اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 291
مشاہدے: 35268
ڈاؤنلوڈ: 4305


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35268 / ڈاؤنلوڈ: 4305
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عرض کی آپ کا ہم پر ایک سو ایک حق ہے، یا رسول اللہ(ص) آپ کی امت کا خلیفہ کون ہوگا؟ آپ(ص) نے فرمایا: جو جوتی ٹانک رہا ہے ہم آپ(ص) کے پاس آئے تو دیکھا علی(ع) ہیں تو تم نے کہا: یا رسول اللہ(ص) ہم نے صرف علی(ع) کو دیکھا ہے آپ(ص) نے فرمایا وہی ہیں"

عائشہ کہتی ہیں: ہاں مجھے یاد ہے، اب ام سلمہ نے ان سے کہا: اے عائشہ ان تمام باتوں کے باوجود تمہیں کون سی چیز خروج پر مجبور کر رہی ہے؟ عائشہ نے کہا: میں لوگوں کی اصلاح کے لئے نکل رہی ہوں.(1)

پس ام سلمہ نے انہیں سخت انداز میں خروج سے منع کیا اور ان سے کہا:

اسلام کا ستون قائم ہے اسے عورتیں صدمہ نہیں پہونچا سکتیں اور اگر اس میں رخنہ پیدا ہو جائے تو عورتیں اسے صحیح نہیں کرسکتیں ایسے معاملات میں عورت کی انتہائی کوشش چشم پوشی اور اپنی عزت و آبرو کی حفاظت ہونا چاہئے اسی طرح عائشہ نے بہت سے مخلص صحابہ کی بھی نصیحتیں نہیں سنیں. طبری نے اپنی تاریخ میں جاریہ ابن قدامہ سعدی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے عائشہ سے کہا:

اے ام المومنین، قسم خدا کی قتل عثمان ابن عفان آپ کے گھر سے نکلنے اور اونٹ پر سوار ہونے سے زیادہ سنگین نہیں ہے، اس لئے کہ خدا نے آپ پر پردہ واجب کیا ہے اور

____________________

1.شرح ابن ابی الحدید، جلد/2 ص77

۱۶۱

عزت بخشی ہے لیکن آپ نے پردہ کو پس پشت ڈال دیا ہے اورعزت کو خاک میں ملادیا، جو تمہاری جنگ و قتال دیکھ رہا ہے وہ تمہارا قتل ہونا بھی دیکھے گا اگر آپ اپنی رضا سے آئی ہیں تو واپس لوٹ جائیں. اور اگر جبرا لائی گئی ہیں تو لوگوں سے مدد طلب کیجئے.(1)

کمانڈر ام المومنین

مورخین نے لکھا ہے کہ کل اور کی باگ ڈور عائشہ کے ہاتھ میں تھی جس کو چاہتی تھیں منصب و عہدہ عطا کرتی تھیں منصب الگ کردیتی تھیں، انہیں کے حکم سے سب کچھ ہوتا تھا. یہاں تک کہ ایک مرتبہ طلحہ و زبیر کے درمیان نماز کی امامت کے سلسلہ میں اختلاف ہوگیا ہر ایک چاہتا تھا کہ وہ نماز پڑھائے عائشہ نے اس میں مداخلت کی اور دونوں کو معزول کر دیا. اور اپنے بھانجے عبداللہ ابن زبیر کو امامت دے دی. یہی اپنے خطوط دے کر دوسرے شہروں میں پیغامبر بھیجتیں اور حضرت علی(ع) کے خلاف ان سے مدد طلب کرتی تھیں اور ان میں جاہلیت کی حمیت کو ابھارتی تھیں.

یہاں تک کہ عرب کے اہل طمع اور اوباش بیس(20) ہزار سے زیادہ کی تعداد میں حضرت علی(ع) سے جنگ کرنے اور آپ کو خلافت سے الگ کرنے کے لئے تیار ہوگئے. عائشہ نے وہ فتنہ پیدا کیا کہ جس میں ام المومنین کی مدد و دفاع کے نام پر

____________________

1.تاریخ طبری جلد/6 ص482

۱۶۲

بے شمار لوگ قتل کئے گئے، مورخین کا کہنا ہے کہ جب عائشہ کے ہوا خواہوں نے والی بصرہ عثمان ابن حنیف پر چڑھائی کی اور ان کے ساتھ چالیس بیت المال کے محافظوں کو گرفتار کر لیا تو ان کو عائشہ کے سامنے پیش کیا گیا. عائشہ نے ان کے قتل کا حکم دے دیا. پس لوگوں نے انہیں بکریوں کی طرح ذبح کر دیا. کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کی تعداد ایک سو چالیس تھی. کہا جاتا ہے کہ یہ پہلے مسلمان تھے جنہیں صبر کرنے کی وجہ سے قتل کیا گیا.(1)

شعبی نے مسلم ابن ابی بکر سے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ:

جب طلحہ و زبیر بصرہ آئے تو میں نے اپنی تلوار حمائل کر لی اور ان دونوں کی مدد کرنا چاہتا تھا پس جب میں عائشہ کے پاس پہونچا تو دیکھا کہ وہ حکم چلا رہی ہیں اور کچھ باتوں سے روک رہی ہیں. یہاں مجھے رسول(ص) کی ایک حدیث یاد آگئی جو خود میں نے آنحضرت سے سنی تھی آپ فرما رہے تھے کہ:

وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس کے امور کی باگ ڈور عورت کے ہاتو میں ہوتی ہے.

پس میں واپس آگیا.

اسی طرح بخاری نے مسلم ابن ابی بکر سے روایت کی ہے ان کا قول ہے:

____________________

1.تاریخ طبری جلد/5 ص178 شرح نہج البلاغہ جلد/2 ص501

۱۶۳

جنگ جمل کے دوران مجھے ایک کلمہ کے ذریعہ فائدہ پہونچا. جب رسول(ص) کو یہ معلوم ہوا کہ فارس میں کسری کی بیٹی حکومت کر رہی ہے تو آپ نے فرمایا:

وہ قوم فلاح و بہبود کا منہ نہیں دیکھ سکتی جس کے امور کی باگ ڈور عورت کے ہاتھ میں ہو.(1)

ایک ہی وقت میں ام المومنین عائشہ کا مضحکہ خیز اور شک آور موقف سامنے آتا ہے کہ وہ خدا اور رسول(ص) کی معصیت کرتے ہوئے گھر سے نکلتی ہیں اور صحابہ سے کہتی ہیں کہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہو.

وہ تعجب خیز بات یہ ہے!! آپ اس کی وجہ جانتے ہیں؟

ابن ابی الحدید اپنی شرح میں،اور دوسرے مورخین نے تحریر کیا ہے کہ عائشہ نے بصرہ سے زید ابن صوحان عبدی کو ایک خط لکھا اس کا مضمون یہ تھا یہ خط ام المومنین عائشہ بنت ابو بکر زوجہ رسول(ص) کی طرف سے ان کے بیٹے زید ابن صوحان کے نام ہے.

اما بعد: تم اپنے گھر میں(بیٹھے) رہو اور لوگوں کو علی ابن ابی طالب(ع) کی مدد سے روکو! امید ہے کہ تمہارے بارے میں مجھے وہی اطلاع ملے گی جسے میں دوست رکھتی ہوں. کیونکہ میری اولاد میں تم معتمد ہو.

والسلام

____________________

1.صحیح بخاری جلد/8 ص97، باب الفتن، نسائی جلد/4 ص305، مستدرک جلد/4 ص525

۱۶۴

اس مرد صالح نے انہیں وہی جواب لکھا جو ان کے شایان شان تھا. لکھتے ہیں.

یہ خط زید ابن صوحان کی طرف سے عائشہ بنت ابوبکر کے نام:

اما بعد! خدا نے کچھ چیزیں تم پر اور کچھ ہم پر واجب کی ہیں تمہارے اوپر گھر میں رہنا واجب ہے اور ہم پر جہاد کرنا واجب ہے. آپ کا خط ملا جس میں آپ نے مجھے خدا کی حکم کے خلاف عمل کرنے کا حکم دیا ہے. جو خدا نے تم پر واجب کیا ہے اسے میں انجام دوں اور جو مجھ پر واجب ہے تم اس پر عمل کرو میں نزدیک تمہاری اطاعت واجب نہیں ہے اور آپ کا یہ خط لائق جواب نہیں ہے.

یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عائشہ نے جنگ جمل کے لشکر کی قیادت ہی پر اکتفا نہیں کی بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی قیادت کی حرص میں مبتلا تھیں اور اس کے لئے وہ طلحہ و زبیر کو حکم دیتی تھیں، عامل و حکام کو خط لکھتی تھیں اور انہیں مختلف طریقوں سے طمع دے کر مدد طلب کرتی تھیں.

انہیں باتوں کی وجہ سے وہ اس مرتبہ پر پہونچیں اور بنی امیہ میں خوب شہرت پائی اور ان کی توجہ کا مرکز قرار پائیں. جو چیز ان کی عظمت و سطوف کا سبب بنی وہ ان کا حضرت علی(ع) کے مقابلہ میں آجانا تھا. کیونکہ حضرت علی(ع) کے مقابلہ میں شیر دل افراد، شہرت یافتہ پہلوان اور دلیر بھاگتے ہی نظر آتے تھے. لیکن عائشہ میدا میں ڈٹی رہیں. مدد طلب کرتی رہیں لوگوں کو گھروں سے باہر نکال دیتیں....

۱۶۵

.................... اس لئے عقلیں متحیر، مورخین میں وہ لوگ پریشان ہیں جو جنگ جمل صغری میں علی(ع) کی آمد سے قبل ان کے موقف کو سمجھ گئے ہیں اور جنگ جمل کبری میں علی(ع) کی آمد کے بعد عائشہ نے لوگوں کو کتاب خدا کی طرف دعوت دینا شروع کر دی اور اپنے اس عناد کے سبب کہ جو انہیں اپنے بیٹوں سے تھا جو خدا و رسول(ص) کے مخلص تھے جنگ کرنے پر مصر ہیں.

نبی نے عائشہ اور ان کے فتنہ سے ڈرایا

یقینا نبی(ص) اپنے خلاف ہونے والی سازش کو بخوبی جانتے تھے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آپ جانتے تھے کہ مردوں کے خلاف عورتیں فتنہ پھیلانے میں مہارت رکھتی ہیں. جس طرح آپ(ص) کو معلوم تھا کہ عورتوں کے مکر اتنے ہی عظیم ہوتے ہیں کہ اس کے ذریعہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دیں. خصوصا آپ اس بات کو پہچان چکے تھے کہ آپ کی زوجہ عائشہ اس میں غلطی سے دوچار ہوگئیں. کیونکہ ان کی طبیعت میں آپ کے خلیفہ علی(ع) کی طرف سے خصوصا اور اہل بیت(ع) کی طرف سے عموما بغض و کینہ بھرا ہوا ہے. کیوں نہ ہو آپ خود اپنی زندگی میں عائشہ کو اور اہل بیت(ع) سے ان کو دشمنی کو ملاحظہ فرما چکے تھے. اسی لئے کبھی عائشہ پر غضبناک ہوتے اور کبھی آپ کے چہرہ اقدس کا رنگ متغیر ہو جاتا. ہر مرتبہ ہی کوشش فرماتے تھے کہ عائشہ کو یہ بات باور کرا دیں کہ علی(ع) کا دوست خدا کا دوست ہے اور جو علی(ع) سے بغض رکھتا ہے وہ دشمن خدا اور منافق ہے. لیکن افسوس یہ احادیث ان کے نفوس میں اتر گئیں جو حق کو حق صرف اپنے فائدہ کے لئے سمجھتے ہیں.

۱۶۶

اسی لئے جب رسول(ص) کو یہ معلوم ہوا کہ یہ بہت بڑا فتنہ ہے جس کو خدا نے اس امت کی آزمائش و امتحان کے لئے مقرر کردیا ہے جس طرح گذشتہ امتوں کو آزمائش میں مبتلا کیا تھا. ارشاد ہے:

( الم أَحَسِبَ‏ النَّاسُ‏ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا ءَامَنَّا وَ هُمْ لَايُفْتَنُونَ ) عنکبوت آیت/2

کیا ان لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ یہ کہدیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں.

اور ان کا امتحان نہیں لیا جائے گا.

یقینا رسول(ص) نے متعدد بار اپنی امت کو اس سے ڈرایا یہاں تک کہ ایک روز آپ کھڑے ہوئے اور عائشہ کے گھر کی طرف رخ کر کے فرمایا یہ فتنہ گاہ ہے. یہاں سے اس طرح فتنہ پھوٹے گا جس طرح شیطان کے سینگھ نکلتے ہیں.

بخاری نے اپنی صحیح کے باب"ماجاء فی بیوت ازواج النبی(ص)" میں نافع سے اور انھوں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا رسول(ص) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے عائشہ کے گھر کی طرف اشارہ کیا اور تین مرتبہ فرمایا: "یہاں فتنہ ہے جو شیطان کے سینگھ کی طرح نکلے گا"(1) اس طرح مسلم نے اپنی صحیح میں عکرمہ ابن عمار سے اور انہوں نے

____________________

1.صحیح بخاری جلد/4 ص46

۱۶۷

سالم سے اور سالم نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ: ایک روز رسول(ص) عائشہ کے گھر سے نکلے اور فرمایا:

کفر کا سر یہاں ہے جو شیطان کے سینگھ کی طرح نکلے گا.(1)

اہل سنت کی اس توجیہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ رسول(ص) کی مراد مشرق ہے یہ تو گڑھی ہوئی بات ہے کیونکہ وہ ام المومنین عائشہ کو اس تہمت سے بچانا چاہتے ہیں.

نیز صحیح بخاری میں بیان ہوا ہے کہ: جب طلحہ و زبیر اور عائشہ بصرہ پہونچے تو علی(ع) نے( اپنے بیٹے) حسن(ع) اور عمار کو ہمارے پاس کوفہ روانہ کیا. یہ دونوں(حسن(ع) عمار) منبر پر گئے بس حسن(ع) ابن علی(ع) منبر کے سب سے اونچے زبز پر تشریف فرما ہوئے اورعمار ان سے نیچے، ہم لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے میں نے عمار یاسر کو فرماتے سنا کہ: عائشہ بصرہ پہونچ گئیں ہیں قسم خدا کی اگرچہ وہ دنیا و آخرت میں ہمارے نبی(ص) کی زوجہ ہیں لیکن خدائے تعالی نے تمہیں اس میں مبتلا کر دیا تا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ تم خدا کی اطاعت کرتے ہو یا عائشہ کی.(2)

اللہ اکبر: یہ خبر بھی اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ عائشہ کہ اطاعت بھی معصیت ہے اور ان سے روگردانی اور ان کے خلاف قیام کرنے میں

____________________

1.صحیح مسلم جلد/8 ص181

2.صحیح بخاری جلد/8 ص97

۱۶۸

خدا کی اطاعت ہے.

جیسا کہ ہم اس بحث میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ بنی امیہ کے( زر خیز) راویوں نے آخرت کا اضافہ کر دیا ہے چنانچہ کہدیا" وہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی(ص) کی زوجہ ہیں" تاکہ لوگوں کو فریب دیا جاسکے کہ خدا نے ان کے تمام گناہوں کو معاف کر دیا ہے اور داخل جنت کر دیا ہے اور ( اب بھی) ان کے شوہر حبیب خدا رسول(ص) ہیں. ورنہ عمار کو یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ عائشہ آخرت میں بھی آپ کی زوجہ ہیں.

یہ دوسرا حیلہ ہے کہ جو بنی امیہ کے زمانہ میں روایت گڑھنے والوں نے عائشہ کے لئے گڑھ دیا تھا. اور جب بھی وہ کوئی حدیث لوگوں کی زبان پر جاری دیکھتے تھے تو اس کا انکار و تکذیب نہیں کرسکتے تھے تو اس میں کسی فقرہ یا کلمہ کا اضافہ کر دیتے تھے. یا اس حدیث کے بعض الفاظ بدل دیتے تھے تاکہ اس حدیث کا زور ختم کر دیں یا اس کے مخصوص معنی ہی کو ختم کر دیں. جیسا کہ انہوں نے حدیث" انا مدینة العلم و علی بابها" میں" ابوبکر اساسها و عمر حیاطها و عثمان سقفها" کا اضافہ کر دیا ہے.

یہ بات انصافور محقق پر مخفی نہیں ہے لہذا وہ ان اضافوں کو باطل قرار دیتے ہیں کہ جن سے گڑھنے والوں کی ضعیف العقلی اور احادیث نبوی کے نور حکمت سے دوری واضح ہو جاتی ہے.

پس جب وہ اس قول کو ملاحظہ کرتے ہیں کہ ابوبکر اس کی اساس تو اس کے یہ معنی نکلتے ہیں کہ رسول(ص) کا سارا علم ابوبکر کے علم سے ماخوذ ہے اور یہ کفر ہے. جس طرح ان کے اس قول کہ عمر اس کی دیوار ہیں کے یہ معنی ہیں کہ عمر اس شہر میں لوگوں کو داخل نہیں ہونے دیتے یعنی لوگوں کو علم حاصل نہیں کرنے دیتے

۱۶۹

اور ان کا یہ قول کہ عثمان اس کی چھت ہیں تو یہ سرے سے باطل ہے کیونکہ کوئی شہر ایسا نہیں ہے جس میں چھت پڑی ہو اور یہ محال بھی ہے جس طرح انہوں نے یہ ملاحظہ کیا کہ عمار خدا کی قسم کھا کے کہتے ہیں کہ عائشہ دنیا و اخرت میں نبی(ص) کی زوجہ ہیں تو یہ غیب کی خبر ہے ورنہ عمار کو حق کہاں سے حاصل ہوا کہ وہ نا معلوم شئی کے بارے میں قسم کھائیں؟ کیا اس سلسلہ میں کتاب خدا میں کوئی آیت ہے یا یہ کوئی حدیث ہے جو رسول(ص) نے عمار سے بیان فرمائی تھی؟

پس حدیث صحیح ہے کہ عائشہ بصرہ پہونچ چکی ہیں وہ تمہارے نبی(ص) کی زوجہ ہیں لیکن خدا نے ان کے ذریعہ تمہیں اس لئے امتحان میں مبتلا کیا ہے تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ تم اس کی اطاعت کرتے ہو یا وہ.

ہم اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیںکہ اس نے ہمیں عقل سے نوازا ہے کہ جس کے ذریعہ ہم حق کو باطل سے جدا کرتے ہیں اور ہمارے لئے راستہ کو واضح کیا پھر ہمیں متعدد چیزوں میں مبتلا کیا تاکہ روز قیامت ہمارے اوپر حجت قائم ہوجائے.

خاتمہ بحث

ہماری پوری گذشتہ بحث میں اہم پہلو یہ تھا کہ ام المومنین زوجہ رسول(ص) عائشہ بنت ابوبکر اہل بیت میں شمار نہیں ہوئی ہیں. جن کو ہر قسم کے گناہ سے محفوظ رکھا اور ہر رجس سے پاک رکھا ہے وہ معصوم ہیں.

عائشہ کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ انہوں نے اپنی عمر کے آخری ایام بہت ہی حسرت و یاس اور ندامت میں گذارے ہیں. اپنے

۱۷۰

اعمال کو یاد کرتی ہیں تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں. شاید خدا ان کے گناہوں کو بخش دے. کیونکہ اپنے بندوں کے راز سے فقط وہی واقف ہے وہی ان کی نیتوں سے با خبر ہے، وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے. اور سینہ میں مخفی بھید سے واقف ہے، زمین و آسمان کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے ہم میں سے کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ ہم اس کی کسی مخلوق کے بارے میں جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ کریں، اس کا اختیار تو خدا ہی کو ہے. چنانچہ ارشاد ہے.

( لِلَّهِ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ وَ إِنْ‏ تُبْدُوا ما فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشاءُ وَ يُعَذِّبُ مَنْ يَشاءُ وَ اللَّهُ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ ) بقرہ/284

اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کی کل کائنات ہے تم اپنے دل کی باتوں کا اظہار کرو یا ان پر پردہ ڈال دو وہ سب کا حساب لے گا، وہ جس کو چاہے گا بخش دے گا اور جس پر چاہے گا عذاب کرے گا.اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے.

اس لحاظ سے ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم ان کی شخصیت کو گرائیں یا ان پر لعنت کریں لیکن ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم ان کی اقتدا نہ کریں اور ان کے اعمال کو اچھا نہ سمجھیں بلکہ ان ہی حقیقت کی وضاحت کے پیش نظر لوگوں کے درمیان بیان کریں، ممکن ہے اس سے انہیں حق کی ہدایت ملے.

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں.

"ولا تکونوا سبابین و لا لعانین و لکن قولوا: کان من فعلهم کذا و کذا لتکون ابلغ فی الحجة"

۱۷۱

سب و شتم اور لعن و طعن کرنے والے نہ بن جائو لیکن اتنا بہر حال کہو کہ ان کے کارنامے یہ ہیں. تا کہ حجت تمام ہو جائے.

اہل بیت(ع) کے متعلق اہل ذکر کا نظریہ

سردار عترت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں:.

"تَاللَّهِ لَقَدْ عُلِّمْتُ‏ تَبْلِيغَ‏ الرِّسَالاتِ‏ وَ إِتْمَامَ الْعِدَاتِ وَ تَمَامَ الْكَلِمَاتِ، وَ عِنْدَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ أَبْوَابُ الْحُكْمِ وَ ضِيَاءُ الْأَمْرِ."

خدا کی قسم مجھے پیغاموں کے پہونچانے وعدوں کے پورا کرنے اور آیتوں کی صحیح تاویل بیان کرنے کا خوب علم ہے ہم اہل بیت نبوت وہ ہیں جن کے پاس علم و معرفت کا خزانہ ہے اور شریعت کی روشن راہیں ہیں.

"أَيْنَ‏ الَّذِينَ‏ زَعَمُوا أَنَّهُمُ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ دُونَنَا كَذِباً وَ بَغْياً عَلَيْنَا أَنْ رَفَعَنَا اللَّهُ وَ وَضَعَهُمْ وَ أَعْطَانَا وَ حَرَمَهُمْ وَ أَدْخَلَنَا وَ أَخْرَجَهُمْ بِنَا يُسْتَعْطَى الْهُدَى وَ يُسْتَجْلَى الْعَمَى إِنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ قُرَيْشٍ غُرِسُوا فِي هَذَا الْبَطْنِ مِنْ هَاشِمٍ لَا تَصْلُحُ عَلَى سِوَاهُمْ وَ لَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ مِنْ غَيْرِهِمْ‏"

................................

1.نہج البلاغہ خطبہ نمبر118

۱۷۲

کہاں ہیں وہ افراد جھوٹے ہیں ہم پر ستم روا رکھے ہوئے ہیں، وہ دعویدار علم و حکمت ہیں جب کہ راسخون فی العلم ہم ہیں اللہ نے ہمیں بلند کیا ہے اور انہیں پست قرار دیا ہے ہمیں منصب امامت سے سر فراز کیا ہے اور انہیں محروم رکھا ہے ہم وہ ہیں جن سے ہدایت کے متلاشی ہدایت حاصل کرسکتے ہیں اور گمراہی و تاریکی دور کی جاسکتی ہے. بلاشبہ امام قبیلہ قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخ قبیلہ نبی ہاشم ہے جن کے صلب سے امام یکے بعد دیگرے ظاہر ہوں گے امامت وہ منصب جلیلہ ہے جو کسی کو زیب نہیں دیتی ہے اور نہ ان کے علاوہ کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے.(1)

"نَحْنُ‏ الشِّعَارُ وَ الْأَصْحَابُ وَ الْخَزَنَةُ وَ الْأَبْوَابُ لَا تُؤْتَى الْبُيُوتُ إِلَّا مِنْ أَبْوَابِهَا فَمَنْ أَتَاهَا مِنْ غَيْرِ أَبْوَابِهَا سُمِّيَ سَارِقاً فِيهِمْ كَرَائِمُ الْقُرْآنِ وَ هُمْ كُنُوزُ الرَّحْمَنِ إِنْ نَطَقُوا صَدَقُوا وَ إِنْ صَمَتُوا لَمْ يُسْبَقُوا."(2)

ہم اہل بیت(ع) رسول(ص) کے قرابتدار اور اصحاب خاص اور مخزن نبوت و باب العلم ہیں. جو شخص کسی گھر میں داخل ہونا چاہتا ہے اس کو چاہیئے کہ درواہ سے آئے جو دروازہ کو چھوڑ کر

____________________

1.نہج البلاغہ خطبہ نمبر142

2. نہج البلاغہ خطبہ نمبر152

۱۷۳

کسی اور راہ سے داخل ہو وہ چور کہلائے گا، اہل بیت وہ ہیں جن کے بارے میں قرآن کی بے شمار آیتیں اتری ہیں اور وہ اللہ کے خزینے ہیں اگر ہم بولتے ہیں تو سچ اور خاموش رہتے ہیں تو کسی کو بولنے کا حق نہیں.

"هم‏ عيش‏ العلم‏ و موت الجهل، يخبر حلمهم عن علمهم، و ظاهرهم عن باطنهم، و صمتهم عن حكم منطقهم، لا يخالفون الحقّ و لا يختلفون فيه، هم دعائم الإسلام، و ولائج الاعتصام، بهم عاد الحقّ في نصابه، و انزاح الباطل عن مقامه، و انقطع لسانه عن منبته، عقلوا الدّين عقل وعاية و رعاية، لا عقل سماع و رواية، فإنّ رواة العلم كثير و رعاته قليل."(1)

اہل بیت علم کے لئے باعث حیات اور جہالت کے لئے سبب مرگ ہیں ان کا حلم ان کے علم کا، ان کا ظاہر ان کے باطن کا اور ان کی خاموشی ان کے کلام کی حکمتوں کا پتہ دیتی ہے. وہ نہ تو حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف پیدا کرتے ہیں. وہ اسلام کے ستون اور محافظت کے ذمہ­دار ہیں ان کی وجہ سے حق اپنی جگہ پلٹ آیا اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیا اور اس کی زبان اس کی جڑ سے کٹ گئی، انہوں نے دین کو سمجھ کر

____________________

1.نہج البلاغہ خطبہ نمبر236

۱۷۴

اور اس پر عمل کر کے پہچانا نہ کہ روایت و سماعت سے جانا. یوں تو علم کے راوی بہت ہیں مگر اس پر عمل پیرا ہو کر نگہ داشت کرنے والے کم ہیں.

"عِتْرَتُهُ‏ خَيْرُ الْعِتَرِ وَ أُسْرَتُهُ خَيْرُ الْأُسَرِ وَ شَجَرَتُهُ خَيْرُ الشَّجَرِ نَبَتَتْ فِي حَرَمٍ وَ بَسَقَتْ فِي كَرَمٍ لَهَا فُرُوعٌ طِوَالٌ وَ ثَمَرٌ لَا يُنَالُ.(1)

نَحْنُ‏ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ وَ مَحَطُّ الرِّسَالَةِ وَ مُخْتَلَفُ الْمَلَائِكَةِ وَ يَنَابِيعُ الْحِكْمَةِ وَ مَعَادِنُ الْعِلْمِ، نَاصِرُنَا وَ مُحِبُّنَا يَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ وَ عَدُوُّنَا وَ مُبْغِضُنَا يَنْتَظِرُ السَّطْوَةَ.(2)

رسول(ص) مقبول کی عترت بہترین عترت ہے اور سیرت بہترین سیرت ہے. شجرہ نبوت بہترین شجرہ ہے اور ایسا شجرہ ہے جو سرزمین حرم پر اگا اور بزرگی کے سائے میں بڑھا اس کی شاخین دراز اور پھل دسترس سے باہر ہیں.

ہم اہل بیت، نبوت کے درخت، رسالت کی قیام گاہ، ملائکہ کی فرودگاہ، علم کا معدن، اور حکمت کے سرچشمہ ہیں، ہماری نصرت کرنے والا رحمت کے لئے چشم براہ ہے اور ہم سے دشمنی و عناد رکھنے والے کو قہر الہی کا منتظر رہنا چاہیئے

____________________

1. نہج البلاغہ خطبہ نمبر94

2. نمبر107

۱۷۵

"نَحْنُ‏ النُّجَبَاءُ وَ أَفْرَاطُنَا أَفْرَاطُ الْأَنْبِيَاءِ وَ أَنَا وَصِيُّ الْأَوْصِيَاءِ وَ أَنَا مِنْ حِزْبِ اللَّهِ وَ حِزْبِ رَسُولِهِ وَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ مِنْ حِزْبِ الشَّيْطَانِ وَ الشَّيْطَانُ مِنْهُمْ فَمَنْ شَكَّ فِينَا وَ عَدَلَ عَنَّا إِلَى عَدُوِّنَا فَلَيْسَ مِنَّا

فَأَيْنَ‏ تَذْهَبُونَ‏ وَ أَنَّى‏ تُؤْفَكُونَ‏ وَ الْأَعْلَامُ قَائِمَةٌ وَ الآْيَاتُ وَاضِحَةٌ وَ الْمَنَارُ مَنْصُوبَةٌ فَأَيْنَ يُتَاهُ بِكُمْ وَ كَيْفَ تَعْمَهُونَ وَ بَيْنَكُمْ عِتْرَةُ نَبِيِّكُمْ وَ هُمْ أَزِمَّةُ الْحَقِّ وَ أَعْلَامُ الدِّينِ وَ أَلْسِنَةُ الصِّدْقِ فَأَنْزِلُوهُمْ بِأَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْآنِ وَ رِدُوهُمْ وُرُودَ الْهِيمِ الْعِطَاشِ.(1)

أَيُّهَا النَّاسُ خُذُوهَا عَنْ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ ص إِنَّهُ يَمُوتُ مِنْ مَاتَ مِنَّا وَ لَيْسَ بِمَيِّتٍ وَ يَبْلَى مَنْ بَلِيَ مِنَّا وَ لَيْسَ بِبَالٍ فَلَا تَقُولُوا بِمَا لَا تَعْرِفُونَ فَإِنَّ أَكْثَرَ الْحَقِّ فِيمَا تُنْكِرُونَ وَ أَعْذِرُوا مَنْ لَا حُجَّةَ لَكُمْ عَلَيْهِ وَ هُوَ أَنَا أَ لَمْ أَعْمَلْ فِيكُمْ بِالثَّقَلِ الْأَكْبَرِ وَ أَتْرُكْ فِيكُمُ الثَّقَلَ الْأَصْغَرَ قَدْ رَكَزْتُ فِيكُمْ رَايَةَ الْإِيمَانِ.(2)

ہم اشراف قریش ہیں ہماری بلندی انبیاء کی بلندی ہے ہمارا گروہ اللہ کا گروہ ہے اور فتنہ پروروں کا گروہ شیطان

____________________

1.نہج البلاغہ خطبہ نمبر85

2....... نمبر85

۱۷۶

کا گروہ ہے.

اے لوگو تم کہاں جا رہے ہو اور تمہیں کدھر موڑا جا رہا ہے جب کہ ہدایت کے بلند نشانات ظاہر و روشن اور حق کے مینار نصب ہیں اور تمہیں کہاں بہکایا جارہا ہے اور تم ہو کہ ادھر ادھر بھٹک رہے ہو جب کہ تمہارے نبی کی عترت تمہارے درمیان موجود ہے، وہ حق کی باگیں دین کے پرچم اور سچائی کی زبانیں، پس تم لوگ قرآن کی تنزیل کو اچھی طرح سمجھ لیتے ہو. لوگوں کو ہی ان کے پاس پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سرچشمہ ہدایت پر لے آئو.

اے لوگو! حضرت خاتم الانبیین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس ارشاد کو سنو کہ آپ نے ایک موقع پر فرمایا: ہم میں جو مرجاتا ہے وہ مردہ نہیں ہے، ہم میں سے بظاہر مردہ ہو کر بوسیدہ ہو جاتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ وہ کبھی بوسیدہ نہیں ہوتا ہے جو باتیں تم نہیں جانتے ہو ان کے متعلق زبان سے کچھ نہ نکالو اس لئے کہ حق کا بیشتر حصہ انہیں چیزوں میں ہوتا ہے جن سے تم بیگانہ و نا آشنا ہو جس شخص کی حجت تم پر تمام ہو اور تمہاری حجت کوئی اس پر تمام نہ ہو اس کو معذور سمجھو اور وہ ہیں ہوں. کیا میں تمہارے سامنے ثقل اکبر(قرآن) پر عمل نہیں کیا اور ثقل اصغر(اہل بیت) کو تم میں نہیں رکھا.

۱۷۷

"انْظُرُوا أَهْلَ‏ بَيْتِ‏ نَبِيِّكُمْ‏ فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ وَ اتَّبِعُوا أَثَرَهُمْ فَلَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ هُدًى وَ لَنْ يُعِيدُوكُمْ فِي رَدًى فَإِنْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا وَ إِنْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا وَ لَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا وَ لَا تَتَأَخَّرُوا عَنْهُمْ فَتَهْلِكُوا"

اپنے نبی کی ذریت یعنی اہل بیت کی سیرت پر چلو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو وہ تمہیں کبھی ہدایت سے باہر نہیں ہونے دیں گے اور نہ گمراہی و ہلاکت کی طرف جانے دیں گے، اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جائو اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو، ان سے آگے نہ بڑھ جائو ورنہ گمراہ ہو جائو گے اور نہ انہیں چھوڑ کر پیچھے رہ جائو ورنہ تباہ ہو جائو گے.(1)

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے یہ ارشادات خصوصا اہل بیت(ع) طاہرین سے متعلق ہیں کہ جن سے اللہ نے رجس و کثافت سے ایسے پاک رکھا ہے جو حق ہے.

اگرہم ان کی اولاد میں سے ہونے والے ان ائمہ کے اقوال کی چھان بین کرتے کہ جنہوں نے لوگوں کے درمیان خطبے دئیے ہیں. جیسے امام حسن(ع) اور امام حسین(ع)، زین العابدین(ع)، و جعفر صادق(ع)، اور امام علی رضا علیہم السلام تو ہمیں بالکل وہی کلام ملتا جو آپ(علی(ع)) کا ہے. اور وہ انہیں باتوں کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ملتے جن کی طرف آپ اشارہ فرماچکے ہیں اور ہر زمانہ اور

____________________

1.نہج البلاغہ خطبہ نمبر95

۱۷۸

ہرجگہ کتاب خدا اور عترت رسول(ص) کی طرف لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں تاکہ انہیں گمراہی سے نکال کر راہ ہدایت پر گامزان کردیں. یہاں میں اس بات کا اور اضافہ کردوں کہ عصمت اہلبیت(ع) پر تاریخ بہترین گواہ ہے، ان کا علم و تقوی اور زہد و ورع، جود و کرم و برد باری و عفو و بخشش اور وہ تمام افعال جسے خدا و رسول(ص) دوست رکھتے ہیں تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں.

اسی طرح تاریخ اس بات پر بھی بہترین شاہد ہے کہ اس امت میں سے صوفی اور شیخ طریقت میں سے بعض افراد اور مذاہب کے پیشوا موجودہ اور گذشتہ زمانہ کے صالح علماء سب کو اہل بیت(ع) کی افضلیت کی اعتراف ہی اور علم و عمل کے لحاظ سے انہیں سب سے بلند قرار دیتے ہیں نیز رسول(ص) کے مخصوص قرابتدار کہتے ہیں.

ان تمام باتوں کے باوجود ایک مسلمان کے لئے جائز نہیں،، ہے کہ وہ اہل بیت(ع) کہ جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا اور انہیں اس طرح پاک رکھا جو حق ہے. جنہیں رسول(ص) نے کسا کے نیچے کیا" ان میں نبی(ع) کی ازواج کا اضافہ کرے.

کیا تم نہیں دیکھتے کہ بخاری و مسلم و ترمذی، امام احمد اور نسائی نے اپنی اپنی صحاح اور مسانید میں احادیث فضائل نقل کرتے وقت اہل بیت کو ازواج نبی(ص) سے علیحدہ طور پر بیان کیا ہے.

جیسا کہ صحیح مسلم میں باب فضائل علی ابن ابی طالب(ع) میں بیان

____________________

1.صحیح بخاری جلد/7 ص130

۱۷۹

ہوا ہے کہ زید ابن ارقم نے رسول(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:

آگاہ ہو جائو میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑنے والا ہوں، ایک کتاب خدا کہ جو حبل اللہ ہے جس نے اس کی پیروی کی اس نے ہدایت پائی اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہ ہوا.

اس کے بعد آپ(ص) نے فرمایا:

میں اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں میں اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں. میں اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں.

ہم نے کہا کیا آپ کے اہل بیت(ع) میں آپ کی ازواج بھی ہیں؟ فرمایا: نہیں خدا کی قسم عورت مرد کے ساتھ ایک زمانہ تک رہتی ہے جب وہ اسے طلاق دے دیتا ہے تو وہ اپنے ماں باپ کی طرف پلٹ جاتی ہے. ان کے اہل بیت(ع) ان کے خاندان والے وہ لوگ ہیں جن پر آپ(ص) کے بعد صدقہ حرام ہے.(1)

اسی طرح بخاری و مسلم میں نزول آیہ تیمم کے واقعہ کے ذیل میں یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ عائشہ ابوبکر کی اولاد ہیں نبی(ص) کی آل سےنہیں ہیں.(2) پس ان کینہ پروروں کو جن کی کوشش فتنہ پردازی اور ٹھوس حقائق کو پامال کرنا ہے انہیں اس بات پر اصرار کیوں ہے؟

____________________

1.صحیح بخاری جلد/7 ص123 باب فضائل علی ابن ابی طالب(ع)

2.بخاری جلد/1 ص86 مسلم جلد/1 ص190

۱۸۰