اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟13%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 37980 / ڈاؤنلوڈ: 5184
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

بہایا جاتا ہے. اور پھر نبی(ص) نے اسلام کی دعوت دینے کا حکم دیا تھا نہ کہ ان کے قتل کرنے کا.

لیکن خالد پر جاہلیت والے جھگڑے اور شیطانی حمیت غالب آگئی تھی. اس کا سبب یہ تھا کہ بنی جذیمہ نے زمانہ جاہلیت میں خالد کے چچا الفاکہ ابن المغیرہ کو قتل کیا تھا لہذا خالد نے انہیں فریب دیا اور اپنے لشکر والوں سے کہا کہ تم اپنا اسلحہ رکھ دو کیونکہ یہ لوگ اسلام لے آئے ہیں اور اس کے بعد انہیں حکم دیا کہ پس گردن ان لوگوں کے ہاتھ باندھ دو اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو قتل کر دیا.

جب بعض مخلص صحابہ کو خالد کی اس دشمنی کی اطلاع ملی تو خالد کے لشکر سے بھاگ کر نبی(ص) کے پاس آئے اور روداد سنائی تو آپ(ص) نے خالد کے اس فعل سے برائت کا اظہار فرمایا. اور علی(ع) ابن ابی طالب کو بھیج کر ان کے جان و مال کی دیت ادا فرمائی.

اس حادثہ کی مختصر تفصیل کے لئے " عباس محمود العقاد" کی "عبقریہ خالد" کا مطالعہ کافی ہے عقاد مذکور کتاب کے ص۵۷ ص۵۸ پر رقم طراز ہیں.

فتح مکہ کے بعد رسول(ص) دیہاتوں کو بتوں کی پرستش سے پاک کرنے کی طرف متوجہ ہوئے، ان میں بسنے والے قبائل کی طرف دعوت اسلام کے لئے چھوٹے چھوٹے لشکر روانہ کئے ان لشکروں میں سے ایک لشکر خالد ابن ولید کا تھا جو انصار و مہاجرین و بنی سلیم کے تین سو پچاس افراد پر مشتمل تھا اس لشکر کو بنی جذیمہ کی طرف انہیں دعوت اسلام دینے کے لئے بھیجا تھا ان لوگوں کو قتل کا حکم نہیں دیا تھا. زمانہ جاہلیت میں قبیلہ جذیمہ انتہائی شرپسند تھا اور لوگ اسے خون کا لوتھڑا کہتے تھے ان کی خونریزیوں میں سے ایک خالد کے چچا الفاکہ ابن المغیرہ اور اس کے چچا زاد بھائی اور عبدالرحمن ابن عوف کے والد کا قتل بھی ہے

۲۴۱

اور بنی سلیم میں سے مالک ابن شرید اور اس کے تین بھائیوں کا قتل ہے اور ان کے علاوہ اور بہت سے قبائل ہیں.

جب خالد ابن ولید ان کے قریب پہونچا اور انہیں بھی یہ اطلاع ہوگئی کہ اس کے ساتھ بنی سلیم بھی ہیں تو بنی جذیمہ مسلح ہو کر جنگ کے لئے آمادہ ہوئے اور خالد کو وہاں اترنے سے منع کر دیا تو خالد نے دریافت کیا کہ تم مسلمان ہو؟ بعض لوگوں نے کہا جی ہاں! اور بعض نے کہا کہ ہم نے بت پرستی چھوڑ دی ہے پھر خالد نے کہا کہ تم اگر مسلمان ہو تو یہ ہتھیار کیوں اٹھائے ہوئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا ہ ہمارے اور قوم عرب کے درمیان دشمنی ہے. ہمیں یہ خوف تھا کہ کہیں تم لوگ وہی تو نہیں ہو. اس لئے ہم نے اسلحہ اٹھا لیا! پس خالد نے اپنے لشکر والوں سے کہا کہ اسلحہ رکھ دو ان لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے. ان میں سے حجدم نامی ایک شخص نے چیخ کر کہا: اے جذیمہ کی اولاد ویل ہو تم پر قسم خدا کی خالد اسلحہ رکھوا لینے کے بعد تمہیں گرفتار کرے گا اور اس کے بعد گردن مروا دے گا قسم خدا کی میں تو کبھی اپنا اسلحہ نہیں رکھوں گا لیکن لوگوں نے اس سے بھی اسلحہ رکھوا لیا اور کچھ افراد متفرق ہوگئے.

اس کے بعد خالد نے ان لوگوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور پھر قتل کرنے کے لئے کہدیا.بنی سلیم نے اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے انہیں قتل کیا اور انصار و مہاجرین قتل کرنے سے یہ کہہ کے مکر گئے کہ رسول(ص) نے ہمیں قتال کے لئے نہیں بھیجا ہے. جب اس سانحہ کی خبر آپ(ص) تک پہونچی تو آپ(ص) نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے تین بار فرمایا: پروردگار خالد بن ولید نے جو کچھ کیا ہے میں اس سے بری ہوں. اس کے بعد آنحضرت(ص) نے علی ابن ابی طالب(ع) کو بنی جذیمہ کے پاس بھیجا اور ان کے جان و مال کی دیت دلائی.

۲۴۲

اس حادثہ سے ان بزرگ صحابہ کے درمیان خلفشار پیدا ہوگیا جو اس سریہ میں شریک ہوئے تھے. اور جو شریک نہیں ہوئے تھے یہاں تک کہ عبدالرحمن ابن عوف نے صاف صاف کہہ دیا کہ خالد نے جان بوجھ کر لوگوں کو قتل کیا ہے. تا کہ اپنے چچا کا انتقام لے سکتے. یہ تھا عقاد کا بیان.

یہ تھی وہ عبادت جس کو عقاد نے اپنی عبقریہ خالد میں قلمبند کیا ہے لیکن عقاد بھی اہلسنت کے دوسرے مفکرین کی طرح اس قصہ کو لکھنے کے بعد خالد کو بری قرار دیتے ہیں. لیکن ان کی باتوں میں کوئی دم خم نہیں ہے نہ ہی عقل سلیم اسے قبول کرتی ہے. عقاد کے پاس " عبقریہ ا لخالد" لکھنے کے علاوہ کوئی چارہ کار ہی نہ تھا.

جب کہ اس عذر کی حقیقت " تار عنکبوت" سے زیادہ نہیں ہے. جو بھی مطالعہ کرے گا وہ اس بے جا دفاع سے آگاہ ہو جائے گا.

معلوم نہیں کیسے انہوں نے عذر تراشی سے کام لیا جبکہ وہ خود اپنی تحریر میں اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ نبی(ص) نے خالد ابن ولید کو ان کے پاس دعوت اسلام کے لئے بھیجا تھا قتال کا حکم نہیں دیا تھا. عقاد اس بات کا اعتراف بھی کرچکے ہیں کہ نبی جذیمہ نے ہتھیار و اسلحہ سجالئے تھے. لیکن خالد نے جب اپنے لشکر والوں سے کہا کہ تم اپنا اسلحہ اتار دو کیونکہ یہ لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں تو بنی جذیمہ اس کے فریب میں آگئے. عقاد یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ حجدم نے ہتھیار رکھنے سے منع کر دیا اور اپنی قوم والوں سے کہا کہ عنقریب تم خالد کے فریب میں آجائو گے نیز اس نے کہا: ویل ہو تم پر بنی جذیمہ یہ خالد ہتھیار رکھوا لینے کے بعد تمہیں قید کرے گا اور گرفتار کرنے کے بعد گردن زدنی یقینی ہے. قسم خدا کی میں کبھی ہتھیار نہیں ڈالوں گا. عقاد ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ بنی جذیمہ نے اس سے بھی اصرار کے بعد

۲۴۳

ہتھیار ڈلوا دئیے. اس سے ان کے اسلام اور ان کی حسن نیت کا پتا چلتا ہے.

پس جب رسول(ص) نے دعوت اسلام کے لئے بھیجا تھا اور جنگ کا حکم نہیں دیا تھا. جیسا کہ حناب عقاد خود فرما چکے ہیں تو نبی(ص) کے حکم کی مخالفت کے سلسلہ میں خالد کے پاس کون سا عذر ہے؟ عقاد صاحب یہ ایسا معمہ ہے جسے آپ حل نہیں کرسکتے.

اور جب بنی جذیمہ نے ہتھیار ڈال دئے تھے. اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر چکے تھے اور اپنے اس دوست پر بھی قابو پاگئے تھے جس نے ہتھیار نہ ڈالنے کی قسم کھائی تھی جیسا کہ عقاد صاحب آپ اعتراف کر چکے ہیں تو پھر ان لوگوں کو دھوکہ دے کر قتل کرنے اور ان سے ہتھیار رکھوانے کے سلسلہ میں خالد کے پاس کون سا عذر ہے؟

آپ ہی یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ خالد نے پہلے ان کے ہاتھ باندھنے کا حکم دیا اور بعد میں قتل کر دیا یہ دوسرا معمہ ہے جسے عقاد صاحب آپ حل نہیں کرسکتے ہیں. کیا اسلام مسلمانوں کو ان لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے. جو ان سے جنگ نہیں کرتے؟ اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ انہوں نے( بنی جذیمہ) مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا تو یہ بات دشمن اسلام مستشرقین کے لئے حجت ہے جسے آج وہ رواج دے رہے ہیں.

ایک مرتبہ آپ اعتراف کرتے ہیں کہ نبی(ص) نے ان لوگوں کو جنگ کا حکم نہیں دیا تھا. جیسا کہ آپ خود تحریر کرچکے ہیں کہ مہاجرین و انصار نے خالد کا حکم نہیں مانا اور اسیر کو اس لئے قتل نہیں کیا کہ نبی(ص) نے قتل کا حکم نہیں دیا تھا پس عقاد صاحب خالد کے لئے جو آپ عذر خواہی کر رہے ہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے؟

۲۴۴

عقاد کی رد کے لئے تو اتنا ہی کافی ہے کہ انہوں نے اپنے عذر کو خور باطل کردیا اور سب کچھ کرنے کے بعد یہ کہکر خود ہی برباد کر دیا کہ:

اس سریہ میں حاضر ہونے والے باور حاضر نہ ہونے والے بزرگ صحابہ کے درمیان شدید اختلاف اور دشمنی ہوگئی پس جلیل القدر صحابہ خالد کے دشمن ہوگئے یہاں تک کہ اس کے لشکر سے فرار کر کے نبی(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خالد کی شکایت کی اور عبدالرحمن ابن عوف نے خالد پر یہ اتہام لگایا کہ اس نے جان بوجھ کر ان لوگوں کو اپنے چچا کے انتقام میں قتل کیا ہے. جیسا کہ عقاد نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے.

اور جب رسول(ص) نے آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کر کے تین مرتبہ فرمایا تھا کہ پروردگارا خالد ابن ولید کے کرتوت سے میں بری ہوں.

اور جب نبی(ص) نے علی(ع) کو اموال دے کر اس لئے بھیجا تھا کہ بنی جذیمہ کے خون اور مال کی دیت ادا کریں جس سے وہ راضی ہوجائیں. جیسا کہ خود عقائد کا بیان ہے اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ مسلمان ہوچکے تھے. لیکن خالد نے ان پر ظلم و تعدی کی. کیا کوئی خالد کا دفاع کرنے والا عقاد سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ کیا تم نہیں جانتے کہ نبی(ص) نے تین مرتبہ خدا سے خالد کے فعل سے برات کا اقرار کیا تھا؟ کیا تمہیں خبر نہیں ہے کہ جلیل القدر صحابہ خالد سے متنفر ہوگئے تھے؟ یا وہ صحابہ کہ جو اس کے ساتھ تھے اس کی غلط حرکتوں کو دیکھ یکر سر یہ سے بھاگ آئے تھے. یا عبدالرحمن ابن عوف کہ جو ان کے ساتھ سریہ میں تھے کیا وہ خالد کو عقاد سے زیادہ نہیں پہچانتے تھے؟ کہ جنہوں نے خالد پر یہ

۲۴۵

الزام لگایا کہ اس نے اپنے چچا کے انتقام میں جان بوجھ کر سب کو قتل کیا ہے.

خدا اس اندھے تعصب اور جاہلیت والی حمیت کا برا کرے کہ جس نے عقاد کو اندھا بنا دیا اور نے اس واقعہ کو صرف چار سطروں میں لکھا ہے. لیکن جو کچھ بخاری نے لکھا ہے وہ بھی خالد اور ان صحابہ کی رسوائی کے لئے کافی ہے جنہوں نے نیکوکار مسلمانوں کے قتل میں اس کی اطاعت کی جیسے عقاد نے تحریر کیا ہے کہ بنی سلیم نے اس سلسلہ میں خالد کی اطاعت کی اور دیگر اعراب نے بھی اس کا ساتھ دیا. لیکن بخاری نے خالد کی اطاعت کرنے والے صحابہ سے صرف دو یا تین کو مستثنی کیا ہے. وہ بھی جو لشکر سے فرار کر کے نبی(ص) کے پاس آئے اور خالد کی شکایت کی جناب عقاد آپ کے بس کی بات نہیں ہے کہ اس سلسلہ میں آپ مجھے قانع کر دیں کہ انصار و مہاجرین کی تعداد تین سو پچاس تھی جیسا کہ آپ نے خود تصریح کی ہے کہ جنہوں نے خالد کی اس قتل کے سلسلہ میں اطاعت نہیں کی اور سب کے سب لشکر سے بھاگ کھڑے ہوئے آپ کی اس بات کی کوئی بھی محقق تصدیق نہیں کرے گا.

لیکن آپ نے اپنے صحابہ کی عزت بچانے کی کوشش کی ہے اور ہر طرح حقیقت کو چھپانے کی سعی کی ہے. لیکن اب پردہ اٹھانے اور حق کی معرفت کا وقت آگیا ہے.

خالد ابن ولید کے اور نہ جانے کتنے سیاہ کرتوت ہیں کہ جن سے ہمیں تاریخ آگاہ کرتی ہے. خصوصا رزو بطاح کہ جب ابوبکر نے خالد کو اس لشکر کا سردار بنایا جس میں صحابہ اولین شریک تھے تو اس موقع پر بھی اس نے مالک ابن نویرہ اور اس کے خاندان والوں کو فریب دیا اور جب انہوں نے ہتھیار ڈال دئے تو انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا اور مظلومانہ طور پر قتل کر دیا اور ( خود

۲۴۶

خالد نے) اسی رات میں حادثہ کے بعد مالک کی زوجہ لیلی ارم تمیم سے زنا کیا کہ جس شوہر کو قتل کیا تھا. اور جب عمر نے خالد ابن ولید سے قصاص لینا چاہا اور اس سے کہا تم نے ایک مسلمان کو قتل کر کے اس کی زوجہ سے زنا کیا ہے.

قسم خدا کی میں تمہیں ضرور سنگسار کروں گا( عمر کی یہ کیفیت دیکھ کر) ابوبکر نے خالد کی طرفداری کی اور عمر سے کہا خالد کو کچھ نہ کہو: کیونکہ اس نے تاویل کی ہے اور اس کام میں اس سے خطا ہوگئی. یہ دوسرا قصہ ہے جس کی داستان طویل اور دہرانا نفرت آمیز ہے. کتنے مظلوموں کا حق ہڑپ کر لیا گیا کیونکہ اس کے غاصب طاقت والے اور با عزت سمجھے جاتے تھے. کتنے ظالموں کی مدد کی جاتی تھی کیونکہ وہ مالدار اور حاکم وقت کے مقرب ہوتے تھے. بخاری ہی کو دیکھئے کہ بنو جذیمہ کے قصہ کو کتنی کتروبیونت کے ساتھ نقل کیا ہے. لکھتے ہیں کہ نبی(ص) نے خالد کو بنی جذیمہ کے پاس بھیجا اس نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسلمنا نہ کہا بلکہ کہا کہ ہم نے بت پرستی چھوڑ دی ہے.جناب بخاری یہ بنو جذیمہ والے کیا اہل فارس ترک یا اہل نہود تھے کہ جو اسملنا نہ کہہ سکے. ان کا تعلق قبائل عرب سے تھا کہ جن کی زبان میں خدا نے قرآن نازل کیا ہے! لیکن اندھے تعصب اور اس گھنائونی سازش نے بخاری کو یہ بات لکھنے پر مجبور کیا کہ جو صحابہ کی عزت بچانے کے لئے کی گئی ہے اسی لئے بخاری نے خالد کو بری کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے. عقاد کو دیکھئے کہتے ہیں کہ خالد نے ان سے پوچھا کیا تم مسلمان ہو؟ پھر عقاد کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض نے کہا جی ہاں ہم مسلمان ہیں اور بعض نے کہا ہم نے بت پرستی چھوڑ دی ہے.اس لفظ( قبل) کی واضح دلالت اس بات پر ہے کہ اس قبیلہ نے کسی چیز سے تمسک کر لیا ہے اور اس کے ذریعہ وہ لوگوں کو توہم میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں

۲۴۷

تاکہ خالد ابن ولید کی طرف سے عذر پیش کرسکیں. کیونکہ خالد خلافت غصب کرنے والے حاکم کی شمشیر برہنہ ور غاصب خلافت کا دفاع کرنے والا تھا. اور اس کے ساتھی اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہے تھے تا کہ اگر کسی ذہن میں بعد وفات رسول(ص) سقیفہ کے غلط ہونے کا خیال بھی پیدا ہو تو وہ ہماری قوت دیکھ کر خاموش ہوجائے. "لا حول و لا قوة الا باللہ العلی بالعظیم"

رسول(ص) کی وفات کے بعد صحابہ نے سنت نبی(ص) کو برباد کر دیا

بخاری نے اپنی صحیح کی پہلی جلد کے باب " تضیع الصلواة" میں غیلان سے روایت کی ہے کہ انس ابن مالک نے کہا کہ مجھے عہد نبی(ص) کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی ہے. لوگوں نے کہا: نماز تو ہے، کہا کہ کیا تم نے اس کی بھی صورت نہیں بدل دی ہے اس میں تحریف نہیں کی ہے.

نیز کہتے ہیں میں نے زہری کو کہتے ہوئے سنا کہ میں دمشق میں انس ابن مالک کے پاس گیا تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں میں نے کہا آپ کے رونے کا سبب کیا ہے؟ کہا کہ میں نماز کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں دیکھتا ہوں اور (اب) اس میں بھی کترو بیونت کر دی گئی ہے.(۱)

اسی طرح بخاری نے پہلی جلد کے " نماز صبح کی جماعت کی فضیلت"

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۱ ص۱۳۴

۲۴۸

والے باب میں روایت کی ہے کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا کہ میں نے سالم سے سنا کہ انہوں نے کہا میں نے ام درداء سے سنا کہ وہ کہہ رہی تھیں کہ ایک روز حالت غیظ میں ابو درداء میرے پاس آئے تو میں نے کہا آپ کو کس چیز نے غضبناک کیا. کہا آج میں امت محمد(ص) میں کوئی چیز نہیں دیکھتا ہوں مگر یہ کہ وہ صرف نماز جماعت پڑھتے ہیں.(۱) بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/۲ کے باب " الخروج الی المصلی بغیر منبر" میں ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: روز عید فطر و ضحی رسول(ص) جب مصلی پر تشریف لے جاتے تو نماز سے پہلے اور نماز کے بعد لوگوں کو وعظ کرتے تھے. یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ ایک روز میں مروان کے ساتھ جب وہ مدینہ کا حاکم تھا نماز عید فطر یا عید الاضحی کےلئے نکلا تو دیکھا وہ نماز سے قبل منبر پر جانا چاہتا ہے. میں نے اس کا کپڑا پکڑ کر کھینچ لیا اس نے کپڑا چھڑایا اور نماز سے قبل منبر پر جاکر خطبہ دیا میں نے کہا قسم خدا کی تم نے ( شریعت) بدل دی. اس نے کہا: ابو سعید جو تم جانتے ہو وہ ختم ہوگئی! میں نے کہا: جو کچھ میں جانتا ہوں قسم خدا کی وہ اس سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا. مروان نے کہا: لوگ نماز کے بعد ہمارے لئے بیٹھے رہیں گے اس لئے میں نے خطبہ نماز پر مقدم کر دیا ہے.(۲) صحابہ انس ابن مالک اور ابو درداء کے زمانہ میں اور مروان ابن حکم کے زمانہ میں جو نبی(ص) کے زمانہ سے بہت قریب زمانے تھے سنت میں تغیر کر رہے تھے یہاں تک کہ نماز کو بھی بدل دیا تھا اور اپنے پست مصالح کے تحت سنت نبی(ص) میں رد و بدل کر رہے تھے. بنی امیہ کو دیکھئے کہ انہوں نے ہر خطبہ کے بعد منبروں سے

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۱ ص۱۵۹

۲.صحیح بخاری جلد/۲ ص۴

۲۴۹

علی(ع) اور اولاد علی(ع) پر لعنت کرنے کو سنت بنا لیا تھا اسی لئے بہت سے لوگ عید الفطر و عیدالاضحی کی نماز کے بعد پراگندہ ہوجاتے تھے. کیونکہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ امام جماعت علی(ع) اور اولاد علی(ع) پر لعنت کرے. اس لئے نبی امیہ نے سنت نبی(ص) میں تغیر کر کے نماز عیدیں میں خطبہ کو نماز پر مقدم کر دیا تا کہ تمام مسلمانوں کے درمیان علی(ع) پر لعنت کرنا آسان ہو جائے اور انہیں رسوا کرسکیں. اس سنت (بد) کا بانی بنی امیہ کا راس و رئیس معاویہ ابن ابی سفیان ہے اور یہ سنت ان کے درمیان اس چیز سے بھی زیادہ اہم ہوگئی تھی کہ جو تقرب الہی کا ذریعہ تھی. بعض مورخین نے یہاں تک لکھا ہے کہ نبی امیہ کے ایک پیش امام نے نماز جمعہ کا خطبہ تمام کر دیا اور حضرت علی(ع) پر ( معاذ اللہ) لعنت کرنا بھول گیا تو لوگوں نےچاروں طرف سے چلا کر کہا، تم نے سنت کو فراموش کر دیا، سننت کو بھلا دیا.... آخر یہ سنت ہی کب تھی؟ مگر افسوس معاویہ ابن ابی سفیان کی اس بدعت پر اسی(۸۰) سال تک عمل ہوتا رہا اور آج تک اس کےآثار باقی ہیں اس کے باوجود اہلسنت معاویہ سے خوش ہیں اور اس پر تنقید کرنے کی کسی میں جرات نہیں ہے کیونکہ وہ صحابہ میں شامل ہے.الحمد للہ امت اسلام کے مخلص محققین حق کو باطل سے الگ کرنے میں لگے ہیں ان میں سے اکثر نے صحابہ والے عقدہ کو بھی سمجھ لیا ہے کہ جو معاویہ اور اس کے پیروکاروں کی ایجاد تھی. اہلسنت بھی اس تناقض سے چھٹکارا پانے لگے ہیں. جب کہ وہ تمام صحابہ سے دفاع کرتے ہیں یہاں تک کہ جو صحابہ کی تنقیص کرتا ہے وہ اس پر لعنت کرتے ہیں. اور جب آپ ان سے کہیں گے " معاویہ ابن ابی سفیان کی لعنت نبی کو بھی شامل ہے" کیونکہ معاویہ نے افضل الصحابہ پر سب وشتم کیا ہے. اور یہ سب و شتم رسول(ص) کو شامل ہوتا ہے کیونکہ رسول(ص) نے خود فرمایا ہے جس نے علی(ع) پر سب و شتم کیا اس نے مجھ پر سب و شتم کیا اور جس نے مجھ پر سب و شتم

۲۵۰

کیا اس نے خدا پر سب و شتم کیا.(۱)

اس وقت ان کی زبان لڑ کھڑانے لگتی ہے، لکنت کرنے لگتی ہے اور جواب میں ایسی باتیں پیش کرتے ہیں کہ جو کسی چیز پر دلالت نہیں کرتی. اور فقط بے وقوفی اور اندھے تعصب پر مبنی ہوتی ہیں. ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہ جھوٹی باتیں شیعوں کی طرف سے گڑھی ہوئی ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ وہ رسول(ص) کے صحابی ہیں انہیں اختیار ہے جس کے لئے جو چاہیں کہیں لیکن ہم ان کی طرح نہیں ہیں کہ ہم ان پر تنقید کریں!

پروردگار تو پاک و پاکیزہ ہے. حمد تجھ ہی سے مخصوص ہے. تیرے کلام قرآن مجید نے مجھے حقائق کو سمجھنے کی توفیق عطا کی ہے. کہ جن کا سمجھنا میرے لئے دشوار اور ان پر اعتقاد رکھنا مشکل تھا اور جب بھی اس آیت کی تلاوت کرتا تھا:

( وَ لَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ‏ كَثِيراً مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لا يَفْقَهُونَ بِها وَ لَهُمْ أَعْيُنٌ لا يُبْصِرُونَ بِها وَ لَهُمْ آذانٌ لا يَسْمَعُونَ بِها أُولئِكَ كَالْأَنْعامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولئِكَ هُمُ الْغافِلُونَ ‏) اعراف، آیت/۱۷۹

اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنم کے لئے پیدا کیا ہے، کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں یہ چوپایوں جیسے ہیں. بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور

____________________

۱.مستدرک الحاکم جلد/۳ ص۱۲۱ اور حاکم نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح تسلیم کیا ہے اسی طرح ذہبی نے بھی اپنی تلخیص میں اس حدیث کو صحیح مانا ہے اور احمد ابن حنبل نے اپنی مسند کی جلد/۶ ص۳۲۳ پر نقل کیا ہے اور نسائی وغیرہ نے بھی اس کو صحیح مانا ہے.

۲۵۱

یہی لوگ اصل میں غافل ہیں.

مجھے بہت تعجب ہوتا تھا اور میں اپنے آپ سے کہتا تھا یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا حیوان اس انسان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے، کیا ممکن ہے کہ انسان پتھر کے سامنے جھکے اس کی پرستش کرے اور اس سے رزق طلب کرے؟ لیکن الحمد للہ میرا یہ تعجب اس وقت زائل ہوگیا جب خود میں نے ان لوگوں کو دیکھا. میں نے ہندوستان کا سفر کیا وہاں تعجب انگیز چیزیں دیکھیں وہاں میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جو انسان کے خلیوں کو پہچانتے ہیں، علم تشریح کے ماہر ہیں لیکن گائے کی پوجا کرتے ہیں اگر اس گناہ کا ارتکاب جاہل ہندو کرتے تو ان کا عذر معقول ہوتا لیکن آپ نے دیکھا کہ ان میں سے پڑھے لکھے لوگ گائے، پتھر، سمندر، چاند، سورج کی پوجا کرتے ہیں. اس کے بعد آپ قرآن مجید کے مدلول سمجھ جائیں گے اور اسے "لازمی" تسلیم کریں گےخصوصا یہ کہ بشر حیوان سے زیادہ گمراہ ہے.

صحابہ جناب ابوذر کی نطر میں

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/۲ کے باب " ما ادیت زکوة فلیس بکنز" میں احنف ابن قیس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں قریش کے معزز افراد کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک گھنے بالوں والا موٹے لباس والا آیا اور ان کے سامنے ٹھہر کر سلام کیا اور کہا مال جمع کرنے والوں کو گرم پتھر کی بشارت دے دو کہ جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور ایک پستان پر لگایا جائے گا جو مونڈھے کی ہڈی توڑ کر نکل جائے گا. پھر دوسرے مونڈھے پر لگایا جائے گا جو دوسرے پستان سے نکل جائے گا. پھر وہ شخص منہ پھیر کر چلا گیا اور اسٹول پر کر بیٹھ گیا میں بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے ان کے پاس جا بیٹھا جبکہ میں اسے متعارف نہیں تھا

۲۵۲

میں نے ان سے کہا : میں نے ان لوگوں کو آپ کی باتوں سے خوش نہیں دیکھا؟ اس نے کہا وہ ناواقف ہیں مجھ سے میرے دوست نے فرمایا ہے. میں نے دریافت کیا آپ کے دوست کون ہیں؟ کہا نبی(ص) نے مجھ سے فرمایا ہے کہ: اے ابو ذر کیا تم احد کو دیکھتے ہو: ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے جو آفتاب کی طرف دیکھا تو غروب ہوچکا تھا اور مجھے رسول(ص) اپنی کسی ضرورت کے لئے بھیجنا چاہتے تھے میں نے عرض کی جی ہاں: فرمایا مجھے احد کے برابر سونے چاندی کو جمع کرنے والا دوست نہیں ہے ہاں تین دینار والا دوست ہے. جبکہ یہ لوگ اس سے بے خبر ہیں صرف دنیا کو جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں قسم خدا کی میں ان سے سے قیامت تک دنیا و دین کے بارے میں سوال کرنے والا نہیں ہوں.(۱)

بخاری اپنی ( صحیح کی) جلد/۷ کے باب " ا لحوض" اور قول خدا( انا اعطیناک الکوثر ) میں عطا ابن یسار اور انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ نبی(ص) نے فرمایا:

میں حوض کوثر پر کھڑا ہوں گا کہ ایک گروہ آئے گا میں انہیں پہچان لوں گا اور ایک شخص ان کے اور میرے درمیان کھڑا ہوگا اور کہے گا انہیں جانے دو. میں دریافت کروں گا کہاں؟ وہ کہے گا جہنم میں قسم خدا کی میں پوچھوں گا کہ ان کی کیا خطا ہے وہ کہے گا کہ یہ آپ(ص) کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور الٹے پیروں کفر کی طرف پلٹ گئے تھے.

اس کے بعد دوسرا گروہ آئے گا یہاں تک کہ پہچان لوں گا ایک شخص میرے اور ان کے درمیان

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۲ ص۱۱۲

۲۵۳

کھڑے ہوکر کہے گا: ان کو جانے دو میں معلوم کروں گا : کہاں؟ وہ کہے گا جہنم میں، میں پوچھوں گا ان کی کیا خطا ہے؟ وہ کہے گا یہ آپ کے بعد الٹے پیروں کفر کی طرف پلٹ گئے تھے. پس میں انہیں آزاد چوپائوں کے مثل پاتا ہوں.ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ رسول(ص) سے کہا جائیگا کہ آپ(ص) نہیں جانتے انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا، بدعتیں کی ہیں. تو میں کہوں گا جس نے میرے بعد تغیر و تبدل کیا ہے خدا اسے اپنی رحمت سے دور رکھے.(۱)

اسی طرح بخاری نے پانچویں جلد کے باب " غزوہ حدیبیہ" اور خدا کے اس قول کے بارے میں(لَقَدْ رَضِيَ‏ اللَّهُ‏ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ )میں علاء الدین ابن مسیب سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:میں نے برّا ابن عازب سے ملاقات کی اور کہا آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ نے نبی(ص) کی صحبت پائی اور درخت کے نیچے ان کی بیعت کی: انہوں نے کہا: بھتیجے تمہیں نہیں معلوم ہم نے رسول(ص) کے بعد کیا کیا.(۲)

یہ ایک بزرگ صحابی کی عظیم گواہی ہے کہ جو انہوں نے صریح طور پر اپنے اور لوگوں کے خلاف پیش کی ہے اور ان کی یہ گواہی خداوند کے اس قول :

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۷ ص۲۰۹

۲.صحیح بخاری جلد/۵ ص۶۶

۲۵۴

(أَفَإِن‏ مَّاتَ‏ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى‏ أَعْقَابِكُمْ ) کی موکد ہے.

اور نبی(ص) کے اس قول کی بھی موکد ہے کہ " مجھ سے کہا گیا یہ آپ کے بعد الٹے پائوں کفر کی طرف لوٹ گئے تھے،.

برّا بن عازب جلیل القدر صحابی اور ان سابقین و اولین سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی وہ اپنے اور دوسرے صحابہ کے خلاف یہ بات اس لئے کہتے ہیں کہ ہم نے وفات نبی(ص) کے بعد بدعتیں کیں لوگ ہمارے صحابی ہونے کے فریب میں نہ آئیں اور وہ اس طرح یہ وضاحت بھی کر دیتے ہیں کہ نبی(ص) کی صحبت اور درخت کے نیچے بیعت کرنا " جس کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے" یہ دونوں چیزیں نبی(ص) کے بعد صحابہ کو گمراہ ہونے سے نہیں روک سکتیں.

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/۸ کے باب " قول النبی(ص): لتتبعن سنن من کان قبلکم" میں عطا ابن یسار سے اور انہوں نے ابو سعید خدری سے اور انہوں نے نبی(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:

تم اپنے سے پہلے والوں کی بالشت بہ بالشت اور قدم بہ قدم اتباع کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ بچو کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اسی کے بل میں گھسو گے. ہم نے کہا: یا رسول اللہ(ص) کیا وہ یہود و نصاری ہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا: خواہ کوئی بھی ہو...؟!

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۸ ص۱۵۱

۲۵۵

بعض صحابہ کے متعلق تاریخ کی گواہی

قرآن اور حدیث کے بعد ہمارے پاس واضح ترین شہادت تاریخ ہے. اس لئے کہ لوگوں کا رہن سہن ان کے افعال و کردار، واقعات و حادثات جب قلمبند ہوتے ہیں تو تاریخ بن جاتی ہے.

جب ہم اہلسنت کی تاریخ کی کتابوں جیسے تاریخ طبری، تاریخ کامل طبقات ابن سعد، ابوالفداء اور ابن قتیبہ وغیرہ کا مطالعہ کریں گے تو عجیب و غریب چیزیں نظر آئیں گی اور جو کچھ اہل سنت صحابہ کی عدالت اور ان پر لعنت نہ کرنے کے بارے میں کہتے ہیں اسے ضرور سمجھ لیں گے.... یہ ایسا کلام ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اسے عقل سلیم قبول کرتی ہے اور اس سے ایسے متعصب افراد اتفاق کریں گے جن کو تاریخ نے نور سے دور کر دیا ہے اور وہ محمد(ص) جو معصوم ہیں اور وحی کے علاوہ کچھ کہتے ہی نہیں ہیں، اور حق کے سوا کوئی کام انجام نہیں دیتے ہیں اور ا ن صحابہ کے درمیان فرق کرنے پر تیار نہیں ہیں کہ جن کے فسق و نفاق کی قرآن گواہی دے رہا ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ وہ رسول(ص) سے کہیں زیادہ صحابہ کا دفاع کرتے ہیں اس سلسلہ میں ایک مثال پیش کرتا ہوں.

جب کسی سے آپ یہ کہیں گے کہ " سورہ عبس و تولی" سے رسول(ص) مراد نہیں ہیں بلکہ اس سے صحابہ کبار میں سے کوئی ایک ہے جس پر خدا اس لئے غضبناک ہوا ہے کہ وہ اندھے فقیر کو دیکھ کر تکبر کرتا ہے" تو آپ دیکھیں گے کہ وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا بلکہ کہے گا کہ محمد(ص) بھی بشر تھے ان سے بھی متعدد بار غلطیاں ہوئی ہیں. اور ان کے پروردگار نے متعدد بار ان پر عتاب کیا ہے.

۲۵۶

وہ معصوم نہیں تھے. ہاں قرآن کی تبلیغ کے وقت معصوم تھے. یہ ہے رسول(ص) کے متعلق ان کا نظریہ.

اور اگر آپ یہ کہیں گے کہ عمر نے نماز تراویح کی بدعت کر کے بہت برا کیا یا خطا کی کیونکہ رسول(ص) نے لوگوں کو اس سے منع کیا تھا اور نافلہ نمازوں کو فرادی گھر پر پڑھنے کا حکم دیا تھا.

پھر ملاحظہ کیجئے گا وہ عمر ابن خطاب کا کس طرح دفاع کرتا ہے ایسی صفائی دے گا کہ جیسے مناقشہ کرنے والا قبول نہ کے اور کہے گا کہ یہ بدعت حسنہ ہے. وہ اپنی پوری طاقت و توانائی سے عمر کے لئے عذر تراشی کرے گا باوجودیکہ اس کی (تراویح کی) ممانعت کے لئے نبی(ص) کی نص موجود ہے اور جب آپ اس سے کہیں گے کہ عمر ابن خطاب نے مؤلفة القلوب کا حق غصب کر لیا تھا. کہ جس کا خدا نے قرآن مجید میں حکم دیا ہے. تو وہ کہے گا کہ سیدنا عمر سمجھ گئے تھے کہ اب اسلام قوی ہوگیا اب ہمیں ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے ان سے کہدیا ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے اور پھر وہ (عمر) تمام لوگوں سے زیادہ قرآن کو جانتے تھے! کیا آپ کے لئے یہ تعجب خیز بات نہیں ہے؟؟

اس وقت انتہا ہوگئی جب میں نے ان میں سے ایک شخص سے کہا کہ بدعت حسنہ کو چھوڑئے اور مولفہ القلوب کے واقعہ سے بھی چشم پوشی کر لیجئے لیکن آپ عمر کے لئے اس واقعہ پر کون سا عذر پیش کریں گے کہ وہ در فاطمہ(ع) پر آکر کہتے ہیں کہ یا تو نکل کر بیعت کرو ورنہ میں گھر کو جلا کر خاکستر کردوں گا؟

اس نے مجھے بے تحاشا جواب دیا کہ عمر حق پر تھے کیونکہ اگر وہ علی(ع) کے ساتھ یہ سلوک نہ کرتے تو اکثر صحابہ ان سے روگردانی کر کے علی(ع) کے ساتھ ہو جاتے اور فتنہ پیدا ہو جاتا.

۲۵۷

اس قماش کے لوگوں سے ہماری بحث بے فائدہ ہے. بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ اہل سنت کی اکثریت اسی نہج سے سوچتی ہ ے. کیونکہ حق سے نا واقف ہے اور حق کو عمر ابن خطاب ہی کے ساتھ تصور کرتی ہے. انہوں نے فائدہ توڑدیا اور حق کو لوگوں سے سمجھنے لگے جب کہ حق کے ذریعہ لوگوں کو پرکھنا چاہیئے. (قول علی(ع) ہے حق کو سمجھ لو تو اہل حق کو بھی سمجھ لوگے) پھر یہ عقیدہ ان میں اس طرح سرایت کر گیا کہ انہوں نے عمر ابن خطاب سے تجاوز کر کے تمام صحابہ کو عادل کہنا شروع کر دیا. اب کوئی کسی صحابی کو مورد طعن قرار نہیں دے سکتا. اور نہ ہی کوئی خدشہ ظاہر کرسکتا ہے. اور اس طرح ہر حق کے متلاشی انسان کے لئے سخت رکاوٹ پیدا کر دی ہے آپ دیکھیں گے کہ وہ ایک مانع سے چھٹکارا حاصل نہیں کرپاتا کہ بے شمار موانع اس کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں. ایک خطرہ سے نکلتا نہیں ہے کہ لا تعداد خطرات اس کا راستہ روک دیتے ہیں اور حق کے دامن تک کمزور و ضعیف انسان نہیں پہونچ سکتا. بلکہ وہی پہونچ سکتا ہے کہ جو صبر و شجاعت کا حامل اور صاحب عزم ہو.

جب ہم تاریخ کو دیکھتے ہیں تو بعض صحابہ کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے اور ان سے اعتبار اٹھ جاتا ہے اور ان کے وہ سیاہ کارنامے ظاہر ہو جاتے ہیں جس کو لوگوں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی گئی یا ان کے یار و مددگار اسے چھپاتے رہے یا برے حکام ایسا کرتے رہے یا ان کے مقرب ایسا کرتے رہے.

جس چیز کی طرف بادی النظر میں ذہن جاتا ہے وہ رسول(ص) کی وفات کے بعد ان کا موقف کہ کس طرح رسول(ص) کے جنازہ کو چھوڑ دیا آپ(ص) کے غسل و کفن اور دفن کے بارے میں کچھ نہ کیا بلکہ سقیفہ میں جاکر میٹنگ کرنے لگے. اور خلافت کے بارے میں جھگڑنے لگے. جبکہ وہ اس کے حقدار کو پہچانتے تھے اور نبی(ص) کے زمانہ

۲۵۸

میں ان کے ہاتھوں پر بیعت کر چکے تھے.جو چیز ہمارے لئے اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ انہوں نے علی(ع) اور بنی ہاشم کی غیبت کو غنیمت سمجھا کہ جنہوں نے اپنے اخلاقی اقدار کی وجہ سے رسول(ص) کا جنازہ نہیں چھوڑا. وہ جلدی ہی سے سقیفہ میں جا بیٹھے تا کہ قبل اس کے نبی ہاشم نبی(ص) کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہوں خلافت کا فیصلہ کر دیا جائے. اور پھر اسے قبول کرنے پر بنی ہاشم کو مجبور کیا جائے. پھر وہ کچھ نہ کرسکیں گے کیونکہ سقیفہ میں جمع ہونے والوں نے آپس میں یہ طے کر لیا تھا کہ مخالفت کرنے والے کو قتل کر دیا جائے بہانہ یہ تراشا جائے کہ وہ فتنہ پردازی اور مخالفت پر تلے ہوئے تھے.مورخین نے بہت سی عجیب و غریب چیزیں قلمبند کی ہیں کہ جو ان دنوں صحابہ سے رونما ہوئی تھیں کہ جب رسول(ص) نہیں رہے تھے. وہ لوگ رسول(ص) کے خلیفہ اور امیرالمومنین بن گئے تھے. جیسے لوگوں کو دھمکیوں اور ذد و کوب کر کے بیعت لینا، اور در سیدہ(ع) پر سب کا جمع ہونا، دروازہ آپ کے پہلو پر گرانا اور بچے کا آپ کے شکم مبارک میں شہید ہو جانا، حضرت علی(ع) کو قیدی کی طرح لے جانا، اور کہنا کہ اگر بیعت سے انکار کیا تو قتل کر دئے جائو گے، فاطمہ(ع) کی میراث اور باغ فدک اور تمام حقوق کا غصب کرنا اور ذی القربی کے حق کو ہڑپ کر لینا یہاں تک کہ فاطمہ(ع) نے انتقال فرمایا میں کہ آپ(ع) ان لوگوں سے ناراض تھیں. آپ(ع)(زہرا(ع)) ہر نماز کے بعد ان لوگوں کے لئے بد دعا کرتی تھیں، مخفیانہ طور پر آپ(ع) کو رات میں دفن کیا گیا اور صحابہ آپ کے جنازہ میں بھی شریک نہ ہوئے، جیسے ان صحابہ کا قتل کرنا کہ جنہوں نے ابوبکر کو زکوة دینے سے انکار کر دیا تھا.(۱) کیونکہ وہ جانتے تھے کہ علی(ع) کو

____________________

۱.تاریخ کی کتابوں میں مالک ابن نویرہ کے قتل کا قصہ مشہور ہے.

۲۵۹

خلافت سے دور رکھا گیا ہے اس لئے کے وہ غدیر خم میں نبی(ص) کی حیات میں علی(ع) کے ہاتھوں پر بیعت کرچکے تھے.جیسے ہتک حرمت، مسلمانوں کے نیک افراد کے قتل میں حدود خدا کی پامالی اور بغیر عدہ ختم ہوئے ان کی بیویوں سے زنا کرنا.(۱)

جیسے احکام خدا و رسول(ص) میں رد و بدل کرنا جو قرآن و حدیث پر مبنی ہیں انہیں اپنی مصلحت کے تحت ذاتی اجتہاد سے بدل دینا.(۲) جیسے ان میں سے بعض افراد کا مستقل شراب پینا اور زنا کرنا، حالانکہ وہ مسلمانوں کے ولی امر اور حاکم تھے.(۳) جیسے بے گناہ ابوذر غفاری کو مدینہ رسول(ص) سے شہر بدر کرنا، چنانچہ ان کا عالم غربت میں وہیں انتقال ہوگیا اور عمار یاسر کو اتنا مارا کہ مرض فتق میں مبتلا ہوگئے اور عبداللہ ابن مسعود کو اتنا مارا کہ ان کی پسلیاں ٹوٹ گئیں، مخلص صحابہ کو عہدوں سے معزول کرنا اور ان کی جگہ نبی امیہ کے فاسق و منافق دشمن اسلام افراد کو مقرر کرنا.جیسے اہل بیت(ع) کہ جن سے خدا نے ہر رجس کو دور رکھا اور اس طرح پاک رکھا جو حق ہے" پر لعنت کرنا اور نیک صحابہ میں سے ان کو شیعوں اور دوستوں کو قتل کرنا.(۴)

____________________

۱. جیسا کہ خالد ابن ولید نے مالک ابن نویرہ کی زوجہ لیلی سے اس کے شوہر کے قتل کے بعد زنا کیا.

۲. جیسے جناب فاطمہ(ع) کو میراث سے محروم کیا، ذوی القربی کا حق غصب کیا، مولفة ا لقلوب کا حق ہڑپ کیا اور متعہ نساء و متعہ حج کو حرام قرار دیدیا.

۳. مغیرہ ابن شعبہ کا قصہ کہ اس نے ام جمیل سے زنا کیا. ۴. جیسے معاویہ نے حجر ابن عدی.. ایسے جلیل القدر صحابی اور ان کے دوستوں کو قتل کیا ان کی صرف یہ خطا تھی کہ انہوں نے علی ابن ابی طالب(ع) پر لعنت نہیں کی تھی.

۲۶۰

جیسے قوت قہر سے منصب خلافت پر قابض ہو جانا اور جوان کے آڑے آیا مختلف ذریعوں سے اس کا صفایا کر دینا. جیسے کھانے وغیرہ میں زہر ملانا.(1) پھانسی پر چڑھانا. جیسے یزید کا اپنے کا اپنے لشکر کے لئے مدینہ رسول(ص) کو مباح کر دینا کہ وہ جو چاہے کرے. با وجودیکہ رسول(ص) کا یہ قول ہے کہ" مدینہ میرا حرم ہے جو اس میں کوئی غلط کام کرے گا اس پر خدا ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے."

اور جیسے کہ ان کا ذلیل طمع اور فانی دنیا کے لئے امیر المومنین سید الوصیین، عترت طاہرہ کے راس و رئیس علی(ع) " کہ جن کو رسول(ص) سے وہی نسبت تھی جو ہارون کو موسی سے تھی" سے جمل و صفین اور نہروان میں جنگ کرنا.

جیسا کہ انہوں نے سیدا شباب اہل الجنہ امام حسن(ع) کو زہر سے اور امام حسین(ع) کو (تلوار) سے قتل کرنا اور علی ابن الحسین(ع) کے علاوہ پوری عترت رسول(ص) کو میدان کربلا میں تہہ تیغ کرنا ان اور بہت سے ایسے افعال ہیں جو انسانیت کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکا ہے. جنہیں رقم کرنے سے میرا قلم عاجز ہے. ان میں سے زیادہ تر باتوں کو اہل سنت و الجماعت جانتے ہیں اسی لئے وہ مسلمانوں کو تاریخ پڑھنے اور حیات صحابہ کی تحقیق کرنے سے منع کرتے ہیں.

____________________

1.مورخین کا بیان ہے کہ معاویہ اپنے مخالف کو مارتا تھا اور اس کو زہر آمیختہ شہد کھلاتا تھا تو وہ اس کے دربار سے واپس آتے آتے مرجاتا تھا.

۲۶۱

اور آج جو ہلاکت خیز جرائم کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے وہ سب بلا شک و شبہہ صحابہ کے افعال ہیں ان کے مطالعہ کے بعد ایک عاقل کے لئے یہ گنجائش نہیں رہ جاتی کہ وہ صحابہ کو بری سمجھے اور ان کی عدالت کا قائل ہو جائے اور ان پر طعن و تشنیع نہ کرے. ایسا تو وہی کرے گا جس کی عقل زائل ہوچکی ہے.

خصوصا ہم بعض صحابہ کی عدالت اور ان کی پاکیزگی و تقوے کے بارے میں سنتے ہیں اور خدا و رسول(ص) سے جو انہیں محبت وہ بھی معلوم ہے وہ زمانہ رسول(ص) میں ثابت قدم رہے یہاں تک کہ ان کی مدت حیات پوری ہوگئی اور انہوں نے کوئی رد و بدل نہیں کی پس خدا ان سے راضی ہوگیا اور انہیں اپنے حبیب محمد(ص) کے جوار میں جگہ دی.

وہ اس سے بری اور اعلی ہیں کہ ان کے بارے میں کچھ کہا جائے یا کوئی بہتان لگانے والا ان پر بہتان لگائے خداوند عالم نے اپنی کتاب میں مختلف موقعوں پر ان کی مدح فرمائی ہے جیسا کہ خدا نے بارہا نبی(ص) سے ان لوگوں کی محبت و خلوص کی تعریف کی ہے اور تاریخ نے ان ہی واقعات کو ثبت کیا ہے جو شرافت سے لبریز، خوف خدا اور شجاعت و تقوی سے مملو ہیں. پس وہ خوش نصیب ہیں ان کے لئے جنت عدن کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور شکر کرنے والوں کے لئے خدا کی رضا سب سے بڑا اجر ہے. لیکن یاد رہے شکر کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے!

لیکن جو اشخاص مصلحت کے تحت مسلمان بن گئے تھے اور ان کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوا تھا وہ برضا و رغبت رسول(ص) کے ساتھ نہیں تھے بلکہ اپنی غرض کے تحت رسول(ص) کے ساتھ لگ گئے تو قرآن نے ان کی سرزنش کی ہے اور رسول(ص) ان سے اور وہ رسول(ص) سے بچتے رہے. آپ نے متعدد موقعوں پر

۲۶۲

ان لوگوں پر لعنت کی، تاریخ نے ان کے اعمال شنیعہ محفوظ کئے ہیں... یہ کسی احترام کے بھی لائق نہیں ہیں. چہ جائیکہ ہم ان سے خوش ہو جائیں اور ان کو انبیاء و شہداء اور صالحین کے برابر سمجھیں.

قسم میری جان کی یہی توقف حق ہے جو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور ان خطوط سے تجاوز نہیں کرتا جو خدا نے اپنے بندوں کے لئے کھنیچے ہیں کہ وہ مومنین سے دوستی اور منافقین سے برات و دشمنی اختیار کریں. خداوند عالم اپنی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے:

( أَ لَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ‏ تَوَلَّوْا قَوْماً غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ما هُمْ مِنْكُمْ وَ لا مِنْهُمْ وَ يَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَ هُمْ يَعْلَمُونَ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذاباً شَدِيداً إِنَّهُمْ ساءَ ما كانُوا يَعْمَلُونَ اتَّخَذُوا أَيْمانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَ لا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً أُولئِكَ أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَما يَحْلِفُونَ لَكُمْ وَ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْكاذِبُونَ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطانُ فَأَنْساهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ أُولئِكَ حِزْبُ الشَّيْطانِ أَلا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطانِ هُمُ الْخاسِرُونَ‏ إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ‏ اللَّهَ‏ وَ رَسُولَهُ‏ أُولئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ* كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ لا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ- يُوادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لَوْ كانُوا آباءَهُمْ أَوْ أَبْناءَهُمْ- أَوْ إِخْوانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولئِكَ كَتَبَ فِي

۲۶۳

قُلُوبِهِمُ الْإِيمانَ- وَ أَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَ يُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدِينَ فِيها- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ- أُولئِكَ حِزْبُ اللَّهِ- أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‏) مجادلہ، آیت/14-22

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنہوں نے اس قوم سے دوستی کر لی ہے جس پر خدا نے عذاب نازل کیا ہے کہ یہ نہ تم میں سے ہیں اور نہ ان میں سے اور یہ جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور خود بھی اپنے جھوٹ سے با خبر ہیں، انہوں نے اپنی قسموں کو سپر بنا لیا ہے اور راہ خدا میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں تو ان کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے، اللہ کے مقابلہ میں ان کا مال اور ان کی اولاد کوئی کام آنے والا نہیں ہے. یہ سب جہنمی ہیں اور وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں. جو خدا ان سب کو دوبارہ زندہ کرے گا اور یہ اس سے بھی ایسی ہی قسمیں کھائیں گے جیسی تم سے کھاتے ہیں اور ان کا خیال ہوگا کہ ان کے پاس کوئی بات ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹے ہیں، ان پر شیطان غالب آگیا ہے اور اس نے انہیں ذکر خدا سے غافل کر دیا ہے. آگاہ ہو جائو کہ یہ شیطان کا گروہ ہے. اور شیطان کا گروہ بہر حال خسارہ میں رہنے والا ہے. بیشک جو لوگ خدا و رسول(ص) سے دشمنی کرتے ہیں ان کا شمار ذلیل ترین لوگوں میں ہے. اللہ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول(ص) غالب آنے والے ہیں. بیشک اللہ صاحب قوت اور صاحب عزت ہے. آپ کبھی بھی نہ دیکھیں گے کہ جو قوم اللہ

۲۶۴

اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کر رہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول(ص) سے دشمنی کرنے والے ہیں چاہے وہ ان کے باپ دادا، اولاد یا برادران یا عشیرہ اور قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں. اللہ نے صاحبان ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی اپنی خاص روح کے ذریعہ تائید کی ہے اور وہ انہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ انہیں میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے. خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے راضی ہوں گے یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں اور آگاہ ہو جائو کہ اللہ کا گروہ ہی نجات پانے والا ہے.

یہاں میں یہ بات ضرور سپرد قلم کروں گا کہ شیعہ ہی حق پر ہیں. کیونکہ وہ رسول(ص) اور ا ن کے اہل بیت(ع) سے اور ان ہی صحابہ سے محبت کرتے ہیں جنہوں نے شعار اہل بیت(ع) کو اپنایا اور ان مومنوں سے دوستی رکھتے ہیں جو قیامت تک طریق ائمہ کا اتباع کرتے رہیں گے شیعوں کے علاوہ اور سارے مسلمان تمام صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ انہوں نے خدا و رسول(ص) کو ناراض کیا ہے. اور اپنی اس بات پر خدا کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں کہ:

( رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا وَ لِإِخْوانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونا بِالْإِيمانِ وَ لا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا، رَبَّنا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ .) سورہ حشر، آیت/10

پروردگارا ہمیں معاف کر دے اور ہمارے ان بھائیوں

۲۶۵

کو بھی جنہوں نے ایمان میں ہم پر سبقت کی ہے. اور ہمارے دلوں میں صاحبان ایمان کے لئے کسی قسم کا کینہ قرار نہ دینا کہ تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے. اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ وہ علی(ع) سے بھی راضی اور معاویہ سے بھی خوش، انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ معاویہ نے کیا کیا؟ کن جرائم کا مرتکب ہوا، کم سے کم معاویہ کو کفر گمراہ اور خدا و رسول(ص) سے جنگ کرنے والا کہا جا سکتا ہے یہ عجیب باتیں تو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں. جن کو دھرانے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے. کہ ایک صالح بندہ جلیل القدر صحابی حجر ابن عدی کی قبر کی زیارت کو گیا تو وہاں اس نے ایک شخص کو روتا ہوا پایا کہ جس کا گریہ بڑھتا ہی جا رہا تھا. اس نے سوچا کہ شاید یہ شیعہ ہے. اسی لئے اس سے معلوم کیا کہ تم کیوں رو رہے ہو؟ اس نے کہا میں اپنے سید و سردار حجر ابن عدی رضی اللہ عنہ پر رو رہا ہوں. اس نے پوچھا؟ ان پر کیا گذری؟

کہا: ہمارے سید و سردار معاویہ نے انہیں قتل کر دیا تھا.

صالح آدمی نے کہا کہ انہیں معاویہ نے کیوں قتل کیا تھا؟

اس نے کہا: کہ حجر نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر لعنت کرنے سے انکار کر دیا تھا.

صالح انسان نے اس سے کہا: کہ میں اب تمہارے اوپر روتا ہوں تاکہ اللہ تم سے راضی ہو جائے.

یہ تمام صحابہ کی محبت کے سلسلہ میں اتنا اصرار اور ضد کیوں ہے کہ تنہا محمد(ص) اور ان کی آل(ع) پر درود نہیں بھیجتے بلکہ اس میں " واصحابہ اجمعین" کا اضافہ کر لیتے ہیں حالانکہ نہ قرآن نے انہیں اس کا حکم دیا ہے اور نہ رسول(ص) نے اس کا مطالبہ کیا ہے

۲۶۶

اور نہ ہی کسی صحابی نے اسے کہا ہے. بلکہ صلواة تو صرف محمد(ص) و آل محمد(ص) سے مخصوص ہے جیسا کہ قرآن میں(آیت) نازل ہوئی ہے اور جس کی تعلیم رسول(ص) نے صحابہ کو دی ہے اور اگر مجھے کسی چیز میں شک ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے. لیکن اس سلسلہ میں مجھے ہرگز شک نہیں ہوگا کہ خدا نے مومنین سے قرابتداروں کی محبت کا مطالبہ کیا ہے. اور قرابتدار صرف اہل بیت(ع) ہیں اور ان کی محبت کو مومنوں پر واجب قرار دیا ہے اور اسے رسالت محمدی(ص) کا اجر قرار دیا ہے. چنانچہ ارشاد خداوند عالم ہے:

( قُلْ‏ لا أَسْئَلُكُمْ‏ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى ‏) سورہ شوری، آیت/23

اہل بیت(ع) کی محبت کے سلسلہ میں سارے مسلمانوں کا اتفاق ہے جبکہ غیر اہل بیت(ع) کے متعلق اختلاف ہے. رسول(ص) کا ارشاد ہے:

" دَعْ‏ مَا يُرِيبُكَ‏ إِلَى مَا لَا يُرِيبُكَ"

جس میں شک ہو اسے چھوڑ دو اور بغیر شک والے کو اختیار کرلو.اہل بیت(ع) کی محبت کے بارے میں شیعوں کے نظریہ میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے. لیکن صحابہ کی محبت کے بارے میں اہل سنت کے نظریہ میں بہت زیادہ شکوک ہیں اور ایک مسلمان دشمن اہل بیت(ع) اور ان کے قاتلین سے کیونکر محبت کرسکتا ہے اور ان سے کیسے راضی ہوسکتا ہے. کیا یہ تناقض نہیں ہے؟ چھوڑئیے شطاح اور صوفیوں کے نظریہ کو جو یہ گمان کرتے ہیں کہ انسان کا قلب اس وقت تک صاف نہیں ہوسکتا، اور ایمان حقیقی اس کے دل میں جاگزین نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل تمام بندگان خدا یہود و نصاری، اور مشرکین و ملحدین کی عناد سے پاک نہ ہو جائے، اس سلسلہ میں ان کے عجیب و غریب اقوال ہیں جو

۲۶۷

کلیسا کے عیسائیوں سے ملتے جلتے ہیں، ان کا یہ وہم ہے کہ خدا محبت ہے اور دین محبت ہے پس جو اس کی مخلوقات سے محبت کرے گا اسے نماز پڑھنے روزہ رکھنے حج وغیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے.

میری جان کی قسم یہ تو دل بہلانے کی باتیں ہیں، قرآن و حدیث میں ان کا کہیں وجود بھی نہیں ہے. عقل بھی انہیں صحیح نہیں سمجھتی ہے. قرآن کہتا ہے:

( لا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ- يُوادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ ) سورہ مجادلہ، آیت/22

آپ کبھی نہ دیکھیں جو قوم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کر رہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول(ص) سے دشمنی رکھنے والے ہیں. نیز ارشاد ہے:

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَ النَّصارى‏ أَوْلِياءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِياءُ بَعْضٍ وَ مَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ‏ ) سورہ مائدہ، آیت/51

اے ایمان والو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست و سرپرست نہ بنائو کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے کوئی انہیں دوست بنائے گا تو انہیں میں شمار ہو جائیگا بیشک اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے.

نیز ارشاد ہے:

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا آباءَكُمْ‏ وَ إِخْوانَكُمْ أَوْلِياءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمانِ وَ مَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ

۲۶۸

فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ‏. ) سورہ توبہ، آیت/23

اے ایمان والو خبر دار اپنے باپ، دادا اور بھائیوں کو اپنا دوست نہ بنائو، اگر وہ ایمان کے مقابلہ میں کفر کو دوست رکھتے ہوں اور جو شخص بھی ایسے لوگوں کو اپنا دوست بنائے گا وہ ظالموں میں شمار ہوگا.

نیز ارشاد ہے:

(يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي‏ وَ عَدُوَّكُمْ أَوْلِياءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوا بِما جاءَكُمْ مِنَ الْحَقِ ‏)سورہ ممتحنہ، آیت/1

اے ایمان والو خبر دار میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا کہ تم ان کی طرف دوستی کی پیش کش کرو جب کہ انہوں نے اس حق کا انکار کر دیا ہے جو تمہارے پاس آچکا ہے.

رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:اس وقت تک کسی مومن کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک اس کی محبت اور عداوت خدا کے لئے نہ ہو.نیز فرماتے ہیں کہ: کسی مومن کے قلب میں خدا اور اس کے دشمن کی محبت جمع نہیں ہوسکتی.

اس موضوع سے متعلق بہت سی احادیث ہیں اور عاقل کے لئے دلیل کے طور پر اتنا ہی کافی ہے کہ خدا نے مومنین کے لئے ایمان کو پسند کیا ہے. اور ان کے قلوب کو اسی سے زینت عطا کی ہے اور ان کے لئے کفر، گناہ اور فسق کو نا پسند

۲۶۹

قرار دیا ہے انسان حق سے منحرف اور منکر ہونے کی بنا پر اپنے باپ، بیٹے یا بھائی سے نفرت کرنے لگتا ہے کیونکہ وہ شیطان کے راستہ پر چلنے لگتا ہے اور کبھی اجنبی انسان سے مسلمان ہونے کے ناتے محبت کرتا ہے.

ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم سب پر واجب ہے کہ ہماری محبت و مودت اور دوستی انہیں سے ہو جن کی مودت کے بارے میں خدا نے حکم دیا ہے اسی طرح یہ واجب ہے کہ ہمارا بغض و نفرت اور برات انہیں لوگوں سے ہونی چاہئیے جن سے نفرت و برات کا خدا نے حکم دیا ہے.اس لئے ہم علی(ع) اور ان کی اولاد میں سے ہونے والے ائمہ سے محبت کرتے ہیں حالانکہ ان کی مودت سے ہمارا کوئی سابقہ نہیں ہوتا، لیکن قرآن و حدیث تاریخ وعقل کی روسے ان میں کوئی خامی نہیں ملتی.

اور اسی بنا پر ہم صحابہ سے بیزار ہیں کہ ان کے حق خلافت کو غصب کر لیا حالانکہ پہلے ان سے بغض نہیں تھا لیکن قرآن و سنت اور تاریخ و عقل نے ہمارے سامنے ان کے بارے میں شکوک پیش کئے ہیں.

اور اس کے ساتھ ساتھ رسول(ص) نے ہمیں یہ حکم دیا کہ:

"دَعْ‏ مَا يُرِيبُكَ‏ إِلَى مَا لَا يُرِيبُكَ"

بس ایک مسلمان کے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی مشکوک حکم کا اتباع کرے اور کتاب (خدا) کو چھوڑ دے کہ جس میں کوئی شک نہیں ہے.جس طرح ہر ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ تمام قید و بند اور غلامی سے اپنے کو آزاد کرے اور اپنی عقل کو گذشتہ افکار سے اور کینہ و کدورت سے متاثر نہ ہونے دے کیونکہ نفس اور شیطان دونوں انسان کے بڑے دشمن ہیں جو انسان کے سامنے برے اعمال کو خوبصورت بنا کر پیش کرتے ہیں اور وہ انہیں

۲۷۰

اچھا سمجھنے لگتا ہے امام بوصیری نے" قصیدہ البرزہ میں بہت اچھی بات کہی ہے.

و خالف النفس والشیطان و اعصمهما

و ان هما محضاک النصح فاتهم

نفس اور شیطان دونوں کی مخالفت اور نا فرمانی کرو اور ان سے بچو پس اگر یہ تمہیں مخلصانہ طور پر بھی نصیحت کریں تب بھی تم ان کی مذمت کرو.

نیک بندوں کے بارے میں مسلمانوں کو خدا سے ڈرنا چاہیئے لیکن جو لوگ متقی نہیں ہیں ان کی کوئی عزت بھی نہیں ہے. رسول(ص) کا ارشاد ہے کہ: فاسق کی سخن چینی میں کوئی حرج نہیں ہے تاکہ مسلمان اس کے کرتوت سے آگاہ ہوجائیں. اور اس کے فریب میں نہ آئیں اور اس سے محبت نہ کریں.

آج مسلمانوں کو ایک دوسرے کی صداقت کے ساتھ رہنمائی کرنی چاہئیے ان کی غم انگیز حالت کو ملاحظہ کرنا چاہئیے، فخر و مباہات کےسلسلہ میں ان کے اسلاف و بزرگ کافی ہیں، پس اگر ہمارے بزرگ حق پر تھے" جیسا کہ ہم آج تصور کرتے ہیں" تو آج ہم اس نتیجہ پر کیوں پہونچتے ہیں. یہ چیز تو اس انقلاب کی رہین منت ہے جو امت نبی(ص) روحی و ارواح العالمین لہ الفدا کی وفات کے بعد رونما ہوا:

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ‏ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ وَ لَوْ عَلى‏ أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيراً فَاللَّهُ أَوْلى‏ بِهِما فَلا تَتَّبِعُوا الْهَوى‏ أَنْ تَعْدِلُوا وَ إِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبِيراً .) سورہ نساء، آیت/135

اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو

۲۷۱

اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقربا ہی کے خلاف کیوں نہ ہو. جس کے لئے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر اللہ دونوں کے لئے تم سے اولی ہے لہذا خبردار خواہشات کا اتباع نہ کرنا تا کہ انصاف کرسکو اور اگر توڑ مروڑ سے کام لیا یا بالکل کنارہ کشی کر لی تو یاد رکھو اللہ تمہارے اعمال سے خوب با خبر ہے.

بعض صحابہ کے متعلق اہل ذکر کا نظریہ

حضرت علی علیہ السلام ان بعض سابق صحابہ کی اس طرح توصیف فرماتے ہیں:

"فَلَمَّا نَهَضْتُ‏ بِالْأَمْرِ نَكَثَتْ طَائِفَةٌ وَ قَسَطَتْ شِرْذِمَةٌ وَ مَرَقَ آخَرُونَ، كَأَنَّهُمْ لَمْ يَسْمَعُوا اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: ( تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُها لِلَّذِينَ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لا فَساداً وَ الْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ‏) بَلَى وَ اللَّهِ لَقَدْ سَمِعُوهَا وَ لَكِنْ حُلِّيَتِ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنِهِمْ وَ رَاقَهُمْ زِبْرِجُهَا" (1)

مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا

____________________

1.نہج البلاغہ، خطبہ نمبر3

۲۷۲

اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا، گویا انہوں نے اللہ کا یہ اشارہ سنا ہی نہ تھا کہ" یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ( بے جا) بلندی چاہتے ہیں اور نہ فساد پھیلاتے ہیں اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے" ہاں ہاں خدا کی قسم ! ان لوگوں نے اس کو سنا تھا اور یاد کیا تھا. لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھپ گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا.

نیز آپ نے انہیں کے لئے فرمایا:

"اتَّخَذُوا الشَّيْطَانَ‏ لِأَمْرِهِمْ مِلَاكاً وَ اتَّخَذَهُمْ لَهُ أَشْرَاكاً فَبَاضَ وَ فَرَّخَ فِي صُدُورِهِمْ وَ دَبَّ وَ دَرَجَ فِي حُجُورِهِمْ فَنَظَرَ بِأَعْيُنِهِمْ وَ نَطَقَ بِأَلْسِنَتِهِمْ فَرَكِبَ بِهِمُ الزَّلَلَ وَ زَيَّنَ لَهُمُ الْخَطَلَ فِعْلَ مَنْ قَدْ شَرِكَهُ الشَّيْطَانُ فِي سُلْطَانِهِ وَ نَطَقَ بِالْبَاطِلِ عَلَى لِسَانِهِ."(1)

انہوں نے اپنے ہرکام کا کرتا دھرتا شیطان کو بند رکھا ہے اور اس نے ان کو اپنا آلہ کار بنا لیا ہے اس نے ان کے سینوں میں انڈے دیئے ہیں اور بچے نکالے ہیں اور انہیں کی گود میں وہ بچے رینگتے اور اچھلتے کودتے ہیں، وہ دیکھتا ہے تو ان کی آنکھوں سے، بولتا ہے تو ان کی زبانوں سے، اس نے انہیں خطائوں کی راہ پر لگایا دیا ہے. اور بری باتیں سجا کر ان کے سامنے

..................................

1.نہج البلاغہ، خطبہ نمبر7

۲۷۳

رکھی ہیں جیسے اس نے انہیں اپنے تسلط میں شریک بنا لیا ہو اور انہیں کی زبانوں سے اپنے کلام باطل کے ساتھ بولتا ہے.حضرت علی(ع) عمر عاص کے متعلق فرماتے ہیں:

" عَجَباً لِابْنِ‏ النَّابِغَةِ لَقَدْ قَالَ بَاطِلًا وَ نَطَقَ آثِماً أَمَا وَ شَرُّ الْقَوْلِ الْكَذِبُ إِنَّهُ يَقُولُ فَيَكْذِبُ وَ يَعِدُ فَيُخْلِفُ وَ يَسْأَلُ فَيُلْحِفُ‏ وَ يُسْأَلُ فَيَبْخَلُ وَ يَخُونُ الْعَهْدَ وَ يَقْطَعُ الْإِلَّ"(1)

نابغہ کے بیٹے پر حیرت ہے.... یاد رکھو بدترین قول وہ ہے جو جھوٹ ہو. اور وہ خود بات کرتا ہے تو جھوٹی اور وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے، مانگتا ہے تو لپٹ جاتا ہے اور خود اس سے مانگا جائے تو اس میں بخل کر جاتا ہے، وہ پیمان شکنی اور قطع رحمی کرتا ہے.

رسول اکرم(ص) نے فرمایا:منافق کی تین علامتیں ہیں: جب وہ گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جب کسی کی امانت رکھتا ہے تو خیانت کرتا ہے.

اور یہ تمام بری صفتیں بلکہ اس سے بھی زیادہ وہ عمر بن عاص میں موجود ہیں!

جب حضرت ابوذر ربذہ کی طرف جلا وطن کیا گیا تو ان کی مدح میں اور عثمان اور عثمان کے ساتھیوں کی مذمت میں اور ان کی تن تنہائی کے بارے میں فرمایا:

____________________

1.نہج البلاغہ، خطبہ نمبر82

۲۷۴

"يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ‏ غَضِبْتَ‏ لِلَّهِ‏ فَارْجُ مَنْ غَضِبْتَ لَهُ إِنَّ الْقَوْمَ خَافُوكَ عَلَى دُنْيَاهُمْ وَ خِفْتَهُمْ عَلَى دِينِكَ فَاتْرُكْ فِي أَيْدِيهِمْ مَا خَافُوكَ عَلَيْهِ وَ اهْرُبْ مِنْهُمْ بِمَا خِفْتَهُمْ عَلَيْهِ فَمَا أَحْوَجَهُمْ إِلَى مَا مَنَعْتَهُمْ وَ مَا أَغْنَاكَ عَمَّا مَنَعُوكَ وَ سَتَعْلَمُ مَنِ الرَّابِحُ غَداً وَ الْأَكْثَرُ [حَسَداً] حُسَّداً وَ لَوْ أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرَضِينَ كَانَتَا عَلَى عَبْدٍ رَتْقاً ثُمَّ اتَّقَى اللَّهَ لَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْهُمَا مَخْرَجاً لَا يُؤْنِسَنَّكَ إِلَّا الْحَقُّ وَ لَا يُوحِشَنَّكَ إِلَّا الْبَاطِلُ فَلَوْ قَبِلْتَ دُنْيَاهُمْ لَأَحَبُّوكَ وَ لَوْ قَرَضْتَ مِنْهَا لَأَمَّنُوكَ."(1)

اے ابو ذر! تم اللہ کے لئے غضبناک ہوئے ہو تو پھر جس کی خاطر یہ تمام غم و غصہ ہے اسی سے امید بھی رکھو ان لوگوں کو تم سے اپنی دنیا کے متعلق خطرہ ہے اور تمہیں ان سے اپنے دین کے متعلق اندیشہ ہے لہذا جس چیز کےلئے انہیں تم سے کھٹکا ہے وہ انہیں کے ہاتھ میں چھوڑ دو اور جس شئی کے لئے تمہیں ان سے اندیشہ ہے اسے لے کر ان سے بھاگ نکلوا جس چیز سے تم انہیں محروم کر کے جا رہے ہو. کاش کہ وہ سمجھتے کہ وہ اس کے لئے کتنے حاجت مند ہیں. اور جس چیز کو انہوں نے تم سے روک لیا ہے. اس سے تم بہت ہی بے نیاز ہو اور جلد ہی تم جان لوگے کہ کل فائدہ میں رہنے والا کون ہے اور کس پر حسد

____________________

1.نہج البلاغہ، خطبہ نمبر129

۲۷۵

کرنے والے زیادہ ہیں اگر یہ آسمان و زمین کسی بندے پر بند پڑے ہوں اور وہ اللہ سے ڈرے تو وہ اس کے لئے زمین و آسمان کی راہیں کھول دے گا، تمہیں صرف حق سے دلچسپی ہونا چاہئیے صرف باطل ہی سے گھبرانا چاہئیے اگر تم ان کی دنیا قبول کر لیتے تو وہ تمہیں چاہنے لگتے اور تم اس میں کوئی حصہ اپنے لئے مقرر کرا لیتے تو وہ تم سے مطمئن ہو جاتے.

مغیرہ ابن اخنس کے بارے میں فرماتے ہیں جو بزرگ صحابہ میں سے ہیں:

" يابن‏ اللّعين‏ الأبتر و الشجرة التي لا أصل لها و لا فرع‏ واللّه ما أعزّ اللّه من أنت ناصره،و قام من انت من هضة اخرج أبعد اللّه نواك ثمّ ابلغ جهدك فلا أبقى اللّه عليك‏ إن ابقيت."(1)

اے بے اولاد لعین کے بیٹے اور ایسے درخت کے پھل جس کی نہ کوئی جڑ ہے نہ شاخ تو بھلا مجھ سے کیا نپٹے گا- خدا کی قسم جس کا تجھ ایسا مدد گار ہو، اللہ اسے غلبہ و سر فرازی نہیں دیتا اور جس کا تجھ جیسا ابھارنے والا ہو( وہ اپنے پیروں پر) کھڑا نہیں ہوسکتا ہم سے دور ہو خدا تمہاری منزل کو دور رکھے اور اس کے بعد جو بن پڑے کرنا اور اگر کچھ بھی مجھ پر ترس کھائے تو خدا تجھ پر رحم نہ کرے.

حضرت علی علیہ السلام نے دو مشہور صحابہ طلحہ و زبیر کہ جنہوں نے

____________________

1.نہج البلاغہ، خطبہ نمبر133

۲۷۶

پہلے آپ کی بیعت کی اور پھر بیعت توڑ کر آپ کے مد مقابل آئے،، کے متعلق فرمایا:

"وَ اللَّهِ مَا أَنْكَرُوا عَلَيَ‏ مُنْكَراً وَ لَا جَعَلُوا بَيْنِي وَ بَيْنَهُمْ نَصَفاً وَ إِنَّهُمْ لَيَطْلُبُونَ حَقّاً تَرَكُوهُ وَ دَماً سَفَكُوهُ

وَ إِنَّهَا لَلْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ فِيهَا الْحَمَأُ وَ الْحُمَّةُ وَ الشُّبْهَةُ الْمُغْدِفَةُ وَ إِنَّ الْأَمْرَ لَوَاضِحٌ وَ قَدْ زَاحَ الْبَاطِلُ عَنْ نِصَابِهِ وَ انْقَطَعَ لِسَانُهُ عَنْ شَغْبِهِ

فَأَقْبَلْتُمْ إِلَيَّ إِقْبَالَ الْعُوذِ الْمَطَافِيلِ عَلَى أَوْلَادِهَا تَقُولُونَ الْبَيْعَةَ الْبَيْعَةَ قَبَضْتُ كَفِّي فَبَسَطْتُمُوهَا وَ نَازَعْتُكُمْ يَدِي فَجَاذَبْتُمُوهَا

اللَّهُمَّ إِنَّهُمَا قَطَعَانِي وَ ظَلَمَانِي وَ نَكَثَا بَيْعَتِي وَ أَلَّبَا النَّاسَ عَلَيَّ فَاحْلُلْ مَا عَقَدَا وَ لَا تُحْكِمْ لَهُمَا مَا أَبْرَمَا وَ أَرِهِمَا الْمَسَاءَةَ فِيمَا أَمَّلَا وَ عَمِلَا وَ لَقَدِ اسْتَثَبْتُهُمَا قَبْلَ الْقِتَالِ وَ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمَا أَمَامَ الْوِقَاعِ فَغَمَطَا النِّعْمَةَ وَ رَدَّا الْعَافِيَةَ.(1)

و فی رسالة منه الیهما فَارْجِعَا أيُّهَا الشَّيْخَانِ‏ عَنْ رَأْيِكُمَا، فَإِنَّ الآنَ أعْظَمَ أمْرِكُمَا الْعَارُ، مِنْ قَبْلِ أنْ يَتَجَمَّعَ الْعَارُ والنَّارُ، والسَّلامُ.(2)

____________________

1.نہج البلاغہ، خطبہ نمبر135

2.نہج البلاغہ، مکتوب نمبر54

۲۷۷

خدا کی قسم انہوں نے مجھ پر کوئی سچا الزام نہیں لگایا اور نہ انہوں نے میرے اور اپنے درمیان انصاف برتا، وہ مجھ سے اس حق کا مطالبہ کرتے ہیں جسے خود ہی انہوں نے چھوڑ دیا اور اس خون کا عوض چاہتے ہیں جسے انہوں نے خود بہا دیا.

اور بلاشبہ یہی وہ باغی گروہ ہے جس میں ایک ہمارا سگا (زبیر) اور ایک بچھو کا ڈنک( حمیرا) ہے اور حق پر سیاہ پردہ ڈالنے والے شبہہ میں ہیں( اب تو ) حقیقت حال کھل کر سامنے آچکی ہے اور باطل اپنی بنیادوں سے ہل چکا ہے اور شر انگیزی سے اس کی زبان بند ہوچکی ہے.

تم اس طرح ( شوق و رغبت سے) بیعت بیعت پکارتے ہوئے میری طرف بڑھے جس طرح نئی بیاہی ہوئی بچوں والی اونٹیاں اپنے بچوں کی طرف، میں نے اپنے ہاتھوں کو اپنی طرف سمیٹا تو تم نے انہیں اپنی جانب سے پھیلایا میں نے اپنے ہاتھوں کو تم سے چھیننا چاہا مگر تم نے انہیں کھینچا.

خدایا ان دونوں نے میرے حقوق کو نظر انداز کیا ہے اور مجھ پر ظلم ڈھایا ہے اور میری بیعت کو توڑ دیا ہے اور میرے خلاف لوگوں کو اکسایا ہے لہذا تو جو انہوں نے گرہیں لگائی ہیں انہیں کھول دے اور جو انہوں نے بٹا ہے اسے مضبوط نہ ہونے دے اور انہیں ان کی امیدوں اور کرتوتوں کا برا نتیجہ دکھا، میں نے جنگ کے چھڑنے سے پہلے انہیں باز رکھنا چاہا اور لڑائی سے قبل انہیں ڈھیل دیتا رہا، لیکن انہوں نے اس نعمت

۲۷۸

کی قدر نہ کی اور عافیت کو ٹھکرا دیا.

اور اپنے ایک خط میں طلحہ و زبیر کے بارے میں فرماتے ہیں:

بزرگوارو! اپنے اس رویہ سے باز آئو کیونکہ ابھی تو تم دونوں کے سامنے ننگ و عار کا مرحلہ ہے. مگر اس کے بعد تو اس ننگ و عار کے ساتھ( دوزخ) کی آگ بھی جمع ہو جائیگی.

والسلام

پھر مروان ابن حکم کے متعلق فرماتے ہیں کہ جس کو جنگ جمل کے موقع پر گرفتار کر لیا تھا، پھر بعد میں رہا کر دیا، یہ ان افراد سے ہے جنہوں نے بیعت کرنے کے بعد بیعت توڑ دی تھی:

" لَا حَاجَةَ لِي‏ فِي‏ بَيْعَتِهِ‏ إِنَّهَا كَفٌّ يَهُودِيَّةٌ لَوْ بَايَعَنِي بِيَدِهِ لَغَدَرَ بِسَبَّتِهِ أَمَا إِنَّ لَهُ إِمْرَةً كَلَعْقَةِ الْكَلْبِ أَنْفَهُ وَ هُوَ أَبُو الْأَكْبُشِ الْأَرْبَعَةِ وَ سَتَلْقَى الْأُمَّةُ مِنْهُ وَ مِنْ وُلْدِهِ يَوْماً أَحْمَرَ."(1)

اب مجھے اس کی بیعت کی ضرورت نہیں، یہ یہودی قسم کا ہاتھ ہے. اگر ہاتھ سے بیعت کرے گا تو ذلیل طریقے سے توڑ بھی دے گا تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ یہ بھی اتنی دیر کہ کتا اپنی ناک چاٹنے سے فارغ ہو. حکومت کرے گا اور اس کے چار بیٹے بھی حکمراں ہوں گے، اور امت اس کے اور اس کے بیٹوٹ کے ہاتھوں سے سختیوں کے دن دیکھے گی.

____________________

1.نہج البلاغہ، خطبہ نمبر71

۲۷۹

علی علیہ السلام ان صحابہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ جنہوں نے جنگ جمل کے موقع پر عائشہ کے ساتھ بصرہ کی طرف کوچ کیا تھا ان میں طلحہ و زبیر بھی تھے:

"فَخَرَجُوا يَجُرُّونَ‏ حُرْمَةَ رَسُولِ اللَّهِ ص كَمَا تُجَرُّ الْأَمَةُ عِنْدَ شِرَائِهَا مُتَوَجِّهِينَ بِهَا إِلَى الْبَصْرَةِ فَحَبَسَا نِسَاءَهُمَا فِي بُيُوتِهِمَا وَ أَبْرَزَا حَبِيسَ‏ رَسُولِ اللَّهِ ص لَهُمَا وَ لِغَيْرِهِمَا فِي جَيْشٍ مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَ قَدْ أَعْطَانِي الطَّاعَةَ وَ سَمَحَ لِي بِالْبَيْعَةِ طَائِعاً غَيْرَ مُكْرَهٍ فَقَدِمُوا عَلَى عَامِلِي بِهَا وَ خُزَّانِ‏ بَيْتِ مَالِ الْمُسْلِمِينَ وَ غَيْرِهِمْ مِنْ أَهْلِهَا فَقَتَلُوا طَائِفَةً صَبْراً وَ طَائِفَةً غَدْراً فَوَاللَّهِ [إِنْ‏] لَوْ لَمْ يُصِيبُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا رَجُلًا وَاحِداً مُعْتَمِدِينَ‏ لِقَتْلِهِ بِلَا جُرْمٍ جَرَّهُ لَحَلَّ لِي قَتْلُ ذَلِكَ الْجَيْشِ كُلِّهِ إِذْ حَضَرُوهُ فَلَمْ يُنْكِرُوا وَ لَمْ يَدْفَعُوا عَنْهُ بِلِسَانٍ وَ لَا بِيَدٍ دَعْ مَا [إِنَّهُمْ‏] أَنَّهُمْ قَدْ قَتَلُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِثْلَ الْعِدَّةِ الَّتِي دَخَلُوا بِهَا عَلَيْهِمْ‏"(1)

وہ لوگ ( مکہ سے) بصرہ کا رخ کئے ہوئے اس طرح نکلے کہ رسول اللہ(ص) کی حرمت و ناموس کو یوں کھینچے پھرتے تھے جس طرح کسی کنیز کو فروخت کے لئے ( شہر بہ شہر ) پھرایا جاتا ہے ان دونوں نے اپنی بیویوں کو تو گھر میں روک رکھا تھا اور رسول اللہ(ص)

____________________

1.نہج البلاغہ خطبہ نمبر170

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291