فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 145972
ڈاؤنلوڈ: 3917


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145972 / ڈاؤنلوڈ: 3917
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

1.اپنے پہلے امام سے قریب ترین ہونا.

2. پیغمبر(ص) کے اسلحوں کا اس کے پاس ہونا.

3. ظاہری وصیت کا اس کے متعلق ہونا ظاہری وصیت کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ مدینہ جائے اور عام لوگوں اور بچوں سے پوچھے کہ فلان نے کس وصی بنایا تو بچے بھی پکار اٹھیں کہ فلان بن فلان کو.(1)

4. اس حدیث کو دیکھ کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ بالاحدیث میں غیر اہم امور کے بارے میں بھی جعفر صادق(ع) کو وصی بنایا جو من جملہ تائیدات نص میں سے ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام باقر(ع) کے بعد جعفر صادق(ع) امام وقت اور ولی عصر ہیں.

5.عبدالغفار بن قاسم امام محمد باقر(ع) سے روایت کرتے ہیں میں نے کہا: اے فرزند پیغمبر(ص) اگر خدا نخواستہ آپ کو کچھ ہوگیا تو آپ کے بعد کون امام ہے؟ فرمایا جعفر صادق(ع) امام ہیں م لوگوں کو انہیں کی طرف رجوع کرنا ہوگا یہ ہمارے شیعوں کے سردار ہیں ائمہ کے باپ ہیں اور اپنے قول و فعل میں صادق ہیں.(2)

6.محمد بن مسلم سے حدیث ہے کہ میں ابو جعفر محمد بن علی باقر(ع) کی خدمت میں حاضرتھا اتنے میں آپ کے صاحبزادے جعفر(ع) تشریف لائے.. پھر امام محمد باقر(ع) نے مجھ سے فرمایا: اے محمد بن مسلم! یہی میرے بعد

تمہارے امام ہیں ان کی اقتدا کرو اور ان کے علم سے کسب فیض کرو خدا کی قسم یہی وہ صادق(ع) ہیں جن کے بارے میں ہم اہل بیت(ع) کو رسول اللہ (ص) نے بتایا تھا.(3)

....................................

1.کافی ، ج1، ص284. بحار الانوار، ج25، ص138؛ امامت و تبصرہ، ص138؛ خصال، ص117.

2.اثبات الھدی بالنصوص والمعجزات، ج5، ص328؛ کفایتہ الاثر، ص252؛ بحار الانوار، ج36، ص359.

3. اثبات الھدی بالنصوص والمعجزات، ج5، ص328؛ کفایتہ الاثر، ص253.254.

۳۰۱

7. ابن نافع کی حدیث ملاحظہ کریں: وہ کہتے ہیں ابو جعفر محمد باقر(ع) نے فرمایا جب تم مجھے مفقود پانا تو اس( جعفر(ع)) کی اقتدا کرنا اس لئے کہ یہی امام اور میرے بعد خلیفہ ہیں.(1)

امام جعفر صادق(ع) کے بارے میں مزید عرض ہے کہ

امام جعفر صادق(ع) کی امامت پر جو نصوص فی الحال میسر ہوئیں پیش کر دی گئیں ان حدیثوں میں امام جعفر صادق(ع) کو اختصاص حاصل ہے، اب چوتھے گروہ کی وہ حدیثیں جن میں ائمہ اثنا عشر کی امامت پر نص ہے اگر انہیں بھی ان حدیثوں میں شامل کر لیا جائے تو امام جعفر صادق(ع) کی امامت پر بہت زیادہ حدیثیں ہوجائیں گی.اس کے بعد دو حدیث کے مجموعے مزید حاضر ہیں:(پہلا مجموعہ) ان مستفیض حدیثوں کا ہے جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کے بعد امامت پر امام کے بیٹے کا حق ہے نہ چچا کا اور نہ بھائی کا اور نہ ہی ماموں کا.

اب اگر آپ یہ اعتراض کرتے ہیں:

امام کا اولاد ہی میں منحصر ہونے کی حدیثوں میں تو زیادہ تر ایسی حدیثیں ہیں جو یا تو جعفر صادق(ع) سے یا آپ کی اولاد سے مروی ہیں پھر وہ اپنی ہی امامت پر خود استدلال کرتے ہیں تو ان کی بات قابل قبول کیسے ہوسکتی ہے؟

تو جوابا عرض ہے: کہ انہوں نے اپنی طرف سے بنا کے(گڑھ کے) تو یہ حدیثیں نہیں فرمائی ہیں اس لئے کہ یہ ایسے توقیفی امور ہیں جسے وہ حضرات اپنے آباء سے ہی حاصل کرسکتے ہیں اس لئے ان کے اقوال اصل میں ان حضرات کے حق میں ان کے آباء طاہرین(ع) کے حکم اور فیصلے کی اہمیت رکھتے ہیں، پھر ان میں سابقہ حدیثوں کا اضافہ بھی تو کر لیں.

دوسری بات یہ ہے کہ:

امام محمد باقر(ع) کی امامت تو گذشتہ دوسری دلیلوں سے ثابت ہوچکی

................................

1.اثبات الھدی بالنصوص والمعجزات، ج5، ص329؛ کفایتہ الاثر، ص254؛ بحار الانوار، ج47، ص15.

۳۰۲

ہے اور جب امامت ثابت ہوچکی تو آپ سے جھوٹ کا امکان ممتنع اور ناممکن ہے اب آپ کی ہر بات قول معصوم ہوگی اس لئے ہمارے لئے صحیح ہے کہ آپ کے فرزند ارجمند امام صادق(ع) کی امامت پر نص کے ذریعہ استدلال کریں امام محمد باقر(ع) سے اس سلسلے میں حدیثیں وارد ہوئی ہیں، چنانچہ ملاحظہ فرمائیں یہ حدیث، ابو حمزہ کہتے ہیں محمد باقر(ع) نے فرمایا اے ابو حمزہ! زمین میں ہمارے عالم سے خالی نہیں رہ سکتی لوگ چاہے کم ہوں یا زیادہ ان میں ہمارا عالم بہر حال ہوگا اور اس عالک کو اللہ اس زمین سے اس وقت تک نہیں نکالے گا جب تک وہ اپنا وہ بیٹا نہ دیکھ لے جو اسی طرح عالم ہوتا ہے جیسا اس دنیا سے جانے والا عالم ( امام) یا پھر جو خدا چاہے.(1)

ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں نے حمد باقر(ع) سے اس آیت کی تفسیر پوچھی “ کہ اللہ نے اس کی ذریت ( نسل) میں ایک کلمہ باقیہ قرار دیا ہے” تو آپ نے فرمایا : کہ کلمہ باقیہ کو حسین(ع) کی ذریت میں قرار دیا ہے جہاں بیٹا اپنے باپ کی جگہ امامت کا وارث ہوتا رہے گا نہ امام کا بھائی امام ہوگا نہ چچا اور نہ ماموں(2) اور یہی مطلب ان کے علاوہ دوسری حدیثوں سے بھی استفادہ ہوتا ہے.اسی وجہ سے امام حعفر صادق(ع) سے ان کی بھائیوں میں سے کسی نے امامت کے بارے میں ان سے کوئی اختلاف نہیں کیا ہے بلکہ نص کی بنیاد پر تو آپ کے خلاف آپ کے بھائیوں کے علاوہ بھی کوئی امامت شکا دعویدار نہیں ہوا. اگر زیدیہ فرقہ جناب زید کی امامت کے قائل ہیں بھی تو زید شہید جعفر صادق(ع) کے چچا تھے اور ان کے یہاں امامت کا مطلب یہ ہے امام وہ ہے کہ جو اہل بیت(ع) میں سے تلوار لیکر قیام کرے اور امامت کے لئے نص کی ضرورت نہیں لیکن گذشتہ بیانات سے اس نظریہ کا بطلان واضح ہے.

...............................

1.بحار الانوار، ج25، ص250.251؛ شیخ طوسی کی کتاب الغنیہ، ص222.223.

2.بحار الانوار، ج25، ص253، علل الشرائع، ج1، ص207.

۳۰۳

“ پیغمبر(ص) کے اسلحے غیر امام کے پاس نہیں ہوا کرتے” حدیثوں سے ثابت ہے

( دوسرا مجموعہ) بہت سی حدیثوں میں یہ مضمون پایا جاتا ہے کہ سلاح پیغمبر(ص) کا مالک سوائے امام کے دوسرا نہیں ہوسکتا. اس سلسلے میں اہم ترین حدیث وہ ہے جو امام محمد باقر(ع) سے وارد ہے جیسے صفوان نے ابوالحسن رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ امام محمد باقر(ع) فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے یہاں سلاح پیغمبر(ص) کو وہی حیثیت حاصل ہے جو بنی اسرائیل کے یہاں تابوت سکینہ کو حاصل تھی، جہاں تابوت سکینہ ہوتا تھا وہیں نبوت بھی ہوتی اسی طرح ہمارے یہاں جس کے پاس سلاح پیغمبر(ص) ہوتا ہے وہی صاحب امر ہوتا ہے. میں نے پوچھا کیا سلاح پیغمبر(ص) سے مراد علم پیغمبر(ص) ہے؟ فرمایا: نہیں.(1)

حسن بن ابوسارہ محمد باقر(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ہمارے یہاں سلاح پیغمبر(ص) کا وہی مرتبہ ہے جو بنی اسرائیل کے یہاں تابوت کا تھا، جب بنی اسرائیل کے کسی آدمی کے دروازے پر تابوت رکھ دیا جاتا تو بنی اسرائیل یہ سمجھ لیتے کہ اس کے پاس فرشتہ آیا اور وہ نبی ہے اسی طرح ہمارے درمیان جس کے پاس بھی سلاح پیغمبر(ص) ہوتو ہم سمجھتے ہیں کہ وہی امام وقت ہے.(2)

ان دو حدیثوں کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو محمد باقر(ع) کے بعد کے اماموں سے وارد ہوئی ہیں اور ان میں بھی اسی طرح کا مضمون ہے.(3)

یہ حدیثیں امام حعفر صادق(ع) کی امامت پر یوں دلالت کرتی ہیں ان حدیثوں کے ضمیر میں کچھ حدیثیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ سلاح پیغمبر(ص) محمد باقر(ع) کے بعد جناب جعفر صادق(ع) ہی کے پاس تھا، جیسا کہ عبدالاعلی ابن اعین کا بیان ہے کہ میں نے سنا جعفر صادق(ع)

................................

1.کافی، ج1، ص238؛ بحار الانوار، ج26، ص219.

2.بحار الانوار، ج26،ص221.

3.ملاحظہ فرمائیں کافی، ج1، ص232. 238. بحار الانوار، ج26،ص201.222.

۳۰۴

فرماتے تھے: میرے پاس سلاح پیغمبر(ص) ہے اور مجھ سے اس سلسلے میں کوئی جھگڑا نہیں کرسکتا.(1) سعید سمان کا بیان بھی دیکھیں، کہتے ہیں امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا: بیشک میرے پاس پیغمبر(ص) کی تلوار ہے، اور بیشک میرے پاس پیغمبر(ص) کا علم ہے، آپ کی زرہ، خود اور مغفر ہے، میرے پاس ہمیشہ غلبہ پانے والا پیغمبر(ص) کا علم ہے، اسی طرح کی دوسری حدیثیں بھی ہیں.(2)مذکورہ بالا دو مجموعوں میں بیان کردہ حدیثیں بھی امام صادق(ع) کی امامت پر نص کے طور پر شامل کر لی جائیں اگرچہ سابقہ حدیثیں جو اس سلسلے میں پیش کی جا چکی ہیں وہی میرے دعوے کے ثبوت کے لئے بہت کافی ہیں اس لئے کہ ان میں بہت وضاحت سے دلیلیں پائی جاتی ہیں.(3)

امام موسی کاظم بن جعفر صادق علیہما السلام کی امامت پر نصوص

4. ابو ابراہیم امام موسی کاظم بن جعفر کاظم علیہما السلام:

آپ کی کنیت ابوالحسن یا ابوالحسن الاول ہے، العبد الصالح مشہور لقب ہے، عمری کی حدیثوں میں اور معاذ بن کثیر اور کنانی کی حدیثوں میں آپ کا نام آچکا ہے، ان حدیثوں میں یہ مضمون ہے کہ کتاب امامت میں ہر امام کے فرائض کا بیان ہے اور حسنین علیہما السلام کی امامت پر بیان شدہ حدیثوں میں بھی آپ کا نام آیا ہے، پھر حبابہ والبیہ والی حدیث جو کہ چوتھے امام کی امامت پر نص ہے وہ بھی آپ کے نام نامی پر شاہد ہے. اور ابھی! ہاشم زہری کی حدیث بھی پیش کی جائے گی جس میں امام حسن عسکری(ع) کی امامت پر دلیل کے ساتھ ماسبق ائمہ کی امامتوں کا بھی تذکرہ ہے اور موسی کاظم(ع) کا ذکر بھی اس میں شامل ہے.اس کے علاوہ کچھ اور حدیثوں کا اضافہ کیا جاتا ہے اور وہ درج ذیل ہیں:

.............................

1.کافی، ج1، ص234. بصائر الدرجات، ص204.206. ارشاد، ج2، ص188.

2.کافی، ج1، ص232.233. ارشاد، ج2، ص187. بحار الانوار، ج26،ص201.202. کشف الغمہ، ج2، ص384. 385.

3.کافی، ج1، ص232. 237، بحار الانوار، ج26، ص201. 202.

۳۰۵

1.ابوبصیر کی حدیث جو امام موسی کاظم(ع) کی ولادت کی خبر دیتی ہے یہ حدیث آپ کی والدہ گرامی سے منقول ہے، ملاحظہ فرمائیں: ابوبصیر کہتے ہیں میں جعفر صادق(ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ خبر ملی حمیدہ مصفاة( والدہ موسی کاظم(ع)) کے یہاں ولادت ہوئی ہے یہ خبر سنتے ہی ابوعبداللہ صادق(ع) شاد و خرم گھر کے اندر تشریف لے گئے پر فورا ہی باہر آئے اس وقت جوش مسرت میں آپ نے آستییں چڑھا رکھی تھی اور ہنسنے کی وجہ سے آپ کے گہر ہائے

دندان دکھائی دے رہے تھے، ہم نے کہا اے فرزند رسول خدا(ع) آپ کو ہمیشہ ہنساتا رہے، آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈار رکھے، حمیدہ کے یہاں کون سا بچہ پیدا ہوا؟فرمایا خدا نے مجھے اولاد نرینہ سے نوازا ہے، وہ اللہ کی مخلوقات میں سب سے بہتر ہے، اس کی ماں نے مجھے ایسی خبر سنائی جو میں پہلے سے جانتا تھا، میں نے کہا آپ پر قربان ہو جائوں جناب حمیدہ نے اس کے بارے میں آپ کو کیا خبر دی، فرمایا حمیدہ نے مجھے بتایا کہ بچہ جیسے ہی زمین پر آیا اس نے دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک دیئے اور آسمان کی طرف سر کو بلند کیا، میں نے حمیدہ کو بتایا کہ یہ پہچان پیغمبر(ص) کی ہے اور ان کے بعد یہ امام کی پہچان ہے( حجت خدا زمین پریوں ہی آیا کرتی ہے) لہذا حقیقت تمہارے سامنے ہے بخدا وہی میرے بعد تمہارا امام ہے.

1.اسی کے قریب المعنی ایک دوسری حدیث بھی ہے.(1)

2.معلی بن خنیس کہتے ہیں: امام صادق(ع) نے موسی کاظم(ع) کی والدہ حمیدہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ مصفاة ہے یعنی کثافت اور گندگی سے ایسی صاف ہے جیسے کہ کھرا سونا جو آلودگیوں سے پاک اور صاف ہوتا ہے فرشتے برابر اس کی حفاظت کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ مجھے خدا کی طرف سے کرامت اور میرے بعد ذمہ دار امام اور حجت کو مجھے ادا نہ کر دیں.(2)

3.یزید بن سلیط سے سنئے یہ کہتے ہیں: ہم ایک جماعت کے ساتھ مکے کے راستے میں

......................................

1.بحار الانوار، ج48، ص3.4.

2. کافی، ج1، ص477؛ بحار الانوار، ج48، ص60؛ مناقب ابن شہر آشوب، ج1،ص228

۳۰۶

تھے اتنے میں حضرت صادق(ع) سے ملاقات ہوگئی میں نے عرض کیا: میرے ماں اور باپ آپ پر قربان ہوں، آپ حضرات تو آیت تطہیر والے ائمہ ہیں، حالانکہ موت تو آپ حضرات کو بھی آتی ہے تو آپ ہمیں یہ بتا دیں کہ خدا نخواستہ اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو ہم کس کی طرف رجوع کریں؟ آپ نے فرمایا: ہاں میرے بیٹے تو یہ سب ہیں لیکن یہ ان کے سردار ہیں یہ کہہ کر اشارہ کا موسی کاظم(ع) کی طرف اور فرمایا ان کے اندر حکمت ہے علم ہے، فہم ہے، سخاوت ہے، معرفت ہے اور وہ تمام چیزیں ہیں جن کی عوام محتاج ہیں( اور وہ حاجتیں امام سے ہی پوری ہوتی ہیں) یعنی دینی اختلاف کے وقت رفع اختلاف کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے. میرے اسی فرزند سے اللہ اس امت کا یار و مددگار پیدا کرے گا.

یزید بن سلیط کہتے ہیں اس کے بعد میں ابوالحسن یعنی امام موسی کاظم(ع) کی زیارت کو گیا اور عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں مجھے ویسی ہی خبر دیں جیسی خبر آپ کے والد ماجد نے مجھے دی ہے یہ سن کے امام ہنسنے لگے فرمایا اچھا سنو اے ابو عمارہ میں اپنے گھر سے نکلا تو اپنے تمام بیٹوں کے لئے ظاہر میں وصیت کی او راس میں میرا بیٹا علی شریک ہے لیکن انفرادی وصیت میں نے باطنی طور پر علی بن موسی(ع) کے لئے کی کہ وہ میرا وصی ہے میں نے خواب میں پیغمبر(ص) اور امیرالمومنین(ع) کو دیکھا، آنحضرت(ص) کے پاس ان کی تلوار اور مہر( انگوٹھی) تھی پھر پیغمبر(ص) نے فرمایا تمہارے اس بیٹے کی طرف جس کا نام علی(ع) ہے امر( امامت و...) منتقل ہو رہی ہے پھر فرمایا اے یزید! میں اسی سال گرفتار کر لیا جائوں گا اور ( میرا قائم مقام میرا بیٹا علی ابن موسی(ع) ہوگا) میرا بیٹا علی(ع) جس کا نام علی ابن ابی طالب(ع) کے نام پر ہے اور علی ابن الحسین(ع) کے نام پر ہے اس کو علی اول کا فہم، علم، نصرت اور عنایت کی گئی ہے اس کو گفتگو کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا مگر ہارون ( خلیفہ عباسی) کے مرنے کے چار سال بعد لہذا جب ہارون کے مرنے کے بعد چار سال گذر جائیں تو اس سے پوچھنا چاہو پوچھنا وہ انشائ اللہ تمہارے ہر سوال کا جواب دے گا.(1)

..........................

1.بحار الانوار، ج48، ص12.14؛ امامت وتبصرہ، ص77.81.

۳۰۷

آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس حدیث میں جس طرح امام موسی کاظم(ع) کی امامت پر نصوص ہے اسی طرح امام علی رضا(ع) کی امامت پر نص ہے بلکہ یہ حدیث تو یہ بھی بتاتی ہے کہ اس امت کے غوث و مددگار بارہویں امام جو مہدی موعود اور قائم آل محمد(ع) ہیں.امام کاظم(ع) کی ذریت سے ہوںگے. اس سے یہ بات مزید پختہ اور مستند اور موکد ہوجاتی ہے کہ امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کے بعد امامت کی بقاء ان کی نسلوں میں ہے. او رامامت امام وقت سے اس کے بیٹے کی طرف منتقل ہوتی ہے نہ کہ بھائی اور چچا کی طرف.

4.ان مذکورہ دونوں معاملات کے بارے میں ایک دوسری حدیث ابراہیم کرخی سے ملاحظہ ہو یہ کہتے ہیں: میں ابو عبداللہ جعفر صادق(ع) کی خدمت میں بیٹھا تھا اتنے میں ابوالحسن موسی بن جعفر(ع) داخل ہوئے اس وقت ان کی کمسنی تھی میں آگے بڑھا اور ان کی پیشانی کا بوسہ لیا پھر بیٹھ گیا اس کے بعد جناب جعفر صادق(ع) نے فرمایا اے ابو ابراہیم!میرخ بعد یہی مہرے امام ہیں... انہیں کی صلب سے اہل ارض کا بہترین فرد پیدا ہوگا جو اپنے جد کا ہم نام بھی ہوگا اور اپنے جد کے علم و احکام اور فضائل کا وارث بھی ہوگا. وہ امامت کا معدن اور سر چشمہ حکمت ہوگا اس کو بنی فلان( بنی عباس) کا ایک جبار شہید کرے گا اس لئے کہ اس کی ذات سے معجزات ظاہر ہوں گے اور وہ(جبار) ان کے حسد کی وجہ سے شہید کر ڈالے گا، لیکن اللہ اپنے امر( منصب امامت اور تبلیغ و ہدایت کا سلسلہ ) کو پہنچا کر رہے گا اگر چہ مشرکوں کو برا لگے اس ( خیر اہل ارض) کے صلب سے ائمہ اثناء عشر کے باقی افراد پیدا ہوں گے جو سب مہدی ہوں گے خداوند عالم ان کو اپنی کرامت سے مخصوص کرے گا نیز اپنے دار قدس میں جگہ دے گا پھر ان کے بارہویں امام کی امامت کا اقرار کرنے والا ایسا ہی جیسے کہ پیغمبر(ص) خدا کی نگاہوں کے سامنے تلوار کھینچ کے آپ کی حفاظت کرنے والا(1)

......................

1.بحار الانوار، ج48، ص15.16؛ کمال الدین و تمام النعمہ، ص334. غیبت نعمانی، ص90.91؛ اعلام ا لوری باعلام الھدی، ج2، ص235.

۳۰۸

5.اسی طرح ایک اور نص امام علی رضا(ع) کی امامت پر مز ید ملاحظہ فرمائیں: نصر بن قابوس کی حدیث ہے جس میں وہ کہتے ہیں: میں نے امام ابو ابراہیم موسی بن جعفر(ع) کی خدمت میں تھا. میں نے آپ سے عرض کیا کہ میں نے آپ کے والد ماجد سے پوچھا کہ آپ کے بعد امام کون ہوگا؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ(موسی کاظم(ع)) امام ہوں گے. جب جعفر صادق(ع) کی وفات ہوئی تو لوگ دائیں بیائیں جانے لگے لیکن ہم اور ہمارے اصحاب آپ کی امامت کے قائل رہے. اب آپ فرمائیں کہ آپ کے بعد کون امام ہوگا؟ فرمایا: میرا بیٹا علی(رضا(ع)).(1)

6.دائود بن کثیر کی حدیث ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق(ع) سے عرض کیا خدا کرے کہ آپ سے پہلے مجھے موت اءے اگر خدا نخواستہ آپ کو کچھ ہوگیا تو آپ کے بعد امام کون ہوگا؟ فرمایا میرا بیٹا موسی(کاظم(ع)) دائود بن کثیر کہتے ہیں خدا کی قسم دیسا ہی ہوا جیسا کہ جعفر صادق(ع) نے فرمایا تھا اسی وجہ سے بخدا میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی امام موسی کاظم(ع) کی امامت میں شک نہیں کیا پھر تقریبا30/ سال تک میں انتظار کرتا رہا اس کے بعد موسی کاظم(ع) کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا اگر خدا نخواستہ آپ کو کچھ ہوگیا تو پھر ہم کس کو امامت تسلیم کریں فرمایا میرے بیٹے علی( رضا(ع)) پھر موسی کاظم(ع) کی شہادت ہوگئی بخدا میں نے امام رضا(ع) کی امامت میں ایک لمحے کے لئے بھی شک نہیں کیا.(2) یہی مطلب ایک دوسری حدیث میں اختصار کے ساتھ ملتا ہے.(3)

7. عیسی بن عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب(ع) کی یہ حدیث ملاحظہ کریں، اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ مہدی موعود امام موسی بن جعفر(ع) کے صلب سے ہونگے، عیسی بن عبداللہ کہتے ہیں میں نے جعفر صادق(ع) سے پوچھا کہ اگر خدا نخواستہ آپ کو کچھ ہوجائے تو پھر ہم کس کی

.............................

1.بحار الانوار، ج48، ص15.16؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص39.140؛ ارشاد، ج2،ص251؛ غیبت طوسی، ص38.

2.بحار الانوار، ج48، ص14؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص33.

3. کافی، ج1، ص312.

۳۰۹

امامت میں رہیں گے؟ امام نے اپنے فرزند موسی(کاظم(ع)) کی طرف اشارہ فرمایا. میں نے پوچھا اگر جناب موسی( کاظم(ع)) کو کچھ ہوگیا پھر ہم کدھر جائیں گے؟ ان کے بیٹے کی طرف. پوچھا اگر بیٹے کو بھی کچھ ہوگیا اور ان کے چھوٹے بڑے بھائی موجود رہے تو ہم کدھر جائیں گے؟

فرمایا: ان کے بیٹے کی طرف پھر فرمایا اور امامت کا سلسلہ تو ہمیشہ یوں ہی ( باپ سے بیٹے تک) چلے گا.(1)

8. مفضل بن عمر کہتے ہیں: میں اپنے مولا جعفر بن محمد صادق(ع) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا آپ ہمیں بتائیں کہ آپ کے بعد آپ کا کون خلیفہ ہوگا؟ فرمایا: اے مفضل میرا خلف موجود ہے میرے بعد میرا بیٹا موسی(کاظم(ع)) امام ہوگا، اور وہ خلف منتظر جس کی امید کی جاتی ہے اس کی بھی پہچانو! وہ ہے محمد بن حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی علیہم السلام.(2)

9. فیض بن مختار کہتے ہیں کہ، میں نے امام جعفر صادق(ع) سے پوچھا: مولا مجھے آتش جہنم سے بچائے اور یہ بتائیے کہ آپ کے بعد امام کون ہوگا؟ اتنے میں حضرت ابو ابراہیم موسی کاظم(ع) داخل ہوئے اس وقت آپ نوجوان تھے، صادق(ع) نے فرمایا: یہی تمہارے صاحب ہیں انہیں سے ہی تمسک کرنا.(3)

..............................

1.کافی، ج1، ص309؛ انہیں الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے، بحار الانوار، ج48،ص16؛ ارشاد،ج2، ص218؛ کشف الغمہ، ج3،ص11.

2.کمال الدین و تمام النعمہ، ص334؛ انہیں لفظوں کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں، بحار الانوار، ج48، ص15؛ اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج5، ص479. پر اس روایت کا ابتدائی حصہ نقل کیا گیا ہے.

3.کافی، ج1،ص307. بعید نہیں کہ یہ حدیث اس طولانی حدیث کا انتہائی ( ذیل حصہ ہو جس میں کتاب وصیت اور پھر اس کا یکے بعد دیگرے ائمہ تک منتقل ہونے کا تذکرہ ہے جیسا کہ اس بات کی طرف ان نصوص کے ضمن میں اشارہ کیا جا چکا ہے جو امام حسن(ع) اور امام حسین علیہم السلام کی امامت پر دلالت کرتی ہیں اور اسی روایت کو شیخ کلینی(رہ) نے دوسری سند کے ذریعہ نقل کیا ہے لیکن وہ حدیث بعینہ ایسی ہی ہے اور روضتہ الواعظین، ص213، ارشاد، ج2،ص217؛ بحار الانوار، ج48، ص18؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص10؛ کشف الغمہ، ج3، ص11 پر بھی یہ موجود ہے.

۳۱۰

10. معاذ بن کثیر کہتے ہیں، میں نے جعفر صادق(ع) سے عرض کیا، خدا سے میری دعا ہے کہ جس طرح آپ کے والد کو آپ کی صورت میں یہ منزلت عنایت فرمائی ہے کہ ان کو مرنے سے پہلے ایک وارث ( امامت) عنایت فرمایا اسی طرح آپ کو بھی وارث عطا فرمائے امام نے فرمایا: خدا نے ایسا ہی کیا ہے. میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان ہو جائوں وہ کون ہے؟ تو آپ نے عبد صالح( موسی کاظم(ع) کی طرف اشارہ فرمایا: اس وقت وہ سورہے تھے. فرمایا یہی سونے والا ہی وہی جوان ہے.(1)

11.اسحاق بن جعفر کہتے ہیں، ایک دن میں اپنے والد کی خدمت میں تھا اتنے میں علی بن عمر بن علی نے ان سے سوال کیا میں آپ پر قربان ہوجائوں، میں اور دوسرے لوگ آپ کے بعد کس کے محتاج ہیں( کس کی طرف رجوع کریں گے) فرمایا: جس نے دو زرد لباس پہن رکھے ہیں اور دو گیسو اس کے دونوں طرف نکلے ہوئے ہیں، وہ ابھی اسی دروازے سے تمہاری طرف آئے گا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے دروازہ کھولے گا، تھوڑی ہی دیر بعد ہمارے سامنے دو ہتھیلیاں دروازے کا سہارا لیتی ہوئی ظاہر ہوئیں آنے والے نے دروازہ کھولا پھر ابو ابرہیم( موسی بن جعفر(ع)) ہمارے سامنے داخل ہوئے.(2)

12. صفوان جمال کہتے ہیں جعفر صادق(ع) نے فرمایا کہ مجھ سے منصور بن حازم نے کہا، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، موت تو برحق اور جانیں تو آتی جاتی رہتی ہیں پھر اگر آپ کے ساتھ ایسا ہو جائے تو ہم کدھر رجوع کریں؟ صادق(ع) نے فرمایا، اگر ایسا ہوجائے تو یہ تمہارے صاحب ہیں، اور اپنا دست مبارک ابوالحسن موسی کے داہنے کندھوں پر رکھا جبکہ اس وقت موسی

1.کافی، ج1،ص308؛ روضتہ الواعظین،ص213؛ ارشاد، ج2،ص217؛ بحار الانوار، ج48، ص17؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص9؛ کشف الغمہ، ج3، ص10.

2. کافی، ج1،ص308؛ انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں؛ ارشاد، ج2،ص220؛ بحار الانوار، ج48، ص20؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص14؛ کشف الغمہ، ج3، ص12

۳۱۱

کاظم(ع) محض پانچ سال کے تھے، اور عبداللہ بن جعفر(ع) وہیں بیٹھے ہوئے تھے.(1)

13.مفضل بن عمر کہتے ہیں: جعفر صادق(ع) کی مجلس میں ابوالحسن موسی(ع) کا تذکرہ آیا امام نے ان کو یاد کیا کہ وہ ابھی غلام( نوجوان) تھے پھر فرمایا: یہ وہ مولود ہے کہ ہم اہل بیت(ع) میں ہمارے شیعوں کے لئے اس سے زیادہ برکت والا کوئی پیدا ہی نہیں ہوا اور آخر میں مجھ سے فرمایا: تم لوگ اسماعیل پر جفانہ کرنا.(2) امام جعفر صادق(ع) کا یہ فرمانا “ کہ اس سے زیادہ کوئی صاحب برکت نہیں ہوا “ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ موسی کاظم0ع) امام ہیں ( اور یہ روایت امام موسی کاظم(ع) کی امامت پر نص ہے) اس لئے کہ غیر امام سب سے بڑا صاحب برکت نہیں ہوسکتا. خصوصا حضرت کا یہ فرمانا کہ “ اسماعیل پر جفا نہ کرنا” ایک پیش بندی ہے کیونکہ اسماعیل جعفر صادق(ع) کے بڑے بیٹے تھے اس لئے شیعوں کی توقعات انہیں سے وابستہ تھیں اور شیعہ ان کے بے حد تعظیم و اکرام کرتے تھے، اس لئے امام نے یہ چاہا کہ شیعوں کی غلظ فہمی کو دور کر دیں اور امام کاظم(ع) کی امامت پر نص کردیں، لہذا آپ نے فرمایا کہ امام تو تمہاری توقع کے خلاف جناب موسی کاظم(ع) ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس انکشاف کے بعد تم جناب اسماعیل کی شان میں کوئی گستاخی کرو اور ان پر ظلم کرو.

14.مفضل سے ایک دوسری حدیث ملاحظہ فرمائیں: کہتے ہیں میں ابو عبداللہ کی خدمت میں تھا کہ ابو ابراہیم آئے ابھی وہ غلام( نو جوان) تھے، صادق(ع) نے فرمایا: میں انہیں کو اپنا وصی بناتا ہوں. اپنے اصحاب میں سے تم ( مفضل) جس پر بھروسہ کرتے ہو اس کو بتا دینا.(3)

15.یعقوب سراج کی حدیث ہے، کہتے ہیں : میں امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں

..........................

1. کافی، ج1،ص309؛ ارشاد، ج2،ص218؛ بحار الانوار، ج48، ص18؛ کشف الغمہ، ج3، ص10.

2.کافی، ج1،ص309.

3.کافی، ج1،ص308؛ انہیں الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے؛ بحار الانوار، ج48، ص17؛ ارشاد، ج2،ص216.217؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص10؛ کشف الغمہ، ج3، ص10.

۳۱۲

حاضر ہوا تو دیکھا آپ ابوالحسن موسی(کاظم(ع)) کے سرہانے کھڑے ہیں اس وقت موسی کاظم(ع) جھولے میں تھے اور جعفر صادق(ع) ان کے جھولے کی رسی کو کچھ لمبا کر رہے تھے میں بیٹھ گیا جب امام کا اس کام سے فارغ ہوئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا. آپ نے فرمایا اپنے امام سے قریب ہو اور انہیں سلام کرو، میں جھولے کے قریب ہوا اور سلام عرض کیا. جھولے سے بہ زبان فصیح جواب ملا( یعنی جھولے والے نے جواب دیا) پھر مجھ سے کہا یعقوب جائو تم نے اپنی بیٹی کا جو کل نام رکھا ہے اس کو بدل دو، امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا، سراج ان کی بات مانو تو ہدایت ملے گی.(1)

16.سلیمان بن خالد کہتے ہیں، ایک دن جعفر صادق(ع) نے ابوالحسن کو بلایا ہم لوگ وہاں بیٹھے تھے جب وہ آئے تو آپ نے فرمایا تم پر ان کی اطاعت واجب ہے ہمارے بعد یہی تمہارے ولی اور سرپرست ہیں.(2)

17. صفوان جمال نے کہا کہ میں نے جعفر صادق(ع) سے پوچھا: آپ کے بعد اس امر(امامت) کا صاحب کون ہے فرمایا: صاحب امر کھیلتا کودتا نہیں اور لہو لعب میں مصروف نہیں ہوتا اتنے میں موسی کاظم(ع) داخل ہوئے آپ کے پاس مکی بکری کا ایک بچہ تھا اور اس سے فرما رہے تھے اپنے پروردگار کا سجدہ کر یہ سن کر امام جعفر صادق(ع) آگے بڑھخ موسی کاظم(ع) کو سینے سے لگایا اور فرمایا: میرے ماں باپ اس پر قربان ہوں جو لہو لعب نہیں کرتا.(3)

..............................

1. کافی، ج1، ص310. انہیں الفاظ کےساتھ رجوع کریں. بحار الانوار، ج48، ص19؛ ارشاد، ج2، ص219؛ الثاقب فی المناقب، ص433. مناقب ابن شہر آشوب، ج3،ص407؛ اعلام الوری باعلام الہدی، ج2،ص14؛ کشف الغمہ، ج3،ص12.

2. کافی، ج1، ص310. انہیں الفاظ کےساتھ رجوع کریں. بحار الانوار، ج48، ص19؛ ارشاد، ج2، ص219؛ اعلام الوری باعلام الہدی، ج2،ص12.

3.کافی، ج1، ص311 بعینہ یہی روایت بحار الانوار، ج48، ص19؛ مناقب ابن شہر آشوب،ج3، ص432. میں ملاحظہ فرمائیں.

۳۱۳

18. فیض بن مختار کہتے ہیں، میں جعفر صادق(ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ موسی کاظم(ع) تشریف لائے وہ ابھی غلام(نو جوان) تھے میں آگے بڑھا میں ان سے بغلگیر ہوا اور ان کا بوسہ لیا پھر جعفر صادق(ع) نے فرمایا: تم لوگ سفینہ ہو اور یہ ناخدا ہے. فیض کہتے ہیں پھر میں اسی سال حج کرنے گیا میرے پاس ود لاکھ دینار تھے میں نے جعفر صادق(ع) کی خدمت ایک لاکھ دینار بھیجے اور ایک لاکھ دینار موسی کاظم(ع کی خدمت میں بھیج دیئے. پھر جب میں صادق(ع) کی خدمت حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کیوں فیض! تم نے موسی کاظم(ع) کو میرے برابر کر دیا، ( میرا معادل سمجھا) میں نے عرض کیا میں نے تو آپ کے قول کے مطابق ہی ایسا کیا ہے! آپ نے فرمایا : فیض میں نے وہ بات اپنی طرف سے نہیں کہی تھی بلکہ خدا ہی نے ایسا کہا ہے.(1)

19. علی بن جعفر(ع) کہتے ہیں: میں نے اپنے باپ ابو جعفر بن محمد(ع) ک اپنے خاص افراد اور شیعوں کی جماعت سے فرماتے ہوئے سنا میرے بیٹے موسی کو میرا بہترین وصی سمجھو، وہ میرے بیٹوں میں سب سے افضل ہیں اور میرے بعد والوں میں وہی میرے خلیفہ ہیں، وہی میری جگہ میرے قائم مقام ہیں، وہی تمام مخلوقات خدا پر میرے بعد خدا کی حجت ہیں.(2)

20. رزارہ بن اعین کہتے ہیں : جب اسماعیل بن جعفر(ع) کی وفات ہوئی تو میں( زرارہ) امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت موسی کاظم(ع) جعفر صادق(ع) کے داہنے کھڑے تھے، اسی اثناء میں جعفر صادق(ع) نے اپنے اصحاب کی ایک جماعت کو اسماعیل کی وفات پر گواہ بنایا، اور وفات اسماعیل کا ان سے کئی بار اقرار لیا یہاں تک کہ اسماعیل کو قبر میں رکھ دیا زرارہ کہتے ہیں اس وقت امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا: پالنے والے گواہ رہنا، اور (حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا) آپ لوگ بھی گواہ رہیں اس لئے کہ عنقریب گروہ باطل شک کرنے والا ہے، وہ لوگ ( گروہ

.................................

1.کافی، ج1، ص311.

2.بحار الانوار،ج48، ص20 انہیں لفظوں کے ساتھ نقل کیا ہے اثبات الھدی بالنصوص والمعجزات، ج5. ص485. 486؛ مسائل علی بن جعفر، ص18؛ ارشاد، ج2، ص220؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص14؛ کشف الغمہ، ج3، ص13.

۳۱۴

باطل) چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، پھر موسی کاظم(ع) کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اور اللہ اپنے( اس) نور کو مکمل کر کے رہے گا چاہے مشرکین کو برا لگے.

پھر لوگوں نے قبر اسماعیل پر مٹی ڈالنی شروع کی اتنے میں امام نے پھر ہماری طرف مڑ کے اپنے قول کا اعادہ کیا اور فرمایا: وہ میت جو حنوط شدہ اور کفن میں لپٹی ہوئی اس قبر میں ہے وہ کون ہے؟ہم نے کہا( وہ ) اسماعیل( ہیں) فرمایا: پالنے والے گواہ رہنا. پھر آپ نے ( یعنی جعفر نے) موسی کاظم(ع) کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: یہی حق ہے حق اسی کے ساتھ ہے اس سے حق نکلے گا یہاں تک کہ خدا زمین اور اہل زمین کا وارث بنا دے گا.(1)

21. ولید بن صبیح ابوعبداللہ سے روایت کرتے ہیں امام جعفرصادق(ع) نے فرمایا کہ مجھ سے عبد الجلیل نے پوچھا کہ آپ نے اسماعیل کو ان کی وفات کے 3/سال پہلے وصی بنایا تھا؟ میں نے کہا: خدا کی قسم نہیں میں نے اگر وصی بنایا بھی تھا تو فلاں کو یعنی ابوالحسن موسی کاظم(ع) کو اور حضرت نے ان کا نام بھی لیا.(2)

22.حماد صائغ کہتے ہیں مفضل بن عمر سے میں نے سنا وہ امام صادق(ع) سے کچھ پوچھ رہے تھے کہ امام موسی کاظم(ع) نمودار ہوئے. جعفر صادق(ع) نے فرمایا : کیا تم صاحب کتاب علی کو دیکھ کے خوش ہوگے؟میں نے عرض کیا میرے لئے اس سے زیادہ مسرت کی بات اور کیا ہوگی. فرمایا یہ ہیں( موسی کاظم(ع)) کتاب علی کے مالک و وارث اس کتاب مکنون کے صاحب جس کے بارے میں خدا نے فرمایا ہے کہ اس کو چھوہی نہی سکتے مگر وہ لوگ جہنیں اللہ نے پاک رکھا ہے.(3)

23. اسحاق کہتے ہیں میں جعفر صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ آپ کے

...................................

1.بحار الانوار، ج48، ص21. مناقب ابن شہر آشوب، ج1، ص229.

2.بحار الانوار، ج48، ص22؛ نعمانی کی کتاب الغنیہ، ص326.

3.بحار الانوار، ج48، ص23. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں: اثبات الہداة بالنصوص والمعجزات، ج5،ص481. 482. غیبت نعمانی، ص327.

۳۱۵

بعد اس امر امامت کا صاحب و وارث کون ہوگا فرمایا: چوپائےوالا. میں نے دیکھا موسی بن جعفر(ع) ابھی بچے تھے اور ایک مکی بکری کے بچے کےساتھ صحن خانہ میں تشریف رکھتے تھے آپ اس بکری بچے سےفرما رہے تھے اس خدا کا سجدہ کر جس نے تجھے پیدا کیا ہے.

24. سلمہ بن محرز کہتے ہیں: میں نے ابوعبداللہ امام صادق(ع) سے عرض کیا کہ ایک عجلہ کا رہنے والا بوڑھاسے پوچھ رہا تھا کہ تمہارے یہ شیخ امام کب تک باقی رہیں گے ایک دو سال میں ( حدیث میں یہی تعبیر ملتی ہے) ان کی وفات ہو جائے گی پھر تمہارے پاس کچھ بھی نہیں رہےگا جس کا تم انتظارکرو. آپ نےفرمایا: تم نے اس سے کیوں نہیں کہا کہ یہ موسی بن جعفر(ع) تو موجود ہی ہیں جنہوں نے ہر اس علم کا ادراک کر لیا ہے جس کا رجال ( یعنی ائمہ ) ادراک رکھتے ہیں اور میں نے ان کے لئے ایک کنیز بھی خرید دی ہے جو ان پر مباح ہے اور تمہاری موجودگی ہی میں انشاء اللہ ان کا خلیفہ (فقیہ) پیدا ہو جائے گا.(1)

25.عیسی شلقان کہتے ہیں : میں جعفر صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے سوچا تھا آج میں خطاب کے لئے بیٹے ( یعنی عمر بن خطاب) کے بارے میں سوال کروں گا لیکن آپ نے کلام میں سبقت فرمائی اور میں ابھی بیٹھا بھی نہیں تھا کہ آپ نے فرمایا: اے عیسی ! تم جو کچھ بھی جاننا چاہتے ہو ان تمام چیزوں کے بارے میں میرے بیٹے سے پوچھنے سے تمہیں کس نے روکا ہے؟عیسی کہتے ہیں: یہ سن کر میں عبد صالح یعنی ساتویں امام کی خدمت میں حاضر ہوا ابھی بیٹھا بھی نہیں تھا کہ آپ نے کلام کی ابتداء کردی اور فرمایا: اے ! بیشک اللہ نے انبیاء سے نبوت کی میثاق لی اور ایک قوم کو ایمان کی توفیق عطا کی پھر ان سے ایمان چھین لیا ابن خطاب انہیں لوگوں میں سے تھا جن کو اللہ نے ایمان عاریتہ دیا تھا پھر ان سے لے لیا.

عیسی کہتے ہیں : یہ سن کے میں نے امام کو لپٹا لیا اور آپ کے دونوں آنکھوں کے درمیان

....................................

1.بحار الانوار، ج48، ص23؛ عیون اخبار الرضا،ج2، ص38.

۳۱۶

بوسہ لیا پھر میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں بیشک ذریت ایک دوسرے کی وارث ہوتی ہے اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے.عیسی کہتے ہیں: پھر میں جعفر صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھے دیکھ کے فرمایا عیسی کیا ہوا میں نے عرض کیا میرےماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں نے تو ابھی کچھ کہا بھی نہیں تھا بلکہ ابھی عبد صالح کی خدمت میں

پہونچا ہی تھا کہ کچھ کہنے کے پہلے میرے ہر سوال کا جواب انہوں نے دے دیا مجھے یقین ہوگیا کہ بخدا وہی اس امر

امامت کے صاحب ہیں، فرمایا عیسی بخدا اگر تم میرے اس فرزند سے پوچھتے کہ مصحف کے دونوں دفتیوں کے بیچ میں کیا ہےتو وہ تمہیں اپنے علم کی بنیاد پرجواب دیتا.(1)

26. ایک حدیث دو کردیوں سے سنی گئی ہے ایک کردی کہتا ہے کہ ہم جب جعفر صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ ان کے صاحبزادے اسماعیل وہاں بیٹھے ہیں. ہم لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ جعفر صادق(ع) کے بعد وہی امام ہیں. اور ایک طویل حدیث میں اس طرح ہے کہ ایک شخص نے امام صادق(ع) سے اس کے خلاف سنا داستان یہ ہے کہ یہ شخص دور سے کوفیوں کے پاس پہونچا جو کہہ رہے تھے اسماعیل امام صادق(ع) کے بعد امام ہوںگے اس شخص نے ان دونوں سے اس سلسلہ میں وہ بات بتائی جسے امام صادق(ع) نے سن رکھا تھا یعنی امام یہ کہہ رہے تھے تو ان سننے والوں میں سے ایک شخص نے تو اس کی بات قبول کر لیو اور دوسرے نے کہا کہ میں یہ بات خود امام صادق(ع) سے سننا چاہتا ہوں جب وہ امام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا : کہ فلاں نے جو بات تم سے کہی ہے وہی حق ہے. اس نے کہا: میں آپ پر قربان ہو جائوں میری خواہش ہے کہ آپ کی زبان مبارک سے سنوں! آپ نے فرمایا: سنو! میرے بعد تمہارے امام اور صاحب فلاں ہیں یعنی ابوالحسن موسی(ع) یاد رکھنا امامت کے سلسلہ میں کوئی بھی دعوی نہیں کرےگا مگر یہ کہ وہ جھوٹا ہوگا اور

..................................

1.بحار الانوار، ج48، ص24؛ قرب الاسناد، ص334. 335؛ الحزائح والجرائح، ج2، ص653.

۳۱۷

افتراء پرداز ہوگا.(1)

27. ابوبصیر کہتے ہیں امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا: میں نے خدا سے دعا اور خواہش کی اور یہ تمنا ظاہر کی کہ امر امامت اسماعیل کے حق میں چلا جائے. لیکن خدا نے انکار کیا پھر یہ کہ امام سوائے موسی کاظم(ع) کے کسی کو نہیں قرار دیا.(2)

28. تھوڑے سے اختلاف کےساتھ علی بن ابی حمزہ نے بھی صادق(ع) سے اس مضمون کی روایت کی ہے.(3)

29.30.زید نرسی سے بھی تقریبا اسی مضمون کی دو روایتیں ہیں.(4)

31. جعفر صادق(ع) کے حوالے سے فیض بن مختار کی ایک طویل حدیث ہے فیض ابن مختار نے صادق(ع) سے پوچھا کہ آپ کے بعد ہم لوگ کس کو امام مانیں اسی اثناء امام موسی کاظم(ع) تشریف لائے جبکہ اس قت وہ پانچ سال کے تھے.

اسی حدیث میں ہے کہ ابوعبداللہ نے فرمایا: اے فیض! رسول اللہ کو ابراہیم اور موسی کے صحیفے دیئے گئے اور رسول (ص) نے وہ امانت ( صحیفے) علی کو دے دی علی(ع) نے حسن(ع) کو حسن(ع) نے حسین نے علی ابن الحسین علیہم السلام کو انہوں نے محمد بن علی(ع) کو جو میرے والد تھے اور محمد بن علی(ع) نے مجھے وہ صحیفے امانتا دیئے وہ میرے ہی پاس تھے میں نے اپنے اس بیٹے ( یعنی موسی کاظم(ع)) کو کمسنی ہی میں دیدیئے اب وہ صحیفے ان کے پاس ہیں. فیض کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ امام کیا کہنا چاہتے ہیں. میں نے عرض کیا آپ مزید بتائیے. فرمایا: اے فیض! جب میرے والد چاہتے تھے ان کی کوئی دعا رد نہ ہو تو آپ مجھے اپنے داہنی طرف بیٹھاتے تھے وہ دعا کرتے تھے میں آمین کہتا تھا اور ان کی دعا

...........................

1.بحار الانوار، ج48، ص24؛ بصائر الدرجات، ص359.

2. بحار الانوار، ج48، ص25؛ بصائر الدرجات، ص360.

3.اثبات الھداة بالنصوص والمعجزات، ج5، ص484.485.

4. اثبات الھداة بالنصوص والمعجزات، ج5، ص484.485؛ بحار الانوار، ج47، ص269.

۳۱۸

کبھی رد نہیں ہوئی تھی. میں اپنے اس بیٹے کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتا ہوں. میں نے کہا فرزند رسول کچھ اور فرمائیے فرمایا: اے فیض جب میرے والد ساتھ سفر کرتے اور کبھی پشت مرکب پر آپ کو نیند آنے لگتی میں سواری کو قریب کر کے اپنے والد ماجد کے سر کے نیچے اپنے بازئوں کا تکیہ کردیتا جس کی وجہ سے میرے والد تھوڑی دیر سو رہتے تھے. میرا یہ فرزند بھی میرے ساتھ ایسا ہی کرتا ہے. میں نے کہا میں آپ پر قربان ہو جائوں کچھ اور فرمائیے. آپ نے فرمایا : میں اپنے اس فرزند کے اندر وہی باتیں پاتا ہوں جو جناب یعقوب نے یوسف کے اندر پائی تھی. میں نے عرض کیا مولا کچھ اور فرمائیے. فرمایا: یہی تمہارا صاحب( یعنی امام) ہے جس کے بارےمیں میں تم مجھ سے پوچھنے آئے ہو یہ سننے کے بعد فیض کہتے ہیں میں اٹھا اور امام موسی کاظم(ع) سے بغل گیر ہوا ان کے سر کا بوسہ دیا اور خدا سے ان کے لئے دعا کی.(1)

32.عبداللہ بن فضل الہاشمی کہتے ہیں میں ابوجعفر صادق(ع) کی خدمت میں تھا کہ ایک شخص سرزمین طوس کا رہنے والا وہاں آیا اس نے امام سے پوچھا: مولا جو آپ کے جد امام حسین(ع) کی زیارت کرے اس کا کیا ثواب ہے؟ فرمایا: اے طوسی! جو قبر حسین(ع) کی زیارت کرتا ہے اس حال میں کہ وہ امام حسین (ع) کو کو اپنا امام مفترض الطاعہ ( جس کی اطاعت اللہ نے بندوں پر فرض کی ہے) سمجھتا ہو تو خدا اس کے پچھلے تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور قیامت کے دن ستر گنہگاروں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کرتا ہے اور زائر حسین(ع) قبر حسین(ع) کے پاس نہیں مانگتا کوئی حاجت مگر یہ کہ خدا اس کی حاجت کو پوری کرتا ہے. عبداللہ بن مفضل کہتے ہیں اتنے میں موسی بن جعفر(ع) تشریف لائے آپ نے انہیں اپنے زانو پر بیٹھا لیا اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ لیا پھر اس طوسی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے طوسی یہ امام خلیفہ اور میرے بعد حجت خدا ہیں ان کے صلب سے ایک مرد پیدا ہوگا جس کے ناموں میں سے ایک نام رضا ہوگا آسمانوں میں وہ خدا کی رضا اور زمین پر اللہ کے بندوں کے لئے رضائے خدا ہوگا وہ تمہاری زمین ( طوس) میں زہر سے شہید کیا

...............................

1.امالی صدوق، ص684. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں. تہذیب الاحکام، ج6، ص108؛ بحار الانوار، ج99، ص42.43.

۳۱۹

جائے گا اس کی شہادت کا سبب محض حاکم وقت کی ظلم اور سرکشی وہ تمہاری زمین پر غریب الوطنی میں دفن کیا جائے گا. خبردار ہوجائو جو اس کی زیارت اس کے عالم غربت میں کرے گا یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ اپنے باپ کے بعد امام وقت ہے اور اللہ کی طرف سے اس کی اطاعت فرض ہے اس کو پیغمبر(ع) کی زیارت کا ثواب ملے گا.(1)

33. ہارون بن خارجہ کہتے ہیں : مجھ سے ہارون بن سعد بلخی نے کہا: وہ اسماعیل جن کی طرف تم اپنی گردنیں لمبی کیا کرتے تھے یعنی جن کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے وہ تو مرگئے اور جعفر بن محمد(ع) بہت بوڑھے ہو چکے ہیں آج یا کل وہ بھی مرجائیں گے پھر تو تم لوگ بغیر امام کے رہ جائو گے! ہارون بن خارجہ کہتے ہیں: میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں اس( ہارون بن سعد بلخی) کو کیا جواب دوں لہذا میں نے جعفر صادق(ع) کی خدمت میں اس کی باتیں بیان کیں آپ نے فرمایا افسوس،افسوس اس نے خدا سے ان کار کیا ہے بخدا یہ سلسلہ امامت منقطع نہیں ہوگا جب تک سلسلہ لیل و نہار منقطع نہ ہو. اب اگر اس(ہارون بن سعد) سے ملاقات ہو تو کہہ دینا ابھی تو موسی فرزند جعفر(ع) موجود ہیں جو بڑے ہوں گے تزویج کریں گے انہیں اولاد ہوگی ان کا بیٹا بھی انشائ اللہ ان کا خلیفہ اور امام ہوگا.(2)

34.ابن ابی یعفور کہتے ہیں میں امام صادق(ع) کی خدمت میں تھا اتنے میں موسی بن جعفر(ع) تشریف لائے اور بیٹھ گئے. جعفر صادق(ع) نے فرمایا: اے ابو یعفور! یہ میرے بیٹوں میں سب سے بہتر ہیں میں ان سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں...(3)

35.امام رضا(ع) کی امامت پر وارد نصوص کے سلسلے میں ایک حدیث ابھی عرض کروں گا

.................................

1.بحار الانوار، ج48، ص26.27. غیبت نعمانی، ص324.326. اخبار معرفتہ الرجال، ج2، ص643.644.

2.اثبات الہداۃ بالنصوص والمعجزات، ج5، ص 479. کمال الدین و تمام النعمہ، ص657. غیبت شیخ طوسی، ص41.42؛ بحار الانوار، ج49، ص26.

3. اثبات الہداۃ بالنصوص والمعجزات، ج5، ص 491. بحار الانوار، ج49، ص268. اختیار معرفتہ الرجا، ج2، ص762.

۳۲۰