فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 146051
ڈاؤنلوڈ: 3917


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146051 / ڈاؤنلوڈ: 3917
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ایک جامع تبصرہ

( اب تک آخری امام کی امامت کے بارے میں جو حدیثیں پیش کر جا چکی ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کو تقسیم کر کے دیکھتے ہیں کہ حضرت حجت(ع) کی امامت اور آپ کے وجود ذی وجود پر یہ حدیثیں کس طرح سے روشنی ڈالتی ہیں اور آپ کی شخصیت و امامت کےکن پہلوئوں پر روشنی ڈالتی ہیں)

ان تمام باتوں کے علاوہ یہ بات تو متعدد بار ذکر کی جا چکی ہے کہ امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے بعد امامت اعقاب میں منتقل ہوتی رہی اور یہ سلسلہ باپ سے بیٹے کی طرف جاری و ساری رہا ہے اور امامت حسنین(ع) کے بعد کسی بھی بھائی، چچا اور ماموں کے درمیان نہیں رہی اس مقام پر حدیثوں کے ایسے گروہ پیش کئے جارہے ہیں جو آپ کی امامت کی گواہی دیتے ہیں.

وہ گروہ جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ائمہ(ع) کی تعداد بارہ ہے

پہلا گروہ: سنی اور شیعہ کتابوں میں یہ مضمون حد تواتر سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے کہ امام یا خلیفہ بارہ ہوں گے اس مضمون کی حدیثیں صرف بارہ اماموں کی امامت پر دلالت کرتی ہیں ظاہر ہے کہ جب گیارہویں امام حسن عسکری(ع) ہیں تو بارہویں امام لازمی طور پر آپ کے فرزند حضرت حجت(ع) ہیں.

دوسرا گروہ: ان روایتوں کا ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ذریت امام حسین(ع) سے 9/ امام ہوں گے.

۳۸۱

وہ حدیثیں بھی پیش کی جا چکی ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ امامت ذریت حسین(ع) ہی سے مخصوص ہے اور یہ بھی کہ ذریت حسین(ع) سے قیام کرنے والے امام ہوں گے ظاہر ہے کہ جب ذریت حسین(ع) میں9/ امام ہیں اور آٹھویں حسن عسکری(ع) ہیں تو نویں حسن عسکری(ع) کے فرزند مہدی(ع) بہر حال ہیں.

تیسرا گروہ: ان روایتوں کا ہے جو کہتی ہیں: مہدی ذریت حسین(ع) میں ہوں گے:وہ حدیثیں جو سنیوں اور شیعوں(1) کے یہاں حد تواتر سے بھی آگے بڑھ چکی ہیں جن میں یہ کہا جا چکا ہے کہ مہدی ذریت حسین(ع) سے ہوں گے چونکہ مذکورہ حدیثوں میں جن نو اماموں کی امامت کا تذکرہ ہوا ہے ان میں آٹھ اماموں تک بہر حال مہدی نہیں ہیں اس لئے ماننا پڑے گا کہ ذریت حسین(ع) سے آٹھویں امام حسن عسکری(ع) ہیں اور نویں امام ان کے صاحبزادے مہدی(ع) ہیں.

چوتھا گروہ: ان روایتوں کا ہے جو بیان کرتی ہیں کہ: مہدی(ع) آخری امام ہیں:

ان حدیثوں کو بھی نظر رکھیں جن میں یہ مضمون ہے کہ مہدی(ع) آخری امام ہیں یا یہ کہ مہدی(ع) ذریت ائمہ کی آخری فرد ہیں اگر چہ ان حدیثوں میں نسب کی تحدید طبقہ کے اعتبار سے نہیں کی گئی ہے. اور اس طرح کی کثیر حدیثیں سنی اور شیعہ راویوں سے روایت کی گئی ہیں کہ ائمہ طاہرین(ع) کے گیارہویں نمبر کے امام ذریت حسین(ع) سے آٹھویں نمبر کے امام حسن عسکری(ع) ہیں اور یہ کہ امامت اعقاب میں جاری رہتی ہے تو لازمی طور پر امام حسن عسکری(ع) کے صاحبزادے ہی مہدی(ع) ہیں.

..............................................

1.رجوع کریں: غیبت شیخ طوسی. ص189. بحار الانوار، ج51،ص35. امامت و تبصرہ، ص110، باب مہدی اولاد حسین ہیں. کامل الزیارات، ص116. علل الشرائع، ج1، ص98. عیون اخبارالرضا، ج1، ص71. امالی شیخ صدوق، ص78. کمال الدین و تمام النعمہ، ص78،241.257.261. 260.336.359.527. معانی الاخبار، ص91.126. کفایتہ الاثر، ص188.250.199. روضتہ الواعظین، ص100. الھدایت الکبری، ص337. غیبت نعمانی،ص282.102.67.60.10. اختصاص، ص257. استبصار، ص9، اس کے علاوہ اور بہت سی کتابیں ہیں. اسی طرح اہلسنت حضرات کی ان کتابوں میں ملاحظہ کریں: ذخیرہ العقبی فی مناقب ذوی القربی، ج1، ص137. ان احادیث کے بیان میں جو کہتی ہیں مہدی آخری زمانہ میں ہوگا. پھر انہوں نے اس بات کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے جس میں سے ایک بات اسی حوالہ سے امام حسین(ع) سے مخصوص ہے ینابیع المودۃ، ج2، ص210.44.316، اور ج3، ص291.386.394.395.میزان الاعتدال، ج4، ص50. عباس بن بکارضی کے احوال میں. لسان المیزان، ج3، ص237.عباس بن بنکارضی کے احوال میں کشف حیثیت، ج1، ص147. عباس بن بکارضی کے احوال میں. فتن نعیم بن حماد،ج1، ص371.373.

۳۸۲

پانچواں گروہ: ان احادیث کا ہے جو بیان کرتی ہیں کہ خروج مہدی(ع) آخری زمانے میں:

ان حدیثوں کا بھی جائزہ لیجئے جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مہدی(ع) آخری زمانہ میں خروج فرمائیں گے یا طویل غیبت کے بعد ظاہر ہوں گے جب کہ لوگ آپ سے مایوس ہوچکے ہوں گے اور ہرج و مرج میں مبتلا ہوں گے اور زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی. پھرشیعہ اور جمہور اہلسنت کے یہاں ایسی حدیثیں موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امامت اعقاب میں ہوگی اور باپ سے بیٹے کو پہونچے گی تو امام حسن عسکری(ع) کی امامت سابقہ دلیلوں سے ثابت ہوچکی ہے لہذا ان کے صاحبزادے ہی مہدی(ع) ہیں.

چھٹا گروہ: ان حدیثوں کا ہے جو حضرت مہدی(ع) کے نسبی طبقات معین کرتی ہیں:

حضرت حجت(ع) کے آباء کرام سے بعض ایسی حدیثیں بھی وارد ہوئی ہیں جو طبقات نسل و توارث( ایک دوسرے سے میراث لینے) کے اعتبار سے آپ کا نسب معین کرتی ہیں.

1. امیرالمومنین(ع) کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ جب آپ کے پاس امام حسن(ع) تشریف لاتے تو مولا فرماتے ہیں مرحبا اے فرزند رسول. لیکن حسین(ع) آتے تو فرماتے ہیں مرحبا اے بہترین کنیز کے بیٹے کے باپ. امیرالمومنین(ع) سے پوچھا گیا مولا بہترین کنیز کا بیٹا کون ہے فرمایا وہ مفقود الخبر ہو جائے گا چھوڑ دیا جائے گا جھڑک دیا جائیگا وہ محمد بن حس بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین علیہم السلام یعنی اس حسین(ع) کا فرزند ہوگا اور یہ کہہ کے آپ نے اپنا ہاتھ حسین(ع) کے سر پر رکھا.(1)

2.ابو حمزہ ثمالی راوی ہے کہ میں ایک دن ابو جعفر محمد باقر(ع) کی خدمت میں حاضر تھا جب مجمع چلا گیا اور صرف میں رہ گیا تو آپ نے فرمایا اے ابو حمزہ وہ امر یقینی ہے جس میں خدا کے

..........................

1.اثبات الھداۃ بالنصوص و المعجزات، ج7، ص217؛ مقضب الاثر، ص31؛ بحار الانوار، ج51، ص110.111.

۳۸۳

نزدیک تبدیلی کی گنجائش نہ ہو اور وہ یہ کہ ہم اہل بیت(ع) کے قائم کا قیام یقینی ہے....پھر فرمایا میرے ماں باپ قربان ہوں جس کا نام میرا نام ہوگا اور جس کی کنیت میری کنیت ہوگی میری اولاد میں ساتویں پشت میں ہوگا. میرے باپ قربان ہوں اس پر جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی.(1)

3.صفوان بن مہران امام صادق(ع) سے راوی ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا آپ کے بیٹوں میں مہدی(ع) کون ہے؟

فرمایا ساتویں اولاد کا پانچواں اس کا وجود تم سے غائب ہو جائےگا...(2)

یہاں ساتویں سے مراد ساتویں امام موسی کاظم(ع) ہیں اور امام موسی کاظم(ع) کی پانچویں پشت میں سوائے حضرت حجت(ع) کے کوئی اور نہیں ہے.

4.عبداللہ بن ابی یعفور نے اسی مضمون کی حدیث امام صادق(ع) ہی سے نقل کی ہے.(3)

5.علی بن جعفر(ع) اپنے بھائی امام کاظم(ع) سے راوی ہیں کہ امام موسی کاظم(ع) نے فرمایا: جب میرے ساتویں کا پانچواں بیٹا مفقود الخبر ہو جائیے گا تو بس تمہارے دین کو صرف خدا ہی بچا سکتا ہے میں تمہارے دین کے بارے میں خدا کو یاد دلاتا ہوں دیکھو تم میں سے کسی کا دین زائل نہ ہو جائے خبر دار.(4)

6.یونس بن عبدالرحمن کہتے ہیں میں موسی بن جعفر(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور

...............................

1.اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج7، ص64. اور ج7، ص141.142، تھوڑے اختلاف کے ساتھ اس طرح نقل کیا کہ” میرے بعد ساتواں”؛ غیبت نعمانی، ص86؛ بحار الانوار، ج24، ص241.242. ج36، ص393.394.

2.کمال الدین و تمام النعمہ، ص333؛ بحار الانوار، ج51، ص32؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص234.

3.کمال الدین و تمام النعمہ، ص338؛ بحار الانوار، ج51، ص32.

4.کمال الدین و تمام النعمہ، ص359.360؛ مسائل علی بن جعفر، ص325؛ الامامتہ والتبصرہ، ص113؛ کافی، ج1، ص336؛ علل الشرائع، ج1، ص244. 245.

۳۸۴

پوچھا ے فرزند رسول(ع) کیا آپ ہی قائم بالحق ہیں؟ فرمایا میں قائم بالحق تو ہوں لیکن وہ قائم بالحق جو زمین کو پاک کرے گا وہ میری پانچویں پشت میں میرا بیٹا ہے اس کی غیبت طویل ہوگی یعنی طویل مدت تک غائب رہے گا.(1)

7. سید حمیری شاعر، امام صادق(ع) سے عرض کرتا ہے اے فرزند رسول(ع) ہمارے پاس آپ کے آبائے کرام سے غیبت اور غیبت کے صحیح ہونے کی خبریں آئی ہیں ہمیں بتائیں کہ آخر آپ اماموں میں سے کس کی غیبت واقع ہوگی؟ امام نے فرمایا غیبت ہمارے چھٹے بیٹے کی ہوگی نبی کے وہ بارہویں جانشین ہوں گے اور ہدایتوں کے ذمہ دار اماموں

میں وہ بارہویں امام ہوں گے.(2)

8. جنگ قادسیہ کے واقعات بیان کرتے ہوئے سلیمان دیلمی کہتے ہیں کہ یزد جرد اپنے گھر والوں کو چھوڑ کے بھاگتا ہوا نکلا اور ایوان کے دروازے پر کھڑا ہوا پھر بولا اے ایوان تجھ پر ( الوداعی) سلام، میں اب جارہا ہوں ممکن ہے پھر واپس آئوں یا میں آئوں گا یا وہ شخص جو میری اولاد سے ہوگا ابھی نہ اس کا زمانہ قریب آیا اور نہ وہ وقت قریب ہے. سلیمان کہتے ہیں میں نے جعفر صادق(ع) سے پوچھا کہ یزدجرد اپنے رجعت کرنے والے بیٹے سے کس کو مراد لے رہا تھا فرمایا وہ تمہارے صاحب ہیں یزد جرد جو قائم بامر اللہ ہیں. میری اولاد میں سے چھٹے پشت میں ہوں گے اور چونکہ یزد جرد نے انہیں بیٹا بنایا ہے اس لئے اس نے ان کو اپنا بیٹا کہا.(3)

9.ابو ہیثم بن ابی حبہ سے روایت ہے کہ امام صادق(ع) نے فرمایا جب یہ تین نام یکے بعد دیگرے ترتیب سے جمع ہوں گے تو چوتھا قائم ہوگا تین نام یہ ہیں محمد(ع)، علی(ع) اور حسن(ع).(4)

.................................

1. کمال الدین و تمام النعمہ، ص361؛ کفایتہ الاثر، ص269؛ بحار الانوار، ج51، ص151.

2.کمال الدین و تمام النعمہ، ص342؛ بحار الانوار، ج47، ص317؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج1، ص539.ج2، ص197.

3. .اثبات الھداۃ بالنصوص و المعجزات، ج7، ص.218.217؛ بحار الانوار، ج51، ص164.163.

4. کمال الدین و تمام النعمہ، ص333.334.

۳۸۵

اور اس کے قریب المعنی یا بعینہ یہی حدیث ابو ہیثم تمیمی سے بھی ہے.(1)

10.حسین بن خالد امام رضا(ع) سے روایت کرتے ہیں اس حدیث میں ہے کہ امام رضا(ع) سے پوچھا گیا فرزند رسول(ع) آپ کے اہل بیت(ع) میں قائم کون ہے؟ فرمایا میری چوتھی پشت میں( ہونے والا میرا فرزند).(2)

11.ریان بن صلت راوی ہیں کہ امام رضا(ع) نے حضرت قائم کے بارے میں یوں آپ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا میری چوتھی پشت میں ہونے والا بیٹا. خدا اس کو اپنے پردے میں جب تک چاہئے گا غائب رکھے گا.(3)

12. عبدالعظیم حسنی(رہ) امام جواد(ع) کے سامنے اپنا عقیدہ رکھتے ہیں امام جواد(ع) فرماتے ہیں قائم وہی ہے جو مہدی ہے جس کا انتظار اس کی غیبت میں واجب ہے اور ظہور کی حالت میں اس کی اطاعت واجب ہے اور میری تیسری پشت میں ہونے والا بیٹا قائم آل محمد(ع) ہے.(4)

زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہتی

حضرت حجت(ع) کے وجود گرامی پر جو حدیثیں پیش کی گئی ہیں اگر چہ وہ وافر مقدار میں ہیں اور کافی ہی ہیں لیکن آپ کے وجود پر ایک بڑی دلیل خود زمین کا وجود ہے.

..................................

1. کمال الدین و تمام النعمہ، ص334؛ الامامہ والتبصرہ، ص114؛ بحار الانوار، ج51، ص143؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص234.

2. کمال الدین و تمام النعمہ، ص371.372؛ کفایتہ الاثر، ص274.275؛ بحار الانوار، ج52، ص321.322؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج1، ص539.ج2، ص241.

3. کمال الدین و تمام النعمہ، ص376؛ بحار الانوار، ج52، ص322؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص241.

4. کمال الدین و تمام النعمہ، ص377؛ کفایتہ الاثر، ص281.280؛ خرائج و جرائح، ج3، ص1171.1172؛ بحار الانوار، ج51، ص56؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص242.

۳۸۶

گذشتہ صفحات میں کثیر حدیثیں عرض کی جاچکی ہیں کہ زمین امام اور حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی ہے! اور وہ حجت خدا یا تو شہرت کے ساتھ ظاہر ہوگا یا دشمنوں کے خطرہ کی وجہ سے پردہ میں ہوگا. آپ کے سابقہ سوالوں میں چوتھے سوال کے جواب میں یہ حدیث کئی طرح سے پیش کی جا چکی ہے.

اسی طرح حضور سرورکائنات(ص) کا یہ قول بھی میرے اس دعوے پر دلیل ہے کہ حضرت نے فرمایا: بیشک میری امت پر خلف میں میرے اہلبیت(ع) سے ایک پیکر عدل ہوگا جو اس زمین کو مبطلین کی تحریف، غالیوں کے اضافے اورجاہلوں کی تاویل کی نفی کریگا. یاد رکھنا تمہارے ائمہ تم کو خدا تک پہونچانے والے قائد ہوتے ہیں. اس لئے بہت سوچ سمجھ کے طے کرنا کہ تم دین اور اپنی نمازوں میں کس کی اقتدا کرتے ہو؟(1)

ان تمام باتوں کی موجودگی میں کوئی شک کرنے والا امام زمانہ کی امامت میں کیسے شک کرسکتا ہے.

اس لئے اکثر نصوص میں آپ کی امامت کے ثبوت کے سلسلے میں صرف یہ بیان کرنا کافی سمجھا گیا ہے کہ آپ لوگ جان جائیں کہ آپ پیدا ہوچکے ہیں، آپ موجود ہیں لیکن آپ کی جان کا خوف ہے اس لئے آپ کے وجود مبارک کو عمدا چھپایا جارہا ہے اس لئے بہت سی حدیثوں اور تاریخی نصوص میں بھی محض آپ کی ولادت اور آپ کے وجود کے بیان پر اختصار کیا گیا ہے.

سابقہ حدیثوں کے جو مختلف مجموعے پیش کئے گئے ہیں سچ تو یہ ہے کہ ایک ہی مجموعہ آپ کے وجود اور آپ کی حجت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے لیکن اس کے باوجود آپ کے وجود کے بارے میں سوال کیا گیا ہے؟ اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ سوالات شیعہ ذہنوں کی پیداوار ہیں؟ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ شیعہ جن کے عقیدہ کی تکمیل ہی آپ کے وجود مبارک سے باقی ہے بار بار

.............................

1. اہل بیت(ع) سے متعلق عام حدیثیں بیان کی جاچکی ہیں وہیں پر اس سوال کےجواب کی ابتدا ہی میں اس کے مصادر و منابع بھی مذکور ہیں.

۳۸۷

سوال کیوں کررہے ہیں کیا انہیں اپنے اس عقیدہ پرخود پختگی حاصل نہیں ہے یا وہ امام کے وجود کا یقین نہیں رکھتے؟ دیکھئے شیعوں کے سوال کے بہت سے اسباب ہیں ان کے کسی بھی سوال کا کوئی بھی سبب ہوسکتا ہے مثلا وضاحت کے لئے یعنی کسی کے سامنے صورت حال بالکل واضح تھی اور کسی کے سامنے مبہم وہ جس کے سامنے آپ کا وجود مبہم تھا وہ وضاحت والے سے پوچھتا ہے تاکہ اس کے سامنے بھی وجود مبارک واضح ہو جائے اور ایک پختہ دلیل ہاتھ آئے.سوال کا ایک سبب ناواقفیت بھی ہوسکتا ہے اس لئے کہ وجود مبارک پر نص کرتی ہوئی حدیثیں تو بہت خاص لوگوں سے صادر ہوئی ہیں اور ان کا شیاع یا شہرت اس دور کے معمول اورعام افراد تک نہیں پہنچ سکی جس کی وجہ سے وہ کئی لوگوں سے سوال کرتے ہیں اور جواب سے مطمئن ہوتے ہیں. سوال کی وجہ طلب مزید بھی ہوسکتی ہے یا حجت کی پختگی بھی ہوسکتی ہے. اس کے علاوہ حسی امور، عقل کے حساب سے واقع ہوتے ہیں اور غیبی امور میں احسان کا ذوق تجسس بیدار ہو جاتا ہے.

عبداللہ ابن جعفر حمیری کہتے ہیں میں اور شیخ ابو عمرو(1) احمد بن اسحق کے پاس جمع ہوئے میں نے ابو عمرو سے کہا اے ابو عمرو میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں میرے سوال کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ میں مقام شک میں ہوں میرا اعتقاد و دین تو یہ ہے کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی لیکن میں اپنے یقین میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں( قرآن میں) ابراہیم(ع) نے اپنے رب سے سوال کیا کہ وہ انہیں دکھائے کہ وہ مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے آواز آئی ابراہیم(ع)! ایمان نہیں ہے. عرض کیا بیشک ہے لیکن اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں! مجھے ابو علی احمد بن اسحق نے بتایا کہ میں نے ابوالحسن علی

..............................

1.یہ ابو عمرو، در اصل عثمان بن سعید عمروی ہیں جو کہ امام زمانہ کے پہلے نائب خاص ہیں. اس سے قبل وہ امام زمانہ کے جد ابوالحسن علی بن محمد ہادی(ع) اور ان کے والد امام حسن عسکری(ع) کے وکلاء میں سے تھے. اور انہیں کے فرزند ابو جعفر محمد بن عثمان( جن کی شہرت خلافی ہے) امام زمانہ کے دوسرے نائب خاص ہیں اور یہ اس سے قبل امام ابو محمد حسن بن علی عسکری کے وکلاء میں سے تھے.

۳۸۸

نقی(ع) سے پوچھا کہ میں کس سے معاملہ کروں اور کس سے حاصل کروں اور کس کا قول قبول کروں؟ تو امام نے فرمایا کہ عمری میرا ثقہ ہے وہ تم تک میرے حوالے جو کچھ پہونچاتا ہے وہ میری ہی طرف سے ہوتا ہے وہ تم سے میرے حوالے سے جو کہتا ہے وہ میرا ہی قول ہوتا ہے لہذا اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو بیشک وہ ثقہ اور مامون ہے. اور مجھے ابو علی نے بتایا کہ اس نے بھی ابو محمد حسن عسکری(ع) سے اسی طرح کے سوالات کئے تھے تو حسن عسکری(ع) نے فرمایا کہ عمری اور اس کے فرزند دونوں ہی ثقہ ہیں یہ دونوں جو کچھ میرے حوالے سے ادا کریں گے کہ وہ میری جانب سے ادا کریں گے اور یہ دونوں کی پیروی کرو اس لئے کہ یہ دونوں ہی ثقہ اور مامون ہیں تو یہ دو اماموں کی باتیں تھیں (نص ہے) جو تمہارے بارے میں اتنی معتبر باتیں کہہ کے گئے ہیں.

عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں یہ سن کے شیخ ابو عمرو سجدہ میں گر گئے اور رونے لگے پھر کہا اچھا پوچھو کیا پوچھتے ہو؟ میں نے کہا کیا آپ نے ابو محمد حسن عسکری(ع) کے خلف( حجت آخر) کو دیکھا ہے کہنے لگے ہاں، خدا کی قسم ان کی گردن ایسی ہے یہ کہہ کہ کر اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا. میں نے کہا اب صرف ایک بات اور پوچھنی ہے کہا وہ بھی پوچھو، میں نے کہا نام کیا ہے؟ شیخ نے کہا تم پر نام کے بارے میں سوال حرام ہے کہہ دیا گیا ہے کہ نام پوچھنا حرام ہے اور یہ فتوی میرا نہیں حلال و حرام کرنے والا میں کون ہوں؟ مجھے اس کا حق حاصل نہیں ہے لیکن یہ حکم تو پہلے ہی سے( حسن عسکری(ع)) ہے اس لئے کہ بادشاہ وقت کو معلوم ہے کہ حضرت حسن عسکری(ع) مرگئے اور لا ولد مرے ان کی میراث تقسیم ہوگئی افسوس ان کی میراث وہ لے گیا جس کو اس کا کوئی حق نہیں تھا اب امام کے عیال پریشان ہیں کسی کو جرائت نہیں ہے کہ انہیں پہچنوائے یا ان تک کچھ پہنچائے اس لئے کہ جب تک نام باقی ہے تو طلب بھی واقع ہوگی اس لئے اللہ سے ڈرو اور نام کے بارے میں سوال کرنے سے بچو!(1)

......................................

1.کافی، ج1، ص329.330؛ غیبت شیخ طوسی، ص243.244؛ بحار الانوار، ج51، ص347.348.

۳۸۹

بہر حال میں نے آپ کے سامنے امام زمانہ(ع) کی امامت پر اور آپ کے حجت خدا ہونے پر قدرے تفصیل اور حسب گنجائش نصوص پیش کئے. ویسے یہ موضوع بڑا ہے اور شاخ در شاخ دور تک پھیلا ہوا ہے اس کا اکٹھا کرنا مرے بس میں نہیں اس موضوع پر کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں مزید تفصیل درکار ہو تو ادھر رجوع کریں.

میں اس منزل پر آکر ائمہ اثنا عشر کی امامت پر نصوص اور حدیثوں کے سلسلے کو منتہی کرتا ہوں. اب میرا موضوع وہ قرائن ہیں جو ائم اثنا عشر کی امامت پر ایک ٹھوس دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کی واقعیت اور تاریخی اور استدلالی حیثیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا وہ قرینے نقلی اور عقلی استدلال کی صلاحیت رکھتے ہیں. ان میں سب سے پہلے میں معجزات اور کرامات کو بطور دلیل پیش کرنا چاہتا ہوں.

ائمہ ہدی(ع) کے معجزات و کرامات

ائمہ ہدی(ع) سے جو معجزے صادر ہوئے ہیں ان کے ورود کا اندازہ بالکل انبیائے کرام کے معجزے و کرامات کی طرح ہے جیسے مردوں کو زندہ کرنا، مریضوں کو شفا دینا، اندھے اور مبروص کو مرض سے بری کرنا، حیوانوں کی زبان سمجھنا، غیب کی خبریں دینا، مستجاب الدعا ہونا، طی الارض کرنا، پتھروں سے گفتگو کرنا وغیرہ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ائمہ ھدی(ع) کو نظام کون و مکان میں خصوصی حق حاصل ہے اورعام انسانوں میں ان حضرات کو ایک خاص انفرادیت حاصل ہے.

افسوس کہ میرے پاس وقت نہیں ہے جو میں ایک ایک معجزے کا فردا فردا تذکرہ کروں اور میں اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا اس لئے کہ معجزات کی روایتیں حد تواتر تک پہنچتی ہیں اور شہرت کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی یقین کی منزل پر فائز ہیں اس کے علاوہ معجزات کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کس کو لکھا جائے اور کس کو چھوڑا جائے. البتہ سیرت ائمہ(ع) پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں کچھ تفصیل سے ان معجزات کا تذکرہ ہے.

۳۹۰

بہر حال ائمہ ہدی(ع) کی ذات اور ان حضرات کے مشاہد مقدسہ سے معجزات و کرامات کا صدور اس بات کا شاہد ہے کہ اللہ نے انہیں علم، قدرت اور بالخصوص غیب کا کچھ حصہ عنایت فرمایا ہے تاکہ ان کے دعوے کی تصدیق ہو اور ان کی امامت پر مضبوط نص حاصل ہو اور ان کی حجیت موکد ہو جائے اور کسی بھی بہانے باز کو ان کے ا نکار کا کوئی بہانہ ہاتھ نہ آئے. معجزات کا صدور یا تو اس لئے ہوتا تھا کہ بعض حضرات کے حق میں نص واضح نہیں تھی یا بعض اوقات نص واضح نہیں تھی کیونکہ خود امت کی طرف سے ان دعوائے امامت یا نص کو پوشیدہ کرنے یا مشکوک کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اور امام امام وقت سے تجاہل کرتی تھی لوگوں کے دلوں میں یہ مضمون مرکزیت حاصل کرلے اور اس طرح لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جائے اس کا شمار بدیہیات میں ہونے لگے. ائمہ ہدای(ع) کے دست مبارک یا ان ذوات مقدسہ سے معجزات کا صدور ان کی امامت پر ٹھیک اس طرح نص ہے جس طرح انبیاء کرام کے معجزات ان حضرات کی نبوتوں کی شہادت دیتے ہیں اس لئے کہ خدا کے لئے یہ فعل قبیح ہے کہ وہ جھوٹے دعوے پر معجزات کے صدور کی اجازت دے. اگر ائمہ ہدی(ع) اپنے دعوائے امامت میں جھوٹے ہوتے( معاذ اللہ) تو پھر یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اللہ ان کو معجزے دکھانے کی اجازت دیتا. اس لئے کہ اس سے جھوٹ کو حوصلہ افزائی اور گمراہی پھیلانے والوں کی ہمت کے بڑھانے کا خطرہ تھا.

معجزات کے دکھانے کا مقصد خاص طور سے ائمہ ہدی(ع) کی امامت پر حجت قائم کرنا اور ان حضرات کے مخالفین کو منہ توڑ جواب دینا بھی ہے جیسے علی ابن الحسین(ع) سے حجر اسود کو گفتگو یا کنکروں کےسخت چہروں پر مہر مبارک کا طبع ہو جانا.

جہاں تک معجزات کا سوال ہے تو علمائے شیعہ کے نزدیک معجزات بھی نص ہیں اور نص کے ہم پایہ ہیں لیکن شیعہ امام کی امامت اور اس کا تقدس دلوں میں اس کی اہمیت عام شیعوں کے نزدیک نص سے زیادہ معجزات ہی کام آتے ہیں.

1.اس لئے کہ عام آدمی کے لئے نص کا حاصل کرنا آسان نہیں ہے خصوصا اس لئے کہ دشمنان امامت کا خوف اور تقیہ نص حاصل کرنے سے مانع ہوتا ہے.

۳۹۱

2.اس لئے کہ معجزات اور خارق عادت عمل کی تاثیر دلوں پر نسبتا نصوص منقولہ سے زیادہ ہوتی ہے ظاہر ہے کہ خبر اور چشم دید واقعات میں فرق ہے یہی وجہ ہے کہ یہ معجزات حقیقت کو واضح کرنے میں اور امامیہ مذہب کو حق ثابت کرنے اور ان کے مذہب کی نشر واشاعت میں نص سے زیادہ کار آمد ثابت ہوتے ہیں.

ہم دیکھتے ہیں معجزات کا سلسلہ ان حضرات کی وفات کے بعد اور حضرت قائم(ع) کی غیبت کے بعد بھی جاری ہے شیعہ ان حضرات پر اعتماد کرتے ہیں ان کو مقام شفاعت میں پیش کرتے ہیں ان کے حق کو یاد دلاتے رہتے ہیں اور ان کے دعوے کی تصدیق کرتے رہتے ہیں چونکہ معجزات کا اثر چشم دید واقعات کی طرح ہمیشہ باقی رہتا ہے معجزات کی واقعیت اور ان کی حقیقت اتنی واضح ہے کہ وہ لوگ بھی جو اہل بیت(ع) کے حق کا اقرار نہیں کرتے یعنی شیعہ نہیں ہیں وہ بھی ان حضرات کی معجز نما شخصیت کے قائل ہیں. اس موضوع پر بات کی جائے تو بہت طویل ہوجائے گی انشاء اللہ تتمہ کلام میں اس موضوع پر مزید روشنی ڈالیں گے. فی الحال حقیقی قرائن میں سے دوسرا قرینہ ملاحظہ ہو.

امام اپنی امامت کا اقرار کرتے ہیں

( الثانی یعنی دوسرا قرینہ) ائمہ اثنا عشر(ع) کی امامت پر دوسرا قرینہ خود ان حضرات کا اپنی امامت کا اقرا ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ شیعوں کا جن مقدس ہستیوں کی امامت پر اعتقاد ہے ان پہ اعتقاد یوں ہی نہیں ہوگیا بلکہ ان حضرات نے دعوائے امامت کیا اس کے ساتھ ہی امامت کی ذمہ داریاں سنبھالیں، فرائض امامت انجام دیئے ان کے علاوہ اگر کسی نے دعوائے امامت کیا تو ان حضرات نے اس کو ظالم قرار دیا اور ان لوگوں سے اظہار برائت فرمایا جو لوگ ان سے محض خدا کی راہ میں ولا رکھتے تھے اور صرف ان کی ولایت کا اقرار کیا. اس طرح ان حضرات نے شیعوں کے اعتقاد کی تصدیق کی تاکہ ان کی امامت میں شک کی گنجائش باقی نہ رہ جائے.اس کے بعد اگر جمہور اہل سنت ان حضرات کی امامت کا انکار کرتے ہیں تو ان کے انکار کی ہماری

۳۹۲

نظر میں کوئی اہمیت اس لئے نہیں ہے کہ اس سوال کے جواب میں مقدمہ عرض کیا جا چکا ہے کہ امامت شیعوں کا خاص مسئلہ اور خاص عقیدہ ہے امامت کا مفہوم ہی شیعوں کے یہاں بہت خاص ہے( اور جمہور اہل سنت امامت سے جو سمجھتے ہیں وہ بہت عام سی بات ہے اس لئے شیعوں کے امام کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے سنی دلیلوں اور سنی طریقوں سے وارد نصوص کی نہ کوئی اہمیت ہے یہ ضرورت)ہمارے ائمہ کی امامت کے لئے صرف یہی دلیل کافی ہے کہ ہم ان کی امامت پر مطمئن اور ان کی امامت کے معتقد ہیں ہمارے پاس ایسی دلیلیں قرائن اور نصوص کی صورت میں موجود ہیں جن کی وجہ سے ہمیں اماموں کی امامت پر قطع حاصل ہے( اب اگر دوسرے لوگ مطمئن نہیں ہوتے ہوں تو یہ ان کی مشکل ہے ہماری نہیں.)

اس لئے کہ ائمہ ہدی(ع) اپنی امامت کا دعوی بے بنیاد نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے دعوائے امامت کی بنیاد:

1.خدا کی طرف سے منصوص ہے جو وحی کے طور پر نبی تک پہنچی اور نبی نے امت تک پہنچایا.

2.نبی کی میرات، علم کے مفاتیح اور ان کے اسرار، سابق امام لاحق امام کے حوالے کرتا رہا ہے تاکہ ذاتی کفایت اور شخصی امتیاز کے لئے دلیل رہے اور امام کی عظمت و طہارت ثابت ہوتی رہے.

اسی بنا پر ہمارا عقیدہ ہے کہ ہمارے اماموں کا دعوی کسی فکری جولان یا اجتہاد کی ایج نہیں ہے جس میں غلطی کا امکان ہو اور انسان اس غلطی کو خطا و اجتہاد کا لباس پہنائے بلکہ امامت کے دعویدار دو ہی قسم کے افراد ہوسکتے ہیں یا تو وہ ایسے سچے ہوں گے جس کی صداقت کمال تک پہونچی ہوئی ہو اور جو پاکیزگی نفس اور جلالت کردار میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہوں گے یا پھر وہ ایسے جھوٹے ہوں گے جن کا کام افترا پردازی اور نفس پروری، فریب کاری اورگمراہ کرنے کی سازش کے ساتھ خدا پر جرائت کرنا اور اس کی ہتک حرمت کرنا ہوگا. ائمہ اثنا عشر کے اندر مذکورہ بالا صفات میں دوسرے نمبر کی صفات نہیں پائی جاتی ہیں کیونکہ آیت تطہیر نے ان حضرات کی مکاری، فریب کاری، ظلم، گمراہی، دھوکا، فریب، افتراء پردازی وغیرہ سے پا

۳۹۳

کیزگی کا اعلان کردیا. اس لئے یہ طے ہے کہ وہ حضرات اپنے دعوائے امامت میں سچے ہیں اور ان حضرات کا احترام تمام امت پر فرض ہے کہ عام مسلمان انہیں مقدس اور صاحب جلالت شیعوں کو مانتا بھی ہے.

مزید یہ کہ تیسرے سوال کے جواب میں عرض کیا جا چکا ہے کہ شیعہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے مخصوص ہیں اور ان حضرات کے ساتھ ہی عمل کرتے رہے. اسلام کے صدر( اول) ہی میں شیعیان امامیہ نے اہل بیت اطہار(ع) کی امامت کا اعلان کردیا تھا اور یہ شیعہ اپنے اسی عقیدہ امامت سے پہچانے جاتے تھے. شیعوں نے صدر اسلام ہی میں ائمہ اہل بیت(ع) کو نصوص، معجزات اور عصمت کے ذریعہ ثابت کردیا تھا اور دوسروں کو قائل کرنے کے لئے انہیں مخصوص دلیلوں کا سہارا لیا کرتے تھے یہاں تک کہ شیعہ شعراء اس عقیدے کو اپنے اشعار میں نظم کرتے تھے اور یہ عقیدہ ان سے اس قدر مخصوص اور مشہور ہوچکا تھا کہ شیعوں کے دشمن اسی عقیدے کی بنا پر ان پر طعن و تشنیع کرتے تھے.

اہل سنت ائمہ اثنا عشر کی شخصیت کو قبول کرتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں

( الثالث یعنی تیسرا قرینہ) شیعوں کا ائمہ اثنا عشر کے لئے دعوائے امامت صرف ایک دعوی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہشت پہلو( یعنی وسیع) عقیدہ ہے جو اپنے دامن میں بہت سے معانی سمیٹے ہوئے ہیں، کیونکہ شیعوں کا عقیدہ ہے:

1.ائمہ اہل بیت(ع) مستحق امامت ہیں اور ان کی امامت ہی منصوص من اللہ ہے ان کے مقابل میں جو بھی امتی خلافت کا دعوی کرتا ہے وہ جھوٹا ہے اس کی امامت غیر شرعی ہے چاہے وہ ان حضرات کے پہلے ہوا ہو یا ان کے بعد کا معاصر.

2.ائمہ اثنا عشر امت کے تمام افراد سے ممتاز ہیں ان کا علم ان کی معرفت اور ان کے بلند اخلاق صرف انہیں کو حاصل ہیں وہ ہر جہت سے کامل ہیں یہاں تک کہ مرتبہ عصمت پر فائز ہیں اور نبی ہی کی طرح معصوم ہیں.

۳۹۴

3.چونکہ ائمہ اہل بیت اللہ کے نزدیک مقدس اور عظیم الشان حیثیت کے حامل ہیں اس لئے اللہ کے خاص لطف و کرم اور عنایت کے مرکز ہیں. یہی وجہ ہے کہ خدا کے نزدیک وہ تمام امت سے افضل قریب تر اور مخصوص ہیں ان کی شخصیت خدا سے اتنی قریب ہے کہ اس نے انہیں صلاحیت اعجاز بخشی ہے اور مفاتیح (کنجیاں) علم و قدرت عنایت فرمائے ہیں.

4.ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی موالات( یعنی تولا، قلبی محبت) اساس دین ہے اور یہ کہ جنت میں داخل ہو ہی نہیں سکتا مگر وہ جو ان کی معرفت رکھتا ہو اور جس کو وہ پہچانتے ہوں. اور جہنم میں جاہی نہیں سکتا مگر وہ جو ان کا انکار کرتا ہو یا وہ اس کا انکار کرتے ہوں.

یہ دعوی اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ صدر اول ہی سے شیعوں کی طرف سے مشہور اور ان سے مخصوص ہے.

اسی طرح یہ بات بھی صدر اسلام کی تاریخ سے ہی دیکھنے میں آرہی ہے کہ شیعہ اپنے وجود کو ہر دور میں منواتے رہے ہیں اور امت مسلمہ کے ہر طبقے میں ان کی اپنی ایک سماجی حیثیت رہی ہے ساتھ ہی شیعہ ہر دور میں اپنے دعوا کو ثابت کرتے رہے ہیں اور اس پر دلیلیں دیتے رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی گردنیں ان کی طرف اٹھتی رہی ہیں.

حالانکہ یہ باتیں سنی عقائد کے بارے میں نہیں کہہ سکتے ان کے یہاں امامت کا اگر کوئی تصور ہے بھی تو اس کےلئے مذکورہ بالا قرینے ہرگز نہیں پائے جاتے، بلکہ امامت نام ہے بادشاہ غالب کخ اقتدار کا جو ڈرا دھمکا کے منوایا جاتا ہے. یا ان علماء سے جن کی بات اہل سنت کے یہاں سنی جاتی ہے اسی طرح جو امت میں صاحب شان سمجھے جاتے ہیں ان کو مجبور کر کے اپنی امامت کا فتوی لیا جاتا ہے. یا پھر امامت نام ہے خلفاء ثلاثہ کے گرد ہجوم کا، ثلاثہ کی خلافت کو ثابت کرنے کے لئے ان کی شان کو بڑھایا جاتا ہے اور یہ عقیدہ خلافت و امامت بھی اس لئے ہے کہ خلفاء ثلاثہ دشمن اہل بیت(ع) تھے یعنی خلافت و امامت کی بنیاد ہی دشمنی اہل بیت(ع) پر ہے. بہر حال اہل سنت کے پاس امامت کا وہ صاف ستھرا، پاک و پاکیزہ عقیدہ نہیں ہے اور نہ ممکن ہے بلکہ اثنا عشری شیعوں کے علاوہ دوسرے

۳۹۵

امامت کے دعویداروں کے پاس بھی اتنا صاف ستھرا عقیدہ نہیں پایا جاتا حالانکہ وہ لوگ بھی اہل بیت(ع) ہی سے متعلق ہیں( جیسے زیدیہ وغیرہ)اس کے علاوہ وہ ائمہ اہل بیت(ع) کی امامت پر شاہد خود ان حضرات کے کردار ہے وہ حضرات کوئی پردے میں تو رہنے والے تھے نہیں ان حضرات نے عام انسانوں کے درمیان زندگی گزاری ہے یہ ان سے الگ رہے نہ دور رہے بلکہ عوام کے درمیان رہے اور معاشرة کا ایک جزئ بن کے رہے اگر ان کا کردار بے عیب نہیں ہوتا اور ان کی شان عوام سےممتاز نہیں ہوتی اور اس کا سلوک بے عیب نہیں ہوتا بلکہ وہ تمام انسانوں جیسے ہوتے ان سے علمی غلطیاں ہوتیں اور ان کے عمل میں خامیاں پائی جاتیں تو ا ن کے دشمن خاموش نہیں بیٹھتے بلکہ ان کی سیرت کے کمزور پہلوئوں کو لیکے اچھلنے لگتے اور چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو بھی بڑھا چڑھا کے پیش کرتے تاکہ ان پر طعن و تشنیع کرسکیں اور ان کی شخصیت کو ضعیف اور مسخ کرسکیں تاکہ لوگوں کے دلوں سے ان کی عظمت ختم ہوجائے. کیا ایسا نہیں ہوا ہے؟ کیا محض اخوت کے نام پر ان کو بدنام کرنے کی سارش نہیں کی گئی ہے کیا اموی سیاست نے امیرالمومنین(ع) سے دشمنی کو جائز قرار دینے کے لئے خون عثمان کا الزام جناب امیر کے سر پر نہیں رکھا ہے اور اپنے سیاسی ڈرافٹ کو کیش نہیں کرایا ہے آپ سوچیں کہ جب ایک بے بنیاد اور چھوٹی سی بات کو لیکے دشمنوں نے اتنا شور مچایا تو خدا نخواستہ ائمہ کے اندر اگر واقعی کوئی خرابی کوئی کمزوری یا کردار میں کوئی سقم ہوتا تو کیا برادران اہل سنت خاموش بیٹھتے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ائمہ اہل بیت(ع) کے کردار پر اہل سنت کی نظر ہمیشہ تنقیدی انداز میں رہی ہے لیکن کسی ضعیف سے ضعیف روایت میں بھی ائمہ اہل بیت(ع) کے نقص کا کہیے کوئی تذکرہ نہیں ہے یا کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی جو خلاف عصمت ہو حالانکہ صدر اسلام سے آج تک میڈیا اور وسائل تبلیغ ہمیشہ شیعہ دشمن عناصر کے ہاتھ میں رہے ہیں حکومت ان کی رہی ہے علماء ان کے رہے مفسرین و محدثین ان کے رہے لیکن ہمارے اماموں کے کردار میں کوئی خامی اور کمی نہیں تلاش کر سکے اگر کوئی خامی مل جاتی تو بخدا بہت پروپیگنڈا کیا جاتا. یہ اہم ترین قرینہ ہے ائمہ اثنا عشر کی امامت کے ہونے کا کہ دشمن تلاش کرنے کے با وجود ان میں کوئی سقم نہیں پاسکا بلکہ اللہ نے اپنے طریقوں سے ائمہ اہل بیت(ع) کی امامت کو مضبوط کیا، اپنی خاص عنایت کا مرکز بنایا، انہیں

۳۹۶

لغزشوں اور کمزوریوں سے دور رکھا، انہیں ایسا پاک و پاکیزہ بنایا جیسا پاکیزگی کا حق تھا، دشمنوں کے راستے بند کردئے ان کی سازشین ناکام کردیں اور ان کی کوشش پر پانی پھیر دیا، اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ شیعوں کےساتھ اہل سنت بھی ان وجاہت و منزلت اور ان کی وقعت و عظمت کے قائل نظر آتے ہیں ان کی شخصیتیں دوستوں کے ساتھ دشمنوں کے سامنے بھی مسلمہ حیثیت اختیار کرچکی ہیں، گردنیں ان کے احترام میں جھکی ہوئی ہیں اور ا ن کے تقدس و جلالت اور تقدیس و عظمت پر امت مسلمہ متفق ہوچکی ہے.

حالانکہ دشمنوں کے دل اب بھی ان کی حقانیت کا اقرار کرنے پر تیار نہیں ہیں، ان کی تعلیم اور مفاہیم کو سمجھنے کی ضرورت نہیں محسوس کرتے سینوں میں ان کے شیعوں کی طرف سے بغض بھرا ہوا ہے اور عداوت کا ایک طوفان ہے جو دلوں سے اٹھ رہا ہے محض اس لئے کہ شیعہ ائمہ اہل بیت(ع) کی امامت کو دلیلوں سے ثابت کرتے ہیں اممت اثنا عشر کو مرکزیت دیتے ہیں انہوں نے امامت کی تعلیم کو جاری کیا اور اس کی ترویج کرتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ارباب اقتدار نے ہمیشہ ائمہ اہل بیت(ع) کی زندگی کو الگ کیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہے ہیں حالانکہ ان کے پاس ظلم کے جواز کے لئے سوائے عداوت اہل بیت(ع) کے کوئی دلیل نہیں تھی.

ظلم کا یہ سلسلہ ائمہ اہل بیت(ع) سے آگے بڑھا تو ان کے شیعوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتا چلاگیا جو کشتی نجات کے سوار ہیں. شیعہ ہر دور میں مورد عقاب قرار پائے اور ہر زمانے کے حکام جور نے شیعوں کو سزا دینا ضروری سمجھا. شیعوں کا بدنام کرنا ان کے کردار کو مخدوش کرکے پیش کرنا ان پر طعن و تشنیع کرنا ہر حکومت کے دستور میں شامل رہا حالانکہ عقل کہتی ہے کہ مخالف کو مادی طور پر وہی نقصان پہونچتا ہے جس کے اصول بے جان ہوتے ہیں اور جس کے نظریوں میں دم نہیں ہوتا. جیسا کہ زین العابدین(ع) نے اپنی دعا میں ایک جملہ ارشاد فرمایا ہے کہ کمزور ظلم کا محتاج ہے( یعنی جو اندرونی طور پر کمزور ہوتا ہے وہ ظلم کر کے اپنی بات منواتا ہے.)(1)

..............................

1.صحیفہ سجادیہ، اڑتالیسویں دعا، یوم قربان اور جمعہ کے مواقع پر آپ کی دعا.

۳۹۷

مامون عباسی کا نظریہ اور ایک بھیانک سازش

ائمہ اہل بیت(ع) پر ہر حکومت کی طرف سے ظلم و جور کا سلسلہ جاری رہا لیکن مامون عباسی ایک زبردست سیاست داں اور زمانہ ساز بادشاہ تھا اس نے اپنے دور میں امام وقت کو رخ بدل کر جملہ کہا تاکہ دنیا کے سامنے اس کی دشمنی اہل بیت(ع) بھی ظاہر نہ ہو اور امامت سے اپنے طور پر محروم بھی کردے اس لئے اس کے فتنہ پرداز ذہن نے ایک منفرد سازش رچی سازش یہ تھی کہ امام وقت کو ولی عہد سلطنت بنا کے آپ کے دل میں دنیا اور اقتدار کی خواہش کو پیدا کیا جائے اور پھر اس کو حوصلہ افزائی کے جائے آپ کے سامنے سلطنت کو پیش کیا جائے ظاہر ہے جب آپ اقتدار قبول کر لیں گے تو اقتدار کے تقاضوں کو بھی پورا کریں گے یعنی سلاطین کی طرح ظلم و غرور اور دوسری خامیاں بھی آپ کے اندر آجائیں گی اور لوگوں کے سامنے آپ کی پاکیزہ شہرت مسخ ہوجائے گی اور جلالت و تقدیس مجروح ہوجائے گی اس لئے اس نے امام رضا(ع) کی خدمت میں اپنی ولی عہدی کی پیش کش کی.

حضرت ابو الحسن الرضا(ع) سے مامون کا مکالمہ

ابوصلت ہروی نے تو اس سلسلے میں ایک طویل مکالمہ پیش کیا ہے جس میں مامون، امام رضا(ع) کے سامنے سلطنت میں مداخلت کی پیشکش کرتا ہے اور امام رضا(ع) اس سے انکار کرتے ہیں( اس مکالمہ کے کچھ خاص گوشے پیش کئے جاتے ہیں.)

مامون: فرزند رسول میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس امر( منصب اور عہدے) سے محض اس وجہ سے انکار کر رہے ہیں کہ آپ احساس کمتری کے شکار ہیں اور آپ اس امر ( ولی عہدی) سے اس لئے انکار کر رہے ہیں کہ لوگ یہ کہنے لگیں گے کہ امام رضا(ع) کا دل دنیا میں لگ گیا ہے.

امام: مامون خدا کی قسم جب سے میرے رب نے مجھے بنایا ہے میں نے جھوٹ کبھی نہیں بولا نہ میں نے کبھی دنیا سے دل لگایا، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس پیشکش سے تیرا مقصد کیا ہے؟

۳۹۸

مامون: میرا کیا مقصد ہے؟

امام: پہلے وعدہ کر کہ جب میں سچ بولوں گا مجھے تو کوئی نقصان نہیں پہونچائے گا.

مامون: میں وعدہ کرتا ہوں امان دوں گا.

امام: اس پیشکش سے تیرا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ کہنے لگیں کہ فرزند موسی رضا(ع) نے دنیا کی لالچ میں ولی عہدی قبول کر لی، زاہد نہیں ہیں بلکہ دنیا ان سے دور رہنا چاہتی تھی. دیکھا نہیں! کہ انہوں نے خلافت کی لالچ میں ولی عہدی قبول کر لی.یہ سن کر مامون غضبناک ہوگیا اور کہنے لگا آپ مجھ سے ہمیشہ ایسی ہی باتیں کہتے ہیں جو مجھے ناگوار ہوتی ہیں اور پھر میری سزا سے بچ بھی جاتے ہیں. میں خدا کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ یا تو آپ ولی عہدی قبول کریں ورنہ میں آپ کو اس پر مجبور کروں گا اور اگر آپ قبول نہیں کریں گے تو میں آپ کی گردن مار دوں گا. امام نے فرمایا خدا نے مجھے اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا ہے اگر تو ارادہ کرہی چکا ہے تو پھر جو تجھے اچھا لگے وہی کر! میں اس شرط پر ولی عہدی قبول کرتا ہوں کہ نہ کسی کو کوئی منصب دونگا اور نہ معزول کروں گا نہ کسی قانوں کو توڑوں گا نہ کسی طریقہ کو ختم کروں گا، حکومتی مسائل میں دور سے مشورہ دوں گا. مامون ان شرائط پر راضی ہوگیا اور امام رضا(ع) کو اپنا ولی عہد بنادیا جب کہ آپ اس بات سے کراہت محسوس کر رہے تھے.

مامون کا مقصد کیا تھا؟ نوبختی سے پوچھئے

محمد بن یحیی صولی کہتے ہیں : احمد بن عبداللہ کی باتیں مختلف جہتوں سے صحیح ثابت ہوئیں انہیں جہتوں میں سے ایک جہت بہ بھی ہے کہ عون بن محمد نے فضل بن سہل نوبختی یا اس کے بھائی کے بارےمیں خبر دی ہے کہ جب مامون نے امام رضا(ع) کو ولی عہد بنانے کا ارادہ کیا تو میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں پتہ چلائوں کہ مامون اس معاملہ میں مخلص ہےیا نہیں یعنی اس امر کو اتمام تک پہونچانا چاہتا

۳۹۹

ہے یا محض سیاست ہے اور دکھاوا کر رہا ہے لہذا میں نے ایک خادم کو جو اس کے پوشیدہ خطوط لکھا کرتا تھا اور لے جایا کرتا تھا یہ خط لکھ کے دیا کہ ذوالریاستیں ولی عہدی کا عقد اس وقت کرنا چاہتا ہے جب سرطان طالع ہے اور مشتری برج شرف میں ہے اور جب سرطان کے طالع میں مشتری شرف پاتا ہے تو وہ برج برج منقلب ہوتا ہے کسی بھی کام کا انعقاد کیا جائے تو وہ پورا نہیں ہوتا ہے اس کے علاوہ مریخ برج میزان میں ہے اور یہ چوتھی نحوست ہے اور وتد زمین یعنی زمین کی کیل اور اس کا مرکزی حصہ عاقبت کے گھر میں ہے یہ تمام حالات کسی بھی عقد کو الٹ دینے کا سبب ہیں اور معقود لہ کو نکبت اور شکست حاصل ہوگی. میں نے امیرالمومنین(ع) کو یہ بات بتا دی ہے تاکہ اگر کوئی دوسرے سے یہ باتیں معلوم ہوں تو مجھ پر عقاب نہ ہو.

جواب میں مامون نے لکھا کہ جب میرا جواب تمہیں ملے تو اس کو خادم کےساتھ میرے پاس واپس بھیج دینا خبردار! تم کو جس بات کا پتہ چل چکا ہے دوسرے کو معلوم نہ ہو اور ذوالریاستین اپنے ارادہ سے باز نہ آجائے اگر ایسا ہوا تو اس گناہ کا ذمہ دار میں تمہیں سمجھوں گا، لہذا اس کی سزا بھی تمہیں ہی بھگتنی پڑے گی. بادشاہ کا یہ پیغام پڑھ کے مجھ پر دنیا شق ہوگئی اور میں نے تمنا کی کہ کاش میں نے اس کو یہ بات نہ لکھی ہوتی. پھر مجھے معلوم ہوا کہ فضل بن سہل ذوالریاستین بھی اس امر سے متنبہ ہوگیا ہے اور وہ اب اپنے ارادے سے پھر چکا ہے وہ بھی علم نجوم میں اچھی دسترس رکھتا ہے جب مجھے معلوم ہوا کہ فضل بن سہل نے ارادہ بدل دیا ہے تو اس کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا مشتری سے زیادہ سعد ستارہ بھی آسمان میں کوئی ہے؟ اس نے کہا نہیں. میں نے کہا پھر تم نے جو ارادہ کیا تھا اس پرعمل کرو، اس لئے کہ فلک کو ابھی سعدترین سے گزرنا ہے لہذا ولی عہدی کا انعقاد ہوا اور جب تک یہ کام نہیں ہوگیا میں مامون کے خوف سے خود کو زندوں میں شمار نہیں کررہا تھا.(1)

................................

1.عیون اخبار الرضا، ج1، ص159؛ مرج المہموم، ص142.143؛ بحارالانوار، ج59،ص132.133.

۴۰۰