اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 291
مشاہدے: 35285
ڈاؤنلوڈ: 4305


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35285 / ڈاؤنلوڈ: 4305
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اور اپنے پروردگار کے حکم کی مخالفت کی طرح رسول(ص) کے حکم کی مخالفت کرتی رہی. آپ کے جانشین سے جنگ کی انہی کی وجہ سے بڑے بڑے فتنوں نے سر اٹھایا کہ جن سے مسلمان بخوبی آگاہ ہیں جن میں ہزاروں (بے گناہ) مسلمانوں کا خون بہہ گیا وہ اسلام کی مشہورترین عورت ہوگئی. انہی سے احکام لئے جانے لگے. لیکن فاطمہ زہرا سیدہ نساء العالمین(ع) کہ جن کی ناراضگی سے خدا ناراض ہوتا ہے اور جن کی خوشنودی سے خدا راضی ہوتا ہے. وہ نسیا منسیا ہوگئیں. مخفیانہ طور پر رات میں دفن کی گئیں. جبکہ انہیں جلانے کی دھمکی دی گئی، بطن مبارک میں بچہ کو شہید کردیا گیا. اہلسنت میں سے ایک مسلمان بھی ان کی کسی ایک حدیث سے واقف نہیں ہے کہ جو انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے نقل کی ہے.

اسی طرح یزید ابن معاویہ اور زیاد انب ابیہہ، ابن مرجانہ، ابن مردان، اور حجاج اور ابن عاص وغیرہ جو قرآن اور نبی(ص) کی زبان میں فاسق و ملعون ہیں یہ سب امیرالمومنین اور مسلمانوں کے ذمہ دار بن گئے لیکن حسن(ع) و حسین(ع) سیدا شباب اہل الجنہ اس امت کے نبی(ص) کی اولاد، عترت رسول(ص) جو امت کے لئے باعث امان تھے انہیں قتل کیا گیا. قید میں ڈالا گیا، زہر دیا گیا.

اسی طرح ابو سفیان جیسے منافق کہ جو ہمیشہ رسول(ص) کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکانے میں پیش پیش رہا اس کی شان میں قصیدے پڑھے جانے لگے. اس کا شکر ادا کیا جانے لگا، یہاں تک کہ یہ کہا جانے لگا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوگیا اس نے امان پائی، لیکن ابوطالب کہ جنہوں نے پوری عمر ہر طرح نبی(ص) کی حمایت و مدد کی اور حفاظت و پرورش کی، جو نبی(ص) کے مشن کی حمایت و مدد کی بنا پر اپنے خاندان والوں کی تک و تاژ کا نشانہ بنے رہے یہاں تک کہ نبی(ص) کے ساتھ تین سال تک شعب مکہ میں مقید رہے اور اسلام کی مصلحت کے پیش نظر

۱۴۱

اپنا ایمان چھپائے رہے تاکہ قریش سے کچھ رسم و راہ باقی رہے اور وہ مسلمانوں کو تکلیف نہ پہونچائیں. ابوطالب(ع) کی مثال مومن آل فرعون کی سی ہے کہ جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے. لیکن ان کی جزا جہنم کے شعلے بتائے کہ جہاں ان کے پاؤں جلا کر دماغ کو پگھلا دیا جائے گا. اسی طرح معاویہ ابن ابی سفیان طلیق ابن طلیق العین ابن اللعین، احکام خدا اور رسول(ص) کا مذاق اڑانے والا اسلام کی اہانت کرنے والا. اپنے مقصد کے حصور کے لئے نیکو کار لوگوں کو تہ تیغ کرتا ہے اور رسول(ص) پر کھلم کھلا لعنت کرتا ہے.(1) اس شخص کو کاتب وحی کہا جانے لگا ( آج بھی اہل سنت کہتے ہیں) کہ خدا نے اپنی وحی کا امین جیرئیل، محمد(ص) اور معاویہ کو قرار دیا ہے. یہاں تک کہ سیاسی اور صاحب حکمت و تدبیر بن گیا. لیکن ابوذر غفاری کہ جن سے زیادہ سچے انسان پر نہ آسمان نے سایہ کیا اور نہ زمین نے اٹھایا. وہ فتنہ پرور ہوگئے. انہیں زد و کوب کیا جاتا ہے اور ربذہ جلا وطن کردیا جاتا ہے. سلمان و مقداد اور عماء و حذیفہ بلکہ ہر مخلص صحابی کہ جو حضرت علی علیہ السلام سے محبت رکھتے تھے انہیں قتل کیا گیا ڈرایا گیا خوفزدہ کیا گیا.اسی طرح خلفاء کے پیروکار معاویہ کے حامی اور ظالم حکومت

____________________

1.اسی سلسلہ میں شاعر کہتا ہے:

عاندوا احمد(ص).. و عادوا علیا(ع) و تولوا منافقا و غویّاً

و اسرّوا سب النبی نفاقا حین سبّوا جهرا اخاه علیاً

انہوں نے" احمد(ص)" سے عناد اور علی(ع) سے عداوت کی اور منافق و گمراہوں سے محبت و دوستی کا رشتہ قائم کیا منافقانہ انداز سے نبی(ص) پر مخفی طور سے سب و شتم کیا جب کہ آپ(ص) کے بھائی علی(ع) پر کھلم کھلا لعنت کی.

۱۴۲

لیکن ایجاد کردہ مذاہب کے پجاری اہلسنت والجماعت بن گئے حالانکہ انہوں نے اسلام کو تباہ کیا اور جس نے ان کی مخالفت کی اس کو کافر کے لقب سے نوازا، خواہ ائمہ اہلبیت طاہرین(ع) کا اتباع کرنے والا ہو.

لیکن مکتب اہلبیت(ع) کا اتباع کرنے والے باب مدینہ العلم کے پیروکار جو سب سے پہلے اسلام لائے، جس کے ساتھ ساتھ حق رہتا تھا، اور شیعیان اہلبیت(ع) ائمہ معصومین(ع) کی اقتدا کرنے والے بدعتی اور گمراہ ہوگئے. اور ان کی مخالفت کرنے والے ان سے جنگ و جدال کرنے والے مسلمان ٹھہرے.وَ لَا حَوْلَ‏ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ.

ارشاد ہے:

( وَ إِذا قِيلَ‏ لَهُمْ‏ لا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قالُوا إِنَّما نَحْنُ مُصْلِحُونَ* أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَ لكِنْ لا يَشْعُرُونَ* وَ إِذا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَما آمَنَ النَّاسُ قالُوا أَ نُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ وَ لكِنْ لا يَعْلَمُونَ ) بقرہ/ آیت/13

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ برپا کرو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں حالانکہ یہ سب مفسد ہیں اور اپنے فساد کو سمجھتے بھی نہیں ہیں، جب ان سے کہا جاتا ہے کہ دوسرے مومنین کی طرح ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کہ ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان اختیار کر لیں حالانکہ اصل میں یہی بیوقوف ہیں اور انہیں اس کی واقفیت بھی نہیں ہے.

اب ہم عائشہ سے رسول(ص) کی محبت کے موضوع کو چھیڑیں گے

۱۴۳

کیونکہ انھوں نے رسول(ص) سے آدھا دین حاصل کیا تھا اور آپ خود فرمایا کرتے تھے کہ آدھا دین تم اس حمیرہ سے حاصل کرو. یہ حدیث باطل ہے اس کے صحیح ہونے کی کوئی بنیاد نہیں ہے. اور نہ ہی عائشہ کی بیان کردہ روایت مضحکہ خیز احکام کے بارے میں صحیح ہے. رسول اللہ(ص) ایسی حدیث بیان نہیں کرتے تھے. اس سلسلہ میں رضاعت کبیر والا مسئلہ ہمارے لئے کافی ہے. کہ جس کو خود عائشہ نے رسول(ص) سے نقل کیا ہے اور اس کو مسلم نے اپنی صحیح اور مالک نے اپنی موطا میں نقل کیا ہے. اس سلسلہ میں ہو اپنی کتاب" لاکون مع الصادقین" میں سیر حاصل بحث کرچکے ہیں. تفصیل بحث کو شائقین اسی میں ملاحظہ فرمائیں.

اس روایت شنیعہ کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ نبی(ص) کی تمام ازواج نے رضاعت کبیر پر عمل کرنے سے انکار کیا ہے اور اس حدیث کا انکار کیا ہے یہاں تک کہ اس روایت کا راوی بھی ایک سال تک اس روایت کو لفظی طور پر بیان کرنے سے ڈرتا رہا.

اور جب ہم صحیح بخاری کے باب" یقصر من الصلاة اذا خرج من موضعه" کے باب میں دیکھتے ہیں تو وہ زہری سے اور زہری نے عروہ سے اور عروہ عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ:

سب سے پہلے جو دو رکعت نماز فرض کی گئی اور پڑھی گئی وہ نماز سفر ہے، حالانکہ وطن میں پوری نماز پڑھی جاتی ہے، زہری کہتے ہیں : میں نے عروہ سے کہا کہ عائشہ کو کیا ہوگیا تھا کہ وہ پوری نماز پڑھتی تھیں؟ انھوں نے کہا کہ عثمان کی طرح انہوں نے بھی تاویل کر لی تھی.

مسلم نے اپنی صحیح کے باب" صلاة المسافرین و قصرها " میں

۱۴۴

اور بخاری نے اس سے واضح عبارت میں زہری سے اور زہری نے عروہ سے اور عروہ نے عائشہ سے اس طرح نقل کیا ہے کہ:

سب سے پہلے جو دو رکعت نماز فرض کی گئی اور پڑھی گئی وہ نماز سفر ہے حالانکہ حضر میں نماز پوری ہے. زہری کہتے ہیں کہ میں نے عروہ سے کہا کہ عائشہ کو کیا ہوگیا کہ وہ سفر میں پوری نماز پڑھتی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ عائشہ نے ایسے ہی تاویل کر لی جیسے عثمان نے کی تھی.

یہ تو واضح تناقض ہے کہ ایک مرتبہ عائشہ روایت کرتی ہیں کہ نماز مسافر دو رکعت فرض کی گئی ہے لیکن خدا کے حکم اور رسول(ص) کے عمل کی مخالفت کرتی ہیں اور عثمان کی سنت کو زندہ رکھنے کے لئے احکام خدا ورسول(ص) میں رد و بدل کردیتی ہیں. ایسے ہی اور بہت سے احکام اہلسنت کی صحاح میں نظر آتے ہیں لیکن وہ انہیں سمجھ نہیں پاتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ تر ابوبکر وعمر کی تاویل اور عثمان و عائشہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کی تاویل پر عمل کرتے ہیں.

پس جب حمیرا نے رسول(ص) نے نصف دین حاصل کیا اور جیسے چاہا احکام خدا میں تاویل کر لی تو میں سمجھتا ہوں کہ رسول(ص) ان سے قطعی راضی نہ ہونگے اور لوگوں کو ان کی اقتدا کا حکم نہ دیا ہوگا. صحیح بخاری اور اہلسنت کی دیگر صحاح میں ایسا اشارہ ملتا ہے کہ عائشہ کی اتباع میں خدا کی معصیت ہے.

لیک جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول(ص) عائشہ سے اس لئے الفت رکھتے تھے کہ عائشہ سے نکاح کرنے سے قبل جبرئیل ان (عائشہ) کی صورت میں آنحضرت(ص) کے پاس آئے اور نکاح کے بعد اسی وقت نازل ہوتے تھے جب رسول(ص) عائشہ کے گھر میں تشریف فرما ہوتے تھے. یہ ایسی روایات ہیں جنہیں سن کر

۱۴۵

دیوانوں کو بھی ہنسی آجائے. میں نہیں جانتا کہ جس صورت میں جبرئیل نازل ہوتے تھے وہ فوٹو گرافی والی صورت تھی یا لکڑی کا مجسمہ تھا. اس لئے کہ اہلسنت اپنی صحاح میں روایت کرتے ہیں کہ ابوبکر نے عائشہ کو خرموں کا طبق دے کر آنحضرت(ص) کی خدمت میں بھیجا تا کہ نبی(ص) انہیں دیکھ لیں کیونکہ ابوبکر نے رسول(ص) سے یہ خواہش کی تھی کہ آپ میری بیٹی سے نکاح کر لیجئے، کیا وہاں کوئی ایسا داعی تھا کہ جس کی بنا پر جبرئیل عائشہ کی صورت میں نازل ہوتے جبکہ عائشہ آپ(ص) کے گھر سے چند میٹر کے فاصلے پر ہی رہتی تھیں. میرا عقیدہ ہے کہ ماریہ قبطیہ کی صورت میں جبرئیل کو نازل ہونا چاہئیے تھا. کیونکہ وہ رسول(ص) سے دور مصر میں رہتی تھیں اور کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ آجائیں گی، وہ اس بات کی زیادہ مستحق تھیں کہ جبرئیل ان کی صورت میں رسول(ص) کے پاس آئیں اور ان سے پیدا ہونے والے ابراہیم کی بشارت دیں.

لیکن یہ روایات سب تو عائشہ کی گڑھی ہوئی ہیں کہ جن کے پاس اپنی سوتنوں پر فخر کرنے کے لئے کوئی چیز نہ تھی مگر یہی خیالی واقعات اور داستان، یا یہ روایات بنی امیہ نے عائشہ سے گڑھوائیں تا کہ ان کے ذریعہ سادہ لوح لوگوں میں عائشہ کی فضیلت کا بول بالا کیا جائے.

اور یہ بات کہ جبرئیل محمد(ص) کے پاس اسی وقت تشریف لاتے تھے جب آپ(ص) عائشہ کے گھر میں آرام فرما ہوتے تھے تو یہ پہلی بات سے بھی قبیح اور نفرت آور ہے. اور یہ بات قرآن کریم سے آشکار ہے کہ جب انہوں (عائشہ) نے رسول(ص) کے خلاف منصوبہ بنایا تو خدا نے انہیں تہدید کی اور اسی طرح انہیں جبرئیل اور صالح مومنین اور ملائکہ کے ذریعہ ڈرایا.

پس ہمارے علماء اور بزرگوں کے اقوال خیالی اپج ہیں اور ظن حق کے سلسلہ میں ذرہ برابر فائدہ نہیں پہونچاتا ہے.

۱۴۶

ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو ہمیں بھی بتاؤ تم تو صرف خیالات کا اتباع کرتے ہو اور اندازوں کی باتیں کرتے ہو.

عائشہ نبی(ص) کے بعد

جب ہم نبی(ص) کی وفات کے بعد ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں، جب ان کے لئے کھلی فضا تھی اور جب ان کے والد ابوبکر امت اسلام کے خلیفہ اور رئیس بن گئے تھے اور عائشہ کو اسلامی حکومت میں بے پناہ عظمت ملی تھی کیونکہ رسول(ص) ان کے شوہر اور والد رسول(ص) کے خلیفہ تھے.

یا جیسا کہ خود ان کا گمان ہے یا جیسا کہ انہیں یہ توہّم ہوگیا تھا کہ وہ ازواج نبی(ص) میں سب سے افضل ہیں اور یہ افضلیت کسی خاص چیز کی بنا پر نہیں بلکہ صرف اس بات کی بنا پر کہ رسول(ص) نے ان سے حالت بکر میں نکاح کیا تھا. ( معاذ اللہ) ان کے علاوہ رسول(ص) کو اور کوئی عورت باکرہ نہیں ملی تھی اور جب رسول(ص) نے داغِ جدائی دیا تو اس وقت یہ پورے شباب پر تھیں. رسول(ص) کی وفات کے وقت عائشہ کی عمر زیادہ سے زیادہ اٹھارہ سال تھی اس طرح وہ آنحضرت(ص) کے ساتھ چھ یا آٹھ سال رہیں، ابتدائی چند سال تو بیچگانہ کھیل کود میں گذرے حالانکہ اس وقت وہ رسول(ص) کی زوجیت میں، اور جیسا کہ رسول(ص) کی کنیز بریرہ نے عائشہ کے بارے میں کہا" یہ کمسن تھیں اور آٹا گوندھتے گوندھتے سوجایا کرتی تھیں. کتا آتا تھا اور آٹا کھاجاتا تھا."

ہاں اٹھارہ سال میں لڑکی جو ان بالغ ہوجاتی ہے جیسا کہ آجکل

۱۴۷

کہا جاتا ہے. اور انہوں نے اپنی نصف عمر رسول(ص) اور اپنی دسیوں سوتنوں کے ساتھ گذاری اور بھی عورتیں تھیں جن کا تذکرہ ہم حیات عائشہ کے ذیل میں نہیں کرسکتے ہیں ان پر وہ اپنی سوتن سے بھی زیادہ غضبناک رہتی تھیں، کیونکہ رسول(ص) ان سے بے پناہ محبت فرماتے تھے اور ہیں جناب فاطمہ(ع) زہرا بنت رسول(ص) جن کی مادر گرامی خدیجہ ہیں. آپ جانتے ہیں خدیجہ کون ہیں؟ وہ صدیقہ کبری ہیں کہ جن پر جبرئیل نے سلام بھیجا اور انہیں یہ بشارت دی کہ جنت میں تمہارا ایسا مکان ہے جہاں کوئی شور و غل نہیں ہے.(1)

رسول(ص) خدیجہ کے سلسلہ میں کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے.

اور جب آپ خدیجہ کا ذکر فرماتے تو رشک و حسد سے عائشہ کا جگر پاش پاش ہوجاتا. اور دل جلنے لگتا، آپے سے باہر ہوجاتی اور خدیجہ کی شان میں دل کھول کرگستاخی کرتیں اور اپنے شوہر کے جذبات کی کوئی پروا نہ کرتی. خدیجہ کے بارے میں آپ نے عائشہ ہی سے بخاری، احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے کہ:

عائشہ کہتی ہیں کہ مجھے رسول(ص) کی کسی زوجہ پر اتنا رشک و حسد ہیں ہوا جتنا خدیجہ پر ہوا ہے.(2)

____________________

1.صحیح بخاری جلد/4 ص231 صحیح مسلم باب فضائل ام المومنین خدیجہ جلد/7 ص132

۱۴۸

کیونکہ رسول(ص) اکثر ان کا تذکرہ اور تعریف کیا کرتے تھے. میں نے کہا کیا آپ قریش کی بڑھیا کا تذکرہ کیا کرتے ہیں جس کے گالوں میں جھریاں پڑگئی تھیں... مرگئی، خدا نے آپ کو اس سے بہتر عطا کی ہے. عائشہ کہتی ہیں کہ میری اس بات سے رسول(ص) کے چہرہ کا رنگ ایسا متغیر ہوگیا کہ اس قبل میں نے کبھی آپ کی یہ حالت نہیں دیکھی تھی، ہاں جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کے چہرہ پر ایسے اثرات نمودار ہوتے تھے، اور آپ نے فرمایا: خدا نے مجھے اس سے بہتر عطا نہیں کی ہے. وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کافر تھے. اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تھا. اس نے اپنا مال اس وقت میرے سپرد کیا جب لوگوں نے مجھے محروم کر رکھا تھا. خدا نے اس کے بطن سے مجھے اس وقت اولاد نرینہ عطا کی جب میری کسی بیوی سے کوئی اولاد نہ تھی.

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسول(ص) کی اس تردید سے اس شخص کا دعوی باطل ہو جاتا ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ عائشہ ازواج نبی(ص) میں افضل اور نبی(ص) کی چہیتی زوجہ تھیں اور یہ تاکید بھی ہوتی ہے کہ جدیجہ کی طرف سے عائشہ کے رشک و حسد میں اس وقت اور زیادہ شدت آگئی تھی جب رسول(ص) نے سرزنش کرتے ہوئے پھٹکارا اور عائشہ کو خبردار کیا کہ خدا نے مجھے خدیجہ سے اچھی زوجہ نہیں دی ہے. ایک جگہ رسول(ص) ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ ہوس پرست نہیں ہیں اور خوبصورتی و بکارت کو بھی پسند نہیں کرتے ہیں، کیونکہ آنحضرت(ص) سے قبل خدیجہ دو شادیاں کرچکیں تھیں اور آپ(ص) سے پچیس(25) سال بڑی تھیں. اس کے باوجود رسول(ص) انہیں دوست رکھتے ہیں. اور ان کا ذکر کرتے ہیں تھکتے ہیں. میری جان کی قسم نبی(ص) کا یہ اخلاق تھا کہ وہ خدا کے لئے دوست رکھتے تھے اور خدا کے لئے بغض رکھتے تھے. اور پھر حقیقی روایات اور اس گڑھی ہوئی روایت میں واضح فرق ہے کہ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول(ص)

۱۴۹

عائشہ سے زیادہ لگاؤ رکھتے تھے یہاں تک کہ آپ کی دیگر ازواج نے ایک مرتبہ ایک عورت کو آپ کی خدمت میں بھیجا اور کہلوایا کہ بنت قحافہ کے بارے میں عدل سے کام لیں.

کیا ہم ام المومنین عائشہ سے یہ سوال کرسکتے ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی سیدہ خدیجہ کو نہیں دیکھا اور نہ ان سے ملاقات کی تو آپ انہیں عجوزہ حمراء الشدقین کیسے کہتی ہیں؟ کیا ایک عام مومنہ کا یہی اخلاق ہوتا ہے کہ جس پر غیر کی غیبت کرنا حرام ہے. جبکہ وہ زندہ ہو تو اس میت کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہونے چاہئیے جو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پہونچ گئی ہے. اس زوجہ رسول(ص) کی غیبت میں تمہارا کیا کردار ہونا چائیے جس کے گھر میں جبرئیل نازل ہوتے تھے اور جسے جبرئیل نے جنت میں ایسے قصر کی بشارت دی تھی کہ جس میں کوئی شور و ہنگامہ نہیں ہے.(1)

اور تاکید کے ساتھ یہ عرض ہے کہ جو بغض و حسد عائشہ کے دل میں خدیجہ کی طرف سے موجیں مار رہا تھا اسے نکالنا چاہئیے تھا ورنہ دل پھٹ جاتا عائشہ کو فاطمہ(ع) بنت خدیجہ کے علاوہ اور کوئی نہ ملا وہ یا انہیں کی ہم عمر تھیں راویوں کے اختلاف کی رو سے کچھ بڑی تھیں.

اور یہ بات بھی تاکیدا عرض ہے کہ رسول(ص) کو خدیجہ سے گہری محبت تھی وہی ان کی اکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا(ع) سے بھی تھی فقط فاطمہ(ع) ہی اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ رہیں.

عائشہ کے حسد میں اس وقت اور اضافہ ہو جاتا تھا جب وہ (رسول(ص))

____________________

صحیح بخاری جلد/4 ص231، صحیح مسلم. باب فضل خدیجہ ام المؤمنین

۱۵۰

فاطمہ(ع) کی تعظیم کرتے اور ان کو سیدہ نساء اہل الجنة کہتے سنتی تھیں.(1) پھر خدا نے ان کے بطن سے حسن(ع) و حسین(ع) سیدا شباب اہل الجنة مرحمت کئے. پھر عائشہ دیکھتی تھیں کہ رسول(ص) فاطمہ(ع) کے گھر تشریف لے جاتے اور وہاں نواسوں کی تربیت میں راتوں کو جاگتے گذارتے دیکھتی تھیں اور رسول(ص) فرماتے: میرے دونوں بیٹے اس امت کے پھول ہیں اور ان دونوں کو دوش مبارک پر سوار کرتے تو عائشہ کے حسد میں اس سے اور اضافہ ہو جاتا کیونکہ وہ بانجھ تھیں، اور اس حسد میں اس وقت اور اضافہ ہوجاتا جب ابوالحسنین(ع) فاطمہ(ع) کے شوہر بھی شامل ہو جاتے اس حسد کا کوئی خاص سبب نہیں تھا صرف رسول(ص) ان سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے، یا عائشہ کے والد پر رسول(ص) علی(ع) کو ہر موڑ پر مقدم رکھتے تھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عائشہ ان باتوں کو دیکھتی تھیں. وہ یہ بھی دیکھتی تھیں کہ ابن ابی طالب(ع) ہر موڑ پر ان کے والد سے بازی لے جاتے ہیں عائشہ ہمیشہ اپنے والد کو رسول(ص) کی محبت کا مرکز بنانا چاہتی تھیں اور انہیں سب پر فوقیت دلانا چاہتی تھیں وہ جانتی تھیں کہ میرے باپ جنگ خیبر سے اپنے لشکر کو لے کر ناکام واپس لوٹے ہیں اور رسول(ص) نے رنجیدہ ہو کر فرمایا ہے کہ کل میں اس شخص کو علم دونگا جو اللہ اور اس کے رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہیں جو بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا ے فراری نہیں ہے. اور وہ فاطمہ(ع) کے شوہر علی ابن ابی طالب(ع) کی ذات ہے. پھر علی(ع) خیبر فتح کر کے اور صفیہ بنت حیی کو لے کر واپس آتے ہیں اور رسول(ص) صفیہ سے نکاح کر لیتے ہیں جس سے عائشہ کے دل کو سخت صدمہ پہونچتا ہے. آپ جانتے ہیں رسول(ص) نے عائشہ کے والد ابوبکر کو سورہ برائت دیا تھا اور حاجیوں میں تبلیغ کے لئے بھیجا تھا لیکن بعد میں علی(ع) ابن ابی طالب کو بھیجا اور آپ نے

____________________

1.صحیح بخاری جلد/4 ص209 و جلد/ 7 ص143

۱۵۱

ابوبکر سے سورہ برائت لے لیا ان کے والد روتے ہوئے واپس آئے اور رسول(ص) سے اس کا سبب دریافت کیا تو رسول(ص) نے انہیں جواب دیا کہ: خدا نے مجھے حکم دیا ہے میرے پیغام کو تم یا تمہارے اہلبیت(ع) ہی میں سے کوئی پہونچا سکتا ہے.آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ رسول(ص) نے اپنے ابن عم علی(ع) کو اپنے بعد مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا. اور صحابہ و ازواج حضرت علی(ع) کی خدمت میں مبارکبادی کے لئے پس سب سے پہلے ان کے والد ہی یہ کہتے ہوئے پہونچے"بخ‏ بخ‏ لك‏ يا ابن ابی طالب، أصبحت و امسیت مولى كلّ مؤمن و مؤمنة" ( اے ابن ابی طالب مبارک ہو آپ ہر مومن و مومنہ کے مولی ہوگئے.)آپ کو معلوم ہے کہ رسول(ص) نے ابوبکر کو ایک سترہ(17) سالہ جوان کی قیادت میں سفر کرنے اور نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا. جس کے داڑھی بھی نہیں آئی تھی.اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عائشہ ان حالات سے بہت متاثر تھیں، اس لئے کہ ان کے دل میں باپ کا ڈر تھا اور باپ کے لئے خلافت کی امنگ تھی. اور قریش کےرؤساء کے درمیان ہونے والی سازش میں شریک تھیں اسی وجہ سے فاطمہ(ع) اور علی(ع) کی طرف سے بغض میں اضافہ ہوگیا تھا. اور پوری کوشش اس بات پر صرف کر رہی تھیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو ایسی راہ ہموار کی جائے حو ان کے باپ کے حق میں مفید ہو اور ہم نے دیکھا کہ کس طرح انھوں نے رسول(ص) کی جانب سے اپنے باپ کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز جماعت پڑھا دیں، جب ان کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ رسول(ص) نے اس ذمہ­داری کو سنبھالنے کو لئے پیغام بھیجا ہے، اور جب رسول(ص) اسلام کو اس سازش کی خبر ملی تو آپ(ص) نکلنے کے لئے بے چین ہوگئے اور آپ نے ابوبکر کو ان کی جگہ سے ہٹا دیا. اور خود لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھی اور عائشہ سے غصہ کے عالم میں کہا کہ یوسف کےساتھ بھی تمہاری جیسی عورتیں تھیں( اس سے یہ مراد ہے کہ اس کی سازشیں غلط تھیں)

۱۵۲

اس مسئلہ میں جس کو عائشہ نے مختلف انداز سے روایت کیا ہے اگر کوئی غور و فکر کرے تو اس میں واضح تضاد نظر آئے گا. اس لئے کہ رسول اللہ(ص) نے اس واقعہ سے تین سال پہلے ان کے باپ کو لشکر میں شامل ہونے کو کہا تھا. اور حکم دیا تھا کہ اسامہ بن زید کی قیادت میں وہ چلے جائیں اور یہ سب جانتے ہیں کہ لشکر کا سردار امام جماعت ہوتا ہے. تو ابن زید اس لشکر میں ابوبکر کے امام تھے. جب عائشہ نے اپنے باپ کی توہیں کا احساس کیا اور اس میں رسول(ص) کے مقصد کو سمجھ لیا اور یہ جان لیا کہ رسول(ص) نے اس لشکر میں علی(ع) کو نہیں بھیجا کہ جس میں انصار و مہاجر میں قریش کے رؤسا شامل ہیں اور اکثر اصحاب کی طرح یہ بھی جان لیا کہ رسول(ص) چند دن کے مہمان ہیں اور شاید وہ عمر کی اس رائے سے موافق تھیں کہ جو اس نے کہا تھا کہ( معاذ اللہ) رسول(ص) کو ہذیان ہوگیا ہے. اور وہ نہیں جانتے کہ کیا کررہے ہیں اور ان کی قاتل غیرت سے انہیں اس بات پر اکسایا کہ وہ علی(ع) کے مقابلے میں اپنے باپ کی قدر و منزلت کو بڑھانے کے لئے جو بن پڑے وہ کر گزرے. اور اسی کام کے لئے انہوں نے اس بات کا انکار کیا کہ رسول(ص) اسلام نے علی(ع) کے لئے وصیت فرمائی ہے اور اسی لئے انہوں نے یہ کوشش کی کہ ضعیف العقل انسانوں کو یہ باور کرادیا جائے کہ رسول(ص) کو انہیں کے حجرے میں موت آئی ہے. لہذا ایک حدیث گڑھ لی کہ رسول اللہ(ص) نے مرض کے عالم میں عائشہ سے فرمایا کہ: اپنے بھائی اور باپ کو بلاؤ میں ان کے لئے ایک کتبہ لکھ دوں. ممکن ہے کہ عنقریب کوئی دعویدار پیدا ہوجائے اور اللہ اور رسول اللہ(ص) اور مومنوں نے سوائے ابوبکر کے سب کو منع کیا ہے. کیا کوئی ہے کہ جو عائشہ سے پوچھے: کہ کس چیز نے ان لوگوں کو بلانے سے روکا؟

۱۵۳

علی(ع) کے خلاف عائشہ کا موقف

حضرت علی علیہ السلام کے خلاف عائشہ کے موقف میں ایک محقق کو عجیب و غریب بات ملے گی جس کے معنی صرف اہلبیت(ع) نبی(ص) سے عداوت و دشمنی کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلتے. تاریخ نے حضرت علی(ع) ایسے بے نظیر انسان سے عائشہ کے بغض و نفرت کو محفوظ کیا ہے. ان کا بغض و حسد اس حد تک پہونچ گیا تھا کہ وہ آپ کے نام لینے کو بھی برداشت نہیں کرتی تھیں.(1) اور ایک آنکھ دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں. جب عائشہ نے قتل عثمان کے بعد سنا کہ لوگوں نے حضرت علی(ع) کو ہاتھ پر بیعت کرلی ہے تو کہتی ہیں مجھے آسمان کا زمین پر گر پڑنا گوارا تھا لیکن علی(ع) کا خلیفہ بننا گوارا نہیں ہے. ان کو خلافت سے الگ کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کی اور آپ سے جنگ کے لئے بڑا لشکر جمع کر لیا. اور جب حضرت علی(ع) کو شہادت کی خبر سنی تو سجدہ شکر ادا کیا.کیا آپ کو میرے ساتھ ساتھ اہلسنت والجماعت پر تعجب نہیں ہوتا کہ جو اپنی صحاح میں روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول(ص) نے فرمایا:اے علی آپ سے وہی محبت رکھے گا جو مومن ہوگا اور وہی دشمنی رکھے گا جو منافق ہوگا.(2)

اور کبھی صحاح و مسانید اور تواریخ میں تحریر کرتے ہیں کہ عائشہ

____________________

1.صحیح بخاری جلد/1ص163، و جلد/3 ص153 و جلد/5 ص140

2.صحیح مسلم ج/1 ص61، صحیح ترمذی جلد/5 ص306، سنن نسائی جلد/8 ص116

۱۵۴

امام علی(ع) سے بغض رکھتی تھیں وہ آپ کے نام کو بھی سننا پسند نہیں کرتی تھیں کیا یہ بات عورت کی ماہیت پر ان لوگوں کی طرف سے گواہی نہیں ہے؟

اسی طرح بخاری اپنی صحیح میں روایت کرتے ہیں کہ رسول(ص) نے فرمایا:

فاطمہ(ع) میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے مجھے غضبناک کیا اس خدا کو غضبناک کیا.(1)

پھر یہی بخاری روایت کرتے ہیں کہ فاطمہ(ع) دنیا سے کوچ کرگئیں حالانکہ وہ ابوبکر سے ناراض تھیں اور مرتے دم تک ان سے کلام نہیں کیا.(2) کیا ان کی تمام عقلا سمجھتے ہیں اسی لئے تو میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ حق اس وقت آشکار ہوتا ہے جب باطل پرست اسے چھپانا چاہتے ہیں. امویوں کے انصار و مددگاروں نے جھوٹی حدیثیں گڑھی ہیں.بے شک قرآن کے روز نزول سے قیامت تک لوگوں پر خدا کی حجت قائم رہے گی والحمد للہ رب العالمین.امام احمد ابن حنبل نے بیان کیا ہے کہ ابوبکر ایک مرتبہ رسول(ص) کے پاس آئے اور باریاب ہونے کی اجازت طلب کی لیکن داخل ہونے سے قبل عائشہ کے چیخنے کی آواز سنی کہ جو نبی(ص) سے کہہ ہی تھیں خدا کی قسم میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ آپ علی(ع) کو مجھ سے اور میرے والد سے زیادہ چاہتے ہیں. یہی کلمات عائشہ نے

____________________

1.بخاری جلد/4 ص210

2.صحیح بخاری جلد/5 ص82 وجلد/8 ص3

۱۵۵

تین مرتبہ دہرائے.(1)

حضرت علی(ع) سے عائشہ کو اس قدر بغض تھا کہ علی(ع) کو نبی(ص) کے پاس ایک منٹ بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھیں اور نبی(ص) سے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکیں.

ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:

ایک روز رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کو ( اپنے) قریب بلایا آپ(ع) تشریف لائے اور آپ(ع) عائشہ کے درمیان بیٹھ گئے تو عائشہ نے کہا(علی(ع)) تمہیں میرے پہلو ہی میں بیٹھنے کی جگہ ملی ہے.

یہی معتزلی روایت کرتے ہیں کہ: ایک روز رسول(ص) اور حضرت علی(ع) باہم گفتگو کرتے ہوئے چلے جارہے تھے باتوں کا سلسلہ طویل ہوگیا تو عائشہ آئیں جب کہ وہ پیچھے پیچھے آرہی تھیں اور آپ دونوں کے درمیان حائل ہو کر کہنے لگیں: تم دونوں بہت دیر بات کر چکے. عائشہ کی اس حرکت پر رسول(ص) کو بہت غصہ آیا.(2)

ایک مرتبہ روایت کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ عائشہ رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں دیکھا کہ آپ حضرت علی(ع) سے رازدارانہ گفتگو فرمارہے ہیں. یہ کیفیت دیکھ کر عائشہ چیخ پڑیں اور کہا اے ابن ابی طالب(ع) آخر تم میرے درپے کیوں ہو؟

____________________

1.مسند احمد ابن حنبل جلد/4 ص245

2.شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد/9 ص195

۱۵۶

مجھے رسول(ص) کے ساتھ رہنے کا ایک وقت ملتا ہے... عائشہ کی یہ بات سن کر رسول(ص) غضبناک ہوئے.

عائشہ نے اپنے حسد اور سخت مزاجی و نوک زبان کی بنا پر رسول(ص) کو کتنی ہی مرتبہ غضبناک کیا.

کیا رسول(ص) اس مومن یا مومنہ سے خوش ہوں گے جس کا دل آپ کے ابن عم، آپ کی عترت کے سردار کی دشمنی سے لبریز ہو کہ جس کے بارے میں آپ فرماچکے ہیں کہ وہ خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہیں.(1) جس کے بارے میں یہ فرماچکے ہوں کہ جو علی(ع) کو دوست رکھتا ہے وہ مجھے دوست رکھتا ہے(1) اور جس نے علی(ع) کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے مجھے غضبناک کیا اس نے خدا کو غضبناک کیا.(2)

اپنے گھروں میں رہو....

خداوند عالم نبی(ص) کو ازواج کو ان کے گھروں میں رہنے کا حکم دیتا ہے. اجنبی لوگوں کی نمائش کے لئے گھروں سے نکلنے کو منع کرتا ہے انہیں قرآن پڑھنے، نماز قائم کرنے، زکواۃ کی ادائیگی اور خدا ورسول(ص) کی اطاعت کا حکم دیتا ہے.نبی(ص) کی ازواج نے اس پر عمل کیا. تمام ازواج نے خدا و رسول(ص) کے حکم کی اطاعت کی، رسول(ص) نے اپنی وفات سے قبل اپنی ازواج کو اس طرح ڈرایا

____________________

1.بخاری و مسلم، فضائل علی(ع) ابن ابی طالب جلد/7 ص130

2-مستدرک حاکم جلد/3 ص130 حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر اسے صحیح تسلیم کیا ہے.

۱۵۷

کہ تم میں سے ایک اونٹ پر سوار ہوگی اور اس پر حواب کے کتے بھونکیں گے. عائشہ کے علاوہ اس پر سب نے عمل کیا. لیکن عائشہ نے ہر ایک کی مخالفت کی اور انھوں نے تمام تحذیرات کا ٹھٹھا کیا. مورخین نے تحریر کیا ہے. حفصہ بنت عمر بھی عائشہ کے ساتھ خروج کرنا چاہتی تھیں. لیکن ان کے بھائی عبداللہ نے انھیں روکا اور آیت سنائی تو انھوں نے اپنا ارادہ بدل دیا اور نہیں گئیں. لیکن عائشہ اونٹ پر سوار ہو کر چلیں اور ان پر جواب کے کتے بھونکے.

طہ حسین اپنی کتاب الفتنہ الکبری میں تحریر فرماتے ہیں کہ عائشہ ایک چشمہ کی طرف سے گذریں تو وہاں کے کتے ان پر بھونکنے لگے تو عائشہ نے اس جگہ کے بارے میں معلوم کیا ان سے بتایا گیا کہ اسے حواب کہتے ہیں یہ سن کر عائشہ بہت گھبرائیں اور کہا مجھے واپس لے چلو، میں نے رسول(ص) سے یہ فرماتے سنا ہے کہ تم میں سے کسی پر حواب کے کتے بھونکیں گے. یہ حالت دیکھ کر عبداللہ ابن زبیر آئے اور انہیں اس ارادہ سے باز رکھا اور بنی عامر کے چالیس افراد سے یہ جھوٹی گواہی دلوائی کہ یہ حواب نہیں ہے.

میرا تو عقیدہ یہ ہے کہ عائشہ کی ( بے جا فضیلت والی) حدیثیں بنی امیہ کے زمانہ اس لئے وضع کی گئیں ہیں تاکہ ان کی معصیتوں کو بلکا کیا جاسکے ان کا گمان ہے کہ عبداللہ بن زبیر نے عائشہ کو اس طرح فریب دیا کہ چالیس آدمیوں ان کے سامنے خدا کی قسم کھلوا کر کہلوا دیا کہ یہ حواب نہیں ہے. لہذا عائشہ معذور ہیں. وہ ناقص العقل اور لاغر ہیں. وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح کم عقل لوگوں کو اس قسم کی روایات کے بارے میں نرم کر لیں اور انہیں یہ بات باور کرادیں کہ جب عائشہ حواب کے پاس سے گذریں اور انہوں نے کتوں کی آواز سنی تو اس جگہ کے بارے میں معلوم کیا اور بتایا گیا کہ یہ حواب ہے تو وہ بہت گھبرائیں اور کہا

۱۵۸

مجھے واپس لے چلو. جن احمق لوگوں نے معصیت خدا کے سلسلہ میں عائشہ کے عذر کے لئے یہ روایت تراشی اور وہ حکم خدا یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں یا وہ چاہتے ہیں کہ عائشہ نے جو حکم رسول(ص) کی مخالفت کی ہے اس کے لئے عذر تراش لیں حکم رسول(ص) یہ تھا کہ گھروں میں رہنا واجب ہے اور اونٹ پر سوار ہونا یہ قضیہ دریائے حواب پر پہونچنے سے پہلے اور کتوں کے بھونکنے سے پہلے کا ہے.

کیا اہل سنت کو ام المومنین عائشہ کے لئے کوئی عذر مل سکتا ہے کہ انہوں نے ام المومنین ام سلمہ کی نصیحت پر عمل نہیں کیا تھا جس کو مورخین نے اس طرح نقل کیا ہے:

جب ام سلمہ نے عائشہ سے کہا کہ میں تمہیں اس دن کا واقعہ یاد دلاتی ہوں جب رسول(ص) آگے آگے چلے جارہے تھے اور ہم بھی ان کے ہمراہ تھے کہ ایک مرتبہ رسول(ص) ٹاٹ کے ٹکڑے پر بیٹھ گئے اور حضرت علی(ع) سے تنہائی میں گفتگو کرنے لگے اور گفتگو کا سلسلہ طویل ہوگیا تو تم نے ان پر ہجوم کرنا چاہا تو میں نے تمہیں اس سے روکا لیکن تم اس سے باز نہ آئیں اور ان کے پاس پہونچ گئیں تو تھوڑی دیر بعد روتی ہوئی واپس آئیں تو میں نے کہا کہ کیا ہوا؟ تم نے کہا جب میں ان کے پاس پہونچی تو وہ رازدارانہ باتیں کر رہے تھے، میں نے علی(ع) سے کہا مجھے ہفتے میں رسول(ص) کے ساتھ رہنے کے لئے ایک دن ملتا ہے اور آج میری باری ہے، اے ابن ابی طالب رسول(ص) کو چھوڑ دو. پس رسول(ص) میری طرف بڑھے حالانکہ غیظ سے آپ کا چہرہ سرخ تھا. کہا پچھلے پاؤں چلی جاؤ. خدا کی قسم جو بھی انہیں غضبناک کرتا ہے وہ

۱۵۹

دائرہ ایمان سے خارج ہوجاتا ہے. میں شرمندہ ہو کر لوٹ آئی پھر عائشہ کہتی ہیں ہاں مجھے یاد ہے.

ام سلمہ کہتی ہیں آج میں تمہیں وہ واقعہ یاد دلاتی ہوں جب میں اور تم رسول(ص) کی خدمت میں تھیں تو رسول(ص) نے فرمایا تھا. تم میں سے کوئی اونٹ پر سوار ہوگی جس پر حواب کے کتے بھونکیں گے. وہ صراط مستقیم سے منحرف ہوگی. ہم نے کہا اس سے ہم خدا و رسول(ص) کی پناہ چاہتے ہیں. تو رسول(ص) نے تمہاری پشت پر ہاتھ مار کر فرمایا: اے حمیرا کہیں وہ عورت تم ہی نہ ہو.

عائشہ نے کہا: ہاں مجھے یاد ہے پھر ام سلمہ نے کہا تمہیں کیا وہ واقعہ بھی یاد ہے؟

جب تمہارے والد ابوبکر اور عمر آئے اور ہم دونوں پردے کے پیچھے کھڑی ہوگئی تھیں اور وہ جس ارادہ سے آئے تھے وہ بات شروع کی یہاں تک کہ ان دونوں نے کہا کہ یا رسول اللہ(ص) ہم نہیں جانتے کہ کب تک آپ کے شرف سے فیض یاب ہیں اگر آپ ہمیں یہ بتاتے جائیں کہ آپ کے بعد کون خلیفہ ہوگا تو ہمارے لئے آسانی ہوجاتی تو آپ(ص) نے ان دونوں سے فرمایا:

"مجھے معلوم ہے اس کا حقدار کون ہے لیکن اگر میں تمہیں بتادوں تو تم ضرور اس سے اسی طرح جدا ہوجاؤ گے جس طرح بنی اسرائیل نے ہارون سے جدائی اختیار کر لی تھی"

وہ دونوں خاموش رہے اور پھر اٹھ کر چلے گئے. ان کے جانے کے بعد ہم رسول(ص) کی خدمت میں پہونچے اور میں نے

۱۶۰