اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟13%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 37901 / ڈاؤنلوڈ: 5176
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اس وقت تک اہلسنت اپنے عقیدوں کو نہیں بدل سکتے ہیں مگر یہ کہ وہ اندھی تقلید سے آزادی حاصل کرلیں، اور ائمہ ہدی(ع)، عترت نبی(ص)، باب العلم سے رجوع کریں...

یہ دعوت اہلسنت کے بزرگ افراد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ذہین نوجوانوں سے بھی اس کا تعلق ہے بہتر ہے کہ وہ اندھی تقلید سے آزاد ہوجائیں، اور دلیل و برہان کا اتباع کریں.

دوسرا سوال

عدل الہی اور جبر سے متعلق

خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَ قُلِ‏ الْحَقُ‏ مِنْ رَبِّكُمْ- فَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَ مَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ ) الکہف آیت/۲۹

اور کہدو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے، اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کافر ہوجائے.

( لا إِكْراهَ‏ فِي‏ الدِّينِ‏ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ) بقرہ آیت/۲۵۶

دین میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے ہدایت گمراہی سے الگ اور واضح ہوچکی ہے.

۴۱

( فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ‏ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ. وَ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ‏ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ‏) زلزلہ آیت/۸

اور جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا.

( إِنَّما أَنْتَ مُذَكِّرٌ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ ) غاشیہ آیت/۲۲

تم صرف نصیحت کرنے والے ہو تم ان سب پر مسلط اور ان کے ذمہ دار نہیں ہو.

پھر تم ان احادیث کو کیوں قبول کرتے ہو جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی ہیں کہ خدا نے اپنے بندوں کے افعال کو ان کی پیدائش سے قبل ہی مقدر کر دیا تھا. بخاری نے اپنی صحیح(۱) میں روایت کی ہے کہ:

آدم اور موسی میں حجت ہوگئی تو موسی نے فرمایا کہ:

اے آدم آپ ہمارے باپ ہیں لیکن آپ نے ہمیں مصیبت میں مبتلا کیا اور جنت سے نکلوا دیا.

جناب آدم نے فرمایا: اے موسی خدا نے تمہیں، اپنے کلام کے لئے منتخب کیا اور اپنے ہاتھ سے تمہارے لئے لکھا کیا تم مجھے اس بات پر ملامت کر رہے ہو جو خدا نے میرے لئے میری خلقت سے چالیس سال قبل ہی مقدر کر دی تھی.

____________________

۱. صحیح بخاری جلد ۷ ص۲۱۴ کتاب القدر باب تحاج آدم و موسی، صحیح مسلم جلد ۸، ص۴۹

۴۲

پس آدم نے موسی پر تین حجتیں قائم کیں.

مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ(۱) :

تم میں سے ہر ایک کی خلقت اس طرح ہوتی ہے کہ اپنی ماں کے بطن میں چالیس روز رہتا ہے پھر اس کا علقہ ( گوشت کا لوتھڑا) بن جاتا ہے. پھر اس حالت میں چالیس روز رہتا ہے اور اس کے بعد مضغہ بن جاتا ہے اور چالیس روز تک اسی حالت میں رہتا ہے پھر فرشتہ کو بھیجا جاتا ہے، وہ اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار چیزوں کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا رزق، موت و عمل اور اس کی شقاوت و سعادت کو لکھ دی جائے، قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، تم میں سے جو بھی جنت کے لئے عمل انجام دے گا یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان فقط ایک گزر کا فاصلہ رہ جائے گا. تو وہ ( تقدیر کا) نوشتہ آگے بڑھ کر اس کی راہ روک دے گا اور وہ ایسے کام انجام دیگا جو جہنم میں لے جاتے ہیں، اور تم میں سے جو بھی برے کام انجام دے گا یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک گزر کا فاصلہ رہ جائے گا، تو وہ ( تقدیر کا) نوشتہ آگے بڑھے گا اور انسان اچھے کام انجام دینے لگے گا اور وہ اسے جنت میں لے جائیں گے.

____________________

۱.صحیح مسلم جلد۸،ص۴۴ کتاب القدر بابکیفیة خلق الآدم فی بطن امه ، صحیح بخاری جلد۷، ص۲۱۰

۴۳

اسی طرح مسلم نے اپنی صحیح میں ام المومنین عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا رسول(ص) کو انصار میں سے کسی بچہ کی میت پر بلایا گیا تو میں نے کہا: خوشا نصیب اس کا کہ وہ جنت کا پرندہ ہے کیونکہ اس نے کوئی برا کام انجام نہیں دیا اور نہ اس سے واقف تھا. آپ نے فرمایا:

اے عائشہ اس کے علاوہ اور بہت کچھ! خدا نے جنت کے اہل پیدا کئے ہیں اور جنت کو ان کے لئے پیدا کیا ہے، اور جہنم کے بھی اہل پیدا کئے ہیں اور جہنم کو ان کے لئے پیدا کیا ہے در آنحالیکہ وہ اپنے آباء و اجداد کے صلبوں ہی میں تھے.(۱) بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ ایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ(ص) کیا اہل بہشت اہل جہنم سے پہچانے جاتے ہیں؟ فرمایا ہاں: تو اس نے کہا کہ پس ہم لوگ عمل کیوں انجام دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو عمل انجام دیا جاتا ہے وہ اسی کے لئے خلق کیا گیا ہے یا اس کے انجام دینے پر مجبور ہے.(۲) پروردگارا تو پاک ہے، حمد تیرے ہی لئے مخصوص ہے، تو اس ظلم سے پاک و بلند ہے. ہم ان حدیثوں کو کیسے قبول کر لیں جو تیری کتاب کے سراسر خلاف ہیں اور جس میں تو نے فرمایا ہے کہ:

( إِنَ‏ اللَّهَ‏ لا يَظْلِمُ‏ النَّاسَ شَيْئاً وَ لكِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ‏) یونس/۴۴

اللہ انسانوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خود ہی اپنے اوپر

____________________

۱.صحیح مسلم جلد ۸، ص۵۵ کتاب القدر باب کل مولود یولد علی الفطرۃ

۲ صحیح مسلم جلد ۷، ص۲۱۰ کتاب القدر باب جف القلم علی علم اللہ

۴۴

کیا کرتے ہیں.

( إِنَ‏ اللَّهَ‏ لا يَظْلِمُ‏ مِثْقالَ ذَرَّةٍ ) نساء/۴۰

خدا کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے.

( وَ لا يَظْلِمُ‏ رَبُّكَ‏ أَحَداً) کہف/۴۹ اور تمہارے پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے.

( وَ ما ظَلَمَهُمُ‏ اللَّهُ‏ وَ لكِنْ كانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ‏ ) آل عمران آیت/۱۱۷

اور خدا نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں.

( وَ ما كانَ‏ اللَّهُ‏ لِيَظْلِمَهُمْ‏ وَ لكِنْ كانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ .) توبہ/۷۰، عنکبوت/۴۰، روم/۹

خدا کسی پر ظلم کرنے والا نہیں ہے، لوگ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں.

( وَ ما ظَلَمْناهُمْ‏ وَ لكِنْ كانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ‏) زخرف آیت/۷۶

اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا ہے یہ تو خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے.

( ذلِكَ‏ بِما قَدَّمَتْ‏ يَداكَ وَ أَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ) انفال آیت/۵۱

یہ اس لئے کہ تمہارے پچھلے اعمال کا نتیجہ یہی ہے اور خدا اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے.

۴۵

( مَنْ‏ عَمِلَ‏ صالِحاً فَلِنَفْسِهِ وَ مَنْ أَساءَ فَعَلَيْها وَ ما رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ) فصلت/۴۶

جو بھی نیک عمل کرے گا وہ اپنے لئے کرے گا اور جو برا کرے گا اس کا ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہوگا اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے.

اور حدیث قدسی میں فرماتا ہے:

میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا ہے اور تمہارے لئے بھی حرام قرار دیا ہے پس ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو.

پس وہ مسلمان جو خدا اور اس کی عدالت و رحمت پر ایمان رکھتا ہے وہ اس بات کو کیسے تسلیم کرسکتا ہے کہ خدا نے لوگوں کو پیدا کیا اور ان میں سے بعض کو جنت نشین اور بعض کو جہنم مکین بنا دیا. اور ان کے تمام اعمال کو معین کردیا. پس ہر ایک شخص ان کاموں کے انجام دینے پر مجبور ہے. ان روایات کے لحاظ سے کہ جو قرآن کریم کے مخالف ہیں اور اس فطرت کے خلاف ہیں جس پر خدا نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اور عقل و وجدان کے خلاف بھی ہیں اور انسانوں کے حقوق وسیع نہیں ہیں.

ہم اس مذہب کو کیسے قبول کر لیں جو عقلوں کو اس بات میں محدود کرتا ہے کہ انسان خوف کا لوتھڑا ہے جو قدرت کے ہاتھوں کی کٹھپتلی ہے. وہ جیسے چاہتی ہے نچاتی ہے تاکہ اس کے بعد اسے جہنم میں ڈال دے. یہ وہ عقیدہ ہے جو عقلوں کوخلق و ایجاد اور تعجب خیز اختراع و ارتقا سے باز رکھتا ہے اور انسان بے حس و حرکت بن جاتا ہے. اور اسی حالت پر برقرار رہتا ہے جس میں

۴۶

ہے. یا جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر خوش رہتا ہے اس لئے کہ وہ مجبور پیدا کیا گیا ہے.

ہم ان روایات کو کیسے قبول کر لیں جو عقل سلیم کے خلاف ہیں جو ہمارے لئے ایسا تصور پیش کرتی ہیں کہ خدا خالق جبار، قوی ہے، اور اسے حق ہے کہ وہ اپنے کمزور بندوں کو اس لئے پیدا کرے کہ جہنم کی آگ میں جلایا جائے، کسی جرم کی بناء پر نہیں کیونکہ اسے یہ بھی اختیار ہے کہ وہ جو چاہے کرے. کیا عقلا ایسے خدا کو رحیم، حکیم اور عادل کہتے ہیں؟

اگر ہم غیر مسلم علما اور ذہین افراد سے گفتگو کریں اور انہیں یہ بتائیں کہ ہمارا پروردگار ان صفات کا حامل ہے، اور ہمارا دین لوگوں کی پیدائش سے قبل ہی ان کی شقاوت و سعادت کی فیصلہ کردیتا ہے تو کیا وہ اسلام قبول کر لیں گے؟ اور گروہ گروہ دین میں داخل ہوں گے؟؟

پروردگارا! تو پاک ہے، یہ وہ خرافات ہیں جنہیں امویوں نے اپنے عیوب کی پردہ پوشی کے لئے رواج دیا ہے، محقق اس راز سے بخوبی واقف ہے، یہ باطل قول ہے کیونکہ تیرے کلام کے مخالف ہے.

تیرے رسول(ص) نے تیری طرف جھوٹ کی نسبت نہیں دی ہے کہ جو تیری وحی کے خلاف ہو، یہ تو ثابت ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا کہ:

جب تمہارے پاس میری کوئی حدیث پہونچے تو اسے خدا کی کتاب سے ملائو، اگر کتاب خدا کے موافق ہے تو اسے لے لو اور اگر اس کے خلاف ہے تو اسے دیوار پر دے مارو!

یہ تمام اور ایسی ہی بہت سی حدیثیں ہیں کہ جو کتاب خدا، سنت

۴۷

رسول(ص) اور وجدان و عقل کے خلاف ہیں. لہذا انہیں دیوار پر مار دینا چاہیئے اور ان کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئیے. اگرچہ انہیں بخاری و مسلم ہی نے نقل کیا ہو، کیونکہ بخاری اور مسلم معصوم عن الخطا نہیں ہیں. اس جھوٹے دعوے کی رد کے لئے ہماری یہ دلیل کافی ہے کہ اللہ نے بشریت کی طویل تاریخ میں اپنی مخلوق کے پاس انبیاء و مرسلین بھیجے تاکہ مفسد بندوں کی اصلاح کریں، اور صراط مستقیم کی ہدایت کریں، اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیں. اور صالح بندوں کو جنت کی بشارت دیں، اور مفسد لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں.

خدا اپنے بندوں کے حق میں عادل و رحیم ہے، اور ان ہی لوگوں پر عذاب کرے گا جن کے پاس رسول بھیج کر حجت تمام کر دی ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

( مَنِ‏ اهْتَدى‏ فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَ مَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها وَ لا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى‏ وَ ما كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا ) اسرا/۱۵

جو شخص بھی ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے فائدہ کے لئے کرتا ہے، اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے وہ بھی اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے اور ہم تو اس وقت تک عذاب کرنے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں.

پس جن روایات کو بخاری و مسلم نے جمع کیا ہے اور جن سے یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ خدا اپنے بندوں کے اعمال ان کی پیدائش سے قبل ہی لکھ دیتا ہے. ان میں سے بعض کو جنتی اور بعض کو جہنمی قرار دیتا ہے. جیسا کہ

۴۸

ہم پہلے بھی اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں. اور اس بات پر اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے.

میں کہتا ہوں اگر یہ صحیح ہے تو رسولوں کی، بعثت اور کتابوں کا نزول بے کار ہوگا! خداتوند عالم اس سے بزرگ و برتر ہے، خدا نے وہی مقدر کیا جو حق تھا. پس ہمیں اس قسم کی باتیں کہنے کا حق نہیں ہے، معبود! تو اس بہتان عظیم سے پاک ہے.

( تِلْكَ‏ آياتُ‏ اللَّهِ‏ نَتْلُوها عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَ مَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعالَمِينَ ‏) آل عمران/ ۱۰۸

یہ آیات الہی ہیں جن کی ہم حق کے ساتھ تلاوت کر رہے ہیں اور اللہ عالمین کے بارے میں ہرگز ظلم نہیں چاہتا.

اس کا جواب ائمہ ہدی، مصابیح الدجی، منارة امت کے پاس یہ ہے کہ خداوند عالم ظلم اور کار عبث سے بری ہے.

آئیے ہم باب مدینة العلم امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے کچھ سنیں، وہ لوگوں کے لئے اس اعتقاد کی تشریح فرماتے ہیں کہ جو ان بعض مسلمانوں کے ذہن میں تھا جنہوں نے باب مدینة العلم کو چھوڑ دیا تھا. چنانچہ آپ نے ایک صحابی کے جواب میں اس وقت فرمایا جب اس نے یہ سوال کیا تھا کہ: کیا ہمارا شام جانا اللہ کی قضا و قدر کے مطابق ہے؟ فرمایا:

" وَيْحَكَ‏ لَعَلَّكَ‏ ظَنَنْتَ‏ قَضَاءً لَازِماً وَ قَدَراً حَاتِماً لَوْ كَانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ لَبَطَلَ الثَّوَابُ وَ الْعِقَابُ وَ سَقَطَ الْوَعْدُ وَ الْوَعِيدُ إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ أَمَرَ عِبَادَهُ

۴۹

تَخْيِيراً وَ نَهَاهُمْ تَحْذِيراً وَ كَلَّفَ يَسِيراً وَ لَمْ يُكَلِّفْ عَسِيراً وَ أَعْطَى عَلَى الْقَلِيلِ كَثِيراً وَ لَمْ يُعْصَ مَغْلُوباً وَ لَمْ يُطَعْ مُكْرِهاً وَ لَمْ يُرْسِلِ الْأَنْبِيَاءَ لَعِباً وَ لَمْ يُنْزِلِ الْكُتُبَ لِلْعِبَادِ عَبَثاً وَ لَا خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا( ذلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ ) (۱)

خدا تم پر رحم کرے شاید تم نے حتمی و لازمی قضا و قدر سمجھ لیا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تھ پھر نہ ثواب کا سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی ہوتے نہ وعید کے، خداوند عالم نے بندوں کو مختار بنا کر مامور کیا ہے(عذاب سے) ڈراتے ہوئے نہی کی ہے، اس نے آسان تکلیف دی ہے، دشواریوں سے بچایا ہے، قلیل اعمال کا زیادہ اجر عطا کرتا ہے. اس کی نافرمانی اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ مغلوب ہوگیا ہے، اور نہ اس کی اطاعت اس لئے کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کی رکھا ہے،اس نے انبیاء کو بطور تفریح نہیں بھیجا، اور نہ بندوں کے لئے کتابیں بے فائدہ نازل کی ہیں، اور نہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اسے بیکار پیدا کیا ہے، یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں

____________________

۱.نہج البلاغہ، شرح محمد عبدہ جلد/۴ ص۶۷۳.۶۷۴

۵۰

نے کفر اختیار کیا. افسوس ہے ان لوگوں پر جنہوں نے کفر اختیار کر کے آتش جہنم کمائی.

یہاں یہ بات ذکر کر دینا مناسب ہے کہ اہلسنت والجماعت خدا کو ظلم اور کار عبث سے پاک سمجھتے ہیں، اس سلسلہ میں جب آپ ان میں سے کسی سے سوال کریں گے تو وہ خدا کی طرف ظلم کی نسبت نہیں دے گا لیکن اس کا نفس ان احادیث کی تردید کرنے میں پس و پیش میں پڑ جاتا ہے کہ جن کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے وہ انہیں صحیح سمجھتا ہے. اسی لئے آپ اسے معقول بحث کے وقت دیکھیں گے کہ وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ خدا کے لئے اس(فعل) کو ظلم نہیں کہا جاتا، کیونکہ وہ خالق ہے اور خالق کو اپنی مخلوقات کے بارے میں سب کچھ کرنے کا حق ہے!

اور جب اس سے یہ سوال ہوتا ہے کہ خدا کسی بندے کی خلقت سے قبل اس کے جہنمی ہونے کا کیسے حکم لگاتا ہے، کیا اس لئے کہ اس نے اس بندے کے لئے پہلے ہی شقاوت لکھ دی تھی، اور دوسرے بندے کےلئے اس کی خلقت سے قبل ہی جنتی ہونے کا حکم لگا دیتا ہے کیا اس لئے کہ خدا نے پہلے ہی سعادت لکھ دی تھی، کیا اس میں دونوں کے لئے ظلم نہیں ہے؟ کیونکہ جو جنت میں داخل ہو رہا ہے وہ اپنے عمل کی بنا پر نہیں، بلکہ خدا نے اس کے لئے جنت کو مقرر کیا تھا، اسی طرح جہنم میں داخل ہونے والا بھی اپنے گناہوں کی بنا جہنم میں داخل نہیں ہو رہا ہے بلکہ یہ تو خدا نے اس کے لئے مقرر کر دیا تھا، کیا یہ ظلم اور کیا قرآن کے خلاف نہیں ہے؟ تو پاک و پاکیزہ ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے. اس کے اس متناقض موقف کے بارے میں آپ کچھ نہیں سمجھ سکتے. یہ تو واضح ہے اس لئے کہ وہ بخاری و مسلم کو قرآن کی

۵۱

مانند سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ کتاب خدا کے بعد صحیح ترین کتاب بخاری اور مسلم ہے، یہ ہیں وہ مصائب جن میں مسلمان مبتلا ہیں. اموی اور ان کے بعد عباسی اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے کہ ان کی بدعت اور عقائد پھیل گئے. ان کے آثار اور بے نتیجہ سیاست آج تک باقی ہے کیونکہ مسلمان اسے بہت بڑی میراث سمجھتے ہیں اس لئے کہ ان کے خیال میں انہوں نے نبی(ص) کی صحیح حدیثوں کو جمع کیا ہے اگر مسلمانوں کو یہ معلوم ہوجاتا کہ انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے رسول(ص) کی طرف کتنی جھوٹی باتوں کی نسبت دی ہے تو وہ کبھی ان حدیثوں کی تصدیق نہ کرتے خصوصا ان حدیثوں کی جو کتابِ خدا کی مخالف ہیں.

(قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ­داری خدا نے خود لی ہے وہ صحابہ کے پاس محفوظ تھا، صحابہ نبی(ص) کو پڑھ کر سنایا کرتے تھے اس لئے وہ ( بنی امیہ و بنی عباس) قرآن میں تو تحریف نہ کرسکے لیکن سنت مطہرہ میں جیسی چاہی، جس کے لئے چاہی حدیث گڑھ لی، وہ محافظ قرآن و سنت، اہل بیت(ع) کے دشمن تھے، ہر حادثہ کے لئے ایک حدیث گڑھ لی، اور اسے نبی(ص) کی طرف منسوب کر دی اور مسلمانوں کو یہ فریب دیا کہ تمام حدیثوں سے زیادہ یہ حدیثیں صحیح ہیں، پس مسلمانوں نے حس ظن کرتے ہوئے انہیں مان لیا اور میراث کے طور پر انہیں ایک دوسرے کی طرف منتقل کرتے رہے، حق تو یہ ہے کہ شیعوں نے بھی رسول (ص) یا ائمہ(ع) میں سے کسی نہ کسی کی حدیث میں کمی زیادتی کی ہے اور اسے رسول(ص) کی طرف منسوب کر دیا،طول تاریخ اس فعل سے مسلمانوں میں سنی، شیعہ کوئی نہیں بچا، لیکن شیعہ اہلسنت والجماعت پر تین چیزوں میں فوقیت رکھتے ہیں. یہ تین چیزیں انہیں تمام اسلامی فرقوں پر امتیاز بخشتی ہیں.

۵۲

اور ان کے صحیح اور قرآن و سنت و عقل کے مطابق عقائد کو ظاہر کرتی ہیں. وہ تین چیزیں یہ ہیں:

اوّلا وہ اہلبیت(ع) سے محبت رکھتے ہیں اور ان پر کسی کو فوقیت نہیں دیتے، اور یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ اہلبیت(ع) وہ ہیں جن سے خدا نے رجس و کثافت کو دور رکھا ہے اور انہیں اس طرح پا ک فرمایا جس طرح حق تھا.

ثانیا ائمہ اہلبیت(ع) بارہ(۱۲) ہیں جن کی حیات کا سلسلہ تین صدیوں پر محیط ہے، اور یہ سب کےسب تمام احکام و احادیث کے سلسلہ میں متفق ہیں، ان کے درمیان ان چیزوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے جو ان کے شیعوں نے علم و معرفت کے ذریعہ حاصل کی ہے. ان کے عقائد وغیرہ میں کوئی تناقض نہیں ہے.

ثالثا انہیں اپنی کتابوں میں خطا و صواب کے احتمال کا اعتراف ہے، کتاب خدا کے سوائ کہ جس میں کسی طرح سے باطل داخل نہیں ہوسکتا،، کسی بھی کتاب کو کلی طور پر صحیح نہیں سمجھتے ہیں. آپ کی اطلاع کے لئے اتنا کافی ہے کہ ان کی عظیم ترین کتابوں میں سے ایک اصول کافی ہے. وہ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں ہزاروں حدیثیں جھوٹی ہیں. لہذا آپ نے ان کے علماء و مجتہدین کو دیکھا ہوگا کہ وہ مستقل تحقیق اور چھان بین میں لگے رہتے ہیں پس ان کتابوں سے انہیں احادیث کو لیتے ہیں جو متن اور سند کے لحاظ سے صحیح ثابت ہوتی ہیں اور قرآن و عقل کے خلاف نہیں ہوتیں.

لیکن اہلسنت نے اپنے اوپر ان کتابوں کو لازم قرار دے

۵۳

لیا ہے وہ جنہیں صحاح ستہ کا نام دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان میں ہے وہ سب صحیح ہے اہلسنت کی اکثریت بغیر کسی تحقیق و جستجو کے یہ بات کہتی ہے، ورنہ ان کتابوں میں بہت سی ایسی احادیث مروی ہیں کہ جن کی بنیاد علمی دلیل پر استوار ہے، بلکہ ان میں صریح طور پر کفر موجود ہے. اور قرآن و اخلاق و افعال رسول(ص) کے سراسر خلاف ہیں اس سلسلہ میں قارئین کے لئے شیخ محمود ابوریہ مصری کی کتاب"اضوا علی السنة المحمدیة " کا مطالعہ کافی ہوگا اس سے معلوم ہوجائے گا کہ صحاح ستہ کی کیا قدر و قیمت ہے. بحمد اللہ اب بہت سے جوان محققین ان زنجیروں سے آزاد ہوگئے ہیں، اور حق و باطل میں فرق کرنے لگے ہیں بلکہ ان کے متعصب سرغنہ میں سے بھی بہت سے صحاح کی روایات کا انکار کرنے لگے ہیں، لیکن اس لئے نہیں کہ ان کے نزدیک ان بعض احادیث میں ضعف ثابت ہوگیا ہے بلکہ اس لئے کہ ان میں شیعوں کی حجت و دلیل موجود ہے کہ جن کے ذریعہ وہ فقہی احکام اور غیبت کے عقائد ثابت کرتے ہیں، جس عقیدہ و حکم کے شیعہ قائل ہیں وہ صحاح ستہ میں سے کسی نہ کسی میں آج بھی موجود ہے.

بعض متعصبوں نے مجھ سے کہا کہ جب تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ بخاری کی حدیثیں صحیح نہیں ہیں تو اس کی حدیثوں سے احتجاج کیوں کرتے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ نہ ہی بخاری کی ساری حدیثیں صحیح ہیں اور نہ ساری جھوٹی ہیں حق حق ہے باطل، باطل ہے اس میں فرق کرنا ہمارا کام ہے.

ایک صاحب نے کہا: کیا آپ کے پاس کوئی خاص خوردبین ہے کہ جو صحیح و غلط کو بتاتی ہے؟ میں نے کہا : جو تمہارے پاس ہے وہی ہمارے پاس ہے. جس بات پر سنی شیعہ متفق ہیں وہ صحیح ہے کیونکہ طرفین کے نزدیک اس کی صحت ثابت ہوچکی ہے. ہم اہلسنت سے انہیں کو قبول کرنے کے لئے کہتے ہیں.

۵۴

جن کو خود صحیح سمجھتے ہیں. جس حدیث میں اختلاف ہے خواہ وہ ایک کے نزدیک صحیح بھی ہو اس کو مدمقابل کے لئے حجت قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، اسے قبول کر لینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے، بالکل اسی طرح غیر مسلم کو بھی ہم اس کے قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کے ذریعہ اس پر حجت قائم کرسکتے ہیں....

اس سلسلہ میں میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ جس کے بعد کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا. اور نہ ہی متعدد طریقوں سے اس تنقید کو رد کیا جاسکے گا.

شیعوں کا دعوی ہے کہ رسول(ص) نے۱۸ ذی الحجہ کو حجة الوداع کے روز غدیر خم میں علی(ع) کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا اور فرمایا:

" من‏ كنت‏ مولاه‏ فهذا مولاه اللّهمّ وال من والاه و عاد من عاداه "

جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی(ع) مولا ہیں بار الہا علی(ع) کے دوست کو دوست اور علی(ع) کے دشمن کو دشمن رکھ.

اس حدیث اور واقعہ کو اہلسنت والجماعت کے بہت سے علماء نے اپنی صحاح و مسانید اور تواریخ میں نقل کیا ہے، پس شیعہ اس سے اہلسنت پر حجت قائم کرسکتے ہیں.

اہل سنت والجماعت کا دعوی ہے کہ رسول(ص) نے مرض موت میں ابوبکر کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں اور فرمایا: خدا و رسول(ص) اور مومنین صرف ابوبکر سے راضی ہیں.

شیعوں کی کتابوں میں اس حدیث و واقعہ کا کہیں وجود نہیں

۵۵

ملتا ہے، ہاں ان کے یہاں یہ روایت ملتی ہے کہ رسول(ص) نے علی علیہ السلام کو بلوایا لیکن عائشہ نے اپنے باپ ابوبکر کو بلایا، جب رسول(ص) نے یہ صورتحال دیکھی تو عائشہ سے فرمایا: " انکن لوبحیات یوسف" تم ہی جیسی عورتیں یوسف کے ساتھ بھی تھیں اور خود نماز پڑھانے کی غرض سے گھر سے نکلے اور ابوبکر کو مصلے سے ہٹا دیا: یہ انصاف نہیں ہے اہلسنت شیعوں پر ان احادیث سے احتجاج کریں کہ جو انہیں سے مخصوص ہیں، خصوصا ان احادیث سے جن میں تناقض پایا جاتا ہے اور واقعات و تاریخ ان کی تکذیب کرتی ہیں، اس لئے کہ رسول(ص) نے ابوبکر کو جیش اسامہ میں شریک ہونے کا حکم دیا تھا. اور اس لشکر کے سردار اسامہ تھے، اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ امیر لشکر ہی پیش امام ہوتا ہے. اور یہ بات تو تاریخ سے ثابت ہے کہ وفات رسول(ص) کے وقت ابوبکر مدینہ میں موجود نہیں تھے وہ تو سنح میں اپنے امیر اسامہ ابن زید کہ جن کی عمر سترہ(۱۷) سال بھی نہیں تھی، کی قیادت میں روانہ ہونے کی تیاری کررہے تھے. کیا اس کے باوجود ہم اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ رسول(ص) نے نماز کی امامت کے لئے ابوبکر کو متعین فرمایا تھا؟ مگر یہ کہ ہم عمر خطاب کے اس قول کی تصدیق کریں کہ ( معاذ اللہ) رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں انہیں نہیں معلوم کہ میں کیا کر رہا ہوں اور کیا کہہ رہا ہوں؟ یہ تو آنحضرت(ص) کے لئے سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے بلکہ یہ محال ہے اور شیعہ اس کے قائل نہیں ہیں.

یہاں محقق کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی بحث میں خدا سے ڈرے عصبیت پرستی سے کام نہ لے کہ راہ حق سے ہٹ جائے اور ہوائے نفس کی پیروی کرنے کے نتیجہ میں گمراہ ہوجائے، حق کےسامنے سر تسلیم خم کردینا اس لئے واجب ہے خواہ حق فریق ثانی کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو. اسے اپنے نفس کو عواطف و انانیت سے آزاد کر کے ان لوگوں میں شامل ہوجانا چاہیئے کہ جن کی خدا نے اپنے اس قول میں

۵۶

تعریف کی ہے:

( فَبَشِّرْ عِبادِ الَّذِينَ‏ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولئِكَ الَّذِينَ هَداهُمُ اللَّهُ وَ أُولئِكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبابِ‏ .) زمر آیت:۱۸

ان لوگوں کو بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جوبات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو صاحب عقل ہیں.

اس وقت یہ بات معقول نہیں ہوگی جب یہودی کہیں کہ حق ہمارے پاس ہے، نصاری دعوی کریں کہ حق ہمارے پاس ہے. مسلمان دعوی کریں کہ حق ہمارے پاس ہے اور سب کے احکام و عقائد مختلف ہوں!

بحث کرنے والے کو تینوں ادیان کی تحقیق کرنا چاہئیے اور ان کا آپس میں موازنہ کرنا چاہئیے تاکہ حق آشکار ہوجائے.

اور یہ بات معقول نہیں ہے کہ اہلسنت یہ دعوی کریں کہ حق ہمارے ساتھ ہے. اور شیعہ کہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں. جبکہ ان کے احکام و عقائد میں اختلاف ہے. حق تو ایک ہی ہے اس کے ٹکڑے نہیں ہوسکتے.

اور بحث کرنے والے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ غیر جانبدار ( نیوٹرل) ہو کے طرفین کے اقوال کی تحقیق کرے. اور ایک دوسرے کا موازنہ کرے اور عقل سے فیصلہ کرے تاکہ اس پر حق آشکار ہوجائے. یہ تو ہر حق کے دعویدار فرقہ کے لئے خدا کی ندا ہے، چنانچہ فرماتا ہے:

( قُلْ‏ هاتُوا بُرْهانَكُمْ‏ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ ‏) بقرہ/۱۱۱

۵۷

ان سے کہدیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل لے آئو.

اکثریت حق پر گامزن نہیں ہے. بلکہ مسئلہ اس کے برعکس ہے جو کہ صحیح ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( وَ إِنْ‏ تُطِعْ‏ أَكْثَرَ مَنْ‏ فِي‏ الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ) انعام/۱۱۶

اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کر لیں گے تو یہ راہ خدا سے بہکا دیں گے.

نیز فرماتا ہے:

( وَ ماأ َكْ ثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْ تَ بِمُؤْ مِنِي نَ ) یوسف/۱۰۳

آپ کسی قدر کیوں نہ چاہیں انسانوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ہے.

اور جس طرح تہذیب و تمدن اور ٹیکنالوجی و دولت مندی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ مغرب حق پر اور مشرق باطل پر ہے خداوند عالم فرماتا ہے:

( فَلا تُعْجِبْكَ‏ أَمْوالُهُمْ وَ لا أَوْلادُهُمْ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِها فِي الْحَياةِ/ الدُّنْيا وَ تَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كافِرُونَ ‏) التوبة/ ۵۵

تمہیں ان کے اموال اور اولاد حیرت میں نہ ڈال دیں. پس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر ہی میں ان کی جان نکل جائے.

۵۸

خدا سے متعلق اہل ذکر کا نظریہ

حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بَطَنَ‏ خَفِيَّاتِ‏ الْأَمُوُرِ وَ دَلَّتْ عَلَيْهِ أَعْلَامُ الظُّهُورِ وَ امْتَنَعَ عَلَى عَيْنِ الْبَصِيرِ فَلَا قَلْبُ مَنْ لَمْ يَرَهُ يُنْكِرُهُ وَ لَا عَيْنُ مَنْ أَثْبَتَهُ تُبْصِرُهُ سَبَقَ فِي الْعُلُوِّ فَلَا شَيْ‏ءَ أَعْلَى مِنْهُ وَ قَرُبَ فِي الدُّنُوِّ فَلَا شَيْ‏ءَ أَقْرَبُ مِنْهُ فَلَا اسْتِعْلَاؤُهُ بَاعَدَهُ عَنْ شَيْ‏ءٍ مِنْ خَلْقِهِ وَ لَا قُرْبُهُ سَاوَاهُمْ فِي الْمَكَانِ بِهِ لَمْ يُطْلِعِ الْعُقُولَ عَلَى تَحْدِيدِ صِفَتِهِ وَ لَمْ يَحْجُبْهَا عَنْ وَاجِبِ مَعْرِفَتِهِ فَهُوَ الَّذِي تَشْهَدُ لَهُ أَعْلَامُ الْوُجُودِ عَلَى إِقْرَارِ قَلْبِ ذِي الْجُحُودِ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يَقُولُ الْمُشَبِّهُونَ بِهِ وَ الْجَاحِدُونَ لَهُ عُلُوّاً كَبِيراً.

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ‏ يَسْبِقْ‏ لَهُ‏ حَالٌ‏ حَالًا فَيَكُونَ أَوَّلًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ آخِراً وَ يَكُونَ ظَاهِراً قَبْلَ أَنْ يَكُونَ بَاطِناً كُلُّ مُسَمًّى بِالْوَحْدَةِ غَيْرَهُ قَلِيلٌ وَ كُلُّ عَزِيزٍ غَيْرَهُ ذَلِيلٌ وَ كُلُّ قَوِيٍّ غَيْرَهُ ضَعِيفٌ وَ كُلُّ مَالِكٍ غَيْرَهُ مَمْلُوكٌ وَ كُلُّ عَالِمٍ غَيْرَهُ مُتَعَلِّمٌ وَ كُلُّ قَادِرٍ غَيْرَهُ يَقْدِرُ وَ يَعْجِزُ وَ كُلُّ سَمِيعٍ غَيْرَهُ يَصَمُّ عَنْ لَطِيفِ الْأَصْوَاتِ وَ يُصِمُّهُ كَبِيرُهَا

۵۹

وَ يَذْهَبُ عَنْهُ مَا بَعُدَ مِنْهَا وَ كُلُّ بَصِيرٍ غَيْرَهُ يَعْمَى عَنْ خَفِيِّ الْأَلْوَانِ وَ لَطِيفِ الْأَجْسَامِ وَ كُلُّ ظَاهِرٍ غَيْرَهُ [غَيْرُ بَاطِنٍ‏] بَاطِنٌ وَ كُلُّ بَاطِنٍ غَيْرَهُ غَيْرُ ظَاهِرٍ لَمْ يَخْلُقْ مَا خَلَقَهُ لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ وَ لَا تَخَوُّفٍ مِنْ عَوَاقِبِ زَمَانٍ وَ لَا اسْتِعَانَةٍ عَلَى نِدٍّ مُثَاوِرٍ وَ لَا شَرِيكٍ مُكَاثِرٍ وَ لَا ضِدٍّ مُنَافِرٍ وَ لَكِنْ خَلَائِقُ مَرْبُوبُونَ وَ عِبَادٌ دَاخِرُونَ لَمْ يَحْلُلْ فِي الْأَشْيَاءِ فَيُقَالَ هُوَ [فِيهَا] كَائِنٌ وَ لَمْ يَنْأَ عَنْهَا فَيُقَالَ هُوَ مِنْهَا بَائِنٌ لَمْ يَؤُدْهُ خَلْقُ مَا ابْتَدَأَ وَ لَا تَدْبِيرُ مَا ذَرَأَ وَ لَا وَقَفَ بِهِ عَجْزٌ عَمَّا خَلَقَ وَ لَا وَلَجَتْ عَلَيْهِ شُبْهَةٌ فِيمَا قَضَى وَ قَدَّرَ بَلْ قَضَاءٌ مُتْقَنٌ وَ عِلْمٌ مُحْكَمٌ وَ أَمْرٌ مُبْرَمٌ الْمَأْمُولُ مَعَ النِّقَمِ الْمَرْهُوبُ مَعَ النِّعَمِ. لَيْسَ‏ لِأَوَّلِيَّتِهِ‏ ابْتِدَاءٌ وَ لَا لِأَزَلِيَّتِهِ انْقِضَاءٌ هُوَ الْأَوَّلُ وَ لَمْ يَزَلْ وَ الْبَاقِي بِلَا أَجَلٍ خَرَّتْ لَهُ الْجِبَاهُ وَ وَحَّدَتْهُ الشِّفَاهُ حَدَّ الْأَشْيَاءَ عِنْدَ خَلْقِهِ لَهَا إِبَانَةً لَهُ مِنْ شَبَهِهَا لَا تُقَدِّرُهُ الْأَوْهَامُ بِالْحُدُودِ وَ الْحَرَكَاتِ وَ لَا بِالْجَوَارِحِ وَ الْأَدَوَاتِ لَا يُقَالُ لَهُ مَتَى وَ لَا يُضْرَبُ لَهُ أَمَدٌ بِحَتَّى الظَّاهِرُ لَا يُقَالُ مِمَّ وَ الْبَاطِنُ لَا يُقَالُ فِيمَ لَا شَبَحٌ فَيُتَقَصَّى وَ لَا مَحْجُوبٌ فَيُحْوَى تَعَالَى عَمَّا يَنْحَلُهُ الْمُحَدِّدُونَ مِنْ صِفَاتِ الْأَقْدَارِ وَ نِهَايَاتِ الْأَقْطَارِ وَ تَأَثُّلِ الْمَسَاكِنِ وَ تَمَكُّنِ الْأَمَاكِنِ فَالْحَدُّ لِخَلْقِهِ مَضْرُوبٌ وَ إِلَى غَيْرِهِ مَنْسُوبٌ لَمْ يَخْلُقِ

۶۰

الْأَشْيَاءَ مِنْ أُصُولٍ أَزَلِيَّةٍ وَ لَا مِنْ أَوَائِلَ أَبَدِيَّةٍ بَلْ خَلَقَ مَا خَلَقَ فَأَقَامَ‏ حَدَّهُ‏ وَ صَوَّرَ فَأَحْسَنَ صُورَتَهُ لَيْسَ لِشَيْ‏ءٍ مِنْهُ امْتِنَاعٌ وَ لَا لَهُ بِطَاعَةِ شَيْ‏ءٍ انْتِفَاعٌ عِلْمُهُ بِالْأَمْوَاتِ الْمَاضِينَ كَعِلْمِهِ بِالْأَحْيَاءِ الْبَاقِينَ وَ عِلْمُهُ بِمَا فِي السَّمَاوَاتِ الْعُلَى كَعِلْمِهِ بِمَا فِي الْأَرَضِينَ السُّفْلَى‏"

تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے جو چھپی ہوئی چیزوں کی گہرائیوں میں اترا ہوا ہے. اس کے ظاہر و ہویدہ ہونے کی نشانیاں اس کے وجود کا پتہ دیتی ہیں، گو وہ دیکھنے والے کی آنکھ سے نظر نہیں آتا، پھر بھی نہ دیکھنے والی آنکھ اس کا انکار نہیں کرسکتی اور جس نے اس کا اقرار کیا اس کا دل اس کی حقیقت کو نہیں پاسکتا وہ اتنا بلند و برتر ہے کہ کوئی چیز اس سے بلند­تر نہیں ہوسکتی اور اتنا قریب سے قریب­تر ہے کہ کوئی شئی اس سے قریب­تر نہیں ہے اور نہ اس کی بلندی نے اسے مخلوقات سے دور کردیا ہے. اور نہ اس کے قریب نے اسے دوسروں کی سطح پر لاکر ان کے برابر کردیا ہے. اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حدود نہایت پر مطلع نہیں کیا اور ضروری مقدار میں معرفت حاصل کرنے کے لئے ان کے آگے پردے بھی حائل نہیں کئے، وہ ذات ایسی ہے کہ جس کے وجود کے نشانات اس طرح کی شہادت دیتے ہیں کہ( زبان سے) انکار کرنے والے کا دل بھی اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا، اللہ ان لوگوں کی باتوں سے بہت بلند و برتر ہے،

۶۱

جو مخلوقات سے اس کی تشبیہ دیتے ہیں، اور اس کے وجود کا انکار کرتے ہیں.(1)

تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے کہ جس کی ایک صفت سے دوسری صفت کو تقدم نہیں کہ وہ آخر ہونے سے پہلے اول اور باطن ہونے سے پہلے ظاہر رہا ہو، اللہ کے علاوہ جسے بھی ایک کہا جائے گا وہ قلت و کمی میں ہوگا، اس کے سوا ہر باعزت ذلیل اور ہر قوی کمزور و عاجز اور ہر مالک مملوک اور ہر جاننے والا سیکھنے والے کی منزل میں ہے، اس کے علاوہ ہر قدرت و تسلط والا کبھی قادر ہوتا ہے اور کبھی عاجز اور اس کے علاوہ ہر سننے والا خفیف آوازوں کے سننے سے قاصر ہوتا ہے اور بڑی آوازیں ( آپنی گونج سے) اسے بہرا کر دیتی ہیں اور دور کی آوازیں اس تک پہونچتی نہیں ہیں اور اس کے ماسوا ہر دیکھنے والا مخفی رنگوں اور لطیف جسموں کے دیکھنے سے نابینا ہوتا ہے. کوئی ظاہر اس کے علاوہ باطن نہیں ہوسکتا اور کوئی باطن اس کے سوا ظاہر نہیں ہوسکتا. اس نے اپنی کسی مخلوق کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ اپنے اقتدار کی بنیادوں کو مستحکم کرے یا زمانےکے عواقب و نتائج سے اسے کوئی خطرہ تھا، یا کسی برابر والے کے حملہ آور ہونے یا کثرت پر اترانے والے شریک یا بلندی میں ٹکرانے والے مد مقابل کے خلاف اسے مدد حاصل کرنا تھی.

____________________

1.خطبہ/49

۶۲

بلکہ یہ ساری مخلوق اسی کے قبضے میں ہے اور سب اس کے عاجز و ناتوان بندے ہیں. وہ دوسری چیزوں میں سمایا ہوا نہیں ہے. کہ یہ کہا جائے کہ وہ ان کے اندر ہے اور نہ ان چیزوں سے دور ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ ان چیزوں سے الگ ہے ایجاد خلق اور تدبیر عالم نے اسے خستہ و درماندہ نہیں کیا. اور نہ ( حسب منشای چیزوں کے پیدا کرنے سے عجز اسے دامن گیر ہوا ہے اور نہ اسے اپنے فیصلوں اور اندازوں میں شبہ لاحق ہوا ہے. بلکہ اس کے فیصلے مضبوط، علم محکم اور احکام قطعی ہیں. مصیبت کے وقت بھی اسی کی آس رہتی ہے، اور نعمت کے وقت بھی اس کا ڈر لگا رہتا ہے.(1)

اس کی اولیت کی کوئی ابتدا اور نہ اس کی ازلیت کی کوئی انتہا ہے، وہ ایسا اول ہے جو ہمیشہ سے ہے، اور بغیر کسی مدت کی حدبندی کے ہمیشہ رہنے والا ہے پیشانیاں اس کے آگے ( سجدہ میں) گری ہوئی ہیں، اور لب اس کی توحید کے معترف ہیں اس نے تمام چیزوں کو ان کے پیدا کرنے کے وقت ہی سے جداگانہ صورتوں اور شکلوں میں محدود کردیا، تا کہ اپنی ذات کو ا ن کی مشابہت سے الگ رکھے، تصورات اسے محدود و حرکات اور اعضاء و جوارح کے ساتھ متعین نہیں کرسکتے اس کے لئے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے وہ کب سے ہے اور نہ یہ کہہ کر اس کی مدت مقرر کی جاسکتی ہے کہ وہ کب تک ہے، وہ ظاہر ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کس سے ( ظاہر ہوا) وہ باطن ہے مگر

____________________

1.خطبہ/63

۶۳

یہ نہیں کہا جائیگا کہ (کس میں) وہ نہ دور سے نظر آنے والا کوئی ڈھانچہ جو کہ مٹ جائے اور نہ کسی حجاب میں ہے کہ محدود ہوجائے. اسے محدود سمجھ لینے والے جن اندازوں اور اطراف و جوانب کی حدوں اور مکانوں میں بسنے اور جگہوں میں ٹھہرنے کو اس کی طرف منسوب کردیتے ہیں، وہ ان نسبتوں سے بہت بلند ہے. حدیں تو اس کو مخلوق کے لئے قائم کی گئی ہیں اور دوسروں ہی کی طرف ان کی نسبت دی جایا کرتی ہے اس نے اشیاء کو کچھ ایسے مواد سے پیدا نہیں کیا کہ جو ہمیشہ سے ہو اور نہ ایسی مثالوں پر بنایا کہ جو پہلے سے موجود ہوں. بلکہ اس نے جو چیز پیدا کی اسے مستحکم کیا، اورجو ڈھانچہ بنایا اسے اچھی شکل و صورت دی، کوئی اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتا نہ اس کو کسی اطاعت سے، کوئی فائدہ پہونچتا ہے. اسے پہلے مرنے والوں کا ویسا ہی علم ہے جیسا باقی رہنے والے زندہ لوگوں کا اور جس طرح بلند آسمانوں کی چیزوں کو جانتا ہے. ویسے ہی زمینوں کی چیزوں کو پہچانتا ہے.(1)

____________________

1.خطبہ/161

۶۴

دوسری فصل

رسول(ص) سے متعلق

دوسرا سوال عصمت رسول(ص) کے بارے میں

خداوند عالم اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فرماتا ہے:

( وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ‏ مِنَ‏ النَّاسِ ‏) مائدہ/67

اور خدا تمہیں لوگوں سے محفوظ رکھے گا.

نیز فرماتا ہے:

( وَ ما يَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحى ‏) نجم/3

وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے ہیں، جو وحی ہوتی ہے وہی کہتے ہیں.

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَ ما آتاكُمُ‏ الرَّسُولُ‏ فَخُذُوهُ وَ ما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ) حشر/7

۶۵

جس چیز کا رسول حکم دیں اسے بجا لائو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو.

ان آیات کو واضح دلالت رسول(ص) کی عصمت مطلقہ پر ہے، اور تم لوگ(اہلسنت) کہتے ہو کہ تبلیغ قرآن کے وقت رسول(ص) معصوم تھے. اور اس کے علاوہ دوسرے اوقات میں تمام لوگوں کو طرح صحیح کام بھی کرتے تھے اور غلط بھی اور متعدد واقعات و روایات سے اس پر استدلال کرتے ہو جیسا کہ تمہاری صحاح میں موجود ہے.

اس کے بعد آپ کے اس دعوے پر کون سی دلیل و حجت ہے کہ کتاب خدا اور سنت نبی(ص) سے تمسک کافی ہے جبکہ یہ سنت تمہارے نزدیک غیر محفوظ اور اس میں خدا کا امکان ہے.

تمہارے معتقدات کے لحاظ سے کتاب خدا اور حدیث نبی(ص) سے تمسک ضلالت و گمراہی سے محفوظ نہیں ہے، خصوصا جبکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ پورے قرآن کی تفسیر بیان کرنے والی حدیث نبی(ص) ہے، تمھارے پاس کون سی دلیل ہے کہ وہ تفسیر کتاب خدا کے مخالف نہیں ہے؟

ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ: رسول(ص) نے مصلحت کی بنا پر احکام میں بہت جگہوں پر قرآن کی مخالف کی ہے:

میں تعجب سے کہا: اس مخالفت کے سلسلے میں کوئی مثال ہے؟

اس نے کہا: قرآن کہتا ہے:

( الزَّانِيَةُ وَ الزَّانِي‏ فَاجْلِدُوا كُلَّ واحِدٍ مِنْهُما مِائَةَ جَلْدَةٍ .) نور/2

۶۶

جبکہ رسول(ص) نے زانی و زاینہ کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور یہ حکم قرآن میں نہیں ہے.

میں نے کہا : زنائے محصنہ کرنے والے ( شادی شدہ) کے لئے سنگسار کا حکم دیا ہے. خواہ مرد ہو یا عورت اورغیر شادی شدہ مرد وعورت کو کوڑے لگانے کا حکم دیا ہے.

اس نے کہا: قرآن میں شادی شدہ و غیر شادی شدہ نہیں ہے، خدا نے مخصوص طور پر نہیں بکلہ مطلق طور پر فرمایا ہے کہ : زانی و زانیہ.

میں نے کہا: اس لحاظ سے تو قرآن میں ہر حکم مطلق ہے اسے رسول(ص) نے مخصوص کیا ہے، اور یہ قرآن کے مخالف ہے. تم ہی تو کہہ رہے ہو کہ رسول(ص) نے اکثر احکام میں قرآن کی مخالفت کی ہے.

اس نے بوکھلا کے کہا: فقط قرآن معصوم ہے، کیونکہ اس کی حفاظت کی خود خدا نے ذمہ­داری لی ہے. لیکن رسول(ص) بشر ہیں، ا ن سے خطا بھی ہوسکتی ہے، جیسا کہ آپ کی شان میں قرآن فرماتا ہے:

( قُلْ إِنَّما أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ )

میں نے کہا: پھر تم صبح، ظہر و عصر اور مغرب و عشا کی نمازیں کیوں پڑھتے ہو کیونکہ قرآن نے بغیر وقت کی تخصیص کے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے؟

اس نے جواب دیا کہ: قرآن میں ہے کہ:

( إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً )

۶۷

نماز مومنین پر وقت کے ساتھ واجب کی گئی ہے. صرف رسول(ص) نماز کے اوقات بیان کردیتے ہیں.

میں نے کہا: اوقات نماز کے بارے میں رسول(ص) کی تصدیق کیوں کرتے ہو، جبکہ زانی کے لئے سنگسار کے حکم میں ان کی تردید کرتے ہو؟

موصوف نے مجھے بے نتیجہ اور متناقض فلسفہ سے مطمئن کرنے کی انتھک کوشش کی لیکن وہ اپنے مدعا پر کوئی عقلی و منطقی دلیل قائم نہ کرسکے، مثلا ان کا یہ قول کہ نماز متعلق شک کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ رسول(ص) نے اپنی پوری حیات میں ہر روز پانچ مرتبہ نماز ادا کی ہے، لیکن رجم ( سنگسار) پر اطمینان کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ آپ نے اپنی پوری زندگی میں ایک یا دو مرتبہ انجام دیا ہوگا. اسی طرح اس کا یہ کہنا کہ رسول(ص) سے اس وقت کوئی غلطی نہیں ہوتی تھی جب خدا رسول(ص) کو اپنے پیغام پہونچانے کا حکم دیتا تھا. لیکن جب اپنی طرف سے کوئی بات کہتے تھے تو وہ معصوم نہیں ہوتے تھے. اسی لئے صحابہ آپ سے ہر ایک بات میں یہ پوچھتے تھے کہ یہ آپ اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں یا خدا کا پیغام ہے، پس اگر رسول(ص) کہتے کہ خدا کی طرف سے ہے تو صحابہ بغیر چون و چرا قبول کر لیتے تھے. اور اگر یہ فرماتے کہ میں اپنی عقل سے کہہ رہا ہوں تو اس وقت صحابہ آپ(ص) سے بحث و مباحثہ کرتے اور آپ کو نصیحت کرتے تھے اور رسول(ص) صحابہ کی رائے کو تسلیم کر لیتے تھے اور کبھی تو بعض صحابہ کی رائے کی موافقت اور آپ کی رائے کی مخالفت میں قرآن نازل ہوتا تھا. جیسا کہ بدر کے قیدیوں کے سلسلہ میں ہوا ایسے اور بھی بہت سے مشہور واقعات ہیں. میں نے بھی اسے مطمئن کرنے کی پوری کوشش کی لیکن بے فائدہ ثابت ہوئی کیونکہ اہلسنت والجماعت اسی سے مطمئن ہوتے ہیں ان کی صحاح ایسی روایات سے بھری پڑی ہیں کہ جن سے رسول(ص) کی عصمت مخدوش ہوتی ہے. اور آپ کو عام

۶۸

انسانوں سے بھی پست قرار دیتی ہیں ایک ذہین یا فوج کے سپہ سالار سے یا صوفیوں کے شیخ طریقت بھی کم رتبہ انسان بنا کر پیش کرتی ہیں. میں نے اس بات میں مبالغہ نہیں کیا ہے کہ وہ عام لوگوں سے بھی رسول(ص) کو کم رتبہ سمجھتے ہیں کیونکہ جب ہم اہلسنت کی صحاح کی بعض روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان سے واضح طور پر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ امویوں کی فکر اس عہد سے آج تک مسلمانوں کی عقلوں میں کار فرما ہے.

جب ہم ان احادیث کی غرض وغایت کی تحقیق کریں گے تو ایک حتمی نتیجہ پر پہونچ جائیں گے. اور وہ یہ کہ امویوں نے اپنے عہد حکومت میں مسلمانوں سے حدیثیں گڑھوائیں، سب سے زیادہ معاویہ ابن ابو سفیان نے یہ کام کرایا. بنی امیہ ایک روز بھی اس بات کے معتقد نہیں ہوئے کہ محمد ابن عبداللہ، اللہ کے رسول(ص) یا وہ نبی برحق ہیں وہ تو زیادہ سے زیادہ آپ کو جادو گر سمجھتے تھے کہ جو لوگوں پر غالب آگئے تھے اور غریب و مستضعف لوگوں کے نام پر اپنی حکومت مضبوط کرتی تھی خصوصا غلاموں نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور مدد کی.

بنی امیہ کا یہی گمان تھا، اور بعض ظن و گمان گناہ ہوتے ہیں جب ہم تواریخ کی کتب کا مطالعہ کریں گے تو معاویہ اور اس کی شخصیت واضح ہوگی اور یہ بات بھی آشکار ہوجائے گی کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کیا خصوصا حکومت کے زمانہ میں کیا کارنامے تھے. اس وقت یہ گمان حقیقت میں بدل جائے گا.

ہم سب جانتے ہیں کہ معاویہ کون ہے، اس کی ولدیت کیا ہے، ابوسفیان، اس کی ماں ہندہ، وہ طلیق بن طلیق تھا کہ جس نے جوانی کو اپنے باپ کے ساتھ رسول(ص) سے جنگ اور ان کی تبلیغ کے خاتمہ کے لئے لشکر جمع کرنے میں گذار تھا. لیکن جب ان کی تمام کوششیں بے کار ہوگئیں اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غالب ہو گئے تو موقع غنیمت سمجھ کر اسلام قبول کر لیا. حالانکہ مطمئن نہ تھا. رسول(ص) نے بھی شرافت

۶۹

اور خلق عظیم کی بنا پر انہیں معاف کردیا اور کہدیا کہ تم آزاد ہو، لیکن رسول(ص) کی وفات حسرت آیات کے بعد ابوسفیان فتنہ پردازی اور اسلام کو نقصان پہونچانے کی کوشش کرنے لگا. ایک شب امام علی علیہ السلام کے پاس آیا اور آپ کو ابوبکر کی حکومت و خلافت کے بارے میں برانگیختہ کرنا چاہا اور کہنے لگا کہ اموال و افواج سے میں حاضر ہوں، لیکن حضرت علی علیہ السلام اس کے ارادے کو سمجھ گئے اور اس کی باتوں کو رد کردیا، ابوسفیان کی تمام عمر اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں گذری یہاں تک کہ جب خلافت کی باگ ڈور اس کے چچا زاد بھائی عثمان ابن عفان کے ہاتھوں میں آئی تو اس نے اپنے کفر و نفاق کا کھل کر اظہار کیا اور کہا: اے بنی امیہ! خلافت کو گیند کی طرح نچائو ابوسفیان قسم کھا کے کہتا ہے کہ جنت و جہنم کوئی چیز نہیں ہے.(1) ابن عساکر نے اپنی تاریخ کی جلد6 کے ص407 پر انس سے روایت کی ہے کہ جس زمانہ میں ابوسفیان کی آنکھوں کی بصارت ختم ہوچکی تھی، عثمان کے پاس آیا اور کہا کہ یہاں کوئی اور تو نہیں بیٹھا ہے؟ انھوں نے کہا کہ نہیں کوئی نہیں ہے: ابوسفیان نے کہا کہ: جاہلیت والا قانون جاری کرو، اور ملک کو آسودگی میں بدلو اور عظیم عہدوں کو بنی امیہ میں تقسیم کردو.ابوسفیان کے بیٹے معاویہ کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ معاویہ کون ہے؟ ہم یہاں اس کے حالات کو قلم بلند کر رہے ہیں. اور یہ کہ اس نے شام میں اپنی حکومت کے زمانہ میں امت محمدی(ص) کے ساتھ کیا سلوک کیا.مورخین لکھتے ہیں کہ جب معاویہ مسند خلافت پر جبرا متمکن ہوا تو اس نے قرآن و سنت کی ہتک کی، شریعت کی حدود کو پس پشت ڈال دیا اور ایسے افعال کا مرتکب ہوا جن کے لکھنے سے قلم کے تقدس پر حرف آتا ہے اور

____________________

1.طبری جلد11/ص357، مروج الذہب جلد1/ص440

۷۰

بیان کرنے سے زبان کی عظمت جاتی ہے، ہم ان عیوب پر اپنے سنی بھائیوں کی خاطر پردہ ڈالتے ہیں کیونکہ ان کے دل معاویہ کی محبت سے سرشار ہیں اور اس کا دفاع کرتے ہیں.

لیکن ہم معاویہ کے نفسیات اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں اس کے عقیدہ کو بیان کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے، عقیدہ کے سلسلہ میں معاویہ بھی اپنے باپ دادا سے جدا نہیں ہے اس نے ہندہ جگر خوار کا دودھ پیا ہے کہ جو زنا و فسق و فجور میں مشہور تھی(1) اسی طرح اسے اپنے باپ شیخ المنافقین سے میراث ملی تھی کہ جس نے دل سے کبھی اسلام قبول نہیں کیا تھا.

جیسا کہ ہم نے باپ کے نفسیات کے بارے میں بیان کیا تھا وہی آپ بیٹے کے لئے تصور کر لیجئے، لیکن معاویہ چالاکی اور نفاق میں اپنے باپ سے بھی آگے تھا.

زبیر ابن بکار مطوف ابن مغیرہ نے ابن شعبہ ثقفی سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ:

ایک روز میرے والد معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ سے گفتگو کر کے میرے پاس آئے اور معاویہ کا تذکرہ کر رہے تھے، ان کی عقل اس حرکت سے بہت پریشان تھی جو انہوں نے معاویہ سے سرزد ہوتے دیکھی تھی اور وہ یہ کہ جب ایک رات میرے والد واپس آئے تو میں نے انہیں رنجیدہ پایا، تھوڑی دیر تو میں خاموش رہا اور خیال کیا کہ کوئی بات ہوگئی ہوگی

____________________

1.ربیع الابرار جلد3/باب القربات والانسان، شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید جلد1/ ص111

۷۱

پھر میں نے کہا آج کی رات میں آپ کو رنجیدہ کیوں دیکھ رہا ہوں؟

انہوں نے جواب دیا: بیٹے میں خبیث ترین شخص کے پاس سے آرہا ہوں. میں نے کہا: کیا ہوا؟

انہوں نے کہا: کہ آج معاویہ کے پاس کوئی نہیں تھا میں نے معاویہ سے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ اپنی مراد کو پاگئے ہیں، اگر آپ عدل کا اظہار کریں، سخاوت سے کام لیں تو آپ کی عظمت و بزرگی میں اضافہ ہوگا اور اگر اپنے بھائی بنی ہاشم کو خبر گیری کریں تو ان کے لئے صلہ رحم ہوگا. قسم خدا کی آج ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تمہارے لئے باعث خوف ہو.

اس سے آپ کو دائمی ثواب ملے گا اور آپ کا ذکر باقی رہے گا. معاویہ نے کہا افسوس صد افسوس! میں کس ذکر کی بقا کی امید کروں، بنی تمیم کے ایک شخص کے ہاتھ میں حکومت و خلافت آئی تو اس نے عدل سے کام لیا، اور کچھ کرنا تھا کیا، جب وہ ہلاک ہوگیا تو اس کا ذکر بھی ختم ہوگیا، ہاں کوئی کہنے والا کبھی ابوبکر کہہ دیتا ہے، پھر بنی عدی کے ایک شخص کے ہاتھ میں زمام خلافت آئی تو اس نے اپنی سی کی اور دس سال سخاوت کی، قسم خدا کی جیسے وہ ہلاک ہوا ویسے ہی اس کا ذکر فنا ہوگیا مگر یہ کہ کبھی کوئی عمر کے نام سے یاد کر لینا ہے. پھر ہمارے خاندانی عثمان بن عفان خلافت کے مدار الہام بنے ان کے بعد مسند خلافت پر وہ شخص جلوہ افروز ہوا کہ نسب میں جس کی برابری کوئی نہیں کر سکتا، اس نے جو کچھ کیا کیا اور جو اس کے ساتھ ہوا ہوا، اور جب

۷۲

وہ ہلاک ہوگیا تو اس کا ذکر اور اس کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کا ذکر بھی ختم ہوگیا، لیکن بنی ہاشم کی فرد کا نام با آواز بلند ہر روز پانچ مرتبہ لیا جاتا ہے، اشہد ان محمدا رسول اللہ، بدبخت اس کے ہوتے ہوئے کون سا عمل اور کون سا تذکرہ باقی رہے گا؟ قسم خدا کی قتال کے علاوہ اب کوئی چارہ کار نہیں.(1)

بدبخت کمینہ خدا تجھے رسوا کرے، تو نے ذکر رسول(ص) کو دفن کرنے کی ٹھانی ہے، اور اس سلسلہ میں بے شمار دولت خرچ کی ہے، لیکن تیری ساری تگ و دد بے کار ہوگئی کیونکہ خدا تیری گھاٹ میں ہے. اور اپنے رسول(ص) کے لئے فرماتا ہے:

( وَ رَفَعْنا لَكَ‏ ذِكْرَكَ )

تم اس ذکر کو کبھی دفن نہیں کرسکتے جس کو رب العزت نے بلند کیا ہے، تم اپنی پوری کوشش اپنے ہمنوائوں کو جمع کرنے کے بعد بھی اس شمع کو نہیں بجھا سکتے جسے خدا نے روشن کیا ہے، خدا اپنے نور کو کامل اور تمہارے نفاق کو آشکار کر کے رہے گا. اگر تم مشرق و مغرب کے بھی بادشاہ بن جائو گے تو بھی تمہاری ہلاکت کے ساتھ ساتھ تمہارا نام مٹ جائے گا. مگر یہ کہ کوئی ذاکر تمہارے ان سیاہ کارناموں کا تذکرہ کرے گا کہ جن کے ذریعہ تم اسلام کو نابود کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ رسول(ص) نے فرمایا ہے.(2) ذریت ہاشم محمد(ص) ابن عبداللہ کا ذکر صدیوں اور نسلوں کے بعد

____________________

1.کتاب الموفقات، ص576، طبع وزارت الاوقاف بغداد، سنہ1392 مروج الذہب جلد1، ص321، شرح ابن ابی الحدید جلد5، ص130، الغدیر جلد10 ص283..

2.کتاب صفین ص44.

۷۳

بھی باقی رہے گا. یہاں تک کہ خدا پورے کرہ ارض پر ان کی حکومت قائم کرے گا. اور جب بھی ذاکر آپ کا ذکر کرے گا تو صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کرے گا.

تمہاری اور بنی امیہ کی ناک گھسی جاتی رہے گی کہ انہوں نے تمہاری حکومت و خلافت کو اہلبیت کے خلاف مستحکم بنانے کو کوشش کی اور ان کے فضائل کو چھپانا چاہا لیکن ان کے فضائل پھیلتے گئے روز قیامت جب تم خدا سے ملاقات کرو گے وہ تم پر غضبناک ہوگا کیونکہ اس کی شریعت میں تحریف کی لہذا اس کی سزا تمہیں ملے گی.

اور جب ہم ان کے خلف نا سلف یزید ابن معاویہ شراب خور، فاسق و فاجر کو دیکھتے ہیں تو جس طرح ان سے ذلت و رسوائی، شراب خوری، زناکاری قمار بازی میراث میں ملی تھی اسی طرح عقیدہ بھی معاویہ اور ابوسفیان سے میراث میں ملا تھا، اگر بیہودہ صفات اسے میراث میں نہ ملے ہوتے تو معاویہ اسے اپنا جانشین نہ بناتا اور مسلمانوں پر مسلط نہ کرتا، وہ سب اسے بخوبی جانتے تھے جب کہ ان میں فضلائے صحابہ حسین ابن علی(ع) سید شباب اہل جنت ایسے افراد موجود تھے میں یقین کےساتھ کہتا ہوں کہ معاویہ نے اسلام اور مسلمانوں کی توہین میں اپنی تمام عمر اور حرام طریقہ سے حاصل کی ہوئی کافی دولت صرف کی تھی اور ہم یہ دیکھ چکے کہ وہ رسول(ص) کے نام کو کس طرح مٹا دینا چاہتا تھا لیکن جب وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا تو وصی نبی(ص) حضرت علی علیہ السلام کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکائی اور اس وقت تک آپ سے لڑتا رہا جب تک جبرا بادشاہ نہ بن بیٹھا، بری باتوں کو رواج دیا، اپنی حکومت کے سارے عالوں کو منبروں سے ہر نماز کے بعد حضرت عل علیہ السلام اور اہلبیت نبی(ص) پر لعنت کرنے کے لئے لکھا، اصل میں معاویہ اس راستہ سے رسول(ص) پر لعنت کرنا چاہتا تھا، اور جب اس نے اپنی موت

۷۴

کو قریب دیکھا اور نامراد و ناکام دنیا سے رخت سفر بندھتے دیکھا تو اپنے بیٹے یزید کو بلاکر امت کاحاکم بنادیا تا کہ اس کے اور اس کے باپ ابوسفیان کے ارادوں کو یزید پورا کرے آگاہ ہو جائو! وہ مقاصد اسلام کی نابودی اور جاہلیت کی بازگشت تھی.(1)

فاسق و فاجر یزید نے زمام خلافت کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے باپ کی ترغیب کےمطابق اپنے سرداروںکو اسلام کو نابود کرنے کا حکم دے دیا، پہلا اقدام اس نے یہ کیا کہ مدینہ رسول(ص) کو اپنے کافر لشکر کے لئے مباح کردیا، اشکر نے تین روز کی مدت میں جو کچھ کیا کیا، دس ہزار بہترین صحابہ کو قتل کیا اس بت پرست نے سید شباب اہل جنت، ریحانۃ النبی(ص) بلکہ تمام اہلبیت(ع) کو قتل کیا حالانکہ وہ امت کے چاند تھے، اور اہلبیت عصمت کی چادر چھین لی،( انا لله و انا الیه راجعون)

اگر خدا نے اسے جلد ہی جہنم واصل نہ کیا ہوتا تو یہ بدبخت و کمینہ مزید اسلام و مسلمانوں کے سرپر بلا لاتا، جس طرح ہم نے یزید کے باپ دادا کے عقیدہ کا انکشاف کیا اسی طرح اس بحث میں یزید کے عقیدہ کا بھی انکشاف کرنا اہمیت کا حامل ہے.مورخین کا بیان ہے کہ حسرہ وہ بدترین سانحہ ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان مرد و عورت قتل ہوئے ہیں اور ہزاروں باکرہ لڑکیوں کا افضا ہوا ہے، اور ہزاروں

____________________

1.العقد الفرید جلد/2 ص301 پر ابن عبدربہ نے نقل کیا ہے کہ معاویہ نے منبر سے حضرت علی(ع) پر لعنت کی اور اپنے کارندوں کو لکھا کہ منبر سے حضرت علی(ع) پر لعنت کیا کریں سو انھوں نے شروع کردی ام سلمہ نے معاویہ کو لکھا: تم منبروں سے خدا و رسول(ص) پر لعنت کررہے ہو، اس لئے کہ تم علی بن ابی طالب(ع) اور ان کے دوستوں پر لعنت کررہے ہو، اور میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا و رسول(ص) انہیں دوست رکھتے ہیں لیکن معاویہ نے ان باتوں پر اعتماد نہ کیا.

۷۵

اسی لشکر کے سپاہیوں سے حاملہ ہوئیں، اور اس درندگی کو دیکھ کر باقی لوگوں نے اس بات پر یزید کی بیعت کر لی کہ وہ یزید کے غلام ہیں اور جس نے بیعت سے انکار کیا وہ قتل کیا گیا. اور جب یزید کو اس شرمناک واقعہ کی اطلاع دی گئی کہ جس کی مثال تاریخ بھی پیش کرنے سے قاصر ہے. جس میں روا رکھے جانے والے مظالم کے سامنے مغلوں، تاتاریوں اور اسرائیلیوں کے جرائم ماند نظر آتے ہیں، تو وہ بہت خوش ہوا اور رسول اسلام(ص) کی شماتت کا اظہار کرتے ہوئے زبعری کے وہ اشعار پڑھتا ہے.(1) جو اس نے جنگ احد کے بعد پڑھے تھے.

ليت‏ أشياخي‏ ببدر شهدوا

 

جزع الخزرج من وقع الاسل‏

لأهلّوا و استهلّوا فرحا

 

ثم قالوا يا يزيد لا تشل‏

قد قتلنا القرم من ساداتهم‏

 

و عدلناه ببدر فاعتدل‏

لعبت هاشم بالملك فلا

 

خبر جاء و لا وحي نزل‏

لست من خندف إن لم أنتقم‏

 

من بني أحمد ما كان فعل‏

     

کاش بدر میں قتل ہونے والے بزرگ ہوتے تو آج تلور کی باڑ سے گھبرائے ہوئے خزرج کو دیکھنے اور خوشی سے اچھل پڑتے پھر کہتے اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں یقینا ہم نے( بنی ہاشم کے) سورمائوں کو قتل کیا اور ہی ہم نے بدر میں قتل ہونے والوں کا بدلہ لیا ہے. اگر میں اولاد احمد(ص) سے انتقام نہ لوں تو خذف سے نہیں ہوں یہ تو بنی ہاشم کا بادشاہت حاصل کرنے

____________________

1.انساب الاشراف بلاذری جلد5، ص43، لسان المیزان جلد6، ص294، تاریخ ابن کثیر جلد8، ص221، الاصابۃ جلد3، ص473.

۷۶

کے لئے ایک ڈھونگ تھا ورنہ نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی خبر آئی ہے.

اور اس کا دادا ابوسفیان خدا و رسول(ص) کا پہلا دشمن صاف لفظوں میں یہ کہتا ہے کہ:

اے بنی امیہ خلافت کو گیند کی طرح نچائو ابوسفیان قسم کھا کے کہتا ہے کہ جنت و جہنم کچھ نہیں ہے،

اور اس کا باپ معاویہ خدا و رسول(ص) کا دوسرا دشمن صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ:

اس وقت جب موذن آذان میں اشہد ان محمداً رسولُ اللہ کہتا ہے. کم بخت اس کے کون سا ذکر و عمل باقی ہے؟.

قسم خدا کی قتال کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے.

لعبت هاشم بالملك فلا

 

خبر جاء و لا وحي نزل‏

یہ تو ( بنی ہاشم کا بادشاہت حاصل کرنے کے لئے ایک ڈھونگ تھا. ورنہ نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ کوئی خبر آئی ہے.

۷۷

ہم خدا و رسول(ص) اور اسلام کے بارے میں ان کے عقائد سے آگاہ ہوچکے اور ان کے اعمال شنیعہ کا مطالعہ کرچکے کہ جن کے ذریعہ وہ اسلام کے ستون اور رسول اسلام(ص) کی شخصیت کو مخدوش کرنا چاہتے تھے اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان میں سے ہم نے بہت ہی مختصر کا تذکرہ کیا ہے اگر ہم وسعت دینا چاہیں تو صرف معاویہ کے ایسے اعمال کے لئے ایک ضخیم جلد درکار ہے، ایک زمانہ میں جن پر ننگ و عار اور فضیحت کی بنیاد ہے اگر چہ بنی امیہ سے بخشش و عطا وصولنے والے بغص علمائے سوء نے ان عیوب کی پردہ پوشی کی حتی المقدور کوشش کی ہے، ان علماء کو لالچ نے اندھا بنادیا تھا، انہوں نے دنیا کو آخرت کے عوض خریدا تھا اور باطل سے حق کا سودا کر لیا تھا، حالانکہ وہ حقیقت سے واقف تھے، اکثر مسلمان اس سازش کا شکار ہوگئے.

اس مختصر بحث میں جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ مسلمانوں پر بنی امیہ اور ان کے پیروکاروں کا کتنا اثر ہوا کہ جنہوں نے سو سال تک مسلمانوں پر حکومت کی ہے جب کہ انھوں نے اپنا پرانا مسلک نہیں چھوڑا تھا.

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ منافقوں کا مسلمانوں پر بہت برا اثر پڑا ان کے عقیدے بدل دیئے، اخلاق و معاملات اور راستوں میں تبدیلی پیدا کر دی یہاں تک کہ ان کی عبادات میں رخنہ ڈال دیا اور نہ یہ کیسے ممکن تھا کہ امت حق کو نصرت سے چشم پوشی کر کے دشمنان خدا و رسول(ص) کے شانہ بشانہ ہوتی اور اولیائے خدا کی ذلت و رسوائی نہ ہوتی. اور ہمارے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم طلیق ابن طلیق ، لعین ابن لعین معاویہ کی خلافت تک رسائی کی تفسیر کریں. کہ جو اپنے کو رسول(ص) کا خلیفہ کہہ رہا تھا، ایک وقت میں مورخین ہمیں فریب دیتے ہیں کہ لوگوں نے عمر ابن خطاب سے کہا کہ اگر ہم آپ کو کجروی پر دیکھے تو شورش برپا کردیتے (تلواروں سے آپ کامقابلہ کرتے) انہیں مورخین

۷۸

کو ہم یہ لکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ معاویہ نے قہر و غلبہ سے مسند خلافت پر قبضہ کر لیا اور اپنے پہلے خطبہ میں تمام صحابہ سے کہا کہ میں نے تم سے نماز پڑھنے روزے رکھنے کے لئے جنگ نہیں کی ہے میں نے تو تم پر اپنی حکومت کے استحکام کے لئے جنگ کی تھی سو آج میں تمہارا حاکم ہوں، صحابہ میں سے کسی نے جنبش نہ کی اور نہ ہی کسی نے کوئی اعتراض کیا بلکہ اس کے نقش قدم پر چلتے رہے، اور یہ ہی نہیں بلکہ جس سال معاویہ خلیفہ ہوا اس سال کا نام بھی عام الجماعت رکھ دیا حالانکہ وہ سال عام الفرقہ تھا.

اس کے بعد ہم صحابہ کو اس بات پر راضی دیکھتے ہیں کہ معاویہ اپنے بیٹے کو ولی بنا دے جس کے بارے میں وہ نا واقف نہ تھے، معاویہ کے اس فعل سے بھی ان میں کوئی تحریک پیدا نہ ہوئی، ہاں جن صالح افراد میں پیدا ہوئی تھی انہیں یزید نے حادثہ حرہ میں قتل کرادیا اور باقی بچ جانے والوں سے اس بات پر بیعت لی کہ وہ یزید کے غلام ہیں، ان تمام باتوں کا کیا جواب ہوسکتا ہے؟ اس کے بعد ہم مومنوں کی امارت و رسالت کی باگ ڈور بنی امیہ کے فاسق ترین اشخاص مروان ابن حکم اور ولید ابن عقبہ وغیرہ کے ہاتھوں میں دیکھتے ہیں.

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مومنوں کے حاکم و امیر نے مدینہ رسول(ص) کو مباح قرار دے دیا لشکر نے جو کچھ کیا، کیا، عصمت دری کی خانہ خدا کو آگ لگائی، حرم خدا میں بہترین صحابہ کا قتل عام کیا، مومنوں کے حاکم نے ذریت رسول(ص) کا خون بہایا یعنی ریحانہ و ذریت رسول(ص) کو تہ تیغ کیا، ان کی بیٹیوں کو قید کیا، امت میں سے کسی میں جرائت نہ ہوئی اور کسی نے بھی جوانان جنت کے سردار کی مدد نہ کی.

انہی مومنوں کے امیروں میں سے ولید نے کتاب خدا کو پارہ پارہ کیا اور قرآن کو مخاطب کر کے کہا، جب روز حشر خدا کے پاس جانا تو کہدینا کہ پروردگارا مجھے ولید نے پارہ پارہ کیا.

۷۹

انہی مومنوں کے امیروں نے حضرت علی ابن ابی طالب(ع) پر منبروں سے لعنت کی اور اپنی حکومت کے لوگوں کو علی علیہ السلام پر لعنت کا حکم دیا اس طریقہ سے وہ رسول(ص) پر لعنت کرتے تھے پھر بھی ان مومنوں میں کوئی حرکت و جنبش پیدا نہ ہوئی، اور اگر کسی نے علی علیہ السلام پر لعنت کرنے سے انکار کردیا تو اسے قتل کردیا گیا. دار پر چڑھا دیا گیا.انہی مومنوں کے امیروں نے کھلم کھلا شراب خوری، زناکاری، لہو و لعب، ناچ وغیرہ کا ارتکاب کیا. لیکن کوئی اہمیت نہ دی گئی. پس جب امت اسعدیہ کے حاکموں کے اخلاقی انحطاط کی یہ حالت ہے تو ان میں ایسے عوامل بھی ہوں گے جنہوں نے ان کے عقیدوں کو متاثر کیا ہوگا ہماری اس بحث کا یہ مہم عنصر ہے کیونکہ اس کا تعلق عصمت اور رسول(ص) کی شخصیت سے ہے.

اوّلاً جس سے ہماری تنبیہ کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ خلفائے ثلاثہ ابوبکر و عمر و عثمان نے حدیث نبی(ص) کو قلم بند کرنے سے منع کر دیا تھا بلکہ بیان کرنے سے بھی روک دیا تھا.ابوبکر نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ایک روز لوگوں کو جمع کیا اور کہا تم لوگ رسول(ص) سے احادیث نقل کرتے ہو اور ان میں اختلاف کرتے ہو، اس سے تمہارے بعد لوگوں میں شدید اختلاف ہوگا لہذا آج سے تم رسول(ص) کی کوئی حدیث بیان نہ کرنا اور جو شخص تم سے سوال کرے اس سے کہدو ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب خدا موجود ہے. اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو.(1) اسی طرح عمر ابن خطاب نے لوگوں کو حدیث رسول(ص) بیان کرنے سے منع کیا، قرظہ ابن کعب کہتے ہیں جب ہم عمر ابن خطاب کے ساتھ عراق جارہے تھے اس

____________________

1.تذکرۃ الحفاظ، "ذہبی" جلد1، ص3002.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291