ایک سو بیس درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے

ایک سو بیس  درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے50%

ایک سو بیس  درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 72

ایک سو بیس درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62600 / ڈاؤنلوڈ: 3929
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

سماجی تعلقات

آپ (ص) معاشرے میں ہمیشہ خوشگوار موڈ، اچھے مزاج اور تواضع کے مالک تھے اور سخت مزاجی، گالم گلوچ اور دوسروں کے عیب ڈھونڈنے سے پرہیز کرتے تھے۔ استحقاق سے بڑھ کر کسی کی تعریف نہیں کرتے تھے، اس چیز سے چشم پوشی کرتے تھے جو آپ ( ص ) کی ضرورت کی نہیں تھی۔ لوگوں کے ساتھ اس طرح پیش آتےتھے کہ لوگ نہ آپ (ص) سے نا امید ہوں اور نہ مایوس۔

خود کو تین خصلتوں سے بچاتےتھے:

۱- جنگ و جدال، ۲- زیادہ باتیں کرنا ۳- فضول باتیں کرنا۔

لوگوں کے بارے میں بھی تین کاموں سے پرہیز فرماتے تھے:

۱- کسی پر الزام نہیں لگاتے تھےاور عیوب کو نہیں ڈھونڈتے تھے۔۲- لوگوں کی خطا اور عیوب کے پیچھے نہیں رہتے تھے۔ ۳- اس جگہ کے علاوہ جہاں ثواب کی امید ہو کسی اور جگہ بات نہیں کرتے تھے۔(۷۹)

صلہ رحمی

ایک آدمی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ! میرے رشتہ دار مجھ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ مجھے نا سزا کہتے ہیں، کیا میں یہ حق رکھتا ہوں کہ انہیں چھوڑ دوں؟

آپ (ص) نے فرمایا: اس صورت میں خدا تم سب کو چھوڑ دے گا۔ اس نے دوبارہ عرض کیا : پس میں کیا کروں؟ آپ ( ص ) نے فرمایا: جو تم سے رابطہ قطع کرے اس سے رابطہ قائم کرو، جس نے تجھے محروم رکھا اسے دے دو، جس نے تجھ پر ستم کیا اسے بخش دو؛ چونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو خدا ان کے مقابلے میں تمہاری مدد فرمائے گا-(۸۰)

-------------------

(۷۹)-بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۱۵۲

(۸۰)-اصول کافی ، ج ۳، ص ۲۲۱، ح ۲.

۴۱

نوازش (ممتا)

مسیرہ بن معبد سے نقل ہوئی ہے، وہ کہتا ہے: کوئی شخص پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہم زمان جاہلیت کے لوگوں میں سے ہیں، بتوں کی پوجا کرتے تھے، اپنے فرزندوں کو مار ڈالتے تھے، میری ایک بیٹی تھی، میں اسے دعوتوں پر لے جاتا تھا اس سے وہ بہت خوش ہوتی تھی،ایک دن پھر کسی دعوت کے ارادے سے اسے باہر لے گیا، وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی تھی ، یہاں تک ہم کسی کنویں پر پہنچ گئے، یہ کنواں ہمارے گھر سے بہت دور تھا، میں نے اس کے ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں پھینکا ، وہ روکر کہہ رہی تھی: بابا! بابا ۔۔۔!

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)یہ واقعہ سن کر اتنا روئے کہ آنکھوں سے آنسو خشک ہو گئے۔(۸۱)

عالم بے عمل

انس بن مالک کہتا ہےکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ایک رات مجھے آسمان پر لے گئے اور آسمانوں کی سیر کرائی گئی، وہاں میرا گزر لوگوں کے کسی ایسے گروہ سے ہوا جن کے ہونٹ لوہے کی قینچی سے کاٹے جا رہے تھے ، میں نے جبریل سے کہا: اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ جبریل نے جواب دیا :یہ اہل دنیا کے خطباء ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جو لوگوں کو نیک کام کرنے کا حکم دیتے تھے لیکن خود اسے انجام نہیں دیتے تھے۔(۸۲)

-------------------

(۸۱)-الوفاء، ج ۲، ص ۵۴۱.

(۸۲)-تفسیر و نورالثقلین ، ج ۱، ص ۷۵.

۴۲

خوشبو لگانا

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)خوشبو کے لیے ایک خاص ظرف رکھتے تھے، ہر بار وضو کرنے کے بعد اسے ہاتھوں میں اٹھاتے تھے اور اپنے بدن کو خوشبو دار کرتے تھے؛ اسی لیے جب بھی آپ ( ص ) باہر تشریف لے جاتے تھے تو جہاں جہاں سے آپ (ص) کا گزر ہوتا تھا وہ جگہ خوشبو سے بھر جاتی تھی۔(۸۳)

اگر کوئی شخص خوشبو آپ ( ص ) کو پیش کرتا تھا فورا اس سے خود کو خوشبودار کرتے تھے اور فرماتے تھے: عطر کی خوشبو پاکیزہ اور اسے ساتھ رکھنے میں آسانی ہے۔ آپ ( ص ) کھانے پینے کی چیزوں سے زیادہ خوشبو پر خرچ کرتے تھے۔(۸۴)

بیویوں کے ساتھ مہربانی

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی بیویوں کے ساتھ مہربانی اور عدالت کے ساتھ پیش آتے تھے، ان کے درمیان امتیازی سلوک کے قائل نہ تھے، سفر میں جاتے وقت قرعہ لگاتے تھے اور جس کے نام قرعہ نکل آتا تھا اسے ساتھ لے جاتے تھے۔(۸۵)

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)بالکل ہی بد اخلاق نہ تھے، خاص کر عورتوں کے معاملے میں آپ (ص) نہایت ہی مہربانی اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے تھے، اپنی بیویوں کی تلخ کلامی، بد زبانی بد اخلاقی کو برداشت کرتے تھے۔

-----------------

(۸۳)-کافی ، ج ۶، ص ۵۱۵.

(۸۴)- ہمان

(۸۵)-صحیح بخاری ، ج ۴، ص ۱۶۳.

۴۳

بخشش

کتاب تحف العقول میں آیا ہے کہ : رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ایک دن اپنے گھر سے باہر تشریف لے گئے آپ ( ص ) نے ایک ایسے گروہ کو دیکھا جو بڑے سے پتھر کو دھکیل رہے تھے۔ آپ ( ص ) نے فرمایا : تم میں سے قہرمان اور ہیرو وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو کر سکے، اور تم میں سے سب سے زیادہ تحمل کرنے والا وہ ہے جو قدرت رکھتے ہوئے بھی بخش دے۔(۸۶)

عفو اور در گزر

قریش والوں نے، آپ ( ص ) اور آپ کے ماننے والوں کے ساتھ اتنی ساری دشمنی کی، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا؛ اعلان نبوت کے شروع میں، ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعدآپ ( ص ) اور آپ کے اصحاب پر ستم کئے۔ آپ ( ص ) کے خلاف کئی سازشیں کیں، بہت زیادہ جنگیں لڑیں اس کے با وجود آپ نے مکہ فتح کرنے کے بعد کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا اے قریش والو! سنو! تم لوگ کیا کہتے ہو؟ میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟

سب نے ہمنوا ہو کر کہا: نیکی، آپ نیک بھائی ہیں، سخی ابن سخی اور کریم ابن کریم ہیں۔

اس وقت آپ ( ص ) نے فرمایا: میں اپنے بھائی یوسف علیہ السلام کی بات کو دہراتا ہوں: آج تم شرمسار ہو ، میں تمہیں بخش دیتا ہوں، خدا بھی تمہارے گناہوں کو بخش دے گا وہ نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے، جاؤ! تم لوگ آزاد ہو۔(۸۷)

-----------------

(۸۶)-سفینة البحار، ج ۲، ص ۳۲۰.

(۸۷)-بحارالانوار، ج ۲۱، فصل فتح مکہ ، الوفاء ج ۲، ص ۴۲۲

۴۴

حرام غذا

حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سات سال کے تھے کہ یہودیوں نے کہا کہ ہم نے اپنی کتابوں میں پڑھا ہے کہ پیغمبر اسلام حرام اور مشکوک کھانوں سے پر ہیز کرتے ہیں۔ اب ہم اس کا امتحان لیں گے۔ یہ کہہ کر ایک مرغی کو کہیں سے چرا کر لے آئے اور ابو طالب کو بھیجی۔ سب نے اس سے کھایا؛ چونکہ انہیں معلوم نہیں تھالیکن حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ جب آپ ( ص ) سے اس کی وجہ پوچھی تو آپ (ص) نے جواب دیا: چونکہ یہ حرام تھی اور خدا نے مجھے حرام سے محفوظ رکھا ہے ۔

اس کے بعد ہمسایے کی مرغی کو پکڑ کر ابو طالب کو بھیج دی اس نیت سے کہ بعد میں اس کی قیمت دی جائے گی، آنحضرت نے اسے بھی تناول نہیں فرمایا۔اور فرمایا:و ما اراها من شبهة يصوننى ربى عنها عليه السلام ان لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ یہ کھانا مشکوک تھا ؛ لیکن میرے پروردگار نے مجھے اس سے بچا لیا۔ اس وقت یہودیوں نے کہا :لهذا شان عظيم یہ بچہ عظیم المرتبت اور بلند رتبہ والا ہے۔(۸۸)

-------------------

(۸۸)-بحارالانوار، ج ۱۵، ص ۳۳۶.

۴۵

بچوں کو کھانا کھلانا

سلمان فرماتے ہیں : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے گھر میں داخل ہوا، حسنین علیہما السلام آپ ( ص ) کے پاس بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ایک نوالہ حسن علیہ السلام کے منہ میں ڈالتے تھے اور دوسرا حسین علیہ السلام کے منہ میں۔

جب کھانا کھا چکے تو حسین علیہ السلام کو دوش پر اور حسن علیہ السلام کو ران پر بٹھایا ، پھر میری طرف رخ کر کےفرمایا:ائے سلمان!کیا ان دونوں کو دوست رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا: ہاں! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ان دونوں کو دوست نہ رکھوں؛ جبکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ دونوں آپ ( ص ) کے پاس کتنے عظیم المرتبت اور شان والے ہیں۔(۸۹)

معاملہ میں ملاوٹ

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا گزر ایک آدمی سے ہوا جو گندم بیچ رہا تھا۔ آپ ( ص ) نے اس سے پوچھا: کیسے بیچ رہے ہو؟ اس نے کس طرح فروخت کرنے کو آپ (ص) کی خدمت میں عرض کیا۔ اسی لمحہ اللہ تعالی نے وحی بھیجی کہ اپنے ہاتھوں کو گندم میں ڈبوئیں۔ آپ (ص) نے جب ایسا کیا تو پتہ چلا کہ گندم گیلی ہے ۔ پس آپ (ص) نے فرمایا: جو کوئی معاملہ میں ملاوٹ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(۹۰)

--------------

(۸۹)-بحارالانوار ۳۶ / ۴، ۳، ح ۱۴۳، کفایة الاثر، ۷.

(۹۰)-ولایة الفقیہ ، ج ۲، ص ۲۶۴.

۴۶

غیبت

ایک دن رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نماز کی شان اور فضیلت کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، اور مسلمانوں کو سفارش فرما رہے تھے کہ مسجد میں جائیں اور وقت نماز کے داخل ہونے کا انتظار کریں اور تیار رہیں کہ نماز کا وقت آجائے اور نماز قائم کریں۔

لیکن اس چیز کو دیکھتے ہوئے کہ نماز اسلامی اقدار کی ترقی کا مرکز ہے، اور ہو سکتا ہےکہ بعض افراد مسجد میں وقت نماز کا انتظار کریں اور اس فرصت میں مثلا غیبت کریں، جو کہ ہدف نماز کے بر خلاف ہے، آپ (ص) مسلمانوں کو خبر دار کرتے تھے اور فرماتے تھے:

الجلوس فى المسجد لانتظار الصلوة عبادة مالم تحدث؛

نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنا عبادت ہے جب تک اس سے کوئی حدث سرزد نہ ہو جائے۔

کسی نے پوچھا: حدث سے مراد کیا ہے؟ تو آپ (ص) نے فرمایا: غیبت کرنا۔(۹۱)

------------------

(۹۱)-امالی شیخ صدوق ، مجلس ۶۵، ص ۲۵۲.

۴۷

شہید کے فرزند

ابن ہشام لکھتا ہے: اسما بنت عمیس، عبد اللہ بن جعفر کی بیوی، کہتی ہے: جس دن جنگ موتہ میں جعفر شہید ہوئے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ہمارے گھر تشریف لائے، میں ابھی ابھی گھر کے کاموں سے فارغ ہوئی تھی، آپ (ص) نے مجھ سے فرمایا: جعفر کے بیٹوں کو میرے پاس لے آؤ۔ میں بچوں کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس لے کر آئی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے بچوں کو گود میں اٹھا لیا اور ان کے ساتھ پیار محبت اور نوازش کرنا شروع کیا در حالیکہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

میں نے پوچھا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میرے ماں باپ آپ ( ص ) پر قربان ہو جائیں، کیوں رو رہے ہیں۔کیا جعفر اور ان کے ساتھیوں کے بار میں کوئی خبر ملی ہے؟ آپ (ص) نے فریایا: ہاں! آج بدرجۂ شہادت فائز ہوئے ہیں۔(۹۲)

سجدہ کی فضیلت

ایک آدمی رسول خد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا :دعا کریں کہ خدا مجھے بہشت میں لے جائے۔ آپ (ص) نے فرمایا: میں دعا تو کرتا ہوں لیکن تم میری مدد کرو کہ میری دعا قبول ہو جائے اور وہ بہت زیادہ اور طولانی سجدہ کرنا ہے۔(۹۳)

-----------------

(۹۲)-سیرہ ابن ہشام ۲ / ۲۵۲، مترجم .۹۲.من لا یحضرة الفقیہ ، ج ۱، باب ۳۰، حدیث ۱۴، ص ۱۳۵.

(۹۳)-سیرہ حلبی ، ح ۳، ص ۵۹.

۴۸

فضیلت اور قابلیت

عتاب بن اسد فتح مکہ کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی جانب سے مکہ کے والی مقرر ہوئے، اور سیاسی کاموں کی بھاگ دوڑ سنبھالی؛ جبکہ ان کی عمر اکیس سال سے زیادہ نہیں تھی اور اصحاب کے درمیان ان سے عمر میں بڑے لوگ بھی موجود تھے، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اس کام پر اعتراض کیا گیا ؛کہ کیوں ایک جوان کو بڑوں پر ترجیح دی گئی ہے؟ آپ (ص) بہت ہی مضبوط جواب دیا کہ ذمہ داری کا معیار عمر نہیں ہے بلکہ لیاقت اور صلاحیت ہے:

فليس الاكبر هو الافضل بل الافضل هو الاكبر (۹۴)

سب سے افضل وہ نہیں جو سب سے بڑا ہو بلکہ سب سے بڑا وہ ہے جو سب سے افضل ہو۔

زحمت قبول کرنا

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کسی صحابی کے گھر تشریف لے گئےجب کھانا لایا گیا تو بعض لوگوں نے کھانا نہیں کھایا اور کہا کہ: ہم روزہ دارہ ہیں۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:تیرے مسلمان بھائی نے تیری مہمان نوازی کی خاطر زحمت اٹھائی ہے، اور تو کہہ رہا ہے کہ روزہ دار ہوں تیرا روزہ اگر مستحب روزہ ہے توکھاؤ اور کسی او ردن اس کی قضا بجالاؤ۔(۹۵)

-------------------

(۹۴)-جواہر الکلام ، ج ۲۹، ص ۵۰

(۹۵)-بحارالانوار، ج ۱۵، ص ۴۰۱.

۴۹

قدر شناسی

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) بہت زیادہ وفادار، حق شناس اور شکر گزار تھے، اسی لیے ثوبیہ، جو کہ ابو لہب کی آزاد کردہ کنیز تھی، اس نے کچھ دن آپ ( ص ) کو دودھ پلایا تھا، آپ (ص) ہمیشہ اس کی خبر لیتے تھے، اور بچپن میں اس کی محبتوں کی وجہ سے آپ ( ص ) ہمیشہ اس کا احترام کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ ( ص ) مدینہ سے اس کے لیے (جو کہ مکہ میں رہتی تھی) لباس وغیرہ تحفہ بھیجتے تھے۔ ثوبیہ ہجرت کے ساتویں سال اس دنیا سے چلی گئی، آپ (ص) اس کی وفات سے غمگین ہوئے اور اس کے رشتہ داروں کے بارے میں خبر لی تاکہ ان کے ساتھ نیکی کریں۔(۹۶)

قرآن کی تلاوت

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی سیرت یہ تھی کہ مسبحات کی تلاوت سے پہلے نہیں سوتے تھے، اور فرماتے تھے کہ ان سوروں میں ایک ایسی آیت ہے جو ہزار آیتوں سے افضل ہے۔

کسی نے پوچھا مسبحات کیا ہیں؟

آپ ( ص ) نے فرمایا سورہ ہائے حدید، حشر، صف، جمعہ اور تغابن۔(۹۷)

------------------

(۹۶)-سنن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ ، ص ۳۰۹، بہ نقل از مجمع البیان و بحارالانوار.

(۹۷)-محجہ البیضاء، ج ۳، ص ۱۴۰ مترجم (البتہ سورہ مبارکہ اعلی بھی ان میں شامل ہے)

۵۰

کام کاج

ایک دن آپ ( ص ) اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (ص) نے ایک ایسے جوان کو دیکھا جو صبح سے ہی کام کاج میں مشغول ہے۔ اصحاب میں سے بعض نے کہا: یہ تو تعریف کے قابل تھا یعنی اسے تو خراج تحسین پیش کرنا چاہیئے تھا اگر اپنی جوانی کی طاقت کو خدا کی راہ میں صرف کرتا ۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: ایسا مت کہیں، یہ جوان اگر کام کر رہا رہے تو اس لیے ہے کہ اپنی ضرورتوں کو پورا کر سکےاور دوسروں سے بے نیاز ہوسکے، یہ خود راہ خدا میں اٹھایا جانے والا قدم ہے۔ اگر یہ اپنے بوڑھے ماں باپ اور بچوں کی خاطر کام کرتا ہے اور انہیں لوگوں سے بے نیاز کر دیتا ہے تو یہ بھی خدا کی راہ میں اٹھایا جانے والا قدم ہے۔(۹۸)

شجرکاری

جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں:رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ام مبشر انصاری کے پاس گئے، جو کہ کسی باغ میں تھی اور فرمایا: ان خرما کے درختوں کو کسی مسلمان نے لگایا ہے یا کافر نے ؟ اس نے عرض کیا : مسلمان نے لگایا ہے۔آپ (ص) نے فرمایا: کوئی مسلمان جو درخت لگائے یا زراعت کرےاور انسان اور جانور اس سے کھائیں تو یہ اس کے لیے صدقہ حساب ہوگا۔(۹۹)

--------------

(۹۸)-صحیح مسلم ، ج ۳، ص ۱۱۸۸

(۹۹)-صحیح مسلم ، ج ۳، ص ۱۱۸۸

۵۱

عزت اور وقار

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنے کسی گھر میں تشریف لے گئے اور اصحاب بھی آپ ( ص ) کی خدمت میں آگئے ، اصحاب کی تعداد بہت زیادہ تھی اور کمرہ بھر چکا تھا۔

جریر بن عبداللہ بھی اسی لمحہ وہاں آگئےلیکن جریر کو بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں ملی اور وہ دروازے کے پاس کہیں بیٹھ گئے۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی عبا کو اٹھایا اور اسے دےدیا اور فرمایا: اس کو بچھاؤ اور اس پر بیٹھ جاؤ۔ جریر نے عبا کو ہاتھ میں لیا اپنے چہرے اور آنکھوں پر ملا اس کو بار بار چوما اور روتے ہوئے اسے دوبارہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو دے دیا اور کہنے لگا: میں کبھی بھی آپ کی عبا پر نہیں بیٹھوں گاجس طرح آپ نے مجھے عزت اور وقار دیا ہے اور میرا احترام کیا ہے ، خدا بھی آپ کی عزت میں اضافہ کرے۔

آپ ( ص ) نے دائیں بائیں نگاہ کی اور فرمایا:جب بھی کوئی محترم آدمی تمہارے پاس آتا ہے تو اس کا احترام کرو اور جس کسی کا بھی گذشتہ زمانے میں تم پر کوئی حق ہو اس کا بھی احترام کرو۔(۱۰۰)

----------------

(۱۰۰)-محجة البیضاء، ج ۳ تص ۳۷۳

۵۲

کمائی

انس بن مالک کہتا ہے:رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب جنگ تبوک سے واپس آگئے تو سعد انصاری آپ کے استقبال کو آیا، اور آپ (ص) سے ہاتھ ملایا۔ آپ (ص) نے اس سے فرمایا: کیا تمہارے ہاتھوں کو کوئی چوٹ لگ گئی ہے کہ اس میں کھر دری ہے ؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ! میں رسی اور بیلچہ کے ساتھ کام کرتا ہوںتاکہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کما سکوں؛ اسی لیے میرے ہاتھوں میں کھردری ہے۔

فقبل يده رسول الله قال : هذا يد لا تمسها النار

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے سعد کے ہاتھوں کو چوما اور کہا : یہ وہ ہاتھ ہے جسے دوزخ کی آگ نہیں چھویے گی۔(۱۰۱)

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا رونا

اپنے بیٹے ابراہیم کو دفن کرنے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں ، آپ ( ص ) نے فرمایا:آنکھیں آنسو بہاتی ہیں، دل غمگین ہے لیکن کوئی ایسی بات نہیں کہوں گاجس سے خدا ناراض ہو جائے

اس کے بعد آپ ( ص ) نے قبر کی طرف دیکھا جو ابھی مکمل تیار نہیں ہوئی تھی اپنے دست مبارک سے قبر کو برابر اور ہم سطح کر دیا اور فرمایا:

اذا عمل احدكم عملا فليتقن :

جب بھی تم میں سے کوئی ایک کسی کام کو انجاد دینا چاہے تو اسے مضبوطی سے انجا دے۔(۱۰۲)

----------------

(۱۰۱)-اسدالغابہ ، ج ۲، ص ۲۶۹

(۱۰۲)-فروع کافی ، مطابق نقل بحار، ج ۲۲، ص ۱۵۷

۵۳

حدود الہی کا اجرا

فتح مکہ کے موقع پر بنی مخزوم قبیلہ کی کسی عورت نے چوری کی اور عدالت میں اس کا جرم ثابت ہو گیا۔ اس کے رشتے داروں کو یہ برداشت نہ تھا کہ ان کی ناموس پر حدجاری کردی جائے چونکہ ابھی جاہلیت والی سوچ رکھتے تھے، جد و جہد کرنے لگے کہ کسی نہ کسی طریقے سے حدجاری کرنے کو اس سے ٹالا جا سکے۔ اسامہ بن زید کو جو اپنے باپ کی طرح رسول رللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے نزدیک عزیز تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس سفارش کرنے پرآمادہ کیا۔ اسامہ بن زید نے جونہی سفارش کے لیے زبان کھولی غصے کی شدت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے چہرے کا رنگ اڑ گیااور اسے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:یہ کہاں سفارش کی جگہ ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ حدود الہی کو نافذ کئے بغیر چھوڑ دیا جائے؟

حد جاری کرنے کا حکم صادر ہوا۔ اسامہ اپنی غفلت کی طرف متوجہ ہوا اور اپنی خطاء کے باعث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے معافی مانگنے لگا اور اس لیے کہ لوگوں کے ذہنوں سے جاہلیت والی سوچ مٹ جائے اور لوگ قانون الہی کو نافذ کرنے میں امتیازی سلوک کے قائل نہ ہوجائیں، عصر کے وقت لوگوں کے درمیان خطبہ دیا اور گذشتہ واقعہ کو موضوع گفتگو قرار دیتے ہوئے کہا:

گذشتہ قومیں تباہ و برباد ہوئیں ؛ کیونکہ قانون الہی کو نافذ کرنے میں امتیازی سلوک کرتی تھیں، جو بھی جب بھی بڑے خاندان یا امراء میں سے کوئی جرم کرتا تھا تو اسے سزا نہیں دی جاتی تھی لیکن جو چھوٹے خاندان یا فقیر گھرانے سے جرم کا مرتکب ہوتا تھا تو اسے سزا دی جاتی تھی ۔ اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! عدالت کو جاری کرنے میں کسی کو بھی نہیں چھوڑوں گا چاہے مجرم میرے قریبی رشتے داروں میں سے ہی کیوں نہ ہو۔(۱۰۳)

-------------------

(۱۰۳)-صحیح بخاری ، ج ۵، ص ۱۵۲

۵۴

ماں

ایک آدمی رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ! کس کے ساتھ نیکی کروں۔

آپ (ص) نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔

اس نے دوبارہ پوچھا: پھر کس کے ساتھ نیکی کروں؟

آپ (ص) نے پھر فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔

اس نے تیسری بار اپنے سوال کو دہرایا اور کہا: پھر کس کے ساتھ نیکی کروں؟

آپ (ص) نے پھر وہی جواب دیا: اپنی ماں کے ساتھ۔

اس نے جب چوتھی بار اپنے سوال کو دہرایا اور کہا: پھر کس کے ساتھ نیکی کروں؟

تو اس دفعہ آپ (ص) نےفرمایا: اپنے باپ کے ساتھ۔(۱۰۴)

شعبان کا مہینہ

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کسی بھی مہینے میں ماہ شعبان کی طرح روزہ نہیں رکھتے تھے۔ آپ ( ص ) سے پوچھا گیا: ہم نے نہیں دیکھا کہ آپ کسی بھی مہینے میں ماہ شعبان کی طرح روزہ رکھیں؟ آپ (ص) نے فرمایا:شعبان کا مہینہ وہ مہینہ جس سے لوگ غافل رہتے ہیں، یہ مہینہ رجب اور رمضان کے مہینوں کے درمیان میں ہےکہ جس میں خدا وند عالم اپنے بندوں کے اعمال کو اوپر لے جاتا ہے؛ اسی لیے میں چاہتا ہوںمیرے اعمال اس حال میں اوپر جائیں کہ میں روزہ سے ہوں۔(۱۰۵)

---------------

(۱۰۴)-محجة البیضاء، ج ۳، ص ۴۳۹

(۱۰۵)-الوفاء باحوال المصطفی ، ابن جوزی ، ج ۲، ص ۵۱۶

۵۵

رمضان کا مہینہ

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب ماہ مبارک رمضان کے چاند کو دیکھتے تھے تو رو بقبلہ بیٹھتے تھے اور ہاتھوں کو اٹھا کر فرماتے تھے:

خدایا! ہمیں امن و سلامتی، ایمان، صحت، عافیت، رزق و روزی کی فراوانی اور دکھ درد سے رہائی کے ساتھ اس مہینہ سے ملنے کی توفیق عنایت فرما! خدایا!ہمیں اس ماہ میں نماز، روزہ، قرآن کی تلاوت کی روزی عنایت فرما!خدایا! اس ماہ کے شروع سے آخر تک ہمارے دلوں کو غبار آلود نہ کر کہ اس ماہ کے روزے اور افطار کی برکتیں ہم پر پوشیدہ رہیں، اور ہمیں گناہوں سے بچانا، اور ان بیماریوں سے محفوظ رکھ جن کی وجہ سے ہم روزہ نہ رکھ سکیں!(۱۰۶)

شب قدر

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)ماہ رمضان کے آخری عشرے میں بوریا بستر سمیٹتے تھے اور عبادت کے لیے کمر کس لیتے تھےاور جب تئیسویں کی رات شروع ہو جاتی تھی اپنے اہل بیت کو بھی بیدار رکھتےتھے جب بھی کسی پر نیند کا غلبہ ہو جاتا تھا تو پانی چھڑکتے تھے ۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی یہی کرتی تھیں- آپ ( ص ) اپنے اہل بیت میں سے کسی کو سونے نہیں دیتے تھے، اور ان پر نیند غالب نہ آنے کے لیے انہیں کھانا کم دیتے تھے ،اور ان سے چاہتے تھے کہ شب بیداری کے لیے خود کو تیار کرلیں۔ اور فرماتے تھے: محروم وہ ہے جو اس رات کی برکتوں سے محروم رہے۔(۱۰۷)

----------------

(۱۰۶)-التہذیب ج ۴، ص ۱۹۷ بہ نقل از حضرت امام محمد باقر علیہ السلام

(۱۰۷)-مستدرک الوسائل ، تج ۷، ص ۴۷۰.

۵۶

ہجڑا یا خواجہ سراء

ابو ہریرہ کہتا ہے: ایک ہجڑے (خنثی) کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حضور لایا گیا جس نے اپنے ہاتھ اور پاؤں میں خضاب کیا تھا، آپ (ص) نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ اس کیوں ایسا کیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا : خود کو عورتوں جیسا بنانے کے لیے اس نے ایسا کیا ہے۔ آپ (ص) نے حکم دیا کہ اسے "نقیع" نامی جگہ جلا وطن کر دیا جائے۔ لوگوں نے عرض کیا: کیا ہم اسےقتل نہ کریں؟آپ (ص) نے فرمایا: مجھے نمازیوں کے قتل سے منع کیا گیا ہے۔(۱۰۸)

رواداری

جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ ذات الرقاع نامی جگہ پر تھے۔ ہم نے آپ (ص) کو کسی درخت کے سایے میں چھوڑدیا۔ اچانک کوئی مشرک وہاں آن پہنچا، آپ ( ص ) نے تلوار کو درخت سے لٹکا رکھا تھا۔مشرک نے تلوار اٹھائی اور آپ ( ص ) سے خطاب کر کے کہا : کیا مجھ سے ڈرتے ہو؟

آپ (ص) نے فرمایا: نہیں۔

مشرک نے کہا: کون آپ کی مدد کو پہنچے گا؟

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: خدا۔

اللہ کا نام سنتے ہیں تلوار مشرک کے ہاتھ سے گر گئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے تلوار اٹھائی اور کہا:

اب تو بتا کون تیری مدد کو پہنچے گا؟

-----------------

(۱۰۸)-ولایة الفقیہ ، ج ۲، ص ۳۲۴.

۵۷

مشرک نے التماس کی اور کہا: میرے ساتھ رواداری فرمائیں!

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: کیا تم خدا کی وحدانیت اور میری نبوت کی گواہی دو گے؟

مشرک نے کہا: نہیں! لیکن میں عہد کرتا ہوں کبھی بھی آپ کے ساتھ جنگ نہیں کروں گا، اور ان لوگوں کے ساتھ بھی نہیں رہوں گا جو آپ کے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔

پس آپ (ص) نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا اور کہا: میں ابھی لوگوں میں سے بہترین انسان کے پاس سے تم لوگوں کی طرف آرہا ہوں۔(۱۰۹)

مسجد

آپ (ص) جب بھی مسجد میں داخل ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے:

اللهم افتح لى ابواب رحمتك

خدایا! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔

اور جب مسجد سے خارج ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے:

اللهم افتح لى ابواب رزقك

خدایا میرے لیے اپنے رزق کے دروازے کھول دے۔(۱۱۰)

----------------------

(۱۰۹)-ریاض الصالحین ، صلی اللہ علیہ و آلہ ۲۳ - ۲۴

(۱۱۰)-سنن النبی ص ۳۲۱

۵۸

یہودی کا مسلمان ہونا

ایک دن آنحضرت ایک گروہ کے ساتھ کسی جگہ نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ (ص) سجدے میں گئے تو حسین علیہ السلام جو کہ ابھی بچے تھے، آپ (ص) کے دوش مبارک پر سوار ہوئےاور دونوں پاؤں کو حرکت دیتے تھے اور ہنکاتے تھے۔

جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سجدے سے سر اٹھانا چاہتے تھے تو اٹھا کر زمین پر رکھ دیتے تھے یہ کام نماز ہونے ختم تک جاری رہا۔ ایک یہودی یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔ نماز کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: اپنے بچوں کے ساتھ آپ اس طرح سے سلوک کرتے ہیں جبکہ ہم اپنے بچوں سے ایسا سلوک نہیں کرتے ہیں۔

آپ ( ص ) نے فرمایا: اگر تم خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے تو اپنے بچوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اس مہر و محبت نے اس یہودی کو متأثر کیا اور وہ وہیں پر مسلمان ہو گیا۔(۱۱۱)

مشاورت

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے جنگ بدر کے موقع پر تین مرحلوں میں اپنے اصحاب کو مشاورت کی دعوت دی اور فرمایا: اپنے اپنے نظریوں کا اظہار کریں:

پہلا مرحلہ: کیا قریش کے ساتھ جنگ کریں یا جنگ چھوڑ کر مدینہ چلے جائیں؟ اس وقت سب نے جنگ کرنے کو توجیح دی ۔(۱۱۲)

دوسرا مرحلہ:کہاں پڑاؤ ڈالیں؟ اس وقت حباب بن منذر کی نظر سب نے قبول کیا۔

تیسرا مرحلہ:جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا کیا جائے؟ اس وقت شور شرابہ ہوا بعض نے ا ن کے قتل کرنے کو ترجیح دی اور بعض نے فدیہ لے کر آزاد کرنے کا مشورہ دیا ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے دوسرے گروہ کی بات کو قبول کیا۔

--------------

(۱۱۱)-بحارالانوار، ۴۳ / ۲۹۴ تا۲۹۶

(۱۱۲)-سیرہ ابن ہشام ، ج ۲، ص ۲۵۳

۵۹

طالب علم کا مقام

صفوان بن عسال کہتا ہے:میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں پہنچا۔ آپ (ص) مسجد میں اپنے لال رنگ کے تکیہ پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ میں نے عر ض کیا :یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! میں علم حاصل کرنے آیا ہوں۔ آپ (ص) نے فرمایا: اے طالب علم خوش آمدید! بتحقیق فرشتے اپنے پروں سے طالب علم کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں اور اتنے فرشتے جمع ہو جاتے ہیں کہ ایک کے اوپر دوسرے یہاں تک کہ دنیا کے آسمان سے جا لگتے ہیں؛ اس الفت و محبت کی وجہ سے جو انہیں طالب علم کے ساتھ ہے۔(۱۱۳)

بچوں سے مہربانی

ایک دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنے اصحاب کے ساتھ کسی راستے سے گزر رہےتھے اس راستے میں بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ آپ (ص) ایک بچے کے پاس تشریف لےگئے اور اس کا ماتھا چوما، اس کے ساتھ مہربانی کی، آپ (ص) سے اس کی علت پوچھی گئی تو آپ (ص) نےفرمایا:میں نے ایک دن اس بچے کو دیکھا کہ میرے بیٹے حسین علیہ السلام کے ساتھ کھیل رہا تھا ، اور وہ حسین علیہ السلام کے قدموں تلے سے مٹی اٹھا کر اپنے چہرے پر ملتا تھا؛ پس یہ حسین علیہ السلام کے دوستوں میں سے ہے میں بھی اسے دوست رکھتا ہوں۔ جبریل نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ بچہ میرے حسین کے ساتھ کربلا میں شہید ہو جائے گا۔(۱۱۴)

----------------

(۱۱۳)-منیة المرید، ص ۱۰۷

(۱۱۴)-بحارالانوار، ۴۴ / ۲۴۲ ح ۳۶

۶۰

غیر اعلانیہ یا بن بلائے مہمان

مدینہ کے بعض لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور آپ کے اصحاب میں سے پانچ نفر کو کھانے کی دعوت کی۔ آپ ( ص ) نے ان کی دعوت کو قبول کیا ۔ لیکن جب آپ (ص) اصحاب کے ساتھ جا رہے تھے تو راستے میں ایک اور آدمی بھی آپ ( ص ) اور آپ کے اصحاب کے ساتھ مل گیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس سے فرمایا: تجھے دعوت نہیں ہے ، تم یہیں ٹھہرو میں تمہار آمد کے بارے میں انہیں اطلاع دوں گا اور ان سے تیرے لیے اجازت مانگوں گا۔(115)

شہید کے اجر کا آدھا حصہ

ایک آدمی حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:میری ایک بیوی ہے جو جب میں گھر سے نکلتا ہوں مجھے وداع کرنے کےلیے آتی ہے اور جب بھی میں گھر واپس آجاتا ہوں تو میرے استقبال کے لیے آتی ہے اور جب میں مغموم ہو جاتا ہوں تو مجھ سے کہتی ہے:اگر تم مال دنیا کے لیے غمگین ہو تو جان لو خدا اپنے بندوں کے رزق و روزی کاضامن ہے اور اگر تم آخرت کے لیے فکرمند ہو تو میں دعا کرتی ہوں کہ خدا اس غم میں اور اضافہ کر دے تاکہ اسی سبب تم جہنم کی آگ سے محفوظ رہ سکو۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:خدا کے لیے کچھ خاص کام کرنے والے ہیں اور یہ عورت بھی ان میں سے ایک ہےاور اس عورت کو شہید کے اجر کا آدھا حصہ ملے گا۔(116)

---------------

(115)-بحارالانوار، ج 16، ص 236.

(116)-وسائل الشیعہ ، ج 7 ص 17.

۶۱

نماز

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب بھی نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے تو خوف خدا سے چہرے کا رنگ اڑ جاتا تھااور آپ (ص) کے اندر سے دیگ میں کسی چیز کے ابلنے کی آواز جیسی آواز آتی تھی۔(117)

نماز جماعت

ایک دن ایک مسلمان دن بھر کھیتوں کو پانی دینے کی وجہ سے تھک کر آیا او رمعاذ بن جبل کے پیچھے نماز جماعت میں کھڑا ہو گیا۔ معاذ نے سورہ بقرہ پڑھنا شروع کیا اس آدمی کے پاس سورہ بقرہ ختم ہونے تک کھڑا رہنے کی طاقت نہیں تھی، لذا فرادی نماز پڑھ کے ختم کی ۔معاذ نے اس سے کہا تم نے منافقت کی ہماری صف سے الگ ہوگئے! رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو جب اس ماجرا کی خبر ملی تو آپ (ص) کو بہت غصہ آیا کہ اس طرح کا غصہ کبھی آپ کو نہیں آیا تھا، معاذ سے کہا: تم کسی مسلمان کو اسلام سے بیزار کرتے ہو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جماعت کے صفوں میں بیمار، بوڑھے، ناتوان اور کام کرنے والے لوگ بھی آتے ہیں؟!اجتماعی کاموں میں سب سے کمزور فرد کا خیال رکھنا چاہیے، کیوں چھوٹی سورتیں نہیں پڑھتےہو؟!(118)

----------------

(117)-فلاح السائل ، ص 161، بحارالانوار، ج 84، ص 248.

(118)-صحیح مسلم ، ج 2، ص 42.

۶۲

نماز شب

عبد اللہ ابن عباس، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی نماز شب کے بارے میں کہتے ہیں:رات کا آدھا حصہ گزر جاتا تھاتو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اٹھتے تھے نیند کے آثار آپ کے چہرہ انور سے مٹ جاتے تھے، سورہ آل عمران کی آخری دس آیتوں کی تلاوت فرماتے تھےاس کے بعد دیوار سے لٹکائے ہوئے مشکیزہ کی طرف جاتے تھےاور اس سے بہترین انداز میں وضو کرتے تھے، اس کے بعد نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے دو رکعت والی چھ نماز یں ادا کرتے تھےاس کے بعد نماز وتر پڑھتے تھے اس کے بعد اپنے بسترے پر تشریف لے جاتے تھے او وہاں آرام فرماتے تھے یہاں تک کہ موذن اذان دینے کے لیے آتا تھا اس وقت وہیں ہلکی سی دو رکعت نماز (صبح کے نفل)پڑھتے تھے اور پھر وہاں سے باہر آکر صبح کی (فریضہ) نماز پڑھتے تھے۔(119)

زخم زبان

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے زمانے میں ایک مسلمان عورت دن کو روزہ رکھتی تھی اور راتوں کو نماز او ر باقی عبادتوں میں گزارتی تھی؛ لیکن بد اخلاق تھی اور زبان سے اپنے پڑوسیوں کو دکھ پہنچاتی تھی، ایک آدمی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی تعریف کرنا شروع کی ؛ کہ یہ عورت نماز اور روزہ سے کام رکھتی ہے لیکن اس میں ایک عیب ہے وہ یہ کہ یہ بد اخلاق ہے اور پڑوسیوں کو زبان سے دکھ پہنچاتی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: اس جیسی عورت میں خیر نہیں ہے وہ جہنمی ہے؛ یعنی اگر اسی طرح اس گناہ کو انجام دیتی رہی تو اس کی نماز اور روزوں میں کوئی اثر نہیں رہے گا۔(120)

---------------

(119)-وسائل الشیعہ، ج 2 ، ص 17 ۔

(120)-بحار الانوار، ج 71 ، ص 394 ۔

۶۳

آپ ( ص ) کا وصف

حضرت علی علیہ السلام آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

تم اپنے پاک و پاکیزہ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی پیروی کرو چونکہ ان کی ذات اتباع کرنےوالے کے لیے ڈھارس ہے۔ ان کی پیروی کرنے والا اور ان کے نقش قدم پرچلنے والا ہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے جنہوں نے دنیا کو (صرف ضرورت بھر) چکھا اور اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا وہ دنیا میں سب سے زیادہ شکم تہی میں بر کرنے و الے اور خالی پیٹ رہنے والے تھے۔ ان کے سامنے دنیا کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور (جب) جان لیا کہ اللہ نے ایک چیز کو برا جانا ہے تو آپنے بھی اسے برا ہی جانا اور اللہ نے ان چیز کو حقیر سمجھا ہے تو آپ نے بھی اسے حقیر ہی سمجھا اور اللہ نے ایک چیز کو پست قرار دیا ہے تو آپ نے بھی اسے پست ہی قرار دیا ۔ اگر ہم میں صرف یہی ایک چیز ہو کہ ہم اس شے کو چاہنے لگیں جسے اللہ اور رسول برا سمجھتے ہیں اور اس چیز کو برا سمجھنے لگیں جسے وہ حقیر سمجھتے ہیں تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرتابی کیلئے یہی بہت ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے۔ اپنے ہاتھ سے جوتی ٹانکتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے اور بے پالان کے گدھے پر سوار ہوتے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بٹھا بھی لیتے تھے۔

گھر کا دروازہ پر (ایک دفعہ) ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں۔تو آپ نے اپنے ازواج میں سے ایک کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو۔ جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اوراس کی آرائشیں یاد آجاتی ہیں۔(121)

--------------

(121)-نہج البلاغہ خ 160۔ ترجمہ از مفتی جعفر رہ

۶۴

مومن کا وعدہ

حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)مقام نبوت پر فائز ہونے سے پہلے چرواہا تھے، عمار یاسر نے آنحضرت سے وعدہ کیا کہ کل بھیڑ بکریوں کو فخ نامی میدان میں لے جائیں گے۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی بھیڑ بکریوں کو فخ نامی جگہ پہنچا دیا لیکن عمار دیر سے پہنچا ، عمار کہتا ہے جب میں فخ نامی پہنچ گیا تو دیکھا کہ آپ (ص) اپنی بھیڑ بکریوں کو روک کر رکھے ہوئے ہیں۔

میں نے عرض کیا : کیوں انہیں روکے ہوئے ہیں؟

آپ (ص) نے فرمایا: میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ ہم ساتھ چرائیں گے ؛اسی لیے مناسب نہیں سمجھا کہ تم سے پہلے انہیں چراؤں۔(122)

عہد کا وفا کرنا

آپ (ص) کسی آدمی کے ساتھ تھے۔ اس آدمی نے کہیں جانا چاہا۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کسی پتھر کے سایے میں بیٹھ گئے اور اس آدمی سے کہا : تمہارے آنے تک میں یہیں رہوں گا۔ وہ آدمی چلا گیااور ایک مدت ہوئی وہ نہ آیا۔ او رسورج اوپر آگیا اور آپ ( ص ) پر دھوپ پڑنے لگی، اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)!آپ سایے میں تشریف لے چلیں ۔ آپ (ص) نے فرمایا:

قد وعدته الى ههنا

میں نے اسے یہیں رہنے کا وعدہ کیا ہے نہ کسی اور جگہ کا۔(123)

---------------

(122)-کحل البصر، ص 103

(123)-بحارالانوار، ج 75، ص 95

۶۵

نماز کا وقت

آنحضرت کے اللہ کے ساتھ رابطے کی شدت اور لوگوں کو خدا کی طرف جذب کرنے کے بارے میں جناب عایشہ روایت کرتی ہے : ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ تھے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے مصروف گفتگو تھے؛ لیکن جونہی نماز کا وقت ہوا آپ (ص) ایسے ہوگئے جیسے ہمیں پہچانتے ہی نہیں۔ اور ہم بھی ان سے واقف ہی نہیں ہیں۔(124)

مومنوں کے ساتھ

آپ (ص) کی سیرت یہ تھی کہ جب بھی ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حضور ہوتے تھے اور آخرت کے بارے میں باتیں کرتے تو آپ (ص) بھی ہمارے ساتھ ہو جاتے تھے اور جب بھی ہم دنیا کے بارے میں گفتگو کرتے تھے تب بھی آپ (ص) ہمارے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور اسی طرح جب ہم کھانے پینے سے متعلق باتیں کرتے تھے تب بھی آپ (ص) ہمارے ساتھ ہم صدا ہو جاتے تھے۔(125)

-------

(124)-اخلاق النبی و آدابہ ، ص 187.

(125)-بحارالانوار، ج 16، صفحہ 223

۶۶

فہرست

عرض مترجم 3

مقدمہ مولف 5

جنگ کے آداب 6

ملاقات کے آداب 6

کھانا کھانے کے آداب 7

بیٹھنے کے آداب 8

پڑوسی کی اذیت 8

علم سیکھنا 9

دوسروں کا احترام 9

بچوں کا احترام 10

ماں باپ کا احترام 10

مومن کا احترام 11

کام کی قدر و قیمت 11

روزگار 11

اصولوں کا پابند 12

سب سے جامع اسوہ حسنہ 13

امتیازی سلوک کے قائل نہ تھے 14

انصاف 14

دوران طفلی 15

بچوں کی اہمیت 15

۶۷

کنجوسی 16

مقروضی 17

گالم گلوچ اور اہانت کے مقابلے میں رواداری 18

مومن کے احترام کو اٹھنا 18

کام کرنے والے کا ہاتھ چومنا 19

دنیا سے بے اعتنائی 19

عورتوں کا اجر 20

مشرکہ ماں سے رابطہ 20

مومن کی نماز کا اجر 21

نماز کی تأثیر 21

تحفہ 22

سیکھنا سکھانا 22

جسمانی سزا 23

دوسروں کی طرف دھیان 23

کام کا ثواب 23

سلام کا جواب 24

جوانان 24

علی کی محبت 25

حسن معاشرت 25

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا 26

رابطے کی حفاظت کرنا 27

۶۸

پیدل چلنے والے کا حق 27

فرزند کا حق 27

حلال اور حرام 28

نرم مزاجی 28

حمد 29

غصہ 29

نیند 29

عجب یا خود بینی 30

کھانا 30

امداد خانہ 30

ماں کے پاس 31

ہاتھوں کا بوسہ لینا 31

میزبان کے لیے دعا 31

آبروئے مومن سے دفاع 32

دنیا داری 32

جنگ و جدال سے دوری 32

اہل بیت علیہم السلام سے دوستی 33

مومن کی زیارت 33

حقیقی پاگل 34

ذکر اور دعا 34

چلنا 35

۶۹

جانوروں کے ساتھ مہربانی 35

لوگوں کی رعایت 35

دوسروں کے حقوق کی رعایت 36

لوگوں سے برتاؤ 36

مشکلات کو رفع کرنا 37

روزہ 37

ریاکاری 37

گناہوں کا مٹ جانا 38

سادہ زندگی 39

علم و دانش کی ابتداء 39

سلام 40

بچوں کو سلا کرنا 40

تین حکمتیں 40

سماجی تعلقات 41

صلہ رحمی 41

نوازش (ممتا) 42

عالم بے عمل 42

خوشبو لگانا 43

بیویوں کے ساتھ مہربانی 43

بخشش 44

عفو اور در گزر 44

۷۰

حرام غذا 45

بچوں کو کھانا کھلانا 46

معاملہ میں ملاوٹ 46

غیبت 47

شہید کے فرزند 48

سجدہ کی فضیلت 48

فضیلت اور قابلیت 49

زحمت قبول کرنا 49

قدر شناسی 50

قرآن کی تلاوت 50

کام کاج 51

شجرکاری 51

عزت اور وقار 52

کمائی 53

حدود الہی کا اجرا 54

ماں 55

شعبان کا مہینہ 55

رمضان کا مہینہ 56

شب قدر 56

ہجڑا یا خواجہ سراء 57

رواداری 57

۷۱

مسجد 58

یہودی کا مسلمان ہونا 59

مشاورت 59

طالب علم کا مقام 60

بچوں سے مہربانی 60

غیر اعلانیہ یا بن بلائے مہمان 61

شہید کے اجر کا آدھا حصہ 61

نماز 62

نماز جماعت 62

نماز شب 63

زخم زبان 63

آپ ( ص ) کا وصف 64

مومن کا وعدہ 65

عہد کا وفا کرنا 65

نماز کا وقت 66

مومنوں کے ساتھ 66

۷۲