اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟13%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 37900 / ڈاؤنلوڈ: 5176
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

عرض کی آپ کا ہم پر ایک سو ایک حق ہے، یا رسول اللہ(ص) آپ کی امت کا خلیفہ کون ہوگا؟ آپ(ص) نے فرمایا: جو جوتی ٹانک رہا ہے ہم آپ(ص) کے پاس آئے تو دیکھا علی(ع) ہیں تو تم نے کہا: یا رسول اللہ(ص) ہم نے صرف علی(ع) کو دیکھا ہے آپ(ص) نے فرمایا وہی ہیں"

عائشہ کہتی ہیں: ہاں مجھے یاد ہے، اب ام سلمہ نے ان سے کہا: اے عائشہ ان تمام باتوں کے باوجود تمہیں کون سی چیز خروج پر مجبور کر رہی ہے؟ عائشہ نے کہا: میں لوگوں کی اصلاح کے لئے نکل رہی ہوں.(۱)

پس ام سلمہ نے انہیں سخت انداز میں خروج سے منع کیا اور ان سے کہا:

اسلام کا ستون قائم ہے اسے عورتیں صدمہ نہیں پہونچا سکتیں اور اگر اس میں رخنہ پیدا ہو جائے تو عورتیں اسے صحیح نہیں کرسکتیں ایسے معاملات میں عورت کی انتہائی کوشش چشم پوشی اور اپنی عزت و آبرو کی حفاظت ہونا چاہئے اسی طرح عائشہ نے بہت سے مخلص صحابہ کی بھی نصیحتیں نہیں سنیں. طبری نے اپنی تاریخ میں جاریہ ابن قدامہ سعدی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے عائشہ سے کہا:

اے ام المومنین، قسم خدا کی قتل عثمان ابن عفان آپ کے گھر سے نکلنے اور اونٹ پر سوار ہونے سے زیادہ سنگین نہیں ہے، اس لئے کہ خدا نے آپ پر پردہ واجب کیا ہے اور

____________________

۱.شرح ابن ابی الحدید، جلد/۲ ص۷۷

۱۶۱

عزت بخشی ہے لیکن آپ نے پردہ کو پس پشت ڈال دیا ہے اورعزت کو خاک میں ملادیا، جو تمہاری جنگ و قتال دیکھ رہا ہے وہ تمہارا قتل ہونا بھی دیکھے گا اگر آپ اپنی رضا سے آئی ہیں تو واپس لوٹ جائیں. اور اگر جبرا لائی گئی ہیں تو لوگوں سے مدد طلب کیجئے.(۱)

کمانڈر ام المومنین

مورخین نے لکھا ہے کہ کل اور کی باگ ڈور عائشہ کے ہاتھ میں تھی جس کو چاہتی تھیں منصب و عہدہ عطا کرتی تھیں منصب الگ کردیتی تھیں، انہیں کے حکم سے سب کچھ ہوتا تھا. یہاں تک کہ ایک مرتبہ طلحہ و زبیر کے درمیان نماز کی امامت کے سلسلہ میں اختلاف ہوگیا ہر ایک چاہتا تھا کہ وہ نماز پڑھائے عائشہ نے اس میں مداخلت کی اور دونوں کو معزول کر دیا. اور اپنے بھانجے عبداللہ ابن زبیر کو امامت دے دی. یہی اپنے خطوط دے کر دوسرے شہروں میں پیغامبر بھیجتیں اور حضرت علی(ع) کے خلاف ان سے مدد طلب کرتی تھیں اور ان میں جاہلیت کی حمیت کو ابھارتی تھیں.

یہاں تک کہ عرب کے اہل طمع اور اوباش بیس(۲۰) ہزار سے زیادہ کی تعداد میں حضرت علی(ع) سے جنگ کرنے اور آپ کو خلافت سے الگ کرنے کے لئے تیار ہوگئے. عائشہ نے وہ فتنہ پیدا کیا کہ جس میں ام المومنین کی مدد و دفاع کے نام پر

____________________

۱.تاریخ طبری جلد/۶ ص۴۸۲

۱۶۲

بے شمار لوگ قتل کئے گئے، مورخین کا کہنا ہے کہ جب عائشہ کے ہوا خواہوں نے والی بصرہ عثمان ابن حنیف پر چڑھائی کی اور ان کے ساتھ چالیس بیت المال کے محافظوں کو گرفتار کر لیا تو ان کو عائشہ کے سامنے پیش کیا گیا. عائشہ نے ان کے قتل کا حکم دے دیا. پس لوگوں نے انہیں بکریوں کی طرح ذبح کر دیا. کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کی تعداد ایک سو چالیس تھی. کہا جاتا ہے کہ یہ پہلے مسلمان تھے جنہیں صبر کرنے کی وجہ سے قتل کیا گیا.(۱)

شعبی نے مسلم ابن ابی بکر سے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ:

جب طلحہ و زبیر بصرہ آئے تو میں نے اپنی تلوار حمائل کر لی اور ان دونوں کی مدد کرنا چاہتا تھا پس جب میں عائشہ کے پاس پہونچا تو دیکھا کہ وہ حکم چلا رہی ہیں اور کچھ باتوں سے روک رہی ہیں. یہاں مجھے رسول(ص) کی ایک حدیث یاد آگئی جو خود میں نے آنحضرت سے سنی تھی آپ فرما رہے تھے کہ:

وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس کے امور کی باگ ڈور عورت کے ہاتو میں ہوتی ہے.

پس میں واپس آگیا.

اسی طرح بخاری نے مسلم ابن ابی بکر سے روایت کی ہے ان کا قول ہے:

____________________

۱.تاریخ طبری جلد/۵ ص۱۷۸ شرح نہج البلاغہ جلد/۲ ص۵۰۱

۱۶۳

جنگ جمل کے دوران مجھے ایک کلمہ کے ذریعہ فائدہ پہونچا. جب رسول(ص) کو یہ معلوم ہوا کہ فارس میں کسری کی بیٹی حکومت کر رہی ہے تو آپ نے فرمایا:

وہ قوم فلاح و بہبود کا منہ نہیں دیکھ سکتی جس کے امور کی باگ ڈور عورت کے ہاتھ میں ہو.(۱)

ایک ہی وقت میں ام المومنین عائشہ کا مضحکہ خیز اور شک آور موقف سامنے آتا ہے کہ وہ خدا اور رسول(ص) کی معصیت کرتے ہوئے گھر سے نکلتی ہیں اور صحابہ سے کہتی ہیں کہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہو.

وہ تعجب خیز بات یہ ہے!! آپ اس کی وجہ جانتے ہیں؟

ابن ابی الحدید اپنی شرح میں،اور دوسرے مورخین نے تحریر کیا ہے کہ عائشہ نے بصرہ سے زید ابن صوحان عبدی کو ایک خط لکھا اس کا مضمون یہ تھا یہ خط ام المومنین عائشہ بنت ابو بکر زوجہ رسول(ص) کی طرف سے ان کے بیٹے زید ابن صوحان کے نام ہے.

اما بعد: تم اپنے گھر میں(بیٹھے) رہو اور لوگوں کو علی ابن ابی طالب(ع) کی مدد سے روکو! امید ہے کہ تمہارے بارے میں مجھے وہی اطلاع ملے گی جسے میں دوست رکھتی ہوں. کیونکہ میری اولاد میں تم معتمد ہو.

والسلام

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۸ ص۹۷، باب الفتن، نسائی جلد/۴ ص۳۰۵، مستدرک جلد/۴ ص۵۲۵

۱۶۴

اس مرد صالح نے انہیں وہی جواب لکھا جو ان کے شایان شان تھا. لکھتے ہیں.

یہ خط زید ابن صوحان کی طرف سے عائشہ بنت ابوبکر کے نام:

اما بعد! خدا نے کچھ چیزیں تم پر اور کچھ ہم پر واجب کی ہیں تمہارے اوپر گھر میں رہنا واجب ہے اور ہم پر جہاد کرنا واجب ہے. آپ کا خط ملا جس میں آپ نے مجھے خدا کی حکم کے خلاف عمل کرنے کا حکم دیا ہے. جو خدا نے تم پر واجب کیا ہے اسے میں انجام دوں اور جو مجھ پر واجب ہے تم اس پر عمل کرو میں نزدیک تمہاری اطاعت واجب نہیں ہے اور آپ کا یہ خط لائق جواب نہیں ہے.

یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عائشہ نے جنگ جمل کے لشکر کی قیادت ہی پر اکتفا نہیں کی بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی قیادت کی حرص میں مبتلا تھیں اور اس کے لئے وہ طلحہ و زبیر کو حکم دیتی تھیں، عامل و حکام کو خط لکھتی تھیں اور انہیں مختلف طریقوں سے طمع دے کر مدد طلب کرتی تھیں.

انہیں باتوں کی وجہ سے وہ اس مرتبہ پر پہونچیں اور بنی امیہ میں خوب شہرت پائی اور ان کی توجہ کا مرکز قرار پائیں. جو چیز ان کی عظمت و سطوف کا سبب بنی وہ ان کا حضرت علی(ع) کے مقابلہ میں آجانا تھا. کیونکہ حضرت علی(ع) کے مقابلہ میں شیر دل افراد، شہرت یافتہ پہلوان اور دلیر بھاگتے ہی نظر آتے تھے. لیکن عائشہ میدا میں ڈٹی رہیں. مدد طلب کرتی رہیں لوگوں کو گھروں سے باہر نکال دیتیں....

۱۶۵

.................... اس لئے عقلیں متحیر، مورخین میں وہ لوگ پریشان ہیں جو جنگ جمل صغری میں علی(ع) کی آمد سے قبل ان کے موقف کو سمجھ گئے ہیں اور جنگ جمل کبری میں علی(ع) کی آمد کے بعد عائشہ نے لوگوں کو کتاب خدا کی طرف دعوت دینا شروع کر دی اور اپنے اس عناد کے سبب کہ جو انہیں اپنے بیٹوں سے تھا جو خدا و رسول(ص) کے مخلص تھے جنگ کرنے پر مصر ہیں.

نبی نے عائشہ اور ان کے فتنہ سے ڈرایا

یقینا نبی(ص) اپنے خلاف ہونے والی سازش کو بخوبی جانتے تھے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آپ جانتے تھے کہ مردوں کے خلاف عورتیں فتنہ پھیلانے میں مہارت رکھتی ہیں. جس طرح آپ(ص) کو معلوم تھا کہ عورتوں کے مکر اتنے ہی عظیم ہوتے ہیں کہ اس کے ذریعہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دیں. خصوصا آپ اس بات کو پہچان چکے تھے کہ آپ کی زوجہ عائشہ اس میں غلطی سے دوچار ہوگئیں. کیونکہ ان کی طبیعت میں آپ کے خلیفہ علی(ع) کی طرف سے خصوصا اور اہل بیت(ع) کی طرف سے عموما بغض و کینہ بھرا ہوا ہے. کیوں نہ ہو آپ خود اپنی زندگی میں عائشہ کو اور اہل بیت(ع) سے ان کو دشمنی کو ملاحظہ فرما چکے تھے. اسی لئے کبھی عائشہ پر غضبناک ہوتے اور کبھی آپ کے چہرہ اقدس کا رنگ متغیر ہو جاتا. ہر مرتبہ ہی کوشش فرماتے تھے کہ عائشہ کو یہ بات باور کرا دیں کہ علی(ع) کا دوست خدا کا دوست ہے اور جو علی(ع) سے بغض رکھتا ہے وہ دشمن خدا اور منافق ہے. لیکن افسوس یہ احادیث ان کے نفوس میں اتر گئیں جو حق کو حق صرف اپنے فائدہ کے لئے سمجھتے ہیں.

۱۶۶

اسی لئے جب رسول(ص) کو یہ معلوم ہوا کہ یہ بہت بڑا فتنہ ہے جس کو خدا نے اس امت کی آزمائش و امتحان کے لئے مقرر کردیا ہے جس طرح گذشتہ امتوں کو آزمائش میں مبتلا کیا تھا. ارشاد ہے:

( الم أَحَسِبَ‏ النَّاسُ‏ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا ءَامَنَّا وَ هُمْ لَايُفْتَنُونَ ) عنکبوت آیت/۲

کیا ان لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ یہ کہدیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں.

اور ان کا امتحان نہیں لیا جائے گا.

یقینا رسول(ص) نے متعدد بار اپنی امت کو اس سے ڈرایا یہاں تک کہ ایک روز آپ کھڑے ہوئے اور عائشہ کے گھر کی طرف رخ کر کے فرمایا یہ فتنہ گاہ ہے. یہاں سے اس طرح فتنہ پھوٹے گا جس طرح شیطان کے سینگھ نکلتے ہیں.

بخاری نے اپنی صحیح کے باب"ماجاء فی بیوت ازواج النبی(ص)" میں نافع سے اور انھوں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا رسول(ص) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے عائشہ کے گھر کی طرف اشارہ کیا اور تین مرتبہ فرمایا: "یہاں فتنہ ہے جو شیطان کے سینگھ کی طرح نکلے گا"(۱) اس طرح مسلم نے اپنی صحیح میں عکرمہ ابن عمار سے اور انہوں نے

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۴ ص۴۶

۱۶۷

سالم سے اور سالم نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ: ایک روز رسول(ص) عائشہ کے گھر سے نکلے اور فرمایا:

کفر کا سر یہاں ہے جو شیطان کے سینگھ کی طرح نکلے گا.(۱)

اہل سنت کی اس توجیہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ رسول(ص) کی مراد مشرق ہے یہ تو گڑھی ہوئی بات ہے کیونکہ وہ ام المومنین عائشہ کو اس تہمت سے بچانا چاہتے ہیں.

نیز صحیح بخاری میں بیان ہوا ہے کہ: جب طلحہ و زبیر اور عائشہ بصرہ پہونچے تو علی(ع) نے( اپنے بیٹے) حسن(ع) اور عمار کو ہمارے پاس کوفہ روانہ کیا. یہ دونوں(حسن(ع) عمار) منبر پر گئے بس حسن(ع) ابن علی(ع) منبر کے سب سے اونچے زبز پر تشریف فرما ہوئے اورعمار ان سے نیچے، ہم لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے میں نے عمار یاسر کو فرماتے سنا کہ: عائشہ بصرہ پہونچ گئیں ہیں قسم خدا کی اگرچہ وہ دنیا و آخرت میں ہمارے نبی(ص) کی زوجہ ہیں لیکن خدائے تعالی نے تمہیں اس میں مبتلا کر دیا تا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ تم خدا کی اطاعت کرتے ہو یا عائشہ کی.(۲)

اللہ اکبر: یہ خبر بھی اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ عائشہ کہ اطاعت بھی معصیت ہے اور ان سے روگردانی اور ان کے خلاف قیام کرنے میں

____________________

۱.صحیح مسلم جلد/۸ ص۱۸۱

۲.صحیح بخاری جلد/۸ ص۹۷

۱۶۸

خدا کی اطاعت ہے.

جیسا کہ ہم اس بحث میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ بنی امیہ کے( زر خیز) راویوں نے آخرت کا اضافہ کر دیا ہے چنانچہ کہدیا" وہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی(ص) کی زوجہ ہیں" تاکہ لوگوں کو فریب دیا جاسکے کہ خدا نے ان کے تمام گناہوں کو معاف کر دیا ہے اور داخل جنت کر دیا ہے اور ( اب بھی) ان کے شوہر حبیب خدا رسول(ص) ہیں. ورنہ عمار کو یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ عائشہ آخرت میں بھی آپ کی زوجہ ہیں.

یہ دوسرا حیلہ ہے کہ جو بنی امیہ کے زمانہ میں روایت گڑھنے والوں نے عائشہ کے لئے گڑھ دیا تھا. اور جب بھی وہ کوئی حدیث لوگوں کی زبان پر جاری دیکھتے تھے تو اس کا انکار و تکذیب نہیں کرسکتے تھے تو اس میں کسی فقرہ یا کلمہ کا اضافہ کر دیتے تھے. یا اس حدیث کے بعض الفاظ بدل دیتے تھے تاکہ اس حدیث کا زور ختم کر دیں یا اس کے مخصوص معنی ہی کو ختم کر دیں. جیسا کہ انہوں نے حدیث" انا مدینة العلم و علی بابها" میں" ابوبکر اساسها و عمر حیاطها و عثمان سقفها" کا اضافہ کر دیا ہے.

یہ بات انصافور محقق پر مخفی نہیں ہے لہذا وہ ان اضافوں کو باطل قرار دیتے ہیں کہ جن سے گڑھنے والوں کی ضعیف العقلی اور احادیث نبوی کے نور حکمت سے دوری واضح ہو جاتی ہے.

پس جب وہ اس قول کو ملاحظہ کرتے ہیں کہ ابوبکر اس کی اساس تو اس کے یہ معنی نکلتے ہیں کہ رسول(ص) کا سارا علم ابوبکر کے علم سے ماخوذ ہے اور یہ کفر ہے. جس طرح ان کے اس قول کہ عمر اس کی دیوار ہیں کے یہ معنی ہیں کہ عمر اس شہر میں لوگوں کو داخل نہیں ہونے دیتے یعنی لوگوں کو علم حاصل نہیں کرنے دیتے

۱۶۹

اور ان کا یہ قول کہ عثمان اس کی چھت ہیں تو یہ سرے سے باطل ہے کیونکہ کوئی شہر ایسا نہیں ہے جس میں چھت پڑی ہو اور یہ محال بھی ہے جس طرح انہوں نے یہ ملاحظہ کیا کہ عمار خدا کی قسم کھا کے کہتے ہیں کہ عائشہ دنیا و اخرت میں نبی(ص) کی زوجہ ہیں تو یہ غیب کی خبر ہے ورنہ عمار کو حق کہاں سے حاصل ہوا کہ وہ نا معلوم شئی کے بارے میں قسم کھائیں؟ کیا اس سلسلہ میں کتاب خدا میں کوئی آیت ہے یا یہ کوئی حدیث ہے جو رسول(ص) نے عمار سے بیان فرمائی تھی؟

پس حدیث صحیح ہے کہ عائشہ بصرہ پہونچ چکی ہیں وہ تمہارے نبی(ص) کی زوجہ ہیں لیکن خدا نے ان کے ذریعہ تمہیں اس لئے امتحان میں مبتلا کیا ہے تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ تم اس کی اطاعت کرتے ہو یا وہ.

ہم اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیںکہ اس نے ہمیں عقل سے نوازا ہے کہ جس کے ذریعہ ہم حق کو باطل سے جدا کرتے ہیں اور ہمارے لئے راستہ کو واضح کیا پھر ہمیں متعدد چیزوں میں مبتلا کیا تاکہ روز قیامت ہمارے اوپر حجت قائم ہوجائے.

خاتمہ بحث

ہماری پوری گذشتہ بحث میں اہم پہلو یہ تھا کہ ام المومنین زوجہ رسول(ص) عائشہ بنت ابوبکر اہل بیت میں شمار نہیں ہوئی ہیں. جن کو ہر قسم کے گناہ سے محفوظ رکھا اور ہر رجس سے پاک رکھا ہے وہ معصوم ہیں.

عائشہ کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ انہوں نے اپنی عمر کے آخری ایام بہت ہی حسرت و یاس اور ندامت میں گذارے ہیں. اپنے

۱۷۰

اعمال کو یاد کرتی ہیں تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں. شاید خدا ان کے گناہوں کو بخش دے. کیونکہ اپنے بندوں کے راز سے فقط وہی واقف ہے وہی ان کی نیتوں سے با خبر ہے، وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے. اور سینہ میں مخفی بھید سے واقف ہے، زمین و آسمان کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے ہم میں سے کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ ہم اس کی کسی مخلوق کے بارے میں جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ کریں، اس کا اختیار تو خدا ہی کو ہے. چنانچہ ارشاد ہے.

( لِلَّهِ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ وَ إِنْ‏ تُبْدُوا ما فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشاءُ وَ يُعَذِّبُ مَنْ يَشاءُ وَ اللَّهُ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ ) بقرہ/۲۸۴

اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کی کل کائنات ہے تم اپنے دل کی باتوں کا اظہار کرو یا ان پر پردہ ڈال دو وہ سب کا حساب لے گا، وہ جس کو چاہے گا بخش دے گا اور جس پر چاہے گا عذاب کرے گا.اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے.

اس لحاظ سے ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم ان کی شخصیت کو گرائیں یا ان پر لعنت کریں لیکن ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم ان کی اقتدا نہ کریں اور ان کے اعمال کو اچھا نہ سمجھیں بلکہ ان ہی حقیقت کی وضاحت کے پیش نظر لوگوں کے درمیان بیان کریں، ممکن ہے اس سے انہیں حق کی ہدایت ملے.

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں.

"ولا تکونوا سبابین و لا لعانین و لکن قولوا: کان من فعلهم کذا و کذا لتکون ابلغ فی الحجة"

۱۷۱

سب و شتم اور لعن و طعن کرنے والے نہ بن جائو لیکن اتنا بہر حال کہو کہ ان کے کارنامے یہ ہیں. تا کہ حجت تمام ہو جائے.

اہل بیت(ع) کے متعلق اہل ذکر کا نظریہ

سردار عترت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں:.

"تَاللَّهِ لَقَدْ عُلِّمْتُ‏ تَبْلِيغَ‏ الرِّسَالاتِ‏ وَ إِتْمَامَ الْعِدَاتِ وَ تَمَامَ الْكَلِمَاتِ، وَ عِنْدَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ أَبْوَابُ الْحُكْمِ وَ ضِيَاءُ الْأَمْرِ."

خدا کی قسم مجھے پیغاموں کے پہونچانے وعدوں کے پورا کرنے اور آیتوں کی صحیح تاویل بیان کرنے کا خوب علم ہے ہم اہل بیت نبوت وہ ہیں جن کے پاس علم و معرفت کا خزانہ ہے اور شریعت کی روشن راہیں ہیں.

"أَيْنَ‏ الَّذِينَ‏ زَعَمُوا أَنَّهُمُ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ دُونَنَا كَذِباً وَ بَغْياً عَلَيْنَا أَنْ رَفَعَنَا اللَّهُ وَ وَضَعَهُمْ وَ أَعْطَانَا وَ حَرَمَهُمْ وَ أَدْخَلَنَا وَ أَخْرَجَهُمْ بِنَا يُسْتَعْطَى الْهُدَى وَ يُسْتَجْلَى الْعَمَى إِنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ قُرَيْشٍ غُرِسُوا فِي هَذَا الْبَطْنِ مِنْ هَاشِمٍ لَا تَصْلُحُ عَلَى سِوَاهُمْ وَ لَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ مِنْ غَيْرِهِمْ‏"

................................

۱.نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۱۸

۱۷۲

کہاں ہیں وہ افراد جھوٹے ہیں ہم پر ستم روا رکھے ہوئے ہیں، وہ دعویدار علم و حکمت ہیں جب کہ راسخون فی العلم ہم ہیں اللہ نے ہمیں بلند کیا ہے اور انہیں پست قرار دیا ہے ہمیں منصب امامت سے سر فراز کیا ہے اور انہیں محروم رکھا ہے ہم وہ ہیں جن سے ہدایت کے متلاشی ہدایت حاصل کرسکتے ہیں اور گمراہی و تاریکی دور کی جاسکتی ہے. بلاشبہ امام قبیلہ قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخ قبیلہ نبی ہاشم ہے جن کے صلب سے امام یکے بعد دیگرے ظاہر ہوں گے امامت وہ منصب جلیلہ ہے جو کسی کو زیب نہیں دیتی ہے اور نہ ان کے علاوہ کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے.(۱)

"نَحْنُ‏ الشِّعَارُ وَ الْأَصْحَابُ وَ الْخَزَنَةُ وَ الْأَبْوَابُ لَا تُؤْتَى الْبُيُوتُ إِلَّا مِنْ أَبْوَابِهَا فَمَنْ أَتَاهَا مِنْ غَيْرِ أَبْوَابِهَا سُمِّيَ سَارِقاً فِيهِمْ كَرَائِمُ الْقُرْآنِ وَ هُمْ كُنُوزُ الرَّحْمَنِ إِنْ نَطَقُوا صَدَقُوا وَ إِنْ صَمَتُوا لَمْ يُسْبَقُوا."(۲)

ہم اہل بیت(ع) رسول(ص) کے قرابتدار اور اصحاب خاص اور مخزن نبوت و باب العلم ہیں. جو شخص کسی گھر میں داخل ہونا چاہتا ہے اس کو چاہیئے کہ درواہ سے آئے جو دروازہ کو چھوڑ کر

____________________

۱.نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۴۲

۲. نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۵۲

۱۷۳

کسی اور راہ سے داخل ہو وہ چور کہلائے گا، اہل بیت وہ ہیں جن کے بارے میں قرآن کی بے شمار آیتیں اتری ہیں اور وہ اللہ کے خزینے ہیں اگر ہم بولتے ہیں تو سچ اور خاموش رہتے ہیں تو کسی کو بولنے کا حق نہیں.

"هم‏ عيش‏ العلم‏ و موت الجهل، يخبر حلمهم عن علمهم، و ظاهرهم عن باطنهم، و صمتهم عن حكم منطقهم، لا يخالفون الحقّ و لا يختلفون فيه، هم دعائم الإسلام، و ولائج الاعتصام، بهم عاد الحقّ في نصابه، و انزاح الباطل عن مقامه، و انقطع لسانه عن منبته، عقلوا الدّين عقل وعاية و رعاية، لا عقل سماع و رواية، فإنّ رواة العلم كثير و رعاته قليل."(۱)

اہل بیت علم کے لئے باعث حیات اور جہالت کے لئے سبب مرگ ہیں ان کا حلم ان کے علم کا، ان کا ظاہر ان کے باطن کا اور ان کی خاموشی ان کے کلام کی حکمتوں کا پتہ دیتی ہے. وہ نہ تو حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف پیدا کرتے ہیں. وہ اسلام کے ستون اور محافظت کے ذمہ­دار ہیں ان کی وجہ سے حق اپنی جگہ پلٹ آیا اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیا اور اس کی زبان اس کی جڑ سے کٹ گئی، انہوں نے دین کو سمجھ کر

____________________

۱.نہج البلاغہ خطبہ نمبر۲۳۶

۱۷۴

اور اس پر عمل کر کے پہچانا نہ کہ روایت و سماعت سے جانا. یوں تو علم کے راوی بہت ہیں مگر اس پر عمل پیرا ہو کر نگہ داشت کرنے والے کم ہیں.

"عِتْرَتُهُ‏ خَيْرُ الْعِتَرِ وَ أُسْرَتُهُ خَيْرُ الْأُسَرِ وَ شَجَرَتُهُ خَيْرُ الشَّجَرِ نَبَتَتْ فِي حَرَمٍ وَ بَسَقَتْ فِي كَرَمٍ لَهَا فُرُوعٌ طِوَالٌ وَ ثَمَرٌ لَا يُنَالُ.(۱)

نَحْنُ‏ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ وَ مَحَطُّ الرِّسَالَةِ وَ مُخْتَلَفُ الْمَلَائِكَةِ وَ يَنَابِيعُ الْحِكْمَةِ وَ مَعَادِنُ الْعِلْمِ، نَاصِرُنَا وَ مُحِبُّنَا يَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ وَ عَدُوُّنَا وَ مُبْغِضُنَا يَنْتَظِرُ السَّطْوَةَ.(۲)

رسول(ص) مقبول کی عترت بہترین عترت ہے اور سیرت بہترین سیرت ہے. شجرہ نبوت بہترین شجرہ ہے اور ایسا شجرہ ہے جو سرزمین حرم پر اگا اور بزرگی کے سائے میں بڑھا اس کی شاخین دراز اور پھل دسترس سے باہر ہیں.

ہم اہل بیت، نبوت کے درخت، رسالت کی قیام گاہ، ملائکہ کی فرودگاہ، علم کا معدن، اور حکمت کے سرچشمہ ہیں، ہماری نصرت کرنے والا رحمت کے لئے چشم براہ ہے اور ہم سے دشمنی و عناد رکھنے والے کو قہر الہی کا منتظر رہنا چاہیئے

____________________

۱. نہج البلاغہ خطبہ نمبر۹۴

۲. نمبر۱۰۷

۱۷۵

"نَحْنُ‏ النُّجَبَاءُ وَ أَفْرَاطُنَا أَفْرَاطُ الْأَنْبِيَاءِ وَ أَنَا وَصِيُّ الْأَوْصِيَاءِ وَ أَنَا مِنْ حِزْبِ اللَّهِ وَ حِزْبِ رَسُولِهِ وَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ مِنْ حِزْبِ الشَّيْطَانِ وَ الشَّيْطَانُ مِنْهُمْ فَمَنْ شَكَّ فِينَا وَ عَدَلَ عَنَّا إِلَى عَدُوِّنَا فَلَيْسَ مِنَّا

فَأَيْنَ‏ تَذْهَبُونَ‏ وَ أَنَّى‏ تُؤْفَكُونَ‏ وَ الْأَعْلَامُ قَائِمَةٌ وَ الآْيَاتُ وَاضِحَةٌ وَ الْمَنَارُ مَنْصُوبَةٌ فَأَيْنَ يُتَاهُ بِكُمْ وَ كَيْفَ تَعْمَهُونَ وَ بَيْنَكُمْ عِتْرَةُ نَبِيِّكُمْ وَ هُمْ أَزِمَّةُ الْحَقِّ وَ أَعْلَامُ الدِّينِ وَ أَلْسِنَةُ الصِّدْقِ فَأَنْزِلُوهُمْ بِأَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْآنِ وَ رِدُوهُمْ وُرُودَ الْهِيمِ الْعِطَاشِ.(۱)

أَيُّهَا النَّاسُ خُذُوهَا عَنْ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ ص إِنَّهُ يَمُوتُ مِنْ مَاتَ مِنَّا وَ لَيْسَ بِمَيِّتٍ وَ يَبْلَى مَنْ بَلِيَ مِنَّا وَ لَيْسَ بِبَالٍ فَلَا تَقُولُوا بِمَا لَا تَعْرِفُونَ فَإِنَّ أَكْثَرَ الْحَقِّ فِيمَا تُنْكِرُونَ وَ أَعْذِرُوا مَنْ لَا حُجَّةَ لَكُمْ عَلَيْهِ وَ هُوَ أَنَا أَ لَمْ أَعْمَلْ فِيكُمْ بِالثَّقَلِ الْأَكْبَرِ وَ أَتْرُكْ فِيكُمُ الثَّقَلَ الْأَصْغَرَ قَدْ رَكَزْتُ فِيكُمْ رَايَةَ الْإِيمَانِ.(۲)

ہم اشراف قریش ہیں ہماری بلندی انبیاء کی بلندی ہے ہمارا گروہ اللہ کا گروہ ہے اور فتنہ پروروں کا گروہ شیطان

____________________

۱.نہج البلاغہ خطبہ نمبر۸۵

۲....... نمبر۸۵

۱۷۶

کا گروہ ہے.

اے لوگو تم کہاں جا رہے ہو اور تمہیں کدھر موڑا جا رہا ہے جب کہ ہدایت کے بلند نشانات ظاہر و روشن اور حق کے مینار نصب ہیں اور تمہیں کہاں بہکایا جارہا ہے اور تم ہو کہ ادھر ادھر بھٹک رہے ہو جب کہ تمہارے نبی کی عترت تمہارے درمیان موجود ہے، وہ حق کی باگیں دین کے پرچم اور سچائی کی زبانیں، پس تم لوگ قرآن کی تنزیل کو اچھی طرح سمجھ لیتے ہو. لوگوں کو ہی ان کے پاس پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سرچشمہ ہدایت پر لے آئو.

اے لوگو! حضرت خاتم الانبیین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس ارشاد کو سنو کہ آپ نے ایک موقع پر فرمایا: ہم میں جو مرجاتا ہے وہ مردہ نہیں ہے، ہم میں سے بظاہر مردہ ہو کر بوسیدہ ہو جاتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ وہ کبھی بوسیدہ نہیں ہوتا ہے جو باتیں تم نہیں جانتے ہو ان کے متعلق زبان سے کچھ نہ نکالو اس لئے کہ حق کا بیشتر حصہ انہیں چیزوں میں ہوتا ہے جن سے تم بیگانہ و نا آشنا ہو جس شخص کی حجت تم پر تمام ہو اور تمہاری حجت کوئی اس پر تمام نہ ہو اس کو معذور سمجھو اور وہ ہیں ہوں. کیا میں تمہارے سامنے ثقل اکبر(قرآن) پر عمل نہیں کیا اور ثقل اصغر(اہل بیت) کو تم میں نہیں رکھا.

۱۷۷

"انْظُرُوا أَهْلَ‏ بَيْتِ‏ نَبِيِّكُمْ‏ فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ وَ اتَّبِعُوا أَثَرَهُمْ فَلَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ هُدًى وَ لَنْ يُعِيدُوكُمْ فِي رَدًى فَإِنْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا وَ إِنْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا وَ لَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا وَ لَا تَتَأَخَّرُوا عَنْهُمْ فَتَهْلِكُوا"

اپنے نبی کی ذریت یعنی اہل بیت کی سیرت پر چلو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو وہ تمہیں کبھی ہدایت سے باہر نہیں ہونے دیں گے اور نہ گمراہی و ہلاکت کی طرف جانے دیں گے، اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جائو اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو، ان سے آگے نہ بڑھ جائو ورنہ گمراہ ہو جائو گے اور نہ انہیں چھوڑ کر پیچھے رہ جائو ورنہ تباہ ہو جائو گے.(۱)

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے یہ ارشادات خصوصا اہل بیت(ع) طاہرین سے متعلق ہیں کہ جن سے اللہ نے رجس و کثافت سے ایسے پاک رکھا ہے جو حق ہے.

اگرہم ان کی اولاد میں سے ہونے والے ان ائمہ کے اقوال کی چھان بین کرتے کہ جنہوں نے لوگوں کے درمیان خطبے دئیے ہیں. جیسے امام حسن(ع) اور امام حسین(ع)، زین العابدین(ع)، و جعفر صادق(ع)، اور امام علی رضا علیہم السلام تو ہمیں بالکل وہی کلام ملتا جو آپ(علی(ع)) کا ہے. اور وہ انہیں باتوں کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ملتے جن کی طرف آپ اشارہ فرماچکے ہیں اور ہر زمانہ اور

____________________

۱.نہج البلاغہ خطبہ نمبر۹۵

۱۷۸

ہرجگہ کتاب خدا اور عترت رسول(ص) کی طرف لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں تاکہ انہیں گمراہی سے نکال کر راہ ہدایت پر گامزان کردیں. یہاں میں اس بات کا اور اضافہ کردوں کہ عصمت اہلبیت(ع) پر تاریخ بہترین گواہ ہے، ان کا علم و تقوی اور زہد و ورع، جود و کرم و برد باری و عفو و بخشش اور وہ تمام افعال جسے خدا و رسول(ص) دوست رکھتے ہیں تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں.

اسی طرح تاریخ اس بات پر بھی بہترین شاہد ہے کہ اس امت میں سے صوفی اور شیخ طریقت میں سے بعض افراد اور مذاہب کے پیشوا موجودہ اور گذشتہ زمانہ کے صالح علماء سب کو اہل بیت(ع) کی افضلیت کی اعتراف ہی اور علم و عمل کے لحاظ سے انہیں سب سے بلند قرار دیتے ہیں نیز رسول(ص) کے مخصوص قرابتدار کہتے ہیں.

ان تمام باتوں کے باوجود ایک مسلمان کے لئے جائز نہیں،، ہے کہ وہ اہل بیت(ع) کہ جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا اور انہیں اس طرح پاک رکھا جو حق ہے. جنہیں رسول(ص) نے کسا کے نیچے کیا" ان میں نبی(ع) کی ازواج کا اضافہ کرے.

کیا تم نہیں دیکھتے کہ بخاری و مسلم و ترمذی، امام احمد اور نسائی نے اپنی اپنی صحاح اور مسانید میں احادیث فضائل نقل کرتے وقت اہل بیت کو ازواج نبی(ص) سے علیحدہ طور پر بیان کیا ہے.

جیسا کہ صحیح مسلم میں باب فضائل علی ابن ابی طالب(ع) میں بیان

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۷ ص۱۳۰

۱۷۹

ہوا ہے کہ زید ابن ارقم نے رسول(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:

آگاہ ہو جائو میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑنے والا ہوں، ایک کتاب خدا کہ جو حبل اللہ ہے جس نے اس کی پیروی کی اس نے ہدایت پائی اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہ ہوا.

اس کے بعد آپ(ص) نے فرمایا:

میں اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں میں اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں. میں اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں.

ہم نے کہا کیا آپ کے اہل بیت(ع) میں آپ کی ازواج بھی ہیں؟ فرمایا: نہیں خدا کی قسم عورت مرد کے ساتھ ایک زمانہ تک رہتی ہے جب وہ اسے طلاق دے دیتا ہے تو وہ اپنے ماں باپ کی طرف پلٹ جاتی ہے. ان کے اہل بیت(ع) ان کے خاندان والے وہ لوگ ہیں جن پر آپ(ص) کے بعد صدقہ حرام ہے.(۱)

اسی طرح بخاری و مسلم میں نزول آیہ تیمم کے واقعہ کے ذیل میں یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ عائشہ ابوبکر کی اولاد ہیں نبی(ص) کی آل سےنہیں ہیں.(۲) پس ان کینہ پروروں کو جن کی کوشش فتنہ پردازی اور ٹھوس حقائق کو پامال کرنا ہے انہیں اس بات پر اصرار کیوں ہے؟

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۷ ص۱۲۳ باب فضائل علی ابن ابی طالب(ع)

۲.بخاری جلد/۱ ص۸۶ مسلم جلد/۱ ص۱۹۰

۱۸۰

وہ شیعوں پر فقط اس لئے سب وشتم کرتے ہیں کہ شیعہ ام المومنین(عائشہ) کو اتنی فضیلت نہیں دیتے ہیں( اگر برا بھلا کہنے کا بھی معیار ہے تو) اپنی صحاح اور اپنے ان علماء کو کیوں برا نہیں کہتے جنہوں نے ازواج نبی(ص) کو اہل بیت(ع کے زمرہ سے نکالا ہے.

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ وَ لا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ‏ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ قُولُوا قَوْلًا سَدِيداً يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمالَكُمْ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَدْ فازَ فَوْزاً عَظِيماً ) احزاب. آیت/71

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کرو تاکہ وہ تمہارے اعمال کی اصلاح کر دے اور تمہارے گناہوں کو بخش دے اور جو بھی خدا اور اس کے رسول(ص) کی اطاعت کرے گا وہ عظیم کامیابی کے درجہ پر فائز ہوگا.

۱۸۱

چوتھی فصل

عام صحابہ سے متعلق

بے شک تمام شرعی احکام اور اسلامی عقائد ہم تک صحابہ کے ذریعہ پہونچے اور کوئی بھی اس بات کا دعویدار نہیں ہے کہ وہ کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کے ذریعہ خدا کی عبادت نہیں کرتا ہے اور ان دونوں بنیادی مصدروں تک دنیا کے ہر مسلمان کی رسائی کا ذریعہ ہی ہیں.

چونکہ رسول(ص) کے بعد صحابہ کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا اور وہ متفرق ہوگئے اور ایک دوسرے پر سب و شتم اور لعنت و مذمت کرنے لگے یہاں تک کہ بعض نے بعض کو قتل کر دیا اس حالت کے ہوتے ہوئے ان سے بغیر چھان بین کے احکام حاصل کرنا ممکن نہیں ہے اور اسی طرح ان کے حالات کا مطالعہ کئے بغیر اور ان کی تاریخ پڑھے بغیر کہ حیات نبی(ص) اور بعد نبی(ص) ان کے کیا کارنامے تھے ان کے حق میں یا ان کے خلاف حکم لگانا ممکن نہیں ہے ہم حق کو باطل سے اور مومن

۱۸۲

کو منافق سے جدا کرتے ہیں اور پلٹ جانے والوں سے شکر گذاروں کو پہچانتے ہیں.

جب کہ تمام اہلسنت اس بات کو اہمیت نہیں دیتے ہیں اور صحابہ پرتنقید و تبصرہ کرنے کو شدت سے منع کرتے ہیں اور ان پر بلا استثناء ایسے ہی درود بھیجتے ہیں جیسے محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر درود بھیجتے ہیں.

اہل سنت و الجماعت سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا صحابہ پر تنقید و جرح کرنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے. یا اس سے کتاب (خدا) و سنت(رسول(ص)) کی مخالفت لازم آتی ہے؟

اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے مجھے حیات نبی(ص) اور حیات نبی(ص) کے بعد بعض صحابہ کے اعمال و اقوال پیش کرنا پڑیں گے. اس کا جواب ہمیں علمائے اہل سنت کی صحاح و مسانید اور تواریخ سےبھی مل جائے گا اس سلسلہ میں شیعوں کی کتابوں کا تذکرہ ضروری نہیں ہے. کیونکہ بعض صحابہ کے بارے میں شیعوں کا موقف شہرت یافتہ ہے پھر یہ بات زیادہ توضیح کی محتاج بھی نہیں ہے.

میں تمام شبہات کو رفع کئے دیتا ہوں تاکہ مد مقابل کے لئے کوئی حجت باقی نہ رہے جس سے وہ میرے اوپر احتجاج کرے. واضح رہے کہ اس فصل میں ہم جہاں بھی صحابہ کے متعلق گفتگو کریں گے اس سے تمام صحابہ مراد نہیں ہیں. بلکہ بعض صحابہ مراد ہیں. ظاہر ہے کہ بعض میں کبھی اکثریت ہوتی ہے اور کبھی اقلیت، اس چیز کو تو ہم بحث ہی سے سمجھ پائیں گے اس لئے کہ فتنہ پرور ہمارے اوپر اتہام لگاتے ہیں کہ ہم صحابہ کے خلاف ہیں. ہم صحابہ پر سب و شتم کرتے ہیں. اس طرح وہ سامعین کو بھڑکاتے ہیں اور تحقیق کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں. جبکہ ہم صحابہ کو سب و شتم سے پاک سمجھتے ہیں.

۱۸۳

اور ہم ان صحابہ کی خوشنودی کے خواہان ہیں جنہیں قرآن میں شاکرین کے نام سے یا کیا گیا ہے. ہاں جو لوگ نبی(ص) کے بعد اپنے پچھلے پائوں لوٹ گئے اور مرتد ہوگئے اور اکثر مسلمانوں کی گمراہی کا سبب بنے، ان پر تبرا کرتے ہیں، ان پر ہم سب لعن طعن کرتے ہیں. ہم تو صرف ان کے افعال کو منکشف کرتے ہیں جنہیں مورخین و محدثین نے بیان کیا ہے. تاکہ تحقیق کرنے والے کے لئے حق روشن ہو جائے یہ بھی ہمارے سنی بھائیوں کو برا لگتا ہے. اور وہ اسے سب و شتم کا نام دیتے ہیں.

جب قرآن مجید نے حق بیان کرنے میں تامل سے کام نہیں لیا بلکہ اسی نے ہمارے لئے یہ دروازہ وا کیا ہے اور اسی نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ صحابہ میں سے کچھ منافقین. فاسقین، ظالمین، مکذبین، مشرکین اور کفر کی طرف پلٹ جانے والے تھے اور خدا و رسول(ص) کو اذیت دینے والے تھے.

جب رسول(ص) کو جو اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں کہتے اور خدا کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کرتے انہوں نے ہمارے لئے تبرے کا باب کھولا ہے اور انہوں نے ہمیں یہ خبر دی کہ صحابہ میں مرتدین، مارقین، ناکثین، قاسطین اور انہیں میں سے وہ شخص بھی ہے جو جہنم میں داخل ہوگا اور صحابیت اسے کچھ فائدہ نہ پہونچائے گی بلکہ یہ صحبت (رسول(ص)) اس پر حجت ہو جائے گی جو اس کے عذاب میں اضافہ کا سبب بنے گی.اس کے باوجود ہم ان سے بے زاری اختیار نہ کریں جب کہ قرآن مجید اور سنت رسول(ص) اس کی شہادت دے رہی ہے اہلسنت صحابہ پر تنقید کرنے سے اس لئے منع کرتے ہیں تا کہ حق آشکار نہ ہونے پائے اور مسلمانوں کو اس کی معرفت نہ ہونے پائے کہ وہ اولیائے خدا سے محبت اور دشمن خدا و رسول(ص) سے نفرت کرنے لگیں.

۱۸۴

اس روز میں تیونس کے دار الحکومة کی بڑی مسجد میں (نماز پڑھنے کے لئے) گیا فریضہ کی ادائیگی کے بعد امام صاحب نمازیوں کے درمیان بیٹھے اور صحابہ پر سب و شتم کرنے والے لوگوں کو برا بھلا کہنے اور انہیں کافر ثابت کرنے لگے. انہوں نے اپنی بحث کو طول دیتے ہوے کہا:

ان لوگوں سے ہوشیار ہو جو حق کی معرفت اور علمی بحث کے دعووں کے پردے میں صحابہ کی عزت سے کھیلتے ہیں، ان پر خدا و رسول(ص) و ملائکہ اور لوگوں کی لعنت ہو. وہ لوگوں کو ان کے دین کے بارے میں مشکوک کرنا چاہتے ہیں جبکہ رسول(ص) نے فرمایا ہے کہ:

" جب میرے صحابی کے بارے میں تمہارے پاس کوئی غلط خبر پہونچے تو تم خاموش رہنا اس لئے کہ اگر تم(کوہ) احد کے برابر سونے کا انفاق کروگے تب بھی ( ان کی عظمت کے) دسویں حصہ کے برابر تمہیں عظمت نہیں ملے گی"

شیعیت کی طرف مائل میرے ایک ساتھی نے اس کی بات کا سلسلہ یہ کہتے ہوئے منقطع کردیا کہ یہ حدیث جھوٹی ہے اور رسول(ص) کی طرف اس کی نسبت دینا غلط ہے.

میرے ساتھی کی اس بات سے پیش امام اور بعض حاضرین مسجد آپے سے باہر ہوگئے اور پیشانیوں پر بل ڈال کر ہماری طرف متوجہ ہوئے. میں نے نرمی اختیار کی اور پیش امام سے کہا: میرے سید و سردار شیخ جلیل اس

۱۸۵

مسلمان کی کیا تقصیر ہے جو قرآن مجید میں اس آیت کی تلاوت کرتا ہے:

( وَ ما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ‏ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَ فَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى‏ أَعْقابِكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلِبْ عَلى‏ عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئاً وَ سَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ ) آل عمران آیت/144

اور محمد(ص) تو صرف ایک رسول(ص) ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل ہو جائیں تو تم الٹے پیروں پلٹ جائو گے، تو جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا تو عنقریب شکر گذاروں کو ان کی جزا دے گا.

اور اس مسلمان کا کیا گناہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم میں اپنے صحابہ سے متعلق رسول(ص) کا یہ قول دیکھتا ہے.

قیامت کے دن تمہیں شمال کی طرف لے جایا جائے گا تو میں پوچھوں گا کہ کہاں؟ جواب ملے گا جہنم میں. خدا کی قسم میں پھر کہوں گا: پروردگارا یہ میرے صحابی ہیں جواب دیا جائے گا تمہیں نہیں معلوم انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا، یہ کافر ہی رہے، تو میں کہوں گا خدا عارت کرے ان کو کہ جنہوں نے میرے بعد شریعت بدلی، اور میں مخلصین کو بہت کم پاتا ہوں.

وہ سب میری طرف کان لگائے خاموشی کے عالم میں میری بات سن رہے تھے، بعض افراد نے مجھ سے معلوم کیا، کیا آپ وثوق کے ساتھ

۱۸۶

کہہ رہے ہیں کہ یہ روایت بخاری میں موجود ہے؟ میں نے جواب دیا جی ہاں میں اتنے ہی یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں جیسا مجھے خدا کے واحد ہونے اور اس کے شریک نہ ہونے کا یقین ہے. اور اس بات کا یقین ہے محمد اس کے بندے اور رسول(ص) ہیں.

جب پیش امام صاحب نے دیکھا کہ میرے احادیث بیان کرنے سے لوگوں پر اثر ہو رہا ہے تو انہوں نے کہا: ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ فتنہ دبا ہوا ہے خدا اس پر لعنت کرے جو اسے بھڑکائے.

میں نے کہا: حضور فتنہ بھڑکان ہوا ہے دبا نہیں ہے. لیکن ہم سو رہے ہیں. ہم میں سے حق کی معرفت کے لئے جو بیدار ہوجاتا ہے. اور آنکھیں کھول لیتا ہے تو آپ اس پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ یہ فتنہ کو ہوا دے رہا ہے. بہر حال تمام مسلمانوں کی یہی خواہش ہے کہ وہ کتاب خدا سنت رسول(ص) کا اتباع کریں وہ ہمارے ان بزرگوں کا اتباع نہیں کرنا چاہتے جو معاویہ و یزید اور ابن عاص سے راضی ہوگئے.

میری بات کو امام نے یہ کہتے ہوئے کاٹ دیا کہ کیا تم سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی سے راضی نہیں ہو؟ میں نے کہا اس موضوع کی شرح بہت طویل ہے اگر اس سلسلہ میں آپ میرا نظریہ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو اپنی کتاب " ثم اہتدیت" ہدیہ کرتا ہوں شاید وہ آپ کو گہری نیند سے بیدار کر دے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے بعض حقائق کو آشکار کردے. پیش امام صاحب نے تردد کے ساتھ میری بات اور ہدیہ قبول کر لیا. لیکن ایک ماہ بعد انہوں نے مجھے بہترین خطا لکھا اور اس میں تحریر فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت فرمائی اور ولایت اہل بیت علیہم السلام کو آشکار کیا. میں نے ان سے اس

۱۸۷

خط کو ثم اھتدیت کے تیسرے ایڈیشن میں شائع کرنے کی اجازت طلب کی کیونکہ اس میں مودة کے معنی اس روح با صفا کا تذکرہ تھا کہ جس نے حق پہچانتے ہی اپنا لیا تھا اور کہا تھا ہے کہ اکثر اہل سنت حقائق کی طرف مائل تو ہیں بس پردہ ہٹنے کی دیر ہے.

لیکن انہوں نے تحریر فرمایا کہ اس خط کو مخفی رکھا جائے شائع نہ کیا جائے کیونکہ پیش امام صاحب کو اپنے مقتدیوں کو مطمئن و قانع کرنے کے لئے. خاصا وقت چاہئے، ان کی تعبیر کے مطابق ان کی کوشش بھی یہی ہے کہ ان کی دعوت (حق) بغیر کسی ہرج و مرج کے مکمل ہو جائے.

ہم اپنے مضمون کی طرف پلٹتے ہیں. گفتگو صحابہ کے متعلق ہو رہی تھی تا کہ ہم اس تلخ حقیقت کا انکشاف کریں جسے قرآن مجید اور سنت رسول(ص) نے بیان کیا ہے.

اس کا آغاز ہم کلام خدا سے کرتے ہیں کیونکہ اس میں کسی طرف سے بھی باطل داخل نہیں ہوسکتا ہے پس وہ قول فیصل اور صحیح حکم ہے بعص صحابہ کے بارے میں خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( وَ مِنْ‏ أَهْلِ‏ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ لا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلى‏ عَذابٍ عَظِيمٍ .) توبہ / آیت/101

اہل مدینہ میں وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں تم ان کو نہیں جانتے لیکن ہم خوب جانتے ہیں عنقریب ہم ان پر دہرا عذاب کریں گے اور پھر یہ عظیم عذاب کی طرف پلٹا دیئے جائیں گے.

( يَحْلِفُونَ‏ بِاللَّهِ‏ ما قالُوا وَ لَقَدْ قالُوا كَلِمَةَ

۱۸۸

الْكُفْرِ وَ كَفَرُوا بَعْدَ إِسْلامِهِمْ وَ هَمُّوا بِما لَمْ يَنالُوا )

یہ اپنی باتوں پر اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ ایسا نہیں کیا حالانکہ انہوں نے کلمہ کفر کہا ہے اور اپنے اسلام کے بعد کافر ہوگئے ہیں انہوں نے وہ ارادہ کیا جو حاصل نہ کرسکے. توبہ/74

( وَ مِنْهُمْ‏ مَنْ‏ عاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتانا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ. فَلَمَّا آتاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَ تَوَلَّوْا وَ هُمْ مُعْرِضُونَ. فَأَعْقَبَهُمْ نِفاقاً فِي قُلُوبِهِمْ إِلى‏ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ وَ بِما كانُوا يَكْذِبُونَ ) توبہ آیت/77

ان میں وہی ہیں جنہوں نے اپنے خدا سے عہد کیا کہ اگر وہ اپنے فضل و کرم سے کچھ عطا کر دے گا تو اس کی راہ میں صدقہ دیں گے اور نیک بندوں میں شامل ہو جائیں گے جب خدا نے اپنے فضل سے عطا کردیا تو بخل سے کام لیا اور کنارہ کش ہوکر پلٹ گئے تو ان کے بخل نے ان کے دلوں میں نفاق راسخ کردیا اس دن تک کے لئے جب یہ خدا سے ملاقات کریں گے کیونکہ انہوں نے خدا سے کئے ہوئے وعدہ کی مخالفت کی ہے اور جھوٹ بولے ہیں.

( الْأَعْرابُ‏ أَشَدُّ كُفْراً وَ نِفاقاً وَ أَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ عَلى‏ رَسُولِهِ وَ اللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ )

یہ دیہاتی کفر اور نفاق میں بہت سخت ہیں اور اسی قابل ہیں کہ جو کتاب خدا نے اپنے رسول(ص) پر نازل کی ہے

۱۸۹

اس کے حدود اور احکام کو نہ پہچانیں اور اللہ خوب جاننے والا اور صاحب حکمت ہے. توبہ/ آیت/97

( وَ مِنَ‏ النَّاسِ‏ مَنْ‏ يَقُولُ‏ آمَنَّا بِاللَّهِ وَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ ما هُمْ بِمُؤْمِنِينَ. يُخادِعُونَ اللَّهَ وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ ما يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَ ما يَشْعُرُونَ. فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً وَ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ بِما كانُوا يَكْذِبُونَ )

کچھ ایسے بھی ہیں جو صاحب ایمان نہیں ہیں یہ خدا اور صاحبان ایمان کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ اپنے ہی کو دھوکا دیتے رہے ہیں اور اس کو سمجھتے بھی نہیں ہیں ان کے دلوں میں بیماری ہے جس کو خدا نے نفاق کی بنا پر اور بڑھا دیا ہے اب اس جھوٹ کے عوض میں انہیں دردناک عذاب ملے گا.

( إِذا جاءَكَ الْمُنافِقُونَ قالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ‏ لَرَسُولُ‏ اللَّهِ‏ وَ اللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَ اللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنافِقِينَ لَكاذِبُونَ اتَّخَذُوا أَيْمانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّهُمْ ساءَ ما كانُوا يَعْمَلُونَ ذلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلى‏ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لا يَفْقَهُونَ )

( اے میرے) پیغمبر یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول(ص) ہیں اور اللہ ہی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں انہوں نے اپنی قسموں کو

۱۹۰

سپر بنا لیا ہے اور لوگوں کو راہ خدا سے روک رہے ہیں یہ ان کے بدترین اعمال ہیں کہ جو یہ انجام دے رہے ہیں یہ اس لئے ہے کہ یہ پہلے ایمان لائے پھر کافر ہوگئے تو ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی تو اب کچھ نہیں سمجھ رہے ہیں. منافقون آیت3.

( أَ لَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِما أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَ ما أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ‏ أَنْ‏ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَ قَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَ يُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً وَ إِذا قِيلَ لَهُمْ تَعالَوْا إِلى‏ ما أَنْزَلَ اللَّهُ وَ إِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ بِما قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جاؤُكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنا إِلَّا إِحْساناً وَ تَوْفِيقاً )

کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا خیال یہ ہے کہ وہ آپ پر اور آپ کے پہلے نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لے آئے ہیں اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ سرکش لوگوں کے پاس فیصلہ کرائیں جب کہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں اور شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ انہیں گمراہی میں دور تک کھینچ کر لے جائے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ حکم خدا اور اس کے رسول(ص) کی طرف آئو تو تم منافقین کو دیکھو گے کہ وہ شدت سے انکار کر دیتے ہیں پس اس وقت کیا ہوگا جب ان پر ان کے اعمال کی بنا پر مصیبت نازل ہوگی اور وہ آپ کے پاس آکر خدا کی قسم کھائیں گے کہ ہمارا مقصد فقط نیکی کرنا اور اتحاد پیدا کرنا تھا. نساء آیت/62

۱۹۱

( إِنَ‏ الْمُنافِقِينَ‏ يُخادِعُونَ‏ اللَّهَ‏ وَ هُوَ خادِعُهُمْ وَ إِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالى‏ يُراؤُنَ النَّاسَ وَ لا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا ) ( النساء: 142)

منافقین خدا کو دھوکا دینا چاہتے ہیں اور خدا انہیں دھوکے میں رکھنے والا ہے اور یہ نماز کے لئے اٹھتے بھی ہیں تو سستی کے ساتھ لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرتے ہیں اور اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں.

( وَ إِذا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ‏ أَجْسامُهُمْ‏ وَ إِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ‏ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ‏) ( المنافقون:4)

اور جب آپ انہیں دیکھیں گے تو ان کے جسم بہت اچھے لگیں گے اور بات کریں گے تو اس طرح کہ آپ سننے لگیں لیکن حقیقت میں یہ ایسے ہیں جیسے دیوار سے لگائی ہوئی سوکھی لکڑیاں کہ ہر چیخ کو اپنے ہی خلاف سمجھتے ہیں اور یہ واقعا دشمن ہیں ان سے ہوشیار رہیئے خدا انہیں غارت کرے یہ کہاں بہکے چلے جا رہے ہیں.

( قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ‏ مِنْكُمْ‏ وَ الْقائِلِينَ لِإِخْوانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنا وَ لا يَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلَّا قَلِيلًا أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ فَإِذا جاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشى‏ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَإِذا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ أُولئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ وَ كانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً" ) (احزاب :19)

۱۹۲

خدا ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو جنگ سے روکنے والے ہیں اور اپنے بھائیوں سے یہ کہنے والے ہیں کہ ہماری طرف آجائو اور یہ خود میدان جنگ میں بہت کم آتے ہیں یہ تم سے جان چراتے ہیں اور جب خوف سامنے آجائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے ان کی آنکھوں یوں پھر رہی ہیں جیسے موت کی غشی طاری ہو اور جب خوف چلا جائے گا تو آپ پر تیزتر زبانوں کے ساتھ حملہ کریں گے اور انہیں ملا غنیمت کی حرص ہوگی. یہ لوگ شروع ہی سے ایمان نہیں لائے ہیں لہذا خدا نے ان کے اعمال کو بر باد کر دیا ہے اور خدا کے لئے یہ کام بڑا آسان ہے.

( وَ مِنْهُمْ مَنْ‏ يَسْتَمِعُ‏ إِلَيْكَ‏ حَتَّى إِذا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِكَ قالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ما ذا قالَ آنِفاً أُولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلى‏ قُلُوبِهِمْ وَ اتَّبَعُوا أَهْواءَهُمْ‏ ) ( محمد:16)

اور ان میں سے کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو آپ کی باتیں بظاہر غور سے سنتے ہیں اور اس کے بعد جب آپ کے پاس سے باہر نکلتے ہیں تو جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے ان سے کہتے ہیں کہ انہوں نے ابھی کیا تھا یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر خدا نے مہر لگا دی ہے اور انہوں نے اپنی خواہشات کا اتباع کر لیا ہے.

( أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ‏ يُخْرِجَ‏ اللَّهُ‏ أَضْغانَهُمْ‏

۱۹۳

وَ لَوْ نَشاءُ لَأَرَيْناكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيماهُمْ وَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ وَ اللَّهُ يَعْلَمُ أَعْمالَكُمْ‏ .)

کیا جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا ان کے دلوں کے کینوں کو باہر نہیں لائے گا اور اگر ہم چاہتے تو تمہیں ان لوگوں کو دکھا دیتے تو آپ ان کی پیشانی ہی سے ان کو پہچان لیتے. اور تم انہیں ان کے اندر گفتگو ہی سے ضرور پہچان لوگے اور خدا تمہارے اعمال سے واقف ہے.

( سَيَقُولُ‏ لَكَ‏ الْمُخَلَّفُونَ‏ مِنَ الْأَعْرابِ شَغَلَتْنا أَمْوالُنا وَ أَهْلُونا فَاسْتَغْفِرْ لَنا يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ ما لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ... ) (الفتح.1)

عنقریب یہ پیچھے رہ جانے والے گنوار آپ سے کہیں گے کہ ہمارے اموال اور اولاد نے مصروف کر دیا تھا لہذا آپ ہمارے حق میں استغفار کریں یہ لوگ اپنی زبان سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے.

قرآن مجید کی یہ واضح آیتیں ان لوگوں کے نفاق کو بیان کر رہی ہیں جو مخلص صحابہ کی صفوں میں ایسے دھنس گئے تھے کہ اگر وحی کے ذریعہ خدا نہ بتاتا تو رسول(ص) سے بھی ان کی حقیقت کو نہ سمجھ پاتے.

لیکن ہمیشہ اہلسنت پر یہ ہمارا اعتراض رہا ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ منافقین سے ہمیں کیا سروکار صحابہ منافق نہیں ہیں. یا کہتے ہیں کہ جو منافقین ہیں وہ صحابہ نہیں ہیں لیکن جب آپ ان سے سوال کریں گے کہ وہ منافقین کون لوگ ہیں جن کے بارے میں سورہ توبہ اور منافقون میں ایک سو پچاس سے زیادہ آیتیں نازل ہوئیں تو وہ جواب دیں گے کہ وہ عبداللہ ابن ابی اور عبداللہ ابن ابی سلول ہیں ان کے پاس ان دو ناموں

۱۹۴

کے علاوہ تیسرا کوئی نام ہیں ہے.

سبحان اللہ! منافقین کی اتنی بڑی تعداد کہ نبی(ص) بھی ان میں سے بہت سوں کو نہیں جانتے تھے. تو پھر نفاق کو ابن ابی اور ابن ابی سلول میں کیسے منحصر کیا جاسکتا ہے؟ کہ جن کو تمام مسلمان جانتے تھے.اور جب رسول(ص) ان میں سے بعض کو جانتے تھے اور آپ نے حذیفہ یمانی کو ان کے نام بھی بتا دیئے تھے، جیسا کہ تم خود کہتے ہو. اور انہیں ان ناموں کے نقل کرنے سے منع کیا تھا. یہاں تک کہ عمر ابن خطاب نے اپنی خلافت کے زمانہ میں حذیفہ سے اپنے متعلق دریافت کیا کہ کیا میرا نام بھی منافقین کی فہرست میں ہے؟ کیا نبی(ص) نے میرا نام بھی بتایا ہے جیسا تم اپنی کتابوں میں روایت کرتے ہو؟(1) اور جب رسول(ص) نے منافقین کی ایک علامت بتا دی تھی کہ جس سے وہ پہچانے جاتے تھے اور وہ علامت ہے بغض علی ابن ابی طالب(ع) جب کہ تم اپنی صحاح میں لکھتے ہو.(2) پس وہ صحابہ کون ہیں جنہیں تم بلند مقام دیتے اور جن کے لئے رضی اللہ عنہ کہتے ہو جبکہ انہیں علی(ع) سے اتنا بغض ہوگیا تھا کہ آپ سے جنگ کی، آپ کو قتل کیا آپ(ع) کی زندگی اور موت کے بعد آپ(ع) پر اور آپ(ع) کے اہل بیت(ع) و محبین پر لعنت کی اور یہ سب تمہارے نزدیک اصحاب اخیار ہیں! رسول(ص) کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ آپ حذیفہ یمانی کو ان( منافقون) کے نام بتادیں اور مسلمانوں کو منافقون کی علامت بتا دیں تاکہ لوگوں پر حجت قائم

____________________

1.کنز العمال جلد/7 ص24، تاریخ ابن عساکر جلد/4 ص97، احیاء العلوم جلد/1 ص129

2.صحیح مسلم ج/1 ص61، ترمذی ج/5 ص306، سنن نسائی ج/8 ص116، کنزالعمال جلد/15 ص105

۱۹۵

ہو جائے اور بعد میں نہ کہہ سکیں کہ ہمیں کچھ معلوم ہی نہ تھا.

آج اہل سنت کے اس قول کی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ " ہم امام علی رضی اللہ عنہ و کرم اللہ وجہہ سے محبت رکھتے ہیں" ان کے لئے ہمارا یہ مشورہ ہے کہ قلب مومن میں ولی خدا اور دشمن خدا کی محبت جمع نہیں ہوتی ہے. خود امام علی(ع) نے فرمایا ہے کہ جو ہم کو اور ہمارے دشمنوں کو برابر قرار دے وہ ہم میں سے نہیں ہے.(1) پھر قرآن نے جہاں صحابہ کے بارے میں گفتگو کی ہے وہاں ان کے کچھ اور اوصاف بھی بیان کئے ہیں، اور کی شناخت بتائی ہے. جب ہم ان میں سے مخلص صحابہ کو علیحدہ کر لیتے ہیں تو باقی کو قرآن حکیم فاسق، خائن، متخاذلین، ناکثین واپس پلٹ جانے والے،خدا و رسول(ص) پر شک کرنے والے، میدان جہاد سے فرار کرنے والے، حق کے منکر، حکم خدا و رسول(ص) کا عصیان کرنے والے، جہاد سے جی چرانے والے، ہوائے نفس اور تجارت کے رسیاء تارک الصلوة، قول و فعل میں تضاد رکھنے والے، اپنے اسلام سے رسول(ص) پر احسان جتانے والے، سنگ دل، حق کو قبول نہ کرنے والے، خدا سے خوف نہ کھانے والے، نبی(ص) کی آواز پر آواز بلند کرنے والے، رسول(ص) کو اذیت دینے والے، منافقین کی باتوں پر کان نہ دھرنے والے قرار دیتا ہے. ہمیں اس مختصر مقدار پر ہی اکتفاء کرنی چاہئیے، کیونکہ اس موضوع پر بہت سی آیات موجود ہیں جنہیں ہم نے اختصار کے پیش نظر قلم بند نہیں کیا ہے. لیکن افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان آیات میں سے بعض کا تذکرہ کر دینا ضروری ہے.

____________________

1.نہج البلاغہ جلد/1 ص155

۱۹۶

کہ جو صحابہ کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں. اور وہ ان صفات سے متصف بھی تھے. لیکن وہ سیاست کے طفیل میں بعد رسول(ص) اور سلسلہ وحی کے انقطاع کے بعد سارے عادل ہوگئے اور اب کسی مسلمان میں ان کے متعلق کسی قسم کی تنقید کی جرات نہیں ہے.

قرآن بعض صحابہ کی حقیقت کا انکشاف کرتا ہے

منافقین والی آیتوں میں معاند کا تو وہم بھی نہیں ہوتا ہے منافقین کو صحابہ سے جدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسا کہ اہل سنت کو قول ہے. ہم منافقین سے مخصوص آیات کو سلسلہ وار جمع کیا ہے.

قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي‏ سَبِيلِ‏ اللَّهِ‏ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَ رَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ فَما مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ )

اے ایمان لانے والو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ راہ خدا میں جہاد کے لئے نکلو تو تم زمین سے چپک کر رہ گئے. کیا تم آخرت کے بدلے زندگانی دنیا سے راضی ہوگئے ہو تو یاد رکھو کہ آخرت میں اس متاع زندگانی دنیا کی حقیقت بہت قلیل ہے

۱۹۷

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ‏ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ‏ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكافِرِينَ يُجاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ لا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشاءُ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ )

اے صاحبان ایمان تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی، مومنین کے سامنے خاکسار اور کفار کے سامنے صاحب عزت، راہ خدا میں جہاد کرنے والی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والی ہوگی یہ فضل خدا ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے، وہ صاحب وسعت اور عظیم و دانا بھی ہے. مائدہ، آیت/54

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَخُونُوا اللَّهَ‏ وَ الرَّسُولَ وَ تَخُونُوا أَماناتِكُمْ وَ أَنْتُمْ تَعْلَمُونَ وَ اعْلَمُوا أَنَّما أَمْوالُكُمْ وَ أَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ وَ أَنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ )

اے ایمان والو خدا و رسول اور اپنی امانتوں کے بارے میں خیانت نہ کرو جبکہ تم جانتے بھی ہو اور یہ جان لو کہ یہ تمہاری اولاد اور تمہارے اموال ایک آزمائش ہیں اور خدا کے پاس اجر عظیم ہے. انفال، آیت/28

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ‏ لِما يُحْيِيكُمْ‏ وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهِ وَ أَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ وَ اتَّقُوا فِتْنَةً لا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ

۱۹۸

ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ )

اے ایمان والو اللہ اور رسول(ص) کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے اور یاد رکھو کہ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور تم سب اسی کی طرف حاضر کئے جائو گے اور تم اس فتنہ سے بچو جو صرف ظالمین کو پہونچنے والا نہیں ہے اور یاد رکھو کہ اللہ سخت ترین عذاب کا مالک ہے. انفال، آیت/25

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ‏ عَلَيْكُمْ إِذْ جاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَ جُنُوداً لَمْ تَرَوْها وَ كانَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ بَصِيراً إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَناجِرَ وَ تَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا هُنالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَ زُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً وَ إِذْ يَقُولُ الْمُنافِقُونَ وَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً )

اے ایمان لانے والو اس وقت اللہ کی نعمت کو یاد رکھو جب کفر کے لشکر تمہارے سامنے آگئے اور ہم نے ان کے خلاف تمہاری مدد کے لئے تیز ہوا اور ایسے لشکر بھیج دیئے جن کو تم نے دیکھا بھی نہیں تھا اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے اس وقت جب کفار تمہارے اوپر کی طرف سے اور نیچے کی سمت سے آگئے اور دہشت سے نگاہیں خیرہ کرنے لگیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم خدا کے بارے میں طرح طرح کے خیالات میں مبتلا ہوگئے

۱۹۹

اس وقت مومنین کا با قاعدہ امتحان لیا گیا. اور انہیں شدید قسم کے جھٹکے دئے گئے اور جب منافقین اور جن کے دلوں میں مرض تھا یہ کہہ رہے تھے کہ خدا و رسول(ص) نے ہم سے صرف دھوکہ دینے والا وعدہ کیا ہے. احزاب، آیت/12

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ‏ تَقُولُونَ‏ ما لا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ‏ أَنْ تَقُولُوا ما لا تَفْعَلُونَ )

اے ایمان والو آخر وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے ہو اللہ کے نزدیک یہ سخت ناراضگی کا باعث ہے کہ تم وہ کہو جس پر عمل نہیں کرتے ہو. صف، آیت/3

( أَ لَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ‏ تَخْشَعَ‏ قُلُوبُهُمْ‏ لِذِكْرِ اللَّهِ وَ ما نَزَلَ مِنَ الْحَقِ )

کیا صاحبان ایمان کے لئے وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ان کے دل ذکر خدا اور اس کی طرف سے نازل ہونے والے حق کے لئے نرم ہو جائیں. ( حدید آیت16)

( يَمُنُّونَ‏ عَلَيْكَ‏ أَنْ أَسْلَمُوا- قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ- أَنْ هَداكُمْ لِلْإِيمانِ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ ‏) حجرات، آیت/17

یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ اسلام لے آئے ہیں تو آپ کہدیجئے کہ ہمارے اوپر احسان نہ رکھو بلکہ یہ تو خدا کا احسان ہے

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291