اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟13%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 37930 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

الْأَشْيَاءَ مِنْ أُصُولٍ أَزَلِيَّةٍ وَ لَا مِنْ أَوَائِلَ أَبَدِيَّةٍ بَلْ خَلَقَ مَا خَلَقَ فَأَقَامَ‏ حَدَّهُ‏ وَ صَوَّرَ فَأَحْسَنَ صُورَتَهُ لَيْسَ لِشَيْ‏ءٍ مِنْهُ امْتِنَاعٌ وَ لَا لَهُ بِطَاعَةِ شَيْ‏ءٍ انْتِفَاعٌ عِلْمُهُ بِالْأَمْوَاتِ الْمَاضِينَ كَعِلْمِهِ بِالْأَحْيَاءِ الْبَاقِينَ وَ عِلْمُهُ بِمَا فِي السَّمَاوَاتِ الْعُلَى كَعِلْمِهِ بِمَا فِي الْأَرَضِينَ السُّفْلَى‏"

تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے جو چھپی ہوئی چیزوں کی گہرائیوں میں اترا ہوا ہے. اس کے ظاہر و ہویدہ ہونے کی نشانیاں اس کے وجود کا پتہ دیتی ہیں، گو وہ دیکھنے والے کی آنکھ سے نظر نہیں آتا، پھر بھی نہ دیکھنے والی آنکھ اس کا انکار نہیں کرسکتی اور جس نے اس کا اقرار کیا اس کا دل اس کی حقیقت کو نہیں پاسکتا وہ اتنا بلند و برتر ہے کہ کوئی چیز اس سے بلند­تر نہیں ہوسکتی اور اتنا قریب سے قریب­تر ہے کہ کوئی شئی اس سے قریب­تر نہیں ہے اور نہ اس کی بلندی نے اسے مخلوقات سے دور کردیا ہے. اور نہ اس کے قریب نے اسے دوسروں کی سطح پر لاکر ان کے برابر کردیا ہے. اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حدود نہایت پر مطلع نہیں کیا اور ضروری مقدار میں معرفت حاصل کرنے کے لئے ان کے آگے پردے بھی حائل نہیں کئے، وہ ذات ایسی ہے کہ جس کے وجود کے نشانات اس طرح کی شہادت دیتے ہیں کہ( زبان سے) انکار کرنے والے کا دل بھی اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا، اللہ ان لوگوں کی باتوں سے بہت بلند و برتر ہے،

۶۱

جو مخلوقات سے اس کی تشبیہ دیتے ہیں، اور اس کے وجود کا انکار کرتے ہیں.(۱)

تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے کہ جس کی ایک صفت سے دوسری صفت کو تقدم نہیں کہ وہ آخر ہونے سے پہلے اول اور باطن ہونے سے پہلے ظاہر رہا ہو، اللہ کے علاوہ جسے بھی ایک کہا جائے گا وہ قلت و کمی میں ہوگا، اس کے سوا ہر باعزت ذلیل اور ہر قوی کمزور و عاجز اور ہر مالک مملوک اور ہر جاننے والا سیکھنے والے کی منزل میں ہے، اس کے علاوہ ہر قدرت و تسلط والا کبھی قادر ہوتا ہے اور کبھی عاجز اور اس کے علاوہ ہر سننے والا خفیف آوازوں کے سننے سے قاصر ہوتا ہے اور بڑی آوازیں ( آپنی گونج سے) اسے بہرا کر دیتی ہیں اور دور کی آوازیں اس تک پہونچتی نہیں ہیں اور اس کے ماسوا ہر دیکھنے والا مخفی رنگوں اور لطیف جسموں کے دیکھنے سے نابینا ہوتا ہے. کوئی ظاہر اس کے علاوہ باطن نہیں ہوسکتا اور کوئی باطن اس کے سوا ظاہر نہیں ہوسکتا. اس نے اپنی کسی مخلوق کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ اپنے اقتدار کی بنیادوں کو مستحکم کرے یا زمانےکے عواقب و نتائج سے اسے کوئی خطرہ تھا، یا کسی برابر والے کے حملہ آور ہونے یا کثرت پر اترانے والے شریک یا بلندی میں ٹکرانے والے مد مقابل کے خلاف اسے مدد حاصل کرنا تھی.

____________________

۱.خطبہ/۴۹

۶۲

بلکہ یہ ساری مخلوق اسی کے قبضے میں ہے اور سب اس کے عاجز و ناتوان بندے ہیں. وہ دوسری چیزوں میں سمایا ہوا نہیں ہے. کہ یہ کہا جائے کہ وہ ان کے اندر ہے اور نہ ان چیزوں سے دور ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ ان چیزوں سے الگ ہے ایجاد خلق اور تدبیر عالم نے اسے خستہ و درماندہ نہیں کیا. اور نہ ( حسب منشای چیزوں کے پیدا کرنے سے عجز اسے دامن گیر ہوا ہے اور نہ اسے اپنے فیصلوں اور اندازوں میں شبہ لاحق ہوا ہے. بلکہ اس کے فیصلے مضبوط، علم محکم اور احکام قطعی ہیں. مصیبت کے وقت بھی اسی کی آس رہتی ہے، اور نعمت کے وقت بھی اس کا ڈر لگا رہتا ہے.(۱)

اس کی اولیت کی کوئی ابتدا اور نہ اس کی ازلیت کی کوئی انتہا ہے، وہ ایسا اول ہے جو ہمیشہ سے ہے، اور بغیر کسی مدت کی حدبندی کے ہمیشہ رہنے والا ہے پیشانیاں اس کے آگے ( سجدہ میں) گری ہوئی ہیں، اور لب اس کی توحید کے معترف ہیں اس نے تمام چیزوں کو ان کے پیدا کرنے کے وقت ہی سے جداگانہ صورتوں اور شکلوں میں محدود کردیا، تا کہ اپنی ذات کو ا ن کی مشابہت سے الگ رکھے، تصورات اسے محدود و حرکات اور اعضاء و جوارح کے ساتھ متعین نہیں کرسکتے اس کے لئے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے وہ کب سے ہے اور نہ یہ کہہ کر اس کی مدت مقرر کی جاسکتی ہے کہ وہ کب تک ہے، وہ ظاہر ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کس سے ( ظاہر ہوا) وہ باطن ہے مگر

____________________

۱.خطبہ/۶۳

۶۳

یہ نہیں کہا جائیگا کہ (کس میں) وہ نہ دور سے نظر آنے والا کوئی ڈھانچہ جو کہ مٹ جائے اور نہ کسی حجاب میں ہے کہ محدود ہوجائے. اسے محدود سمجھ لینے والے جن اندازوں اور اطراف و جوانب کی حدوں اور مکانوں میں بسنے اور جگہوں میں ٹھہرنے کو اس کی طرف منسوب کردیتے ہیں، وہ ان نسبتوں سے بہت بلند ہے. حدیں تو اس کو مخلوق کے لئے قائم کی گئی ہیں اور دوسروں ہی کی طرف ان کی نسبت دی جایا کرتی ہے اس نے اشیاء کو کچھ ایسے مواد سے پیدا نہیں کیا کہ جو ہمیشہ سے ہو اور نہ ایسی مثالوں پر بنایا کہ جو پہلے سے موجود ہوں. بلکہ اس نے جو چیز پیدا کی اسے مستحکم کیا، اورجو ڈھانچہ بنایا اسے اچھی شکل و صورت دی، کوئی اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتا نہ اس کو کسی اطاعت سے، کوئی فائدہ پہونچتا ہے. اسے پہلے مرنے والوں کا ویسا ہی علم ہے جیسا باقی رہنے والے زندہ لوگوں کا اور جس طرح بلند آسمانوں کی چیزوں کو جانتا ہے. ویسے ہی زمینوں کی چیزوں کو پہچانتا ہے.(۱)

____________________

۱.خطبہ/۱۶۱

۶۴

دوسری فصل

رسول(ص) سے متعلق

دوسرا سوال عصمت رسول(ص) کے بارے میں

خداوند عالم اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فرماتا ہے:

( وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ‏ مِنَ‏ النَّاسِ ‏) مائدہ/۶۷

اور خدا تمہیں لوگوں سے محفوظ رکھے گا.

نیز فرماتا ہے:

( وَ ما يَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحى ‏) نجم/۳

وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے ہیں، جو وحی ہوتی ہے وہی کہتے ہیں.

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَ ما آتاكُمُ‏ الرَّسُولُ‏ فَخُذُوهُ وَ ما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ) حشر/۷

۶۵

جس چیز کا رسول حکم دیں اسے بجا لائو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو.

ان آیات کو واضح دلالت رسول(ص) کی عصمت مطلقہ پر ہے، اور تم لوگ(اہلسنت) کہتے ہو کہ تبلیغ قرآن کے وقت رسول(ص) معصوم تھے. اور اس کے علاوہ دوسرے اوقات میں تمام لوگوں کو طرح صحیح کام بھی کرتے تھے اور غلط بھی اور متعدد واقعات و روایات سے اس پر استدلال کرتے ہو جیسا کہ تمہاری صحاح میں موجود ہے.

اس کے بعد آپ کے اس دعوے پر کون سی دلیل و حجت ہے کہ کتاب خدا اور سنت نبی(ص) سے تمسک کافی ہے جبکہ یہ سنت تمہارے نزدیک غیر محفوظ اور اس میں خدا کا امکان ہے.

تمہارے معتقدات کے لحاظ سے کتاب خدا اور حدیث نبی(ص) سے تمسک ضلالت و گمراہی سے محفوظ نہیں ہے، خصوصا جبکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ پورے قرآن کی تفسیر بیان کرنے والی حدیث نبی(ص) ہے، تمھارے پاس کون سی دلیل ہے کہ وہ تفسیر کتاب خدا کے مخالف نہیں ہے؟

ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ: رسول(ص) نے مصلحت کی بنا پر احکام میں بہت جگہوں پر قرآن کی مخالف کی ہے:

میں تعجب سے کہا: اس مخالفت کے سلسلے میں کوئی مثال ہے؟

اس نے کہا: قرآن کہتا ہے:

( الزَّانِيَةُ وَ الزَّانِي‏ فَاجْلِدُوا كُلَّ واحِدٍ مِنْهُما مِائَةَ جَلْدَةٍ .) نور/۲

۶۶

جبکہ رسول(ص) نے زانی و زاینہ کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور یہ حکم قرآن میں نہیں ہے.

میں نے کہا : زنائے محصنہ کرنے والے ( شادی شدہ) کے لئے سنگسار کا حکم دیا ہے. خواہ مرد ہو یا عورت اورغیر شادی شدہ مرد وعورت کو کوڑے لگانے کا حکم دیا ہے.

اس نے کہا: قرآن میں شادی شدہ و غیر شادی شدہ نہیں ہے، خدا نے مخصوص طور پر نہیں بکلہ مطلق طور پر فرمایا ہے کہ : زانی و زانیہ.

میں نے کہا: اس لحاظ سے تو قرآن میں ہر حکم مطلق ہے اسے رسول(ص) نے مخصوص کیا ہے، اور یہ قرآن کے مخالف ہے. تم ہی تو کہہ رہے ہو کہ رسول(ص) نے اکثر احکام میں قرآن کی مخالفت کی ہے.

اس نے بوکھلا کے کہا: فقط قرآن معصوم ہے، کیونکہ اس کی حفاظت کی خود خدا نے ذمہ­داری لی ہے. لیکن رسول(ص) بشر ہیں، ا ن سے خطا بھی ہوسکتی ہے، جیسا کہ آپ کی شان میں قرآن فرماتا ہے:

( قُلْ إِنَّما أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ )

میں نے کہا: پھر تم صبح، ظہر و عصر اور مغرب و عشا کی نمازیں کیوں پڑھتے ہو کیونکہ قرآن نے بغیر وقت کی تخصیص کے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے؟

اس نے جواب دیا کہ: قرآن میں ہے کہ:

( إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً )

۶۷

نماز مومنین پر وقت کے ساتھ واجب کی گئی ہے. صرف رسول(ص) نماز کے اوقات بیان کردیتے ہیں.

میں نے کہا: اوقات نماز کے بارے میں رسول(ص) کی تصدیق کیوں کرتے ہو، جبکہ زانی کے لئے سنگسار کے حکم میں ان کی تردید کرتے ہو؟

موصوف نے مجھے بے نتیجہ اور متناقض فلسفہ سے مطمئن کرنے کی انتھک کوشش کی لیکن وہ اپنے مدعا پر کوئی عقلی و منطقی دلیل قائم نہ کرسکے، مثلا ان کا یہ قول کہ نماز متعلق شک کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ رسول(ص) نے اپنی پوری حیات میں ہر روز پانچ مرتبہ نماز ادا کی ہے، لیکن رجم ( سنگسار) پر اطمینان کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ آپ نے اپنی پوری زندگی میں ایک یا دو مرتبہ انجام دیا ہوگا. اسی طرح اس کا یہ کہنا کہ رسول(ص) سے اس وقت کوئی غلطی نہیں ہوتی تھی جب خدا رسول(ص) کو اپنے پیغام پہونچانے کا حکم دیتا تھا. لیکن جب اپنی طرف سے کوئی بات کہتے تھے تو وہ معصوم نہیں ہوتے تھے. اسی لئے صحابہ آپ سے ہر ایک بات میں یہ پوچھتے تھے کہ یہ آپ اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں یا خدا کا پیغام ہے، پس اگر رسول(ص) کہتے کہ خدا کی طرف سے ہے تو صحابہ بغیر چون و چرا قبول کر لیتے تھے. اور اگر یہ فرماتے کہ میں اپنی عقل سے کہہ رہا ہوں تو اس وقت صحابہ آپ(ص) سے بحث و مباحثہ کرتے اور آپ کو نصیحت کرتے تھے اور رسول(ص) صحابہ کی رائے کو تسلیم کر لیتے تھے اور کبھی تو بعض صحابہ کی رائے کی موافقت اور آپ کی رائے کی مخالفت میں قرآن نازل ہوتا تھا. جیسا کہ بدر کے قیدیوں کے سلسلہ میں ہوا ایسے اور بھی بہت سے مشہور واقعات ہیں. میں نے بھی اسے مطمئن کرنے کی پوری کوشش کی لیکن بے فائدہ ثابت ہوئی کیونکہ اہلسنت والجماعت اسی سے مطمئن ہوتے ہیں ان کی صحاح ایسی روایات سے بھری پڑی ہیں کہ جن سے رسول(ص) کی عصمت مخدوش ہوتی ہے. اور آپ کو عام

۶۸

انسانوں سے بھی پست قرار دیتی ہیں ایک ذہین یا فوج کے سپہ سالار سے یا صوفیوں کے شیخ طریقت بھی کم رتبہ انسان بنا کر پیش کرتی ہیں. میں نے اس بات میں مبالغہ نہیں کیا ہے کہ وہ عام لوگوں سے بھی رسول(ص) کو کم رتبہ سمجھتے ہیں کیونکہ جب ہم اہلسنت کی صحاح کی بعض روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان سے واضح طور پر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ امویوں کی فکر اس عہد سے آج تک مسلمانوں کی عقلوں میں کار فرما ہے.

جب ہم ان احادیث کی غرض وغایت کی تحقیق کریں گے تو ایک حتمی نتیجہ پر پہونچ جائیں گے. اور وہ یہ کہ امویوں نے اپنے عہد حکومت میں مسلمانوں سے حدیثیں گڑھوائیں، سب سے زیادہ معاویہ ابن ابو سفیان نے یہ کام کرایا. بنی امیہ ایک روز بھی اس بات کے معتقد نہیں ہوئے کہ محمد ابن عبداللہ، اللہ کے رسول(ص) یا وہ نبی برحق ہیں وہ تو زیادہ سے زیادہ آپ کو جادو گر سمجھتے تھے کہ جو لوگوں پر غالب آگئے تھے اور غریب و مستضعف لوگوں کے نام پر اپنی حکومت مضبوط کرتی تھی خصوصا غلاموں نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور مدد کی.

بنی امیہ کا یہی گمان تھا، اور بعض ظن و گمان گناہ ہوتے ہیں جب ہم تواریخ کی کتب کا مطالعہ کریں گے تو معاویہ اور اس کی شخصیت واضح ہوگی اور یہ بات بھی آشکار ہوجائے گی کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کیا خصوصا حکومت کے زمانہ میں کیا کارنامے تھے. اس وقت یہ گمان حقیقت میں بدل جائے گا.

ہم سب جانتے ہیں کہ معاویہ کون ہے، اس کی ولدیت کیا ہے، ابوسفیان، اس کی ماں ہندہ، وہ طلیق بن طلیق تھا کہ جس نے جوانی کو اپنے باپ کے ساتھ رسول(ص) سے جنگ اور ان کی تبلیغ کے خاتمہ کے لئے لشکر جمع کرنے میں گذار تھا. لیکن جب ان کی تمام کوششیں بے کار ہوگئیں اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غالب ہو گئے تو موقع غنیمت سمجھ کر اسلام قبول کر لیا. حالانکہ مطمئن نہ تھا. رسول(ص) نے بھی شرافت

۶۹

اور خلق عظیم کی بنا پر انہیں معاف کردیا اور کہدیا کہ تم آزاد ہو، لیکن رسول(ص) کی وفات حسرت آیات کے بعد ابوسفیان فتنہ پردازی اور اسلام کو نقصان پہونچانے کی کوشش کرنے لگا. ایک شب امام علی علیہ السلام کے پاس آیا اور آپ کو ابوبکر کی حکومت و خلافت کے بارے میں برانگیختہ کرنا چاہا اور کہنے لگا کہ اموال و افواج سے میں حاضر ہوں، لیکن حضرت علی علیہ السلام اس کے ارادے کو سمجھ گئے اور اس کی باتوں کو رد کردیا، ابوسفیان کی تمام عمر اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں گذری یہاں تک کہ جب خلافت کی باگ ڈور اس کے چچا زاد بھائی عثمان ابن عفان کے ہاتھوں میں آئی تو اس نے اپنے کفر و نفاق کا کھل کر اظہار کیا اور کہا: اے بنی امیہ! خلافت کو گیند کی طرح نچائو ابوسفیان قسم کھا کے کہتا ہے کہ جنت و جہنم کوئی چیز نہیں ہے.(۱) ابن عساکر نے اپنی تاریخ کی جلد۶ کے ص۴۰۷ پر انس سے روایت کی ہے کہ جس زمانہ میں ابوسفیان کی آنکھوں کی بصارت ختم ہوچکی تھی، عثمان کے پاس آیا اور کہا کہ یہاں کوئی اور تو نہیں بیٹھا ہے؟ انھوں نے کہا کہ نہیں کوئی نہیں ہے: ابوسفیان نے کہا کہ: جاہلیت والا قانون جاری کرو، اور ملک کو آسودگی میں بدلو اور عظیم عہدوں کو بنی امیہ میں تقسیم کردو.ابوسفیان کے بیٹے معاویہ کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ معاویہ کون ہے؟ ہم یہاں اس کے حالات کو قلم بلند کر رہے ہیں. اور یہ کہ اس نے شام میں اپنی حکومت کے زمانہ میں امت محمدی(ص) کے ساتھ کیا سلوک کیا.مورخین لکھتے ہیں کہ جب معاویہ مسند خلافت پر جبرا متمکن ہوا تو اس نے قرآن و سنت کی ہتک کی، شریعت کی حدود کو پس پشت ڈال دیا اور ایسے افعال کا مرتکب ہوا جن کے لکھنے سے قلم کے تقدس پر حرف آتا ہے اور

____________________

۱.طبری جلد۱۱/ص۳۵۷، مروج الذہب جلد۱/ص۴۴۰

۷۰

بیان کرنے سے زبان کی عظمت جاتی ہے، ہم ان عیوب پر اپنے سنی بھائیوں کی خاطر پردہ ڈالتے ہیں کیونکہ ان کے دل معاویہ کی محبت سے سرشار ہیں اور اس کا دفاع کرتے ہیں.

لیکن ہم معاویہ کے نفسیات اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں اس کے عقیدہ کو بیان کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے، عقیدہ کے سلسلہ میں معاویہ بھی اپنے باپ دادا سے جدا نہیں ہے اس نے ہندہ جگر خوار کا دودھ پیا ہے کہ جو زنا و فسق و فجور میں مشہور تھی(۱) اسی طرح اسے اپنے باپ شیخ المنافقین سے میراث ملی تھی کہ جس نے دل سے کبھی اسلام قبول نہیں کیا تھا.

جیسا کہ ہم نے باپ کے نفسیات کے بارے میں بیان کیا تھا وہی آپ بیٹے کے لئے تصور کر لیجئے، لیکن معاویہ چالاکی اور نفاق میں اپنے باپ سے بھی آگے تھا.

زبیر ابن بکار مطوف ابن مغیرہ نے ابن شعبہ ثقفی سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ:

ایک روز میرے والد معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ سے گفتگو کر کے میرے پاس آئے اور معاویہ کا تذکرہ کر رہے تھے، ان کی عقل اس حرکت سے بہت پریشان تھی جو انہوں نے معاویہ سے سرزد ہوتے دیکھی تھی اور وہ یہ کہ جب ایک رات میرے والد واپس آئے تو میں نے انہیں رنجیدہ پایا، تھوڑی دیر تو میں خاموش رہا اور خیال کیا کہ کوئی بات ہوگئی ہوگی

____________________

۱.ربیع الابرار جلد۳/باب القربات والانسان، شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید جلد۱/ ص۱۱۱

۷۱

پھر میں نے کہا آج کی رات میں آپ کو رنجیدہ کیوں دیکھ رہا ہوں؟

انہوں نے جواب دیا: بیٹے میں خبیث ترین شخص کے پاس سے آرہا ہوں. میں نے کہا: کیا ہوا؟

انہوں نے کہا: کہ آج معاویہ کے پاس کوئی نہیں تھا میں نے معاویہ سے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ اپنی مراد کو پاگئے ہیں، اگر آپ عدل کا اظہار کریں، سخاوت سے کام لیں تو آپ کی عظمت و بزرگی میں اضافہ ہوگا اور اگر اپنے بھائی بنی ہاشم کو خبر گیری کریں تو ان کے لئے صلہ رحم ہوگا. قسم خدا کی آج ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تمہارے لئے باعث خوف ہو.

اس سے آپ کو دائمی ثواب ملے گا اور آپ کا ذکر باقی رہے گا. معاویہ نے کہا افسوس صد افسوس! میں کس ذکر کی بقا کی امید کروں، بنی تمیم کے ایک شخص کے ہاتھ میں حکومت و خلافت آئی تو اس نے عدل سے کام لیا، اور کچھ کرنا تھا کیا، جب وہ ہلاک ہوگیا تو اس کا ذکر بھی ختم ہوگیا، ہاں کوئی کہنے والا کبھی ابوبکر کہہ دیتا ہے، پھر بنی عدی کے ایک شخص کے ہاتھ میں زمام خلافت آئی تو اس نے اپنی سی کی اور دس سال سخاوت کی، قسم خدا کی جیسے وہ ہلاک ہوا ویسے ہی اس کا ذکر فنا ہوگیا مگر یہ کہ کبھی کوئی عمر کے نام سے یاد کر لینا ہے. پھر ہمارے خاندانی عثمان بن عفان خلافت کے مدار الہام بنے ان کے بعد مسند خلافت پر وہ شخص جلوہ افروز ہوا کہ نسب میں جس کی برابری کوئی نہیں کر سکتا، اس نے جو کچھ کیا کیا اور جو اس کے ساتھ ہوا ہوا، اور جب

۷۲

وہ ہلاک ہوگیا تو اس کا ذکر اور اس کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کا ذکر بھی ختم ہوگیا، لیکن بنی ہاشم کی فرد کا نام با آواز بلند ہر روز پانچ مرتبہ لیا جاتا ہے، اشہد ان محمدا رسول اللہ، بدبخت اس کے ہوتے ہوئے کون سا عمل اور کون سا تذکرہ باقی رہے گا؟ قسم خدا کی قتال کے علاوہ اب کوئی چارہ کار نہیں.(۱)

بدبخت کمینہ خدا تجھے رسوا کرے، تو نے ذکر رسول(ص) کو دفن کرنے کی ٹھانی ہے، اور اس سلسلہ میں بے شمار دولت خرچ کی ہے، لیکن تیری ساری تگ و دد بے کار ہوگئی کیونکہ خدا تیری گھاٹ میں ہے. اور اپنے رسول(ص) کے لئے فرماتا ہے:

( وَ رَفَعْنا لَكَ‏ ذِكْرَكَ )

تم اس ذکر کو کبھی دفن نہیں کرسکتے جس کو رب العزت نے بلند کیا ہے، تم اپنی پوری کوشش اپنے ہمنوائوں کو جمع کرنے کے بعد بھی اس شمع کو نہیں بجھا سکتے جسے خدا نے روشن کیا ہے، خدا اپنے نور کو کامل اور تمہارے نفاق کو آشکار کر کے رہے گا. اگر تم مشرق و مغرب کے بھی بادشاہ بن جائو گے تو بھی تمہاری ہلاکت کے ساتھ ساتھ تمہارا نام مٹ جائے گا. مگر یہ کہ کوئی ذاکر تمہارے ان سیاہ کارناموں کا تذکرہ کرے گا کہ جن کے ذریعہ تم اسلام کو نابود کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ رسول(ص) نے فرمایا ہے.(۲) ذریت ہاشم محمد(ص) ابن عبداللہ کا ذکر صدیوں اور نسلوں کے بعد

____________________

۱.کتاب الموفقات، ص۵۷۶، طبع وزارت الاوقاف بغداد، سنہ۱۳۹۲ مروج الذہب جلد۱، ص۳۲۱، شرح ابن ابی الحدید جلد۵، ص۱۳۰، الغدیر جلد۱۰ ص۲۸۳..

۲.کتاب صفین ص۴۴.

۷۳

بھی باقی رہے گا. یہاں تک کہ خدا پورے کرہ ارض پر ان کی حکومت قائم کرے گا. اور جب بھی ذاکر آپ کا ذکر کرے گا تو صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کرے گا.

تمہاری اور بنی امیہ کی ناک گھسی جاتی رہے گی کہ انہوں نے تمہاری حکومت و خلافت کو اہلبیت کے خلاف مستحکم بنانے کو کوشش کی اور ان کے فضائل کو چھپانا چاہا لیکن ان کے فضائل پھیلتے گئے روز قیامت جب تم خدا سے ملاقات کرو گے وہ تم پر غضبناک ہوگا کیونکہ اس کی شریعت میں تحریف کی لہذا اس کی سزا تمہیں ملے گی.

اور جب ہم ان کے خلف نا سلف یزید ابن معاویہ شراب خور، فاسق و فاجر کو دیکھتے ہیں تو جس طرح ان سے ذلت و رسوائی، شراب خوری، زناکاری قمار بازی میراث میں ملی تھی اسی طرح عقیدہ بھی معاویہ اور ابوسفیان سے میراث میں ملا تھا، اگر بیہودہ صفات اسے میراث میں نہ ملے ہوتے تو معاویہ اسے اپنا جانشین نہ بناتا اور مسلمانوں پر مسلط نہ کرتا، وہ سب اسے بخوبی جانتے تھے جب کہ ان میں فضلائے صحابہ حسین ابن علی(ع) سید شباب اہل جنت ایسے افراد موجود تھے میں یقین کےساتھ کہتا ہوں کہ معاویہ نے اسلام اور مسلمانوں کی توہین میں اپنی تمام عمر اور حرام طریقہ سے حاصل کی ہوئی کافی دولت صرف کی تھی اور ہم یہ دیکھ چکے کہ وہ رسول(ص) کے نام کو کس طرح مٹا دینا چاہتا تھا لیکن جب وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا تو وصی نبی(ص) حضرت علی علیہ السلام کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکائی اور اس وقت تک آپ سے لڑتا رہا جب تک جبرا بادشاہ نہ بن بیٹھا، بری باتوں کو رواج دیا، اپنی حکومت کے سارے عالوں کو منبروں سے ہر نماز کے بعد حضرت عل علیہ السلام اور اہلبیت نبی(ص) پر لعنت کرنے کے لئے لکھا، اصل میں معاویہ اس راستہ سے رسول(ص) پر لعنت کرنا چاہتا تھا، اور جب اس نے اپنی موت

۷۴

کو قریب دیکھا اور نامراد و ناکام دنیا سے رخت سفر بندھتے دیکھا تو اپنے بیٹے یزید کو بلاکر امت کاحاکم بنادیا تا کہ اس کے اور اس کے باپ ابوسفیان کے ارادوں کو یزید پورا کرے آگاہ ہو جائو! وہ مقاصد اسلام کی نابودی اور جاہلیت کی بازگشت تھی.(۱)

فاسق و فاجر یزید نے زمام خلافت کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے باپ کی ترغیب کےمطابق اپنے سرداروںکو اسلام کو نابود کرنے کا حکم دے دیا، پہلا اقدام اس نے یہ کیا کہ مدینہ رسول(ص) کو اپنے کافر لشکر کے لئے مباح کردیا، اشکر نے تین روز کی مدت میں جو کچھ کیا کیا، دس ہزار بہترین صحابہ کو قتل کیا اس بت پرست نے سید شباب اہل جنت، ریحانۃ النبی(ص) بلکہ تمام اہلبیت(ع) کو قتل کیا حالانکہ وہ امت کے چاند تھے، اور اہلبیت عصمت کی چادر چھین لی،( انا لله و انا الیه راجعون)

اگر خدا نے اسے جلد ہی جہنم واصل نہ کیا ہوتا تو یہ بدبخت و کمینہ مزید اسلام و مسلمانوں کے سرپر بلا لاتا، جس طرح ہم نے یزید کے باپ دادا کے عقیدہ کا انکشاف کیا اسی طرح اس بحث میں یزید کے عقیدہ کا بھی انکشاف کرنا اہمیت کا حامل ہے.مورخین کا بیان ہے کہ حسرہ وہ بدترین سانحہ ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان مرد و عورت قتل ہوئے ہیں اور ہزاروں باکرہ لڑکیوں کا افضا ہوا ہے، اور ہزاروں

____________________

۱.العقد الفرید جلد/۲ ص۳۰۱ پر ابن عبدربہ نے نقل کیا ہے کہ معاویہ نے منبر سے حضرت علی(ع) پر لعنت کی اور اپنے کارندوں کو لکھا کہ منبر سے حضرت علی(ع) پر لعنت کیا کریں سو انھوں نے شروع کردی ام سلمہ نے معاویہ کو لکھا: تم منبروں سے خدا و رسول(ص) پر لعنت کررہے ہو، اس لئے کہ تم علی بن ابی طالب(ع) اور ان کے دوستوں پر لعنت کررہے ہو، اور میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا و رسول(ص) انہیں دوست رکھتے ہیں لیکن معاویہ نے ان باتوں پر اعتماد نہ کیا.

۷۵

اسی لشکر کے سپاہیوں سے حاملہ ہوئیں، اور اس درندگی کو دیکھ کر باقی لوگوں نے اس بات پر یزید کی بیعت کر لی کہ وہ یزید کے غلام ہیں اور جس نے بیعت سے انکار کیا وہ قتل کیا گیا. اور جب یزید کو اس شرمناک واقعہ کی اطلاع دی گئی کہ جس کی مثال تاریخ بھی پیش کرنے سے قاصر ہے. جس میں روا رکھے جانے والے مظالم کے سامنے مغلوں، تاتاریوں اور اسرائیلیوں کے جرائم ماند نظر آتے ہیں، تو وہ بہت خوش ہوا اور رسول اسلام(ص) کی شماتت کا اظہار کرتے ہوئے زبعری کے وہ اشعار پڑھتا ہے.(۱) جو اس نے جنگ احد کے بعد پڑھے تھے.

ليت‏ أشياخي‏ ببدر شهدوا

 

جزع الخزرج من وقع الاسل‏

لأهلّوا و استهلّوا فرحا

 

ثم قالوا يا يزيد لا تشل‏

قد قتلنا القرم من ساداتهم‏

 

و عدلناه ببدر فاعتدل‏

لعبت هاشم بالملك فلا

 

خبر جاء و لا وحي نزل‏

لست من خندف إن لم أنتقم‏

 

من بني أحمد ما كان فعل‏

     

کاش بدر میں قتل ہونے والے بزرگ ہوتے تو آج تلور کی باڑ سے گھبرائے ہوئے خزرج کو دیکھنے اور خوشی سے اچھل پڑتے پھر کہتے اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں یقینا ہم نے( بنی ہاشم کے) سورمائوں کو قتل کیا اور ہی ہم نے بدر میں قتل ہونے والوں کا بدلہ لیا ہے. اگر میں اولاد احمد(ص) سے انتقام نہ لوں تو خذف سے نہیں ہوں یہ تو بنی ہاشم کا بادشاہت حاصل کرنے

____________________

۱.انساب الاشراف بلاذری جلد۵، ص۴۳، لسان المیزان جلد۶، ص۲۹۴، تاریخ ابن کثیر جلد۸، ص۲۲۱، الاصابۃ جلد۳، ص۴۷۳.

۷۶

کے لئے ایک ڈھونگ تھا ورنہ نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی خبر آئی ہے.

اور اس کا دادا ابوسفیان خدا و رسول(ص) کا پہلا دشمن صاف لفظوں میں یہ کہتا ہے کہ:

اے بنی امیہ خلافت کو گیند کی طرح نچائو ابوسفیان قسم کھا کے کہتا ہے کہ جنت و جہنم کچھ نہیں ہے،

اور اس کا باپ معاویہ خدا و رسول(ص) کا دوسرا دشمن صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ:

اس وقت جب موذن آذان میں اشہد ان محمداً رسولُ اللہ کہتا ہے. کم بخت اس کے کون سا ذکر و عمل باقی ہے؟.

قسم خدا کی قتال کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے.

لعبت هاشم بالملك فلا

 

خبر جاء و لا وحي نزل‏

یہ تو ( بنی ہاشم کا بادشاہت حاصل کرنے کے لئے ایک ڈھونگ تھا. ورنہ نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ کوئی خبر آئی ہے.

۷۷

ہم خدا و رسول(ص) اور اسلام کے بارے میں ان کے عقائد سے آگاہ ہوچکے اور ان کے اعمال شنیعہ کا مطالعہ کرچکے کہ جن کے ذریعہ وہ اسلام کے ستون اور رسول اسلام(ص) کی شخصیت کو مخدوش کرنا چاہتے تھے اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان میں سے ہم نے بہت ہی مختصر کا تذکرہ کیا ہے اگر ہم وسعت دینا چاہیں تو صرف معاویہ کے ایسے اعمال کے لئے ایک ضخیم جلد درکار ہے، ایک زمانہ میں جن پر ننگ و عار اور فضیحت کی بنیاد ہے اگر چہ بنی امیہ سے بخشش و عطا وصولنے والے بغص علمائے سوء نے ان عیوب کی پردہ پوشی کی حتی المقدور کوشش کی ہے، ان علماء کو لالچ نے اندھا بنادیا تھا، انہوں نے دنیا کو آخرت کے عوض خریدا تھا اور باطل سے حق کا سودا کر لیا تھا، حالانکہ وہ حقیقت سے واقف تھے، اکثر مسلمان اس سازش کا شکار ہوگئے.

اس مختصر بحث میں جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ مسلمانوں پر بنی امیہ اور ان کے پیروکاروں کا کتنا اثر ہوا کہ جنہوں نے سو سال تک مسلمانوں پر حکومت کی ہے جب کہ انھوں نے اپنا پرانا مسلک نہیں چھوڑا تھا.

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ منافقوں کا مسلمانوں پر بہت برا اثر پڑا ان کے عقیدے بدل دیئے، اخلاق و معاملات اور راستوں میں تبدیلی پیدا کر دی یہاں تک کہ ان کی عبادات میں رخنہ ڈال دیا اور نہ یہ کیسے ممکن تھا کہ امت حق کو نصرت سے چشم پوشی کر کے دشمنان خدا و رسول(ص) کے شانہ بشانہ ہوتی اور اولیائے خدا کی ذلت و رسوائی نہ ہوتی. اور ہمارے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم طلیق ابن طلیق ، لعین ابن لعین معاویہ کی خلافت تک رسائی کی تفسیر کریں. کہ جو اپنے کو رسول(ص) کا خلیفہ کہہ رہا تھا، ایک وقت میں مورخین ہمیں فریب دیتے ہیں کہ لوگوں نے عمر ابن خطاب سے کہا کہ اگر ہم آپ کو کجروی پر دیکھے تو شورش برپا کردیتے (تلواروں سے آپ کامقابلہ کرتے) انہیں مورخین

۷۸

کو ہم یہ لکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ معاویہ نے قہر و غلبہ سے مسند خلافت پر قبضہ کر لیا اور اپنے پہلے خطبہ میں تمام صحابہ سے کہا کہ میں نے تم سے نماز پڑھنے روزے رکھنے کے لئے جنگ نہیں کی ہے میں نے تو تم پر اپنی حکومت کے استحکام کے لئے جنگ کی تھی سو آج میں تمہارا حاکم ہوں، صحابہ میں سے کسی نے جنبش نہ کی اور نہ ہی کسی نے کوئی اعتراض کیا بلکہ اس کے نقش قدم پر چلتے رہے، اور یہ ہی نہیں بلکہ جس سال معاویہ خلیفہ ہوا اس سال کا نام بھی عام الجماعت رکھ دیا حالانکہ وہ سال عام الفرقہ تھا.

اس کے بعد ہم صحابہ کو اس بات پر راضی دیکھتے ہیں کہ معاویہ اپنے بیٹے کو ولی بنا دے جس کے بارے میں وہ نا واقف نہ تھے، معاویہ کے اس فعل سے بھی ان میں کوئی تحریک پیدا نہ ہوئی، ہاں جن صالح افراد میں پیدا ہوئی تھی انہیں یزید نے حادثہ حرہ میں قتل کرادیا اور باقی بچ جانے والوں سے اس بات پر بیعت لی کہ وہ یزید کے غلام ہیں، ان تمام باتوں کا کیا جواب ہوسکتا ہے؟ اس کے بعد ہم مومنوں کی امارت و رسالت کی باگ ڈور بنی امیہ کے فاسق ترین اشخاص مروان ابن حکم اور ولید ابن عقبہ وغیرہ کے ہاتھوں میں دیکھتے ہیں.

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مومنوں کے حاکم و امیر نے مدینہ رسول(ص) کو مباح قرار دے دیا لشکر نے جو کچھ کیا، کیا، عصمت دری کی خانہ خدا کو آگ لگائی، حرم خدا میں بہترین صحابہ کا قتل عام کیا، مومنوں کے حاکم نے ذریت رسول(ص) کا خون بہایا یعنی ریحانہ و ذریت رسول(ص) کو تہ تیغ کیا، ان کی بیٹیوں کو قید کیا، امت میں سے کسی میں جرائت نہ ہوئی اور کسی نے بھی جوانان جنت کے سردار کی مدد نہ کی.

انہی مومنوں کے امیروں میں سے ولید نے کتاب خدا کو پارہ پارہ کیا اور قرآن کو مخاطب کر کے کہا، جب روز حشر خدا کے پاس جانا تو کہدینا کہ پروردگارا مجھے ولید نے پارہ پارہ کیا.

۷۹

انہی مومنوں کے امیروں نے حضرت علی ابن ابی طالب(ع) پر منبروں سے لعنت کی اور اپنی حکومت کے لوگوں کو علی علیہ السلام پر لعنت کا حکم دیا اس طریقہ سے وہ رسول(ص) پر لعنت کرتے تھے پھر بھی ان مومنوں میں کوئی حرکت و جنبش پیدا نہ ہوئی، اور اگر کسی نے علی علیہ السلام پر لعنت کرنے سے انکار کردیا تو اسے قتل کردیا گیا. دار پر چڑھا دیا گیا.انہی مومنوں کے امیروں نے کھلم کھلا شراب خوری، زناکاری، لہو و لعب، ناچ وغیرہ کا ارتکاب کیا. لیکن کوئی اہمیت نہ دی گئی. پس جب امت اسعدیہ کے حاکموں کے اخلاقی انحطاط کی یہ حالت ہے تو ان میں ایسے عوامل بھی ہوں گے جنہوں نے ان کے عقیدوں کو متاثر کیا ہوگا ہماری اس بحث کا یہ مہم عنصر ہے کیونکہ اس کا تعلق عصمت اور رسول(ص) کی شخصیت سے ہے.

اوّلاً جس سے ہماری تنبیہ کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ خلفائے ثلاثہ ابوبکر و عمر و عثمان نے حدیث نبی(ص) کو قلم بند کرنے سے منع کر دیا تھا بلکہ بیان کرنے سے بھی روک دیا تھا.ابوبکر نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ایک روز لوگوں کو جمع کیا اور کہا تم لوگ رسول(ص) سے احادیث نقل کرتے ہو اور ان میں اختلاف کرتے ہو، اس سے تمہارے بعد لوگوں میں شدید اختلاف ہوگا لہذا آج سے تم رسول(ص) کی کوئی حدیث بیان نہ کرنا اور جو شخص تم سے سوال کرے اس سے کہدو ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب خدا موجود ہے. اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو.(۱) اسی طرح عمر ابن خطاب نے لوگوں کو حدیث رسول(ص) بیان کرنے سے منع کیا، قرظہ ابن کعب کہتے ہیں جب ہم عمر ابن خطاب کے ساتھ عراق جارہے تھے اس

____________________

۱.تذکرۃ الحفاظ، "ذہبی" جلد۱، ص۳۰۰۲.

۸۰

وقت درمیان راہ عمر نے کہا کہ تم لوگ جانتے ہو میں تمہارے ساتھ ساتھ کیوں چل رہا ہوں؟ سب نے کہا کہ ہماری عزت افزائی کے لئے انہوں نے کہا اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ جب تم دیہاتوں سے گذرو تو قرآن کو اس طرح پڑھنا جس طرح مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے انہیں احادیث سے آگاہ نہ کرنا کہ اس میں مشغول ہوجائیں، قرآن کو زیادہ پڑھو اور رسول(ص) سے کم روایت نقل کرو میں بھی تمہارا شریک کار ہوں.یہی راوی کہتا ہے کہ میں نے اس کے بعد کوئی حدیث نقل نہیں کی جب ہم لوگ عراق پہونچے تولوگ تیزی سے ہمارے پاس آئے تاکہ ہم سے حدیث کے بارے میں سوال کریں قرظہ نے ان سے کہا کہ ہمیں اس سے عمر نے منع کر دیا ہے.(1) عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ عمر ابن خطاب نے چپہ چپہ سے صحابہ کو جمع کر کے کہا: رسول(ص) کی حدیث بیان نہ کیا کرو. اور کہا کہ اس سلسلہ میں تا زندگی میرا ساتھ دینا اور مجھ سے جدا نہ ہونا پس صحابہ نے ان ک زندگی میں کوئی حدیث بیان نہ کی.(2) خطیب بغدادی اور ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں تحریر کیا ہے کہ: عمر ابن خطاب نے مدینہ میں تین صحابہ یعنی ابو درداء، ابن مسعود اور ابو مسعود انصاری کو جمع کرنے کا حکم دیا، صحابہ نے سوچا شاید عمر انہیں ایک انداز سے مرتب کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان میں کوئی اختلاف باقی نہ رہے اس لئے انہوں نے اپنی کتاب کو عمر کے حوالے کردیا اور عمر نے سب کو جلا دیا.(3)

____________________

1.مستدرک الحاکم جلد،1، ص110، کنز العمال جلد5، ص236.

2.سنن ابن ماجہ جلد1، ص12، سنن داری، جلد1، ص85، تذکرۃ الحفاظ جلد1.

3.الطبقات الکبری ابن سعد، جلد5، ص140.

۸۱

اس کے بعد عثمان مسند خلافت پر آتے ہیں اور وہ تمام لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ کسی کو اجازت نہیں ہے کہ وہ ان حدیثوں کو بیان کرے جو ابوبکر و عمر کے زمانہ میں نہیں سنی گئیں.(1)

اس کے بعد معاویہ ابن ابوسفیان کا زمانہ آتا ہے جب وہ مسند خلافت پر متمکن ہوا تو منبر پر جاکر کہا: لوگو! خبر دار تم نے رسول(ص) سے کوئی حدیث نقل کی مگر وہ حدیث جو عہد عمر میں بیان کی گئی.(2)

رسول(ص) کو حدیثوں کے نقل کرنے پر پابندی میں کوئی نہ کوئی راز ضرور تھا اور وہ یہ کہ کوئی ان حدیثوں پرعمل نہ کرے ورنہ اس طویل مدت میں رسول(ص) کی حدیثوں کو نقل کرنے پر کیوں پابندی لگائی تھی. اور حدیثوں کا لکھنا بھی عمر ابن عبدالعزیز کے زمانہ میں شروع ہوا.

گذشتہ بحثوں سے خصوصا اس نص صریح سے خلافت کے بارے میں جس کا رسول(ص) نے اعلان کیا تھا. ابوبکر و عمر نے اس حدیث کو رسول(ص) سے نقل کرنے سے اس لئے منع کر دیا تھا کہ کہیں یہ نصوص دنیا کے گوشہ و کنار میں یہاپ تک کہ دیہاتوں میں نہ پہونچ جائیں کہ لوگوں پر یہ بات آشکار ہو جائے گی کہ عمر و ابوبکر کی خلافت شرعی نہیں ہے. بلکہ اس کے حقیقی وارث توعلی بن ابی طالب(ع) ہیں اور ان کے اس حق کو غصب کر لیا گیا ہے اس موضوع پر ہم اپنی کتاب. "لاکون مع الصادقین" میں سیر حاصل بحث کرچکے ہیں. مزید اطمینان کے لئے اس کا مطالعہ فرمائیں.عمر بن خطاب کے بارے میں تعجب خیز بات یہ ہے کہ وہ ہر اس

____________________

1.منتخب کنز العمال حاشیہ مسند احمد، جلد4، ص64.

2.خطیب بغدادی، شرف اصحاب الحدیث، ص91.

۸۲

اور آپ کی طرف بھی ذکر(قرآن) کو نازل کیا ہے، ان کے لئے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں. یا یہ صاحب قرآن کو رسول(ص) سے بھی زیادہ جانتے تھے.یہ ان لوگوں کی کوشش ہے کہ جو کہتے ہیں کہ قرآن مجید اکثر عمر کی رائے کے موافق اور رسول(ص) کی رائے کے مخالف نازل ہوتا تھا، ان نا سمجھوں نے بہت بڑی بات کہہ دی. صحیح بخاری میں مجھے یہ واقعہ پڑھتے ہوئے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ عمر نے عمار یاسر کی روایت قبول کرنے سے انکار کردیا. خصوصا اس روایت کو جس میں نبی(ص) نے انہیں تیمم کا طریقہ تعلیم دیا تھا. اسی طرح عمار کے اس قول سے بھی مجھے تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے عمر کے خوف سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اسے بیان نہ کروں، یہ بات تو واضح ہے کہ عمر حدیث رسول(ص) بیان کرنے والے پر غضبناک ہوتے تھے. اور راوی کو مصائب کا سامنا کرنا پڑتا تھا.

جب خلیفہ سے وہ صحابہ بھی خوف کھاتے تھے جن کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا وہ مدینہ سے باہر نہیں حاسکتے تھے. یہاں تک کہ جو لوگ کہیں جاتے تھے انہیں حدیث بیان کرنے سے شدت کے ساتھ منع کیا جاتا تھا. ان کی ان کتابوں کو جن میں انہوں نے حدیثیں جمع کی تھیں جلا دیا گیا تھا. اور ان میں کچھ کہنے کی جرات بھی نہیں تھی. تو بے چارے عمار کی حیثیت ہی کیا تھی اور علی(ع) ابن ابی طالب کے شیعہ ہونے کے سبب ویسے بھی قریش کی نظروں میں خار تھے. اور جب ہم ٹھنڈے دل سے تامل کے ساتھ " یوم الخمیس" کہ جس روز رسول(ص) معبود حقیقی سے جاملے. کہ جس دن کو ابن عباس نے روز مصیبت کا نام دیا ہے. اس روز رسول(ص) نے حاضرین سے قلم و دوات طلب کیا تاکہ ان لوگوں کے لئے ایک نوشتہ لکھ دیں جس سے ان کے بعد کبھی گمراہ نہ ہوں، اس روز بھی ہم عمر ابن خطاب کو رسول(ص) پر اعتراض کرتے ہوئے دیکھتے ہیں." معاذ اللہ رسول(ص) پر ہذیان کا الزام لگاتے ہیں اور

۸۳

متناقض رائے کا موافق تھا جس کا تعلق خلافت سے ہوتا تھا. ایک جگہ ہم انہیں ابوبکر کی بیعت کو استوار کرتے اور لوگوں سے جبرا بیعت لیتے دیکھتے ہیں جو اتفاقی امر تھا. اور خدا ہی نے اس کے شر سے محفوظ رکھا پھر انہیں خلافت سے متعلق چھ رکنی کمیٹی بناتے اور یہ کہتے دیکھتے ہیں کہ اگر میں علی(ع) ابن ابی طالب کو خلیفہ بنادوں تو وہ لوگوں کو صحیح راستہ پرچلائیں گے. پس جب انہیں خلیفہ کیوں نہیں بنایا اور قصہ پاک کیوں نہیں کیا. تاکہ اس سے امت محمد(ص) کی اصلاح و حفاظت ہوجاتی.اس کے بعد ہم پھر تناقض دیکھتے ہیں اور عمر ابن عوف کو ترجیح دیتے ہیں پھر تناقض دیکھتے ہیں اور عمر کہتے ہیں کہ اگر حذیفہ کا غلام سالم زندہ ہوتا تو میں اس کو خلیفہ بنا دینا.(1)

اس سے زیادہ تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ ابوحفصہ عمر نے نبی(ص) سے حدیث نقل کرنے پر پابندی لگا دی، اور صحابہ کو مقید کردیا، باہر نکلنے سے منع کردیا اور جن لوگوں کو وہ کہیں تعینات کرتے تھے انھیں بھی لوگوں کے سامنے حدیث بیان کرنے سے پہلے ہی منع کر دیتے تھے. صحابہ کی ان کتابوں کو جلادیتے تھے جن میں نبی(ص) کی احادیث مرقوم تھیں، کیا عمر نہیں جانتے تھےکہ سنت نبی(ص) قرآن کو بیان کرتی ہے؟ کیا ان نظروں سے خدا کا یہ قول نہیں گذرا تھا:

( وَ أَنْزَلْنا إِلَيْكَ‏ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ .) نحل/44

____________________

1.اسی حدیث سے ابوحنیفہ نے لوگوں کی خلافت پر حجت قائم کی ہے اور اس طرح انہوں نے رسول(ص) کی اس حدیث کی مخالفت کی ہے کہ خلافت قریش ہی میں رہے گی اور شاید یہی وجہ ہے کہ ترکیوں نے خلافت حاصل کرنے کے لئے ابوحنیفہ کے مذہب کو قبول کر لیا اور نہیں امام اعظم کا نام دے دیا.

۸۴

کہتے ہیں کہ ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے، اس واقعہ کو بخاری، مسلم، ابن ماجہ، نسائی، ابو دائود، اور امام احمد وغیرہ کے علاوہ بہت سے مورخین نے بھی نقل کیا ہے.

جب عمر خود رسول(ص) کو اپنی حدیث لکھنے سے منع کرسکتے ہیں اور وہ بھی صحابہ اور اہلبیت(ع) کے ایک جم غفیر کے سامنے جسارت کے ساتھ رسول(ص) کی شان میں گستاخی کرسکتے ہیں اور ان پر ہذیان کی تہمت لگاسکتے ہیں کہ جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ انہوں نے رسول(ص) کی وفات کے بعد زر خرید غلاموں اور لوگوں کو رسول(ص) کی احادیث نقل کرنے سے منع کردیا ہو اور پھر وہ خلیفہ (حاکم) وقت تھے جن کے پاس طاقت و ثروت موجود تھی. اور اس میں بھی شک نہیں ہے. کہ صحابہ کی کثیر تعدا کی تعالق انصار اور قریش سے تھا یہیہ بہترین افراد تھے، قبیلوں میں ان کا اثر و رسوخ تھا یہ قبیلے خوف، طمع یا نفاق کی وجہ سے آنحضرت(ص) کے ساتھ رہتے تھے ان صحابہ کی اکثریت کو بھی ہم عمر کی ہاں میں ہاں ملاتے دیکھتے ہیں کہ وہ نبی(ص) پر ہذیان کا الزام لگا رہے ہیں اور احادیث رسول(ص) کے لکھنے کی پابندی میں بھی ہم انہیں عمر کے شانہ بہ شانہ دیکھتے ہیں میرا عقیدہ ہے کہ نبی(ص) نے جو حدیث لکھوانے کو نظر انداز کیا ہے اس کا سب سے بڑا سبب یہی تھا کیونکہ وہ وحی کے ذریعہ اس بات کو جانتے تھے کہ منصوبے قوی ہیں اگر اس سلسلہ میں کوئی کتاب لکھی جائے گی تو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے. رسول(ص) وہ چیز لکھنا چاہتے تھے جو امت کو ضلالت و گمراہی سے محفوظ، رکھنے والی تھی یعنی اگر امیر و خلفا موقف بدل دیں گے تو وہ کتاب ( اگر لکھی جائے) ضلالت و گمراہی سے محفوظ رہنے کا باعث ہوگی. پس رسول(ص) کے چہرہ اقدس کا رنگ کیسے متغیر نہ ہوتا جب کہ آپ بستر مرگ پر تھے اور آپ کے کان میں پروردگار کی طرف سے وحی کی مسلسل آواز آرہی تھی اپنی امت کی سرکشی دیکھ کر آپ کا دل حسرت و یاس سے بھر گیا.

۸۵

( أَ فَإِنْ‏ ماتَ‏ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى‏ أَعْقابِكُمْ )

یہ آیت عبث تو نازل نہیں ہوئی بلکہ یہ ایک حتمی نتیجہ ہے، کیونکہ خداوند عالم نے اپنے نبی(ص) کو امت کی دسیسہ کاریوں اور ان کے مکر و فریب سے آگاہ کردیا تھا. پس وہ تو آنکھوں کی خیانت اور دلوں میں چھپے ہوئے رازوں سے آگاہ ہے، اور قسم ہے اس ذات کی جس نے اپنے رسول(ص) کو عزت بخشی اور ان کو ہر ایک چیز سے با خبر کیا. اور ان کو اس سے کہیں بہتر جزا دی کہ جو ان کی امت کی طرف سے مل سکتی تھی. اور ان کو امت کے ارتداد و کفر کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا بلکہ آپ سے فرمایا:

( وَ يَوْمَ‏ يَعَضُ‏ الظَّالِمُ‏ عَلى‏ يَدَيْهِ يَقُولُ يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يا وَيْلَتى‏ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جاءَنِي وَ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا، وَ قالَ الرَّسُولُ يا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً، وَ كَذلِكَ جَعَلْنا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ وَ كَفى‏ بِرَبِّكَ هادِياً وَ نَصِيراً .) فرقان/27-31

اس روز ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا کہ کاش میں نے رسول(ص) کے ساتھ ہی راستہ اختیار کیا ہوتا. ہائے افسوس کاش میں نے فلان شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا اس نے تو ذکر کے آنے کے بعد بھی مجھے گمراہ کر دیا اور شیطان انسان کو رسوا کرنے والا ہی ہے اور اس روز رسول(ص) آواز دے گا کہ پروردگارا اس میری قوم نے اس قرآن کو بھی نظر انداز کر دیا ہے اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے مجرمین میں سے

۸۶

کچھ دشمن قرار دیئے ہیں اور ہدایت و امداد کے لئے تمھارا پروردگار کافی ہے.

اس بحث میں جس چیز کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے وہ یہ غم انگیز نتیجہ ہے کہ جس تک ہم پہونچ چکے ہیں وہ نتیجہ یہ ہے کہ ابوسفیان اور معاویہ نبی(ص) کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات نہ کرتے اگر ان کے سامنے عمر ابن خطاب کا رسول(ص) کے خلاف سابقہ مذموم موقف اور جسارت نہ ہوتی. خصوصا جب ہم رسول(ص) کے طول حیات میں عمر کے موقف کو دیکھتے ہیں تو عمر بے شمار موقعوں پر رسول(ص) کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مخالفت کے پس پشت ضرور کوئی بڑا راز مخفی تھا. اور وہ راز رسول(ص) کی شخصیت کو گرانا اور لوگوں کی نظروں میں ان کو ایک عام شخص ثابت کرنا تھا. اس میں نژاد پرستی، گمراہی اور خواہش نفس کی پیروی شامل تھی اور یہ سب کچھ اس لئے کیا جارہا تھا تاکہ لوگوں کو یہ باور کرادیں کہ رسول(ص) معصوم نہیں ہیں. اس کی دلیل یہ ہے کہ عمر این خطاب نے متعدد مواقع پر رسول(ص) کی مخالفت کی اور کہا گیا ہے کہ قرآن عمرابن خطاب کی تائید میں نازل ہوا، نوبت یہاں تک آپہونچی کہ خداوند عالم نے اپنے نبی(ص) کو ڈرایا. پس آپ(ص) رونے لگے اور کہنے لگے:

اگر خداوند عالم ہم کو مصیبت میں مبتلا کردے تو سوائے عمر ابن خطاب کے کوئی نجات دلانے والا نہیں ہے.(1)

کبھی عمر رسول(ص) کو حکم دیا کرتے تھے کہ آپ اپنی بیویوں سے پردہ کروائیں

____________________

1.ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں، مسلم، احمد بن حنبل، ابی دائود اور ترمذی سے نقل کیا ہے اور اسی طرح سیرت حلبیہ اور سیرت وحدانیہ کی جلد1 ص512 پر مرقوم ہے.

۸۷

لیکن رسول(ص) عمر ابن خطاب کے کہنے کے مطابق عمل نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ عمر ابن خطاب کی تائید میں قرآن نازل ہوا ا ور نبی(ص) کو حکم دیا کہ آپ اپنی بیویوں سے پردہ کروائیں.(1)

شیطان رسول(ص) سے نہیں ڈرتا تھا لیکن عمر سے بھاگتا ہی نظر آتا تھا، اس کے علاوہ اور بہت سی مضحکہ خیز روایات ہیں کہ جو رسول(ص) کی عظمت و شخصیت کو مجروح کرتی ہیں اور صحابہ کی قدر ومنزلت میں اضافہ کرتی ہیں لیکن عمر کو اس سلسلہ میں زیادہ ہی اہمیت حاصل ہے. یہاں تک کہ ان کے چاہنے والوں نے خدا ان کو رسوا کرے رسول(ص) کے بارے میں یہ روایت بھی گڑھ دی کہ رسول(ص) کو عمر کی نبوت میں شک تھا. اور یہ حدیث انہوں نے اس لئے گڑھی ہے کہ ایک مرتبہ رسول(ص) نے فرمایا کہ جب بھی جبرئیل کو میرے پاس آنے میں تاخیر ہوتی ہے تو میں یہ ہی سمجھتا ہوں کہ وہ عمر ابن خطاب کے پاس گئے ہوں گے!! میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ اس قسم کی حدیثیں معاویہ ابن ابوسفیان کے زمانہ میں اس لئے گڑھی گئیں تا کہ حضرت علی(ع) کی عظمت و فضیلت پر پردہ ڈالا جاسکے اس لئے اس نے ابوبکر، عمر، عثمان کی تعریف اور ان کے فضائل کے سلسلے میں حدیثیں گڑھوائیں تاکہ لوگوں کی نظروں میں ان کی عظمت بڑھ جائے اور علی علیہ السلام کی شخصیت مجروح ہوجائے. اس سے دو مقصد سامنے آتے ہیں.

پہلا مقصد یہ کہ: علی علیہ السلام کی عظمت کو گھٹانا جیسا کہ ان کو ابوتراب کہتے ہیں. اور لوگوں کو ان کی طرف سے بدظن کرنا اور خلفائے ثلاثہ مو ان پر فوقیت دینا.

دوسرا مقصد یہ کہ: احادیث وضع کرانا تاکہ خلافت کے سلسلہ میں

____________________

1. صحیح بخاری جلد1، ص46.

۸۸

حکم رسول(ص) اور ان کی وصیتوں کو پس پشت ڈال دیں بالخصوص حسنین(ع) کی خلافت کہ جو معاویہ کے ہمعصر تھے پس جب علی(ع) کے بارے میں خلفائے ثلاثہ نے حکم رسول(ص) کی پروا نہ کی تو معاویہ کے لئے اولاد علی(ع) کےبارے میں حکم رسول(ص) کی مخالفت کیا مشکل تھی.

پسر ہندہ نے اپنے مقصد میں بڑی کامیابی حاصل کی اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ہم آج حضرت علی علیہ السلام کے علم و شجاعت، قرابت اور اسلام و مسلمانوں پر آپ کے احسان کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں تو ہماری آنکھوں کے سامنے "کسی کا یہ قول آتا ہے کہ" رسول اسلام(ص) نے فرمایا:

" اگر ابوبکر کے ایمان کو پوری امت کے ایمان کے ساتھ تولا جائے تو بھی ابوبکر کے ایمان کا پلہ بھاری رہے گا." اور کبھی ہماری نظروں ے سامنے کسی کا یہ قول آتا ہے کہ: عمر فاروق وہ ہیں جو حق کو باطل سے الگ کرتے ہیں.اور کبھی ہماری نظروں کے سامنے عثمان کے بارے میں کسی کا یہ قول آتا ہے کہ: عثمان ذوالنورین ہیں اور ان سے ملائکہ بھی شرم کرتے ہیں.

ان بحثوں کی تحقیق کرنے والے پر یہ بات آشکار ہوجائے گی کہ عمر ابن خطاب کو زیادہ فضیلت دی گئی ہے یہ کوئی اتفاقی امر نہیں ہے، ہرگز، کیونکہ اس کا موقف ہی رسالتمآب(ص) سے جھگڑنا اور ان کے حکم کی مخالفت کرنا تھا اس لئے قریش عمر کو بہت دوست رکھتے تھے. خصوصا قریش کی نگاہوں میں عمر کی اہمیت اسی وقت اور زیاہ بڑھ گئی تھی جب انھوں نے حضرت علی علیہ السلام سے خلافت چھین کر قریش کو دوبارہ حاکم بنا دیا تھا. پھر کیا تھا خلافت کی طمع بنی امیہ کے طلقا اور ملعون قسم کے لوگوں میں بھی پیدا ہوگئی اور سارے قریش اور ان کے راس و رئیس ابوبکر بخوبی جانتے تھے

۸۹

مسلمانوں پر ہماری حکومت عمر ابن خطاب کی مرہون منت ہے. رسول(ص) کی مخالفت میں عمر بڑے جسور تھے اور عمر ہی نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا نوشتہ لکھنے سے رسول(ص) کو باز رکھا تھا.عمر ہی وہ ہے جس نے لوگوں کو ڈرایا اور نبی(ص) کی وفات کے سلسلہ میں انہیں ابوبکر کی بیعت ہونے تک شک میں مبتلا رکھا تاکہ لوگ علی(ع) کی بیعت نہ کر لیں.سقیفہ کے چیمپین عمر ہی تھے. عمر ہی نے ابوبکر کی بیعت کو استحکام بخشا ور ان ہی نے ابوبکر کی بیعت سے منکر اور حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں پناہ گزین افراد سے کہا کہ گھر سے باہر نکل آئو اور ابوبکر کی بیعت کر لو ورنہ میں گھر میں آگ لگا کر سب کو جلا دونگا. اسی عمر نے لوگوں سے جبرا ابوبکر کی بیعت لی، ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں خود عمر ہی نے عہدے تقسیم کئے، اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ ابوبکر کے دور خلافت میں عمر ہی اصل حاکم تھے بعض مورخین نے لکھا ہے کہ جب مولفۃ القلوب ابوبکر کے پاس اپنا وہ حصہ لینے آئے جو خدا نے مقرر کیا اور رسول(ص) نے نوشتہ لے کر پھاڑ دیا. اور کہا ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے، خدا نے اسلام کو عزت و سر افرازی عطا کی ہے، وہ تمہارا محتاج نہیں ہے. اگر تم اسلام قبول کرتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار ہے. عمر کا رویہ دیکھ کر وہ لوگ ابوبکر کے پاس آئے اور کہا کہ خلیفہ وہ ہیں یا آپ؟ تو ابوبکر نے عمر کے فعل سے خوش ہو کر کہا کہ وہی ہیں.(1) ایک مرتبہ ابوبکر نے دو صحابہ کے لئے ایک زمین کا قطعہ لکھ دیا اور اسے دستخط کے لئے عمر کے پاس بھیج دیا جب عمر کے پاس پہونچا تو انہوں نے اس پر تھوک دیا اور تحریر کو مٹا دیا، ان لوگوں نے عمر کو برابر بھلا کہا اور پھر ابوبکر کے پاس آئے اور ان سے

____________________

1.کتاب الجوہرة النیرہ فی الفقہ الحنفی جلد1، ص164.

۹۰

غصہ میں کہا کہ: ہمیں نہیں معلوم خلیفہ آپ ہیں یا وہ؟ ابوبکر نے کہا کہ عمر، اس کے بعد عمر غضب کے عالم میں ابوبکر کے پاس آئے اور کہا کہ: تمہیں ان دونوں کو زمین دینے کا کوئی حق نہیں پہونچتا. ابوبکر نے کہا کہ میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ اس کلام کے لئے مجھ سے زیادہ مناسب ہیں. لیکن آپ نے مجھ پر زور دیا.(1) یہاں پر یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ عمر ابن خطاب کی بالعموم قریش میں اور خصوصا بنی امیہ میں تقویت کا راز کیا تھا. کہ وہ ان کو عبقری کے نام سے پکارنے لگے اور فاروق کے لقب سے نوازنے لگے، عدل مطلق کا خطاب دیا جانے لگا یہاں تک کہ رسول(ص) پر بھی ان کو فضیلت دینے لگے.یہیں سے دشمنان اسلام اور مستشرقین کے لئے دروازہ کھل گیا اور وہ کہنے لگے کہ محمد(ص) مرد عبقری تھے. اور ان کی قوم بت پرست تھی، پتھروں کے خدائووں کو پوجنا ان کی عادت تھی. محمد(ص) نے ان کی یہ عادت تو ختم کردی لیکن پرستش کے لئے حجر اسود چھوڑ گئے.ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ ہم عمر ابن خطاب کو حدیث رسول(ص) لکھنے سے منع کرنے میں پیش پیش دیکھتے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے صحابہ کو مدینہ میں مجبوس کردیا. حدیثوں کی کتابوں کو نذر آتش کر دیا تاکہ سنت نبی(ص) لوگوں میں رواج نہ پائیے.انہیں باتوں سے یہ نکتہ بھی ہماری سمجھ میں آجاتا ہے کہ علی(ع) کیوں گھر میں بیٹھ رہے تھے. اور آپ صرف اس وقت گھر سے نکلتے تھے جب صحابہ کسی مسئلہ کے حل کرنے سے عاجز ہوکر آپ کو مشکل کشائی کے لئے بلاتے تھے. عمر نے علی(ع) کو نہ شہر کا ولی بنایا اور نہ کوئی دوسرا منصب دیا. بلکہ انہیں میراث فاطمہ(ع) سے بھی محروم کردیا. آپ کے پاس

____________________

1.الاصابہ فی معرفۃ الصحابہ للحجر عسقلانی نے عیینہ کے حالات میں لکھا ہے نیز ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کی ج2، ص108پر درج کیا ہے.

۹۱

مال دنیا میں سے کچھ نہ تھا.شاید اسی لئے مورخوں نے یہ بھی لکھ دیا کہ جب آپ نے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد لوگوں کی بے رخی دیکھی تو آپ بیعت کرنے پر مجبور ہوگئے.

اے ابوالحسن آپ کو مبارک ہو یہ لوگ آپ کے کیونکر دشمن نہ ہوتے اس لئے آپ نے ان کے بڑے بڑے سور مائوں اور عزیزوں کو تہ تیغ کیا تھا. ان کے شیرازہ کو منتشر کیا تھا، ان کی نیندیں حرام کر دی تھیں، ان کے فضائل کا سد باب کر دیا تھا، نیکیوں کے میدان میں ان کے لئے کوئی جگہ نہ چھوڑی تھی اس کے علاوہ آپ(ع) رسول(ص) کے ابن عم اور ان سے سب سے زیادہ قریب ہیں، فاطمہ زہرا(ع) کے شوہر اور سبطین سیدا شباب اہل الجنہ(ع) کے والد ہیں سب سے پہلے اسلام لائے اور سب سے زیادہ علم والے ہیں.

آپ کے چچا حمزہ سید الشہدا ہیں اور آپ کے حقیقی بھائی جعفر طیار ہیں، سید البطحا نبی(ص) کے کفیل ابو طالب آپ کے والد ہیں، سارے ائمہ آپ ہی کے صلب سے ہیں آپ سابقوں میں سابق اور لاحقوں میں لاحق ہیں، آپ شیر خدا اور اس کے رسول(ص) کے محافظ ہیں. آپ اللہ اور اس کے رسول(ص) کی شمشیر ہیں، آپ خدا و رسول(ص) کے امین ہیں چنانچہ آپ کو سورہ برائت دے کر بھیجا اور آپ کے بغیر وہ محفوظ بھی نہیں رہ سکتا تھا. آپ ہی صدیق اکبر ہیں، آپ کے بعد اس کا دعویدار مہا جھوٹا ہے. آپ فاروق اعظم ہیں کہ جس کے ساتھ ساتھ حق مڑتا تھا، باطل کی تاریکیوں میں آپ ہی سے حق کی شناخت ہوتی تھی، آپ کھلی اور واضح نشانی ہیں کہ جس کی محبت سے مومن کا ایمان اور دشمن سے منافق کا نقاق پہچانا جاتا ہے. آپ شہر علم کے دروازہ ہیں اور (رسول(ص) کے پاس) آنے والا اسی سے آئے گا، آپ تک رسائی کے بغیر رسول(ص) تک رسائی کا دعویدار جھوٹا ہے.پس اے ابوالحسن(ع) ان میں سے کون آپ کی برابری کرسکتا ہے

۹۲

آپ جیسی فضیلتوں کا حامل کون ہے. اگر شرافت کا کوئی نمونہ ہے تو آپ عظمت و بزرگی کا آغاز و انجام ہیں. یقینا خدا نے جو اپنے فضل سے آپ کو عطا کیا ہے. اس پر حسد ہوگا. اور آپ کو اس لئے دور رکھا جائے گا کہ خدا نے اپنے قرب سے آپ کو محفوظ کیا ہے.

( وَ سَيَعْلَمُ‏ الَّذِينَ‏ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ... )

ہمارا قلم یقینا حضرت امیرالمومنین(ع) کی تعریف کی طرف مڑ گیا جو اپنی زندگی میں بھی مظلوم تھے اور موت کے بعد بھی مظلوم رہے.یقینا آپ کے لئے رسول(ص) میں اسوة حسنہ تھے وہ بھی اپنی زندگی اور مرنے کے بعد مظلوم تھے.کیونکہ آپ نے پوری زندگی جہاد، نصیحت اور مومنین کی نجات کی کوشش میں گذاری، لیکن لوگوں نے آخری وقت انہیں برے الفاظ سے نوازا، اپ پر ہذیان کا بہتان لگایا اور جب آپ نے لشکر اسامہ میں شرکت کا حکم دیا تو سرکشی و تمرد سے پیش آئے اور خلافت کی طمع میں سقیفہ میں جا بیٹھے اور آپ(ص) کے جسد مبارک کو بے گور و کفن چھوڑ دیا اور وفات کے بعد لوگوں کی نظروں میں آپ کی شخصیت کو گرانے کی کوشش میں لگ گئے. آپ(ع) کو غیر معصوم قرار دیا جبکہ قرآن و وجدان آپ(ع) کی عصمت کو گواہی دے رہے ہیں. اور یہ سب اس لئے تھا کہ ہر حکم زائل اور دنیا فانی ہے.

گذشتہ بحث سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ صحابہ خلافت کے چکر میں رسول(ص) کی شخصیت مجروح کیا. پس جب خلافت میراث کے طور پر بنی امیہ ان کے راس و رئیس معاویہ کے ہاتھ میں پہونچی تو وہ اس کی طرف سے مطمئن ہوگئے لیکن وہ ان میں سے ایک کے گرد گھومنے والی نہیں تھی کسی نہ کسی دن ان کے ہاتھ سے جانی تھی، اسی لئے بنی امیہ نے رسول(ص) کی شخصیت و عظمت کی تنقیص

۹۳

میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور ان کی شخصیت کے منافی احادیث گڑھوائیں. میرا عقیدہ ہے کہ اس کے دو(2) بڑے اسباب تھے:

پہلا سبب

رسول(ص) کی عظمت گھٹانا قبائل عرب کے درمیان نبی ہاشم کو رسول(ص) کی بدولت حاصل شدہ عزت و شرافت کو خالک میں ملانا اور نبی ہاشم کو ذلیل و خوار کرنا خصوصا جب ہمیں یہ علم ہے کہ بنی امیہ اپنے بھائی ہاشم سے ہمیشہ حسد کرتا رہا، اور ان کے خلاف مستقل نبردآزما رہا. سونے پہ سہاگہ یہ کہ علی(ع) رسول(ص) کے بلا تردید بنی ہاشم کے سردار تھے اور اس بات کو خاص وعام سب ہی جانتے ہیں کہ معاویہ کو حضرت(ع) سے سخت بغض تھا ان سے خلافت چھیننے کے لئے فسادات اور جنگوں کی آگ بھڑکاتا رہا، اور آپ کی شہادت کے بعد منبروں سے آپ پر لعنت کرائی. معاویہ کے لحاظ سے رسول(ص) کی شخصیت کی ہتک علی(ع) کی شخصیت کی شکست و ریخت میں منحصر تھی، بالکل اسی طرح جس طرح حضرت علی(ع) پر سب وشتم کرنا در حقیقت رسول(ص) پر سب وشتم کرنا ہے.

دوسرا سبب

رسول(ع) کی عزت اور قدر و قیمت گرانا اس لئے تھا کہ بنی امیہ اپنے ان سیاہ کرتوتوں، برے اعمال کی پردہ پوشی کرسکیں جن سے تاریخ بھری پڑِی ہے. جس طرح بنی امیہ نے رسول(ص) کی تصویر کشی کی کہ( معاذ اللہ) آپ خواہش نفس کے تابع، عورتوں کے ایسے ریسا تھے کہ واجبات تک کو چھوڑ دیتے تھے اور بعض کے تو ایسے عاشق ہوتے تھے کہ دوسری ازواج کی طرف مڑکر بھی نہ دیکھتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے عدل کا مطالبہ کیا.

۹۴

پس جب رسول(ص) کی یہ کیفیت ہوگی تو پھر معاویہ و یزید ایسے (بدکار) لوگوں پر کیسے لعنت و ملامت کی جاسکے گی.

ممکن ہے دوسرے سبب میں یہ راز بھی پوشیدہ ہو کہ امویوں نے رسول(ص) کے لئے وہ روایات و احادیث گڑھیں کہ جن پر قبل اسلام عمل ہوتا تھا. اور مسلمان انہیں مسلم و صحیح رسول(ص) کے اقوال و افعال سمجھتے ہیں کہ سو وہ ان کے نزدیک سنتِ نبی(ص) ہیں.مثال کے طور پر بعض احادیث آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ جو رسول(ص) کی عظمت کو گھٹائے اور ان کے مرتبہ کو کم کرنے کے لئے گڑھی گئی ہیں. میں اس موضوع کو پھیلانا نہیں چاہتا ہوں بلکہ اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے وہی تحریر کرونگا جو بخاری و مسلم نے اپنی صحاح میں روایت کی ہے.نبی(ص) کے بارے میں ذلت آمیز حدیثیں!

1.بخاری نے کتاب الغسل کے جماع کرکے دوبارہ جماع کرنے والے باب میں روایت کی ہے کہ انس نے کہا کہ:

نبی(ص) رات دن میں گیارہ بیویوں سے ایک گھنٹے کے اندر اندر مجامعت کرتے تھے، راوی کہتا ہے کہ میں نے انس سے پوچھا کہ نبی(ص) اس کی طاقت رکھتے تھے؟ انس نے کہا: ہم یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ انہیں تیس کی قوت عطا کی گئی تھی.

قارئین محترم اس اہانت آمیز روایت کو ملاحظہ فرمائیے کہ جو ہمارے سامنے رسول(ص) کو خواہشات کا پیکر بنا کر پیش کرتی ہے. (معاذ اللہ) آپ گیارہ بیویوں سے ایک گھنٹہ میں رات یا دن میں جماع کیا کرتے تھے. اس سرعت سے اور بغیر غسل کے پہلی سے فراغت حاصل کر کے دوسری سے جماع کرنے لگتے تھے.

۹۵

قارئین محترم آپ تصور کیجئے، سوچئے کہ کیا انسان اپنی بیوی پر کسی حیوان کی جھپٹ پڑتا ہے. نہ اس کے ساتھ خوش فعلی کرتا ہے نہ اسے آمادہ کرتا ہے جبکہ یہ چیز ہم نے حیوانات میں بھی دیکھی ہے کہ وہ جماع کے عمل کو کافی دیر تک جاری رکھتے ہیں، پہلے اس کے مقدمات مہیا کرتے ہیں، تیار ہوتے ہیں تو رسول اعظم ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟ خدا انہیں غارت کرے اور ان پر لعنت کرے....

اور یہ کہ اس زمانہ میں عرب جماع پر فخر کیا کرتے تھے، اور اسی کو مردانگی کی علامت قرار دیتے تھے. پس لوگوں نے رسول(ص) کے لئے یہ قصہ گڑھ دیا حاشا آپ خود فرماتے ہیں کہ:

اپنی بیویوں سے حیوانوں جیسا سلوک نہ کرو بلکہ اپنے اور ان کے درمیان کے مسائل ثالث سے حل کرو.

اس قسم کی روایات ہی نے نبی(ص) کے خلاف دشمنان اسلام کی زبان درازی کی جرات دلائی ہے کہ رسول(ص) جنس پرستی، جماع کے شوقین، عورتوں کے رسیا ایسی تہمتیں لگائی ہیں.

کیا اہم اس قصہ کے راوی انس ابن مالک سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کو یہ واقعہ کس نے سنایا؟ آپ کو یہ کس نے بتایا کہ رسول(ص) اپنی گیارہ بیویوں سے ایک گھنٹے میں ہمبستری کر لیتے تھے؟

کیا نبی(ص) ہی نے یہ واقعہ سنایا تھا؟ کیا ہم میں سے کسی کے شایان شان یہ بات ہے کہ وہ اپنی زوجہ سے ہمبستری کی روداد کو لوگوں کے سامنے سنائے؟ کیا ازواج نبی(ص) نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے؟ کیا کسی مسلمان عورت کے لئے یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے شوہر سے مباشرت کی کیفیت کو مردوں کے سامنے بیان کرے؟ یا انس ابن مالک خود نبی(ص) کے تجسس میں رہتا تھا اور جب نبی(ص) اپنی بیویوں کےساتھ خلوت

۹۶

میں ہوتے تو انس دروازوں کےسوراخوں سے جھانک کر دیکھا کرتے تھے؟ میں شیطانی وسوسوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں، جھوٹوں پر خدا کی لعنت کرے.

مجھے اس سلسلہ میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے حکام کہ جو عورتوں اور کنیزوں کے رسیا ہونے میں مشہور تھے انھوں نے اپنی گلو خلاصی کے لئے یہ واقعہ گڑھا ہے.

2.بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/3 ص132 اسی طرح مسلم نے اپنی صحیح کی جلد/7ص136 پر عائشہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا کہ:

ایک روز چند ازواج نبی(ص) نے جناب فاطمہ(س) کو آپ کی خدمت میں بھیجا. فاطمہ(س) آئیں اور اجازت چاہی، آپ(ص) میرے پاس لیٹے ہوئے تھے. رسول(ص) نے اجازت دی، فاطمہ(س) نے عرض کی کہ یا رسول اللہ(ص) آپ کی ازواج نے مجھے آپ کی خدمت میں یہ پیغام دیکر بھیجا ہے کہ آپ اپنی ازواج اور بنت ابوبکر عائشہ کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیں.

عائشہ کہتی ہیں کہ میں خاموش تھی، پھر عائشہ کہتی ہیں کہ رسول(ص) نے فاطمہ(س) سے فرمایا: میری لخت جگر کیا وہ چیز تمہیں پسند نہیں جو مجھے محبوب ہے. فاطمہ(س) نے عرض کی بالکل محبوب ہے آپ نے فرمایا تو اس(عائشہ) سے محبت کرو. روایت آگے بڑھ کر پھر کہتی ہے کہ:

دوسری مرتبہ ازواج نبی(ص) نے زوجہ نبی(ص) زینب بنت جحش کو بھیجا کہ آپ(ص) سے عائشہ اور دوسری ازواج کے درمیان عدل و انصاف کا تقاضا کرے زینب رسول(ص) کی خدمت میں آتی ہیں اور

۹۷

رسول(ص) عائشہ کے پاس لیٹے ہیں اور عائشہ کی ٹانگوں پڑ کپڑا نہیں ہے، زینب ازواج نبی(ص) کی طرف سے ابوبکر کی بیٹی کے سلسلہ میں انصاف کا مطالبہ کرتی ہیں اور پھر عائشہ پر برس پڑتی ہیں، پھر عائشہ زینب پر لعن طعن کر کے جب خاموش ہوئی ہیں تو رسول(ص) کو ہنسی آجاتی ہے اور کہتے ہیں" یہ ابوبکر کی بیٹی ہے"

میں بلا خوف کے یہ بات کہتا ہوں کہ یہ روایت کہ جو رسول(ص) کو ہوا و ہوس کا شیدائی، بیویوں کے سلسلہ میں غیر عادل ہونا قرار دیتی ہے گڑھی ہوئی ہے، یہ وہ رسول(ص) ہے جس کی زبان سے قرآن کی یہ آیت بھی آئی ہے.

( فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ)

اگر تمہیں ان میں انصاف نہ کرسکنے کا خطرہ ہو تو صرف ایک یا جو کنیزیں تمہاری ملکیت ہیں.

اور پھر رسول(ص) اپنی بیٹی فاطمہ(س) کو داخل ہونے کی کیسے اجارت دیتے ہیں جبکہ وہ اپنی زوجہ کے پاس اور اس عالم میں کہ عائشہ کے پیر پر چادر بھی نہیں تھی، اور رسول(ص) نہ اٹھ کے بیٹھتے ہیں نہ کھڑے ہوتے ہیں بلکہ لیٹے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیٹی کیا تمہیں وہ چیز پسند نہیں جو مجھے محبوب ہے؟ اور بالکل یہی حادثہ زینب کے داخل ہونے پر سامنے آتا ہے، جب وہ انصاف کا تقاضا کرتی ہیں تو آپ مسکراتے ہیں اور یہ کہکر ٹال دیتے ہیں کہ یہ ابوبکر کی بیٹی ہے.

قارئین کرام ان اہانت آمیز باتوں کو ملاحظہ فرمائیں کہ جن کو رسول(ص) سے منسوب کردیا گیا ہے. عدالت و مساوات کے بارے میں اہلسنت کا نظریہ دیکھئے وہ کہتے ہیں کہ عدل تو عمر ابن خطاب کے ساتھ دفن ہوگیا اور رسول(ص) کی ایسی تصور کشی کرتے ہیں کہ جو اخلاقی اقدار سے عاری ہے، بے حیائی کی کوئی حد ہے؟

۹۸

اس روایت کی صحاح اہلسنت میں اور بہت سی مثالیں مل جائیں گی کہ جن سے راویوں کا مقصد یا تو کسی صحابی کی عزت افزائی ہے یا عائشہ کی فضیلت بڑھانا کیونکہ ابوبکر کی دختر ہے. پس اہلسنت جان بوجھ کر یا لا شعور طور پر رسول(ص) کی منقصت کرتے ہیں جیسا کہ میں گذشتہ بحث میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ احادیث و روایات رسول(ص) کی عظمت و منزلت کم کرنے کے لئے گڑھی گئی ہیں. اسی کے مثل آپ کے سامنے تیسری روایت پیش کرتا ہوں.

3.مسلم نے اپنی صحیح میں فضائل عثمان ابن عفان کے باب میں عائشہ اور عثمان سے روایت کی ہے کہ:

ابوبکر نے رسول(ص) کے پاس آنے کی اجازت چاہی جبکہ آپ عائشہ کے پاس لیٹے ہوئے تھے آپ نے ابوبکر کو اجازت دی اور ایسے ہی لیٹے رہے، جب ابوبکر کی حاجت پوری ہوگئی اور وہ واپس چلے گئے تو عمر نے داخل ہونے کی اجازت طلب کی انہیں بھی اجازت دی لیکن ایسے ہی لیٹے رہے، ان کی ضرورت پوری ہوگئی تو وہ بھی لوٹ گئے. عثمان کہتے ہیں کہ پھر میں نے اجازت طلب کی تو آپ(ص) اٹھ کر بیٹھ گئے اور عائشہ سے فرمایا اپنے کپڑے صحیح کر کے بیٹھو. پس جب میری حاجت پوری ہوگئی تو میں بھی واپس آگیا عائشہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول(ص) میں نے آپ کو ابوبکر و عمر کی آمد پر اس طرح گھبراتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح آپ عثمان کی آمد سے گھبرا گئے. رسول(ص) نے جواب دیا اے عائشہ عثمان شرم و حیا والے آدمی ہیں مجھے یہ خوف تھا کہ اگر میں ایسے لیٹا رہا تو عثمان میرے پاس نہیں آئیں گے. اور ان کی احتیاج پوری نہ ہوسکے گی.

۹۹

یہ روایت بھی اسی روایت کے مثل ہے جس کو بخاری نے فضائل عثمان ابن عفان میں نقل کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

رسول(ص) ران کھولے ہوئے لیٹے تھے کہ ابوبکر نے باریابی کے لئے اجازت طلب کی آپ نے اجازت دی لیکن رانوں پر کپڑا نہ ڈالا پھر عمر نے اجازت چاہی آپ نے ان کو بھی اجازت دی اور ایسے ہی لیٹے رہے لیکن جب عثمان نے اجازت طلب کی تو رسول(ص) نے رانوں کو چھپایا اور کپڑے درست کر کے بیٹھ گئے جب عائشہ نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کیا میں اس شخص سے شرم نہ کروں جس سے ملائکہ بھی شرم کرتے ہیں.

بنی امیہ کو خدا غارت کرے وہ اپنے سردار کی فضیلت بڑھانے کے لئے رسول(ص) کی منقصت کرتے تھے.

4.مسلم نے اپنی صحیح کے التقاء ختانین سے غسل واجب ہو جانے والے باب میں زوجہ نبی(ص) سے روایت کی ہے کہ:

ایک شخص نے رسول(ص) سے دریافت کیا کہ ایک شخص اپنی بیوی سے جماع کرتا ہے اس کا بدن سست پڑ جاتا ہے کیا دونوں (میاں بیوی) پر غسل واجب ہے؟ عائشہ پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی رسول(ص) نے فرمایا کہ میں اور یہ (عائشہ) ایسے ہی کرتے ہیں پھر غسل کرتے ہیں.

اس روایت کی حاشیہ آرائی ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں. رسول(ص) کی راہنمائی سے آپ کی زوجہ عائشہ کے لئے جواز پیدا ہوگیا کہ وہ اپنے جماع کو خاص و عام سے بیان کریں. عائشہ بنت ابوبکر کی بیان کردہ ایسی اور بہت سی احادیث ہیں جن

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291