمد بن علی نے خبر دی انہوں نے کہا محمد سے کہ مھنی نے حدیث بیان کی وہ کہتے ہیں میں نے احمد سے پوچھا احمد نے کہا مجھ سے خالد بن خداش نے کہا انہوں نے کہا اسلام کہتے تھے اور مجھے محمد بن علی نے خبر دی انھوں نے کہا مجھ سے یحیی نے کہا وہ کہتے ہیں خالد بن خداش سے سنا وہ کہتے ہیں سلام بن ابی مطیع ابو عوانہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کوفہ سے جو بدعتیں تم سمیٹ کے لائے ہو مجھے دیدو تو ابوعوانہ نے اپنے مکتوبات ان کے حوالے کر دیئے پس اسلام بن ابی مطیع نے انہیں تنور میں ڈال دیا.

میں نے خالد سے پوچھا آخر ان مکتوبات میں تھا کیا؟ انھوں نے کہا ان میں اعمش سے مروی حدیثیں تھیں، اس میں یہ حدیث کہ سالم بن ابی جعد نے ثوبان سے انھوں نے پیغمبر(ص) کے حوالے سے کہا تھا کہ حضور نے فرمایا: قریش کے لئے سیدھے ہو جائو اور اس طرح کی حدیثیں تھیں میں نے پوچھا اور کیا تھا کہا علی(ع) کی حدیث تھی کہ انھوں نے(علی (ع) نے) کہا میں جنت اور جنہم کا تقسیم کرنے والا ہوں میں نے خالد سے پوچھا کیا ابو عوانہ نے تم سے یہ حدیث اعمش کے حوالے سے بیان کی تھی کہنے لگے ہاں اور صحیح اسناد سے بیان کی تھی اس کے علاوہ مجھے عبداللہ بن احمد نے خبر دی ہے کہ میں نے اپنے باپ کو کہتے سنا کہ سلام بن ابی مطیع ایوب کے اصحاب میں ہیں اور ثقہ راویوں میں ان کا شمار ہوتا ہے نیک آدمی تھے اور ان کے حوالے سے عبد الرحمن بن مہدی مجھ سے حدیثیں بیان کرتا تھا.

پھر کہنے لگے ابواعوانہ نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں اصحاب نبی(ص) کے نقائص و عیوب بیان کئے گئے تھے اور ان میں بلائیں تھیں تو ان کے پاس سلام بن ابی مطیع آئے اور

۱۸۳

کہنے لگے اے ابو اعوانہ! مجھے یہ کتاب دیدو حس ابو اعوانہ نے ان کو وہ کتاب دی تو سلام نے اس کو جلا دیا اس کے اسناد صحیح ہیں.(1)

2.بعض حاملان حدیث کی روایتوں کو اہل سنت کے محدثین نے ان کی عدم وثاقت یا عدم دیانت کی وجہ سے نہیں چھوڑا ہے بلکہ صرف اس لئے متروک قرار دیا ہے کہ ان کی روایت ان کی خواہش اور ان کے مذہب سے میل نہیں کھاتی ہیں.

صرف ایک مثال ملاحظہ ہو کہ وہ جراح بن ملیح کی خدمت میں ہے کہ جابر نے کہا میرے پاس(70) ہزار حدیثیں صرف ابو حعفر محمد باقر(ع) سے ہیں اور سب کی اسناد نبی(ص) تک پہونچی ہیں.(2)

محمد بن عمر رازی کہتے ہیں: میں نے جریر کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے جابر بن یزید جعفی سے ملاقات کی تھی لیکن ان کے حوالے سے کوئی حدیث اس لئے نہیں لکھی کہ وہ عقیدہ رجعت کے قائل تھے.(3)

ظاہر ہے کہ رجعت پر ایمان کسی کے جھوٹ کا ثبوت نہیں ہے وہ صرف ایک عقیدہ ہے جو دلیلوں اور حدیثوں سے ثابت ہے یہ الگ بات ہے کہ آپ کو اس کی تصدیق بری لگتی ہے اور سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ عقیدہ اس قوم کا ہے جو مذہب میں آپ کا مخالف ہے اور آپ کی خواہش نفس کا پابند نہیں ہے.

حکومت اور عوام ، اہل حدیث پر پابندیاں عائد کرتے تھے

3.اکثر اہل حدیث کو حدیثوں کی روایت سے روکا گیا اس لئے نہیں کہ وہ جھوٹے تھے بلکہ اس لئے کہ جو حدیثیں وہ روایت کرتے تھے وہ حکومت یا عوام کے مزاج کے خلاف ہوتی تھیں اور ان کے

......................................

1.السنتہ للخلال، ج3، ص310.

2.صحیح مسلم، ج1، ص20؛ میزان الاعتدال، ج2، ص107؛ الضعفاء للعقلی، ج1، ص193.

3. صحیح مسلم، ج1، ص20؛ میزان الاعتدال، ج2، ص104؛ الضعفاء للعقلی، ج1، ص192.

۱۸۴

رجحان فکر اور عقیدے سے میل نہیں کھاتی تھیں ثبوت کے لئے عیش بن یونس کی حدیث ملاحظہ فرمائیں، کہتے ہیں کہ میں نے اعمش کو کبھی جھکتے ہوئے نہیں دیکھا مگر صرف ایک بار انھوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ علی(ع) نے کہا میں جنت اور جہنم کا تقسیم کرنے والا ہوں یہ بات کسیی طر اہل سنت تک پہونچ گئی پس وہ لگ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے کیاتم ایسی حدیثیں بیان کرتے ہو جسسے روافض، زیدیہ اور شیعوں کو تقویت ملیت ہے اعمش نے کہا بھائی میں نے یہ حدیث سنی تھی تو روایت کر دی کہنے لگے کیا تم چو کچھ سنوگے اس کی روایت کروگے عیسی بن یونس کہتے ہیں اس دن میں نے اعمش کو جھکتے ہوئے دیکھا(1) ظاہر ہے کہ اسی طرح کی پابندیوں نے اعمش کو روایت حدیث سے باز رکھا ابوبکر بن غیاث کہتے ہیں میں نے اعمش سے کہا تم نے کبھی موسی بن ظریف انہوں نے عبایہ سے انہوں نے علی(ع) سے یہ حدیث بیان کی تھی کہ علی(ع) نے کہا میں جنت اور جہنم کا تقسیم کرنے والا ہوں کہنے لگے: بخدا میں نے یہ حدیث مذاق کے طور پر روایت کی تھی کہ میں نے کہا لوگوں نے تمہارے حوالے سے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کر دیا ہے اور تم کہتے ہو کہ میں نے مذاق کے طور پر یہ حدیث روایت کی تھی(2)

ذہبی کہتے ہیں: شبابہ نے کہا مجھ سے ورقہ نے کہا کہ ہم اور مسعر اعمش کے پاس گئے تاکہ ان پر دو حدیثوں کے بارے میں عتاب کریں ایک حدیث تو یہ تھی کہ میں جنت اور جہنم کا تقسیم کرنے والا ہوں اور دوسری حدیث یہ کہ فلاں اس طرح صراط پر ہوں گے اعمش نے کہا کہ میں نے تو یہ دونوں حدیثیں ہرگز بیان نہیں کی ہے اور خریبی کہتے ہیں کہ ہم اعمش کے پاس تھے وہ ہمارے پاس جوش و

....................................................

1.الضعفاء للعقلی، ج3، ص461؛ لسان المیزان، ج3، ص247.

2.الضعفاء للعقلی، ج3، ص216، لسان المیزان، ج3، ص247؛ میزان الاعتدال، ج4، ص56؛ العلل المتناہیہ، ج2، ص945.

۱۸۵

غضب میں آئے اور کہنے لگے : تم لوگوں کو موسی بن ظریف پر حیرت نہیں ہوتی وہ عبابہ اور علی(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ علی(ع) نے کہا میں جنت اور جہنم کا تقسیم کرنے والا ہوں.(1)

گذشتہ صفحات میں نے عرض کیا گیا ہے کہ اہل سنت کا نظریہ فضائل اہل بیت(ع) اورمناقب آل محمد(ص) کے بارے میں اور ان کے دشمنوں کے نقائص کے بارے میں ہے.

( کہ وہ ہمیشہ اہل بیت(ع) کے فضائل پر پردہ ڈالتے ہیں اور ان کے دشمنوں کے نقائص کو بھی یا چھپاتے ہیں یا فضائل بنا کے پیش کرتے ہیں) مترجم غفرلہ.

4.بہت سی حدیثیں ضائع ہوگئیں اور حالات کے تحت کوئی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوا کچھ حدیثیں مہمل قرار دے کے چھوڑ دی گئیں کچھ جنگوں میں ضائع ہوگئیں کبھی کسی گھر میں آگ لگی اور حدیثیں اس آگ میں جل گئیں، آپ سرسری نظر سے تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو سمجھ لیں گے کہ حدیثوں پر ہر دور میں کچھ نہ کچھ آفت آتی رہی اور ان کے ضائع ہونے کا سبب بنتی رہی، ظاہر ہے کہ ضائع شدہ حدیثوں کی تدوین نا ممکن تھی اس لئے جب تدوین کا کام ہوا تو وہ حدیثیں توجہ و التفات سے محروم رہ گئیں.

بلکہ کچھ محدثین نے مختلف اسباب کی وجہ سے اپنی کتابوں کوضائع کر دیا ایک مثال ملاحظہ ہو، سہل بن حصین بن مسلم باہلی کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن حسن بن ابی الحسن باہلی سے کہلایا کہ اپنے باپ کی کتابیں میرے پاس بھیج دو پس انہوں نے میرے پاس بھیج دیا کہ جب وہ بوڑھے ہوگئے تھے تو انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میرے لئے ان کتابوں کو جمع کردو تو میں نے جمع کر دیا تھا اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس کو کیا کیا جائے گا لہذا میں نے ان کے پاس کتابیں جمع کردیں انہوں نے خادم سے کہا کہ تنور گرم کرو جب تنور گرم ہوا تو انہوں نے ان تمام کتابوں کو جلا دیا.(2)

اس سلسلےمیں اگر بات کی جائے تو گفتگو طویل ہو جائے گی جستجو کرنے والے کے لئے اتنا

.............................................

1.میزان الاعتدال، ج4، ص55.56، لسان المیزان، ج3، ص247.

2.الطبقات الکبری، ج7، ص175. سیر اعلام النبلاء، ج4، ص574.

۱۸۶

ہی کافی ہے اور اس کے بارے میں واقفیت حاصل کرنا آسان ہے جب کہ اس دور میں کچھ کتابوں نے صاحب ذوق کی اس طرف رہنمائی کردی ہے.

5. حدیث شریف کی آفتوں میں اصحاب جرح و تعدیل کی چھان پھٹک کا بھی اضافہ کر لیں ظاہر ہے کہ جرح و تعدیل بھی حدیثوپ کے لئے ایک مصیبت ہی ہے کہ جس کے سامنے کوئی حدیث جرح و تعدیل کے بعد صحیح سمجھی گئی ممکن ہے کہ دوسروں کے نزدیک صحیح نہ ہو اور جو غلط سمجھی گئی ممکن ہے وہ صحیح ہو لیکن بہر حال وہ ضائع کردی گئی اس سلسلے میں میں نے ان سوالوں کے قسم اول کے جواب میں ایک طویل گفتگو کی ہے.

خدا اور رسول(ص) کی طرف سے ان مشکلوں کا حل ضرور ہونا چاہئے

گذشتہ صفحات میں آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ سنت نبوی(ص) جو تمام مشکل مسائل میں مسلمانوں کے لئے قرآن مجید کے بعد واحد مرجع ہے اس سنت نبوی(ص) کو وقت اور سیاست کے ہاتھوں کتنا نقصان پہنچا اور کس طرح ضائع کرنے کی کوشش کی گئی اس لئے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ چونکہ خداوند عالم ہر چیز کا عالم ہے اور اس کو یہ معلوم ہے کہ نبی(ص) کی امت کیسے کیسے اختلافات و افترا کا شکار ہونے والی ہے اللہ اور اس کے رسول(ص) نے ان فتنوں کے بارے میں قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں بتایا بھی ہے کہ امت پر کیا گذرنے والی ہے انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں حدیث شریف اور سنت نبوی(ص) کی کیا حالت ہونے والی ہے تحریف کی کن منزلوں سے گذرنا ہے اس لئے یہ بات بھی یقینی ہے کہ خداوند عالم اور خود رسول خدا(ص) نے اپنی سنت شریفہ کے گرد ایک حفاظتی دائرہ ضرور بنایا ہوگا.

سنت شریفہ ر ج آفتیں آئی ہیں ان آفتوں میں طویل زمانہ کو بھی شمار کر لیں وقت گذرتا گیا حادثات سامنے آتے گئے فکر انسانی کے رجحانات میں انقلابات آتے رہے انسان کے مزاج نے ماضی کی روایتوں سے آزاد ہونے کی بھر پور کوشش کی اور گذشتہ زمانے سے خود کو آزاد کر بھی لیا پھر

۱۸۷

زمانہ خالی تقاضوں کے مطابق بدل کےسماجی قدروں کی تعبیروں میں تبدیلی کر لی زمانہ میں انسان کو استقرار نہیں ہے مسلمان تو وقت کے مطابق مذہب کو بھی بدلنا چاہتا ہے اس لئے وہ حدیثوں کی تحریف کرتا ہے دین کو ہلکا کرنے کے لئے وقت کے مزاج کے مطابق اور عصری تقاضوں کے مطابق حدیثوں اور آیتوں کی تفسیر کرتا ہے ظاہر ہے کہ اس کا اثر تو حدیث اور سنت نبوی(ص) پر لازمی طور پر پڑے گا.

تو کیا آپ کا خیال ہے کہ ان تمام باتوں کا علم رکھتے ہوئے بھی خدا اور خدا کے رسول(ص) نے سنت نبوی(ص) کو بغیر حفاظت کے چھوڑ دیا ہوگا کہ سنت نبوی(ص) آفتوں میں گھری رہے اور مشکلوں میں پھنسی رہے اور اس کو مشکلوں سے نکالنے کا کوئی انتظام خدا اور اس کے رسول(ص) کی طرف سے نہ ہو؟

خصوصا اس لئے بھی کہ دین اسلام خاتم الادیان ہے اور اس دین کے نبی خاتم الانبیاء(ص) ہیں. اب کوئی جدید وحی آسمان سے نازل نہیں ہونے والی ہے جس کا انتظار کیا جائے اگر کچھ نیا ہوگا بھی تو اسی دین قیم کے اور اس کے قانون کے ضمن میں ہوگا جس قانون اور دین کو مکمل طور پر نبی اعظم(ص) پہونچا چکے ہیں.

میرا خیال ہے کہ اگر نگاہ انصاف سے گذشتہ صفحات کو پڑھا جائے تو ہر حق پسند یہ فیصلہ کرے گا کہ یقینا ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے خصوصا اس دور میں کہ جب کہ مسلمانوں کے درمیان دین کے اصول و فروع میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور مشکل یہ ہے مسائل کو حل کرنے کی مسلمان خود سے تو حل نہیں کرسکتے لہذا ماننا پڑے گا کہ خدا اور رسول(ص) کی طرف سے ان مسائل کا حل موجودہے.

۱۸۸

ان مشکلوں کا حل صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ کوئی مرجع خدا کی طرف سے معین ہو

اب مسائل کا حل ممکن ہی نہی ہے جب تک یہ نہ مانا جائے کہ اللہ نے ہر زمانے میں اس طرح کی مشکلوں کو حل کرنے کے لئے اپنی طرف سے کوئی مرجع معین کر دیا ہے تاکہ لوگ دینی امور میں اس کی طرف رجوع کریں وہ مرجع بھی دین اور حقیقت دین کا عالم ہونا چاہیئے تا کہ وہ معالم دین کو واضح کرسکے اور اختلافات کو رفع کرسکے اور بناوٹ اور تحریف سے روک سکے تاکہ مسلمان اپنے معاملات میں وضاحت اور دین میں بصیرت حاصل کرسکیں اور ایسا مرجع ہو جو خدا کی طرف سے حجت بالغہ ہو اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان صفات کا دعوی نہیں کیا گیا مگر صرف ائمہ اہل بیت(ع) کے لئے خدا کی طرف سے سند حجیت اور امت کے لئے مرجعیت صرف ائمہ اہلبیت(ع) کو حاصل ہے.

ائمہ اہل بیت(ع) کی مرجعیت کی کچھ دلیلیں

اب اگر کوئی یہ کہے کہ خدا کی طرف سے تعین مرجع کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ دعوی کرے کہ مرجع کی کیا ضرورت ہے امت اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لئے خود ہی کافی ہے یاخدا کو امت کا یہ اختلاف اور افتراق پسند ہے تو میں اس سے کہوں گا لیکن نبی(ص) اپنے بعد امت کے لئے مرجع کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں اور ہمارے لئے کافی ہے کہ نبی(ص) نے اپنے بعد اہل بیت اطہار(ع) کو امت کا مرجع قرار دیا ہے اور سینکڑوں حدیثوں میں اس کی وضاحت کر دی ہے جیسے.

1.حدیث ثقلین جو بہت مشہور ہے بلکہ لفظی اختلاف کے باوجود معنوی طور پر تمام راویوں میں اتحاد ہے اور اتنے کثیر طریقوں سے وارد ہوئی ہے کہ تواتر کی حدوں سے کئی ہاتھ آگے بڑھی ہوئی ہے اگر چہ میں نے اس کی دلالت کی توضیح آپ کے سابقہ سوالوں میں چھٹے سوال کے جواب میں کردی ہے ویسے یہ حدیث اتنی مشہور، متواتر اور قطعی ہے کہ کسی توضیح کی محتاج نہیں ہے.

۱۸۹

2.حضور کا یہ قول کہ ہمارے اہل بیت(ع) سفینہ نوح جیسے ہیں جو اس میں سوار ہوا نجات پائے گا اور جس نے منہ موڑا وہ ڈوب گیا.(1)

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ نجات مل ہی نہیں سکتی جب تک اہل بیت(ع) ہدایت نہ کریں اور ہلاکت یقینا اس کا مقدر ہے جو ان سے اعراض کرتا ہے اور انہیں چھوڑ دیتا ہے.

3. اور حضور(ص) کا یہ قول کہ ستارے اہل زمین کو ڈوبنے سے بچاتے ہیں اور ہمارے اہل بیت(ع) امت کو اختلاف سے امان دیتا ہے.(2)

ظاہر ہے کہ اختلاف سے امان دینے کا مطلب یہ ہے کہ اہل بیت(ع) شک و حیرت میں امت کا مرجع ہیں اور چونکہ اختلاف کسی زمانے کا پابند نہیں ہے بلکہ ہر دور میں ہوسکتا ہے اس لئے اختلاف سے بچنے کے لئے ہر دور میں ایک مرجع کا ہونا ضروری ہے تاکہ لوگ اس کی طرف رجوع کرسکیں اور اپنے اختلافات کو رفع کرسکیں.

4.حضور(ص) کا یہ فرمانا کہ جو چاہتا ہے کہ میرے جیسی حیات جئے اور میرے جیسی موت پائے اور جنت میں داخل ہو جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے انگور کا وہ باغ جس کو خدا نے اپنے دست قدرت سے لگایا ہے اور جنت خلد ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ علی(ع) سے تولا یعنی محبت کرے اور علی(ع) کے بعد ان کی ذریت سے تولا کرے اس لئے کہ وہ تو تمہیں ہدایت کے دروازے سے ہرگز نہیں نکالیں گے اور ضلالت کے دروازے میں ہرگز داخل نہیں کریں گے.(3)

............................................

1.المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص162؛ کتاب معرفتہ الصحابہ، مجمع الزوائد، ج9، ص174. مسند رویانی، ج2، ص253. المعجم الکبیر، ج7، ص22. موضع اوہام الجمع والتفریق، ج2، ص463. کشف الخفاء، ج2، ص425. فضائل الصحابہ ابن حنبل، ج2، ص671 وغیرہ منابع.

2.کنز العمال، ج11، ص611، حدیث3296 الاصابہ، ج2،ص587.تاریخ دمشق، ج42، ص240.

3.چوتھے سوالوں کے جواب میں اس کے مصادر گذر چکے ہیں.

۱۹۰

پس اس بات کا قطع کی اہل بیت(ع) امت کو باب ہدایت سے ہرگز نہیں نکالیں گے اور باب ضلالت میں ہرگز داخل نہیں کریں گے اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہمیشہ حق کے ساتھ رہیں گے حق کی معرفت رکھیں گے اور حق کے معاملے میں غلطی نہیں کریں گے تو حق سمجھنے کے لئے اور حق تک پہونچنے کے لئے ان حضرات کی طرف رجوع کرنا طے ہوگیا.

اسی طرح کی حدیث زید بن ارقم سے ہے مگر اس میں یہ الفاظ ہیں کہ اس کو چاہئے کہ وہ علی(ع)سے تولا کرے اس لئے علی(ع) اس کو کبھی ہدایت کے دروازے سے نہیں نکالیں گے(1) جب یہ طے ہوگیا کہ علی(ع) ہی امت کے مرجع ہیں تو پھر آپ کی اولاد طاہرہ(ع) کی مرجعیت کے لئے وہ نصوص کافی ہیں جو نبی(ص) کی طرف سے وارد ہوئی ہیں اور ان حضرات کی مرجعیت کا تعین کرتی ہیں.

5.اور حضور(ص) کا یہ فرمانا کہ میرے بعد میری امت کے لئے ہر دور میں میرے اہل بیت(ع) میں سے ایک عدول ہوگا جو اس دین کو غالیوں کی تحریف سے دور رکھے گا مبطلین کی دخل اندازی سے بچائے گا اور جاہلوں کی تاویل سے نجات دے گا اور خبردار ہوجائو کہ تمہارے امام بارگاہ الہی میں وفد ہیں پس بہت غور کرو کہ تمہارا امام کون ہونا چاہئے یہ(2) حدیث بھی صراحتا اس بات پر دلالت کرتی ہے کہاہل بیت(ع) حق اور باطل کے درمیان تمیز کے لئے مرجع ہیں اور دین حنیف میں جو غلطیان سرزد ہوں گی ان کی تصحیح کرنے والے ہیں نیز عمدا جو تحریف کی جاتی ہے یا غلطی سے جو عمل ہو جاتا ہے اس کو ٹھیک کرنے والے ہیں.

6.حضرت مولائے کائنات(ع) فرمایا کرتے تھے میں اور میرے طیب و طاہر خاندان کی نسل اور میری عترت کے ابرار بچپن میں بھی بڑوں سے سمجھدار اور بڑے ہونے پر تمام انسانوں سے عالم

.................................................

1.المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص139. مجمع الزوائد، ج9، ص108. تاریخ دمشق، ج42، ص242. حلیتہ الاولیاء، ج1، ص86. میزان الاعتدال، ج2، ص34، وغیرہ منابع.

2.ینابیع المودة، ج2، ص114.366. 439، الصواعق المحرقہ، ج2، ص441.442.676، ذخائر القضی فی مناقب ذوی القربی،ص17.

۱۹۱

ہوتے ہیں ہمارے ہی ذریعہ خدا جھوٹ کو دور کرتا ہے ہمارے ہی ذریعہ کاٹ کھانے والے بھیڑئیے اور کتوں کے دانت توڑنا ہے ہمارے ہی ذریعہ خدا تمہاری مشکلوں کو دور کرتا ہے اور ہمارے ہی ذریعہ تمہاری گردنوں کو پھندوں سے آزاد کرتا ہے اور ہمارے ذریعہ خدا شروع کرتا ہے ہمارے ذریعہ ختم بھی کرتا ہے.(1)

مذکورہ بالا قول قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق ہے جس میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے اہل بیت(ع)! خدا کا تو بس یہ ارادہ ہے کہ تمہیں ہر رجس سے دور رکھے اور ایسا پاک رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ہے(2) اس لئے کہ سب سے بڑا رجس دین میں غلطی کرنا ہے اس کے علاوہ کتنی آیتیں اور حدیثیں ہیں جو اہل بیت اطہار اور ائمہ ابرار(ع) کی مرجعیت کو صراحتا بیان کرتی ہیں.

ان آیتوں اور حدیثوں کے ساتھ امیرالمومنین(ع) کے حق میں جو خاص آیتیں اور حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان کا بھی اضافہ کر لیں جیسے یہ کہ وہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے علم نبی(ص) کے راز دار اور وارث اور شہر علم نبی(ص) کے دروازے بھی وہی ہیں وغیرہ وغیرہ...

ان سوالوں میں چوتھے چھٹے اور ساتویں سوال کے جواب میں کچھ حدیثیں میں پیش کرچکا ہوں، جو ان حدیثوں اور آیتوں کو صحیح سمجھتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ حضور نے ائمہ اہل بیت(ع) کو اپنے علم کا وارث بنایا ہے اور الحمد للہ میراث اپنے وارث کے پاس موجود اور باقی ہے اس سلسلے میں باقی باتیں نویں سوال کے جواب میں بھی عرض کی جائیں گی جہاں یہ دلیلیں دی جائیں گی کہ ائمہ اہل بیت(ع) میں ہی امامت باقی ہے اور امامت ان سے باہر کہیں نہیں پائی جاتی.

ولائے اہل بیت(ع) ہیسے دین کامل ہوتا ہے اور نعمتیں تمام ہوتی ہیں

یہی وجہ ہے کہ ولائے اہل بیت(ع) ہی سے دین کامل ہوتا ہے ار نعمتیں تمام ہوتی ہیں اور خداوند عالم کی طرف سے اسلامی قانون جیسی عظیم نعمت اسلام کو حاصل ہوتی ہے یہ وہ حضرات ہیں جن کی ولا کا

...................................

1.کنز العمال، ج13، ص130، حدیث36413.

2.سورہ الاحزاب، آیت33.

۱۹۲

تذکرہ آیہ اکمال دین میں شامل ہے(1) آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کیا تم پر اپنی نعمت تمام کی اور تمہارے لئے دین اسلام سے راضی ہوا سابقہ سوالوں میں چوتھے سوال کے جواب میں جہاں حدیث غدیر کا تذکرہ کیا گیا ہے وہیں دلیل کے عنوان سے وہ حدیثیں بھی پیش کی گئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اعلان ولایت کے بعد ہی یہ آیت نازل ہوئی.

اہل سنت کا اہل بیت(ع) کے بارے میں نظریہ

لیکن جہاں تک اہل سنت کا سوال ہے تو ان کی اجمالی یا تفصیلی دونوں ہی طرح کی روایتوں نے ولائے اہل بیت(ع) کے مخالف سمت میں رخ موڑ رکھا ہے اور وہ اپنے مسلمات و عقائد کو چھوڑنے پر تیار نہیں بلکہ انہیں عقائد کو حق اور باطل کے درمیان تمیز کا مرجع سمجھتے ہیں اور اہل بیت اطہار(ع) کو پس پشت ڈال دیا ہے.

یہاں جوزجانی کیا کہتے ہیں

جوزجانی کہتے ہیں: اہل کوفہ میں ایک گروہ ایسا ہے جس کا مذہب محمود اور پسندیدہ نہیں ہے وہ محدثین کوفہ کے راس و رئیس ہیں جیسے ابواسحق، عمرو بن عبداللہ، منصور اعمش، اور زید بن حارث وغیرہ اور ان کے ساتھی لوگ ان کی سچائی کی وجہ سے ان کی حدیثیں لینے پر مجبور ہیں لیکن جب ان کی مرویات کو میزان انصاف پر تولا جائے گا وہ میزان جس کو مسلمانوں کے اسلاف نے مقرر کیا ہے اور ان کے ائمہ ان پر بھروسہ کرتے ہیں تو پتہ چلے گا کہ ان کی حدیثیں اس معیار کے مطابق نہیں ہیں ایسی صورت میں میرے نزدیک توقف کرنا ہی صحیح ثابت ہے اس لئے کہ ہمارے اسلاف قول پیغمبر(ص) کو ہم سے زیادہ جاننے والے اور پیغمبر(ص) کی حدیث کو ہم سے بہتر تاویل کرتے تھے جو ان کے نزدیک اصل کی حیثیت رکھتی ہے.

...............................

1.سورہ مائدہ، آیت3.

۱۹۳

وہب ابن منبہ نے کہا ہے: اہل کوفہ کی حدیث کو اعمش اور ابو اسحق نے بگاڑا ہے ابراہیم کہتے ہیں کہ اسی طرح مجھ سے اسحق بن ابراہیم نے بیان کیا کہ ان سے جریر نے کہا میں نے مغیرہ کو اکثر یہ کہتے سنا کہ اہل کوفہ کو اسحاق اور تمہارے اس اعمش نے برباد کردیا میرے نزدیک ان کے بعد آنے والے بھی اسی طرح ہیں اگر چہ وہ صاحبان مراتب ہیں لیکن ان کا مذہب برا اور زبان سچی ہے.(1)

جوزجانی کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے

جوزجانی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ مذکورہ بالا حضرات صادق اللسان ہیں پھر یہ بھی کہتے ہیں ان سچے لوگوں کی حدیثوں پر بھی توقف کرنا اس صورت میں بے حد ضروری ہے جب ان کی حدیثیں اس معیار پر پوری اتریں جو معیار اسلاف مسلمین اور ان کے ائمہ نے قائم کئے ہیں اس لئے کہ جوزجانی کے نزدیک وہی اسلاف مسلمین دین کے مرجع ہیں اور ان کے امام ہیں اس کے ساتھ ہی حدیث پیغمبر(ص) کی اور تاویل حدیث کے زیادہ جاننے والے ہیں ناظرین کا کیا خیال ہے؟

جوزجانی یہ ممدوح افراد آخر کون لوگ ہیں کیا ناظرین انہیں پہچانتے ہیں اگر نہیں پہچانتے تو جوزجانی کے اس کلام کو پھر سے پڑھیے آپ کی سمجھ میں آجائے گا یہ اسلاف مسلمین مرجع امت، اعمل قول رسول اور ماہرین تاویل کوئی اور نہیں یہ وہی لوگ ہیں جن کا شعار زندگی خلاف اہل بیت ہے(ع)، یہ لوگ جوزجانی کی نظر میں صرف اس لئے ممدوج اور معیار حدیث ہیں کہ یہ لوگ مذہب اہل بیت(ع) کے خلاف ہیں مذہب اہل بیت(ع) کے خلاف تھے اور مذہب اہل بیت(ع) کے خلاف رہیں گے.

اہل کوفہ کے مذکورہ راوی ممدوح المذہب ہیں اور انہوں نے اہل کوفہ کی حدیث میں فساد برپا کر دیا ہے حالانکہ وہی روات اہل کوفہ جوزجانی کی زبان میں صادق اللسان بھی ہیں اور حدیثوں کو خراب بھی کررہے ہیں.

...........................................

احوال الرجال، ص78.81.

۱۹۴

عجیب بات یہ ہے وہی روات اہل کوفہ جو صادق اللسان بھی ہیں جوزجانی کے قول کے مطابق اہل کوفہ کی حدیثوں میں فساد کا سبب قرار پاتے ہیں، ناظرین کرام یہ دنیا ہے اس میں جب تک زندہ رہیں گے عجیب سے عجیب تر تماشے دیکھتے رہیں گے.

کاش جوزجانی اور ان کے اسلاف مسلمین اور علماء تاویل اہل بیت(ع) کی طرف پلٹتے وہ اہل بیت(ع) جنہیں اللہ نے رجس سے پاک رکھا ہے اور ایسا مطہر کیا ہے جیسا تطہیر کا حق ہے وہ اہل بیت(ع) جنھیں پیغمبر(ص) نے امت کا ایسا مرجع قرار دیا ہے جو امت کو ضلالت اور فرقہ بندی سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو آج میعاد بدل جاتا اور میزان میں تبدیلی آجاتی ہے وہی اہل صداقت جن کی زبان کی صداقت کی گواہی جوزجانی دے رہے ہیں مذموم مذہب کے بجائے مذہب حق کے حامل قرار پاتے ہیں اور اہل کوفہ کی حدیث میں بھی اصلاح ہوجاتی ہے، یہ بات بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ ان صاحبان زبان صداقت نے اہل کوفہ کو گمراہی سے بچانے کا کارنامہ انجام دیا ہے اور گمراہی سے محفوظ رکھا ہے.

آپ کہہ دیں کہ خدا ہی کی حجت ( حق تک) پہچانے والی ہے اور اگر وہ چاہے تو تم سب کو ہدایت کردے(1) ہم خدا کی حمد کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے دین کی ہدایت کی اور توفیق عنایت فرمائی جس نے اس راستے کی طرف بلایا ہے ہم اس کا ابدی اور سرمدی شکریہ ادا کرتے ہیں.

ان تمام باتوں سے ایک حقیقت بہر حال ظاہر ہوجاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اہل سنت حدیثوں کے معاملے میں اہل بیت(ع) سے بہر حال مستغنی نہیں ہیں اور شیعوں کی طرف ان کی صداقت لسان کا اعتراف کر کے بہر حال رجوع کرنے کے محتاج ہیں اگر چہ ان کے مذہب سے واقف ہیں اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ صرف نبی(ص) سے حدیث لیکے وہ دینی معلومات مکمل طور پر حاصل نہیں کرسکتے اس لئے حدیث نبوی(ص) سابقہ بیان کے زیر نظر بڑی آفتوں اور مصیبتوں سے گذری ہے.

.....................................

1.سورہ انعام، آیت149.

۱۹۵

اہل سنت کا عصمت اہل بیت(ع) کا اعتراف نہ کرنا الگ بات ہے لیکن ان کی حدیثوں سے رخ نہیں موڑنا چاہئے

دوسری قابل تعریف بات:

آخر میں آپ نے فرمایا ہے اہل سنت اس لئے شیعہ کی کتابوں سے مستغنی ہیں کہ اہل بیت(ع) کی عصمت کے قائل نہیں ہیں آپ کے اس جملے کے جواب میں عرض ہے کہ، پہلی بات یہ ہے کہ، کیا اہل بیت(ع) کی عصمت اہل سنت کے اعتراف اور قائل ہونے کی محتاج ہے جو معصوم ہے وہ معصوم ہی رہے گا اہل سنت کے معصوم ماننے اور نہ ماننے سے ان کی عصمت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ ان کی عصمت لا تعداد متواتر احادیث سے ثابت ہے.

1.وہ حق اور قرآن کے ساتھ ہیں حق اور قرآن ان کے ساتھ ہے وہ مسلمانوں کے مرجع قرار پاتے ہیں اور حق کی ہدیات کرتے ہیں وہ مسلمانوں کو گمراہی سے بچاتے ہیں مسلمانوں کے اختلاف کو دور کرتے ہیں دین کو آلودگیوں اور تحریفات سے پاک کرتے ہیں وغیرہ.

اگر دشمن انہیں تبلیغ میں معصوم نہ بھی مانےتو کم از کم یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ وہ بغیر بات نہیں کرتے بلکہ آیت تطہیر کا تقاضہ تو یہ ہے کہ وہ معصیت سے معصوم ہیں اور غیر تبلیغی امور میں بھی انہیں قرآن سے سند عصمت حاصل ہے، اہل سنت کا اس بات پر اصرار کہ وہ معصوم نہیں ہیں تو آپ کا یہ کہنا دلیلوں سے مردود ہوجاتا ہے اور اس طرح کی سیکڑوں دلیلیں ہیں.

2.دوسری بات یہ ہے کہ ائمہ ہدی علیہم السلام سے جو حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان میں تین باتیں قابل توجہ ہیں.

ائمہ اہل بیت(ع) کی مسند حدیثیں غیروں کی مسند حدیثوں سے کمتر نہیں ہیں

1.پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے یہاں اسناد کا معصوم ہونا شرط نہیں ہے لہذا اہل سنت کا ائمہ کی عصمت کا قائل نہ ہونا ان کی روایات کے اخذ کرنے سے مانع نہیں ہے اور ان روایات پر عمل

۱۹۶

کرنا جس طرح انھوں نے غیروں سے روایت کی ہے اور عمل بھی کیا ہے بلکہ اہل بیت(ع) غیروں سے اولی اور افضل ہیں کیونکہ امام اپنے باپ اور وہ اپنے آباء و اجداد اور وہ امیرالمومنین(ع) اور وہ پیغمبر(ص) سے حدیث نقل کرتے ہیں کیونکہ اولی ہیں اس لئے کہ علم فقہ، تقوی و پرہیزگاری، صداقت و راست گفتاری میں معراج کمال کو پہنچے ہوئے ہیں لہذا جس سند کی بازگشت ان حضرات کی طرف ہوتی ہے وہ عظیم الشان اور عالی مرتبہ اور قوی ہے.

اگر یہ اسناد مجنون پر پڑھی جائیں تو وہ صحت پاجاتے

جب کہ اکثر اہل سنت نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ائمہ اہل بیت(ع) اپنے اسناد میں جن راویوں کا نام لیتے ہیں اگر وہ نام یعنی وہ سند مجنون پر پڑھ کے دم کر دو تو وہ صحت پا جاتے ہیں پوچھئے نہ احمد بن حنبل سے وہ تو حنابلہ کے امام ہیں احمد بن حنبل سے روایت کی گئی ہے کہ امام علی بن موسی الرضا(ع) جن اسناد سے روایت کرتے ہیں اگر وہ اسناد مجنون پر پڑھ دی جائیں تو وہ صحت مند ہو جائے،(1) بقول شاعر

یا علی(ع) اگر کہہ دو تو سدا دہن مہکے

پڑھ کے نام دم کر دو حشر تک بدن مہکے.

ابن مراویہ سے بھی پوچھ لیجئے وہ کہتے ہیں ابو حاتم بن ادریس رازی نے کہا ابوصلت عبد اللہ بن صالح ہروی کہتے تھے اگر یہ اسناد کسی مجنون پر پڑھ دی جائیں تو اس کو افاقہ ہو جائے.(2)

اور یہ محمد بن عبداللہ بن طاہر ہیں کہتے ہیں: میں اپنے باپ کے سرہانے بیٹھا تھا نیز ان کے پاس احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، اور اباصلت ہروی بھی تھے میرے والد نے حاضرین سے کہا کہ تم میں سے ہر ایک آدمی ایک حدیث بیان کرے ابوصلت نے کہا:

.......................................

1.الصواعق المحرقہ، ج2، ص595.

2.التدوین فی اخبار قزدین، ج3، ص482.

۱۹۷

مجھ سے علی بن موسی الرضا(ع) نے کہا: اور یقینا وہ رضا تھے جیسا کہ ان کا نام تھا انھوں نے اپنے باپ موسی بن جعفر(ع) سے سنا انھوں نے اپنے باپ جعفر بن محمد(ع) سے سنا انھوں نے اپنے باپ محمد بن علی(ع) سے سنا انہوں نے اپنے باپ علی بن حسین(ع) سے سنا انہوں نے اپنے باپ حسین بن علی(ع) سے سنا انہوں نے اپنے باپ علی(ع) سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: ایمان قول اور عمل کا نام ہے حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا: یہ کون اسناد ہیں( چونکہ ان اسناد اہل بیت(ع) سے نا آشنا تھے اس لئے اس کو تعجب بھی ہوا اور اجنبیت بھی محسوس ہوئی) مترجم غفرلہ.

میرے باپ نے کہا یہ سعوط المجانین ہے( پاگلوں کے لئے دوا ہے) اگر مجنون پر یہ نام پڑھ کے دم کئے جائیں تو وہ صحت پا جائے(1) اسی طرح ابونعیم نے بھی بعض بزرگ محدثین سے نقل کیا ہے.(2)

اور شیخ صدوق محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ نے امام رضا(ع) سے آپ کی اسناد کے ساتھ اپنے آباء کرام سے انہوں نے نبی سے حدیث بیان کی ہے ایمان کا نام زبان سے اقرار دل سے معرفت اور ارکان پر عمل کرنا ہے.

پھر کہا ہمزہ بن محمد علوی کہتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن ابن ابی حاتم سے سنا کہنے تھے میں نے اپنے باپ سے سنا کہتے تھے کہ یہ حدیث ابو صلت ہروی عبداللہ بن صالح سے انہوں نے علی بن موسی الرضا(ع) سے انہوں نے اپنی اسناد سے اپنے آباء کرام سے روایت کی ہے کہ ابوحاتم کہتے ہیں کہ اگر یہ اسناد مجنون پر پڑھ دی جائیں تو وہ صحت پا جائے.(3)

عبدالرحمن بن حاتم کہتے ہیں: میں اپنے باپ کے ساتھ شام میں تھا میں نے ایک بے ہوش آدمی کو دیکھا تو مجھے یہ اسناد یاد آئیں میں نے سوچا چلو اس کا تجربہ کرلوں تو میں نے

................................

1.طبقات الشافعیہ الکبری، ج1، ص119.120. انہیں الفاظ میں عیون اخبار الرضا(ع)، ج2، ص205 بھی ملاحظہ ہو.

2.حلیتہ الاولیاء، ج3، ص192، محمد بن علی الباقر کی سوانح حیات میں.

3.عیون اخبار الرضا(ع)، ج2، ص205.

۱۹۸

یہ اسماء مبارکہ جو اسناد میں ہیں اس بیہوش آدمی پر پڑھی تو وہ ہوش میں آکے کھڑا ہوگیا اور اپنا کپڑا جھاڑتے ہوئے چلا گیا.(1)

ائمہ اہل بیت(ع) کی مرسل حدیث بھی اہل سنت کی مسند کے برابر ہے

2.ایسی حدیثیں ہیں جن میں امام کا تذکرۃ نہیں کرتے اور براہ است نبی سے روایت کرتے ہیں وہ بادی النظر میں تو مرسل لگتی ہیں حالانکہ در حقیقت وہ مسند ہوتی ہیں اس لئے کہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ امام نے حدیث اپنے والد ماجدسے انہوں نے اپنے والد ماجد سے اور... سند کو اس لئے حذف کر دیا اختصار پیش نظر تھا اور اس بات کی اکثر حضرات نے صراحت بھی فرما دی ہے.

جابر کی حدیث میں ہے کہ میں(جابر) نے ابو جعفر محمد باقر(ع) سے عرض کی: مولا جب آپ مجھ سے کوئی حدیث بیان کریں تو اس کی اسناد بھی بیان کردیا کریں آپ نے فرمایا: مجھ سے میرے والد ماجد نے ان سے ان کے والد ماجد نے( میرے باپ نے میرے دادا سے ) انہوں نے رسول(ص) سے انہوں نے جبرئیل سے انہوں نے اللہ سے سنا جب بھی میں کوئی حدیث بیان کروں اس میں ان اسناد کو داخل کر دیا کرو.(2)

ہشام بن سالم اور حماد بن عثمان وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ ہم نے ابوعبداللہ جعفر صادق(ع) سے سنا آپ فرماتے تھے میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے میرے والد کی حدیث میرے دادا کی حدیث ہے اور میرے دادا کی حدیث حسین(ع) کی حدیث ہے ان کی حدیث امام حسن(ع) کی حدیث ہے اور ان کی حدیث امیرالمومنین(ع) کی حدیث ہے اور ان کی حدیث رسول(ص) کی حدیث ہے اور رسول (ص) کی حدیث اللہ کی حدیث ہے، عزوجل.(3)

اس سلسلے میں ایک پر لطف بات وارد ہوئی ہے سالم بن ابی حفصہ کہتے ہیں: جب ابو حعفر محمد

.........................................

1.التدوین فی اخبار قزوین، ج3، ص482.

2.بحارالانوار، ج2، ص178.

3.الکافی، ج1،ص53؛بحارالانوار،ج2، ص179.

۱۹۹

بن علی(ع) کی وفات ہوگئی تو میں نے اپنے اصحاب سے کہا چلو پہلے ابوعبداللہ جعفر صادق(ع) اور ان کے والد ماجد کی تعزیت پیش کرتے ہیں ہم لوگ آپ کی خدمت میں آئے اور آپ کو پرسہ دیا پھر میں نے کہا: انا للہ و انا الیہ راجعون؛ خدا کی قسم وہ گذر گیا جو کہتا تھا قال رسول اللہ، پیغمبر(ص) نے فرمایا اور اپنے اور رسول کے درمیان میں وہ کسی سے پوچھتا نہیں تھا خدا کی قسم اب دنیا میں ایسے لوگ نہیں ملتے.

کہتا ہے جناب ابوعبداللہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر فرمایا اللہ کہتا ہے جو ایک کھجور بعنوان صدقہ دیتا ہے ہم اس کو یوں بڑھا دیتے ہیں جیسے کسان بیج سے کھیت تیار کرلیتا ہم اس کو بڑھاتے بڑھاتے کوہ احد کے برابر کردیتے ہیں.

کہتا ہے یہ سن کے میں نے اپنے اصحاب کے پاس آیا اور کہا میں نے اس سے عجیب بات آج تک نہیں دیکھی ہم تو ابوجعفر محمد بن علی(ع) کی اسی بات کو بڑا سمجھتے تھے کہ آپ فرماتے تھے رسول نے کہا اور براہ راست رسول(ص) سے روایت کرتے تھے لیکن ابوعبداللہ جعفر(ع) کہتے ہیں کہ اللہ نے کہا اور وہ اللہ اور اپنے درمیان کوئی واسطہ نہیں رکھتے.(1)

اہل بیت(ع) کے فتوے غیر اہل بیت پر مقدم ہیں

3.تیسری بات یہ ہے کہ اہل بیت اطہار(ع) کے وہ فتوے جو اسناد سے نبی(ص) تک پہونچتے ہیں ان پر عمل کرنا ان لوگوں پر تو واجب ہے ہی جو اہل بیت(ع) کو معصوم سمجھتے ہیں ان پر تو واجب ہے کہ وہ اہل بیت(ع) کے مقابلے میں دوسروں کے فتوے کو چھوڑ کے صرف اہل بیت(ع) کے فتوے پر ہی عمل کریں اس لئے کہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ ان کے فتوے بھی اصل میں دین ہیں جن پر عمل کرنا واجب اور ان کی مخالفت باطل ہے.

.....................................

1.بحارالانوار، ج47، ص337.

۲۰۰