اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟13%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 37936 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردے.اور رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے کہ:

حق بات کہو اگرچہ وہ تمہارے خلاف ہی ہو.نیز فرمایا: حق کہو خواہ وہ تلخ ہی ہو...

میرے عزیز محترم میں آپ کو کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ انہیں صاف صاف بیان کیجئے اگرچہ تلخ ہی ہو. یہ بات خدا کے نزدیک آپ کے لئے شاہد ہوگی اپنے پروردگار کی قسم کھا کے بتائیے کیا شیعہ آپ کے نزدیک مسلمان نہیں ہیں؟

کیا آپ کا یہ عقیدہ حق ہے کہ وہ کافر ہیں؟ کیا اہلبیت(ع) نبوی(ص) کے اتباع کرنے والے کہ جنہوں نے خدا کی وحدانیت و عظمت کے سلسلہ میں تمام فرقوں سے زیادہ کام کیا ہے. ان کا کہنا ہے کہ خدا مشابہت و ہم شکل ہونے اور جسمانیت سے پاک ہے، وہ اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور دوسرے فرقوں سے زیادہ ان کی عظمت کے قائل ہیں. ان کا قول ہے کہ نبی(ص) بعثت سے قبل بھی مطلق طور پر معصوم تھے. کیا آپ انہیں کافر کہتے ہیں؟

کیا جو لوگ خدا و رسول(ص) اور مومنوں سے دوستی رکھتے ہیں جو عترت نبی(ص) کو دوست رکھتے ہیں جیسا کہ ابن منظور نے لسان العرب میں مادۃ شیعہ کے ذیل میں تحریر کیا ہے، کیا ان کو آپ غیر مسلمان کہتے ہیں؟

کیا وہ شیعہ جو بہترین طریقے سے نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں مزید خدا و رسول(ص) کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے اموال سے خمس نکالتے ہیں اور رمضان و دیگر ایام کے روزے رکھتے ہیں خانہ خدا کا حج بجالاتے ہیں

۲۱

اور شعائر اللہ کی تعظیم کرتے ہیں اور اولیائے خدا کا احترام کرتے ہیں، دشمنان خدا اور اسلام دشمن طاقتوں سے اظہار برائت کرتے ہیں، کیا وہ آپ کے نزدیک مشرک ہیں.

کیا وہ لوگ جو اہلبیت(ع) میں سے ان بارہ(۱۲) اماموں کی امامت کے قائم ہیں جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا ہے اور اس طرح پاک کیا جو کہ حق ہے اور ان کی امامت پر رسول(ص) نے نص فرمائی ہے جیسا کہ اہلسنت علماء مثلا بخاری و مسلم وغیرہ نے اپنی صحاح میں تحریر کیا ہے. وہ آپ کے نظریہ کے مطابق دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے ہیں؟؟

کیا وہ لوگ مسلمان ہیں جو حیات نبی(ص) میں اور بعد نبی(ص) کسی روز بھی امامت سے متعارف نہیں تھے. اور اس نظریہ کو فارس (ایران) و مجوس کا نظریہ کہتے ہیں؟

کیا آپ اس وقت اس شخص کو کافر قرار دیتے ہیں جو یزید ابن معاویہ کو امام مانتا ہے کہ جس کے فسق کو ہر خاص و عام مسلمان جانتا ہے؟ اور یزید کی خست و ذلالت کے لئے تو یہی چیز کافی ہے کہ جس پر مسلمانوں کا اجماع بھی ہے کہ یزید نے بیعت لینے کے لئے، مدینہ منورہ کو اپنے لشکر کے لئے مباح کر دیا تھا. وہ جو چاہے کرے. پس اس کے فوجیوں نے ہزاروں بہترین صحابہ اور تابعین کو قتل کیا اور بے شمار عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ بالجبر زنا کیا جن سے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کو خدا ہی جانتا ہے. اس(یزید لع) کے لئے تو رہتی دنیا تک یہی رسوائی اور ذلت کافی ہے کہ اس نے جوانانِ جنت کے سردار کو قتل کیا اور رسول(ص) کی بیٹیوں کو بے پردہ کیا، امام حسین علیہ السلام کے دندان مبارک کو چھڑی لگائی اور مشہور اشعار میں اس کی مثال دی.

۲۲

اے کاش بدر میں شہید ہونے والے میرے بزرگ ہوتے تو دیکھتے،، یہاں تک کہ اس نے کیا: یہ تو بنی ہاشم کا بادشاہ بننے کے لئے ڈھونگ تھا، ورنہ نہ کوئی فرشتہ آیا اور نہ وحی نازل ہوئی.

اس کے ان اشعار سے صاف طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ کی نبوت اور قرآن مجید پر ایمان نہیں رکھتا تھا. کیا یہ حق ہے کہ جو یزیدلع اور اس کے باپ معاویہ پر لعنت کرے آپ اسے کافر قرار دیں؟ جو علی علیہ السلام پر لعنت کرتا تھا اور لعنت کرنے کا حکم دیتا تھا بلکہ صحابہ میں سے جو لعنت کرنے سے انکار کرتا تھا اسے تہ تیغ کر دیتا تھا جیسا کہ حجر ابن عدی کندی اور ان کے ساتھیوں کو قتل کیا. اس لعنت کے سلسلہ کو ایک سنت بنادیا کہ جو ستر(۷۰) سال تک جاری رہی جبکہ وہ ( معاویہ) رسول(ص) کے اس قول سے واقف تھا:

"جس نے علی(ع) پر لعنت کی اس نے میرے اوپر لعنت کی اور جس نے میرے اوپر لعنت کی اس نے خدا کو برا کہا"

جیسا کہ اہلسنت کی صحاح میں یہ چیزیں بیان ہوئی ہیں. اس کے علاوہ اس کے بہت سے ایسے افعال ہیں جو اسلام کے منافی ہیں. اس نے اپنے بیٹے یزید کی بیعت لینے کے لئے بہت سے نیکوکار لوگوں کو قتل کیا. اور جعدہ بنت اشعث کے ذریعہ حسن ابن علی علیہما السلام کو قتل کرایا اس کے علاوہ اس کے اور بہت سے جرائم ہیں جنہیں اہلسنت کی تاریخ نے ذکر کیا ہے جیسا کہ شیعیان علی علیہ السلام نے اس کی شہادت دی ہے.

محترم میں آپ کے بارے میں یہ خیال نہیں کرتا ہوں کہ آپ

۲۳

ان تمام چیزوں سے متفق ہوں گے ورنہ اسلام پر سلام، اور دنیا پر خاک، کیونکہ اس کے بعد نہ دنیا میں کوئی پیمانہ ہے نہ عقل ہے نہ شرع ہے نہ کوئی منطق ہے نہ کوئی دلیل ہے. خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ‏ الصَّادِقِينَ )

ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہو جائو.

قسم خدا کی پاکستان کے عالم ابو الاعلی مودودی رحمتہ اللہ نے اپنی کتاب خلافت و ملوکیت کے ص۱۰۶ پر ابوالحسن بصری سے نقل کیا ہے کہ:

قسم خدا کی معاویہ میں چار خصلتیں ایسی تھیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی ہوتی تو وہی اس کی ہلاکت کے لئے کافی تھی.

مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر خلیفہ بن بیٹھا جبکہ ان میں صحابہ اور با فضلیت افراد موجود تھے.

اپنے بعد اپنے بیٹے کو خلیفہ بنادیا جو شراب خوار حریر پوش اور طنبور بجاتا تھا.

زیاد کو اپنا بھائی بنایا، جبکہ رسول(ص) کا قول ہے کہ: بچہ صاحب فراش کا ہے اور زناکار کے لئے پتھر ہے.

اس کا، حجر اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرنا پس حجر اور ان کے اصحاب کےسلسلہ میں معاویہ پر ویل ہو( اس جملہ

۲۴

کو تین مرتبہ دہرایا)

خدا ابو الاعلی مودودی پر رحم کرے کہ انہوں نے حق کا اظہار کیا اور اگر وہ چاہے تو ان خصلتوں سے زیادہ اس کی چالیس خصلتیں گنواتے لیکن مرحوم نے معاویہ کی ہلاکت کے لئے ان چار ہی کو کافی سمجھا.

شاید مودودی صاحب نے ان لوگوں کے جذبات کا خیال رکھا جو معاویہ کی تقدیس و احترام اور اسے رضی اللہ عنہ، کہنا سیکھتے ہیں بلکہ اس کے بیٹے یزید کو بھی اسی زمرہ میں شامل کر لیتے ہیں جیسا کہ خود میں نے علماء ہند سے سنا ہے."لا حول‏ و لا قوة الا بالله العلى العظيم"

اور انہیں باتوں کے تحت میں نے بھی ان لوگوں کے جذبات کا خیال رکھا تھا جنہوں نے مجھے رسوا کرنے کے لئے دعوت دی تھی ان میں سے میں نے ایک بات بھی بیان نہیں کی تھی کیونکہ مجھے اپنا ڈر تھا.

محترم میری آپ سے گذارش ہے کہ آپ واضح موقف کو اختیار کریں اور اس سے خدا کی رضا کو حاصل کریں بیشک خدا حق کے بارے میں ذرا بھی شرم نہیں کرتا، میں آپ سے یہ نہیں چاہتا کہ آپ ان کی برابری کے قائل ہوجائیں اور نہ ہی ان کی برائیوں سے پردہ ہٹانے کے لئے کہتا ہوں اس سلسلہ میں ہمارے اور آپ کے لئے تاریخ کافی ہے لیکن یہ ضرور چاہتا ہوں کہ آپ خود اعتراف کریں اور اپنے پیروں کو یہ بتائیں کہ جو ان ( معاویہ و یزید وغیرہ) کی امامت کے قائل نہیں ہیں اور ان سے محبت نہیں رکھتے وہی سچے اور حقیقی مسلمان ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ یہ کہیں کہ شیعہ ہمیشہ مظلوم رہے ہیں کیونکہ انہوں نے کبھی شجرۃ ملعونہ کی امامت کا اعتراف نہیں کیا ہے جس کی مثال خداوند کریم نے

۲۵

قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے.

آپ قسم کھا کے بتائیں کہ شیعوں کی کیا خطا ہے. رسول(ص) خود اپنے بعد اپنے اہلبیت(ع) کے اتباع کا حکم دیتے ہیں یہاں تک کہ انہیں سفینہ نوح سے تشبیہ دی جو اس پر سوار ہوا وہ نجات پائے گا اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ ہلاک ہوگا. شیعوں کی کیا خطا ہے جبکہ وہ رسول(ص) کے اس حکم کا اتباع کرتے ہیں:

میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں کتاب خدا اور میری عترت، جب تک ان سے وابستہ رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے.

اور اس بات کو گواہیاں تو اہلسنت کتابوں میں بھی ہیں چہ جائیکہ شیعہ کی کتابیں.

لیکن رسول(ص) کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے ان کے شکر گزار ہوئے، انہیں دوسروں پر مقدم کرنے اور فضیلت دینے کے بجائے ان پر سب وشتم کرتے ہیں انہیں کافر کہتے ہیں ان سے بیزاری اختیار کرتے ہیں، یہ تو انصاف نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات معقول ہے.

محترم ہمیں ان خرافات اور رکیک باتوں کو چھوڑ دینا چاہئے جو کسی دلیل و برہان پر استوار نہیں ہیں اور انہیں اپنی امت کے نوجوانوں پر تحمیل نہ کریں کہ شیعوں کا ایک خاص قرآن ہے یا شیعہ تو علی(ع) کو صاحب شریعت کہتے ہیں یا عبداللہ ابن سبا مذہب تشیع کا موسس ہے. اس کے علاوہ اور واہیات قسم کے اقوال ہیں کہ جن کے بارے میں خدا گواہ ہے کہ دشمنان اسلام اور عدو اہلبیت(ع) کا پروپیگنڈہ ہے جو انہوں نے اندھے تعصب اور جہالت کی بنا پر گڑھ دیا ہے

۲۶

محترم میں یہ سوال کرتا ہوں کہ ہندوستان کے علماء کو جامعہ اظہر کے علماء سے کیا نسبت ہے کہ جنہوں نے مذہب شیعہ امامیہ کو قبول کرنے کا تیس سال قبل فتوی دیا تھا اور جامعہ اظہر ہی کے علمائے اعلام کا یہ بھی نظریہ ہے کہ فقہ جعفری کہ جس پر شیعہ عمل کرتے ہیں وہ ان تمام مذاہب اسلامی سے زیادہ روح اسلام سے قریب ہے کہ جو اس کی فرع ہیں اور ان علما کے راس و رئیس شیخ محمود سلتوت رحمتہ اللہ ہیں، پس کیا وہ علمائے اسلام اور مسلمانوں کو نہیں پہچانتے تھے؟ یا ہندوستان کے علما ان سے اعلم و اعرف ہیں. میں نہیں سمجھتا کہ آپ بھی اسی کے قائل ہوں گے...!

محترم! آنکھیں آپ پر لگی ہیں آپ کی محبت و شفقت کے لئے میرا قلب کھلا ہوا ہے، یقینا گذشتہ زمانہ میں میں بھی آپ کی طرح حقیقف سے بے خبر اور اہلبیت(ع) اور ان کے شیعوں سے ناواقف تھا. پس خدا نے اس حق کی طرف میری راہنمائی کی کہ جس کے علاوہ گمراہی و ضلالت ہے میں تعصب کی بندشوں اور اندھی تقلید سے آزاد ہوگیا ہوں اور مجھ پر بات آشکار ہوگئی ہے کہ زیادہ تر مسلمان ابھی تک باطل اور پروپیگنڈے کے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں اور ان کو حقیقت تک پہونچنے نہیں دیا جاتا کہ کہیں سفینہ نجات پر سوار نہ ہو جائیں اور خدا کی رسی کو پکڑ نہ لیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ شیعہ و سنی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس اختلاف کے جو خلافت کے سلسلہ میں بعد رسول(ص) رونما ہوا. اس اختلاف کی بنیاد تمہارا صحابہ پر اعتقاد ہے جب کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں آپس میں اختلاف تھا یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے. لڑتے تھے اور بعض بعض کو قتل کرتے تھے.

پس اگر شیعوں کا اختلاف انہیں دین سے خارج کردیتا ہے

۲۷

تو العیاذ باللہ صحابہ اس تہمت کے زیادہ مستحق ہیں میں نہیں سمجھتا کہ آپ اس کو برداشت کرسکیں گے، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اس سلسلہ میں یہ بھی نہ کہیں کہ وہ دین سے خارج ہیں، اہلبیت(ع) کے تقدس و احترام کے سلسلے میں جو شیعوں کا نظریہ ہے وہی صحابہ کے تقدس و احترام کے سلسلہ ہیں اہلسنت کا نظریہ ہے پس دونوں موقفوں میں کتنا بعد ہے، اگر اس نظریہ میں شیعہ خطا پر ہیں تو اہلسنت بدرجہ اولی خطا کار ہیں. کیونکہ تمام صحابہ اہلبیت(ع) کو اپنے نفسوں پر مقدم کرتے تھے اور ان پر بلکل اسی طرح درود بھیتے تھا جس طرح نبی(ص) پر بھیجتے تھے، ہمیں کسی ایک صحابی کے بارے میں بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ اس نے نفس کو اہلبیت مصطفی(ص) پر مقدم کیا ہو یا علم و عمل کے لحاظ سے خود کو ان پر فضیلت دی ہو.

پس اب وہ وقت آن پہونچا ہے کہ شیعیان اہلبیت(ع) سے تاریخی تاریکی کو ہٹایا جائے ان سے قربت و بھائی چارگی قائم کی جائے نیک اور اچھے کاموں میں تعاون کیا جائے، اس امت کے لئے ویسے ہی خونریزی اور فتنہ انگیزی کیا کم ہے.

عنقریب خدا آپ کو ایک کلمہ پر جمع کردے گا ، اور آپ کے ذریعہ افتراق کو ختم کردے گا اور آپ کے سبب علیحدگی و سنگدلی کو دور کردے گا. آپ کے باعث اس زخم کا مداوا کرے گا، آپ کے توسط سے اس فتنہ کی آگ کو خاموش کرے گا، آپ ہی کے وسیلہ سے شیطان اور اس کے گروہ کو رسوا کرے گا. اور آپ خدا کے نزدیک کامیاب ہوجائیں گے. خصوصا آپ تو اہلبیت(ع) کی اولاد سے ہیں جیسا کہ میں نے سنا ہے لہذا ایسے اعمال بجالائے کہ جن کے سبب آپ ان(اہلبیت(ع)) کے ساتھ محشور ہوسکیں

۲۸

"اور یہ تمہاری امت ایک ہی ہے میں تمہارا رب ہوں پس میری عبادت کرو" " اور کہدیجیئے کہ (نیک) عمل بجالائو کیونکہ خدا، اس کا رسول(ص) اورمومنین تمہارے اعمال کو دیکھتے ہیں" اور خدا ہمیں اور آپ کو توفیق مرحمت فرمائے اسی میں لوگوں اور شہروں کی فلاح ہے، خداوند عالم ہمیں اور آپ کو اپنے مخلص بندوں میں شمار فرمائے.

اس خط کے ہمراہ آپ کی خدمت میں اپنی کتاب " ثم اھتدیت" کا ایک نسخہ بھی ارسال کررہا ہوں، یہ کتاب میں نے اسی موضوع پر تالیف کی ہے میری طرف سے یہ ہدیہ ہے امید ہے کہ قبول فرمائیں گے.

وَ السَّلَامُ‏ عَلَيْكُمْ‏ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ.

مخلص محمد تیجانی السماوی، تیونسی

۲۹

. پوچھ لو

آیہ فاسئلوا اہل الذکر مسلمانوں کو ہر مشکل کام میں اہل ذکر کی طرف رجوع کرنے کا حکم دے رہی ہے تاکہ وہ راہ راست سے اگاہ ہوجائیں. کیونکہ خداوند عالم نے انہیں تعلیم دینے کے بعد اس کام کے لئے منتخب کیا ہے یہی راسخون فی العلم ہیں اور یہی قرآن کی تاویل سے واقف ہیں.

یہ آیت اہلبیت(ع) یعنی محمد(ص) و علی(ع) و فاطمہ(س) و حسن(ع) و حسین(ع) کے تعارف کے لئے نازل ہوئی ہے. عہد نبی(ص) کے علاوہ قیام قیامت تک پنچتن پاک، اصحاب کساء میں سے حسین علیہ السلام کی نسل سے تو ائمہ ہوں گے کہ جن کو رسول(ص) نے معین کیا ہے. اور مناسب موقعوں پر ان کا تذکرہ بھی کیا ہے اور انہیں ائمہ ہدی، مصابیح الدجی، اہل ذکر، راسخون فی العلم کے القاب سے نوازا ہے.

یہ روایات عہد نبی(ص) ہی سے شیعوں کے نزدیک متواتر اور صحیح

۳۰

ہیں. اہل سنت کے بعض علماء و مفسرین نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے اور اس آیت کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ یہ آیت اہلبیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ان میں سے بعض علماء کے اسماء یہاں مثال کے طور پر پیش کر رہا ہوں.

۱.امام ثعلبی نے تفسیر کبیر میں سورہ نحل کی اسی آیت کے معنی کے ذیل میں.

۲.ابن کثیر نے تفسیر القرآن کی جلد، ۲، ص۵۷۰ - ۳.تفسیر طبری میں، جلد۱۴، ص۱۰۹

۴.تفسیر آلوسی المسمی بہ روح المعانی جلد ۱۴ ص۱۳۴ - ۵.تفسیر قرطبی جلد۱۱ ص۲۷۲

۶. تفسیر حاکم المسمی بہ شواہد التنزیل جلد ۱ص۳۳۴ - ۷. تفسیر تستری المسمی بہ احقاق الحق جلد۳ ص۴۸۲ - ۸. قندوزی حنفی کی ینابیع المودة، ص۵۱و ۱۴۰

اگر آیت کے ظاہری معنی سے اہل کتاب" یہود و نصاری" مراد ہیں تو اس کے لئے ہم اس بات کو وضاحت کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس آیت سے مراد یہود و نصاری نہیں ہیں.

اوّلا: اس لئے کہ قرآن نے متعدد آیات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہود و نصاری نے خدا کے کلام میں تحریف کی اور اپنے ہاتھوں سے لکھ کر کہہ دیا کہ یہ خدا کی کتاب ہے تاکہ اس سے کچھ قیمت حاصل کرسکیں(قرآن) ان لوگوں کے بارے میں کذب اور ان کے ہاتھوں سے کلام خدا میں تحریف کی گواہی دے رہا ہے. یہ بات معقول نہیں ہے کہ قرآن ان کی اس حرکت کے باوجود ان سے رجوع کرنے کا حکم دے اور کہے کہ جو مسائل تم نہیں جانتے وہ یہود و نصاری سے پوچھ لو.

۳۱

ثانیا:بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الشہادت کے باب" لایسئل اہل الشرک" کی جلد ۳ ص۱۶۳ پر ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ: اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ انہیں جھٹلائو، یہ کہو ہم تو اللہ اور اس کے نازل کئے ہوئے پر ایمان لاچکے ہیں. آیت"

اس آیت سے یہود و نصاری کو چھوڑنا اور ان سے رجوع نہ کرنا آشکار ہے، کیونکہ عدم تصدیق و تکذیب دونوں ہی اس سوال کی نفی کررہے ہیں. کہ جس کا صحیح جواب طلب کیا جاتا ہے.

ثالثا: بخاری نے اپنی صحیح کی جلد۸، ص۲۰۸ : کتاب التوحید اللہ تعالی کے قول" کل یوم ھو فی شان،، کے باب میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ:

انہوں نے کہا مسلمانو! تم اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں کیسے سوال کرتے ہو. جبکہ تمہاری کتاب وہ ہے جسے خدا نے اپنے نبی(ص) پر نازل کیا اور جو صرف اللہ کی طرف سے خبر دیتی ہے، وہ کوئی قصیدہ نہیں ہے. اور خدا تمہیں آگاہ کرچکا ہے کہ اہل کتاب. یہود و نصاری،، نے کتاب خدا میں تحریف کردی اور پھر اپنے ہاتھوں سے لکھ کر کہنے لگے(یہ) خدا کی کتاب ہے. تاکہ اس سے کچھ نفع حاصل کرسکیں. یا تمہیں اس چیز کے بارے میں ان سے سوال کرنے کو منع کیا ہے کہ جس کا تمہیں علم نہ ہو. خدا کی قسم ہم نے ان میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ تم سے

اس چیز کے بارے میں سوال کرے جو تم پر نازل ہوئی ہے.

۳۲

رابعا: اگر آج ہم اہل کتاب " نصاری" سے سوال کریں تو وہ کہتے ہیں کہ عیسی خدا ہیں. اور یہود انہیں جھٹلاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ عیسی کو نبی بھی نہیں مانتے ہیں. اور یہود و نصاری دونوں نبی(ص) اور اسلام کا انکار کرتے ہیں. اور کہتے ہیں: -محمد(ص)- بہت بڑے جھوٹے اور دجال ہیں. معاذ اللہ- کیا اس کے باوجود ہم آیت کا یہ مفہوم نکال سکتے ہیں کہ خدا نے ہمیں ان سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے- ناممکن ہے- اور جب ظاہر آیت سے اہل کتاب " یہود و نصاری" کا اہل ذکر ہونا سمجھ میں آتا ہے تو اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی ہے کہ یہ آیت اہلبیت نبی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے. جیسا کہ شیعوں اور سنیوں کے نزدیک صحیح حدیثوں سے ثابت ہے. اور اسی سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ خداوند متعال نے ان ہی کو اس کتاب کے علم کا وارث ہے -کہ جس میں کسی قسم کی تفریط نہیں ہے.- بنایا ہے. اور اپنے بندوں میں سے انہیں اس لئے منتخب کیا ہے تاکہ لوگ تفسیر و تاویل قرآن کے بارے میں ان سے رجوع کریں اور جب وہ خدا و رسول(ص) کی اطاعت کریں گے تو ان کی ہدایت کی ضمانت بھی ہوگی.

خداوند عالم چاہتا تھا کہ تمام لوگوں کو اپنے برگزیدہ اور عالم کتاب افراد کا مطیع و فرمانبردار بنا دے تاکہ قیادت اور دنیا کے نظم و نسق کا مسئلہ حل ہوجائے پس اگر وہ لوگوں کے درمیان نہ رہیں گے تو ہر ایک پر ہوس طاری ہوجائے گی، لوگوں کے امور میں بد نظمی پیدا ہوجائے گی اور ہر ایک کے لئے اعلمیت کا دعوی کرنا ممکن ہوگا.

اس بات سے مطمئن ہوجانے کے بعد اہل ذکر سے مراد اہلبیت(ع)

۳۳

ہیں، اس پر دلیل قائم کروں گا کہ اہل ذکر سے مراد اہلبیت(ع) ہی ہیں- عنقریب میں ایسے سوالات پیش کروں گا کہ اہل سنت کے پاس جن کا جواب نہیں ہے یا اگر جواب ہے، تو اس سے جان بوجھ کر پہلو تہی اختیار کرتے ہیں اور ایسی دلیل پیش کرتے ہیں جسے کوئی محقق قبول نہ کرسکے- ان سوالات کے حقیقی جوابات ائمہ اطہار(ع) ہی کے پاس ہیں کہ جنہوں نے دنیا کو علم و معرفت اور صالح عمل سے مالا مال کیا ہے.

۳۴

پہلی فصل

اللہ سے متعلق

پہلا سوال:

رئویت خدا اور اس کے مجسم ہونے کے بارے میں؟

خداوند عالم اپنی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے:

( لا تُدْرِكُهُ‏ الْأَبْصارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ ) انعام/۱۰۳

آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتیں.

( ليس‏ كمثله‏ شئ ‏) شوری/۱۱

اس کے مثل کے شئی نہیں ہے.

اور جب جناب موسی نے دیدار کی خواہش کی تو فرمایا:

( لَنْ‏ تَرَانِي ‏) اعراف/۱۴۳

تم مجھے کبھی نہیں دیکھ سکتے

۳۵

پس تم ان حدیثوں کو کیسے قبول کرتے ہو جو صحیح بخاری اور مسلم میں منقول ہیں کہ خداوند عالم اپنی مخلوق کے سامنے جلوہ افروز ہوگا، اور لوگ اسے چودہویں کے چاند کی طرح سے دیکھیں گے.(۱) اور ہر شب جمعہ کو آسمان دنیا پر اترتا ہے.(۲) جہنم میں اپنا پیر ڈال دے گا اور وہ بھرجائے گا.(۳) وہ اپنی پنڈلی کھول دے گا تاکہ مومنین پہچان لیں.(۴) وہ ہنستا ہے اور حیرت میں پڑ جاتا ہے.(۵) ان کے علاوہ اور بہت سی روایات ہیں کہ جن سے خدا کا مجسم اور متحرک ہونا ثابت ہوتا ہے- مثلا- اس کے دو ہاتھ اور دو پیئر ہیں، پانچ انگلیاں ہیں، پہلی انگلی آسمانوں پر، دوسری زمینوں پر، تیسری درختوں پر چوتھی پانی اور ثری پر، اور پانچویں تمام مخلوقات پر رکھے ہوئے ہے.(۶) وہ اپنے گھر میں قیام پذیر ہے. محمد(ص) تین مرتبہ اس کے پاس پہونچنے کے لئے اجازت طلب کرتے ہیں. خداوند متعال اس سے بزرگ و برتر ہے- پروردگار تو توصیف کرنے والوں کی توصیف سے پاک و پاکیزہ ہے.- ائمہ ہدی، مصابیح الدجی کے پاس ان تمام باتوں کا جواب یہ ہے کہ خداوند عالم ہم شکل وہم جنس، صورت و جسم اور شبیہہ و حد بندی سے پاک ہے. حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

____________________

۱.صحیح بخاری ج۷، ص۲۰۵، صحیح مسلم ج۱، ص۱۱۲

۲. صحیح بخاری ج۲، ص۴۷

۳.صحیح بخاری ج۸، ص۱۷۸و ص۱۸۷

۴.صحیح بخاری ج۸، ص۱۸۲. صحیح مسلم ج۱، ص۱۱۵

۵. صحیح بخاری ج۶، ص۳۳

۶. صحیح بخاری ج۸، ص۱۸۳ صحیح مسلم ج۱،ص۱۲۴

۳۶

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَا يَبْلُغُ‏ مِدْحَتَهُ‏ الْقَائِلُونَ‏ وَ لَا يُحْصِي نِعَمَهُ الْعَادُّونَ وَ لَا يُؤَدِّي حَقَّهُ الْمُجْتَهِدُونَ الَّذِي لَا يُدْرِكُهُ بُعْدُ الْهِمَمِ وَ لَا يَنَالُهُ غَوْصُ الْفِطَنِ الَّذِي لَيْسَ لِصِفَتِهِ حَدٌّ مَحْدُودٌ وَ لَا نَعْتٌ مَوْجُودٌ وَ لَا وَقْتٌ مَعْدُودٌ وَ لَا أَجَلٌ مَمْدُودٌ فَطَرَ الْخَلَائِقَ بِقُدْرَتِهِ وَ نَشَرَ الرِّيَاحَ بِرَحْمَتِهِ وَ وَتَّدَ بِالصُّخُورِ مَيَدَانَ أَرْضِهِ أَوَّلُ الدِّينِ مَعْرِفَتُهُ وَ كَمَالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْدِيقُ بِهِ وَ كَمَالُ التَّصْدِيقِ بِهِ تَوْحِيدُهُ وَ كَمَالُ تَوْحِيدِهِ الْإِخْلَاصُ لَهُ وَ كَمَالُ الْإِخْلَاصِ لَهُ نَفْيُ الصِّفَاتِ عَنْهُ لِشَهَادَةِ كُلِّ صِفَةٍ أَنَّهَا غَيْرُ الْمَوْصُوفِ وَ شَهَادَةِ كُلِّ مَوْصُوفٍ أَنَّهُ غَيْرُ الصِّفَةِ فَمَنْ وَصَفَ اللَّهَ سُبْحَانَهُ فَقَدْ قَرَنَهُ وَ مَنْ قَرَنَهُ فَقَدْ ثَنَّاهُ وَ مَنْ ثَنَّاهُ فَقَدْ جَزَّأَهُ وَ مَنْ جَزَّأَهُ فَقَدْ جَهِلَهُ وَ مَنْ أَشَارَ إِلَيْهِ فَقَدْ حَدَّهُ وَ مَنْ حَدَّهُ فَقَدْ عَدَّهُ وَ مَنْ قَالَ فِيمَ فَقَدْ ضَمَّنَهُ وَ مَنْ قَالَ عَلَامَ فَقَدْ أَخْلَى مِنْهُ كَائِنٌ لَا عَنْ حَدَثٍ مَوْجُودٌ لَا عَنْ عَدَمٍ مَعَ كُلِّ شَيْ‏ءٍ لَا بِمُقَارَنَةٍ وَ غَيْرُ كُلِّ شَيْ‏ءٍ لَا بِمُزَايَلَةٍ فَاعِلٌ لَا بِمَعْنَى الْحَرَكَاتِ وَ الْآلَةِ بَصِيرٌ إِذْ لَا مَنْظُورَ إِلَيْهِ مِنْ خَلْقِهِ.(۱)

تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے، جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں، جس کی نعمتوں کو گننے والے گن نہیں سکتے، نہ کوشش کرنے والے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں، نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں نہ عقل و فہم

____________________

۱.نہج البلاغہ شرح محمد عبدہ ج۱، خطبہ اوّل

۳۷

کی گہرائیاں اس کی تہ تک پہونچ سکتی ہیں. اس کے کمال ذات کی کوئی حد معین نہیں. نہ اس کے لئے توصیفی الفاظ ہیں نہ اس( کی ابتدا) کے لئے کوئی وقت ہے، جسے شمار میں لایا جاسکے، نہ اس کی کوئی مدت ہے جو کہیں پرختم ہو جائے.

بس جس نے ذات الہی کے علاوہ صفات مانے، اس نے اس کی ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا اس نے دوائی پیدا کی جس نے دوئی پیدا کی. اس نے اس کے لئے جز بنا ڈالا اور جو اس کے لئے اجزائ کا قائل ہو وہ اس سے بے خبر رہا. اور جو اس سے بے خبر رہا اس نے اسے قابل اشارہ سمجھ لیا اور جس نے اسے قابل اشارہ سمجھ لیا اس نے اس کی حد بندی کردی اور جس نے اسے محدود سمجھا وہ اسے دوسری چیزوں ہی کی قطار میں لے آیا، جس نے یہ کہا کہ وہ کس چیز میں ہے اس نے اسے کسی شئی کے ضمن میں فرض کر لیا، اور جس نے یہ کہا کہ وہ کسی چیز پر ہے. اس نے اور جگہیں اس سے خالی سمجھ لیں. وہ ہے، ہوا نہیں، موجود ہے، مگر عدم سے وجود میں نہیں آیا. وہ ہر شئی کے ساتھ ہے، نہ جسمانی اتصال کی طرح، وہ ہر چیز سے علیحدہ ہے، نہ جسمانی دوری کے طور پر، وہ فاعل ہے. لیکن حرکات و آلات کا محتاج نہیں

۳۸

وہ اس وقت بھی دیکھنے والا نہیں تھا، جب مخلوقات میں کوئی چیز دکھائی دینے والی نہ تھی.

میں نے جوان محققین کی توجہ اس خزانہ کی طرف مبذول کرائی ہے جو حضرت علی علیہ السلام نے چھوڑا ہے. جو کچھ نہج البلاغہ میں جمع کیا ہے وہ بہترین کتاب ہے. اس سے بلند کتاب صرف قرآن مجید ہے. مگر افسوس! کہ لوگ امویوں اور عباسیوں کے پروپیگنڈوں سے اور دہشتگردی اور حضرت علی علیہ السلام سے محبت رکھنے والوں کو قید خانہ میں ڈالدینے کی وجہ سے اس خزانہ سے بے خبر رہے ہیں.

اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ : نہج البلاغہ میں ایسے بے شمار علوم و معارف موجود ہیں کہ جن کی ضرورت ہر زمانہ کے افراد کو رہی ہے. فلسفہ،سلوک، اور سیاسیات و حکمت کے علاوہ نہج البلاغہ میں علم اخلاق، علم اجتماع(سماجیات) علم اقتصاد اورخلا و فضا کے علم اور ٹیکنالوجی کی طرف قیمتی اشارے موجود ہیں.

۳۹

تعلیق

دونوں عقیدوں میں واضح فرق ہے

اہل سنت والجماعت کا عقیدہ خدا کو اس طرح شکل و صورت والا مجسم بناکر پیش کرتا ہے جو دیکھا جاسکے، گویا وہ ایک انسان ہے جو چلتا ہے، اترتا ہے، مکان میں رہتا ہے، اس کے علاوہ اور بہت سی مکروہ باتیں ہیں کہ جن سے خداوند عالم بری ہے.شیعوں کا عقیدہ ہے کہ خدا ہم شکل، ہم جنس اور جسم سے پاک ہے. شیعہ کہتے ہیں کہ دینا و آخرت میں خدا کا دیدار محال ہے. اور خود میرا عقیدہ ہے کہ جن روایات سے اہل سنت خدا کی رئویت پر استدلال کرتے ہیں وہ سب صحابہ کے زمانہ میں یہودیوں نے گڑھی تھیں، کیونکہ کعب الاحبار جو"یہودی" جو عمر بن خطاب کے زمانہ میں مسلمان ہوا اور اس نے یہودی معتقدات کو بعض ضعیف العقل راویوں مثل ابوہریرہ اور وہب بن منبہ کے ذریعہ اسلام میں داخل کردیا. اور بخاری و مسلم میں زیادہ تر روایتیں ابوہریرہ سے مروی ہیں اور گذشتہ بحث میں یہ بیان گذر چکا ہے کہ ابوہریرہ، احادیث نبوی اور کعب الاحبار کی حدیثوں میں تمیز نہیں کر پاتے تھے. یہاں تک کہ ایک مرتبہ خطاب نے اسے اس بات پر مارا اور اس یہ حدیث نقل کرنے سے منع کیا کہ خدا نے زمین و آسمان کو سات روز میں پیدا کیا.

جب تک کہ اہلسنت والجماعت بخاری و مسلم کو معتبر سمجھتے رہیں گے اور انہیں تمام کتابوں سے زیادہ صحیح سمجھتے رہیں گے، اور ابوہریرہ پر اعتماد کرتے رہیں گے کہ جو اہل سنت کے نزدیک عمدۃ المحدثین راوی اسلام بن گیا

۴۰

اس وقت تک اہلسنت اپنے عقیدوں کو نہیں بدل سکتے ہیں مگر یہ کہ وہ اندھی تقلید سے آزادی حاصل کرلیں، اور ائمہ ہدی(ع)، عترت نبی(ص)، باب العلم سے رجوع کریں...

یہ دعوت اہلسنت کے بزرگ افراد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ذہین نوجوانوں سے بھی اس کا تعلق ہے بہتر ہے کہ وہ اندھی تقلید سے آزاد ہوجائیں، اور دلیل و برہان کا اتباع کریں.

دوسرا سوال

عدل الہی اور جبر سے متعلق

خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَ قُلِ‏ الْحَقُ‏ مِنْ رَبِّكُمْ- فَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَ مَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ ) الکہف آیت/29

اور کہدو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے، اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کافر ہوجائے.

( لا إِكْراهَ‏ فِي‏ الدِّينِ‏ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ) بقرہ آیت/256

دین میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے ہدایت گمراہی سے الگ اور واضح ہوچکی ہے.

۴۱

( فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ‏ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ. وَ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ‏ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ‏) زلزلہ آیت/8

اور جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا.

( إِنَّما أَنْتَ مُذَكِّرٌ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ ) غاشیہ آیت/22

تم صرف نصیحت کرنے والے ہو تم ان سب پر مسلط اور ان کے ذمہ دار نہیں ہو.

پھر تم ان احادیث کو کیوں قبول کرتے ہو جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی ہیں کہ خدا نے اپنے بندوں کے افعال کو ان کی پیدائش سے قبل ہی مقدر کر دیا تھا. بخاری نے اپنی صحیح(1) میں روایت کی ہے کہ:

آدم اور موسی میں حجت ہوگئی تو موسی نے فرمایا کہ:

اے آدم آپ ہمارے باپ ہیں لیکن آپ نے ہمیں مصیبت میں مبتلا کیا اور جنت سے نکلوا دیا.

جناب آدم نے فرمایا: اے موسی خدا نے تمہیں، اپنے کلام کے لئے منتخب کیا اور اپنے ہاتھ سے تمہارے لئے لکھا کیا تم مجھے اس بات پر ملامت کر رہے ہو جو خدا نے میرے لئے میری خلقت سے چالیس سال قبل ہی مقدر کر دی تھی.

____________________

1. صحیح بخاری جلد 7 ص214 کتاب القدر باب تحاج آدم و موسی، صحیح مسلم جلد 8، ص49

۴۲

پس آدم نے موسی پر تین حجتیں قائم کیں.

مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ(1) :

تم میں سے ہر ایک کی خلقت اس طرح ہوتی ہے کہ اپنی ماں کے بطن میں چالیس روز رہتا ہے پھر اس کا علقہ ( گوشت کا لوتھڑا) بن جاتا ہے. پھر اس حالت میں چالیس روز رہتا ہے اور اس کے بعد مضغہ بن جاتا ہے اور چالیس روز تک اسی حالت میں رہتا ہے پھر فرشتہ کو بھیجا جاتا ہے، وہ اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار چیزوں کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا رزق، موت و عمل اور اس کی شقاوت و سعادت کو لکھ دی جائے، قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، تم میں سے جو بھی جنت کے لئے عمل انجام دے گا یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان فقط ایک گزر کا فاصلہ رہ جائے گا. تو وہ ( تقدیر کا) نوشتہ آگے بڑھ کر اس کی راہ روک دے گا اور وہ ایسے کام انجام دیگا جو جہنم میں لے جاتے ہیں، اور تم میں سے جو بھی برے کام انجام دے گا یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک گزر کا فاصلہ رہ جائے گا، تو وہ ( تقدیر کا) نوشتہ آگے بڑھے گا اور انسان اچھے کام انجام دینے لگے گا اور وہ اسے جنت میں لے جائیں گے.

____________________

1.صحیح مسلم جلد8،ص44 کتاب القدر بابکیفیة خلق الآدم فی بطن امه ، صحیح بخاری جلد7، ص210

۴۳

اسی طرح مسلم نے اپنی صحیح میں ام المومنین عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا رسول(ص) کو انصار میں سے کسی بچہ کی میت پر بلایا گیا تو میں نے کہا: خوشا نصیب اس کا کہ وہ جنت کا پرندہ ہے کیونکہ اس نے کوئی برا کام انجام نہیں دیا اور نہ اس سے واقف تھا. آپ نے فرمایا:

اے عائشہ اس کے علاوہ اور بہت کچھ! خدا نے جنت کے اہل پیدا کئے ہیں اور جنت کو ان کے لئے پیدا کیا ہے، اور جہنم کے بھی اہل پیدا کئے ہیں اور جہنم کو ان کے لئے پیدا کیا ہے در آنحالیکہ وہ اپنے آباء و اجداد کے صلبوں ہی میں تھے.(1) بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ ایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ(ص) کیا اہل بہشت اہل جہنم سے پہچانے جاتے ہیں؟ فرمایا ہاں: تو اس نے کہا کہ پس ہم لوگ عمل کیوں انجام دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو عمل انجام دیا جاتا ہے وہ اسی کے لئے خلق کیا گیا ہے یا اس کے انجام دینے پر مجبور ہے.(2) پروردگارا تو پاک ہے، حمد تیرے ہی لئے مخصوص ہے، تو اس ظلم سے پاک و بلند ہے. ہم ان حدیثوں کو کیسے قبول کر لیں جو تیری کتاب کے سراسر خلاف ہیں اور جس میں تو نے فرمایا ہے کہ:

( إِنَ‏ اللَّهَ‏ لا يَظْلِمُ‏ النَّاسَ شَيْئاً وَ لكِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ‏) یونس/44

اللہ انسانوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خود ہی اپنے اوپر

____________________

1.صحیح مسلم جلد 8، ص55 کتاب القدر باب کل مولود یولد علی الفطرۃ

2 صحیح مسلم جلد 7، ص210 کتاب القدر باب جف القلم علی علم اللہ

۴۴

کیا کرتے ہیں.

( إِنَ‏ اللَّهَ‏ لا يَظْلِمُ‏ مِثْقالَ ذَرَّةٍ ) نساء/40

خدا کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے.

( وَ لا يَظْلِمُ‏ رَبُّكَ‏ أَحَداً) کہف/49 اور تمہارے پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے.

( وَ ما ظَلَمَهُمُ‏ اللَّهُ‏ وَ لكِنْ كانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ‏ ) آل عمران آیت/117

اور خدا نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں.

( وَ ما كانَ‏ اللَّهُ‏ لِيَظْلِمَهُمْ‏ وَ لكِنْ كانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ .) توبہ/70، عنکبوت/40، روم/9

خدا کسی پر ظلم کرنے والا نہیں ہے، لوگ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں.

( وَ ما ظَلَمْناهُمْ‏ وَ لكِنْ كانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ‏) زخرف آیت/76

اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا ہے یہ تو خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے.

( ذلِكَ‏ بِما قَدَّمَتْ‏ يَداكَ وَ أَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ) انفال آیت/51

یہ اس لئے کہ تمہارے پچھلے اعمال کا نتیجہ یہی ہے اور خدا اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے.

۴۵

( مَنْ‏ عَمِلَ‏ صالِحاً فَلِنَفْسِهِ وَ مَنْ أَساءَ فَعَلَيْها وَ ما رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ) فصلت/46

جو بھی نیک عمل کرے گا وہ اپنے لئے کرے گا اور جو برا کرے گا اس کا ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہوگا اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے.

اور حدیث قدسی میں فرماتا ہے:

میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا ہے اور تمہارے لئے بھی حرام قرار دیا ہے پس ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو.

پس وہ مسلمان جو خدا اور اس کی عدالت و رحمت پر ایمان رکھتا ہے وہ اس بات کو کیسے تسلیم کرسکتا ہے کہ خدا نے لوگوں کو پیدا کیا اور ان میں سے بعض کو جنت نشین اور بعض کو جہنم مکین بنا دیا. اور ان کے تمام اعمال کو معین کردیا. پس ہر ایک شخص ان کاموں کے انجام دینے پر مجبور ہے. ان روایات کے لحاظ سے کہ جو قرآن کریم کے مخالف ہیں اور اس فطرت کے خلاف ہیں جس پر خدا نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اور عقل و وجدان کے خلاف بھی ہیں اور انسانوں کے حقوق وسیع نہیں ہیں.

ہم اس مذہب کو کیسے قبول کر لیں جو عقلوں کو اس بات میں محدود کرتا ہے کہ انسان خوف کا لوتھڑا ہے جو قدرت کے ہاتھوں کی کٹھپتلی ہے. وہ جیسے چاہتی ہے نچاتی ہے تاکہ اس کے بعد اسے جہنم میں ڈال دے. یہ وہ عقیدہ ہے جو عقلوں کوخلق و ایجاد اور تعجب خیز اختراع و ارتقا سے باز رکھتا ہے اور انسان بے حس و حرکت بن جاتا ہے. اور اسی حالت پر برقرار رہتا ہے جس میں

۴۶

ہے. یا جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر خوش رہتا ہے اس لئے کہ وہ مجبور پیدا کیا گیا ہے.

ہم ان روایات کو کیسے قبول کر لیں جو عقل سلیم کے خلاف ہیں جو ہمارے لئے ایسا تصور پیش کرتی ہیں کہ خدا خالق جبار، قوی ہے، اور اسے حق ہے کہ وہ اپنے کمزور بندوں کو اس لئے پیدا کرے کہ جہنم کی آگ میں جلایا جائے، کسی جرم کی بناء پر نہیں کیونکہ اسے یہ بھی اختیار ہے کہ وہ جو چاہے کرے. کیا عقلا ایسے خدا کو رحیم، حکیم اور عادل کہتے ہیں؟

اگر ہم غیر مسلم علما اور ذہین افراد سے گفتگو کریں اور انہیں یہ بتائیں کہ ہمارا پروردگار ان صفات کا حامل ہے، اور ہمارا دین لوگوں کی پیدائش سے قبل ہی ان کی شقاوت و سعادت کی فیصلہ کردیتا ہے تو کیا وہ اسلام قبول کر لیں گے؟ اور گروہ گروہ دین میں داخل ہوں گے؟؟

پروردگارا! تو پاک ہے، یہ وہ خرافات ہیں جنہیں امویوں نے اپنے عیوب کی پردہ پوشی کے لئے رواج دیا ہے، محقق اس راز سے بخوبی واقف ہے، یہ باطل قول ہے کیونکہ تیرے کلام کے مخالف ہے.

تیرے رسول(ص) نے تیری طرف جھوٹ کی نسبت نہیں دی ہے کہ جو تیری وحی کے خلاف ہو، یہ تو ثابت ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا کہ:

جب تمہارے پاس میری کوئی حدیث پہونچے تو اسے خدا کی کتاب سے ملائو، اگر کتاب خدا کے موافق ہے تو اسے لے لو اور اگر اس کے خلاف ہے تو اسے دیوار پر دے مارو!

یہ تمام اور ایسی ہی بہت سی حدیثیں ہیں کہ جو کتاب خدا، سنت

۴۷

رسول(ص) اور وجدان و عقل کے خلاف ہیں. لہذا انہیں دیوار پر مار دینا چاہیئے اور ان کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئیے. اگرچہ انہیں بخاری و مسلم ہی نے نقل کیا ہو، کیونکہ بخاری اور مسلم معصوم عن الخطا نہیں ہیں. اس جھوٹے دعوے کی رد کے لئے ہماری یہ دلیل کافی ہے کہ اللہ نے بشریت کی طویل تاریخ میں اپنی مخلوق کے پاس انبیاء و مرسلین بھیجے تاکہ مفسد بندوں کی اصلاح کریں، اور صراط مستقیم کی ہدایت کریں، اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیں. اور صالح بندوں کو جنت کی بشارت دیں، اور مفسد لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں.

خدا اپنے بندوں کے حق میں عادل و رحیم ہے، اور ان ہی لوگوں پر عذاب کرے گا جن کے پاس رسول بھیج کر حجت تمام کر دی ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

( مَنِ‏ اهْتَدى‏ فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَ مَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها وَ لا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى‏ وَ ما كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا ) اسرا/15

جو شخص بھی ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے فائدہ کے لئے کرتا ہے، اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے وہ بھی اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے اور ہم تو اس وقت تک عذاب کرنے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں.

پس جن روایات کو بخاری و مسلم نے جمع کیا ہے اور جن سے یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ خدا اپنے بندوں کے اعمال ان کی پیدائش سے قبل ہی لکھ دیتا ہے. ان میں سے بعض کو جنتی اور بعض کو جہنمی قرار دیتا ہے. جیسا کہ

۴۸

ہم پہلے بھی اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں. اور اس بات پر اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے.

میں کہتا ہوں اگر یہ صحیح ہے تو رسولوں کی، بعثت اور کتابوں کا نزول بے کار ہوگا! خداتوند عالم اس سے بزرگ و برتر ہے، خدا نے وہی مقدر کیا جو حق تھا. پس ہمیں اس قسم کی باتیں کہنے کا حق نہیں ہے، معبود! تو اس بہتان عظیم سے پاک ہے.

( تِلْكَ‏ آياتُ‏ اللَّهِ‏ نَتْلُوها عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَ مَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعالَمِينَ ‏) آل عمران/ 108

یہ آیات الہی ہیں جن کی ہم حق کے ساتھ تلاوت کر رہے ہیں اور اللہ عالمین کے بارے میں ہرگز ظلم نہیں چاہتا.

اس کا جواب ائمہ ہدی، مصابیح الدجی، منارة امت کے پاس یہ ہے کہ خداوند عالم ظلم اور کار عبث سے بری ہے.

آئیے ہم باب مدینة العلم امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے کچھ سنیں، وہ لوگوں کے لئے اس اعتقاد کی تشریح فرماتے ہیں کہ جو ان بعض مسلمانوں کے ذہن میں تھا جنہوں نے باب مدینة العلم کو چھوڑ دیا تھا. چنانچہ آپ نے ایک صحابی کے جواب میں اس وقت فرمایا جب اس نے یہ سوال کیا تھا کہ: کیا ہمارا شام جانا اللہ کی قضا و قدر کے مطابق ہے؟ فرمایا:

" وَيْحَكَ‏ لَعَلَّكَ‏ ظَنَنْتَ‏ قَضَاءً لَازِماً وَ قَدَراً حَاتِماً لَوْ كَانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ لَبَطَلَ الثَّوَابُ وَ الْعِقَابُ وَ سَقَطَ الْوَعْدُ وَ الْوَعِيدُ إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ أَمَرَ عِبَادَهُ

۴۹

تَخْيِيراً وَ نَهَاهُمْ تَحْذِيراً وَ كَلَّفَ يَسِيراً وَ لَمْ يُكَلِّفْ عَسِيراً وَ أَعْطَى عَلَى الْقَلِيلِ كَثِيراً وَ لَمْ يُعْصَ مَغْلُوباً وَ لَمْ يُطَعْ مُكْرِهاً وَ لَمْ يُرْسِلِ الْأَنْبِيَاءَ لَعِباً وَ لَمْ يُنْزِلِ الْكُتُبَ لِلْعِبَادِ عَبَثاً وَ لَا خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا( ذلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ ) (1)

خدا تم پر رحم کرے شاید تم نے حتمی و لازمی قضا و قدر سمجھ لیا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تھ پھر نہ ثواب کا سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی ہوتے نہ وعید کے، خداوند عالم نے بندوں کو مختار بنا کر مامور کیا ہے(عذاب سے) ڈراتے ہوئے نہی کی ہے، اس نے آسان تکلیف دی ہے، دشواریوں سے بچایا ہے، قلیل اعمال کا زیادہ اجر عطا کرتا ہے. اس کی نافرمانی اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ مغلوب ہوگیا ہے، اور نہ اس کی اطاعت اس لئے کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کی رکھا ہے،اس نے انبیاء کو بطور تفریح نہیں بھیجا، اور نہ بندوں کے لئے کتابیں بے فائدہ نازل کی ہیں، اور نہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اسے بیکار پیدا کیا ہے، یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں

____________________

1.نہج البلاغہ، شرح محمد عبدہ جلد/4 ص673.674

۵۰

نے کفر اختیار کیا. افسوس ہے ان لوگوں پر جنہوں نے کفر اختیار کر کے آتش جہنم کمائی.

یہاں یہ بات ذکر کر دینا مناسب ہے کہ اہلسنت والجماعت خدا کو ظلم اور کار عبث سے پاک سمجھتے ہیں، اس سلسلہ میں جب آپ ان میں سے کسی سے سوال کریں گے تو وہ خدا کی طرف ظلم کی نسبت نہیں دے گا لیکن اس کا نفس ان احادیث کی تردید کرنے میں پس و پیش میں پڑ جاتا ہے کہ جن کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے وہ انہیں صحیح سمجھتا ہے. اسی لئے آپ اسے معقول بحث کے وقت دیکھیں گے کہ وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ خدا کے لئے اس(فعل) کو ظلم نہیں کہا جاتا، کیونکہ وہ خالق ہے اور خالق کو اپنی مخلوقات کے بارے میں سب کچھ کرنے کا حق ہے!

اور جب اس سے یہ سوال ہوتا ہے کہ خدا کسی بندے کی خلقت سے قبل اس کے جہنمی ہونے کا کیسے حکم لگاتا ہے، کیا اس لئے کہ اس نے اس بندے کے لئے پہلے ہی شقاوت لکھ دی تھی، اور دوسرے بندے کےلئے اس کی خلقت سے قبل ہی جنتی ہونے کا حکم لگا دیتا ہے کیا اس لئے کہ خدا نے پہلے ہی سعادت لکھ دی تھی، کیا اس میں دونوں کے لئے ظلم نہیں ہے؟ کیونکہ جو جنت میں داخل ہو رہا ہے وہ اپنے عمل کی بنا پر نہیں، بلکہ خدا نے اس کے لئے جنت کو مقرر کیا تھا، اسی طرح جہنم میں داخل ہونے والا بھی اپنے گناہوں کی بنا جہنم میں داخل نہیں ہو رہا ہے بلکہ یہ تو خدا نے اس کے لئے مقرر کر دیا تھا، کیا یہ ظلم اور کیا قرآن کے خلاف نہیں ہے؟ تو پاک و پاکیزہ ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے. اس کے اس متناقض موقف کے بارے میں آپ کچھ نہیں سمجھ سکتے. یہ تو واضح ہے اس لئے کہ وہ بخاری و مسلم کو قرآن کی

۵۱

مانند سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ کتاب خدا کے بعد صحیح ترین کتاب بخاری اور مسلم ہے، یہ ہیں وہ مصائب جن میں مسلمان مبتلا ہیں. اموی اور ان کے بعد عباسی اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے کہ ان کی بدعت اور عقائد پھیل گئے. ان کے آثار اور بے نتیجہ سیاست آج تک باقی ہے کیونکہ مسلمان اسے بہت بڑی میراث سمجھتے ہیں اس لئے کہ ان کے خیال میں انہوں نے نبی(ص) کی صحیح حدیثوں کو جمع کیا ہے اگر مسلمانوں کو یہ معلوم ہوجاتا کہ انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے رسول(ص) کی طرف کتنی جھوٹی باتوں کی نسبت دی ہے تو وہ کبھی ان حدیثوں کی تصدیق نہ کرتے خصوصا ان حدیثوں کی جو کتابِ خدا کی مخالف ہیں.

(قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ­داری خدا نے خود لی ہے وہ صحابہ کے پاس محفوظ تھا، صحابہ نبی(ص) کو پڑھ کر سنایا کرتے تھے اس لئے وہ ( بنی امیہ و بنی عباس) قرآن میں تو تحریف نہ کرسکے لیکن سنت مطہرہ میں جیسی چاہی، جس کے لئے چاہی حدیث گڑھ لی، وہ محافظ قرآن و سنت، اہل بیت(ع) کے دشمن تھے، ہر حادثہ کے لئے ایک حدیث گڑھ لی، اور اسے نبی(ص) کی طرف منسوب کر دی اور مسلمانوں کو یہ فریب دیا کہ تمام حدیثوں سے زیادہ یہ حدیثیں صحیح ہیں، پس مسلمانوں نے حس ظن کرتے ہوئے انہیں مان لیا اور میراث کے طور پر انہیں ایک دوسرے کی طرف منتقل کرتے رہے، حق تو یہ ہے کہ شیعوں نے بھی رسول (ص) یا ائمہ(ع) میں سے کسی نہ کسی کی حدیث میں کمی زیادتی کی ہے اور اسے رسول(ص) کی طرف منسوب کر دیا،طول تاریخ اس فعل سے مسلمانوں میں سنی، شیعہ کوئی نہیں بچا، لیکن شیعہ اہلسنت والجماعت پر تین چیزوں میں فوقیت رکھتے ہیں. یہ تین چیزیں انہیں تمام اسلامی فرقوں پر امتیاز بخشتی ہیں.

۵۲

اور ان کے صحیح اور قرآن و سنت و عقل کے مطابق عقائد کو ظاہر کرتی ہیں. وہ تین چیزیں یہ ہیں:

اوّلا وہ اہلبیت(ع) سے محبت رکھتے ہیں اور ان پر کسی کو فوقیت نہیں دیتے، اور یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ اہلبیت(ع) وہ ہیں جن سے خدا نے رجس و کثافت کو دور رکھا ہے اور انہیں اس طرح پا ک فرمایا جس طرح حق تھا.

ثانیا ائمہ اہلبیت(ع) بارہ(12) ہیں جن کی حیات کا سلسلہ تین صدیوں پر محیط ہے، اور یہ سب کےسب تمام احکام و احادیث کے سلسلہ میں متفق ہیں، ان کے درمیان ان چیزوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے جو ان کے شیعوں نے علم و معرفت کے ذریعہ حاصل کی ہے. ان کے عقائد وغیرہ میں کوئی تناقض نہیں ہے.

ثالثا انہیں اپنی کتابوں میں خطا و صواب کے احتمال کا اعتراف ہے، کتاب خدا کے سوائ کہ جس میں کسی طرح سے باطل داخل نہیں ہوسکتا،، کسی بھی کتاب کو کلی طور پر صحیح نہیں سمجھتے ہیں. آپ کی اطلاع کے لئے اتنا کافی ہے کہ ان کی عظیم ترین کتابوں میں سے ایک اصول کافی ہے. وہ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں ہزاروں حدیثیں جھوٹی ہیں. لہذا آپ نے ان کے علماء و مجتہدین کو دیکھا ہوگا کہ وہ مستقل تحقیق اور چھان بین میں لگے رہتے ہیں پس ان کتابوں سے انہیں احادیث کو لیتے ہیں جو متن اور سند کے لحاظ سے صحیح ثابت ہوتی ہیں اور قرآن و عقل کے خلاف نہیں ہوتیں.

لیکن اہلسنت نے اپنے اوپر ان کتابوں کو لازم قرار دے

۵۳

لیا ہے وہ جنہیں صحاح ستہ کا نام دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان میں ہے وہ سب صحیح ہے اہلسنت کی اکثریت بغیر کسی تحقیق و جستجو کے یہ بات کہتی ہے، ورنہ ان کتابوں میں بہت سی ایسی احادیث مروی ہیں کہ جن کی بنیاد علمی دلیل پر استوار ہے، بلکہ ان میں صریح طور پر کفر موجود ہے. اور قرآن و اخلاق و افعال رسول(ص) کے سراسر خلاف ہیں اس سلسلہ میں قارئین کے لئے شیخ محمود ابوریہ مصری کی کتاب"اضوا علی السنة المحمدیة " کا مطالعہ کافی ہوگا اس سے معلوم ہوجائے گا کہ صحاح ستہ کی کیا قدر و قیمت ہے. بحمد اللہ اب بہت سے جوان محققین ان زنجیروں سے آزاد ہوگئے ہیں، اور حق و باطل میں فرق کرنے لگے ہیں بلکہ ان کے متعصب سرغنہ میں سے بھی بہت سے صحاح کی روایات کا انکار کرنے لگے ہیں، لیکن اس لئے نہیں کہ ان کے نزدیک ان بعض احادیث میں ضعف ثابت ہوگیا ہے بلکہ اس لئے کہ ان میں شیعوں کی حجت و دلیل موجود ہے کہ جن کے ذریعہ وہ فقہی احکام اور غیبت کے عقائد ثابت کرتے ہیں، جس عقیدہ و حکم کے شیعہ قائل ہیں وہ صحاح ستہ میں سے کسی نہ کسی میں آج بھی موجود ہے.

بعض متعصبوں نے مجھ سے کہا کہ جب تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ بخاری کی حدیثیں صحیح نہیں ہیں تو اس کی حدیثوں سے احتجاج کیوں کرتے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ نہ ہی بخاری کی ساری حدیثیں صحیح ہیں اور نہ ساری جھوٹی ہیں حق حق ہے باطل، باطل ہے اس میں فرق کرنا ہمارا کام ہے.

ایک صاحب نے کہا: کیا آپ کے پاس کوئی خاص خوردبین ہے کہ جو صحیح و غلط کو بتاتی ہے؟ میں نے کہا : جو تمہارے پاس ہے وہی ہمارے پاس ہے. جس بات پر سنی شیعہ متفق ہیں وہ صحیح ہے کیونکہ طرفین کے نزدیک اس کی صحت ثابت ہوچکی ہے. ہم اہلسنت سے انہیں کو قبول کرنے کے لئے کہتے ہیں.

۵۴

جن کو خود صحیح سمجھتے ہیں. جس حدیث میں اختلاف ہے خواہ وہ ایک کے نزدیک صحیح بھی ہو اس کو مدمقابل کے لئے حجت قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، اسے قبول کر لینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے، بالکل اسی طرح غیر مسلم کو بھی ہم اس کے قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کے ذریعہ اس پر حجت قائم کرسکتے ہیں....

اس سلسلہ میں میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ جس کے بعد کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا. اور نہ ہی متعدد طریقوں سے اس تنقید کو رد کیا جاسکے گا.

شیعوں کا دعوی ہے کہ رسول(ص) نے18 ذی الحجہ کو حجة الوداع کے روز غدیر خم میں علی(ع) کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا اور فرمایا:

" من‏ كنت‏ مولاه‏ فهذا مولاه اللّهمّ وال من والاه و عاد من عاداه "

جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی(ع) مولا ہیں بار الہا علی(ع) کے دوست کو دوست اور علی(ع) کے دشمن کو دشمن رکھ.

اس حدیث اور واقعہ کو اہلسنت والجماعت کے بہت سے علماء نے اپنی صحاح و مسانید اور تواریخ میں نقل کیا ہے، پس شیعہ اس سے اہلسنت پر حجت قائم کرسکتے ہیں.

اہل سنت والجماعت کا دعوی ہے کہ رسول(ص) نے مرض موت میں ابوبکر کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں اور فرمایا: خدا و رسول(ص) اور مومنین صرف ابوبکر سے راضی ہیں.

شیعوں کی کتابوں میں اس حدیث و واقعہ کا کہیں وجود نہیں

۵۵

ملتا ہے، ہاں ان کے یہاں یہ روایت ملتی ہے کہ رسول(ص) نے علی علیہ السلام کو بلوایا لیکن عائشہ نے اپنے باپ ابوبکر کو بلایا، جب رسول(ص) نے یہ صورتحال دیکھی تو عائشہ سے فرمایا: " انکن لوبحیات یوسف" تم ہی جیسی عورتیں یوسف کے ساتھ بھی تھیں اور خود نماز پڑھانے کی غرض سے گھر سے نکلے اور ابوبکر کو مصلے سے ہٹا دیا: یہ انصاف نہیں ہے اہلسنت شیعوں پر ان احادیث سے احتجاج کریں کہ جو انہیں سے مخصوص ہیں، خصوصا ان احادیث سے جن میں تناقض پایا جاتا ہے اور واقعات و تاریخ ان کی تکذیب کرتی ہیں، اس لئے کہ رسول(ص) نے ابوبکر کو جیش اسامہ میں شریک ہونے کا حکم دیا تھا. اور اس لشکر کے سردار اسامہ تھے، اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ امیر لشکر ہی پیش امام ہوتا ہے. اور یہ بات تو تاریخ سے ثابت ہے کہ وفات رسول(ص) کے وقت ابوبکر مدینہ میں موجود نہیں تھے وہ تو سنح میں اپنے امیر اسامہ ابن زید کہ جن کی عمر سترہ(17) سال بھی نہیں تھی، کی قیادت میں روانہ ہونے کی تیاری کررہے تھے. کیا اس کے باوجود ہم اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ رسول(ص) نے نماز کی امامت کے لئے ابوبکر کو متعین فرمایا تھا؟ مگر یہ کہ ہم عمر خطاب کے اس قول کی تصدیق کریں کہ ( معاذ اللہ) رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں انہیں نہیں معلوم کہ میں کیا کر رہا ہوں اور کیا کہہ رہا ہوں؟ یہ تو آنحضرت(ص) کے لئے سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے بلکہ یہ محال ہے اور شیعہ اس کے قائل نہیں ہیں.

یہاں محقق کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی بحث میں خدا سے ڈرے عصبیت پرستی سے کام نہ لے کہ راہ حق سے ہٹ جائے اور ہوائے نفس کی پیروی کرنے کے نتیجہ میں گمراہ ہوجائے، حق کےسامنے سر تسلیم خم کردینا اس لئے واجب ہے خواہ حق فریق ثانی کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو. اسے اپنے نفس کو عواطف و انانیت سے آزاد کر کے ان لوگوں میں شامل ہوجانا چاہیئے کہ جن کی خدا نے اپنے اس قول میں

۵۶

تعریف کی ہے:

( فَبَشِّرْ عِبادِ الَّذِينَ‏ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولئِكَ الَّذِينَ هَداهُمُ اللَّهُ وَ أُولئِكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبابِ‏ .) زمر آیت:18

ان لوگوں کو بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جوبات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو صاحب عقل ہیں.

اس وقت یہ بات معقول نہیں ہوگی جب یہودی کہیں کہ حق ہمارے پاس ہے، نصاری دعوی کریں کہ حق ہمارے پاس ہے. مسلمان دعوی کریں کہ حق ہمارے پاس ہے اور سب کے احکام و عقائد مختلف ہوں!

بحث کرنے والے کو تینوں ادیان کی تحقیق کرنا چاہئیے اور ان کا آپس میں موازنہ کرنا چاہئیے تاکہ حق آشکار ہوجائے.

اور یہ بات معقول نہیں ہے کہ اہلسنت یہ دعوی کریں کہ حق ہمارے ساتھ ہے. اور شیعہ کہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں. جبکہ ان کے احکام و عقائد میں اختلاف ہے. حق تو ایک ہی ہے اس کے ٹکڑے نہیں ہوسکتے.

اور بحث کرنے والے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ غیر جانبدار ( نیوٹرل) ہو کے طرفین کے اقوال کی تحقیق کرے. اور ایک دوسرے کا موازنہ کرے اور عقل سے فیصلہ کرے تاکہ اس پر حق آشکار ہوجائے. یہ تو ہر حق کے دعویدار فرقہ کے لئے خدا کی ندا ہے، چنانچہ فرماتا ہے:

( قُلْ‏ هاتُوا بُرْهانَكُمْ‏ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ ‏) بقرہ/111

۵۷

ان سے کہدیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل لے آئو.

اکثریت حق پر گامزن نہیں ہے. بلکہ مسئلہ اس کے برعکس ہے جو کہ صحیح ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( وَ إِنْ‏ تُطِعْ‏ أَكْثَرَ مَنْ‏ فِي‏ الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ) انعام/116

اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کر لیں گے تو یہ راہ خدا سے بہکا دیں گے.

نیز فرماتا ہے:

( وَ ماأ َكْ ثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْ تَ بِمُؤْ مِنِي نَ ) یوسف/103

آپ کسی قدر کیوں نہ چاہیں انسانوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ہے.

اور جس طرح تہذیب و تمدن اور ٹیکنالوجی و دولت مندی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ مغرب حق پر اور مشرق باطل پر ہے خداوند عالم فرماتا ہے:

( فَلا تُعْجِبْكَ‏ أَمْوالُهُمْ وَ لا أَوْلادُهُمْ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِها فِي الْحَياةِ/ الدُّنْيا وَ تَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كافِرُونَ ‏) التوبة/ 55

تمہیں ان کے اموال اور اولاد حیرت میں نہ ڈال دیں. پس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر ہی میں ان کی جان نکل جائے.

۵۸

خدا سے متعلق اہل ذکر کا نظریہ

حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بَطَنَ‏ خَفِيَّاتِ‏ الْأَمُوُرِ وَ دَلَّتْ عَلَيْهِ أَعْلَامُ الظُّهُورِ وَ امْتَنَعَ عَلَى عَيْنِ الْبَصِيرِ فَلَا قَلْبُ مَنْ لَمْ يَرَهُ يُنْكِرُهُ وَ لَا عَيْنُ مَنْ أَثْبَتَهُ تُبْصِرُهُ سَبَقَ فِي الْعُلُوِّ فَلَا شَيْ‏ءَ أَعْلَى مِنْهُ وَ قَرُبَ فِي الدُّنُوِّ فَلَا شَيْ‏ءَ أَقْرَبُ مِنْهُ فَلَا اسْتِعْلَاؤُهُ بَاعَدَهُ عَنْ شَيْ‏ءٍ مِنْ خَلْقِهِ وَ لَا قُرْبُهُ سَاوَاهُمْ فِي الْمَكَانِ بِهِ لَمْ يُطْلِعِ الْعُقُولَ عَلَى تَحْدِيدِ صِفَتِهِ وَ لَمْ يَحْجُبْهَا عَنْ وَاجِبِ مَعْرِفَتِهِ فَهُوَ الَّذِي تَشْهَدُ لَهُ أَعْلَامُ الْوُجُودِ عَلَى إِقْرَارِ قَلْبِ ذِي الْجُحُودِ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يَقُولُ الْمُشَبِّهُونَ بِهِ وَ الْجَاحِدُونَ لَهُ عُلُوّاً كَبِيراً.

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ‏ يَسْبِقْ‏ لَهُ‏ حَالٌ‏ حَالًا فَيَكُونَ أَوَّلًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ آخِراً وَ يَكُونَ ظَاهِراً قَبْلَ أَنْ يَكُونَ بَاطِناً كُلُّ مُسَمًّى بِالْوَحْدَةِ غَيْرَهُ قَلِيلٌ وَ كُلُّ عَزِيزٍ غَيْرَهُ ذَلِيلٌ وَ كُلُّ قَوِيٍّ غَيْرَهُ ضَعِيفٌ وَ كُلُّ مَالِكٍ غَيْرَهُ مَمْلُوكٌ وَ كُلُّ عَالِمٍ غَيْرَهُ مُتَعَلِّمٌ وَ كُلُّ قَادِرٍ غَيْرَهُ يَقْدِرُ وَ يَعْجِزُ وَ كُلُّ سَمِيعٍ غَيْرَهُ يَصَمُّ عَنْ لَطِيفِ الْأَصْوَاتِ وَ يُصِمُّهُ كَبِيرُهَا

۵۹

وَ يَذْهَبُ عَنْهُ مَا بَعُدَ مِنْهَا وَ كُلُّ بَصِيرٍ غَيْرَهُ يَعْمَى عَنْ خَفِيِّ الْأَلْوَانِ وَ لَطِيفِ الْأَجْسَامِ وَ كُلُّ ظَاهِرٍ غَيْرَهُ [غَيْرُ بَاطِنٍ‏] بَاطِنٌ وَ كُلُّ بَاطِنٍ غَيْرَهُ غَيْرُ ظَاهِرٍ لَمْ يَخْلُقْ مَا خَلَقَهُ لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ وَ لَا تَخَوُّفٍ مِنْ عَوَاقِبِ زَمَانٍ وَ لَا اسْتِعَانَةٍ عَلَى نِدٍّ مُثَاوِرٍ وَ لَا شَرِيكٍ مُكَاثِرٍ وَ لَا ضِدٍّ مُنَافِرٍ وَ لَكِنْ خَلَائِقُ مَرْبُوبُونَ وَ عِبَادٌ دَاخِرُونَ لَمْ يَحْلُلْ فِي الْأَشْيَاءِ فَيُقَالَ هُوَ [فِيهَا] كَائِنٌ وَ لَمْ يَنْأَ عَنْهَا فَيُقَالَ هُوَ مِنْهَا بَائِنٌ لَمْ يَؤُدْهُ خَلْقُ مَا ابْتَدَأَ وَ لَا تَدْبِيرُ مَا ذَرَأَ وَ لَا وَقَفَ بِهِ عَجْزٌ عَمَّا خَلَقَ وَ لَا وَلَجَتْ عَلَيْهِ شُبْهَةٌ فِيمَا قَضَى وَ قَدَّرَ بَلْ قَضَاءٌ مُتْقَنٌ وَ عِلْمٌ مُحْكَمٌ وَ أَمْرٌ مُبْرَمٌ الْمَأْمُولُ مَعَ النِّقَمِ الْمَرْهُوبُ مَعَ النِّعَمِ. لَيْسَ‏ لِأَوَّلِيَّتِهِ‏ ابْتِدَاءٌ وَ لَا لِأَزَلِيَّتِهِ انْقِضَاءٌ هُوَ الْأَوَّلُ وَ لَمْ يَزَلْ وَ الْبَاقِي بِلَا أَجَلٍ خَرَّتْ لَهُ الْجِبَاهُ وَ وَحَّدَتْهُ الشِّفَاهُ حَدَّ الْأَشْيَاءَ عِنْدَ خَلْقِهِ لَهَا إِبَانَةً لَهُ مِنْ شَبَهِهَا لَا تُقَدِّرُهُ الْأَوْهَامُ بِالْحُدُودِ وَ الْحَرَكَاتِ وَ لَا بِالْجَوَارِحِ وَ الْأَدَوَاتِ لَا يُقَالُ لَهُ مَتَى وَ لَا يُضْرَبُ لَهُ أَمَدٌ بِحَتَّى الظَّاهِرُ لَا يُقَالُ مِمَّ وَ الْبَاطِنُ لَا يُقَالُ فِيمَ لَا شَبَحٌ فَيُتَقَصَّى وَ لَا مَحْجُوبٌ فَيُحْوَى تَعَالَى عَمَّا يَنْحَلُهُ الْمُحَدِّدُونَ مِنْ صِفَاتِ الْأَقْدَارِ وَ نِهَايَاتِ الْأَقْطَارِ وَ تَأَثُّلِ الْمَسَاكِنِ وَ تَمَكُّنِ الْأَمَاكِنِ فَالْحَدُّ لِخَلْقِهِ مَضْرُوبٌ وَ إِلَى غَيْرِهِ مَنْسُوبٌ لَمْ يَخْلُقِ

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291