فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 145956
ڈاؤنلوڈ: 3917


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145956 / ڈاؤنلوڈ: 3917
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کھول کے پڑھنا شروع کیا لکھا تھا خدا کے نام سے جس کو اولویت حاصل ہے اور اس کے پہلے کوئی نہیں ہے حکمت صاحبان حکمت سے مت روکو ورنہ یہ ان پر ظلم ہے اور حکمت غیر مستحق کو نہ دو ورنہ یہ حکمت ظلم ہے اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور تک پہونچاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی ہدایت کرتا ہے اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.اس خدا کے نام سے جو سب سے پہلے ہے اور جس کی کوئی انتہا نہیں ہر نفس کے اعمال پر ناظر و حاکم ہے اس کا عرش پانی پر تھا پھر اس نے اپنی مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا اور انہیں اپنی حکمت سے ان کو صورت بخشی اپنی مشیت سے جیسی چاہی ان کی پہچان بنائی انہیں شعبوں اور قبیلوں میں قرار دیا اور گھروں میں جگہ دی اس لئے کہ ان کے بارے میں وہ علم سابق رکھتا تھا پھر ان قبیلوں میں ایک عزت دار قبیلہ قرار دیا اور اس کا نام قریش رکھا یہ لوگ اہل امانت ہیں.پھر اللہ نے اس قبیلہ قریش میں ایک گھر قرار دیا جس کو بناوٹ اور رفعت کے اعتبار سے خصوصیت بخشی وہ گھر عبد المطلب کے بیٹوں کا ہے جو اس گھر کا آباد کرنے والے، مالک اور رہنے والے ہیں اس گھر میں ایک نبی منتخب کیا جس کا نام محمد ہوگا وہ آسمانوں میں احمد کے نام سے پکارا جاتا ہے خداوند عالم اس نبی(ص) کو آخر زمانہ میں مبعوث فرمائے گا اور انہیں کو اپنی رسالت کا مبلغ قرار دے گا. خدا کے بندوں کو اپنے دین کی طرف بلانے والا آسمانی کتابوں میں اس کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ انبیاء اس کی بشارت دیتے رہیں گے اور اس کے علم کا وارث خیر الاوصیاء ہوگا... اپنی نصرت سے اس(نبی(ص)) کی تائید کرے گا. اللہ اس(نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھائی ابن عم اور داماد سے اس(نبی(ص)) کے بازو مضبوط کرے گا وہ مددگار ثابت اس(نبی(ص)) کی بیٹی کا شوہر ہوگا اور (نبی(ص)) کا اس کے بعد وصی اللہ کی مخلوقات پر وہ( مددگار) حجت خدا ہوگا. نبی(ص) اس کو اپنی موت کے قریب اعلانیہ منصوب( بہ خلافت) کریگا وہ ہی باب اللہ ہے پھر اس کتاب میں وہ حالات لکھے تھے جن سے امیر کائنات کو دو چار ہونا پڑا اور امیر کائنات کے ان کی اولاد طاہرہ کے گیارہ اماموں کے نام ایک کے بعد دوسرے امام کا نام اور ان حضرات کے

۲۶۱

بارے میں کچھ تفصیل تھی. وہ کتاب بہت لمبی تھی لہذا تمام مطالب کتاب کے ذکر کی اس مختصر کتاب میں گنجائش نہیں ہے.(1)

اس طرح ان حدیثوں کی تائید ابن شہر آشوب کی ایک حدیث سے ہوتی ہے وہ لکھتے ہیں عبداللہ بن محمد بغوی نے اپنی اسناد کےساتھ عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے، ابن عمر نے کہا: نبی(ص) نے فرمایا: اے علی(ع) میں اپنی امت کا نذیر(ڈرانے والا) ہوں تم اس امت کے ہادی ہو حسن(ع) اس کے قائد حسین(ع) سائق( راہ نجات کی طرف لے جانے والے) علی بن الحسین(ع) اس کے جامع (گمراہی سے بچا کر ایک راستہ پر اکٹھا کرنے والے) محمد ابن علی(ع) عارف جعفر بن محمد(ع) کاتب موسی بن جعفر(ع) شمار کرنے والے علی بن موسی(ع) تعبیر دینے والے اور نجات دلانے والے ہیں. اس امت میں بغض و کینہ رکھنے والے کو چھوڑ دینے والے ہیں اور امت کے مومنین کو قریب کرنے والے ہیں. محمد بن علی(ع) اس کے قائد و سائق ہیں علی ابن محمد(ع) اس کو صحیح کرنے والے ہیں اور قائم خلف اس امت کے ساقی، راہنما اور ناظر و شاہد ہیں.” بیشک صاحبان عقل کے لئے اس میں نشانیاں ہیں.”

مذکورہ بالا حدیث کی روایت ایک جماعت نے جابر بن عبداللہ سے نبی(ص) کے حوالے سے کی ہے ملاحظہ ہو: اعمش نے ابو اسحق سے انہوں نے سعید بن قیس سے انہوں نے علی ابن ابی طالب(ع) سے انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے ان دونوں ( علی(ع) اور جابر) نے نبی(ص) سے کہ نبی(ص) نے فرمایا: میں تم سب کو حوض پر لے جانے والا ہوں اور اے علی(ع) تم ساقی ہو حسن(ع) زائد ہیں( بچانے والے حمایت کرنے والے) حسین(ع) آمر(حکم دینے والے) ہیں

...................................

1.بحارالانوار، ج36، ص217.219

۲۶۲

علی ابن الحسین(ع) فارط( پرچم ہدایت) محمد ابن علی(ع) ناشر جعفر ابن محمد(ص) سائق موسی بن جعفر(ع) محبت رکھنے والوں اور بغض رکھنے والوں کے شمار کنندہ اور منافقین کی قلع قمع کرنے والے علی ابن موسی(ع) مومنین کو زینت دنیے والے محمد ابن علی(ع) اہل جنت کو ان کے درجوں میں اتارنے والے علی بن محمد(ع) شیعوں کے خطیب اور شیعوں کا حورالعین سے نکاح کرانے والے اور حسن بان علی(ع) اہل جنت کے چراغ ہیں جن سے جتنی لوگ روشنی حاصل کریں گے اور ہادی مہدی قیامت کے دن شیعوں کی شفاعت کرنے والے ہیں حالانکہ اللہ سب کو حق شفاعت نہیں دیتا بس جس سے راضی ہوتا ہے اسی کو حق شفاعت بھی دیتا ہے.(1)

عجیب ترین بات تو یہ ہے کہ اخطب خوارزم موفق بن احمد مالی کی اپنی کتاب میں محمد بن الحسین بغدادی سے وہ ابوطالب حسین بن محمد سے وہ محمد بن احمد بن شاذان سے وہ احمد بن عبد اللہ سے وہ علی بن شاذان موصلی سے وہ محمد بن علی بن فضل سے وہ محمد بن قاسم سے وہ عباد بن یعقوب سے وہ موسی بن عثمان سے وہ اعمش سے وہ ابو اسحق سے وہ

حارث اور سعید بن ابو بشیرسے اور وہ پیغمبر سے. روایت بالکل وہی ہے جو ابھی گذشتہ صفحہ میں پیش کی گئی جس میں سرکار نے ائمہ اثنا عشر کے اسمائ مبارکہ اور القاب کا تذکرہ کیا ہے.(2)

مانتا ہوں کہ دونوں مذکورہ حدیثیں اگرچہ ائمہ اثنا عشر کی امامت پر صراحتہ دلالت نہیں کرتی ہیں لیکن ان حدیثوں میں اماموں کے نام کے ساتھ جن القاب کا تذکرہ کیا گیا ہے ظاہر ہے کہ وہی القاب ان حضرات کے امت سے ممتاز ہونے پر دلالت کرتے ہیں. اور ان کی امامت کو امت پر بالکل ویسے ہی ثابت کرتے ہیں جس طرح شیعہ فرقہ عقیدہ رکھتا ہے.

..........................................

1.بحار الانوار، ج36، ص270. بعینہ انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ کریں. مناقب آل ابی طالب، ج1، ص251.252. الاستبصار، ص23. الطرائف، ص174.

2.بحار الانوار، ج36، ص270.271.

۲۶۳

احادیث مذکورہ کے بارے میں کچھ سوالات اور ان کا جواب

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ گذشتہ صفحات میں اکثر حدیثیں وہ ہیں جو انہیں اصحاب اور انہیں اسناد سے روایت کی گئی ہیں جن اصحاب اور جن سلسلہ سند سے اہل سنت کی یہاں حدیثیں روایت کی جاتی ہیں لیکن طریقہ وہی ہے راوی وہی ہیں حدیثیں وہ نہیں ہیں اور اہل سنت کی کتابوں میں تو ان حدیثوں کا کسی کو پتہ نہیں ہے راوی وہی ہے لیکن ان کے یہاں وہ دوسری روایتیں بیان کرتے ہیں شیعہ کتابوں میں آتے ہی ان کا انداز بیان ہی نہیں بلکہ موضوع گفتگو بھی بدل جاتا ہے آخر کیوں؟ میرا خیال ہے کہ سابق میں بیان کئے گئے آٹھویں سوال کے جواب میں میری معروضات ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو اس سوال کا تسلی بخش جواب مل جائے گا.

جواب یہ ہے کہ یہ حدیثیں اہل سنت کے اصول کے خلاف ہیں جن مسلمات کو وہ مانتے ہوئے آئے ہیں ان کی ضد میں ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ان حدیثوں سے اعراض کرنے پر مجبور ہیں اور اپنی حدیث کی کتابوں میں ان حدیثوں کو نہیں لیا کرتے. راوی وہی ہیں لیکن جب اہل سنت سے بات کرتے ہیں تو چونکہ یہ حدیثیں ان کے یہاں ممنوع ہیں لہذا وہ ان حدیثوں کو بیان کرنا بھی پسند نہیں کرتے.بلکہ حدیث کے راویوں کو یہ یقین تھا کہ یہ حدیثیں اگر اہل سنت سے بیان کریں گے تو ان پر (راویوں پر) کذب اور وضع حدیث کا الزام فورا آجائے گا اس کے لئے تا ریخی تجربہ شاہد ہے کہ اس طرح کی حدیثیں جس نے اگر بھی اہل سنت سے بیان کیں ان پر کذب، افتراء اور وضع حدیث وغیرہ کے الزامات آئے اور انہیں جھیلنے پڑے.اسی طرح ہمارا یہ دعوی بھی اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ راویوں میں وہ لوگ بھی تھے جو یہ جانتے تھے کہ اہل سنت کی اہل بیت اطہار(ع) سے کوئی مطلب نہیں ہے اور نہ ان لوگوں سے جو اہل بیت(ع) سے موالات (دوستی) رکھتے تھے. اس لئے انہوں نے اس طرح کی حدیثیں اہل سنت

۲۶۴

سے بیان ہی نہیں کی. اہل بیت اطہار(ع) سے اہل سنت کی بے توجہی اور بے نیازی کو ثابت کرنے کے لئے ہی انہیں راویوں اہل سنت سے اہل بیت(ع) کے حق میں کچھ ایسی حدیثیں بیان کر دیں جو گذشتہ نصوص سے کسی طرح کم نہیں ہیں جیسے حدیث ثقلین وغیرہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اہل بیت(ع)کے مخالفین گھاٹے میں ہیں اور اسی طرح وہ حدیثیں بھی اہل سنت سے بیان کی جن حدیثوں میں امیرالمومنین(ع) کی ولایت کا تذکرہ ہے( لیکن ان کا یہ اقدام محض اس لئے تھا کہ شاید یہ حدیثیں سن کے ہی اہل سنت اہل بیت اطہار(ع) کی طرف متوجہ ہوجائیں پھر سفینہ نجات پر سوار ہونا آسان ہو جائے گا) مترجم.

ائمہ ہدی اماموں کی تعداد بتاتے ہیں

اب یہاں پر کچھ حیثیں پیش کی جا رہی ہیں جن میں خود اومہ اہل بیت(ع) نخ اماموج کی تعداد بارہ بتائی ہیں لیکن ان حدیثوں کو ان حضرات نے نبی سے منسوب نہیں کیا ہے ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ پھر یہ حدیثیں حجت کیسے ہوسکتی ہیں تو میں عرض کروں گا کہ ان جیسے علوم توقیفی ہیں اس طرح کی خبروں کے بارے میں محض اجتہاد اور چھٹی حس اور ذہانت کار ساز نہیں بلکہ آخر میں بات نبی ہی تک پہونچتی ہے اور ہر حدیث کی انتہا نبی ہی ہوتے ہیں جیسا کہ ابھی آپ نے زید بن علی کی حدیث میں ملاحظہ فرمایا کہ انہوں نے یہ بتایا کہ یہ خبر میرے باپ علی ابن الحسین(ع) نے اور ان کو حسین(ع) نے ان کو علی(ع) نے ان کو نبی(ص) نے بتائی تو اگرچہ یہ حدیثیں ائمہ ہدی سے مرسلا( یعنی سلسلہ سند میں بعض راویوں کے نام ذکر کئے بغیر) آئی ہیں لیکن اسناد میں کسی سے کم نہیں ہیں اور جب یہ بات معلوم ہے کہ ہر امام اپنے باپ سے اور وہ اپنے آباء طاہرین(ع) اور وہ نبی(ص) سے روایت کرتا ہے تو بیچ سے اسناد کو حذف کردینا حدیث کو غیر معتبر نہیں بنا سکتا جیسا کہ آٹھویں سوال کے جواب میں گذر چکا ہے.

اور یہ بھی تو دیکھئے کہ امام غیب اور مستقبل کی خبر دے رہے ہیں جو آخر کار سچ ثابت ہوتی ہے ہر امام اپنے بعد والے امام کے وجود کے بارے میں خبر دیتے ہوئے بارہ اماموں تک کی خبر دیتا ہے جو

۲۶۵

اس کے زمانے میں موجود نہیں ہیں. اور پھر جیسے خبر دیتا ہے اسی سلسلے میں امامت ان کے یہاں پروان چڑھتی ہے اس طرح کی پیشن گوئی کا سچ ہونا ان حدیثوں کی صداقت کا اعلان ہے.

اگر اس بے معنی اعتراض پر دھیان نہ دیا جائے تو اس سے دو فائدے حاصل ہوتے ہیں ایک توریہ کہ ائمہ ہدی کا یہ بیان کہ ان کے بعد آنے والا امام فلان نام کا شخص ہوگا جس کے القاب یہ ہوں گے فرائض یہ ہوں گے آنے والے امام کی امامت کو ثابت کرتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ہر امام کی امامت پر ما قبل امام کے ذریعہ نص حاصل ہوجاتی ہے. اس لئے ہم نے ان حدیثوں کو اس چوتھے گروہ کے اختتام پر رکھا ہے اور نمونہ کے طور پر کچھ حدیثیں بیان کردی ہیں.

55.کمیت شاعر کی حدیث امام باقر(ع) سے. وہ کہتے ہیں: میں امام کی خدمت میں ایک قصیدہ پڑھ رہا تھا جب یہ شعر آیا( ترجمہ شعر خطاب امام سے ہے) تمہارا حق کب تمہیں ملے گا اور تمہارا دوسرا مہدی کب آئے گا” ختم ہوتے ہی امام باقر(ع) نے جلدی سے فرمایا: انشاء اللہ. بیشک ہمارا قائم اولاد حسین(ع) کا نواں فرزند ہوگا اس لئے کہ پیغمبر(ص) کے بعد امام بارہ ہیں اور بارہواں امام ہی قائم آل محمد(ع) ہے. کمیت نے کہا مولا ان اماموں کے نام تو بتادیں فرمایا وہ بارہ ہیں ان میں پہلے علی ابن ابی طالب(ع) پھر حسن ابن علی(ع) پھر حسین بن علی(ع) اس طرح پھر بارہ اماموں کے نام بتائے.(1)

56. جابر جعفی یہ کہتے ہیں: میں نے امام باقر(ع) سے اس آیت قرآن کی تاویل پوچھی( خدا کے نزدیک مہینوں کے عدد بس بارہ ہیں) جابر کہتے ہیں کہ میرے مولا نے میرا سوال سن کے ایک ٹھنڈی سانس لی پھر فرمایا: سال سے مراد تمہارے پیغمبر(ص) ہیں اور اس سال کے بارہ مہینے ہیں امیرالمومنین(ع) سے لے کے مجھ تک اور پھر میرے فرزند جعفر، ان کے فرزند موسی، ان کے فرزند علی ان کے فرزند محمد ان کے فرزند علی ان کے فرزند حسن اور پھر ان کے فرزند محمد مہدی ہادی(ع) بارہ امام

...........................

1.اثبات الہداۃ بالنصوص والمعجزات، ج2، ص560. بحار الانوار، ج36، ص391.

۲۶۶

ہیں. جو اللہ کی رحمت ہیں اس کی مخلوقات پر اور اس کے علم اور وحی کے امانت دار ہیں.(1)

مذکورہ حدیث اگرچہ امام باقر(ع) سے ہے امام ہی آیت کی تفسیر کر رہے ہیں لیکن یاد رہے یہ تفسیر تفسیر بالبان ہے جسے انہوں نے اپنے آبائے کرام سے اور ان کے آباء کرام نے نبی(ص) سے حاصل کی.

اس حدیث کی تائید دائود درقی کی حدیث سے ہو رہی ہے جو جعفر صادق(ع) سے ہے. دائود درقی کہتے ہیں امام نے ایک صحیفہ نکالا اور مجھ سے فرمایا پڑھو یہ صحیفہ جو ہم اہل بیت(ع) کے لئے خاص ہے. اس کا وارث باپ کے بعد بیٹا ہوتا ہے اور یہ سلسلہ سند پیغمبر(ص)سے اب تک چلا آیا ہے تمہیں معلوم ہو کہ یہ صحیفہ پیغمبر(ص) کا ودیعت کردہ ہے. دائود درقی کہتے ہیں میں نے اسے پڑھا. اس میں لکھا تھا خدا کے نزدیک تو سال کے بس بارہ مہینے ہیں جو خدا کی کتاب میں لکھا ہوا ہے. لیکن ان سے مراد علی ابن ابی طالب(ع) حسن، حسین، علی ابن الحسین علیہم السلام... بارہ اماموں تک ان کے اسماء لکھے ہوئے ہیں.(2)

اس حدیث میں اگرچہ ان حضرات پر صریحی دلالت موجود نہیں ہے لیکن ظاہر ہے کہ ان حضرات کا مہینوں کی تعداد سے امتیازی کیفیت پانا ان کی امامت پر اور ان کی اطاعت کے وجوب پر دلیل ہے. اور ان حضرات کی حدیثیں تو ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں.

57. اعمش امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں جس میں امام بتاتے ہیں کہ امامت کس کے لئے واجب ہے اور امامت کی کیا پہچان ہے. اسی حدیث میں ہے کہ امام سے مراد امیرالمومنین(ع) امام المتقین... علی بن ابی طالب ہیں، ان کے بعد حسن ہیں پھر حسین ہیں... پھر باقی ائمہ اثنا عشری کا تذکرہ کیا گیا ہے.(3)

...............................

1. اثبات الہداۃ بالنصوص والمعجزات، ج2، ص463.464، شیخ طوسی کی کتاب الغنیہ، ص149. بحار الانوار، ج24، ص240.

2. اثبات الہداۃ بالنصوص والمعجزات، ج3، ص202. بحار الانوار، ج46، ص174. مقتضب الاثر،ص31.

3.کمال الدین تمام النعمہ، ص336. 337. انہیں الفاظ میں ملاحظہ ہو: اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج2، ص322.325.بحار الانوار، ج36، ص397.

۲۶۷

58. حدیث عاصم بن حکید دعائے توسل کے سلسلے میں امام صادق(ع) سے مروی ہے” پالنے والے میں تجھ سے تقرب چاہتا ہو تیرے نبی اور رسول کےوسیلےسے.... اور تقرب چاہتا ہوں تیرے ولی اور تیری مخلوقات میں تیرے نیک بندے اور تیرے نبی کے وصی کے وسیلہ سے اور تجھ سے تقرب چاہتا ہوں نیک ولی، امام حسن بن علی(ع) کے وسیلے سے. اور تجھ سے تقرب چاہتا ہوں اس مقتول سے جس کے لاشہ پر نعل بندی کی گئی وہ شہید کربلا جس کا نام حسین بن علی(ع) ہے. اور تجھ سےتقرب چاہتا ہوں سیدالعابدین کے وسیلے سے...” اسی طرح ایک ایک کر کے بارہویں امام حضرت حجت منتظر کے وسیلہ سے قربت الہی کی دعا کی گئی ہے اس دعا میں یہ بھی کہ یہ وہ وسیلے ہیں جن کے بارے میں انبیاء اور خاتم الانبیاء(ص) نجباء طاہرین سبھی نے خبر دی.(1)

59.تیسری حدیث بھی جعفر صادق(ع) سے ہی ہے. آپ ایک دعا میں خدا سے عرض کرتے ہیں: میں تجھ سے دعا کرتا ہوں اس حق کے واسطے سے جو تو نے محمد و آل محمد(ص) اور امام علی(ع) اور حسن(ع) اور حسین(ع) اور علی ابن الحسین علیہم السلام... جیسے اماموں کے نزدیک قرار دیا ہے. پھر امام نے اسی ترتیب سے باقی ائمہ کا ذکر کیا ہے.(2)

60. ایک حدیث مسعدہ بن صدقہ کی ملاحظہ ہو. کہتے ہیں جعفر صادق(ع) نے حدیث ثقلین پیش کرنے کے بعد فرمایا: ہمارا قائم صلب حسن(ع) اور حسن(ع) صلب علی(ع) سے اور علی(ع) صلب محمد(ع) سے اور محمد(ع) صلب علی(ع) سے اور علی(ع) میرے اس بیٹے ( اس وقت آپ نے اشارہ کیا موسی کاظم(ع) کی طرف فرمایا) اور یہ میرےصلب سے ہیں. ہم بارہ امام ہیں ہم میں سے ہر ایک مطہر اور معصوم ہے.(3)

61.علقمہ بن محمد حضرمی کی حدیث ملاحظہ کریں. کہتے ہیں جعفر صادق(ع) نے فرمایا: امام بارہ ہیں میں نے عرض کیا مولا ان کے نام بتادیں؟ فرمایا جو گذر چکے ہیں وہ علی(ع)، حسن(ع)، حسین(ع)، علی بن الحسین(ع)، محمد بن علی علیہم السلام ہیں میں نے عرض کیا پھر آپ کے بعد کون ہے؟ فرمایا: میں نے اپنے

.......................................

1. اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج2، ص472.473 مصباح المتہجدین، ص328.بحار الانوار، ج87.

2. اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج2، ص473، مصباح المتہجدین، ص332.بحار الانوار، ج87، ص39.

3. اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج2، ص473، کفایہ الاثر، ص266، بحار الانوار، ج36، ص408.409.

۲۶۸

بیٹے موسی کو اپنا وصی بنایا ہے وہ میرے بعد امام ہیں. میں نے کہا موسی(ع) کے بعد کون ہے؟ فرمایا: ان کے فرزند جن کو رضا(ع) کے لقب سے پکارا جائے گا اور ان کے بعد ان کے فرزند محمد(ع) پھر محمد(ع) کے بعد ان کے بیٹے علی(ع) اور علی(ع) کے بعد ان کے بیٹے حسن(ع) اور پھر حسن(ع) کے بعد ان کے بیٹے مہدی(ع).(1)

62. یونس بن ظبیان کی حدیث امام صادق(ع) سے ہے فرمایا: اے یونس اگر تم علم چاہتے ہو تو ہم اہل بیت(ع) کے پاس آکر حاصل کرو کیونکہ ہم نے یہ علم نبی سے میراث میں پایا ہے اس کے بعد بارہ اماموں کا ذکر کیا میں نے عرض کیا مولا ان اماموں کے نام بتائیں. فرمایا : پہلے امام علی ابن ابی طالب(ع) ان کے بعد حسن(ع) و حسین(ع) اور حسین(ع) کے بعد علی ابن الحسین(ع).... اس کے بعد ترتیب وار باقی ائمہ اثنا عشر کے اسماء گرامی بیان کئے.(2)

63. عبداللہ بن جندب کہتے امام موسی کاظم(ع) نے فرمایا: عبد اللہ جب تم سجدہ شکر کرو تو حالت سجدہ میں کہو: پالنے والے میں تجھے گواہ بناتا ہوں اور تیرے فرشتوں اور انبیاء مرسلین کو اور تیری تمام مخلوفات کو گواہ بنا کے اقرار کرتا ہوں کہ اے اللہ تو ہی میرا پروردگار ہے اور اور اسلام میرا دین ہے محمد(ص) میرے نبی ہیںج علی(ع)، حسن(ع)، حسین(ع)، علی ابن الحسین(ع)، محمد بن علی(ع)، جعفر ابن محمد(ع)، موسی ابن حعفر(ع)، علی ابن موسی(ع)، محمد ابن علی(ع)، علی ابن محمد(ع)، حسن ابن علی(ع)، اور حجت قائم تمہارے امام ہیں. میں انہیں حضرات سے تولا (محبت) کرتا ہوں اور ان کے دشمنوں سے اظہار برائت کرتا ہوں.(3)

64.حدیث شرائع دین جسے امام علی رضا(ع) نے مامون عباسی کو لکھ کے دیا جس میں نبی کا ذکر کرنے کے بعد آپ نے لکھا نبی کے بعد مومنین پر حجت مسلمانوں کے امر کو قائم کرنے والے، قرآن مجید سے بولنے کا حق رکھنے والے، احکام قرآن کے عالم نبی کے بھائی، پیغمبر(ص) کے خلیفہ

......................................

1. اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج2، ص563، کفایہ الاثر، ص267، بحار الانوار، ج36، ص410.409.

2.اثبات الھداة بالنصوص والمعجزات، ج2، ص561. کفایتہ الاثر، ص258.259. مختصر بصائر الدرجات، ص122. 123. بحار الانوار، ج36. ص403.405.

3.من لا یحضرہ الفقیہ، ج1، ص329.30. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ کریں. اثبات الہداة بالنصوص والمعجزات، ج2، ص471.472.

۲۶۹

وصی اور ولی کی منزلت نبی سے ایسی تھی جیسی ہارون سے موسی کی، علی ابن ابی طالب(ع) ہیں جو مومنین کے امیر روشن پیشانی یعنی روشن ضمیر افراد کے قائد، اوصیاء میں سب سے افضل انبیاء مرسلین کے علم کے وارث ہیں. ان کے بعد ان کے فرزند حسن اور حسین(ع) ہیں پھر حسین(ع) کے فرزند علی ابن الحسین زین العابدین(ع) ہیں پھر.... باقی ائمہ اثنا عشر کا تذکرہ فرمایا پھر کہتے ہیں میں ان حضرات کی وصایت اور امامت کی گواہی دیتا ہوں اور یہ کہ خدا کی زمین کسی بھی وقت اور زمانے میں حجت خدا سے خالی نہیں ہے اور یہ کہ یہی ائمہ اثنا عشر عروة الوثقی ہیں ائمہ ہدایت ہیں اور اہل دنیا پر اس وقت تک کے لئے حجت ہیں جب تک صرف خدا اس زمین اور اس کے رہنے والوں کا وارث نہ ہو جائے. اور یہ کہ جس نے بھی ان نفوس قدسیہ کی مخالفت کی خود گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے باطل ہے، حق اور ہدایت کا ترک کرنے والا ہے. چونکہ یہی حضرات قرآن کی تعبیر کرنے والے ہیں اور وضاحت سے سنت پیغمبر(ص) کو بیان کرنے والے ہیں. جو مرجائے اور انہیں نہ پہچانے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے.(1)

ظاہر ہے کہ اس موضوع پر حدیثیں کثرت سے ہیں لہذا ہم نے جتنی بیان کی ہیں. میرے خیال میں کافی ہیں.

ہر امام کی امامت پر موجود روایتیں

پانچواں گروہ: اس موضوع کے تحت میں وہ حجدیثیں پیش کروں گا جن میں حضور سرور عالم(ص) یا امام علی ابن ابی طالب(ع) کسی ایک امام یا ایک سے زیادہ اماموں پر نص فرماتے ہیں اگر چہ ایسی حدیثوں کا اکٹھا کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن مجھے جتنی میسر ہوئیں حاضر ہیں.اس منزل میں ان نصوص نبوی کا تذکرہ کرنا ج مولائے کائنات علی ابن ابی طالب(ع) کی امامت پر دلالت کرتی ہیں کلام کے طول دینے کے مترادف ہے اس لئے کہ مذہب شیعہ میں بنیاد ہی ان نصوص وافراہ پر ہے اور شیعہ حضرات اس سلسلے میں کافی استدلال کرچکے ہیں اور کافی دلیلیں دے چکے ہیں

.....................................

1.عیون اخبار الرضا، ج1، ص130.129. بحار الانوار،ج65، ص261.262.

۲۷۰

خصوصا مشہور ترین دلیلیں جن میں اہل بیت(ع) کے لئے عمومی یا امیرالمومنین(ع) کے لئے خصوصی تذکرہ ملتا ہے مثلا حدیث ثقلین اور حدیث غدیر اور وہ حدیثیں بھی جو چوتھے گروہ میں عرض کی گئیں.

وہ حدیثیں جو حسنین(ع) کی امامت پر بطور مشترک اشارہ کرتی ہیں

امامین سبطین ابو محمد حسن زکی اور ابو عبداللہ حسین شہید اگرچہ بظاہر امیرالمومنین حضرت علی(ع) سے عظمت و مقام میں کچھ کم ہیں لیکن:پہلی بات یہ ہے کہ دونوں بزرگوار کس اس پہلے گروہ میں ہونا یقینی ہے جس میں عمومی طور پر اہلبیت(ع) کے لئے حدیثیں پیش کی گئیں. اور ابھی ابھی ہم نے چوتھے گروہ میں ایسی حدیثیں ذکر کی ہیں جو ان دونوں حضرات کی امامت کو صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ دونوں حضرات اہل بیت(ع) کے اس گروہ میں شامل ہیں جن میں امامت منحصر ہے جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا. پھر ان دونوں حضرات کی امامت پر شیعوں کا اجماع ہے. شیعہ فرقہ میں چاہے جتنا اختلاف پایا جائے( جیسے زیدیہ، اسماعیلیہ، مہدیہ وغیرہ) لیکن شیعوں کے تمام فرقوں کا اجماع مولائے کائنات اور حسنین(ع) کی امامت پر بہر حال ہے. اور اب میں اس سلسلے میں کچھ حدیثوں کا اضافہ کر رہا ہوں.

1.مجموعہ اولی : اس مجموعہ میں وہ حدیثیں عرض کروں گا جو خاص طور پر حسنین(ع) کے بارے میں وارد ہوئی ہیں جیسے نبی(ص) کا قول: حسن(ع) اور حسین(ع) دونوں امام ہیں کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوں.(1)

.................................................

1.اثبات الہداۃ بالنصوص والمعجزات، ج5،ص129.اور انہیں الفاظ میں ص134 اور 142 میں تحریر ہے شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ علل الشرائع، ج1، ص211. پر اس روایت کو نقل کیا ہے. خزارتی نے ایک دوسری سند کے ساتھ کفایتہ الاثر ص36 پر، اور ایک دوسری سند کے ساتھ ص117 پر. اس روایت کو نقل کیا ہے. ابن شہر آشوب نے مناقب ج3، ص163 پر اسی روایت کو تحریر کیا. شیخ مفید نے مقدمات اصول ص48 پر. نکات کے ضمن فرمایا: تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ نبی(ص) نے حسنین(ع) کے بارے میں فرمایا: میرے یہ دونوں فرزند امام ہیں.. دعائم الاسلام، ج1، ص37 پر بھی مروی ہے. اور اسی طرح اس روایت کو ان کتابوں میں بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں: شیخ مفید کی کتاب الفصول المختار، ص303. انہیں کی ایک دوسری کتاب المسائل الجارود، ص35، اور الارشاد ص30. جناب کراجکی کی کتاب التعجب، ص52. روضتہ الواعظین، ص156. اعلام الوری باعلام الہدی. ج1، ص407.521.کشف الغمہ، ج2، ص156. مجمع البیان، ج2، ص311. غنیتہ النزوع، ص323.299. الطرائف،ص196. بحار الانوار، ج6، ص307. ج36،ص289.291.325. ج44، ص2.

۲۷۱

اور حضور(ص) نے فرمایا : تم( حسنین(ع)) دونوں امام ہو اور تمہاری ماں کا حق شفاعت حاصل ہے.(1)

تیسری حدیث وہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی نے دونوں بھائیوں کے ہاتھ میں کچھ کنکڑ دیئے حسنین کے ہاتھ میں کنکڑ آتے ہی تسبیح کرنے لگے یہ منظر دیکھتے ہی حضرت نے فرمایا: کنکڑ تسبیح نہیں کرتے مگر صرف نبی یا وصی نبی کے ہاتھوں میں. حسن(ع)و حسین(ع) میری عترت میرے اوصیاء اور خلفاء میں ہیں.(2)

امیرالمومنین(ع) کا امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) ( سے کہنا” تم دونوں میرے بعد امام ہو اور جنت کے جوانوں کے سردار ہو معصوم ہو خدا تمہاری حفاظت کرے اور تمہارے دشمنوں پر لعنت کرے...”(3)

اصبغ ابن نباتہ کی حدیث ہے. جب امیرالمومنین(ع) کو ابن ملجم ملعون نے ضربت لگائی تو آپ نے امام حسن(ع) او رامام حسین(ع) کو بلایا اور فرمایا میں آج کی رات وفات پا جائوں گا تم دونوں میری بات سنو! اے حسن(ع) تم میرے وارث اور میرے بعد اس امر(امامت) کے قائم کرنے والے ہو. اور تم اے حسین(ع) وصیت میں شریک ہو تم خاموش رہنا. اور حسن(ع) کے حکم کو مانتے رہنا جب تک حسن زندہ رہیں. جب حسن(ع) دنیا سے اٹھ جائیں گے تو تمہیں ان کے بعد بولنے کا حق ہے اور ان کی طرف سے تم امر امامت کے قائم ہو.(4)

اسی طرح کی ایک حدیث ہے جس میں امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کی وصایت کا تذکرہ ہے. امام جعفر صادق(ع) سے ابوبصیر روایت کرتے ہیں.(5) اور محمد بن حنفیہ کی حدیث ہے جو زین العابدین(ع) سے ہے.(6) ان کے علاوہ اور بھی حدیثیں ہیں.

............................

1.اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج5،ص141، کشف الغمہ، ج2،ص129.

2. اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج5،ص139.

3. اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج5،ص133. بحار الانوار، ج43، ص265. کفایتہ الاثر، ص222.

4. اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج5،ص140.

5.کافی، ج1، ص286.288. اور ص291.292.

6.کافی،ج1، ص348.

۲۷۲

2.مجموعہ ثانیہ: اس مجموعہ میں ایسی تین حدیثیں ہیں جو ابھی امام سجاد زین العابدین(ع) کی امامت میں دلیلوں کے طور پر آئیں گی اور امام حسن عسکری(ع) کی امامت پر بھی مقام استدلال میں پیش کی جائیں گی. ان حدیثوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر امام اپنے انگوٹھی مہر کنکری پر کندہ کرتے تھے تو اما حسن(ع) اور امام حسین(ع) نے بھی اپنے خاتم کے نقش کندہ کیا تھا.

3.مجموعہ ثالثہ: یہ مجموعہ بعض ان احادیث پر مشتمل ہے جس کا ذکر دوسرے گروہ کی حدیثوں میں گذر چکا ہے اس کے علاوہ کچھ دوسری حدیثیں بھی ہیں جس میں بعض اماموں کا ذکر ہوا ہے خاص طور سے امام حسنین(ع) کے نام کی صراحت بھی ہے چونکہ یہ حدیثیں بہت زیادہ ہیں لہذا تمام کو نقل کرنے کے بجائے ہم ان میں سے بعض ان حدیثوں کو نقل کررہے ہیں جن میں امام حسنین(ع) کے بعد والے بعض ائمہ کی امامت پر نص ہیں تاکہ ان کے ذریعہ ان حضرات کی امامت کو ثابت کیا جاسکے اور وہ حدیثیں یہ ہیں.

1.سلیم بن قیس عبداللہ بن جعفر طیار سے روایت کرتے ہیں کہ معاویہ ابن ابو سفیان کی مجلس میں ایک دن عبداللہ ابن جعفر طیار نے کہا: میں نے پیغمبر(ص) کو کہتے ہوئے سنا کہ میں مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں اور علی ابن ابی طالب(ع) مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں میرے بعد جب علی شہید ہوں گے تو میرا بیٹا حسن(ع) اولی بالمومنین اور حسن(ع) کے بعد میرا بیٹا حسین(ع) اولی بالمومنین ہوں گے اور جب وہ شہید ہوجائیں گے تو میرا بیٹا علی ابن الحسین(ع) اولی بالمومنین ہوگا. اے علی(ع)! عنقریب تمہاری اس سے ملاقات ہوگی. اور پھر علی ابن الحسین(ع) کے بعد میرا فرزند محمد بن علی(ع) اولی بالمومنین ہوگا عبداللہ ( بن جعفر) تم اس کو دیکھو گے اور اس طرح امامت کو بارہ افرار درجہ کمال تک پہنچائیں گے جن میں نو اولاد حسین(ع) سے ہوں گے.عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں میں نے اس حدیث پر حسن اور حسین، عبداللہ بن عباس، عمر بن ابی سلمہ اور اسامہ بن زید سے گواہی مانگی انہوں نے معاویہ کی نشست ہی میں میری تصدیق کی. سلیم بن قیس کہتے ہیں میں نے یہ روایت سلمان، ابوذر، مقداد اور اسامہ سے سنی تھی اور انہوں نے یہ حدیث پیغمبر

۲۷۳

(ص) سے سنی تھی.(1)

2.ایک حدیث ہے جس میں حضرت جعفر صادق(ع) نے محمد بن ونعمان احول سے وصیت کی ہے. اس میں حضرت فرماتے ہیں اے فرزند نعمان عالم کو اس پر قدرت نہیں ہے کہ جو کچھ وہ جانتا ہے وہ سب کا سب تمہیں بتادے اس لئے کہ یہ اللہ کا راز ہے جو اللہ نے جبرئیل کو جبرئیل نے محمد(ص) کو محمد(ص) نے علی(ع) کو علی(ع) نے حسن(ع) کو حسن(ع) نے حسین(ع) کو حسین(ع) نے علی ابن الحسین(ع) کو علی(ع) نے محمد باقر(ع) کو اورمحمد باقر(ع) نے جس کو مناسب سمجھا بتایا.(2)

3.سلیم بن قیس نے کہا امیرالمومنین علی(ع) نے فرمایا:گ کہ نبی نے فرمایا اے علی(ع) خدا نے میرے لئے تمہارے بارے میں اور تمہارے شرکاء کے بارے میں جو تمہارے بعد ہوں گے دعا قبول کی ہے میں نے پوچھا میرے بعد میرے شرکاء کون ہیں؟

حضرت نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے خود سے اور مجھ سے قریت کیا ہے اور فرمایا اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اللہ کے رسول اور صاحبان امر کی جو تم میں سے ہیں. میں نے پوچھا: یا رسول اللہ وہ ہیں کون لوگ؟ فرمایا میرے اوصیاء ہیں جو حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے سب کے سب ہادی اور مہتدی ہوں گے. میں نے کہا آپ مجھے ان کے نام بتا دیں گے فرمایا یہ فرزند ( اور یہ کہہ کے دست اقدس امام حسن کے سر پر رکھا) پھر فرمایا اور میرا یہ فرزند ( حسین(ع) کے سر پر رکھ کے فرمایا)پر اس کا بیٹا جس کا نام علی ابن الحسین(ع) ہوگا اے علی(ع) ! تم اس سے ملاقات کروگے اور جب ملاقات ہو تو اس کو میرا سلام کہہ دینا پھر یہ امامت کا سلسلہ بارہ اماموں تک کامل ہوگا.(3)

.................................

1.عیون اخبار الرضا،ج2، ص52.53. انہیں لفظوں میں ان کتابوں میں بھی موجود ہے. بحار الانوار، ج36، ص231. الامامتہ والتبصرۃ. ص110.111، کافی، ج1، ص529. کمال الدین و تمام النعمہ، ص270. نعمانی صاحب کی کتاب الغنیہ، ص95.96. شیخ طوسی کی کتاب الغنیہ، ص138.

2.اثبات الھداۃ بالنصوص و المعجزات، ج2، ص488. تحف العقول، ص310. بحار الانوار، ج75، ص289.

3.کمال الدین و تمام النعمہ، ص284.285. انہیں الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں: اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج2، ص395.396.

۲۷۴

دوسرے طریقہ سلسلہ سند سے یہ حدیث یوں ہے پھر علی(ع) کا فرزند اس کا نام محمد بن علی(ع) ہوگا اور بارہ اماموں تک سلسلہ امامت چلتا رہے گا.(1)

4.ابن عباس کی حدیث ہے کہتے ہیں جبرئیل امین خدائے عزوجل کی طرف سے پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہوئے ایک صحیفہ کے ساتھ جس میں سونے کی بارہ مہریں تھی اور کہا کہ بیشک خداوند عالم آپ پر سلام بھیجتا ہے اور یہ حکم دیتا ہے کہ اس صحیفہ کو اپنے اہل میں سے سب سے زیادہ نجیب کو عنایت فرمائیں جو اس صحیفہ کی پہلی مہر اٹھا کے اس میں جو کچھ لکھا ہے اس پر عمل کرے جب وہ اس دنیا سے جانے لگے تو اس صحیفہ کو اپنے وصی کےحوالے کر دے اسی طرح ہر جانے والا اپنے قائم مقام کے حوالے کرتا رہے لہذا پیغمبر(ص) نے علی ابن ابی طالب(ع)کے حوالے کر کے حکم کی تعمیل کی علی(ع) نے پہلی مہر اٹھائی اور اس پر عمل کیا پھر اس کو امام حسن(ع) کو دیا امام حسن(ع) نے اپنے حصہ کی مہر اٹھا کر اس پر عمل کر کے امام حسین(ع) کو دیا اور حسین(ع) نے علی ابن الحسین(ع) کو دیا پھرایک کے بعد ایک ہر امام دوسرے کے حوالے کرتا جائے گا یہاں تک ان کا آخر آجائے.

5.اسی طرح کی حدیث عمری سے مروی ہے جعفر صادق(ع) نے فرمایا: کہ اللہ نے اپنے نبی پر وفات کے پہلے ایک کتاب نازل کی اور کہا اے محمد(ص) یہ تمہاری وصیت ہے ان لوگوں کے نام جو تمہارے اہل میں نجیب لوگ ہیں. میں نے پوچھا جبرئیل نجیب سے کون لوگ مراد ہیں؟ جبرئیل نے کہا: علی ابن ابی طالب(ع) اور ان کے بیٹے. اس کتاب میں سونے کی مہر سے سربند بیان تھا لہذا نبی نے وہ کتاب امیرالمومنین کے حوالے کر دی اور حکم دیا کہ پہلی مہر کو کتاب سے الگ کر کے اس کے مکتوبات پر عمل کریں تو امیرالمومنین نے کتاب کی مہر اٹھا کے اس کے مکتوبات پرعمل کیا اس کتاب کو امام حسن(ع) کو دیا امام حسن(ع) نے بھی دوسری مہر اٹھا کے اس کتاب پر عمل کیا پھر امام حسین(ع) نے اس کتاب کی مہر الگ کر کے پڑھا اس میں لکھا تھا اپنی قوم کے ساتھ شہادت کے لئے نکلنا ہوگا، امام حسین(ع) نے ایسا ہی کیا پھر اسے علی ابن الحسین(ع) کے حوالے کر دیا علی ابن الحسین(ع) نے دیکھا لکھا تھا

...........................................

1.اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج3، ص36.37.

۲۷۵

خاموش رہنا اور سرجھکا شکے رہنا پھر علی بن الحسین(ع) نے وہ کتاب محمد ابن علی(ع) کو دی ان کے لئے لکھا تھا کہ لوگوں سے حدیثیں بیان کرو اور فتوے دو. محمد باقر(ع) نے ایسا ہی کیا ہے. پھر محمد باقر(ع) نے یہ کتاب اپنے فرزند جعفر(ع) کو دی ان کے لئے بھی لکھا تھا کہ لوگوں سے حدیثیں بیان کرو اور فتوے دو انہوں نے ایسا ہی کیا. جعفر بن محمد(ع) نے وہ کتاب موسی بن جعفر(ع) کو دی اور اسی طرح موسی بن جعفر(ع) اپنے بعد والے امام کو دیں گے اور یہ سلسلہ مہدی آخر الزمان(عج) کے ظہور تک چلتا رہے گا.(1)

6. معاذ بن کثیر بھی ایک حدیث جعفر صادق(ع) سے بیان کرتے ہیں جس میں انتقال کتاب کا ذکر ہے.(2)

7.کنانی کی بھی ایک حدیث ان کے جد کے حوالے سے ہے جس میں امام جعفر صادق(ع) نے مذکورہ بالا مضمون کو بیان فرمایا ہے.(3)

جعفر ابن سماعہ(4) اور یونس بن یعقوب(5) سے الگ الگ حدیثوں میں امام حسن(ع) امام حسین علیہما السلام کی امامت کی تصریح ہے اور ان کے بعد کے اماموں کی طرف اشارہ ہے یعنی ان کے اسماء گرامی کا تذکرہ نہیں ہے.

8.متعدد اسانید سے نبی(ص) کے ذریعہ روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو امر چھوڑے جارہا ہوں جب تک دونوں یعنی کتاب خدا اور میرے اہل بیت(ع) سے متمسک رہو گے ہرگز میرے بعد گمراہ نہیں ہوگے پوچھا گیا یا رسول اللہ(ص) کیا آپ کے تمام اہل بیت(ع)؟ فرمایا: نہیں. بلکہ ان میں جو میرے اوصیاء ہیں ان میں میرے بھائی وصی، وارث اور میری امت کے خلیفہ

................................

1.کافی، ج2، ص280.281. امالی شیخ صدوق، ص486. کمال الدین و تمام النعمہ، ص669.امالی شیخ طوسی، ص441 ابن شہر آشوب کی مناقب، ج1، ص257. بحار الانوار، ج36، ص192.193. اسی طرح اور بھی مصادر ہیں.

2.کافی، ج1، ص179.180. بحار الانوار، ج48. ص27. نعمانی صاحب کی کتاب الغنیہ، ص52. الجواہر السنیہ، ص622.

3. بحار الانوار، ج36، ص192.193. کمال الدین وتمام النعمہ، ص669.670.

4.بحار الانوار، ج36، ص203. 204.

5.بحار الانوار، ج36، ص210.

۲۷۶

پھر میرے بعد ہر مومن کے ولی علی ابن ابی طالب(ع) ہیں. وہ ان میں اول اور سب سے بہتر ہیں پھر ان کے بعد میرا یہ فرزند ( امام حسن(ع) کی طرف اشارہ کر کے) پھر اس کے بعد میرا یہ فرزند( امام حسین(ع) کی طرف اشارہ کر کے فرمایا) پھر میرا وہ فرزند جو میرے بھائی کا ہم نام ہوگا پھر ان کے بعد ان کا وصی میرے ہم نام ہوگا پھر اس کی اولاد سے سات افراد جو سب کے سب یکے بعد دیگرے زمین خدا میں شہدا خدا ہیں اور خدا کی مخلوقات پر اس کی حجت ہیں.(1)

9.عبد الصمد بن بشیر امام باقر(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا: جب نبی(ص) پر وہ مرض طاری

ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی، آپ نے علی(ع) سے فرمایا: اے علی(ع) ! میرے قریب آئو تاکہ میں تمہیں وہ راز بتا دوں جو اللہ نے مجھے بتایا ہے اور وہ امانت دیدوں جو اللہ نے مجھے دی ہے تو پیغمبر(ص) نے علی(ع) کو اور علی نے حسن کو اور حسن نے حسین کو اور حسین نے علی ابن الحسین(ع) کو اور میرے والد علی ابن الحسین(ع) نے مجھے اس طرح سے ہر ایک نے اپنے بعد والے کو اسرار امامت تعلیم فرمائے اور امانت حوالے کی.(2)

10. سلیم شامی کی حدیث ہے جسے انہوں نے علی(ع) کو کہتے ہوئے سنا میری اولاد میں ہونے والے میرے اوصیاء ہدابت یافتہ امام ہیں ہم سب کے سب محدث ہیں میں نے پوچھا یا امیرالمومنین وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا حسن اور حسین پھر میرا بیٹا علی ابن الحسین علیہم السلام ( راوی کا بیان ہے کہ علی ابن الحسین(ع) اس وقت شیر خوار تھے) پھر امام نے ایک ایک امام کا تذکرہ آخر الزمان قائم آل محمد تک کیا.(3)

11.محمد بن مسلم کی حدیث میں ہے وہ کہتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ

.....................................

1.اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج3، ص35. نعمانی صاحب کی الغنیہ، ص73.

2. اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج2، ص300. بصائر الدرجات، ص398. الھداۃ الکبری، ص243.

3.اثبا الہداة بالنصوص والمعجزات، ج2، ص499. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں؛ بحار الانوار ، ج26، ص79. بصائرالدرجات، ص392. الاختصاص، ص329.

۲۷۷

امام حسین(ع) کی انگوٹھی کس کے پاس گئی فرمایا امام حسین(ع) نے اپنے فرزندعلی ابن الحسین(ع) کو وصیت کی اور اپنی انگوٹھی ان کی انگلی میں پہنائی اور امامت کی ذمہ داری ان کے حوالے کی جیسا کہ پیغمبر(ص) نے علی کے حوالے کیا تھا اور علی نے حسن کے حوالے کیا تھا اور حسن نے حسین کے حوالے. پھر وہ انگوٹھی میرے والد ماجد محمد ابن علی کے پاس آئی انہوں نے مجھے دیا میں اپنے بیٹے کو دوں گا او یہ سلسلہ بارہویں امام تک پہنچے گا ویسے وہ انگوٹھی ابھی میرے پاس ہے.(1)

12. سلیم ابن قیس کی حدیث ہے وہ کہتے ہیں میں امیرالمومنین(ع) کی وصیت کے وقت موجود تھا آپ نے اپنا

وصی امام حسن(ع) کو بنایا اور وصیت کا شاہد امام حسین(ع) کو ان کے ساتھ ہی محمد حنفیہ موجود تھے. اور آپ(علی) کی تمام اولاد اور رئوسائے شیعہ علی کے اہل بیت(ع) بھی پھر امیرالمومنین نے امام حسن(ع) کو کتاب اور اپنا اسلحہ عنایت فرمایا اور کہا: اے فرزند! رسول اللہ(ص) نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں تمہیں اپنا وصی بنائوں اور اپنی کتابیں اور اسلحہ تمہیں دے دوں جس طرح پیغمبر(ص) نے مجھے وصی بنایا تھا اور اپنی کتابیں اور اسلحہ میرے حوالے کیا تھا. میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جب تمہاری موت کا وقت آئے تو یہ اسلحہ اور کتابیں اپنے بھائی حسین(ع) کے حوالے کرنا اور انہیں اپنا وصی بنانا. پھر امیر کائنات(ع) اپنے بیٹےحسین(ع) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: پیغمبر(ص) نے حکم دیا ہے کہ تم اپنے اس بیٹے کو یہ چیزیں دے دینا.( اور اشارہ کیا علی ابن الحسین(ع) کی طرف) پھر امیرالمومنین(ع) نے علی ابن الحسین(ع) کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا اے فرزند! رسول نے یہ حکم دیا ہے کہ تم یہ چیزیں اپنے بیٹے محمد کے حوالے کر دینا اور انہیں رسول کا میری طرف سے سلام کہہ دینا.(2)

13. جابر کی حدیث بھی اسی مضمون کی کچھ اضافہ کے ساتھ ہے.(3)

................................

1.بحار الانوار، ج46، ص17؛ امالی شیخ صدوق، ص207.208.

2.کافی، ج1، ص297و298.انہیں الفاظ کے ساتھ ان کتابوں میں بھی موجود ہے: بحارالانوار، ج43، ص322. دعائم الاسلام، ج2، ص348. من یحضرہ الفقیہ، ج4، ص189. تہذیب الاحکام، ج9، ص176. کتاب سلیم بن قیس.

3.کافی، ج1، ص298.299. بحار الانوار، ج42، ص250.

۲۷۸

14. مذکورہ دو حدیثوں کا مضمون امامحسن اور امام حسین سے امیر المومنین(ع) کی وصیت، نیز علی بن الحسین(ع) کےلئے امام حسین(ع) کی وصیت میں اور پھر اس وصیت کا محمد باقر(ع) تک منتقل ہونے کے سلسلے میں ایک اور حدیث امام جعفرصادق(ع) ملتی ہے جو ابو جارود سے مروی ہے اس کے آخر میں ہے کہ امام حسین(ع) معرکہ کربلا میں وقت شہادت کے قریب پہنچے تو آپ نے اپنی بڑی بیٹی فاطمہ بنت الحسین(ع) کو بلایا اور کتاب مذکور جو ملفوف تھی ان کے حوالے کر کے ظاہری وصیت بھی کی چونکہ اس وقت تو علی ابن حسین(ع) ظاہرا ہوش میں نہیں تھے، صاحب فراش تھے. اور اپنے مرض کی وجہ سے باہر نہیں نکل سکتے تھے مگر خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہے تھے. بہر حال فاطمہ بنت الحسین(ع) نے وہ کتاب علی بن حسین(ع) کو دی پھر بخدا وہ کتاب مجھ تک پہنچی.(1) اسی حدیث کو ایک دوسرے رخ سے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جب امام حسین(ع) کو معرکہ کربلا کا سامنا کرنا پڑا اور وقت شہادت قریب آیا تو آپ نے اپنی صاحبزادی فاطمہ کبری بنت الحسین(ع) کو بلایا اور اپنی ایک لپٹی ہوئی کتاب اور ظاہری وصیت عنایت فرمائی اور فرمایا نور نظر اس کو تم اپنے پاس رکھو اور میرےسب سے بڑے بیٹے کو دیدینا، جب علی بن حسین(ع) واپس ہوئے تو فاطمہ کبری نے وہ امانت بھائی کو دیدی، اور وہ اب ہمارے پاس موجود ہے.(2)

15. اسی کے قریب المعنی حدیث حمران کی بھی ہے جو جعفر صادق(ع) سے ہے.(3)

16.معلے بن خنیس جعفر صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں جس میں حضرت نے فرمایا : بیشک کتب امامت امیرالمومنین(ع) کے پاس تھیں، جب امیرالمومنین(ع) عراق جانے لگے تو آپ نے وہ کتابیں ام سلمہ کے حوالے کر دیں، جب مولائے کائنات کی شہادت ہوگئی تو وہ کتابیں حسن(ع) کے پاس تھیں حسن(ع) کی موت کے وقت حسین(ع) کے پاس آئیں حسسین(ع) جب شہید ہونے لگے تو آپ نے علی بن الحسین(ع) کو دیدیا پھر وہ کتابیں میرے والد ماجد کے پاس آئیں.(4)

....................................

1.کافی، ج1، ص290.291.

2.بحار الانوار،ج26، ص50

3.کافی، ج1، ص235. بحار الانوار، ج26، ص207.

4.بحار الانوار، ج26، ص50. بصائر الدرجات، ص182.187.

۲۷۹

17. عمر ابن ابان کی حدیث بھی اسی مضمون کی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ علم اور امامت کے وارث امام جعفر صادق(ع) ہیں. عمر بن ابان کہتے ہیں: میں نے ابو عبداللہ سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ وفات پیغمبر(ص) کے وقت

پیغمبر(ص) نے ایک مہر شدہ صحیفہ ام سلمہ کو دیا تھا امام نے کہا کہ جب پیغمبر(ص) وفات پاگئے تو آپ کے علم اور اسلحہ اور وہاں جو کچھ تھا سب کے وارث امیرالمومنین(ع) ہوئے پھر امام حسن(ع) پھر امام حسین(ع) میں نے کہا پھر میراث علی بن الحسین(ع) تک پہنچی پھر محمد بن علی(ع) تک جو آپ کے والد تھے آپ تک پہنچی فرمایا: ہاں.(1)

18. علاء بن سیابہ کی حدیث میں بھی قریب قریب یہی مضمون ہے(2)

19.اسی طرح کا مضمون دوسری حدیث میں ہے جو فیض بن مختار سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا یہ وصیت امام موسی کاظم(ع) تک پہونچے گی(3) ، موسی کاظم(ع) کی امامت پر جب نصوص پیش کی جائیں گی تو اس کا تذکرہ آئے گا انشائ اللہ.

وہ حدیثیں جس میں صرف امام حسن(ع) کا تذکرہ ہے

ان تمام حدیثوں کے باوجود کچھ ایسی حدیثیں بھی ہیں جن میں تنہا امام حسن(ع) کی امامت پر نص ہیں ویسے تو حدیثوں کی زبان میں امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) ایک ساتھ اتنی مرتبہ آئے ہیں کہ دونوں نام کو ایک کر کے حسنین(ع) بولا جانے لگا ہے لیکن امام حسن(ع) کی انفرادی حیثیت بھی ہے اور آپ کی امامت اور فضائل میں انفرادی طور پر بھی حدیثیں وارد ہوئی ہیں. امیرالمومنین(ع) کی وصیت جو خاص امام حسن(ع) سے تھی وہ ایک واضح نص ہے.(4) اس کے علاوہ ابو سعید عقیص سے ایک

....................................

1.کافی، ج1، ص235.236. بصائر الدرجات، ص206. روضتہ الواعظین، ص210، الارشاد، ج2، ص189.

2.بحار الانوار، ج26، ص209.

3.بحار الانوار، ج48، ص26.27، اختیار معرفتہ الرجال، ج2، ص642.643.

4.کافی، ج1، ص298. بحار الانوار، ج43، ص322. اثبات الھداة بالنصوص والمعجزات، ج5، ص130.140.

۲۸۰