ایک سو بیس درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے

ایک سو بیس  درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے0%

ایک سو بیس  درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 72

ایک سو بیس  درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد رضا کفاش
زمرہ جات: صفحے: 72
مشاہدے: 58220
ڈاؤنلوڈ: 3401

تبصرے:

ایک سو بیس درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58220 / ڈاؤنلوڈ: 3401
سائز سائز سائز
ایک سو بیس  درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے

ایک سو بیس درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

ایک سو بیس درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے

مقالہ از:

محمد رضا کفاش

تصحیح:

حجۃ الاسلام غلام قاسم تسنیمی

پیشکش:

امام حسین فاؤنڈیشن قم

۲

عرض مترجم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ایک سو بیس درس حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی زندگی سے

﴿وَ إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴾ (1)

اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔ اچھا اخلاق اعلیٰ نفسیات کا مالک ہونے کی علامت ہے اور فکر و عقل میں اعلیٰ توازن رکھنے والا ہی اعلیٰ نفسیات کا مالک ہوتا ہے۔ خلق عظیم کامالک ہونے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ وہ ذات عقل عظیم کی مالک ہے۔ بلکہ بعض فیلسوف کا نظریہ ہے کہ عقل عشرہ میں پہلا عقل حقیقت محمدیہ ہے ۔ اس عقل کل یا کل عقل کی پوری زندگی نمونہ ہے آپ ( ص ) کا ہر کام ، آپ (ص) کی ہر ادااور آپ (ص) کی ہر بات ایسی ہے جس میں صاحبان عقل کے لیے ہدایت ہے۔

اس مقالہ میں جناب فاضل محترم محمد رضا کفاش نے آپ ( ص ) کی زندگی سے ایک سو بیس گوہر نایاب چن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے عاشقوں کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ حقیر نے اس مقالہ کو اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

---------------

(1)سورہ قلم : 4۔

۳

استاد محترم جناب قبلہ حجۃ الاسلام شیخ غلام قاسم تسنیمی کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں اس کی تصحیح کی ہے۔ اس مقالہ کی کمی او رزیادتی سے آگاہ کرنے کی امید رکھتا ہوں، امام حسین فاؤنڈیشن قم کے تمام اراکین کی صحت و سلامتی کے لیے دعا گو ہوں۔

ماہ مبارک رجب کے تیسرے عشرے کے شروع میں اسے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں کہ اس عشرے میں تاریخ کا وہ عظیم واقعہ رونما ہوا کہ عظمت میں اس جیسا واقعہ تاریخ بشریت میں نہ کبھی واقع ہوا ہے نہ ہو گا اور وہ عید مبعث ہے۔

آئیے!اس خلق عظیم کے مالک سے کچھ لے لیں وہ تو اخلاق حسنہ کا دریا ہے، اس میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے کمی ہم میں ہے کہ دریا ہمارے سامنے ہے لیکن پھر بھی تشنہ لب کیوں ہیں؟!

و السلام محمد عیسی روح اللہ حرم آل محمد قم المقدسہ ایران رجب 1437

۴

مقدمہ مولف

﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الْآخِرَ وَ ذَكَرَ اللَّهَ كَثِيراً﴾ (2)

بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔

ایسی ہستی جو خلقت ، عظمت اور اعجاز میں اپنی مثال آپ ہو تاریخ بشریت میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

اس ہستی کی زندگی کا ہر پہلو نورانی ہے اور مثالی انسانوں کی تربیت کے لیے عظیم نمونہ ہے۔ اس ہستی کی رفتار اور کردار کا سیکھنا اسلام کے مقاصد کو درک کرنے کے لیے سب سے مطمئن وسیلہ ہے۔ فضیلت کے اس بحر بیکراں سے ایک سو بیس درس (کہ ایک سو بیس مہینہ مدینہ منورہ میں اسلام کو پھیلانے کے لیے قربانیاں دیں) کو طالبان نور کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور انہیں معتبر منابع سے ہی لیا گیا ہے

مولف

--------------------------

(2)سورہ احزاب : 21۔ یہ آیت جنگ احزاب میں نازل ہوئی ہے اس جنگ میں کوئی ایسی مشقت نہ تھی جو دوسروں نے اٹھائی ہو اور رسول اللہ (ص) نے نہ اٹھائی ہو۔ خندق کھودنے میں، محاصرے کے دوران بھوک اور پیاس اور سردی کی تکلیفیں اٹھانے میں، جہاد کے تمام مراحل میں رسول اللہؐ ایک بہترین نمونہ تھے۔ لہٰذا رسولؐ نمونہ ہیں جہاد کے لیے، نمونہ ہیں مشقت اٹھانے میں، نمونہ ہیں مساوات میں کہ عام رعایا کے برابر مشقت اٹھائی، نمونہ ہیں میدان جنگ میں استقامت کا، نمونہ ہیں دوسروں کے برابر بھوک اور پیاس کی تکلیفیں اٹھانے میں۔

۵

جنگ کے آداب

جب بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کسی لشکر کو جنگ میں بھیجنے کا ارادہ فرماتے تھے انہیں بلاکر اپنے پاس بٹھاتے تھے اور فرماتے تھے: خدا کے نام پر ، خدا کی راہ میں اور سنت پیغمبر کے مطابق جنگ میں جائیں، اپنے دشمنوں سے خیانت نہ کریں ان کو مسخ نہ کریں، ان کے ساتھ دغا نہ کریں، بوڑھوں، ضعیفوں ، عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کریں، جب تک مجبور نہ ہوں ان کے درختوں کو نہ کاٹیں، اگر مسلمانوں میں سے کوئی ایک چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا کسی مشرک کی طرف مایل ہو جائے اور اسے پناہ دے دیں، تو اس وقت تک وہ امان میں ہے کہ خدا کے کلام کو سنے ، اگر تمہاری پیروی کرے تو وہ تمہارا دینی بھائی ہے اور اگر وہ تمہاری پیروی نہ کرے تو اسے گھر واپس بھیج دیں اور خدا سے مدد مانگیں۔(3)

ملاقات کے آداب

ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے گھر آیا اور آپ سے ملاقات کی درخواست کی، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس آدمی کی ملاقات کوجانے کا ارادہ فرمایا تو کسی آئینے کے سامنے یا گھر کے اندر کسی پانی سے بھرے برتن کے اوپر سے اپنے چہرے اور بالوں کو سنوارتے لگے۔

جناب عایشہ کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)واپس تشریف لائے تو پوچھا: یا رسول اللہ !کیوں آپ باہر جاتے وقت اپنے چہرے اور بالوں کو سنوارتے ہیں؟

---------------------

(3)- وسائل الشیعہ ، ج 11، ص 424.

۶

آپ (ص) نےفرمایا: خدا کو یہ بات پسند ہے کہ کوئی بھی مسلمان شخص اپنے مسلمان بھائی کی ملاقات کو جائے تو خود کو سجا کے جائے۔(4)

کھانا کھانے کے آداب

حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب دسترخوان پر بیٹھتے تھے تو غلاموں کی طرح بیٹھتے تھےاور اپنے بدن کے وزن کو بائیں ران پر رکھتے تھےکھانا کھانے کے دوران کسی چیز پر تکیہ نہیں کرتے تھےخدا کے نام اور ذکر سے شروع کرتے تھے،ہر دو نوالوں کے درمیان خدا کو یاد کرتے تھے اور اس کی حمد بجا لاتے تھے۔

آپ ( ص ) کی یہ سیرت اس بات کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں کہ نعمت دینے والے منعم کا نام لینا بھی شکر کے مصادیق میں سے ایک ہے۔

آپ (ص) کبھی بھی کھانا کھانے میں افراط یا تفریط نہیں کرتے تھے، جب کسی کھانے پر ہاتھ رکھتے تھے تو فرماتے تھے: خدا کے نام سے شروع کرتا ہوں، خدایا! اس کھانے کو ہمارے لیے مبارک قرار دے۔ آپ ( ص ) کسی بھی کھانے کو برا نہیں مانتے تھے، اگر کھانا چاہتے تھے تو تناول فرماتے تھے اگر کھانا نہیں چاہتے تھے تو چھوڑ دیتے تھے۔آپ ( ص ) کبھی بھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے، ہمیشہ آپ کی تمنا رہتی تھی کہ مل بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ آپ ( ص ) کا بہترین کھانا مل بیٹھ کے کھانے والا کھانا تھا۔ کھانا کھاتے وقت سب سے پہلےشروع کرتے تھے اور سب سے بعد کھانے سے ہاتھ اٹھاتے تھے؛ تاکہ دوسرے لوگ کھانے میں شرم محسوس نہ کریں اور بھوکے دسترخوان سے نہ اٹھیں۔ کھانا کھاتے وقت اپنے سامنے سے تناول فرماتے تھے۔ گرم کھانا نہیں کھاتے تھے۔ آپ (ص) کا کھانا بہت ہی سادہ تھا؛ جیسے جو کی روٹی، آپ ( ص ) نے کبھی بھی گندم کی روٹی نہیں کھایا۔ سادہ مگر طاقتی کھانوں جیسے خرما وغیرہ کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے۔(5)

--------------

(4)- با ترتیب مکتبی آشنا شویم ، 113.

(5)- بحار الانوار، ج 16، ص 236 تا 246.

۷

بیٹھنے کے آداب

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں تھی ۔(6)

ہمیشہ آپ ( ص ) کی کوشش ہوتی تھی کہ مجلس میں سب سے آخر میں بیٹھیں۔ آپ ص نہیں چاہتے تھے کہ اٹھتے بیٹھتے وقت کوئی آپ ( ص ) کی تعظیم کو اٹھے؛ آپ فرماتے ہیں: جو کوئی یہ چاہتا ہو کہ دوسرے اس کی تعظیم کو اٹھیں اس کا ٹھکانا آتش جہنم ہے۔

پڑوسی کی اذیت

ایک آدمی آپ ( ص ) کے پاس آیا اور اپنے پڑوسی کی اذیت کے متعلق شکایت کی ۔ آپ ( ص ) نے اس سے فرمایا : صبر کرو۔ وہ آدمی پھر آیا اور دوبارہ شکایت کی، اس مرتبہ آپ ( ص ) نے پھر وہی فرمایا کہ: صبر کرو۔ تیسری مرتبہ پھر شکایت لے کر آیا تو آپ (ص)نے اس سے فرمایا: جب جمعہ کا دن ہوگا تو تم اپنے گھر کے سامان کو اٹھا کر باہر راستے میں رکھو جو کوئئ نماز جمعہ کو آئے گا وہ تجھے دیکھے گا اور جب تجھ سے سوال کرے گا تو اپنے پڑوسی کی اذیت کے بارے میں کہنا۔ اس نے ایسا ہی کیا تو اس کا پڑوسی آگیا اور کہا سامان کو گھر کے اندر لے چلو میں خدا سے عہد کرتا ہوں کہ پھر کبھی تجھے اذیت نہیں پہچاؤں گا۔(7)

-----------------

(6)- بحارالانوار، ج 16، ص 152.

(7)-سفینة البحار، مادہ جور، ص 190 بہ نقل از حضرت امام محمد باقر علیہ السلام

۸

علم سیکھنا

انصار میں سے کوئی آپ ( ص ) کے حضور مشرف ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ایک جنازہ حاضر ہو (کہ اس کی تشییع کرنا ہو) اور اسی وقت ایک علمی جلسہ بھی ہو تو ہم کس میں حاضر ہوجائیں؟ آپ ( ص ) نے فرمایا : اگرجنازہ اٹھانے اور میت کو دفن کرنے کے لیے لوگ موجود ہوں تو علمی مجلس میں چلے جانا کہ کسی عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار جنازوں کی تشییع، ہزار مریضوں کی عیادت، ہزار دنوں کی نمازشب اور روزہ، ہزار حاجتمدوں کو دیے جانے والے صدقوں، ہزار مستحب حج اور ہزار مستحب جنگیں جو راہ خدا میں اپنی جان اور مال سے ہوں، سے بہتر ہے ۔ یہ سب بھی کسی عالم کی مجلس میں حاضر ہونے سے کہاں برابر ہیں؟! کیا تجھے معلوم نہیں کہ خدا کی عبادت بھی علم اور دانش پر موقوف ہے؟ کیا تم نہیں جانتے ہوں کہ دنیا اورآخرت کی نیکیاں علم کے ساتھ ہیں اور دنیا و آخرت کی برائیاں جہالت اور نادانی کے ساتھ ہیں؟!(8)

دوسروں کا احترام

حضرت علی فرماتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی سے ہاتھ نہیں ملایا کہ ہاتھ کھینچ لیں جب تک سامنے والا خود اپنے ہاتھوں کو کھینچ نہ لے،اوراگر کوئی اپنی آپ کے پاس لے آتا تو جب تک وہ شخص خود کام سے ہاتھ نہیں اٹھاتا ، آپ اس کام میں مصروف رہتے تھےاگر کسی سے بات کرتے تھے تو جب تک دہ شخص خود خاموش نہیں ہوتا اس وقت تک آپ باتوں میں مصروف رہتے تھے، اور کبھی بھی آپ ص کو اس حال میں دیکھا نہیں گیا کہ دوسروں کے ہوتے ہوئے آپ ( ص ) اپنے پاؤں کو پھیلایا ہو۔

-----------------

(8)-بحارالانوار، ج 1، ص 204.

۹

بچوں کا احترام

ایک دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے کہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام آگئے۔ آپ ( ص ) ان کے احترام کو اٹھے اور کھڑے رہے ، اور چونکہ بچے چلنے میں کمزور ہوتےہیں ، ان کے پہنچنے میں دیر ہوئی ، آپ ( ص ) خود ان کے استقبال کے لیے چند قدم آگے تشریف لے گئے، اپنے دامن کو پھیلایا اور دونوں کو آغوش میں بٹھا لیاپھر دوش مبارک پر انہیں سوار کیا اور آپ ( ص ) ان کے لیے سواری بن گئے اور فرمایا: میرے بیٹو!آپ کی سواری کتنی اچھی سواری اور آپ دونوں کتنے اچھے سوار ہیں۔(9)

ماں باپ کا احترام

ایک شخص پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حضور شرفیاب ہوااور سوال کیا: میں نے قسم کھایا ہے کہ بہشت کی چوکھٹ اور حور العین کی پیشانی کا بوسہ لوں۔ اب کیا کروں؟

آپ (ص) نے فرمایا: ماں کے قدموں اور باپ کی پیشانی کا بوسہ لو ۔ (یعنی اگر تم نے ایسا کیا تو گویا تم نے جنت کے دروازے کی چوکھٹ اور حور العین کی پیشانی کا بوسہ لیا ہے)

اس نے دوبارہ پوچھا : اگر وہ دونوں زندہ نہ ہوں توکیا کروں؟

آپ ( ص ) نے فرمایا: ان کے قبور کا بوسہ لو۔(10)

------------------

(9)-بحارالانوار 43 / 285 ح 51، مناقب ابن شہر آشوب 3 / 388.

(10)- بیست و پنج اصل از اصول اخلاقی امامان ، ص 79.

۱۰

مومن کا احترام

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے بیت اللہ کی طرف نگاہ کی اور فرمایا:کتنا با برکت ہے تو کہ خدا نے تیری عظمت کو بڑھا دیا ہے اور تجھے مقام و مرتبہ دیا ہے! خدا کی قسم! مومن خدا کے پاس تم سے بھی زیادہ محترم ہے کیونکہ خدا نے تجھ سے متعلق صرف ایک چیز حرام کی ہے وہ تیرے اندر قتل کرنا ہے ، لیکن مومن کی نسبت تین چیزیں حرام کر دیا ہے؛ جان (خون)، مال اور اس سے بدظن ہونا۔(11)

کام کی قدر و قیمت

ابن عباس کہتے ہیں:رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب کسی کو دیکھتے تھے تو خوش ہو جاتے تھے اور اس سے پوچھتے تھے کہ توکونسا کام کرتا ہے؟ اگر وہ جواب میں کہہ دیتا کہ میں بیروزگار ہوں تو اس وقت آپ (ص) اس سے فرماتے تھے کہ تو میری نظروں سے گر گیا۔ آپ سے پوچھتا کہ کیوں آپ ( ص ) کی نظروں سے گر گیا؟ تو آپ ( ص ) فرماتے تھے کہ: مومن اگر بیروزگار رہا تو لاچار اپنے دین کے ذریعے پیسہ حاصل کرتا ہے۔(12)

روزگار

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب کسی کو دیکھتے تھے تو خوش ہو جاتے تھے اور اس سے پوچھتے تھے کہ توکونسا کام کرتا ہے؟ اگر وہ جواب میں کہہ دیتا کہ میں بیروزگار ہوں تو اس وقت آپ (ص) اس سے فرماتے تھے کہ تو میری نظروں سے گر گیا۔ آپ سے پوچھتا کہ کیوں آپ ( ص ) کی نظروں سے گر گیا؟ تو آپ ( ص ) فرماتے تھے کہ: مومن اگر بیروزگار رہا تو لاچار اپنے دین کے ذریعے پیسہ حاصل کرتا ہے

----------------

(11)-سفینة البحار، مادہ امن

(12)-بحارالانوار، ج 100، ص 9.

۱۱

اصولوں کا پابند

عبد اللہ بن ابی، منافقوں کا سردار جو کلمہ شہادتین زبان پر جاری کرنے کی وجہ سے بچ گیا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مدینہ کی طرف ہجرت کی وجہ سے اسی حکومت کا تختہ الٹ گیا تھا، اندر سے آپ کی دشمنی دل میں پالتا تھااور اسلام دشمن یہودیوں کے ساتھ مل کر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے خلاف سازشیں کرتا تھااور لوگوں کے درمیان افواہیں پھیلانے میں کوئی کمی نہیں رکھتا تھا، لیکن آپ ( ص ) نہ صرف اپنے اصحاب کو یہ اجازت نہیں دیتے تھے کہ اسے اپنے کیفر کردار تک پہنچائیں، بلکہ اس کے ساتھ مہربانی اور شفقت سے پیش آتے تھے اور جب وہ مریض ہو جاتا تھا تو اس کی عیادت کو تشریف لے جاتے تھے!

جنگ تبوک سے واپسی پر بعض منافقوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو قتل کرنے کی سازشیں کی کہ آپ (ص) جب پہاڑ کی فلان تنگ جگہ سے گزر یں گے آپ کی سواری کو ڈرائیں گے تاکہ سواری آپ ( ص ) کو نیچے گرا دے، اس کام کے لیے سب نے اپنے چہرے چھپا لیے تھے جب آپ ( ص ) وہاں پہنچے تو آپ نے سب کو پہچان لیا اور اپنے اصحاب کے اصرار کے باوجود ان کے نام فاش نہیں کیے اور ان سے انتقام لینے سے چشم پوشی کیا۔(13)

---------------

(13)-صحیح بخاری ، ج 5، ص 152.

۱۲

سب سے جامع اسوہ حسنہ

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنے لباسوں کو خود ہی سلتے تھے اپنے جوتوں کی خود ہی مرمت کرتے تھے ، بھیڑ بکریوں کو خود ہی دوہتے تھے، غلاموں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، زمین پر بیٹھتے تھے، کہیں جاتے وقت گدھے پر سوا ر ہوتے تھے کسی کو ساتھ میں بٹھاتے بھی تھے ، خود بازار جانے سے نہیں شرماتے تھے، گھریلو ضرورت کی چیزیں خود ہی خریدتے تھے اور اٹھا کر گھر میں لے آتے تھے،سب لوگوں سے ہاتھ ملاتے تھے، اور جب تک سامنے والااپنے ہاتھوں کو نہ چھوڑتا آپ (ص) اپنے ہاتھوں کو نہیں چھوڑتے تھے، سب کو سلام کرتے تھے اگر کوئی آپ کو اپنے گھر دعوت دیتا تو اگر چہ ایک سوکھا خرما ہی کیوں نہ ہو اس کی دعوت کو رد نہیں کرتے تھے۔ آپ ( ص ) نہایت ہی کم خرچ، بلند طبیعت اور نیک رفتاری کے مالک تھے،آپ کا چہرہ مبارک گشادہ تھا اور لبوں پر مسکراہٹ تھی، آپ ( ص ) دکھی حالات میں بھی مہرباں رہتے تھے اور مغموم نہیں ہوتے تھے، آپ ( ص ) کی تواضع میں ذلت نہیں تھی اور عطا و بخشش میں نہایت ہی دریا دل تھے، ایک مہربان دل کے مالک تھے، تمام مسلمانوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے تھے، کبھی بھی دسترخوان سے سیر ہو کرنہیں اٹھتے تھے، اور کسی بھی چیز کو لالچ سے ہاتھ نہیں لگاتے تھے۔(14)

-------------

(14)-المیزان ، ج 6، 330.

۱۳

امتیازی سلوک کے قائل نہ تھے

روایت ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کسی سفر میں تھے ۔ آپ ( ص ) نے کھانا بنانے کے لیے کسی گوسفند کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ ایک صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! گوسفند کو میں ذبح کروں گا۔ دوسرے صحابی نے عرض کیا : کھال اتارنے کا کام میں انجام دوں گا۔ ایک اور صحابی نے پکانے کی ذمہ داری اٹھائی۔ اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: لکڑیاں جمع کرنے کا کام میں کروں گا ۔ سب نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! ہم لوگ ہیں، ہم ہی لکڑیاں جمع کریں گے، آپ کو زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔اس وقت آپ ( ص ) نے فرمایا: میں جانتا ہوں لیکن میں نہیں چاہتا ہوں کہ خود کو تم پر برتری دوں، بتحقیق حق تعالی پسند نہیں کرتا ہے کہ اس کا کوئی بندہ خود کو دوسروں پر برتری دے۔(15)

انصاف

جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سات سال کے تھے ، ایک دن آپ (ص) نے اپنی دائی حلیمہ سعدیہ سے پوچھا میرے بھائی کہاں ہیں؟ (چونکہ آپ ( ص ) اس وقت حلیمہ سعدیہ کے ہاں تشریف لے گئے تھے اس کے بیٹوں کو بھائی کہہ کر پکارتے تھے) حلیمہ نے جواب دیا : میرے بیٹے ان گوسفندوں کو چراگاہ لے گئے ہیں جو آپ کی برکت سے خدا نے ہمیں عطا کی ہیں ۔ اس وقت اس سات سال کے بچے نے فرمایا: ماں! آپ نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ماں نے پوچھا: کیوں؟ آپ ( ص ) نے فرمایا: کیا یہ سزاوار ہے کہ میں سایے میں بیٹھ کر دودھ پیتا رہوں اور میرے بھائی سخت دھوپ میں ریوڑ چرانے جائیں؟!(16)

----------------

(15)- منتہی الامال ، ج 1، ص 22.

(16)-حارالانوار 15 / 376.

۱۴

دوران طفلی

آپ ( ص ) دوران طفلی میں "اجیاد" نامی سرزمین میں (جو کہ مکہ کے اطراف میں تھی) بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ عزلت و تنہائی سے واقف تھے اور اس خاموش صحرا میں گھنٹوں سوچوں میں گم ہو جاتے تھے، وجود اور زندگی کے بارے میں غور کرتے تھے طبیعت کی زیبائی کا نظارہ کرتے تھے، اپنی قوم سے ہٹ کر کسی اور دنیا میں زندگی گزارتے تھے، آپ (ص) کبھی بھی اپنی قوم کے ساتھ لہو و لعب کی محافل میں نہیں جاتے تھے، ان عبادتوں میں بھی نہیں جاتے تھے جو جو بتوں کے نام پر بر پا ہوتی تھیں، اور اس قربانی کے گوشت سے اپنے ہاتھ منہ کو آلودہ نہیں کرتے تھے جو بتوں کے نام نذر کیا جاتا تھا۔(17)

آپ ( ص ) نے توحید میں اور ماسوا للہ کی نفی میں تفکر کے مراحل کو بڑی تیزی کے ساتھ طے کیا تھابتوں سے بہت زیادہ نفرت کرتے تھے اور فرماتے تھے: میرا ان بتوں سے بڑھ کر کوئی دشمن نہیں ہے۔(18)

بچوں کی اہمیت

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مسلمانوں کے ساتھ ظہر کی نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنا شروع کیا لیکن معمول کے برخلاف آخری دونوں رکعتوں کو جلدی جلدی پڑھ کر ختم کیا۔ نماز کے بعد لوگوں نے آپ سے پوچھا : کیا کوئی واقعہ رونما ہوا کہ آپ ( ص ) نے نماز کو جلدی ختم کیا؟

اس وقت آپ ( ص ) نے فرمایا:أَمَا سَمِعْتُمْ صُرَاخَ الصَّبِيِّ. کیا تم نے بچے کی چیخ نہیں سنی؟!(19)

---------------

(17)- سیرہ احمد زینی ، ص 95.

(18)-سیرہ حبلی ، ج 1، ص 270.

(19)- کلینی، ابو جعفر، محمد بن یعقوب، الکافی ج6، ص: 48

۱۵

کنجوسی

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کعبہ کے طواف میں مشغول تھے ، ایک آدمی کو دیکھاکہ غلاف کعبہ پکڑ کر خدا سے گڑ گڑا رہا ہے کہ: خدایا اس گھر کی حرمت کا واسطہ مجھے بخش دے۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے پوچھا: تیرا گناہ کیا ہے؟

اس نے کہا کہ: میں مالدار انسان ہوں ۔ جب بھی کوئی فقیر میری طرف آتا ہے اور مجھ سے کوئی چیز مانگتا ہے تو میرے اندر شعلہ بھڑکتا ہے (آگ بھگولا ہو جاتا ہوں یعنی بہت غصہ آتا ہے)

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: مجھ سے دور ہو جا ؤ ، مجھے اپنی آگ میں مت جلاؤ۔

اس کے بعد آپ ( ص ) نے فرمایا: اگر تو رکن اور مقام (مقام ابراہیم اور کعبہ کی دیوار) کے درمیان دو ہزار رکعات نماز ادا کرے اور اس قدر روئے کہ آنسوؤں کی نہریں جاری ہو جائیں لیکن کنجوسی کی خصلت کے ساتھ اس دنیا سے چلا جائے توبھی جہنم میں جاؤ گے۔(20)

-----------------

(20)- جامع السعادات ، علامہ نراقی ، ج 2، ص 153.

۱۶

مقروضی

کسی کے جنازے کو لایا گیا تا کہ آپ ( ص ) اس پر نماز پرھیں۔

آپ ( ص ) نے اپنے اصحاب کی طرف رخ کر کے فرمایا: تم لوگ اس پر نماز پڑہو میں نہیں پڑھ سکتا ہوں۔

اصحاب نے سوال کیا : آپ (ص) کیوں اس پر نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں؟

آپ (ص) نے فرمایا: یہ لوگوں کا مقروض تھا۔

ابو قتادہ نے کہا: میں ضمانت دیتا ہوں کہ اس کے قرضوں کو ادا کروں گا۔

آپ ( ص ) نے فرمایا : مکمل طور پر ادا کرو گے؟

ابو قتادہ نے کہا: ہاں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)میں مکمل طور پر ادا کروں گا۔

ابو قتادہ کہتا ہے کہ اس کا قرضہ سترہ یا اٹھارہ درھم تھا۔(21)

فرزندوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک

ایک دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ایک آدمی کو دیکھا کہ ایک فرزند کے چہرے پر بوسہ لے رہا تھا لیکن دوسرے فرزند کی طرف توجہ ہی نہیں کررہا تھا۔

آپ ( ص ) ناراض ہوئے اور فرمایا: کیوں اپنے دونوں فرزندوں کے درمیان فرق کرتے ہو؟ کیوں دونوں کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کرتے؟(22)

-------------

(21)- مستدرک الوسایل ، ج 13، ص 404.

(22)- بحارالانوار، ح 104، ص 97، ح 61 از نوادر راوندی و من لایحضرة الفقیہ ، ج 3، ص 483، ح 4704.

۱۷

گالم گلوچ اور اہانت کے مقابلے میں رواداری

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کا گزر لوگوں کے ایک گروہ سے ہوا جو کسی ایسے آدمی کے گرد حلقہ لگاے بیٹھے تھے جو بہت زیادہ وزنی پتھر اٹھاتا تھا ۔ آپ ( ص ) نے فرمایا: کیا بات ہے؟

لوگوں نے عرض کیا : یہ آدمی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے وزنی پتھر اٹھاتا ہے۔

آپ ( ص ) نے فرمایا: کیا تمہیں اس سے بھی زیادہ طاقتور انسان کی خبر دوں؟ اس سےبھی طاقتور انسان وہ ہے جسے جب کوئی گالی دے اور وہ اس کے مد مقابل رواداری کا مظاہرہ کرے اپنے نفس پر مسلط رہے ، غصے کو پی لے اور شیطان سے دشمن پر غالب آجائے۔(23)

مومن کے احترام کو اٹھنا

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مسجد میں تھے کہ کوئی آدمی داخل ہوا، آپ (ص) اس کے احترام کو اپنی جگہ سے اٹھے اور اس کے لیے جگہ خالی کیا۔

اس آدمی نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جگہ بہت وسیع ہے ۔

آپ ( ص ) نے فرمایا: کسی ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پرحقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ جب وہ بیٹھنے کے لیے پاس آئے تو اس کے لیے جگہ خالی کردے۔(24)

--------------

(23)- مجموعہ ورام ، ص 340.

(24)-بحارالانوار، ج 16، ص 240.

۱۸

کام کرنے والے کا ہاتھ چومنا

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب جنگ تبوک سے لوٹ آئے تو سعد انصاری آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے استقبال کو گیا، آپ ( ص ) نے اس سے ہاتھ ملایا ، جب سعد کا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا تو آپ نے فرمایا یہ کھردری کیا ہے جو تیرے ہاتھ میں ہے؟

سعد نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! میں ہل چلاتا ہوں ، بیلچہ کے ساتھ کام کرتا ہوں اور اپنے بچوں کے لیے رزق و روزی مہیا کرتا ہوں۔

اس وقت آپ ( ص ) نے سعد کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور فرمایا : یہ وہ ہاتھ ہے جو جہنم کی آگ سے محفوظ ہے۔(25)

دنیا سے بے اعتنائی

سہل بن سعد ساعدی کہتا ہے: ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں آیا اور کہا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! مجھے کسی ایسے عمل کی تعلیم دیں کہ جب میں اسے بجا لاؤں تو خدا اور لوگوں کی نظر میں ہر دلعزیز بن جاؤں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: دنیا سے بے رغبتی کا اظہار کروتاکہ خدا تجھے دوست رکھے اور جو کچھ لوگوں کے ہاتھ میں ہے اس سے چشم پوشی اور بے اعتنائی کرو ؛ تاکہ لوگوں میں ہر دلعزیز بن جاؤ۔(26)

--------------------

(25)-اسدالغابہ ، ج 2، ص 269.

(26)- سنن ابن ماجہ ، ج 2، ص 1374.

۱۹

عورتوں کا اجر

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جہاد اور مجاہدوں کے ثواب اور اجر کے بارے میں گفتگو فرما رہے تھے، ایک عورت کھڑی ہوگئی اور عرض کیا : کیا عورتوں کیلئے ان فضیلتوں اور ثواب سے بہرہ مند ہونے کی گنجائش ہے یا نہیں؟

آپ ( ص ) نےفرمایا: ہاں، عورت حاملہ ہونے سے بچے کے دودھ چھڑانے تک ان لوگوں کی طرح ہے جو راہ خدا میں جہاد میں مصروف ہوں اگر اس دوران وہ مرجائے تو اس کوشہید کا ثواب ملے گا۔(27)

مشرکہ ماں سے رابطہ

اسما بنت ابو بکر کہتی ہے : میری ماں میرے پاس آئی تو میں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں عرض کیا کہ میری ماں مشرکہ ہے کیا میں اس کے ساتھ تعلق رکھ سکتی ہوں؟

آپ ( ص ) نے فریاما: ہاں۔(28)

-------------------

(27)- من لا یحضرہ الفقیہ ، ج 3، ص 561.

(28)-بحجة البیضاء، ج 3، ص 429.

۲۰