ایک سو بیس درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے

ایک سو بیس  درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے50%

ایک سو بیس  درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 72

ایک سو بیس درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62566 / ڈاؤنلوڈ: 3922
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

مومن کی نماز کا اجر

آپ ( ص ) مسکراتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے، کسی نے اس کی وجہ پوچھی،تو آپ نے فرمایا:میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مجھے دو فرشتہ نظر آئے جو زمین کی طرف آرہے تھے تاکہ مومن کی رات اور دن کی عبادتوں کا اجر لکھیں، وہ بندہ جو ہر روز اپنی عبادتگاہ میں نماز میں مشغول رہتے تھے لیکن اس وقت اسے اپنی عبادتگاہ میں نہیں پایا بلکہ بیماری کے عالم میں بستر بیماری پر پایا، یہ دونوں فرشتے آسمان کی طرف گئے اور خدا سے عرض کرنےلگے کہ ہم ہر روز کی طرح آج بھی اس کی عبادتوں کا اجر لکھنے اس کی عبادتگاہ میں گئے لیکن اسے وہاں نہیں پایابلکہ اسے بیماری کے بستر پر پایا۔

خداوند عالم ان دونوں فرشتوں سے کہے گا: جب تک وہ بیماری کے بستر پر رہے گا اس کے لیے عبادت کا ثواب لکھتے رہیں ، یہ مجھ پر ہے کہ جب تک وہ بستر بیماری پر ہےعبادتوں کا اجر اسے دیتا رہوں۔(۲۹)

نماز کی تأثیر

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:ہم رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ساتھ مسجد میں وقت نماز کے داخل ہونے کا انتظار کر رہے تھے ، اس دوران ایک آدمی اٹھا اور کہا: اے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! میں نے ایک گناہ کیا ہے اس کی مغفرت کے لیے کیا کروں؟ آپ ( ص ) نے اس سے منہ پھیر لیا۔ جب نماز تمام ہو گئی تو اس آدمی نےپھر سے اپنی بات کو دہرایاتو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: کیا تم نے ابھی ابھی ہمارے ساتھ نماز ادا نہیں کی؟ کیا نماز کے لیے اچھی طرح وضو نہیں کیا؟ اس نےعرض کیا: ہاں یا رسول اللہ! میں نے ایسا ہی کیا۔ اس وقت آپ ( ص ) نے فرمایا: نماز تیرے گناہ کا کفارہ اور بخشش کا سامان ہو جائے گی۔(۳۰)

----------------------

(۲۹)- فروع کافی ، ج ۱، ص ۳۱.

(۳۰)-بحارالانوار، ج ۸۲، ص ۳۱۹.

۲۱

تحفہ

ایک دن ابن عباس رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں حاضر ہوا ، مہاجرین او رانصار میں سے بھی بعض لوگ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: جو بھی بازار جائے اور اپنے گھر والوں کے لیے کوئی تحفہ خرید لے وہ اس انسان کی طرح ہے جس نے فقیروں کیلئے اپنے کاندھے پر صدقہ اٹھایا ہوا ہو۔

نیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: جب میوہ، کھانا یا کوئی دوسرا تحفہ بانٹنا شروع کرو تو پہلے بیٹی سے شروع کرو پھر بیٹے کو دو، بتحقیق جو کوئی اپنی بیٹی کو خوش کرے گا وہ اس انسان کی مانند ہے جس نے اسماعیل کی اولاد میں سے ایک غلام کو آزاد کیا ہو اور جو کوئی اپنے بیٹے کو خوش کرے اور اسے دوسروں کے ہاتھوں کی طرف دیکھنےسے بے نیاز کرے تو وہ اس انسان کی مانند ہے جو خوف خدا میں رویا ہو اور جو کوئی خوف خدا میں روئے خدا اسے جنت میں داخل کر دے گا۔(۳۱)

سیکھنا سکھانا

ایک دن مدینہ منورہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)مسجد میں وارد ہوئے، آپ ( ص ) کی نگاہیں دو گروہوں پر پڑیں ، ایک گروہ عبادت اور ذکر خدا میں مصروت تھا ، جبکہ دوسرا گروہ تعلیم اور تعلم ، سیکھنے اور سکھانے میں مصروف تھا، آپ ( ص ) ان دونوں گروہوں کے دیکھنے سے مسرور ہوئے اور اپنے اصحاب سے فرمایا: یہ دونوں گروہ نیک کام کر رہے ہیں لیکن میں لوگوں کو تعلیم دینے اور علم سکھانے کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ پس آپ ( ص ) بھی اس گروہ میں شامل ہو گئے جو تعلیم و تعلم میں مصروف تھا۔(۳۲)

------------------

(۳۱)-تحفة الواعظین ، ج ۶، ص ۱۰۹، نقل از وسائل الشیعہ ، ج ۷، ص ۲۲۷.

(۳۲)-در سایہ اولیاء خدا، محمود شریعت زادہ ، ص ۴۰.

۲۲

جسمانی سزا

ابو مسعود انصاری کہتا ہے: میرا ایک غلام تھاکہ میں اسے زدوکوب کر رہا تھا ، پیچھے سے ایک آواز آئی کوئی کہہ رہا تھا: اے ابو مسعود! خدا نے تجھے اس پر توانائی دی ہے۔ (اسے تیرا غلام بنایا ہے) میں نے پلٹ کر دیکھا تو دیکھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ہیں۔

میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے عرض کیا : میں نے اسے خدا کی راہ میں آزاد کیا ۔

اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا : اگر تم یہ کام نہ کرتے تو آگ کے شعلے تجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتے ۔(۳۳)

دوسروں کی طرف دھیان

آپ ( ص ) کسی کی طرف بھی رخ کرتے تھے تو کبھی بھی اس کے سامنے آدھے رخ سے نہیں بیٹھتے تھے بلکہ تمام بدن کو اس کی طرف رکھتے تھے کسی کے ساتھ بھی جفا نہیں کرتے تھے، دوسروں کے عذر کو بہت جلد مان لیتے تھے۔(۳۴)

کام کا ثواب

کسی سفر میں آنحضرت کے بعض اصحاب روزہ دار تھے، سخت گرمی کی وجہ سے ان روزہ داروں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی کونے میں بے حال پڑاہوا تھا، باقی لوگ خیموں کو نصب کرنے، جانوروں کو پانی دینے اور دوسرے کاموں میں مصروف تھے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: پورے کا پورا اجر و ثواب ان لوگوں کو ملے گا جو کسی نہ کسی کام کو انجاد ینے میں مصروف ہیں۔(۳۵)

--------------------

(۳۳)-بحارالانوار ۷۴ / ۱۴۲، ح ۱۲.

(۳۴)-بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۲۲۸.

(۳۵)-صحیح مسلم ، ج ۳، ص ۱۴۴.

۲۳

سلام کا جواب

کوئی شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچا اور کہا "السلام علیک" تو آپ نے جواب میں فرمایا: "و علیک السلام و رحمۃ اللہ " دوسرا آیا اور اس نے یوں سلام کیا: "السلام علیک و رحمۃ اللہ " آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے جواب دیا "و علیک السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ " تیسرا آدمی آیا او راس نے اس طرح سلام کیا"السلام علیک و رحمۃ اللہ و برکاتہ" تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے جواب دیا " علیک" اس وقت اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)میرا جواب کم کیوں دیا؟ کیا خدا کا حکم نہیں ہے کہ اگر گوئی تم پر سلام کرے تو اس سے بہتر انداز میں یا اسی کی طرح ہی جواب دے دیں؟ تو آپ ( ص ) نے فرمایا: تم نے میرے لیے جواب دینے کی کوئی چیز باقی نہیں رکھی لا محالہ مجھے تمہارے سلام کی طرح ہی جواب دینا پڑا۔(۳۶)

جوانان

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اہم ثقافتی،سماجی اور فوجی ذمہ داریوں کو جوانوں کے سپردکرتے تھے۔ہجرت سے پہلے مصعب بن عمیر کو جو کہ ایک نوجوان تھا،آپ (ص) کی طرف سے ثقافتی اور تبلیغی امور کو انجام دینے کے لیے مدینہ بھیجا گیا۔

و قال رسول الله صلى الله عليه و آله لمصعب و كان فتا حدثا و امره رسول الله صلى الله عليه و آله بالخروج ۔(۳۷)

آپ ( ص ) نے مصعب بن عمیر سے جو کہ نوجوان تھے، بات کی اور اسے نکلنے کا حکم دیا۔

یہی جوان جنگ بدر و احد میں اسلامی فوج کا سپہ سالار تھا ، یہ جوان جنگ احد میں بہادری کا مظاہر کرتے ہوئے بدرجۂ شہادت فائز ہوا۔

---------------

(۳۶)-تفسیر المیزان ج ۵، ص ۳۳ بہ نقل از تفسیر صافی

(۳۷)-بحارالانوار، ج ۶، ص ۴۰۵.

۲۴

علی کی محبت

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)فرماتے ہیں:معراج کی رات جب مجھے آسمانوں پر لے جا رہے تھے، جہاں جہاں میں پہنچتا تھا فرشتے گروہوں کی شکل میں جوق درجوق میرےاستقبال کو آتے تھے، اس دن جبریل علیہ السلام نے ایک بہت ہی خوبصورت بات کی: اگر آپ ( ص ) کی امت علی علیہ السلام کی محبت پر ایک ہوجاتی تو خدا جہنم کو خلق ہی نہیں کرتا ۔(۳۸)

حسن معاشرت

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنے لباس اور جوتوں کی خود ہی مرمت فرماتے تھے۔ بھیڑ بکریوں کو خود دوہتے تھے۔غلاموں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، خاک پر بیٹھتے تھے اور اس میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔ اپنی ضرورت کی چیزوں کو خود ہی بازار سے خریدتےتھے۔ ہاتھ ملاتے وقت جب تک سامنے والا اپنے ہاتھوں کو کھینچ نہیں لیتا آپ ( ص ) اپنے ہاتھوں کو نہیں کھینچتے تھے۔ہر ایک کو سلام کرتے تھے چاہے وہ مالدار ہو یا درویش، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ اگر کسی کھانے پر آپ (ص) کو بلایا جاتا تھا آپ (ص) اسے چھوٹا اور حقیر نہیں سمجھتے تھے چاہے وہ چند عدد خرما ہی کیوں نہ ہو۔

آپ ( ص ) کا روز مرہ کا خرچہ بہت ہی کم تھا، آپ عظیم مزاج ،شائستہ اور خوشگوار چہرہ والے تھے۔ ہنسے بغیر لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ غمگین ہو جاتے تھے لیکن چہرہ نہیں بگھاڑتے تھے۔ متواضع اور فروتن تھے لیکن کبھی بھی حقارت اور ذلت کی بو تک نہیں آتی تھی۔ سخاوت مند تھےلیکن اسراف سے بچ کر۔ قلب نازک کے مالک تھے اور تمام مسلمانوں کے ساتھ نہایت ہی مہربانی سے پیش آتے تھے۔(۳۹)

---------------

(۳۸)-بحارالانوار، ج ۴۰، ص ۳۵.

(۳۹)-سنن النبی ، ص ۴۱، ح ۵۲، از ارشادالقلوب

۲۵

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا پندرہ سال آپ ( ص ) سے بڑی تھی ۔ رحلت کے بعد سے جب بھی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا نام لیا جاتا تھا آپ (ص) عظمت اور احترام کےساتھ اسے یاد کرتے تھے۔ کبھی کبھار آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے، جناب عایشہ کو یہ گوارا نہیں ہوتا تھا۔(۴۰)

آپ ( ص ) فرماتے ہیں: بتحقیق میں خدیجہ کو اپنی امت کی عورتوں پر برتری اور فضیلت دیتا ہوں، جس طرح حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو اپنے زمانے کی عورتوں پر برتری تھی ۔ خدا کی قسم مجھے خدیجہ سلام اللہ علیہا کے بعد اس جیسی خاتون نہیں ملی۔

( مترجم ) تحقیق کرنے والوں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ حضرت خدیجہ سلام علیہا عمر میں آنحضرت سے بڑی نہیں تھی اور شادی کے وقت کنواری بھی تھی۔ یہ تاریخ لکھنے والوں کی ستم ظریفی یا بغض و عداوت یا کچھ دوسری علتیں تھیں کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہاکو : ۱- مطلقہ ۲- چالیس سال کا بیان کیا، حالانکہ شادی کے وقت آپ کی عمر پچیس سال تھی اور آپ سلام اللہ علیہا دوشیزہ بھی تھیں۔

------------------

(۴۰)-بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۸۱.

۲۶

رابطے کی حفاظت کرنا

ایک شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! میرے رشتے داروں نے مجھ سے ناطے توڑ دیے ہیں اور میرے اوپر حملہ کیا اور مجھے شماتت بھی کی، کیا میں بھی ان کے ساتھ رابطہ توڑ دوں؟

آپ ( ص ) نے فرمایا: اگر تم نے ایسا کیا تو خدا وند عالم رحمت کی نظر تم سب سے ہٹا لے گا۔

اس نے عرض کیا : تو میں کیا کروں ؟آپ (ص) نے فرمایا: جن جن لوگوں نے تجھ سے رابطہ توڑ دیا ہے ان کے ساتھ دوبارہ رابطہ برقرار کرو۔ جس نے تجھے محروم رکھا اسے عطا کرو۔ جس نےتم پر ستم کیا اس کو معاف کرو؛ اس صوت میں خدا ان لوگوں کے مقابلے میں تیری حمایت کرے گا۔(۴۱)

پیدل چلنے والے کا حق

آپ ( ص ) جب سوار ہوتے تھے اصحاب میں سے کسی کو پیدل چلنے نہیں دیتے تھے ، اگر اپنے ساتھ سواری میں جگہ ہوتی تھی تو اسے بھی بٹھا لیتے تھے لیکن اگر جگہ نہیں ہوتی تھی تو اس سے فرماتے تھے کہ فلان جگہ میرا انتظار کرنا۔(۴۲)

فرزند کا حق

آپ ( ص ) سے پوچھا گیا کہ : مجھ پر میرے فرزند کا حق کیاہے؟

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: اس کا اچھا سا نام رکھ دو، اس کو با ادب بناو، اسے مناسب اور نیک کاموں پر مامور کرو۔(۴۳)

--------------------

(۴۱)-محجة البیضاء، ج ۳، ص ۴۳۰.

(۴۲)-سنن النبی ، ص ۵۰، ح ۶۸ از مکارم الاخلاق ، ج ۱، ص ۲۲.

(۴۳)-وسائل الشیعہ ، ج ۱۵، ص ۱۹۸، ح ۱.

۲۷

حلال اور حرام

کوئی عرب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حضور مشرف ہوا، اور آپ ( ص ) سے عرض کیا : خدا سے عرض کریں کہ وہ میری دعاکو مستجاب فرمائے۔

آپ ( ص ) نے فرمایا:تم اگر اپنیدعاؤں کو قبول ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہو تو کسب حلال کرو اور حرام سے اپنے اموال کو پاک کرو اور اپنے پیٹ کو بھی حرام سے بچاؤ۔(۴۴)

نرم مزاجی

انس بن مالک کہتا ہے : میں پورے دس سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت اقدس میں رہا۔آپ ( ص ) نے کبھی بھی مجھ سے یہ نہیں فرمایا تم نے کیوں یہ کام انجام دیا؟ یا کیوں تم نے وہ کام انجام نہیں دیا؟(۴۵)

نیز انس سے مروی ہے : میں کئی سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں رہا ، کبھی بھی آپ (ص) نے میری توہین یا تحقیر نہیں کی ۔ کبھی بھی مجھے نہیں مارا۔ کبھی بھی مجھےاپنے پاس سے نہیں بھگایا۔ کبھی بھی مجھ پر غصہ نہیں اتارا۔ کبھی میری خامیوں اور سستیوں کے باعث مجھ پر سختی نہیں کی ۔ جب آپ ( ص ) کے خاندان کا کوئی فرد مجھ پر تشدد کرتا تھا تو آپ ( ص ) اس سےفرماتے تھے : اسے چھوڑ دو ، جو ہونا ہوگا وہ ہوکر رہے گا۔

-----------------

(۴۴)-سفینة البحار، ج ۱، ص ۴۴۸.

(۴۵)-اخلاق النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و آدابہ ، ص ۳۶.

۲۸

حمد

جب بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو کوئی خوشخبری دی جاتی تھی اور آپ ( ص ) خوشحال ہو جاتے تھے تو خدا کا شکر بجا لاتے تھے اور فرماتے تھے :الحمد لله على كل نعمة ۔ہر نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں ۔ اور جب کوئی مصیبت یا آفت پڑتی تھی اور آپ ( ص ) غمگین ہو جاتے تھے تو فرماتے تھے:الحمد لله على كل حال ۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔

خلاصہ یہ ہے کہ کبھی بھی حمد اور شکر آپ کی زبان سے نہیں چھوٹتے تھے۔(۴۶)

غصہ

ایک آدمی حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! کوئی ایسی چیز مجھے سکھائیں کہ خدا اس سے مجھے فائدہ پہنچائے ، اور کوئی مختصر بات کہہ دیں کہ میں اسے آسانی سے یاد رکھ سکوں۔

آپ ( ص ) نے فرمایا: غصہ نہ کرو۔ اس نے پھر عرض کیا : کوئی ایسی چیز مجھے سکھائیں کو میرے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔ اور وہ شخص اپنی بات کو بار بار دہراتا تھا آپ (ص) ہر بار اسے فرماتے تھے : غصہ نہ کرو۔(۴۷)

نیند

حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نیند سے جاگنے کے بعد سجدے میں چلے جاتے تھے اور اس دعا کو پڑھتے تھے:

الحمدلله بعثى مرقدى هذا و لوشاء لجعله الى يوم القيمة

تمام تعریفیں اس خدا کے لیے جس نے مجھے نیند سے جگایا اگر وہ چاہتا تھا تو مجھے اسی حالت میں روز قیامت تک باقی رکھتا تھا۔

اور نقل ہوا ہے کہ آپ (ص) سوتے وقت اور نیند سے جاگنے کے بعد مسواک( دانتوں کو برش) کرتے تھے۔(۴۸)

--------------

(۴۶)-اصول کافی ، ج ۱، صص ۵۰۳ - ۴۹۰.

(۴۷)-سنن بیہقی ، ج ۱۰، ص ۱۰۵.

(۴۸)-بحارالانوار، ج ۷۳، ص ۲۰۲.

۲۹

عجب یا خود بینی

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے سامنے کسی کی تعریف کی گئی۔ ایک دن وہ شخص پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی محضر میں پہنچا۔ اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! یہ وہی شخص ہے جس کی ہم تعریف کر رہے تھے۔

آپ ( ص ) نے فرمایا: میں تیرے چہرے پر ایک قسم کا کالا شیطان دیکھ رہا ہوں ، وہ نزدیک آیا اور رسول اللہ کو سلام کیا، آپ نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم! کیا تم نے نہیں کہا تھا کہ : لوگوں میں مجھ سے بہتر کوئی نہیں؟

اس نے جواب میں کہا ہاں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! بجا فرمایا آپ نے۔(۴۹)

کھانا

عصربن ابی سلمہ ، ام المومنین ام سلمی کا بیٹا کہتا ہے: میں ایک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا ، میں برتن کے ہر طرف سے کھا رہا تھا ۔ آپ ( ص ) نے مجھ سے فرمایا: جو کچھ تیرے سامنے ہے اس سے کھاؤ۔(۵۰)

امداد خانہ

عبد اللہ جزعان جو ایک بوڑھا اور فقیر تھا، ایک گھر بنا رہا تھا، حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے جو ان دنوں سات سال کے تھے، بچوں کو جمع کیا اور عبد اللہ کی مدد کو تشریف لے گئے تاکہ اس کا گھر بن جائے۔ یہاں تک کہ اس گھر کا نام امداد خانہ رکھا اور بعض لوگوں کو مظلوموں کی مدد کرنے پر مامور کیا۔(۵۱)

-----------------

(۴۹)-محجة البیضاء، ج ۶، ص ۲۴۰.

(۵۰)-صحیح بخاری ، ج ۷، ص ۸۸.

(۵۱)-حیوة القلوب ، ج ۲، ص ۶۷.

۳۰

ماں کے پاس

ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں آیا اور کہا : میں ایک چست و چالاک جوان ہوں اور چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں جہاد کروں؛ لیکن میری ماں اس کام پر راضی نہیں ہے۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا جاؤ اور جا کر اپنی ماں کی خدمت کرو ، اس خدا کی قسم جس نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے ماں کی ایک رات کی خدمت ایک سال خدا ہ کی راہ میں جہاد سے افضل ہے۔(۵۲)

ہاتھوں کا بوسہ لینا

ایک آدمی نے چاہا کہ آپ ( ص ) کے ہاتھوں کو چوم لے ، آپ ( ص ) نے ہاتھ کھینچ لیا اور فرمایا : یہ کام عجم والے اپنے بادشاہوں سے کرتے ہیں میں بادشاہ نہیں ہوں بلکہ میں تم میں سے ایک آدمی ہوں۔(۵۳)

میزبان کے لیے دعا

جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں: ابوالہیثم نے کھانا بنایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو اصحاب سمیت کھانے پر دعوت دی ، جب اصحاب کھانے سے فارغ ہو گئے تو آپ ( ص ) نے ان سے کہا اپنے میزبان بھائی کو ثواب پہنچائیں۔ اصحاب نے کہا : میزبان کو کس طرح ثواب پہنچائیں؟ آپ (ص) نے فرمایا: جب کسی گھر میں داخل ہوجائیں اس کے گھر سے کھائیں پئیں تو اس کےلیےدعائے خیر کریں، اس کام سے میزبان کو ثواب حاصل ہوتا ہے۔(۵۴)

--------------

(۵۲)-اصول کافی ، ج ۴، ص ۵۰، ح ۸.

(۵۳)-خیانت در گزارش تاریخ ، ج ۳، ص ۲۷۱.

(۵۴)-جامع الاصول من احادیث الرسول ، ج ۵، ص ۱۰۱.

۳۱

آبروئے مومن سے دفاع

ابو درداء کہتا ہے: ایک آدمی نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں کسی کے بارے میں برا بھلا کہا، کسی ایک نے اس سے دفاع کیا ۔ اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: جو کوئی اپنے مومن بھائی کی آبرو کا دفاع کرے یہ آتش جہنم کے لیے ڈھال اور سپر بنے گا۔(۵۵)

دنیا داری

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:قیامت کے دن ایک گروہ کو حساب کتاب کے لیے لایا جائے گاجن کے اعمال تہامہ کے پہاڑ کی مانند ایک دوسرے پر سجا کر رکھے ہوئے ہیں! لیکن خدا کی طرف سے حکم آئے گا کہ انہیں جہنم لے جائیں ۔ اصحاب نے سوال کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! کیا یہ لوگ نماز پڑھتے تھے؟ آپ ( ص ) نے فرمایا:

ہاں، یہ لوگ نماز پڑھتے تھے روزہ رکھتے تھے رات کا کچھ حصہ عبادت میں گزارتےتھے ، لیکن جونہی دنیا داری کا کوئی موقع ملتا تھا جلدی سے اس پر جھپٹ پڑتے تھے۔(۵۶)

جنگ و جدال سے دوری

ایک دن رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنے اصحاب کے پاس آئے تو دیکھا وہ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ و جدال کر رہے ہیں ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سخت ناراض ہوئے اورچہرہ مبارک سرخ ہوگیا جیسے انار کا کوئی دانہ رخسار پر پھٹ گیا ہو ، اور فرمایا:کیا تم لوگ اسی کام کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور اسی کام پر مامور ہو کہ قرآن کے بعض کو دوسرے بعض سے مخلوط کرتے ہو؟ سوچو تم کن کاموں پر مامور ہو کہ انہیں بجا لاو! کن کاموں سے نہی کی گئی ہے کہ ان سے اجتناب کرو!(۵۷)

-----------------

(۵۵)-وسائل الشیعہ ، ج ۷، ص ۶۰۷.

(۵۶)-امالی الاخبار، ص /۴۶۵.

(۵۷)-محجة البیضاء، ج ۶، ص ۳۲۱.

۳۲

اہل بیت علیہم السلام سے دوستی

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: جو کوئی یہ چاہتا ہو کہ میری طرح زندگی گزارےمیری طرح اس کو موت آجائے اور مرنے کے بعد جنت کے باغوں میں جنہیں پروردگار نے میرے لیے بنایا ہے جگہ حاصل کرے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ میرے بعد علی علیہ السلام کو دوست رکھے اور اس کے بعد والے اماموں کی اقتداء کرے کہ یہ ہستیاں میری عترت ہیں میری طینت (مٹی) سے انہیں خلق کیا ہےاور انہیں علم عطا کیا گیا ہے، میری امت میں ان پر افسوس ہو جو میری عترت کی برتری اور مقام و منزلت کا انکار کریں، اور میرے ساتھ ناطہ توڑ دیں ، خدا وند ان لوگوں کو میری شفاعت سے محروم کرے گا۔(۵۸)

مومن کی زیارت

انس بن مالک کہتا ہے : رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی سیرت یہ تھی کہ اگر تین دن کسی مومن بھائی کو نہیں دیکھتے تو اس کی خبر لیتے تھے، چنانچہ اگر وہ مومن بھائی سفر پر گیا ہوا ہوتا تو اس کے حق میں دعا کرتے تھے۔ اور اگر گھر میں ہوتا تھا تو اس کے دیدا ر کو تشریف لے جاتے تھےاور جب بھی کسی کی بیماری کی خبر مل جاتی تھی تو اس کی عیادت کو جاتے تھے۔(۵۹)

-----------------

(۵۸)-حلیة الاولیاء ج ۱، ص ۸۶.

(۵۹)-بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۲۲۳ و اخلاق النبی ، ص ۷۴.

۳۳

حقیقی پاگل

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: ہم پیغمر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ساتھ کسی گروہ سے گزرے، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان سے فرمایا:تم لوگ کس لیے اکھٹے ہوئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یہ آدمی پاگل ہے اور بے ہوش ہو جاتا ہے ہم اس کے ادر گرد جمع ہوئے ہیں۔ آپ ( ص ) نے فرمایا: یہ پاگل نہیں ہے بلکہ بیمار ہے ۔ اس کے بعد فرمایا: کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ اصلی پاگل کو پہچان لو؟ سب نے عرض کیا ہاں! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)۔

آپ ( ص ) نے فرمایا: پاگل وہ شخص ہے جو فخر اور تکبر کے ساتھ زمین پر چلتا ہےاور ٹیڑی آنکھوں سے دوسروں کو دیکھتا ہے،مستی اور نخرہ کے ساتھ کاندھا ہلاتا ہے، اور گناہ کرنے کے ساتھ ساتھ خدا سے جنت کا متمنی بھی رہتا ہے۔ لوگ اس کےشر سے امان میں نہیں ہوتے، اور اس سے کسی خیر اور نیکی کی امید نہیں کرتے ، وہ اصلی پاگل ہے لیکن یہ آدمی صرف بیمار اور ذہنی پریشانی میں مبتلا ہے۔(۶۰)

ذکر اور دعا

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ذکر اور دعا کے لیے آواز اونچی کرنے کو جو کہ اکثر ریاکاروں کا طریقہ ہے پسند نہیں فرماتے تھے۔ سفر میں آپ کے اصحاب جب درہ میں پہنچتےتھے اونچی آواز میں تکبیر اور تہلیل پڑھتے تھے۔ آپ ( ص ) نے فرمایا: آہستہ پڑھیں، جس کو تم پکار رہے ہیں نہ بہرا ہے اور نہ وہ دور ہے، وہ ہر جگہ تمہارے ساتھ ہےسننے والا اور وہ تمہارے بہت قریب ہے۔(۶۱)

--------------------

(۶۰)-خصال شیخ صدوق (قدس سرہ )، ص ۲۹۵.

(۶۱)-صحیح بخاری ، ج ۴، ص ۵۷.

۳۴

چلنا

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب مرکب پر سوار ہو کر کہیں تشریف لے جاتے تھے تو اجازت نہیں دیتے تھے کہ کوئی ان کے ساتھ پیدل چلے۔چلتے وقت تواضع، وقار اور تیزی کے ساتھ چلتے تھے، اور خود کو ناتوان، کمزور اور سست نہیں دکھاتے تھے۔(۶۲)

جانوروں کے ساتھ مہربانی

عبد الرحمن بن عبد اللہ کہتا ہے: کسی سفر میں ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ساتھ تھےآپ ( ص ) کی نگاہیں کسی حمرہ (چڑیا جیسا کوئی پرندہ) پر پڑیں کہ اس کے ساتھ دو چوزے بھی تھے، ہم نے چوزوں کو اٹھا لیا وہ پرندہ آکر ہماے ادر گرد پر مارنے لگا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے یہ منظر دیکھا تو فرمایا: تم میں سے کون اس کے بچوں کی نسبت خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے؟اس کے بچوں کو اسے لوٹا دیں۔(۶۳)

لوگوں کی رعایت

معاذ بن جبل سے روایت ہوئی ہے، وہ کہتا ہے کہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مجھے یمن بھیجا اور مجھ سے فرمایا: معاذ! جب بھی سردیوں کا موسم آجائے تو صبح کی نماز صبح طلوع ہونے کی شروع میں بجا لاؤ حمد اور سورہ کو لوگوں کی توانائی اور ان کے حوصلے کے مطابق پڑھو، حمد و سورہ کو لمبا کرکے انہیں نہ تھکاؤ۔اور گرمیوں میں صبح کی نماز کو روشنی پھیل جانے کے بعد پڑھو، کیونکہ رات مختصر ہے اور لوگوں کو آرام کرنے کی ضرورت ہے انہیں چھوڑ دیں کہ اپنی ضرورت کو پورا کریں ۔(۶۴) (یعنی ان کی تھکاوٹ دور ہونے تک صبر کریں )

---------------------

(۶۲)-بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۲۳۶.

(۶۳)-الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ ، ج ۱، ص ۱۴۴

(۶۴)-اخلاق النبی صلی اللہ علیہ و آلہ ، ص ۷۵.

۳۵

دوسروں کے حقوق کی رعایت

ابو ایوب انصاری، مدینہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کا میزبان، کہتا ہے: ایک رات میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے لیے کھانے کے ساتھ پیاز اور لہسن بھی تیار کیا اور آپ ( ص ) کے سامنے پیش کیا۔ آپ ( ص ) نے اس سے نہیں کھایا اور اسے واپس کر دیا۔ ہم نے انگلیوں کی نشان بھی کھانے میں نہیں پائے۔ میں بے چینی کے عالم میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں گیااور عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! کیوں کھانا تناول نہیں فرمایا؟ آپ اس سے تھوڑا سا تناول فرماتے تاکہ ہم اس سے برکت طلب کرتے؟

آپ ( ص ) نے جواب میں فرمایا: آج کے کھانے میں لہسن تھا اور چونکہ میں کسی اجتماع میں شرکت کرنے جا رہا ہوں اور لوگ مجھ سے ملتے ہیں میرے ساتھ باتیں کرتے ہیں؛ لہذا اس کو کھانے سے معذرت چاہتا ہوں۔

ہم نے اس کو کھالیا اور اس کے بعد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے لیے کبھی ایسا کھانا نہیں بنایا۔(۶۵)

لوگوں سے برتاؤ

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جنگ کے میدان میں تھے ، ایک عرب آپ ( ص ) کی خدمت میں آیا اور آپ کی راہوار کے لگام کو تھام لیا اور کہا؛ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ! کوئی ایسا عمل مجھے سکھائیں جس سے میں جنت میں جا سکوں۔

آپ (ص) نے فرمایا:لوگوں سے اس طرح پیش آؤ جیسا کہ تم چاہتے ہو وہ تمہارے ساتھ اسی طرح سے پیش آئیں،اور اس سلوک سے بچو جو اگر لوگ تمہارے ساتھ کریں تو تم ان سے ناراض ہو جاؤ۔(۶۶)

--------------

(۶۵)-سیرہ ابن ہشام ، ج ۲، ص ۱۴۴.

(۶۶)-اصول کافی ، باب انصاف و عدل ، ج ۱۰.

۳۶

مشکلات کو رفع کرنا

حذیفہ کہتا ہے: آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی سیرت یہ تھی کہ جب انہیں کوئی مشکل پیش آتی تھی تو نماز سے پناہ لیتے تھے، اور نماز سے مدد مانگتے تھے۔(۶۷)

روزہ

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ماہ رمضان اور ماہ شعبان کے اکثر ایام کے علاوہ سال کے باقی ایام میں سے بعض ایام بھی روزہ رکھتے تھے۔(۶۸) اسی طرح آپ ( ص ) ماہ رمضان کا آخری عشرہ مسجد میں اعتکاف میں گزارتےتھے۔(۶۹) لیکن دوسروں کے لیے فرماتےتھے کہ :ہرمہینے میں تین دن روزہ رکھیں، اپنی توانائی کے مطابق عبادت کریں۔ وہ عمل جو مسلسل اور بلاناغہ انجام دیا جاتا ہے اللہ کے ہاں اس عمل سے زیادہ پسندیدہ ہے جو انسان کو تھکا دیتا ہے۔(۷۰)

ریاکاری

شداد بن اوس کہتا ہے: میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں پہنچا، آپ کے چہرہ اطہر پر چھائی ہوئی اداسی نے مجھے مغموم کیا۔ میں نے عرض کیا : آپ کو کیا ہو گیا ہے؟فرمایا: اپنی امت کی نسبت شرک سے ڈرتا ہوں۔

میں نے عرض کیا: کیا آپ کے بعد آپ کی امت مشرک ہو جائے گی؟ آپ ( ص ) نے فرمایا:میرے امتی چاند، سورج اور پتھر کی پوجا تو نہیں کریں گے لیکن ریاکاری کریں گے اور ریاکاری بھی ایک قسم کاشرک ہے۔(۷۱)

---------------

(۶۷)-اصول کافی ، باب انصاف و عدل ، ج ۱۰.

(۶۸)-صحیح بخاری ، ج ۲، ص ۵۰

(۶۹)-صحیح بخاری ، ج ۲، ص ۴۸.

(۷۰)-صحیح مسلم ، ج ۳، ص ۱۶۱ - ۱۶۲.

(۷۱)-مجموعہ ورام ، ص ۴۲۳

۳۷

اس کے بعد سورہ مبارکہ کہف کی اس آیت کی تلاوت کی:

﴿فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَ لاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَداً ﴾ (۷۲)

جو اللہ کے حضور جانے کا امید وار ہے اسے چاہیے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ ٹھہرائے۔

گناہوں کا مٹ جانا

سلمان کہتے ہیں: ہم رسول للہ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے ساتھ کسی درخت کے سایے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس درخت کی کسی شاخ کو ہلانا شروع کیا ، اس کے پتے زمین پر گرے۔ آپ ( ص ) نے وہاں موجود لوگوں سے فرمایا: کیا نہیں پوچھو گے کہ میں نے کیا کیا؟میں نے عرض کیا اس کی وجہ آپ ( ص ) ہی بتائیں۔ آپ ( ص ) نے فرمایا:

ان العبد المسلم اذا قام الى الصلاة تحتاتت عنه خطاياه كما تحتاتت ورق هذه الشجرة

جب کوئی بندہ مسلمان نما ز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح گر جاتے ہیں جس طرح سے اس درخت کے پتے گرگئے۔(۷۳)

-----------------

(۷۲)-سورہ کہف : ۱۱۰ ۔

(۷۳)-امالی شیخ طوسی ، چاپ سنگی ، جزء ۶، ص ۱۰۵.

۳۸

سادہ زندگی

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی بعض بیویاں کہتی ہیں کہ: ہماری زندگیاں بہت ہی سادہ ہیں۔ ہمیں زیورات کی خواہش ہے جنگی غنیمت کے اموال سے ہمیں بھی حصہ دیجیئے۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: میری زندگی نہایت ہی سادہ زندگی ہے۔ میں تمہیں طلاق دے دوں قرآنی دستور کے مطابق مطلقہ کو اتنا کچھ دے دینا چاہیے کو وہ آسانی سے زندگی بسر کر سکے، میں تمہیں کچھ چیزیں بھی دوں گا میری طرح سادہ زندگی گزارنا چاہتی ہیں تو ٹھیک ہے ۔ اگر ایسا نہیں چاہتی ہو توتمہیں آزاد کر دوں گا۔

البتہ سب نے کہا: نہیں، ہم سادہ زندگی گزاریں گی۔(۷۴)

علم و دانش کی ابتداء

ایک آدمی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! مجھے علم و دانش کے عجائبات سکھائیں۔ آپ (ص) نے پوچھا : علم کی ابتداء کے بارے میں کیا جانتے ہو کہ اس کی انتہاء کے بارے میں پوچھتے ہو؟ عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! دانش کی ابتداء کیا ہے؟ آپ ( ص ) نے فرمایا: دانش کی ابتدا ء یہ ہے خدا کی معرفت کا حق ادا کیا جائے۔ اعرابی نے کہا: معرفت کا حق کیا ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا: معرفت کا حق یہ ہے کہ جان لو وہ بے مثل ہے اس کا کوئی مثل،اس کا کوئی ضد اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور یہ بھی جان لو کہ وہ ایک، اکیلا، یکتا، ظاہر ، باطن ، اول اور آخر ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اور اس کی طرح کوئی چیز نہیں ۔ یہ معرفت کا حق اور علم و دانش کی ابتدا ہے۔(۷۵)

----------------

(۷۴)-المیزان فی تفسیرالقرآن ، ج ۱۶، ص ۳۱۴.

(۷۵)-تفسیر نورالثقلین ، ج ۳، ص ۳۹۹

۳۹

سلام

جب بھی کوئی مسلمان آپ کے پاس آتا تھا تو وہ آپ ( ص ) کو یوں سلام کرتا ہے ؛سلام عليك ، تو آپ ( ص ) اس کے جواب میں کہتے تھےو عليك السلام و رحمة الله، اور اگر وہ سلام میں کہتا ہے کہالسلام عليك و رحمة الله ، تو آپ ( ص ) جواب میں کہتے تھے؛و عليك السلام و رحمة الله و بركاته ، اس طرح آپ ( ص ) سلام کے جواب میں کسی چیز کا اضافہ کرتے تھے۔(۷۶)

بچوں کو سلا کرنا

انس بن مالک سے نقل ہواہے وہ کہتا ہے: جب بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کا گزر بچوں سے ہوتا تھا تو آپ ( ص ) ان کو سلام کرتے تھے۔(۷۷)

تین حکمتیں

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی کسی تلوار پر یہ تین جملے لکھے ہوئےتھے؛ ۱- اس سے رابطہ برقرار کرو جو تجھ سے رابطہ توڑ دیتا ہے۔ حق بات کرو چاہے تمہارے نقصان میں ہو، نیکی کرو اس کے ساتھ جو تمہارے ساتھ بدی کرے۔(۷۸)

-----------------

(۷۶)-مستدرک الوسایل ، ج ۲، ص ۷۰.

(۷۷)-مکارم الاخلاق ، ص ۱۶.

(۷۸)-سفینة البحار، ج ۱، ص ۵۱۶.

۴۰

سماجی تعلقات

آپ (ص) معاشرے میں ہمیشہ خوشگوار موڈ، اچھے مزاج اور تواضع کے مالک تھے اور سخت مزاجی، گالم گلوچ اور دوسروں کے عیب ڈھونڈنے سے پرہیز کرتے تھے۔ استحقاق سے بڑھ کر کسی کی تعریف نہیں کرتے تھے، اس چیز سے چشم پوشی کرتے تھے جو آپ ( ص ) کی ضرورت کی نہیں تھی۔ لوگوں کے ساتھ اس طرح پیش آتےتھے کہ لوگ نہ آپ (ص) سے نا امید ہوں اور نہ مایوس۔

خود کو تین خصلتوں سے بچاتےتھے:

1- جنگ و جدال، 2- زیادہ باتیں کرنا 3- فضول باتیں کرنا۔

لوگوں کے بارے میں بھی تین کاموں سے پرہیز فرماتے تھے:

1- کسی پر الزام نہیں لگاتے تھےاور عیوب کو نہیں ڈھونڈتے تھے۔2- لوگوں کی خطا اور عیوب کے پیچھے نہیں رہتے تھے۔ 3- اس جگہ کے علاوہ جہاں ثواب کی امید ہو کسی اور جگہ بات نہیں کرتے تھے۔(79)

صلہ رحمی

ایک آدمی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ! میرے رشتہ دار مجھ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ مجھے نا سزا کہتے ہیں، کیا میں یہ حق رکھتا ہوں کہ انہیں چھوڑ دوں؟

آپ (ص) نے فرمایا: اس صورت میں خدا تم سب کو چھوڑ دے گا۔ اس نے دوبارہ عرض کیا : پس میں کیا کروں؟ آپ ( ص ) نے فرمایا: جو تم سے رابطہ قطع کرے اس سے رابطہ قائم کرو، جس نے تجھے محروم رکھا اسے دے دو، جس نے تجھ پر ستم کیا اسے بخش دو؛ چونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو خدا ان کے مقابلے میں تمہاری مدد فرمائے گا-(80)

-------------------

(79)-بحارالانوار، ج 16، ص 152

(80)-اصول کافی ، ج 3، ص 221، ح 2.

۴۱

نوازش (ممتا)

مسیرہ بن معبد سے نقل ہوئی ہے، وہ کہتا ہے: کوئی شخص پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہم زمان جاہلیت کے لوگوں میں سے ہیں، بتوں کی پوجا کرتے تھے، اپنے فرزندوں کو مار ڈالتے تھے، میری ایک بیٹی تھی، میں اسے دعوتوں پر لے جاتا تھا اس سے وہ بہت خوش ہوتی تھی،ایک دن پھر کسی دعوت کے ارادے سے اسے باہر لے گیا، وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی تھی ، یہاں تک ہم کسی کنویں پر پہنچ گئے، یہ کنواں ہمارے گھر سے بہت دور تھا، میں نے اس کے ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں پھینکا ، وہ روکر کہہ رہی تھی: بابا! بابا ۔۔۔!

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)یہ واقعہ سن کر اتنا روئے کہ آنکھوں سے آنسو خشک ہو گئے۔(81)

عالم بے عمل

انس بن مالک کہتا ہےکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ایک رات مجھے آسمان پر لے گئے اور آسمانوں کی سیر کرائی گئی، وہاں میرا گزر لوگوں کے کسی ایسے گروہ سے ہوا جن کے ہونٹ لوہے کی قینچی سے کاٹے جا رہے تھے ، میں نے جبریل سے کہا: اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ جبریل نے جواب دیا :یہ اہل دنیا کے خطباء ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جو لوگوں کو نیک کام کرنے کا حکم دیتے تھے لیکن خود اسے انجام نہیں دیتے تھے۔(82)

-------------------

(81)-الوفاء، ج 2، ص 541.

(82)-تفسیر و نورالثقلین ، ج 1، ص 75.

۴۲

خوشبو لگانا

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)خوشبو کے لیے ایک خاص ظرف رکھتے تھے، ہر بار وضو کرنے کے بعد اسے ہاتھوں میں اٹھاتے تھے اور اپنے بدن کو خوشبو دار کرتے تھے؛ اسی لیے جب بھی آپ ( ص ) باہر تشریف لے جاتے تھے تو جہاں جہاں سے آپ (ص) کا گزر ہوتا تھا وہ جگہ خوشبو سے بھر جاتی تھی۔(83)

اگر کوئی شخص خوشبو آپ ( ص ) کو پیش کرتا تھا فورا اس سے خود کو خوشبودار کرتے تھے اور فرماتے تھے: عطر کی خوشبو پاکیزہ اور اسے ساتھ رکھنے میں آسانی ہے۔ آپ ( ص ) کھانے پینے کی چیزوں سے زیادہ خوشبو پر خرچ کرتے تھے۔(84)

بیویوں کے ساتھ مہربانی

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی بیویوں کے ساتھ مہربانی اور عدالت کے ساتھ پیش آتے تھے، ان کے درمیان امتیازی سلوک کے قائل نہ تھے، سفر میں جاتے وقت قرعہ لگاتے تھے اور جس کے نام قرعہ نکل آتا تھا اسے ساتھ لے جاتے تھے۔(85)

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)بالکل ہی بد اخلاق نہ تھے، خاص کر عورتوں کے معاملے میں آپ (ص) نہایت ہی مہربانی اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے تھے، اپنی بیویوں کی تلخ کلامی، بد زبانی بد اخلاقی کو برداشت کرتے تھے۔

-----------------

(83)-کافی ، ج 6، ص 515.

(84)- ہمان

(85)-صحیح بخاری ، ج 4، ص 163.

۴۳

بخشش

کتاب تحف العقول میں آیا ہے کہ : رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ایک دن اپنے گھر سے باہر تشریف لے گئے آپ ( ص ) نے ایک ایسے گروہ کو دیکھا جو بڑے سے پتھر کو دھکیل رہے تھے۔ آپ ( ص ) نے فرمایا : تم میں سے قہرمان اور ہیرو وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو کر سکے، اور تم میں سے سب سے زیادہ تحمل کرنے والا وہ ہے جو قدرت رکھتے ہوئے بھی بخش دے۔(86)

عفو اور در گزر

قریش والوں نے، آپ ( ص ) اور آپ کے ماننے والوں کے ساتھ اتنی ساری دشمنی کی، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا؛ اعلان نبوت کے شروع میں، ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعدآپ ( ص ) اور آپ کے اصحاب پر ستم کئے۔ آپ ( ص ) کے خلاف کئی سازشیں کیں، بہت زیادہ جنگیں لڑیں اس کے با وجود آپ نے مکہ فتح کرنے کے بعد کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا اے قریش والو! سنو! تم لوگ کیا کہتے ہو؟ میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟

سب نے ہمنوا ہو کر کہا: نیکی، آپ نیک بھائی ہیں، سخی ابن سخی اور کریم ابن کریم ہیں۔

اس وقت آپ ( ص ) نے فرمایا: میں اپنے بھائی یوسف علیہ السلام کی بات کو دہراتا ہوں: آج تم شرمسار ہو ، میں تمہیں بخش دیتا ہوں، خدا بھی تمہارے گناہوں کو بخش دے گا وہ نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے، جاؤ! تم لوگ آزاد ہو۔(87)

-----------------

(86)-سفینة البحار، ج 2، ص 320.

(87)-بحارالانوار، ج 21، فصل فتح مکہ ، الوفاء ج 2، ص 422

۴۴

حرام غذا

حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سات سال کے تھے کہ یہودیوں نے کہا کہ ہم نے اپنی کتابوں میں پڑھا ہے کہ پیغمبر اسلام حرام اور مشکوک کھانوں سے پر ہیز کرتے ہیں۔ اب ہم اس کا امتحان لیں گے۔ یہ کہہ کر ایک مرغی کو کہیں سے چرا کر لے آئے اور ابو طالب کو بھیجی۔ سب نے اس سے کھایا؛ چونکہ انہیں معلوم نہیں تھالیکن حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ جب آپ ( ص ) سے اس کی وجہ پوچھی تو آپ (ص) نے جواب دیا: چونکہ یہ حرام تھی اور خدا نے مجھے حرام سے محفوظ رکھا ہے ۔

اس کے بعد ہمسایے کی مرغی کو پکڑ کر ابو طالب کو بھیج دی اس نیت سے کہ بعد میں اس کی قیمت دی جائے گی، آنحضرت نے اسے بھی تناول نہیں فرمایا۔اور فرمایا:و ما اراها من شبهة يصوننى ربى عنها عليه السلام ان لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ یہ کھانا مشکوک تھا ؛ لیکن میرے پروردگار نے مجھے اس سے بچا لیا۔ اس وقت یہودیوں نے کہا :لهذا شان عظيم یہ بچہ عظیم المرتبت اور بلند رتبہ والا ہے۔(88)

-------------------

(88)-بحارالانوار، ج 15، ص 336.

۴۵

بچوں کو کھانا کھلانا

سلمان فرماتے ہیں : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے گھر میں داخل ہوا، حسنین علیہما السلام آپ ( ص ) کے پاس بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ایک نوالہ حسن علیہ السلام کے منہ میں ڈالتے تھے اور دوسرا حسین علیہ السلام کے منہ میں۔

جب کھانا کھا چکے تو حسین علیہ السلام کو دوش پر اور حسن علیہ السلام کو ران پر بٹھایا ، پھر میری طرف رخ کر کےفرمایا:ائے سلمان!کیا ان دونوں کو دوست رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا: ہاں! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ان دونوں کو دوست نہ رکھوں؛ جبکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ دونوں آپ ( ص ) کے پاس کتنے عظیم المرتبت اور شان والے ہیں۔(89)

معاملہ میں ملاوٹ

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا گزر ایک آدمی سے ہوا جو گندم بیچ رہا تھا۔ آپ ( ص ) نے اس سے پوچھا: کیسے بیچ رہے ہو؟ اس نے کس طرح فروخت کرنے کو آپ (ص) کی خدمت میں عرض کیا۔ اسی لمحہ اللہ تعالی نے وحی بھیجی کہ اپنے ہاتھوں کو گندم میں ڈبوئیں۔ آپ (ص) نے جب ایسا کیا تو پتہ چلا کہ گندم گیلی ہے ۔ پس آپ (ص) نے فرمایا: جو کوئی معاملہ میں ملاوٹ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(90)

--------------

(89)-بحارالانوار 36 / 4، 3، ح 143، کفایة الاثر، 7.

(90)-ولایة الفقیہ ، ج 2، ص 264.

۴۶

غیبت

ایک دن رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نماز کی شان اور فضیلت کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، اور مسلمانوں کو سفارش فرما رہے تھے کہ مسجد میں جائیں اور وقت نماز کے داخل ہونے کا انتظار کریں اور تیار رہیں کہ نماز کا وقت آجائے اور نماز قائم کریں۔

لیکن اس چیز کو دیکھتے ہوئے کہ نماز اسلامی اقدار کی ترقی کا مرکز ہے، اور ہو سکتا ہےکہ بعض افراد مسجد میں وقت نماز کا انتظار کریں اور اس فرصت میں مثلا غیبت کریں، جو کہ ہدف نماز کے بر خلاف ہے، آپ (ص) مسلمانوں کو خبر دار کرتے تھے اور فرماتے تھے:

الجلوس فى المسجد لانتظار الصلوة عبادة مالم تحدث؛

نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنا عبادت ہے جب تک اس سے کوئی حدث سرزد نہ ہو جائے۔

کسی نے پوچھا: حدث سے مراد کیا ہے؟ تو آپ (ص) نے فرمایا: غیبت کرنا۔(91)

------------------

(91)-امالی شیخ صدوق ، مجلس 65، ص 252.

۴۷

شہید کے فرزند

ابن ہشام لکھتا ہے: اسما بنت عمیس، عبد اللہ بن جعفر کی بیوی، کہتی ہے: جس دن جنگ موتہ میں جعفر شہید ہوئے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ہمارے گھر تشریف لائے، میں ابھی ابھی گھر کے کاموں سے فارغ ہوئی تھی، آپ (ص) نے مجھ سے فرمایا: جعفر کے بیٹوں کو میرے پاس لے آؤ۔ میں بچوں کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس لے کر آئی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے بچوں کو گود میں اٹھا لیا اور ان کے ساتھ پیار محبت اور نوازش کرنا شروع کیا در حالیکہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

میں نے پوچھا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میرے ماں باپ آپ ( ص ) پر قربان ہو جائیں، کیوں رو رہے ہیں۔کیا جعفر اور ان کے ساتھیوں کے بار میں کوئی خبر ملی ہے؟ آپ (ص) نے فریایا: ہاں! آج بدرجۂ شہادت فائز ہوئے ہیں۔(92)

سجدہ کی فضیلت

ایک آدمی رسول خد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا :دعا کریں کہ خدا مجھے بہشت میں لے جائے۔ آپ (ص) نے فرمایا: میں دعا تو کرتا ہوں لیکن تم میری مدد کرو کہ میری دعا قبول ہو جائے اور وہ بہت زیادہ اور طولانی سجدہ کرنا ہے۔(93)

-----------------

(92)-سیرہ ابن ہشام 2 / 252، مترجم .92.من لا یحضرة الفقیہ ، ج 1، باب 30، حدیث 14، ص 135.

(93)-سیرہ حلبی ، ح 3، ص 59.

۴۸

فضیلت اور قابلیت

عتاب بن اسد فتح مکہ کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی جانب سے مکہ کے والی مقرر ہوئے، اور سیاسی کاموں کی بھاگ دوڑ سنبھالی؛ جبکہ ان کی عمر اکیس سال سے زیادہ نہیں تھی اور اصحاب کے درمیان ان سے عمر میں بڑے لوگ بھی موجود تھے، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اس کام پر اعتراض کیا گیا ؛کہ کیوں ایک جوان کو بڑوں پر ترجیح دی گئی ہے؟ آپ (ص) بہت ہی مضبوط جواب دیا کہ ذمہ داری کا معیار عمر نہیں ہے بلکہ لیاقت اور صلاحیت ہے:

فليس الاكبر هو الافضل بل الافضل هو الاكبر (94)

سب سے افضل وہ نہیں جو سب سے بڑا ہو بلکہ سب سے بڑا وہ ہے جو سب سے افضل ہو۔

زحمت قبول کرنا

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کسی صحابی کے گھر تشریف لے گئےجب کھانا لایا گیا تو بعض لوگوں نے کھانا نہیں کھایا اور کہا کہ: ہم روزہ دارہ ہیں۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:تیرے مسلمان بھائی نے تیری مہمان نوازی کی خاطر زحمت اٹھائی ہے، اور تو کہہ رہا ہے کہ روزہ دار ہوں تیرا روزہ اگر مستحب روزہ ہے توکھاؤ اور کسی او ردن اس کی قضا بجالاؤ۔(95)

-------------------

(94)-جواہر الکلام ، ج 29، ص 50

(95)-بحارالانوار، ج 15، ص 401.

۴۹

قدر شناسی

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) بہت زیادہ وفادار، حق شناس اور شکر گزار تھے، اسی لیے ثوبیہ، جو کہ ابو لہب کی آزاد کردہ کنیز تھی، اس نے کچھ دن آپ ( ص ) کو دودھ پلایا تھا، آپ (ص) ہمیشہ اس کی خبر لیتے تھے، اور بچپن میں اس کی محبتوں کی وجہ سے آپ ( ص ) ہمیشہ اس کا احترام کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ ( ص ) مدینہ سے اس کے لیے (جو کہ مکہ میں رہتی تھی) لباس وغیرہ تحفہ بھیجتے تھے۔ ثوبیہ ہجرت کے ساتویں سال اس دنیا سے چلی گئی، آپ (ص) اس کی وفات سے غمگین ہوئے اور اس کے رشتہ داروں کے بارے میں خبر لی تاکہ ان کے ساتھ نیکی کریں۔(96)

قرآن کی تلاوت

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی سیرت یہ تھی کہ مسبحات کی تلاوت سے پہلے نہیں سوتے تھے، اور فرماتے تھے کہ ان سوروں میں ایک ایسی آیت ہے جو ہزار آیتوں سے افضل ہے۔

کسی نے پوچھا مسبحات کیا ہیں؟

آپ ( ص ) نے فرمایا سورہ ہائے حدید، حشر، صف، جمعہ اور تغابن۔(97)

------------------

(96)-سنن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ ، ص 309، بہ نقل از مجمع البیان و بحارالانوار.

(97)-محجہ البیضاء، ج 3، ص 140 مترجم (البتہ سورہ مبارکہ اعلی بھی ان میں شامل ہے)

۵۰

کام کاج

ایک دن آپ ( ص ) اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (ص) نے ایک ایسے جوان کو دیکھا جو صبح سے ہی کام کاج میں مشغول ہے۔ اصحاب میں سے بعض نے کہا: یہ تو تعریف کے قابل تھا یعنی اسے تو خراج تحسین پیش کرنا چاہیئے تھا اگر اپنی جوانی کی طاقت کو خدا کی راہ میں صرف کرتا ۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: ایسا مت کہیں، یہ جوان اگر کام کر رہا رہے تو اس لیے ہے کہ اپنی ضرورتوں کو پورا کر سکےاور دوسروں سے بے نیاز ہوسکے، یہ خود راہ خدا میں اٹھایا جانے والا قدم ہے۔ اگر یہ اپنے بوڑھے ماں باپ اور بچوں کی خاطر کام کرتا ہے اور انہیں لوگوں سے بے نیاز کر دیتا ہے تو یہ بھی خدا کی راہ میں اٹھایا جانے والا قدم ہے۔(98)

شجرکاری

جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں:رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ام مبشر انصاری کے پاس گئے، جو کہ کسی باغ میں تھی اور فرمایا: ان خرما کے درختوں کو کسی مسلمان نے لگایا ہے یا کافر نے ؟ اس نے عرض کیا : مسلمان نے لگایا ہے۔آپ (ص) نے فرمایا: کوئی مسلمان جو درخت لگائے یا زراعت کرےاور انسان اور جانور اس سے کھائیں تو یہ اس کے لیے صدقہ حساب ہوگا۔(99)

--------------

(98)-صحیح مسلم ، ج 3، ص 1188

(99)-صحیح مسلم ، ج 3، ص 1188

۵۱

عزت اور وقار

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنے کسی گھر میں تشریف لے گئے اور اصحاب بھی آپ ( ص ) کی خدمت میں آگئے ، اصحاب کی تعداد بہت زیادہ تھی اور کمرہ بھر چکا تھا۔

جریر بن عبداللہ بھی اسی لمحہ وہاں آگئےلیکن جریر کو بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں ملی اور وہ دروازے کے پاس کہیں بیٹھ گئے۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی عبا کو اٹھایا اور اسے دےدیا اور فرمایا: اس کو بچھاؤ اور اس پر بیٹھ جاؤ۔ جریر نے عبا کو ہاتھ میں لیا اپنے چہرے اور آنکھوں پر ملا اس کو بار بار چوما اور روتے ہوئے اسے دوبارہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو دے دیا اور کہنے لگا: میں کبھی بھی آپ کی عبا پر نہیں بیٹھوں گاجس طرح آپ نے مجھے عزت اور وقار دیا ہے اور میرا احترام کیا ہے ، خدا بھی آپ کی عزت میں اضافہ کرے۔

آپ ( ص ) نے دائیں بائیں نگاہ کی اور فرمایا:جب بھی کوئی محترم آدمی تمہارے پاس آتا ہے تو اس کا احترام کرو اور جس کسی کا بھی گذشتہ زمانے میں تم پر کوئی حق ہو اس کا بھی احترام کرو۔(100)

----------------

(100)-محجة البیضاء، ج 3 تص 373

۵۲

کمائی

انس بن مالک کہتا ہے:رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب جنگ تبوک سے واپس آگئے تو سعد انصاری آپ کے استقبال کو آیا، اور آپ (ص) سے ہاتھ ملایا۔ آپ (ص) نے اس سے فرمایا: کیا تمہارے ہاتھوں کو کوئی چوٹ لگ گئی ہے کہ اس میں کھر دری ہے ؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ! میں رسی اور بیلچہ کے ساتھ کام کرتا ہوںتاکہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کما سکوں؛ اسی لیے میرے ہاتھوں میں کھردری ہے۔

فقبل يده رسول الله قال : هذا يد لا تمسها النار

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے سعد کے ہاتھوں کو چوما اور کہا : یہ وہ ہاتھ ہے جسے دوزخ کی آگ نہیں چھویے گی۔(101)

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا رونا

اپنے بیٹے ابراہیم کو دفن کرنے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں ، آپ ( ص ) نے فرمایا:آنکھیں آنسو بہاتی ہیں، دل غمگین ہے لیکن کوئی ایسی بات نہیں کہوں گاجس سے خدا ناراض ہو جائے

اس کے بعد آپ ( ص ) نے قبر کی طرف دیکھا جو ابھی مکمل تیار نہیں ہوئی تھی اپنے دست مبارک سے قبر کو برابر اور ہم سطح کر دیا اور فرمایا:

اذا عمل احدكم عملا فليتقن :

جب بھی تم میں سے کوئی ایک کسی کام کو انجاد دینا چاہے تو اسے مضبوطی سے انجا دے۔(102)

----------------

(101)-اسدالغابہ ، ج 2، ص 269

(102)-فروع کافی ، مطابق نقل بحار، ج 22، ص 157

۵۳

حدود الہی کا اجرا

فتح مکہ کے موقع پر بنی مخزوم قبیلہ کی کسی عورت نے چوری کی اور عدالت میں اس کا جرم ثابت ہو گیا۔ اس کے رشتے داروں کو یہ برداشت نہ تھا کہ ان کی ناموس پر حدجاری کردی جائے چونکہ ابھی جاہلیت والی سوچ رکھتے تھے، جد و جہد کرنے لگے کہ کسی نہ کسی طریقے سے حدجاری کرنے کو اس سے ٹالا جا سکے۔ اسامہ بن زید کو جو اپنے باپ کی طرح رسول رللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے نزدیک عزیز تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس سفارش کرنے پرآمادہ کیا۔ اسامہ بن زید نے جونہی سفارش کے لیے زبان کھولی غصے کی شدت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے چہرے کا رنگ اڑ گیااور اسے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:یہ کہاں سفارش کی جگہ ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ حدود الہی کو نافذ کئے بغیر چھوڑ دیا جائے؟

حد جاری کرنے کا حکم صادر ہوا۔ اسامہ اپنی غفلت کی طرف متوجہ ہوا اور اپنی خطاء کے باعث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے معافی مانگنے لگا اور اس لیے کہ لوگوں کے ذہنوں سے جاہلیت والی سوچ مٹ جائے اور لوگ قانون الہی کو نافذ کرنے میں امتیازی سلوک کے قائل نہ ہوجائیں، عصر کے وقت لوگوں کے درمیان خطبہ دیا اور گذشتہ واقعہ کو موضوع گفتگو قرار دیتے ہوئے کہا:

گذشتہ قومیں تباہ و برباد ہوئیں ؛ کیونکہ قانون الہی کو نافذ کرنے میں امتیازی سلوک کرتی تھیں، جو بھی جب بھی بڑے خاندان یا امراء میں سے کوئی جرم کرتا تھا تو اسے سزا نہیں دی جاتی تھی لیکن جو چھوٹے خاندان یا فقیر گھرانے سے جرم کا مرتکب ہوتا تھا تو اسے سزا دی جاتی تھی ۔ اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! عدالت کو جاری کرنے میں کسی کو بھی نہیں چھوڑوں گا چاہے مجرم میرے قریبی رشتے داروں میں سے ہی کیوں نہ ہو۔(103)

-------------------

(103)-صحیح بخاری ، ج 5، ص 152

۵۴

ماں

ایک آدمی رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ! کس کے ساتھ نیکی کروں۔

آپ (ص) نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔

اس نے دوبارہ پوچھا: پھر کس کے ساتھ نیکی کروں؟

آپ (ص) نے پھر فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔

اس نے تیسری بار اپنے سوال کو دہرایا اور کہا: پھر کس کے ساتھ نیکی کروں؟

آپ (ص) نے پھر وہی جواب دیا: اپنی ماں کے ساتھ۔

اس نے جب چوتھی بار اپنے سوال کو دہرایا اور کہا: پھر کس کے ساتھ نیکی کروں؟

تو اس دفعہ آپ (ص) نےفرمایا: اپنے باپ کے ساتھ۔(104)

شعبان کا مہینہ

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کسی بھی مہینے میں ماہ شعبان کی طرح روزہ نہیں رکھتے تھے۔ آپ ( ص ) سے پوچھا گیا: ہم نے نہیں دیکھا کہ آپ کسی بھی مہینے میں ماہ شعبان کی طرح روزہ رکھیں؟ آپ (ص) نے فرمایا:شعبان کا مہینہ وہ مہینہ جس سے لوگ غافل رہتے ہیں، یہ مہینہ رجب اور رمضان کے مہینوں کے درمیان میں ہےکہ جس میں خدا وند عالم اپنے بندوں کے اعمال کو اوپر لے جاتا ہے؛ اسی لیے میں چاہتا ہوںمیرے اعمال اس حال میں اوپر جائیں کہ میں روزہ سے ہوں۔(105)

---------------

(104)-محجة البیضاء، ج 3، ص 439

(105)-الوفاء باحوال المصطفی ، ابن جوزی ، ج 2، ص 516

۵۵

رمضان کا مہینہ

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب ماہ مبارک رمضان کے چاند کو دیکھتے تھے تو رو بقبلہ بیٹھتے تھے اور ہاتھوں کو اٹھا کر فرماتے تھے:

خدایا! ہمیں امن و سلامتی، ایمان، صحت، عافیت، رزق و روزی کی فراوانی اور دکھ درد سے رہائی کے ساتھ اس مہینہ سے ملنے کی توفیق عنایت فرما! خدایا!ہمیں اس ماہ میں نماز، روزہ، قرآن کی تلاوت کی روزی عنایت فرما!خدایا! اس ماہ کے شروع سے آخر تک ہمارے دلوں کو غبار آلود نہ کر کہ اس ماہ کے روزے اور افطار کی برکتیں ہم پر پوشیدہ رہیں، اور ہمیں گناہوں سے بچانا، اور ان بیماریوں سے محفوظ رکھ جن کی وجہ سے ہم روزہ نہ رکھ سکیں!(106)

شب قدر

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)ماہ رمضان کے آخری عشرے میں بوریا بستر سمیٹتے تھے اور عبادت کے لیے کمر کس لیتے تھےاور جب تئیسویں کی رات شروع ہو جاتی تھی اپنے اہل بیت کو بھی بیدار رکھتےتھے جب بھی کسی پر نیند کا غلبہ ہو جاتا تھا تو پانی چھڑکتے تھے ۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی یہی کرتی تھیں- آپ ( ص ) اپنے اہل بیت میں سے کسی کو سونے نہیں دیتے تھے، اور ان پر نیند غالب نہ آنے کے لیے انہیں کھانا کم دیتے تھے ،اور ان سے چاہتے تھے کہ شب بیداری کے لیے خود کو تیار کرلیں۔ اور فرماتے تھے: محروم وہ ہے جو اس رات کی برکتوں سے محروم رہے۔(107)

----------------

(106)-التہذیب ج 4، ص 197 بہ نقل از حضرت امام محمد باقر علیہ السلام

(107)-مستدرک الوسائل ، تج 7، ص 470.

۵۶

ہجڑا یا خواجہ سراء

ابو ہریرہ کہتا ہے: ایک ہجڑے (خنثی) کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حضور لایا گیا جس نے اپنے ہاتھ اور پاؤں میں خضاب کیا تھا، آپ (ص) نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ اس کیوں ایسا کیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا : خود کو عورتوں جیسا بنانے کے لیے اس نے ایسا کیا ہے۔ آپ (ص) نے حکم دیا کہ اسے "نقیع" نامی جگہ جلا وطن کر دیا جائے۔ لوگوں نے عرض کیا: کیا ہم اسےقتل نہ کریں؟آپ (ص) نے فرمایا: مجھے نمازیوں کے قتل سے منع کیا گیا ہے۔(108)

رواداری

جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ ذات الرقاع نامی جگہ پر تھے۔ ہم نے آپ (ص) کو کسی درخت کے سایے میں چھوڑدیا۔ اچانک کوئی مشرک وہاں آن پہنچا، آپ ( ص ) نے تلوار کو درخت سے لٹکا رکھا تھا۔مشرک نے تلوار اٹھائی اور آپ ( ص ) سے خطاب کر کے کہا : کیا مجھ سے ڈرتے ہو؟

آپ (ص) نے فرمایا: نہیں۔

مشرک نے کہا: کون آپ کی مدد کو پہنچے گا؟

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: خدا۔

اللہ کا نام سنتے ہیں تلوار مشرک کے ہاتھ سے گر گئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے تلوار اٹھائی اور کہا:

اب تو بتا کون تیری مدد کو پہنچے گا؟

-----------------

(108)-ولایة الفقیہ ، ج 2، ص 324.

۵۷

مشرک نے التماس کی اور کہا: میرے ساتھ رواداری فرمائیں!

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: کیا تم خدا کی وحدانیت اور میری نبوت کی گواہی دو گے؟

مشرک نے کہا: نہیں! لیکن میں عہد کرتا ہوں کبھی بھی آپ کے ساتھ جنگ نہیں کروں گا، اور ان لوگوں کے ساتھ بھی نہیں رہوں گا جو آپ کے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔

پس آپ (ص) نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا اور کہا: میں ابھی لوگوں میں سے بہترین انسان کے پاس سے تم لوگوں کی طرف آرہا ہوں۔(109)

مسجد

آپ (ص) جب بھی مسجد میں داخل ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے:

اللهم افتح لى ابواب رحمتك

خدایا! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔

اور جب مسجد سے خارج ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے:

اللهم افتح لى ابواب رزقك

خدایا میرے لیے اپنے رزق کے دروازے کھول دے۔(110)

----------------------

(109)-ریاض الصالحین ، صلی اللہ علیہ و آلہ 23 - 24

(110)-سنن النبی ص 321

۵۸

یہودی کا مسلمان ہونا

ایک دن آنحضرت ایک گروہ کے ساتھ کسی جگہ نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ (ص) سجدے میں گئے تو حسین علیہ السلام جو کہ ابھی بچے تھے، آپ (ص) کے دوش مبارک پر سوار ہوئےاور دونوں پاؤں کو حرکت دیتے تھے اور ہنکاتے تھے۔

جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سجدے سے سر اٹھانا چاہتے تھے تو اٹھا کر زمین پر رکھ دیتے تھے یہ کام نماز ہونے ختم تک جاری رہا۔ ایک یہودی یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔ نماز کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: اپنے بچوں کے ساتھ آپ اس طرح سے سلوک کرتے ہیں جبکہ ہم اپنے بچوں سے ایسا سلوک نہیں کرتے ہیں۔

آپ ( ص ) نے فرمایا: اگر تم خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے تو اپنے بچوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اس مہر و محبت نے اس یہودی کو متأثر کیا اور وہ وہیں پر مسلمان ہو گیا۔(111)

مشاورت

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے جنگ بدر کے موقع پر تین مرحلوں میں اپنے اصحاب کو مشاورت کی دعوت دی اور فرمایا: اپنے اپنے نظریوں کا اظہار کریں:

پہلا مرحلہ: کیا قریش کے ساتھ جنگ کریں یا جنگ چھوڑ کر مدینہ چلے جائیں؟ اس وقت سب نے جنگ کرنے کو توجیح دی ۔(112)

دوسرا مرحلہ:کہاں پڑاؤ ڈالیں؟ اس وقت حباب بن منذر کی نظر سب نے قبول کیا۔

تیسرا مرحلہ:جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا کیا جائے؟ اس وقت شور شرابہ ہوا بعض نے ا ن کے قتل کرنے کو ترجیح دی اور بعض نے فدیہ لے کر آزاد کرنے کا مشورہ دیا ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے دوسرے گروہ کی بات کو قبول کیا۔

--------------

(111)-بحارالانوار، 43 / 294 تا296

(112)-سیرہ ابن ہشام ، ج 2، ص 253

۵۹

طالب علم کا مقام

صفوان بن عسال کہتا ہے:میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں پہنچا۔ آپ (ص) مسجد میں اپنے لال رنگ کے تکیہ پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ میں نے عر ض کیا :یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! میں علم حاصل کرنے آیا ہوں۔ آپ (ص) نے فرمایا: اے طالب علم خوش آمدید! بتحقیق فرشتے اپنے پروں سے طالب علم کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں اور اتنے فرشتے جمع ہو جاتے ہیں کہ ایک کے اوپر دوسرے یہاں تک کہ دنیا کے آسمان سے جا لگتے ہیں؛ اس الفت و محبت کی وجہ سے جو انہیں طالب علم کے ساتھ ہے۔(113)

بچوں سے مہربانی

ایک دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنے اصحاب کے ساتھ کسی راستے سے گزر رہےتھے اس راستے میں بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ آپ (ص) ایک بچے کے پاس تشریف لےگئے اور اس کا ماتھا چوما، اس کے ساتھ مہربانی کی، آپ (ص) سے اس کی علت پوچھی گئی تو آپ (ص) نےفرمایا:میں نے ایک دن اس بچے کو دیکھا کہ میرے بیٹے حسین علیہ السلام کے ساتھ کھیل رہا تھا ، اور وہ حسین علیہ السلام کے قدموں تلے سے مٹی اٹھا کر اپنے چہرے پر ملتا تھا؛ پس یہ حسین علیہ السلام کے دوستوں میں سے ہے میں بھی اسے دوست رکھتا ہوں۔ جبریل نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ بچہ میرے حسین کے ساتھ کربلا میں شہید ہو جائے گا۔(114)

----------------

(113)-منیة المرید، ص 107

(114)-بحارالانوار، 44 / 242 ح 36

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72