اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 291
مشاہدے: 35272
ڈاؤنلوڈ: 4305


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35272 / ڈاؤنلوڈ: 4305
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردے.اور رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے کہ:

حق بات کہو اگرچہ وہ تمہارے خلاف ہی ہو.نیز فرمایا: حق کہو خواہ وہ تلخ ہی ہو...

میرے عزیز محترم میں آپ کو کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ انہیں صاف صاف بیان کیجئے اگرچہ تلخ ہی ہو. یہ بات خدا کے نزدیک آپ کے لئے شاہد ہوگی اپنے پروردگار کی قسم کھا کے بتائیے کیا شیعہ آپ کے نزدیک مسلمان نہیں ہیں؟

کیا آپ کا یہ عقیدہ حق ہے کہ وہ کافر ہیں؟ کیا اہلبیت(ع) نبوی(ص) کے اتباع کرنے والے کہ جنہوں نے خدا کی وحدانیت و عظمت کے سلسلہ میں تمام فرقوں سے زیادہ کام کیا ہے. ان کا کہنا ہے کہ خدا مشابہت و ہم شکل ہونے اور جسمانیت سے پاک ہے، وہ اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور دوسرے فرقوں سے زیادہ ان کی عظمت کے قائل ہیں. ان کا قول ہے کہ نبی(ص) بعثت سے قبل بھی مطلق طور پر معصوم تھے. کیا آپ انہیں کافر کہتے ہیں؟

کیا جو لوگ خدا و رسول(ص) اور مومنوں سے دوستی رکھتے ہیں جو عترت نبی(ص) کو دوست رکھتے ہیں جیسا کہ ابن منظور نے لسان العرب میں مادۃ شیعہ کے ذیل میں تحریر کیا ہے، کیا ان کو آپ غیر مسلمان کہتے ہیں؟

کیا وہ شیعہ جو بہترین طریقے سے نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں مزید خدا و رسول(ص) کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے اموال سے خمس نکالتے ہیں اور رمضان و دیگر ایام کے روزے رکھتے ہیں خانہ خدا کا حج بجالاتے ہیں

۲۱

اور شعائر اللہ کی تعظیم کرتے ہیں اور اولیائے خدا کا احترام کرتے ہیں، دشمنان خدا اور اسلام دشمن طاقتوں سے اظہار برائت کرتے ہیں، کیا وہ آپ کے نزدیک مشرک ہیں.

کیا وہ لوگ جو اہلبیت(ع) میں سے ان بارہ(12) اماموں کی امامت کے قائم ہیں جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا ہے اور اس طرح پاک کیا جو کہ حق ہے اور ان کی امامت پر رسول(ص) نے نص فرمائی ہے جیسا کہ اہلسنت علماء مثلا بخاری و مسلم وغیرہ نے اپنی صحاح میں تحریر کیا ہے. وہ آپ کے نظریہ کے مطابق دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے ہیں؟؟

کیا وہ لوگ مسلمان ہیں جو حیات نبی(ص) میں اور بعد نبی(ص) کسی روز بھی امامت سے متعارف نہیں تھے. اور اس نظریہ کو فارس (ایران) و مجوس کا نظریہ کہتے ہیں؟

کیا آپ اس وقت اس شخص کو کافر قرار دیتے ہیں جو یزید ابن معاویہ کو امام مانتا ہے کہ جس کے فسق کو ہر خاص و عام مسلمان جانتا ہے؟ اور یزید کی خست و ذلالت کے لئے تو یہی چیز کافی ہے کہ جس پر مسلمانوں کا اجماع بھی ہے کہ یزید نے بیعت لینے کے لئے، مدینہ منورہ کو اپنے لشکر کے لئے مباح کر دیا تھا. وہ جو چاہے کرے. پس اس کے فوجیوں نے ہزاروں بہترین صحابہ اور تابعین کو قتل کیا اور بے شمار عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ بالجبر زنا کیا جن سے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کو خدا ہی جانتا ہے. اس(یزید لع) کے لئے تو رہتی دنیا تک یہی رسوائی اور ذلت کافی ہے کہ اس نے جوانانِ جنت کے سردار کو قتل کیا اور رسول(ص) کی بیٹیوں کو بے پردہ کیا، امام حسین علیہ السلام کے دندان مبارک کو چھڑی لگائی اور مشہور اشعار میں اس کی مثال دی.

۲۲

اے کاش بدر میں شہید ہونے والے میرے بزرگ ہوتے تو دیکھتے،، یہاں تک کہ اس نے کیا: یہ تو بنی ہاشم کا بادشاہ بننے کے لئے ڈھونگ تھا، ورنہ نہ کوئی فرشتہ آیا اور نہ وحی نازل ہوئی.

اس کے ان اشعار سے صاف طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ کی نبوت اور قرآن مجید پر ایمان نہیں رکھتا تھا. کیا یہ حق ہے کہ جو یزیدلع اور اس کے باپ معاویہ پر لعنت کرے آپ اسے کافر قرار دیں؟ جو علی علیہ السلام پر لعنت کرتا تھا اور لعنت کرنے کا حکم دیتا تھا بلکہ صحابہ میں سے جو لعنت کرنے سے انکار کرتا تھا اسے تہ تیغ کر دیتا تھا جیسا کہ حجر ابن عدی کندی اور ان کے ساتھیوں کو قتل کیا. اس لعنت کے سلسلہ کو ایک سنت بنادیا کہ جو ستر(70) سال تک جاری رہی جبکہ وہ ( معاویہ) رسول(ص) کے اس قول سے واقف تھا:

"جس نے علی(ع) پر لعنت کی اس نے میرے اوپر لعنت کی اور جس نے میرے اوپر لعنت کی اس نے خدا کو برا کہا"

جیسا کہ اہلسنت کی صحاح میں یہ چیزیں بیان ہوئی ہیں. اس کے علاوہ اس کے بہت سے ایسے افعال ہیں جو اسلام کے منافی ہیں. اس نے اپنے بیٹے یزید کی بیعت لینے کے لئے بہت سے نیکوکار لوگوں کو قتل کیا. اور جعدہ بنت اشعث کے ذریعہ حسن ابن علی علیہما السلام کو قتل کرایا اس کے علاوہ اس کے اور بہت سے جرائم ہیں جنہیں اہلسنت کی تاریخ نے ذکر کیا ہے جیسا کہ شیعیان علی علیہ السلام نے اس کی شہادت دی ہے.

محترم میں آپ کے بارے میں یہ خیال نہیں کرتا ہوں کہ آپ

۲۳

ان تمام چیزوں سے متفق ہوں گے ورنہ اسلام پر سلام، اور دنیا پر خاک، کیونکہ اس کے بعد نہ دنیا میں کوئی پیمانہ ہے نہ عقل ہے نہ شرع ہے نہ کوئی منطق ہے نہ کوئی دلیل ہے. خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ‏ الصَّادِقِينَ )

ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہو جائو.

قسم خدا کی پاکستان کے عالم ابو الاعلی مودودی رحمتہ اللہ نے اپنی کتاب خلافت و ملوکیت کے ص106 پر ابوالحسن بصری سے نقل کیا ہے کہ:

قسم خدا کی معاویہ میں چار خصلتیں ایسی تھیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی ہوتی تو وہی اس کی ہلاکت کے لئے کافی تھی.

مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر خلیفہ بن بیٹھا جبکہ ان میں صحابہ اور با فضلیت افراد موجود تھے.

اپنے بعد اپنے بیٹے کو خلیفہ بنادیا جو شراب خوار حریر پوش اور طنبور بجاتا تھا.

زیاد کو اپنا بھائی بنایا، جبکہ رسول(ص) کا قول ہے کہ: بچہ صاحب فراش کا ہے اور زناکار کے لئے پتھر ہے.

اس کا، حجر اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرنا پس حجر اور ان کے اصحاب کےسلسلہ میں معاویہ پر ویل ہو( اس جملہ

۲۴

کو تین مرتبہ دہرایا)

خدا ابو الاعلی مودودی پر رحم کرے کہ انہوں نے حق کا اظہار کیا اور اگر وہ چاہے تو ان خصلتوں سے زیادہ اس کی چالیس خصلتیں گنواتے لیکن مرحوم نے معاویہ کی ہلاکت کے لئے ان چار ہی کو کافی سمجھا.

شاید مودودی صاحب نے ان لوگوں کے جذبات کا خیال رکھا جو معاویہ کی تقدیس و احترام اور اسے رضی اللہ عنہ، کہنا سیکھتے ہیں بلکہ اس کے بیٹے یزید کو بھی اسی زمرہ میں شامل کر لیتے ہیں جیسا کہ خود میں نے علماء ہند سے سنا ہے."لا حول‏ و لا قوة الا بالله العلى العظيم"

اور انہیں باتوں کے تحت میں نے بھی ان لوگوں کے جذبات کا خیال رکھا تھا جنہوں نے مجھے رسوا کرنے کے لئے دعوت دی تھی ان میں سے میں نے ایک بات بھی بیان نہیں کی تھی کیونکہ مجھے اپنا ڈر تھا.

محترم میری آپ سے گذارش ہے کہ آپ واضح موقف کو اختیار کریں اور اس سے خدا کی رضا کو حاصل کریں بیشک خدا حق کے بارے میں ذرا بھی شرم نہیں کرتا، میں آپ سے یہ نہیں چاہتا کہ آپ ان کی برابری کے قائل ہوجائیں اور نہ ہی ان کی برائیوں سے پردہ ہٹانے کے لئے کہتا ہوں اس سلسلہ میں ہمارے اور آپ کے لئے تاریخ کافی ہے لیکن یہ ضرور چاہتا ہوں کہ آپ خود اعتراف کریں اور اپنے پیروں کو یہ بتائیں کہ جو ان ( معاویہ و یزید وغیرہ) کی امامت کے قائل نہیں ہیں اور ان سے محبت نہیں رکھتے وہی سچے اور حقیقی مسلمان ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ یہ کہیں کہ شیعہ ہمیشہ مظلوم رہے ہیں کیونکہ انہوں نے کبھی شجرۃ ملعونہ کی امامت کا اعتراف نہیں کیا ہے جس کی مثال خداوند کریم نے

۲۵

قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے.

آپ قسم کھا کے بتائیں کہ شیعوں کی کیا خطا ہے. رسول(ص) خود اپنے بعد اپنے اہلبیت(ع) کے اتباع کا حکم دیتے ہیں یہاں تک کہ انہیں سفینہ نوح سے تشبیہ دی جو اس پر سوار ہوا وہ نجات پائے گا اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ ہلاک ہوگا. شیعوں کی کیا خطا ہے جبکہ وہ رسول(ص) کے اس حکم کا اتباع کرتے ہیں:

میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں کتاب خدا اور میری عترت، جب تک ان سے وابستہ رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے.

اور اس بات کو گواہیاں تو اہلسنت کتابوں میں بھی ہیں چہ جائیکہ شیعہ کی کتابیں.

لیکن رسول(ص) کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے ان کے شکر گزار ہوئے، انہیں دوسروں پر مقدم کرنے اور فضیلت دینے کے بجائے ان پر سب وشتم کرتے ہیں انہیں کافر کہتے ہیں ان سے بیزاری اختیار کرتے ہیں، یہ تو انصاف نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات معقول ہے.

محترم ہمیں ان خرافات اور رکیک باتوں کو چھوڑ دینا چاہئے جو کسی دلیل و برہان پر استوار نہیں ہیں اور انہیں اپنی امت کے نوجوانوں پر تحمیل نہ کریں کہ شیعوں کا ایک خاص قرآن ہے یا شیعہ تو علی(ع) کو صاحب شریعت کہتے ہیں یا عبداللہ ابن سبا مذہب تشیع کا موسس ہے. اس کے علاوہ اور واہیات قسم کے اقوال ہیں کہ جن کے بارے میں خدا گواہ ہے کہ دشمنان اسلام اور عدو اہلبیت(ع) کا پروپیگنڈہ ہے جو انہوں نے اندھے تعصب اور جہالت کی بنا پر گڑھ دیا ہے

۲۶

محترم میں یہ سوال کرتا ہوں کہ ہندوستان کے علماء کو جامعہ اظہر کے علماء سے کیا نسبت ہے کہ جنہوں نے مذہب شیعہ امامیہ کو قبول کرنے کا تیس سال قبل فتوی دیا تھا اور جامعہ اظہر ہی کے علمائے اعلام کا یہ بھی نظریہ ہے کہ فقہ جعفری کہ جس پر شیعہ عمل کرتے ہیں وہ ان تمام مذاہب اسلامی سے زیادہ روح اسلام سے قریب ہے کہ جو اس کی فرع ہیں اور ان علما کے راس و رئیس شیخ محمود سلتوت رحمتہ اللہ ہیں، پس کیا وہ علمائے اسلام اور مسلمانوں کو نہیں پہچانتے تھے؟ یا ہندوستان کے علما ان سے اعلم و اعرف ہیں. میں نہیں سمجھتا کہ آپ بھی اسی کے قائل ہوں گے...!

محترم! آنکھیں آپ پر لگی ہیں آپ کی محبت و شفقت کے لئے میرا قلب کھلا ہوا ہے، یقینا گذشتہ زمانہ میں میں بھی آپ کی طرح حقیقف سے بے خبر اور اہلبیت(ع) اور ان کے شیعوں سے ناواقف تھا. پس خدا نے اس حق کی طرف میری راہنمائی کی کہ جس کے علاوہ گمراہی و ضلالت ہے میں تعصب کی بندشوں اور اندھی تقلید سے آزاد ہوگیا ہوں اور مجھ پر بات آشکار ہوگئی ہے کہ زیادہ تر مسلمان ابھی تک باطل اور پروپیگنڈے کے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں اور ان کو حقیقت تک پہونچنے نہیں دیا جاتا کہ کہیں سفینہ نجات پر سوار نہ ہو جائیں اور خدا کی رسی کو پکڑ نہ لیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ شیعہ و سنی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس اختلاف کے جو خلافت کے سلسلہ میں بعد رسول(ص) رونما ہوا. اس اختلاف کی بنیاد تمہارا صحابہ پر اعتقاد ہے جب کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں آپس میں اختلاف تھا یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے. لڑتے تھے اور بعض بعض کو قتل کرتے تھے.

پس اگر شیعوں کا اختلاف انہیں دین سے خارج کردیتا ہے

۲۷

تو العیاذ باللہ صحابہ اس تہمت کے زیادہ مستحق ہیں میں نہیں سمجھتا کہ آپ اس کو برداشت کرسکیں گے، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اس سلسلہ میں یہ بھی نہ کہیں کہ وہ دین سے خارج ہیں، اہلبیت(ع) کے تقدس و احترام کے سلسلے میں جو شیعوں کا نظریہ ہے وہی صحابہ کے تقدس و احترام کے سلسلہ ہیں اہلسنت کا نظریہ ہے پس دونوں موقفوں میں کتنا بعد ہے، اگر اس نظریہ میں شیعہ خطا پر ہیں تو اہلسنت بدرجہ اولی خطا کار ہیں. کیونکہ تمام صحابہ اہلبیت(ع) کو اپنے نفسوں پر مقدم کرتے تھے اور ان پر بلکل اسی طرح درود بھیتے تھا جس طرح نبی(ص) پر بھیجتے تھے، ہمیں کسی ایک صحابی کے بارے میں بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ اس نے نفس کو اہلبیت مصطفی(ص) پر مقدم کیا ہو یا علم و عمل کے لحاظ سے خود کو ان پر فضیلت دی ہو.

پس اب وہ وقت آن پہونچا ہے کہ شیعیان اہلبیت(ع) سے تاریخی تاریکی کو ہٹایا جائے ان سے قربت و بھائی چارگی قائم کی جائے نیک اور اچھے کاموں میں تعاون کیا جائے، اس امت کے لئے ویسے ہی خونریزی اور فتنہ انگیزی کیا کم ہے.

عنقریب خدا آپ کو ایک کلمہ پر جمع کردے گا ، اور آپ کے ذریعہ افتراق کو ختم کردے گا اور آپ کے سبب علیحدگی و سنگدلی کو دور کردے گا. آپ کے باعث اس زخم کا مداوا کرے گا، آپ کے توسط سے اس فتنہ کی آگ کو خاموش کرے گا، آپ ہی کے وسیلہ سے شیطان اور اس کے گروہ کو رسوا کرے گا. اور آپ خدا کے نزدیک کامیاب ہوجائیں گے. خصوصا آپ تو اہلبیت(ع) کی اولاد سے ہیں جیسا کہ میں نے سنا ہے لہذا ایسے اعمال بجالائے کہ جن کے سبب آپ ان(اہلبیت(ع)) کے ساتھ محشور ہوسکیں

۲۸

"اور یہ تمہاری امت ایک ہی ہے میں تمہارا رب ہوں پس میری عبادت کرو" " اور کہدیجیئے کہ (نیک) عمل بجالائو کیونکہ خدا، اس کا رسول(ص) اورمومنین تمہارے اعمال کو دیکھتے ہیں" اور خدا ہمیں اور آپ کو توفیق مرحمت فرمائے اسی میں لوگوں اور شہروں کی فلاح ہے، خداوند عالم ہمیں اور آپ کو اپنے مخلص بندوں میں شمار فرمائے.

اس خط کے ہمراہ آپ کی خدمت میں اپنی کتاب " ثم اھتدیت" کا ایک نسخہ بھی ارسال کررہا ہوں، یہ کتاب میں نے اسی موضوع پر تالیف کی ہے میری طرف سے یہ ہدیہ ہے امید ہے کہ قبول فرمائیں گے.

وَ السَّلَامُ‏ عَلَيْكُمْ‏ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ.

مخلص محمد تیجانی السماوی، تیونسی

۲۹

. پوچھ لو

آیہ فاسئلوا اہل الذکر مسلمانوں کو ہر مشکل کام میں اہل ذکر کی طرف رجوع کرنے کا حکم دے رہی ہے تاکہ وہ راہ راست سے اگاہ ہوجائیں. کیونکہ خداوند عالم نے انہیں تعلیم دینے کے بعد اس کام کے لئے منتخب کیا ہے یہی راسخون فی العلم ہیں اور یہی قرآن کی تاویل سے واقف ہیں.

یہ آیت اہلبیت(ع) یعنی محمد(ص) و علی(ع) و فاطمہ(س) و حسن(ع) و حسین(ع) کے تعارف کے لئے نازل ہوئی ہے. عہد نبی(ص) کے علاوہ قیام قیامت تک پنچتن پاک، اصحاب کساء میں سے حسین علیہ السلام کی نسل سے تو ائمہ ہوں گے کہ جن کو رسول(ص) نے معین کیا ہے. اور مناسب موقعوں پر ان کا تذکرہ بھی کیا ہے اور انہیں ائمہ ہدی، مصابیح الدجی، اہل ذکر، راسخون فی العلم کے القاب سے نوازا ہے.

یہ روایات عہد نبی(ص) ہی سے شیعوں کے نزدیک متواتر اور صحیح

۳۰

ہیں. اہل سنت کے بعض علماء و مفسرین نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے اور اس آیت کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ یہ آیت اہلبیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ان میں سے بعض علماء کے اسماء یہاں مثال کے طور پر پیش کر رہا ہوں.

1.امام ثعلبی نے تفسیر کبیر میں سورہ نحل کی اسی آیت کے معنی کے ذیل میں.

2.ابن کثیر نے تفسیر القرآن کی جلد، 2، ص570 - 3.تفسیر طبری میں، جلد14، ص109

4.تفسیر آلوسی المسمی بہ روح المعانی جلد 14 ص134 - 5.تفسیر قرطبی جلد11 ص272

6. تفسیر حاکم المسمی بہ شواہد التنزیل جلد 1ص334 - 7. تفسیر تستری المسمی بہ احقاق الحق جلد3 ص482 - 8. قندوزی حنفی کی ینابیع المودة، ص51و 140

اگر آیت کے ظاہری معنی سے اہل کتاب" یہود و نصاری" مراد ہیں تو اس کے لئے ہم اس بات کو وضاحت کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس آیت سے مراد یہود و نصاری نہیں ہیں.

اوّلا: اس لئے کہ قرآن نے متعدد آیات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہود و نصاری نے خدا کے کلام میں تحریف کی اور اپنے ہاتھوں سے لکھ کر کہہ دیا کہ یہ خدا کی کتاب ہے تاکہ اس سے کچھ قیمت حاصل کرسکیں(قرآن) ان لوگوں کے بارے میں کذب اور ان کے ہاتھوں سے کلام خدا میں تحریف کی گواہی دے رہا ہے. یہ بات معقول نہیں ہے کہ قرآن ان کی اس حرکت کے باوجود ان سے رجوع کرنے کا حکم دے اور کہے کہ جو مسائل تم نہیں جانتے وہ یہود و نصاری سے پوچھ لو.

۳۱

ثانیا:بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الشہادت کے باب" لایسئل اہل الشرک" کی جلد 3 ص163 پر ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ: اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ انہیں جھٹلائو، یہ کہو ہم تو اللہ اور اس کے نازل کئے ہوئے پر ایمان لاچکے ہیں. آیت"

اس آیت سے یہود و نصاری کو چھوڑنا اور ان سے رجوع نہ کرنا آشکار ہے، کیونکہ عدم تصدیق و تکذیب دونوں ہی اس سوال کی نفی کررہے ہیں. کہ جس کا صحیح جواب طلب کیا جاتا ہے.

ثالثا: بخاری نے اپنی صحیح کی جلد8، ص208 : کتاب التوحید اللہ تعالی کے قول" کل یوم ھو فی شان،، کے باب میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ:

انہوں نے کہا مسلمانو! تم اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں کیسے سوال کرتے ہو. جبکہ تمہاری کتاب وہ ہے جسے خدا نے اپنے نبی(ص) پر نازل کیا اور جو صرف اللہ کی طرف سے خبر دیتی ہے، وہ کوئی قصیدہ نہیں ہے. اور خدا تمہیں آگاہ کرچکا ہے کہ اہل کتاب. یہود و نصاری،، نے کتاب خدا میں تحریف کردی اور پھر اپنے ہاتھوں سے لکھ کر کہنے لگے(یہ) خدا کی کتاب ہے. تاکہ اس سے کچھ نفع حاصل کرسکیں. یا تمہیں اس چیز کے بارے میں ان سے سوال کرنے کو منع کیا ہے کہ جس کا تمہیں علم نہ ہو. خدا کی قسم ہم نے ان میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ تم سے

اس چیز کے بارے میں سوال کرے جو تم پر نازل ہوئی ہے.

۳۲

رابعا: اگر آج ہم اہل کتاب " نصاری" سے سوال کریں تو وہ کہتے ہیں کہ عیسی خدا ہیں. اور یہود انہیں جھٹلاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ عیسی کو نبی بھی نہیں مانتے ہیں. اور یہود و نصاری دونوں نبی(ص) اور اسلام کا انکار کرتے ہیں. اور کہتے ہیں: -محمد(ص)- بہت بڑے جھوٹے اور دجال ہیں. معاذ اللہ- کیا اس کے باوجود ہم آیت کا یہ مفہوم نکال سکتے ہیں کہ خدا نے ہمیں ان سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے- ناممکن ہے- اور جب ظاہر آیت سے اہل کتاب " یہود و نصاری" کا اہل ذکر ہونا سمجھ میں آتا ہے تو اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی ہے کہ یہ آیت اہلبیت نبی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے. جیسا کہ شیعوں اور سنیوں کے نزدیک صحیح حدیثوں سے ثابت ہے. اور اسی سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ خداوند متعال نے ان ہی کو اس کتاب کے علم کا وارث ہے -کہ جس میں کسی قسم کی تفریط نہیں ہے.- بنایا ہے. اور اپنے بندوں میں سے انہیں اس لئے منتخب کیا ہے تاکہ لوگ تفسیر و تاویل قرآن کے بارے میں ان سے رجوع کریں اور جب وہ خدا و رسول(ص) کی اطاعت کریں گے تو ان کی ہدایت کی ضمانت بھی ہوگی.

خداوند عالم چاہتا تھا کہ تمام لوگوں کو اپنے برگزیدہ اور عالم کتاب افراد کا مطیع و فرمانبردار بنا دے تاکہ قیادت اور دنیا کے نظم و نسق کا مسئلہ حل ہوجائے پس اگر وہ لوگوں کے درمیان نہ رہیں گے تو ہر ایک پر ہوس طاری ہوجائے گی، لوگوں کے امور میں بد نظمی پیدا ہوجائے گی اور ہر ایک کے لئے اعلمیت کا دعوی کرنا ممکن ہوگا.

اس بات سے مطمئن ہوجانے کے بعد اہل ذکر سے مراد اہلبیت(ع)

۳۳

ہیں، اس پر دلیل قائم کروں گا کہ اہل ذکر سے مراد اہلبیت(ع) ہی ہیں- عنقریب میں ایسے سوالات پیش کروں گا کہ اہل سنت کے پاس جن کا جواب نہیں ہے یا اگر جواب ہے، تو اس سے جان بوجھ کر پہلو تہی اختیار کرتے ہیں اور ایسی دلیل پیش کرتے ہیں جسے کوئی محقق قبول نہ کرسکے- ان سوالات کے حقیقی جوابات ائمہ اطہار(ع) ہی کے پاس ہیں کہ جنہوں نے دنیا کو علم و معرفت اور صالح عمل سے مالا مال کیا ہے.

۳۴

پہلی فصل

اللہ سے متعلق

پہلا سوال:

رئویت خدا اور اس کے مجسم ہونے کے بارے میں؟

خداوند عالم اپنی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے:

( لا تُدْرِكُهُ‏ الْأَبْصارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ ) انعام/103

آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتیں.

( ليس‏ كمثله‏ شئ ‏) شوری/11

اس کے مثل کے شئی نہیں ہے.

اور جب جناب موسی نے دیدار کی خواہش کی تو فرمایا:

( لَنْ‏ تَرَانِي ‏) اعراف/143

تم مجھے کبھی نہیں دیکھ سکتے

۳۵

پس تم ان حدیثوں کو کیسے قبول کرتے ہو جو صحیح بخاری اور مسلم میں منقول ہیں کہ خداوند عالم اپنی مخلوق کے سامنے جلوہ افروز ہوگا، اور لوگ اسے چودہویں کے چاند کی طرح سے دیکھیں گے.(1) اور ہر شب جمعہ کو آسمان دنیا پر اترتا ہے.(2) جہنم میں اپنا پیر ڈال دے گا اور وہ بھرجائے گا.(3) وہ اپنی پنڈلی کھول دے گا تاکہ مومنین پہچان لیں.(4) وہ ہنستا ہے اور حیرت میں پڑ جاتا ہے.(5) ان کے علاوہ اور بہت سی روایات ہیں کہ جن سے خدا کا مجسم اور متحرک ہونا ثابت ہوتا ہے- مثلا- اس کے دو ہاتھ اور دو پیئر ہیں، پانچ انگلیاں ہیں، پہلی انگلی آسمانوں پر، دوسری زمینوں پر، تیسری درختوں پر چوتھی پانی اور ثری پر، اور پانچویں تمام مخلوقات پر رکھے ہوئے ہے.(6) وہ اپنے گھر میں قیام پذیر ہے. محمد(ص) تین مرتبہ اس کے پاس پہونچنے کے لئے اجازت طلب کرتے ہیں. خداوند متعال اس سے بزرگ و برتر ہے- پروردگار تو توصیف کرنے والوں کی توصیف سے پاک و پاکیزہ ہے.- ائمہ ہدی، مصابیح الدجی کے پاس ان تمام باتوں کا جواب یہ ہے کہ خداوند عالم ہم شکل وہم جنس، صورت و جسم اور شبیہہ و حد بندی سے پاک ہے. حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

____________________

1.صحیح بخاری ج7، ص205، صحیح مسلم ج1، ص112

2. صحیح بخاری ج2، ص47

3.صحیح بخاری ج8، ص178و ص187

4.صحیح بخاری ج8، ص182. صحیح مسلم ج1، ص115

5. صحیح بخاری ج6، ص33

6. صحیح بخاری ج8، ص183 صحیح مسلم ج1،ص124

۳۶

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَا يَبْلُغُ‏ مِدْحَتَهُ‏ الْقَائِلُونَ‏ وَ لَا يُحْصِي نِعَمَهُ الْعَادُّونَ وَ لَا يُؤَدِّي حَقَّهُ الْمُجْتَهِدُونَ الَّذِي لَا يُدْرِكُهُ بُعْدُ الْهِمَمِ وَ لَا يَنَالُهُ غَوْصُ الْفِطَنِ الَّذِي لَيْسَ لِصِفَتِهِ حَدٌّ مَحْدُودٌ وَ لَا نَعْتٌ مَوْجُودٌ وَ لَا وَقْتٌ مَعْدُودٌ وَ لَا أَجَلٌ مَمْدُودٌ فَطَرَ الْخَلَائِقَ بِقُدْرَتِهِ وَ نَشَرَ الرِّيَاحَ بِرَحْمَتِهِ وَ وَتَّدَ بِالصُّخُورِ مَيَدَانَ أَرْضِهِ أَوَّلُ الدِّينِ مَعْرِفَتُهُ وَ كَمَالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْدِيقُ بِهِ وَ كَمَالُ التَّصْدِيقِ بِهِ تَوْحِيدُهُ وَ كَمَالُ تَوْحِيدِهِ الْإِخْلَاصُ لَهُ وَ كَمَالُ الْإِخْلَاصِ لَهُ نَفْيُ الصِّفَاتِ عَنْهُ لِشَهَادَةِ كُلِّ صِفَةٍ أَنَّهَا غَيْرُ الْمَوْصُوفِ وَ شَهَادَةِ كُلِّ مَوْصُوفٍ أَنَّهُ غَيْرُ الصِّفَةِ فَمَنْ وَصَفَ اللَّهَ سُبْحَانَهُ فَقَدْ قَرَنَهُ وَ مَنْ قَرَنَهُ فَقَدْ ثَنَّاهُ وَ مَنْ ثَنَّاهُ فَقَدْ جَزَّأَهُ وَ مَنْ جَزَّأَهُ فَقَدْ جَهِلَهُ وَ مَنْ أَشَارَ إِلَيْهِ فَقَدْ حَدَّهُ وَ مَنْ حَدَّهُ فَقَدْ عَدَّهُ وَ مَنْ قَالَ فِيمَ فَقَدْ ضَمَّنَهُ وَ مَنْ قَالَ عَلَامَ فَقَدْ أَخْلَى مِنْهُ كَائِنٌ لَا عَنْ حَدَثٍ مَوْجُودٌ لَا عَنْ عَدَمٍ مَعَ كُلِّ شَيْ‏ءٍ لَا بِمُقَارَنَةٍ وَ غَيْرُ كُلِّ شَيْ‏ءٍ لَا بِمُزَايَلَةٍ فَاعِلٌ لَا بِمَعْنَى الْحَرَكَاتِ وَ الْآلَةِ بَصِيرٌ إِذْ لَا مَنْظُورَ إِلَيْهِ مِنْ خَلْقِهِ.(1)

تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے، جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں، جس کی نعمتوں کو گننے والے گن نہیں سکتے، نہ کوشش کرنے والے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں، نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں نہ عقل و فہم

____________________

1.نہج البلاغہ شرح محمد عبدہ ج1، خطبہ اوّل

۳۷

کی گہرائیاں اس کی تہ تک پہونچ سکتی ہیں. اس کے کمال ذات کی کوئی حد معین نہیں. نہ اس کے لئے توصیفی الفاظ ہیں نہ اس( کی ابتدا) کے لئے کوئی وقت ہے، جسے شمار میں لایا جاسکے، نہ اس کی کوئی مدت ہے جو کہیں پرختم ہو جائے.

بس جس نے ذات الہی کے علاوہ صفات مانے، اس نے اس کی ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا اس نے دوائی پیدا کی جس نے دوئی پیدا کی. اس نے اس کے لئے جز بنا ڈالا اور جو اس کے لئے اجزائ کا قائل ہو وہ اس سے بے خبر رہا. اور جو اس سے بے خبر رہا اس نے اسے قابل اشارہ سمجھ لیا اور جس نے اسے قابل اشارہ سمجھ لیا اس نے اس کی حد بندی کردی اور جس نے اسے محدود سمجھا وہ اسے دوسری چیزوں ہی کی قطار میں لے آیا، جس نے یہ کہا کہ وہ کس چیز میں ہے اس نے اسے کسی شئی کے ضمن میں فرض کر لیا، اور جس نے یہ کہا کہ وہ کسی چیز پر ہے. اس نے اور جگہیں اس سے خالی سمجھ لیں. وہ ہے، ہوا نہیں، موجود ہے، مگر عدم سے وجود میں نہیں آیا. وہ ہر شئی کے ساتھ ہے، نہ جسمانی اتصال کی طرح، وہ ہر چیز سے علیحدہ ہے، نہ جسمانی دوری کے طور پر، وہ فاعل ہے. لیکن حرکات و آلات کا محتاج نہیں

۳۸

وہ اس وقت بھی دیکھنے والا نہیں تھا، جب مخلوقات میں کوئی چیز دکھائی دینے والی نہ تھی.

میں نے جوان محققین کی توجہ اس خزانہ کی طرف مبذول کرائی ہے جو حضرت علی علیہ السلام نے چھوڑا ہے. جو کچھ نہج البلاغہ میں جمع کیا ہے وہ بہترین کتاب ہے. اس سے بلند کتاب صرف قرآن مجید ہے. مگر افسوس! کہ لوگ امویوں اور عباسیوں کے پروپیگنڈوں سے اور دہشتگردی اور حضرت علی علیہ السلام سے محبت رکھنے والوں کو قید خانہ میں ڈالدینے کی وجہ سے اس خزانہ سے بے خبر رہے ہیں.

اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ : نہج البلاغہ میں ایسے بے شمار علوم و معارف موجود ہیں کہ جن کی ضرورت ہر زمانہ کے افراد کو رہی ہے. فلسفہ،سلوک، اور سیاسیات و حکمت کے علاوہ نہج البلاغہ میں علم اخلاق، علم اجتماع(سماجیات) علم اقتصاد اورخلا و فضا کے علم اور ٹیکنالوجی کی طرف قیمتی اشارے موجود ہیں.

۳۹

تعلیق

دونوں عقیدوں میں واضح فرق ہے

اہل سنت والجماعت کا عقیدہ خدا کو اس طرح شکل و صورت والا مجسم بناکر پیش کرتا ہے جو دیکھا جاسکے، گویا وہ ایک انسان ہے جو چلتا ہے، اترتا ہے، مکان میں رہتا ہے، اس کے علاوہ اور بہت سی مکروہ باتیں ہیں کہ جن سے خداوند عالم بری ہے.شیعوں کا عقیدہ ہے کہ خدا ہم شکل، ہم جنس اور جسم سے پاک ہے. شیعہ کہتے ہیں کہ دینا و آخرت میں خدا کا دیدار محال ہے. اور خود میرا عقیدہ ہے کہ جن روایات سے اہل سنت خدا کی رئویت پر استدلال کرتے ہیں وہ سب صحابہ کے زمانہ میں یہودیوں نے گڑھی تھیں، کیونکہ کعب الاحبار جو"یہودی" جو عمر بن خطاب کے زمانہ میں مسلمان ہوا اور اس نے یہودی معتقدات کو بعض ضعیف العقل راویوں مثل ابوہریرہ اور وہب بن منبہ کے ذریعہ اسلام میں داخل کردیا. اور بخاری و مسلم میں زیادہ تر روایتیں ابوہریرہ سے مروی ہیں اور گذشتہ بحث میں یہ بیان گذر چکا ہے کہ ابوہریرہ، احادیث نبوی اور کعب الاحبار کی حدیثوں میں تمیز نہیں کر پاتے تھے. یہاں تک کہ ایک مرتبہ خطاب نے اسے اس بات پر مارا اور اس یہ حدیث نقل کرنے سے منع کیا کہ خدا نے زمین و آسمان کو سات روز میں پیدا کیا.

جب تک کہ اہلسنت والجماعت بخاری و مسلم کو معتبر سمجھتے رہیں گے اور انہیں تمام کتابوں سے زیادہ صحیح سمجھتے رہیں گے، اور ابوہریرہ پر اعتماد کرتے رہیں گے کہ جو اہل سنت کے نزدیک عمدۃ المحدثین راوی اسلام بن گیا

۴۰