ایک سو بیس درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے

ایک سو بیس  درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے25%

ایک سو بیس  درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 72

ایک سو بیس درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 64421 / ڈاؤنلوڈ: 4188
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

آپ کے نام سے موسوم ہے دیواں میرا

آپ کے نام سے موسوم ہے دیواں میرا

اللہ اللہ یہ شرف خواجۂ گیہاں میرا

٭

رنگ و بُو ، لالہ و گل ، سرو و سمن جشنِ بہار

آپ میرے ہیں تو سارا ہے گلستاں میرا

٭

آپ کا عشق ازل سے ہے مِرے دل میں مقیم

سب پہ ظاہر ہے یہ سرمایۂ پنہاں میرا

٭

آپ کی مدح لکھے جاؤں یونہی تا بہ ابد

ساتھ چھوڑے نہ کبھی عمرِ گریزاں میرا

٭

ہے میطِ دل و جاں گنبدِ خضرا کا خیال

کیا بگاڑے گا بھلا وقت کا طوفاں میرا

٭

آخرت کے لئے سامان بہم ہو ہی گیا

بن گئے اشکِ ندامت سرو ساماں میرا

٭

ہے مطافِ دل و جاں اسمِ گرامی اُن کا

یہی قبلہ ، یہی کعبہ ، یہی ایماں میرا

٭

۴۱

اِس سے پہلے کہ کوئی پُرسشِ وحشت ہوتی

چھپ گیا دامنِ رحمت میں گریباں میرا

٭

اللہ اللہ ایاز اُن کی عطا کا عالم

بھر دیا دولتِ کونین سے داماں میرا

٭٭٭

۴۲

دل کی دھڑکن کا ہم آہنگِ دعا ہو جانا

دل کی دھڑکن کا ہم آہنگِ دعا ہو جانا

بابِ تاثیر کا آغوش کشا ہو جانا

٭

میرا ایماں ہے حضوری میں ڈھلے گی دوری

" درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا "

٭

مجھ کو آتا ہے عذابِ شبِ ہجراں کا علاج

یاد کرنا انہیں اور نعت سرا ہو جانا

٭

وہ بلائیں تو سہی اذنِ سفر تو آئے

تَو سنِ شوق کو آتا ہے ہَوا ہو جانا

٭

میں بھی سرکار کے کُوچے کا گدا ہوں یارب

میرے سجدوں کو بھی آجائے ادا ہو جانا

٭

آپ کی سیرتِ اطہر نے سکھایا ہے ہمیں

سر بہ سر بندۂ تسلیم و رضا ہو جانا

٭

تجھ پہ کھل جائیں گے الفاظ کے اسرار ایاز

ان کے در پر ہمہ تن حرفِ دعا ہو جانا

٭٭٭

۴۳

آپ کی یاد تھی بس آپؐ کے بیمار کے پاس

آپ کی یاد تھی بس آپؐ کے بیمار کے پاس

کون آتا کسی گرتی ہوئی دیوار کے پاس

٭

غمِ دنیا، غمِ عقبےٰ، غمِ ہجراں ، غمِ دل

میرے ہر دکھ کی دوا ہے مِرے سرکار کے پاس

٭

ایک امیدِ کرم ، ایک شفاعت کا یقیں

یہ دو آئینے ہیں بے چہرہ گنہگار کے پاس

٭

فرقتِ سرورِ دیں میں ہیں گہر بار آنکھیں

دولتِ درد بہت ہے دلِ نادار کے پاس

٭

آپ نے قول و عمل سے یہ سکھایا ہے ہمیں

حسنِ کردار بھی ہو صاحبِ گفتار کے پاس

٭

جگمگائے کبھی میرا بھی مقدر یارب

میں بھی پہنچوں کبھی اُس پیکرِ انوار کے پاس

٭

حسنِ تعبیر بھی ہو جائے گا اک روز عیاں

خوابِ طیبہ ہے ابھی دیدۂ دیدار کے پاس

٭

۴۴

کوئی اس خواب کی تعبیر بتا دے مجھ کو

آگیا گنبدِ خضرا مری دیوار کے پاس

٭

رات دن نور برستا ہے مدینے میں ایاز

مطلعِ نور ہے اُس شہرِ ضیا بار کے پاس

٭٭٭

۴۵

دل سلامت رہے رحمت کی نظر ہونے تک

دل سلامت رہے رحمت کی نظر ہونے تک

یہ مکاں بیٹھ نہ جائے کہیں گھر ہونے تک

٭

مجھ کو آئینہ بنایا ہے مِرے آقا نے

سنگ تھا میں ، نگہِ آئینہ گر ہونے تک

٭

آپ سب جانتے ہیں ، آپ سےپنہاں کیا ہے

کیسے گزری ہے شبِ ہجر ، سحر ہونے تک

٭

مجھ کو آ جائے گا مدحت کا سیقہ آخر

وہ چھپا لیں گے مِرے عیب ہنر ہونے تک

٭

دیکھیں کب موج میں آتا ہے وہ دریائے کرم

" دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک "

٭

اب تو ہر سمت وہی وہ ہیں نگاہوں کے حضور

دل میں پنہاں تھے وہ مسجودِ نظر ہونے تک

٭

کہیں محرومِ زیارت ہی نہ رہ جاؤں ایاز

مر نہ جاؤں کہیں آقا کو خبر ہونے تک

٭٭٭

۴۶

عشقِ رسول ایاز ! " خدا سے سوا " نہ مانگ

عشقِ رسول ایاز ! " خدا سے سوا " نہ مانگ

جو قابلِ قبول نہ ہو وہ دعا نہ مانگ

٭

آقا کی اک نظر ہی بہت ہے تِرے لئے

اے قلبِ کم عیار ! طلب سے سوا نہ مانگ

٭

ملتا ہے اُن کے در سے تو بن مانگے بے بہا

اے کم سواد ! مدحِ نبی کا صلہ نہ مانگ

٭

موجِ ہوا سے خاکِ مدینہ طلب نہ کر

اے دل جنابِ خضر سے آبِ بقا نہ مانگ

٭

اُن کا مریض ہے تو کسی چارہ ساز سے

تسکینِ جاں ، دوائے دلِ مبتلا نہ مانگ

٭

دربارَ ایزدی میں نہ ہو گی کبھی قبول

نادان ! بے وسیلۂ آقا دعا نہ مانگ

٭

درکار اگر ہے دولتِ تسکینِ دل ایاز

کچھ اور جز غمِ شہِ ارض وسما نہ مانگ

٭٭٭

۴۷

میں نے مدحت کا ارادہ جو سرِ دل باندھا

میں نے مدحت کا ارادہ جو سرِ دل باندھا

نطق نے لیلیء اظہار کا محمل باندھا

٭

شوقِ دیدار ، غمِ زیست ، خیالِ سرکار

پاس جو زادِ سفر تھا پئے منزل باندھا

٭

لے گئی گنبدِ خضرا پہ تخیل کی اڑان

رشتۂ ذہن سے جب سلسلۂ دل باندھا

٭

شدتِ تشنگیِ دید بیاں ہو نہ سکی

" گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا"

٭

بخش دیں آپ نے کونین کی خوشیاں مجھ کو

چشمِ گریاں نے وہ مضمونِ غمِ دل باندھا

٭

اللہ اللہ جمالِ غمِ ہجرِ سرکار

داغِ حسرت کو حریفِ مہِ کامل باندھا

٭

شہرِ دل میں ، میرے ممدوح کا مسکن ہے ایاز

میں نے اس شہر کو طیبہ کا مماثل باندھا

٭٭٭

۴۸

کاش اول ہی سے دل ان کا ثنا خواں ہوتا

کاش اول ہی سے دل ان کا ثنا خواں ہوتا

میرا دیوانِ غزل نعت کا دیواں ہوتا

٭

میں بھی جاروب کشِ شہرِ گل افشاں ہوتا

میری بخشش کا بھی یارب یہی عنواں ہوتا

٭

میری تعمیر میں شامل ہے غمِ عشقِ رسول

میں بھلا کیسے خرابِ غمِ دوراں ہوتا

٭

میری آنکھوں میں ہیں انوارِ شبہِِ سرکار

آئینہ کیوں نہ مجھے دیکھ کے حیراں ہوتا

٭

ناخدا تھے مرے محبوبِ خدا صلِّ علےٰ

سر اٹھاتا تو خجل موجۂ طوفاں ہوتا

٭

میرا ایماں ہے مجھے نیند نہ آتی تا حشر

میرے دل پر جو نہ دستِ شہِ دوراں ہوتا

٭

۴۹

ان کی محفل میں جنوں ہوش میں ڈھل جاتا ہے

ہار کرنوں کا مرا چاک گریباں ہوتا

٭

عشقِ سرکار کی دولت جو نہ ملتی تو ایاز

بے سرو پا نہ سہی بے سر و ساماں ہوتا

٭٭٭

۵۰

اگر سارا زمانہ حاملِ عشقِ خدا ہوتا

اگر سارا زمانہ حاملِ عشقِ خدا ہوتا

تو ہر لب پر محمد مصطفےٰ صلِّ علےٰ ہوتا

٭

یہ مہر و مہ نہ یہ ہنگامۂ صبح و مسا ہوتا

نہ آتے آپ تو اک ہو کا عالم جا بجا ہوتا

٭

اگر وہ نام جاں پرور لبِ دل سے ادا ہوتا

تو اے بیمارِ غم تو کب کا اچھا ہو گیا ہوتا

٭

خیالِ صاحبِ لوح و قلم کا فیض ہے ورنہ

نہ آنکھیں با وضو ہوتیں نہ دل محوِ ثنا ہوتا

٭

دلِ سوزاں میں ٹھنڈک پڑ گئی بارانِ رحمت سے

عنایت وہ نہ فرماتے تو اپنا حال کیا ہوتا

٭

غمِ سرکار نے اک اک قدم پر رہنمائی کی

میں اس ہنگامۂ عیش و طرب میں کھو گیا ہوتا

٭

ہواؤ !جانبِ طیبہ مجھے بھی ساتھ لے جاؤ

خدارا یہ نہ کہہ دینا کہ "پہلے سے کہا ہوتا "

٭

۵۱

دمِ آخر اگر آقا نہ دل پر ہاتھ رکھ دیتے

تو پھر صدیوں میں طے یہ اک نفس کا فاصلہ ہوتا

٭

شبیِہ شافعِ محشر سجی تھی شیشۂ دل میں

ایاز ایسے میں کیا اندیشۂ روزِ جزا ہوتا

٭٭٭

۵۲

مصروفِ حمدِ باری و مدحِ حضور تھا

مصروفِ حمدِ باری و مدحِ حضور تھا

میں بے نیازِ پرسشِ یومِ نشور تھا

٭

میں گھر میں قید اور دل اُنکے حضور تھا

کیا منظرِ تحیرِ نزدیک و دور تھا

٭

سرکار کی ولادتِ اطہر سے پیشتر

عالم تمام حلقۂ فسق و فجور تھا

٭

میں لکھ رہا تھا مدحتِ مقصودِ کائنات

میری نظر میں حسنِ غیاب و حضور تھا

٭

رہتے تھے آپ شام و سحر حق سے ہمکلام

غارِ حر ا بھی آئۂنم کوہِ طور تھا

٭

میں خاک ہوکے شہرِ نبی میں بکھر گیا

یارب یہی علاجِ دلِ ناصبور تھا

٭

فیضانِ شہرِ علم ہے ورنہ مجھے ایاز

عرفانِ حرف تھا نہ سخن کا شعور تھا

٭٭٭

۵۳

مصروفِ رنگ و بُو ہے سپاہِ ہوائے گل

مصروفِ رنگ و بُو ہے سپاہِ ہوائے گل

طیبہ کے خارو خس بھی ہیں پرچم کشائے گل

٭

مہکا بس ایک گل کی مہک سے مشامِ جاں

یوں تو ریاضِ دہر میں کیا کیا نہ آئے گل

٭

میں عندلیبِ گلشنِ خیر الانام ہوں

صبحِ بہار سے ہوں بہار آشنائے گل

٭

دوری کا کرب لطفِ حضوری میں ڈھل گیا

موجِ ہوائے گل ہوئی چہرہ کشائے گل

٭

آقا کی یاد خانۂ دل میں ہے عطر بیز

خوشبو کا راج ہے سرِ خلوت سرائے گل

٭

نقدِ غمِ حضور متاعِ حیات ہے

گلزارِ شوق میں زرِ گل ہے بہائے گل

٭

برسا بہار بن کے سحابِ کرم ایاز

پہنی کلی کلی نے معطر قبائے گل

٭٭٭

۵۴

تیرا کہنا مان لیں گے اے دلِ دیوانہ ہم

تیرا کہنا مان لیں گے اے دلِ دیوانہ ہم

چوم لیں روضۂ سرکار بے تابانہ ہم

٭

ایک دن ہو جائیں گے شمعِ رسالت پر نثار

اِس لگن میں جی رہے ہیں صورتِ پروانہ ہم

٭

یہ حقیقت ہے ابھی اس آستاں سے دور ہیں

اس حقتقت کو بنا دیں گے ابھی افسانہ ہم

٭

ساقیء کوثر کا جاں پرور اشارا چاہئے

پھر چھلکنے ہی نہ دیں گے عمر کا پیمانہ ہم

٭

جس کے اک جھونکے سے کھِل اٹھتا ہے گلزارِ حیات

چاہتے ہیں وہ ہوائے کوچۂ جانانہ ہم

٭

ان کے در پر مر کے ملتی ہے حیاتِ جاوداں

موت کے ہاتھوں سے لیں گے زیست کا پروانہ ہم

٭

آپ کا غم حاصلِ عمرِ گریزاں ہے ایاز !

ان کے در پر پیش کر دیں گے یہی نذرانہ ہم

٭٭٭

۵۵

پہلے زبانِ شوق سے حمدِ خدا کروں

پہلے زبانِ شوق سے حمدِ خدا کروں

پھر ابتدائے مدحتِ خیر الورا کروں

٭

یارب مِرے سخن کو وہ حسنِ کمال دے

فرضِ ثنا نماز کی صورت ادا کروں

٭

ہر گفتگو کا محور و مرکز حضور ہیں

آئے اُنہیں کا ذکر ، کوئی تذکرہ کروں

٭

چوموں قدم قدم پہ زمینِ حجاز کو

روشن قدم قدم پہ چراغِ وفا کروں

٭

یارائے خامشی ہے نہ توفیقِ گفتگو

عرضِ نیاز عشق کی تدبیر کیا کروں

٭

ہو جاؤں پہلے خاکِ رہِ منزلِ حجاز

پھر عاجزی سے منّتِ موجِ ہوا کروں

٭

طیبہ کی راہ میں ہمہ تن گوش ہوں ایاز

اِذنِ سفر ملے تو سفر ابتدا کروں

٭٭٭

۵۶

روح طیبہ کی فضا میں ہے مِرے تن میں نہیں

روح طیبہ کی فضا میں ہے مِرے تن میں نہیں

"کون کہتا ہے مِری پرواز گلشن میں نہیں "

٭

آپ کے صدقے میں سب کچھ دے دیا اللہ نے

کونسی نعمت مِرے بھرپور دامن میں نہیں

٭

ہے محیطِ ہر دو عالم سبز گنبد کی بہار

کونسا منظر مِرے آقا کے مسکن میں نہیں

٭

آپ کے اوصاف لفظوں میں بیاں کیسے کروں

اتنی گنجائش ابھی توصیف کے فن میں نہیں

٭

گریۂ ہجرِ محمد میں انوکھا لطف ہے

جو مزہ آنکھوں کے جل تھل میں ہے ساون میں نہیں

٭

جس کے پتوں پر نہ ہو تحریر نامِ مصطفےٰ

ایسا کوئی پیڑ میرے گھر کے آنگن میں نہیں

٭

آپ کے روضے کی جالی سے جو چھنتی ہے ایاز

وہ تجلی وقت کے تاریک روزن میں نہیں

٭٭٭

۵۷

درِ آقا پہ شب و روز کی زنجیر نہیں

درِ آقا پہ شب و روز کی زنجیر نہیں

یہ وہ منزل ہے جہاں وقت عِناں گیر نہیں

٭

جالیاں ، قصرِ سرِ عرش کے دروازے ہیں

گنبدِ سبز سے اونچی کوئی تعمیر نہیں

٭

روز آتی ہے عیادت کو نسیمِ طیبہ

کون کہتا ہے مِری آہ میں تاثیر نہیں

٭

وہ برابر مِری جانب نگراں رہتے ہیں

حادثاتِ متواتر سے میں دل گیر نہیں

٭

للہ الحمد کہ سرکار کی مدحت کے سوا

کچھ مِرے نامۂ اعمال میں تحریر نہیں

٭

خانۂ دل میں بجز جلوۂ محبوبِ خدا

کوئی خاکہ کوئی صورت کوئی تصویر نہیں

٭

سنگِ دیوارِ مصائب سے نہ سر پھوڑ ایاز

درِ اقدس پہ پہنچنے کی یہ تدبیر نہیں

٭٭٭

۵۸

یوں تو ہر اک پھول میں تھا رنگِ رخسارِ چمن

یوں تو ہر اک پھول میں تھا رنگِ رخسارِ چمن

اک گلابِ ہاشمی ہے صرف شہکارِ چمن

٭

آپ کی مرضی جسے چاہیں مدینے میں بلائیں

یعنی ہر غنچہ نہیں ہوتا سزاوارِ چمن

٭

حلقۂ خوابِ نظر ہے سبز گنبد کا خیال

"سرو ہے با وصفِ آزادی گرفتارِ چمن "

٭

ہے تصور میں مدینے کی گلاب افشاں بہار

میرے دروازے تک آ پہنچی ہے دیوارِ چمن

٭

یارِ غارِ مصطفےٰ ، فاروق و عثمان و علی

سروِ رنگ و نور ہے ایک ایک کردارِ چمن

٭

اے بہارِ دینِ فطرت اک نگاہِ گل طراز

بے زرِ گل سرد ہے مدت سے بازارِ چمن

٭

گلشنِ دیں کے خس و خاشاک چنتا ہوں ایاز

برگ و گل کہتے ہیں مجھ کو بار بردارِ چمن

٭٭٭

۵۹

جہاں اُن کے نقشِ قدم دیکھتے ہیں

جہاں اُن کے نقشِ قدم دیکھتے ہیں

جبینِ مہ و مہر خم دیکھتے ہیں

٭

محمد کی مدحت متاعِ سخن ہے

ہم انوارِ لوح و قلم دیکھتے ہیں

٭

سلامت دمِ آرزوئے محمد

کہ آباد دل کا حرم دیکھتے ہیں

٭

ہم اہلِ نظر ہر نفس لوحِ دل پر

وہ اسمِ گرامی رقم دیکھتے ہیں

٭

ضیا بار ہے دل میں عشقِ محمد

فروزاں چراغِ حرم دیکھتے ہیں

٭

درِ مصطفےٰ سے سرِ لامکاں تک

دو عالم کے جلوے بہم دیکھتے ہیں

٭

۶۰

غیر اعلانیہ یا بن بلائے مہمان

مدینہ کے بعض لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور آپ کے اصحاب میں سے پانچ نفر کو کھانے کی دعوت کی۔ آپ ( ص ) نے ان کی دعوت کو قبول کیا ۔ لیکن جب آپ (ص) اصحاب کے ساتھ جا رہے تھے تو راستے میں ایک اور آدمی بھی آپ ( ص ) اور آپ کے اصحاب کے ساتھ مل گیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس سے فرمایا: تجھے دعوت نہیں ہے ، تم یہیں ٹھہرو میں تمہار آمد کے بارے میں انہیں اطلاع دوں گا اور ان سے تیرے لیے اجازت مانگوں گا۔(۱۱۵)

شہید کے اجر کا آدھا حصہ

ایک آدمی حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:میری ایک بیوی ہے جو جب میں گھر سے نکلتا ہوں مجھے وداع کرنے کےلیے آتی ہے اور جب بھی میں گھر واپس آجاتا ہوں تو میرے استقبال کے لیے آتی ہے اور جب میں مغموم ہو جاتا ہوں تو مجھ سے کہتی ہے:اگر تم مال دنیا کے لیے غمگین ہو تو جان لو خدا اپنے بندوں کے رزق و روزی کاضامن ہے اور اگر تم آخرت کے لیے فکرمند ہو تو میں دعا کرتی ہوں کہ خدا اس غم میں اور اضافہ کر دے تاکہ اسی سبب تم جہنم کی آگ سے محفوظ رہ سکو۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:خدا کے لیے کچھ خاص کام کرنے والے ہیں اور یہ عورت بھی ان میں سے ایک ہےاور اس عورت کو شہید کے اجر کا آدھا حصہ ملے گا۔(۱۱۶)

---------------

(۱۱۵)-بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۲۳۶.

(۱۱۶)-وسائل الشیعہ ، ج ۷ ص ۱۷.

۶۱

نماز

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب بھی نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے تو خوف خدا سے چہرے کا رنگ اڑ جاتا تھااور آپ (ص) کے اندر سے دیگ میں کسی چیز کے ابلنے کی آواز جیسی آواز آتی تھی۔(۱۱۷)

نماز جماعت

ایک دن ایک مسلمان دن بھر کھیتوں کو پانی دینے کی وجہ سے تھک کر آیا او رمعاذ بن جبل کے پیچھے نماز جماعت میں کھڑا ہو گیا۔ معاذ نے سورہ بقرہ پڑھنا شروع کیا اس آدمی کے پاس سورہ بقرہ ختم ہونے تک کھڑا رہنے کی طاقت نہیں تھی، لذا فرادی نماز پڑھ کے ختم کی ۔معاذ نے اس سے کہا تم نے منافقت کی ہماری صف سے الگ ہوگئے! رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو جب اس ماجرا کی خبر ملی تو آپ (ص) کو بہت غصہ آیا کہ اس طرح کا غصہ کبھی آپ کو نہیں آیا تھا، معاذ سے کہا: تم کسی مسلمان کو اسلام سے بیزار کرتے ہو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جماعت کے صفوں میں بیمار، بوڑھے، ناتوان اور کام کرنے والے لوگ بھی آتے ہیں؟!اجتماعی کاموں میں سب سے کمزور فرد کا خیال رکھنا چاہیے، کیوں چھوٹی سورتیں نہیں پڑھتےہو؟!(۱۱۸)

----------------

(۱۱۷)-فلاح السائل ، ص ۱۶۱، بحارالانوار، ج ۸۴، ص ۲۴۸.

(۱۱۸)-صحیح مسلم ، ج ۲، ص ۴۲.

۶۲

نماز شب

عبد اللہ ابن عباس، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی نماز شب کے بارے میں کہتے ہیں:رات کا آدھا حصہ گزر جاتا تھاتو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اٹھتے تھے نیند کے آثار آپ کے چہرہ انور سے مٹ جاتے تھے، سورہ آل عمران کی آخری دس آیتوں کی تلاوت فرماتے تھےاس کے بعد دیوار سے لٹکائے ہوئے مشکیزہ کی طرف جاتے تھےاور اس سے بہترین انداز میں وضو کرتے تھے، اس کے بعد نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے دو رکعت والی چھ نماز یں ادا کرتے تھےاس کے بعد نماز وتر پڑھتے تھے اس کے بعد اپنے بسترے پر تشریف لے جاتے تھے او وہاں آرام فرماتے تھے یہاں تک کہ موذن اذان دینے کے لیے آتا تھا اس وقت وہیں ہلکی سی دو رکعت نماز (صبح کے نفل)پڑھتے تھے اور پھر وہاں سے باہر آکر صبح کی (فریضہ) نماز پڑھتے تھے۔(۱۱۹)

زخم زبان

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے زمانے میں ایک مسلمان عورت دن کو روزہ رکھتی تھی اور راتوں کو نماز او ر باقی عبادتوں میں گزارتی تھی؛ لیکن بد اخلاق تھی اور زبان سے اپنے پڑوسیوں کو دکھ پہنچاتی تھی، ایک آدمی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی تعریف کرنا شروع کی ؛ کہ یہ عورت نماز اور روزہ سے کام رکھتی ہے لیکن اس میں ایک عیب ہے وہ یہ کہ یہ بد اخلاق ہے اور پڑوسیوں کو زبان سے دکھ پہنچاتی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: اس جیسی عورت میں خیر نہیں ہے وہ جہنمی ہے؛ یعنی اگر اسی طرح اس گناہ کو انجام دیتی رہی تو اس کی نماز اور روزوں میں کوئی اثر نہیں رہے گا۔(۱۲۰)

---------------

(۱۱۹)-وسائل الشیعہ، ج ۲ ، ص ۱۷ ۔

(۱۲۰)-بحار الانوار، ج ۷۱ ، ص ۳۹۴ ۔

۶۳

آپ ( ص ) کا وصف

حضرت علی علیہ السلام آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

تم اپنے پاک و پاکیزہ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی پیروی کرو چونکہ ان کی ذات اتباع کرنےوالے کے لیے ڈھارس ہے۔ ان کی پیروی کرنے والا اور ان کے نقش قدم پرچلنے والا ہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے جنہوں نے دنیا کو (صرف ضرورت بھر) چکھا اور اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا وہ دنیا میں سب سے زیادہ شکم تہی میں بر کرنے و الے اور خالی پیٹ رہنے والے تھے۔ ان کے سامنے دنیا کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور (جب) جان لیا کہ اللہ نے ایک چیز کو برا جانا ہے تو آپنے بھی اسے برا ہی جانا اور اللہ نے ان چیز کو حقیر سمجھا ہے تو آپ نے بھی اسے حقیر ہی سمجھا اور اللہ نے ایک چیز کو پست قرار دیا ہے تو آپ نے بھی اسے پست ہی قرار دیا ۔ اگر ہم میں صرف یہی ایک چیز ہو کہ ہم اس شے کو چاہنے لگیں جسے اللہ اور رسول برا سمجھتے ہیں اور اس چیز کو برا سمجھنے لگیں جسے وہ حقیر سمجھتے ہیں تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرتابی کیلئے یہی بہت ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے۔ اپنے ہاتھ سے جوتی ٹانکتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے اور بے پالان کے گدھے پر سوار ہوتے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بٹھا بھی لیتے تھے۔

گھر کا دروازہ پر (ایک دفعہ) ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں۔تو آپ نے اپنے ازواج میں سے ایک کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو۔ جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اوراس کی آرائشیں یاد آجاتی ہیں۔(۱۲۱)

--------------

(۱۲۱)-نہج البلاغہ خ ۱۶۰۔ ترجمہ از مفتی جعفر رہ

۶۴

مومن کا وعدہ

حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)مقام نبوت پر فائز ہونے سے پہلے چرواہا تھے، عمار یاسر نے آنحضرت سے وعدہ کیا کہ کل بھیڑ بکریوں کو فخ نامی میدان میں لے جائیں گے۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی بھیڑ بکریوں کو فخ نامی جگہ پہنچا دیا لیکن عمار دیر سے پہنچا ، عمار کہتا ہے جب میں فخ نامی پہنچ گیا تو دیکھا کہ آپ (ص) اپنی بھیڑ بکریوں کو روک کر رکھے ہوئے ہیں۔

میں نے عرض کیا : کیوں انہیں روکے ہوئے ہیں؟

آپ (ص) نے فرمایا: میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ ہم ساتھ چرائیں گے ؛اسی لیے مناسب نہیں سمجھا کہ تم سے پہلے انہیں چراؤں۔(۱۲۲)

عہد کا وفا کرنا

آپ (ص) کسی آدمی کے ساتھ تھے۔ اس آدمی نے کہیں جانا چاہا۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کسی پتھر کے سایے میں بیٹھ گئے اور اس آدمی سے کہا : تمہارے آنے تک میں یہیں رہوں گا۔ وہ آدمی چلا گیااور ایک مدت ہوئی وہ نہ آیا۔ او رسورج اوپر آگیا اور آپ ( ص ) پر دھوپ پڑنے لگی، اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)!آپ سایے میں تشریف لے چلیں ۔ آپ (ص) نے فرمایا:

قد وعدته الى ههنا

میں نے اسے یہیں رہنے کا وعدہ کیا ہے نہ کسی اور جگہ کا۔(۱۲۳)

---------------

(۱۲۲)-کحل البصر، ص ۱۰۳

(۱۲۳)-بحارالانوار، ج ۷۵، ص ۹۵

۶۵

نماز کا وقت

آنحضرت کے اللہ کے ساتھ رابطے کی شدت اور لوگوں کو خدا کی طرف جذب کرنے کے بارے میں جناب عایشہ روایت کرتی ہے : ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ تھے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے مصروف گفتگو تھے؛ لیکن جونہی نماز کا وقت ہوا آپ (ص) ایسے ہوگئے جیسے ہمیں پہچانتے ہی نہیں۔ اور ہم بھی ان سے واقف ہی نہیں ہیں۔(۱۲۴)

مومنوں کے ساتھ

آپ (ص) کی سیرت یہ تھی کہ جب بھی ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حضور ہوتے تھے اور آخرت کے بارے میں باتیں کرتے تو آپ (ص) بھی ہمارے ساتھ ہو جاتے تھے اور جب بھی ہم دنیا کے بارے میں گفتگو کرتے تھے تب بھی آپ (ص) ہمارے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور اسی طرح جب ہم کھانے پینے سے متعلق باتیں کرتے تھے تب بھی آپ (ص) ہمارے ساتھ ہم صدا ہو جاتے تھے۔(۱۲۵)

-------

(۱۲۴)-اخلاق النبی و آدابہ ، ص ۱۸۷.

(۱۲۵)-بحارالانوار، ج ۱۶، صفحہ ۲۲۳

۶۶

فہرست

عرض مترجم ۳

مقدمہ مولف ۵

جنگ کے آداب ۶

ملاقات کے آداب ۶

کھانا کھانے کے آداب ۷

بیٹھنے کے آداب ۸

پڑوسی کی اذیت ۸

علم سیکھنا ۹

دوسروں کا احترام ۹

بچوں کا احترام ۱۰

ماں باپ کا احترام ۱۰

مومن کا احترام ۱۱

کام کی قدر و قیمت ۱۱

روزگار ۱۱

اصولوں کا پابند ۱۲

سب سے جامع اسوہ حسنہ ۱۳

امتیازی سلوک کے قائل نہ تھے ۱۴

انصاف ۱۴

دوران طفلی ۱۵

بچوں کی اہمیت ۱۵

۶۷

کنجوسی ۱۶

مقروضی ۱۷

گالم گلوچ اور اہانت کے مقابلے میں رواداری ۱۸

مومن کے احترام کو اٹھنا ۱۸

کام کرنے والے کا ہاتھ چومنا ۱۹

دنیا سے بے اعتنائی ۱۹

عورتوں کا اجر ۲۰

مشرکہ ماں سے رابطہ ۲۰

مومن کی نماز کا اجر ۲۱

نماز کی تأثیر ۲۱

تحفہ ۲۲

سیکھنا سکھانا ۲۲

جسمانی سزا ۲۳

دوسروں کی طرف دھیان ۲۳

کام کا ثواب ۲۳

سلام کا جواب ۲۴

جوانان ۲۴

علی کی محبت ۲۵

حسن معاشرت ۲۵

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ۲۶

رابطے کی حفاظت کرنا ۲۷

۶۸

پیدل چلنے والے کا حق ۲۷

فرزند کا حق ۲۷

حلال اور حرام ۲۸

نرم مزاجی ۲۸

حمد ۲۹

غصہ ۲۹

نیند ۲۹

عجب یا خود بینی ۳۰

کھانا ۳۰

امداد خانہ ۳۰

ماں کے پاس ۳۱

ہاتھوں کا بوسہ لینا ۳۱

میزبان کے لیے دعا ۳۱

آبروئے مومن سے دفاع ۳۲

دنیا داری ۳۲

جنگ و جدال سے دوری ۳۲

اہل بیت علیہم السلام سے دوستی ۳۳

مومن کی زیارت ۳۳

حقیقی پاگل ۳۴

ذکر اور دعا ۳۴

چلنا ۳۵

۶۹

جانوروں کے ساتھ مہربانی ۳۵

لوگوں کی رعایت ۳۵

دوسروں کے حقوق کی رعایت ۳۶

لوگوں سے برتاؤ ۳۶

مشکلات کو رفع کرنا ۳۷

روزہ ۳۷

ریاکاری ۳۷

گناہوں کا مٹ جانا ۳۸

سادہ زندگی ۳۹

علم و دانش کی ابتداء ۳۹

سلام ۴۰

بچوں کو سلا کرنا ۴۰

تین حکمتیں ۴۰

سماجی تعلقات ۴۱

صلہ رحمی ۴۱

نوازش (ممتا) ۴۲

عالم بے عمل ۴۲

خوشبو لگانا ۴۳

بیویوں کے ساتھ مہربانی ۴۳

بخشش ۴۴

عفو اور در گزر ۴۴

۷۰

حرام غذا ۴۵

بچوں کو کھانا کھلانا ۴۶

معاملہ میں ملاوٹ ۴۶

غیبت ۴۷

شہید کے فرزند ۴۸

سجدہ کی فضیلت ۴۸

فضیلت اور قابلیت ۴۹

زحمت قبول کرنا ۴۹

قدر شناسی ۵۰

قرآن کی تلاوت ۵۰

کام کاج ۵۱

شجرکاری ۵۱

عزت اور وقار ۵۲

کمائی ۵۳

حدود الہی کا اجرا ۵۴

ماں ۵۵

شعبان کا مہینہ ۵۵

رمضان کا مہینہ ۵۶

شب قدر ۵۶

ہجڑا یا خواجہ سراء ۵۷

رواداری ۵۷

۷۱

مسجد ۵۸

یہودی کا مسلمان ہونا ۵۹

مشاورت ۵۹

طالب علم کا مقام ۶۰

بچوں سے مہربانی ۶۰

غیر اعلانیہ یا بن بلائے مہمان ۶۱

شہید کے اجر کا آدھا حصہ ۶۱

نماز ۶۲

نماز جماعت ۶۲

نماز شب ۶۳

زخم زبان ۶۳

آپ ( ص ) کا وصف ۶۴

مومن کا وعدہ ۶۵

عہد کا وفا کرنا ۶۵

نماز کا وقت ۶۶

مومنوں کے ساتھ ۶۶

۷۲