فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 145961
ڈاؤنلوڈ: 3917


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145961 / ڈاؤنلوڈ: 3917
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امام رضا(ع) کی امامت پر دوسری سب سے مضبوط دلیل یہ ہے

سلاح پیغمبر(ص) آپ کے پاس تھی. کثیر حدیثیں اس مضمون کی پیش کی جاچکی ہیں کہ امام وقت ہی سلاح پیغمبر(ص) کا وارث ہوتا ہے، ضمیمہ کے طور پر دو حدیثیں مزید ملاحظہ ہوں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سلاح پیغمبر(ص) کے وارث امام علی رضا(ع) تھے.

1.سلیمان بن جعفر کہتے ہیں: میں نے ابوالحسن رضا(ع) کو ایک خط لکھ کے پوچھا کیا آپ کے پاس سلاح پیغمبر(ص) ہے؟ آپ نے اپنے دست مبارک سے خط کا جواب دیا: یقینا میرے پاس ہے. سلیمان کہتے ہیں : میں علی رضا(ع) کی تحریر خوب پہچانتا ہوں( لہذا اس میں شک نہیں کہ یہ تحریر امام کی تھی)(1)

2.احمد بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے امام رضا(ع) سے پوچھا کہ شمشیر پیغمبر(ص) جو ذوالفقار کے نام سے مشہور ہے وہ کہاں سے آئی تھی؟ فرمایا اس کو جبرئیل لے کے آسمانوں سے اترتے تھے، اس کا قبضہ چاندی کا ہے وہ میرے پاس موجود ہے.(2)

امام محمد بن علی الجواد علیہما السلام کی امامت منصوص ہے

6.ابو جعفر ثانی محمد بن علی الجواد علیہما السلام، گلدستہ امامت کا نواں گلاب:

امام محمد تقی جواد(ع) کی امامت پر سابقہ حدیثوں میں نص پیش کی گئی ہے آپ کے جد بزرگوار جناب موسی بن جعفر(ع) کی امامت پر ابراہیم کرخی اور عیسی بن عبداللہ کی حدیثوں میں نص ہے انہیں حدیثوں میں آپ کی امامت پر بھی نص موجود ہے اسی طرح ابن سنان کی حدیث جس میں امامت

..................................

1.بحار الانوار، ج26، ص211؛ بصائر الدرجات، ص205.

2.کافی، ج1، ص234؛ بصائر الدرجات، ص200؛ عیون اخبار الرضا، ح1، ص55؛ امالی شیخ صدوق، ص364؛ بحار الانوار،ج42، ص65.

۳۴۱

موسوی یعنی امام رضا(ع) کی امامت پر نص ہے اس کا مضمون بھی آپ کی امامت پر ولالت کرتا ہے، پھر ایک حدیث جس کا میں مسلسل تذکرہ کر رہا ہوں وہ ابو ہاشم سے مروی ہے جس میں کنکروں پر مہر ے نقش ابھرنے کا تذکرہ ہے جو عنقریب امام حسن عسکری(ع) کی امامت پر پیش کی جائے گی ساتھ ہی امام محمد تقی(ع) کی امامت بھی اس سے منصوص ہوتی ہے، اب مزید ملاحظہ فرمائیں.

1.معمر بن خلاد کہتے ہیں:میں نے امام رضا(ع) کو کچھ کہتے ہوئے سنا، پھر فرمایا: تمہیں ان چیزوں کی ضرورت کیا ہے؟ یہ ابو جعفر(ع) ہیں میں نے انہیں اپنی جگہ دی ہے ہم اہل بیت(ع) میں چھوٹے اپنے بڑوں کے وارث ہوتے ہیں، نسلا بعد نسل قدم بہ قدم...(1)

2.حسین بن بشار ( یایسار) کہتے ہیں: ابن قیاما نے ابو الحسن رضا(ع) کو لکھا کہ اب امام کیسے ہوںگے آپ کے تو کوئی بیٹا نہیں ہے؟ امام رضا(ع) نے ناراضگی کے ساتھ جواب دیا تمہیں کیا معلوم کہ خدا نے ہمیں بیٹا دیا ہے کہ نہیں دیا ہے؟ خدا کی قسم کچھ زیادہ دن نہیں گذریں گے کہ اللہ مجھے اولاد نرینہ سے نوازے گا میرا وہ فرزند حق اور باطل کے درمیان فرق کریں والا ہوگا.(2)

3. ابن قیاما کہتے ہیں: میں علی بن موسی الرضا(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کیا ایک وقت میں دو امام ہوسکتے ہیں؟فرمایا ہوسکتے ہیں لیکن ان میں سے ایک صامت ہوگا میں نے کہا لیکن آپ کے دور تو کوئی امام صامت نہیں ہے. اس وقت تک ان کے صاحبزادے ابو جعفر ثانی(ع) پیدا نہیں ہوئے تھے. لیکن امام نے فرمایا خدا ضرور میرے لئے ایک ایسی علامت(ولا) قرار دے گا جس سے حق ثابت ہوگا اور حقدار کو اس کا حق ملے گا اور باطل اور اہل باطل مٹ جائیں گے.

....................................

1.کافی،ج1، ص320؛ انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں؛ بحار الانوار، ج50، ص21؛ ارشاد، ج2، ص276؛ الاختصاص. ص279؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص93؛ کشف الغمہ، ج3، ص144.

2.کافی، ج1، ص321؛ بحار الانوار، ج50، ص22؛ ارشاد، ج2، ص277؛ اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص94.

۳۴۲

اس واقع کے ایک سال بعد جناب ابو جعفر محمد الجواد(ع) پیدا ہوئے.(1)

4. ابن مافیا کی دوسری حدیث ہے وہ کہتے ہیں: کہ میں ابو الحسن الرضا(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ کے صاحبزادے ابو جعفر محمد(ع) پیدا ہوچکے تھے آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا خدا نے مجھے وہ فرزند عنایت فرمایا ہے جو میرا وارث اور آل دائود کا وارث ہے.(2)

5. حسین بن یسار کہتے ہیں امام علی رضا(ع) مقام صریا میں تھے اس وقت میں نے اور حسین ابن قیاما نے آپ سے رخصت ہونے کی اجازت چاہی امام نے فرمایا ٹھیک ہے جائو اپنا کام کر لو حسین ابن قیاما نے کہا وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا زمین امام سے خالی ہوجائے گی؟ امام نے فرمایا ہرگز نہیں. ابن قیاما نے پوچھا کیا ایک وقت میں دو امام ہوسکتے ہیں فرمایا بالکل ہوسکتے ہیں لیکن ان میں ایک صامت ہوگا یعنی نہیں بولے گا. ابن قیاما نے کہا اسی سے تو مجھے لگتا ہے کہ آپ امام نہیں ہیں فرمایا تم نے یہ کیسے سمجھ لیا؟ کہا آپ کے کوئی بیٹا نہیں جبکہ امامت اعقاب ( اولاد) میں چلتی ہے یعنی باپ کا وارث بیٹا باپ کی امامت کا بھی وارث ہوتا ہے امام رضا(ع) نے فرمایا خدا کی قسم زیادہ دن نہیں گذریں گے کہ خداوند عالم میرے صلب سے مجھے اولاد نرینہ عنایت فرمائی گا: وہ میرا قائم مقام ہوگا حق کو حق ثابت کرے گا اور باطل کو مٹا دے گا.(3)

6.ابن ابی نصر کہتے ہیں: مجھ سے ابن نجاشی نے کہا کہ تمہارے صاحب(امام رضا(ع)) کے بعد کون امام ہوگا؟ میں چاہتا ہوں کہ تم ان سے یہ سوال کرو تا کہ ہمیں معلوم ہو جائے. ابن نصر امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابن نجاشی کا سوال دہرایا امام رضا(ع) نے فرمایا( ان سے کہہ دو)

..............................

1.کافی، ج1، ص321. انہیں لفظوں میں ملاحظہ فرمائیں: بحار الانوار، ج50،ص22؛ بحار الانوار، ج50،ص21؛ ارشاد، ج2، ص277؛ کشف الغمہ، ج30، ص144.

2.بحار الانوار، ج50، ص18؛ بصائرالدرجات، ص158.

3.بحار الانوار، ج50، ص34.

۳۴۳

میرا بیٹا میرے بعد امام ہوگا پھر فرمایا کیا کوئی؟ جرات کرسکتا ہے کہ کہے میرا بیٹا اور اس کے پاس سرے سے کوئی بیٹا ہی نہ ہوا ہو؟!(1)

7.صفوان بن یحیی کہتے ہیں: میں نے امام رضا(ع) سے عرض کیا مولا جب تک ابو جعفر(ع) پیدا نہیں ہوئے تھے ہم آپ سے پوچھتے تھے کہ آپ کے بعد امام کون ہوگا تو آپ فرماتے تھے خدا مجھے اولاد نرینہ عنایت فرمائے گا اب تو اللہ نے آپ کو بیٹا دیا ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں اب تو یہ دعا ہے کہ خدا ہمیں آپ کی موت نہ دکھائے لیکن آپ کی اگر شہادت ہوگئی تو پھر ہم کس کو امام مانیں گے؟ آپ نے ابو جعفر(ع) کی طرف اشارہ کیا اس وقت ابو جعفر(ع) لوگوں کے سامنے کھڑے تھے. میں نے عرض کیا آقا آپ پر قربان ہو جائوں یہ تو ابھی تین سال کے ہیں! آپ نے فرمایا اس کو کمسنی کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں ( یعنی اگر کمسن بھی ہیں تو کیا ہوا) عیسی بھی تو تین سال کی عمر میں حجت خدا بن گئے تھے.(2)

8.عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں: کہ ہم اور صفوان بن یحیی ایک دن امام رضا(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے

عرض کیا آقا آپ پر قربان ہو جائوں نعوذ باللہ اگر کوئی حادثہ ہوجائے تو ہم کس کی طرف رجوع کریں گے اس وقت امام رضا(ع) کے پاس ابو جعفر محمد(ع) کھڑے تھے ان کی عمر تین سال تھی جب میں نے امام رضا(ع) سے مستقبل کی امامت کے بارے میں سوال کیا تو امام نے اپنے فرزند محمد(ع) کی طرف اشارہ کر کے فرمایا میرے اسی فرزند کی طرف رجوع کرنا میں نے کہا مولا یہ تو ابھی بہت کم سن ہیں فرمایا ہاں کم سن تو ہیں لیکن خداوند عالم نے جناب عیسی(ع) کے ذریعہ حجتہ قائم کی تھی جب وہ محض دو سال کے تھے.(3)

.............................

1. کافی، ج1، ص320. انہیں لفظوں میں ملاحظہ فرمائیں: بحار الانوار، ج50،ص22،20؛ ارشاد، ج2، ص277؛ مناقب ابن شہر آشوب، ج2، ص449؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص93.94؛ کشف الغمہ، ج3، ص144.

2. کافی، ج1، ص320. انہیں لفظوں میں ملاحظہ فرمائیں: بحار الانوار، ج50،ص21؛ ارشاد، ج2، ص276؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص93؛ کشف الغمہ، ج3، ص144.

3.بحار الانوار، ج50، ص350؛ کفایہ الاثر، ص279.

۳۴۴

9. معمر بن خلاد کہتے ہیں کہ اسماعیل بن ابراہیم کہہ رہے تھے کہ میں نے امام رضا(ع) سے عرض کیا میرے ایک بیٹے کی زبان میں ثقل ہے اس کو آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں آپ اس کے سرپر ہاتھ رکھ کے اس کے لئے دعا کردیں وہ آپ کا چاہنے والا ہے امام نے فرمایا: وہ ابو جعفر محمد(ع) کا چاہنے والا (غلام) ہے کل ان کے پاس بھیج دینا.(1)

10. خیرانی اپنے بیٹے سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں ابوالحسن الرضا(ع) کی خدمت میں خراسان میں تھا کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا مولا اگر خدا نخواستہ آپ کو کچھ ہوجائے تو ہم کس کے پاس جائیں گے؟ فرمایا میرے بیٹے ابو جعفر(ع) کے پاس. پوچھنے والے نے سوچا کہ ابوجعفر(ع) تو ابھی بہت کم سن ہیں ابو الحسن رضا(ع) نے فرمایا: خدادند عالم نے عیسی بن مریم کی نبوت، رسالت اور صاحب شریعت ہونے کا اعلان اسی سن کیا تھا جس سن میں اس وقت ابو جعفر(ع) ہیں بلکہ وہ تو ابو جعفر(ع) سے بھی کم سن تھے جب انہوں نے خود ہی صاحب شریعت و کتاب ہونے کا اعلان کر دیا تھا.(2)

11. ابراہیم ابن محمود کی بھی ایک حدیث اسی مضمون کی ہے.(3)

12.امام رضا(ع) کے چچا علی ابن جعفر کہتے ہیں کہ بخدا، اللہ نے ابوالحسن رضا(ع) کی مدد کی پھر میں بڑھا اور میں نے بڑھ کے ابو جعفر محمد تقی(ع) کا لعاب دہن چوس لیا پھر میں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ( محمد تقی(ع)) خدا کے نزدیک میرے امام ہیں یہ سن کے امام رضا(ع) رونے لگے اور فرمایا اے چچا! آپ نے میرے والد کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا تھا کہ رسول اللہ(ص) فرماتے تھے کہ میرے باپ قربان ہوں اس فرزند پر جو پاک و پاکیزہ رحم والی بہترین کنیز نوبیہ طیبہ کا بیٹا

..................................

1.کافی، ج1، ص321؛ بحار الانوار، ج50، ص36.

2.کافی، ج1، ص322؛ انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ کریں: بحار الانوار، ج50، ص23.24؛ روضتہ الواعظین، ص237.ارشاد، ج2، ص279؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص94؛ کشف الغمہ، ج3، ص145.

3.بحار الانوار، ج50، ص34. 35؛ کفایتہ الاثر، ص377.378.

۳۴۵

ہوگا چچا کیا وہ فرزند میرے علاوہ کسی اور سے پیدا ہونے والا ہے( یعنی وہ فرزند میرے فرزند حضرت محمد تقی(ع) ہیں) میں نے کہا میں آپ پر قربان ہو جائوں آپ سچ کہہ رہے ہیں.(1)

13. جعفر بن محمد نوفلی کہتے ہیں: میں امام رضا(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا سلام کر کے بیٹھ گیا پھر میں نے عرض کیا مولا لوگوں کا یہ گمان ہے کہ آپ کے والد ماجد( موسی بن جعفر(ع)) زندہ ہیں فرمایا خدا ان پر لعنت کرے وہ جھوٹ کہتے ہیں. میں نے کہا میرے لئے کیا حکم ہے؟ فرمایا میرے بعدمیرے فرزند محمد (تقی(ع)) کی اقتدا کرنا.(2)

14. مسافر کہتے ہیں مجھے شاہ خراسان امام رضا(ع) نے خراسان میں حکم دیا کہ ابو جعفر(ع) سے ملحق ہو جائو وہی تمہارے صاحب اور سرپرست ہیں.(3)

15.محمد بن اسماعیل بن بزیع امام رضا(ع) سے راوی ہے کہ میں نے امام رضا(ع) سے پوچھا کہ کیا امامت امام کے چچا یا ماموں کو مل سکتی ہے؟ فرمایا نہیں: پوچھا کیا بھائی کو مل سکتی ہے؟ فرمایا: نہیں. پوچھا پھر کس کو ملے گی فرمایا میرے بیٹے کو. حالانکہ اس وقت امام کا کوئی بیٹا نہیں تھا.(4)

16.عقبہ بن جعفر کہتے ہیں: میں نے ابوالحسن رضا(ع) سے پوچھا کہ آپ نے تو اچھی خاصی عمر گذاری اور ابھی تک آپ کے کوئی بیٹا نہیں ہوا فرمایا: اے عقبہ اس امامت کا صاحب امر اس وقت تک نہیں مرتا جب تک اپنا وارث نہ دیکھ لے.(5)

........................

1.کافی، ج1، ص322. 323؛ انہیں الفاظ کے ساتھ تحریر کیا ہے؛ بحار الانوار، ج50، ص21؛ مسائل علی بن جعفر، ص322.

2.اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج6، ص161؛ انہیں لفظوں کے ساتھ بحار الانوار، ج5، ص18؛ عیون اخبار الرضا، ج1، ص233؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص59. ملاحظہ فرمائیں.

3.بحار الانوار، ج50،ص34؛ اختیار معرفتہ الرجال، ج2، ص795.

4. کافی، ج1، ص286؛ بحارالانوار، ج50، ص35؛ الامامتہ والتبصرہ، ص59.

5.بحار الانوار، ج50.ص35؛ کفایتہ الاثر، ص279.

۳۴۶

17.یحیی صنعا کہتے ہیں: میں امام رضا(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ مکہ میں تھے میں نے دیکھا امام کیلے چھیل چھیل کے اپنے فرزند ابو جعفر(ع) کو کھلا رہے ہیں میں نے کہا میں آپ پر قربان ہو جائوں یہ بچہ کون ہے؟ فرمایا: ہاں اے یحیی! یہ وہ بچہ ہے کہ ہمارے شیعوں کے لئے اس کے جیسا صاحب برکت بچہ اسلام میں اب تک پیدا نہیں ہوا.(1)

اس حدیث میں سائل کا سوال قابل توجہ ہے جیسے کہ سائل اس مولود کا انتظار کر رہا تھا جو امام رضا(ع) کے بعد امام وقت ہونے والا ہے اور امام نے جواب دے کے اس امام کا تعارف بھی کرا دیا.

18.ابن نافع کہتے ہیں: میں نے علی بن موسی رضا(ع) سے پوچھا آپ کے بعد صاحب امر کون ہوگا فرمایا ابن نافع ابھی اس دروازے سے وہ داخل ہونے والا ہے جو ان تمام چیزوں کا وارث ہے جن کا میں اپنے بزرگوں کی طرف سے وارث ہوا ہوں. وہی میرے بعد حجت خدا ہے. کہتے ہیں ابھی یہ باتیں ہورہی تھیں کہ محمد بن علی(ع) داخل ہوئے. پھر ابو الحسن رضا(ع) نے ہم سے فرمایا اے ابن نافع ان کو سلام کرو اور ان کی اطاعت کا اقرار کرو. ان کی روح میری روح اور میری روح پیغمبر(ص) کی روح ہے.(2)

19.زکریا بن آدم کہتے ہیں: کہ میں امام رضا(ع) کی خدمت تھا کہ آپ کے صاحبزادے ابو جعفر(ع) لائے گئے اس وقت وہ چار سال سے بھی کم تھے امام رضا(ع) نے انہیں اپنے سے قریب کیا اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا. پھر فرمایا: میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں تم ہی اس کے اہل ہو یعنی امامت کے اہل ہو.(3)

20.اہل بیت اطہار(ع) کے مشہور شاعر دعبل خزاعی کہتے ہیں میں نے اپنے مولا ابوالحسن رضا(ع) کی خدمت میں اپنا وہ قصیدہ پڑھا جس پہلا شعر ہے.

.................................

1.کافی، ج6، ص260.261؛ انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ کریں بحار الانوار، ج50،ص35.

2.اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج6، ص165؛ مناقب ابن شہر آشوب، ج3،ص494.

4.بحار الانوار، ج50،ص59.

۳۴۷

آیات الہیہ کے مدارس و مرکز تلاوت سے خالی ہوگئے اور وحی کے گھر اجڑ کے چٹیل میدان ہوگئے( یعنی مدینہ اہل بیت(ع) کے نہ رہنے کی وجہ سے ویران ہوگیا)کہتے ہیں جب میں اس شعر پر پہنچا کہ امام کا ظاہر ہونا لا محالہ ہے وہ امام جو نام خدا اور اس کی برکتوں پر قائم ہوگا اس وقت ہر حق و باطل ہمارے درمیان مشخص اور معین ہوجائے گا پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا دی جائے گی.دعبل کہتے ہیں اس شعر کو سن کے امام علی رضا(ع) پر شدید گریہ طاری ہوا پھر آپ نے سر اٹھا کے میری طرف دیکھا اور فرمایا دعبل ان دو شعروں میں تمہاری زبان سے روح القدس بولے ہیں تمہیں معلوم ہے کہ وہ امام قائم(ع) کون ہیں اور کب ظہور کریں گے میں نے عرض کیا مولا مجھے یہ سب تو نہیں معلوم ہے. لیکن میں نے سنا ہے کہ آپ اہل بیت(ع) میں سے ایک امام خروج کریں گے اور زمین کو فساد سے پاک کر کے عدل سے بھر دیں گے فرمایا اے دعبل سنو یہ سلسلہ یوں ہے میرے بعد میرے بیٹے محمد امام ہوں گے محمد کے بعد ان کے بیٹے علی ان کے بعد ان کے بیٹےحسن اور حسن کے بعد ان کے صاحبزادے حجت ہیں جن کا غیبت میں انتظار کیا جائے گا.(1)

21. ابوالحسن بن ابی عباد امام رضا(ع) کے کاتب تھے، وہ کہتے ہیں، امام رضا(ع) جب بھی اپنے بیٹے محمد(ع) کا نام لیتے بغیر کنیت کے لیتے. ( ایک روز) مجھ سے فرماتے ہیں کہ میرے پاس ابو جعفر(ع) نے لکھا ہے اور پھر فرماتے ہیں ابو جعفر(ع) کے پاس لکھو کہ وہ مدینہ میں میرے وصی ہیں، امام رضا(ع) جب بھی اپنے فرزند کو مخاطب کرتے انداز تخاطب میں تعظیم کا پہلو نمایاں رہتا، ابو جعفر(ع) کا جواب بھی بہت ہی فصیح و بلیغ آیا کرتا. امام رضا(ع) ان کے لئے فرماتے ابو جعفر(ع) میرے وصی ہیں اور میرے بعد میرے لوگوں پر میرے خلیفہ ہیں.(2) اس حدیث

.................................

1.بحار الانوار، ج49، ص237.238؛ عیون اخبار الرضا(ع)، ج1، ص297؛ کمال الدین و تمام النعمہ، ص372؛ کفایتہ الاثر، ص275.277.

2. عیون اخبار الرضا، ج1، ص266.

۳۴۸

میں بار بار وصی کا تذکرہ آیا ہے ظاہر ہے کہ یہ وصایت امامت سے متعلق ہے جیسا کہ تمام موجود نصوص میں وصایت کے لفظ سے یہی سمجھا گیا ہے.

22.امام رضا(ع) کی شہادت کے سلسلے میں ہرثمہ بن اعین سے یہ روایت بھی ملاحظہ کریں وہ کہتے ہیں امام رضا(ع) نے مجھ سے فرمایا کہ اے ہرثمہ، عنقریب مامون تمہیں بلائے گا اور تم سے کہے گا کہ تم شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام ک سوائے امام کے کوئی غسل نہیں دے سکتا، اب بتائو کہ تمہارے امام علی رضا(ع) اگر اس وقت یہاں شہید ہوجائیں تو انہیں غسل میت کون دے گا؟ ہم لوگ تو امام رضا(ع) کے ساتھ یہاں طوس میں ہیں اور امام رضا(ع) کے فرزند جو تمہارے خیال میں رضا(ع) کے بعد امام ہوں گے وہ سر زمین مدینہ میں ہیں؟ جب تم سے مامون یہ سوال کرے تو کہہ دینا کہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ واجب نہیں ہے کہ امام کو صرف امام ہی غسل دے سکتا ہے اگر غسل میت میں کچھ افراد ( مددگار) بھی ہوجائیں غیر امام کے غسل دینے سے امام کی امامت باطل نہیں ہوتی، اور نہ ہی اس امام کی امامت باطل ہوگی جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ اپنے والد کو غسل دیتا. اگر ابوالحسن رضا(ع) مدینہ چھوڑ دئے جاتے ( یعنی تونے زبردستی مدینہ سے امام کو ہٹایا نہیں ہوتا) تو ان کے فرزند محمد(ع) ظاہر میں سب کی نگاہوں کے سامنے ان کو غسل دیتے لیکن پھر بھی( تو جان لے کہ) وہ اپنے والد کو مخفی طور پر یعنی ( بطور اعجاز) آکے غسل دیں گے.(1)

23.ابوصلت ہروی کی حدیث بھی امام رضا(ع) کی وفات کے سلسلے میں ہے جس میں یہ مضمون ہے کہ امام جواد(ع) نے دعوائے امامت فرمایا اور امام رضا(ع) نے ان کی امامت کا اقرار کیا. پھر امام رضا(ع) اور محمد تقی(ع) کے درمیان ایک دوسرے کا سلوک، یہ ساری باتیں امام محمد تقی(ع) کا امامت پر دلالت کرتی ہیں.(2)

..................................

1.عیون اخبار الرضا، ج1،ص276.

2.عیون اخبار الرضا، ج1، ص271.274.

۳۴۹

البتہ یہ دونوں حدیثیں یعنی حدیث نمبر21 اور 22 میں وفات علی رضا(ع) کے مضمون میں شدید اختلاف ہے، تجہیز و تکفین وغیرہ کے واقعات میں بھی اختلاف ہے اور دونوں حدیثوں میں جمع کی صورت نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے لیکن اس سے ہمارے مقصد اور دعوے پر کوئی بات اس لئے نہیں آتی کہ ہم تو صرف امامت پر نصوص اکٹھا کر کے آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں.

امام جواد علیہ السلام کی امامت پر دلالت کرتی ہوئی حدیثوں پر ایک نظر

امام ابو جعفر محمد بن علی جواد علیہما السلام کی امامت کے سلسلے میں مذکورہ بالا حدیثیں پیش کی گئیں ممکن ہے اس سے زیادہ حدیثیں بھی ہوں لیکن جلدی اور وقت کی تنگی کے باعث انہیں تلاش کرنا مشکل ہے پھر بھی اگر چوتھے گروہ کی ائمہ اثناء عشر والی حدیثوں کا جس میں امام جواد(ع) کی امامت پر بھی نص ہے شامل کر لیں تو تقریبا 90/ حدیثیں ہوجاتی ہیں.

وہ حدیثیں جن سے یہ ثابت ہے کہ امامت اعقاب(نسلوں) میں ہے

امام محمد بن علی جواد علیہما السلام کی امامت کی تائید دو باتوں سے بہت زیادہ ہوتی ہے.

(اوّل) امام محمد بن جواد علیہما السلام کے آباء کرام سے اس مضمون کی بکثرت حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ امام حسن و امام حسین علیہما السلام کے بعد امام حسین(ع) کی نسل میں رہے گی یعنی باپ سے بیٹے تک منتقل ہوتی رہے گی نہ کہ بھائی سے بھائی، چچا، ماموں یا کسی اور رشتہ دار کی طرف، امام صادق(ع) کی امامت پر جو حدیثیں بطور نص وارد ہوئی ہیں وہ امام صادق(ع) کے پہلے کے اماموں کی امامت کے سلسلے کو بھی ثابت کرتی ہیں جیسے جیسے سلسلہء امامت آگے بڑھتا جاتا ہے، اس مضمون کی حدیثیں تدریجی طور پر بڑھتی جاتی ہیں اور ان حدیثوں سے یہ ثبوت بھی تدریجا ملتا ہے کہ امام کاظم(ع) اور امام رضا علیہما السلام کے بعد امامت انہیں حضرات کے اعقاب میں چلتی ہوئی آگے بڑھ کرامام مہدی(ع) بھی انہیں کی ذریت میں ثابت ہوتے ہیں.

۳۵۰

اسی وجہ سے شیعوں کے درمیان یہ بات اب امام جواد(ع) کے دور میں محتاج ثبوت نہیں رہ گئی تھی، امام رضا(ع) کا وارث ان کے صاحبزادے کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا، تمام لوگوں کو اس بات کا یقین تھا کہ امام رضا(ع) کے بعد امامت ان کے صاحبزادے ہی کو ملے گی اگر وہ پیدا نہیں ہوئے تو بہر حال امام رضا(ع) کی موجودگی میں اور آپ کی حیات ہی میں پیدا ہوں گے اور چونکہ یہ بات بھی مسلسل حدیثوں سے مستفاد ہوتی رہی ہے کہ امام اس دنیا کو چھوڑنے سے پہلے اپنے وارث امام کو دیکھ لیتا ہے اس لئے امام رضا(ع) کی زندگی میں امام محمد(ع) کی ولادت قطعی اور یقینی تھی. امامت فی الاعقاب والی بات تو اتنی مشہور تھی کہ جب تک امام محمد تقی(ع) پیدا نہیں ہوئے تھے دشمنان علی رضا(ع) ان کی امامت کے انکار پر یہی دلیل دیتے تھے کہ یہ کیسا امام ہے جس کا کوئی وارث نہیں جب کہ شیعہ مطمئن ہو کے انتظار کر رہے تھے کہ جب امام کا وارث سامنے آئے گا تو دشمنوں کو خود بخود جواب مل جائے گا. پھر امام رضا(ع) کے سوائے جواد(ع) کے کوئی اولاد بھی نہیں ہوئی اور امام جواد(ع) کی ولادت سے دوست و دشمن دونوں کو دونوں اماموں کی امامت کا ثبوت مل گیا.

یہیں سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ شیعوں کے نزدیک امام رضا(ع) کے بعد امام جواد(ع) کی امامت قطعی اور یقینی ہے اگر اس سلسلے میں کوئی شیعہ امام رضا(ع) سے سوال کرتا بھی تھا تو اس کو دو وجہ تھی قبل ولادت امام جن لوگوں نے سوال کیا وہ حیرت کا نتیجہ تھا اور بعد ولادت جن لوگوں نے سوال کیا وہ اس لئے تھا کہ جب امام پیدا ہوجائیں تو ان کی امامت قبل کے امام سے منصوص ہو جانی چاہئے تاکہ دشمنوں کو کچھ کہنے کا موقع نہ ملے. یہی وجہ ہے کہ محمد بن عیسی ایک طویل حدیث میں امام جواد(ع) سے کچھ سوال کرتے ہیں اور امام جواد(ع) سوال کرنے کے پہلے ہی جواب دیتے ہیں کہ شبہ ختم ہوچکا ہے اس لئے کہ میرے علاوہ والد کا کوئی بیٹا نہیں ہے یہ سن کر محمد بن عیسی کہتے ہیں. میں آپ پر قربان ہو جائوں آپ نے سچ فرمایا.(1)

.........................

1.بحار الانوار، ج50، ص67.68؛ اختیار معرفتہ الرجال، ج2، ص859.

۳۵۱

امام جواد علیہ السلام کی کمسنی الہی تائید کا محکم اور مضبوط ثبوت ہے

(دوم) امام جواد(ع) کا کمسنی ہی میں منصب پر فائز ہو جانا اور امامت کی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے سنبھال کے اپنے شیعوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ امام جواد(ع) کی امامت کو خداوند عالم کی خصوصی تائید حاصل تھی.

شیعوں کے نزدیک امامت ایک اہم موضوع اور عظیم الشان منصب ہے شیعوں کے یہاں امام نہ عوام کا چنا ہوا نمایندہ ہوتا ہے نہ تلوار کے زور پر امامت حاصل ہوتی ہے یہ صرف اس کو ملتا ہے جس کو اللہ چاہے یہ کوئی عوامی حکومت نہیں ہے بلکہ ایک روحانی حکومت ہے اور امام ہی خدا اور بندے کے درمیان ایک رابط اور عروۃ الوثقی ہے یہی وجہ ہے کہ شیعوں کا امام براہ راست خدا کے یہاں سے علم لے کر آتا ہے. علوم الہی کے خزانے کی کنجی اور میراث انبیاء کا وارث ہوتا ہے خداوند عالم نے امام وقت کو کائنات میں تصرف کا اختیار خصوصی طور پر عطا کیا ہے جس کی وجہ سے امام سے معجزے اور خارق طبیعت افعال بھی اکثر صادر ہوتے ہیں. اسی وجہ سے خداوند عالم نے تمام عالم انسانیت پر امام برحق کی اطاعت و فرمان برداری کو واجب قرار دیا ہے.

غیر شیعہ مذہب میں امامت کا عقیدہ اس طرح نہیں ہے ان کے یہاں امامت ایک ایسا منصب ہے جس کو کوئی بھی حاصل کرسکتا ہے خاص طور سے صاحبان اقتدار جن کی خلافت کو قانونی حیثیت دے دیں وہی امام بن جاتا ہے کیونکہ شیعوں کا راستہ ان کے اغراض و مقاصد کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے لہذا وہ اس راستہ کا انکار کرتے ہیں تاکہ اپنے غلط اور شوم ارادوں کو عملی کرسکیں.آپ جانتے ہیں کہ امام جواد(ع) کی گردن میں قلادہ امامت محض 8/ سال کی عمر میں ڈال دیا گیا یہ وہ عمر ہوتی ہے جس میں انسان ایک گھر اور ایک خاندان کی ضرورتوں کو محسوس نہیں کرسکتا اور ایک چھوٹے سے گھر کی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ ایک ایسی قوم کی قیادت جس کے افراد اطراف و اکناف عالم میں بکھرے ہوئے، سماجی، طبقاتی اور تہذیبی کشمکش میں گرفتار، ہر ایک طبقہ

۳۵۲

اپنے گوناگون مسائل اور اپنے ماحول کے تقاضوں سے متاثر تھا اور اس ذہنی نظریاتی، سماجی اور سیاسی حالات کے اختلاف کے باوجود امام جواد(ع) کی ذات ایک جامع وسیلہ تھی جس کے پاس ہر سماج اور ثقافت بلکہ سماج کے ہر فرد کے مسئلہ کا حل تھا چاہے وہ مسئلہ جس ماحول سے اٹھا ہو ظاہر ہے کہ اگر حضرت جواد(ع) کمسنی ہی میں اس منصب عظیم کے مستحق نہیں ہوتے اور توجہ الہی ما مرکز نہیں ہوتے یعنی آپ کو خداوند عالم کی تائید حاصل نہیں ہوتی تو امام اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرسکتے تھے اور لوگوں کے سامنے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا یہاں تک کہ منصب امامت ختم ہوجاتا اور دعوت اسلامی کا دروازہ بند ہوجاتا.

لیکن تاریخ شاہد ہے کہ حضرت جواد(ع) اپنے قدموں پر بغیر کسی سہارے کے کھڑے تھے اور اپنے ٹھوس کردار اور معصوم افعال سے لوگوں کو اپنی امامت کا احساس دلا رہے تھے اور اپنی شخصیت کو منوا رہے تھے دوست و دشمن قریب بعید اور شیعہ سنی ہر ایک آپ کے فضل کا معترف اور آپ کی انفرادی حیثیت کا قائل تھا خود حکومت وقت کے سامنے آپ کا مرتبہ بہت بلند تھا اور اسی 8/سال کے بچے سے حکومت خوف زدہ تھی خلیفہ وقت کو چین کی نیند نہیں آتی تھی شیعہ اور موالیان اہل بیت(ع) تو آپ کے کشتگان محبت میں تھے ہی، جمہور اہل سنت بھی آپ کی جاذب نظر شخصیت کے دیوانے تھے اور بڑے بڑے علما کی آپ کے سامنے بولتی بند ہوجاتی تھی خود آپ کے خاندان کے وہ افراد جو سن میں آپ سے بڑے تھے بلکہ خاندان ابو طالب کے مشائخ ( بڑے بزرگ) کا درجہ رکھتے تھے آپ کی امامت کے معترف تھے اور محض اس لئے آپ کی اطاعت کرتے تھے کہ وہ امام وقت کی اطاعت اللہ کا حکم سمجھتے تھے اور چونکہ آپ ہی امام وقت تھے اس لئے بغیر آپ کی کمسنی کا خیال کئے خاندان کے بزرگ افراد آپ کی تعظیم اور احترام کرتے تھے اور آپ کے حکم کو مانتے تھے جیسے خود آپ کے چچا حسین بن موسی بن جعفر(ع) آپ کے والد کے چچا سید جلیل علی بن جعفر عریضی.

حسین ابن موسی کہتے ہیں” میں ابوجعفر جواد(ع) کی خدمت میں مدینے میں تھا اور وہیں پر علی بن جعفر(ع) بھی تھے اہل مدینہ میں سے ایک اعرابی بھی وہیں بیٹھا تھا اعرابی نے ابو جعفر محمد

۳۵۳

جواد(ع) کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے پوچھا کہ یہ جوان کون ہے؟ میں نے کہا یہ وصی پیغمبر(ص) ہیں. اعرابی نے کہا سبحان اللہ پیغمبر(ص) کی وفات کو تقریبا دو سال ہوئے اور اس کا سن یہ ہے ( یعنی بہت کم ہے) پھر یہ کم سن نو جوان وصی پیغمبر(ص) کیسے ہوسکتا ہے؟!میں نے کہا سنو یہ وصی پیغمبر(ص) ایسے ہوسکتے ہیں. ظاہر ہے کہ یہ علی بن موسی(ع) کے وصی ہیں علی موسی بن جعفر(ع) کے وصی ہیں اور موسی جعفر بن محمد(ع) کے وصی ہیں اور جعفر محمد بن علی(ع) کے وصی ہیں اور محمد علی بن حسین(ع) کے اور علی حسین بن علی(ع) کے وصی ہیں اور حسین بن علی(ع) کے وصی ہیں اور حسن بن علی بن ابی طالب(ع) کے وصی ہیں اور علی ابن ابی طالب(ع) پیغمبر(ص) کے وصی ہیں. اتنے میں طبیب آیا تاکہ محمد بن علی(ع) کی فصد کھولے یہ دیکھ کر علی بن جعفر(ع) کھڑے ہوگئے اور بولے ابھی آپ رک جائیں پہلے میں فصد کھلواتا ہوں تاکہ لوہے کی حدت میری رگ میں اتر جائے اور میں اس حدت کو آپ سے پہلے برداشت کروں میں نے اس اعرابی سے کہا یہ جذبہ فداکاری دیکھ رہے ہو؟! جانتے ہو یہ بزرگ جو امام سے پہلے لوہے کی حرارت خود برداشت کرنا چاہتے ہیں کون ہیں یہ اس جوان کے باپ کے چچا ہیں( یعنی دادا ہیں) جب علی بن جعفر(ع) نے آگے بڑھ کے آپ کی جوتیاں سیدھی کیں تاکہ آپ کو نعلیں پہننے میں آسانی ہو.(1)

علی بن جعفر(ع) کہتے ہیں کہ ایک آدمی جسے میں واقفی مذہب سمجھتا تھا مجھ سے پوچھنے لگا کہ تمہارے بھائی ابوالحسن بن موسی(ع) کا کیا ہوا؟ میں نے کہا شہید ہوگئے اس نے کہا آپ ان کی زوجیت میں چلی گئیں پھر ان کی جگہ ایک دوسرا امام ناطق آیا جو ان کا قائم مقام تھا اس نے پوچھا وہ ان کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ میں نے کہا ان کا مال وارثوں میں تقسیم ہوگیا اور ان کی عورتیں

.........................

1.معجم رجال الحدیث، ج12، ص316.317؛ ترجمہ علی بن جعفر، انہیں لفظوں کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں اختیار معرفتہ الرجال، ج2، ص729.

۳۵۴

دوسرے ناطق کون تھا؟ میں نے بتایا ان کے صاحبزادے علی ابن موسی(ع) اس نے پوچھا پھر علی ابن موسی(ع) کا کیا ہوا؟ میں نے کہا وہ بھی شہید کرئیے گئے. پوچھا پھر کیا ہوا؟ میں نے کہا ان کے اموال تقسیم ہوگئے اور ان کی عورتوں کا نکاح ہوگیا ان کی جگہ ایک امام ناطق ان کا وارث ہوا. پوچھا وہ امام ناطق کون ہے؟ میں نے کہا ان کے بعد امام ناطق ان کے بیٹے ابو جعفر محمد بن علی(ع) ہیں. اس نے کہا کمال کی بات ہے تم ان کے دادا ہو اور تمہارا سن اتنا زیادہ ہوچکا ہے اور تم جعفر بن محمد(ع) کے بیٹے ہو( یعنی نسبی شرافت و نجابت بھی حاصل ہے) اس کے باوجود تم اس لڑکے کی امامت کے قائل ہو. علی بن جعفر(ع) کہتے ہیں میں نے اس سے کہا تم تو مجھے شیطان لگتے ہو پھر اپنی داڑھی پکڑ کے آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا میرے پاس چارہ کار کیا ہے! خدا نے ابو جعفر محمد بن علی(ع) ہی کو اس منصب کا اہل سمجھا اور اس بڑھاپے کو اس منصب کا اہل نہیں سمجھا.(1)

اور محمد بن حسن بن عمار کہتے ہیں : میں علی بن جعفر بن محمد(ع) کی خدمت میں تھا، اس وقت وہ مدینے میں تھے، میں ان سے امام رضا(ع) کی حدیثیں لکھا کرتا تھا، یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا. ایک دن مسجد نبوی میں محمد بن علی(ع) تشریف لائے، علی بن جعفر(ع) انہیں دیکھتے ہی جلدی سے کھڑے ہوگئے دوش پر ردا بھی نہیں ڈالی جوتا بھی نہیں پہنا آگے بڑھ کے محمد بن علی تقی(ع) کے ہاتھوں کا بوسہ دیا اور تعظیم میں کھڑے رہے، ابو جعفر0ع) نے کہا چچا خدا آپ پر رحم کرے تشریف رکھئے، کہنے لگے اے میرے سردار میں کیسے بیٹھ جائوں جب کہ آپ کھڑے ہوئے ہیں، بہر حال جب حضرت محمد بن علی(ع) وہاں سے چلے گئے حاضرین نے علی بن جعفر(ع) کو برا بھلا کہنا شروع کیا، کہنے لگے آپ ان کے باپ کے چچا ہیں اور آپ ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں، علی بن جعفر(ع) نے کہا تم لوگ خاموش ہو جائو، پھر اپنی داڑھی پکڑ کے کہا جب اللہ نے اس سفید ریش کو امامت کا اہل نہیں سمجھا اور اس نو جوان کو امامت کا اہل قرار دیا اور مقام امامت پر فائز کردیا تو کیا میں

...............................

1.اختیار معرفتہ الرجال، ج2، ص728. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں: معجم رجال الحدیث، ج12، 306.

۳۵۵

ان کی فضیلت سے انکار کرسکتا ہوں؟ خدا کی پناہ اس بات سے جس پر تم مجھے آمادہ کرنا چاہتے ہو! میں تو ان کا غلام ہوں.(1)

انصاف تو یہ کہ اس طرح کی روایتیں امام محمد تقی(ع) اور آپ کے آباء طاہرین(ع) کی امامت پر قوی ترین دلیلیں ہیں، اس لئے کہ امام محمد تقی(ع) کی امامت ان کے آباء طاہرین(ع) کی امامت کی فرع ہے، کم سنی میں دعوائے امامت اور اس دعوائے امامت پر اپنے کردار اور علم سے دلیل، امامت کی حقیقت و حقانیت پر شاہد ہے، اس کے علاوہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خداوند عالم کی امامت پر خاص توجہ ہوتی ہے، اور اللہ امام وقت کی خصوصی رعایت کرتا ہے، ارشاد ہوتا ہے کہ، خدا نے یہ واجب قرار دیا ہے کہ ضرور میں( خدا) اور میرے پیغمبر(ص) غائب ہوتے رہیں گے بیشک اللہ قوی اور عزیز ہے.(2)

بعینہ یہی دلیلیں امام ہادی بن محمد(ع) کی امامت کے سلسلے میں بھی جاری ہوتی ہیں یہ حضرت اس منصب علم پر بہت کمسنی میں فائز ہوگئے تھے اس سلسلے میں آئندہ صفحات میں عرض کیا جائے گا.

انصاف تو یہ ہے کہ یہ دلیلیں ائمہ اثنا عشر کے تمام اماموں کے بارے میں جاری ہوئی ہیں جیسا کہ ابھی قرائن کے بیان میں تفصیل پیش کی جائیگی جو نصوص کی تائید کرتے ہیں. لیکن چونکہ یہ دونوں امام یعنی امام ابو جعفر محمد تقی(ع) اور آپ کے صاحبزادے علی الہادی(ع) کمسنی ہی میں منصب امامت پر فائز ہوئے تھے اس لئے میں نے اس گفتگو کو انہیں دونوں حضرات سے مخصوص کردیا ہے.

...........................

1.کافی، ج1، ص322؛ معجم رجال الحدیث، ج12، ص317. احوال علی بن جعفر.

2. سورہ مجادلہ، آیت 21.

۳۵۶

ابو الحسن علی بن محمد الہادی علی النقی علیہما السلام کی امامت پر نصوص

7.گلدستہ امامت کا دسواں گلاب

امام علی نقی(ع) کی امامت پر آپ کے والد ماجد کی امامت کے سلسلے میں جو نصوص ہیں وہ گذر چکی ہیں جن میں آپ کی امامت بھی شامل ہے، ان کے علاوہ ایک حدیث مزید آنے والے ہے جو حسن عسکری(ع) کی امامت کے سلسلے میں ہے اس حدیث کا راوی ابو ہاشم ہے جس میں کنکروں پر مہر کا تذکرہ ہے اب ان دلیلوں کو ملاحظہ فرمائیں:

1.خیرانی جن کے والد امام ابوجعفر(ع)کے دروازے پر ملازم تھے، ان کی یہ حدیث ہے اور احمد بن عیسی روزانہ سحر کے وقت امام کے دروازے پر حاضر ہو کے امام کی ضرورتیں پوچھا کرتے تھے، یا امام کی خیریت کے بارے میں معلوم کرتے تھے پھر خیرانی کہتے ہیں :اور ایک پیغامبر بھی تھا جو میرے والد اور ابو جعفر(ع) ( یعنی نویں امام تھے) کے درمیان پیغام لایا لے جایا کرتا تھا، جب وہ آتا تھا تو احمد وہاں سے ہٹ جاتے تھے اور اس قاصد کے ساتھ میرے تنہائی میں بات کرتے تھے. خیرانی کہتے ہیں کہ ایک شب میں نکلا، احمد مجلس( بزم) سے جاچکے تھے اور میرے والد قاصد سے تخلیہ میں بات کر رہے تھے، احمد کہیں قریب ہی تھے اس طرح کی میرے والد اور پیغامبر کے درمیان جو بات ہو رہی تھی وہ سن رہے تھے، پیغمامبر نے میرے والد سے کہا کہ تمہارے مولا تمہیں سلام کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اب جانے والا ہوں اور امر امامت میرے بیٹے علی(ع) سے متعلق ہو رہا ہے، میرے بعد ان کی اطاعت تم لوگوں پر اسی طرح واجب ہے جس طرح میری اطاعت واجب تھی، پھر پیغامبر چلا گیا اور احمد اپنی جگہ پر واپس آئے اور میرے والد سے پوچھا کہ پیغامبر تم سے کیا کہہ رہا تھا؟ میرے والد نے کہا ٹھیک ہی کہہ رہا تھا. احمد نے کہا وہ جو کچھ کہہ رہا تھا میں نے سن لیا ہے. میرے والد نے کہا پھر اس کو چھپاتے کیوں ہو؟ تو اس نے جو کچھ سنا تھا اسے بیان

۳۵۷

کردیا یہ سننے کے بعد میرے والد نے کہا: اس پر گواہ رہنا، ممکن ہے آگے چل کے کسی دن اس کی ضرورت پڑے، لیکن خبر دار وقت سے پہلے اسے ظاہر نہ کرنا.جب صبح ہوئی تو میرے والد نے10/ رقعے تیار کئے اور اس پر مہر لگا کے قبیلہ کے دس معتبر اور سرشناس لوگوں کو دیا اور کہا کہ دیکھو اس رقعہ کو تم سے طلب کرنے کے پہلے اگر میں مرجائوں تو اسے کھولنا اور اس میں جو کچھ لکھا ہے اس پر عمل کرنا. جب حضرت ابو جعفر(ع) ( یعنی نویں امام) کی شہادت ہوگئی تو میرے والد کا کہنا ہے کہ میں گھر سے نہیں نکلا جب تک کہ مجھے یقین یہ ہوگیا کہ400/ افراد میرے ساتھ ہیں.

اب رئوساء قبیلہ جمع ہوئے اور محمد بن فرح کے پاس یہ پوچھتے ہوئے آئے کہ ابو جعفر(ع) امام کے بعد کون امام ہے؟ تو محمد بن فرح نے میرے والد کے پاس یہ لکھا کہ لوگ میرے پاس جمع ہیں اگر شہرت کا خوف نہیں ہوتا تو میں ان لوگوں کو لیکر تمہارے پاس آتا بہتر یہ ہے کہ تم خود زحمت کرو ( اور امر امامت کے سلسلے میں ان کو تسلی دو) لہذا میرے والد سوار ہوئے اور محمد بن فرح کے پاس پہنچے وہاں ایک مجمع اکٹھا تھا لوگ میرے والد سے پوچھنے لگے کہ اس معاملے میں تمہارا کیا کہنا ہے ( یعنی تم کس کی امامت کے قائل ہو) تو میرے والد نے والد نے ان رقعوں کو لوگوں کے سامنے کھول کے دکھایا اور کہا کہ ہمیں تو اسی بات کا حکم دیا گیا ہے(یعنی علی بن محمد(ع) کی امامت کا) مجمع نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ اس بات پر کوئی دوسرا بھی گواہ ہو میرے والد نے کہا اللہ نے اس کا بھی انتظام کر رکھا ہے یہ ابوجعفر اشعری موجود ہیں جنہوں نے رسالہ میں لکھے ہوئے مضمون کو اپنے کانوں سے سنا ہے اور میرے والد نے کہا اس رات تم نے جو سنا تھا اس کو گواہی دو انہوں نے کہا( میں نے سنا تھا کہ ابو جعفر جواد(ع) نے اپنے بیٹے علی النقی(ع) کی امامت کا اعلان کیا تھا) مترجم غفرلہ.

میں شاہد ہوں میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے پس لوگ وہاں سے نہیں ہٹے تھے مگر یہ کہ سارا

۳۵۸

مجمع حق کا قائل ہوچکا تھا.(1)

2.اسماعیل بن مہران کہتے ہیں جب ابو جعفر جواد(ع) پہلی مرتبہ مدینے سے بغداد کے لئے نکلے (چونکہ آپ دوبارہ نکلے تھے) تو میں نے آپ کے نکلنے کے وقت پوچھا کہ مولا مجھے خوف ہے کہ اس سفر میں آپ کو کچھ ہو نہ جائے اگر خدا نخواستہ کچھ ہو گیا تو پھر ہم لوگ کہاں جائیں گے یہ سن کے امام بہت زور سے ہنسے اور میری طرف مڑ کے فرمایا تم جس غیبت( موت) کے بارے میں سوچ رہے ہو وہ اس سال نہیں ہوگی لیکن جب آپ دوسری مرتبہ معتصم کے پاس جانے لگے تو میں نے پھر سوال کیا کہ مولا میں آپ پر قربان ہو جائوں آپ تو جارہے ہیں پھر ہم لوگ کس کی طرف رجوع کریں گے تو اس شدت سے روئے کہ ریش مبارک آنسوں سے تر ہوگئی اور فرمایا ہاں یہی وقت ہے میرے بارے میں پریشان ہونے کا( یعنی اس سفر میں میری موت یقینی ہے) اور امر ( امامت) میرے بعد میرے بیٹے علی(ع) کے ہاتھ میں ہوگا.(2)

3.صقر بن ابی دلف کہتے ہیں میں نے سنا ابو جعفر محمد بن علی رضا(ع) فرما رہے تھے بیشک میرے بعد میرے فرزند علی نقی(ع) امام ہیں ان کا قول میرا قول اور ان کی طاعت میری طاعت ہے ان کے بعد ان کے فرزند حسن عسکری(ع) امام ہیں ان کا امر ان کے باپ کا امر ہے ان کی اطاعت ان کے باپ کی اطاعت ہے اور ان کا قول ان کے باپ کا قول ہے پھر امام جواد خاموش ہوگئے میں نے کہا فرزند رسول یہ بھی تو فرمائیے حسن عسکری(ع) کے بعد کون امام ہوگا یہ سوال سن کے آپ شدت سے روئے پھر فرمایا ان کے بعد ان کے فرزند امام ہوں گے( جن کی صفت ) قائم بالحق اور منتظر ہے. میں نے پوچھا فرزند رسول(ص) انہیں قائم کیوں کہتے ہیں فرمایا اس لئے کہ وہ اس وقت قیام کریں گے جب ان کا ذکر مرچکا ہوگا اور اکثر لوگ ان کی امامت سے مرتد ہوچکے ہوں گے میں نے پوچھا انہیں منتظر کیوں کہتے ہیں فرمایا اس لئے کہ ان کی غیبت بہت دنوں تک ہوگی اور طویل مدت تک

..............................

1.کافی، ج1، ص324. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں: بحار الانوار، ج50،ص119.121.

2. کافی، ج1، ص323. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں: بحار الانوار، ج50،ص118.

۳۵۹

رہے گی، مخلص افراد ان کے خروج کا انتظار کرتے ہوں گے شک کرنے والے ان کے منکر ہوجائیں گے سرکش ان کے ذکر کا مذاق اڑائیں گے ان کے ظہور کا وقت معین کرنے والے جھوٹ بولیں گے ان کے ظہور کی جلدی کرنے والے ہلاک ہوجائیں گے اور زمانہ غیبت میں صرف مسلمان نجات یافتہ ہوں گے.(1)

4.محمد بن عیسی کہتے ہیں بیشک ابو جعفر(ع) جب مدینہ سے عراق جانے لگے اور وہاں سے واپسی کا ارادہ کیا تو ابو الحسن علی(ع) کی امامت پر نص کر کے اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا یہ وہی بات ہے جو تم چاہتے تھے.(2)

5. امیہ ابن علی قیس کہتے ہیں: میں نے ابو جعفرجواد(ع) سے پوچھا آپ کے بعد کون امام ہوگا؟ فرمایا: میرے فرزند علی(ع).(3)

6.محمد بن اسماعیل بن بزیع کہتے ہیں: ابو جعفر ثانی نے مجھ سے فرمایا کہ یہ امر ( امامت) ابو الحسن علی نقی(ع) تک پہنچے گا جب کہ اس وقت وہ صرف سات سال کے ہوں گے. پھر فرمایا ہاں بلکہ سات سال سے بھی کم ہوں گے جیسا کہ جناب عیسی تھے(4)

7.محمد بن عثمان کوفی کہتے ہیں کہ امام جواد(ع) سے میں نے پوچھا مولا اگر خدا نخواستہ آپ کو کچھ ہوجائے تو پھر ہم کس کی طرف رجوع کریں گے فرمایا میرے اس فرزند کی طرف یعنی الوالحسن کی طرف.(5)

8.علی بن مہزیار کہتے ہیں: میں نے ابوالحسن علی نقی(ع) سے عرض کیا کہ میں نے آپ کے

..................................

1.کمال الدین وتمام النعمہ، ص387. انہیں الفاظ کے ساتھ مطالعہ فرمائیں کفایہ الاثر، ص283. اس روایت کو بحار الانوار، ج50، ص30.

2.بحار الانوار، ج50، ص123؛ عیون المعجزات، ص119.

3.اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج6، ص209.210؛ عیبت نعمانی، ص185.

4. اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج6، ص211.

5. اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج6، ص211.

۳۶۰