اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 291
مشاہدے: 35270
ڈاؤنلوڈ: 4305


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35270 / ڈاؤنلوڈ: 4305
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بہایا جاتا ہے. اور پھر نبی(ص) نے اسلام کی دعوت دینے کا حکم دیا تھا نہ کہ ان کے قتل کرنے کا.

لیکن خالد پر جاہلیت والے جھگڑے اور شیطانی حمیت غالب آگئی تھی. اس کا سبب یہ تھا کہ بنی جذیمہ نے زمانہ جاہلیت میں خالد کے چچا الفاکہ ابن المغیرہ کو قتل کیا تھا لہذا خالد نے انہیں فریب دیا اور اپنے لشکر والوں سے کہا کہ تم اپنا اسلحہ رکھ دو کیونکہ یہ لوگ اسلام لے آئے ہیں اور اس کے بعد انہیں حکم دیا کہ پس گردن ان لوگوں کے ہاتھ باندھ دو اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو قتل کر دیا.

جب بعض مخلص صحابہ کو خالد کی اس دشمنی کی اطلاع ملی تو خالد کے لشکر سے بھاگ کر نبی(ص) کے پاس آئے اور روداد سنائی تو آپ(ص) نے خالد کے اس فعل سے برائت کا اظہار فرمایا. اور علی(ع) ابن ابی طالب کو بھیج کر ان کے جان و مال کی دیت ادا فرمائی.

اس حادثہ کی مختصر تفصیل کے لئے " عباس محمود العقاد" کی "عبقریہ خالد" کا مطالعہ کافی ہے عقاد مذکور کتاب کے ص57 ص58 پر رقم طراز ہیں.

فتح مکہ کے بعد رسول(ص) دیہاتوں کو بتوں کی پرستش سے پاک کرنے کی طرف متوجہ ہوئے، ان میں بسنے والے قبائل کی طرف دعوت اسلام کے لئے چھوٹے چھوٹے لشکر روانہ کئے ان لشکروں میں سے ایک لشکر خالد ابن ولید کا تھا جو انصار و مہاجرین و بنی سلیم کے تین سو پچاس افراد پر مشتمل تھا اس لشکر کو بنی جذیمہ کی طرف انہیں دعوت اسلام دینے کے لئے بھیجا تھا ان لوگوں کو قتل کا حکم نہیں دیا تھا. زمانہ جاہلیت میں قبیلہ جذیمہ انتہائی شرپسند تھا اور لوگ اسے خون کا لوتھڑا کہتے تھے ان کی خونریزیوں میں سے ایک خالد کے چچا الفاکہ ابن المغیرہ اور اس کے چچا زاد بھائی اور عبدالرحمن ابن عوف کے والد کا قتل بھی ہے

۲۴۱

اور بنی سلیم میں سے مالک ابن شرید اور اس کے تین بھائیوں کا قتل ہے اور ان کے علاوہ اور بہت سے قبائل ہیں.

جب خالد ابن ولید ان کے قریب پہونچا اور انہیں بھی یہ اطلاع ہوگئی کہ اس کے ساتھ بنی سلیم بھی ہیں تو بنی جذیمہ مسلح ہو کر جنگ کے لئے آمادہ ہوئے اور خالد کو وہاں اترنے سے منع کر دیا تو خالد نے دریافت کیا کہ تم مسلمان ہو؟ بعض لوگوں نے کہا جی ہاں! اور بعض نے کہا کہ ہم نے بت پرستی چھوڑ دی ہے پھر خالد نے کہا کہ تم اگر مسلمان ہو تو یہ ہتھیار کیوں اٹھائے ہوئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا ہ ہمارے اور قوم عرب کے درمیان دشمنی ہے. ہمیں یہ خوف تھا کہ کہیں تم لوگ وہی تو نہیں ہو. اس لئے ہم نے اسلحہ اٹھا لیا! پس خالد نے اپنے لشکر والوں سے کہا کہ اسلحہ رکھ دو ان لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے. ان میں سے حجدم نامی ایک شخص نے چیخ کر کہا: اے جذیمہ کی اولاد ویل ہو تم پر قسم خدا کی خالد اسلحہ رکھوا لینے کے بعد تمہیں گرفتار کرے گا اور اس کے بعد گردن مروا دے گا قسم خدا کی میں تو کبھی اپنا اسلحہ نہیں رکھوں گا لیکن لوگوں نے اس سے بھی اسلحہ رکھوا لیا اور کچھ افراد متفرق ہوگئے.

اس کے بعد خالد نے ان لوگوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور پھر قتل کرنے کے لئے کہدیا.بنی سلیم نے اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے انہیں قتل کیا اور انصار و مہاجرین قتل کرنے سے یہ کہہ کے مکر گئے کہ رسول(ص) نے ہمیں قتال کے لئے نہیں بھیجا ہے. جب اس سانحہ کی خبر آپ(ص) تک پہونچی تو آپ(ص) نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے تین بار فرمایا: پروردگار خالد بن ولید نے جو کچھ کیا ہے میں اس سے بری ہوں. اس کے بعد آنحضرت(ص) نے علی ابن ابی طالب(ع) کو بنی جذیمہ کے پاس بھیجا اور ان کے جان و مال کی دیت دلائی.

۲۴۲

اس حادثہ سے ان بزرگ صحابہ کے درمیان خلفشار پیدا ہوگیا جو اس سریہ میں شریک ہوئے تھے. اور جو شریک نہیں ہوئے تھے یہاں تک کہ عبدالرحمن ابن عوف نے صاف صاف کہہ دیا کہ خالد نے جان بوجھ کر لوگوں کو قتل کیا ہے. تا کہ اپنے چچا کا انتقام لے سکتے. یہ تھا عقاد کا بیان.

یہ تھی وہ عبادت جس کو عقاد نے اپنی عبقریہ خالد میں قلمبند کیا ہے لیکن عقاد بھی اہلسنت کے دوسرے مفکرین کی طرح اس قصہ کو لکھنے کے بعد خالد کو بری قرار دیتے ہیں. لیکن ان کی باتوں میں کوئی دم خم نہیں ہے نہ ہی عقل سلیم اسے قبول کرتی ہے. عقاد کے پاس " عبقریہ ا لخالد" لکھنے کے علاوہ کوئی چارہ کار ہی نہ تھا.

جب کہ اس عذر کی حقیقت " تار عنکبوت" سے زیادہ نہیں ہے. جو بھی مطالعہ کرے گا وہ اس بے جا دفاع سے آگاہ ہو جائے گا.

معلوم نہیں کیسے انہوں نے عذر تراشی سے کام لیا جبکہ وہ خود اپنی تحریر میں اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ نبی(ص) نے خالد ابن ولید کو ان کے پاس دعوت اسلام کے لئے بھیجا تھا قتال کا حکم نہیں دیا تھا. عقاد اس بات کا اعتراف بھی کرچکے ہیں کہ نبی جذیمہ نے ہتھیار و اسلحہ سجالئے تھے. لیکن خالد نے جب اپنے لشکر والوں سے کہا کہ تم اپنا اسلحہ اتار دو کیونکہ یہ لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں تو بنی جذیمہ اس کے فریب میں آگئے. عقاد یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ حجدم نے ہتھیار رکھنے سے منع کر دیا اور اپنی قوم والوں سے کہا کہ عنقریب تم خالد کے فریب میں آجائو گے نیز اس نے کہا: ویل ہو تم پر بنی جذیمہ یہ خالد ہتھیار رکھوا لینے کے بعد تمہیں قید کرے گا اور گرفتار کرنے کے بعد گردن زدنی یقینی ہے. قسم خدا کی میں کبھی ہتھیار نہیں ڈالوں گا. عقاد ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ بنی جذیمہ نے اس سے بھی اصرار کے بعد

۲۴۳

ہتھیار ڈلوا دئیے. اس سے ان کے اسلام اور ان کی حسن نیت کا پتا چلتا ہے.

پس جب رسول(ص) نے دعوت اسلام کے لئے بھیجا تھا اور جنگ کا حکم نہیں دیا تھا. جیسا کہ حناب عقاد خود فرما چکے ہیں تو نبی(ص) کے حکم کی مخالفت کے سلسلہ میں خالد کے پاس کون سا عذر ہے؟ عقاد صاحب یہ ایسا معمہ ہے جسے آپ حل نہیں کرسکتے.

اور جب بنی جذیمہ نے ہتھیار ڈال دئے تھے. اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر چکے تھے اور اپنے اس دوست پر بھی قابو پاگئے تھے جس نے ہتھیار نہ ڈالنے کی قسم کھائی تھی جیسا کہ عقاد صاحب آپ اعتراف کر چکے ہیں تو پھر ان لوگوں کو دھوکہ دے کر قتل کرنے اور ان سے ہتھیار رکھوانے کے سلسلہ میں خالد کے پاس کون سا عذر ہے؟

آپ ہی یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ خالد نے پہلے ان کے ہاتھ باندھنے کا حکم دیا اور بعد میں قتل کر دیا یہ دوسرا معمہ ہے جسے عقاد صاحب آپ حل نہیں کرسکتے ہیں. کیا اسلام مسلمانوں کو ان لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے. جو ان سے جنگ نہیں کرتے؟ اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ انہوں نے( بنی جذیمہ) مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا تو یہ بات دشمن اسلام مستشرقین کے لئے حجت ہے جسے آج وہ رواج دے رہے ہیں.

ایک مرتبہ آپ اعتراف کرتے ہیں کہ نبی(ص) نے ان لوگوں کو جنگ کا حکم نہیں دیا تھا. جیسا کہ آپ خود تحریر کرچکے ہیں کہ مہاجرین و انصار نے خالد کا حکم نہیں مانا اور اسیر کو اس لئے قتل نہیں کیا کہ نبی(ص) نے قتل کا حکم نہیں دیا تھا پس عقاد صاحب خالد کے لئے جو آپ عذر خواہی کر رہے ہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے؟

۲۴۴

عقاد کی رد کے لئے تو اتنا ہی کافی ہے کہ انہوں نے اپنے عذر کو خور باطل کردیا اور سب کچھ کرنے کے بعد یہ کہکر خود ہی برباد کر دیا کہ:

اس سریہ میں حاضر ہونے والے باور حاضر نہ ہونے والے بزرگ صحابہ کے درمیان شدید اختلاف اور دشمنی ہوگئی پس جلیل القدر صحابہ خالد کے دشمن ہوگئے یہاں تک کہ اس کے لشکر سے فرار کر کے نبی(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خالد کی شکایت کی اور عبدالرحمن ابن عوف نے خالد پر یہ اتہام لگایا کہ اس نے جان بوجھ کر ان لوگوں کو اپنے چچا کے انتقام میں قتل کیا ہے. جیسا کہ عقاد نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے.

اور جب رسول(ص) نے آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کر کے تین مرتبہ فرمایا تھا کہ پروردگارا خالد ابن ولید کے کرتوت سے میں بری ہوں.

اور جب نبی(ص) نے علی(ع) کو اموال دے کر اس لئے بھیجا تھا کہ بنی جذیمہ کے خون اور مال کی دیت ادا کریں جس سے وہ راضی ہوجائیں. جیسا کہ خود عقائد کا بیان ہے اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ مسلمان ہوچکے تھے. لیکن خالد نے ان پر ظلم و تعدی کی. کیا کوئی خالد کا دفاع کرنے والا عقاد سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ کیا تم نہیں جانتے کہ نبی(ص) نے تین مرتبہ خدا سے خالد کے فعل سے برات کا اقرار کیا تھا؟ کیا تمہیں خبر نہیں ہے کہ جلیل القدر صحابہ خالد سے متنفر ہوگئے تھے؟ یا وہ صحابہ کہ جو اس کے ساتھ تھے اس کی غلط حرکتوں کو دیکھ یکر سر یہ سے بھاگ آئے تھے. یا عبدالرحمن ابن عوف کہ جو ان کے ساتھ سریہ میں تھے کیا وہ خالد کو عقاد سے زیادہ نہیں پہچانتے تھے؟ کہ جنہوں نے خالد پر یہ

۲۴۵

الزام لگایا کہ اس نے اپنے چچا کے انتقام میں جان بوجھ کر سب کو قتل کیا ہے.

خدا اس اندھے تعصب اور جاہلیت والی حمیت کا برا کرے کہ جس نے عقاد کو اندھا بنا دیا اور نے اس واقعہ کو صرف چار سطروں میں لکھا ہے. لیکن جو کچھ بخاری نے لکھا ہے وہ بھی خالد اور ان صحابہ کی رسوائی کے لئے کافی ہے جنہوں نے نیکوکار مسلمانوں کے قتل میں اس کی اطاعت کی جیسے عقاد نے تحریر کیا ہے کہ بنی سلیم نے اس سلسلہ میں خالد کی اطاعت کی اور دیگر اعراب نے بھی اس کا ساتھ دیا. لیکن بخاری نے خالد کی اطاعت کرنے والے صحابہ سے صرف دو یا تین کو مستثنی کیا ہے. وہ بھی جو لشکر سے فرار کر کے نبی(ص) کے پاس آئے اور خالد کی شکایت کی جناب عقاد آپ کے بس کی بات نہیں ہے کہ اس سلسلہ میں آپ مجھے قانع کر دیں کہ انصار و مہاجرین کی تعداد تین سو پچاس تھی جیسا کہ آپ نے خود تصریح کی ہے کہ جنہوں نے خالد کی اس قتل کے سلسلہ میں اطاعت نہیں کی اور سب کے سب لشکر سے بھاگ کھڑے ہوئے آپ کی اس بات کی کوئی بھی محقق تصدیق نہیں کرے گا.

لیکن آپ نے اپنے صحابہ کی عزت بچانے کی کوشش کی ہے اور ہر طرح حقیقت کو چھپانے کی سعی کی ہے. لیکن اب پردہ اٹھانے اور حق کی معرفت کا وقت آگیا ہے.

خالد ابن ولید کے اور نہ جانے کتنے سیاہ کرتوت ہیں کہ جن سے ہمیں تاریخ آگاہ کرتی ہے. خصوصا رزو بطاح کہ جب ابوبکر نے خالد کو اس لشکر کا سردار بنایا جس میں صحابہ اولین شریک تھے تو اس موقع پر بھی اس نے مالک ابن نویرہ اور اس کے خاندان والوں کو فریب دیا اور جب انہوں نے ہتھیار ڈال دئے تو انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا اور مظلومانہ طور پر قتل کر دیا اور ( خود

۲۴۶

خالد نے) اسی رات میں حادثہ کے بعد مالک کی زوجہ لیلی ارم تمیم سے زنا کیا کہ جس شوہر کو قتل کیا تھا. اور جب عمر نے خالد ابن ولید سے قصاص لینا چاہا اور اس سے کہا تم نے ایک مسلمان کو قتل کر کے اس کی زوجہ سے زنا کیا ہے.

قسم خدا کی میں تمہیں ضرور سنگسار کروں گا( عمر کی یہ کیفیت دیکھ کر) ابوبکر نے خالد کی طرفداری کی اور عمر سے کہا خالد کو کچھ نہ کہو: کیونکہ اس نے تاویل کی ہے اور اس کام میں اس سے خطا ہوگئی. یہ دوسرا قصہ ہے جس کی داستان طویل اور دہرانا نفرت آمیز ہے. کتنے مظلوموں کا حق ہڑپ کر لیا گیا کیونکہ اس کے غاصب طاقت والے اور با عزت سمجھے جاتے تھے. کتنے ظالموں کی مدد کی جاتی تھی کیونکہ وہ مالدار اور حاکم وقت کے مقرب ہوتے تھے. بخاری ہی کو دیکھئے کہ بنو جذیمہ کے قصہ کو کتنی کتروبیونت کے ساتھ نقل کیا ہے. لکھتے ہیں کہ نبی(ص) نے خالد کو بنی جذیمہ کے پاس بھیجا اس نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسلمنا نہ کہا بلکہ کہا کہ ہم نے بت پرستی چھوڑ دی ہے.جناب بخاری یہ بنو جذیمہ والے کیا اہل فارس ترک یا اہل نہود تھے کہ جو اسملنا نہ کہہ سکے. ان کا تعلق قبائل عرب سے تھا کہ جن کی زبان میں خدا نے قرآن نازل کیا ہے! لیکن اندھے تعصب اور اس گھنائونی سازش نے بخاری کو یہ بات لکھنے پر مجبور کیا کہ جو صحابہ کی عزت بچانے کے لئے کی گئی ہے اسی لئے بخاری نے خالد کو بری کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے. عقاد کو دیکھئے کہتے ہیں کہ خالد نے ان سے پوچھا کیا تم مسلمان ہو؟ پھر عقاد کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض نے کہا جی ہاں ہم مسلمان ہیں اور بعض نے کہا ہم نے بت پرستی چھوڑ دی ہے.اس لفظ( قبل) کی واضح دلالت اس بات پر ہے کہ اس قبیلہ نے کسی چیز سے تمسک کر لیا ہے اور اس کے ذریعہ وہ لوگوں کو توہم میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں

۲۴۷

تاکہ خالد ابن ولید کی طرف سے عذر پیش کرسکیں. کیونکہ خالد خلافت غصب کرنے والے حاکم کی شمشیر برہنہ ور غاصب خلافت کا دفاع کرنے والا تھا. اور اس کے ساتھی اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہے تھے تا کہ اگر کسی ذہن میں بعد وفات رسول(ص) سقیفہ کے غلط ہونے کا خیال بھی پیدا ہو تو وہ ہماری قوت دیکھ کر خاموش ہوجائے. "لا حول و لا قوة الا باللہ العلی بالعظیم"

رسول(ص) کی وفات کے بعد صحابہ نے سنت نبی(ص) کو برباد کر دیا

بخاری نے اپنی صحیح کی پہلی جلد کے باب " تضیع الصلواة" میں غیلان سے روایت کی ہے کہ انس ابن مالک نے کہا کہ مجھے عہد نبی(ص) کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی ہے. لوگوں نے کہا: نماز تو ہے، کہا کہ کیا تم نے اس کی بھی صورت نہیں بدل دی ہے اس میں تحریف نہیں کی ہے.

نیز کہتے ہیں میں نے زہری کو کہتے ہوئے سنا کہ میں دمشق میں انس ابن مالک کے پاس گیا تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں میں نے کہا آپ کے رونے کا سبب کیا ہے؟ کہا کہ میں نماز کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں دیکھتا ہوں اور (اب) اس میں بھی کترو بیونت کر دی گئی ہے.(1)

اسی طرح بخاری نے پہلی جلد کے " نماز صبح کی جماعت کی فضیلت"

____________________

1.صحیح بخاری جلد/1 ص134

۲۴۸

والے باب میں روایت کی ہے کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا کہ میں نے سالم سے سنا کہ انہوں نے کہا میں نے ام درداء سے سنا کہ وہ کہہ رہی تھیں کہ ایک روز حالت غیظ میں ابو درداء میرے پاس آئے تو میں نے کہا آپ کو کس چیز نے غضبناک کیا. کہا آج میں امت محمد(ص) میں کوئی چیز نہیں دیکھتا ہوں مگر یہ کہ وہ صرف نماز جماعت پڑھتے ہیں.(1) بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/2 کے باب " الخروج الی المصلی بغیر منبر" میں ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: روز عید فطر و ضحی رسول(ص) جب مصلی پر تشریف لے جاتے تو نماز سے پہلے اور نماز کے بعد لوگوں کو وعظ کرتے تھے. یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ ایک روز میں مروان کے ساتھ جب وہ مدینہ کا حاکم تھا نماز عید فطر یا عید الاضحی کےلئے نکلا تو دیکھا وہ نماز سے قبل منبر پر جانا چاہتا ہے. میں نے اس کا کپڑا پکڑ کر کھینچ لیا اس نے کپڑا چھڑایا اور نماز سے قبل منبر پر جاکر خطبہ دیا میں نے کہا قسم خدا کی تم نے ( شریعت) بدل دی. اس نے کہا: ابو سعید جو تم جانتے ہو وہ ختم ہوگئی! میں نے کہا: جو کچھ میں جانتا ہوں قسم خدا کی وہ اس سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا. مروان نے کہا: لوگ نماز کے بعد ہمارے لئے بیٹھے رہیں گے اس لئے میں نے خطبہ نماز پر مقدم کر دیا ہے.(2) صحابہ انس ابن مالک اور ابو درداء کے زمانہ میں اور مروان ابن حکم کے زمانہ میں جو نبی(ص) کے زمانہ سے بہت قریب زمانے تھے سنت میں تغیر کر رہے تھے یہاں تک کہ نماز کو بھی بدل دیا تھا اور اپنے پست مصالح کے تحت سنت نبی(ص) میں رد و بدل کر رہے تھے. بنی امیہ کو دیکھئے کہ انہوں نے ہر خطبہ کے بعد منبروں سے

____________________

1.صحیح بخاری جلد/1 ص159

2.صحیح بخاری جلد/2 ص4

۲۴۹

علی(ع) اور اولاد علی(ع) پر لعنت کرنے کو سنت بنا لیا تھا اسی لئے بہت سے لوگ عید الفطر و عیدالاضحی کی نماز کے بعد پراگندہ ہوجاتے تھے. کیونکہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ امام جماعت علی(ع) اور اولاد علی(ع) پر لعنت کرے. اس لئے نبی امیہ نے سنت نبی(ص) میں تغیر کر کے نماز عیدیں میں خطبہ کو نماز پر مقدم کر دیا تا کہ تمام مسلمانوں کے درمیان علی(ع) پر لعنت کرنا آسان ہو جائے اور انہیں رسوا کرسکیں. اس سنت (بد) کا بانی بنی امیہ کا راس و رئیس معاویہ ابن ابی سفیان ہے اور یہ سنت ان کے درمیان اس چیز سے بھی زیادہ اہم ہوگئی تھی کہ جو تقرب الہی کا ذریعہ تھی. بعض مورخین نے یہاں تک لکھا ہے کہ نبی امیہ کے ایک پیش امام نے نماز جمعہ کا خطبہ تمام کر دیا اور حضرت علی(ع) پر ( معاذ اللہ) لعنت کرنا بھول گیا تو لوگوں نےچاروں طرف سے چلا کر کہا، تم نے سنت کو فراموش کر دیا، سننت کو بھلا دیا.... آخر یہ سنت ہی کب تھی؟ مگر افسوس معاویہ ابن ابی سفیان کی اس بدعت پر اسی(80) سال تک عمل ہوتا رہا اور آج تک اس کےآثار باقی ہیں اس کے باوجود اہلسنت معاویہ سے خوش ہیں اور اس پر تنقید کرنے کی کسی میں جرات نہیں ہے کیونکہ وہ صحابہ میں شامل ہے.الحمد للہ امت اسلام کے مخلص محققین حق کو باطل سے الگ کرنے میں لگے ہیں ان میں سے اکثر نے صحابہ والے عقدہ کو بھی سمجھ لیا ہے کہ جو معاویہ اور اس کے پیروکاروں کی ایجاد تھی. اہلسنت بھی اس تناقض سے چھٹکارا پانے لگے ہیں. جب کہ وہ تمام صحابہ سے دفاع کرتے ہیں یہاں تک کہ جو صحابہ کی تنقیص کرتا ہے وہ اس پر لعنت کرتے ہیں. اور جب آپ ان سے کہیں گے " معاویہ ابن ابی سفیان کی لعنت نبی کو بھی شامل ہے" کیونکہ معاویہ نے افضل الصحابہ پر سب وشتم کیا ہے. اور یہ سب و شتم رسول(ص) کو شامل ہوتا ہے کیونکہ رسول(ص) نے خود فرمایا ہے جس نے علی(ع) پر سب و شتم کیا اس نے مجھ پر سب و شتم کیا اور جس نے مجھ پر سب و شتم

۲۵۰

کیا اس نے خدا پر سب و شتم کیا.(1)

اس وقت ان کی زبان لڑ کھڑانے لگتی ہے، لکنت کرنے لگتی ہے اور جواب میں ایسی باتیں پیش کرتے ہیں کہ جو کسی چیز پر دلالت نہیں کرتی. اور فقط بے وقوفی اور اندھے تعصب پر مبنی ہوتی ہیں. ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہ جھوٹی باتیں شیعوں کی طرف سے گڑھی ہوئی ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ وہ رسول(ص) کے صحابی ہیں انہیں اختیار ہے جس کے لئے جو چاہیں کہیں لیکن ہم ان کی طرح نہیں ہیں کہ ہم ان پر تنقید کریں!

پروردگار تو پاک و پاکیزہ ہے. حمد تجھ ہی سے مخصوص ہے. تیرے کلام قرآن مجید نے مجھے حقائق کو سمجھنے کی توفیق عطا کی ہے. کہ جن کا سمجھنا میرے لئے دشوار اور ان پر اعتقاد رکھنا مشکل تھا اور جب بھی اس آیت کی تلاوت کرتا تھا:

( وَ لَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ‏ كَثِيراً مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لا يَفْقَهُونَ بِها وَ لَهُمْ أَعْيُنٌ لا يُبْصِرُونَ بِها وَ لَهُمْ آذانٌ لا يَسْمَعُونَ بِها أُولئِكَ كَالْأَنْعامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولئِكَ هُمُ الْغافِلُونَ ‏) اعراف، آیت/179

اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنم کے لئے پیدا کیا ہے، کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں یہ چوپایوں جیسے ہیں. بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور

____________________

1.مستدرک الحاکم جلد/3 ص121 اور حاکم نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح تسلیم کیا ہے اسی طرح ذہبی نے بھی اپنی تلخیص میں اس حدیث کو صحیح مانا ہے اور احمد ابن حنبل نے اپنی مسند کی جلد/6 ص323 پر نقل کیا ہے اور نسائی وغیرہ نے بھی اس کو صحیح مانا ہے.

۲۵۱

یہی لوگ اصل میں غافل ہیں.

مجھے بہت تعجب ہوتا تھا اور میں اپنے آپ سے کہتا تھا یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا حیوان اس انسان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے، کیا ممکن ہے کہ انسان پتھر کے سامنے جھکے اس کی پرستش کرے اور اس سے رزق طلب کرے؟ لیکن الحمد للہ میرا یہ تعجب اس وقت زائل ہوگیا جب خود میں نے ان لوگوں کو دیکھا. میں نے ہندوستان کا سفر کیا وہاں تعجب انگیز چیزیں دیکھیں وہاں میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جو انسان کے خلیوں کو پہچانتے ہیں، علم تشریح کے ماہر ہیں لیکن گائے کی پوجا کرتے ہیں اگر اس گناہ کا ارتکاب جاہل ہندو کرتے تو ان کا عذر معقول ہوتا لیکن آپ نے دیکھا کہ ان میں سے پڑھے لکھے لوگ گائے، پتھر، سمندر، چاند، سورج کی پوجا کرتے ہیں. اس کے بعد آپ قرآن مجید کے مدلول سمجھ جائیں گے اور اسے "لازمی" تسلیم کریں گےخصوصا یہ کہ بشر حیوان سے زیادہ گمراہ ہے.

صحابہ جناب ابوذر کی نطر میں

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/2 کے باب " ما ادیت زکوة فلیس بکنز" میں احنف ابن قیس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں قریش کے معزز افراد کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک گھنے بالوں والا موٹے لباس والا آیا اور ان کے سامنے ٹھہر کر سلام کیا اور کہا مال جمع کرنے والوں کو گرم پتھر کی بشارت دے دو کہ جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور ایک پستان پر لگایا جائے گا جو مونڈھے کی ہڈی توڑ کر نکل جائے گا. پھر دوسرے مونڈھے پر لگایا جائے گا جو دوسرے پستان سے نکل جائے گا. پھر وہ شخص منہ پھیر کر چلا گیا اور اسٹول پر کر بیٹھ گیا میں بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے ان کے پاس جا بیٹھا جبکہ میں اسے متعارف نہیں تھا

۲۵۲

میں نے ان سے کہا : میں نے ان لوگوں کو آپ کی باتوں سے خوش نہیں دیکھا؟ اس نے کہا وہ ناواقف ہیں مجھ سے میرے دوست نے فرمایا ہے. میں نے دریافت کیا آپ کے دوست کون ہیں؟ کہا نبی(ص) نے مجھ سے فرمایا ہے کہ: اے ابو ذر کیا تم احد کو دیکھتے ہو: ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے جو آفتاب کی طرف دیکھا تو غروب ہوچکا تھا اور مجھے رسول(ص) اپنی کسی ضرورت کے لئے بھیجنا چاہتے تھے میں نے عرض کی جی ہاں: فرمایا مجھے احد کے برابر سونے چاندی کو جمع کرنے والا دوست نہیں ہے ہاں تین دینار والا دوست ہے. جبکہ یہ لوگ اس سے بے خبر ہیں صرف دنیا کو جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں قسم خدا کی میں ان سے سے قیامت تک دنیا و دین کے بارے میں سوال کرنے والا نہیں ہوں.(1)

بخاری اپنی ( صحیح کی) جلد/7 کے باب " ا لحوض" اور قول خدا( انا اعطیناک الکوثر ) میں عطا ابن یسار اور انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ نبی(ص) نے فرمایا:

میں حوض کوثر پر کھڑا ہوں گا کہ ایک گروہ آئے گا میں انہیں پہچان لوں گا اور ایک شخص ان کے اور میرے درمیان کھڑا ہوگا اور کہے گا انہیں جانے دو. میں دریافت کروں گا کہاں؟ وہ کہے گا جہنم میں قسم خدا کی میں پوچھوں گا کہ ان کی کیا خطا ہے وہ کہے گا کہ یہ آپ(ص) کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور الٹے پیروں کفر کی طرف پلٹ گئے تھے.

اس کے بعد دوسرا گروہ آئے گا یہاں تک کہ پہچان لوں گا ایک شخص میرے اور ان کے درمیان

____________________

1.صحیح بخاری جلد/2 ص112

۲۵۳

کھڑے ہوکر کہے گا: ان کو جانے دو میں معلوم کروں گا : کہاں؟ وہ کہے گا جہنم میں، میں پوچھوں گا ان کی کیا خطا ہے؟ وہ کہے گا یہ آپ کے بعد الٹے پیروں کفر کی طرف پلٹ گئے تھے. پس میں انہیں آزاد چوپائوں کے مثل پاتا ہوں.ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ رسول(ص) سے کہا جائیگا کہ آپ(ص) نہیں جانتے انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا، بدعتیں کی ہیں. تو میں کہوں گا جس نے میرے بعد تغیر و تبدل کیا ہے خدا اسے اپنی رحمت سے دور رکھے.(1)

اسی طرح بخاری نے پانچویں جلد کے باب " غزوہ حدیبیہ" اور خدا کے اس قول کے بارے میں(لَقَدْ رَضِيَ‏ اللَّهُ‏ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ )میں علاء الدین ابن مسیب سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:میں نے برّا ابن عازب سے ملاقات کی اور کہا آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ نے نبی(ص) کی صحبت پائی اور درخت کے نیچے ان کی بیعت کی: انہوں نے کہا: بھتیجے تمہیں نہیں معلوم ہم نے رسول(ص) کے بعد کیا کیا.(2)

یہ ایک بزرگ صحابی کی عظیم گواہی ہے کہ جو انہوں نے صریح طور پر اپنے اور لوگوں کے خلاف پیش کی ہے اور ان کی یہ گواہی خداوند کے اس قول :

____________________

1.صحیح بخاری جلد/7 ص209

2.صحیح بخاری جلد/5 ص66

۲۵۴

(أَفَإِن‏ مَّاتَ‏ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى‏ أَعْقَابِكُمْ ) کی موکد ہے.

اور نبی(ص) کے اس قول کی بھی موکد ہے کہ " مجھ سے کہا گیا یہ آپ کے بعد الٹے پائوں کفر کی طرف لوٹ گئے تھے،.

برّا بن عازب جلیل القدر صحابی اور ان سابقین و اولین سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی وہ اپنے اور دوسرے صحابہ کے خلاف یہ بات اس لئے کہتے ہیں کہ ہم نے وفات نبی(ص) کے بعد بدعتیں کیں لوگ ہمارے صحابی ہونے کے فریب میں نہ آئیں اور وہ اس طرح یہ وضاحت بھی کر دیتے ہیں کہ نبی(ص) کی صحبت اور درخت کے نیچے بیعت کرنا " جس کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے" یہ دونوں چیزیں نبی(ص) کے بعد صحابہ کو گمراہ ہونے سے نہیں روک سکتیں.

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/8 کے باب " قول النبی(ص): لتتبعن سنن من کان قبلکم" میں عطا ابن یسار سے اور انہوں نے ابو سعید خدری سے اور انہوں نے نبی(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:

تم اپنے سے پہلے والوں کی بالشت بہ بالشت اور قدم بہ قدم اتباع کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ بچو کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اسی کے بل میں گھسو گے. ہم نے کہا: یا رسول اللہ(ص) کیا وہ یہود و نصاری ہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا: خواہ کوئی بھی ہو...؟!

____________________

1.صحیح بخاری جلد/8 ص151

۲۵۵

بعض صحابہ کے متعلق تاریخ کی گواہی

قرآن اور حدیث کے بعد ہمارے پاس واضح ترین شہادت تاریخ ہے. اس لئے کہ لوگوں کا رہن سہن ان کے افعال و کردار، واقعات و حادثات جب قلمبند ہوتے ہیں تو تاریخ بن جاتی ہے.

جب ہم اہلسنت کی تاریخ کی کتابوں جیسے تاریخ طبری، تاریخ کامل طبقات ابن سعد، ابوالفداء اور ابن قتیبہ وغیرہ کا مطالعہ کریں گے تو عجیب و غریب چیزیں نظر آئیں گی اور جو کچھ اہل سنت صحابہ کی عدالت اور ان پر لعنت نہ کرنے کے بارے میں کہتے ہیں اسے ضرور سمجھ لیں گے.... یہ ایسا کلام ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اسے عقل سلیم قبول کرتی ہے اور اس سے ایسے متعصب افراد اتفاق کریں گے جن کو تاریخ نے نور سے دور کر دیا ہے اور وہ محمد(ص) جو معصوم ہیں اور وحی کے علاوہ کچھ کہتے ہی نہیں ہیں، اور حق کے سوا کوئی کام انجام نہیں دیتے ہیں اور ا ن صحابہ کے درمیان فرق کرنے پر تیار نہیں ہیں کہ جن کے فسق و نفاق کی قرآن گواہی دے رہا ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ وہ رسول(ص) سے کہیں زیادہ صحابہ کا دفاع کرتے ہیں اس سلسلہ میں ایک مثال پیش کرتا ہوں.

جب کسی سے آپ یہ کہیں گے کہ " سورہ عبس و تولی" سے رسول(ص) مراد نہیں ہیں بلکہ اس سے صحابہ کبار میں سے کوئی ایک ہے جس پر خدا اس لئے غضبناک ہوا ہے کہ وہ اندھے فقیر کو دیکھ کر تکبر کرتا ہے" تو آپ دیکھیں گے کہ وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا بلکہ کہے گا کہ محمد(ص) بھی بشر تھے ان سے بھی متعدد بار غلطیاں ہوئی ہیں. اور ان کے پروردگار نے متعدد بار ان پر عتاب کیا ہے.

۲۵۶

وہ معصوم نہیں تھے. ہاں قرآن کی تبلیغ کے وقت معصوم تھے. یہ ہے رسول(ص) کے متعلق ان کا نظریہ.

اور اگر آپ یہ کہیں گے کہ عمر نے نماز تراویح کی بدعت کر کے بہت برا کیا یا خطا کی کیونکہ رسول(ص) نے لوگوں کو اس سے منع کیا تھا اور نافلہ نمازوں کو فرادی گھر پر پڑھنے کا حکم دیا تھا.

پھر ملاحظہ کیجئے گا وہ عمر ابن خطاب کا کس طرح دفاع کرتا ہے ایسی صفائی دے گا کہ جیسے مناقشہ کرنے والا قبول نہ کے اور کہے گا کہ یہ بدعت حسنہ ہے. وہ اپنی پوری طاقت و توانائی سے عمر کے لئے عذر تراشی کرے گا باوجودیکہ اس کی (تراویح کی) ممانعت کے لئے نبی(ص) کی نص موجود ہے اور جب آپ اس سے کہیں گے کہ عمر ابن خطاب نے مؤلفة القلوب کا حق غصب کر لیا تھا. کہ جس کا خدا نے قرآن مجید میں حکم دیا ہے. تو وہ کہے گا کہ سیدنا عمر سمجھ گئے تھے کہ اب اسلام قوی ہوگیا اب ہمیں ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے ان سے کہدیا ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے اور پھر وہ (عمر) تمام لوگوں سے زیادہ قرآن کو جانتے تھے! کیا آپ کے لئے یہ تعجب خیز بات نہیں ہے؟؟

اس وقت انتہا ہوگئی جب میں نے ان میں سے ایک شخص سے کہا کہ بدعت حسنہ کو چھوڑئے اور مولفہ القلوب کے واقعہ سے بھی چشم پوشی کر لیجئے لیکن آپ عمر کے لئے اس واقعہ پر کون سا عذر پیش کریں گے کہ وہ در فاطمہ(ع) پر آکر کہتے ہیں کہ یا تو نکل کر بیعت کرو ورنہ میں گھر کو جلا کر خاکستر کردوں گا؟

اس نے مجھے بے تحاشا جواب دیا کہ عمر حق پر تھے کیونکہ اگر وہ علی(ع) کے ساتھ یہ سلوک نہ کرتے تو اکثر صحابہ ان سے روگردانی کر کے علی(ع) کے ساتھ ہو جاتے اور فتنہ پیدا ہو جاتا.

۲۵۷

اس قماش کے لوگوں سے ہماری بحث بے فائدہ ہے. بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ اہل سنت کی اکثریت اسی نہج سے سوچتی ہ ے. کیونکہ حق سے نا واقف ہے اور حق کو عمر ابن خطاب ہی کے ساتھ تصور کرتی ہے. انہوں نے فائدہ توڑدیا اور حق کو لوگوں سے سمجھنے لگے جب کہ حق کے ذریعہ لوگوں کو پرکھنا چاہیئے. (قول علی(ع) ہے حق کو سمجھ لو تو اہل حق کو بھی سمجھ لوگے) پھر یہ عقیدہ ان میں اس طرح سرایت کر گیا کہ انہوں نے عمر ابن خطاب سے تجاوز کر کے تمام صحابہ کو عادل کہنا شروع کر دیا. اب کوئی کسی صحابی کو مورد طعن قرار نہیں دے سکتا. اور نہ ہی کوئی خدشہ ظاہر کرسکتا ہے. اور اس طرح ہر حق کے متلاشی انسان کے لئے سخت رکاوٹ پیدا کر دی ہے آپ دیکھیں گے کہ وہ ایک مانع سے چھٹکارا حاصل نہیں کرپاتا کہ بے شمار موانع اس کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں. ایک خطرہ سے نکلتا نہیں ہے کہ لا تعداد خطرات اس کا راستہ روک دیتے ہیں اور حق کے دامن تک کمزور و ضعیف انسان نہیں پہونچ سکتا. بلکہ وہی پہونچ سکتا ہے کہ جو صبر و شجاعت کا حامل اور صاحب عزم ہو.

جب ہم تاریخ کو دیکھتے ہیں تو بعض صحابہ کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے اور ان سے اعتبار اٹھ جاتا ہے اور ان کے وہ سیاہ کارنامے ظاہر ہو جاتے ہیں جس کو لوگوں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی گئی یا ان کے یار و مددگار اسے چھپاتے رہے یا برے حکام ایسا کرتے رہے یا ان کے مقرب ایسا کرتے رہے.

جس چیز کی طرف بادی النظر میں ذہن جاتا ہے وہ رسول(ص) کی وفات کے بعد ان کا موقف کہ کس طرح رسول(ص) کے جنازہ کو چھوڑ دیا آپ(ص) کے غسل و کفن اور دفن کے بارے میں کچھ نہ کیا بلکہ سقیفہ میں جاکر میٹنگ کرنے لگے. اور خلافت کے بارے میں جھگڑنے لگے. جبکہ وہ اس کے حقدار کو پہچانتے تھے اور نبی(ص) کے زمانہ

۲۵۸

میں ان کے ہاتھوں پر بیعت کر چکے تھے.جو چیز ہمارے لئے اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ انہوں نے علی(ع) اور بنی ہاشم کی غیبت کو غنیمت سمجھا کہ جنہوں نے اپنے اخلاقی اقدار کی وجہ سے رسول(ص) کا جنازہ نہیں چھوڑا. وہ جلدی ہی سے سقیفہ میں جا بیٹھے تا کہ قبل اس کے نبی ہاشم نبی(ص) کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہوں خلافت کا فیصلہ کر دیا جائے. اور پھر اسے قبول کرنے پر بنی ہاشم کو مجبور کیا جائے. پھر وہ کچھ نہ کرسکیں گے کیونکہ سقیفہ میں جمع ہونے والوں نے آپس میں یہ طے کر لیا تھا کہ مخالفت کرنے والے کو قتل کر دیا جائے بہانہ یہ تراشا جائے کہ وہ فتنہ پردازی اور مخالفت پر تلے ہوئے تھے.مورخین نے بہت سی عجیب و غریب چیزیں قلمبند کی ہیں کہ جو ان دنوں صحابہ سے رونما ہوئی تھیں کہ جب رسول(ص) نہیں رہے تھے. وہ لوگ رسول(ص) کے خلیفہ اور امیرالمومنین بن گئے تھے. جیسے لوگوں کو دھمکیوں اور ذد و کوب کر کے بیعت لینا، اور در سیدہ(ع) پر سب کا جمع ہونا، دروازہ آپ کے پہلو پر گرانا اور بچے کا آپ کے شکم مبارک میں شہید ہو جانا، حضرت علی(ع) کو قیدی کی طرح لے جانا، اور کہنا کہ اگر بیعت سے انکار کیا تو قتل کر دئے جائو گے، فاطمہ(ع) کی میراث اور باغ فدک اور تمام حقوق کا غصب کرنا اور ذی القربی کے حق کو ہڑپ کر لینا یہاں تک کہ فاطمہ(ع) نے انتقال فرمایا میں کہ آپ(ع) ان لوگوں سے ناراض تھیں. آپ(ع)(زہرا(ع)) ہر نماز کے بعد ان لوگوں کے لئے بد دعا کرتی تھیں، مخفیانہ طور پر آپ(ع) کو رات میں دفن کیا گیا اور صحابہ آپ کے جنازہ میں بھی شریک نہ ہوئے، جیسے ان صحابہ کا قتل کرنا کہ جنہوں نے ابوبکر کو زکوة دینے سے انکار کر دیا تھا.(1) کیونکہ وہ جانتے تھے کہ علی(ع) کو

____________________

1.تاریخ کی کتابوں میں مالک ابن نویرہ کے قتل کا قصہ مشہور ہے.

۲۵۹

خلافت سے دور رکھا گیا ہے اس لئے کے وہ غدیر خم میں نبی(ص) کی حیات میں علی(ع) کے ہاتھوں پر بیعت کرچکے تھے.جیسے ہتک حرمت، مسلمانوں کے نیک افراد کے قتل میں حدود خدا کی پامالی اور بغیر عدہ ختم ہوئے ان کی بیویوں سے زنا کرنا.(1)

جیسے احکام خدا و رسول(ص) میں رد و بدل کرنا جو قرآن و حدیث پر مبنی ہیں انہیں اپنی مصلحت کے تحت ذاتی اجتہاد سے بدل دینا.(2) جیسے ان میں سے بعض افراد کا مستقل شراب پینا اور زنا کرنا، حالانکہ وہ مسلمانوں کے ولی امر اور حاکم تھے.(3) جیسے بے گناہ ابوذر غفاری کو مدینہ رسول(ص) سے شہر بدر کرنا، چنانچہ ان کا عالم غربت میں وہیں انتقال ہوگیا اور عمار یاسر کو اتنا مارا کہ مرض فتق میں مبتلا ہوگئے اور عبداللہ ابن مسعود کو اتنا مارا کہ ان کی پسلیاں ٹوٹ گئیں، مخلص صحابہ کو عہدوں سے معزول کرنا اور ان کی جگہ نبی امیہ کے فاسق و منافق دشمن اسلام افراد کو مقرر کرنا.جیسے اہل بیت(ع) کہ جن سے خدا نے ہر رجس کو دور رکھا اور اس طرح پاک رکھا جو حق ہے" پر لعنت کرنا اور نیک صحابہ میں سے ان کو شیعوں اور دوستوں کو قتل کرنا.(4)

____________________

1. جیسا کہ خالد ابن ولید نے مالک ابن نویرہ کی زوجہ لیلی سے اس کے شوہر کے قتل کے بعد زنا کیا.

2. جیسے جناب فاطمہ(ع) کو میراث سے محروم کیا، ذوی القربی کا حق غصب کیا، مولفة ا لقلوب کا حق ہڑپ کیا اور متعہ نساء و متعہ حج کو حرام قرار دیدیا.

3. مغیرہ ابن شعبہ کا قصہ کہ اس نے ام جمیل سے زنا کیا. 4. جیسے معاویہ نے حجر ابن عدی.. ایسے جلیل القدر صحابی اور ان کے دوستوں کو قتل کیا ان کی صرف یہ خطا تھی کہ انہوں نے علی ابن ابی طالب(ع) پر لعنت نہیں کی تھی.

۲۶۰