فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 146037
ڈاؤنلوڈ: 3917


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146037 / ڈاؤنلوڈ: 3917
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جس کی روایت حمزہ بن حمران نے صادق(ع) کے حوالے سے کی ہے. جو امام رضا(ع) کی امامت پر نص ہے. اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ امامت، امام رضا(ع) تک امام موسی کاظم(ع) سے منتقل ہوکے پہنچی ہے.

اس مجموعہ پر ایک نظر

حدیثوں کا یہی مجموعہ میسر ہوسکا ہے جو میں نے بہت جلدی میں اکٹھا کر کے امام موسی کاظم(ع) کے لئے ہدیہ کے طور پر پیش کردیا ہے چوتھے گروہ میں ائمہ اثنا عشری کی امامت پر حدیثیں کی گئی ہیں جس میں ان حضرات کے اسمائ گرامی بھی دیئے گئے ہیں اب اس مجموعہ میں انہیں بھی شامل کر لیا جائے تو امام موسی(ع) کا امامت پر100/ سے زیادہ حدیثیں ہوجاتی ہیں اور یہ تعداد ان دو مجموعوں کے علاوہ ہے جن کا ذکر امام صادق(ع) کی امامت سے متعلق نصوص میں گذر چکا ہے.

انتقال امامت باپ سے بیٹے تک اس سلسلہ میں کچھ دلیلیں

(اول) سابق میں مذکور حدیثوں سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ امامت کا سلسلہ امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کے بعد باپ سے بیٹے تک چلتا رہے گا اور یہ سلسلہ کہیں بھی نہیں ٹوٹے گا یعنی ایسا نہیں ہے کہ امامت کسی امام سے اس کے بھائی چچا یا ماموں کی طرف منتقل ہو. مذکورہ حدیثوں میں اکثر ایسی حدیثیں ہیں جو امام محمد باقر(ع) اور امام جعفر صادق(ع) سے وارد ہوئی ہیں اور جو ان حضرات کی امامت کو نصوص سابقہ ثابت کرتی ہیں. یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امام جعفر صادق(ع) کے بعد آپ کی اولاد میں سوائے موسی کاظم(ع) کے کسی نے امامت کا دعوی نہیں کیا بجز دو لوگوں کے جس میں سے اسماعیل اور دوسرے عبداللہ افطح ہیں( جن کی امامت کئی طریقوں سے باطل ہے).

گذشتہ حدیثوں سے دو باتیں درجہ یقین تک پہونچ کے اصول تعین امامت کی سنت بن چکی ہیں اور وہ دو باتیں ہیں امام حسن(ع) اور حسین(ع) کے بعد بیٹوں کی طرف امامت کا منتقل ہونا اور

۳۲۱

ائمہ اثنا عشر یعنی اماموں کی تعداد کا بارہ ہونا نہ ایک کم نہ ایک زیادہ، اب) اگر اسماعیل کا امامت پر نظر کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسماعیل کی وفات امام جعفر صادق(ع) کی زندگی ہی میں ہوگئی اس لئے بیٹے ہونے کے باوجود امام جعفر صادق(ع) سے امامت اسماعیل تک منتقل نہیں ہوسکی چونکہ امام وقت زندہ تھے اس کے علاوہ نصوص میں صراحت سے ان کی امامت کا بطلان موجود ہے. پھر یہ کہ ان کی امامت کے قائل حضرات اثنا عشر کی تعداد میں زیادہ کے مرتکب ہوتے ہیں لہذا ان کی امامت باطل ہے. اور اس بطلان کی دلیل وہ کثیر تعداد میں حدیثیں ہیں جنہیں شیعہ اور اہل سنت نے روایت کی ہیں اور یہ حدیثیں تواتر سے بڑھ کر ہیں اور ان حدیثوں کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے.

پھر اسی اصول پر عبداللہ افطح کی امامت کو جانچ لیجئے صورت یہ ہے کہ عبداللہ افطح کی امامت کے بعد ان کی اولاد میں سے کسی کی امامت کا کوئی قائل نہیں دکھائی دیتا ہے بلکہ اگر ان کے بعد کوئی کسی کی امامت کا قائل ہے تو یا تو وہ عبداللہ افطح کے بھائی موسی کاظم(ع) کو مانتا ہے یا پھر امامت کو انہیں پر منتہی سمجھ کے سلسلہ امامت کے انقطاع کا قائل ہو جاتا ہے.

اب اگر مان لیا جائے کہ امامت کا سلسلہ عبداللہ افطح پر آکے ختم ہوگیا تو پھر اماموں کی تعداد سات ہوتی ہے اور ان کی تعداد بارہ تک نہیں پہنچی شیعوں کے ساتھ ساتھ جمہور اہل سنت کے یہاں بھی یہ عدد تسلیم شدہ ہے. اور اگر عبداللہ افطح کی وفات کے بعد سلسلہ امامت کو پھر آگے بڑھا کے امام موسی کاظم(ع) تک لایا جائے تو مندرجہ ذیل خرابیاں لازم آتی ہیں:

1.امامت ( اپنے اصول انتقال کے خلاف) بھائی کی طرف منتقل ہوتی ہے جب کہ نصوص کثیرہ سے یہ بات مانی جاچکی ہے کے امام حسین(ع) کے بعد امامت باپ سے بیٹے کو ملے گی بھائی چچا ماموں وغیرہ کو نہیں.

2.عبداللہ افطح کی امامت کے بطلان پر ائمہ اثنا عشر کا اجماع ہے اور ان کے شیعوں کا بھی اجماع ہے. شہادت کے لئے تعداد ائمہ والی حدیثیں ملاحظہ فرمائیں.

3.اگر عبداللہ افطح اپنے باپ جعفر صادق(ع) اور بھائی موسی کاظم(ع) کے بیچ میں امام ہیں تو

۳۲۲

پھر بارہویں امام، حسن عسکری(ع) قرار پاتے ہیں اور یہ ذیل کی باتوں سے قطعا باطل ہے.

پہلی بات تو یہ ہے کہ شیعہ اور سنی روایتوں میں یہ بات متفقہ طور پر پائی جاتی ہے کہ امام ثانی عشر کا نام نبی(ص) کے نام پر ہوگا. اسی طرح دوسری حدیثیں بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ مہدی( کہ غیب والا آخری ہوگا اور) نبی(ص) کا ہم نام ہوگا.دوسری بات یہ ہے کہ اگر بارہویں امام حسن عسکری(ع) ہی ہیں تو پھر آپ کی وفات ہوچکی اور اب آپ کی وفات کے بعد زمین حجت خدا سے خالی ہوگی؟ جو بالکل ہی نا ممکن ہے کیونکہ میں نے آپ کے سابقہ سوالوں میں چوتھے سوال کے جواب میں یہ ثابت کردیا ہے کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی.

4.ان تمام باتوں کے علاوہ اسماعیل اور عبداللہ افطح کی امامت کا قائل گروہ بالکل ختم ہوچکا ہے اور بظاہر کوئی ایسا گروہ نظر نہیں آتا جو اس کا دعویدار ہو. اور انشاء اللہ اس سلسلے میں اس وقت مزید عرض کیا جائے گا جب امامت پر موجود نصوص کو تقویت پہونچانے والے قرائن سے بحث کی جائے گی جو کہ اس کے بطلان پر وہ سب سے بڑا ثبوت ہوگا.

اسی طرح یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ امامت امام صادق(ع) سے براہ راست امام موسی کاظم(ع) تک منتقل ہوئی اور ان دونوں ہستیوں کے بیچ میں عبداللہ افطح وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے.

سلاح پیغمبر(ص) صرف امام برحق کے پاس اس سے متعلق کچھ دلیلیں

ابھی امام محمد باقر(ع) اور جعفر صادق(ع) سے مروی بہت حدیثوں سے یہ ثابت کی جاچکی ہے کہ سلاح پیغمبر(ص) صرف امام برحق کے پاس ہوتے ہیں کسی دوسرے کے پاس پائے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے. ( اور یہ بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ سلاح پیغمبر(ص) کی حیثیت ائمہ اہل بیت(ع) میں وہی ہے جو بنی اسرائیل میں تابوت سکینہ کی تھی جس کے دروازہ پر پایا جاتا تھا تو وہ نبی برحق ہوتا تھا) اس کے علاوہ اکثر حدیثیں اس بات کی شاہد ہیں کہ سلاح پیغمبر(ص) صرف امام موسی کاظم(ع)

۳۲۳

کے پاس تھا اور جعفر صادق(ع) سے میراث میں ملا تھا محمد بن حکیم ابو ابراہیم یعنی امام موسی کاظم(ع) سے راویت ہیں کہ حضرت نے فرمایا: سلاح پیغمبر(ص) ہمارے پاس رکھا ہوتا ہے اور اس کے پاس غیر امام کوئی جا بھی نہیں سکتا. اسی طرح کچھ اور حدیثیں عنقریب بیان کی جائیں گی جن میں بیان کیا گیا ہے یہ سلاح امام رضا(ع) کے پاس تھا.

ظاہر ہے کہ یہ سلاح پیغمبر(ص) امام رضا(ع) تک آپ کے والد امام کاظم(ع) سے پہونچا تھا.

امام علی رضا(ع) کی امامت منصوص ہے.

5. امام ابو الحسن علی بن موسی الرضا(ع)

آپ کی امامت پر نص کے سلسلے میں مندرجہ ذیل حضرات سے حدیثیں لکھی جا چکی ہیں.

یزید بن سلیط، ابراہیم کرخی، نصر بن قابوس. دائود بن کثیر اور عبداللہ بن فضل ہاشمی یہ وہ حدیثیں ہیں جو امام رضا(ع) کے والد موسی کاظم(ع) کی امامت کے ثبوت میں پیش کی جا چکی ہیں جس کے ضمن میں آپ کی امامت بھی منصوص ہوتی ہے.

جس طرح حبابہ والبیہ کی وہ حدیث جو آپ کے جد امجد امام علی بن الحسین زین العابدین(ع) کی امامت پر نص ہے اس میں امام رضا(ع) کا تذکرہ ہے. اور ابو ہاشم جعفری کی وہ حدیث جو امام حسن عسکری(ع) کی امامت پر پیش کی جائے گی اس میں بھی امام رضا(ع) کی امامت پر نص پائی جاتی ہے اور یہ دونوں حدیثیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ امام کی تعداد معین ( یعنی بارہ) ہے.ان سابقہ نصوص کے ساتھ اب ان حدیثوں کا بھی اضافہ کر لیں.

1.امام رضا(ع) کی مادر گرامی جناب نجمہ خاتون فرماتی ہیں جب امام علی رضا(ع) میرے شکم میں تھے مجھے ذرا بھی بار محسوس نہیں ہوا نیند کی حالت میں اکثر میں تسبیح و تہلیل کی آوازیں سنتی تھی جو

۳۲۴

میرے بطن میں آتی تھی. اس سے مجھے خوف محسوس ہوتا تھا اور ہول آتا تھا لیکن جب میری آنکھ کھل جاتی تو کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی. جب امام رضا(ع) پیدا ہوئے تو آپ نے دونوں ہاتھ زمین پر رکھا اور سر کو آسمان کی طرف بلند کیا اور ہونٹوں کو یوں جنبش دیا جیسے کچھ کہہ رہے ہوں. اتنے میں آپ کے والد موسی کاظم(ع) تشریف لائے اور فرمایا اے نجمہ تم کو اپنے پروردگار کی طرف سے بخشی ہوئی خاص کرامت مبارک ہو. میں نے کپڑے میں لپیٹ کے امام رضا(ع) کو موسی کاظم(ع) کی خدمت میں پیش کیا امام نے امام رضا(ع) کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی. پھر آپ نے آب طلب کیا اور اس کو امام کی گردن پر ڈالا. پھر مجھے واپس کر کے فرمایا: یہ زمین خدا پر بقیہ اللہ ہے.(1)

2.محمدبن سنان کہتے ہیں : میں امام موسی کاظم(ع) کے عراق جانے کے ایک سال پہلے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ کے صاحبزادے علی(ع) آپ کے سامنے بیٹھے تھے. آپ نے فرمایا: جس نے میرے اس فرزند کا حق مارا اور میرے بعد اس کی امامت سے انکار کیا اس نے گویا بعد پیغمبر(ص) علی ابن ابی طالب(ع) کا حق مارا اور علی ابن ابی طالب(ع) کی امامت سے انکار کیا. محمد بن سنان کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: مولا اگر خدا مجھے حیات بخشی اور اس وقت تک زندہ رہا تو آپ کے لال کا حق ضرور دلوائوں گا اور آپ کے فرزند کی امامت کا ضرور اقرار کروں گا. فرمایا: تم نے سچ کہا اے محمد یقینا تم اس وقت زندہ رہوگے ان کا حق بھی دلوائو گے اور ان کی امامت کا اقرار بھی کرو گے بلکہ ان کے بعد ان کے بیٹے کی امامت کا بھی اقرار کرو گے. میں نے پوچھا ان کا نام کیا ہوگا؟ فرمایا : محمد(ع) عرض کیا سر و چشم حاضر ہوں. اور یہی حدیث امام محمد بن علی جواد(ع) کی امامت پر بھی نص ہے.(2)

.................................

1.بحار الانوار، ج49، ص9؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص29.30؛ کشف الغمہ، ج3، ص90.

2.کافی، ج1، ص319. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں. بحار الانوار، ج29، ص21؛ ارشاد، ج2، ص253؛ غیبت شیہ طوسی، ص32.33.

۳۲۵

3.حسین بن نعیم صحاف کی حدیث وہ کہتے ہیں کہ ہم تین آدمی میں، ہشام بن حکم اور علی بن یقطین تھے اس وقت بغداد میں تھے. علی بن یقطین نے کہا: میں عبد صالح کی خدمت میں بیٹھا تھا اسی اثناء آپ کے صاحبزادے علی(ع) تشریف لائے موسی کاظم(ع) نے فرمایا: اے علی ابن یقطین! یہ میرے بیٹوں کے سردار ہیں. انہیں میں نے اپنی کنیت ( ابوالحسن) دیدی ہے. حسین صحاف کہتے ہیں یہ سن کے ہشام بن حکم نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور کہا تم پر وائے ہو تم یہ بات کیسے کہہ رہے ہو؟ علی بن یقطین نے کہا بخدا میں نے امام سے سنا تھا وہی کہا ہے یہ اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں. ہشام نے کہا ( اس کا مطلب سمجھتے ہو) اس کا مطلب ہے کہ امام نے یہ بتایا کہ ان کے بعد امر امامت کے وہی ( علی رضا(ع)) ذمہ دار ہوں گے.(1) علی بن یقطین ہی سے ایک حدیث ہے کہ جب انہوں نے( علی بن یقطین) نے یہ بتایا کہ امام موسی کاظم(ع) کہہ رہے تھے کہ میں نے اپنے بیٹے علی(ع) کو اپنی کنیت دیدی ہے تو یہ سن کے ہشام یعنی( ابن سالم) نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور کہا خدا کی قسم امام اس جملے سے اپنی موت کی خبر دے رہے تھے.(2)

یہ حدیث دوسرے الفاظ میں بھی علی بن یقطین ہی سے مروی ہے لیکن تمام حدیثوں میں قریب قریب مذکورہ الفاظ ہی استعمال کے گئے ہیں(3)

4.علی بن یقطین کی ایک دوسری حدیث ہے کہ امام موسی کاظم(ع) نے مجھے قیدخانہ سے ایک خط لکھا اس میں آپ نے لکھا تھا کہ میرا فلان بیٹا میرے بیٹوں کا سردار ہے اور میں نے اس کو اپنی کنیت دی ہے.(4)

..............................

1. کافی، ج1، ص311. انہیں لفظوں کے ساتھ مطالعہ کریں. بحار الانوار، ج49، ص13؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص32؛ کفایتہ الاثر، ص271.

2.بحار الانوار، ج49، ص13؛ عیون اخبار الرضا. ج2، ص31؛ کشف الغمہ، ج3، ص91.

3.بحارالانوار، ج49،ص32.

4.کافی، ج1، ص313.

۳۲۶

اس حدیث میں اگرچہ علی ابن یقطین نے( وقت اور مصلحت کے تقاضوں کا خیال کر کے) امام علی رضا(ع) کے نام

کی صراحت نہیں کی ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس خط میں امام رضا(ع) کے علاوہ کسی پر امام نے نص نہیں فرمائی ہے. اگرچہ آپ( جیسا کہ بعد میں آئے گا) یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام نے کسی کی امامت پر نص نہیں فرمائی چونکہ قائم کا ذکر نہیں ہے.البتہ یہ مطلب بھی یقینی اور روشن ہے کہ اگر اس خط میں امام رضا(ع) کے علاوہ کسی اور کی امامت پر نص خود علی ابن یقطین نے سمجھا ہوتا تو پھر وہ امام رضا(ع) کی امامت کے ہرگز قائل نہ ہوتے. اس کے علاوہ ہمارے علماء نے اس حدیث کو امام رضا(ع) کی امامت پر نص کے طور پر ذکر کیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے علی ابن یقطین کی حدیث سے امام رضا(ع) ہی کا نام سمجھا ہے.

5.نعیم قابوسی کہتے ہیں کہ موسی کاظم(ع) نے فرمایا: بیشک میرا فرزند علی مرے بیٹوں میں سب سے بڑا ہے میرے نزدینک سب سے نیک ہے اور میرا سب سے محبوب ہے وہ میرے ساتھ علم جفر کا مطالعہ کرتا ہے اور جفر کو کوئی پڑھ ہی نہیں سکتا مگر نبی یا وصی نبی(ص).(1)

6.دائود رقی کہتے ہیں میں نے ابو ابراہیم سے عرض کیا مولا میں آپ پر قربان ہو جائوں. میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں مجھے جہنم سے بچا لیجئے تو امام موسی کاظم(ع) نے اپنے صاحبزادے ابوالحسن رضا(ع) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا یہی میرے بعد تمہارے صاحب اور امام ہیں.(2)

.............................

1.کافی، ج1، ص312. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں. بحار الانوار، ج49، ص20؛ ارشاد، ج2، ص249.250. غیبت شیخ طوسی، ص36؛ مناقب ابن شہر آشوب، ج3، ص476؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص44؛ کشف الغمہ، ج3، ص64.

2. کافی، ج1، ص312. ارشاد، ج2، ص248؛ غیبت شیخ طوسی، ص34؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص44؛ کشف الغمہ، ج3، ص63. بحار الانوار، ج49، ص33.34.

۳۲۷

اس طرح ایک دوسری حدیث بھی ہے.(1) سے لوں؟ فرمایا میرے بیٹے علی(ع) سے....(2)

7.زیاد بن مروان قندی جو واقفہ(نامی فرقہ) میں سے تھے اور واقفی وہ لوگ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ امام موسی کاظم(ع) پردہ غیب میں ہیں اور آپ کی رحلت نہیں ہوئی ہے آپ ہی قائم منتظر ہیں بہر حال قندی کہتے ہیں میں ایک دن امام موسی کاظم(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ کے صاحبزادے ابوالحسن الرضا(ع) وہاں بیٹھے تھے امام موسی کاظم(ع) نے مجھ سے کہا اے زیاد یہ میرا فلاں بیٹا ہے اس کا خط میرا خط اس کی بات میری بات اس کا پیغام میرا پیغام ہے اور یہ جو کچھ کہے بس اسی کی بات قابل قبول ہے.(3).

8.مخزومی کی حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں. ( مخزومی کی ماں جعفر بن ابی طالب کی اولاد میں تھیں یہ مخزومی ماں کی طرف سے ہاشمی تھے) حدیث یوں ہے مخزومی کہتے ہیں ایک دن حضرت ابوالحسن موسی کاظم(ع) نے ہمیں بلا بھیجا جب ہم وہاں جمع ہوگئے تو فرمایا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ میں نے آپ لوگوں کو کیوں زحمت دی ہم نے کہا نہیں فرمایا آپ گواہ رہیں کہ میرے یہ فرزند میرے وصی میرے امر پر قائم رہنے والے یعنی میرے تمام امور کے قیم و سرپرست اور میرے بعد میرے خلیفہ ہیں. جو یہ سمجھتا ہے کہ میرے پاس دین ہے اس کو چاہئے کہ وہ دین میرے اس بیٹے سے لے. اگر میں نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہے تو میرا یہ بیٹا اس کو پورا کرے گا. اور جو مجھ سے ملنا ضروری سمجھتا ہے

.............................

1.بحار الانوار، ج9،ص15.

2.کافی، ج1، ص312. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں. بحار الانوار ، ج49، ص24؛ ارشاد، ج2، ص248.249. غیبت شیخ طوسی، ص34.35. اعلام الوری باعلام الہدی،ج2، ص44. 45.

3.کافی، ج1، ص312. انہیں لفظوں کے ساتھ مطالعہ فرمائیں: بحار الانوار، ج49، ص19؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص39؛ روضتہ الواعظین، ص222. ارشاد، ج2، ص250؛ غیبت شیخ طوسی، ص37؛ اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص45؛ کشف الغمہ، ج3، ص64.

۳۲۸

وہ مجھ سے مل نہیں سکتا مگر اس فرزند کی تحریری اجازت نامہ لے کے.(1)

9.دائود بن سلیمان کہتے ہیں: میں جناب ابو ابراہیم موسی کاظم(ع) کی خدمت میں تھا” میں نے عرض کیا مولا مجھے خوف ہے کہ کوئی حادثہ( یعنی آپ کی موت) ہوجائے اور میں آپ سے ملاقات نہ کرسکوں لہذا مجھے بتا دیں کہ آپ کے بعد امام کون ہے؟ فرمایا میرا فلاں بیٹا یعنی ابو الحسن علی الرضا(ع).(2)

10.دائود بن رزین کہتے ہیں: کہ میرے پاس ابوالحسن موسی کاظم(ع) کا کچھ مال تھا آپ نے ایک بار مجھ سے اس مال کا مطالبہ کیا میں نے آپ کی خدمت میں بھیج دیا آپ نے اس میں سے کچھ لیا اور باقی واحس بھیج دیا اور ہی بھی فرمایا میرے بعد اس مال کا باقی حصہ جو بھی تم سے طلب کرے گا وہی تمہارا امام ہوگا جب امام موسی کاظم(ع) کا انتقال ہوگیا تو آپ کے فرزند علی بن موسی(ع) نے میرے پاس پیغام بھیجا کہ وہ مال جو تمہارے پاس ہے بھیج دو اس مال کی کیفیت یہ ہے اور وہ ایسے ایسے ہے لہذا میرے پاس جو کچھ تھا اسے میں نے امام علی رضا(ع) کے پاس بھیج دیا.(3)

11.دائود بن رزین کہتے ہیں : میں ابو ابراہیم(ع) کی خدمت میں کچھ مال لے کے حاضر ہوا امام نے اس میں سے کچھ لیا اور کچھ میرے ہی پاس چھوڑ دیا میں نے عرض کیا خدا آپ کو سلامت رکھے آپ نے میرے پاس یہ مال کس لئے چھوڑ دیا؟ فرمایا اس امر امامت کا اہل و وارث اس مال کو تم سے جلدی طلب کرے گا( اس کے بعد آپ کی وفات ہوگئی) جب ہمارے پاس امام موسی کاظم(ع) کی

................................

1.کافی، ج1، ص312. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ کریں: بحار الانوار،ج49، ص16؛ اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص45.

2.کافی، ج2، ص313؛ بحار الانوار، ج1، ص24. 25؛ ارشاد، ج2، ص251؛ غیبت شیخ طوسی، ص28؛ اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص46؛ کشف الغمہ، ج3، ص65.

3. اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج6، ص23؛ عیون اخبار الرضا، ج1، ص237؛ بحار الانوار، ج49، ص23.

۳۲۹

شہادت کی خبر آئی تو امام ابوالحسن الرضا(ع) ( جو آپ کےفرزند تھے) نے ہمارے پاس پیغام بھیجا اور اس مال کو ہم سے طلب کیا ہم نے انہیں دے دیا.(1)

12. اسماعیل بن فضل ہاشمی کہتے ہیں میں حضرت ابوالحسن موسی بن جعفر(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت سخت بیمار تھے میں نے عرض کیا مولا اگر وہ حادثہ ہوجائے جس کے نہ ہونے کی ہم خدا سے دعا کرتے ہیں( یعنی خدا نخواستہ آپ دنیا سے رخصت ہو جائیں) تو ہم کس کی طرف رجوع کریں؟ فرمایا: میرے بیٹے علی(ع) کی طرف. ان کی تحریر میری تحریر ہے اور وہ میرے وصی ہیں. اور میرے بعد میرے خلیفہ ہیں.(2)

13.علی ابن یقطین کہتے ہیں: کہ موسی بن جعفر(ع) نے ایک دن خود ہی گفتگو کا آغاز کیا اور فرمایا : یہ میرے سب سے سمجھدار فرزند ہیں( اور پھر اپنے ہاتھ سے امام علی رضا(ع) کی طرف اشارہ کیا اور) فرمایا میں نے انہیں اپنی کنیت دے دی ہے.(3) علی بن یقطین سے اسی طرح دوسری حدیثیں بھی ہیں.(4)

14.منصور بن یونس بزرخ کہتے ہیں ایک دن میں موسی بن جعفر(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا: منصور تمہیں نہیں معلوم آج کیا واقعہ ہوا؟ میں نے عرض کیا: مجھے نہیں معلوم. فرمایا: میں نے آج اپنے بیٹے علی(ع) کی وصایت کا اعلان کر دیا اور اپنے بعد ان کے خلیفہ ہونے کا بھی اعلان کر دیا ہے اس لئے تم ان کی خدمت میں جائو اور انہیں مبارک باد دو.(5)

.......................................

1.کافی، ج1، ص313. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں. بحار الانوار، ج49، ص23؛ ارشاد، ج2، ص252.. غیبت شیخ طوسی، ص39؛ مناقب ابن شہر آشوب، ج3، ص476؛ کشف الغمہ، ج3، ص65.

2.بحار الانوار، ج49. ص13؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص31.

3. بحار الانوار، ج49. ص14؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص32.

4. بحار الانوار، ج49. ص23.

5. بحار الانوار، ج49. ص14؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص32؛ اخبار معرفتہ الرجال، ج2، ص768.

۳۳۰

15.سلیمان مروزی کہتے ہیں : ابو الحسن موسی بن جعفر(ع) کی خدمت میں ایک دن اس ارادے سے حاضر ہوا تاکہ آپ سے پوچھوں کہ آپ کے بعد کون حجت ہے. جب میں حاضر ہوا تو ابھی میں نے پوچھا بھی نہیں تھا کہ آپ نے خود ہی کلام کی ابتداء کی اور فرمایا: اے سلیمان بیشک میرا علی(ع) میرا وصی اور میرے بعد لوگوں پر حجت ہے میرے بیٹوں میں سب سے زیادہ صاحب فضیلت ہے اگر تم میرے بعد زندہ رہے تو میرے شیعوں کے اوپر میرے اہل ولا کے درمیان اس بات کی شہادت دینا اور جو لوگ میرے خلیفہ کے بارے میں پوچھیں انہیں بتا دینا.(1)

16. علی ابن عبداللہ ہاشمی کہتے ہیں: ہم لوگ ایک بار قبر پیغمبر(ع) کے پاس جمع تھے ہم اور ہمارے احباب تقریبا 60/ آدمی تھے اتنے میں ابو ابراہیم موسی بن جعفر(ع) اپنے صاحبزادے علی(ع) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تشریف لائے. آپ نے ہم لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم لوگ بتا سکتے ہو کہ میں کون ہوں؟ ہم نے عرض کیا آپ ہمارے سردار اور ہمارے بزرگ ہیں. فرمایا : میرا نام اور نسب بیان کرو. ہم نے عرض کیا آپ موسی بن جعفر(ع) ہیں پوچھا اور میرے ساتھ کون ہے؟ ہم نے عرض کیا یہ آپ کے صاحبزادے علی بن موسی(ع) ہیں اس کے بعد آپ نے فرمایا اب گواہ رہنا یہ میری زندگی میں میرے وکیل اور میرے مرنے کے بعد میرے وصی ہیں.(2)

17. عبداللہ بن مرحوم کہتے ہیں: میں بصرہ سے مدینہ کے لئے نکلا. راستے میں میری ملاقات ابو ابراہیم سے ہوگئی آپ بصرہ جارہے تھے آپ نے مجھے بلا بھیجا جب میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے ایک خط دیا اور فرمایا اسے مدینہ پہنچا دینا میں نے پوچھا کس کے پاس فرمایا میرے بیٹے علی بن موسی(ع) کے پاس کیونکہ وہی میرے وصی ہیں میرے امور کے سر پرست اور میرے بیٹوں میں سب سے بہتر.(3)

....................................

1.بحار الانوار، ج49، ص15.

2.بحار الانوار، ج49، ص15؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص31.

3.بحار الانوار، ج49، ص15. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں. اثبات الہدی بالنصوص والمعجزات، ج6، ص17. انہوں نے اس روایت کو عبداللہ بن محزوم سے نقل کیا ہے.

۳۳۱

18. حیدر بن ایوب کہتے ہیں: کہ محمد بن زید ہاشمی نے کہا اب شیعہ علی ابن موسی(ع) کو اپنا نام مانتے ہیں میں نے پوچھا یہ کیسے ہوگیا؟ کہنے لگے موسی بن جعفر(ع) نے انہیں( علی بن موسی(ع)) کو بلایا تھا اور اپنا وصی بنایا تھا.(1)

حیدر بن ایوب سے اس سلسلے میں ایک تفصیلی حدیث بھی ہے جس میں وہ کہتے ہیں:

ہم لوگ مدینہ میں اس جگہ جس کو قبا کہا جاتا ہے وہیں پر محمد بن علی(ع) بھی آتے تھے اس دن وہ معینہ وقت سے کچھ تاخیر سے پہنچے ہم نے کہا آپ پر قربان ہوں آخر آپ نے اتنی تاخیر کیوں کی؟ کہنے لگے اصل میں آج مجھے ابو ابراہیم(ع) نے بلایا تھا ہم اولاد علی(ع) اور فاطمہ سلام اللہ علیہا سے17/ آدمی بلائے گئے تھے. ابو ابراہیم نے اپنے صاحبزادے علی بن موسی(ع) کو اپنا وصی اور وکیل بنایا. یہ وکالت و وصایت اپنی زندگی اور مرنے کے بعد بھی جاری رکھنے کا اعلان کیا اور فرمایا کہ ہر وہ امر جو ان کے اوپر جائز ہے ان کے صاحبزادے علی رضا(ع) پر بھی جائز ہے اس کے بعد ہم نے تمام فاطمین کو اس امر پر شاہد بنایا. پھر محمد بن زید کہتے ہیں اے حیدر، خدا کی قسم آج علی بن موسی(ع) کی امامت منعقد ہوگئی اور ضرور شیعہ ان کی امامت کے قائل ہوجائیں گے(موسی کاظم(ع) کی شہادت کے بعد) حیدر نے کہا بلکہ میری تو دعا ہے کہ خدا انہیں باقی رکھے. آخر یہ کیا بات ہوئی؟ محمدبن زید نے کہا اے حیدر جب انہوں (موسی کاظم(ع)) نے ان( علی رضا(ع)) کو اپنا وصی بنایا تو ان کی امامت طے ہوگئی.(2)

10. یزید بن سلیط کہتے ہیں: ایک دن ابو الحسن موسی کاظم(ع) نے مجھے بلایا ہم 30/ لوگ تھے آپ نے ہمیں گواہ بنا کے فرمایا کہ علی بن موسی رضا(ع) ان کے وصی اور ان کے بعد ان کے خلیفہ ہیں.(3)

.....................................

1.بحار الانوار،ج49، ص16.

2.بحار الانوار، ج49، ص16.17؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص37.

3.اثبات الھداة بالنصوص والمعجزات، ج6، ص30.

۳۳۲

20. عبدالرحمن بن حجاج کہتے ہیں: کہ ابوالحسن موسی(ع) نے اپنے صاحبزادے علی رضا(ع) ک اپنا وصی بنایا اور اس وصایت کے ثبوت کے لئے ایک تحریر تیار کی جس میں گواہ کے طور پر اہل مدینہ کے 60/ نمایاں افراد کے دستخط لئے.(1)

21.حسین بن بشیر کہتے ہیں: حضرت ابوالحسن موسی بن جعفر(ع) نے اپنے صاحبزادے حضرت رضا(ع) کو ہمارے سامنے اس طرح اپنا قائم مقام بنایا جس طرح پیغمبر(ص) نےغدیر کے دن مولائے کائنات علی مرتضی(ع) کو اپنا قائم مقام بنایا تھا. پھر آپ نے فرمایا: اے اہل مدینہ! یا اس طرح فرمایا: اے اہل مسجد! یہ میرے بعد میرے وصی ہیں.(2)

22. حسن بن علی خزاز کہتے ہیں: ہم مکہ سے نکلے ہمارے ساتھ علی بن حمزہ بھی تھے اور ان کا کے پاس کافی مال و متاع تھا ہم نےان سے پوچھا یہ سب کیا ہے کہنے لگے یہ سب کچھ عبد صالح کا ہے آپ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس کو ان کے صاحبزادے علی رضا(ع) تک پہنچا دوں کیونکہ انہوں نے علی رضا(ع) کو اپنا وصی بنایا ہے.(3)

24.جعفر بن خلف کہتے ہیں: میں نے سنا ابوالحسن موسی بن جعفر(ع) فرمارہے تھے کہ خوشبخت ہے وہ جو اس وقت تک مرجاتا ہی نہیں جب تک کہ وہ اپنا خلف نہ دیکھ لے اور اللہ نے مجھے میرے اس بیٹے کو جو میرا خلف ہے دکھا دیا ہے( یہ فرما کے اشارہ کیا اپنے صاحبزادے علی بن موسی(ع) کی طرف).(4)

25. اسی طرح کی حدیث موسی بن بکر سے بھی ہے کہتے ہیں: میں ابو ابراہیم کی خدمت

................................

1.بحار الانوار، ج49، ص17؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص37.

2. بحار الانوار، ج49، ص17؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص37.

3. بحار الانوار، ج49، ص17؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص37.38.

4. بحار الانوار، ج49، ص18؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص37.38.

۳۳۳

میں تھا کہ آپ نے فرمایا امام جعفر صادق(ع) فرمایا کرتے تھے کہ وہ شخص خوش بخت ہے جو اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اپنے صلب سے اپنے خلف کو نہ دیکھ لے. پھر( امام موسی کاظم(ع)) نے اپنے صاحبزادے علی بن موسی(ع) کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : اور یہ ہیں میرے خلف، خداوند عالم نے میری قسمت سے میرا خلف مجھے دکھا دیا.(1)

26. حسین بن مختار کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ابو ابراہیم موسی کاظم(ع) کے پاس سے کچھ تختیاں لائی گئیں اس وقت موسی بن جعفر(ع) قید میں تھے ان تختیوں میں لکھا تھا میرا عہد میرے بڑے بیٹے تک پہونچے( یعنی میرا بیٹا میرا ولی عہد ہے).(2)

دوسری حدیث بھی اسی طرح ہے جس میں حسین بختیار کہتے ہیں جب ابوالحسن موسی(ع) ہمارے پاس بصرے سے ہو کے گذرے تو ہمارے لئے آپ کی طرف سے تختیاں لائی گئیں جن پر چوڑائی میں لکھا ہوا تھا میرا عہد میرے بڑے بیٹے کے لئے ہے.(3)

27.مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ ایک دن میں ابوالحسن موسی بن جعفر(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا آپ کی گود میں آپ کے صاحبزادے حضرت علی رضا(ع) تھے موسی کاظم(ع) ان کو چوم رہے ت ھے. ان کی زبان چوس رہے تھے کبھی انہیں اپنے کاندھے پر بٹھاتے اور کبھی خود سے لپٹا لیتے اور فرماتے جاتے تھے میرے باپ تم پر قربان ہوں تمہاری خوشبو کتنی عمدہ، خلقت کتنی پاک اور فضائل کتنے واضح ہیں میں نے عرض کیا مولا میں آپ پر قربان ہو جائوں! اس بچے کے لئے میں دل میں ویسی ہی مودت محسوس کر رہا ہوں جیسی آپ کے علاوہ کسی کے لئے محسوس نہیں کرتا. آپ نے فرمایا: اے مفضل! اس کی منزلت مجھ سے ایسی ہے جیسی میری منزلت میرے والد

.................................

1.بحار الانوار، ج49، ص26؛ کفایتہ الاثر، ص273. غیبت شیخ طوسی، ص41.

2.بحار الانوار، ج49، ص18.19؛ ارشاد، ج2، ص250؛ غیبت شیخ طوسی، ص36.37؛ اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص46.

3.بحار الانوار، ج49، ص19.

۳۳۴

سے تھی. پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی ذریت میں ایک دوسرے کا وارث بنتا ہے اور خدا سمیع و علیم ہے میں نے عرض کیا مولا اس کا مطلب، کیا میں یہ سمجھوں کہ یہ صاحبزادے ہی آپ کے بعد صاحب امر ہیں. فرمایا: ہاں جو ان کی اطاعت کرے وہ راشد ہے اور جو ان کی نا فرمانی کرے وہ کافر ہے.(1)

28. حسن بن حسن کہتے ہیں: میں نے ابوالحسن موسی(ع) سے عرض کیا کہ میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں فرمایا: (مستقبل کے امام سے) پوچھو میں نے پوچھا اس سے آپ کی مراد کون ہیں؟ میں تو آپ کے علاوہ کسی کو اپنا امام نہیں مانتا. فرمایا میرا بیٹا امام ہے میں نے اپنی کنیت اسے بخش دی. میں نے عرض کیا مولا مجھے آگ سے بچائیں. ابو عبداللہ( امام صادق(ع)) فرمایا کرتے تھے کہ آپ اس امر کے قائم ہیں فرمایا کیا میں قائم نہیں ہوں؟ پھر فرمایا امت میں جو امام ہوتا ہے وہی قائم امر ہوتا ہے جب وہ شہادت پا جاتا ہے تو اس کا ولی اور وارث جو اس کے بعد آتا ہے وہی قائم اور حجت ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ بھی غائب ہوجاتا ہے( یعنی مرجاتا ہے) لہذا( ہم شیعہ ائمہ اثناعشر(ع)) سب کے سب قائم ہیں. لہذا وہ تمام معاملات جو مجھ سے رکھتے ہو میرے اس بیٹے علی(ع) سے رکھنا اور بخدا میں نے یہ اپنی طرف سے نہیں کہا ہے بلکہ یہ خدا ہی کا فیصلہ ہے خدا نے ( علی رضا(ع)) سے محبت کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا ہے.(2)

29.علی بن جعفر کہتے ہیں: میں اپنے بھائی موسی بن جعفر(ع) کے پاس تھا بخدا موسی بن جعفر(ع) میرے والد کے بعد زمین پر خدا کی حجت تھے. میں موسی بن جعفر(ع) کی خدمت میں تھا کہ آپ کے صاحبزادے علی(ع) نمودار ہوئے. آپ نے مجھ سے فرمایا اے میرے بھائی علی، یہی تمہارے صاحب اور امام ہیں. میری نسبت سے اسی مرتبہ پر ہیں جس مرتبہ پر میں اپنے والد

.................................

1.بحار الانوار، ج49، ص20.21؛ عیون اخبار الرضا، ج2، ص40.

2.بحار الانوار، ج49، ص25. 26؛ غیبت شیخ طوسی، ص41.

۳۳۵

کی نسبت سے ہوں. خدا تمہیں اپنے دین پر ثابت قدم رکھے. علی ابن جعفر کہتے ہیں یہ سن کر میں رونے لگا اور دل میں کہا خدا کی قسم امام اپنے مرنے کی خبر دے رہے ہیں کہ امام نے فرمایا اے علی بن جعفر تقدیرات الہی کو تو کوئی ٹال نہیں سکتا اور میرے لئے پیغمبر خدا (ص) امیر المومنین(ع) اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت نمونہ عمل ہے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کی سیرت میرے لئے اسوہ حسنہ ہے. علی بن جعفر کہتے ہیں کہ یہ باتیں اس وقت کی ہیں جس کے تین دن بعد ہارون نے آپ کو دوسری بار قید کر دیا.(1)

30. نصر بن قابوس کا بیان ہے میں حضرت ابو الحسن(ع) کی خدمت میں آپ کے گھر میں موجود تھا آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے ایک حجرے کے دروازے پر کھڑا کر دیا پھر آپ نے دروازہ کو کھولا تو میں نے دیکھا آپ کے صاحبزادے علی(ع) اس حجرے میں تشریف فرما ہیں اور ایک کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں امام نے فرمایا اے نصر کیا تم پہچانتے ہو یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا مولا یہ آپ کے فرزند علی(ع) ہیں امام نے کہا نصر کیا تم جانتے ہو یہ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے کس کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا نہیں. فرمایا یہ وہی کتاب جفر ہے جس کا مطالعہ صرف وہی کرسکتا ہے جو نبی(ص) ہو یا وصی نبی(ص) ہو.(2)

31.حسن بن موسی کا بیان ہے کہ نشیط اور خالد دو خادم تھے جو امام ابو الحسن موسی(ع) کی خدمت میں تھے پس حسن کہتے ہیں کہ یحیی بن ابراہیم نے نشیط سے سنا انہوں نے خالد الجوان سے سنا کہ جب ابو الحسن رضا(ع) کی امامت میں لوگوں نے اختلاف کیا تو میں( نشیط) نے خالد سے کہا تم دیکھ رہے ہو کہ لوگوں کے اندر امر امامت میں کیسا اختلاف ہوگیا ہے؟ خالد نے کہا مجھ سے ابو الحسن(ع) نے فرمایا کہ میرا جانشین میرا ولد اکبر ہوگا وہ میرے بیٹوں میں سب سے بہتر اور افضل ترین ہے.(3)

.........................

1.بحار الانوار، ج49، ص26. 27؛ مسائل علی بن جعفر، ص21.22؛ غیبت شیخ طوسی، ص42.

2.بحار الانوار، ج49، ص27.

3.بحار الانوار، ج49، ص27.28.

۳۳۶

32. حمزہ بن حمران امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا: میرا پوتا سر زمین خراسان پر اس شہر میں شہید کیا جائے گا جو طوس نام سے مشہور ہے جو اس کے حق کی معرفت کے ساتھ اس کی زیارت کرے گا میں قیامت کے دن اس کا ہاتھ پکڑ کے جنت میں داخل کروں گا اگرچہ وہ اہل کبائر میں سے ہو. میں نے عرض کیا آپ پر قربان ہوجائوں ان کے حق کی معرفت سے کیا مراد ہے فرمایا: ان کے حق کو پہچاننے کا مطلب یہ ہے کہ تم سمجھو وہ امام مفترض الطاعہ ہیں غریب الوطن اور شہید ہیں( ظاہر ہے کہ اس حدیث میں موضوع گفتگو امام رضا(ع) ہیں لہذا یہ حدیث بھی آپ کی امامت پر نص ہے.(1)

33.بکر بن صالح کہتے ہیں: میں نے ابراہیم بن ابی الحسن موسی(ع) سے کہا: آپ کا اپنے والد کے بارے میں کیا عقیدہ ہے؟ انہوں نے فرمایا وہ زندہ ہیں میں نے کہا پھر اپنے بھائی ابو الحسن علی(ع) کے بارے میں کیا خیال ہے؟ فرمایا: عالم ہیں ثقہ ہیں صدوق( بہت سچے) ہیں. میں نے عرض کیا لیکن وہ کہتے ہیں کہ آپ کے والد کا انتقال ہوگیا کہنے لگے وہ اپنی کہی ہوئی باتوں کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں یہ سن کے میں پھر ان کی طرف متوجہ ہوا وہ ابھی میری طرف مڑے میں نے پوچھا کیا آپ کے والد نے کسی کو وصی بھی بنایا ہے کہا ہاں میں پوچھا کس کو؟ کہا ہم پانچ آدمیوں کو بنایا ہے اور ہم میں علی رضا(ع) کو مقدم فرمایا ہے.

34.علی ابن حمزہ امام کاظم(ع) سے راوی ہیں. اور اس حدیث میں علی ابن جمزہ نے کہا کہ علی ابن یقطین نے امام موسی کاظم(ع) سے پوچھا مولا آپ کے بعد کون (امام) ہے؟ فرمایا یہ فرزند علی(ع) یہ میرے فرزندوں میں سب سے بہتر ہے. مجھ سے اس کی وہی نسبت ہے جو میرے والد سے میری تھی. میرا یہ فرزند شیعوں کے لئے ذخیرہ ہے اس کے پاس وہ علم ہے لوگ جس علم کے دنیا اور آخرت میں محتاج ہیں میرا یہ فرزند سید و سردار ہے اور بیشک وہ

.............................

1.اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج6، ص10.11.؛ من لا یحضرہ الفقیہ، ج2، ص584؛ عیون اخبار الرضا، ج1، ص290؛ امالی شیخ صدوق، ص183.

۳۳۷

(یعنی علی رضا(ع)) مقربین میں سے ہے.(1)

35. احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی کہتے ہیں: میں امام رضا(ع) کی خدمت میں مقام قادسیہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں آپ پر قربان ہوجائوں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اس لئے کہ میں نے آپ کے والد سے ایک بار جب وہ یہیں تشریف رکھتے تھے ان کے خلیفہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے آپ کی طرف میری راہنمائی فرمائی تھی.(2)

36. اسحاق بن موسی بن جعفر کہتے ہیں: کہ میرے والد اپنے بیٹوں سے اکثر فرماتے تھے یہ تمہارے بھائی علی ابن موسی(ع) عالم آل محمد(ص) ہیں ان سے تم اپنے دین کے بارے میں پوچھا کرو اور یہ جو کہیں اس کی حفاظت کرو( یاد رکھو) میں نے اپنے والد جعفر بن محمد سے اکثر یہ فرماتے ہوئے سنا اے موسی! آل محمد(ص) کا عالم تمہارے صلب سے ظاہر ہوگا کاش میں اس زمانہ درک کرتا اس کا نام امیرالمومنین(ع) کا نام ہوگا.(3)

37.محمد بن فضل ہاشمی کہتے ہیں کہ میں موسی بن جعفر(ع) کی خدمت میں آپ کی شہادت کے ایک دن پہلے حاضر ہوا آپ نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! میں بہر حال شہید کردیا جائوں گا لہذا جب تم مجھے میری قبر دفن کر دینا تو یہاں ہرگز نہ آنا بلکہ میری امانتیں لینا اور انہیں میرے فرزند علی رضا(ع) تک پہونچا دینا اس لئے کہ وہی میرے وصی اور میرے بعد صاحب الامر ہیں.(4)

38. عمر بن واقد کہتے ہیں: جب موسی کاظم(ع) کو قید خانے میں زہر دے دیا گیا اور شہادت کا

.............................

1.اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج6، ص25.26.؛ غیبت شیخ طوسی، ص66.

2.اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج6، ص27؛ بحار الانوار، ج23، ص67.

3. اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج6، ص28؛ بحار الانوار، ج49، ص100؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص64.65.

4. اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج6، ص28؛ الثاقب فی المناقب،ص187؛ الخرائج والجرائح، ج1، ص341؛ بحار الانوار، ج49، ص73.

۳۳۸

وقت قریب آیا تو میرے آقا نے مسیب کو بلایا اور فرمایا: اے مسیب میں آج کی شب( بطور اعجاز) مدینہ کوچ کرنے والا ہوں تاکہ اپنے فرزند علی رضا(ع) کو وہ عہدہ دیدوں جو میرے والد نے مجھے دیا تھا اور ان کو اپنا وصی اور خلیفہ مقرر کردوں اور یہ واضح کردوں کہ ان کا امر بھی میرا ہی امر ہے یہ سنکر جب میں رونے لگا تو آپ نے فرمایا اے مسیب! رئود نہیں بیشک میرے بیٹے علی(ع) تمہارے امام اور میرے بعد تمہارے مولا ہیں ان کی ولایت سے متمسک رہو جب تک ان کے ساتھ رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے.(1)

امام رضا(ع) کی امامت پر نص کے لئے میں نے پیش کر دئیے

یہ معروضات امام رضا(ع) کی امامت پر نص کے لئے میں نے پیش کر دیئے.اگرچہ ذرا جلدی میں اس سے زیادہ میسر نہیں ہوسکا اس لئے کہ ابھی دوسری بہت سی نصوص باقی ہیں جن سے استدلال وضاحت طلب ہے. اور فی الحال اس کی نہ گنجائش ہے نہ ضرورت اس لئے کہ میرے مطلوب پر جو حدیثیں چاہئے تھیں اور جتنی چاہئے تھیں وہ میں نے عرض کر دیں ان حدیثوں کے ساتھ ائمہ اثنا عشر کی امامت پر جو حدیثیں ہیں جن میں امام رضا(ع) کی امامت کا تذکرہ ضمنا یا علنا( واضح طور پر) موجود ہے یا صریحا اسم مبارک موجود ہے اگر انہیں بھی اضافہ کر لیں تو نصوص کی تعداد صد100/ سے زیادہ ہو جاتی ہیں اور چوتھے گروہ کے ساتھ ہی ان دو مجموعوں کی حدیثیں بھی شامل کر لیں جن میں امام صادق(ع) کی امامت پر نص ہے تو پھر.... حدیثوں کا شمار کرتے رہئے.بہر حال ایک نظر ڈال لیتے ہیں اور کچھ باتوں کی طرف متوجہ کرنا بھی مقصود ہے.

1.امام علی رضا(ع) کے آباء طاہرین علیہم السلام سے اکثر حدیثیں اس مضمون کی وارد ہوتی ہیں، امام حسن و امام علیہما السلام کے بعد امامت باپ سے بیٹے کی طرف منتقل ہوگی نہ کہ بھائی، چچا

.................................

1.عیون اخبار الرضا، ج2، ص94.96.

۳۳۹

اور ماموں کی طرف، انہیں حدیثوں میں سے کچھ میں یہ بات ملتی ہے کہ موسی کاظم(ع) کے بعد آپ کی اولاد میں سے سوائے امام رضا(ع) کے کوئی بھی دعویدار امامت نہیں اٹھا.امام رضا(ع) کے علاوہ کوئی دعوے دار امامت تو نہیں ہوا لیکن واقفی فرقے کے لوگوں نے امام رضا(ع) کی امامت کو اپنے اس عقیدہ کی وجہ سے اختلافی بنا دیا کہ امام موسی کاظم(ع) کی شہادت ہی نہیں ہوئی بلکہ وہ غائب ہوگئے اور وہی امام مہدی منتظر ہیں( عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف). حالانکہ واقفیوں کا یہ دعوی اصلا باطل ہے اس لئے کہ:

پہلی بات یہ ہے کہ:امام موسی بن جعفر(ع) کی شہادت بدیہیات میں سے ہے یعنی رزو روشن کی طرح واضح ہے اور تمام عالم اسلام کو آپ کی موت کا قطع و یقین حاصل ہے.

دوسری بات یہ ہے کہ:میں نے بہت ساری حدیثیں اس مضمون کی ابھی کچھ صفحات پہلے پیش کی ہیں، جن کا مضمون یہ ہے کہ امام بارہ ہیں اور ان میں سے بارہویں امام مہدی آخر الزمان اور خاتم الائمہ(ع) ہیں ( ساتویں نہیں)

تیسری بات یہ ہے کہ:ابھی کچھ صفحات پہلے وہ حدیثیں بھی پیش کی گئی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ مہدی منتظر(ع) حضرت سرکار دو عالم(ص) کے ہم نام ہیں، ( جناب موسی(ع) کے نہیں).

چوتھی بات یہ ہے کہ:وہ شاخ ہی نہیں جس پہ آشیانہ تھا، یعنی فرقہ واقفیہ کا اب کہیں دور دور تک وجود نہیں ہے وہ تاریخ شیعہ کے ہیجانی کیفیت کا ایک جھاگ تھا جو کب کا بیٹھ چکا ہے یا تحلیل ہوچکا ہے، یہ بات بذات خود اس عقیدہ کے بطلان پر دلیل ہے. موسی کاظم(ع) کی امامت پر نصوص پیش کرنے کے بعد کی حدیثیں اس عقیدہ کے بطلان پر دلیل ہیں.

۳۴۰